اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر 1:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت آپ نے پچھلے ہفتے مثنوی شریف کے بیان میں فرمایا تھا کہ مشائخ انسان کے اندر پہلے سے موجود صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہیں اور نکھارتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مجھے کیسے پتا چلے گا کہ میرے اندر کون کون سی صلاحیتیں ہیں اور کون سی صلاحیتیں نکھر گئی ہیں تاکہ میں ان سے کام لے سکوں؟
جواب:
ایک محاورہ ہے پر نکلنے سے پہلے پروازکرنا۔ پر نکلنے سے پہلے پرواز کی اجازت تو کم از کم چڑیا بھی نہیں دیتی ۔ جب تک بلی اپنے بچوں کو سارے داؤ نہیں سکھاتی اس وقت تک ان کو اپنے چنگل سے باہر نہیں جانے دیتی۔ یہ بات تو جانوروں میں بھی ہے۔ اتنا شعور تو جانوروں میں بھی ہے۔ انسان تو اشرف المخلوقات ہے۔ اس کو وقت سے پہلے اس طرح کیسے چھوڑا جا سکتا ہے ۔ صلاحیتوں کا نکھارنا کہا گیا ہے صلاحیتوں کا بتانا نہیں کہا گیا کہ ان کو بتایا جائے گا۔ بتانا ضروری نہیں ہے وقت پر خود ہی پتا چل جائے گا۔ ہاں نکھارا ضرور جاتا ہے۔ یہ hit and trial پر مبنی ایک procedure ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہت ساری چیزیں سامنے آتی ہیں۔ اس میں بہت ساری چیزوں کا پتا چلتا رہتا ہے۔ انسان بعض دفعہ تجربات سے کندن بن جاتا ہے اور جو کام پہلے نہیں کر سکتا ہوتا وہ کرنے لگتا ہے۔
تصوف ایک practical چیز ہے اور practical میں اصل چیز کو لیا جاتا ہے۔ باقی چیزیں details ہیں اور details ہر ایک کی مختلف ہوتی ہے۔ اصل چیز دل ،نفس اور عقل کی اصلاح ہے اور یہ اصلاح کرنا شیخ کے ذمے ہے۔ جب یہ چیزیں ٹھیک ہو جاتی ہیں تو پھر کسی کے اوپر اگر عقل کا غلبہ ہوتا ہے تو ان سے ان areas میں کام لیا جاتا ہے کسی پہ دل کا غلبہ ہوتا ہے ان سے ان areas میں کام لیا جاتا ہے کسی کا نفس بڑے کام کا ہوتاہے، تو ان سے ان areas میں کام لیا جاتا ہے۔
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک مرید کو ”چار ابرو صاف“کے ہاں بھیجا۔ اس زمانے میں وہاں پر ایک فتنہ تھا جس کا نام تھا ”چار ابرو صاف“جو ان کے پاس جاتا تھا اس پہ ہپناٹزم کی طرح کا کچھ تصرف کرتے تھے،جس سے انسان کی بالکل کایا پلٹ جاتی تھی۔ وہ بھی انہی لوگوں کی طرح ہو جاتا، سر بھی منڈوا دیتا، داڑھی ، مونچھیں اور ابرو بھی منڈوا دیتا تھا۔ اس کو کہتے تھے ”چار ابرو صاف“ اور پھر اول فول بکنے لگتا تھا۔ حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک بہت مخلص مرید کے ذریعے سے ان کے پاس ایک پیغام بھیجا ۔ جب وہ وہاں پہنچا تو وہ لوگ حلوہ پکا رہے تھے ، کہتے ہیں اچھا ہوا آپ آ گئے۔ آؤ اپنے چار ابرو کو صاف کرواؤ ۔ یہ کہہ کر ان لوگوں نے اس مرید پہ توجہ کی۔ اس پہ اثر ہو گیا اور اس نے واقعی داڑھی، مونچھ، سر اور ابرو کے بال منڈوا دیئے اور جیسے انہوں نے کہا ویسے ہی کر لیا۔ پھر حلوے کی کڑاہی اس کے سر پہ رکھ دی اور کہا جاؤ اپنے پیر صاحب کے پاس لے جاؤ کہنا کہ اس نے تحفہ بھیجا ہے۔ یعنی message دیا کہ دیکھو تو نے میرے پاس جو آدمی بھیجا تھا میں نے اس کا کیا حشر کر دیا ہے۔ وہ واپس شاہ صاحب کی طرف چل پڑا۔ شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے جیسے ہی اسے آتے دیکھا تو فرمایا افسوس میں نے کچے آدمی کو بھیج دیا۔
ایسی چیزیں ہوتی ہیں۔ یہ practical چیزیں ہیں۔ کوئی ایسی خیالی باتیں نہیں ہیں۔ ہر شخص کا اپنا اپنا حساب ہوتا ہے۔ اگر نفس قابو میں نہیں ہے تو ان کے داؤ اور ہوتے ہیں، اگر دل قابو میں نہیں ہے تو ان کے داؤ اور ہوتے ہیں اور اگر دماغ قابو میں نہیں ہے تو ان کے داؤ اور ہوتے ہیں۔ اسی کے حساب سے اصلاح بھی مختلف طریقوں سے ہوتی ہے۔ اس لئے ہم لوگ ہر کسی کو نہیں بتاتے کہ آپ کے اندر یہ صلاحیت ہے۔ اس طرح اس میں خود نمائی پیدا ہو جائے گی۔ وہ اپنے آپ کو ہی پوجنے لگے گا کہ میرے اندر یہ صلاحیت ہے۔ اور لوگوں کو بتاتا پھرے گا تو کام خراب ہو جائے گا۔ ہم نے ان کے اندر خود نمائی نہیں پیدا کرنی بلکہ ان کی صلاحیتوں کا استعمال کرنا ہے، ان کے دل، نفس اور عقل کی اصلاح کر کے انہیں تیار کرنا ہے۔ پھر وہ خود ہی وہ کام کرے گا جن کے لئے اسے تیار کیا گیا ہو گا۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی صفائی ستھرائی اور چیزوں کو قرینے سے رکھنا معاشرت میں آتا ہے کیا؟ کچن کے کام کاج کے بعد کمرہ سمیٹنے کی ہمت نہیں رہتی تو اس کی اصلاح کے لئے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
ایک اصطلاح پرانے دور کی خواتین میں پائی جاتی ہے۔جسے کہتے ہیں سگھڑ پن، یعنی سلیقہ۔ سلیقہ مند خواتین کو سگھڑ خواتین کہتے ہیں جو سلیقے کے ساتھ سارے کام کرتی ہیں۔ اپنے بچوں کی تربیت بھی سلیقے کے ساتھ کرتی ہیں۔ چیزوں کو بھی سلیقے کے ساتھ رکھتی ہیں۔ ان کا ملنا جلنا بھی سلیقہ سے ہوتا ہے۔ ہر چیز میں رکھ رکھاؤ کا خیال رکھتی ہیں۔ تمام چیزیں ان کی اس طرح set ہوتی ہیں۔ یہ سگھڑ پن ہے ۔ یہ معاشرت میں آتا ہے۔ اور معاشرت ہر جگہ کی الگ ہوتی ہے۔ اکثر اوقات ہم نے دیکھا ہے کہ شہروں کے اندر سجاوٹ کا style اور طرح کا ہوتا ہے جبکہ گاؤں کے اندر اور طرح کا ہوتا ہے۔ گاؤں میں نقش و نگار زیادہ ہوتا ہے اور شہروں میں سادگی زیادہ ہوتی ہے۔ شہروں میں گھروں کے اندر دیواروں پہ کوئی بہت زیادہ نقش و نگار نہیں نظر آتے بس دو تین frame اگر لگے ہوں تو لگے ہوں، وہ بھی سلیقے کے ساتھ لگے ہوتے ہیں، کیونکہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی سیکھ لیتے ہیں ۔ جبکہ گاؤں کے لوگ گاؤں والوں سے سیکھتے ہیں۔ اور گاؤں والے پوری دیوار کو بھردیتے ہیں وہ کوئی جگہ خالی نہیں چھوڑتے۔ آپ نے ٹرک دیکھیں ہوں گے جن کے پیچھے باتیں وغیرہ لکھی ہوتی ہیں، وہاں کوئی جگہ نہیں چھوڑی گئی ہوتی۔ گاؤں کے لوگوں کو ان چیزوں کی سمجھ نہیں ہوتی وہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہی بہت زبردست چیز ہے ۔
خیر! کسی علاقے اور خاندان کی معاشرت کا انداز کیسا بھی ہو، اس میں سلیقہ کا خیال رکھنا چاہیے۔ بالخصوص اسلامی مزاج کی خواتین کو بہت زیادہ اچھے طریقے سے یہ سارے کام کرنے چاہئیں تاکہ ان پہ انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ خاندان میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ان چیزوں کو خصوصیت سے دیکھتے ہیں، notice بھی کرتے ہیں پھر باتیں بھی کرتے ہیں جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔لہٰذا کوئی بھی کام ہو ہمیشہ ڈھنگ اور سلیقہ سے ہونا چاہیے۔اچھے کام کی نشانی یہ ہے کہ اس میں توازن ہوتا ہے ۔ balance is always appreciate ۔یہ سلیقہ اور قرینہ balance ہی ہے۔ اس توازن کو استعمال کرنا چاہیے،بے ڈھنگے پن سے کام نہیں کرنا چاہیے۔ بے ڈھنگا پن ہر جگہ نامناسب ہوتا ہے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی زندگی میں خیر و برکت عطا فرمائے۔ حضرت اقدس کی خدمت میں کچھ کیفیات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت آپ آج کل کے حالات سے باخبر ہیں اور ہر مسلمان جس کے سینے میں ایمان کا ایک ذرہ بھی روشن ہو وہ اضطراب میں ہے۔
جواب:
آپ کا سوال خوابوں اور کیفیات کے بارے میں ہے۔ میں خوابوں کو اکثر بیان نہیں کرتا اور خوابوں کو encourage بھی نہیں کرتا۔ لوگ خوابی بن جاتے ہیں پھر خوابوں کی دنیا میں ہی رہتے ہیں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی خواب کے سلسلے میں کوئی کام کی چیز کبھی آجائے تو وہ بتا بھی دیتے ہیں۔ لیکن عموماً خواب کی دنیا سے گریز کرتے ہیں۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بھئی ہمارے خواب ایسے ویسے ہی ہوتے ہیں ، زیادہ تر ان کے اوپر خیالات ہی سوار ہوتے ہیں ۔جو چیز پڑھ لیتے ہیں وہ چیز خواب میں بھی نظر آتی ہے ۔
اب حضرت اس دور کے مجدد ہیں۔ آخر کوئی بات تو ہے جو حضرت اس قسم کی بات فرماتے ہیں ۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ philosophical type کے ہوتے ہیں ان کے خواب بھی فلسفیانہ ہوتے ہیں ۔ جو لوگ ذرا عیش و عشرت والے ہوتے ہیں ان کے خواب بھی اسی قسم کے ہوتے ہیں ۔ جو لوگ ذرا لڑائی مار کٹائی سے بھرپور چیزوں کے شائقین ہوتے ہیں پھر ان کے خواب بھی اس طرح ہوتے ہیں ۔ اس وجہ سے میں خوابوں کو زیادہ encourage نہیں کرتا۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
Is it wise able for سالک to repeatedly and openly express his feelings of shame and self-disgust in front of others? Can you please kindly also explain this in the light of neuro-linguistic programming.
جواب:
سوال وہ کرنا چاہیے جو باقی لوگ بھی سمجھ سکیں ۔ اب مجھے بتائیں باقی لوگ اس سے کیا سمجھیں گے؟
neuro-linguistic program
آپ میں سے کتنے لوگ سمجھتے ہیں۔ neuro-linguistic program والا کوئی ہے ادھر؟ کم از کم مجھے نہیں معلوم کہ کوئی ہے ۔ جو چیزیں real انداز میں ہیں ان کو اسی انداز میں پوچھنا اور discuss کرنا چاہیے تو کچھ فائدہ ہو گا ورنہ کچھ لوگوں کا جواب تو ہو جائے گا مگر فائدہ کوئی نہیں ہوگا۔ اگر اس قسم کی بات ڈسکس کرنی ہی ہے تو پھر علیحدہ discuss کرنا چاہیے openly discuss کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ باقی لوگ تو نہیں سمجھیں گے۔
بہرحال سوال کے جواب میں اتنی بات عرض کروں گا کہ اپنے احساسات کو بیان کرنے میں کچھ پابندیاں ہیں۔ مثلاً یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ کوئی اپنا حال کسی سے بیان نہ کرے کیونکہ اپنا حال بیان کرنے سے آپ کی راز داری ختم ہو جائے گی۔ حال ایک راز ہوتا ہے جو انسان اور اللہ کے درمیان مخفی ہوتا ہے۔ وہ کسی حالت میں بھی غیر شیخ کو نہیں بتانا چاہیے۔ اپنے شیخ کے علاوہ کسی بھی اور شخص سے نہیں بیان کرنا چاہیے۔ اپنی غلطیاں بھی شیخ کے سامنے ہی بیان کرنی چاہئیں کیونکہ باقی لوگوں کے سامنے غلطیاں بیان کرنے سے نقصان ہوتا ہے۔ مثلاً کسی نے فرض نماز نہیں پڑھی۔ یہ ایک غلطی ہے اور گناہ ہے۔ اس کے بارے میں شیخ کو تو بتا سکتا ہے بلکہ بتانا ہی پڑے گا تاکہ اس کی اصلاح ہولیکن کسی اور کو بتائے گا تو گناہ گار ہو جائے گا۔ کیونکہ اپنا گناہ کسی اور کو بتانا ایک مستقل گناہ ہے۔ البتہ شیخ کو بتانا گناہ نہیں ہے۔ لہٰذا اپنے گناہ تو کسی کو بتانے ہی نہیں چاہئیں۔ اپنی وہ غلطیاں جو گناہوں کے زمرے میں آتی ہیں وہ بھی بالکل نہیں بتائی جا سکتیں۔ البتہ ایسی چیزیں جو معاشرے میں openly نہیں کی جا سکتیں صرف ان چیزوں کو نہ بتایا جائے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ جس برائی کو روکنے کی قدرت نہ ہو، اس کو بیان کرنے سے وہ برائی پھیلتی ہے، کم نہیں ہوتی ۔ لہٰذا اس کو بیان نہیں کرنا چاہیے ۔
مثلاً ایک آدمی کہتا ہے میں internet پر یہ چیزیں دیکھ رہا ہوں۔اور سب لوگ اس طرح کی باتیں ایک دوسرے کو بتانے لگیں تو سب میں شرم ختم ہو جائے گی۔ انسان کے اندر ایک شرم ہوتی ہے اس شرم کی وجہ سے آدمی بہت ساری غلطیوں سے بچا رہتا ہے لیکن جب دیکھتا ہے کہ اتنے سارے لوگ یہ کر رہے ہیں تو سوچتا ہے کہ میں کونسا تیس مار خان ہوں، میں بھی کر ہی لیتا ہوں۔ تو دیکھیں اس طرح یہ برائی ایک دوسرے کو بتانے سے زیادہ پھیل گئی۔
اس وجہ سے ایسی چیزیں بیان کرنا تو ہم allow نہیں کرتے۔ البتہ اپنی تربیت کے لحاظ سے کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جس میں سیکھنا involved ہے وہ ضرور پوچھنا چاہئیں ان کے پوچھنے میں کوئی حرج نہیں۔جیسے ہماری مجلس میں لوگ سوالات کرتے ہیں، ہم انہیں حل بتا دیتے ہیں۔ اس طرح کے سوالات کیے جاسکتے ہیں۔ جیسے ابھی ایک شخص نے صلاحیتوں کے بارے میں سوال کیا تھا تو ہم نے بتا دیا کہ صلاحیتیں ہر ایک کو نہیں بتائی جاتیں۔ اس نے اپنی confusion بتا دی میں نے اس کا جواب دے دیا مسئلہ حل ہو گیا۔ چونکہ یہ understanding کا ایک procedure ہے۔ اس سے understanding میں غلطی ہوئی تھی، میں نے اسے سمجھا دیا۔
سوال نمبر 5:
Questions come in my mind day and night, but I tend to forget but few I able to write here are they please ignore spelling mistakes.
1. Wants to know your views on two approaches to the life A and B. A is always think positive, be happy laugh and smile always be hopeful, forget past mistakes or sins look forward انسان خطاؤں کا پتلا ہے، اللہ معاف فرمانے والا ہے۔ etc. Etc.
زندگی تو زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
Medically this positive thinking will have positive effects on your life like increase life span, lower rate of depression, lower level of distress, better psychological and physical well-being better cardio muscular health and reduce risk of health from cardiovascular better coping skills during hardship and time of stress.
جواب:
آپ کی اس بات پہ میں ایک comment کرنا چاہتا ہوں جو میری پوری life کا نچوڑ ہے۔ نفسیات کی دنیا میں ایک بہت بڑا dilemma ہے۔ نفسیات کی دنیا میں یہ المیہ ہے کہ وہ لوگ غیر مسلموں کی کتابیں پڑھ کر ان کو مسلمانوں پر fit کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کی نفسیات غیر مسلموں سے بالکل الگ ہیں۔ جس چیز سے ان کو فائدہ ہوتا ہے اس سے مسلمانوں کو نقصان ہوتا ہے جس چیز سے ان کو نقصان ہوتا ہے اس سے مسلمانوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
مثلاً ایک شخص گناہ گار ہے۔ جس وقت وہ psychiatrist کے پاس جائے گا تو وہ اس کو کہے گا forget about it. ٹی وی دیکھو music سنو، زندگی انجوائے کرو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی target نہیں ہے لہٰذا وہ سوچتے ہیں کہ ان کو کسی بھی طرح خوشی حاصل کرنے میں لگا دیں تو کیا فرق پڑتا ہے they are already in those chaos۔
جبکہ مسلمان کا عقیدہ موجود ہے۔ مسلمان کو اس عقیدہ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر عقیدہ الگ کیا جائے گا تو وہ کافر ہو جائے گا اور اگر کافر نہیں ہوتا تو احساس گناہ موجود رہے گا۔
لہٰذا مسلمان کا علاج یہ نہیں ہے کہ اس کا ذہن ہر پریشانی اور مشکل سے ہٹا کر انجوائے منٹ پہ لگا دیا جائے بلکہ پہلے نمبر پر اس کا علاج توبہ ہے۔ جب تک آپ اس کو توبہ پہ نہیں لائیں گے اس وقت تک وہ مطمئن ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کی اس قسم کی بیماریاں جب ہمارے پاس آتی ہیں اور ہم ان کو توبہ کے لئے easy access دیتے ہیں۔ تو ان کے مسائل حل ہو جاتے ہیں وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں normal ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ جو چیز اندر ہی اندر ان کو کھا رہی تھی وہ ختم ہو گئی۔
لہٰذا مسلمانوں کے لئے کونسلنگ کا طریقہ کار یہ ہے کہ realistic بنو، حقائق پرست بنو ۔ دوسری بات آپ ﷺ کی زندگی سے زیادہ بہتر اور آسان زندگی کوئی نہیں۔ مسلمان کے لئے سب سے بہتر solution یہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کی زندگی پر آ جائے۔ اسی میں آپ کی کامیابی ہے اگر آپ اس طریقہ پر اس کو لے آتے ہیں تو ہزار گناہوں کے باوجود وہ توبہ کر کے اس پریشانی سے نکل آئے گا۔ آئندہ کے لئے ایک reasonable person بن جائے گا اور ایک مفید شخص بن جائے گا۔
میری یہ باتیں اس وقت ایسے لوگ بھی سن رہے ہیں جو اسی procedure سے ٹھیک ہوئے ہیں۔ I think they will be listening۔ وہ جان رہے ہیں اور امید کرتا ہوں کہ وہ مجھے بتا بھی دیں گے کہ آپ کی بات صحیح تھی۔
مجھے اس وقت بڑی پریشانی یہ ہے کہ ہمارے psychiatrist ڈاکٹر زیادہ تر اسی مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس جو لوگ جاتے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہوتے اکثر خراب ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ psychiatrist ان کو دوائیوں پہ لگائے رکھتے ہیں۔ تقریباً آج سے پندرہ سولہ سال پہلے کی بات ہے۔ British homes سے اپنی بیوی کے ساتھ ایک شخص میرے پاس آیا۔ وہ British embassy میں کام کرتا تھا اور اس کی depression کی وجہ سے یہ حالت تھی کہ اس نے اپنی گاڑی خود جلا دی تھی۔ اس کی بیوی زار و قطار رو رہی تھی۔ خدا معلوم اسے میرے بارے میں کس نے بتا دیا تھا۔ اس وقت میں اتنا مشہور بھی نہیں تھا۔ خیر وہ میرے گھر پہنچ گئے تھے۔ ان کو میں نے کچھ تسلی دی کچھ وظیفہ بتا دیا کچھ کام بتا دیئے کہ اس طرح کر لو۔ اگلے ہفتے وہ پھر آیا اور مجھے کہا کہ جیسے ہی میں آپ کے ہاں سے نکلا میں ٹھیک ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اب میں کافی حد تک بہتری محسوس کر رہا ہوں۔ اور مجھے آج کل نیند بہت آ رہی ہے۔ میں نے کہا اب اپنے ڈاکٹر سے ملیں اور اپنی یہ کیفیت بتا دیں۔ ممکن ہے آپ آج کل medicine کی وجہ سے over dose چل رہے ہوں۔ کیونکہ جو medicine انہوں نے آپ کو پہلے والی condition کے مطابق دی تھیں وہ condition ختم ہو گئی ہے۔ اب آپ کی medicine کو modify کرنا پڑے گا۔ ان کو تازہ حالت کے مطابق آپ کو medicine دینی چاہئیں۔ آپ اپنے ڈاکٹر کے پاس جائیں اور اپنی medicine modify کروا دیں۔ وہ داکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر نے بہت ساری دوائیاں روک دیں۔ جب اگلی بار میرے پاس آیا تو کافی حد تک ٹھیک تھا۔ کہنے لگا۔ more than 80% I am feeling okay۔
خلاصہ یہ کہ مسلمان کا معاملہ الگ ہے کافر کا الگ ہے۔ مسلمان کو کافر نہ سمجھو۔
ایک اور واقعہ عرض کرتا ہوں۔ ایک captain ڈاکٹر تھے۔ psychiatry میں f.c.p.s کر رہے تھے۔ پارٹ 1 کلیئر کر چکے تھےپارٹ 2 میں چل رہے تھے۔ میرے پاس آئے اور کہنے لگے : Can I weep? میں نے کہا: yes it is your right۔ وہ رونے لگے۔ پھر مجھے اپنے دفتر کے اور گھر کے احوال سنائے۔ جاتے جاتے میں نے اس کو کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ تو خود اس field کے specialist ہیں۔ میں آپ کو صرف ایک suggestion دوں گا۔ کاغذ پر لکھنا شروع کریں، آپ کی زندگی کے negative points آپ کے سامنے ہیں، اپنے positive points بھی سامنے رکھ لیں، انہیں کاغذ پر لکھ لیا کریں اور اس کاغذ کو کبھی کبھی دیکھتے رہیں۔
کہنے لگے کہ مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی اور میرے ساتھ argue کرنے لگے۔ میں نے کہا میں آپ کے ساتھ argument تو نہیں کر رہا ہوں ۔میں نے صرف ایک suggestion دی ہے جب آپ کو سمجھ آئے اس پہ عمل کر لینا۔ جب وہ جانے لگے تو کہتے ہیں کہ شاہ صاحب آپ کی بات تو سمجھ نہیں آئی لیکن مجھے یہاں سکون ضرور ملا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو کیا میں کبھی کبھی آپ کے یہاں آ جایا کروں؟ میں نے کہا بالکل آجایا کریں۔ ان دنوں میں آج کل کی طرح اتنا مصروف نہیں تھا۔ لیکن آج کل avoid کرتا ہوں۔ خیر ایسا ہوا کہ وہ میرے پاس آنے جانے لگے۔ مہینہ میں ایک چکر لگا لیتے، میں ان کو ذرا اپنے ساتھ walk کراتا تھا۔ 6 مہینے کے بعد اس نے مجھے کہا کہ شاہ صاحب میں اب آپ کی بات سمجھ گیا ہوں۔ میں نے کہا: ان شاء اللہ اب آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ اگلی دفعہ جب آئے تو کہتے ہیں میں 80فیصد ٹھیک ہو گیا ہوں۔ اب صرف stabilizer mode پر ہوں۔ میں نے کہا اللہ کا شکر ہے الحمد للہ۔ پھر اس کی major promotion بھی ہو گئی۔
یہ واقعات عرض کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ مسلمان مسلمان ہے ۔مسلمان کو مسلمان بناؤ۔ اس کے سارے مسائل کا حل اسی میں ہے کہ اس کو ٹھیک مسلمان بناؤ اور نبی ﷺ کی سنتوں پہ لگاؤ۔ یہ جو اپروچ ہے کہ سب کچھ بھلا کر اندھا دھند انجوائے منٹ پہ لگا دو۔ I deeply condemn this approach ، جس میں شتر مرغ کی طرح آدمی آنکھیں بند کر لے کہ نہیں مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا۔ برائی برائی ہے چاہے آپ اس کو برائی کہیں یا نہ کہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے لیکن بہرحال اس کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔
سوال نمبر6:
This world is temporary always worry about your آخرت which is real life this world and life going is to end life is test with hardship and problems we approach towards our grave day by day we soon be or soon not better will face عذاب of death and قبر and so on.
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
Kindly enlighten which approach we should follow?
جواب:
میں اس میں تھوڑی سی تبدیلی کرنا چاہوں گا۔ آپ سے یہ کس نے کہا کہ صرف مایوسی کی باتیں کرو۔ میرے خیال میں کسی شیخ نے نہیں کہا کسی مولوی نے بھی یہ نہیں کہا، بلکہ حدیث شریف ہے:
اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ (صحیح البخاری کتاب الرقاق، باب : الرجاء مع الخوف، الرقم : 6104)
ترجمہ: ”ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے“
اگر آپ کی باتوں سے خوف ٹپکنے لگے اور امید کم ہونے لگے تو شیخ آپ کو امید کی طرف لے جائے گا اور اگر آپ امید کی طرف زیادہ چلے گئے اور خوف آپ کے ہاتھ سے نکلنے لگا تو شیخ آپ کو خوف دلائے گا۔ الله جل شانہ غفور و رحیم ہے اور اس کے غفور و رحیم ہونے کی وجہ سے ہم جنت میں جائیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ اس کی عفو و رحم کی صفت جن چیزوں کی متقاضی ہے ہم انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں اور حضور ﷺ کا طریقہ ہے۔ حضور ﷺ کا طریقہ تمام چیزوں میں آسان ہے اگر کوئی نہیں جانتا تو ان کو ہم سمجھا سکتے ہیں کہ حضور ﷺ کا طریقہ سارے طریقوں سے اس لئے آسان ہے کیونکہ natural ہے۔
کبھی بھی مایوس نہ ہوں۔ اللہ پاک کا فرمان ہے:
﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا﴾ (الزمر: 53)
ترجمہ: ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔“
مجھے اس بات کا بخوبی تجربہ ہے۔ میرے ساتھ یہ معاملہ پیش آ چکا ہے۔ یہ حج کے موقع کا واقعہ ہے۔ غالباً میرا پہلا حج تھا۔ خدا معلوم آخر وقت میں کیا وسوسہ آیا۔ اس وسوسہ نے مجھے اتنا پریشان کر دیا کہ میں بیزار ہو گیا۔ میں سمجھا شاید میں کافر ہو گیا ہوں۔ کچھ اس قسم کی صورت حال بن گئی تھی۔ اب میری حالت یہ تھی کہ مقام ابراہیم کے پاس کھڑا ہوں اور دوسروں پر حسرت کی نگاہ ڈال رہا ہوں کہ دیکھو ماشاء اللہ یہ لوگ تو طواف کر رہے ہیں حج مکمل کرکے خوش خوش اپنے گھروں کو چلے جائیں گے اور میری اتنی بری حالت ہو گئی ہے کہ پتا نہیں مسلمان بھی رہا ہوں یا نہیں۔ مقام ابراہیم کے ساتھ میری خصوصی attachment اسی وجہ سے ہے کہ یہ واقعہ وہیں پر ہوا تھا۔ خیر میں مقام ابراہیم کے پاس کھڑا یہی باتیں سوچ رہا تھا کہ اچانک میرے دل کے اندر ایک زور دار آواز آئی ۔اب میں اس کو explain نہیں کر سکتا کہ وہ کیا چیز تھی ۔وہ تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہے۔ لیکن اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ایک زور دار آواز آئی کہ وہ کون سا گناہ ہے جو میں معاف نہیں کر سکتا! بس یکدم میں نے استغفار کر لیا اور میری حالت normal ہو گئی۔ میں نے کہا سبحان اللہ یہ تو بہت بڑی بشارت ہے ۔ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی ہمارے ساتھ حج پہ تھے۔ میں حضرت کے پاس چلا گیا اور ان کو سارا واقعہ سنایا۔ میری بات سن کر حضرت کا رنگ بھی زرد ہو گیا۔ جب میں نےپوری بات بتائی تو ان کی حالت نارمل ہوئی۔ حضرت بڑی ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے۔ آخر میں ہنس کر فرمایا کہ پھر آپ نے اپنی توبہ سے توبہ کر لی۔ میں نے کہا جی حضرت بالکل ایسا ہی ہے ۔ تو اس وقت مجھ پر اللہ پاک کی طرف سے تسلی آ گئی تھی۔ اگر کوئی چاہے تو ایسی تسلی آیا کرتی ہے۔ اللہ پاک کے ہاں بہت کچھ ہے ہم لوگ اللہ پاک کو اپنے اوپر قیاس کر لیتے ہیں کہ جیسے ہم لوگ غصہ یا ناراض ہوتے ہیں اور تمام چیزوں کو ختم کر لیتے ہیں شاید اللہ بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے۔ حالانکہ اللہ جل شانہٗ کی شان اس سے کہیں بلند و برتر ہے۔ اس لئے کہ ہم محتاج ہیں، اللہ پاک محتاج نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ آن کی آن میں سارے گناہوں کو معاف کر سکتا ہے۔ کوئی توبہ کر کے دیکھے تو سہی۔ اللہ سارے گناہوں کو معاف کر سکتا ہے۔
﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا﴾ (الزمر: 53)
ترجمہ: ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔“
شاید آپ لوگوں کو یاد ہو کہ یہ آیت کریمہ کس کے لئے اتری تھی۔ یہ وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے اتری تھی جس نے امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا تھا۔ اب آپ ﷺ ان کو دعوت دے رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں میں کیسے مسلمان ہو سکتا ہوں میں نے تو اتنا بڑا گناہ کیا ہے۔ تب یہ آیت اتری :
﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا﴾ (الزمر: 53)
ترجمہ: ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔“
اب آپ ﷺ اپنے چچا کے قاتل کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اللہ پاک نے آپ کے بارے میں یہ نازل کیا ہے۔ پھر وہ مسلمان ہو گیا اور موقعہ کی تلاش میں رہا کہ میں نے اتنے بڑے مسلمان کو شہید کیا میں اب بہت بڑے کافر کو ماروں گا اور اسی طریقے سے ماروں گا جس طریقہ سے میں نے امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا ۔آخر کار اللہ پاک نے انہیں وہ موقعہ دے دیا۔ مسیلمہ کذاب کو حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے ہی مار ا تھااور اسی technique سے مارا تھا۔ فرمایا کہ اب میرا دل ٹھنڈا ہو گیا۔ جب بندہ سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اللہ پاک ایسا موقعہ دیتے ہیں۔اس لئے عرض کرتا ہوں کہ اتنا گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ
اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَ الرّجَاء (صحیح البخاری کتاب الرقاق، باب : الرجاء مع الخوف، الرقم : 6104)
ایمان خوف اور رجا اور امید کے درمیان ہے لیکن مایوسی کفر کی طرف لے جانے والی ہے۔ مایوسی نہیں ہونی چاہیے اور خوف بھی ہونا چاہیے۔ بے خوفی انسان کو اللہ پاک پہ جرأت دلاتی ہے۔ وہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ لہٰذا دونوں barriers کو cross نہیں کرنا چاہیے۔
سوال نمبر7:
Sometime we feel enthusiastic for ذکر and صلوۃ but sometime it’s hard even to offer فرض نماز and no خشوع and خضوع in it why it happens why our feelings are not always same?
جواب:
ہر شخص کے سینے میں ایک دل ہے۔ اس دل کو قلب کہتے ہیں۔ قلب کا مطلب ہوتا ہے بدلنے والا، الٹنے پلٹنے والا۔ اگر آپ دیکھیں کہ جب heart کا operation ہوتا ہے،تو دل کو جب باہر نکالتے ہیں وہ تڑپ رہا ہوتا ہے باقاعدہ jump لگاتا ہے ۔ یہ حقیقت میں بھی ایسا ہی ہےلیکن آپ نے اس پہ مسلسل نظر رکھنی ہے۔ اگر آپ کا اچھائی کی طرف رجحان ہے تو اللہ کی طرف سے آسانی ہے۔ اس آسانی سے فائدہ اٹھاؤ اور اگر آپ کا برائی کی طرف رجحان ہے تو اس برائی کا مقابلہ کرو اور نیکی پر قدم جماؤ۔ آپ کو مجاہدہ کا اجر بھی ملے گا اور اس عمل کا اجر بھی ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کبھی مجاہدے کا اجر دینا چاہتا ہے اور کبھی شکر کا اجر دینا چاہتا ہے۔ لہٰذا اگر کبھی آسانی حاصل ہو تو شکر کے طریقے سے دین پر چلو اور جب مشکل ہو تو صبر کے طریقے سے دین پر چلو تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کو مجاہدہ کا اجر بھی دے دے۔ مجاہدہ کا مزید فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی stable ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے انسان کا نفس control میں آ جاتا ہے۔
سوال نمبر8:
Our ایمان increases and decreases or fluctuates is it normal should be?
جواب:
ایمان تو کم اور زیادہ نہیں ہوتا یقین کم اور زیادہ ہوتا ہے۔ ایمان مستقل رہتا ہے۔ ایمان پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ یقین کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔ علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین یہ تینوں یقین کی تین سٹیجز ہیں۔
سوال:
If some دعا is not fulfill it should be believe it’s not will of اللہ and we stopped asking that now.
جواب:
حدیث شریف میں ہے کہ جب انسان دعا کرتا ہے تو 3 کاموں میں سے ایک ضرور ہو جاتا ہے۔ یا اللہ تعالیٰ اس کا وہ کام کر دیتے ہیں اگر اس کے لئے مفید ہو۔ یا پھر کوئی مصیبت اس کے اوپر آ نےو الی ہوتی ہے ، اس دعا کی وجہ سے اس مصیبت کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ یا پھر یہ ہوتا ہے کہ اس دعا کو اس کے لئے آخرت میں ذخیرہ کر دیا جاتا ہے۔ حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ جس وقت آخرت میں ذخیرہ شدہ اجر کو دیکھے گا تو کہے گا یا اللہ یہ اتنا اجر کہاں سے آ گیا، میں نے تو اتنے اعمال نہیں کئے تھے۔ اللہ پاک فرمائیں گے یہ تمھاری وہ دعائیں ہیں جو قبول نہیں ہوئیں تھیں، ان کو میں نے یہاں ذخیرہ کر لیا تھا۔ یہ جان کر وہ کہے گا کاش میری کوئی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی، میری ساری دعاؤں کا اجر یہیں مل جاتا۔ لہٰذا دعائیں بند نہیں کرنی چاہئیں۔
سوال نمبر9:
Last year I read about a book کا ٹیلی پیتھی کا اثر by ڈاکٹر صمد in which he use is to teach his disciples and help them attain progress in spirituality with combination of telepathic techniques and ذکر as well, please shed some light on this.
جواب:
ہمیں telepathy کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ضرورت ڈاکٹروں کو ہو گی یا اِس دور کے لوگوں کو ہو گی ۔
We are quite enriched in all these techniques الحمد للہ by our own.
الحمد للہ! ہمیں اللہ پاک نے اپنے بزرگوں سے وہ چیزیں عطا فرمائی ہیں جن کے ذریعے سے وہ تمام چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں جو دوسروں لوگ ان چیزوں کے ذریعے سے حاصل کرتے ہیں۔ ہمیں ٹیلی پیتھی جیسے ذرائع کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، ہمارے لئے لطائف اور اذکار و مراقبات کافی ہیں۔ بلکہ ہماری اس لطائف والی ترتیب کو دوسرے لوگ نقل کرتے ہیں ، ہندو لوگ بھی اس کو استعمال کرتے ہیں اور اس کو چکر کہتے ہیں ۔ ہمیں تو اس سے کوئی غرض نہیں ہے اگر کوئی اس کو استعمال کرنا چاہے تو کر لے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ الحمد للہ! ہم ان کے اوپر dependent نہیں ہیں۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس وقت روح نفس سے علیحدہ ہو جائے اور آزاد ہو جائے تو پھر وہ ملاء اعلیٰ پہنچ جاتی ہے۔ مجھے بتاؤ کوئی telepathy کے ذریعے سے ملاء اعلیٰ پہنچ سکتا ہے؟ ہر گز نہیں پہنچ سکتا! دنیا میں شاید کہیں پہنچ سکتا ہو ، کسی کے دماغ پہ پہنچ سکتا ہو لیکن آسمانوں میں تو نہیں پہنچ سکتا۔ اس لئے ہمیں تو ٹیلی پیتھی اور اس جیسی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت علامہ اقبال نے بھی کہا تھا کہ:
قافلہ تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
علامہ اقبال اصل میں یہی کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس جو tools ہیں، اُن لوگوں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگی ۔ تو ہم کیوں ان کو للچائی نظروں سے دیکھیں کہ ہم telepathy استعمال کر لیں، hypnotism استعمال کر لیں یا کوئی اور چیز استعمال کر لیں۔ یہ ان کی چیزیں ہیں۔ ہم ان چیزوں کے محتاج نہیں ہیں۔ الحمد للہ اللہ نے ہمیں بڑا ہی open انوائرنمنٹ دیا ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص capable ہو تو اسی کے ذریعے سے ساری چیزیں ہو سکتی ہیں۔
سوال نمبر10:
Reading and hearing of اولیا اللہ remarkable lives and then looking at our own sinful lives, thoughts come that I can follow their footpaths as it too hard and اللہ may not give us.
جواب:
ارےآپ کن چیزوں میں پڑ گئے ہیں!!! اولیا اللہ کے foot steps کے پیچھے نہ جاؤ۔ وہ ہر ایک کے لئے اپنی اپنی نشانیاں اور اپنی اپنی منزلیں ہوتی ہیں۔ آپ بس یہ دو کام کریں۔ ایک تو شیخ کی بات کو نہ چھوڑیں اور دوسری یہ کہ حضور ﷺ کے طریقے کو نہ چھوڑیں۔ آپ کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ میں آپ کو clearly لکھ کے دیتا ہوں کہ ایک تو کسی بھی حالت میں اپنے شیخ کو نہ چھوڑیں کیونکہ وہ آپ کے لئے دروازہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے آپ کو وہ چیزیں بھیجتے رہیں گے جو آپ کر سکیں گے۔ دوسرا آپ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ نہ چھوڑیں۔ سنتوں پہ عمل کریں۔ سنتوں پر ہر ایک عمل کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور طریقے پہ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ان کے حضرات کے اپنے اپنے طریقے ہیں۔ ان کو اللہ پاک نے ان کی طلب کے مطابق دیا اور ان کو اسی طرح چلایا۔ وہ انہی کے لئے خاص ہے۔
ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ بھئی دیکھو ہم بزرگ نہیں ہیں۔ اگر بزرگ ہوتے تو بزرگوں میں پیدا کئے جاتے۔ بس اتنا کام کرو کہ گناہ نہ کرو، بچت ہو جائے گی۔ بچت ہی چاہتے ہو ناں اور کیا چاہتے ہو!پیغمبر تو نہیں بن سکتے، صحابی بھی نہیں بن سکتے۔ یہ باتیں تو اب نہیں ہو سکتیں تو بس یہ کرو کہ گناہ نہ کرو۔
سوال نمبر11:
Location of لطیفۂ قلب and نفس is described but where is the location of عقل?
جواب:
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کی تعلیم ہمارے ہاں ہوتی رہی ہے۔ اس میں یہ سب تفصیل موجود ہے۔ حضرت کی تحقیق کے مطابق نفس کا لطیفہ سارے جسم میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس کا مرکز جگر میں ہے۔ لطیفۂ قلب بھی سارے جسم میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس کا مرکز دل میں ہے اور لطیفۂ عقل بھی سارے جسم میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس کا مرکز دماغ میں ہے۔اور یہ بات دھیان میں رکھیں کہ یہ سب چیزیں پریکٹیکل ہیں، تھیوریٹیکل نہیں ہیں۔
سوال نمبر12:
Why prophet ﷺ prohibited to walk or stand in front of a person offering Salah what is logic?
جواب:
I don’t give you logic
سب سے بڑی logic یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما دیا ہے۔ اس کے بعد کسی logic کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اگر آپ logic کے پیچھے جانا چاہیں گے تو شیطان آپ کو بہت ساری logics دے دے گا اور آپ کو detract کر لے گا۔ میں اس کی logic جانتا ہوں لیکن آپ کو نہیں بتاؤں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں یہ ٹرینڈ ہی نہیں بنانا کہ ہر بات کی logic دی جائے۔ ہمیں آپ کو خراب طریقے پر نہیں چلانا۔ کیا حضور ﷺ کا طریقہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے؟ ہر چیز آپ ﷺ پر پوری ختم نہیں ہوئی ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے آپ ﷺ کے لئے ساری بہترین چیزیں جمع کر دی ہیں۔ اس لئے اگر ہمیں کسی بات کے بارے میں تحقیقاً یہ معلوم ہو کہ آپ ﷺ نے ایسا فرمایا ہے تو بس ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ اس سے زیادہ باریکیوں میں پڑنا اور logics ڈھونڈنا ہمارے لئے خطرے سے خالی نہیں ہے۔
سوال نمبر13:
What is علم لدنی. Is this علم الاسماء?
جواب:
اللہ پاک کی طرف سے براہ راست بغیر اسباب کے جو علم عطا ہوتا ہے وہ علم لدنی ہوتا ہے۔
حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر ہے وہ فرماتے ہیں:
بینی اندر خود علوم انبیاء
بے کتاب و بے معید و اوستا
اپنے اندر علومِ انبیاء کو دیکھو گے۔ پھر بغیر کسی استاذ کے بغیر کسی کتاب کے بغیر کسی مکتب کے ایسی چیزیں دیکھو گے۔ اللہ پاک آپ کے سِر پر علوم اتارے گا اور آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا۔اس کو علم لدنی کہتے ہیں۔ جس کے لئے normal اسباب اختیار نہ کئے جائیں۔ اکثر اولیاء اللہ کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ ان کے علم کسبی میں علم لدنی کو چھپا دیا جاتا ہے کہ وہ عالم بھی ہوتے ہیں، علم کسبی بھی ان کے پاس ہوتا ہے لیکن ان کو علم لدنی اتنا دے دیا جاتا ہے کہ باقی علماء سے وہ ممتاز ہو جاتے ہیں۔
مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی ایک بہترین مثال ہیں۔ کسی نے حضرت مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب سے پوچھا کہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہاں سے پڑھا تھا کہ اتنے سارے علوم ان کے پاس آ گئے۔ فرمایا: پڑھا تو ادھر سے ہی تھا جہاں سے ہم نے پڑھا تھا لیکن اللہ کا کام ہے کسی کے لئے سوئی کے ناکے کے برابر کھول دیتے ہیں کسی کے لئے سمندر کے برابر کھول دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کو جتنا دینا چاہے اپنے طریقوں سے دے دیتا ہے۔
سوال نمبر14:
Does having desire of good car and house also comes under خواہش نفسانی is this not desirable in سلوک or for سالک or it is حب دنیا?
جواب:
ہر شخص کا اپنا اپنا مقام ہے اور اپنے اپنے حالات ہیں جو اللہ تعالیٰ اس کے شیخ پر کھول دیتے ہیں۔ بعض کے لئے اس سے کچھ مسئلہ نہیں ہوتا جبکہ بعض کے لئے car تو بڑی بات ہے اگر وہ یہ بھی سوچ لے کہ اب تو کھانا کھا رہا ہوں شام کو کیا کھاؤں گا تو اس سے بھی اسے نقصان ہوتا ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے ۔
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ جب فوت ہو گئے تو کسی نے ان کو خواب میں دیکھا ،پوچھا حضرت کیا بنا؟ کہنے لگے کہ اللہ پاک نے مجھے اپنے سامنے بٹھا دیا اور پوچھا میرے لئے دنیا سے کیا لائے ہو ۔ کہتے ہیں میں نے دل میں سوچا کہ اور کچھ ہو نہ ہو توحید تو ہے ہی۔ لہذا توحید کا کہہ دیا ۔اللہ پاک نے فرمایا : کیا وہ دودھ والی رات بھول گئے؟ ایک رات میں نے دودھ پیا ہوا تھا تو پیٹ میں درد ہو گیا۔ کسی نے حال پوچھا تو میں نے کہا کہ رات کو دودھ پیا تھا اس کی وجہ سے پیٹ میں درد ہو گیا۔ اب دیکھیں ان سے اسی بابت پوچھ لیا گیا کہ درد کی وجہ دودھ پینا کیوں بتلائی۔ یہ کام دودھ کا تھا یا اللہ کا تھا۔
ہر شخص کا اپنا اپنا مقام ہے۔ اس کے مقام کے مطابق اس کےساتھ معاملہ ہوتا ہے۔ کسی کے لئے car بھی ٹھیک ہے، کسی کے لئے بہت بڑی جائیداد بھی ٹھیک ہے اور کسی کے لئے سخت حالات ہی ٹھیک ہوتے ہیں۔ ان کو tight رکھا جاتا ہے۔یہ ان کے شیخ کے اجتہاد پر depend کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو چیزیں ان کے دل پہ آتی ہیں ان پر منحصر ہوتا ہے۔ ہم سب کے لئے کوئی ایک صورت اور قاعدہ کلیہ متعین نہیں کر سکتے۔
سوال نمبر15:
As per theory of قلب, our heart is rusted with sins and sod, don’t have effects our mood with recitation of قرآن on it and its teaching but there are incidents when hearing قرآن changes someone heart instantaneously, like حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ changes of heart and many others non-Muslim whose heart suddenly change with when they hear قرآن how does this happen?
جواب:
آپ صرف ایک چیز کو یاد رکھ رہے ہیں۔ آپ قرآن کو تو یاد رکھ رہے ہیں لیکن قرآن والے کو یاد نہیں رکھ رہے۔ ہر شخص کا قرآن کی تلاوت کا انداز اپنا اپنا ہوتا ہے۔ کس دل سے نکلا ہوا قرآن ہے، کس زبان پہ آیا ہوا قرآن ہے، یہ ہر شخص کی اپنی اپنی حالت پہ منحصر ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ تو آپ نے سنا ہے۔ انہوں نے اپنی بہن اور بہنوئی کو مار مار کر ادھ موا کر دیا لیکن ان کی ایمانی کیفیت یہ تھی کہ اس نے کہا۔ عمر! تم مجھے مار سکتے ہو قتل کر سکتے ہو۔ یہ تمہارے بس میں ہے لیکن جو ایمان میرے دل میں آیا ہے اس کو نہیں نکال سکتے۔ یہ وہ statement تھی جس نے عمر کو ہلا دیا تھا۔ تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے ٹوٹ سے گئے اور کہا اچھا پھر تم مجھے وہ سناؤ جو پڑھ رہے تھے۔ ان کی بہن اور بہنوئی کے مجاہدہ سے ان کے اندر وہ change آ چکا تھا۔ اب صرف اس کو go through کرنا تھا۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا مجھے بھی سناؤ۔ اب یہ ایمانی کیفیت دیکھیں۔ ہم ہوتے تو فوراً شروع کر لیتے ۔ لیکن ان کی بہن نے کہا۔ نہیں تو ناپاک ہے پہلے غسل کر لے پھر سنائیں گے۔ قرآن کی عظمت کو سامنے رکھا اپنی جان کو سامنے نہیں رکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غسل کر لیا اور پھر سنا۔
اب آپ بتائیں اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ جن کیفیتوں سے گزرے اور انہیں قرآن سنانے والے، بہن اور بہنوئی جن کیفیتوں سے گزرے اور پھر انہیں قرآن سنایا ۔ کیا وہ ایک بہت مختلف اور اونچے لیول کی حالت نہیں؟ اس حالت میں ان لوگوں سے قرآن سننا اور مجھ جیسے آدمی سے قرآن سننا ایک بالکل الگ بات ہوگی۔ جو اُس کا اثر ہو گا ہم اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اسی لیے اللہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)
ترجمہ: ’’یقیناً اس میں اس شخص کے لیے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے‘‘۔
قرآن سے نصیحت حاصل کرنے کی دو کنڈیشنز بتائی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ بے شک اس قرآن کے اندر نصیحت ہے اس شخص کے لئے جس کا دل بنا ہو۔ دوسری یہ کہ کسی ایسے شخص کی زبان سے سنے جو بنا ہوا ہو۔
اسی لئے جب آپ ﷺ کی زبان مبارک سے لوگ قرآن سنتے تھے تو بدل جاتے تھے۔ کتنے سارے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے آپ ﷺ سے قرآن سنا اور بدل گئے، مسلمان ہو گئے۔ جیسے طفیل دوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن سن کر ہی مسلمان ہوئے۔ اس طرح اور بہت سارے لوگ قرآن کے ذریعے سے اسلام میں آئے ہیں۔
ہمارے بزرگوں میں ایک بزرگ مولانا عبد الحق نافع صاحب رحمۃ اللہ علیہ گزرے ہیں۔ ان کے بیٹے مولانا عبد اللہ کاکا خیل رحمۃ اللہ علیہ اسلامی یونیورسٹی میں dean تھے۔ جب انہوں نے حفظ مکمل کیا تو ان کو والد صاحب نے دوبارہ قرآن حفظ کرایا کہ اب اس طرح حفظ کرو کہ تمہارے قرآن کو سن کر کوئی عرب کافر مسلمان ہو جائے۔ اسے اس لہجہ میں اس طریقے سے دوبارہ قرآن یاد کروایا ۔
تو اس میں مختلف stages ہوتی ہیں ۔ ہر کوئی ایک جیسا نہیں ہے۔
سوال نمبر16:
مراقبہ is usually done on something present and concentrate on it but in our مراقبہ we concentrate on قلب to hear اللہ اللہ how do how to do it all I hear is emptiness and silence how to explain this?
جواب:
اس بات کو واقعی سمجھایا نہیں جا سکتا۔ اس لئے کہ اس کی گرہ ہاتھ میں نہیں آتی۔ کیونکہ دل کسی کے قابو میں نہیں ہے۔ دل پر کسی کا اختیار نہیں ہے۔ لیکن آپ جس وقت تصور کرنے لگیں گے کہ ہر چیز اللہ کو یاد کر رہی ہے،میرا دل بھی ایک چیز ہے وہ بھی اللہ اللہ کر رہا ہے اور میں اس کو سن رہا ہوں۔ تو ایک وقت کے بعد ایسا ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث شریف میں ہے کہ
"اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ" (صحیح بخاری: حدیث نمبر: 7405)
ترجمہ: ’’میں بندے کے اس گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے ۔‘‘
اب اگر آپ کا یہ گمان پکا ہے اور آپ اس پکے گمان کے ساتھ تصور میں بیٹھ گئے ہیں تو ایک دن یقیناً آپ کا دل بولنے لگے گا۔
ہمارے پاس جتنی خواتین ہیں ان میں تقریباً 60 فیصد کے ساتھ ایسا معاملہ ہے کہ چالیس دن کے بعد ان کا دل ذکر کرنا شروع کر لیتا ہے۔ خواتین کے ساتھ آسان ہے کیونکہ ان کو یکسوئی ہوتی ہے۔ ایسے ایسے واقعات بھی ہمیں خود خواتین نے بتائے ہیں کہ جب ان کا لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ کا ذکر پورے جسم کے اوپر حاوی و طاری ہو گیا تو ان کی چارپائی اس کے ساتھ ہلنے لگی۔ ایسی خواتین بھی ہیں کہ جب ہم بنوری لطائف کا ذکر کراتے تھے تو لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ کے ساتھ باقاعدہ ان کا سر ہلنے لگا۔ جس پہ میں بڑا فکر مند ہو گیا کہ لوگ کہیں گے کہ ان کو شوریدہ سری کی بیماری ہو گئی ہے۔ اور وہ بتا بھی نہیں سکتی کہ کس وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔ تو ہمیں اس system کو change کرنا پڑا۔
یہ ساری تفصیل بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جب آپ مستقل مزاجی کے ساتھ یہ معمول جاری رکھیں تو ایک دن دل بھی ذکر کرنا شروع ہو جائے گا۔ ہمارے مریدین میں جو مرد حضرات پہلے کہتے تھے نہیں ہو رہا ایک دن وہ خود کہنے لگے کہ اب ہو رہا ہے۔ ساری چیزیں ہو سکتی ہیں بس یہ بات دھیان میں رکھیں کہ
"اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ" (صحیح بخاری: حدیث نمبر: 7405)
ترجمہ:’’ میں بندے کے اس گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے ۔‘‘
سوال نمبر17:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت پچھلے مثنوی شریف کے درس میں آپ نے فرمایا تھا کہ آپ ﷺ کا تکوینی فیض پچھلے انبیاء کرام نے حاصل کیا تھا اور تشریعی فیض صحابہ کرام نے حاصل کیا۔ کیا انبیاء کرام نے جو اس امت میں شامل ہونے کی دعا کی تھی وہ اس تشریعی فیض کو حاصل کرنے کی دعا کی تھی؟
جواب:
یہ اس معنی میں کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ کے آنے سے پہلے جو کچھ بھی پیدا ہوا وہ آپ ﷺ کے نور سے پیدا کیا گیا۔ یہ فیض سب نے حاصل کیا ہے۔ یہ تکوینی فیض ہی تھا۔ آپ ﷺ کی برکت سے ان انبیاء کرام کے ساتھ جو مدد ہوتی تھی، جن میں آپ ﷺ کا توسل مبارک چلا آ رہا تھا وہ بھی تکوینی فیض تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت آپ ﷺ نے براہ راست فرمائی۔ ان کو علوم بھی آپ ﷺ کے ذریعے عطا ہوئے۔ جیسا کہ قرآن مجید واضح طور پر فرمایا گیا ہے:
﴿یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ و یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ وَ یُزَکِّیْھِمْ﴾ (آل عمران:164)
ترجمہ:’’ ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انھیں پاک صاف بنائے اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے۔‘‘
یہ تشریعی فیض ہے۔ انبیاء کرام نے جو دعا کی تھی وہ آپ ﷺ کی امت میں شامل ہونے کی دعا کی تھی کیونکہ آپ ﷺ کی امت کو اللہ پاک نے ایک شان عطا فرمائی ہے۔ اس چیز کو انبیاء کرام جانتے تھے لہٰذا انہوں نے اس کی دعا تھی۔ انہیں بھی معلوم تھا کہ ہونا وہی ہے جو نظام اللہ کی طرف سے پہلے سے طے ہو چکا ہے۔ لیکن آپ ﷺ کی امت کی شان و فضیلت ان کے اوپر واضح ہو چکی تھی اس کی وجہ سے انہوں نے آپ ﷺ کی امت میں آنے کی دعا کی تھی۔
یہاں میں ایک اہم بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کا تشریعی فیض جو علمائے کرام اور مشائخ کے ذریعے تقسیم ہو رہا ہے وہ لے لو۔ لوگ کہتے ہیں نہیں ہم تکوینی فیض ہی لیں گے۔ ہماری بیماریاں درست ہو جائیں، ہمارے بچوں کی شادیاں ہو جائیں، ہمارے سارے دنیاوی کام درست ہو جائیں، ہمیں ایسا فیض چاہیے۔ ہماری اور لوگوں کی یہ بحث چلتی رہتی ہے۔ ہم بتاتے رہتے ہیں لیکن کوئی سننے والا ہو تو سنے۔ کچھ لوگ اپنے آپ کو خاص سمجھ کر کہہ دیتے ہیں کہ ہم خاص ہیں ہمارے اوپر پابندی نہیں ہے وہ اپنی چیزیں پیش کرتے ہیں۔ کچھ لوگ شاید نادانی کی وجہ سے کرتے ہوں گے لیکن بہرحال ہمارا یہ message لوگوں تک پہنچتا نہیں ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کا تشریعی فیض علماء اور مشائخ تقسیم کر رہے ہیں اس کو حاصل کرو اسی سے آپ کے تکوینی مسائل بھی حل ہوں گے۔لیکن اس بات کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔
سوال نمبر18:
ایک سوال ہے کہ ہم نے مقام توبہ میں یہ کیا تھا کہ ہر روز ایک گناہ سے توبہ کی تھی۔ لیکن ہم نے اس کو establish نہیں کیا تھا۔ کیا شعوری توبہ کے لئے یہ کافی ہے یا یہ صرف ایک نشان دہی تھی اور شعوری توبہ پوری زندگی میں چلتی رہے گی؟ جس وقت بھی کوئی گناہ سرزد ہو جائے ، اسی طریقے پر توبہ کر کے اس کے اسباب کے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ یا شیخ کا طریقہ اختیار کیا جائے کہ ہر گناہ سے شعوری توبہ کی تکمیل کے لئے ہر گناہ کو ایک ایک کر کے دور کرنا پڑے گا؟ جس کو حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مقامات سلوک کو تفصیل سے طے کرنا فرمایا ہے۔ حضرت وضاحت فرمائیں۔
جواب:
گذشتہ گناہوں سے توبہ کرنا ، یہ مرحلہ تب مکمل ہو جاتا ہے جب مقام توبہ طے کیا جاتا ہے۔ البتہ سلوک کے باقی مقامات establish کرنا ضروری ہے کیونکہ ان کے طے ہونے کے بعد آئندہ گناہ نہیں ہوتے اور جن کاموں کو کرنا ہو ان کے کرنے کی توفیق بھی ہو جاتی ہے۔ مثلاً مقام قناعت کے طے کرنے سے آپ کو قناعت حاصل ہو جائے تو آپ حرص کے گناہ سے بچ جائیں گے۔ مقام ریاضت طے کرنے سے آپ میں سستی ختم ہو گی اور سستی کی وجہ سے نماز، روزہ، حج وغیرہ اعمال نہیں چھوڑیں گے۔ اس طرح تقویٰ اور دوسرے مقامات کا طے کرنا ہے۔ مقامات سلوک سے مراد صرف گذشتہ گناہوں سے توبہ کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد آئندہ زندگی کو ایسا بنانا ہے کہ گناہوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ طاعات سر انجام دی جاتی رہیں۔
سوال نمبر19:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ میرا لطیفۂ قلب کا مراقبہ 15 منٹ کے لئے ہے۔ اس میں پہلے آپ کا ذکر جہری سننا ہوتا ہے پھر ”حَقْ“ کا ذکر قلبی کرنا ہوتا ہے۔ پہلے میری یہ کیفیت تھی کہ مراقبہ کے دوران دل بالکل خاموش رہتا تھا۔ کبھی کبھی نماز میں یا آپ محترم کے بیان میں دل جاری ہو جاتا تھا۔ اب کچھ دنوں سے یہ کیفیت ہے کہ مراقبہ میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل جاری ہے۔ اب یہ پتا نہیں کہ دل کا جاری ہونا کیسے ہوتا ہے۔ کئی لوگوں سے سنا تھا کہ دل بہت زور زور سے دھڑکتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی دل باہر آ جائے گا۔ مگر میرے دل کی دھڑکن بہت آہستہ ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ جب میں توجہ کر لیتا ہوں کہ اللہ پاک مجھے محبت سے دیکھ رہے ہیں تو دل کچھ کانپ سا جاتا ہے۔ آپ اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں اور مراقبہ کے بارے میں حکم فرمائیں کہ آگے کیا کرنا ہے۔
جواب:
در اصل دل کے جاری ہونے کے لئے اس کا زور زور سے دھڑکنا مطلوب نہیں ہے۔ اصل یہ بات ہے کہ بس آپ کو اللہ اللہ ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہو۔ یہ بات کافی ہے چاہے وہ آہستہ ہو رہا ہے چاہے تیز ہو رہا ہے۔
سوال نمبر20:
السلام علیکم حضرت جی امی اور بہن کا وظیفہ قرآن پاک کی تلاوت کے دوران یہ تصور کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے باتیں کر رہے ہیں، پورا ہو گیا ہے۔ اس وظیفہ سے قرآن پاک کی محبت اور عظمت دل میں بڑھ رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بھی۔
جواب:
ماشاء اللہ بہت اچھی بات ہے اسی وظیفہ کو ایک مہینہ اور بھی کر لیں ان شاء اللہ اس سے بہت فائدہ ہو گا۔
سوال نمبر21:
السلام علیکم!
My dear and beloved مرشد I hope you are well ان شاء اللہ حضرت جی in my new job I come across people from many different types of nationalization, nationalities some of which can’t speak very good English and I sometime find myself frustrated and impatient when I can’t understand them generally, I am not rude to people but sometime I in frustration I can be please can you offer me some advice حضرت جی.
جواب:
آپ اس طرح کر لیں کہ یہ assume کر لیا کریں کہ آپ ان کے سامنے کھڑے انگریزی بول رہے ہیں اور وہ آپ کو سن رہے ہیں اور آپ ان سے کیا expect کر رہے ہیں کہ آپ پر غصہ ہو جائے یا آپ کی بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس طرح جو آپ کا تاثر بنتا ہو ان کے ساتھ وہی معاملہ کریں۔ اس طرح کریں گے تو حدیث شریف پہ بھی عمل ہو جائے گا اور آج کل کی administration بھی یہی کہتی ہے کہ ایسے میں assume کر لیں کہ آپ ان کے سامنے ہیں۔
سوال نمبر22:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت والا مرشدی مولائی کی خدمت اقدس میں یہ سوال عرض ہے۔(جو شاید جواب کے قابل بھی نہ ہو تو معذرت چاہتا ہوں)۔ حضرت والا کی تعلیم مبارکہ سے یہ بات تو بالکل واضح ہو گئی کہ تقویٰ نفس میں بُری خواہشوں کو پامال کر کے، دبا کے اور نیکی اور اللہ کے احکام کو بجا لانے سے پیدا ہوتا ہے، اور قلب میں store ہوتا ہے ۔اور قلب گویا کہ ایک برزخ ہے۔ حضرت! کیا کوئی گناہ ایسے ہوتے ہیں جو صرف قلب میں پیدا ہوتے ہیں کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ وہ شخص جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ اگر تقویٰ کا آخری مقام مقام نفس ہے، جیسا کہ ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا﴾ (الشمس: 9) سے واضح ہے تو یہاں پر قلب کا ذکر کی کیا حکمت ہے؟
جواب:
سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ کفر اور ایمان دل میں ہوتا ہے۔ کفر سے بڑا گناہ تو کوئی نہیں ہے اور وہ دل میں ہے۔ کفر اور ایمان دونوں دل میں ہوتے ہیں لہٰذا یہ دل کی چیز ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تکبر حب جاہ سے ہوتا ہے اور حب جاہ کا شر نفس میں ہے ،وہی شر اس دل میں transfer ہوتا ہے کیونکہ دل جب اس کو مان لیتا ہے تو وہ چیز دل میں چلی جاتی ہے۔ جب فجور واقع ہو جاتے ہیں تو دل میں جاتے ہیں۔ تقویٰ بھی جب حاصل ہو جاتا ہے تو دل میں جاتا ہے۔ حب جاہ بھی نفس سےدل میں آتا ہے۔ شیطان کا حب جاہ نفس کی وجہ سے تھا۔ اس نے جو کہا تھا:
﴿اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُؕ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ﴾ (ص: 76)
ترجمہ: ’’میں اس ( آدم) سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو گارے سے پیدا کیا ہے۔‘‘
یہ کہاں سے آیا تھا۔ بقول حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس کو نفس نے گمراہ کیا تھا۔بڑائی کی چاہت نفس ہی کا تقاضا تھا، جب اس کو دل نے قبول کر لیا تو شیطان تباہ ہو گیا۔ لہٰذا حب جاہ نفس ہی سے آتا ہے ۔ اسے پہلے آپ نے نفس سے نکالنا ہوتا ہے پھر اس کا جو اثر دل میں آ چکا ہو، اس کو بھی نکالنا ہوتا ہے۔ جیسے میں نے حوض کی مثال دی تھی کہ حوض میں ہر طرف سے لائنیں آتی ہیں ، جب تک ان کو صاف نہ کریں اس وقت تک وہ حوض صاف نہیں ہو سکتا۔ جب وہ راستے صاف ہو جائیں تو اس کے بعد حوض کو بھی صاف کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح دل سے بھی مکمل طور پر فجور کا اثر نکالنا ہوگا، پہلے دل تک پہنچنے والے راستے صاف کرنا ہوں گے پھر خود دل کی صفائی کرنی ہو گی تب کہیں جا کر دل سے فجور کا اثر نکلے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ