اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔
سوال نمبر1:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت جی! اکثر اوقات میں بیان سن رہا ہوتا ہوں، بیان مکمل ہونے سے پہلے نماز کا وقت ہو جاتا ہے، اس وجہ سے کبھی کبھار جماعت تک نہیں پہنچ پاتا۔ ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔
جواب:
آپ بیان چھوڑ کر جماعت میں شامل ہو جایا کریں۔ جتنا بیان رہ جائے بعد میں اس کی ریکارڈنگ سن لیا کریں، کیونکہ جماعت میں شامل ہونا ضروری ہے۔ جو جماعت رہ جائے وہ دوبارہ حاصل نہیں ہو سکتی، جب کہ بیان بعد میں بھی سنا جا سکتا ہے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت! فرض نماز کے علاوہ باقی نماز گھر پڑھنے والی سنت پر عمل میں کافی مشکل ہوتی ہے۔ اکثر اوقات مسجد سے گھر آنے تک وضو نہیں رہتا۔ دوبارہ وضو کرکے سنتیں پڑھتا ہوں۔ اس سب میں تھوڑی مشکل ہو رہی ہے لیکن کوشش کر کے عمل کر رہا ہوں۔
جواب:
اگر اس طرح کی مشکل ہو تو آپ مسجد میں بھی سنتیں پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ آپ فجر کی سنتیں گھر پہ پڑھ لیا کریں کیونکہ فجر کی سنتوں کے بارے میں خصوصی طور پہ یہ بات فرمائی گئی ہے۔ فجر کے علاوہ باقی سنتیں آج کل مسجد میں ہی پڑھنا افضل ہے۔ کیونکہ لوگوں نے سنتیں پڑھنی چھوڑ دی ہیں۔ بعض علاقوں میں سنتوں کی طرف سے بہت سستی ہو رہی ہے۔ اس لئے علماء کرام فرماتے ہیں کہ آج کل نماز کے بعد والی سنتیں مسجد میں ہی پڑھ لینی چاہئیں تاکہ لوگوں کو کم از کم یہ علم ہو جائے کہ سنتیں پڑھنی چاہئیں۔ لہٰذا آپ فجر کی سنتیں گھر پر، جبکہ باقی سنتیں مسجد میں پڑھ لیا کریں۔
سوال نمبر 3:
گذشتہ ہفتے مکتوبات امام ربانی کے درس میں بیان کیا گیا کہ مکتوب نمبر 31 میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ حمد کو شکر پر برتری حاصل ہے۔ حضرت! اس کا کیا مطلب ہے۔ میں تو سمجھتا تھا کہ شکر بہت بڑی چیز ہے اور شیطان نے بھی اللہ تعالیٰ سے یہی کہا تھا کہ اے اللہ! تو ان میں سے بہت کم کو شکر گزار پائے گا۔ ازراہِ کرم وضاحت فرما دیں۔
جواب:
حمد بھی شکر ہی کی advance stage ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ شکر تب کیا جاتا ہے جب کسی نعمت کا استحضار ہوتا ہے، جبکہ حمد ہر حالت میں ہوتی ہے، چاہے انسان کو نعمت کا استحضار ہو یا نہ ہو۔ وہ مصیبت ہو یا نعمت، حمد ہر حالت میں ہو سکتی ہے۔ تو حمد اور شکر یہ دونوں در اصل شکر ہی کے پہلو ہیں۔ اسی لئے شکر کرنا ہو تو الحمد للہ کہا جاتا ہے۔ آپ حضرات نے سنا ہو گا کہ شکر کا اظہار کرنے کے لئے ”اَلحَمْدُ لِلّٰهِ عَلیٰ کُلِّ حَالٍ“ کہا جاتا ہے۔ چونکہ شکر کے الفاظ سے جو شکر کا اظہار کیا جاتا ہے وہ صرف نعمت پہ ہوتا ہے، جب کہ حمد کے انداز میں شکر ہر حالت میں کیا جاتا ہے، اس لئے یہ حمد، شکر سے ذرا advance stage ہے۔ اس لئے فرمایا کہ حمد کو شکر پر برتری حاصل ہے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم! حضرت جی میں اس بات سے بہت پریشان ہوں کہ میرے شوہر نماز کی پابندی نہیں کرتے۔ مجھے اس بارے میں کیا کرنا چاہیے۔ آپ سے رہنمائی اور دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب:
چونکہ شوہر کا رشتہ بہت نازک ہوتا ہے اس لئے ان کو براہ راست کہنا تو ٹھیک نہیں ہے۔ البتہ آپ اس طرح کریں کہ تہجد کے وقت ان کے لئے دعا مانگنا شروع کریں کہ اللہ جل شانہ انہیں نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ نماز کے بعد دعا کریں ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾ (الفاتحہ: 5) تو اس میں ان کو شامل رکھا کریں۔ کچھ عرصہ بعد ہفتہ ہفتہ کے وقفہ سے نماز کے بارے میں ہلکا پھلکا تذکرہ اور ترغیب شروع کر دیں۔ ان شاء اللہ امید ہے کہ آہستہ آہستہ ان کا خیال اس طرف آ جائے گا۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم! مجھے ذکر اور مراقبہ کرتے ہوئے ایک مہینہ ہو گیا ہے۔ مراقبہ میں دو دن اور ذکر میں ایک دن ناغہ ہوا۔ کیفیت یہ ہے کہ کبھی دو تین دن مسلسل سکون رہتا ہے، کبھی بے سکونی اور کبھی کبھی مراقبہ میں نیند بھی آ جاتی ہے۔ آئندہ کے لئے رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہم جو ذکر مریدین کو دیتے ہیں، یہ سکون حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے، بلکہ سکون اس کا ایک سائیڈ ایفیکٹ ہے۔ جیسے کھانسی کی دوا میں کچھ فیصد نیند کی دوا بھی ہوتی ہے۔ اس دوا کا اصل مقصد نیند نہیں ہوتا، بلکہ نیند اس کا ایک سائیڈ ایفیکٹ ہے، اگر کوئی اس دوا کو سکون اور نیند کے لئے ہی استعمال کرنا شروع کر دے تو یہ غلط ہوگا۔ جیسے نشئی لوگ نشہ کی تسکین کے لئے کھانسی کے سیرپ کی پوری پوری بوتلیں بھی پی لیتے ہیں۔ حالانکہ وہ سیرپ نیند، سکون یا نشہ کے لئے تو نہیں بنایا گیا۔ اسی طرح ذکر بھی سکون یا نیند کے لئے نہیں ہے۔ یہ ایک غلط بات ہمارے ذہنوں میں آ گئی ہے کہ ذکر سکون کے لئے ہوتا ہے۔ حالانکہ سکون ذکر کا ایک سائیڈ ایفیکٹ ہے، چاہے آپ ذکر سے سکون حاصل کرنے کا قصد کریں یا نہ کریں یہ ہر صورت میں ملے گا۔ کیونکہ یہ ذکر کے اندر by default موجود ہے۔ ذکر سے مقصود اصل چیز دل کی اصلاح ہے۔ ذکر کو اس نیت سے کرنا چاہیے کہ دل کی اصلاح ہو جائے۔ تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ اگر ذکر کرتے ہوئے آپ کی نیت اپنی اصلاح کی ہے ہی نہیں تو آپ کی اصلاح نہیں ہو پائے گی۔ اس لئے پہلے اپنی نیت کو درست کرنا چاہیے کہ یہ ذکر میں اصلاح کے لئے کر رہا ہوں۔ اس کے بعد ذکر کا صحیح طریقہ کار سمجھا جائے اور اس کے مطابق ذکر کیا جائے۔ جب تک دل پہ ذکر محسوس نہیں ہوتا، تب تک ذکر کا معمول جاری رکھیں اور شیخ سے رہنمائی لیتے رہیں، اپنے احوال سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس کو improve کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ disheart نہ ہوں۔ ضروری نہیں کہ ذکر محسوس ہونا فوراً شروع ہو جائے۔ بعض لوگوں کو اس میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ لہٰذا آپ اس کو باقاعدگی سے جاری رکھیں، اس کے اوپر نظر رکھیں۔ اگر پھر بھی محسوس نہیں ہوتا تو بتا دیں تاکہ ہم دوسرے طریقے استعمال کریں۔ کیونکہ اس کا صرف ایک طریقہ نہیں کئی طریقے ہیں۔ الغرض سب سے پہلے نیت درست کریں کہ ان سب ذکر و مراقبات کا مقصد میری اصلاح ہے۔ پھر درست طریقہ کار کو مد نظر رکھیں، اور اپنے احوال سے شیخ کو پابندی سے آگاہ کریں۔ ان شاء اللہ، اللہ پاک مدد فرمائیں گے۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم حضرت! میں اپنی ایک دوست کی وجہ سے آپ سے بیعت ہوئی تھی۔ ہماری دوستی کی بنیاد اسلام پر تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ ایک دوست کے ساتھ مجھے صحیح راستے پر چلنے میں مدد ملے گی۔ پہلے میرا دل بیعت کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا اور وہ ہمیشہ اس کوشش میں لگی رہتی تھی کہ میں بیعت ہو جاؤں، اور اس کی کوششوں سے میں نے بیعت کر لی۔ پھر آپ سے فرض عین علم کا کورس بھی کیا اور ذکر میں دوسرے سبق پر تھی۔ لیکن پھر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ میں رابطہ نہ رکھ سکی۔ اور میری دوست جس کی وجہ سے آپ سے بیعت ہوئی تھی وہ بھی شادی کے بعد مجھ سے دور ہو گئی تھی۔ کافی عرصہ بعد اس سے ملاقات ہوئی اور میں نے اسے بتایا کہ اب رابطہ نہیں ہے، تو وہ بہت ناراض ہوئی اور ہماری کافی بحث ہوئی۔ لیکن مجھے احساس ہو گیا کہ میں غلطی پر ہوں، میں نے اس سے معافی مانگی، اس نے اس شرط پر معاف کیا کہ میں مجلس سوال جواب جمعہ کا بیان اور اتوار کے دن خواتین کا بیان ضرور سنا کروں گی۔ اب میں نے ارادہ کیا ہے کہ آپ سے معافی مانگ کر دوبارہ اپنی اصلاح شروع کرواؤں۔ حضرت جی میں ان شاء اللہ آئندہ لاپروائی نہیں کروں گی۔
جواب:
معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی سہیلی آپ کی مخلص دوست ہے، اس نے آپ سے جو رویہ رکھا وہ محض اللہ کی رضا کے لئے تھا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اپنی اصلاح میں انسان مخلص ہو اور اپنی اصلاح میں شیخ سے تعلق اور رابطہ رکھنے کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے۔ ماشاء اللہ آپ سمجھ دار ہیں، آپ کو سمجھ آ گئی ہے تو بڑی اچھی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سلسلے کے جملہ برکات سے نوازے۔ امید ہے کہ آپ بھی اپنی اصلاح کے سفر میں اپنی دوست سے پیچھے نہیں رہیں گی۔
سوال نمبر 7:
یہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مختصر مکتوب ہے جو خواجہ شرف الدین حسین کی طرف وعظ و نصیحت کے طور پہ صادر فرمایا تھا۔
”الحمد للّٰہ و سلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ ۔ اے فرزند عزیز! فرصت کے لمحات غنیمت ہیں چاہیے کہ بیکار کاموں میں صرف نہ ہوں، بلکہ فرصت کے تمام اوقات حق جل و علیٰ کی خوشنودی کے مطابق صرف ہوں۔ پانچوں وقت کی نماز جمعیت قلب کے ساتھ باجماعت اور تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کریں اور نماز تہجد کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ صبح کے وقت استغفار کو بھی نہ چھوڑیں اور خواب خرگوش سے لذت حاصل نہ کریں اور عارضی و فانی آسائشوں پر فریفتہ نہ ہوں۔ موت کے ذکر اور آخرت کے خوف کو اپنا نصب العین بنائیں۔ مختصر یہ کہ دنیا سے رو گردانی اختیار کریں اور آخرت کی طرف متوجہ رہیں اور بقدر ضرورت دنیا کے کاموں میں مشغول ہوں اور باقی تمام اوقات کو آخرت کے کاموں کی مشغولی سے معمور رکھیں۔ حاصل کلام یہ کہ دل غیر اللہ کی گرفتاری سے آزاد ہو جائے اور ظاہر احکام شرعیہ سے آراستہ و مزین ہو جائے۔“ کار این ست و غیر ایں ہمہ ہیچ“
میرا ارادہ ہے کہ اس مکتوب شریف کو پینا فلیکس پہ پرنٹ کروا کر اپنے سامنے لگا لیا جائے۔ حضرت! جب یہ مکتوب شریف آپ کی زبان مبارک سے سنا تھا تبھی دل میں اتر گیا تھا۔ الحمد للہ کل اور آج عشاء کے بعد بھی ساتھیوں سے یہی باتیں کرتا رہا ہوں کہ آپ کے ذریعے اللہ نے ہم پر احسان کیا۔ کل پشاور میں درویش مسجد کے سامنے سے گزرا اور حضرت اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کا نام مبارک لکھا دیکھا تو حضرت کے لئے فاتحہ پڑھی۔ اگر آپ اجازت دیں تو کیا مندرجہ بالا مکتوب شریف کو لکھوا لوں تاکہ نظر میں رہے اور توفیق زیادہ عطا ہو۔ بے ادبی پر شرمندہ ہوں۔
جواب:
واقعی یہ بہت اعلیٰ مکتوب ہے۔ اس کے اندر بنیادی باتوں کو لیا گیا ہے، اس وجہ سے یہ مجھے بہت پسند ہے۔ اس وقت ہم دارِ ابتلا میں ہیں۔ آزمائش کی زندگی میں ہیں۔ اس وقت ہمیں اندازہ نہیں ہو رہا کہ ہم آزمائش میں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس کی تمام خواہشات ہمارے اوپر سوار ہیں۔ ہم لوگ آخرت کی باتیں سوچنے اور سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ بڑی کم نصیبی کی بات ہے۔ لیکن جن کا اللہ والوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے، ان کو اللہ والے وہی باتیں بتاتے ہیں جن سے اللہ پاک راضی ہو، جس سے ان کی آئندہ زندگی بہتر ہو جائے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اس بات کی بہت فکر کرتے تھے کہ اپنے مریدین و متعلقین کو ایسی نصیحتیں فرمائیں جس سے ان کی آخرت سنور جائے۔ اس مکتوب میں انہوں نے جو نصیحتیں فرمائی ہیں، ان کو غور سے پڑھیں، اور دیکھیں کہ ایک ایک لفظ کس فکر کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ فرمایا:
”اے فرزند عزیز! فرصت کے لمحات غنیمت ہیں۔“
یعنی جتنی بھی فرصت ہے اسے غنیمت سمجھا جائے، کیونکہ مصروفیت میں انسان کچھ نہیں کر سکتا، پھر مجبوری ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ پاک نے جو فرصت کے لمحات دیئے ہیں ان کو اللہ پاک کی طرف سے نعمت اور غنیمت سمجھیں ان کو صحیح طور پر استعمال کر لیں، بیکار کاموں میں صرف نہ کریں، فضول کام، گپ شپ یا ادھر ادھر کی چیزوں میں وقت نہ گنوائیں۔ انسان کا بہت سارا وقت ان چیزوں میں لگ کر ضائع ہو جاتا ہے۔
”فرصت کے تمام اوقات حق جل شانہ کی خوشنودی کے مطابق صرف ہوں“
یعنی فرصت کے ہر لمحہ میں کوئی نہ کوئی ایسا کام ضرور ہو رہا ہو جو اللہ کو پسند ہو۔ مثلاً انسان ذکر کر رہا ہو، کسی کے ساتھ اچھی بات کر رہا ہو یا کوئی اچھی کتاب پڑھ رہا ہو، یا کوئی اچھا کام کر رہا ہو۔ الغرض کچھ بھی ایسا کر رہا ہو جو اللہ پاک کی رضا کے لئے ہو۔
”پانچوں وقت کی نماز جمعیت (قلب) کے ساتھ باجماعت اور تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کریں۔ “
دو باتیں فرمائیں۔ ایک یہ کہ باجماعت نماز پڑھیں۔ باجماعت نماز سے نماز کی value بہت بڑھ جاتی ہے۔ دوسری یہ کہ تعدیل ارکان کے ساتھ نماز ادا کریں۔ تعدیل ارکان سے مراد یہ ہے کہ قومہ، جلسہ، سجدہ اور نماز کے تمام ارکان اسی طرح ادا کئے جائیں، جس طرح سنت طریقہ میں بتایا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایک رکن ابھی پورا نہ ہوا ہو اور دوسرا شروع کر دیا جائے، رکوع ابھی پورا نہ ہوا اور قومہ کے لئے کھڑے ہو جائیں، قومہ کے لئے پوری طرح کھڑے نہ ہوئے ہوں اور سجدہ میں چلے جائیں۔ یہ تعدیل ارکان کے خلاف ہے۔ لہٰذا نماز میں ان دو چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ با جماعت ادا کریں اور تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کریں۔
”اور نماز تہجد کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دیں۔“
تہجد ایک خاص نماز ہے۔ یہ اولیاء اللہ کو نصیب ہوتی ہے۔ یہ اللہ پاک کا قرب حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ تہجد کے وقت باقاعدہ اللہ کی طرف سے اعلان ہو رہا ہوتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اس کو دوں، ہے کوئی پریشان حال جس کی پریشانی دور کروں، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کروں! ایسے وقت اگر اللہ کے سامنے اس لئے کھڑے ہوں کہ اللہ پاک ہمیں قبول فرما لیں تو کتنی بڑی نیت ہے اور کتنی زبردست چیز ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
مومنوں کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے:
﴿وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ (الذاريات: 18)
ترجمہ: ”اور سحری کے اوقات میں وہ استغفار کرتے تھے“۔
سحری کا وقت ایک خصوصی نعمت ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان تہجد کے لئے اٹھ تو جاتا ہے لیکن وقت اتنا کم ہوتا ہے کہ اس میں انسان وضو کر کے تہجد نہیں پڑھ سکتا۔ ایسے وقت میں اور کچھ نہیں تو کم سے کم استغفار ضرور کر لیا جائے۔ کیونکہ اس وقت میں نماز اور استغفار، دونوں کا ذکر خصوصی طور پہ کیا گیا ہے۔
”اور خواب خرگوش سے لذت حاصل نہ کریں اور عارضی و فانی آسائشوں پر فریفتہ نہ ہوں۔“
یعنی دنیا کی آسائشوں پہ فریفتہ نہ ہوں۔ اللہ جو دے اس پہ شکر ادا کریں، لیکن اس کے پیچھے اس طرح نہ پڑیں کہ نظر میں یہ ہو کہ فلاں فلاں کے پاس یہ یہ چیز ہے اور میرے پاس نہیں ہے۔ یہ معاملہ غلط ہے، اس سے دل و دماغ کو پاک رکھنا چاہیے۔
”موت کے ذکر اور آخرت کے خوف کو اپنا نصب العین بنائیں۔“
موت کی یاد ایک بہت بڑی دولت ہے یہ انسان کو ایک منزل اور ایک ہدف دیتی ہے۔ اس کی وجہ انسان کو ہر دم یہ بات مد نظر رہتی ہے کہ میری اصل منزل کہاں ہے، اور مجھے کس طرف جانا ہے۔
”مختصر یہ کہ دنیا سے رو گردانی اختیار کر لیں۔“
یعنی مذموم دنیا سے اپنے آپ کو بچائیں۔ اور آخرت کی طرف متوجہ رہیں۔ آخرت کے لئے کوشش کر لیں اور بقدر ضرورت دنیا کے کاموں میں مشغول ہوں۔ باقی تمام اوقات کو آخرت کے کاموں کی مشغولی سے معمور رکھیں۔ حاصل کلام یہ کہ دل غیر اللہ کی گرفتاری سے آزاد ہو جائے اور ظاہر احکام شرعیہ سے آراستہ و مزین ہو۔
ماشاء اللہ کتنا خوبصورت مکتوب شریف ہے۔ اس کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! آج یکم ربیع الاول کی وجہ سے درود شریف کو شمار کیا۔ ویسے تو روز مرہ معمولات میں درود شریف ہزار دفعہ لکھتی ہوں۔ آج اندازہ ہوا کہ الحمد للہ روزانہ اتنا درود شریف پڑھتی ہوں کہ مہینے میں سوا لاکھ ختم کرتی ہوں گی۔
جواب:
اللہ قبول کرے۔ آمین ثم آمین۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی میرا تیسرے کلمہ کا ذکر 40 دن کے لئے تھا جو اللہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہو گیا۔ میرے لئے آگے کیا حکم ہے؟
جواب:
ماشاء اللہ! اب آپ کی ترتیب یہ ہو گی کہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار 100، 100 دفعہ۔ یہ تو روزانہ کی بنیاد پر عمر بھر کے لئے کرنا ہے۔ نماز کے بعد والا ذکر بھی عمر بھر کرنا ہے یعنی 33 دفعہ ”سبحان اللّٰہ“، 33 دفعہ ”الحمد للّٰہ“، 34 دفعہ ”اللّٰہ اکبر“۔ 3 دفعہ کلمہ طیبہ، 3 دفعہ درود ابراہیمی، 3 مرتبہ استغفار اور 1 دفعہ آیت الکرسی۔ اس کے علاوہ علاجی ذکر کے طور پہ روزانہ یہ ذکر شروع کریں۔
”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“ 100 دفعہ۔ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوْ“ 100 دفعہ۔ ”حَقْ حَقْ“ 100 دفعہ۔ ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ 100 دفعہ۔
یہ علاجی ذکر ایک مہینے کے لئے کریں اور ایک مہینہ کے بعد اطلاع کریں۔ اگر موقعہ مل جائے تو کسی وقت خانقاہ تشریف لائیں۔ کچھ باتیں آپ کو یہاں آکر سمجھ آئیں گی۔ اس لئے خانقاہ کے لئے کچھ وقت نکالیں، کچھ چھٹیاں لے کر یہاں آ جائیں۔ ان شاء اللہ اللہ پاک بہتری فرمائیں گے۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم!
My dear beloved مرشد دامت برکاتہم I hope you are well
ان شاء اللہ حضرت جی دامت برکاتہم
With your دعا this morning until now I have completed 10,000 درود شریف الحمد للہ I will continue to send more
درود شریف، ان شاء اللہ
My entire chest feels like it has opened ۔الحمد للہ
جواب:
May اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant you more توفیقات to do as much as possible in this direction.
سوال نمبر 11:
ایک خاتون بہت فکر مند تھیں کہ ان کے مراقبات نہیں چل رہے۔ میں نے ان کو مختلف طریقے سے اذکار دیئے۔ اب ان کا میسج آیا ہے، کہتی ہیں:
السلام علیکم حضرت جی! اللہ اللہ کی تسبیح 3 ہزار مرتبہ کرتے ہوئے ایک مہینہ ہو گیا۔
میں نے ان سے پوچھا کہ اپنی کیفیات بتائیں۔ تو ان کا جواب آیا کہ حضرت جی! بس دل کرتا ہے سب کچھ چھوڑ کر اللہ پاک کی ہو جاؤں اور ہر وقت اس کی یاد میں رہوں۔ دل ہر وقت اللہ کی یاد میں روتا ہے۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا۔
میں نے ان سے کہا کہ اس سے زیادہ کی برداشت ہے تو اور ذکر دے دوں۔
انہوں نے کہا کہ جی دے دیں۔
میں نے انہیں ساڑھے 3000 مرتبہ اللہ اللہ کا ذکر کرنے کو کہا۔
ان کا جواب آیا: ٹھیک ہے حضرت جی! میرے حق میں دعا کر دیا کریں۔
میں نے کہا: ہمارے ہاں یہی دو راستے زیادہ کار آمد ہیں ایک مراقبات والا اور دوسرا اسم ذات کی کثرت والا۔ دونوں کا نتیجہ مفید ہوتا ہے۔ جس سالک کی جس طریقے سے زیادہ مناسب ہو، اسے اسی طریقے سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا: حضرت جی مجھے ایسا لگتا ہے کہ مجھے اللہ پاک کے نام کی کثرت سے زیادہ فائدہ ہو رہا ہے۔
میں نے کہا: آپ صحیح سمجھیں۔
یہ ساری بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ خاتون بہت frustrated اور پریشان تھیں کہ میرے مراقبے نہیں ہو پا رہے۔ لیکن بعد ان کے مراقبے جاری ہونا شروع ہو گئے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ اللہ پاک نے مختلف مزاج بنائے ہیں اور ان مزاجوں کے مطابق علاج کرنا چاہیے۔ تب ہی فائدہ ہوتا ہے۔ قرآن بھی 7 طرزوں پہ نازل ہوا ہے۔ اس میں مختلف قراتیں ہیں۔ جو عربی زبان کی مختلف لغات کے حساب سے پڑھی جاتی ہیں۔ اسی طرح تصوف کے طریقوں اور ذرائع میں بھی وسعت ہے۔ اللہ پاک نے اس چیز کو کافی وسیع رکھا ہوا ہے۔ اللہ کی دی ہوئی وسعت میں تنگی نہیں کرنا چاہیے۔ لوگ کسی چیز کو ایک خاص direction میں سمجھ لیتے ہیں پھر اسی کے درپے رہتے ہیں۔ جب ان کو دوسرا مفید طریقہ بتایا جاتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں شاید انہیں محروم کر دیا گیا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا یہ تو ہر ایک کے لئے اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ جس کو جو طریقہ راس آ جائے، اس کے لئے وہی ٹھیک ہوتاہے۔
مراقبات کے بارے میں لوگوں کا یہ خیال تھا کہ مراقبات سے سب کچھ ملتا ہے اور ان سے انسان ہوا میں اڑتا ہے اور کشف شروع ہو جاتا ہے اور نہ جانے کیا کیا کرامات حاصل ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ دراصل مراقبات کا مقصد صرف اصلاح ہے۔ لیکن جو لوگ مراقبات کو دوسری چیزوں کے لئے استعمال کرتے ہیں ان کو کشفوں اور کرامتوں کے ساتھ دلچسپی ہے، اصلاح کے ساتھ نہیں۔ ایسے لوگوں کو تو مراقبات کرنے ہی نہیں دینا چاہیے جو ان کے ذریعے اڑنا یا کشف وغیرہ حاصل کرنا چاہتے ہوں۔ یہ نیت ہی غلط ہے۔
الحمد للہ بزرگوں کی دعاؤں کی برکت سے ہمارے سلسلے کے اندر اللہ پاک نے بہت کچھ رکھا ہے۔ جن میں سے ایک بات یہ ہے کہ ہر شخص کے مزاج اور مناسبت کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اذکار، مراقبات اور اشغال یوں ہی بغیر حدود و قیود کے نہیں دیئے جاتے بلکہ جس چیز کی جتنی ضرورت ہے اتنی ہی دی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک علاج ہے اور علاج بیماری کے مطابق ہوتا ہے، علاج کے لئے دی گئی دوائی کی مقدار معالج کی ہدایت اور نسخہ کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر کسی کے لئے دوائی کی مقدار، مثلاً 2 گولیاں روزانہ تجویز کی گئی ہیں، لیکن مریض کو ان کا ذائقہ پسند آ گیا اور وہ زیادہ کھانا چاہتا ہے، پھر بھی اسے زیادہ نہیں کھانے دیا جائے گا کیونکہ یہ اس کے لئے نقصان کا سبب ہو گا۔ پھر جب علاج مکمل ہو جائے تو دوائی کا استعمال مکمل طور پہ روک دیا جائے گا۔ ان مراقبات اور علاجی ذکر کا حساب بالکل علاج کے لئے دی جانے والی دوائیوں کی طرح ہی ہے۔ شیخ کی ہدایت کے مطابق ہی کیا جائے گا اگر اس سے زیادہ یا کم ہو گا تو نقصان کا باعث ہو گا۔
ہاں غذائی ذکر ایک علیحدہ چیز ہے۔ اس کے بارے میں ہم بھی بخل نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں جتنی ہمت ہو وہ ذکر کر لیں۔ مثلاً نماز کے بعد والے اذکار، مسنون اذکار، تلاوت قرآن پاک، یہ جتنا زیادہ چاہیں کر لیں۔ لیکن اس میں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے کوئی ضروری کام نہیں رہنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ آپ office کے اوقات میں قرآن پاک کی تلاوت شروع کر لیں۔ اس کی اجازت بالکل نہیں ہے۔ کیونکہ جو وقت آپ بیچ چکے ہیں اس وقت کو نفلی چیزوں میں استعمال نہیں کر سکتے۔ اسی طرح نفلی چیزوں کو ان اوقات میں بھی نہیں کر سکتے جو فرائض کے اوقات ہیں۔ مثلاً نماز کھڑی ہو جائے اور آپ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے ہوں کہ تلاوت قرآن مجھے بہت پسند ہے۔ بھئی قرآن کی تلاوت ضرور پسندیدہ ہے لیکن اس وقت اللہ پاک کو آپ کا نماز میں قرآن پڑھنا پسند ہے۔ لہٰذا آپ کو اس وقت نماز پڑھنی پڑے گی۔
لہٰذا ان باتوں کا خاص دھیان رکھنا چاہیے کہ نفلی اذکار، مسنون اذکار اور غذائی اذکار۔ یہ جتنے چاہیں کریں لیکن علاجی ذکر کو معالج کی ہدایت کے اندر محدود رکھیں۔ ہمارے ایک قادری سلسلے کے بزرگ جب ذکر دیا کرتے تو کہا کرتے کہ اتنا ہی کرنا ہے، نہ اس سے کم ہو نہ اس سے زیادہ۔ اگر اس سے کم یا زیادہ کیا تو میں ذمہ دار نہیں ہوں۔ اور بات بھی ٹھیک ہے کہ جتنی گولیاں ڈاکٹر بتائے اتنی ہی کھائیں گے تو علاج ہو گا، کم کھائیں تو بھی نقصان ہے زیادہ کھائیں گے تب بھی نقصان ہے۔ اسی طرح علاجی ذکر بھی اتنا ہی ہو گا جتنا بتایا جائے، اور تب تک ہو گا جب تک بتایا گیا ہو۔ اس کے بعد نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد مقامات سلوک طے کرنے ہوتے ہیں۔ جب مقامات سلوک طے ہو جائیں اور نفس مطمئنہ حاصل ہو جائے، دل دنیا کی محبت سے صاف ہو جائے اور عقل ٹھکانے آ جائے تو پھر آپ سے ساری پابندیاں ہٹا دی جائیں گی۔ اس کے بعد وہی کرنا ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کرتے تھے۔ جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
”مَا اَنَا عَلَیْهِ وَ اَصْحابی“۔
اسی کو ہم طریق صحابہ کہتے ہیں۔ کتابوں میں اسی کو سیر فی اللہ کہا گیا ہے۔ سیر فی اللہ سے مراد طریق صحابہ ہی ہے۔ اصل چیز یہی ہے کہ سب اعمال صحابہ کرام کے طریق پر کیے جائیں۔ ان کی طرح نماز پڑھی جائے، ان کی طرح روزہ رکھا جائے، ان کی طرح زکوۃ دی جائے، ان کی طرح حج کیا جائے۔ معاملات، معاشرت اور اخلاق سب کچھ ان کے طریقہ سے کیا جائے۔
یہی اصل تصوف ہے اور یہی اصل سلوک ہے۔ بعض لوگ ان چیزوں میں بہت خرابی کرتے ہیں اور مراقبات و اذکار کی ایسی تشریحات کرتے ہیں، کہ تصوف کا اصل مقصد (صحابہ کرام کے طریق پہ چلنا) فوت ہو جاتا ہے۔ اس لئے ہم ایسے معاملات میں ذرا سختی سے کام لیتے ہیں۔ اور کوشش کرتے ہیں کہ سالک اپنے اصل مقصد سے ہٹنے نہ پائے۔ فقہ میں بھی ایک قانون ہے کہ اگر مستحب چیز کو اس طرح کرنا شروع کر دیا جائے کہ اس پہ واجب کا گمان ہونے لگے تو اس مستحب کو چھوڑنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال پگڑی پہن کر نماز پڑھانا ہے، بعض جگہوں میں امام کے لئے واجب سمجھا جاتا ہے کہ وہ پگڑی پہن کر نماز پڑھائے، حالانکہ پگڑی پہن کر نماز پڑھانا ایک مستحب کام ہے۔ مستحب اور سنت کو اگر کوئی چھوڑے تو اسے ملامت نہیں کی جا سکتی۔ ہاں سنت مؤکدہ اور فرض و واجب کے تارک کو ضرور ملامت کی جائے گی۔ پگڑی پہن کر نماز پڑھانے کا مسئلہ ایسا ہی ہے۔ مسجدوں میں محراب میں ایک میلی سی پگری پڑی ہوتی ہے، جب امام نماز پڑھانے لگتا ہے تو وہ پہن لیتا ہے اور عام اوقات میں نہیں پہنتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسے لازم سمجھتے ہیں۔ اور جب کوئی مستحب کام لازم و واجب کے درجے میں شروع ہو جائے تو اسے چھوڑنا ضروری ہوتا ہے۔
مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ صاحب ایک مرتبہ نماز پڑھانے لگے تو کسی نے کہا کہ پگڑی پہن لیں تو انہوں نے کہا کہ میں ٹوپی اتار کر بھی نماز پڑھ سکتا ہوں۔ وہ عالم تھے اور علماء کا کام سمجھانا ہوتا ہے۔ ایسا کرکے انہوں نے یہ سمجھایا کہ پگڑی پہننا کوئی واجب نہیں ہے کہ اس کے بغیر نماز نہ ہو سکے یا کم درجہ کی ہو۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ نماز پڑھ رہے تھے اور ان کے بدن پر اتنا ہی کپڑا تھا جس سے کہ ستر ڈھانپا جا سکے، یعنی ناف سے تھوڑا سا اوپر اور گھنٹوں سے ذرا نیچے۔ اس کے علاوہ ان کے بدن پہ اور کوئی کپڑا نہیں تھا۔ اس حالت میں وہ نماز پڑھ رہے تھے اور باقی کپڑے بھی کمرے میں پڑے ہوئے تھے۔ ایک تابعی نے یہ دیکھ کر ان سے پوچھا کہ حضرت کیا یہ کپڑے ناپاک ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ پاک ہیں۔ تابعی نے پوچھا پھر آپ نے ایسے کم کپڑوں میں نماز کیوں پڑھی۔ فرمایا: تم جیسے بے وقوفوں کو یہ سمجھانے کے لئے کہ اتنے کپڑوں میں بھی نماز ہو جاتی ہے۔ آپ ﷺ کے وقت میں ہمارے پاس اتنے کپڑے نہیں ہوتے تھے، تب ہم اسی طرح کم کپڑوں میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔
ہم نے بھی علاجی ذکر کو معالج کی ہدایت کے مطابق محدود رکھنے میں اسی لئے سختی کی ہوئی ہے کہ لوگ اس میں حد سے نہ بڑھ جائیں اور اصل مقصد کے حصول کی بجائے دوسری چیزوں کے لئے استعمال نہ کرنے لگیں۔ الحمد للہ! اب لوگوں میں کافی حد تک اس کی سمجھ آ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیقات سے نوازے۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم!
Dear حضرت شاہ صاحب I am hoping some baby which names are the best for our future child if she is girl or a boy
And what we have to think about شیخ ابن العربی and وحدت الوجود.
جواب:
Its better to name the baby in first week of birth and then announce it at the seventh day۔
شیخ ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ was a great ولی اللہ and a great scholar. his research was for his own time and it’s not suitable at the time of مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ therefore حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ condemned it. but even after condemning this we are not in position to say he was not good person, because he said good at for his own time, because تصوف is really changing, it's a variable it's not fixed, It I like medicine, if it is okay for some time, it doesn’t mean it should be okay for all the times. May be its not good then so, therefore because of this حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ cleared many things which were making problem to the people after discussing the things what حضرت شیخ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ wrote, but even then حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ was used to say I saw with نظر کشفی it means with the eyesight I have from کشف I have seen him in the highest ranking of Jannah. Yes he told even then I am seeing him in higher ranks of Jannah. it shows that some time some teachings may not be useful for someone, but it might be useful for some other one and sometime something may not be useful for at one time, and it might be useful at another time. so you should not become rigid. we should have adjustment in our mind for these things, so الحمد للہ now it is clear.
سوال نمبر 13:
السلام علیکم! حضرت جی میرے معمولات کے chart میں باقی معمولات شامل ہیں لیکن مناجات مقبول نہیں ہے۔ کیا میں مناجات مقبول اور چہل درود شریف کو اپنے معمولات میں شامل کر لوں؟
جواب:
جی بالکل، بہت بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
سوال نمبر 14:
حضرت آپ نے ہدایت فرمائی تھی کہ اپنی ایک حالت کو قابو کرنے کے لئے روزے رکھوں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ روزے کس ترتیب سے رکھوں؟
جواب:
روزے رکھنے کے لئے صوم داؤدی کی ترتیب بہتر ہے۔ صوم داؤدی سے مراد یہ ہے کہ ایک دن روزہ رکھے ایک دن نہ رکھے۔ اس میں یہ خاصیت ہے کہ اس ترتیب سے روزے رکھنا، یعنی ایک دن روزہ رکھنا، ایک دن نہ رکھنا، انسان کے لئے ایک مستقل مجاہدہ ہوتا ہے کیونکہ ہر اگلے دن کی گذشتہ دن سے الگ ترتیب ہوتی ہے۔ کیونکہ روزے رکھنے کا اصل مقصد مجاہدہ ہے۔ اگر کوئی آدمی continuously روزے رکھے تو وہ عادی ہو جاتاہے جس کی وجہ سے اس کا مجاہدہ ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ مجاہدہ ہوتا ہی اسی چیز کا ہے جو مشکل لگے، عادت نہ لگے۔ لیکن جب ایک دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن نہیں رکھتا، تو اس کا مجاہدہ مستقل طور پہ چلتا رہتا ہے۔
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مجاہدہ بھی اسی طرح ہوتا تھا کہ وہ پورا مہینہ بہت ہی کم کھانا کھاتے تھے اور اس کے بعد اگلا پورا مہینہ کھانے نعمتوں سے خوب مستفیض ہوتے تھے اوردیسی گھی وغیرہ پیا کرتے تھے۔
بہر کیف۔ چونکہ مقصد مجاہدہ ہے اور یہ مقصد صوم داؤدی کی ترتیب میں بہترطریقے سے حاصل ہوتا ہے اس لئے آپ صوم داؤدی کی ترتیب سے روزے رکھیں۔
سوال نمبر 14:
حضرت والا! آپ نے مقامات سلوک کی تشریح میں فرمایا کہ 3 چیزوں سے قناعت ضروری ہے مال، جاہ اور باہ۔ الحمد للہ حضرت والا کی برکت سے مال کی قناعت کے بارے میں تو سمجھ میں آگیا۔ازراہِ کرم جاہ اور باہ کی قناعت کے بارے میں کچھ رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
قناعت کیا ہے؟ آپ کی ہر لذت پوری نہ ہو، کچھ پوری ہو جائیں کچھ رہ جائیں، جو رہ جائیں، انہیں پر گزارا کر لینا،کم سے کم پہ گزارا کر لینا، قناعت کہلاتا ہے۔ تھوڑے مال پر گزارا کرنا مال کی قناعت کہلاتا ہے۔
اب سمجھیں کہ جاہ کی قناعت کیا ہے۔ مثلاً ایک شخص چاہتا ہے کہ میں بادشاہ بن جاؤں، وہ اگر چپڑاسی رہنا گوارا کر لے تو یہ اس کی قناعت ہے۔ بے شک اللہ اس کو بادشاہ بھی بنا دے لیکن یہ اپنے طور پر کم درجہ کی حالت میں گزارا کرنے کو بھی تیار ہو، تو یہ جاہ کی قناعت کہلائے گا۔
اگر آپ غورکریں تو جانیں گے کہ یہ حب جاہ کتنی بڑی مصیبت ہے۔ دفتروں اور محکموں میں promotion پہ لڑائیاں کیوں ہوتی ہیں، leg pulling کیوں ہوتی ہے، MNA ،MPA وغیرہ دنیاوی عہدوں کے لئے لوگ خواہ مخواہ کیوں جھوٹ بولتے ہیں اور اتنے جتن سے دھوکے، فریب، فراڈ کیوں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں قناعت نہیں ہوتی۔ جب ان میں قناعت ہو گی تو اس کے لئے نہیں لڑیں گے بلکہ پھر ان کا مقابلہ خدمت کے لئے ہو گا۔
حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ ایک مرتبہ وہ election میں کھڑے ہوئے۔ الیکشن کمپین کے دوران ان کے حریف امیدوار جو ان کے مقابلے میں کھڑے تھے، وہ حضرت کے پاس آئے اور درخواست کی کہ حضرت ہمارے لئے دعا فرمائیں تو حضرت نے ان کے لئے یہ دعا کی اللہ آپ کو کامیاب کرے۔ لوگ اس پہ بہت حیران ہوئے کہ ایسا کون کرتا ہے کہ الیکشن میں اپنے مخالف امیدوار کے لئے کامیابی کی دعا کر دے! میں یہی عرض کر رہا ہوں کہ حضرت کو قناعت حاصل تھی، انہیں کسی عہدہ کی ضرورت حب جاہ کی وجہ سے نہیں تھی۔ ہاں اگر خدمت خلق کے لئے اللہ کی طرف سے مل جائے تو قبول ہے اس کے علاوہ ضرورت ہی نہیں ہے۔
اسی طرح ایک قناعت باہ کی بھی ہوتی ہے، اگر کوئی آدمی نفسانی اور شہوانی خواہشات کا حریص نہ ہو، اور اتنے درجے پر گزارا کر لے جتنے میں ضرورت پوری ہو جائے، تو اس کا مطلب ہو گاکہ اسے باہ کی قناعت حاصل ہے۔
اس تفصیل سے یہ سمجھ آ گئی ہو گی کہ جس طرح مال کی قناعت اسی طرح جاہ کی قناعت بھی ہوتی ہے۔ اسے ایک اور انداز سے یوں سمجھیں کہ قناعت کے مقابلے حرص ہے۔ جس طرح حرص مال، جاہ اور باہ تینوں چیزوں کی ہوتی ہے اسی طرح قناعت بھی مال، جاہ اور باہ تینوں چیزوں کی ہو سکتی ہے۔
سوال نمبر 15:
حضرت! آپ نے دوران مجلس ایک بات فرمائی کہ اگر کوئی ایسا عمل جو فرض و واجب یا سنت موکدہ نہ ہو، اور لوگوں میں اس کی اس طرح پابندی ہونے لگے کہ اس پہ لازم ہونے کا گمان ہو، تو اسے چھوڑنا چاہیے۔ تو کیا فرائض و سنن مؤکدہ کے علاوہ جو نوافل اور سنن غیر مؤکدہ فرض نمازوں سے پہلے اور بعد میں پڑھے جاتے ہیں، جو لوگ وہ پڑھتے ہیں وہ تو لازما پڑھتے ہی ہیں، کیا انہیں پھر چھوڑ دینا چاہیے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
نہیں، وہ بات ان نوافل اور سنن غیر مؤکدہ کے بارے میں نہیں ہے، ان کو continues رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کے لئے تو آپ ﷺ نے دوام کی ترغیب دی ہے۔ یہاں تک فرمایا کہ فلاں آدمی کی طرح نہ ہونا کہ وہ پہلے رات کو نماز پڑھا کرتا تھا اور اب نہیں پڑھتا۔
یہ سمجھیں کہ ایک دوام ہے، اورایک التزام (لازم سمجھنا) ہے۔ کسی بھی نیک عمل پر دوام ہونا چاہیے چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ کسی نیک عمل کو ہمیشہ کرنے پہ پابندی نہیں ہے۔ پابندی اس کو لازم سمجھنے پر ہے۔ اگر کسی وقت ان کو روک دیا جائے تو وہ آسانی سے رک جائیں۔ بعض دفعہ مشائخ نوافل و سنن غیر مؤکدہ سے منع کرتے ہیں۔ اب اگر وہ اس کو لازم نہیں سمجھتا تو رک جائے گا۔
تو ایک بات یہ ہوئی کہ دوام اور چیز ہے، لازم سمجھنا اور چیز ہے، لازم نہ سمجھنے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جو لوگ اس عمل کو نہیں کرتے ان کو برا نہ سمجھا جائے۔ اگر کوئی ان لوگوں کو برا سمجھے، قابل ملامت سمجھے جو اس عمل کو نہیں کر رہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ اس کو لازم جان رہا ہے۔
لہٰذا اگر کوئی آدمی کسی نفل عمل کو نہیں کر رہا تو اسے کم درجہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ وہ فرائض میں آپ سے آگے بڑھا ہوا ہو۔
یہاں یہ بات بھی سمجھتے جائیں کہ فرائض صرف نماز اور ظاہری عبادات میں ہی نہیں ہوتے۔ فرائض قلب کے بھی ہوتے ہیں مثلاً صبر شکر وغیرہ۔ اور کئی باطنی اعمال میں بھی فرائض ہوتے ہیں۔ جو عموماً نظر نہیں آتے۔ اب عین ممکن ہے کہ ایک شخص صبر شکر میں بہت آگے ہو، توکل اور تسلیم و رضا میں بہت اعلیٰ مقام پہ ہو۔ اور ہم کہتے پھریں کہ یہ تو اشراق و تہجد اور اوابین نہیں پڑھتا، خیرات نہیں کرتا، اس لئے اس کا درجہ کم ہے۔ ہمارا ایسا کہنا درست نہیں ہو گا کیونکہ اس کے باطنی اعمال کی وجہ سے اللہ پاک کے ہاں اس کے مرتبے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
لہٰذا نوافل اور سنن کو ادا کرنے پر دوام کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو لازم سمجھا جا رہا ہے۔ اس لئے اس بنیاد پر ان اعمال کو نہیں چھوڑا جائے گا۔
سوال نمبر 16:
کسی کو شکر سے مناسبت ہوتی ہے، کسی کو درود شریف پڑھنے سے مناسبت ہوتی ہے۔ جس کو جس عمل سے مناسبت ہے وہ اس میں آگے بڑھ سکتا ہے؟
جواب:
ہاں یہ بات درست ہے۔ جس کو جس عمل میں مناسبت ہو وہ اس میں خوب محنت کرے اسے خوب ترقی حاصل ہو گی۔
سوال نمبر 17:
حضرت! اس کی وضاحت فرما دیں کہ کچھ لوگ بعض خاص اعمال میں بعض لوگوں سے زیادہ اعلیٰ درجے پہ ہوتے ہیں۔
جواب:
بعض لوگ کچھ خاص اعمال و حالات میں منفرد ہوتے ہیں اور دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے حالات میں آگے بڑھے ہوئے تھے، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے حالات میں آگے تھے، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے حالات میں اعلیٰ مقام پہ تھے، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے حالات میں آگے بڑھے ہوئے تھے۔ کچھ فضائل و خصائص ہر ایک کے انفرادی ہوتے ہیں، وہ ان کے لحاظ سے سب میں ممتاز نظر آتے ہیں۔
سوال نمبر 18:
حضرت! اگر آدمی اپنی ضرورت کے کسی کام کو کرتے ہوئے نیکی کی نیت کر لے تو اسے نیکی کا ثواب بھی ملتا ہے۔ جیسے گھر میں ہوا کی آمد و رفت کے لئے کھڑکی لگاتے ہوئے یہ نیت کر لے کہ اذان کی آواز بھی آئے گی تو اسے اس کھڑکی لگانے کا ثواب ملے گا۔ تو اگر کوئی آدمی ذکر کرتے ہوئے اصلاح کے علاوہ کسی اور فائدہ کی نیت بھی کر لے تو کیا یہ درست ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
نہیں! اس علاجی ذکر میں یہ کلیہ نہیں چلائیں گے۔ اس لئے کہ کچھ اعمال میں ایک خاص پلاننگ کے ساتھ خاص ہدف کو مدنظر رکھ کر چلنا ہوتا ہے۔ اس لئے انہیں کرتے ہوئے اپنی نیت اور خیال کو خاص انہی پہ مرکوز رکھنا چاہیے، یہی بہتر ہے۔
سوال نمبر 18:
حضرت! آپ یہاں چاروں سلسلوں کا ذکر کراتے ہیں۔ یہ ذکر کرتے ہوئے ذہن میں کیا تصور مستحضر رکھنا چاہیے؟
جواب:
اس بارے میں پہلے یہ بات یاد رکھی جائے کہ ہم ابتدائی طور پر ذکر کے ساتھ تصور نہیں بتاتے۔ کچھ عرصہ بعد جب محسوس ہو کہ ذکر پکا ہو چکا ہے تب تصور کے بارے میں بتاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات خصوصاً مبتدی حضرات کے لئے ذکر اور تصور کی طرف بیک وقت توجہ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے اگر کسی ایسی مجلس میں تصور کے بارے میں بتایا جائے جہاں مبتدی بھی موجود ہوں تو وہ تصور پر توجہ نہ لگائیں وہ اپنا دھیان ذکر کی طرف ہی رکھا کریں، جب تک ان کو انفرادی طور پر تصور دیا نہ جائے۔
اور ذکر کے ساتھ کیے جانے والے تصور کی تفصیل یہ ہے:
”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“ کے ساتھ ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ دنیا کی محبت دل سے نکل رہی ہے اور ”اِلَّا اللّٰہ“ کے ساتھ اللہ کی محبت دل میں آ رہی ہے۔ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو“ میرا اور کوئی نہیں ہے مگر وہی۔
حَق کے ساتھ ہم یہ تصورکرتے ہیں کہ ہمارے دلوں کے اندر جو بت بنے ہوئے ہیں وہ ٹوٹ رہے ہیں۔
جب آپ ﷺ مکہ تشریف لائے تھے تو اس آیت کو پڑھتے تھے:
﴿وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا﴾ (الإسراء: 81)
ترجمہ: ”اورکہو کہ: حق آن پہنچا، اور باطل مٹ گیا، اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے“۔
اور بتوں کو گراتے تھے۔ حق کے ذکر کے ساتھ ایسا ہی تصور کریں میرے دل میں حق کے ذکر کے ساتھ بت ٹوٹ رہے ہیں۔
”اَللہ“ کا ذکر کرتے ہوئے ہم تصور کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔
ان سب تصورات کو تب ہی کرنا چاہیے جب شیخ کی طرف سے بتایا جائے۔
سوال نمبر 19:
حضرت بعض بزرگوں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ اپنے مریدین کو خود جہری ضربیں لگاتے تھے۔ کیا یہ طریقہ صحیح ہے، اور یہ کن لوگوں کے لئے ہوتا ہے؟
جواب:
جی بالکل! بعض حضرات ایسا کرتے ہیں، اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اصل میں یہ سب باتیں مناسبت سے تعلق رکھتی ہیں۔ بعض حضرات کی بعض طریقوں کے ساتھ خاص مناسبت اور محبت ہوتی ہے۔ وہ ان ذرائع کو استعمال کرتے ہیں۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے خود اپنے لئے ایک طریقہ جاری رکھا تھا، لیکن ایک نقشبندی صاحب نے ان سے کہا کہ میں نے سلوک کے منازل طے کر لئے ہیں اور میرا دل جاری ہو چکا ہے لیکن میں آپ کا طریقہ بھی استعمال کرنا چاہتا ہوں، آپ میری رہنمائی فرمائیں۔ حضرت نے فرمایا جو طریقہ آپ استعمال کرتے ہیں کیا اس کے ساتھ آپ کو کیفیتِ احسان حاصل ہے؟ انہوں نے کہا جی حاصل ہے۔ فرمایا: ایک چیز ایک ذریعہ سے حاصل ہو چکی ہے تو اسی کو دوسرے ذریعہ سے کیوں حاصل کرنا چاہتے ہو؟ مثلاً کوئی موٹروے سے لاہور پہنچ جائے اور پھر کہے کہ میں دوبارہ واپس پنڈی جاتا ہوں اور G.T road سے آتا ہوں۔ ظاہر ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
لہٰذا اس طرح کے طریقے بعض حضرات کرتے ہیں، لیکن وہ انہی کی صوابدید اور مناسبت پر منحصر ہوتے ہیں۔
سوال نمبر 20:
حضرت! ہمارے دفتروں میں کئی لوگ جو نمازی پرہیزگار اور دیندار قسم کے لوگ ہیں ان میں بھی برتھ ڈے کا تصور بڑا عام ہوتا ہے۔ اور وہ اسے باقاعدگی سے مناتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔
جواب:
اصل میں نفس کی خواہشات کے لئے سامان ہر وقت موجود رہتا ہے۔ جیسے پانی کو نیچے بہنے کے لئے کوئی انتظام کرنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ خود بخود نیچے بہتا ہے، لیکن اس کے نیچے کی طرف بہاؤ کو روکنے کے لئے انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔ اس طرح نفس slip ہوتا ہے۔ خواہشات کی طرف اس کاجھکاؤ natural ہے، لہذا خواہشِ نفسانی کی طرف ذرا سا اشارہ بھی مل جائے تو وہ اسے کرنے پہ تیار ہو جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کسی جگہ ڈھول وغیرہ بج رہا ہو، کوئی گویے اپنے پروگرام میں لگے ہوں تو تھوڑی سی دیر میں لوگ مچھروں مکھیوں کی طرح ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ انسان حیران ہوتا ہے کہ اتنے لوگ کہاں سے اور کیوں اکٹھے ہو گئے۔ وجہ یہ ہے کہ نفس میں اس کی چاہت پہلے سے موجود ہے بس ذرا کہیں سے ڈھول ڈھماکے کی آواز آئے تو نفس کے غلام لوگ اسی کی طرف چل پڑتے ہیں۔ خرابی کے لئے جمع ہونا کوئی مشکل نہیں ہے، وہ تو natural ہے۔ جیسے پانی نیچے flow کرتا ہے وہ natural ہے، up flow کے لئے باقاعدہ انتظام کرنا پڑتا ہے اس کے لئے محنت ہے، اس کے لئے power ہے، اس کے لئے planning ہے۔
سوال نمبر 21:
حضرت بزرگانِ دین میں بڑی بصیرت ہوتی ہے بعض اوقات وہ کسی چیز یاشخص کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں فتنہ ہے، اور بعدمیں وہی چیز واقعتاً فتنہ بنی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس بارے میں کچھ رہنمائی فرمائیے۔
جواب:
بعض بزرگوں کی نظر بڑی دور اندیش ہوتی ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مکتوب شریف میں اس پہ بات کی ہے کہ بعض لوگ بہت تیز نظر کے ہوتے ہیں وہ فتنے کو بہت دور سے بھانپ لیتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک کتاب پڑھ رہے تھے جسکا مصنف اس وقت تو عام آدمی تھا لیکن بعد میں وہ بہت بڑا فتنہ بنا۔ اس کتاب میں بظاہر کوئی فتنے والی بات نہیں تھی۔ حضرت نے تھوڑی دیر کتاب پڑھی پھر فرمایا بند کرو اس کو، ویران سینے سے نکلا ہے، دل خراب کرے گا۔ بند کرو ویران سینے سے نکلا ہے دل خراب کرے گا۔ بعد میں وہ شخص واقعی بہت بڑا فتنہ بن گیا۔ اس وقت میں اس کا نام نہیں لوں گا ورنہ سیاسی بات بن جائے گی۔ اب غور کریں کہ جب حضرت نے یہ بات فرمائی تب سب لوگوں کے نزدیک وہ ایک پڑھا لکھا دیندار شخص تھا، لیکن حضرت نے اس کی ایک ایسی کتاب سے اندازہ لگایا جس میں بظاہر کچھ فتنے کی بات نہیں تھی۔ آخر کوئی چیز تو تھی جو ان کو نظر آئی۔ بعض لوگ بڑے دور بین ہوتے ہیں وہ دور سے ایک چیز کو دیکھ لیتے ہیں ان کو پتا چل جاتا ہے کہ کہیں کچھ مسئلہ ضرور ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ train میں کہیں جا رہے تھے، ٹرین جب دین پور شریف سے گزری تو اِدھر اُدھر دیکھنے لگے اور فرمایا کہ یہاں روحانیت محسوس ہو رہی ہے یہ کون سی جگہ ہے، یہاں کون رہتا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ دین پور شریف ہے اور یہاں فلاں بزرگ ہرتے ہیں۔
اسی طرح حضرت مولانا حسین مدنی رحمۃ اللہ علیہ train میں جا رہے تھے جب ٹرین گولڑہ شریف کے پاس سے گزری تو پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے، یہاں روحانیت ہے۔ بتایا گیا کہ یہ گولڑہ ہے۔ فرمایا کہ یوں کہو گولڑہ شریف۔
تو یہ اس طرح کی بات ہے، کہ بزرگوں میں بصیرت و فراست ہوتی ہے جس سے وہ بہت کچھ بھانپ لیتے ہیں۔
سوال نمبر 22:
حضرت! آج کل چھوٹی سی عمر میں بچوں کو سکول میں ڈال دیا جاتاہے، ابھی وہ تین چار سال کے ہی ہوتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ کچھ بڑے ہو جائیں پھر ان کو اس طرف لگایا جائے؟
جواب:
اس وقت ہم پاگل پن کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے بچے بھی اس پاگل پن کی نذر ہو رہے ہیں۔ میں جب بچوں کو دیکھتا ہوں کہ بے چاروں نے اتنے بڑے بڑے بستے اٹھائے ہوتے ہیں تو مجھے ان پہ بڑا ترس آتا ہے۔ Europe میں بچوں کے پاس بستے نہیں ہوتے۔ پہلے چند سالوں میں تو ان کو کھیل کھیل میں سکھایا جاتا ہے۔ کبھی رنگوں سے ان کو سکھاتے ہیں، کبھی کسی کھیل کے ذریعے، کبھی کسی اور بچگانہ طریقے سے۔ ہم لوگوں نے ان کی نقل تو کرنی چاہی لیکن نقل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں چونکہ عقل استعمال نہیں کی جاتی اور نقل پر نقل ماری جاتی ہے۔ اس لئے اصل کام کی طرح تو ہم سے نہ ہو سکا بس ایک ملغوبہ سا بن گیا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ آپ road دوبارہ ٹھیک کرنے کے لئے اس کے اوپر مزید مٹیریل ڈالتے جا رہے ہیں، road اوپر ہوتا جا رہا ہے اور گھر نیچے ہوتے جا رہے ہیں۔ چاہیے تو یہ کہ پہلے cutting کی جائے اس کے بعد ٹھیک کیا جائے۔ لیکن اس کے لئے سمجھ کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کی تعلیم کے ساتھ یہی ظلم ہوا ہے۔ مجھے ان پہ بہتیرا ترس آتا ہے کہ پہلے سکول میں پڑھتے ہیں پھر ٹیوشن پڑھتے ہیں پھر ہوم ورک کرتے ہیں۔ ان کے کھیلنے کودنے کا سارا زمانہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر 23:
حضرت! سنتوں کو زندگی کا معمول بنانے میں کیا ترتیب اختیار کی جائے۔ اپنے حساب سے دیکھیں کہ جو آسان ہیں پہلے وہ اختیار کریں، بعد میں وہ اپنائے جو ذرا مشکل لگتی ہوں۔یا پھر شیخ سے مشورہ کرے اور اس کے مطابق عمل کرے؟
جواب:
اس میں اپنے حساب سے دیکھا جائے کہ میرے لئے جو سنتیں آسان ہیں پہلے ان کو اپنانے کی کوشش کریں اور عمل میں لائیں۔ ان کے بعد ان سنتوں پہ کام کریں جو نسبتاً مشکل لگتی ہوں۔ اس طریقہ سے ان شاء اللہ آپ آگے بڑھتے جائیں گے۔
سوال نمبر 24:
حضرت! بیمار کے ساتھ کیسے deal کرنا چاہیے۔ اگر اس کی عیادت کے لئے گئے ہوں، اس سے بات چیت ہو رہی ہو اور نماز کا وقت ہو جائے۔ تو کیا اختیار کرنا چاہیے۔
جواب:
مریض کی عیادت کرنے والوں کے لئے اس حد تک گنجائش ہے کہ اگر دو آدمی ہوں تو وہ بعد میں اپنی جماعت کرا سکتے ہیں۔ خاص طور پر اس سچویشن میں جب مریض کے پاس سے اٹھنا مناسب معلوم نہ ہو رہا ہو۔ کیونکہ بعض دفعہ حالات ایسے نہیں ہوتے کہ مریض کے پاس سے بات چیت اور عیادت کے دوران ہی اٹھا جا سکے۔ اگر ایسی سچویشن نہ ہو اور نماز کے لئے اٹھنے میں کوئی مسئلہ نہ ہو تو پھر ان کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ ابھی فرض نماز پڑھ کے آتا ہوں۔
سوال نمبر 25:
کیا یہ بات درست ہے کہ بعض امراض قلبی مثلاً تکبر صرف شیخ کی محبت ہی سے نکلتے ہیں۔ اکثر وہ حضرات جن میں یہ مرض زیادہ ہو، شیخ کی ڈانٹ کے بغیر یہ مرض ان کے اندر سے نہیں جاتا۔ اگر یہ درست ہے تو پھر دور والے سالکین کا علاج کیسے ہو گا؟
جواب:
شیخ کی محبت ایک زبردست تریاق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ کیونکہ شیخ سے محبت ایک ایسا عنصر ہے، جس کے ذریعہ شیخ کا فیض آسانی کے ساتھ ملتا ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مکتوب میں یہ بات فرمائی ہے کہ بعض لوگوں کا تصورِ شیخ اتنا زیادہ strong ہوتا ہے کہ وہ اپنے شیخ سے تھوڑے عرصے میں بہت کچھ جذب کر لیتے ہیں۔ الله جل شانہ کی عظمت جس پہ جتنی کھلتی ہے اپنی کمزوری اور عاجزی اتنی ہی واضح ہوتی ہے۔ اپنی کمزوری اور عاجزی سامنے ہو تو تکبر ختم ہوتا ہے، تکبر ختم ہوتا ہے تو عبدیت بڑھتی ہے، عبدیت جتنی بڑھتی ہے معرفت اتنی زیادہ حاصل ہوتی ہے۔ اب چونکہ اللہ جل شانہ وراء الوراء ذات ہے، تو یہی چیز پہلے فنا فی الشیخ کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ پھر فنا فی الرسول اور اس کے بعد فنا فی اللہ نصیب ہوتا ہے۔ فنا فی الشیخ کے مرتبے میں آدمی شیخ کو جتنا بڑا سمجھتا ہے اپنے آپ کو اتنا ہی چھوٹا سمجھتا ہے۔ اپنے آپ کو چھوٹا سمجھنے سے تکبر خود بخود کم ہوتا ہے، اور ماننے کا جذبہ بڑھتا ہے۔ ماننے کا جذبہ بڑھنے سے مریدیت بڑھتی ہے۔ جتنی مریدیت بڑھتی ہے شیخ کا فیض اتنا زیادہ ملتا ہے۔ اس لئے ہمارے ہاں یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی اپنے شیخ کو قطب سمجھے تو اس کو قطب کا فیض ملتا ہے۔ بے شک شیخ قطب نہ بھی ہو، لیکن اس کے ایسا سمجھنے سے اس کو فائدہ قطب والا ہی ہو گا۔ بعض حضرات نے کہا ہے ”پیر من خس ما را بس است“ میرا پیر اگر خس بھی ہے پھر بھی میرے لئے کافی ہے۔
تو اصل بات یہ ہے کہ شیخ کے ساتھ قلبی محبت، اس کے ساتھ تعلق، اس کے ساتھ رابطہ، اس کی باتوں پہ عمل کرنا، اس کے طریقہ پہ چلنا اور اس کی بات کو اپنے لئے سند ماننا۔ یہ ساری باتیں انسان کو بناتی ہیں۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں یہ ہی اصل ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ ہماری ابتدا انعکاسی نسبت سے ہوتی ہے۔ یعنی شیخ کا عکس پڑتا ہے تو کچھ حاصل ہوتا ہے، اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ مزید مقامات نصیب فرما دیتے ہیں۔
سوال نمبر 26:
حضرت جی! اذکار کے لئے دن میں کوئی ایک وقت مقرر کر کے، سارے اذکار اس وقت میں کرنے چاہئیں یا ہر نماز کے بعد کرنے چاہئیں؟
جواب:
اس میں تفصیل ہے۔
ثوابی اذکار یعنی تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار۔ یہ آپ کسی بھی وقت کر سکتے ہیں۔
نماز کے بعد والے اذکار تو نماز کے بعد ہی کیے جائیں گے۔
علاجی اذکار یعنی 100 دفعہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہ“ 100 دفعہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُو“ 100 دفعہ ”حَق“ اور 100 دفعہ ”اللّٰہ“۔ ان کے لئے یہ ترتیب ہونی چاہیے کہ کوئی ایک وقت روزانہ کا مقرر کر لیا جائے، اس وقت میں یہ کیے جائیں، اور ان میں ناغہ نہ ہو۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ