سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 392

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم۔ سوال سے پہلے میں اپنی normal کیفیت بیان کردوں۔ یہ میرا دماغ کہہ لیں یا دل کہہ لیں کہ اس میں ہر وقت کچھ نہ کچھ خیالات کا ہجوم رہتا ہے یا کوئی بات چلتی رہتی ہے، مثلاً اگر میں کوئی نعت سن رہا ہوں، تو کافی دیر تک دماغ میں اس کے مصرعے چلتے رہتے ہیں، دماغ میں ایک کے بعد دوسرا خیال آرہا ہوتا ہے، جو بھی بات آرہی ہوتی ہے تو اس میں میرا اختیار بھی کبھی کبھی نہیں ہوتا۔ پھر زبردستی کبھی کبھی ان خیالات کو یا اس نعت کو میں روکتا ہوں، ایک تو یہ بنیادی کیفیت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مراقبے کے دوران میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اپنے دل کی طرف توجہ رکھوں اور وہاں پر زیادہ تر مجھے silence محسوس ہوتا ہے یا میں خود سے silence تلاش کرتا ہوں، کیونکہ دماغ میں بہت سارے خیالات چل رہے ہوتے ہیں یا دل میں بہت سارے خیالات آرہے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی جیسے ’’اَللہ اَللہ‘‘ محسوس ہوتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے دل سے ’’اَللہ اَللہ‘‘ نہیں ہو رہا، بلکہ میں خود سے خفی ذکر کر رہا ہوں یعنی زبردستی، پھر میں ’’اَللہ اَللہ‘‘ کو روک دیتا ہوں۔ کبھی کبھی سانس کے ساتھ اندر اور باہر لیتے ہوئے محسوس ہوتا ہے اور پھر دل کی طرف دوبارہ توجہ کرتا ہوں تو وہاں silence محسوس ہوتا ہے۔ یا میں silence خود سے تلاش کرتا ہوں تو یہ میرے خیال سے کیفیتیں ہیں۔ کبھی کبھی جاگتے ہوئے یا چلتے پھرتے دل کی طرف توجہ کروں تو ’’اَللہ اَللہ‘‘ محسوس ہوتا ہے، جیسے آج صبح میں نے محسوس کیا کہ دل میں ’’اَللہ اَللہ‘‘ کی بہت ہی کمزور سی آواز آرہی ہے یا کچھ ہو رہا ہے، لیکن یہ مستقل نہیں ہے، اور وہ نہ ہی بہت clear ہوتا ہے، بلکہ بہت ہی موہوم سی آواز میں دل ’’اَللہ اَللہ‘‘ کر رہا ہوتا ہے۔ اس وقت جبکہ میں آپ کو بتا رہا ہوں تو دل میں ’’اَللہ اَللہ‘‘ بھی محسوس ہو رہا ہے، لیکن پتا نہیں کہ یہ آپ سے بات کرنے کی وجہ سے خود بخود ہو رہا ہے یا پھر میرے دماغ میں چونکہ یہ بات ہے اس لئے یا پھر ویسے ہی ہو رہا ہے۔ لیکن personally میں سمجھتا ہوں کہ ابھی اتنی جلدی میری یہ کیفیت نہیں ہوسکتی کیونکہ میں تو ابھی کافی Initial stage پر ہوں اور میرے اعمال بھی اتنے اچھے نہیں ہیں۔ I think مجھے ابھی اور محنت کی ضرورت ہے۔ باقی آپ جو مناسب سمجھیں، وہ آگے بتا دیں۔ شکریہ۔

جواب:

ڈاکٹر صاحب! ماشاء اللہ! آپ صحیح چل رہے ہیں اور اس میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ آپ خود ڈاکٹر ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ جو infant ہوتا ہے تو وہ پہلے ہاتھ پیر بے مقصد مار رہا ہوتا ہے، اس کو اس کے اوپر کنٹرول نہیں ہوتا، کسی چیز کو پکڑ بھی نہیں سکتا، کسی چیز کو چھو بھی نہیں سکتا، نہ اس کو اس کا احساس ہوتا ہے، لیکن وہ اس طرح کر رہا ہوتا ہے، تو پھر اسی میں ہی آہستہ آہستہ کسی وقت کنٹرول آنا شروع ہوجاتا ہے، پہلے تھوڑا ہوتا ہے، پھر آہستہ آہستہ بڑھنے لگتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اور بڑھنے لگتا ہے، پھر ماشاء اللہ! باقاعدہ response کرتا ہے اور اس کی grip مضبوط ہوجاتی ہے، جس چیز کو پکڑنا چاہتا ہے، ارادے سے پکڑ لیتا ہے، تو یہ ایک سفر ہے جو ہر سالک کو کرنا ہوتا ہے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ کسی کا یہ سفر مختصر ہوتا ہے اور کسی کا ذرا لمبا ہوجاتا ہے۔ اور وہ اس پر depend کرتا ہے کہ وہ انسان کتنا ذہنی طور پر یکسو یا ذہنی طور پر منتشر ہے۔ آج کل کے حالات میں واقعتاً جس کو مراقبہ کہتے ہیں، یہ کافی مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذہنی انتشار کی چیزیں بہت ہیں، جس کو آپ کہتے ہیں کہ میرے دل میں خیالات آتے ہیں یا اس قسم کی جو دوسری چیزیں ہوتی ہیں، یہ اس وقت بہت زیادہ اس لئے ہیں کہ ہمارا پورا involvement ان چیزوں میں ہے۔ environment میں یہ ساری چیزیں بھری ہوئی ہیں۔ لہٰذا ہم لوگوں کو اس سے یکسو ہونا چاہئے اگرچہ اس میں بہت مشکل تو آئے گی۔ اسی وجہ سے اس وقت کے جو مشائخ ہیں ان کو مراقبہ یا خفی ذکر کے اجرا کے لئے کافی اور کام بھی کرنے ہوتے ہیں، مثال کے طور پر کچھ حضرات شعر و شاعری سے کام لیتے ہیں، کچھ حضرات توجہ سے کام لیتے ہیں اور ہمارے ہاں ذکرِ جہری سے یہ کام لیا جاتا ہے۔ ذکرِ جہری میں یکسوئی خود بخود آجاتی ہے کیونکہ ذکرِ جہری ایسی چیز ہے کہ جس میں یکسوئی حاصل ہوجاتی ہے۔ جیسے پنکھے کا شور ہوتا ہے کہ پنکھے کے شور کے ساتھ لوگ عادی ہوتے ہیں اور باہر کے شور سے وہ منقطع ہوتے ہیں، جس وقت بجلی چلی جاتی ہے اور پنکھا بند ہوجاتا ہے تو پھر پتا چلتا ہے کہ باہر کتنا شور تھا اور یہ اس کے ساتھ disconnect ہو چکے ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ ایک بات ہوتی ہے کہ جو چیز پہلے سے موجود ہو اور اس کے ساتھ allign ہو چکے ہوں تو وہ ہمیں شور محسوس نہیں ہوتا، حالانکہ وہ شور ہی ہوتا ہے لیکن وہ شور محسوس نہیں ہوتا اور وہ باقی شوروں کے لئے آڑ بن جاتا ہے۔ اسی طریقے سے جو ذکرِ جہری ہے، اس کے اندر جو ضرب و جہر ہے یہ ماشاء اللہ! آڑ بن جاتا ہے اور یکسوئی provide کرتا ہے۔ اس وجہ سے ہمارا الحمد للہ! تجربہ یہ ہے کہ آج کل ذکرِ جہری کے ساتھ بہت آسانی کے سے یکسوئی آجاتی ہے اور مراقبات کی طرف اس کو آسانی کے ساتھ convert کیا جاتا ہے۔ اس میں میرے پاس ایک عجیب experience ہے اور وہ یہ ہے کہ خواتین کو ہم چونکہ پہلے سے ہی نقشبندی اذکار دیتے رہے ہیں، لیکن اب خواتین میں بھی آج کل environment کی وجہ سے (بعض خواتین بھی) مردوں کی طرح ذہنی طور پر انتشار کا شکار ہوتی ہیں، حالانکہ خواتین کو یکسوئی By default ہے یعنی ان کو پہلے سے ہوتی ہے، لیکن آج کل کاموں کی نوعیت بعض خواتین کی ایسی ہوتی ہے کہ وہ بھی ذہنی طور پر اس طرح منتشر ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے کم از کم مجھے جو اندازہ لگ رہا ہے وہ یہی ہے، کیونکہ تین خواتین ایسی تھیں جن پر میرے سارے طریقے فیل ہوگئے تھے۔ کیونکہ میں خواتین کو ذکرِ جہری نہیں دیتا اور ان کے لئے میں اس چیز کو recommend نہیں کرتا، تو جب میرے سارے طریقے فیل ہوگئے تو پھر میں نے مجبوراً ذکرِ جہری ان کو دیا اور کنٹرول کنڈیشن میں دیا، کنٹرول کنڈیشن سے مراد یہ ہے کہ ان کو کہا کہ آپ نے اپنے کمرے میں تنہا رہ کر ذکرِ جہری کرنا ہے تاکہ آپ کی آواز باہر نہ آنے پائے، بس اس طریقے سے کرنا ہے۔ اور ان کو کہا کہ ہر ہفتے مجھے رپورٹ کر لیا کریں تاکہ اگر کوئی خدانخواستہ extra چیز آرہی ہو تو اس کے بارے میں معلوم ہوسکے۔ بہرحال پھر اللہ کا شکر ہے کہ ان کا دل تین مہینے میں جاری ہوگیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا ذکرِ جہری کے ساتھ کچھ Close link ہے، اور اس کے ساتھ بڑا اچھا combination بن سکتا ہے۔ اس وجہ سے میں نے آپ کو جو ذکرِ جہری دیا ہے وہ اسی مقصد کے لئے دیا ہے، تو ان شاء اللہ العزیز! آہستہ آہستہ یہ یکسوئی آتی جائے گی اور آپ ماشاء اللہ! بڑھتے جائیں گے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ پاک نے یہ چیزیں بہت زیادہ عطا فرمائی تھیں، وہ ذکر کے ماشاء اللہ بہت زیادہ expert تھے۔ حضرت نے مجھے ایک دفعہ فرمایا کہ (چونکہ مجھے فرماتے تھے کہ تیری نسبت نقشبندی ہے، اس لئے میرے ساتھ کچھ اس قسم کی deal کرتے تھے، تو حضرت نے فرمایا کہ) قلبی ذکر اگر جاری بھی ہو تو بھی لسانی ساتھ کرنا چاہئے، کیونکہ کچھ پتا نہیں ہوتا کہ یہ بعض دفعہ بند ہو چکا ہوتا ہے اور پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ بند ہو چکا ہے۔ اور اس میں عجیب بات یہ ہے کہ جس وقت آپ اس کی طرف دیکھیں گے تو وہ ہو رہا ہوگا یعنی اس اثر کی وجہ سے، (جیسے آپ خود بھی کہہ رہے ہیں کہ پتا نہیں آپ کے ساتھ بات کرتے ہوئے ایسا ہو رہا ہے، تو) بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے۔ مثلاً آپ تھوڑا سا اس کے اوپر سوچیں کہ ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا، تو اس وقت وہ ہو رہا ہوتا ہے، لیکن پھر بعد میں بند ہو چکا ہوتا ہے اور آپ کو اس کا پتا بھی نہیں ہوتا۔ حضرت فرماتے تھے کہ ’’ذکرِ لسانی بتوجہ قلب‘‘ یہ آج کل بہت مفید ہے، کیونکہ کم از کم ایک عضو تو ذکر کر ہی رہا ہوگا، اس لئے محرومی تو نہیں ہوگی۔ اس وجہ سے ہم بھی اس طرح کرتے ہیں۔ لہٰذا آپ بھی ماشاء اللہ! اس طرح کریں، اور ذکرِ جہری تو آپ کا چل ہی رہا ہے، اس پر کوشش کریں تو ان شاء اللہ! اس میں نکھار آتا جائے گا، گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ راستے کی چیزیں ہیں۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا ذکر ہے 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 400 مرتبہ ’’اِلَّا اَللہُ‘‘، 600 مرتبہ ’’اَللہُ اَللہ‘‘، اور 1500 مرتبہ زبان سے ’’اَللہ‘‘ اور 10 منٹ یہ تصور کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں۔ یہ ذکر، مراقبہ 17 اکتوبر سے جاری ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! بڑی اچھی بات ہے۔ اب آپ اس طرح کریں کہ 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 400 مرتبہ ’’اِلَّا اَللہُ‘‘، 600 مرتبہ ’’اَللہ اَللہ‘‘ اور 2000 مرتبہ ’’اَللہ‘‘ زبان سے۔ یہ بات آپ لوگوں نے سن لی ہوگی کہ ہمارے شیخ کا تجربہ ہے، الحمد للہ! کہ جو ذکر و اذکار وہ دیا کرتے تھے، یعنی جہری ذکر تو اس کے بعد جو اسم ذات کا ذکر لسانی طور پر ہے، اس پر حضرت کافی recommend کرتے تھے، بلکہ چوبیس ہزار تک لے جاتے تھے، اس سے پھر وہ تمام فوائد حاصل ہوجاتے ہیں جو نقشبندی اذکار سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے میں جب دیکھتا ہوں کہ کسی کو نقشبندی اذکار کے ساتھ مناسبت نہیں ہے، تو پھر اس track پر ان کو کر لیتا ہوں۔ تو یہ ایک دوسرا track ہے، جس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا آپ محسوس نہ کریں کہ کہیں مجھے زیادہ دے رہے ہیں، اس لئے میں نے آپ کو بتا دیا۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم۔ حضرت جی! ہمیں اپنی تمام پریشانیوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا چاہئے اور تہجد کا وقت اس کے لئے سب سے بہتر ہے، پر اللہ تعالیٰ سے جس طرح اور جس کیفیت کے ساتھ مانگنا چاہئے وہ نہیں بنتی اور بس mechanical انداز میں نماز اور دعا ہوتی ہے۔ اس کے لئے کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا جو thesis تھا وہ یہ کہ حضرت فرماتے تھے کہ جو لوگ ریا سے بھی عبادت کر رہے ہیں، ان کو روکو نہیں، کیونکہ یہ ریا والی عبادت آہستہ آہستہ عادت بن جائے گی اور پھر عادت سے عبادت بن جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ نے روک دیا تو جو چانس تھا وہ بھی مِس ہوگیا۔ لہٰذا آپ جو mechanical انداز میں دعا مانگ رہے ہیں، اس کو روکیں نہیں، بلکہ یہ دعا آپ کرتے رہیں۔ اور ایک دعا اس میں یہ کرتے رہیں کہ یا اللہ! یہ دعا جو میں mechanical انداز میں کر رہا ہوں، اس کو صحیح دعا بنا دے۔ اب اللہ ہی سے مانگنا ہے، چاہے اس کو mechanical انداز میں مانگیں، لیکن بہرحال مانگیں ضرور۔ ایک مرتبہ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کے والد صاحب مولانا یحییٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ (یہ دونوں بھائی تھے اور دونوں حضرت کے مرید تھے تو) دونوں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے ملنے کے لئے گئے، حضرت اس وقت نابینا ہوچکے تھے۔ انہوں نے اطلاع بھیجی تو حضرت تشریف لائے، لیکن دروازے پر کھڑے ہوکر پوچھا کون؟ مولانا یحییٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ یحییٰ اور الیاس۔ حضرت نے فرمایا کہ بھائی سنو! ذکر چاہے کتنی ہی بے توجہی سے کیوں نہ کیا جائے لیکن اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ میں اس پر غور کرتا رہا کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ جو حضرت نے یہ بات فرمائی ہے، تو ایک بات اللہ تعالیٰ نے دل میں ڈال دی کہ ذکر ہی کے ذریعے سے تو آپ کا دل کھلے گا یعنی دل کھلنے کا راستہ یہی ذکر ہے۔ اب آپ جس کو کہتے ہیں کہ یہ غافل ہے یا غافل ترین ہے اور اس وقت آپ جو ذکر کریں گے تو وہ غفلت ترین کے ساتھ ہوگا، لیکن راستہ تو وہی ہوگا، یعنی اس کا improvment کا راستہ بھی یہی ہوگا۔ آپ شروع کر لیں تو غفلت ترین سے تھوڑا سا کم غفلت والا ہوجائے گا، پھر جب آپ کریں گے تو مزید کم غلفت والا ہوجائے گا، پھر آپ مزید کریں گے تو مزید کم غفلت والا ہوجائے گا، تو اس طرح غفلت کے پردے ہٹتے رہیں گے اور آپ کا ذکر improve ہوتا جائے گا اور پھر ایک وقت آئے گا کہ آپ بہت اچھا ذکر کریں گے۔ اور اگر اس غفلت ترین والے ذکر سے روک دیا جاتا تو کیا اس مقام تک پہنچ سکتا! یعنی کسی کو پہلی سیڑھی سے ہی روک دیا جائے تو آخری سیڑھی پر پہنچے گا؟ نہیں بالکل نہیں یہ ناممکن ہے، بلکہ پہلی سیڑھی پر قدم رکھے، چاہے وہ کتنی ہی نیچے کیوں نہ ہو، لیکن شروع تو وہاں سے کرے گا۔ اسی طرح دعا میں بھی سمجھ لو کہ آپ ابتدا میں جو دعا کر رہے ہیں، وہ بیشک mechanical انداز میں ہے، غفلت سے ہے، لیکن روکنا نہیں ہے بلکہ improve کرنا ہے اور improve کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو چیز آپ محسوس کریں کہ وہ ٹھیک نہیں ہو رہی تو وہ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگیں۔ کم از کم اس کا تو آپ کو احساس ہے کہ یہ چیز نہیں ہے، باقی چیزوں کا اگر احساس نہیں ہے اور ان سے مستغنی ہیں، لیکن جس کی وجہ سے mechanical انداز ہے تو یہ تو آپ محسوس کر رہے ہیں کہ یہ میری ضرورت ہے، تو جو آپ کی ضرورت ہے تو اسے ضرورت اصلی سمجھ کر آپ مانگ لیں۔ نتیجتاً یہ بہتر ہوجائے گا۔


سوال نمبر 4:

السلام علیکم۔ میرا مراقبہ 15 منٹ ’’اَللہ‘‘ والا مکمل ہو چکا ہے۔

جواب:

یہ mechanical انداز میں جواب ہے۔ پندرہ منٹ والا ذکر مکمل ہو چکا ہے، لیکن اس کی کیفیت کیا ہے؟ وہ نہیں بتائی کہ مراقبہ کیسے ہو رہا ہے، یعنی ’’اَللہ اَللہ‘‘ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، اس کے ساتھ کیفیت کیا ہے۔ تو یہ ساری چیزیں بتانی چاہئیں۔ اگر آپ ابھی سن رہے ہیں یا سن رہی ہیں تو ایک تو فوراً مجھے response کریں، ورنہ پھر ہفتہ انتظار کرنا پڑے گا۔ اور دوسرا آپ نے نہ تو نام لکھا ہے، نہ تعارف لکھا ہے، تو یہ کون سا میسج بھیجنے کا طریقہ ہے؟ میں تو اس پر ہمیشہ ڈانٹتا رہتا ہوں کہ جو لوگ بھی سوال کریں، ساتھ اپنا تعارف لازمی لکھیں۔ دیکھو! بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جو پہلے سے انسان کو معلوم ہوتی ہیں اگر وہ سائل کو جانتا ہو، مثلاً کسی کے بارے میں مجھے پہلے سے پتا ہو کہ یہ غائب دماغ ہے، اب جب اس کا سوال ہوگا تو میرے ذہن پر بوجھ نہیں ہوگا، میں سمجھوں گا کہ یہ ہے ہی غائب دماغ، لہٰذا یہ معزور ہے، تو پھر میرے ذہن پر کوئی ٹینشن نہیں آئے گی، لیکن اگر مجھے تعارف نہیں ہوگا تو میں کیا کہوں، کیا سمجھوں۔ اس وجہ سے آئندہ کے لئے جب بھی مجھے میسج کریں تو ایک تو اپنا تعارف کرا دیا کریں کہ ’’کون ہیں‘‘ اور دوسرا مکمل سوال کریں۔ حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک بڑے میاں آئے، اور کہا کہ حضرت تعویذ دیجئے۔ حضرت نے فرمایا باہر جاؤ، ساتھی ہیں، ان سے پوچھو کہ بات کس طرح کرنی چاہئے۔ وہ چونکہ بڑے میاں تھے، اس لئے محسوس کیا کہ مجھے حضرت کیا کہہ رہے ہیں کہ مجھے بات کرنا بھی نہیں آتا۔ خیر باہر چلے گئے اور باہر ساتھیوں سے کہا کہ اس طرح حضرت کہہ رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ آپ نے کیا کہا؟ اس نے کہا کہ میں نے کہا کہ تعویذ چاہئے، انہوں نے کہا کہ کس چیز کا تعویذ؟ پھر اس کو احساس ہوگیا کہ میں نے کیا غلطی کی ہے۔ اب دیکھیں! اتنی موٹی غلطی کا بھی اس کو پتا نہیں کہ میں کیا غلطی کر چکا ہوں۔ حضرت ایسی باتوں پر فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جب ان چیزوں پر غصہ آتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ سخت ہے، غصے والا ہے۔ لیکن جب کام تم ایسے کرتے ہو تو میں کیا کروں۔ خیر یہ تو اتنے غصے والی بات نہیں ہے، بس یہ تو میں نے ویسے ہی حضرت کی پرانی بات بتائی ہے، لیکن آئندہ کے لئے جب بھی سوال کریں تو ایک تو تعارف کرا دیا کریں، مہربانی ہوگی۔ اور دوسری بات کہ ذرا سوال میں جو بین الستور مزید سوالات ہیں وہ بھی ساتھ شامل کریں۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت محترم! اللہ پاک کے فضل اور آپ کی دعا سے مندرجہ ذیل ذکر کا ایک ماہ پورا ہوگیا ہے الحمد اللہ۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ، ’’حَقْ اَللہ‘‘ 500 مرتبہ، ’’ھُوْ حَقْ‘‘ 500 مرتبہ اور ’’حَقْ اَللہ‘‘ کے ساتھ یہ تصور کیا کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر ’’حَقْ‘‘ کو واضح کر رہا ہے۔

جواب:

سبحان اللہ! اب آپ یہ کریں کہ اس کے ساتھ 200 مرتبہ اخیر میں ’’اَللہ ھُوْ‘‘ کا ذکر کریں یعنی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ، ’’حَقْ اَللہ‘‘ 500 مرتبہ، ’’ھُوْ حَقْ‘‘ 500 مرتبہ اور ’’اَللہ ھُوْ‘‘ یہ 200 مرتبہ۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! محمد عمران عرض کر رہا ہوں ’’کری شہر‘‘ سے۔ میں ایک تو کوشش کرتا ہوں کہ سفر کے دوران قرآن مجید کی تلاوت کرتا رہوں، یعنی آتے جاتے ہر وقت۔ آج بھی جب میں آرہا تھا تو قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا۔ تو جب یہ آیت پڑھی:

﴿وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ ۝ فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰىؕ﴾ (النازعات: 40-41)

ترجمہ1: ’’لیکن وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا۔ تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی‘‘۔

جواب:

آئندہ کے لئے جو احوال بیان کرنے کی چیزیں ہوں، اصولاً سمجھ لیں کہ وہ text میں بھیجا کریں اور اگر کتابوں کے بارے میں کچھ سوال ہوں، تو بیشک آڈیو بھیج سکتے ہیں۔ کتابوں سے مراد یہ ہے کہ مثلاً کتاب میں کوئی چیز سمجھ میں نہ آئے، جیسے ’’مکتوبات شریف‘‘ میں کوئی بات سمجھ نہ آئی ہو یا آپ کو ’’عبقات‘‘ میں کوئی چیز سمجھ نہ آئی ہو، ایسے ہی ’’مثنوی شریف‘‘ میں کوئی بات سمجھ اگر نہ آئی ہو تو ان کے بارے میں جب پوچھیں تو آڈیو کی بھی اجازت ہے۔ لیکن احوال کے بارے میں آڈیو کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی ایک حکمت ہے کہ جو احوال آپ کو چھپانے چاہئیں، وہ آپ سب کے سامنے لا رہے ہیں۔ اب کیا اس کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ آپ اگر نام نہ بھی بولیں، لیکن آپ کی آواز کو تو لوگ پہچان لیں گے۔ اس وجہ سے احوال صرف شیخ کو بتانے چاہئیں۔ اگر آپ اس کو سوال و جواب کے سیشن میں بھیجیں گے تو چونکہ ہم نے ان کے جواب نشر کرنے ہوتے ہیں، تو جب text کی صورت میں ہوگا تو مجھے پہلے سے ہی نظر آجائے گا کہ کیا چیز ہے! آیا سب کے سامنے یہ کہنی چاہئے یا نہیں۔ اور دوسرا فائدہ اس میں یہ ہوتا ہے کہ آپ کے اپنے صحیح احوال بیشک کیوں نہ ہوں، لیکن جب میں نام نہیں بتاؤں گا تو کسی کو کیا پتا ہوگا! اور یہی طریقہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا تھا۔ چونکہ اس وقت صرف خط ہی ہوتا تھا۔ لہٰذا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ لیکن اب آڈیو لوگ بھیج رہے ہیں تو مسئلہ تو ہوگا۔ اس وجہ سے ہمیں تھوڑی مجبوری ہے۔ لہٰذا جو احوال وغیرہ آپ اپنے بھیجتے ہوں، وہ Text form میں ہی بھیجیں، آڈیو میں نہیں۔ اور جو information based چیزیں ہوں، جیسے کتابی چیزیں ہیں یا میں نے بیان میں کوئی بات کی اور آپ کو وہ سمجھ نہیں آئی تو وہ آڈیو بھی بھیج سکتے ہیں۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! آپ کی خدمت اقدس میں سوال عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ تکبر کا جواب تکبر سے دینا تواضع ہے۔ اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیجئے۔

جواب:

تھوڑی سی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ بات ’’تکبر کا جواب تکبر سے دینا چاہئے‘‘ مشائخ کے لئے ہے، باقی لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ چونکہ باقی لوگوں کو اندازہ نہیں ہوگا کہ یہ تکبر ہے یا خوداری ہے۔ اگر آپ جواب دیں گے تو اول تو اس کا حق ادا نہیں ہوگا بلکہ ممکن ہے کہ اس کے بارے میں بدگمانی ہوجائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ممکن ہو کہ وہ تکبر ہو، لیکن اس کے جواب میں زیادتی ہوجائے اور مزید اس سے بھی بڑھ کر انسان کوئی بات کر لے جس سے پھر نقصان ہوجائے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس میں انسان کو دوسرے سے کم سمجھنے کا جو امکان ہے (چونکہ متکبر کو لوگ کم ہی سمجھتے ہیں تو) کم سمجھنے کا جو امکان ہے وہ بھی مبتدی کے لئے نقصان دہ ہے۔ لہٰذا ان تین باتوں کی موجودگی میں مشائخ کے لئے تو اس کی گنجائش ہے۔ اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ! ان تین باتوں سے ان کو بچائیں گے۔ کیونکہ ان کی نیت بھی سمجھانے کی ہوتی ہے نہ کہ دبانے کی، اس لئے اگر وہ غصہ بھی کر رہے ہیں تو غصہ بھی انہی کے لئے کر رہے ہوتے ہیں یعنی ان کو فائدہ پہنچانے کے لئے کر رہے ہوتے ہیں۔ اور ان کو کم تو کم از کم نہیں سمجھتے، یعنی یہ بات تو کم از کم ہے۔ کیونکہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ اپنے آپ کو کم سمجھتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں وہ جتنا بھی غصہ وغیرہ کرتے ہیں، وہ مصنوعی ہوتا ہے یعنی وہ اپنے منصب کے مطابق اس کی ضرورت سمجھتے ہیں، تو پھر وہ غصہ کرتے ہیں، ورنہ وہ تو لوگوں کے پاؤں چومنے کے لئے تیار ہوتے ہیں، لیکن صرف اس لئے ہوتے ہیں کہ منصب ہے، ایک ترتیب ہے۔ آپ حضرات کو شاید علم ہوگا یا نہیں ہوگا کہ آرمی میں جو لوگ training کرتے ہیں، ان میں جو JCOs یعنی Junior Commission Officers ہوتے ہیں، وہ ان کو ٹریننگ دیتے ہیں یعنی جو کیڈٹ ہوتے ہیں وہ ان کے آفیسر بننے والے ہوتے ہیں، تو وہ سر سر بھی کر رہے ہوتے ہیں اور دوڑا بھی رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس لئے کہ وہ ان کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ ہماری جو موٹروے پولیس ہوتی ہے، وہ سر سر کہہ کر چلان کرتی ہے کیونکہ وہ مجبوری ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ہمیں یہ نہیں کرنا چاہئے جو مشائخ کرسکتے ہیں۔

سوال نمبر 8:

حضرت جی! ’’اَللہ اَللہ‘‘ 3500 بار پڑھ رہی ہوں۔ ایک ماہ ہوگیا ہے۔

جواب:

اب ’’اَللہ اَللہ‘‘ چار ہزار مرتبہ کر لیں۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم۔ حضرت! ایک مسئلے میں رہنمائی فرما دیں۔ احقر کے ساتھ اکثر نوجوان ہیں۔ عام طور پر یہ لوگ بعض ایسے گناہوں کا ذکر کرتے ہیں جو نوجوانوں سے ہوا کرتے ہیں۔ بعض ایسے بھی ساتھی ہوتے ہیں کہ جن سے ان گناہوں کی توقع نہیں ہوتی، لیکن وہ بھی یہ گناہ کر جاتے ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ کوئی علاج تجویز فرما دیں۔ احسان ہوگا۔

جواب:

یہ شیخ ہیں۔ ماشاء اللہ! انہوں نے اپنے منصب کے لحاظ سے سوال کیا ہے۔ حضرت! بات یہ ہے کہ آج کل یہ ابتلائے عام ہے۔ اس وجہ سے یہ بہت زیادہ enviornment گندا ہوگیا ہے، اور اس کے اثرات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق ہے، جو اس وقت (اللہ پاک کی توفیق سے) میں عرض کر رہا ہوں کہ آج کل pollution بہت زیادہ ہے، اور اس pollution کے بہت زیادہ اثرات ہیں اور اس سے واقعی بچنا بہت مشکل کام ہے۔ اور وقت کے ساتھ اس میں مزید اضافہ بھی آتا جائے گا، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ جتنی کوئی چیز مشکل ہوتی جاتی ہے، یعنی جو چیز جتنی مارکیٹ میں کم ہوجاتی ہے، اس کی value اتنی بڑھ جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ آپ لوگ میرے زیادہ قریب ہیں یا جو بعد میں آنے والے دوست ہیں۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 16977) اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے بشارت ہے جو ایسے حال میں بچیں گے، لیکن اس میں ہی ہمیں کچھ کام کرنا ہے۔ ایک دفعہ سید مرید الدین شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے تھے، میں نے حضرت سے کچھ باتیں عرض کیں کہ حضرت! اس طرح ہے، طلب نہیں ہے، یہ نہیں ہے اور وہ نہیں ہے وغیرہ۔ تو حضرت نے فرمایا شاہ صاحب! پیغمبر کافروں میں آتے ہیں، مسلمانوں کے لئے نہیں آتے۔ اس لئے آپ نے انہی حالات میں کام کرنا ہے یعنی جو بھی حالات ہیں، آپ نے انہی حالات میں کام کرنا ہے۔ لہذا دل چھوٹا نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمت سے کام لینا چاہئے۔ البتہ جو مجاہدات ہیں، ان کی طرف اب ہمیں دوبارہ بڑھنا ہوگا، کیونکہ مجاہدات تقریباً تقریباً متروک قرار دیئے گئے تھے، جس کا بہت زیادہ مسئلہ ہوگیا۔ یہ چونکہ اجتہادی مسئلہ ہے، اس لئے ہم لوگ کسی کو غلط نہیں کہیں گے، کیونکہ اجتہادی باتوں میں ایسے ہی ہوتا ہے، لیکن اب اس وقت مجاہدات کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اور مجاہدات بھی simple simple ہیں، کوئی زیادہ مشکل مجاہدات نہیں ہیں، مثلاً غضِ بصر کا جو مجاہدہ ہے، الحمد للہ! بہت ہی useful اپنے ساتھیوں پر ثابت ہوا ہے یعنی آنکھ کی جو حفاظت ہے اس کا چالیس دن کا مجاہدہ ہوتا ہے اور وہ کافی simple چیز ہے۔ اسی طرح خاموشی کا جو مجاہدہ ہے یا بہت لذیذ کھانوں کا جو مجاہدہ ہے، اس کے بند کرنے کا طریقہ۔ اور ایسے ہی بہت عزیز دوستوں سے ملاقات پر پابندی کا جو مجاہدہ ہے، چونکہ آج کل مجاہدات اسی قسم کے ہوں گے۔ لہٰذا یہ جو مجاہدات ہیں، ان کی آج کل بہت ضرورت ہے، کیونکہ ان مجاہدات سے نفس سیدھا ہوتا ہے۔ اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ اس وقت چاہے جتنے بھی سلاسل ہیں، بالخصوص نقشبندی سلسلہ تو خصوصی زد میں ہے کہ اس میں سلوک کی طرف عمومی طور پر رجحان بہت کم پایا جاتا ہے الا ماشاء اللہ! لیکن باقی سلاسل میں بھی سلوک کی طرف توجہ کچھ کم ہی ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذکر و اذکار پر dependence زیادہ ہوگیا ہے۔ اس وجہ سے اب ہمیں سلوک کی طرف تھوڑا سا زیادہ آنا پڑے گا، اسی لئے ہم بار بار اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ آپ حضرات کو میں اگر کہوں تو چھوٹا منہ بڑی بات (اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے) کہ عالم ارواح میں جو ہمارے بڑے اکابر ہیں وہ بڑے بے چین ہیں اور بہت ہی زیادہ بے چین ہیں ان حالات میں۔ اس وجہ سے ہمیں یہ کام کرنا پڑے گا، اس وقت حالات ہمارے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں، اس لئے ہمیں اس طرف خصوصی توجہ کرنی پڑے گی، بالخصوص یہ سلوک والی جو بات ہے یہ تو بہت ہی زیادہ پرزور انداز میں آرہی ہے کیونکہ اس کی ضرورت بہت زیادہ ہے اور اس کی طرف توجہ بہت کرنی چاہئے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو اس کا خیال رکھنا پڑے گا۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم۔ حضرت! معرفت میں خطا پر بھی ثواب ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ جیسے اجتہاد میں خطا پر ثواب ہوتا ہے، یہ معرفت میں خطا پر ثواب ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب:

آپ کو ایک چیز دور سے نظر آرہی ہے، آپ اس کو ایک چیز سمجھو، لیکن وہ دوسری چیز ہو تو اس کو کیا کہیں گے؟ اسے خطا کہیں گے، لیکن کیا آپ نے قصداً خطا کی؟ نہیں قصداً تو خطا نہیں کی۔ لہٰذا بات یہ ہے کہ اگر آپ کی نیت صحیح ہے، راستہ بھی صحیح ہے، access کے ذرائع صحیح ہیں، لیکن اس میں پھر بھی خطا کا امکان تو ہوتا ہے۔ تو اگر اس میں خطا ہو بالخصوص جب اختلاف بھی پایا جاتا ہو، جیسے شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان بہت بڑا اختلاف پایا جاتا ہے، اور یہ ساری معرفت کی باتیں ہیں، لیکن یہ معرفت کی باتیں دور کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہوتی ہیں۔ حضرت نے خود فرمایا ہے، جیسا کہ کچھ ہی عرصہ پہلے ایک ’’مکتوب شریف‘‘ گزرا تھا، جس میں حضرت نے فرمایا تھا کہ میں ان کو غلط کیسے کہوں، چونکہ لوگوں نے کہا تھا کہ اگر یہ ایسا ہے تو پھر تو یہ غلط ہے، اگر آپ اس کے خلاف چیزیں پیش کر رہے ہیں تو پھر یہ غلط ہے۔ فرمایا کہ ان کو غلط کیسے کہوں! یہ محبت کے جذبے کی وجہ سے کر رہے ہیں یعنی خطا محبت کی وجہ سے ہے۔ مثلاً محبت کی وجہ سے جو مجذوب ہوتے ہیں وہ معاف ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے؟ معاف ہوتے ہیں۔ تو اس طریقے سے محبت میں اگرچہ مجذوب تو نہیں ہوتے لیکن وہ decision لینے میں خطا کھا جاتا ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دوں۔ حضرت مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے لئے ہم گئے تھے، یہ بہت بڑے بزرگ تھے۔ سوات سے مولانا فضل محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت کے بہت قریبی ساتھیوں میں سے تھے وہ بھی تشریف لائے تھے۔ حضرت مولانا فضل محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت کا ہاتھ چومنا چاہا، تو حضرت مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ چونکہ تواضع کے پہاڑ تھے، اس لئے وہ کہاں چومنے دیتے، انہوں پیچھے کیا، لیکن پھر انہوں نے پکڑنا چاہا تو انہوں نے پشتو میں کہا کہ ’’خش د گم‘‘ (یعنی مجھے تکلیف پہنچائی) تو مولانا فضل محمد صاحب نے کہا ہم تو یہ تکلیف پہنچانے کے لئے آیا کرتے ہیں، لہٰذا یہ تکلیف تو ہم پہنچایا کریں گے۔ پھر بعد میں مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو نصیحت فرمائی کہ بس دوبارہ نہ آنا، اب برزخ میں ملاقات ہوگی۔ کیونکہ آپ کے لئے بھی جگہ نہیں آنے کی اور میں بھی ایسا ہی ہوں۔ لہٰذا اب دوبارہ نہ آنا۔ دیکھو! اب یہ باتیں محبت کی تھیں، اس کو ہم کیا کہیں گے۔ تو اس حالت کو کبھی mind نہیں کرتے۔ جیسے وہ کہتے ہیں کہ محبت کی وجہ سے ہوا ہے، تو اللہ جل شانہٗ تو سب سے زیادہ قدردان ہے، تو ایسی حالت میں ایسے لوگوں کو کیوں سزا دیں گے؟ بلکہ ان کو اس نیت کا اجر دیتے ہیں۔ حدیث پاک ہے:

’’اِنَّمَا اْلاَعْمَالُ بَالنِّیَّاتِ‘‘ (بخاری: 1)

ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم۔ حضرت جی! کوشش کرتا ہوں، لیکن مجھ سے لایعنی گفتگو زیادہ ہوتی ہے اور مروت میں بھی کثرت سے شکار رہتا ہوں، کیسے بچا جائے؟

جواب:

آپ کو خاموشی کا مجاہدہ کرانا پڑے گا۔ کیونکہ خاموشی کا جو مجاہدہ ہے وہ اسی لئے ہوتا ہے کہ انسان خاموش رہ سکے۔ چونکہ آج کل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ خاموش رہنا نہیں آتا، اس لئے بزرگ فرماتے ہیں کہ پہلے ’’تولو پھر بولو‘‘ لیکن تولیں گے تب، جب تولنے کا وقت ہوگا۔ اب اگر کوئی بے تَکان گفتگو کر رہا ہوگا تو کیسے تولے گا۔ لہٰذا اس سے بولنے میں بے احتیاطی ہوگی۔ اس لئے کم از کم دس منٹ سوچنے کا تو موقع ملنا چاہئے کہ انسان دس منٹ کے لئے سوچ سکے کہ مجھے کیا کہنا چاہئے اور کیا نہیں کہنا چاہئے۔ اس لئے اس کے لئے خاموشی کا ایک دور تو ہونا پڑے گا۔ لہٰذا آپ کو خاموشی کا مجاہدہ دینا پڑے گا، پھر اس مجاہدہ کے ذریعے سے ان شاء اللہ! اس کی اصلاح ہوگی۔ باقی مروت والی جہاں تک بات ہے تو اس میں بس آپ یہ سوچ لیں کہ ایک طرف اللہ ہے اور دوسری طرف یہ ہیں، تو میں کس کی بات مانوں! پھر میرے خیال میں آپ مروت نہیں کریں گے۔ ایک ہوتا ہے مدارات اور ایک ہوتا ہے مروت، مدارات میں یہ ہوتا ہے کہ آپ اس کی رعایت کرتے ہیں یعنیہ وہ جس stage پر ہے، اس stage پر آپ اس کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ اور مروت یہ ہوتی ہے کہ آپ ان کی غلط باتوں کو بھی مروتاً مان لیتے ہیں اور آپ صرفِ نظر کر لیتے ہیں اور اپنے نقصان کی پروا نہیں کرتے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے لئے بہت اچھا اور آسان اصول سمجھایا ہے۔ فرمایا: دوسرے کے جوتوں کی حفاظت کے لئے اپنی گٹھڑی گم نہ کریں۔ ہمارے تبلیغی حضرات جو ہوتے ہیں ان میں بہت زیادہ یہ ابتلا پایا جاتا ہے کہ یہ دل رکھتے ہیں۔ کیونکہ دعوت کو یہ فرض عین سمجھتے ہیں اور باقی چیزوں کو شاید کچھ نہیں سمجھتے۔ تو یہ دل رکھتے ہیں اور پھر دل رکھنے میں شریعت کو بھی آگے پیچھے کر لیتے ہیں جبکہ یہ چیز ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ انسان کو شریعت پر کوئی compromise نہیں کرنا چاہئے۔ اگر کسی کو یہ طریقہ نہیں آتا (چونکہ ذو معنیٰ الفاظ بولنے کا طریقہ ہوتا ہے، جس میں انسان گناہگار نہیں ہوتا۔) تو جھوٹ بہرحال نہیں بولنا چاہئے۔ جیسے آپ ﷺ کی حدیث شریف ہے۔ جو ہم نے پرسوں غالباً عصر کی تعلیم میں سنی تھی کہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا:

’’يَا رَسُوْلَ اللهِ إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا؟ قَالَ: إِنِّيْ لَا اَقُوْلُ إِلَّا حَقًّا‘‘ (شمائل ترمذی: 236)

ترجمہ: ’’یا رسول اللہ! آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں؟ فرمایا: ہاں! لیکن میں اس میں بھی سچ بولتا ہوں‘‘۔

لہٰذا اس کے لئے بصیرت چاہئے ہوتی ہے، جس کے ذریعے سے انسان دوسرے کا دل بھی رکھتا ہے، لیکن اس میں بھی اللہ پاک کا حکم نہیں ٹوٹنے دیتا۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر خاموشی بہتر ہے۔

سوال نمبر 12:

حضرت والا مکتوبات شریفہ کے متعلق سوال عرضِ خدمت ہے۔ وہ یہ کہ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا تھا، اس کی وضاحت حضرت والا نے الہامی طور پر فرمائی ہے کہ عبدیت اور معرفت کا خاص ربط ہے، جو قرآن و حدیث سے بھی ثابت کہ جتنی عبادت بڑھتی ہے، اتنی معرفت بھی بڑھتی ہے اور جتنی معرفت بڑھتی ہے تو اتنا عبادت میں رنگ آتا ہے اور عبادت بڑھتی ہے۔ اور پھر یہ رنگ مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔ حضرت والا کی برکت سے ایک بات دل میں آئی تھی کہ رسول اللہ ﷺ کو جب معراج پر لے جایا گیا تو دیدار خداوندی جب ہوا تو اس وقت سب سے زیادہ معرفت حضور پاکﷺ کی تھی، تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے؟ اس میں کوئی بے ادبی کا پہلو تو نہیں ہے؟ کیونکہ اس وقت اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوا تھا، اس لئے دل میں بات آئی کہ اس وقت سب سے زبردست معرفت سرکار دو عالم ﷺ کو حاصل ہوئی ہوگی۔ اور اس کو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ قرآن پاک میں سورۃ بنی اسرائیل میں بیان فرمایا ہے۔

﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا﴾ (بنی اسرائیل: 1)

ترجمہ: ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی‘‘۔

یعنی یہ عبد کے خطاب سے سرکار دو عالم ﷺ کو جو فرمایا تو سب سے اونچی معرفت دیدار الہٰی ہے۔ حضرت! یہ بات جو دل میں آئی ہے صحیح ہوگی یا اس میں بے ادبی کا پہلو ہے؟ اس میں رہنمائی کی سخت ضرورت ہے۔

جواب:

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ۔ ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ آپ ﷺ کی معرفت مسلسل بڑھ رہی تھی۔ معراج شریف کے واقعہ میں جو معرفت آپ ﷺ کو حاصل ہوئی، یقیناً وہ اس کا ایک رخ تھا جس پر معرفت کی کافی ساری چیزیں کھل گئیں، لیکن اس کے بعد جو قرآن اتر رہا تھا اور آپ ﷺ کے دل پر جو باتیں آرہی تھیں، آپ ﷺ کو جو چیزیں مزید دکھائی جا رہی تھیں، اس سے وہ معرفت کم تو نہیں ہوئی، بلکہ وہ تو اپنی جگہ پر تھی اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا یعنی آپ ﷺ کی معرفت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور مکتوب میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ عروج بھی آپ ﷺ کا بہت زیادہ کامل اور نزول بھی کامل تھا۔ اور تصوف کا بھی یہی قانون ہے کہ جن کا عروج جتنا اونچا ہوتا ہے ان کا نزول بھی اتنا اونچا ہوتا ہے۔ بلکہ عروج کو آپ آنکھیں کھلنا کہہ سکتے ہیں کہ جتنی آنکھیں کھلتی ہیں تو وہ اپنے آپ کو پھر زیادہ جانتا ہے، اور جتنا اپنے آپ کو زیادہ جانے گا تو اتنی عبدیت کھلے گی، کیونکہ اللہ پاک کی عظمت کھلے گی اور اللہ پاک کی عظمت جب کھلے گی تو اُس کے سامنے اپنا آپ کچھ نظر نہیں آئے گا۔ نتیجتاً اپنے آپ کو اتنا ہی انسان کم سمجھ رہا ہوگا یعنی جتنا انسان اوپر جائے گا اتنا ہی انسان اپنی نظروں میں گرتا جائے ہے۔ میں آپ کو ایک بات بتاؤں، آپ ﷺ نے ایک دعا فرمائی ہے:

’’اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِيْ خَشْیَتَكَ وَذِکْرَكَ‘‘ (مسند فردوس دیلمی، ج 1، ص: 474)

ترجمہ: ’’اے اللہ میرے دل کے وساوس کو اپنی خشیت بنا دے اور اپنا ذکر بنا دے‘‘۔

مثلاً ایک شخص کو وسوسہ آتا ہے، تو وسوسہ تو کچھ بھی نہیں ہے یعنی اس کا کچھ بھی نہیں ہوتا، لیکن جب وسوسہ آتا ہے اور وسوسے سے انسان اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اللہ کی شان میں وسوسہ آیا تو اس کی وجہ سے ذکر کی توفیق ہو، اور وہ استغفار کرے، اس طرح یہ اس کے لئے مبارک ہے۔ لہٰذا انسان جتنا معرفت کی سیڑھیوں پر چڑھتا جاتا ہے، اتنا ہی اپنی نظروں میں گرتا جاتا ہے۔ اس لئے آپ ﷺ کی عبدیت بھی کامل تھی۔ اور بعض حضرات نے تو فرمایا ہے کہ عبد میں اور عبدہ میں بڑا فرق ہے۔ ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ دیکھیں اس میں عبدیت رسالت سے بھی پہلے رکھی گئی ہے، تو عبدیت کا مقام بہت اونچا ہے اور یہ آپ ﷺ کی شانِ اطہر کے مناسب بات ہے۔ اور عبدیت ویسے بھی سب سے اونچا مقام ہے۔ کیونکہ تمام چیزوں کا مدار نفس پر ہے۔ نفس کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا:

﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ۝ اِرْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً ۝ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ وَادْخُلِیْ جَنَّتِی﴾ (الفجر: 27-30)

ترجمہ: ’’(البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پا چکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں۔ اور داخل ہوجا میری جنت میں‘‘۔

یعنی اخیر میں جو فرمایا کہ میرے بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔ تو اس کا مطلب ہے کہ نفس کی جب اصلاح ہوجاتی ہے، تو دو چیزیں خود بخود واقع ہوجاتی ہیں، ایک وہ اللہ سے راضی ہوجاتا ہے اور دوسرا اللہ پاک اس سے راضی ہوجاتا ہے اور اس کا ثمرہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی عبدیت اونچے درجہ پر پہنچ جاتی ہے۔ اور جس وقت عبدیت اونچے درجہ پر پہنچ جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جو جنت بنائی ہوئی ہے، اس کا مستحق قرار دیتے ہیں۔ اس طریقے سے عبدیت واقعتاً اونچا مقام ہے اور آپ ﷺ کو عبد کا خطاب یہ واقعی آپ ﷺ کی شان کے مطابق ہے۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! خدمت اقدس میں ایک سوال عرض ہے کہ میرا مراقبۂ احدیت لطیفۂ سر پر کرتے ہوئے دو ماہ ہو چکے ہیں اور ساتھ باقی لطائف پر ذکر کا دور بھی پانچ پانچ منٹ کر چکا ہوں۔ حضرت والا سے آگے رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

اب اس مراقبۂ احدیت کو لطیفۂ خفی پر کر لیں یعنی لطیفۂ سر پر تو مکمل ہوگیا ہے، اس لئے اب اس کو لطیفۂ خفی پر کر لیں۔ باقی چیزیں وہی ہوں گی۔

سوال نمبر 14:

ربیع الاول میں ہم درود شریف زیادہ پڑھتے ہیں۔ تو جو ربیع الاول کے علاوہ باقی عام مہینے ہیں، ان میں کون سا ذکر زیادہ کرنا چاہئے؟

جواب:

ماشاء اللہ! عملی سوال ہے۔ الحمد للہ! پہلے ہماری ترتیب یہ رہی ہے کہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ کو فجر سے لے کر دوپہر تک جتنا وقت بھی ملے، بلا تعداد پڑھتے تھے۔ دوپہر کے بعد درود شریف اور مغرب کے بعد استغفار، یہ ہمارا ربیع الاول میں معمول ہے۔ اور رمضان شریف میں خاص ذکر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے علاوہ آپ دوبارہ اس ذکر پر چلے جائیں، یعنی ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ یہ دوپہر تک پڑھیں۔ دوپہر کے بعد درود شریف اور مغرب کے بعد استغفار پڑھیں۔

سوال نمبر 15:

200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، ’’حَقْ‘‘ 400 مرتبہ اور’’اَللہ‘‘ 100 مرتبہ۔

جواب:

اب آپ 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 100 مرتبہ پڑھیں۔

سوال نمبر 16:

شاہ صاحب ! ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ پر کیا تصور کرنا چاہئے؟

جواب:

’’ھُو‘‘ یہ اسمِ ضمیر ہے یعنی آپ کسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’’وہ‘‘ تو جب کوئی ’’وہ‘‘ کہتا ہے تو صرف اسے ہی پتا ہوتا ہے کہ ’’وہ‘‘ کون ہے، کسی اور کو نہیں پتا ہوتا کہ کون ہے۔ کوئی اور تو پوچھ سکتا ہے کہ کون؟ لیکن جو کہہ رہا ہے ’’وہ‘‘ تو اس وقت ’’وہ‘‘ کا مطلب نام نہیں ہوتا بلکہ اس کی ذات ہوتی ہے۔ اسی لئے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ کا جو ذکر ہے، اس میں اسم ذات کی طرف باقی چیزوں سے کٹ کر آنا ہوتا ہے۔ یعنی اللہ کی ذات کی طرف باقی چیزوں سے کٹ کر آنا یہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ ہے۔ یعنی اب سب کی نفی کر کے کہیں کہ بس وہی ہے صرف۔

سوال نمبر 17:

نیک انسان کی کیا خوبیاں ہیں؟

جواب:

نیک انسان کا کیا تعارف ہے یا یوں کہیں کہ نیک انسان کس کو کہیں گے؟ کیونکہ نیک انسان کی خوبیاں تو بے شمار ہوتی ہیں۔ تو آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ جو اللہ کی نافرمانی نہ کرے، وہ نیک ہے۔ یہ میں نے بڑا technical جواب دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ سب سے اچھا ذکر وہ ہے جو آپ کو گناہ سے روک دے۔ کبھی کسی کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ سب سے اچھا ذکر وہ ہوتا ہے جو آپ کو گناہ سے روکے؟ اس وجہ سے اللہ کی نافرمانی سے بچنا سب سے بڑی نیکی ہے۔ فقہ کا قاعدہ بھی یہ ہے کہ دفعِ مضرت جلبِ منفعت سے مقدم ہے یعنی اپنے آپ کو نقصان سے بچانا نفع پہنچانے سے زیادہ ضروری ہے۔ دوسرے کو مسلمان کرنے سے زیادہ ضروری مسلمان کو مرتد ہونے سے بچانا ہے۔ لہٰذا مسلمان کو مرتد ہونے سے بچانا یہ ضروری ہے کیونکہ کافر کی سزا قتل نہیں ہے، لیکن مرتد کی سزا قتل ہے۔ کافر کو (جب تک وہ امن کی حالت میں ہے) آپ کچھ نہیں کہہ سکتے اور مرتد کو مارنا ضروری ہے۔ اس وجہ سے ارتداد کو روکنا بہت زیادہ اہم کام ہے۔

سوال نمبر 18:

سنت کے مطابق تہجد کی کتنی رکعتیں ہوتی ہیں؟

جواب:

آٹھ رکعت ہیں۔ یہ میں اس روایت سے لیتا ہوں جو عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ آپ ﷺ نے آٹھ سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں، نہ تو رمضان شریف میں اور نہ رمضان کے علاوہ۔ (بخاری: 1147) لیکن اگر بعض لوگوں نے اس سے تراویح مراد لی ہے تو ہمارا جواب یہ ہوتا ہے کہ رمضان کے علاوہ تراویح کدھر ہوتی ہے؟ رمضان کے علاوہ تراویح تو نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ تہجد کے بارے میں ہے۔ لیکن غیر مقلد چونکہ بڑے عجیب لوگ ہیں، ان کا کوئی سٹیشن تو ہوتا نہیں ہے، جس سٹیشن میں بھی چلے جائیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ لہٰذا اب انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ تراویح تو ہے ہی نہیں، بلکہ یہ تہجد ہی ہے۔ بس رمضان شریف میں تہجد کو جماعت کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔

سوال نمبر 19:

شاہ صاحب! یہ نفسِ لوّامہ اور نفسِ امّارہ میں کیا فرق ہے؟

جواب:

نفسِ امّارہ تو برائی کا ہی امر کرتا ہے۔ اور نفسِ لوّامہ نفس امّارہ کے بعد کا stage ہے، جس میں نفس اپنے آپ کو ملامت کر رہا ہوتا ہے جب اس سے برائی ہوجائے کہ میں نے برا کیوں کیا؟ تو وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے، اس لئے اس کو نفس لوّامہ کہتے ہیں۔

سوال نمبر 20:

شاہ صاحب! نفس کی صرف تین ہی اقسام ہیں؟

جواب:

جی ہاں! تین اقسام ہیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ



  1. ۔ نوٹ: تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔