اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے کے ایک بزرگ سے پوچھا گیا ہے کہ ہدیہ میں ہدیہ دینے والے کی شخصیت کا اثر ہوتا ہے یا نہیں؟ انہوں نے بتایا کہ اثر ہوتا ہے۔ راقم پر یہ وقت گزرا ہے کہ مختلف اشیاء اور مقامات کی ان سے متعلق اشخاص کی الگ الگ تاثیر محسوس ہوتی ہے۔ حضرت ہدایت فرمائیں کہ کیا ہدیہ کئے ہوئے کپڑے پہن لیا کروں اور اس سلسلے میں کیا کروں۔
جواب:
یقیناً اتنی بات تو ضرور ہے کہ حلال و حرام کا فرق پڑتا ہے۔ پس اگر ہدیہ دینے والے کی دولت حرام ہے تو اس کا اثر اعمال پر پڑے گا، اگر حلال ہے تو اس کا بھی اپنا اثر ہو گا۔ اللہ والوں کے ہدایا میں نور ہوتا ہے، عام لوگوں کے ہدایا میں انہی جیسے عام اثرات ہوتے ہیں۔ میں یہ بات ویسے ہی نہیں کہہ رہا بلکہ میرے پاس کچھ واقعاتی دلائل ہیں۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ تھا کہ وہ حرام چیز کا ہدیہ نہیں لیتے تھے۔ سفر میں جاتے ہوئے اپنے ساتھ چنے وغیرہ رکھ لیتے تھے، بھوک لگنے پر وہی کھاتے تھے۔ کسی کے ہاں عموماً کھانا بھی نہیں کھایا کرتے تھے۔ مولانا امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ مجھے خود سنایا ہے کہ ایک دفعہ وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ کوئی شخص آیا اور اس نے کہا کہ میرے پاس کچھ مشتبہ مال ہے اس کا کیا مصرف ہو گا۔ کہتے ہیں میرے باقی ساتھیوں نے کہا کہ ہمارے پاس تو اس کا کوئی مصرف نہیں ہے لیکن میں نے کہا کہ میرے پاس اس کا ایک مصرف ہے مجھے دے دو۔ ساتھی بڑے حیران ہوئے کہ آپ کے پاس اس کا کیا مصرف ہے میں نے کہا بس میرے پاس ایک ہے۔ انہوں نے وہ پیسے مجھے دے دیئے۔ کہتے ہیں میں نے ان سے کہا کہ مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں سنا ہے کہ وہ مشتبہ اور حرام مال کا ہدیہ قبول نہیں فرماتے آج ان کا امتحان لینے چلتے ہیں۔ کہتے ہیں ہم نے ان پیسوں سے روٹیاں لے لیں اور ان پر نشان لگا دیا اور کچھ روٹیاں حلال پیسوں سے بھی لے لیں ان پر علیحدہ نشانی لگا دی اور سب روٹیوں کو مکس کردیا۔
ہم وہ روٹیاں حضرت کے پاس لے کر گئے ان کی خدمت میں پیش کیں۔ حضرت نے ان میں سے چن چن کے وہ روٹیاں نکالیں جو مشتبہ مال سے تھیں اور فرمایا یہ اپنے پاس رکھو اور باقی قبول فرما لیں۔ میں اور میرے ساتھی بڑے حیران ہوئے۔ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، ہم معتقد ہو گئے اور بیعت کی درخواست کی۔ حضرت نے فرمایا: آج تو تم آئے ہو امتحان کے لئے، میں بیعت نہیں کرتا آپ کا امتحان ہو گیا بس جاؤ اپنا کام کرو جاؤ۔
کہتے ہیں میرے دوست ذرا ناراض بھی ہوئے کہ ہم نے توبہ کر لی اب تو بیعت کرنا چاہیے۔ میں نے کہا: بزرگوں کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کرتے، چلو چلتے ہیں۔ ہم اوکاڑہ واپس روانہ ہوئے، باقی دوست اوکاڑہ کے لاری اڈے سے اپنے گھروں کو چلے گئے اور میں وہیں سے واپس لاہور کے لئے روانہ ہو گیا اور حضرت کی خدمت میں جا پہنچا۔ میں نے کہا: حضرت اب تو میں امتحان کی نیت سے نہیں آیا اب بیعت کر لیجئے۔ انہوں نے مجھے بیعت کر لیا۔ اس کے بعد فرمایا: آپ کے پاس جیب میں اتنے پیسے ہیں، آپ اردو بازار جا کر احیاء العلوم کتاب خرید لیں۔ جتنے پیسے آپ کی جیب میں ہیں، ان سے وہ کتابیں آ جائیں گی اور واپسی کا کرایہ میں آپ کو دے دوں گا۔
کہتے ہیں میں نے دیکھا تو واقعی اتنے ہی پیسے تھے کہ جن سے احیاء العلوم لے سکا، اور باقی پیسے حضرت نے مجھے ہدیہ کر دیئے۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت اس بارے میں احتیاط کرتے تھے کہ کسی سے مشتبہ مال کا ہدیہ بھی نہیں لیا کرتے۔ بلکہ ایک دفعہ راستے میں ان کے پاس اپنا زاد راہ ختم ہو گیا تھا، باقی مال پہ یقین نہیں تھا کہ حلال ہے یا حرام۔ تو بھوکے رہے اور کافی بیمار اور کمزور ہو گئے، کیونکہ جہاز سے اتر بھی نہیں سکتے تھے۔ جب جدہ پہنچے تو وہاں پر حلال مال کا انتظام ہو گیا۔ حضرت فرماتے تھے کہ تکلیف تو بہت ہوئی لیکن دل بچ گیا۔
لہٰذا ہدایا وغیرہ کا اثر تو ہوتا ہے، مال مشتبہ اور حرام ہو تو برا اثر ہوتا ہے، اگر حلال مال ہو تو نور آتا ہے۔
ایک صاحب بڑے ولی اللہ، بزرگ اور متقی تھے، لکڑیاں کاٹ کر بیچ کر گزر اوقات کرتے تھے۔ جو مال دولت حاصل ہوتا اسے تقسیم کرتے کچھ حصہ خیرات کرتے تھے کچھ حصہ اپنے اوپر خرچ کرتے تھے اور کچھ حصہ بچا کے رکھتے تھے۔ اور مہینہ میں ایک دفعہ اپنے وقت کے بزرگوں کی دعوت کیا کرتے تھے۔ ان بزرگوں میں بڑے بڑے لوگ تھے جن میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے حضرات بھی تھے۔ وہ بزرگ فرماتے ہیں کہ ہمیں اس دعوت کا انتظار ہوتا تھا، اس دعوت کے کھانے کے بعد پورا مہینہ ہمیں اس کا نور اپنے دل میں محسوس ہوتا تھا اور اعمال کی توفیق ہوتی تھی۔
معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ کے ہدایا کے اثرات نورانی ہوتے ہیں اور عام لوگوں کے ہدایا میں عام اثرات ہوتے ہیں۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ آپ نے جو مراقبہ دیا ہے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ابھی تک مقررہ وقت پر بلا ناغہ جاری ہے، الحمد للہ تلاوت بھی کر رہی ہوں۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ مجاہدہ کے روزے رکھنے سے بہت اچھے اثرات ہوتے ہیں، معمولات بھی وقت پر ہو جاتے ہیں، دل بھی زندہ رہتا ہے لیکن روزہ نہ ہو تو پھر لا پروائی غالب ہوتی ہے۔ روزہ رکھنے میں مزہ آتا ہے اور بہت خوشی ہوتی ہے۔ ایک چیز میں نے یہ بھی note کی ہے کہ جب بندے کا پیٹ خالی ہو تب بھی روزہ رکھے تو بہت سی برائیوں سے بچا رہتا ہے۔ نماز، تلاوت اور ذکر دل سے کرتا ہے۔
جواب:
جی ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ روزہ سے صفائی قلب ہوتی ہے کیونکہ نفس کے اوپر پیر آ جاتا ہے۔ چونکہ ساری شرارتیں نفس ہی کی ہوتی ہیں، جیسے نفس دبتا ہے اتنا اتنا دل کے اوپر ذکر کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور تقویٰ دل میں آتا ہے۔ قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا ہے کہ روزہ سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرہ: 183)
ترجمہ: ”اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو“۔
آپ کی بات صحیح ہے کہ روزے رکھنے سے معمولات بہتر ہوتے ہیں۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ روزے اتنے ہی رکھنے چاہئیں جتنا انسان برداشت کر سکے۔ آپ کے بتانے سے لگتا ہے کہ آپ اس کو برداشت کر سکتی ہیں۔ اگر کوئی قضا روزے آپ کے ذمہ ہوں تو ان کو رکھیں اس کے بعد دوسرے روزے بھی رکھ سکتی ہیں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ عید الفطر کے بعد آپ نے مجھے دل پر انگوٹھا رکھ کر 15 منٹ مراقبہ کرنے کی تاکید فرمائی تھی۔ تب سے لے کر اب تک باقاعدگی سے مراقبہ کر رہی ہوں۔ ابھی اللہ اللہ ہوتا ہوا محسوس نہیں ہوا مجھے مزید کیا کرنا چاہیے جزاکم اللہ خیرا۔
جواب:
آپ فی الحال یہی جاری رکھیں۔ بعض لوگوں کو ذکر ذرا دیر سے محسوس ہونا شروع ہوتا ہے۔ اس لئے آپ یہی ذکر جاری رکھیں۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت والا کی خدمت اقدس میں سوال عرض ہے۔ حضرت ہی کی برکت سے یہ جانا کہ شریعت میں دو چیزیں ہوتی ہیں اختیاری یا غیر اختیاری۔ غیر اختیاری چیزوں کا مطالبہ نہیں ہے۔ جس چیز کا انسان مکلف نہیں اس کا مطالبہ بھی نہیں۔ اللہ عادل ہے کریم ہے ظلم سے پاک ہے۔ جس چیز کا اختیار ہے اسے پورا پورا کرنا انسان کے ذمہ ہے، اس کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اور یہ بھی جانا حضرت کی برکت سے کہ جو چیزیں غیر اختیاری ہیں ان کی فکر کرنے اور ان کے بارے میں زیادہ سوچنے سے ذہنی بوجھ اور تکلیف ہوتی ہے۔ اور ایسی چیزوں کو نہ سوچنے سے اور ان کی فکر نہ کرنے سے انسان کو راحت اور اطمینان و سکون ملتا ہے۔ الحمد للہ اس کے بہت فوائد محسوس ہوئے۔ سوال خدمت مبارکہ میں یہ عرض ہے کہ ہمت سے کیا مراد ہے؟ کیا اختیاری اعمال کو عملی شکل دینے کا نام ہمت ہے یا اعمال کی طرف راغب کرنے کے لئے شوق اور جذبہ کو ہمت کہتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہمت سے مراد شوق ہے تو یہ ایک قلبی کیفیت ہے، اس حساب سے یہ قلب کا فعل ہوا اور اگر نفس پر مجاہدہ کر کے اس کو عملی شکل دینے کا نام ہمت ہے تو یہ نفس کا معاملہ ہوا۔ حضرت والا رہنمائی فرما دیں کہ ہمت کیا چیز ہوتی ہے۔ عام بول چال میں تو اس کا استعمال اور context سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن تصوف اور روحانیت میں اس کو کیسے سمجھا جائے۔ نیز یہ بتا دیجئے کہ کیا ہمت گھٹتی اور بڑھتی بھی ہے یا ایک ہی لیول پر رہتی ہے؟
جواب:
ایک تو ہمت کا وہ معروف معنی ہے جو عام لوگ بھی جانتے ہیں، جیسے ہم کسی کو کہتے ہیں کہ ہمت کرو۔ اور ہم کہتے ہیں بغیر ہمت کے کوئی کام نہیں ہوتا۔ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔ یہ اصطلاح تصوف میں بھی رائج ہے۔ انسان کو جو کام کرنا ہو اس کام کے کچھ پہلو طبیعت کے موافق نہ ہوں، آدمی طبعی طور پر اس کے لئے تیار نہ ہو ایسی صورت میں اسے ہمت کرنی پڑتی ہے اپنے نفس کے اوپر بوجھ ڈال کر وہ اس کو کر گزرتا ہے، اس نا گواری کو برداشت کرتا ہے۔ جیسے گندگی کو صاف کرنا ہو تو ناگواری تو ہوتی ہے لیکن چونکہ صفائی کرنی ہی ہوتی ہے اس لئے انسان طبیعت پہ بوجھ ڈال کر بھی گندگی کو صاف کرتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات کسی شخص سے ملنا طبیعت پر ناگوار ہوتا ہے اور ملنا ضروری بھی ہوتا ہے تو پھر طبیعت کے انقباض کو دبا کر اس کے ساتھ ملاقات کر لی جاتی ہے۔ یہ طبیعت پر بوجھ ڈالنا، اسے برداشت کرنا، اس کو ہمت کہتے ہیں۔
اس کے علاوہ تصوف میں ہمت کا ایک اور معنی بھی ہے۔ تصوف میں ہمت کا لفظ توجہ اور تصرف کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اپنے کسی خیال کو، اپنے قلب کی کسی کیفیت کو کسی اور پر ڈالنا ہو، اس کا طریقہ اگر کسی کو آتا ہو تو وہ اس طرح کر سکتا ہے کہ وہ اپنی کیفیت دوسرے میں ڈال کر اس میں بھی وہی چیز پیدا کر لے۔ اس کو بھی ہمت کہتے ہیں۔ یہ ہر ایک نہیں کر سکتا اور ہر ایک کو کرنا بھی نہیں چاہیے۔ کیونکہ اگر ایسا کرنے والا نا پختہ ہو تو اس کی صحت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ہاں اگر کوئی پختہ کار ہو مشاق ہو تو پھر صحیح مقاصد کے لئے اس تصرف کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ طیب خاطر اور شریعت کی مطابقت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ آپ کسی سے زبردستی کوئی کام نہیں کروا سکتے ہاں ترغیب ضرور دے سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی گڈھے میں پھنس گیا، وہ نکلنا چاہتا ہے لیکن نکل نہیں پا رہا اس وقت آپ اپنی ہمت استعمال کر سکتے ہیں جس کو توجہ عرفی کہتے ہیں۔ یہ لفظ دو معنی میں استعمال ہوتا ہے اور دونوں معنے ٹھیک ہیں۔
ہمت گھٹ بھی سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے اس کی بنیاد اس کے اندر پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ کسی میں ہمت کرنے کی صلاحیت رکھی گئی ہوتی ہے کسی میں نہیں رکھی گئی ہوتی۔ جس میں یہ صلاحیت رکھی گئی ہو وہ اس کو بڑھا سکتا ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے جیسے Art اور Science کسی میں پیدا نہیں کیا جا سکتا، لیکن اگر کسی میں پہلے سے ہو تو اسے Science کے ذریعے improve کیا جا سکتا ہے۔ مشق اور محنت سے بڑھایا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایک انسان میں طبعی طور پر خوش خطی کا مادہ موجود ہے تو استاذ اس کو چمکا سکتا ہے بڑھا سکتا ہے، اگر وہ غفلت کرے تو کم بھی ہو سکتا ہے۔ طبعی چیزوں کی وجہ سے بھی کم ہو سکتا ہے۔ طبعی چیزوں سے مراد یہ ہے کہ بعض دفعہ انسان تھکا ہوتا ہے بعض دفعہ انسان کا mood نہیں ہوتا بعض دفعہ حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کام نہیں ہو پاتا۔ اس صورت میں بھی وہ صلاحیت کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ توجہ اور ہمت کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے ہر دفعہ ضروری نہیں کہ یہ ہو جائے۔ کبھی مختلف حالات کی وجہ سے ذہن کسی خاص قسم کی چیز میں پھنسا ہوتا ہے، توجہ مرکوز نہیں کر پاتا اور اس طرح کی ہمت میں چونکہ concentration کی ضرورت ہوتی ہے، وہ نہ ہونے کی وجہ سے اس میں کمزوری آ سکتی ہے۔
بہرحال یہ گھٹنا بڑھنا وقتی طور پر ہوتا ہے اور مشق کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے۔ کسی میں مشق کی کمی ہو تو کم ہو گا اگر مشق زیادہ کر لے تو زیادہ ہو جائے گا۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
My ذکر of one month has completed. My ذکر was
200 times “لَا إِلٰهَ اِلَا اللہ”
200 times “اِلَّا اللہ”
200 times “اللہ، اللہ“
500 “حَق”
5، 5 منٹ پانچوں لطائف پر اللہ اور مراقبہ شان جامع کے بعد آپ نے فرمایا تھا کہ قرآن مجید پڑھتے ہوئے اسی ترتیب سے فیض کا تصور کرنا ہے جو شان جامع میں تھی۔ رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
آپ فی الحال اسی کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ البتہ تلاوت قرآن سے جو فیض حاصل کرنا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ تلاوت کرتے ہوئے تصور کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے بات کر رہے ہیں۔ اس تصور کے ساتھ کم از کم 10 منٹ تلاوت کیا کریں۔
سوال نمبر6:
Regarding the کیفیات I try to do my best but there are two actual obstacles. I don’t work in مسلم environment, so I have to struggle every day to pray ظہر and عصر in secret at work. Sometimes, I feel ashamed to pray quite fast also because I suffer from bowel pain. I can’t pray as much نوافل as I will. I feel ashamed and frustrated too about it because I can lose وضو sometimes, it depends on the day. I practiced ورد الحمد للہ every day. I never miss it but even if I feel a good evolution I am in a better mood. I have a more polite and silent feel and interior obstacles like if I was missing something.
جواب:
These are all beyond your control so there is no harm for you in these and it gives you more اجر. So do not worry. Be careful of those things which you can do. It is to do مطلب اختیار . It is just a difference of control. So if something is in control one has to control and if something is not in control so اللہ سبحانہ تعالیٰ does not consider him responsible for that. So therefore, it is enough.
سوال نمبر7:
السلام علیکم حضرت جی۔ مجھے یہ چیز بہت پریشان کرتی ہے کہ میری جبلت میں کون کون سی باتیں ہیں اور نفس کی طرف سے کون کون سی باتیں ہیں۔ میں اکثر معمولی باتوں پر چڑ جاتی ہوں کہ مجھ سے یہ کام کیوں ٹھیک سے نہیں ہو رہا۔ میں رات کو معمولات آرام سے پورے کر کے سوتی ہوں کیونکہ مجھ سے برابر timetable نہیں بنتا۔ اگر کوئی چیز رہ جائے تو عام طور پر نیند نہیں آتی ویسے بھی آنکھ دیر سے لگتی ہے عام طور پر 3 یا 4 بجے سو کر بھی صبح کی نماز کے لئے الارم سے اٹھ جاتی ہوں۔ کبھی ہمت جواب دے جائے تو تہجد ترک کر دیتی ہوں کہ فجر ہی نہ رہ جائے۔ آپ نے 313 مرتبہ سورۃ نمل کی آیت پڑھنے کی ہدایت فرمائی ہے اسے پڑھنا بہت بڑا مجاہدہ لگتا ہے اگر توجہ سے پڑھوں تو اس میں پونا گھنٹہ لگتا ہے۔ عام طور پہ یکسوئی نہیں رہتی پڑھتے پڑھتے دماغ آگے پیچھے چلا جاتا ہے، کئی مرتبہ پورا وظیفہ نہیں ہو پاتا۔ ہر وقت ایک pressure رہتا ہے کہ تم شیخ کی بات نہیں مان رہی فائدہ کیسے ہو گا۔ اب ایک دو دن کوشش کر کے آیت پڑھی۔ دو دن سے خود نماز کے لئے نہیں اٹھ پا رہی۔ ایک دن تو کسی نے جگا دیا دوسرے دن 3 لوگوں نے اپنی اپنی کوشش کی۔ جس نے آ کر جگایا اس نے غلطی سے قضا کا وقت غلط بتا دیا۔ پڑھنے کے بعد پتا چلا کہ دو 3 منٹ اوپر ہو چکے تھے۔ اس سے تکلیف ہو رہی ہے کہ میں نے تو آپ کا حکم ماننے کی کوشش کی مجھے نقصان کیوں ہوا۔ حالانکہ ایسا ہو بھی نہیں سکتا اس بات کا یقین ہے لیکن شیطان تنگ کر رہا ہے۔ اس لئے فوراً آپ کو یہ سب بتانے کا دل چاہا تاکہ آپ کی رہنمائی سے اس کی باتوں میں نہ آؤں۔ بار بار یہی آ رہا ہے کہ میری کیا غلطی ہے میں اس سے زیادہ کوشش کیسے کروں۔
جواب:
اگر آپ اپنی حد سے زیادہ اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرائیں گی تو اس سے مسائل ہوں گے۔ ہم لوگوں کو اتنا ہی کرنا چاہیے جتنے کی ہم طاقت رکھتے ہیں اس سے زیادہ کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔
جہاں تک جبلت کی بات ہے، جبلت کی باتوں کو جاننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، صرف اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ نفس کی اصلاح کے لئے یہی کافی ہے کہ جو شیخ بتاتا ہے اس کے اوپر عمل کریں۔ اس سے نفس کی اصلاح خود بخود ہوتی رہے گی۔ جبلت کے جاننے کی کوشش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
timetable کے لئے میں آپ کو آسان طریقہ بتاتا ہوں۔ اس سے مشکلات میں کمی آ جائے گی۔ آپ priority کے حساب سے ٹائم ٹیبل بنائیں۔ ہر چیز کو ایک priority دیں کہ میں نے اس Domain time میں یہ کام کرنا ہے، یعنی اس وقت سے لے کر اتنے وقت تک فلاں کام کو ترجیح دوں گی۔ اس کے بعد اتنے سے اتنے وقت تک دوسرے کام کو پہلے نمبر پہ رکھوں گی۔ اس طرح ٹائم ٹیبل بنانے سے یہ فائدہ ہوگا کہ ہر ٹائم والے حصے میں آپ کے پاس پہلے سے طے شدہ کام موجود ہوگا کہ اس وقت میں اس کام کی priority ہے، اس لئے اس وقت میں یہی کرنا چاہیے۔
نماز کے لئے جو لوگ آپ کو اٹھا دیتے ہیں، وہ اس کام کو جاری رکھیں یہ اچھی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ مزید بھی فضل فرمائے۔
یہ بتا دیں کہ سورۃ نمل کی کونسی آیت کے بارے میں آپ کو میں نے بتایا ہے کہ 313 دفعہ پڑھنا ہے۔
اگر آپ نے کسی کو نماز کے لئے اٹھانے کا کہا ہو، ان کے اٹھانے کے باوجود آپ نہ اٹھ سکیں تو اس کا مطالبہ آپ سے نہیں ہوگا۔ اگر آپ کو کسی نے غلط وقت بتا دیا تو اس کا مواخذہ بھی نہیں ہو گا کیونکہ اس میں آپ کی غلطی نہیں ہے۔ البتہ اگر آپ اس سے پہلے اٹھ سکتی تھیں اور جان بوجھ کے نہیں اٹھیں تو پھر ذمہ دار آپ ہوں گی۔ لہٰذا اس میں سوچنے اور پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ یہ الله جل شانہ کا معاملہ ہے بعض دفعہ کسی چیز سے محروم رکھ کر اصلاح کروا دیتے ہیں بعض دفعہ کوئی چیز عطا فرما کر اصلاح کرا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمتیں ہیں جن میں ہم مداخلت نہیں کر سکتے۔ ہمارا کام وہیں تک ہے جو ہم کر سکتے ہیں، اسی کا ہم سے مطالبہ ہو گا۔ شیطان کی باتوں میں بالکل نہ آئیں شیطان جو بھی بکتا ہے اس کو بکنے دیں اس کی پروا ہی نہ کریں اور جو باتیں میں نے بتائی ہیں ان پہ عمل کریں۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم حضرت صاحب۔ آپ نے مجھے 15 منٹ کا ذکر دیا تھا جو میں تسلسل سے نہیں کر پا رہی مگر اللہ کا شکر ہے کہ دو دن سے کر رہی ہوں اور بہت سکون مل رہا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ استقامت کی دعا فرمائیں۔
جواب:
آپ کے ساتھ اتنی ساری conversation ہو چکی ہے لیکن ابھی تک آپ میرے مزاج کو نہیں سمجھیں۔ اگر آپ سے 24 گھنٹے میں 15 منٹ کا ذکر نہیں ہو پا رہا تو پھر میں کیا خدمت کروں آپ کی؟ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی پتا نہیں آپ کس قسم کے لوگ ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کو 24 گھنٹے میں 15 منٹ نہیں ملتے تو پھر میں کیا کروں۔ اس کا مطلب ہے آپ کرنا ہی نہیں چاہتیں۔
آپ ذکر بھی سکون کے لئے کرنا چاہتی ہیں۔ ہم نے کب کہا ہے کہ ذکر سکون کے لئے کرو ہم تو آپ کو ذکر اصلاح کے لئے دے رہے ہیں لیکن آپ کو اپنی اصلاح کی فکر ہی نہیں ہے آپ کو صرف سکون کی فکر ہے۔ لہٰذا اب آئندہ مجھے کوئی میسج نہ کریں۔ I am not responsible for you اگر آپ خود سمجھنا نہیں چاہتیں تو میں کیا کروں۔ اس لئے مجھے بار بار تنگ نہ کریں۔ آپ کام ہی نہیں کرنا چاہتیں۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم شاہ صاحب!
I am فلاں. I mentioned the above بیان on a phone call today. I respect you a lot but I feel I don’t love you, then how I will love اللہ and رسول ﷺ according to your above statement?
جب انسان کو شیخ کے ساتھ بے لوث محبت ہو جاتی ہے اس کے بعد آہستہ آہستہ آپ ﷺ کے ساتھ ہو جاتی ہے اور آخر میں پھر یہی محبت اللہ کے ساتھ ہو جاتی ہے شیخ کے ساتھ آسان ہے آپ ﷺ کے ساتھ تھوڑی مشکل ہے اور پھر اللہ کے ساتھ بہت مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے کیونکہ ہماری چیز ہر چیز اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔
جواب:
چلو میں بھی آپ سے ایک سوال کر لوں۔ اگر آپ کو میرے ساتھ محبت نہیں ہے تو پھر اس کی فکر کیوں ہے؟ محبت نہ ہونے کی فکر کیوں ہے؟
در اصل محبت کی کئی قسمیں ہوتی ہیں ایک قسم یہی ہے کہ جس میں محبت محسوس نہیں ہوتی بلکہ اس کا نہ ہونا محسوس ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں محبت کا محسوس نہ ہونا بھی محبت ہی کی علامت ہے۔ ورنہ باقی لوگوں کے بارے میں آپ کو کیوں فکر نہیں ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ آپ کو محبت نہیں ہے۔
شیخ کے ساتھ محبت میں یہ آسانی ہے کہ آپ رابطہ کر سکتے ہیں۔ دیکھیں آپ نے مجھے میسج کر لیا۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ یا نبی پاک ﷺ کے ساتھ اس طرح بات ہو سکتی ہے؟ وہ تو نا ممکن ہے۔
لہٰذا شیخ کے ساتھ محبت آسان ہے۔ نبی پاک ﷺ کے ساتھ محبت اس سے زیادہ فکر اور کوشش والی ہے اور سب سے زیادہ اعلیٰ اور بڑی محبت اللہ پاک کے ساتھ ہے۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم۔ میں نے آپ محترم کی اجازت سے نومبر 2017 سے مراقبہ شروع کیا۔ دو مہینوں کے لئے روزانہ 10 منٹ اللہ اللہ کا مراقبہ کرنا تھا۔ پھر آپ نے بڑھا کر 15 منٹ کر دیا۔ 2 اگست 2018 کو اللہ اللہ سے بدل کر حق حق کے مراقبہ کی ہدایت کی۔ حق حق کا مراقبہ جاری ہو چکا ہے۔ اب یہ کیفیت ہے کہ مراقبہ میں کچھ یکسوئی ہو گئی ہے مگر دل بالکل بند ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے کے دوران یا آپ محترم کا بیان سننے کے دوران دل جاری ہو جاتا ہے۔ دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ میرے دل پہ کیا ورد جاری ہے۔
جواب:
آپ نے بالکل صحیح سوچا ہے۔ آپ اس طرح کر لیں کہ میرے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق مراقبہ کر لیا کریں۔ دل بند نہیں ہوتا بلکہ ذرا زیادہ لطیف ہو جاتا ہے۔ آپ مراقبہ جاری رکھیں اور ایک مہینہ بعد اطلاع کریں۔
سوال نمبر11:
حضرت السلام علیکم۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہونے کی وجہ سے انسان میں روحانی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ جو غیر مسلم کسی روحانی کیفیت جذب کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ان کو کیسے حاصل ہوتی ہے۔ یہ تو حق ہے کہ ﴿إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ﴾ (آل عمران: 19)۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسا دعویٰ کرنے والے غیر مسلم کی ظاہری زندگی میں انقلاب نظر آتا ہے اور رذائل دور ہوتے نظر آتے ہیں۔ کیا مسلم اور غیر مسلم دونوں کی روحانی کیفیت کا منبع ایک ہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ایسا غیر مسلم اس کیفیت سے گزرنے کے بعد اسلام کیوں نہیں قبول کرتا۔
جواب:
ماشاء اللہ اچھا سوال ہے۔ ایمان اور کفر کا تعلق دل سے ہے اور رذائل کا تعلق نفس کے ساتھ ہے۔ کافر بھی اپنے نفس کو مجاہدہ کے ساتھ قابو کر سکتا ہے جیسے جوگی وغیرہ کرتے ہیں یا یونانی کرتے تھے لیکن ان کو ایمان اس لئے نصیب نہیں ہوتا تھا کہ ان کی محنت دل پر نہیں ہوتی تھی اور وہ وقت کے پیغمبر کی بات کی طرف دھیان نہیں دیتے تھے اس لئے رذائل کی دوری انہیں ایمان کے قریب کرنے کے بجائے مزید دور کر دیتی تھی۔ ایسا ہی آج کل کے کفار کے ساتھ ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ جب ہمیں یہی کمالات بغیر اسلام کے حاصل ہو گئے ہیں تو اسلام کی کیا ضرورت ہے۔ پھر جب وہ ایسے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں جن میں وہ رذائل ہوتے ہیں جو جو ان میں نہیں ہیں تو وہ اور دور ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔
یہ واقعی ایک dilemma ہے کہ کافر اگر اپنے نفس کے اوپر محنت کرتے ہیں تو نفس کے رذائل ان سے دور ہو جائیں کیونکہ وہ تو مجاہدہ سے دور ہو جاتے ہیں لیکن ایمان نہ ہونے کی وجہ سے ان پہ الٹا اثر ہو جاتا ہے۔ یونانی لوگ بڑی محنت کرتے تھے اور محنت سے وہ چیز حاصل کر لیتے تھے لیکن وقت کے پیغمبر کی بات پہ کان نہیں دھرتے تھے، کہتے تھے بس ہم اپنی صفائی کر چکے ہیں ہمیں کسی کی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح وہ محروم رہ جاتے تھے۔
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ جو رذائل والے کافر ہوتے ہیں یعنی جن میں گناہ عام ہوتے ہیں ان کو ہدایت جلدی ہو جاتی ہے اور جو ذرا پاکیزہ قسم کے کافر ہوتے ہیں یعنی جن میں گناہ اور برائیاں وغیرہ عام نہیں ہوتیں ان کو ہدایت دیر سے ہوتی ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس آدمی میں رذائل ہوں اور پھر ختم ہو جائیں تو اسے وہ لوگ حقیر نظر آتے ہیں جن میں وہ رذائیل ہوتے ہیں، اگر ایسے لوگ مسلمان ہوں تو وہ مسلمانوں کو بھی حقیر سمجھتے ہیں تو پھر اسلام کیوں قبول کریں گے۔ یہ بہت ہی مشکل بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرما دے۔ واقعی بعض لوگوں کے لئے بہت بڑا جال بن جاتا ہے۔
سوال نمبر12:
حضرت آپ سوال و جواب کی نشست میں جو وظائف بتاتے ہیں کیا ان پر سب عمل کر سکتے ہیں؟ جیسے کسی کو آپ نے گانے کی آواز پر ”یَا ھَادِی یَا نُورُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ“ کا وظیفہ بتایا تھا۔ میں نے اس پر عمل کیا تو الحمد للہ بہت فائدہ ہوا۔ کیا اس طرح عمل کر سکتے ہیں؟
جواب:
جی ہاں۔ جو وظائف عام بیان میں عمومی طور پہ بتائے جائیں ان پہ سب عمل کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر13:
حضرت جی۔ بعض دفعہ ہمارے کسی سوال پر آپ فرماتے ہیں کہ اچھا سوال ہے۔ اسی طرح مجلس میں کچھ پوچھنے پر ہم جواب دیتے ہیں یا کسی کا کام کرنے پر جب دوسرا خوشی سے دعا دیتا ہے تو اس سے ایک خوشی سی محسوس ہوتی ہے۔ کیا یہ بھی عجب ہے؟
جواب:
نہیں۔ جو کام ریا کے ارادے کے بغیر ہو وہ ریا نہیں ہے۔ اسی طرح جس میں عجب کا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا ارادہ نہ ہو وہ عجب نہیں ہے۔ کیونکہ عجب کا مطلب یہ ہے کہ اس کام کو اپنا کمال سمجھ رہا ہے، اگر اس کو اللہ پاک کا فضل سمجھتا ہے تو پھر عجب نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس کو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی سمجھا کریں۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا:
”اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَم وَ لَا فَخْر“ (صحیح ابن ماجہ: 3496)
ترجمہ: ”میں اولاد آدم کا سردار ہوں مگر اس پر فخر نہیں کرتا“۔
سوال نمبر14:
حضرت جی۔ اگر اللہ پاک کی نعمتیں بہت بڑھ جائیں تو شکر کس طرح ادا کیا جائے۔ کیا دل میں شکر کی کیفیت کو پیدا کرنا چاہیے یا کسی جانی یا مالی عبادت کے ذریعے شکر ادا کرنا چاہیے؟
جواب:
اگر الله جل شانہ آپ کو کچھ نعمتیں دے تو ان نعمتوں کا صحیح استعمال اس کا شکر اول اور بنیادی شکر ہے۔ اگر کوئی یہ نہیں کرتا تو بے شک بہت زیادہ الحمد للہ کہیں وہ اصل شکر نہیں ہو گا۔ مثلاً کوئی آپ کو بہت اچھی گاڑی دے اور آپ وہ گاڑی اس کی مرضی کے خلاف استعمال کر لیں۔ جیسے وہ نہیں چاہتا ویسے استعمال کر لیں اور زبان سے کہتے جائیں کہ آپ کی گاڑی بڑی اچھی ہے آپ کا بہت شکریہ۔ تو ایسا کرنا درست نہیں ہوگا، ایک غلط کام شمار ہوگا۔ اسی طرح اللہ کی نعمت کا اصل شکر یہ ہے کہ اسے اللہ کے حکم کے مطابق صحیح طور پر استعمال کیا جائے۔ دوسرے درجے میں یہ ہے کہ اس پر زبان سے بھی شکر ادا کیا جائے۔ تیسری بات یہ ہے کہ دل میں بھی شکر کی کیفیت پیدا کرنا چاہیے کہ اللہ پاک کی بڑی نعمت ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہے مجھے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے اور الله جل شانہ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ شکر میں یہ تینوں چیزیں آ جاتی ہیں۔
اس نعمت کا صحیح استعمال کرنا۔ زبان اور دل سے شکر ادا کرنا۔ اور اپنے آپ کو اس کا اہل نہ سمجھنا بلکہ محض اللہ پاک کا فضل سمجھنا۔ جب یہ 3 چیزیں اکٹھی ہو جائیں گی تو ان شاء اللہ العزیز مطلوبہ شکر ادا ہو جائے گا۔
سوال نمبر15:
السلام علیکم میرے پیارے محترم مرشد دامت برکاتہم امید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں۔ حضرت جی دامت برکاتہم ذکر و نماز میں concentration کیسے بڑھائیں؟
جواب:
دیکھیں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو آپ کے ذہن میں خود بخود آئیں گی۔ جس ماحول میں آپ رہتے ہیں اس کے خیالات آئیں گے۔ ان سے بچ کر توجہ بڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ جو بھی خیال آتا ہے اس کی پروا نہ کریں۔ غیر ضروری چیزوں کو ختم کر لیں اور ضروری چیزوں کو ضرورت کے درجہ میں رہنے دیں۔ اس کے بعد جو خیالات آئیں ان کی پروا نہ کریں۔ اپنے target پہ نظر رکھیں اس کو achieve کرنے کی کوشش کریں۔
سوال نمبر16:
آج کل شادی بیاہ کی تقاریب میں مروجہ خرافات سے بچنے اور ناراضگی کے ڈر سے بسا اوقات شمولیت نہ کر سکنے کے لئے بہانہ تراشنا پڑتا ہے کیا یہ جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے؟ اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اچھا سوال ہے اور عملی سوال ہے۔ ایسے مواقع پہ ایک چیز استعمال ہو سکتی ہے اسے توریہ کہتے ہیں۔ توریہ یہ ہے کہ ایک چیز کے دو یا زیادہ معنی ہوں آپ ایک معنی کو ذہن میں رکھ کر بات کریں سامنے والا اس سے دوسرا معنی سمجھ رہا ہو۔ لیکن اس کی اجازت صرف جائز مقاصد میں ہے۔
اس کی مثال اس واقعہ سے دی جا سکتی ہے۔ جنگ آزادی کے دوران حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے وہ 3 دن تک چھپے رہے پھر باہر آ گئے۔ لوگوں نے کہا حضرت آپ کے warrant جاری ہیں، آپ کیوں باہر آ گئے۔ فرمایا میں غار ثور کی سنت زندہ کر رہا تھا۔ اس کے بعد مسجد میں بیٹھے تھے، اس مسجد کے دو دروازے تھے۔ ایک طرف سے کچھ لوگ آئے اور حضرت سے ہی پوچھا کہ مولانا قاسم کہاں ہیں؟ حضرت دو قدم پیچھے ہو گئے اور اپنی جگہ کی طرف اشارہ کر کے کہا ابھی تو یہاں تھے۔ وہ سمجھے کہ شاید پہلے یہاں ہو گا اور اب چلا گیا ہے۔ وہ یہ سوچ کر واپس چلے گئے، اور حضرت دوسرے دروازے سے نکل گئے۔ یہ توریہ ہے۔
اس کو آپ یوں استعمال کر سکتے ہیں کہ مثال کے طور پر آپ کے پاس کوئی آیا ہے اور آپ کے کام کا حرج ہو رہا ہے تو آپ ان سے کہیں بھئی میرا ایک کام ہے میں جا رہا ہوں، آپ ان سے اجازت لے کے چلے جائیں تو وہ بھی چلے جائیں گے ان کے جانے کے بعد آپ واپس آ جائیں۔ تقاضا تو یہی تھا کہ آپ نے انہیں بھیج کر اپنا کام کرنا تھا، ان سے اپنے آپ کو بچانا تھا۔ آپ کی بات جھوٹ بھی نہیں ہوئی اور وہ بھی چلے گئے۔ اس طرح اگر کوئی توریہ سے کام لے سکے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس میں آپ نے ان کا کوئی نقصان نہیں کیا صرف اپنے آپ کو نقصان سے بچا لیا ہے۔ یہی توریہ اس وقت حرام ہے جب آپ کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے کر رہے ہوں یا ویسے ہی خواہ مخواہ گپ لگانے کے لئے کر رہے ہوں۔ لیکن اپنے آپ کو حرج سے بچانے کے لئے اس کی گنجائش ہے۔
مثلاً ایک آدمی آپ سے قرض مانگ رہا ہے اور اس کے بارے میں پتا ہے کہ یہ قرض واپس نہیں کرتا۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قرض ادا کرنے کے لئے قرض نہیں لیتے بلکہ ہضم کرنے کے لئے لیتے ہیں۔ تو آپ ان سے کہہ دیں بھئی گنجائش نہیں ہے۔ اور یہ بات جھوٹ بھی نہیں ہو گی کیونکہ ایسے آدمی کو قرض دینے کی گنجائش ہوتی بھی نہیں ہے۔ اپنے آپ کو اس طرح کے شر سے بچانے کے لئے اس قسم کا توریہ کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرما دے۔
سوال نمبر18:
ہم جب ذکر کرتے ہیں تو بعض اوقات مقررہ تعداد سے زیادہ ذکر ہو جاتا ہے، اس سے کوئی مسئلہ تو نہیں ہوتا؟
جواب:
آپ تعداد کے مطابق ذکر کیا کریں، دھیان رکھیں اس میں غفلت نہ کریں۔ کبھی کبھار اگر اضافہ ہو بھی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کو عادت نہیں بنانا چاہیے کیونکہ یہ ایک دوائی ہے اور دوائی میں جیسے کمی نہیں کرنی چاہیے ویسے اضافہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔
سوال نمبر19:
حضرت جی کبھی اس طرح ہوتا ہے کہ میں مسجد میں نماز سے پانچ دس منٹ پہلے چلا جاتا ہوں ایسے موقع پر وہاں کون سا ذکر کرنا چاہیے؟
جواب:
ہمارے سلسلہ کے معمولات بھی کر سکتے ہیں، آپ کے اپنے معمولات بھی کئے جا سکتے۔ کیونکہ یہ معمولات دنیا کے لئے تو ہیں ہی نہیں یہ دین کی اصلاح کے لئے ہیں، یہ کئے جا سکتے ہیں۔ جو وظیفہ دنیا کے لئے کرنا ہوتا ہے وہ مسجد میں نہیں کرنا چاہیے۔
حضرت تھانوی رحمۃ الله عليہ کو کسی نے لکھا کہ حضرت میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں مسجد میں پاخانہ کر رہا ہوں۔ حضرت نے اس سے پوچھا کہیں دنیا کے لئے کوئی وظیفہ تو نہیں پڑھ رہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ حضرت نے کہا: بس یہ نہ کیا کریں۔
لہٰذا آپ بھی اس قسم کا کوئی کام نہ کریں لیکن اپنے معمولات کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم اپنے متعلقین کو بتاتے ہیں کہ صبح سے لے کر دوپہر تک جو وقت ملے اس میں ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ“ پڑھا کریں۔ ظہر سے مغرب تک جو وقت مل جائے اس میں درود شریف پڑھیں اور مغرب کے بعد استغفار پڑھیں۔ آپ جس نماز میں بھی جائیں گے ان تین اوقات میں سے کوئی نہ کوئی وقت ہوگا، اس کے حساب سے آپ ورد کر لیا کریں اور قرآن پاک کی تلاوت بھی کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر20:
حضرت جی۔ یہ کس طرح پتا چلتا ہے کہ روح دنیا کی گندگیوں سے صاف ہو رہی ہے۔
جواب:
اس کے اثرات سے اندازہ ہو سکتا ہے۔ دنیا کی طرف آپ کا رجحان بدل جائے دین کی طرف زیادہ رجحان ہو جائے اور آپ ہر وقت اللہ پاک کی رضا کے متلاشی رہیں۔ ان علامات سے کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جاتا ہے کہ روح پاک ہو رہی ہے لیکن صحیح بات وہی ہے جو شیخ پر کھلے اور شیخ بتائے۔
سوال نمبر21:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت والا سوال یہ عرض ہے کہ شیخ کا جو فیض جاری ہوتا ہے کیا وہ مستقل طور پر جاری رہتا ہے؟ لیکن مرید کو کبھی محسوس ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔ اس کا محسوس ہونا اس کے گناہوں اور اس کے اخلاص پر مبنی ہے۔ کیا یہ بات درست ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
اصل فیض تو اللہ پاک کی طرف سے ہی آتا ہے اور الله جل شانہ کے ساتھ آپ جیسا گمان رکھیں گے اُدھر سے ویسا ہی معاملہ آپ کے ساتھ ہوگا۔ کیونکہ اللہ پاک فرماتے ہیں ”میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔“ پس اگر آپ کا گمان یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اوپر فضل فرما رہے ہیں اور شیخ کے ذریعہ سے مجھے فیض پہنچا رہے ہیں تو وہ مستقل رہے گا۔ اس میں آپ کی جتنی زیادہ توجہ ہو گی اتنا زیادہ فیض ملے گا۔
البتہ محسوس ہونا یا محسوس نہ ہونا اس کا انحصار مختلف حالات پر ہوتا ہے۔ بعض دفعہ گناہوں کی وجہ سے محسوس نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ اللہ کی طرف استتار کا معاملہ ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان ہر وقت کا احساس برداشت نہیں کر سکتا اس لئے اللہ پاک کی طرف سے حالات ایسے بنائے جاتے ہیں کہ وہ محسوس نہ کر سکے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایک بڑے محبوب مرید تھے۔ تو انہوں نے اپنے ایک پیر بھائی سے پوچھا کہ اپنے شیخ پہ محبت کا تعویذ کیا جا سکتا ہے۔ اس نے کہا: کیا جا سکتا ہے لیکن پھر برداشت نہیں کر سکو گے۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ اس چیز کو جانتا ہے کہ کون برداشت کر سکتا ہے کون نہیں کر سکتا۔ اسی حساب سے اللہ پاک کبھی محسوس کروا دیتے ہیں کبھی نہیں کرواتے۔ جتنا اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے رکھا ہے اتنا آپ کو ضرور پہنچے گا۔ اللہ پاک جس حالت میں بھی رکھیں اس میں اس کی اپنی حکمتیں ہوتی ہیں، اللہ پاک کی حکمتوں پہ راضی رہیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن