اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْد بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر 1:
السلام علیکم! حضرت جی میرا دو کپ چائے والا مجاہدہ آج کل بہت ٹوٹ رہا ہے۔ بہت افسوس بھی ہوتا ہے لیکن ہمت بہت کم ہے۔ اضطراری طور پر یہ مجاہدہ بہت کر چکی ہوں لیکن اختیاری طور پر نہیں کر پا رہی۔
جواب:
اضطراری طور پہ مجاہدہ سے آپ کی مراد اگر یہ ہے کہ آپ کو چائے مل نہیں رہی تووہ ایک علیحدہ چیز ہے۔ البتہ اختیاری طور پر آپ کو جو یہ مجاہدہ بتایا گیا ہے تو مجاہدہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہےجو انسان کو مشکل لگے۔ پھر اگر وہ مشکل پیش آنے کے باوجود اسے کر رہا ہو تو مجاہدہ کی برکات حاصل ہوتی ہیں۔ اگر وہ چیز مشکل ہی نہ لگے تو وہ مجاہدہ نہیں رہتا، پھر تو وہ ایک روٹین بن جاتی ہے۔ لہٰذا اسی مشکل وقت میں اگر آپ اس مجاہدہ پر استقامت اختیار کریں گی تو آپ کو اس کی برکات حاصل ہوں گی۔ کوئی کام بغیر ہمت کے نہیں ہوتا۔ ہمت کرنی پڑتی ہے۔ اگر آپ اس میں ہمت چھوڑ دیں گی تو نفس کو راستہ مل جائے گا پھر یہ قابو نہیں آئے گا۔ لہٰذا آپ اس کو اپنے لئے علاج سمجھ کر ہمت دکھائیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں ہے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی! انسانی جسم کے اندر نفس کس جگہ پر واقع ہوتا ہے۔ جس طرح ہم دل اور عقل کے مقامات کا اندازہ لگا سکتے ہیں، کیا اسی طرح نفس کا بھی کوئی مقام ہوتا ہے؟ اس کے علاوہ ایک سالک کیسے معلوم کر سکتا ہے کہ فلاں چیز نفس کی طرف سے ہے تاکہ نفس کے ممکنہ وار سے بچا جا سکے۔
جواب:
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق قلب پورے جسم میں ہوتا ہے کیونکہ قلب روح کا ذریعہ ہے اور روح پورے جسم میں ہے لیکن اس کا اثر مقامِ قلب پہ ظاہر ہوتا ہے۔ اس طرح عقل بھی سارے جسم میں موجود ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس کا اثر سارے جسم پر محیط ہوتا ہے،جیسے ہمارا اعصابی نظام سارے جسم میں ہے۔ لیکن اس کا زیادہ اثر دماغ میں ظاہر ہوتا ہے، اس کا مرکز دماغ میں ہے۔ اسی طرح نفس کا پورے جسم پہ قابو ہے۔ انسان کی آنکھوں میں بھی نفس ہے، کانوں میں بھی نفس ہے، دماغ میں بھی نفس ہے۔ جہاں جہاں لذت پانے کے ذرائع موجود ہیں وہاں وہاں نفس موجود ہے۔ لیکن اس کا مرکزی حصہ جگر ہے۔
جب پہلی دفعہ مجھے اس بات کا پتا چلا تو میں بہت حیران ہوا تھا۔ بعد ازاں میں نے دیکھا کہ اردو محاورات میں بھی یہ چیز موجود ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں ”قلب و جگر“، کلیجہ منہ کو آ گیا۔ تو قلب و جگر سے مراد یہی ہے کہ گویا انسان کے جسم کے اندر کام کرنے کے دو systems ہیں جو بہت فعال ہیں۔ ایک دل و دماغ ہے۔ ایک قلب و جگر ہے۔ دل و دماغ وہ ایریا ہے جو ایمان اور کفر ، روشنی اور ظلمت اور محبت ونفرت کی آماجگاہ ہے۔ قلب و جگر وہ علاقہ ہے جہاں انسان عقل کے فیصلوں کو نافذ کرتا ہے۔ جیسے میں اپنی آنکھ کے اوپر فیصلہ نافذ کرتا ہوں کہ اوپر نہیں دیکھنا۔ ظاہر ہے یہ میری عقل کا فیصلہ ہوتا ہے کہ میں نے اوپر نہیں دیکھنا۔ میری عقل فیصلہ کرتی ہے کہ میں نے گانے نہیں سننے تو یہ فیصلہ میں اپنے کانوں کے اوپر نافذ کرتا ہوں۔ عقل کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہوں کہ میں نے غلط نہیں بولنا اور اس فیصلہ کو اپنی زبان پہ نافذ کرتا ہوں۔ تو قلب و جگر والا علاقہ جذبات کو کنٹرول کرنے کا ایریا ہے، نفس کی بغاوت کو کنٹرول کرنے کا ایریا ہے۔ دل و دماغ وہ ایریا ہے جہاں پر یہ فیصلے کئے جاتے ہیں، ان کے بارے میں سوچ بچار کی جاتی ہے۔
دیکھیں قرآن پاک میں جہاں عقل سے کام لینے کی ترغیب دی گئی ہے وہاں سوچنے اور سمجھنے کے معاملے میں دل کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں ہے
﴿لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا﴾ (الاعراف: 179)
ترجمہ: ”ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں۔“
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سمجھنے کا تعلق دل سے بھی ہے۔ سمجھنے کے لحاظ سے یہ دونوں نظام یعنی دل و دماغ ایک ہی ہیں جبکہ فیصلہ کرنے کے لحاظ سے مضبوط دل صحیح فیصلہ کر سکتا ہے۔ اگر قلب و جگر تابع ہوں باغی نہ ہوں تو ان پر صحیح فیصلے نافذ کئے جا سکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ نفس کی کارستانی کا پتا کیسے چلے؟ کسی کام، خیال یا وسوسہ کے بارے میں یہ کیسے متعین کریں کہ کہ یہ نفس کی وجہ سے ہے۔ اس کی ایک باریک قسم کی پہچان ہے۔ وہ یہ کہ اگر آپ کو کسی گناہ کا وسوسہ آ جائے اور آپ اس وسوسہ کو دماغ سے جھٹک دیں، جب آپ ایسا کریں تو وہ وسوسہ دماغ سے چلا جائے اور دماغ میں کسی اور گناہ کا خیال آ جائے، تو سمجھ لیں کہ یہ شیطانی وساوس ہیں۔ کیونکہ شیطان کو کسی خاص گناہ میں کوئی interest نہیں ہے وہ صرف آپ کو اللہ تعالیٰ سے دور کرنا چاہتا ہے خواہ کسی بھی گناہ کےذریعے کرے۔ جب آپ ایک گناہ کے خیال کو دور کرتے ہیں، تو دوسرے گناہ کا خیال دماغ میں ڈال دیتا ہے۔ اس لئے اگر آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ آپ کے ذہن میں کوئی ایک گناہ کا خیال ٹِک نہیں رہا، بدل بدل کر الگ الگ گناہوں کے خیالات آ رہے ہیں تو یہ چیز شیطان کی طرف سے ہے۔اور اگر آپ دل و دماغ میں کوئی برا خیال کوئی گناہ کا وسوسہ آئے جو دماغ سے جا ہی نہیں رہا، تو یہ نفس کی طرف سے ہوتا ہے۔
ایک پہچان تو یہ ہے۔ دوسری پہچان یہ ہے کہ کچھ گناہ ایسے ہیں جو کافروں میں نہیں پائے جاتے یا بہت کم پائے جاتے ہیں، جبکہ مسلمانوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ سمجھ لیں کہ ان کا محرک شیطان ہے، کیونکہ شیطان لعین، مسلمان پہ ہر وقت کام کر رہا ہے۔ اسے خطرہ ہے کہ کہیں یہ اللہ کا بندہ نہ بن جائے اللہ پاک کا محبوب نہ بن جائے اس لئے شیطان اس کو ہر وقت گناہ کی طرف لانا چاہتا ہے۔ جبکہ کافر کو کفر پہ لا کر مطمئن ہو چکا ہے۔ کافر ایک دفعہ کافر ہو گیا تو اس پہ شیطان کی محنت پوری ہو گئی کیونکہ وہ جہنمی ہو چکا۔ اس کا ایک ہی گناہ یعنی کفر باقی سب گناہوں پہ بھاری ہے، شیطان کو اس سے اور گناہوں کی ضرورت ہی نہیں ہے، اس لئے وہ انہیں کفر کے علاوہ دیگر گناہ کرنے کے لئے نہیں بہکاتا۔ جبکہ مسلمان سے چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی کروانا چاہتا ہے۔ مسلمان کے بارے میں شیطان کی strategy یہ ہوتی ہے کہ سب سے پہلے تو یہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اگر یہ ممکن نہیں تو کبیرہ گناہ کرے۔ یہ بھی ممکن نہیں تو صغیرہ گناہ کرے۔ اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو کم سے کم اچھے کام نہ کرے۔ مسلمان کے بارے میں شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ فرض پورے نہ کرے۔اگر شیطان اس میں کامیاب نہیں ہوتا تو واجبات سے بھٹکاتا ہے، یہ بھی ممکن نہ ہو تو سنتوں سے دور کرتا ہے، یہ بھی ممکن نہ ہو تو مستحبات کی اہمیت کم کرواتا ہے، یہ ممکن نہ ہو تو مباحات میں زیادہ وقت لگواتا ہے۔ الغرض مسلمان کے ساتھ اس کی باقاعدہ strategy یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی درجے میں اس کو محروم کرے۔
لہٰذا آپ خود غور کریں کہ اگر دل میں گناہوں کا تقاضا آ رہا ہے اور کسی ایک گناہ کا خیال نہیں آ رہا مختلف گناہوں کے وساوس آتے ہیں تو یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے بلکہ نفس ایک خاص چیز پر insist کر رہا ہے کہ مجھے یہی چاہیے، تو یہ نفس کی طرف سے ہوتا ہے۔ جیسے بچہ ضد کرتا ہے کہ مجھے یہ چاہیے، وہ اس کو نہیں دیکھتا کہ مجھے اچھی چیز مل جائے۔ وہ کہتا ہے بس جو میری مرضی کی چیز ہو وہی مجھے ملے۔
یہ ایک موٹا سا فرق ہے اس کے ذریعے سے انسان معلوم کر سکتا ہے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم حضرت تعجیل کے بارے میں کچھ سوالات ہیں۔ تعجیل کی نشانیاں کیا ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی نشانی محسوس ہو تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے۔ کیا تعجیل کی کوئی فائدہ مند صورت بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے سستی سے بچاؤ کی نیت سے تعجیل کی جائے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔ جزاک اللہ۔
جواب:
”تعجیل“ اردو میں ”جلد بازی“ کو کہتے ہیں۔ عرف میں جلد بازی سے مراد یہ ہو سکتا ہے کہ جس چیز کے حصول کے لئے جتنے وقت کی ضرورت ہو انسان وہ وقت پورا ہونے سے پہلے ہی اسے طلب کرے۔ اب ذرا تھوڑا سا غور کیا جائے کہ کیا وقت سے پہلے کسی چیز کو طلب کرنے سے وہ چیز مل سکتی ہے؟ نہیں مل سکتی۔ جو چیز نہ مل سکتی ہو اس کے ملنے کی خواہش کرنے سے وہ چیز تو نہیں ملے گی ہاں فضول کی ٹینشن، ڈپریشن ملے گی اور وہ وقت جو اس چیز کے حصول کی کوشش میں لگنا تھا، بجائے کوشش کے وہ وقت ٹینش میں چلا جائے گا اور وہ چیز مطلوبہ وقت پر بھی حاصل نہیں ہو پائے گی۔ مثلاً اگر آپ روٹی پکانا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے مطلوبہ وقت پانچ منٹ ہو لیکن آپ اسے تین منٹ میں پکانا چاہیں تو وہ تین منٹ کے اندر صحیح طرح نہیں پکے گی یا کچی رہ جائے گی یا جل جائے گی۔ کچھ حصہ کچا ہو گا کچھ حصہ جلا ہوا ہو گا۔ کوئی بھی چیز جس کے لئے جتنے وقت کی ضرورت ہے، اسے اگر وقت سے پہلے کرنا چاہیں، تو وہ نہیں ہو سکتی۔ ہمارے ایک بزرگ فرماتے تھے لوگ tension میں اس لئے ہیں کہ وہ وقت سے پہلے اور قسمت سے زیادہ چاہتے ہیں۔اب ان کو وقت سے پہلے اور قسمت سے زیادہ کیسے ملے کہ یہ ممکن ہی نہیں۔
لہٰذا اس تفصیل کے مطابق تعجیل کی کوئی فائدہ مند صورت ہو ہی نہیں سکتی۔ البتہ جو بات سوال میں ذکر کی گئی ہے کہ اگر سستی سے بچنے کے لئے تعجیل کی جائے تو کیا یہ مفید ہے؟ در اصل یہ صورت تعجیل کے زمرے میں آتی ہی نہیں۔ بلکہ یہ سستی سے بچنا ہے۔ مثلاً پانچ منٹ میں ایک روٹی پک سکتی ہے، آپ اس کو سات منٹ میں پکانا چاہیں یا دس منٹ میں پکانا چاہیں تو وہ سستی ہو جائے گی۔ اب اس سستی سے بچنے کے لئے اتنی تعجیل کرنا کہ پانچ منٹ سے زیادہ نہ لگیں، اس صورت کو تعجیل نہیں کہیں گے بلکہ سستی سے بچنا کہیں گے۔ تعجیل بھی نہیں ہونی چاہیے سستی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ جس طرح تعجیل سے نقصان ہوتا ہے اسی طرح سستی سے بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ لہٰذا سستی بھی نہیں ہونی چاہیے، جلد بازی بھی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اعتدال ہونا چاہیے اور اعتدال یہی ہے کہ جتنا وقت اس چیز کے لئے درکار ہے اتنا وقت لگائے اس میں سستی نہ کرے اور اس میں جلدی بھی نہ مچائے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو ہر شر سے محفوظ فرمائے اور ہمیں آپ سے مضبوط نسبت عطا فرمائے۔ الحمد للہ ذکر وتلاوت میں پابندی ہو رہی ہے۔
حضرت جی! اس وقت دین کی دیگر محنتوں میں جو انتشار ہے اس میں آپ سے تعلق کی وجہ سے یکسوئی نصیب ہو جاتی ہے ورنہ وٹس ایپ پر دینی شارٹ کلپس وغیرہ سے ذہن ادھر ادھر بھٹکتا رہتا ہے۔ اس بارے میں مزید رہنمائی فرمائیں کہ کیا بالکل مت سنا کروں اور نہ دیکھا کروں؟
اس مہینے کے آخر میں سالانہ تیس چھٹیاں ہیں۔ کچھ وقت رائیونڈ میں اور اس کے بعد پھر خانقاہ میں وقت لگانے کا ارادہ ہے۔ باقی دن گھر والوں کے ساتھ گزاروں گا۔ آپ رہنمائی فرما دیں کہ کتنا وقت کہاں گزاروں۔ پھر اتنا ہی وقت لے کر ریاض کے بزرگوں کے پاس جاؤں گا۔ حضرت کیا یہ ترتیب درست ہے؟ آپ جیسے حکم فرمائیں گے ویسے ہی کروں گا۔ ان شاء اللہ۔
جواب:
الحمد للہ کہ ذکر اور تلاوت پابندی سے ہو رہی ہے۔ ایسے کاموں پر شکر کرنا چاہیے جس سے اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازیں۔
دین کے بہت سارے کام ہیں ، ہر آدمی سارے کام نہیں کر سکتا۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ انسان کی صلاحیتیں محدود ہیں وقت محدود ہے اور وسائل بھی محدود ہیں۔ انسان کو ان تین چیزوں میں محدود رہنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے محدود کا نتیجہ محدود ہی ہوتا ہے۔ جب ایسا ہے تو پھر دیکھا جائے کہ مجھے کس کام کے ساتھ مناسبت ہے۔ اللہ پاک نے مجھے کس کام کے لئے پیدا کیا ہے۔ مجھے چاہیے کہ میں اسی میں وقت لگاؤں، یہی ہوشیاری کا تقاضا ہے۔ اللہ پاک نے سب سے پہلے ہمیں عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔
﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56)
ترجمہ: ” اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔ “
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر کے مطابق اس آیت میں ”لِیَعْبُدُوْنِ“ کا معنی ”لِیَعْرفُوْن“ ہے۔ اس لحاظ سے آیت کا معنی یوں بنتا ہے کہ
” اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری معرفت حاصل کریں۔ “
معلوم ہوا کہ ہماری تخلیق کا مقصد اللہ پاک کی معرفت حاصل کرنا ہے۔ یہ معرفت اور عبادت ہمارا عمر بھر کا کام ہے یہ مستقل بنیادوں پہ چلتا رہے گا۔ اس کے علاوہ بہت سارے دوسرے دینی کام ہیں جو فرض کفایہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ مثلاً تبلیغ کا کام ہے، سیاست کا کام ہے، تصنیف و تالیف کا کام ہے، مدرسہ میں پڑھنا پڑھانا ہے۔ خلق خدا کی خدمت کے ذرائع ہیں۔ یہ سارے کام ایک آدمی نہیں کر سکتا۔ اس میں مشورے سے چلنا چاہیے۔ جیسے آپ تبلیغی جماعت میں چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ ایک اچھی بات ہے۔ یہ بھی ایک کام ہے، اسے ضرور کرنا چاہیے لیکن اسے سر انجام دیتے ہوئے یہ خیال ضرور رکھیں آپ کے اوپر معاشرے اور فیملی کی جو ذمہ داریاں ہیں، ان میں کمی کوتاہی نہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر ان ذمہ داریوں میں نقصان ہوتا ہو تو پھر ایسا کرنا درست نہیں، کیونکہ ان ذمہ داریوں کا تعلق حقوق العباد سے ہے، جس کا نمبر فرائض کفایہ سے پہلے ہے۔
اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ تبلیغ میں جانا ہو تو باقاعدہ پوچھ کر اور مشورے کے بعد جانا چاہیے۔ آپ کے اپنے مخصوص حالات ہوں گے اس لئے آپ سے اس پر تفصیل سے بعد میں بات کروں گا اور آپ کے حالات وغیرہ جان کر عرض کروں گا کہ آپ کے لئے تبلیغ میں جانا کتنا مناسب ہے یا خانقاہ میں ٹھہرنا کتنا مناسب ہے۔ ان ساری چیزوں کو مدنظر رکھ آپ کو درست مشورہ دے سکوں گا۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی دامت برکاتہم۔ سالک کو فنا فی الشیخ کا مقام کیسے حاصل ہوتا ہے؟ مجھے اس کے بارے میں بہت فکر رہتی ہے۔ اس بارے میں کچھ رہنمائی فرمائیں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔
جواب:
آپ ایسا کریں کسی دن اپنے والد صاحب سے پوچھیں کہ میں آپ سے کتنی محبت کروں۔ والدہ صاحبہ سے بھی یہی سوال پوچھیں کہ میں آپ سے کتنی محبت کروں نیز اپنی اولاد سے بھی پوچھیں کہ آپ کے ساتھ کتنی محبت کرنی چاہیے۔ وہ کوئی نہ کوئی جواب تو دیں گے ہی۔ ان کے جوابوں سے ہم اندازہ کر لیں گے کہ کسی سے کتنی محبت کرنی چاہیے۔ یہ معاملے محبت کے معاملے ہیں اور محبت کے پیمانے الگ ہوتے ہیں۔ ان کے لئے کوئی معیار یا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا کہ اتنی تعداد میں کر لیں گے تو محبت حاصل ہو جائے گی۔ فنا فی الشیخ میں جب فنا کا لفظ آ گیا تو ساری بات واضح ہو گئی کہ کم سے کم اتنی محبت تو کریں کہ آپ کی اپنی چاہت مکمل طور پہ فنا ہو جائے۔ لہٰذا ان باتوں میں ذرا غور کریں آپ کو جواب مل جائےگا۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت ”علیکم بسنتی“ کتاب جس کی تعلیم خانقاہ میں جوڑ کے دوران ہوتی ہے، اس میں کھانے کے آداب میں فرمایا گیا ہے کہ کھانا کھاتے وقت یہ نیت کر لیا کریں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت پر قدرت حاصل کرنے کے لئے کھانا کھا رہا ہوں۔ اس حالت کو حاصل کرنے کے لئے کیا کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت لذت سامنے ہوتی ہے اور انسان نفس کی لذت کی وجہ سے کھانا کھاتا ہے۔ والسلام۔
جواب:
اول تو اس کتاب میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ لذت والا کھانا نہیں کھانا چاہیے۔ کھانا دونوں مقاصد کے لئے کھایا جاتا ہے، بھوک مٹانا بھی مقصود ہوتا ہے اور لذت بھی مقصود ہوتی ہے۔ البتہ بھوک مٹانا مقصدِ اصلی ہے جبکہ لذت اس کے لئے ایک ذریعہ کے طور پر ہے۔ لذت کے اپنے فوائد ہیں۔ کھانا بے شک لذیذ ہی کیوں نہ ہو اس میں قوت کا حصول ہی مطلوب اصلی ہوتا ہے لذت اس کے لئے ایک ذریعہ ہوتی ہے۔
البتہ اگر آپ بے وقوف ہیں تو لذت کی خاطر قوت کو چھوڑ دیں گے جیسے ہماری قوم کے اکثر لوگ کرتے ہیں۔ بہت سارے لوگ زیادہ مسالوں والا کھانا اس لئے کھاتے ہیں کہ ان کو اس میں مزہ آتا ہے بے شک ان کی صحت کو نقصان ہی کیوں نہ ہورہا ہو۔
بہرحال شریعت نے کھانے میں لذت ہونے کو منع نہیں کیا، اس لئے اگر کھانا کھاتے وقت عبادت کے لئے قوت کے حصول کی نیت ہو اور کھانا بہت لذیذ ہو، نفس اس کی لذت کی وجہ سے کھانے کی طرف راغب ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ جب علاجی مجاہدہ کروایا جاتا ہے تو اس میں وقتی طور پہ لذت پر کنٹرول کرنے کے لئے کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ مجاہدہ وہی ہوتا ہے جس میں طبیعت کو مرغوب چیز سے روک دیا جائے۔ اسی کو مجاہدہ کہتے ہیں۔ لیکن وہ مطلوب و مقصود اصلی نہیں ہوتا بلکہ ایک خاص مقصود کو حاصل کرنے کا صرف ایک ذریعہ ہوتا ہے۔
اور یہ جو آپ نے کہا کہ اگر کھانا لذیذ ہو تو نیت لذت کی ہو جاتی ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ عبادت پر قوت کے حصول کی نیت آپ اس صورت میں بھی کر سکتے ہیں جب کھانے میں لذت ہو کیونکہ قوت تو تب بھی حاصل ہوتی ہے جب اس میں لذت ہو، بلکہ وہ لذت کھانے میں معاون ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ اس میں بھی یہ نیت کر سکتے ہیں کہ یہ لذت بھی میں اس لئے استعمال کر رہا ہوں تاکہ یہ کھانا میرے لئے مفید ہو جائے اور مجھے طاقت و قوت حاصل ہو اور میں آسانی سے عبادت کر سکوں۔ اس کے ساتھ تیسری چیز آپ یہ شامل کر سکتے ہیں کہ اس پر شکر کر لیں کہ اللہ پاک نے میرے لئے ایسی چیز کا بندوبست فرمایا جو مجھے پسند بھی ہے اور اس میں قوت بھی ہے۔
میں اس بات پر اللہ پاک کا بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ جو چیزیں مسنون ہیں وہ مجھے پسند بھی ہیں۔ کدو آپ ﷺ کو پسند تھا ۔ الحمد للہ ہمیں بھی پسند ہے۔ اس پر میں جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔ اور بھی کچھ ایسی مسنون چیزیں ہیں جو اللہ پاک کے فضل و کرم سے ہمیں پسند ہیں اور اللہ پاک وافر مقدار میں عطا فرماتے ہیں۔
لہٰذا اگر آپ کوئی ایسی چیز مل رہی ہے جو مفید بھی ہے اور لذیذ بھی۔آپ اسے استعمال کریں، اس کی لذت سے مستفیض ہوں اور نیت یہی رکھیں کہ میں اس کھانے سے اللہ پاک کی عبادت کے لئے قوت حاصل کروں گا اور اس پر اللہ کا شکر ادا کریں تو ساری چیزیں جمع ہو سکتی ہیں۔ ہمارا مجاہدہ جوگیوں والا مجاہدہ نہیں ہے ،مسلمانوں والا مجاہدہ ہے۔ ان دونوں میں فرق یہی ہے کہ ان کا مقصد مجاہدہ سے کوئی دنیاوی قوت حاصل کرنا ہوتا ہے جبکہ ہمارا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا اور اس کی عبادت پر قوت حاصل ہوتا ہے۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت ! کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ کے خلفاء مختلف شہروں میں جا کر بیان کریں۔ کیونکہ آپ کے لئے ہر وقت ہر جگہ جانا ممکن نہیں۔ میرے شہر میں بزرگوں کے خلفاء آتے ہیں جو مختلف مساجد میں بیان کرتے ہیں ۔ان میں سے کئی جگہوں پر گمراہ لوگوں کے خلفاء آتے ہیں، بیان کرتے ہیں اور لوگ ان سے بیعت بھی ہو جاتے ہیں۔ اس طرح تو لوگ گمراہ لوگوں سے بیعت ہو رہے ہیں جو کہ بہت نقصان دہ ہے۔ اگر اہل حق بزرگوں کے خلفاء بھی جگہ جگہ بیان کریں تو لوگ گمراہ لوگوں سے بچ جائیں گے۔
جواب:
بالکل ٹھیک ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ایسا ہونا چاہیے۔ جو خلفاء اپنے گاؤں وغیرہ میں اپنے علاقوں میں جاتے ہیں وہ اگر کچھ وقت اس کے لئے بھی مختص کر لیں تو بڑی اچھی بات ہے۔ میں پہلے بھی اس پر بات کر چکا ہوں کہ لوگوں کو اپنے اپنے علاقوں میں کام کرنا چاہیے۔ جب وہاں جائیں تو اپنے ساتھ ہماری کتابیں لے جائیں۔ وہاں بیان شروع کریں۔ اور کچھ نہیں تو شروع کرنے کے لئے ہماری کتاب فہم التصوف کی تعلیم ہی سے شروع کر لیں۔ فہم التصوف کتاب موجود ہے، حقیقت جذب و سلوک موجود ہے، طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی جدید ترتیب موجود ہے، ہماری اور کتابیں بھی موجود ہیں۔ان کو شروع کیا جا سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ پھر اللہ پاک زبان کھول دیں گے اور وہاں پہ بات چل پڑے گی۔ یہ ایک اچھی تجویز ہے اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت اقدس کی خدمت میں یہ سوال عرض ہے کہ جیسے شیخ کی صحبت میں مرید کو ذکر نہیں کرنا چاہیے، کیا اسی طرح آن لائن بیان سنتے ہوئے بھی ذکر نہیں کرنا چاہیے؟
جواب:
اپنی اصلاح فرض عین ہے۔ آپ شیخ کے پاس کس لئے آتے ہیں؟ اپنی اصلاح کے لئے ہی آتے ہیں جو ایک فرض عین عمل ہے۔اگر آپ شیخ کی مجلس سے دور ہیں اور آن لائن بیان سن رہے ہیں تو وہ فرض عین یعنی اپنی اصلاح کی نیت سے سن رہے ہوتے ہیں۔ اگر فرض عین عمل جاری ہو اور اسی وقت میں ایک مستحب عمل بھی ہو رہا ہو تو کیا آپ مستحب عمل کے پیچھے جائیں گے؟ اِدھر جماعت کھڑی ہو جائے اور آپ ادھر ضربیں لگاتے رہیں تو کیا خیال ہے ایسا کرنا جائز ہو گا؟ ہر گز جائز نہیں ہوگا۔ ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے۔ شیخ کا بیان سننے کے لئے الگ وقت رکھیں اور باقی اعمال کے لئے الگ وقت مقرر کریں۔ اس میں ذکر کریں، درود شریف پڑھیں، قرآن پاک کی تلاوت کریں جو جائز عمل چاہیں کر سکتے ہیں لیکن جس وقت شیخ کے پاس ہوں یا شیخ کا بیان سن رہے ہوں اس وقت اس کے قلب کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے۔ یہ ہمارے بزرگوں کی بتائی ہوئی بات ہے کہ شیوخ کو اللہ تعالیٰ نے چونکہ آپ کے لئے ذریعہ بنایا ہے، دروازہ بنایا ہے۔ لہٰذا آپ کے لئے فیض کو گویا ان کے دل میں رکھ دیا جاتا ہے۔ آپ نے وہاں سے انہیں حاصل کرنا ہے۔ اس لئے آپ جب شیخ کی مجلس میں ہوں یا ان کا بیان سن رہے ہوں تو ان کے دل کی طرف توجہ مرکوز رکھیں۔ جو فیض آپ کے لئے ان کے دل میں رکھا جا رہا ہے اگر آپ اس وقت ان کی طرف متوجہ نہ ہوں گے تو وہ رہ جائے گا اور آپ کو فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ ایک سیدھی سی بات ہے اس کو سمجھنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ بعض لوگ واقعی باتوں سے چیستان بنا لیتے ہیں جس کی وجہ سے سیدھی سادی بات سمجھ نہیں آ رہی ہوتی۔
لہٰذا اگر آپ شیخ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں یا آن لائن بیان سن رہے ہیں ہے تو آپ ایک فرض عین کام کر رہے ہیں اس لئے اس وقت مستحب کاموں کو موقوف کر دیا کریں۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! مراقبہ شروع کرنے کے تقریباً ایک سال بعد دل جاری ہو گیا۔ الحمد للہ اب کیفیت یہ ہو گئی ہےکہ اگر نماز کے دوران یکسوئی ہو جائے تو ساتھ دل بھی دھڑکتا ہے۔ رات کو سوتے وقت اگر بستر پر لیٹوں اور ذکر نہ کروں تو بھی دل کی دھڑکن واضح محسوس ہو رہی ہوتی ہے مگر مراقبہ کے دوران یہ کیفیت نہیں رہتی۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس بارے میں خاص رہنمائی کریں۔
جواب:
الحمد للہ بہت اچھی بات ہے اصل میں بات یہ ہے کہ ایک بار لطائف جب چل پڑتے ہیں تو اس کے بعد وہ تب محسوس ہوتے ہیں جب ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ کو مراقبہ کے وقت محسوس نہیں بھی ہو رہا تب بھی کام ہو رہا ہے۔ نظام بن رہا ہے۔ اس نظام کا ظہور اگر کسی اور وقت ہو جائے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر آپ اس کو ابھی چھوڑ دیں اور چند دن نہ کریں تو وہ بھی بند ہو جائے گا۔ آپ جو کہہ رہی ہیں کہ جب لیٹتی ہیں تو اس وقت محسوس ہوتا ہے یا نماز میں محسوس ہوتا ہے، چند دن چھوڑیں گی تو یہ بھی ختم ہو جائے گا۔ در اصل ایساہے کہ جو آپ روزانہ بیٹھ رہی ہیں اور باقاعدہ مراقبہ کر رہی ہیں اس سے صلاحیت پیدا ہو رہی ہے لیکن اس صلاحیت کا ظہور دوسرے وقت میں ہو رہا ہے۔ ایسا ہونا ممکن ہے۔ بعض سالکین کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم حضرت جی مجھ میں برداشت کی بہت کمی ہے غصہ جلدی آ جاتا ہے اس کا کوئی علاج فرما دیجئے گا۔
جواب:
یہ جو آپ کو غصہ کی زیادتی کا اور برداشت کی کمی کا احساس ہو رہا ہے، یہ در اصل آپ علاج کی طرف ہی جا رہی ہیں۔ البتہ ہوتا یہ ہے کہ بعض اوقات انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ میرے اندر یہ چیز ہے یا نہیں، مثلاً کسی آدمی میں تکبر ہے لیکن اس کو تکبر کا علم نہیں ہے کہ تکبر کہتے کسے ہیں، لہٰذا وہ کہتا ہے کہ مجھ میں تکبر نہیں ہے، کیونکہ تکبر اور خود داری کچھ مشترک سی چیز نظر آتی ہے۔ جس وقت تکبر کا علاج نہیں ہو چکا ہوتا وہ تکبر کو خود داری کہتے رہتے ہیں اور جس وقت علاج ہو جاتا ہے تو خود داری کو بھی تکبر سمجھنے لگتے ہیں۔ اس وقت اللہ کا ڈر اور خوف زیادہ ہوتا ہے اور اپنا آپ بہت ہیچ معلوم ہوتا ہے ہر روحانی رذیلہ کے بارے میں اپنے اوپر شک رہتا ہے کہ کہیں یہ مجھ میں نہ ہو۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ڈر تھا کہ کہیں میں منافق تو نہیں ہوں۔
ایسے چیزیں پہلے بھی آپ کے ساتھ ہوئی ہوں گی لیکن آپ نے اس کو نوٹ نہیں کیا۔ اب چونکہ آپ نے ذکر کرنا شروع کیا اور ذکر سے فائدہ ہونے لگا ہے تو آپ کے دل سے پردے ہٹنے لگے ہیں۔ نتیجتاً آپ کو نظر آنے لگا کہ مجھ میں کیا کیا عیوب ہیں۔
اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کی نظر اتنی کمزور ہو چکی ہو کہ) (- 4 تک پہنچ گئی ہو لیکن وہ یہ سمجھتا ہو کہ میری نظر ٹھیک ہے۔ ایسے آدمی کو بعض چیزیں نظر نہیں آتیں۔
ہمارے بعض ساتھیوں کے ساتھ ایسا معاملہ تھا۔ انہیں اپنی نظر کے کمزور ہونے کا پتا اس وقت چلا جب ان کے سائیکل پہ accident ہو گئے۔ تب کہیں جا کر ان کو پتا چلا کہ ہماری نظر کمزور ہے۔ اسی طرح بعض بچوں کو دور سے بلیک بورڈ پرلکھا ہوا نظر نہیں آتا۔ ٹیسٹ کروانے پہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظر کمزور ہو چکی ہے۔
اب جن لوگوں کی نظر کمزور تھی انہیں کسی طرح معلوم ہوگیا کہ ہماری نظر کمزور ہے اور انہوں نے عینک لگوا لی۔ عینک لگوانے کے بعد جو چیزیں پہلے نظر نہیں آ رہی تھیں وہ نظر آنے لگیں۔ مثلاً آپ کے ساتھ قریب ہی سانپ بیٹھا ہوا تھا آپ کو پہلے نظر نہیں آرہا تھا آپ بڑے مطمئن تھے۔ جس وقت آپ نے عینک پہن لی تو پتا چلا کہ سانپ ہے آپ اچانک اچھل پڑے اور اپنے بچاؤ کا سامان کرنے کے لئے فکر مند ہو گئے۔
یہی مثال آپ کے مسئلہ کی ہے، کہ غصہ جلدی آنا اور برداشت کی کمی وغیرہ پہلے بھی تھیں، لیکن ذکر و مراقبہ کی برکت سے دل صاف ہو رہا ہے اور اپنے عیوب کا احساس ہونا شروع ہورہا ہے۔ علاج شروع ہے اور اس حد تک تو ہو گیا ہے کہ آپ کو پتا چلنے لگا ہے۔ اس کو چلائے رکھیں۔ ان شاء اللہ آہستہ آہستہ بہتری کی طرف جائے گا۔ اس میں یہ بھی ممکن ہے آپ کو پتا نہ چلے کہ بہتری ہو رہی ہے، کسی اور کو پتا چل جائے کہ آپ کو فائدہ ہونے لگا ہے۔لہٰذا آپ استقامت کے ساتھ اپنے ذکر و اذکار اور مراقبات جاری رکھیں۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم حضرت!
I get very disheartened when I don’t get your reply of my messages. I think that you are angry or there is nothing to reply as though I have not asked any question. My مراقبہ is continued. You had given me two مراقبات
لطیفۂ قلب پر دس منٹ اللہ اللہ اور لطیفۂ روح پر پندرہ منٹ
Now somehow the first one is better done than the second, I can’t do the first better but it is difficult for last five minutes. sometimes مراقبہ is with concentration but sometime it is difficult, the second مراقبہ is difficult for last five minutes I can’t concentrate it is from that.
جواب:
I am not angry but I am busy.
کوشش جاری رکھیں اس راہ میں تیار نوالہ نہیں ملتا خود محنت کرکے کچھ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ تیار نوالہ ہر ایک کو پسند ہے لیکن کچھ کرنا تو پڑتا ہے۔ جلدی نہیں مچانی چاہیے البتہ آپ اپنے حالات بھیجتی رہیں۔ آپ کو وقت پر ہی جواب ملے گا۔
جس وقت آپ نے کہا کہ میرا ذکر جاری ہے تو مجھے پتا چل گیا کہ آپ ذکر کر رہی ہیں۔ اب اس پر میری طرف سے کوئی جواب ملنا ضروری نہیں ہے۔ مجھے پتا چل گیا کہ آپ ذکر کر رہی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو بات آپ نے بتائی ہے کہ اگلے والا ذکر آپ کے لئے مشکل ہوتا ہے تو آپ اس مشکل کام کو مشکل لگنے کے باوجود کر لیں۔ اس میں ثواب اور اجر بڑھ جائے گا کیونکہ آپ کو مجاہدہ کرنا پڑے گا۔ مجاہدہ کا اجر بھی آپ کو مل جائے گا۔ ہاں! البتہ چونکہ یہ ذرائع ہیں۔ ان ذرائع کو ذرائع سمجھنا چاہیے۔ آپ کو فرض عین پورا کرنے کا اجر ملتا ہے۔
اب آپ یوں کریں اللہ اللہ لطیفۂ روح پر پندرہ منٹ والا معمول جاری رکھیں۔ ان شاء اللہ العزیز یہ تکلیف بھی کم ہوتی رہے گی اور اس کی برکات بھی بڑھیں گی۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت یہ سوال آپ کی مجلس میں آنے اور جانے کے آداب سے متعلق ہے۔ میں نے کچھ ساتھیوں کو دیکھا ہے کہ جب وہ مجلس میں آتے ہیں اور بیان شروع ہو چکا ہو تو آپ کو سلام کرتے ہیں شاید یہ اجازت والا سلام ہوتا ہے واللہ اعلم۔ اور آپ جواب میں اشارہ بھی فرماتے ہیں۔ میں نے بھی دو تین دفعہ ایسے کیا ہے لیکن پھر میرے دل میں یہ بات مسلسل کھٹک رہی ہے کہ ایک دفعہ آپ سے پوچھ لوں کہ مجلس کے آداب کیا ہیں۔ کیونکہ بیان تو شروع ہو چکا ہوتا ہے، بیان کے دوران سلام کرنا کہیں آداب کے خلاف نہ ہو۔ کیا اس طریقے سے آتے ساتھ ہی سلام کرنا یا اجازت لینا درست ہے یا پھر خاموشی سے آ کے نیچے بیٹھ جانا چاہیے۔
بعض دفعہ کوئی ساتھی وضو وغیرہ کے لئے اٹھ جاتے ہیں مثلاً وضو وغیرہ کے لئے یا کوئی اور مسئلہ پیش آ جاتا ہے جس کی وجہ سے اٹھنا پڑ جاتا ہے۔ کیا اٹھتے وقت بھی اشارہ کرکے اجازت لینا ضروری ہے یا پھر ویسے ہی نکل سکتے ہیں۔ برائے مہربانی اس کی وضاحت فرما دیں جزاک اللہ۔
جواب:
جزاک اللہ! آپ نے بڑی اچھی بات نوٹ کی ہے۔ دینی بیان بالخصوص اصلاحی بیان بہت اہم ہوتا ہے۔ اس میں مکمل توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس چیز سے بھی توجہ بٹتی ہو انسان کو اس سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے۔ دینی مجلس میں جب بات شروع ہو چکی ہوتی ہے تو اس وقت آکے بیٹھ جانا چاہیے سلام کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ ہاں اگر بلا تکلف بیٹھے ہوں، بات چیت کر رہے ہوں۔ اس صورت میں آ کے سلام کرنا چاہیے، باقاعدہ مصافحہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب اجتماعی بات شروع ہو جائے تو اجتماعی عمل کا طریقہ یہ ہے کہ اجتماعی عمل تمام انفرادی اعمال سے آگے ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے وقت میں اجتماعی بات کی طرف دھیان دینا چاہیے۔
ایک مرتبہ ہم حرم شریف کے پاس ایک جگہ بیٹھے تھے۔ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ بیان فرما رہے تھے۔ اسی اثنا میں حرم شریف کی اذان شروع ہو گئی۔ حضرت نے بیان جاری رکھا اور اذان کا جواب نہیں دیا۔ پھر فرمایا کہ میں نے بیان قصداً جاری رکھا تاکہ لوگوں کو مسئلہ معلوم ہو جائے کہ جب دینی بات چل رہی ہو تو ان پر اذان کا جواب دینا واجب نہیں ہوتا۔ جب دین کی بات کے دوران اذان کا جواب تک موقوف کیا جا سکتا ہے تو باقی چیزیں سلام وغیرہ تو اس کے بعد آتی ہیں۔
اس تفصیل کے مطابق ہمیں آتے وقت بھی سلام نہیں کرنا چاہیے، جاتے وقت بھی سلام نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تک اشارے کی بات ہے تو یہ ایک انتظامی چیز ہے جسے ضرورت کے وقت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کو آپ نے کسی ضرورت کے تحت بٹھایا ہے اور وہ صرف تقاضے کے لئے جا رہا ہے، تو وہ اس بات کو بتانے کے لئے (کہ میں جا نہیں رہا ،صرف تقاضے کے لئے جا رہا ہوں اور واپس آؤں گا) اشارہ کر کے جا سکتا ہے۔ تاکہ جو بات کر رہا ہو اس کو پریشانی نہ ہو کہ وہ اپنی بات چھوڑ کے اس سے پوچھے کہ دوبارہ آنا ہے یا نہیں آنا۔ ایسے وقت وہ اشارہ کرتے ہوئے جا سکتا ہے۔ یہ ایک ضروری اور انتظامی چیز ہے۔
لیکن اگر ایسی کوئی بات نہیں، کسی نے آپ کو بٹھایا نہیں ہے، آپ خود آ کر بیٹھے ہوئے تھے اور اب جانا چاہتے ہیں تو پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ جائیں اور اپنے تقاضے سے فارغ ہو کر پھر دوبارہ اپنی مرضی سے آ جائیں۔
کیونکہ ہر چیز سے مجلس میں کچھ نہ کچھ رکاوٹ بنتی ہے لہٰذا ان رکاوٹوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ طریقہ یہ ہے کہ جب دینی مجلس شروع ہو جائے، اجتماعی عمل شروع ہو جائے تو پھر انفرادی عمل موقوف ہو جاتے ہیں۔ اس وقت آپ آرام سے آ کر جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائیں۔ اور مجلس کے آداب کا خصوصی خیال رکھیں۔ مثلاً جگہ تنگ ہے تو دیکھا جائے کہ کسی طرح جگہ وسیع ہو سکتی ہے تو وسیع کی جائےمثلاً کوئی دور دور بیٹھا ہوا ہے تو وہ قریب آ کر بیٹھ جائے تاکہ پیچھے والوں کے لئے جگہ بن جائے۔ ورنہ پھر وہ گردنیں پھلانگیں گے جو کہ مناسب نہیں ہے، آداب مجلس کے خلاف ہے۔ ایسے وقت خود ہی سب کو چاہیے کہ قریب قریب ہو جائیں۔ اگر دائرے میں بیٹھے ہوئے ہوں اور دائرہ وسیع کیا جا سکتا ہے تو وسیع کر لیں تاکہ بہت سارے لوگوں کو جگہ مل جائے۔ اور یہ کام حاضرین مجلس کو خود بخود کرنا چاہیے کسی کو کہنے کی ضرورت نہ پڑے۔ خصوصاً اس بات کا خیال رکھیں کہ جب اجتماعی بات چل رہی ہو تو آ کر خاموشی کے ساتھ جہاں جگہ مل جائے بیٹھ جائیں۔ اگر کسی تقاضے سے جانا ہو تو خاموشی سے اٹھ کر چلے جائیں۔ پھر اگر واپس آنا ہو اور اسی جگہ پہ بیٹھنا چاہتے ہوں تو ادھر کوئی چادر وغیرہ چھوڑ دیں تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ اس کے لئے جگہ مقرر ہے۔ اس طرح وہ اپنا تقاضا بھی پورا کر لیں گے اور جگہ بھی محفوظ رہے گی۔
سوال نمبر 13:
پچھلے ہفتے منگل کے دن عارفانہ کلام کی مجلس میں خود رائی اور خود نمائی کا ذکر الگ الگ شعروں میں ہوا تھا۔یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں یا الگ الگ ہیں؟
جواب:
اپنے آپ کو کچھ سمجھنا، اس کو خود رائی کہتے ہیں اور خود نمائی اس کوشش کو کہتے ہیں جس میں انسان اپنے آپ کو لوگوں کو دکھانا چاہتا ہے۔
سوال نمبر 14:
حضرت شیخ سے محبت اور آدابِ شیخ کے بارے میں کچھ رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
محبت خود تجھے آداب محبت سکھادے گی
جب شیخ کے ساتھ محبت ہو گی تو آداب خود ہی آ جائیں گے۔ جس کو شیخ کے ساتھ محبت ہوتی ہے وہ اس کے آداب بھی سیکھ لیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو چونکہ شیخ کے ساتھ محبت ہوتی ہے، وہ شیخ کو کسی حال میں ناراض نہیں کرنا چاہتا اس لئے خود ہی ڈھونڈتا ہے کہ وہ کون سی باتیں ہیں جن سے شیخ ناراض ہو سکتا ہے اور ان چیزوں سے بچتا ہے۔
یوں سمجھ لیجئے کہ یہ ایک طرح سے تقویٰ کی rehearsal ہوتی ہے۔ اس محبت کو پہلے وہ شیخ کے لئے استعمال کرتا ہے پھر آپ ﷺ کے لئے اور پھر اللہ تعالیٰ کے لئے کہ ہر چیز میں نیت درست ہو۔ شیخ کی محبت اور اس کا ادب کرنا سلوک اور معرفت الی اللہ کی پہلی سیڑھی ہے۔
سوال نمبر 15:
تکبیر اولیٰ کی حد کہاں تک ہے۔ امام صاحب جیسے ہی اللہ اکبر کہتے ہیں کیا وہیں تک ہے یا کوئی مزید تفصیل ہے؟
جواب:
اس میں تین اقوال ہیں۔
پہلا قول امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو سب سے زیادہ اَحْوَط قول ہے۔ وہ یہ ہے کہ جیسے ہی امام اللہ اکبر کہے تو آپ اس کے ثناء ختم کرنے سے پہلے پہلے اللہ اکبر کہہ لیں۔ اگر امام نے فاتحہ شروع کر لی اور آپ نے تب تکبیر کہی تو اس کا مطلب ہے کہ تکبیر اولیٰ آپ سے رہ گئی۔
دوسرا قول صاحبین کا ہے اور وہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کے ختم ہونے سے پہلے پہلے آپ شامل ہو جائیں تو بھی آپ کو تکبیر اولی مل گئی ہے۔
تیسرا قول بعض ائمہ کا یہ ہے کہ اگر آپ نے پہلی رکعت پا لی تو آپ کی تکبیر اولیٰ ہو گئی۔
آخری قول سب سے زیادہ اَوْسَع ہے، وسعت والا ہے اور پہلا قول سب سے زیادہ اَحْوَط ہے یعنی اس میں احتیاط زیادہ ہے۔
یہ جو ہم معمولات کا چارٹ فِل کرواتے ہیں اس میں تکبیر تحریمہ کے بارے میں بھی بتانا ہوتا ہے۔ اس میں ہمارے نزدیک تکبیر اولیٰ کا معیار پہلے قول والا لیا جاتا ہے۔
تکبیر اولیٰ کے ساتھ جماعت میں شامل ہونے کی فضیلت بہت زیادہ بتائی گئی ہے۔ اگر کوئی تکبیر اولیٰ کے ساتھ چالیس دن تک نماز پڑھے تو اسے دو پروانے مل جاتے ہیں ایک جہنم سے خلاصی کا، دوسرا نفاق سے بری ہونے کا۔ یہ دونوں بہت بڑی value کی چیزیں ہیں۔
لہٰذا تکبیر اولیٰ کے لئے انسان کو بہت ہی زیادہ alert اور محتاط رہنا چاہیے کہ کہیں رہ نہ جائے۔ اور جیسا کہ عرض کردیا ہےکہ ہم تکبیر اولیٰ کا معیار یہ لیتے ہیں کہ ثنا ختم ہونے سے پہلے پہلے شامل ہو جائیں۔ میں خود اپنے لئے یہ معیار رکھتا ہوں۔ جب میرا چلہ شروع ہوتا ہے تو یہی حساب رکھتا ہوں اور تکبیر اولیٰ اسی کو شمار کرتا ہوں جس میں ثناء ختم ہونے سے پہلے پہلے شامل ہو جاؤں۔
سوال نمبر 16:
حضرت جب میں یہاں پہ چالیس دن لگا رہا تھا تو میرے ساتھ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ یہاں نماز کھڑی ہو گئی اور میں تب شامل ہوا جب سورۃ فاتحہ شروع ہو چکی تھی۔ تو کیا مجھے تکبیر اولیٰ مل گئی ہو گی؟
جواب:
ان شاء اللہ دوسرے قول کے مطابق تو امید ہے کہ مل گئی ہو گی۔ اصل میں ہمیں اپنے طور پہ سب سے بہتر عمل پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر کبھی کچھ کمی رہ جائے تو توبہ و استغفار کے ساتھ اللہ سے قبولیت کی امید رکھنی چاہیے۔ اللہ جل شانہ کا طریقہ بھی یہی ہے اور ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو follow کرنا چاہیے کہ اللہ جل شانہ گناہ سے ڈراتا ہے کہ گناہ نہ کرو ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے۔ اس لئے اگر ہم سے گناہ ہو جائے تو کہتا ہے کہ توبہ کرو ابھی معاف کر دوں گا۔
سوال نمبر 17:
عاجزی اور احساس کمتری ملتی جلتی چیزیں ہیں۔ ایک شخص جس کی ابھی اصلاح نہیں ہوئی ہو وہ کیسے ان میں فرق کر کے احساس کمتری سے بچ سکتا ہے؟
جواب:
احساس کمتری اور عاجزی میں آسان سا فرق یہ ہے کہ احساس کمتری دنیا کی وجہ سے ہوتی ہے اور عاجزی اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جو اللہ کے ڈر کی وجہ سے ہو وہ عاجزی ہوتی ہے کہ کہیں اللہ پاک ناراض نہ ہو جائیں۔ جو اللہ نے مجھے دیا ہے چھین بھی سکتا ہے۔اس ڈر کی وجہ سے جب آپ سر جھکا کے چلیں گے تو اس کا مقصد آپ کے ذاتی مفادات نہیں ہوں گے بلکہ آپ کا مقصد یہ ہوگا کہ اللہ پاک راضی ہو جائے۔ جبکہ احساس کمتری میں دنیا والوں کے سامنے سر جھکایا جاتا ہے۔
احساس کمتری ایک بیماری ہے اور عاجزی صفات حمیدہ میں سے ایک صفت ہے۔ اللہ پاک کو بڑی پسند ہے۔ عاجزی اختیار کرنا چاہیے لیکن احساس کمتری کے سائے سے بھی بچنا چاہیے۔ یہ سب depression وغیرہ زیادہ تر احساس کمتری سے ہوتا ہے۔ لوگ اپنے آپ کو دنیا والوں سے کمپیئر کرکے اپنے آپ محروم سمجھ رہے ہوتے ہیں نتیجتاً آہستہ آہستہ وہ depression کی طرف چلے جاتے ہیں۔ جبکہ عاجزی کے ذریعے سے کبھی کسی کو depression نہیں ہوا۔
سوال نمبر 18:
حضرت! معمولات کا چارٹ فل کرنے کے حوالے سے ایک سوال ہے کہ چارٹ میں نوافل کا بھی کالم ہے، اسے فِل کرنا ہوتا ہے۔ اگر کسی کے ذمے قضا نمازیں ہوں اور وہ قضا نمازیں ادا کر رہا ہو تو کیا وہ نوافل والے کالم کو قضا نمازوں سے فل کر سکتا ہے، یا اس سلسلے میں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟
جواب:
بلاشبہ نوافل سے زیادہ value قضاء نمازوں کی ہے، قضا نمازو ں کو نوافل پر فوقیت دینی چاہیے۔ البتہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کا اپنا ایک اجتہاد ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ اگر آپ نوافل بالکل چھوڑ دیں تو ان نوافل کے ساتھ جو آپ قضاء نمازیں پڑھ سکتے تھے وہ رہ جائیں گی۔ آپ کے لئے نوافل کا slot ہی ختم ہو جائے گا۔ اس کی وجہ سے وہ قضاء نمازیں بھی چلی جائیں گی، نوافل بھی چلے جائیں گے۔ لہٰذا آپ نوافل مکمل طور پر نہ چھوڑیں، کچھ نوافل پڑھتے رہیں، البتہ زیادہ تر قضاء نمازیں پڑھیں۔ preference قضاء نمازوں کو دینی چاہیے لیکن نوافل کو بھی کسی حد تک جاری رکھنا چاہیے۔ جیسے اگر تہجد کا وقت ہو اور قضا نمازیں بھی ذمہ ہوں تو تہجد کی نیت سے اٹھ کھڑا ہو اور کم سے کم دو رکعت تہجد پڑھ کر باقی رکعتیں قضاء نمازوں کی پڑھ لے۔ یہ طریقہ زیادہ بہتر ہے۔
سوال نمبر 19:
قضا نماز پڑھتے ہوئے نیت کیسے کرنی چاہیے؟
جواب:
اس کی دو قسم کی نیتیں ہیں۔
ایک نیت یہ ہے کہ ہر قضا نماز پڑھتے وقت یہ نیت کرے کہ جو مجھ سے آخری نماز قضا ہوئی ہے وہ نماز ادا کرتا ہوں۔
یہ اس صورت میں ہے جب قضا نمازوں کی تعداد اور وقت وغیرہ معلوم نہ ہو کیونکہ بعض دفعہ بہت زیادہ نمازیں قضاء ہو چکی ہوتی ہیں، کون سی نماز کب قضا ہوئی کچھ پتا نہیں ہوتا۔ اس صورت میں یہ نیت کرنی چاہیے۔ مثلاً فجر کی نماز قضاء ہوئی ہو تو نیت کرے کہ جو مجھ سے آخری فجر کی نماز قضا ہوئی وہ ادا کرتا ہوں۔ اسی طرح ظہر کی نماز ادا کرتے وقت نیت کرے کہ جو آخری ظہر کی نماز قضاء ہوئی ہے اس کے فرض پڑھتا ہوں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ یہ نیت کریں کہ مجھ سے جو پہلی فجر کی نماز قضا ہوئی تھی وہ ادا کرتا ہوں یا پہلی ظہر کی نماز جو قضاء ہوئی تھی وہ ادا کرتا ہوں۔
یہ دونوں طریقے ٹھیک ہیں، جو چاہیں اختیار کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر 20:
کیا قضا نمازیں پڑھنے کے لئے ہم ایسی ترتیب اختیار کر سکتے ہیں کہ جس وقت کی نماز ہم ادا کر رہے ہوں ، اسی وقت والی قضا نماز ادا کر لیں؟
جواب:
جی ہاں بالکل یہی ترتیب رکھنی چاہیے کہ ظہر کے ساتھ ظہر پڑھ لے، عصر کے ساتھ عصر پڑھ لے، مغرب کے ساتھ مغرب پڑھ لے، عشاء کے ساتھ عشاء پڑھ لے اور فجر کے ساتھ فجر پڑھ لے تو تسلسل رہے گا اور calculation میں مسئلہ نہیں ہو گا۔ اگر آپ اس کے برعکس کر رہے ہوں کہ ظہر کی نماز کے وقت میں عصر کی قضا پڑھ رہے ہوں تو نماز تو ہو جائے گی لیکن اس میں randomness آ جائے گی اور ممکن ہے کہ آپ سے calculation میں بھی غلطی ہو جائے۔
البتہ اس طریقہ میں یہ خیال رکھیں کہ فجر کی نماز کے بعد نفل نہیں پڑھے جا سکتے، تو اگر آپ مسجد میں فجر کی نماز کے بعد نماز پڑھنے لگیں گے تو لوگوں کو پتا چل جائے گا کہ یہ قضاء نماز پڑھ رہے ہیں اس طرح آپ اپنا ایک گناہ لوگوں پہ ظاہر کریں گے کہ میں نے نماز قضا کی ہوئی ہے۔ اور اپنے گناہ کو ظاہر کرنا ایک الگ گناہ ہے۔ فجر کی قضا آپ مسجد جانے سے پہلے گھر میں ہی پڑھ لیں۔ اور عصر کی قضا آپ عصر سے پہلے والی چار سنتوں کی جگہ پڑھ لیں، یہ چاہے مسجد میں ہی پڑھ لیں۔ لوگ سمجھیں گے کہ چار سنتیں پڑھ رہے ہیں، اور آپ چار قضا فرض پڑھ رہے ہوں گے۔
اس میں مزید تفصیل یہ ہے کہ فرض نماز سفر میں قضا ہوئی ہو تو جب اس کی قضا پڑھیں گے تو قصر کر کے پڑھیں گے۔ اور اگر فرض نماز حضرمیں قضا ہوئی ہو تو جب اس کی قضا کریں گے تو پوری نماز پڑھیں گے۔
سوال نمبر 21:
ایک سوال کے جواب میں یہ بات فرمائی گئی کہ شیخ کی مجلس میں اس کے قلب کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ کیا اس کی کوئی خاص نیت ہے یا پھر جو شیخ فرما رہے ہیں ان کی بات کو غور سے سننا کافی ہے؟
جواب:
بس شیخ کی بات کی طرف متوجہ رہیں ،اس طرف دل لگائیں یہی کافی ہے۔
سوال نمبر 22:
I wear عمامہ here in England for sake of Sunnah and also because here U.K the Sunnah of عمامہ is unfortunately look down on by Muslims and non-Muslims, but sometimes I feel I wear عمامہ for show so how can I determine. if this is a genuine ریا or only وسوسہ or if my نفس is becoming scared of wearing this Sunnah?
جواب:
عمامہ سنت مستحبہ ہے سنت مؤکدہ نہیں ہے۔ اگر کوئی عمامہ پہنے تو اسے اچھا سمجھنا چاہیے اور اگر کوئی نہ پہنے تو اسے ملامت نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ مستحب کے ترک پر آپ ملامت نہیں کر سکتے بلکہ مستحب کے ترک پر جو ملامت کرے گا وہ خود قابل ملامت ہو گا۔ اسے ملامت کی جائے گی کہ آپ نے ملامت کیوں کی ہے۔
ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ ایک بزرگ تہجد کے لئے اٹھے۔گھر کا ایک بچہ بھی جاگ گیا اس نے بھی ان کے ساتھ تہجد پڑھی۔ بچے نے کہا بابا دیکھیں ہم نے تہجد پڑھی باقی لوگ سارے سوئے ہوئے ہیں۔ اس بزرگ نے اس سے کہا کہ بیٹا تو بھی سویا رہتا تو اچھا تھا۔
یعنی اس نے ایک مستحب کام کے چھوڑنے والوں کو قابل ملامت سمجھا تو بزرگ نے اسے ملامت کی۔
اس عمامہ والے مسئلہ میں بعض جگہ بڑا تشدد پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے مسجدوں میں عمامے رکھے ہوتے ہیں کہ جس وقت امام نماز پڑھانے لگے تو وہ عمامہ پہن لے۔ اور وہ عمامہ بڑا میلا سا ہوتاہے کیونکہ اس کی صفائی وغیرہ تو ہوتی نہیں ہے۔ ویسے بھی میلی ٹوپی اللہ کے سامنے یعنی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے نہیں پہننی چاہیے۔
بہرحال اس میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر کوئی عمامہ پہنے تو اچھی بات ہے اس نے ایک سنت مستحبہ پر عمل کیا ہے اور اگر کوئی نہیں پہنتا تو اسے ملامت نہیں کی جائے گی بلکہ جو اسے ملامت کرے گا وہ قابل ملامت ہے۔
بعض لوگ قراقلی ٹوپی کے بہت مخالف ہیں۔ حالانکہ ہمارے شیخ مولانا اشرف رحمۃ اللہ علیہ جو یقیناً ولی اللہ تھے وہ قراقلی ٹوپیاں پہنتے تھے۔ کیونکہ وہ پروفیسر تھے یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے تو قراقلی ٹوپی اور شیروانی پہنتے تھے۔ ڈاکٹر فدا صاحب بھی قراقلی ٹوپی پہنتے تھے بلکہ انہوں نے ایک دفعہ مجھے قراقلی ٹوپی گفٹ بھی کی۔
ایک بار میں نے پگڑی پہنی ہوئی تھی تو حلیمی صاحب نے کہا تمھارا ابھی پگڑی پہننے کا وقت نہیں آیا یہ پگڑی مجھے دے دو اور یہ قراقلی ٹوپی تم لے لو۔ ابھی تمہارا قراقلی ٹوپی کا ٹائم ہے۔ جب پگڑی کا وقت آ جائے گا تب پہن لینا۔
حضرت حلیمی صاحب کا بہت عجیب مزاج تھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے کہا کہ تم انجینئر ہو تو علماء کو کیوں بدنام کرتے ہو۔ اگر تم نے پگڑی پہنی تو لوگ تمہیں عالم سمجھیں گے اور اگر تم غلط کام کرو گے تو وہ سمجھیں گے کہ اس نے عالم ہوتے ہوئے غلط کام کیا، تمہاری وجہ سے علماء کو بدنام کریں گے۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ تم بجائے علماء کے انجینئروں کو بد نام کراؤ۔
بہرحال عمامہ کی سنت کا معاملہ ہر ایک کی اپنی حد تک ہے اگر کسی نے اس کو مستحب سمجھ کرپہننا decide کیا ہے تو اس ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے پہنے کہ دوسروں کو غلط نہ سمجھے اور صرف سنت کی نیت سے پہنے کہ میں اس لئے پہن رہا ہوں کہ آپ ﷺ نے پہنا ہے۔
آپ ﷺ نے علیحدہ ٹوپی بھی پہنی ہے اور پگڑی بھی پہنی ہے۔ لہٰذا سنت سمجھ کر پہنیں۔
جب تک آپ کا ریاء کا ارادہ نہ ہو، یعنی ریاء کی نیت سے آپ نے نہ پہنی ہو تب تک وہ ریاء نہیں ہوتا کیونکہ وسوسے سے ریا نہیں بنتی، خود بخود ریا نہیں ہوتی، بلکہ ریا باقاعدہ نیت سے ہوتی ہے۔ مثلاً میں کسی بڑے آدمی کے سامنے جاؤں جو دیندار آدمی ہے تو میں پگڑی پہن کے جاؤں کہ وہ مجھے بڑا دیندار سمجھے تو یہ ریا ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے میں عام حالت میں بھی پہنتا ہوں تو پھر ریا نہیں ہے۔
ہمارے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو ایسی چیزوں کے بارے میں یہاں تک فرماتے تھے کہ بھائی کسی کو اچھی چیز سے روکو مت۔ پہلے ریا ہو گی پھر عادت ہو جائے گی۔ پھر عادت سے عبادت ہو جائے گی۔
یعنی اگر کسی نے ریا کی نیت سے بھی پہنا ہے تو اس کو ختم نہ کرواؤ۔ بلکہ ہوتے ہوتے یہ اس کی عادت بن جائے گی۔ پھر عادت سمجھ کر کرے گا ریا سمجھ کے نہیں۔ تب اس کو نہ ثواب ملے گا نہ گناہ ہو گا۔ پھر ہوتے ہوتے اس کی نیت بھی بن جائے گی اور اس کے بعد اس کی عبادت بھی بن جائے گی اور تب اسے اجر و ثواب ملنا شروع ہو جائے گا۔
لہٰذا اگر آپ ریا کی نیت سے بھی پہن رہے ہیں تو میں آپ کو نہیں روکوں گا لیکن یہ ضرور ہے کہ میں آپ کے بارے میں یہ گمان نہیں کر سکتا کہ آپ ریا کے لئے کر رہے ہیں کیونکہ آپ تو اس لئے کر رہے ہیں کہ یہ سنت عمل ہے۔ سنت عمل کی وجہ سے آپ کو ثواب ملے گا۔ باقی جو ادب میں نے بتایا ہے اس کو ملحوظ رکھیں تو پھر ان شاء اللہ العزیز کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔
سوال نمبر 23:
حضرت پانچ لطائف میں پانچ پانچ منٹ کا مراقبہ تقریباً پچھلے چار یا پانچ سال سے جاری ہے لیکن ابھی تک مراقبے میں فضول خیالات سے چھٹکارا نہیں پا سکا ہوں، ان لطائف پر مختلف مراقبات مثلاً مراقبہ احدیت، مراقبہ شان جامع، مراقبہ تنزیہ وغیرہ کر چکا ہوں۔ اب مراقبہ عبدیت جاری ہے۔ مزید رہنمائی کیجئے۔
جواب:
اگر فضول خیالات آپ خود لا رہے ہیں تو یہ آپ کی حماقت ہے۔ اگر یہ خود آ رہے ہیں تو پروا نہ کریں کیونکہ جتنا آپ ان کی پروا کریں گے یہ فضول خیالات مزید آئیں گے۔ آپ ایک اور مراقبہ شرو ع کریں۔ آپ یہ تصور کر لیں کہ دل پر کسی کی حکمرانی نہیں ہے۔ دل تو اللہ پاک نے ایسے بنایا ہے جرنیلی سڑک کی طرح اس پر کوئی بھی جا سکتا ہے۔ اب اس پر جو بھی آ رہا ہے اللہ کی شان ہے کہ اللہ پاک کیا کیا چیزیں لا رہے ہیں۔ لیکن مجھے ان چیزوں کی طرف متوجہ نہیں ہونا کیونکہ یہ چیزیں تو اللہ نہیں ہیں میں تو اللہ کی طرف متوجہ ہوں۔ چیزیں آ رہی ہیں تو آنے دیں، توجہ اللہ پاک کی طرف رکھیں۔ جیسے آپ کبھی ٹریفک والے روڈ پہ جاتے ہیں تو کیا خیال ہے آپ کے لئے روڈ خالی کر دیا جاتا ہے؟ روڈ آپ کے لئے خالی نہیں ہوتا بلکہ آپ اپنے آپ کو بچتے بچاتے اپنی گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں۔ اسی طریقے سے اپنے مقصود کو ذہن میں رکھو کہ میرا مقصد اللہ کو راضی کرنا ہے اور اللہ کی رضا کے لئے میں یہ مراقبات کر رہا ہوں۔ جو خیالات آئیں ان کی پروا نہ کریں کیونکہ یہ چیزیں آپ کی وجہ سے نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے ہیں وہی بھگتے گا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔