اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر 01:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت! سستی کیا ہوتی ہے؟ ایک تو یہ بات ہے کہ ہم کسی کام کو ٹال دیتے ہیں کہ بعد میں کر لوں گا یا کام نہ کرنے کا کوئی بہانہ بناتے ہیں یا اس کام کو priority نہیں دیتے، اس بنیاد پر کام رہ جاتا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ ہم کام تو کرنا چاہتے ہیں لیکن کام کی رفتار سست ہوتی ہے۔ جیسے کوئی عورت بہت پھرتی سے کام کر لیتی ہے۔ مہمان آئیں تو سارا انتظام جھٹ سے کر لیتی ہے۔ جبکہ دوسری عورت دن کے آغاز سے کام کر رہی ہے لیکن اس کا output صرف 50 فیصد ہے۔ اس کا ہاتھ جلدی نہیں چلتا۔ کوشش بھی کرتی ہے مگر ناکام ہو جاتی ہے۔ اگر جلدی کرنے کی کوشش کرے تو کام خراب ہو جاتا ہے۔ اس سب سے وہ بہت تھک بھی جاتی ہے اور دوسروں کے حقوق بھی ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر پاتی۔ حضرت صاحب رہنمائی فرمائیں کہ یہ کیا معاملہ ہے اور اس کا علاج کیا ہے۔
جواب:
یہ بڑا technical سوال ہے۔ بُری سستی وہ ہے جو اختیاری ہو،جس میں انسان اپنا اختیار استعمال کرتا ہو۔ جبکہ اگر کسی کو سستی کا مسئلہ پیش آتا ہو لیکن وہ غیر اختیاری طور پہ ہو مثلاً انسان کا ہاتھ ہی نہ چلے یا یہ سستی کسی بیماری کی وجہ سے ہوتو اس کو سستی نہیں کہیں گے بلکہ وہ مجاہدہ بن جاتا ہے، اس میں اجر بھی مل سکتا ہے۔
لہٰذا اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر یعنی priority wise دین کے معاملے میں سستی کرے۔اس کے دل میں دنیا کی priority زیادہ ہو، آخرت کی کم ہو، جس کی وجہ سے دنیا کو preference دیتا ہو اور آخرت کی بات کو preference نہ دے تو ایسی سستی ایک مذموم چیز ہے۔ اس کو ختم کرنا چاہیے۔ لیکن اگر وہ شخص ایسا ہے کہ دین کے معاملے میں سستی اس لئے نہیں کرتا کہ اس کے دل میں دین کی اہمیت کم ہے اور دنیا کی زیادہ، بلکہ اس کی سستی کی کوئی اور وجہ ہے، مثلاًوہ دین و دنیا دونوں کے معاملے میں سست طبیعت کا آدمی ہے۔ دنیا میں بھی ایسا ہے آخرت میں بھی ایسا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے ساتھ کوئی technical مسئلہ ہے۔ کوئی بیماری ہو سکتی ہے کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں اس کی نیت پہ سوال نہیں اٹھایا جائے گاہاں اس کے عمل کو بہتر کرنے کے ذرائع اختیار کیے جائیں۔
باقی یہ ہے کہ واقعتاً ہر شخص کی اپنی speed ہوتی ہے۔ ہر شخص کی اپنی efficiency ہوتی ہے۔ مثلاً نوجوان اور بوڑھے کی مثال لے لیں، نوجوان کی صلاحیت اور ہوتی ہے بوڑھے کی صلاحیت اور ہوتی ہے، طاقتور کی صلاحیت اور ہوتی ہے کمزور کی صلاحیت اور ہوتی ہے۔
اگر دین کے معاملے کی بات ہے تو الله جل شانہ تو سب کچھ جانتا ہے۔ اس کو علم ہوتا ہے کہ کون سا کام کون کیسے کر سکتا تھا اور کیسے کر رہا ہے۔ اس میں جو فرق ہے وہ اللہ تعالیٰ کو پتا ہوتا ہے۔ لہٰذا معاملہ چونکہ اللہ کے ساتھ ہے اس لئے ہم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ انسان خود اپنا جج بنے اور سوچے کہ الله جل شانہ ہر چیز جانتا ہے اسے علم ہے کہ میرے دل میں کیا ہے، دین کے معاملات میں سستی کی وجہ کیا ہے۔ اگر میں واقعی دین کے معاملے میں اس لیے سستی کر رہا ہوں کہ میرے دل میں اس کی اہمیت نہیں ہے تو اللہ پاک کی طرف سے پکڑ کا خطرہ ہے اور اگر دل میں اہمیت ہے لیکن کوئی اور عذر ہے تو اللہ پاک نیت کا حال جانتے ہیں، اس پر ان کی طرف سے کوئی پکڑ نہیں ہوگی۔
جہاں تک دنیا کی بات ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ دنیا والے اپنے لئے اور قانون بناتے ہیں، دوسرے کے لئے دوسرا قانون بناتے ہیں۔ انہیں اپنی پریشانیاں نظر آتی ہیں دوسرے کی پریشانیاں نظر نہیں آتیں ،اپنی رکاوٹیں نظر آتی ہیں دوسروں کی رکاوٹیں نظر نہیں آتیں۔ لہٰذا دنیا میں تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ البتہ ہم لوگ اس معاملے میں یہ رویہ اختیار کر سکتے ہیں کہ خود دیانتداری کے ساتھ کام کریں اور دوسروں کے ساتھ ذرا نرمی کا معاملہ اختیار کریں۔ آج کل الٹی ترتیب ہے۔ اپنے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا جاتا ہے اور دوسروں کے ساتھ سختی کا معاملہ کیا جاتا ہے نتیجتاً لڑائی کا ماحول بن جاتا ہے۔
سوال نمبر 02:
السلام علیکم حضرت
How can a سالک start اصلاحی program for his children at home with a focus to creative awareness and courage striking a balance between دل، عقل and نفس in a gradual manner?
جواب:
اس مسئلہ میں یہ عرض کروں گا کہ کل، نفس اور عقل کی اصلاح کا کام مشائخ کے ذمے ہے۔ یہ ان کا کام ہے اور وہ دل اور نفس کی اصلاح کے لئے ذکر و اذکار اور مجاہدات کرواتے ہیں۔ جبکہ بچوں کو آپ ذکر نہیں دے سکتے اور ان سے مجاہدہ بھی نہیں لے سکتے۔ بچوں کی اصلاح اس طرح نہیں ہوتی جس طرح مشائخ حضرات سالکین کی اصلاح کرتے ہیں۔ بچوں کی اصلاح کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ آپ نے ان کے سامنے عملی نمونہ بننا ہوتا ہے۔ اس طرح ان کی اصلاح از خود ہو جاتی ہے۔ یعنی آپ جھوٹ سے پرہیز کریں گے تو بچے بھی جھوٹ سے پرہیز کریں گے۔ آپ میاں بیوی آپس میں نہیں لڑیں گے تو ان کے اوپر برا اثر نہیں پڑے گا۔ آپ اپنا کام صحیح طریقے سے کریں گے تو وہ بھی یہی سیکھیں گے۔لہٰذا سب سے پہلے بچوں کے لئے نمونہ خود بننا پڑتا ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر ان کے سامنے اچھے لوگوں کی باتیں لانا، اچھے لوگوں کے ساتھ ان کو ملانا، اچھے لوگوں کی کتابیں ان کو دینا جو آسان ہوں، اپنے گھروں کے اندر اچھی باتوں کو فروغ دینا ،فضول باتوں سے اپنے آپ کو بچانا اور برائی کی جڑیں جیسے internet اور television سے اپنے بچوں کو دور رکھنا۔ یہ بچوں کی اصلاح کے ذرائع ہیں۔ عقل اور نفس کی اصلاح والا کام مشائخ کا کام ہے۔اسے ان تک رہنے دیں۔ بچوں کی اصلاح کے لئے طریقہ کار اور ہوتا ہے۔
سوال نمبر3:
بچوں میں ذکر کی عادت پیدا کرنے کے لئے ایسا کیا طریقہ اختیار کیا جائے کہ انہیں بچپن ہی سے ذکر کے ساتھ مناسبت ہو جائے؟
جواب:
اس معاملے میں کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہوتا، یہ چیزیں place to place، man to man ، person to person ۔ vary کرتی ہیں۔ اس کا بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ ان کو اللہ والوں کے ساتھ ملایا جائے اور ان سے ذکر دلوایا جائے۔ اس سے ایک تو یہ فائدہ ہو گا کہ ان کو ذکر کی توفیق ہو جائے گی کیونکہ بزرگوں کے دیئے ہوئے میں ضرور توفیق ہو تی ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ جو ذکر دیں گے صحیح طریقے سے دے دیں گے ۔ کیونکہ ایک عام آدمی کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ کون سے بچے کے لئے کون سا ذکر زیادہ مناسب ہے۔
اس کے علاوہ آپ بچے کو ذکر کی عادت ڈالنے کے لئے یہ بھی کر سکتے ہیں کہ آپ جو اسے "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہ" سکھاتے ہیں، درود شریف سکھاتے ہیں، کلمے سکھاتے ہیں اور دعائیں سکھاتے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ امید ہے اس طرح ان کو ذکر سے کافی حد تک مناسبت ہو جائے گی۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! آپ کی صحت اور عمر میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے۔ حضرت اقدس آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ میرا مراقبہ احدیت لطیفۂ روح پر 40 دن بلا ناغہ مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے بعد کچھ سفری ترتیب کی وجہ سے ایک آدھ دن ذکر تو ہوا لیکن مراقبہ کرتے کرتے سو گیا تھا۔5، 5 منٹ ہر لطیفہ پر مراقبہ چل رہا ہے اور 12 تسبیح کا ذکر بھی ہو رہا ہے۔ حضرت جی آگے میرے لئے کیا حکم ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں ۔
جواب:
آپ کی بارہ تسبیح جاری ہیں۔ یہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ لیں کہ 5 منٹ کا ہر لطیفہ پر مراقبہ نہیں ہوتا۔ پہلے ہم اس کو مراقبہ اس لئے کہتے تھے کہ لوگ ان چیزوں میں فرق نہیں کر سکتے تھے لیکن اب چونکہ چیزیں سامنے آ گئی ہیں تو میرے خیال میں اس کو واضح کرنا چاہیے۔دراصل یہ 3 دور ہوتے ہیں۔ پہلا دور لطائف کو ذاکر بنانا یعنی لطائف پر ذکر کو چلانا۔ اس دور میں پانچوں لطائف پر ذکر چلایا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا دور مراقبہ احدیت کا ہوتا ہے ۔جس میں لطائف پر فیض کا القا محسوس کرنا ہوتا ہے۔ پھر مشارب ہوتے ہیں۔ مشارب سے مراد یہ ہے کہ ہر لطیفہ کا جو اپنا اپنا مشرب ہے اس کے ساتھ اس کو بیدار کیا جائے۔ مثلاً لطیفۂ قلب کا مشرب تجلیات افعالیہ کے اجراء کو محسوس کرنا ہے۔ اس کے بعد لطیفۂ روح پر صفات ثبوتیہ کے فیض کو محسوس کرنا ہے۔ پھر شیون ذاتیہ کا فیض لطیفۂ روح پر محسوس کرناہوتا ہے۔ اس کے بعد لطیفۂ خفی پر صفات سلبیہ کا اور اس کے بعد لطیفۂ اخفیٰ پر شان جامع کا فیض محسوس کرنا ہوتا ہے۔ ابھی چونکہ آپ کا لطیفۂ روح پر مراقبہ احدیت چل رہا ہے، اور اس کے چالیس دن مکمل ہو گئے ہیں، اس لئے اب اس کو لطیفۂ خفی پر لے جائیں۔باقی چیزیں اپنی اپنی جگہ پر رہیں گی۔
سوال نمبر5:
حضرت جی! الحمد للہ! اللہ پاک نے ہمیں مسلمان پیدا کیا، نبی کریم ﷺ کی امت میں پیدا کیا اور میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دے دیا۔ اللہ پاک کے اس احسان کا کیسے شکر ادا کیا جائے کہ یہ نعمتیں چھن نہ جائیں؟
جواب:
ماشاء اللہ! شکر کا جو درجہ ضروری ہے وہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نصیب فرمایا ہے۔ وہ درجہ یہی ہے کہ انسان شکر کا ارادہ کرے اور اپنے آپ کو شکر کرنے سے نا اہل سمجھے کہ میں شکر نہیں کر سکتا۔ یہ بھی اصل میں شکر کی ایک صورت ہے۔ شکر کے مختلف الوان ہوتے ہیں۔ بعض شکر کالون ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی کی بہت خدمت کر رہا ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کے ساتھ محبت زیادہ ہوتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں کر رہا۔ یہ غایتِ محبت کی علامت ہوتی ہے۔ جو آدمی شکر کر رہا ہو لیکن یہ محسوس کرے کہ میں شکر نہیں کر پا رہا تو یہ بھی شکر کی ایک صورت ہے۔ اپنے پاس موجود نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھنا ، اللہ جل شانہ کی بندگی میں اپنے آپ کو کھپانا، یہی شکر کا بہترین طریقہ ہے۔ جو نعمت جس چیز کے لئے دی گئی ہے اس کے لئے استعمال کرنا بھی شکر ہوتا ہے۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! پچھلے 10 دن 3 سنتوں پر عمل کیا ہے۔ الحمد اللہ 80 فیصد استقامت ہو گئی ہے۔ آج سے درج ذیل 4 سنتوں پر عمل شروع کیا ہے۔ دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھنا۔ اکڑوں بیٹھ کر کھانا کھانا۔ کسی سے کوئی چیز لینا دینا تو دائی ہاتھ سے لینا اور دینا۔ فرض نماز کے علاوہ باقی نماز گھر پڑھنا۔
جواب:
ماشاء اللہ! یہ بہت اچھی ترتیب ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر استقامت نصیب فرمائے۔ یہی ہمارا طریقہ ہے کہ حتی الامکان سنتوں کو اپنی زندگی میں شامل کیاجائے۔ سلوک کا معنی یہی ہے کہ لوگ بتدریج سنتوں پہ عمل کرنا شروع کر لیں اور اس میں پیش آنے والے مجاہدے کو برداشت کریں اس سے بڑھ کر اور کوئی مجاہدہ نہیں ہے کہ سنتوں پر عمل کرنے میں جو مجاہدہ کرنا پڑے اسے برداشت کیا جائے۔ بعض سنتوں پر عمل کرنے میں اچھا خاصا مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ صحیح معنوں میں مجاہدہ یہی ہے۔ دوسرا مجاہدہ اس وقت کروایا جاتا ہے جب کوئی یہ مجاہدہ نہ کر سکے جس کی ضرور سنتوں پر چلنے کے لئے پڑتی ہے۔ جب یہ مجاہدہ آدمی کی range سے باہر ہو تو پھر مشق کے طور پر دوسرے مجاہدات کرواتے ہیں۔ جیسے سیڑھی ذرا اوپر ہو تو اس تک پہنچنے کے لئے نیچے کوئی پتھر یا اینٹ وغیرہ رکھی جاتی ہے، تاکہ انسان وہاں تک پہنچ سکے۔اختیاری مجاہدہ کی مثال بھی ایسی ہی ہے کہ جب سنتوں والا مجاہدہ کسی کی استطاعت سے باہر ہو تو اس کی طاقت حاصل کرنے کے لئے کوئی اور اختیاری مجاہدہ دیا جاتا ہے تاکہ انسان اس اصل مجاہدہ تک پہنچ جائے۔اختیاری مجاہدہ اس اصل مجاہدے تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے، مقصود نہیں ہوتا۔
مثلاً غیر محرموں کو دیکھنا حرام ہے اور حرام سے بچنا فرض ہے۔ لیکن اگر کوئی اس پر عمل نہیں کر سکتا تو پھر اس کے لئے ہم ایک اختیاری مجاہدہ بتاتے ہیں۔ اگر کوئی پہلے اس حکم پر عمل کر رہا ہے، یعنی غیر محرموں کو نہیں دیکھتا تو اسے اس اختیاری مجاہدہ کی ضرورت ہی نہیں۔ اس طرح اگر کوئی سنتوں پر عمل کر رہا ہے تو اس کو کسی اختیاری مجاہدہ کی ضرورت نہیں۔ البتہ جہاں مشکل پیش آئے وہاں ہم اس کو کوئی اختیاری مجاہدہ بتائیں گے تاکہ اس مشکل سے نکل سکے۔
سوال نمبر7:
حضرت ہم سنتوں پر عمل کرنے میں کیا ترتیب اختیار کریں۔ کیا یہ ترتیب درست ہو گی کہ کوئی تین سنتیں منتخب کر لیں اور ان پر عمل کرنے کی مشق کریں۔ جب ان پر عمل حاصل ہو جائے پھر تین سنتیں اور منتخب کر لیں۔ اس طرح بتدریج آگے بڑھتے رہیں؟
جواب:
اس سلسلے میں ہمارے نزدیک یہ ترتیب بہتر ہے کہ اسوۂ رسول اکرم ﷺ کا مطالعہ کریں۔ اس میں تمام سنتوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ ان میں سے جن سنتوں پر آپ فوری طور پر عمل کر سکتے ہیں، جن کے بارے میں آپ کو لگتا ہے کہ ان پر فوری عمل کرنے میں کوئی تکلف نہیں ہے، کوئی پریشانی اور رکاوٹ نہیں ہے۔ ان سنتوں پہ عمل شروع کر لیں۔ اس کی برکت سے مزید سنتوں پہ عمل کرنا آسان ہو جائے گا۔ اس کے بعد ان سنتوں پہ عمل کرلیں۔ ان کی برکت سے مزید سنتوں پہ عمل کرنا آسان ہو جائے گا، پھران سنتوں پہ عمل کر لیں۔ ممکن ہے کہ اس طرح ہوتے ہوتے ایک دن ساری سنتوں پہ عمل نصیب ہو جائے۔ نیت تو یہی کرنی چاہیے کہ سب سنتوں پہ عمل کریں گے۔ جتنی سنتوں پہ عمل نصیب ہو جائے ان پہ شکر کرنا چاہیے۔ ہمارے سلوک کا اصل طریقہ یہی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی فرمایا ہے کہ سنتوں پہ چلنے میں جو مشقت ہوتی ہے وہی بطور مجاہدہ کافی ہے۔
سوال نمبر8:
حضرت جی! اس بارے میں رہنمائی فرما دیں جو آسان سنتیں ہوں ان کو کتنے دن تک لگا تار کر نے کے بعد مزید سنتوں کو اختیار کیا جائے؟
جواب:
ویسے تو یہ بات ہر شخص کی صلاحیت اور ہمت کے لحاظ سے مختلف ہے، لیکن ہم نے اس کے لئے ایک ہفتہ کی مدت کو بطور معیار رکھا ہوا ہے کہ کم سے کم ایک ہفتہ سنتوں پر عمل کرنے کے بعد تین چار سنتیں مزید منتخب کریں اور انہیں بھی اپنے عمل میں شامل کرنے کی مشق کا آغاز کریں۔ اس وجہ سے خواتین مجھے ہفتہ وار report دیتی ہیں کہ ان سنتوں پہ عمل ہو گیا ہے۔ ماشاء اللہ بعض خواتین بہت آگے چلی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت نوازا ہے۔ ladies کے گروپ میں عمل زیادہ ہے، knowledge کم ہے جبکہ پیام سحر میں تو knowledge زیادہ ہے اور عمل کم ہے۔بہر حال اس میں ہم نے ہفتہ وار ترتیب رکھی ہے، کم سے کم ایک ہفتہ سنتوں پر عمل کرنے کے بعد آپ آگے مزید سنتیں عمل میں لانے کا آغاز کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر9:
لاہور کے ایک ساتھی ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اسوۂ رسول اکرم ﷺ کی تعلیم دیتے ہیں۔ پھر اس میں سے ایک آسان سنت بتا دیتے ہیں کہ آپ پورے ہفتے اس سنت پہ عمل کریں۔ اس دفعہ انہوں نے جو سنتیں بتائی تھیں ان میں سے ایک سنت یہ بھی تھی کہ گھر میں مسکراتے ہوئے داخل ہوں۔ یہ ایک ایسی سنت ہے جو اب تقریباً ترک کی جا چکی ہے۔ کیا ایسا طریقہ بھی مناسب ہے؟
جواب:
جی ہاں بالکل! یہ بھی کافی مناسب طریقہ ہے، یہ طریقہ یہاں بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔
سوال نمبر10:
حضرت اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ سنت کے عمل میں آنے سے کیا مراد ہے۔ مثلاً، اگر ہم نے بازار کی دعا کر لی اور جب بازار میں جانا ہوا ، ہم نے وہ دعا پڑھ لی۔ تو کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ وہ دعا عمل میں آ گئی؟
جواب:
دیکھیں کسی سنت کا عمل میں آ جانا۔ یہ تب ہوتا ہے جب وہ آپ کی ایسی عادت بن جائے کہ اس پہ عمل کرنے کے لئے آپ کو علیحدہ سوچنا نہ پڑے بلکہ automatically ہو جائے۔ جیسے ہماری سلام کی عادت بن چکی ہے۔ اور اس حد تک یہ چیز عادت میں آ چکی ہے کہ بعض دفعہ جن کو سلام نہیں کرنا ہوتا، ان کو بھی کر لیتے ہیں، پتا نہیں چلتا۔ کوئی سنت جب اس طرح عمل میں آ جائے کہ وہ آپ کی ایسی عادت بن جائے کہ موقع پر از خود ہونے لگ جائے، تو سمجھیں کہ وہ عمل میں آ چکی ہے، مثلاً پانی پینے کا وقت آئے تو آپ کا ارادہ ہو یا نہ ہو، آپ از خود بیٹھ جائیں، بسم اللہ پڑھیں اور تین سانس میں پئیں۔ اگر اس طرح کوئی سنت آپ کی عادت بن چکی ہے تو سمجھیں وہ عمل میں آ چکی ہے۔ اس معنیٰ میں ہمیں ”سنتوں کو عمل میں لانا “ ہے۔
سوال نمبر11:
حضرت یہ سنت کی implementation کے حوالے سے ایک سوال ہے کہ مثلاً بیٹھ کے پینا سنت ہے۔ ایک دفعہ کسی کے گھر کے بالکل دروازے کے اوپر 2، 4 ساتھی کھڑے بات کر رہے تھے۔ انہوں نے بوتلیں منگوائیں اور وہ پینے کے لئے وہیں گلی کے کنارے پہ بیٹھ گئے۔ کیا سنت پر عمل کرنے کے لئے ایسا کرنا مناسب ہے؟
جواب:
اس میں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی جگہوں پر اس طرح کھانے پینے کا معمول نہیں بنانا چاہیے۔ راستے میں کھڑے کھڑے پینے کی کیا ضرورت ہے! البتہ کہیں مجبوری ہو اور بیٹھنے کی جگہ نہ ہو تو مجبوراً و اضطراراً کھڑے ہو کر بھی پیا جا سکتا ہے۔ جیسے بعض حالات میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز ہے۔ اسی طرح اگر مجبوری ہو تو کھڑے ہو کر پانی پینا بھی جائز ہو جائے گا۔ لیکن بہرحال اس سے avoid اس طرح کرنا چاہیے کہ ایسی جگہوں پر کھانا پینا نہیں چاہیے جہاں پر بیٹھنے کی جگہ نہ ہو۔
سوال نمبر12:
حضرت! ایک ہے سنت ادا کرنا، ایک ہے اس کو خوبصورت انداز میں ادا کرنا۔ مثلاً عمامہ پہننا سنت ہے۔ اب کوئی آدمی گندا سا عمامہ الٹا سیدھا پہنے کہ میں سنت ادا کر رہا ہوں، کیا اس طرح کرنے سے سنت پر عمل ہو جائے گا؟
جواب:
اس میں کوئی شک نہیں کہ سنت پر خوبصورت انداز میں عمل کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی مکمل طور پہ خیال رکھ کے ادا نہیں کرتا اور چھوڑتا بھی نہیں، کم سے کم عمل تو کرتا ہے، ایسا آدمی اس سنت پر عمل نہ کرنے والے سے تو بہتر ہے۔ لیکن اِس سے بھی بہتر وہ آدمی ہے جو خوبصورت طریقے سے کر رہا ہے۔ جیسے اگر کوئی بندہ سر پہ ٹوپی پہنتا ہے، اب میلی ٹوپی پہننا ٹھیک تو نہیں ہے لیکن ننگے سر سے تو بہتر ہی ہے۔
سوال نمبر13:
حضرت! شیخ کی نسبت کیسے حاصل ہوتی ہے۔ کیا سلوک طے کرنے سے پہلے حاصل ہوتی ہے یا سلوک طے کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے؟ اللہ پاک آپ سے راضی ہوں۔
جواب:
میرا خیال ہے کہ آپ نے نسبت کا صحیح مفہوم نہیں سمجھا ہے۔ آپ پہلے زبدۃ التصوف پڑھ لیں۔ اب فہم التصوف میں بھی یہ مضمون آ گیا ہے اس کا مطالعہ کر لیں تو پھر آپ کو پتا چل جائے گا کہ نسبت کیا ہوتی ہے ۔
سوال نمبر14:
السلام علیکم! حضرت آج کل بڑے اچھے سالکین میں بھی یہ مرض کثرت سے پایا جا رہا ہے کہ شیخ کی اجازت و خلافت کی تمنا رکھتے ہیں۔ صوفیا تو اس کو طریقت میں شرک اور حب جاہ فرماتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو سالک بظاہر تواضع اور عاجزی والا لگتا ہے اسے بھی اسی کی تمنا ہو رہی ہے۔ اس کا کیا مؤثر علاج ہوسکتا ہے کہ سلوک سے مقصود محض اصلاح باطن ہو؟
جواب:
یہ سوال کر کے آپ نے دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا ہے۔ آج کل حب جاہ کا مرض عام ہے۔ خلافت کی طلب حب جاہ کے امراض میں سے بہت مہلک بیماری ہے جس میں آج کل تقریباً ہر سالک مبتلا ہے۔ ہر سالک کو یہ طلب ہوتی ہے کہ خلافت مل جائے۔ اصل میں یہ بیماری دو باتوں کے نہ جاننے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب تک میں خلیفہ نہیں بنوں گا تب تک نسبت حاصل نہیں ہوسکتی۔ گویا نسبت کے حصول کے لئے خلافت کو لازم سمجھ لیا گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنی تخلیق کا اصل مقصد بھولے بیٹھے ہیں۔ ہماری تخلیق کا مقصد ﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56) کے مطابق اللہ کی معرفت و عبادت ہے۔ تو ہم اپنی زندگی کا مقصد کیوں بھول جائیں۔ ہماری زندگی کا مقصد خلیفہ بننا تو نہیں ہے بلکہ ہماری زندگی کا مقصد اللہ پاک کا بندہ بننا ہے۔ اگر ہم بندہ بننا چاہتے ہیں تو یہ بہت آسان ہے، لیکن اگر ہم خلیفہ ہی بننا چاہتے ہیں تو پھر مشکل پیدا ہو جاتی ہے۔ خلیفہ بننے کی طلب بعض لوگوں کو اس لئے ہوتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اس طریقے سے لوگ مجھے بہت اچھا کہیں گے۔ حالانکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ خوش قسمت ہیں وہ لوگ ہیں جن کی طرف انگلیاں نہ اٹھائی جائیں۔ یعنی ان کی طرف اشارہ نہ ہو۔ بس وہ تاریکی اور گمنامی میں ہوں کہ لوگ ان کو نہ جانتے ہوں۔ یہ خوش قسمت لوگ ہیں۔ جو مشہور ہو جائیں وہ خوش قسمت نہیں وہ تو خطرے میں آ جائیں گے۔ کیونکہ ہر نعمت کے ساتھ حسد ہوتا ہے۔ محسود ہمیشہ مشکل اور پریشانی میں ہوتا ہے۔آپ غور کریں کہ ایک انسان لوگوں کے حسد سے بچا ہوا ہے اور اطمینان کے ساتھ کام کر رہا ہے، اللہ پاک کو راضی کر رہا ہے۔ وہ اچھا ہے یا وہ جو اپنے آپ کو expose کر لے اور لوگ اس کی طرف اپنے تیروں کا رخ کر لیں؟
ان باتوں کے نہ جاننے اور نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں میں خلافت و اجازت کی طلب آ جاتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی بزرگی ہے کہ خلافت مل جائے۔ حالانکہ بزرگی اصل میں یہ نہیں ہے، بزرگی عبدیت میں ہے اور بندگی میں ہے۔ جو جتنا زیادہ اللہ کا بندہ ہے وہ اتنا ہی بڑا بزرگ ہے۔ جس کو جتنی عاجزی مل گئی اللہ تعالیٰ نے اس کو اتنا ہی اونچا مقام دے دیا۔
”مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہ قَدْ رَفَعَهُ اللّٰہ“ (مشکوۃ المصابیح: كتاب الآداب» باب الغضب والكبر۔ 5119)
صاف بات ہے جس نے جتنا اپنے آپ کو گرا دیا اللہ کے سامنے، اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بلند کر دیا۔ اب اگر میں اپنے لئے کسی مقام کی طلب رکھوں تو میں نے کہاں گرایا ہے اپنے آپ کو؟ اگر میں اپنے لئے مناسب سمجھتا ہوں کہ مجھے یہ مقام مل جائے تو میں نے اپنے آپ کو گرایا تو نہیں بلکہ میں نے تو اپنے آپ کو بلند کر دیا۔اور جب میں نے خود ہی اپنے آپ کو بلند کر دیا تو پھر اللہ پاک پست کر دیتے ہیں۔
لہٰذا یہ خلافت کی طلب عجب کے قبیل سے بھی ہے اور تکبر کے قبیل سے بھی۔ اس لئے اس کے بارے میں تو آدمی کو سوچنا بھی نہیں چاہیے، اور اگر از خود سوچ آجائے تو اپنے آپ کو ملامت کرے اور کہے کہ اگر پہلے میں خلافت وغیرہ کے قابل تھا بھی تو اب بالکل نہیں ہوں کیونکہ اب مجھ میں اس کی طلب آ گئی ہے، میری نیت میں کھوٹ پیدا ہو گئی، اب میں اس کے قابل نہیں رہا۔ کیونکہ خلافت کی طلب کا دل میں آ جانا ایک بیماری ہے، اور اس بیماری کے ہوتے ہوئے بھلا میں ایسے منصب کے قابل کہاں ہو سکتا ہوں۔
اگر یہ آدمی یہ باتیں جانتا اور سمجھتا ہو۔ یہ استحضار رکھتا ہو تو پھر ان شاء اللہ اس بیماری کا علاج ہوتا چلا جائے گا۔
بعض لوگ واقعتاً ترقی اسی میں سمجھتے ہیں کہ ان کو خلافت مل جائے یا اجازت مل جائے یا اس طرح کا کوئی منصب حاصل ہو جائے۔ حالانکہ یہ ترقی کی باتیں نہیں ہیں۔ خلافت تو ایک assignment ہے۔ بعض لوگ بہت قابل اللہ والے ہوتے ہیں لیکن ان کا ظرف بہت اونچا ہوتا ہے اس لئے ان کو خلافت نہیں دی جاتی، بلکہ ان کو اس سے بچایا جاتا ہے۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اتنے قابل نہیں ہوتے لیکن ان کو کچھ ذمہ داری سونپی جاتی ہے کہ یہ کام کرتے کرتے کچھ قابل بن جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو بعض دفعہ ذرا نا مکمل condition میں ذمہ داری حوالے کی جاتی ہے تاکہ یہ کام کرتے کرتے بن جائیں۔ اس کی میں ایک بہت ہی آسان انداز میں تشریح کرتا ہوں تاکہ مزید سمجھ آ جائے۔
اگر کسی محبوب کے سامنے اس کے عاشق بیٹھے ہوں۔ محبوب ان میں سے کسی کو کہہ دے کہ جاؤ میرے لئے بازار سے فلاں چیز لے آؤ تو جو اصل عاشق ہو گا وہ جانا تو نہیں چاہے گا لیکن چونکہ حکم ہو چکا ہو گا اس لئے حکم سے مجبور ہو کر جائے گا۔ اب وہ چلا تو جائے گا لیکن اس کا دل وہیں محبوب کے پاس ہو گا۔ بیشک وہاں بازار میں خرید و فروخت کر رہا ہو لیکن دل میں یہی بے چینی لگی ہو گی کہ کسی طرح جلدی واپس جاؤں تاکہ محبوب کے قریب رہ سکوں۔ وہ حکم عدولی بھی نہیں کرے گا لیکن اس کا دل ادھر ہی اپنے محبوب کے پاس ہو گا۔ وہ جلدی جلدی واپس آنا چاہے گا۔ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرے گاکیونکہ بازار میں اس کا دل نہیں لگ رہا ہو گا۔ اب وہ شخص تو محبوب کے حکم پر عمل کرتے ہوئے بازار چلا گیا لیکن ایک اور عاشق پاس بیٹھا ہے، اُسے ویسے ہی بازار جانے کی طلب ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے بازار کیوں نہیں بھیجا، مجھے بھیج دیتے۔ تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اس دوسرے شخص کو بازار بھیجنا چاہیے؟ اس کا بازار بھیجنا تو اس کو اور زیادہ خراب کرنے والی بات ہے۔یہ بازار گیا تو پھر وہیں رہ جائے گا، کیونکہ اس کا دل تو پہلے ہی بازار میں ہے۔خلافت کی مثال بھی ایسی ہی ہے کہ جس کو خلافت کا شوق ہے وہ در اصل خلافت کا اہل ہی نہیں ہے۔ خلافت کا اہل وہ ہے جو اپنے آپ کو خلافت کا اہل نہ سمجھے۔ جس کو زبردستی خلیفہ بنایا جائے وہ خلافت کا اہل ہے۔
ہم نے بزرگوں کو دیکھا ہے کہ جس میں ذرہ خلافت کی طلب کا شائبہ ہوتا تھا اس کو پیچھے کر دیا جاتا تھا تاکہ اچھا خاصا رگڑا کھائے اور اس کے اندر سے یہ چیز نکل جائے۔ ہمیں ان چیزوں میں اپنے آپ کو خراب نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اپنی نیت کو صحیح کرنا چاہیے۔ ہمارا مقصد صرف اپنی اصلاح ہونی چاہیے۔ نیت یہ ہو کہ موت سے پہلے میری اصلاح ہو جائے تاکہ جب میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں تو اچھی حالت میں کھڑا ہوں۔ بس اس سے زیادہ کسی چیز کی چاہت نہ ہو۔ جو اس سے زیادہ مقصد رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو خراب کر رہا ہے۔ الله جل شانہ ہماری حفاظت فرما دے۔
سوال نمبر15:
حضرت والا !
You explained light of the teachings of the مجددین that there are three spiritual faculties عقل، قلب and نفس have to be purified and balanced for اصلاح of a person. Question is that if عقل becomes لطیفۂ سر only after ذکر and فکر then why do اکابر نقشبند and قادریہ identify لطیفۂ سر in body and not لطیفۂ عقل? if this question has wasted حضرت والا time please forgive me.
جواب:
ان تمام باتوں کی وضاحت حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ سے متعلقہ دروس میں کی گئی ہے۔ شاید آپ نے وہ نہیں سنے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الطاف قدسیہ کے تیسرے chapter (جس میں پانچ لطائف کا بیان ہے) میں ان باتوں کی کافی وضاحت کی گئی ہے۔ وہاں یہ بات بھی clear کی گئی ہے کہ مقاماتِ ذکر علیحدہ ہیں جنہیں لطائف کہا گیا ہے اور اصلاح کے اہداف علیحدہ ہیں۔قلب، عقل اور نفس، یہ تینوں اہدافِ اصلاح ہیں۔ جب ان تینوں کی اصلاح ہو جاتی ہے، یہ تینوں balance ہو جاتے ہیں۔ تب قلب ہی سے روح کا لطیفہ پیدا ہوتا ہے، یعنی جو قلب تھا، وہ روح بن جاتا ہے اور روح ملاء اعلی میں پہنچ کے روح کا sensing point بن جاتا ہے۔ جس وجہ سے قلب میں ملا اعلیٰ کے تمام مشاہدات ہوتے ہیں۔ جب عقل کی اصلاح ہو جاتی ہے تو وہ یہ سِر بن جاتا ہے لہٰذا اب یہ عقل دنیاوی معیارات کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتی بلکہ ایمانی اخبارات کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے۔ پھر یہ لطیفۂ سر بن جاتا ہے۔ لطیفۂ سر اور سر میں فرق یہ ہو گا کہ لطیفۂ سر ایک مقامِ ذکر ہے، جبکہ سِر اہداف میں شامل ہے۔ ان کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ الطاف قدسیہ میں اس بات کی مکمل تفصیل ہے کہ مقامات ذکر اور ہیں جب کہ اہدافِ اصلاح اور ہیں۔ مقاماتِ ذکر کو ہی لطائف بھی کہتے ہیں۔ ان مقاماتِ ذکر کی تشریح میں بزرگوں کے درمیان اختلاف بھی ہے۔ معصومی طریقہ میں لطائف الگ طریقہ سے بتائے گئے ہیں اور بنوری طریقہ میں الگ طریقہ سے بتائے گئے ہیں۔ یہ مقامات ذکر ظنی ہیں کیونکہ یہ مکشوف ہیں۔ کشف کے ذریعہ سے معلوم ہوئے ہیں۔ جبکہ اہداف ظنی نہیں ہیں، نہ عقل ظنی ہے، نہ نفس ظنی ہے، نہ قلب ظنی ہے، نہ روح ظنی ہے اور نہ ہی سر ظنی ہے۔یہ سب قطعی طور پر ثابت ہیں۔ ان کا ذکر قرآن و احادیث میں بکثرت آیا ہے۔
لہٰذا اہداف کے ساتھ مقامات ذکر کو mix نہیں کرنا چاہیے۔
یہاں ایک سوال ضرورت پیدا ہو سکتا ہے کہ مندرجہ بالا تشریح میں بتایا گیا ہے کہ جب قلب کی اصلاح ہو جاتی ہے تو وہ روح بن جاتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ہی چیز پر قلب کا بھی اطلاق ہو اور روح کا بھی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں بالکل ممکن ہے! کئی الفاظ اور کیفیات کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی معنی میں دو الفاظ استعمال ہو رہے ہوتے ہیں، بعض اوقات دو معنی میں ایک لفظ استعمال ہو رہا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک لفظ ہے ”حال“، حال کا ایک معنی ہوتا ہے کیفیات کا تبدیل ہوتے رہنا اور ایک حال کا معنی ہوتا ہے جیسے کسی چیز میں جان پڑ گئی ہو۔ جس معنی میں ہم کسی کو صاحب حال کہتے ہیں۔ یعنی پختگی کے معنی میں بھی حال کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں صاحب علم ہے، صاحب قال ہے جبکہ فلاں صاحب حال ہے۔ یعنی اسے اپنے علم پہ پختگی اور عمل حاصل ہے۔ جیسے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر میں فرمایا گیا ہے:
قال را بگزار مرد حال شو
قال سے مراد علم ہے اور مرد حال سے مراد ہے جو اپنے علم پر عمل کر رہا ہو۔
حال پختگی کے معنی میں بھی آتا ہے اور تغیر کے معنی میں بھی۔ بہرحال حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بہت بلند فرمائے )نے اس پر تفصیلی کلام فرمایا ہے۔ نیز مختلف لوگوں نے ان اصطلاحات کو مختلف پیرایوں میں استعمال کیا ہے اس لئے ہمیں ان سے اصل مطلب لینا چاہیے، ان کا مفہوم خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔
سوال نمبر16:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی جو ذکر بالجہر ہم آپ کے ساتھ کرتے ہیں جیسی کیفیت اس ذکر میں ہوتی ہے ویسی اس ذکر میں نہیں ہوتی جو ہم علیحدہ کرتے ہیں۔ کیا ہم اس کیفیت کو حاصل کرنے کے لئے اپنا ذکر کرتے ہوئے آپ کے مجلس کے ذکر کی recording آن کر سکتے ہیں؟
جواب:
ہماری مجلس کا ذکر اور انفرادی ذکر زیادہ تر الگ الگ ہوتا ہے۔آپ کسی پہ depend نہ کریں بلکہ اپنے ذکر میں پختگی لے آئیں۔
سوال نمبر17:
حضرت جی! مجھے مراقبہ میں کافی عرصہ کے بعد 3 دن تک قلبی ذکر محسوس ہوا۔ میں اس پر بہت خوش ہوا۔ آپ سے ذکر کیا تو آپ نے مراقبہ کا وقت بڑھا دیا لیکن اس کے بعد مراقبہ میں یہ کیفیت حاصل نہیں ہوئی۔
جواب:
کیفیات آنی جانی چیز ہیں یہ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ آپ اپنی توجہ کیفیات پر نہ رکھیں۔ کئی بار کیفیات کا تعلق مراقبات یا ذکر سے نہیں ہوتا بلکہ یہ نفسیاتی چیزیں ہوتی ہیں۔ ان کو handle کرنا آسان نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ کسی ذہن میں کوئی بات بیٹھ جاتی ہے ۔ جب وہ یکسو ہو تا ہے تو اسے وہی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ تقریباً ٪50 سے زیادہ بیماریاں نفسیاتی ہیں۔ اگر کسی کو ویسے ہی محسوس ہو کہ مجھے فلاں چیز سے نقصان ہوتا ہے، تو اسے وہ چیز نہیں کھانی چاہیے کیونکہ اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے، اس لئے اگر اب اسے کھائے گا تو اس کو اس سے نقصان ہو گا۔
لہٰذا آپ اتنے نازک نہ بنیں کہ کیفیات پر منحصر ہو جائیں۔ آپ اپنی باتیں بتایا کریں چاہے کچھ بھی ہو اور اپنی کوشش جاری رکھیں۔ سودائی نہ بنیں ، ہمت والے بنیں۔
سوال نمبر18:
حضرت جی!
آج کل کے حالات کے حوالے سے اگر کسی سے بات کی جائے یا مخالفت کی جائے تو حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ چپ رہ بھی نہیں سکتے اور کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ کیا ایسا کیا جا سکتا ہے کہ ایسے موقعوں پر صرف اپنے نفع نقصان کو مد نظر رکھا جائے ؟کیونکہ زیادہ بحث کی وجہ سے بہت خطرناک حد تک بات چلی جاتی ہے اور لوگ کفر پر اتر آتے ہیں۔
جواب:
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پہ فرمایا ہے کہ پہلے میں سفر میں نصیحت کرتا تھا لیکن اب نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بار میں نے ایک صاحب کو کہا کہ پائنچے ٹخنوں سے اوپر رکھنے چاہئیں۔ اس نے کہا کیوں؟ میں نے کہا: شریعت میں ایسا فرمایا گیا ہے۔ اس نے نعوذ باللہ من ذلك شریعت کو گالی دے دی۔ تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں بڑا گھبرا گیاکہ پہلے تو یہ صرف گناہ گار تھا لیکن اب کافر ہو گیا ہے، جس کی وجہ صرف یہی بنے گی کہ میں نے نصیحت کی۔ اس وجہ سے اب میں کسی کو نصیحت نہیں کرتا ۔
در اصل بات یہ ہے کہ امر بالمعروف میں بہت زیادہ پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے، لیکن نہی عن المنکر بہت مشکل کام ہے، اس کے لئے اپنے نفس کو کچلنا پڑتا ہے۔ جب نفس مکمل قابو میں آ چکا ہو اچھی طرح روندا اور کچلا جا چکا ہو تب ہی انسان صحیح طور پر نہی عن المنکر کا فرض ادا کر سکتا ہے ورنہ نہیں کر سکتا۔ آپ اندازہ کر لیں کہ صرف tone اور لہجہ سے بھی بہت فرق پڑ جاتا ہے، مثلاً لفظ ”کیا“ کو آپ تین مختلف انداز میں بول سکتے ہیں۔ ”کیا؟ “(سوالیہ انداز) ”کیا!“(تعجب اور حیرت کا انداز) ”کیا؟؟“ (غصہ والا انداز)اب دیکھیں یہ صرف tone change ہوئی ہے جبکہ لفظ ایک ہی ہے، لیکن آپ نے دیکھا کہ بات اور اس کے اثر میں کتنا فرق پڑا ہے۔ اسی طرح ایک لفظ ”اچھا“ ہے۔ اس کو کم سے کم تین انداز میں بولا جا سکتا ہے۔ ”اچھا“ (کسی کی بات سن کر کہیں کہ اچھا یہ بات ہے) ”اچھا!“ (تعجب والا انداز) ”اچھا؟“ (استفہامیہ انداز) غور کریں tone change ہونے سے کتنا فرق پڑتا ہے۔ آپ جس وقت بات کر رہے ہیں تو آپ کے face expressions، آپ کے بولنے کا انداز، آپ کی نکتہ رسی وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں مخاطب کے اوپر اثر ڈال رہی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ آپ کے طریقہ میں ہی مسئلہ ہو، جس کی وجہ سے دوسرا چڑ رہا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر آدمی ایسا ہو لیکن ممکن ہے کہ طریقہ کار میں ایسا مسئلہ ہو جس کی وجہ سے وہ چڑ رہا ہو۔ مثلاً اس کو تنقید محسوس ہو رہی ہو۔ عموماً لوگ تنقید سننا پسند نہیں کرتے۔ اب آپ خود سوچیں کہ آپ بات کر رہے ہیں اور سامع کو آپ کے انداز سے، الفاظ سے یا کسی بھی طریقے سے لگ رہا ہے کہ آپ اس پہ تنقید کر رہے ہیں، تو کیا وہ آپ کی بات سے مثبت اثر لے پائے گا؟ لہٰذا جب نہی عن المنکر کا معاملہ ہو تو ان باتوں کا بے حد خیال رکھنا چاہیے۔
حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب کسی میں کوئی کمی دیکھتے تو خود کچھ نہیں کہتے تھے، اس مسئلہ سے متعلق حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کا وعظ بتاتے جس میں اس کا علاج بتایا گیا ہوتا۔ فرماتے یہ وعظ پڑھ لیجئے گا۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ والا طریقہ تو مشہور ہے۔ وہ واقعہ سنا ہی ہوگا۔ وہ تو بچے تھے لیکن ایک بڑے کو کیسے وضو سکھایا۔
حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ بھی مشہور ہے کہ کس خوبصورت طریقہ سے وہ بات کی تھی۔
معلوم ہوا کہ ایسے معاملات میں حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک وہ حکمت حاصل نہیں ہے تب تک ہلکی پھلکی بات کرنی چاہیے، بہت بڑھانی نہیں چاہیے۔
سوال نمبر19:
حضرت جی! کل رات سوتے وقت میں بہت پریشان تھی۔ اس حالت میں آپ کا ذکر بالجہر یاد آیا تو میں نے محسوس کیا جیسے میرے بائیں طرف دور سے آپ کے ذکر کی آواز آ رہی ہے۔ آپ بہت آرام اور سکون سے ٹھہر ٹھہر کر ”لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰه“ کا ذکر کر رہے ہیں۔ جب میں اس طرف دھیان کرتی ہوں تو مجھے ماحول کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں اور مجھے اس حالت سے خوف بھی ہے کہ کہیں یہ میرے نفس کا دھوکہ نہ ہو۔
جواب:
کوئی بات نہیں الحمد للہ خیر خیریت ہے۔ آپ کی فکر بھی اپنی جگہ صحیح ہے تبھی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلی بھی ہوئی۔
سوال نمبر20:
حضرت آپ نے کئی دفعہ اس کا تذکرہ کیا ہے کہ ایک بار آپ نے اپنا کچھ حال اپنے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کیا تو حضرت نے فرمایا کہ یہ فلاں مراقبہ ہے اس کو اس نیت سے کر لو تاکہ ثواب حاصل ہو۔ جبکہ ہمیں مراقبہ کے بارے میں یہی بتایا گیا ہے کہ اس میں ثواب کی نیت نہیں ہوتی۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
جس طرح ذکر کی دو قسمیں ہیں، ثوابی ذکر اور علاجی ذکر۔ اسی طرح مراقبہ بھی ثوابی اورعلاجی دونوں طرح کا ہوتا ہے۔ قرآن میں ایک مراقبہ بتایا گیا ہے :
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ﴾ (الحشر: 18)
اس مراقبہ کے کرنے کا حکم چونکہ قرآن پاک میں دیا گیا ہے لہٰذا اس کو کرنے پر ثواب ملے گا۔ تو وہ مراقبہ جو حضرت نے مجھے بتایا تھا وہ بھی اس قسم میں سے تھا۔
اس میں کچھ مزید تفصیل یہ ہے کہ یہ جو ہم علاجی ذکر میں ثواب کی نیت نہیں کرتے، یہ ہمارا اپنا اجتہاد ہے۔ بعض بزرگ اس میں بھی ثواب کی نیت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس میں ضرب بالجہر میں ثواب کی نیت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ اضافی ہے البتہ ذکر میں نیت کی جا سکتی ہے۔ لیکن ہم علاجی ذکر کرتے ہوئے ذکر میں بھی ثواب کی نیت اس لئے نہیں کرتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں، بدعت کے شائبہ سے بچاناچاہتے ہیں۔ کیونکہ جب آپ ذکر کرتے ہوئے ثواب کی نیت کرتے ہیں تو وہ دین کا حصہ بن جاتا ہے۔ جب کسی چیز کو دین کا حصہ سمجھا جائے تو پھر اس کا ثبوت دینا پڑتا ہے کہ یہ کام آپ ﷺ کے دور میں بھی اس طرح ہوتا تھا۔ لہٰذا اس پیچیدگی سے بچنے کے لئے ہم علاجی ذکر میں ثواب کی نیت بالکل نہیں کرتے۔
وہ حضرات جو علاجی ذکر میں ثواب کی نیت کرتے ہیں ان کی دلیل بھی درست ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ضرب بالجہر میں ثواب کی نیت نہیں کرتے ہم صرف ذکر میں ثواب کی نیت کرتے ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ذکر کے تمام کلمات و الفاظ احادیث و اثار سے ثابت ہیں، یہ اس وقت بھی ہوا کرتے تھے۔ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“ بھی تھا ”اَللّٰہ“ بھی تھا ”حَق“ بھی تھا ”لَا اِلٰهَ اِلَّا ھو“ بھی تھا۔ یہ ساری چیزیں اس وقت بھی موجود تھیں۔ لہٰذا یہ تو دین کا حصہ ہے، اس لئے ان میں ثواب کی نیت کی جا سکتی ہے۔
ہمارا ان حضرات کے اوپر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ہم اس بات کے شک و شبہ سے بھی بچنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہمارا اجتہاد یہی ہے۔ حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایسے ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم جو ذکر کراتے ہیں اس میں ثواب کی نیت تو نہیں کرتے لیکن آپ کو ثواب کے دہانے پہ بٹھا دیتے ہیں۔ یعنی اگر اس ذکر کی برکت سے آپ کا علاج ہو گیا اور آپ نیک اعمال پہ لگ گئے، تو اس ذکر کی برکت سے یہ اتنے بڑھیا ہو جائیں گے کہ آپ کو ثواب ہی ثواب ملے گا۔
سوال نمبر21:
حضرت! یہ جو کہا جاتا ہے کہ بزرگوں کے مزار پر جا کر قبر پہ بیٹھ کر مراقبہ کرنا چاہیے۔ یہ جائز ہے یا ناجائز، اور اس کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟
جواب:
اس کے بارے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے categorical انداز میں فرمایا ہے کہ صاحب نسبت کو قبر سے فیض ملتا ہے۔ غیر صاحب نسبت کو مراقب وغیرہ نہیں ہونا چاہیے، صرف مسنون طریقہ سے ایصال ثواب کرنا چاہیے اگر اس کو کچھ ملنا ہو گا تو اسی سے مل جائے گا۔ اس کو نہ مراقبہ کی ضرورت ہے نہ ہی کسی اور کام کی۔ قبر پہ مراقب ہونے کا معاملہ اس صورت میں ہے جب وہ صاحب نسبت ہو اور اس چیز کو محسوس کر سکے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں اپنا ایک واقعہ بھی بتایا ہے۔ شاہ رفیع الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو بڑے صاحب کشف تھے وہ ایک بزرگ کے مزار پہ تشریف لے گئے۔ ان کے ساتھ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے اور دو طالب علم بھی تھے۔ ہوا یوں کہ جب حضرت شاہ رفیع الدین صاحب مراقب ہو گئے تو یہ دو طالب علم بھی آنکھیں بند کرکے مراقب ہو کر بیٹھ گئے۔ حضرت نے پیچھے سے ان کو دو لگائیں اور فرمایا کہ ابھی تمہاری دل کی آنکھ بند ہے تم نے ظاہری آنکھیں بھی بند کر لیں ؟ خواہ مخواہ لوگوں کو دکھانے کے لئے کہ مجھے بھی کچھ نظر آ رہا ہے!
جو لوگ صاحب نسبت ہوتے ہیں ان کو فیض ملتا ہے، وہ اس کو محسوس بھی کرتے ہیں۔ ان کو اس بارے میں بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ اورجو ایسا نہ ہو اسے اس طرف جانا بھی نہیں چاہیے۔ وہ بس سیدھے سادے انداز میں قبرستان جانے کی مسنون دعا پڑھے۔
”اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَاۤ اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُاللّٰهُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَفُنَا وَ نَحْنُ بِالْاَثْرِ اِنَّـاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ“
اور ایصالِ ثواب کر کے ان کے رفع درجات کے لئے دعا کرے۔ اپنے لئے بھی بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کرے اور واپس آ جائے۔ اس کے علاوہ کچھ مزید کرنا مناسب نہیں ہے۔
سوال نمبر22:
ایک بزرگ کے ساتھ میری نسبت ہے ۔وہ رحلت فرما گئے ہیں۔ کیا میں ان کے مزار پہ جا کر اپنا کوئی مسئلہ پیش کر سکتا ہوں؟ کیا اس کا کوئی مخصوص طریقہ کار ہوتا ہے؟
جواب:
جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ اس میں پہلے صاحب نسبت ہونا ضروری ہے۔ جب تکمیل ہو جائے، اس کے بعد یہ تمام چیزیں سالک پر خود کھل جاتی ہیں۔ پھر سوال کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ ساری چیزیں از خود نظر آنے لگتی ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جیسے بلوغ سے پہلے بلوغ کی باتیں معلوم نہیں ہوتیں اور بلوغ کے بعد وہ یوں معلوم ہونے لگتی ہیں کہ سمجھانے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ان باتوں کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ جب صاحب نسبت ہو جاتے ہیں تو کچھ مسئلہ نہیں ہوتا۔
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے شیخ میاں جی نور محمد جھنجھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ فقیر انتقال کرتا ہے، مرتا نہیں ہے، آپ میری قبر پہ آیا کریں۔ اس وقت حضرت کو نقشبندیہ اور چشتیہ دونوں سلسلوں میں نسبت حاصل ہو چکی تھی، لہٰذا انہیں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جن کو اجازت ہو اور نسبت حاصل ہو ان کے لئے مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن باقی لوگوں کے لئے مسائل ہیں، وہ اس طرف توجہ نہ کریں تو ان کے لئے بہتر ہے۔
سوال نمبر23:
حضرت جی! بعض اوقات امام صاحب کے سر پر ٹوپی ہوتی ہے، لیکن مقتدیوں میں سے کوئی شخص کہہ دیتا ہے کہ آپ سر پر پگڑی باندھ لیں یا رومال رکھ لیں۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب:
عمامہ پہننا سنت مستحبہ ہے سنت موکدہ نہیں ہے۔سنت موکدہ ہوتا تو کم از کم مفتی رفیع عثمانی صاحب باندھتے،مولانا تقی عثمانی صاحب بھی باندھتے۔ سنت مستحبہ کے بارے میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر اسے واجب سمجھا جائے تو اس کا ترک واجب ہو جاتا ہے۔ جو لوگ دوسروں کو کہتے ہیں کہ آپ عمامہ باندھ لیں اور ان کے کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لازمی باندھیں۔ وہ اس کو واجب سمجھتے ہیں۔ ان کو سمجھانا چاہیے کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ سنت مستحبہ ہے۔ اگر کوئی عمامہ باندھ لے تو اچھی بات ہے، ثواب ہے۔ اور اگر کوئی نہ باندھے تو اس کو ملامت نہیں کرنا چاہیے کیونکہ آپ مستحب کے ترک پہ کسی کو ملامت نہیں کر سکتے۔ سنت موکدہ کے ترک پر ملامت کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مستحب کے ترک پر نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس میں یہ معاملہ رکھیں کہ اگر کوئی باندھ لے تو وہ ثواب کا مستحق ہے ، اگر کوئی نہ باندھے تو اسے ملامت نہ کریں۔
سوال نمبر24:
ہمارے ہاں فرقہ بندی کا مسئلہ ہے۔ اگر عمامہ ترک کریں یا اس بارے میں کچھ کہیں تو دوسرے فرقہ کے لوگ فتوے لگانا شروع کرتے ہیں اور فرقہ بندی کی طرف بات چلی جاتی ہے۔
جواب:
در اصل فتویٰ اور مسئلہ تو وہی ہے جو میں نے عرض کر دیا۔ جس طرح کی صورت حال آپ فرما رہے ہیں اس کا تعلق فتوی سے نہیں، وہ ایک الگ کام ہے، اس کی ایک پوری حکمت عملی بنائی جا سکتی ہے کہ ایسے میں کیا طریقہ اپنایا جائے وہ ایک طویل اور صبر آزما پروسیجر ہے۔ اس وقت تو ہم کسی سوال کا اصولی جواب ہی دے سکتے ہیں اور اصولی جواب وہی جو ہم نے عرض کر دیا ہے۔
سوال نمبر25:
کیا یہ بات درست ہے کہ گناہ سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر گناہ کی رغبت ہو لیکن آپ اس وقت گناہ نہ کریں اور اللہ پاک سے کوئی دعا کر لیں تو قبول ہو جاتی ہے۔ کیا گناہ سے بچنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کر سکتے ہیں؟
جواب:
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ”بہترین ذکر وہ ہے جو گناہ سے بچائے“۔ لہٰذا مذکورہ بالا طریقے سے گناہ سے بچنا،یہ بھی ایک قسم کا ذکر ہے اور تقویٰ کے قبیل سے ہےاس لئے یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا:
﴿إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ﴾ (المائدة: 27)
ترجمہ: ”اللہ تو ان لوگوں سے قربانی قبول کرتا ہے جو متقی ہوں۔“
ایسی صورت میں اگر آپ اللہ پاک سے مانگیں گے تو قبولیت کی زیادہ امید ہے۔
سوال نمبر26:
حضرت صاحب! آپ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ جب اذان میں آپ ﷺ کا نام آئے تو درود پاک نہیں پڑھتے بلکہ اذان کے کلمات ہی دہراتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اذان کے علاوہ اور کون سے ایسے مواقع ہیں جن میں آپ ﷺ کا نام آئے تو درود نہیں پڑھنا چاہیے۔
جواب:
اذان کے بارے میں جو بات میں نے بتائی تھی وہ تو بالکل ایک common بات ہے۔ سب لوگ اس کو جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی موقع پیش آئے گا تو اس کی مناسبت سے بتا دیا کریں گے کیونکہ موقع کی مناسبت سے بات یاد بھی ہو جاتی ہے اور سمجھ بھی آ جاتی ہے۔
اذان کے بارے میں یہ بات بطور حکم فرمائی گئی ہے کہ اذان کے الفاظ کو موذن کے ساتھ ساتھ دہراتے جائیں۔ لہٰذا ”اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ“ کے ساتھ بھی ”اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہ“ ہی پڑھنا چاہیے۔ تاکہ آپ ﷺ کے حکم پر عمل ہو جائے۔ اور یہ بھی آپ ﷺ ہی نے فرمایا ہے کہ جب اذان ختم ہو جائے تو پھر پہلے درود شریف پڑھا جائے اس کے بعد یہ دعا پڑھی جائے ”اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ“۔ اگر ہم آپ ﷺ کا حکم کردہ طریقہ اختیار کریں گے تو ساری چیزوں پہ عمل ہو جائے گا۔
سوال نمبر27:
حضرت صاحب! یہ بات مسلم ہے کہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ اس ادب کا فرض درجہ کون سا ہے؟ کچھ غیر عجمی لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو قرآن پاک زمین پر رکھنے میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں کرتے اور اسے بے ادبی نہیں سمجھتے۔ اس سلسلے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
اس میں دو طرح کے لوگ ہیں، کچھ لوگ تو ایسے ہیں جنہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ قرآن پاک کا ادب کرنے میں یہ بھی ہے کہ قرآن پاک کو اونچی جگہ پر رکھا جائے، لہٰذا وہ بے علمی کی وجہ سے زمین پہ رکھ دیتے ہیں۔ ان کا حل تو یہی ہے کہ ان کو اس بات کی تعلیم دی جائے، قرآن مجید کے ادب و احترام کی ترغیب دی جائے۔ جب انہیں پتہ چلے گا کہ ہم قرآن پاک کی بے ادبی کے مرتکب ہو رہے ہیں تو وہ یہ کام کرنا چھوڑ دیں گے۔ دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس کو باقاعدہ علماً مانتے ہیں کہ قرآن پاک کو زمین پہ رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر آپ ایسے لوگوں سے کہتے ہیں کہ قرآن پاک زمین پر نہ رکھوتو وہ آپ کے ساتھ بحث کرنے لگتے ہیں اور اس بات کے دلائل پیش کرنے لگتے ہیں کہ قرآن پاک کو زمین پر رکھنا کوئی بے ادبی نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں یہ بات ہے کہ قرآن پاک کو نیچے رکھنے میں کوئی بے ادبی نہیں ہے اور اوپر رکھنے میں کوئی مسئلہ ہے۔ خصوصاً جب عرب لوگ اس طرح کرتے ہیں تو اس کی وجہ بظاہر یہ محسوس ہوتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں شاید ایسا کرنا شرک کے قبیل سے ہے۔ ان کے لئے جواب یہ ہے کہ اگر آپ قرآن مجید کی سورۃ الحج کا مطالعہ کریں تو آیت نمبر 31 میں آپ کو شرک کے بارے میں کچھ اس طرح کی بات ملے گی۔
﴿وَمَن يُشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ﴾ (الحج: 31)
ترجمہ: ”اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا۔ پھر یا تو پرندے اسے اچک لے جائیں، یا ہوا اسے کہیں دور دراز کی جگہ لا پھینکے۔“
اور اس کے فوراً آیت نمبر 32 یہ ہے:
﴿ذٰلِكَ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ﴾ (الحج: 32)
ترجمہ: ”یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے۔“
معلوم ہوا کہ جو شعائر اللہ کی تعظیم کرتے ہیں وہ ان کے دلوں کے تقویٰ کی وجہ سے ہے۔
اللہ تعالیٰ کا حسن ترتیب دیکھئے کہ شرک کی مذمت کے فورًا بعد شعائر اللہ کی تعظیم کی ترغیب دی گئی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک اور چیز ہے جبکہ شعائر اللہ کی تعظیم ایک بالکل الگ چیز ہے۔ نیز شرک کی مذمت کے بعد شعائر اللہ کی تعظیم کی طرف توجہ دلانے کی وجہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ شبہ آ سکتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم خانہ کعبہ ، قرآن مجید اور شعائر اللہ کی تعظیم کرکے شرک کے مرتکب ہو جائیں، اور وہ اس شبہ میں مبتلا ہو کر شعائر اللہ کے بارے میں لاپروائی اختیار کرتے۔ اس کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ شرک کی مذمت کے بعد باقاعدہ شعائر اللہ کی تعظیم کی تاکید فرمائی۔ تو ہمارے لیے بھی یہی طریقہ بہتر ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو سمجھائیں کہ قرآن مجید کا ادب کرنا شعائر اللہ کی تعظیم ہے۔ اسے اللہ نے تقویٰ کی علامت بتایا ہے۔ اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو شعائر اللہ کی تعظیم نہیں کرتا اس کے دل میں تقویٰ نہیں ہے۔
سوال نمبر28:
اگر ایک آدمی قرآن پاک پڑھ رہا ہے۔ دوسرے نے بچہ اٹھایا ہوا ہے۔ اس صورت میں بچے کے پاؤں تو اوپر ہی ہیں۔ایسا کرنا ادب کے خلاف ہو گایا نہیں؟
جواب:
جو شخص محتاط ہو گا وہ اس طرح بھی نہیں کرے گا ۔ بچے کو نیچے کر لے گا یا قرآن مجید کو اوپر کر لے گا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ