اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَم النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر 1:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت! 5 لطائف میں 5، 5 منٹ کا مراقبہ تقریباً پچھلے 4، 5 سال سے جاری ہے، لیکن ابھی تک مراقبے میں فضول خیالات سے چھٹکارا نہیں پا سکا۔ ان لطائف پر مراقبہ احدیت، مراقبہ شان جامع، مراقبہ تنزیہ وغیرہ کر چکا ہوں، اب مراقبہ عبدیت جاری ہے۔ آپ سے مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فضول خیالات کے بارے میں ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جو چیز اختیار میں ہو اس میں سستی نہ کریں اور جو اختیار میں نہ ہو، اس کے درپے نہ ہوں۔ آپ حضرت کی اس بات کو اچھی طرح پلے باندھ لیں۔ بہت سارے لوگ اس مخمصے میں پھنسے ہوتے ہیں کہ فضول خیالات سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں۔ سیدھا سا حل ہے کہ جو چیز اختیار میں ہے اس میں سستی نہ کرو اور جو اختیار میں نہیں ہے اس کے درپے نہ ہو۔ ان شاء اللہ بہت تسلی اور سکون کے ساتھ آگے بڑھتے جائیں گے۔ اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ لوگ اس نکتہ کو سمجھتے نہیں ہیں۔ جو چیز اختیار میں نہیں ہوتی اس کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں اور جو کام اختیار میں ہوتے ہیں ان کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ انداز تھا کہ ان سے جب کسی مشکل حالت کے بارے میں پوچھا جاتا کہ اس میں کیا کرنا چاہیے تو پوچھتے کہ یہ اختیار میں ہے یا نہیں؟ اگر جواب یہ ہوتا کہ جی یہ ہمارے اختیار میں ہے، تو فرماتے کہ پھر کرتے کیوں نہیں۔ اگر جواب یہ ہوتا کہ اختیار میں نہیں ہے تو فرماتے کہ پھر اس کے پیچھے کیوں پڑے ہو۔
آپ کے مسئلہ میں بھی دو صورتیں ہیں۔ فضول خیالات کا آنا یا تو آپ کے اختیار میں ہے یا نہیں ہے۔ اگر اختیار میں ہے تو آپ ان کو ہٹا دیں۔ اگر آپ کے ہٹانے سے نہیں ہٹتے تو معلوم ہوا کہ غیر اختیاری ہیں۔ اس لئے آپ کے پیچھے نہ پڑیں، انہیں اپنے حال پہ چھوڑ دیں۔ ان کی پروا نہ کریں اور اپنے کام کی طرف متوجہ رہیں تو مسئلہ نہیں ہو گا۔ اس بات کو اس مثال سے سمجھیں کہ آدمی جس وقت گاڑی چلا رہا ہوتا ہے، تو سڑک پر اور بہت سی گاڑیاں آ جا رہی ہوتی ہیں، مختلف مناظر نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ یہ ڈرائیور ان سب چیزوں کو سڑک سے نہیں ہٹا سکتا، اس کے اختیار میں یہ بات نہیں ہے۔ کیا ایسی صورت میں اسے آگے بڑھنا اور ڈرائیونگ پر دھیان دینا چوڑ دینا چاہئے؟ وہ ہرگز ایسا نہیں کرتا بلکہ اپنا مکمل دھیان ڈرائیونگ پر اور سامنے کے راستہ پہ رکھتا ہے، جب وہ اپنا دھیان اصل چیز کی طرف رکھتا ہے تو باقی چیزوں کے آنے جانے سے خود بخود توجہ ہٹتی چلی جاتی ہے اور وہ اس کے مقصد و مشغلہ میں مخل نہیں ہو پاتیں۔ اس طرح کرتے کرتے وہ ایک وقت اپنی منزل پر بھی پہنچ جاتا ہے۔
چلنا کوئی نہیں چھوڑتا البتہ اپنے آپ کو بچتے بچاتے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ نگاہ اپنے مقصد پر ہوتی ہے۔ جو چیز مطلوب ہے اس کو دل میں لئے ہوئے آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنی منزل کے قریب ہو رہے ہوتے ہیں۔ صحیح طریقہ یہی ہے۔
جن لطائف کا آپ نے ذکر کیا ان تمام لطائف کا حال دل کی طرح ہی ہے۔ کیونکہ لطیفۂ قلب قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ باقی لطائف ظنی ہیں۔ انسان کی individual research سے ثابت ہیں۔ لہٰذا سارے سلسلے لطیفۂ قلب پر متفق ہیں۔ اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ جہاں تک باقی لطائف کا معاملہ ہے تو نقشبندی حضرات باقی لطائف کے قائل ہیں لیکن بعض دوسرے حضرات ان کے قائل نہیں ہیں۔ جبکہ کچھ حضرات کے نزدیک تفصیل یہ ہے کہ باقی لطائف بھی دل کی طرح ہی ہیں اگر دل پر control نہیں تو باقی لطائف پر بھی control نہیں ہو گا۔ لہٰذا دل پر توجہ دی جائے، اسی پہ محنت کی جائے، اس کے اندر جو بیماریاں ہیں انہیں دور کیا جائے۔ مثلاً کسی کے لئے دل میں کینہ نہ رکھو۔ کسی کے لئے برا نہ سوچو۔ اس کے علاوہ دل سے یہ محسوس کرو کہ اللہ پاک مجھے دیکھ رہے ہیں۔ یہ مراقبات اس لئے کروائے جاتے ہیں تاکہ فیض کا جاری ہونا محسوس ہو۔ یہ محض علم کے لئے نہیں ہوتے۔ علم تو پہلے سے ہوتا ہے، ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فیض محسوس ہو۔ محسوس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اوپر اس ذکر اور مراقبہ کا اثر ہو جائے۔ مثلاً اگر آپ کو آپ کے والد صاحب دیکھ رہے ہوں تو آپ بد نظری نہیں کریں گے بے شک آپ کے اندر کتنی ہی طلب ہو رہی ہو، یا جن کو بری نظر سے دیکھ رہے ہیں ان کا والد موجود ہو تب بھی آپ ایسا نہیں کریں گے، یا کوئی اور بڑا موجود ہو تب بھی آپ ایسا کام کرنے سے ہچکچائیں گے۔ اللہ پاک چونکہ سب سے بڑے ہیں جب آپ اس کی ذات محسوس کریں گے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے تو پھر آپ اس کے سامنے بھی برے کام نہیں کریں گے۔ لطائف میں یہی محسوس کرایا جاتا ہے اور اسی پر محنت کرائی جاتی ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں۔ حضراتِ نقشبند کے ہاں جو لطائف کا سلسلہ ہے یہ اصل میں عقائد کو پختہ کرنے کے راستے اور طریقے ہیں۔ مثلاً ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْد﴾ (البروج: 16) کا مراقبہ یہ ہے کہ اس بات کا تصور کرنا کہ اللہ پاک جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اسی طرح کچھ مراقبات صفات تنزیہیہ کے ہوتے ہیں۔ ان میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اللہ پاک ایسے نہیں ہیں، یعنی اللہ پاک انسانوں والی صفات، کمزوری والی صفات سے پاک ہیں۔ یہ مختلف مراقبات صرف اس لئے کرائے جاتے ہیں تاکہ ہمارے concepts عالم محسوسات میں آ جائیں اور پھر ہم اس سے فائدہ اٹھائیں۔
آپ بھی اسی طریقہ کو اختیار کریں اور اپنا مکمل دھیان اور توجہ مقصد و منزل کی طرف رکھیں، ان تمام مراقبات کا اصل مقصد اسی چیز کی مشق کرنا ہے کہ آپ میں یہ چیز راسخ ہو جائے، حالات و خیالات کیسے بھی ہوں مگر آپ کا دھیان اصل چیز سے نہ ہٹے۔ باقی چیزیں آتی جاتی رہیں گی لیکن وہ آپ کو پریشان نہیں کر پائیں گی۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم، حضرت جی! میرے معمولات پہلے صحیح ہو رہے تھے لیکن گزشتہ ایک ماہ سے درست نہیں ہو پا رہے۔ صرف نماز اور قرآن کی تلاوت کر رہی ہوں۔ تسبیحات رہ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ دنوں سے میری طبیعت خراب ہے۔ حضرت جی کوئی ایسی تسبیحات بتائیں جن سے میں ٹھیک ہو جاؤں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟
جواب:
تقریباً اسی قسم کی باتیں ہمیں روزانہ سننے کو ملتی ہیں۔
دیکھیں دو باتیں ہیں۔
ایک یہ کہ اللہ پاک کی طرف اللہ کے لئے متوجہ ہو جانا کہ اللہ مجھ سے راضی ہو جائے۔ یہ اصل ہے اور ہمارا main target یہی ہے کہ للہ فی اللہ، للہ اللہ کی طرف قدم بڑھایا جائے۔
دوسری بات یہ کہ کسی تکلیف کے آنے پر اللہ پاک کی طرف متوجہ ہو جانا۔ یہ ہماری عادت تو ہے لیکن یہ اصل توجہ نہیں ہے۔ یہ وقتی طور پر ہوتی ہے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ مصیت آنے پہ اللہ کی طرف توجہ مل گئی، اور مصیبت کے ختم ہونے پہ اللہ کی طرف توجہ بھی ہٹ گئی اور تعلق ختم ہو گیا۔ اس کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے:
﴿وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ﴾ (لقمان: ٣٢)
ترجمہ: ”اور جب موجیں سائبانوں کی طرح ان پر چڑھ آتی ہیں تو وہ اللہ کو اس طرح پکارتے ہیں کہ اس وقت ان کا اعتقاد خالص اسی پر ہوتا ہے۔ پھر جب وہ ان کو بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو ان میں سے کچھ ہیں جو راہ راست پر رہتے ہیں (باقی پھر شرک کرنے لگتے ہیں) اور ہماری آیتوں کا انکار وہی شخص کرتا ہے جو پکا بد عہد، پرلے درجے کا ناشکرا ہو“
یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جب مشکل میں پڑتے ہیں تو اللہ کی طرف اخلاص کے ساتھ متوجہ ہو جاتے ہیں، لیکن جب ان کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو پھر ان میں بہت کم لوگ اپنی اس حالت پہ قائم رہتے ہیں زیادہ تر دوبارہ پہلی حالت کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جو لوگ مشکل میں اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، اللہ پاک تو ان کو جواب دیتے ہیں اور ان کے مسائل حل کرتے ہیں لیکن لوگ بڑے بے وفا ہیں، پھر بھول جاتے ہیں۔
ایک مرتبہ مجھے سعودیہ عرب سے ایک خاتون کی کال آئی، کہنے لگیں کہ میں گزشتہ دو سال سے آپ سے بیعت ہوں۔ آج کل ہمارے گھر کے حالات عجیب ہو گئے ہیں، کہیں کٹے ہوئے کپڑے مل رہے ہیں، کہیں خون کے دھبے لگے ہوتے ہیں۔ اس کے بارے میں بتائیں کہ ہم کیا کریں۔ میں نے اس سے کہا کیا میں نے کبھی کہا ہے کہ میں عامل ہوں؟ کہنے لگیں کہ آپ نے ایسا کچھ نہی کہا۔ میں نے کہا تو پھر آپ نے مجھے عامل کیوں سمجھا! کیا مجھ سے بیعت اس لئے کی تھی کہ میں عامل ہوں؟ اگر ایسا ہے تو پھر میں اپنی بیعت واپس لیتا ہوں۔ آپ کو یہ غلط فہمی ہے کہ میں عاملوں والے کام بھی کرتا ہوں۔ میں ہرگز کوئی عامل نہیں ہوں۔ مجھے تو بزرگوں نے اصلاحی کام کے لئے بٹھایا ہوا ہے اگر آپ اپنی اصلاح کے لئے تعلق قائم رکھنا چاہتی ہیں تو آپ مجھ سے ضرور رابطہ کریں۔
میں نے ان سے مزید یہ کہا کہ ان دو سالوں میں آپ نے مجھے کبھی اپنے معمولات کے بارے میں نہیں بتایا، جو ذکر آپ کو دیا گیا تھا اس کے بارے میں نہیں بتایا کہ آپ کر رہی ہیں یا نہیں۔ اب دو سال کے بعد آپ کو مصیبت پیش آگئی تو آپ نے مجھ سے رابطہ کر لیا۔ اب آپ تین دن تک سوچیں، اور اگر آپ کو لگے کہ آپ واقعی مجھے اصلاح کے لئے اپنا شیخ چن رہی ہیں تو ضرور رابطہ کریں، اور اسی کے بارے میں آپ کی ہم سے بات ہوگی اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہماری طرف سے سلام ہے۔
میں آپ سب کو ایک بات کہتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ وفا کرو اللہ پاک تمہیں کبھی مایوس نہیں کریں گے۔ اللہ پاک اپنا ہاتھ ہمیشہ اوپر رکھتے ہیں۔ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ تم کچھ اچھا کرو اور اللہ پاک تمہارے ساتھ اس سے زیادہ اچھا نہ کریں! ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے:
”مَنْ تَوَاضَعَ للّٰہِ فَقَدْ رَفَعهُ اللّٰہ“ (مشکوۃ المصابیح: كتاب الآداب » باب الغضب والكبر۔ 5119 )
ترجمہ: جس نے اللہ کے لئے اپنے آپ کو گرایا اللہ پاک نے اس کی عزت بڑھا دی۔
قرآن میں ہے:
﴿وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ﴾ (البقرہ: 154)
ترجمہ: ”اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو، در اصل وہ زندہ ہیں مگر تم کو (ان کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا“
ایک جگہ فرمایا کہ تم ان کو مردہ گمان بھی نہ کرو۔ یعنی ان کو ایسی عظیم حیات حاصل ہے جس کے بعد مردہ ہونے کا گمان بھی نہیں ہو سکتا۔ ان کو یہ سب مقام اس لئے دیا گیا کہ انہوں نے اللہ پاک کے لئے جان قربان کر دی۔
اس طرح مال کے بارے میں فرمایا:
﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ﴾ (البقرہ: 276)
ترجمہ: ”اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔“
یعنی جو اللہ کے لئے مال خرچ کرتا ہے اللہ ان کے مال بڑھا دیتا ہے۔ جو اللہ پاک کے لئے جان دیتا ہے اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر لیتا ہے۔ جو اللہ کے لئے عزت قربان کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ ان کی عزت ہمیشہ کے لئے بلند کر لیتے ہیں۔
تو ان سے میں نے کہا کہ تم اللہ کے لئے آؤ، اپنی اصلاح کے لئے آؤ۔ تم اپنی نیت درست کرو، اللہ کے لئے خالص کر لو پھر دیکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سارے مسائل کیسے حل کرتے ہیں۔ اس کے بعد باقی مسائل خود حل ہو جائیں گے۔ وہ اللہ پاک کا کام ہے۔ اللہ پاک کے ساتھ ہمیشہ حسن ظن رکھنا چاہیے۔ اللہ فرماتے ہیں:
”اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِی“ (صحیح بخاری: 7450)
ترجمہ: میں لوگوں کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتے ہیں۔
اگر آپ اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ اچھا معاملہ ہی کریں گے۔ اگر آپ کے دل میں چور ہے تو آپ کے ساتھ اسی کے مطابق معاملہ کیا جائےگا۔
لہٰذا ہم سے رابطہ صرف اس لئے کریں کہ اللہ پاک کا تعلق حاصل ہو جائے، باقی چیزیں اللہ پہ چھوڑ دیں۔ اور اللہ سے مانگیں، اللہ پاک سنیں گے اور مشکلات حل فرما دیں گے۔ اللہ پاک سے مانگنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔ تہجد کی نماز پڑھ کر اللہ پاک سے اپنے لئے دعا کریں۔
قرآن پاک میں ہے:
﴿اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ﴾ (النمل: 62)
ترجمہ: ”بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بے قرار اسے پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے“
جب آپ مضطر ہیں اور بے قرار ہیں، اور تہجد کے وقت اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر تہجد پڑھ لی اور گڑگڑا کے رونا شروع کر لیا، اللہ کے سامنے اپنے آپ کو گرا دیا۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ پاک نہ سنے اور قبول نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو اس وقت باقاعدہ اعلان ہوتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا جس کو عطا کروں؟
اور اس مانگنے میں اللہ پاک کی طرف سے ایسی کوئی تخصیص نہیں کہ جو آخرت مانگے گا اسے تو دوں گا لیکن جو دنیا کی چیز مانگے گا اسے نہیں دوں گا۔ بلکہ سب چیزیں مانگ سکتے ہو، کوئی پابندی نہیں ہے۔ بس اتنی شرط ہے کہ مانگو۔ اور اس وقت مانگو جب اس کی طرف سے اعلان ہو رہا ہو کہ ہے کوئی مانگنے والا جسے میں عطا کروں۔
ہم یہی کہتے ہیں کہ مشکلات کے حل کے لئے اور دنیا کے کاموں کے لئے تمام جائز اسباب ضرور اختیار کرو لیکن صحابہ جس ذریعہ اور سبب کو اول نمبر پہ رکھتے تھے اس کو سب سے زیادہ اہمیت دو۔ صحابہ کے ہاں تو یہی چیزیں تھیں اللہ پاک سے مانگنا، تہجد کے وقت سجدہ میں گر کر گڑگڑانا، صلوۃ حاجت پڑھنا۔ یہی چیزیں ہوتی تھیں۔ جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا:
﴿وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ﴾ (البقرہ: 45)
ترجمہ: ”اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔“
آپ بھی اس بات کو سمجھیں اور سب سے پہلے توبہ کریں۔ اپنی نیت درست کریں، ہم سے رابطہ صرف اپنی اصلاح کے لئے رکھیں اور باقی چیزیں اللہ تعالیٰ سے مانگیں۔ مانگنے کا طریقہ بھی میں نے بتا دیا۔ اس طریقہ سے مانگیں۔ اللہ پاک دینے والے ہیں ان شاء اللہ ضرور دیں گے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم! حضرت جی، جب کوئی کام ہماری مرضی اور ہماری امیدوں کے مطابق نہیں ہوتا تو ہم زبان سے تو کہہ دیتے ہیں کہ جیسے اللہ کی مرضی ہو گی وہی ہوگا۔ لیکن دل سے اس پر مطمئن نہیں ہوتے۔ اس کی اصلاح کیسے ہوتی ہے، ہماری ایسی کیفیت کیسے بن سکتی ہے کہ ہم دل سے اللہ کی رضا پہ راضی ہو جائیں؟
جواب:
آپ کے ذمہ صرف وہی کام ہے جو آپ کے اختیار میں ہے۔ جو چیز آپ کے اختیار میں نہیں ہے آپ اس کے مکلف ہی نہیں ہیں۔ ایسے کاموں کے لئے آپ صرف ایک کام کر سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ دعا مانگتے رہیں۔ دعا ایک ایسی چیز ہے جو اختیاری اور غیر اختیاری دونوں کے لئے ہے۔ دعا میں کوئی ایسی پابندی نہیں ہے کہ اختیاری چیز کے لئے دعا کی جائے اور غیر اختیاری کے لئے نہ کی جائے۔ لہٰذا جو چیز اختیار میں ہو، اسے خود کرو اور جو چیز اختیار میں نہ ہو اسے اللہ تعالیٰ سے مانگو اور جو اسباب مہیا ہوں انہیں اختیار کرو۔
مثلاً ایک کمرہ دوسری منزل پہ ہے۔ وہاں تک پہنچنے کے لئے پندرہ، بیس سیڑھیاں چڑھ کر جانا پڑتا ہے، اگر آپ چاہیں کہ میں سیڑھیوں پہ چڑھے بغیر فوراً اوپر پہنچ جاؤں تو یہ ایک فضول سوچ ہے۔ ہاں! اللہ پاک سے پھر بھی مانگ سکتے ہیں۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے، اس کی قدرت سے یہ بات بھی ممکن ہے کہ آپ بغیر سیڑھیوں کے چھت پہ پہنچ جائیں۔
آپ کی زبان آپ کے اختیار میں ہے اس لئے اسے صحیح استعمال کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ دل میں مختلف خیالات کا آنا آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس لئے دل میں خیالات آنے سے روکنے کی ذمہ داری بھی آپ پر نہیں ہے۔ اور اسی وجہ سے وساوس آنے پر کوئی گرفت بھی نہیں ہوتی۔ خواہ وسوسہ کفریہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے لیے بس آپ دعا ہی کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کو یہ فکر رہتی ہے کہ میں زبان سے تو اللہ کی مرضی پر رضا مندی ظاہر کر دیتا ہوں مگر میرا دل کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ تو اس بات کی پروا نہ کریں۔ اگر آپ کا عمل ٹھیک ہے تو بالکل پریشان نہ ہوں۔ زبان سے شکایت نہ کریں اور عمل میں سستی نہ کریں۔ آپ کے ذمہ بس یہی ہے۔ باقی دل کو مطمئن کر دینا، یہ جب اللہ پاک چاہیں گے تب کروا دیں گے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم میرے پیارے محترم مرشد دامت برکاتہم! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ نے دوسرے نمبر پر میسج کرنے سے منع کیا ہے۔ لیکن پہلے مجھے اس ممانعت کا علم نہیں تھا، میں نے کچھ میسج کر دیے۔ جس پر میں تہہ دل سے معافی مانگتا ہوں۔ ان شاء اللہ آئندہ اس طرح نہیں ہو گا۔ میں نے آپ کی دعاؤں اور توجہ سے عزم کر لیا ہے کہ میں اپنی تمام قضا نمازوں کو پورا کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان شاء اللہ۔
جواب:
ماشاء اللہ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ الله جل شانہ نے آپ کو بہت اچھی فکر عطا فرمائی ہے۔ کسی کو آپ کی وجہ سے تکلیف ہوئی ہو تو اس سے معافی ضروری ہے۔ البتہ مجھے اس سے تکلیف نہیں ہوئی کیونکہ آپ کو پتا نہیں تھا کہ میں نے منع کیا ہے، آپ نے تو نادانستگی میں ایسا کیا۔ اگر ہمارے منع کرنے کے بعد قصداً یہ کام کرتے تب معافی مانگنے کی ضرورت ہوتی۔ لہٰذا آپ پر کوئی عذر نہیں ہے۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! الحمد للہ منزل، تلاوت، مناجات مقبول، چہل درود شریف اور تسبیحات پہ پابندی جاری ہے۔ البتہ سنتوں کو عمل میں لانے کے لئے باقاعدہ اسوۂ رسول اکرم ﷺ کا مطالعہ ابھی شروع نہیں کیا۔ جوڑ میں ”علیکم بسنتی“ اور ”اسوۂ رسول اکرم ﷺ“ کی تعلیم میں بیان کی جانے والی سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ انہی تعلیمات کی برکت سے جن سنتوں پر عمل نصیب ہوا ہے۔ وہ یہ ہیں، رات کی سنتوں پر عمل، رات کو سنت طریقے سے سونا، بستر جھاڑنا، گھر میں داخل ہونے کے لئے دعا اور گھر سے نکلنے کی دعا، اکڑوں بیٹھ کر کھانا کھانا، کھانا کھا کر برتن پہلے اٹھانا۔ اگر گھر والے مصروف ہوں تو خود برتن اٹھا لیتا ہوں۔ آپ نے مجھے فرمایا تھا کہ میرے لئے مقام قناعت اور مقام زہد زیادہ اہم ہے۔ ان مقامات پر محنت کے سلسلے میں اپنے اندر کمی محسوس کر رہا ہوں۔ ان مقامات کے حصول کے سلسلے میں زیادہ تر اپنے کھانے پینے پہ قناعت اختیار کرنے پہ توجہ دے رہا ہوں۔ دوپہر کا کھانا چھوڑ دیا ہے، چائے ایک وقت کر دی ہے اور چینی سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ لیکن جس وقت کھاتا ہوں، تو خوب پیٹ بھر کر کھاتا ہوں۔ اس بات پر ابھی تک قابو نہیں پا سکا۔ آج کل مزید ایک کوشش کر رہا ہوں کہ جس طرح چینی سے جان چُھڑا لی، اس طرح انڈا کھانے سے بھی جان چُھڑا لوں۔ لیکن ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی۔
جواب:
اللہ تعالیٰ معمولات پر مزید استقامت نصیب فرمائے۔ سنتوں کو عمل میں لانے کے لئے اسوۂ رسول اکرم ﷺ کے مطالعہ کی یہ ترتیب بنائیں کہ ابتداءً اتنا مطالعہ کریں کہ آپ کو ایک ٹارگٹ مل جائے۔ ایک راستہ مل جائے، پھر اس پہ چل پڑیں۔ کیونکہ یہاں جوڑ میں گنی چنی سنتوں کا مذاکرہ کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جوڑ میں ہر بار کچھ نہ کچھ نئے لوگ ہوتے ہیں، اس لئے ہر بار وہی مخصوص سنتوں کا مذاکرہ کیا جاتا ہے۔ جو چوبیس گھنٹے میں زیادہ تر عمل میں آ سکیں۔ وہ ایک ابتدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد آگے آپ نے خود مطالعہ کر کے سنتوں کو عمل میں لانے کا ہدف رکھنا ہے اور تدریجاً تھوڑا تھوڑا کر کے تمام سنتوں کو زندگی میں لانا ہے۔
ہمارے علاقہ میں باچا خان ایک سیاسی leader گزرے ہیں ۔ جب اس نے سیاسی تحریک شروع کی تو ایک بار جلسہ میں ان کے stage سے کچھ اشعار پڑھے گئے۔ ان میں کچھ اشعار عورتوں کی طرف سے تھے۔ جو کچھ اس طرح تھے:
”د سړو نه پوره نه شوه خان باچا خانه جینکۍ به دي ګټینه“
یعنی: ”باچا خان اگر تمہارا سیاسی ہدف پورا کرنے کے لیے مرد ناکافی ہیں، تو ہم عورتیں تمہاری لاج رکھیں گی“میں اسی کے لئے کہتا ہوں کہ سبحان اللہ خواتین آپ مردوں سے بہت آگے ہیں۔ ان کی reports جان کر مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ ہر ہفتے ان کی رپورٹ آتی ہے کہ ماشاء اللہ انہوں نے کئی نئی سنتوں کو اپنی زندگی میں شامل کیا ہے، اور مزید دعائیں یاد کی ہیں۔ انہوں نے سنتوں کو عمل میں لانے اور دعائیں یاد کرنے کے لئے ایک گروپ بنایا ہوا ہے اس میں ساری ایکٹوٹی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ انہوں نے شروع کیا ہے. وہ بچوں کو دعائیں بھی یاد کراتی ہیں۔ اگر اس معاملے میں ان خواتین کی ہمت کے قصے سناؤں تو پوری ایک کتاب بن جائے گی۔ یہ سب بتانے سے میرا مقصد یہ ہے کہ اگر انسان ہمت کرے تو زندگی کو سنتوں پہ لانا نا ممکن نہیں ہے۔ نقشبندی سلسلے کا مجاہدہ یہی ہے کہ سنتوں پر عمل کرنے میں جو کوشش کرنی پڑے اسے برداشت کریں۔ کیونکہ سنتوں کو زندگی میں لانا اور ان پر عمل کرنا مجاہدہ کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔
بہرحال ہر ایک کی ترتیب اپنی اپنی ہوتی ہے۔آپ اسوۂ رسول اکرم ﷺ کا مطالعہ شروع کریں اور اس میں بتائی گئی سنتوں پر آہستہ آہستہ اپنے آپ کو لاتے رہیں۔ ان شاء اللہ العزیز اللہ پاک کی طرف سے مدد ہو گی۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم حضرت صاحب!
When I am performing مراقبہ on لطیفۂ روح my left feet hurts during last five to seven minutes of ذکر, may I do it in سجدہ or some other position?
جواب:
سب سے پہلے یہ کریں کہ مراقبہ کے مختلف طریقے ہیں، تمام طریقوں سے مراقبہ کر کے دیکھیں، جس طریقے میں یہ مسئلہ پیش نہ آئے اسے اختیار کر لیں۔ اس کے علاوہ کسی ایسے ڈاکٹر سے رابطہ کریں جو اس قسم کی بیماریوں کے علاج و تشخیص میں ماہر ہو۔ ہو سکتا ہے جب آپ کسی خاص posture میں بیٹھ کر مراقبہ کرتی ہوں تو جسم کے کسی حصے پہ دباؤ پڑنے کی وجہ سے blood circulations وغیرہ سے متعلقہ کوئی مسئلہ پیش آتا ہو، جس کی وجہ سے آپ کو درد محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر سے بھی رجوع کر لیں، چیک اپ کروا لیں۔ اور مختلف طریقوں سے بیٹھ کر دیکھیں۔ جس طریقے میں درد کم ہوتا ہو یا بالکل نہ ہوتا ہو اس طریقے سے بیٹھ کر مراقبہ کر لیا کریں۔
اور نوٹ کریں کہ آپ کو کس طرح بیٹھنے سے درد محسوس ہوتا ہے، ڈاکٹر کو وہ ساری تفصیل بتائیں۔ امید ہے کہ ان باتوں پر عمل کرنے سے آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
سوال نمبر 7:
حضرت محترم شاہ صاحب! میں نے آپ کی کتاب فہم التصوف کا مطالعہ مکمل کر لیا ہے۔ غالباً 21 جون 2018 کو آپ کی اجازت سے اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا تھا جو آج مورخہ 26 نومبر کو مکمل ہوا۔ اللہ تعالیٰ مجھے اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ میں نے جون 2018 میں آپ کی ساری کتابیں پاکستان سے منگوائیں تھیں۔
میں نے 44000 مرتبہ درود شریف ”وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِی“ پڑھ لیا ہے۔ الحمد للہ۔ دورد شریف پڑھتے ہوئے اعصاب پہ بہت بوجھ ہوتا ہے۔ ایک گھنٹہ میں بمشکل 1000 کی تعداد میں پڑھ پاتا ہوں۔ اسی طرح قرآن پاک کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھتے ہوئے طبیعت شدید بھاری رہتی ہے۔ نماز کے بعد 3 بار کلمہ، 3 بار درود ابراہیمی اور تسبیحات فاطمی پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر رہا ہوں۔ لیکن میں ہمت نہیں ہارتا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق سے ہمت کر کے سب معمولات مکمل کر لیتا ہوں۔
جواب:
نیک کام پر ویسے تو اجر ملتا ہے لیکن اگر اس نیک کام کرنے میں کسی قسم کی مشکل پیش آ رہی ہو، اس کے باوجود اس کام کو مستقل مزاجی سے جاری رکھا جائے تو اس کا اجر بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ آپ کو وہ کام کرنے میں جتنی مشکل پیش آتی ہے، اتنا زیادہ اجر ملتا ہے۔ قرآن پاک میں مجاہدہ پر ہدایت کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔
﴿وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: ”اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انھیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے“
سنتوں پہ عمل کرنے کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ انسان پر ہونے والے جادوئی، سفلی اور شیطانی اثرات کا توڑ ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے ایک ساتھی پہلے عامل تھے۔ ہمارے ساتھ رابطہ کے بعد انہوں نے عملیات سے کنارہ کشی اختیار کی۔ عامل حضرات کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ جب وہ عملیات چھوڑتے ہیں، تو ان چیزوں سے آسانی سے پیچھا نہیں چھوٹتا۔ اور عملیات چھوڑنے کے بعد بھی ان کے اثرات تنگ کرتے رہتے ہیں۔ ان اثرات کا مقابلہ کرنے کا اور مکمل ختم کرنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی روحانیت مضبوط کی جائے۔ لیکن عملیات سے متعلقہ چیزیں جنات و شیاطین، روحانیت کو آسانی سے مضبوط نہیں ہونے دیتے، مسلسل رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ان سے بچنے کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ ہمت کر کے مقابلہ کرتے رہیں۔ ہمت نہ ہاریں۔ سنتوں پر عمل کو بڑھاتے رہیں۔ جیسے جیسے سنتیں زندگی میں آئیں گی، اتنی ہی روحانیت بڑھتی جائے گی اور یہ شیاطین وغیرہ دور ہوتے جائیں گے۔
اگر کسی کو فالج ہو جائے اور اس کا ہاتھ کام نہ کرے۔ تو ڈاکٹر حضرات اس کے لئے یہ تجویز کرتے ہیں کہ خواہ ہاتھ ہلتا ہے یا نہیں، لیکن کوشش کرتے رہو، بس کوشش پہ سارا دار و مدار ہوتا ہے۔ spiritual معاملات میں بھی یہی معاملہ ہوتا ہے کچھ چیزیں اسی طرح حاصل ہوتی ہے کہ مستقل مزاجی اور ہمت کے ساتھ انہیں کرتے رہنا ہوتا ہے، ان کا اثر آہستہ آہستہ شروع ہوتا ہے، آخر کار ایک عرصہ بعد بہت ترقی ہو جاتی ہے۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم! حضرت جی، کل میں اپنی بچی کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک میری کمر سے آواز نکلی اور شدید درد چھڑ پڑی۔ میں بستر پر لیٹ گیا۔ مجھے خیال آیا کہ یہ کہیں میرے لئے خطرے کی گھنٹی تو نہیں! کہیں مجھے کسی بات پر متنبہ تو نہیں کیا جا رہا۔ کیونکہ کچھ عرصے سے فجر کی نماز، ذکر، معمولات کا chart بھرنے اور آپ سے رابطہ میں کوتاہی ہو رہی تھی۔ میں اپنی صحت کا بھی کچھ خیال نہیں رکھ پا رہا تھا۔ لیکن اب میں نے ساری چیزوں سے توبہ کی ہے، ذکر شروع کر لیا ہے۔ طبیعت بھی کچھ بہتر ہو گئی۔ الحمد للہ نماز پڑھنے کے قابل ہوں اور ذکر بھی کر پا رہا ہوں۔ استقامت کے لئے دعاؤں کی درخواست ہے۔ میرا علاجی ذکر یہ چل رہا تھا۔ 200 مرتبہ ”لَآ إِلهَ إِلَّا اللّٰه“، 400 مرتبہ ”إِلَّا اللّٰه“، 600 مرتبہ ”اللّٰہُ اللّٰہ“ اور 1000 مرتبہ ”اللّٰہ“۔ کیا اسی کو جاری رکھوں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے۔
جواب:
ماشاء اللہ! کسی تکلیف کے پہنچنے پر متنبہ ہو جانا اور اپنے اعمال درست کر لینا۔ یہ بھی عظیم نعمت ہے۔
ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو فالج تھا، جو مزید بڑھ رہا تھا۔ بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گیا کہ ڈاکٹروں نے سجدہ کرنے سے منع کر دیا۔ کیونکہ اس سے دل پہ اثر پڑ رہا تھا۔ حضرت نے ڈاکٹروں کے مشورہ کے مطابق سجدہ چھوڑ تو دیا لیکن پریشان بہت ہوئے۔ ان دنوں نئے نئے calculator آئے تھے۔ میں نے 6 operations کا ایک second hand calculator لیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد جب مجھے first hand operation مل گیا تو میں نے پہلا کیلکولیٹر حضرت کو ہدیہ کر دیا۔ حضرت نے اپنے پاس رکھ لیا۔ جب یہ معاملہ پیش آیا کہ فالج کی وجہ سے ڈاکٹروں نے سجدہ کرنے سے منع کیا تو ایک دن حضرت نے مجھے فرمایا کہ میں نے آپ کے calculator سے حساب لگایا ہے کہ میرے کتنے سجدۂ تلاوت رہ گئے تھے۔ مجھے خیال آیا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ تلاوت کے سجدے چھوٹنے کی وجہ سے مجھے نماز کے سجدوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ تو میں نے وہ سجدۂ تلاوت جو رہ گئے تھے، ادا کرنے شروع کر دیے ہیں۔ اس وقت اشارے سے ہی کر سکتے تھے تو انہوں نے وہ سب سجدے پھر اشاروں سے ادا کیے۔
اس لیے جب بھی کوئی مصیبت، بیماری یا پریشانی آئے تو فکر کرنی چاہیے۔ اور فکر کی اعلیٰ قسم یہ ہے کہ ڈاکٹر سے علاج کروایا جائے اور اس مصیبت کے روحانی اسباب اور نتائج سمجھنے کی کوشش بھی کی جائے۔ کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مجھے کسی بات پہ متنبہ کیا جا رہا ہے۔
اور ذکر فی الحال یہی جاری رکھیں۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی، میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو ذہن پر سوار کر لیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا تھا کہ اللہ والے tension نہیں لیتے۔ سوال یہ ہے کہ ہم جیسے عام آدمی ایسے موقع پر اپنے آپ کو کیسے اطمینان کی حالت میں رکھیں؟
جواب:
tension لینا اور tension ہونا دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ موہوم چیزوں کی tension لینا درست نہیں ہے۔ اللہ والے موہوم چیزوں کی ٹینشن نہیں لیتے۔ یعنی ابھی کام ہوا نہیں ہے اور اس کے بارے میں سوچنا کہ اگر یہ ہو گیا تو کیا ہو گا۔ ایسا کرنا ٹھیک نہیں۔ اگر آپ ہر چیز میں ایسا سوچیں پھر تو آپ گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکیں گے۔ سڑک بھی نہیں پار کر سکیں گے۔ دوائی بھی نہیں کھا سکیں گے۔ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔ لہٰذا ایسی چیزوں کی ٹینشن تو اللہ والے نہیں لیتے۔ لیکن وہ یہ ضرور کرتے ہیں کہ جب کوئی مسئلہ ہو تو اس کے عملی حل کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ مثلاً بیماری میں علاج کی ضرورت ہو تو علاج کر لیں گے، دعا کی ضرورت ہو تو دعا کر لیں گے، پرہیز کی ضرورت ہو تو پرہیز کریں گے۔ جس مسئلہ کے لئے جو سبب ہوتا ہے اس کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔
جو کام ہو سکتا ہو اس کے بارے میں ٹینشن لینا اتنا خطرناک نہیں ہوتا، اس سے صرف وقتی طور پر تھکاوٹ ہوتی ہے جو بعد میں ٹھیک ہو جاتی ہے۔ لیکن جو کام ہو نہیں سکتا، اس کے بارے میں ٹینشن لینا خطرناک ہوتا ہے، اس سے بڑے مسائل جنم لیتے ہیں۔ خود کشی کے اکثر واقعات کی وجہ اس قسم کی ٹینشن ہوتی ہے۔ وہ کام چونکہ ان کے اختیار میں نہیں ہوتا، اس لئے پہلے سوچتے رہتے ہیں کہ کیا کیا جائے۔ جب کوئی رستہ نظر نہیں آتا تو مایوس ہو جاتے ہیں اور خود کشی میں پناہ ڈھونڈھتے ہیں۔
مشائخ اور اللہ والے عملی دنیا کے لوگ ہوتے ہیں اس لئے وہ اس قسم کی ٹینشن تو نہیں لیتے ہاں اگر عملی طور پر حل ممکن ہو تو وہ ضرور کرتے ہیں۔ وہ جب بیمار ہوتے ہیں تو سبب کے طور پر علاج اختیار کرتے ہیں۔ انہیں تکلیف کا احساس بھی ہوتا ہے لیکن وہ تکلیف ٹینشن نہیں ہوتی بلکہ ان کے نزدیک یہ اس بیماری سے گزرنے کا ایک پروسیس ہوتا ہے۔
میرا بیٹا جب ایک سال کا تھا تو اس کو دمہ کی بیماری ہو گئی تھی۔ جس کی وجہ سے بعض اوقات انجیکشن لگوانا پڑتا تھا۔ انجیکشن کے بعد آرام آ جاتا تھا۔ اس بچہ کی عادت ایسی ہو گئی تھی کہ انجکشن آرام سے لگوا لیتا تھا، پریشان نہیں ہوتا تھا اور روتا بالکل نہیں تھا۔ ایک بار انجکشن لگوانے گئے تو ڈاکٹر حیران ہو گیا کہ یہ کیسا بچہ ہے، اتنی عمر کے بچے انجکشن لگواتے ہوئے چیخ چیخ کر آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں۔ ڈاکٹر نے مجھ سے کہا کہ کیا یہ normal ہے؟ میں نے کہا یہmore than normal ہے۔ اس کو پتا ہے کہ انجکشن سے مجھے فائدہ ہو رہا ہے میری دمہ والی تکلیف دور ہو جائے گی۔ اس لئے یہ مطمئن ہے۔
اللہ والوں کی بیماری و تکلیف کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ بیماری اور پریشانی کے حالات میں انہیں تکلیف کا احساس ہوتا ہے مگر ان کا دل مطمئن ہوتا ہے وہ روحانی طور پر آرام میں ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہوتا کہ اس جسمانی تکلیف کی وجہ سے وہ روحانی اور نفسیاتی اذیتوں میں بھی مبتلا ہو جائیں۔ انہیں اس چیز کا ادراک ہوتا ہے کہ صحت اور بیماری کے حالات میں ہمارا کام عملی طور پر اسباب اختیار کرنا ہے، باقی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا وہ مطمئن ہوتے ہیں۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت، ایک چیز تکبر ہے اور ایک چیز خود داری ہے۔ تکبر کا معاملہ تو واضح ہے کہ یہ حرام ہے۔ جبکہ خود داری ایک اچھی صفت ہے کہ آدمی کسی معاملے میں احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ بعض دفعہ ایسی صورت پیش آتی ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو ذلیل کرنا چاہ رہا ہوتا ہے، تو یہ دوسرا آدمی ذلت سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرتا ہے اور پہلے کو بڑھ چڑھ کر جواب دیتا ہے۔ کیا اس صورت پر تکبر کا اطلاق ہو گا یا اسے خود داری کہیں گے؟ اس بات کی وضاحت فرما دیجیے۔
جواب:
پہلے یہ سمجھ لیں کہ دو چیزیں ہیں۔ (1) عاجزی۔ (2) تذلل۔ بظاہر ان دونوں کا معنی مترادف ہے، دونوں کا مفہوم ایک ہی بنتا ہے۔ دونوں کا معنی ”اپنے آپ کو عاجز، کمتر اور حقیر و ذلیل سمجھنا ہے“۔ لیکن نسبت کے لحاظ سے دونوں کے مفہوم میں فرق آ جاتا ہے۔ عاجزی کی نسبت اللہ پاک کے لحاظ سے ہے۔ عاجزی الله جل شانہ کی کبریائی کے استحضار سے آتی ہے۔ جبکہ احساس کمتری دنیا کے استحضار سے پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کیفیت کو آپ عاجزی کا نام دیں، یا تواضع اور تذلل کہیں، اگر یہ کیفیت دنیا کے لحاظ سے پیدا ہو رہی ہے تو یہ بہت بری چیز ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کے استحضار سے پیدا ہو رہی ہے تو بہت اچھی چیز ہے۔ عام طور پر اللہ کے لئے عاجزی کو تواضع کے نام سے ذکر کرتے ہیں۔ تواضع صفاتِ حمیدہ میں سے ہے اور احساس کمتری بری صفات میں سے ہے اور کئی دوسری برائیوں کا پیش خیمہ ہے۔
اس وضاحت کے بعد ہم آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں، جس میں آپ نے ایک خاص معاملے میں اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرنے کے بارے میں پوچھا ہے کہ یہ خود داری کہلائے گی یا تکبر۔
تکبر میں انسان اپنے آپ کو ناحق طور پر بڑا سمجھتا ہے۔ کیونکہ اصل بڑائی صرف اللہ کے لئے ہے۔ لہٰذا اگر کوئی انسان اپنے آپ کو بڑا سمجھ رہا ہے اور یہ نہیں دیکھ رہا کہ اس میں اللہ پاک کی کیا منشا ہے، تو یہ آدمی متکبر ہے۔
اکاؤنٹنگ میں ایک طریقہ ہے کہ calculations کو balance کرنے کے لئے جو equation استعمال ہوتی ہے اس میں کچھ چیزوں کو اگر zero بنانا ہو تو ان کے مقابلے کی چیزوں کو 14 ten raised to the power سے multiply کر لیتے ہیں، تو سارے zero ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ 14 ten raised to the power کا مطلب یہ ہے کہ 1000 میں 13 صفر لگا دیں۔ اب اگر پہلے اس کے مقابلے میں 100 تھا تو اس کی حیثیت بھی زیرو ہو گئی۔
اس مثال کو سامنے رکھ کر دیکھئے کہ اگر آپ اللہ کو بڑا سمجھتے ہیں۔ اللہ کی عظمت کا احساس ہے تو آپ کو اپنی عظمت کا احساس ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے مقابلے میں آپ کو اپنی ذات اور پوری کائنات صفر ہی لگے گی۔ تکبر اس لئے برا ہے کہ تکبر میں اللہ پاک کی عظمت کا ادراک نہیں ہو رہا ہوتا۔ جبکہ خود داری ایک اور چیز ہے۔ یہ تکبر نہیں ہے، اس کا تعلق عزت نفس سے ہے۔ عزت نفس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ پاک نے ہمیں انسان بنایا ہے، اشرف المخلوقات کے مقام سے نوازا ہے، اس لئے ایسے کام نہ کریں جو اس مقام کے شایان شان نہ ہوں۔ ایسے کاموں سے اپنے آپ کو بچانا، اور اپنے مقام اشرف المخلوقات کا خیال رکھتے ہوئے perform کرنا، یہ خود داری ہے۔ اور یہی وہ خودی ہے جس کا ذکر علامہ اقبال مرحوم کے فلسفہ اور شاعری میں جا بجا ملتا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی خودی اور خود داری کا شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہاں اتنا فرق ہے کہ وہ اس کا ذکر قومی حیثیت سے کرتے ہیں۔ انفرادیت سے زیادہ اجتماعیت کے لحاظ سے خودی کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کا مطمح نظر یہ ہے کہ پوری قوم کے اندر موجود احساس کمتری دور ہو جائے اور اس کی جگہ خود داری پیدا ہو جائے۔ اگر سیرت صحابہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ صحابہ کرام میں یہ خود داری والی صفت بدرجہ اتم موجود تھی۔ آپ نے وہ واقعہ سنا ہو گا جس میں صحابہ کرام کے لشکر کے ایک سفیر کسریٰ کے محل میں گئے۔ کسریٰ نے ان کی آمد پر دربار میں خصوصی انتظامات کئے تھے تاکہ وہ اس کی شان و شوکت کو دیکھ کر مرعوب ہو جائیں۔ حد نظر تک سرخ قالین بچھائے گئے اور انہیں کہا گیا کہ اس قالین پہ چل کر دربار میں آئیں۔ وہ سفیر صحابی جب وہاں پہنچے تو گھوڑے سے نہیں اترے، بلکہ گھوڑے پر سوار رہے اور گھوڑاقالین پہ چلتے ہوئے آگے بڑھتا رہا، اور چلتے چلتے وہ اپنا نیزہ قالین پہ رکھتے تھے، جس کی وجہ سے قالین جگہ جگہ سے پھٹ گیا۔ وہ اسی طرح آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ کسریٰ کے تخت کے پاس پہنچ کر گھوڑے سے اترے اور اپنا گھوڑا اس کے تخت کے ساتھ باندھ دیا۔ یہ سب کرنے سے ان کا مقصد کسریٰ اور اس کے درباریوں کو یہ باور کرانا تھا کہ جس شان و شوکت کا انتظام تم نے ہمیں مرعوب کرنے کے لئے کیا ہے، اس کی اُس عزت اور ایمان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے جو اللہ نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔
اب آپ غور فرمائیں، یہ ان صحابی کی خود داری تھی۔ یہ بڑی valuable چیز ہے۔ اس کو ختم نہیں ہونا چاہیے۔ جو قومیں اپنی خودی اور خود داری بھول جاتی ہیں، وہ کبھی سٹیبل نہیں ہوتیں، لڑھکتی رہتی ہیں۔
جب میں ترکی گیا تو عمر فاروق ارکماز جو اس وقت وزیر اعظم کے مشیر تھے، انہوں نے ایک ہوٹل میں ہماری دعوت کی۔ وقت کافی ہو چکا تھا، زیادہ تر ہوٹل بند ہو چکے تھے، جو ہوٹل اس وقت کھلا ہوا ملا، اس میں ہمیں لے گئے۔ ہوا یوں کہ اس ہوٹل کا کھانا انہیں پسند نہیں آیا۔ انہوں نے ہوٹل کی انتظامیہ سے کہا کہ تمہارا کھانا اعلیٰ معیار کا نہیں ہے۔ ہوٹل والوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر آپ پیسے مت دیں۔ اس پر عمر فاروق ارکماز نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ پیسے تو ہم دیں گے۔ ہاں، آپ کو فیڈبیک دینا ہماری ذمہ داری تھی، سو ہم نے وہ ادا کر دی۔
اب دیکھیے یہ بھی خود داری کی ایک اچھی مثال ہے۔ اگر عمر فاروق ارکماز ہوٹل والوں کو پیسے نہ دیتے تو یہ ایک غلط حرکت ہوتی۔ انہوں نے پیسے بھی ادا کیے، ساتھ ساتھ انہیں جتا بھی دیا کہ تمہارے کھانے میں یہ کمی ہے۔
خود داری پہ سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ ہے۔ یہ ایک اعلیٰ مقام ہوتا ہے جو اللہ کسی کو عطا کرتے ہیں۔
بہر کیف! خود داری ایک صفتِ حمیدہ ہے۔ جبکہ تکبر صفتِ رذیلہ ہے۔ تکبر میں انسان اللہ کو بھول جاتا ہے۔ جو چیز اللہ پاک کے بھلا دینے کا ذریعہ بنے وہ کیسے درست ہو سکتی ہے۔ شیطان کا اصل مسئلہ یہی تکبر تھا۔ جب اللہ پاک نے اسے سجدہ کا حکم دیا، اس وقت اسے اللہ کی عظمت کا ادراک نہ رہا، اس کے سامنے اپنی ذات آ گئی۔ بجائے اللہ کے حکم پر عمل کرنے کے دلیلیں پیش کرنے لگ گیا۔ اس کی اس حرکت کو اللہ پاک نے تکبر سے تعبیر کیا ہے۔ فرمایا:
﴿اَبٰى وَ اسْتَکْبَرَ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ﴾ (البقرہ: 34)
ترجمہ: اس نے انکار کیا اور متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور کافروں میں شامل ہو گیا۔
اللہ پاک کا اندازِ بیان دیکھیں، جملوں اور واقعات کی ترتیب پہ غور کریں۔ فرمایا: اَبٰی: اس نے انکار کیا۔ وَ اسْتَکْبَرَ: اور تکبر کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْن: کافروں میں سے ہو گیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی شان کا استحضار نہ رکھنا اور اپنی شان کو مستحضر رکھنا، یہ تکبر ہے۔ اور اللہ پاک کے حکم کے مطابق اللہ کی دی ہوئی شان کو برقرار رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا خود داری ہے۔ جو اللہ پاک کی شان کو نہیں جانتا بلکہ اپنی ہی شان کو جانتا اور سامنے رکھتا ہے، وہ تکبر کا مرتکب ہے۔ اور جو اللہ کی شان کو جانتا ہے، اللہ پاک کی عطا کردہ عزت و احترام کا ادراک رکھتا ہے، اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اسے اللہ کی دی ہوئی امانت سمجھتا ہے۔ تو یہ خود داری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ نعمت نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم، حضرت جی! میرے ایک دوست کجھور اور میوہ جات کا کاروبار کرتے ہیں۔ خرید و فروخت میں ادھار کرنا پڑتا ہے۔ ان کا تجربہ یہ ہے کہ ادھار کے کام میں برکت نہیں ہوتی۔ کیا یہ بات واقعی درست ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
بنیادی طور پر ادھار پہ کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ بھی ادھار لیتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ادھار میں لین دین کیا کرتے تھے۔ لہٰذا ایسا تو نہیں کہا جا سکتا کہ ادھار کی وجہ سے بے برکتی ہوتی ہے۔ ہاں یوں کہا جائے گا کہ ادھار میں لین دین کے آداب و احکامات پر عمل نہ کرنا بے برکتی کا باعث بنتا ہے۔
میں آپ کو اپنا واقعہ سناتا ہوں۔ یہ سن 80 کی دہائی کے ابتدائی سالوں کی بات ہے۔ میں نے ایک کاروبار شروع کیا۔ میرا ایک ساتھی کسی دکان میں 3000 روپے کے عوض ملازمت کرتا تھا۔ میں نے اسے کہا تم یوں کرو کہ اپنی بیٹھک میں دکان شروع کر لو۔ میں اس میں 30000 روپے کا مال ڈالتا ہوں۔ سرمایہ میرا ہوگا، محنت تمہاری ہو گی۔ منافع کا 60 فیصد تم رکھ لینا اور 40 فیصد میرا ہو گا۔ نقصان میں بھی دونوں شریک ہوں گے۔ فقہ میں اسے مضاربت کہتے ہیں۔ خیر ہم نے مضاربت شروع کی۔ کام شروع ہو گیا۔ وہ ہر ماہ مجھے تقریباً 2500 روپے دیتے تھے اور خود 3500 روپے رکھتے تھے۔ تقریباً ڈیڑھ سال تک تو کام ٹھیک ٹھاک چلتا رہا۔ پھر درمیان میں شیطان آ گیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن میں دکان پہ گیا تو دیکھا کہ اس میں مال بہت کم ہے۔ وجہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ کچھ لوگ ادھار سودا سلف لیتے ہیں، اور واپس نہیں کرتے۔ میں نے اس سے کہا کہ بھئی ادھار پر لین دین کا ایک طریقہ ہوتا ہے جسے ادھار پر سودا دو اس سے واپسی کا مطالبہ بھی کیا کرو۔ ایک مہینے سے زیادہ ادھار نہ دیا کرو، جب ادھار پہ لیے گئے مال کی رقم واپس آئے تو اس کا سامان لے کر دکان میں ڈالا کرو۔ اگر یہ ترتیب اختیار کرو گے تو دکان میں مال کم نہیں ہوگا۔ اگر منافع کم بھی ہوا تو اصل راس المال میں کمی نہیں ہوگی، اور کام چلتا رہے گا۔ چونکہ یہ ترتیب میں نے آپ کو پہلے نہیں بتائی تھی۔ اس لئے اب تو معاف کرتا ہوں آئندہ معاف نہیں ہو گا۔ نیز چونکہ سرمایہ میرا لگا ہوا ہے، اس لئے آپ پر اس ترتیب کے خلاف کرنا حرام ہو گا جو ترتیب ہم نے طے کی ہے۔ اب میں آپ کو 20,000 روپے مزید دیتا ہوں آپ ان سے مزید مال خرید کر دکان میں ڈالیں، اور کام ٹھیک سے شروع کریں۔ کاروبار کا سلسلہ دوبارہ چل پڑا۔ کچھ عرصہ بعد پھر گڑبڑ شروع ہو گئی۔ میں نے ان کے ساتھ حساب کتاب کیا۔ اور معاملہ ختم کیا۔ ڈھائی سال کام کے بعد جب حساب کیا تو مجھے overall 32 فیصد نفع ہوا۔ ابتداءً سو فیصد نفع ہوتا تھا، لیکن یہ کم ہوتے ہوتے 32 فیصد تک پہنچ گیا۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ ادھار پر جو لین دین کیا گیا اس کا طریقہ غلط تھا۔ تجارت کا اصول ہے کہ راس المال میں سے کچھ کم نہیں کرنا چاہیے۔ جس بنیادی رقم سے تجارت چل رہی ہے اس میں سے آپ کچھ نہیں لے سکتے۔ صرف نفع سے لے سکتے ہیں۔ انہوں نے اس اصول کے خلاف کیا، جس کا نتیجہ بے برکتی کی صورت میں سامنے آیا۔
لہٰذا مینجمنٹ درست نہ ہونے کی وجہ سے مسائل ہو سکتے ہیں، لیکن شرعاً ادھار پر لین دین میں کوئی قباحت نہیں ہے، جب تک بے اصولی نہ ہو۔ اگر ادھار پر لین دین میں بے اصولی برتنے کی وجہ سے بے برکتی ہوتی ہے تو یہ بے برکتی ادھار کی وجہ سے نہیں بلکہ اس بے اصولی کی وجہ سے ہے۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم! حضرت اکثر سالکین راہِ سلوک میں بڑی ہمت کے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔ مگر کچھ سال کے بعد تنزل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بد نظری، شہوت پرستی یہاں تک ترک صلوۃ تک کی نوبت آ جاتی ہے۔ بہت سارے سالکین سلسلے کے معمولات بھی کر رہے ہوتے ہیں، صحبت شیخ کا بھی اہتمام کر رہے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ جو گناہ پہلے چھوڑ چکے تھے، دوبارہ کرنے لگتے ہیں۔ اس سے متعلق رہنمائی فرمائیں۔ ایسا کیا کیا جائے کہ ترک معاصی اور اعمال صالحہ پر استقامت رہے؟
جواب:
آپ نے بہت ہی اہم نکتہ اٹھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عطا فرمائے۔ در اصل یہی وہ چیز ہے جو حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سمجھاتے رہے ہیں۔ جب کوئی سالک سلسلے میں آتا ہے، ابتدا میں اس کے اندر ایک جوش ہوتا ہے، شوق و ولولہ ہوتا ہے۔ اس ولولے میں وہ بہت سارے گناہ چھوڑ دیتا ہے۔ یہ جذب ہے۔ اگر کوئی اس سے کام لے اور 10 مقاماتِ سلوک طے کر لے۔ تو اس کا یہ شوق انس میں بدل جائے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شوق تو ختم ہو جائے گا لیکن سالک کو ترک معاصی اور عمل بالطاعات کے ساتھ موانست ہو جائے گی۔ عمل بالطاعات اور ترک معاصی کی قابلیت پختہ ہو جائے گی۔ دوسری طرف اگر ایسی صورت بنے کہ ایک سالک سلسلے میں داخل ہوا، ابتداءً اسے جذب اور شوق و ولولہ حاصل ہوا، اس جذب کی وجہ سے اس کے گناہ چھوٹ گئے اور طاعات پر عمل بڑھ گیا۔ اس نے سلوک طے نہ کیا، بلکہ یوں سمجھ لیا کہ اب میرے گناہ چھوٹ گئے ہیں، نیکیاں ہونے لگ گئی ہیں، ماشاء اللہ میں تو ٹھیک ہو گیا ہوں۔ تو یہ وقتی خوش فہمی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو صبح کاذب کہا ہے۔ اور سلوک طے کرنے کے بعد والی حالت کو صبح صادق فرمایا ہے۔ صبح کاذب تھوڑی دیر کے لئے ہوتی ہے، اس کا اعتبار نہیں ہے، اعتبار صبح صادق کا ہے جس کے بعد پورا دن ہوتا ہے۔
آج کل مشائخ میں بھی یہ غفلت پائی جاتی ہے کہ وہ لوگوں سے سلوک نہیں طے کراتے۔ انہیں ذکر کی line پہ لگا کر اسی پہ رکھتے ہیں۔ ذکر کے ذریعے صرف دل کی اصلاح ہوتی ہے، نفس کی اصلاح نہیں ہوتی۔ نفس کی اصلاح سلوک طے کرنے سے ہوتی ہے۔ جب تک سلوک طے نہیں کیا، نفس کی اصلاح نہیں ہو گی۔ جب تک نفس کی اصلاح نہیں ہوئی، دل کی اصلاح ہو بھی گئی ہو تو نفس کی وجہ سے دل دوبارہ خراب ہو جائے گا۔ اور دل ایک بار درست ہونے کے بعد دوبارہ خراب ہو جائے تو وہ چکنے گھڑے کی طرح ہو جاتا ہے۔ پھر اس کے اوپر جذب و شوق کی باتیں بھی اثر نہیں کر پاتیں۔ جیسے کچھ لوگ جو تبلیغی جماعت میں کچھ عرصہ رہے ہوں، اور پھر معاملہ خراب ہو گیا ہو، وہ تبلیغ سے ہٹ گئے ہوں۔ ایسے لوگوں کو جب دوبارہ تبلیغ میں جانے کے لئے اور اصلاح کے لئے کہا جاتا ہے، تو وہ ایسے طریقوں سے ٹالتے ہیں کہ خود تبلیغ والوں کے پاس ان کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ کچھ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ بس جی دعا کریں، ہم تو کمزور لوگ ہیں، اللہ توفیق دے گا تو ضرور وقت لگائیں گے۔ یہی وہ چکنے گھڑے ہیں۔ ان کو ٹالنے کا فن آ جاتا ہے۔
سالکین اور صوفیوں میں بھی کچھ لوگ ایسے ہو جاتے ہیں۔ ان میں یہی چیز شروع ہو جاتی ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی قسم کے سالکین پر ایک مکمل مفصل مکتوب لکھا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے باقاعدہ ”مجذوب متمکن“ کی اصطلاح مرتب کی ہے۔ اور فرمایا ہے کہ ایسے لوگ نہ خود پہنچے ہیں، نہ دوسروں کو پہنچا سکتے ہیں۔
لہٰذا مشائخ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ ماشاء اللہ آپ کو اللہ پاک نے یہ فکر دی ہے۔ اللہ کرے کہ آپ بھی اس line پر کام شروع کر لیں۔ ہم نے توَکُّلاً علی اللہ اس پر کام شروع کیا ہوا ہے۔ جب ہم نے اس ترتیب سے کام شروع کیا تو بہت سارے مشائخ کو ہماری باتیں عجیب لگیں۔ ایک بہت بڑے شیخ کے ساتھ بات چیت ہوئی، انہوں نے فرمایا: بھئی کیا کریں ہمارے پاس جو لوگ آتے ہیں وہ صرف ذکر ہی کرنے کے لئے آتے ہیں۔ اس سے آگے ہم کچھ بتائیں تو مانتے ہی نہیں۔ واقعی ان کی بات عذر کی حد تک درست ہے، اور اس کی وجہ اسی اصول پر عمل نہ کرنا ہے، یعنی دل کی اصلاح کر دینا اور نفس کی اصلاح نہ کرنا، سلوک طے نہ کرنا۔
ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو جب حضرت شاہ عبد العزیز دعا جو رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے اجازت عطا فرمائی تو ہدایت کی کہ بھئی کوئی بھی اللہ کا نام سیکھنے کے لئے آئے، بیعت ہونے کے لئے آئے تو ایک منٹ بھی دیر نہ کرنا۔ مولانا اشرف صاحب نے عرض کیا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو بڑی مشکل سے بیعت کرتے تھے۔ جبکہ آپ فرما رہے ہیں کہ ایک منٹ بھی دیر نہ کریں۔ حضرت دعا جو رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ وہ بیعتِ سلوک تھی، یہ بیعتِ ایمان ہے۔ اس وقت لوگوں کا ایمان خطرے میں ہے۔ اگر آپ اس کو بیعت نہیں کریں گے تو عین ممکن ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کے پاس چلا جائے جو بے ایمان ہو۔ اور اس کا ایمان بھی خراب کر دے۔ پھر کیا ہو گا۔ اس لئے کم از کم ایمان تو بچائیں۔
میرے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا۔ ایک دن میں نے ارادہ کیا کہ اب بس کرتے ہیں۔ مزید کسی کو بیعت نہیں کروں گا۔ جو بیعت ہو چکے ہیں ان کی خدمت کروں یہی کافی ہے۔ میں نے باقاعدہ تہیہ کر لیا کہ اب ایسا ہی کروں گا۔ خدا کی شان دیکھیے، ہمارے حضرت شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے پیغام آیا کہ بیعت کرتے رہو، اس سلسلے کو منقطع مت کرنا۔ اس لئے کہ کم از کم سلسلے میں داخل ہو کر ان کا ایمان بچ جائے گا۔ اس لئے ہم بیعت سے انکار نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہمیں بزرگوں نے اس کا پابند کیا ہوا ہے۔ لیکن ہم ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اصل فائدہ انہیں ہو گا جو جذب کے ساتھ سلوک بھی طے کریں، ان کی بہتر اصلاح ہو گی۔ انہیں نسبتِ اصلاحی نصیب ہو گی۔ جو حضرات صرف بیعت ہوتے ہیں انہیں کسی نہ کسی درجہ میں نسبت انعکاسی حاصل ہو جائے گی لیکن وہ نسبت اصلاحی تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ وہ بے ایمان نہیں ہوں گے، ان کا ایمان بچا رہے گا۔ اس وجہ سے ہم لوگ کسی کو انکار نہیں کرتے۔ جو بھی بیعت ہونے کے لئے آتا ہے اسے بیعت کر لیتے ہیں۔ ہم مجبور ہیں، ہم انکار نہیں کر سکتے۔ دل تو یہی چاہتا ہے کہ بزرگوں کے طریقہ پہ چلا جائے۔ یہ اصلاحی line ہے۔ اس میں سب سے ضروری یہ ہے کہ اصلاح ہو جائے۔
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا۔ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا﴾ (الشمس: 10-9)
ترجمہ: فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔
یعنی یقیناً کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو رذائل سے پاک کر دیا۔ یقیناً تباہ و برباد ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو اس حال پہ چھوڑ دیا جس حال پہ اللہ نے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا مکمل فائدہ اسی کو ہو گا جو دل کی اصلاح کے ساتھ نفس کی بھی اصلاح کرا لے۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم
Hope you are well and in good health اللہ take work of دین from you and family.
My question: I am taking driving license, I am struggling with it, example steering wheel and using the brake paddle, I lack confidence. I am driving a car please pray for me.
جواب:
بھئی واہ۔ بات شروع کوئی اور کی، اخیر میں چلے کسی اور طرف گئے۔ بات تو دین کی شروع کی اور چلے گئے دنیا کی طرف۔ ہم یہ بات سمجھاتے سمجھاتے تھک جاتے ہیں کہ یہاں دین درست کرنے لئے رابطہ کریں۔ لیکن لوگوں کا کیا کریں وہ ہیرے سے کیل ٹھوکنا چاہتے ہیں۔ لاکھوں کی قیمت کے حامل کپڑے سے بوٹ صاف کرنا چاہتے ہیں۔ خدا کے بندے آپ غور فرمائیں کہ آپ نے پہلی دفعہ رابطہ کیا اور کس چیز کے لئے کیا؟ کہ میں driving اچھی طرح سیکھوں! اس کے لئے آپ کسی ماہر ڈرائیور کو consult کر لیتے تو زیادہ بہتر تھا۔ وہ آپ کو سارے طریقہ کار بتا دیتا، آپ کی driving ٹھیک ہو جاتی۔ اس کے لئے مجھے consult کرنے کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے مسائل سے بچائے۔ آمین۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت، جو لوگ میرے ساتھ رہتے ہیں، بعض اوقات ان کا میرے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا ہے جو میری دنیاوی حیثیت کے مطابق نہیں ہوتا، insulting ہوتا ہے۔ لیکن میں اس کو محسوس نہیں کرتا۔ مجھے کسی نے مشورہ دیا کہ آپ کو اپنی دنیاوی جائز حیثیت کا خیال رکھنا چاہیے، اور اگر کوئی آدمی آپ کے ساتھ آپ کی جائز حیثیت کے مطابق معاملہ نہیں کرتا تو اسے احساس دلانا چاہیے کہ وہ غلط کر رہا ہے۔ چونکہ میرا اس طرف کبھی دھیان نہیں گیا اس لئے مجھے اس بات کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوئی کہ میں کسی کو ایسا احساس دلاؤں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے کہ میرا طرز عمل درست ہے یا پھر ایسے لوگوں کو احساس دلا دینا چاہیے کہ وہ ٹھیک برتاؤ نہیں کر رہے۔
جواب:
اس سوال کا جواب ایک دوسرے سوال کے ضمن میں دیا جا چکا ہے۔ جس میں تواضع اور عزت نفس کے بارے میں سوال کیا گیا تھا۔ آپ کو اس سوال کے جواب میں اپنا جواب بخوبی مل سکتا ہے۔ ہاں اتنا مزید عرض کر دیتا ہوں کہ بزرگوں کی اپنی اپنی شانیں ہوتی ہیں۔
3 بڑے اکابر گزرے ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ، حضرت مرزا مظہر جان جاناں، اور ایک تیسرے بزرگ (جن کا نام معلوم نہیں) ان کا واقعہ ہے کہ ان تینوں کی کسی نے دعوت کی۔ وہ در اصل انہیں آزمانا چاہتا تھا۔ یہ تینوں حضرات دعوت کے مقام پر دیئے گئے وقت پر پہنچ گئے۔ لیکن میزبان غائب تھا۔ وہ چار پانچ گھنٹوں کے بعد آیا اور کہنے لگا مجھے یاد نہیں رہا کہ آج آپ لوگوں کی دعوت کی تھی۔ تکلیف کے لئے معذرت چاہتا ہوں۔ اور آپ تینوں حضرات کو ایک ایک آنہ دیتا ہوں۔ آپ بازار سے کھانا کھا لیں۔ اب تینوں بزرگوں کے رد عمل پر غور کیجئے گا۔ ایک بزرگ نے وہ آنہ بڑی محبت کے ساتھ قبول کر کے جیب میں رکھ لیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے آنہ لے کر جیب میں ڈال لیا اور خاموشی سے چلے گئے۔ اسے اور کچھ بھی نہیں کہا۔ مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے ایک آنہ قبول کر لیا اور اس سے کہا: دیکھو میں تو کچھ بھی نہیں لیکن یہ دونوں حضرات بڑے اعلیٰ مقام کے حامل ہیں۔ آئندہ اس طرح نہ کرنا۔
یہ واقعہ تین بزرگوں کے سامنے ذکر کیا گیا اور ان کی رائے دریافت کی گئی۔ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا عمل زیادہ اچھا ہے کہ ان پہ کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے بزرگ کا عمل بہتر ہے کیونکہ ان میں خالص چشتیت پائی جاتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ کا عمل بہت اچھا ہے کیونکہ ان کی طبیعت میں بڑی نزاکت تھی پھر بھی انہوں کمال برداشت کا ثبوت دیا اور صرف اتنا کہا کہ آئندہ مت کرنا۔
مزاجوں میں فرق ہوتا ہے۔ نقشبندی اپنے وقار کا خیال رکھتے ہیں اور چشتی ولولہ انگیز ہوتے ہیں، وہ پروا نہیں کرتے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس کا جو مزاج ہو اسی کے مطابق عمل کر لے۔
سوال نمبر 15:
حضرت! استخارہ اور شرح صدر میں کیا فرق ہے۔ کسی چیز کے بارے میں شرح صدر ہو جائے تو کیا پھر بھی استخارہ کرنا چاہیے؟ نیز اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ کسی چیز یا کام کے بارے میں شرح صدر ہونے کی کیا علامات ہیں۔
جواب:
استخارہ مسنون عمل ہے۔ جب انسان متردد ہو تب استخارہ کرتا ہے۔ اگر پہلے ہی شرح صدر ہو گیا تو تردد ختم ہو گیا، لہٰذا استخارہ کی ضرورت نہیں رہی۔ شرح صدر کا معنی ہے کہ دل کسی چیز پر مطمئن ہو جائے۔ استخارہ بھی اسی لئے کیا جاتا ہے کہ دل کا اطمینان ہو جائے۔ ہاں اگر شرح صدر نہ ہو پھر استخارہ کرنا چاہیے۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! مرشدی و مولائی حضرت اقدس کی خدمت میں یہ سوال عرض ہے کہ حضرت والا نے اسم مربی کی تعلیم میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اگر اسم مربی سالک پہ حاوی ہو جائے، اور سالک کو اس کا ذکر دیا جائے تو بہت جلدی فائدہ ہوتا ہے اور فنا فی اللہ جلدی ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سلاسل و طروق تصوف میں اسم مربی کے استعمال کا رواج کیوں نہیں نظر آتا۔ کیا یہ چیز سلاسل میں مخفی ہو گئی ہے؟ سلاسلِ تصوف میں جذب کسبی حاصل کرنے کے لئے اسم مربی کی بجائے باقی اذکار کو کیوں اختیار کیا جاتا ہے۔ کیونکہ مقصود تو یہی ہے کہ جذب کسبی حاصل کر کے سلوک کی تیاری ہو، سیر الی اللہ حاصل ہو اور مقامات سلوک طے ہوں۔ پھر اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے جذب وہبی عطا ہوتا ہے اور سالک سیر فی اللہ میں داخل ہوتا ہے۔ اگر اسم مربی سے ہی فنا فی اللہ جلدی حاصل ہو جاتی ہے تو اکثر مشائخ اس کی تلقین کیوں نہیں فرماتے ہیں۔ سوال کرنے میں اگر بے ادبی ہوئی ہو تو معذرت چاہتا ہوں۔ جزاک اللہ۔
جواب:
ماشاء اللہ! بہت اچھا سوال ہے لیکن تفصیل طلب ہے۔ حضرت حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو مکتوب نمبر 287 میں بیان فرمایا ہے لیکن اس کو جذب کے عنوان میں نہیں بلکہ سلوک کے عنوان کے تحت بیان فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم مربی در اصل سلوک کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ اگر کوئی اس راہ سے چلنا چاہے تو چل سکتا ہے لیکن اس کا اپنا مجاہدہ ہے، اس کی کچھ اپنی ریکوائرمنٹس ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے لوگوں کی طبیعتیں مختلف بنائی ہیں۔ جس اسم کے ساتھ جس کو مناسبت ہے اس کو اسی طریقہ سے گزارا جائے تب ہی اس کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
آج کل اگر اسم مربی کی بات کی جائے تو لوگ وہی کام کریں گے جو بعض نقشبندی حضرات نے جذب کے معاملہ میں کیا ہے۔ کہ جذب کو صرف اور صرف مراقبات کے حصول تک محدود کر دیا ہے۔ اصل بات یعنی سلوک طے کرنا درمیان میں ہی رہ گیا ہے۔ حالانکہ بات مراقبات کی نہیں ہے بلکہ سلوک طے کرنے کی ہے اور سلوک مراقبات سے طے نہیں ہوا کرتا۔ اسی طرح اگر کوئی اسم مربی بھی مراقبات کے ذریعہ سے حاصل کرنا چاہے تو وہ بھی اس طریقہ سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے ایک پوری ترتیب ہے جس میں کافی مشکلات ہیں۔ یہ آسانی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بس کشف سے حاصل ہو جائے گا۔ ایسی بات قطعاً نہیں ہے بلکہ اس کے لیے بہت محنتیں اور ریاضتیں کرنا پڑتی ہیں۔ میرے ذہن میں ایک ترتیب ہے اور میرا ارادہ ہے کہ اپنے ساتھیوں کو اس کے بارے میں عرض کروں گا۔ لیکن پہلے ساتھیوں کا ذہن بن جائے کہ یہ کوئی مراقبہ اور کشف والی چیز نہیں بلکہ اس کا پورا ایک algorithm ہے۔ اس algorithm سے گزرنا پڑے گا۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کے حصول کے لئے محنت کا ایک format ہے اس format کو follow کرنے سے نتیجہ حاصل ہو سکتا ہے، لیکن لوگ اس کے لئے تیار ہو جائیں پھر ان شاء اللہ العزیز اس پہ بات کریں گے۔
سوال نمبر 17:
دین اور دنیا میں کیا فرق ہے۔ کیا یہ الگ الگ ہیں یا دونوں ایک بھی ہو سکتے ہیں؟
جواب:
لوگ کہتے ہیں: زن، زر، زمین، یہ دنیا ہے۔ غلط کہتے ہیں، یہ دنیا نہیں ہے۔ دنیا وہ ہے جو آپ کو خدا سے کاٹ دے، اور خدا اور آپ کے درمیان آ جائے۔ دنیا کی تمام نعمتیں و آسائشیں در اصل جنت کی نعمتوں اور آسائشویں کا ایک آئینہ ہیں، ایک ہلکا سا نمونہ ہیں، یہ جنت کے حالات کی ایک معمولی سی reflection ہے۔ اگر آپ نے اس reflection سے فائدہ اٹھایا کہ ان جیسی چیزوں کو اعلی درجہ میں حاصل کرنے کے لئے ان کا استعمال کیا تو یہ دنیا آپ کے لئے مفید ہے، اور یہی دین بن جاتی ہے۔ لیکن اگر آپ اس میں پڑ کر صرف اسی کے عاشق بن گئے اور اسی پہ کام کرنا شروع کر دیا اور اس کی وجہ سے نماز روزہ، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل چھوڑ دیا، تو پھر یہ دنیا دین نہیں بنی، بلکہ اس کے غلط استعمال سے آپ مجرم بن گئے۔ دنیا پانی کی طرح ہے جو اگر کشتی میں آ جائے تو کشتی کو ڈبو دے گا اور اگر کشتی کے نیچے ہو تو کشتی کو منزل تک پہنچائے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
آب در کشتیست ہلاک کشتی است
آب زیر کشتی ہستی است
جو پانی کشتی کے اندر آ جائے وہ کشتی کو ہلاک کر دیتا ہے، اور جو پانی کشتی کے نیچے رہے وہ اس کی زندگی کا باعث ہوتا ہے۔ اگر دل میں دنیا آ گئی تو کام خراب ہے۔ اگر ہاتھ میں دنیا ہے اور دل میں اللہ ہے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم! حضرت! میں ڈاکٹر ہوں۔ patient دیکھتا ہوں اور university میں ڈاکٹرز کو پڑھاتا بھی ہوں۔ جب ہم نے سٹوڈنٹس کو کچھ سمجھانا ہوتا ہے تو کئی کئی بار سمجھا کر بھی ہمیں اکتاہٹ اور جھنجھلاہٹ نہیں ہوتی، غصہ نہیں آتا۔ مریضوں کو بھی ہم دو دو، تین تین دفعہ سمجھاتے ہیں، مگر کوئی غصہ وغیرہ نہیں آتا۔ لیکن جب ہم گھر میں ہوتے ہیں اور parents کے ساتھ dealing ہوتی ہے، یا بچوں اور بیوی کے ساتھ بات چیت ہوتی ہے، اس وقت اگر ہمیں ایک بات کو دو تین دفعہ کرنا پڑے یا ان کو سمجھ نہ آ رہی ہو، تب ہمارا ری ایکشن کافی مختلف ہوتا ہے۔ یا ہمیں بہت جلدی غصہ آ جاتا ہے یا ہم چڑ جاتے ہیں۔ مجھے اس پہ بہت حیرانی ہوتی ہے۔ parents کے ساتھ بھی ایسا معاملہ ہوتا ہے اور بیوی بچوں کے ساتھ بھی، مگر سٹوڈنٹس اور مریضوں کو سمجھاتے ہوئے ایسی کیفیت نہیں ہوتی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب:
اس کی وجہ یہ ہے کہ students اور مریضوں سے آپ کچھ expect نہیں کرتے، جبکہ بیوی بچوں اور والدین سے expect کرتے ہیں۔ سٹوڈنٹس کو سمجھاتے ہوئے آپ کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ انہیں کچھ معلوم نہیں اس لئے یہ بار بار سوال کریں گے، سیکھیں گے اور سمجھیں گے۔ مریضوں سے بات چیت کرتے ہوئے بھی آپ کے ذہن میں ایسا ہی کچھ ہوتا ہے کہ ان کو بیماری اور علاج کا علم نہیں ہے اس لئے ان کو سمجھانا ہماری ذمہ داری ہے۔ لیکن گھر والوں اور والدین سے گفت و شنید کے دوران آپ کا خیال یہ ہوتا ہے کہ آپ جو کہہ رہے ہیں اور جیسا کہہ رہے ہیں بس وہ یکدم سے اس بات کو سمجھ جائیں اور اس پہ عمل کر لیں۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر آپ ان کو بھی طلبا اور مریضوں کی طرح سمجھیں کہ ابھی میں نے پوری طرح ان سے communicate نہیں کیا ہے اس لئے انہیں بار بار سمجھانا پڑے گا، تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ بچوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بھی ایسا ہی سمجھیں کہ آپ کی ذمہ داری ہے انہیں مکمل سمجھانا اور بار بار سمجھانا، سٹوڈنٹس تو پھر بھی سمجھ دار ہوتے ہیں، لیکن بچے اتنے سمجھ دار نہیں ہوتے، ان کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ رکھنا چاہیے جیسے سٹوڈنٹس کو سمجھاتے ہوئے رکھا جاتا ہے۔ یہ در اصل mismanagement ہے اور معاملات کی بات ہے۔ یہ mismanagement نہیں ہونی چاہیے اسے control کرنا چاہیے۔ اسے control کرنے کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ اپنے نفس پہ قابو ہونا چاہیے۔ دوسرا یہ ہے کہ اپنے آپ کو سمجھانا چاہیے کہ میں کیا کر رہا ہوں، اور مجھے کرنا کیا چاہیے۔ جیسے آپ نے سوال کے دوران اس بات کو observe کیا ہے کہ آپ سے ایسا ہوتا ہے۔ بس اسی استحضار کو مزید بڑھا لیں اور خاص طور پر جب والدین، بچوں اور گھر والوں سے بات چیت ہو تب اس observation کو سامنے رکھیں۔ ان شاء اللہ اس کا علاج ہو جائے گا۔
سوال نمبر 19:
حضرت! بعض اوقات بڑی عمر کے سمجھدار بچے نافرمانی کرتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ہم نے حلال کمائی کا خیال رکھا ہے، ان کو حرام کا لقمہ نہیں کھلایا مگر پھر بھی بچے نافرمانی کرتے ہیں اور ہمارا ادب نہیں کرتے۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
جواب:
آپ نے نوح علیہ السلام کے بیٹے کنعان کے بارے میں تو سنا ہو گا۔ وہ محض نافرمان ہی نہیں بلکہ کافر تھا۔ اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ بعض اوقات یہ اللہ کی طرف سے آزمائش بھی ہوتی ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ نے ان کو لقمہ تو حلال کھلایا مگر ان کے آس پاس کے ماحول کا خیال نہیں رکھا، ان کو وہ توجہ نہیں دی جو دینی چاہیے تھی، نتیجتاً اس برے ماحول کا اثر ان پہ بھی ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ چھوٹے بچوں کی تربیت پہ زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ جبکہ نفسیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ 1 سال کے اندر بچہ جتنا سیکھ سکتا ہے، 3 سال میں اتنا نہیں سیکھتا اور جو 3 سال میں سیکھ سکتا ہے، 10 سال میں اتنا نہیں سیکھتا اور جو 10 سال میں سیکھ سکتا ہے، 25 سال میں اتنا نہیں سیکھ سکتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا نفسیاتی background راسخ ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب کسی cylinder میں گیس بھر رہے ہوتے ہیں تو ابتدا میں بہت آواز آتی ہے، جوں جوں cylinder بھرتا جاتا ہے، آواز کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ابتدا میں بچوں کی memory بالکل clean ہوتی ہے لہٰذا وہ جو چیزیں observe کر رہے ہوتے ہیں، جلدی جلدی انہیں قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کے ذہن کی شفاف تختی بھرتی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان میں کسی بات کو راسخ کرنے کے لئے بہت زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔ عام طور پر ہم کام اس وقت شروع کرتے ہیں جب وہ تختی کافی حد تک بھر چکی ہوتی ہے۔ جب اس کے اثرات negative آنے شروع ہوتے ہیں تب ہم کام کرنا شروع کرتے ہیں۔ اس تربیت کا صحیح وقت ان کا ابتدائی بچپن ہے۔ اس وقت جو چیز انہیں سنائی اور دکھائی جائے گی، وہی ان کی طبعت اور عادت بنے گی، جو ماحول انہیں مہیا کیا جائے گا اسی کا اثر بعد میں ان کے عادات و خصائل میں ظاہر ہو گا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ