اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
حضرت جی! جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ الحمد للہ! سن لیا ہے اور کوشش کر رہا ہوں کہ جملہ بیانات لائیو سننے کا معمول چل رہا ہے۔ حضرت جی! دعا فرمائیں کہ اللہ پاک میری اصلاح فرمائیں اور مجھے قبول فرمائیں۔ (آمین) حضرت جی! نفس قابو میں نہیں ہے، اس کو مغلوب کرنے کے لئے کوئی مجاہدہ تعلیم فرما دیجئے۔
جواب:
ایک تو ماشاء اللہ! آپ نے جو فرمایا کہ آپ کا جملہ بیانات لائیو سننے کا معمول ہے، اللہ تعالیٰ اس کو قائم رکھے اور اس سے مستفید فرمائے۔ یہ ایک اچھی عادت ہے کہ اگر کوئی خود یہاں نہیں آسکتا، تو اس کے پاس یہ ذریعہ موجود ہے کہ وہ وہیں پر لائیو سن لے۔ کم از کم علمی لحاظ سے محروم نہیں رہیں گے، اگرچہ خانقاہ کی اپنے برکات ہیں، وہ تو خانقاہ آنے سے ہی مل سکتی ہیں، لیکن اس کے جو علمی فوائد ہیں، وہ تو کہیں سے بھی سننے سے مل سکتے ہیں، تو کم از کم علمی باتوں کا فائدہ ان کو ہوجاتا ہے۔ باقی جہاں تک دوسرا سوال ہے کہ نفس قابو میں نہیں ہے، اس کو مغلوب کرنے کے لئے کوئی مجاہدہ تعلیم فرما دیجئے۔ کہتے ہیں سمندر کو کوزے میں بند کرنا، علمی لحاظ سے یہ بات اور ہے اور عملی لحاظ سے اور ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ سارا نفس کا ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں نفس ہی کے بارے میں فرمایا:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ1: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہو گا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
لہٰذا اگر کسی ایک سادہ مجاہدہ سے یہ کام ہوسکتا تھا تو پھر تو بڑی آسان بات تھی۔ انسان کو فرار نہیں ڈھونڈنا چاہئے۔ کوئی آدمی ٹی بی میں مبتلا ہو (اللہ تعالیٰ ہر ایک کو بچائے، تو) تقریباً نو مہینے کا کورس ہوتا ہے، وہ کرنا پڑتا ہے اور ہر روز دوائی کھانی پڑتی ہے اور اس میں ناغہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اب اگر کوئی ڈاکٹر کے پاس آیا اور رونا شروع کر دیا کہ بس مجھے کوئی ایسی دوائی دے دیں کہ میں ایک ہفتہ میں ٹھیک ہوجاؤں۔ ڈاکٹر کیا کہے گا؟ ظاہر ہے یہ مستقل چیز ہے، پوری محنت ہے۔ تو جس کو ہم تصوف کہتے ہیں یہ نفس ہی کی تربیت کا نام ہے۔ لہٰذا یہ باتیں theoretical ہیں، یہ practical نہیں ہیں، اس کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، سب سے پہلے دل بنانا پڑتا ہے، جذب حاصل کرنا ہوتا ہے، پھر اس کے بعد وہ سلوک طے کرنا پڑتا ہے، سلوک کے پھر مختلف parameters ہیں، ان کو سیٹ کرنا ہوتا ہے۔ بہرحال بزرگ فرماتے ہیں کہ لگے رہو لگے رہو، لگ جائے گی۔ اگر میں یہ کہوں کہ اس طرح آن کی آن میں ہونا ممکن نہیں ہے، الا ماشاء اللہ! تو اس طریقے سے مایوس ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ہو بھی جاتا ہے، بلکہ آسانی سے بھی بعض دفعہ ہوجاتا ہے، لیکن اس کے لئے ایک طرف تو بہت زیادہ انسان کو determination چاہئے ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ persistent کام کرنا ہوتا ہے یعنی مسلسل کام کرنا اور اس سے غافل نہ ہونا ہے۔ جو dieting کرتے ہیں، وہ درمیان میں اگر تھوڑا سا rest کر لیں تو پھر ہوجاتی ہے؟ اس لئے اس کے لئے پھر مسلسل وہ کرنی پڑتی ہے، تب وہ سلسلہ چلتا ہے۔ لہٰذا ہر چیز کی اپنی اپنی حیثیت ہے۔ تو جو نفس قابو میں نہیں ہے، تو یہ بات تو صحیح ہے، کیونکہ نفس امّارہ ہی ہوتا ہے، وہ قابو میں نہیں ہوتا، لیکن اس کو قابو میں کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لئے ہمت بھی کرنی پڑتی ہے اور صبر بھی کرنا پڑتا ہے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم۔ میرے محترم مرشد! دامت برکاتھم امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے، ان شاء اللہ۔ حضرت جی! آپ کی توجہ اور دعاؤں سے الحمد للہ! میرے قرآن کا ترجمہ اور مطالعہ دن بدن پختہ ہوتا جا رہا ہے، لیکن میری تجوید کمزور ہے اور اکثر قرآن کی تلاوت رہ جاتی ہے۔ میں اب ہمت سے ان شاء اللہ! اس کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کروں گا۔ حضرت جی! آپ سے دعا کی درخواست کی جاتی ہے کہ میں اس کام میں کامیاب ہوجاؤں۔
جواب:
اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب فرمائے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، ’’حَقْ‘‘ اور ’’اَللہ‘‘ 100، 100 مرتبہ ایک مہینہ کے لئے تھا۔ اللہ کے فضل سے اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوگیا ہے۔ میرے لئے کیا حکم ہے؟
جواب:
اب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 200 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 200 مرتبہ اور’’اَللہ‘‘ 100 مرتبہ کر لیں۔ یہ بھی ایک مہینہ کے لئے کریں۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم۔ حضرت جی! آپ کی آج خواب میں زیارت ہوئی، آپ مجھ سے ڈانٹنے والے انداز میں پوچھ رہے تھے کہ آپ آداب کا خیال رکھ رہے ہیں؟ یعنی جو آداب آپ نے مجھے بتائے ہیں، ان کے بارے میں پوچھا کہ کیا ان کا خیال رکھ رہے ہو۔ اس کے ساتھ ہی آنکھ کھل گئی۔ اب پریشان ہوں کہ اس میں کون سی کوتاہی کی طرف تنبیہ کی گئی ہے۔
جواب:
اصل میں آپ چونکہ اپنی جگہ پر واپس پہنچ گئے ہیں اور وہاں پر جتنے مسائل ہوسکتے ہیں، وہ آپ کو پتا ہے۔ گویا کہ اب آپ کو alert رہنا پڑے گا۔ اور جو چیز آپ نے خانقاہ سے سیکھی ہے اور خانقاہ سے حاصل کی ہے، اس کو maintain رکھنا ہوگا، تاکہ آپ کو نقصان نہ ہو۔ کیونکہ آپ اس وقت دوبارہ field میں چلے گئے ہیں، اب ظاہر ہے کہ field میں تمام چیزوں کو بھولنا نہیں ہے۔ یہ اسی طرف اشارہ ہے۔
سوال نمبر 5:
شاہ صاحب!
I am فلاں from Islamabad. I called you today and asked for any ذکر for the remedy of anger. I get hyper even on minor things. Please remember me in your prayers.
جواب:
دراصل غصہ ایک فطری چیز ہے۔ اس لئے یہ ہوسکتا ہے، کیونکہ غصہ آتا بھی ہے، لیکن اس کا صحیح اور غلط جاننا چاہئے کہ کون سا غصہ صحیح ہے اور کون سا غصہ غلط ہے؟ اس کے لئے علم کی ضرورت ہے۔ لہٰذا آپ اس کا علم حاصل کر لیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے اگر یہ غلط ہو۔ اور اگر صحیح بھی ہو تو اتنا کرنا پڑتا ہے جتنا allowed ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ لہٰذا ایک تو اس کا علم حاصل کر لیں، دوسرا اس پر کنٹرول کرنا ہوگا۔ کنٹرول کرنے کے دو طریقے ہیں، ایک Long run ہے یعنی مستقل اور دوسرا Short run ہے یعنی عارضی۔ Long run میں پورا سلوک طے کرنا ہوتا ہے، کیونکہ جس وقت پورا سلوک طے نہیں ہوتا، تو کوئی نہ کوئی چیز ایسی رہ چکی ہوتی ہے، جس سے پھر دوبارہ اس طرح مسئلہ ہوجاتا ہے۔ لیکن عارضی طور پر بھی یہ بہت اہم ہے یعنی جب تک سلوک طے نہ ہو، تو عمل تو کرنا ہوتا ہے، کیونکہ غصہ کے غلط استعمال سے بعض دفعہ بڑے شدید نقصانات ہوسکتے ہیں۔ اس کے لئے پھر یہ بات ہے کہ مثلاً سب سے پہلے اگر چھوٹا ہے یعنی جس پر غصہ ہے، تو اس کو اپنے پاس سے ہٹائیں۔ اور اگر وہ بڑا ہے، تو پھر خود ادھر سے ہٹ جائیں، تاکہ کوئی فوری حرکت نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ اپنا ذرا style change کریں یعنی اگر کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں، پانی پی لیں، اپنے آپ کو کسی اور مباح امر میں مشغول کر لیں، کسی اور طرف متوجہ ہوجائیں۔ یہ اصل میں غصے کا جو peak ہے، اس کو absorb کرنے کی کوشش ہے، یعنی اس کو نکالیں نہیں، بس اس وقت کی favor حاصل کر لیں۔ مباح اس کام کو کہتے ہیں جو جائز ہو یعنی اس پر ثواب تو نہ ہو، لیکن جائز ہو۔
سوال نمبر 6:
حضرت جی! میرے میاں صاحب کی جاب ختم ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے ہم بہت پریشان ہیں۔ کچھ پڑھنے کو بتا دیں۔
جواب:
دراصل گُر تو میں آپ کو بتا چکا ہوں، لیکن پتا نہیں آپ کو شاید کسی اور طرح سے بتانے کی ضرورت ہوگی۔ تہجد کے بعد آپ لوگ اللہ پاک سے مانگا کریں اور خود مانگا کریں۔ یہ اس کے اوپر وعدہ ہے۔ کیونکہ وہ اعلان کرواتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اس کو دوں، ہے کوئی پریشان حال، اس کی پریشانی دور کر لوں۔ اور یہ آپ اور آپ کے میاں دونوں کو کرنا پڑے گا، کیونکہ بعض دفعہ آدمی کسی چیز پر پکڑ میں آجاتا ہے، تو جب تک وہ خود توبہ نہیں کرتا، خود وہ نہیں مانگتا، تو اس وقت تک دوسرے کے مانگنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے آپ کے میاں کو بھی کرنا پڑے گا اور آپ کو خود بھی کرنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ کوئی راستہ بنا دے۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم۔ رات کو میں نے آپ کو خواب میں دیکھا کہ آپ ایک مسجد میں کھڑے ہیں، میں آپ کے پاس جاتا ہوں، آپ سے ہاتھ ملاتا ہوں، اور ایسا محسوس کر رہا ہوں کہ آپ مجھے جانتے ہیں، لیکن اس کے باوجود آپ پوچھتے ہیں کہ کون ہو؟ تو میں کہتا ہوں، فلاں ہوں، پھر آپ پوچھتے ہیں کہ تم قادیانی ہو یا مسلمان؟ میں جواب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں۔ پھر آپ جلال میں آکر میرا ہاتھ پکڑ کے بیٹھ جاتے ہیں اور میں بھی بیٹھ جاتا ہوں اور آپ کے مبارک ہاتھوں پر بیعت ہوجاتی ہے۔ یاد رہے کہ میں نے پہلے بھی بیعت کی ہے، لیکن غافل رہا ہوں۔ ابھی میں ذکر شروع کرنا چاہتا ہوں۔ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اصل میں یہ سلسلے کی طرف سے تنبیہ ہے، اگرچہ آپ نے سلسلے سے بیوفائی کی ہے، لیکن سلسلہ بہت مہربان ہے۔ لہٰذا سلسلے نے آپ کو یاد دلایا ہے کہ تم کہاں ہو، اور بڑی تنبیہ سے یاد دلایا کہ قادیانی ہو یا مسلمان۔ تو یہ بہت بڑی تنبیہ ہے یعنی یہ بیوفائی ہے۔ کیونکہ قادیانی بیوفا ہیں، تو گویا کہ بیوفائی کا طعنہ دیا جا رہا ہے کہ تم بیوفا ہو۔ اس وجہ سے انسان کو سنبھلنا چاہئے۔ بہرحال یہ غصہ تو ہے، لیکن نرمی بھی ہے، کیونکہ بیعت ہوجاتی ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ دور نہیں کیا، بلکہ قریب کرنے کے لئے غصہ کیا ہے۔ اس وجہ سے اب آپ ذکر شروع کر لیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ آپ نے تین سو اور دو سو والا ذکر مکمل کیا تھا یا نہیں؟ اگر وہ تین سو اور دو سو والا ذکر مکمل کیا تھا، تو پھر نیا ذکر دے دوں گا اور اگر وہ مکمل نہیں کیا تو پہلے اس کو مکمل کریں۔ ’’سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ للهِ وَلَآ إِلٰهَ إلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘ تین سو دفعہ اور ’’وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ دو سو دفعہ۔ اس کو چالیس دن تک بلاناغہ (کوئی ناغہ درمیان میں نہ ہو) کوئی ایک وقت مقرر کر کے کر لیں۔ ان شاء اللہ! اس کے بعد پھر مزید ذکر دے دیں گے، اگر ناغہ نہ ہو تو۔ اور ہر نماز کے بعد 33 دفعہ سبحان اللہ، 33 دفعہ الحمد للہ، 34 دفعہ اللہ اکبر، تین دفعہ کلمہ طیبہ، تین دفعہ درود ابراہیمی، تین دفعہ استغفار اور ایک مرتبہ آیت الکرسی اس کو باقاعدگی کے ساتھ ہر نماز کے بعد کر لیا کریں اور یہ چالیس دن والا وظیفہ مکمل کر کے مجھے اطلاع کردیں۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم۔ حضرت جی!
If you give me permission, should I give you a weekly report of my معمولات? Because of poor reporting and not coming in خانقاہ I am legging much behind day by day in my daily معمولات. Regards.
جواب:
Yes you can do ان شاء اللہ it will help.
سوال نمبر 9:
السلام علیکم۔ حضرت! میں فلاں ہوں۔ حضرت آپ نے مجھے دس منٹ مراقبۂ قلب اور دس منٹ مراقبۂ روح کا دیا تھا۔ وہ میرا جاری ہے۔ دل پر تو ’’اَللّٰہ‘‘ ’’اَللّٰہ‘ محسوس ہوتا ہے، لیکن روح پر کبھی ہلکا سا محسوس اور کبھی دل کی طرف محسوس ہوتا ہے اور کبھی بالکل خاموشی ہوتی ہے۔
جواب:
اب آپ یوں کریں کہ دس منٹ تو دل کا کریں اور پندرہ منٹ لطیفۂ روح کا کریں۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم۔ حضرت! گزارش ہے کہ صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق آپ نے ارشاد فرمانی تھی۔
جواب:
حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیقات تو بہت ساری ہیں۔ اب پتا نہیں آپ کون سی تحقیق کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، کیونکہ دن درمیان میں کافی نکل گئے ہیں۔ لیکن ایک دفعہ میں نے یہ عرض کی تھی، اور غالباً اس کے بعد تفسیر بھی بیان کی تھی کہ حضرت نے یہ فرمایا تھا کہ پہلے دور میں یعنی پچاس، ساٹھ سال پہلے اللہ جل شانہٗ کی صفت ھادی کا ظہور ہو رہا تھا، تو جو گمراہ لوگ تھے یعنی عیسائی، یہودی اور ہندو، ان میں بھی خیر کی صلاحیتیں موجود تھیں، وہ بھی اگرچہ اپنے مذہب پر ہوتے تھے، لیکن خیر کی طرف مائل ہوتے تھے، اچھے کاموں کی طرف مائل ہوتے تھے۔ اگرچہ ان کا فائدہ ان کو صرف دنیا میں ملتا تھا۔ لیکن اب صفت مضل کا ظہور ہو رہا ہے۔ لہٰذا جو اچھی جگہیں ہیں، جہاں سے خیر کی توقع ہونی چاہئے تھی، وہاں سے بھی گمراہی آرہی ہے۔ یہ حضرت نے تحقیق فرمائی تھی اور فرمایا تھا کہ اس کے لئے ’’یَاھَادِیُ یَا نُوْرُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ کی کثرت کرنی چاہئے۔ خدا کی شان کہ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں بالکل ابتدا میں یہ وظیفہ دیا تھا اور حضرت نے فرمایا تھا کہ اگر کبھی آپ کو سینما گھروں کے پاس سے گزرنا پڑے یا کوئی ناچنے کا ماحول ہو، محفل ہو یا کوئی اور گمراہی کا اڈا ہو، جس کے پاس سے گزرنا پڑ جائے، تو وہاں ’’یَاھَادِیُ یَا نُوْرُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ پڑھ کے گزرنا چاہئے، کیونکہ ایسا نہ ہو کہ ان کے شیاطین کچھ آپ کو بھی چمٹ جائیں، پھر آپ کو نقصان ہو۔ تو یہ دونوں باتیں ایک ہوگئیں یعنی حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی بات بھی ہوگئی اور صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات بھی ہوگئی۔ اب باقاعدہ الحمد للہ! ہم اس پر کوشش کر رہے ہیں، ساتھیوں کو میں نے بتایا بھی ہے، بعض منتخب ساتھیوں کو باقاعدہ ’’یَاھَادِیُ‘‘ کا ایک چلہ خصوصی طریقے سے میں نے بتایا تھا، پھر ’’یَا نُوْرُ‘‘ کا چلہ ایک خاص طریقے سے بتایا ہے، پھر ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ کا۔ تاکہ فضا کے اندر جو ظلمت ہے، وہ نور میں بدل جائے اور کم از کم جو کر رہا ہوگا، وہ اس سے محفوظ ہوجائے گا۔ تو یہ ہم شروع کر رہے ہیں، الحمد للہ! بہت ساری چیزیں اللہ پاک سامنے لا رہے ہیں، ان کو ہم ان شاء اللہ! استعمال کریں گے۔ آپ بھی اپنے ساتھیوں پر محنت کر لیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔ دراصل یہ کوئی شیخ تھے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں خواب بہت کم دیکھتی ہوں اور نہ ہی زیادہ یقین رکھتی ہوں۔ کبھی ایسے دیکھتی ہوں کہ دل کرتا ہے کہ آپ کو بیان کروں۔ اب میں نے خواب میں کچھ ریگستانی علاقہ دیکھا ہے کہ میں کچھ عربی لوگوں کے ساتھ بیٹھی ہوں، پیچھے دیکھتی ہوں کہ مجھے حضرت لوط علیہ السلام نظر آتے ہیں، وہ کسی بات کے دوران مسکرا رہے ہوتے ہیں۔ پھر ہم سب نماز باجماعت کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔
جواب:
پیغمبروں کو خواب میں دیکھنا بڑا مبارک ہے۔ حضرت کی جو خصوصی فکر تھی یعنی جن چیزوں سے بچانے کی حضرت کو بہت فکر تھی، تو وہ چیزیں آج کل بہت زیادہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی برکت سے ہمیں ان تمام بلاؤں سے محفوظ فرمائے اور اللہ جل شانہٗ ہمیں نیکی اور راست بازی کا راستہ دکھائے۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ کل آپ محترم کے ایک مرید سے میری بات چیت ہوئی، تو وہ اپنی اصلاح سے بہت نا امید تھا، خاص کر مراقبہ سے۔ میں نے ان سے کہا کہ میرا تو سال سے اوپر ہوگیا ہے، مگر اصلاح نہیں ہو رہی۔ ہمیشہ چاہئے کہ مراقبہ کرنے میں ناغہ نہ کریں، الحمد للہ! آج پورا بیان اس پر تھا، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دل میں کوئی سوال یا بات ہوتی ہے، تو آپ یا تو بیان میں اس کی وضاحت کردیتے ہیں یا پھر سوالات و جوابات والی محفل میں۔
اسی طرح آپ سے اپنے شقی قلب کی بات کی تھی کہ دعا میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری مسلمان تک سب کو شامل کرتی ہوں، مگر ساتھ ہی دل میں یہ بات بھی آتی ہے کہ سوائے ایک رشتہ دار خاتون کے آپ سے اپنا عیب بیان کرنے ہیں، دوسرے دن جب دعا کی تو ایسا کوئی خیال نہیں آیا۔ الحمد للہ! حالانکہ مجھے پتا ہے کہ میری کیا اوقات ہے اور میری کیا دعا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہی مجھ پر رحم فرمائے۔
جواب:
بہرحال سلسلے کی برکات ہیں اور یہ جو آپ نے بتایا تھا، یہ بہت ضروری ہے یعنی اعمال میں، معمولات میں ناغہ نہیں کرنا چاہئے۔ بعض دفعہ بعض تبدیلیاں بہت لیٹ آتی ہیں، اور لیٹ کیوں نہ آئیں! میں اس پر ذرا تھوڑا سا تبصرہ کروں گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے، جب ان کو کوئی وظیفہ لمبا بتایا جائے یا کچھ مجاہدہ لمبا بتایا جائے، تو وہ اپنے اعذار پیش کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ ہے۔ تو اپنے بتانے پر آدمی پشیمان ہوجاتا ہے کہ میں نے کیوں بتایا؟ میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ گزشتہ دور میں، بلکہ قریب ہی دور کی بات ہے، ہم نے بھی حضرت قاضی صدر الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کی ہے۔ وہ اپنی خانقاہ سراجیہ میں تشریف لے گئے تھے اور سخت بیمار ہوئے، ڈاکٹروں نے کہا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی ضرورت ہے، تو ان کو اپنے شیخ نے بھی کہا کہ آپ کو یہاں سے جانا چاہئے، آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے، کیونکہ صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے، لیکن وہ حضرت رو پڑے کہ مجھے آپ خانقاہ سے نہ نکالیں۔ تو پھر حضرت نے رہنے کی اجازت دے دی۔ ڈیڑھ سال کے بعد پھر جب ان کی تکمیل ہوئی، تو حضرت نے فرمایا کہ اب اپنے علاقہ میں محنت کرو اور ان کو زبردستی بھیجا۔ تو ڈیڑھ سال کا میں نے کہا تھا کہ اگر ہم لوگ اس کو اپنے لئے ماڈل بنا لیں، تو ڈیڑھ سال مسلسل رہنا، اور اس میں اٹھارہ مہینے بنتے ہیں، اٹھارہ مہینے میں 52 اور 26 ہفتے بن جاتے ہیں، جو تقریباً 78 ہفتے بنتے ہیں۔ اور بارہ گھنٹے کا ہم ایک ہفتہ میں جوڑ رکھتے ہیں، اگر 78 کو دو سے ضرب دے دو تو تقریباً ایک سو ساٹھ ہفتے یعنی تقریباً تین سال بن جاتے ہیں۔ یعنی اگر آپ اس طرح دیکھیں تو اتنا بن جاتا ہے۔ اب دیکھیں! ہم صرف بارہ گھنٹے ہفتے کے مانگتے ہیں، لیکن اس میں بھی لوگ نہیں آتے۔ اور اگر آتے ہیں، تو بس مغرب کے بعد بیان سن کے چلے جاتے ہیں، تو اب خاک فائدہ ہوگا؟ یہ گپ شپ تو نہیں ہے، اس کے لئے تو باقاعدہ dedication ہوتی ہے، اگرچہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی بہت ہے، لیکن ہماری طرف سے سستی اور اعذار ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ اگر ٹانگ ٹوٹتی ہے تو اس پر بھی ان کا بازار جانا نہیں رکتا، اپنے بچوں کے سکول کا مسئلہ بھی نہیں ہونا چاہئے، یہ بھی نہیں ہونا چاہئے، وہ بھی نہیں ہونا چاہئے، اگر ہونا چاہئے تو مراقبہ خراب ہونا چاہئے، ذکر و اذکار پر اثر ہونا چاہئے یعنی بس سارا زور اسی پر آنا چاہئے، لیکن باقی ساری چیزیں ہم میں ہیں، بس اسی چیز سے آرام ہے۔ تو پھر نتیجہ کیا ہوگا! نتیجہ یہی ہوگا جو نظر آرہا ہے۔ دراصل لوگوں میں طلب ہونی چاہے۔ جیسے اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔
چنانچہ طلب اور جد وجہد پہلے ہے، پھر اس کے بعد راستے کھلتے ہیں۔ اور پھر جب کام نہیں ہوتا تو پھر ہم گلے کرتے ہیں کہ یہ کام نہیں ہو رہا، یہ کام نہیں ہو رہا۔ ایک دفعہ ایک نقشبندی بزرگ سے کسی نے کہا کہ میرا جو لطیفۂ قلب ہے وہ جاری نہیں ہو رہا، انہوں نے کہا: کیا کہا؟ اس نے کہا: میرا لطیفۂ قلب جاری نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کیا کہتے ہو! ہم بارہ سال تک عشاء کے بعد کنڈلی مار کر فجر تک بیٹھ جاتے، تب جا کے یہ چیز چل پڑی ہے اور تم آج دو دن میں جاری کرنا چاہتے ہو! لہٰذا یہ مسئلہ ہے کہ لوگوں نے بڑی محنتیں کی ہیں۔ اور یہ چیزیں محنت سے ملا کرتی ہیں، یہ گپ شپ کی چیزیں نہیں ہیں۔ لوگ ذرا تھوڑا سا کر لیں تو کہتے ہیں کہ یہ ہوگیا، وہ ہوگیا۔ صحیح بات ہے ہم تو ڈر کے مارے بتاتے ہی نہیں، کیونکہ بتاتے ہیں تو مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اللہ ان کو دیتا ہے جن کو طلب ہوتی ہے، انہی کو ملتا ہے۔ انسان محروم نہیں ہوتا، لیکن اپنے آپ کو محروم کرتا ہے۔ بس میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ مسلسل اس میں محنت چاہئے ہوتی ہے۔ Medical grounds پر جو ہم باتیں کرتے ہیں، وہ سب کو سمجھ میں آتی ہیں، لیکن یہ سمجھ نہیں آتی، وہاں مسلسل علاج کرنا سمجھ میں آتا ہے، بلکہ ڈاکٹر جواب دیتے ہیں کہ بابا! جاؤ، معاف کرو، اب ہمارے پاس اس کا علاج نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں خدا کے لئے کچھ کرو۔ یعنی اس وقت بھی ہم نہیں چھوڑتے، جب ڈاکٹر لاجواب ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہاں تو کوئی بھی لاجواب نہیں ہوتا، یہاں تو ہر ایک کو راستہ بتایا جاتا ہے، لیکن یہاں تھوڑا سی کوئی مشکل آجائے تو کہتے ہیں کہ بس جی نہیں ہوتا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر سیڑھی کے بیس steps ہیں تو آپ اٹھارہ پر پہنچ کر ناامید ہوجاتے ہیں اور واپس آجاتے ہیں۔ تو بعض دفعہ ایسی صورتحال بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا ناامیدی تو بالکل نہیں ہونی چاہئے، البتہ محنت مستقل جاری رہے، آپ کا محنت سے کوئی نقصان ہوتا ہی نہیں، بلکہ وہ تو آپ کے اکاؤنٹ میں چل رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں نوٹ کیا جا رہا ہے۔ بلکہ میں تو قسم سے کہتا ہوں کہ دین کے لئے کوئی کام کرتا ہو، وہ محروم ہوتا ہی نہیں ہے، بشرطیکہ اس کی نیت اللہ کے لئے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک حافظ ہے، اس نے حفظ شروع کیا، بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھی اور فوت ہوگیا، تو اللہ تعالیٰ اس کو حافظوں میں اٹھائیں گے۔ تو یہاں بھی معاملہ ایسا ہی ہے کہ آپ کی ہر چیز ریکارڈ ہو رہی ہے، آپ کی ہر چیز آپ کے فائدے میں جا رہی ہے۔ اور دنیا کی چیز، مثلاً کوئی میڈیکل کالج میں ہو، آخری viva دے دے اور کامیاب ہوجائے، اور پھر فوت ہوجائے، تو اس کو میڈیکل کالج سے کیا فائدہ ہوا؟ کچھ بھی نہیں ہوا، بس تکلیف ہی اٹھائی، خرچ ہی کیا، لیکن کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا، جبکہ یہاں پر کوئی محروم نہیں ہوتا۔ لیکن اب کیا کریں کہ ہم لوگوں کے ساتھ شیطان کھیل رہا ہے۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم۔ حضرت جی! امید کرتی ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ میں پوچھنا چاہ رہی تھی کہ میری کس سلسلے میں مناسبت ہے یا اس بات پر دھیان نہیں دینا چاہئے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ میں جو علم کا ذکر ہے کہ وہ لطیفۂ روح پر آرہا ہے، تو وہ کس طرح محسوس کیا جائے؟
جواب:
پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ آپ کو شیخ سے مناسبت ہونی چاہئے۔ شیخ سے آپ کو مناسبت ہوجائے، پھر وہ اپنے وقت پر خود ہی دیکھ لے گا کہ آپ کو کس چیز سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے؟ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ جو خواتین ہیں، ان کو نقشبندی سلسلہ سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے، کیونکہ ان کا مزاج اس کے ساتھ tally کرتا ہے، وہ ہر چیز چھپا ہی چھپا ہے یعنی سری ہے۔ لہٰذا ہم ان کو مراقبات وغیرہ دیتے ہیں۔ یہ جو ذکر میں نے دیا ہے، یہ کس چیز کا دیا ہے؟ ظاہر ہے، یہ اسی کا ہے۔ لہٰذا اگر شیخ کے ساتھ مناسبت ہے، تو پھر یہ شیخ کو دیکھنا چاہئے کہ آپ کو کس سلسلے میں مناسبت ہے، یہ آپ کو ضرورت نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے سوال کیا کہ مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ میں جو علم کا ذکر ہے کہ وہ لطیفۂ روح پر آرہا ہے، تو یہ کس طرح محسوس کیا جائے؟ تو میں عرض کر رہا ہوں کہ تین دور ہوتے ہیں، ان میں سے تیسرا دور آپ کر رہی ہیں۔ پہلا دور لطائف کا تھا یعنی لطیفۂ قلب کا جاری کرنا، پھر لطیفۂ روح کا، پھر لطیفۂ سِر کا۔ ذکر کے ذریعے سے یہ دور تھا، جو پورا ہو گیا۔ اس کے بعد پھر مراقبۂ احدیت تھا، اس میں صرف فیض کا اجرا تھا یعنی فیض کا تصور کہ قلب پر فیض آرہا ہے، لطیفۂ روح پر فیض آرہا ہے، لطیفۂ سِر پر فیض آرہا ہے، لطیفہ خفی پر آرہا ہے اور لطیفۂ اخفیٰ پر آرہا ہے یعنی باری باری یہ آپ کو کرایا گیا ہے۔ اور فیض کی جو روٹین ہے وہ بھی بتا دی کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے آپ ﷺ کے قلب اطہر پر، آپ ﷺ کے قلب اطہر سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے قلب پر، اور پھر شیخ کے قلب سے روح پر، شیخ کے قلب سے آپ کے سر پر یعنی اسی طریقے سے باری باری آپ کو یہ فیض کا محسوس کرنا کرایا گیا تھا۔ اس کے بعد مشارب ہیں۔ مشارب سے مراد یہ ہے کہ ’’فَعَالُ لِّمَا یُرِیْدُ‘‘ یعنی سب کچھ اللہ کرتا ہے۔ یہ ہمارا ایمان ہے، عقیدہ ہے، لیکن اس کو دل سے محسوس کرنا کہ سب کچھ اللہ کرتا ہے، اسی میں مستغرق ہونا کہ اللہ پاک سب کچھ کر رہے ہیں، اس کا فیض آرہا ہے۔ دوسری بات، صفاتِ ثبوتیہ، اللہ پاک کی وہ خاص صفات جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں، یہ آٹھ صفات ہیں، ان کا جو فیض ہے، وہ اسی طریقے سے آپ کے لطیفۂ روح پر آرہا ہے، جیسے مراقبۂ احدیت میں تھا۔ تو یہ آپ نے اسی طرح محسوس کرنا ہے۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم۔ حضرت جی! امی اور بہن کا وظیفہ قرآن پاک کی تلاوت کے دوران یہ تصور کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے باتیں کر رہا ہے، پورا ہوگیا ہے۔ اس تصور سے قرآن پاک کی عظمت دل میں بڑھ رہی ہے اور بہت فائدہ ہو رہا ہے۔
جواب:
اس کو ایک مہینہ اور کروا دیں۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! سلوک طے کرنے میں عقل کا کتنا کام ہے؟ یعنی اگر کوئی کم عقل ہے، تو کیا اس کو سلوک طے کرنے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے یا سلوک طے کرنے میں کم عقل اور ذہین ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟
جواب:
بڑا اچھا سوال ہے۔ ماشاء اللہ! حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر ’’الطاف القدس‘‘ میں کلام فرمایا ہے کہ اللہ پاک نے مزاجیں بنائی ہیں، بعض لوگوں کی عقل بہت زبردست ہوتی ہے، تیز ہوتی ہے، زیادہ ہوتی ہے، لیکن ان کا جو نفس ہے، وہ کام نہیں کرسکتا، اس میں کمزوری ہوتی ہے اور دل والا مسئلہ کمزور ہوتا ہے، یعنی محبت کے جذبات سے عاری ہوتا ہے، محنت و مشقت سے گھبراتا ہے۔ یعنی یہ والی چیزیں ہوتی ہیں کہ عقلمند بہت ہے، لیکن یہ چیزیں کم ہیں۔ اور کسی میں عقل کم ہوتی ہے، جیسے مزدور ٹائپ لوگ ہوتے ہیں کہ ان میں مشقت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے اور محبت کا عنصر بھی ہوسکتا ہے، لیکن عقل والی بات بعض دفعہ کم ہوتی ہے۔ اور اس طریقے سے جو بعض شاعر قسم لوگ ہوتے ہیں، ان میں دل والی باتیں زیادہ ہوتی ہیں، محبت کا عنصر اور یہ چیزیں زیادہ ہوتی ہیں، لیکن ممکن ہے کہ عقل ان کی اتنی زیادہ کام نہ کر رہی ہو۔ تو یہ مختلف مزاجیں اللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں اور اللہ جل شانہٗ بے انصاف نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ساتھ اس کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرہ: 286)
ترجمہ: ’’اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا‘‘۔
لہٰذا جو جیسا ہے، اللہ کو پتا ہے اور ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے وہ جتنا ہوسکتا ہے، وہ بھی اللہ کو پتا ہے۔ اب آپ اپنی سستی کی وجہ سے ایسے نہ ہوں، تو وہ بھی اللہ کو پتا ہے۔ اب بتاؤ! کوئی مسئلہ رہ گیا؟ آپ جیسے ہو اللہ کو پتا ہے، آپ جیسے ہوسکتے ہو، وہ بھی اللہ کو پتا ہے اور جیسے ہیں وہ بھی اللہ کو پتا ہے۔ ہاں! شیخ کو ان چیزوں کو دیکھنا چاہئے، اگر کسی میں عقل والی باتیں کم ہوں، تو ان سے وہ کام نہ لے، بلکہ ان سے مشقت والی دوسری چیزیں وہ زیادہ لے لے۔ اگر وہ نہ ہوں، تو پھر جو محبت کے ساتھ باتیں ہیں، وہ لے لے۔ الغرض جس کے اندر جو facility زیادہ developed ہے، اس کو زیادہ استعمال کیا جائے اور باقی کو اس حد تک لے جایا جائے، جس حد تک وہ جاسکتی ہے۔ بس یہ والی بات ہے۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم۔
My Zikr of one month has been completed. My Zikr was
200 times ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘
200 times ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘
200 times ’’اَللہ اَللہ‘‘
500 times ’’حَقْ‘‘
پانچ، پانچ منٹ مراقبۂ اللہ پانچوں لطائف پر۔ اور آپ نے فرمایا تھا کہ قرآن مجید پڑھتے ہوئے یہ تصور کرنا ہے کہ اللہ پاک مجھ سے ہم کلام ہیں۔ اس طرح پڑھتے ہوئے بہت تلفظ اور ادائیگی کا دھیان ہوتا ہے اور آرام کے ساتھ پڑھتا ہوں، یہ بات بھی ذہن میں ہے کہ سمجھ تو آتی نہیں کہ اس کا ترجمہ کیا ہے جو میں پڑھ رہا ہوں، اس صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
اس کو دو حصوں میں تقسیم کریں۔ پہلے آپ اس طرح کر لیں کہ قرآن پاک کے ایک رکوع کا ترجمہ بار بار پڑھ لیں، اتنا پڑھ لیں کہ وہ آپ کے لئے مادری زبان کی طرح ہوجائے یعنی آپ کو اس کا concept بالکل clear ہو، پھر آپ قرآن پاک کی وہ تلاوت کریں۔ اس طریقے سے پھر آپ کو زیادہ فائدہ ہوگا۔ لہٰذا اس طریقے سے ان شاء اللہ! شروع کر لیں، اور ایک مہینہ کر لیں۔
سوال نمبر 17:
ایک شیخ ہیں۔ انہوں نے وٹس ایپ کیا کہ حضرت! کسی جادوگر یا کسی گمراہ کن شخص کو سلب کرنے کا طریقہ بتا دیں، جو کھلے عام پیری کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرتا ہو اور عورتوں کے ساتھ زنا وغیرہ کرتا ہو، یا کوئی جادوگر ہو جو لوگوں کے مال و جان کو نقصان پہنچاتا ہو۔ ان سب کی شیطانی طاقت کو سلب کرنے کا طریقہ بتا دیں کہ ان پر توجہ کیسے ڈالیں کہ ان کی قوت سلب ہوجائے۔
جواب:
میں نے جواب دیا کہ یہ تصرف ہے اور تصرف کی صلاحیت ہر ایک میں نہیں ہوتی اور مجھ میں بھی نہیں ہے۔ البتہ دعا کرتا ہوں، کیونکہ اس میں جتنا زور لگانا ہوتا ہے، وہ الحاح وزاری میں لگانا چاہئے۔ اس میں جب اللہ تعالیٰ چاہیں اپنی طرف سے مدد فرما لیتے ہیں اور وہ کام ہوجاتا ہے۔ لوگوں کو وہ تصرف محسوس ہوتا ہے، حالانکہ وہ تو دعا ہی ہے۔ ہمارے ہاں یہی ہے اور یہ اقرب بالسنۃ ہے۔ باقی میں خطرات ہیں، اس لئے ہمارے ہاں توجہ کو قلبی دعا کہتے ہیں۔ میں نے پھر ان کو اپنی یہ غزل سنائی۔
جو توجہ ہے بس اک قلبی دعا ہوتی ہے
جو کسی کے لئے کسی کی اک آہ ہوتی ہے
جو پھنسا ہو کسی حال میں اس سے نکالنے کے لئے
کسی محسن کی دل کے لب سے ادا ہوتی ہے
اک تو یہ ہے کہ لوٹ پوٹ اسی کو کردے
تشریح:
اکثر لوگ توجہ اس کو کہتے ہیں کہ بس لوٹ پوٹ کردے۔ پتا نہیں کہ لوگوں کو لوٹ پوٹ ہونے میں کیا مزہ آتا ہے؟ اصل کام تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔
یہ توجہ اس توجہ سے جدا ہوتی ہے
یہ توجہ کہاں مانگے سے ملا کرتی ہے
یہ توجہ اک تعلق سے پیدا ہوتی ہے
تشریح:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر شابیک رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ بتایا تھا کہ شابیک رحمۃ اللہ علیہ بہت ہی خدمت گار مرید تھے۔ اور ان کا شیخ فاقہ کش تھے۔ جہاں ان کو بیان کے لئے جانا ہوتا تھا، تو شابیک رحمۃ اللہ علیہ ان سے پہلے سے commitment کر لیتے کہ حضرت کی ایک بیوی بھی ہے اور ایک بچہ بھی ہے، اس لئے کھانا صرف ہمیں نہیں کھلانا، بلکہ ان کے لئے بھی دینا ہوگا۔ یہ پہلے سے حضرت کو بتائے بغیر کہہ دیتے تھے۔ تو یہ حضرت کو پیر دبا کر سلا دیتے اور پھر کھانا وہاں سے لے کر دوڑتے ہوئے پیرانی صاحبہ کو دے کے آجاتے، تاکہ حضرت کی آنکھ کھلنے سے پہلے پہلے میں واپس پہنچ چکا ہوں۔ تو یہ ان کا معمول تھا یعنی ایسے خادم تھے۔ خیر ایک دن کسی بات پر حضرت ان سے ناراض ہوئے اور ان کو خانقاہ سے سے نکال دیا۔ تو یہ وہاں سے نکل گئے، لیکن ادھر ادھر ہی رہے کہ کہیں اگر میری ضرورت پڑ جائے اور وہ مجھے بلائیں، تو میں موجود رہوں، تو وہ ادھر قریب ہی رہے۔ ایک دن بارش ہو رہی تھی اور بارش کی وجہ سے گھر کچا ہونے کی وجہ سے ٹپک پڑا۔ حضرت کی بیوی نے کہا کہ ایک ہی کام کا مرید تھا، لیکن وہ بھی آپ نے نکال دیا۔ اگر وہ ہوتے تو ابھی مٹی کا لیپ وغیرہ کر کے اس جگہ کو ٹھیک کر لیتے، اب دیکھو! ہمارا کیا حال ہے۔ حضرت نے فرمایا: میں نے نکالا ہے، تو نے تو نہیں نکالا۔ گویا کہ اجازت مل گئی، تو پیرانی صاحبہ نے ان کو اطلاع کروا دی کہ اس طرح چھت کو ٹھیک کر لو۔ تو وہ سامنے آنے کے بجائے پیچھے سے چڑھ گئے، چونکہ چھوٹے چھوٹے گھر ہوں گے، تو پیچھے سے چڑھ گئے۔ اور وہ کاروائی شروع کر لی۔ جب چک چک کی آواز آئی، تو حضرت اس وقت کھانا کھا رہے تھے، اور نوالہ ہاتھ میں تھا کہ باہر آئے، پوچھا کون؟ تو دیکھا کہ شابیک ہے، اس وقت ان کے دل میں ان کے لئے بڑے اچھے جذبات آئے، ان سے کہا آؤ شابیق! کھا لو۔ وہ تو موقع کے انتظار میں تھے، ادھر سے ہی چھلانگ لگائی اور وہ نوالہ کھا لیا، اسی میں سارا کچھ مل گیا۔ اب اس نوالے میں سب کچھ تھا، لیکن یہ نوالہ کتنے عرصہ میں بنا تھا؟ تو یہ توجہ ایک تعلق سے پیدا ہوتی ہے، اس طرح نہیں ہوتا کہ بس چلتے چلتے آپ کہہ دیں کہ حضرت! توجہ فرمایئے اور کام ہوجائے گا۔ بلکہ وہ کرنا بھی چاہتے ہوں تو بھی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا اس میں انسان کو کافی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ میں نے پہلے بھی بات کی کہ لوگ محنت کرتے نہیں اور نتائج کے منتظر رہتے ہیں۔
یہ توجہ ایک تعلق سے پیدا ہوتی ہے
اس کو بازار کی دنیا میں نہیں لانا شبیرؔ
تشریح:
باقاعدہ آج کل یہ چیز ہے، باقاعدہ اس کے سیشن ہوتے ہیں، لوگ پیسے لیتے ہیں۔ تو اس کو بازار کی دنیا میں نہیں لانا چاہئے۔
اس کو بازار کی دنیا میں نہیں لانا شبیرؔ
یہ تو بس عشق کی میداں کی ندا ہوتی ہے
جو توجہ ہے بس اک قلبی دعا ہوتی ہے
اس کے بعد انہوں نے مجھے لکھا کہ توجہ ڈالنے کی اجازت اور طریقہ کار بتائیں۔
میں نے جواب دیا کہ اس کلام میں بتایا گیا ہے یعنی طریقہ تو بتایا گیا ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ جتنا آپ کسی کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں گے، اتنی ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے توجہ ہوگی۔ کام تو اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے، بس دعا کی بات ہے۔ اللہ پاک نے اس کا حکم دیا ہے، اس لئے اس میں کسی اور کی اجازت کی کیا ضرورت ہے؟ بہرحال یہ باتیں جب ہوگئیں، تو پھر انہوں نے مجھے ایک وٹس ایپ بھیجا، جس پر لکھا ہے، مرید پر توجہ ڈالنے کا طریقہ۔ ارشادِ طریقہ، شیخ العالم، قبلۃ العلماء و صلحاء، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، مرشد تمام باتوں سے خالی ہوکر اپنے نفس ناطقہ کی طرف سے اس نسبت میں جس کا القا مرید پر منظور و متوجہ ہو اور توجۂ قلبی بھی مرید کی طرف مائل کردے کہ میری کیفیت و جذب مرید میں اثر کر رہی ہے، یہ خیال کرے، ان شاء اللہ! حسبِ استطاعت نور اور برکتیں حاصل ہوں گی اور لطیفۂ قلب کے جاری کرنے کے بعد ہر لطیفے پر توجہ کرے۔ اس طرح انوار و مراقبات و لطائف کے القا میں توجہ کرے اور اگر مرید سامنے موجود نہ ہو، تو اس کی صورت کا تصور کر لے، تو غائبانہ طور پر اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔
جب یہ آیا تو میں نے اس کا جواب دیا کہ حضرت! یہ سارا کچھ ٹھیک ہے، ہمارے اکابر یہ کرتے رہے ہیں، لیکن حالات جب مختلف ہوجاتے ہیں، تو طریقۂ کار بھی بدل جاتا ہے۔ آج کل کے اس نفسانی خواہشات کے دور میں لوگ چاہتے ہیں کہ ہم کچھ نہ کریں، پیر ہی ہمارے لئے سب کرے۔ اس لئے یہ چیز حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ (جو اس صدی کے مجدد ہیں) نے عام طور پر ترک کردی۔ البتہ خاص طور پر کوئی سالک بہت کوشش کر رہا ہو اور کسی چیز میں پھنس گیا ہو، تو اس کو نکالنے کے لئے استعمال کر لیتے تھے۔ اور ہم بھی کچھ ایسا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔ اب حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی بات حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے زیادہ سمجھی ہوگی یا ہم زیادہ سمجھ سکتے ہیں؟ چونکہ وہ براہ راست خلیفہ تھے۔ پھر اس کے بعد انہوں نے مجھے اپنا ایک خواب سنایا۔ خواب میں ماشاء اللہ! بڑے اچھے حالات اور یہ ساری چیزیں بتائیں۔ تو میں نے کہا کہ کیا آپ اذکار کر رہے ہیں؟ جو میں نے دیئے تھے۔ کہنے لگے کہ جی حضرت! آپ ایسے کیوں پوچھ رہے ہیں؟ میں نے کہا: کیوں مجھے نہیں پوچھنا چاہئے؟ اس نے کہا کرتا ہوں۔ میں نے کہا اس کو کتنا عرصہ ہوا؟ انہوں نے کہا کہ شاید ایک مہینہ ہوگیا ہے۔ یہ اصل میں میسج تھا کہ مجھے یہ چیزیں بتانی چاہئیں، مجھے خواب نہیں بتانے چاہئیں۔ یعنی بجائے اس کے کہ آپ مجھے خواب سنائیں، بلکہ مجھے کیا سنانا چاہئے! مجھے اپنے حالات، احوال سنانے چاہئیں، اسی سے آپ کا فائدہ ہوگا۔ میں نے کہا کہ ذکر میں کیا کیفیت ہوتی ہے؟ اس کو لکھ دیجئے۔ ان شاء اللہ! کچھ عرض کروں گا، اب دیر ہوگئی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کچھ تفصیلات بتائیں، تو اس میں بھی بڑی بڑی باتیں تھیں۔ تو میں نے کہا بھائی! ہمارے شیخ تو فرماتے ہیں کہ ایسی چیزیں راستے کے کھیل تماشے ہوتے ہیں۔ جو بھی کشف اپنے بارے میں ہو، اس میں خود پر بدگمانی اپنی حفاظت ہے اور دوسروں کے بارے میں ہو تو اس میں نیک گمان میں اپنی حفاظت ہے۔ یہ طریقہ خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک ملفوظ سے مستفاد ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی خواہش پر حضرت کو نصیحت فرمائی کہ ہم یہاں مٹنے کے لئے آئے ہیں، جتنا اپنے آپ کو مٹا سکیں، تو اتنا ٹھیک ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جی! ہم تو چاہتے ہیں کہ مٹ جائیں، بس صحیح معنوں میں انسان بن جائیں۔ میں نے کہا کہ اللہ کرے کہ ہم اپنے اوپر صرف اپنے عیوب منکشف ہونے کے لئے نظر کریں۔ آپ کو اپنی جتنی خوبیاں نظر آئیں، اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوا؟ آپ کو صرف ایک عیب نظر آگیا، تو اس سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا کہ آپ اس کو ٹھیک کر لیں گے۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں، مثلاً میں جب بیمار ہوتا ہوں، تو بیماری کہیں پر ہوتی ہے، مثال کے طور پر کسی کی آنکھ میں تکلیف ہے، تو کیا وہ ڈاکٹر کو یہ بتاتا ہے کہ میری دوسری آنکھ ٹھیک ہے، میرے سارے دانت ٹھیک ہیں، میرا دماغ ٹھیک ہے، میرا دل ٹھیک ہے، میرے ہاتھ پیر ٹھیک ہیں۔ کیا یہ بتاتے ہیں ڈاکٹر صاحب کو؟ نہیں۔ اسی طرح اگر وہ ڈاکٹر صاحب اس کو ساری چیزیں بتائے کہ آپ کا یہ ٹھیک ہے، یہ ٹھیک ہے۔ تو کیا وہ سنے گا؟ نہیں۔ کیونکہ وہ یہ سننا چاہتا ہے کہ میری آنکھ ٹھیک نہیں ہے، وہ ٹھیک کرو، بس یہی بات ہے۔ تو یہ ہماری اس چیز میں کیوں نہیں ہے؟ میں تو یہ کہتے کہتے تھک گیا ہوں کہ مجھے اپنی خوبیاں نہ سناؤ، مجھے اپنی بزرگیاں نہ سناؤ، میں آپ کا پہلے سے معتقد ہوں کہ آپ بزرگ ہیں، لیکن اپنی اصلاح کر لو، اصلاح ضروری ہے، بزرگی تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ اللہ کرے کہ ہم صرف اپنے عیوب اپنے اوپر منکشف ہونے کے لئے نظر کریں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ نے بشارت دی تھی، لیکن آپ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد وہ اپنے اوپر نفاق کا گمان کر رہے تھے۔ تو یہ ہے ہمارا حال۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ چونکہ درمیان میں چیزیں ہوئی تھیں، لیکن اس میں باقی لوگوں کے لئے بھی فائدہ تھا، لہٰذا میں نے اسی وجہ سے یہ ساری چیزیں بیان کردی ہیں۔
سوال نمبر 18:
حضرت! ایک ضروری سوال عرض کرنا تھا کہ جب میں مدرسہ میں داخل ہوا، تو ایک ساتھی نے مجھے کہا کہ آپ کو اب اگر پیسوں کی ضرورت ہوئی اور آپ نے مجھے نہیں بتایا تو آپ کی خیر نہیں۔ اس وجہ سے میں نے کافی بار ان سے لئے بھی ہیں اور وہ قرض سے نہیں دیتے۔ لیکن اب مجھے خیال آرہا ہے کہ اگر میں ان سے پیسے لوں، تو کیا اس سلسلے کے تعلق کو دنیا کے لئے استعمال کرنا ہوگا یا نہیں؟ میں اس تشویش میں مبتلا ہوں۔ رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
بتا دوں گا۔ ان شاء اللہ!
سوال نمبر 19:
اکثر ہم یہ بات سنتے ہیں کہ معاشرے کے پریشر کی وجہ سے یہ کام میں نے نہیں کیا یا یہ کام میں نے معاشرے کے پریشر کی وجہ سے کیا ہے۔ تو یہ جو معاشرتی پریشر ہے، یہ کس طرح develop ہوتا ہے؟
جواب:
سوال یہ ہے کہ معاشرے کا پریشر کس طرح develop ہوتا ہے؟ سیلاب کا پانی کیسے آیا، یہ انجینئر کی ذمہ داری نہیں ہے، لیکن اس کے سامنے بند باندھنا یہ اس کی ذمہ داری ہے۔ تو کیا خیال ہے، مشائخ کو یہ سوچنا چاہئے کہ معاشرے کا پریشر کیسے آیا، کیسے develop ہوا؟ ان کو کیا کرنا چاہئے؟ لیکن ان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ معاشرے کا پریشر ہے کیا، اور اس کے مطابق تدابیر بھی کرنی چاہئیں۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ معاشرے کا پریشر ہوتا ہے، لیکن وہ ہوتا اس لئے ہے کہ لوگوں کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ کم ہوتا ہے اور لوگوں کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے، لوگوں سے اثر زیادہ لیتے ہیں، کیونکہ اردگرد تو سارے لوگ ہی ہوتے ہیں، تو ان کو جو چیزیں پسند ہوتی ہیں، وہ بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں اور علیحدہ رہنا مشکل ہوتا ہے۔ مثلاً فیشن کیا چیز ہے؟ فیشن یہی چیز ہے کہ ایک وبا چل پڑتی ہے اور پھر باقی لوگ بھی اس میں متأثر ہوجاتے ہیں اور وہ بھی اس طرح کرتے ہیں۔ حالانکہ بعض دفعہ اس میں اتنی فضول چیزیں ہوتی ہیں کہ اس کی کوئی logic نہیں ہوتی۔ جیسے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایسے ہوا کہ ایک صاحب کسی کے ہاں مہمان ہوا، تو انہوں نے دیکھا کہ بڑے بڑے تین ڈنڈے کھانے کے ساتھ رکھ لئے، انہوں نے کھانا کھایا، تو ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ کہتے یہ ہمارا دستور ہے کہ ہم اس کو کھانے کے ساتھ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا اس دستور کی وجہ کیا ہے؟ کہتے ہمیں نہیں معلوم۔ انہوں نے کہا اچھا! ٹھیک ہے۔ چلو جو آپ کے بڑے بوڑھے ہیں، ان سے میری بات کروا دیں۔ انہوں نے بات کروا دی۔ جب ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو ہمارے بھی وقت میں ہوتا تھا، لیکن اتنے بڑے بڑے نہیں ہوتے تھے، بس انگلی انگلی جتنے ہوتے تھے یعنی یہ سوٹی اتنی زیادہ بڑی نہیں تھی۔ پھر مزید تحقیق سے پتا چلا کہ وہ اصل میں touth picks رکھے جاتے تھے، لیکن وہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑے ہوتے گئے اور اخیر میں انہوں نے ڈنڈے رکھ لئے۔ اب دیکھیں! اس کے اندر کوئی logic تو تھی نہیں، لیکن معاشرے کے پریشر میں logic کو نہیں دیکھا جاتا۔
سوال نمبر 20:
حضرت جی! جس طرح آپ نے غصے والے question کے answer میں فرمایا کہ غصے کے بارے میں علم حاصل کریں۔ تو وہ کیسے حاصل کریں؟
جواب:
غصے کے بارے میں علم اصل میں فرض عین درجہ کے علم میں آتا ہے۔ اس میں یہ آتا ہے کہ جیسے اخلاق ہیں اور معاشرت ہے، اس میں یہ تمام چیزیں آجاتی ہیں کہ مثلا آپ غصے ہیں اور جن بنے ہوئے ہیں۔ یعنی بچے نے غلطی کی ہے اور آپ اس کو سمجھا رہے ہیں، تو اول تو بچے کی عمر کو دیکھیں کہ وہ اس عمر میں ہے کہ جو میرے غصے سے میسج لے سکتا ہو جو میں دینا چاہتا ہوں۔ پہلے تو یہ دیکھنا ہے، پھر یہ دیکھنا ہے کہ میں اس کو اگر مارتا ہوں اور مارنا اس کے لئے geniune بھی ہے، تو مجھے کتنا مارنا چاہئے یعنی اتنا مارنا چاہئے کہ اس کو ہمیشہ کے لئے نقصان ہو یا اتنا کہ اس کو صرف تکلیف ہو اور اس کو پتا چل جائے؟ بس یہی علم ہے یعنی ان تمام چیزوں کا علم اس کو حاصل کرنا چاہئے کہ غصہ اگر آئے تو اس کو کیسے استعمال کیا جائے۔
سوال نمبر 21:
چغلی اور غیبت میں کیا فرق ہے؟
جواب:
غیبت میں یہ ہوتا ہے کہ آپ اس کے پیٹھ پیچھے باتیں کرتے ہیں، اگرچہ اس میں موجود ہوں، لیکن آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں کریں، اس کو غیبت کہتے ہیں۔ چغلی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے ایک کی بات لے لی اور دوسرے کو پہنچا دی یعنی جو ان کے دشمن ہیں یا جن کی بھی ان کے ساتھ لڑائی ہے یا مخالفت ہے۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ آپ مثلاً ایک کی بات لے کر دوسرے تک پہنچا دیں اور دوسرے لوگ اس سے باخبر ہوجائیں۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ عام بات نہیں ہوتی، بلکہ وہ خاص بات ہوتی ہے۔ یعنی خاص لوگوں کو پہنچائی جاتی ہے۔ غیبت میں تو آدمی کھلم کھلا عام بات کرتے ہیں، لیکن چغلی میں کسی خاص شخص کو پہنچائی جاتی ہے۔
سوال نمبر 22:
یہ عقل فہیم کسے کہتے ہیں؟
جواب:
عقل کا مطلب تو آپ جانتے ہی ہیں، فہیم فہم سے ہے یعنی سمجھدار، گویا فہیم سمجھدار ہوتا ہے یعنی یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ عقل جو واقعی سمجھ رکھتی ہو، کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے:
’’مَنْ يُّرِدِ اللهُ بِهٖ خَيْرًا يُّفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ‘‘۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث: 71)
ترجمہ: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرمانا چاہتا ہے، تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے‘‘۔
لہٰذا جس کو دین کی سمجھ ہو، تو وہ عقل فہیم والا ہے۔
سوال نمبر 23:
گناہوں سے بچنے کا آسان طریقہ کیا ہے تاکہ گناہ سے بچا جائے۔
جواب:
گناہ سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ صحبت صالحین اختیار کی جائے اور ذکر کی کثرت کرے اور موت کو زیادہ سے زیادہ یاد رکھے۔
سوال نمبر 24:
قلبِ سلیم کسے کہتے ہیں؟
جواب:
قلبِ سلیم یہ ہوتا ہے کہ انسان کے دل کے جذبات درست ہوجائیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت ہوجائے، دنیا کی محبت نکل جائے اور یہ حرص اور کینہ اور حسد یعنی ان تمام چیزوں سے پاک ہوجائے۔ یہ قلب سلیم ہوتا ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
۔ نوٹ: تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔