سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 384

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال نمبر 1:

حضرت! میں جن لوگوں سے ملتا ہوں، ان کا مزاج اور انداز اپنے اندر محسوس کرتا ہوں، کیا یہ صحبت ناجنس کے اثرات ہیں؟ ان اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے کیا کروں؟

جواب:

اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں سے ایک وجہ حساسیت ہے۔ بعض لوگ انفعالی طبیعت کے ہوتے ہیں۔ دوسرے لوگوں سے بہت جلدی اثر لیتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے ان کی خوبی بھی ہوتی ہے کیونکہ وہ دوسرے لوگوں کی اچھی چیزوں کو بھی جلدی قبول کر لیتے ہیں لیکن دوسری طرف ان کے لئے یہ بات نقصان دہ بھی ہوتی ہے کیونکہ یہ دوسرے لوگوں کی بری چیزیں بھی بہت جلدی قبول کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے صحیح طریقہ یہ ہے کہ اچھے لوگوں کے ساتھ ملیں اور بری صحبت سے حتی الامکان بچیں، کیونکہ بری صحبت کا اثر ان کے اوپر زیادہ ہو گا۔ لہٰذا اگر آپ دھیان رکھیں کہ میں کن لوگوں سے مل رہا ہوں، اور جن لوگوں سے ملنے کی وجہ آپ محسوس کریں کہ آپ کے اخلاق کے اوپر برا اثر پڑتا ہے یا بالخصوص وہ لوگ جو طریقت کی line کے خلاف ہیں، یا جن لوگوں کے بارے میں آپ کو یہ خیال ہو کہ ان میں الحاد پایا جاتا ہے یا ان کے اخلاق برے ہیں تو ایسے لوگوں کی صحبت سے بچنے کی کوشش کریں۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

(1)۔ حضرت جی! مختلف مراقبات کے متعلق سننے میں آیا ہے کہ یہ مراقبات سلوک کی تیاری کے لئے استعمال ہونے والے ذرائع میں سے ہیں، مقصود نہیں ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی یہ مراقبات نہ کرے اور اس کا سلوک شروع ہو جائے تو کیا ان مراقبات کرنے والوں کو جو چیزیں حاصل ہوتی ہیں، وہ اس کو حاصل نہیں ہوں گی، یا پھر سلوک کے دوران وہ چیزیں از خود حاصل ہو جاتی ہیں؟

(2)۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ جب آپ کے بیان کے دوران اذان ہوتی ہے تو آپ اکثر سب کچھ چھوڑ کر اذان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں اذان ذرا پہلے ہوتی ہے، اس دوران آپ اکثر کوئی بات فرما رہے ہوتے ہیں، ایسے اکثر اوقات میں ایک طرف اذان اور ایک طرف بیان سن رہی ہوتی ہوں، مکمل توجہ کسی ایک کو بھی نہیں دے پاتی ہوں اور دونوں کی بے ادبی محسوس ہوتی ہے، حضرت ایسے موقع پہ کیا کرنا چاہیے؟

(3) ۔ حضرت ہم خواتین اکثر بچوں کو لوری سناتی ہیں تو اللہ اللہ پڑھتی ہیں اور خواتین کو جہری ذکر نہیں دیا جاتا۔ جنہوں نے جہری ذکر سنا ہوتا ہے ان کے انداز میں خود بخود ایک جوش و ضرب آ جاتا ہے تو کیا اسے ذکر بالجہر سمجھا جائے گا؟ کیا اس میں بھی احتیاط کرنی چاہیے؟

جواب:

ماشاء اللہ کافی اچھے سوال ہیں۔ ترتیب سے ان کے جوابات عرض کرتا ہوں۔

(1)۔ میں بارہا پہلے بھی یہ بات کر چکا ہوں، اب دوبارہ اس کی تجدید کر لیتا ہوں کہ در اصل تصوف سے مقصود مراقبات نہیں ہیں اور مجاہدات بھی مقصود نہیں ہیں۔ یہ دونوں چیزیں صرف ذرائع ہیں۔ کچھ لوگوں نے مراقبات کو مقصود بنایا ہے، کچھ لوگوں نے مجاہدات کو مقصود بنایا ہے، کچھ لوگوں نے دونوں کو مقصود بنایا ہے اور کچھ لوگ ان کو ذریعہ بھی نہیں سمجھتے۔ یہ سارے غلط ہیں۔ ہر چیز کو اپنی اپنی جگہ پر رکھنا ہی عقل مندی اور وقت کا تقاضا ہے۔ اچھی طرح سمجھ لیں کہ مراقبات کس لئے ہیں؟ یہ دراصل دل کی یکسوئی کے لئے، ایک خاص رنگ اپنانے کے لئے اور جذب کسبی کو پیدا کرنے کے لئے ہیں۔ جذب کسبی کے بارے میں کافی موقعوں پر تفصیل عرض کر چکا ہوں کہ اس کا مقصد سلوک شروع کرنے میں آسانی حاصل کرنا ہوتا ہے، کہ جذب کسبی اتنا حاصل ہو جائے کہ انسان سلوک کے لئے تیار ہو جائے۔ مراقبات، مجاہدات اور جذب کسبی یہ تینوں ذرائع ہیں، اصل چیز اپنی اصلاح ہے۔ ان تینوں کو اس اصلاح کے حصول کے لئے بطور ذرائع کے استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ تصوف سے مقصود صرف مراقبات کو سمجھتے ہیں۔ یہ اس لئے غلط ہے کہ تصوف کا مقصود سلوک طے کر کے اپنی اصلاح کرنا ہے، اگر کوئی شخص کسی مراقبے کے بغیر ہی سلوک طے کرنے کے لئے تیار ہے تو اسے مراقبات کی ضرورت ہی نہیں ہے، وہ بس سلوک طے کرے، اپنے شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ دے اور شیخ جو کہے بس وہی مانے اسے کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

ڈاکٹر حضرات جب operation کرتے ہیں آپریشن سے پہلے تو کچھ pre-operation steps ہوتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لئے ہوتے ہیں جو آپریشن کے لئے مکمل طور پر تیار نہ ہو۔ اگر کوئی پہلے سے تیار ہو اور اسے ان pre-operation steps کی ضرورت ہی نہ ہو تو پھر ڈاکٹر ان سے یہ steps follow نہیں کرواتے، ڈائریکٹ آپریشن کرتے ہیں۔ اب اگر pre-operation چیزوں کی ضرورت ہو اور ڈاکٹر وہ نہیں کروائے تو ڈاکٹر ذمہ دار ہے اور اگر مریض کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو مریض ذمہ دار ہے۔ تصوف میں بھی آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ جذب کسبی وغیرہ ایک طرح کے pre-operation steps ہیں جو سلوک پہ چلنے سے پہلے انسان کو follow کرائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی پہلے سے تیار ہے تو اس کے لئے اس کی ضرورت ہی نہیں ہے اور جسے ضرورت ہے اس کے لئے اتنی تیاری کافی ہو گی جس سے وہ سلوک پہ چلنے کے لئے تیار ہو جائے، کیونکہ اگر اس سے زیادہ تیارہ ہو گی تو پھر یہ تیاری کرنا ہی اصل مقصود بن جائے گا۔

علم الفقہ میں ایک بات بتائی جاتی ہے کہ جس مستحب کو کوئی واجب سمجھے تو اس کا ترک واجب ہو جاتا ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ مستحب ہے واجب نہیں ہے۔ مراقبات کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔

مراقبات کی طرح مجاہدات کا بھی یہی معاملہ ہے کہ وہ ذرائع ہیں مقصود نہیں ہیں۔ اگر کوئی مجاہدات کو مقصود سمجھے اور اسے دل کی اصلاح کی پروا نہ ہو تو عین ممکن ہے وہ جوگیوں کے طریقے پہ چلا جائے۔ یونانی philosopher بھی مجاہدات کرتے تھے، یہ ہندو جوگی بھی مجاہدات کرتے ہیں، لیکن ان دل کی اصلاح نہیں ہوتی، اللہ کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا، لہٰذا تو وہ سارے مجاہدات دنیا کے لئے استعمال ہوتے ہیں، حالانکہ انہیں نفس کی اصلاح کے لئے اور سلوک پہ چلنے کے لئے استعمال کرنا ہوتا ہے۔

تو یہ دونوں چیزیں ذریعہ ہیں۔ جب مراقبات حاصل ہو جائیں اور انسان سلوک پہ آ جائے تو سلوک کے لئے جن ریاضتوں اور مجاہدوں کی ضرورت ہے، شیخ کی رہنمائی میں وہ کرنے ہوتے ہیں۔

اگر کسی کو مراقبات کی ضرورت نہ پڑے، وہ بغیر مراقبات کے ہی سلوک پہ چلنے کے لئے تیار ہو، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو چیزیں مراقبات کرنے والوں کو حاصل ہوتی ہیں، کیا ایسے شخص کو سلوک پر چلتے ہوئے از خود حاصل ہو جائیں گی یا انہیں skip کر دیتے ہیں۔ اس کا جواب ذرا تفصیلی ہے۔ کچھ مراقبات جذب کسبی پیدا کرنے کے لئے ہوتے ہیں، ایسے شخص کو ان کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ جذب کسبی سلوک پہ چلنے میں آسانی کے لئے چاہیے تھا، اور یہ آدمی جذب کسبی کے بغیر ہی سلوک پہ چل رہا ہے، اس کو مقصد حاصل ہو گیا ہے، لہٰذا اس کے لئے ایسے مراقبات کی ضرورت نہیں، اور جو چیزیں ایسے مراقبات سے حاصل ہوتی ہیں وہ اسے مراقبات کے بغیر ہی مل گئی ہیں۔

کچھ مراقبات ایسے ہوتے ہیں جن کی ضرورت اس لئے ہوتی ہے تاکہ اعمال کو آسانی سے کرنے میں مدد ملے۔ مثلاً ایک شخص دکان پہ کام کر رہا ہے، اذان کی آواز آئی اور وہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد چلا گیا اور نماز شروع کر لی، مگر اس کا دل دماغ دکان میں ہی ہے، اس کے دماغ میں وہی تمام چیزیں گھوم رہی ہیں، وہ نماز کے اندر ہوتے ہوئے بھی نماز کے اندر نہیں ہو گا۔ اگر اس کو نماز کے لئے یہ مراقبہ دے دیا جائے کہ ہر نماز سے پہلے نماز کے لئے ذہن بنا لیا کرے کہ نماز ہے کیا، نماز کی اہمیت ذہن میں لائے کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہونے والا ہوں، تکبیر اولیٰ کہتے ہی میں اللہ کے حضور پہنچ جاؤں گا، پھر میرا دنیا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ تو ایسے وقت میں مجھے تمام چیزیں چھوڑ دینی چاہئیں، کسی چیز کے ساتھ کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے، میں نماز میں صرف اللہ کی طرف متوجہ رہوں گا۔ نماز سے پہلے اپنے ذہن میں ایسا سوچے اور نماز کے لئے اپنی ذہن سازی اور تیاری کرے۔ یہ بھی ایک مراقبہ ہے، لیکن یہ جذب کسبی کے حصول لئے نہیں ہے بلکہ یہ ایک فرض عمل کے لئے ہے۔ مشائخ سلوک کے دوران، سالک کو اس کی حالت اور ضرورت کے بقدر اس قسم کے مراقبات دیتے رہتے ہیں۔

اسی طرح قرآن پاک کی تلاوت کی مثال لے لیں۔ ایک منتہی شخص بھی جب قرآن پڑھ رہا تو یہ تصور کرے کہ اللہ پاک مجھ سے باتیں کر رہے ہیں، تو اس کے قرآن میں ایک خاص نور آ جائے گا اور اس کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ اگر نماز کے دوران یہ تصور کرے کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں تو اس کی نماز کی تاثیر زیادہ ہو گی۔ خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے اللہ کی عظمت و قرب کا تصور کرے تو اس کا اثر ہی اور ہو گا۔ تو یہ مراقبات اعمال میں تکمیل کے لئے ہیں، جذب کسبی کے حصول کے لئے نہیں ہیں۔ اس قسم کے مراقبات عملی طور پہ دیئے جا سکتے ہیں۔

اسی طرح مجاہدات کا معاملہ ہے بعض مجاہدات وقتی ہوتے ہیں۔ مثلاً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اصلاح مکمل ہو چکی تھی، وہ تو ماشاء اللہ کامل تھے، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ میں نے امیر المومنین کی حیثیت سے کچھ وفود کے ساتھ ملاقات کی اور اس کا دل کے اوپر منفی اثر آنے لگا ہے، تو اس اثر کو دور کرنے کے لئے انہوں نے مزدور کی طرح بیت المال میں کام کرنا شروع کر لیا۔ جب لوگوں نے پوچھا تو بتایا کہ میرے دل پر اثر آ گیا ہے اس کی اصلاح کر رہا ہوں۔ یہ مجاہدہ سلوک طے کرنے کے لئے نہیں تھا یہ عارضی اور وقتی مسئلہ کے تدارک کے لئے تھا۔ اس مجاہدہ کی ضرورت کاملین کو بھی پیش آ سکتی ہے۔ یہ مجاہدہ بھی وقتی ہوتا ہے، جب تک وہ مسئلہ رہے گا تب تک یہ مجاہدہ ہو گا، مسئلہ ٹھیک ہو گیا تو مجاہدہ ختم ہو جائے گا۔ اس کی ضرورت ہمیشہ کے لئے نہیں ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دیکھا کہ آستین کی وجہ سے دل پہ اثر ہو رہا ہے تو آستینوں کو کاٹ دیا۔ یہ بھی ایک وقتی مجاہدہ تھا۔

تو جو مجاہدات و مراقبات پہلی قسم کے ہوتے ہیں، جذب کسبی کے لئے، ان کی ضرورت تو اسی وقت تھی جب تک جذب کسبی حاصل نہیں ہوا تھا، اور اگر کسی کو جذب کسبی کے حصول کے لئے کسی چیز کی ضرورت نہیں پڑی اور وہ سلوک پہ چل پڑا تو اس سے قسم کے مجاہدوں اور مراقبوں کی ضرورت نہیں ہے۔ جبکہ دوسری قسم کے مجاہدات و مراقبات کی ضرورت سلوک پہ چلتے ہوئے بھی پڑ سکتی ہے، سلوک طے ہونے کے بعد کاملین کو بھی ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ خیر چاہے پہلی قسم ہو یا دوسری قسم، یہ دونوں ذرائع ہی ہوتے ہیں، اصل مقصود نہیں ہوتے۔ البتہ یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ سالک جب تک سلوک طے کر رہا ہے، ابھی اس کا سلوک مکمل نہیں ہوا تب تک کوئی مراقبہ اور مجاہدہ شیخ کی رہنمائی کے بغیر نہ کرے، ہاں تکمیل کے بعد شرح صدر سے خود بھی مراقبات و مجاہدات وقتی حل کے لئے کر سکتا ہے۔

(2) ۔ دوسری بات آپ نے یہ پوچھی ہے کہ جب بیان کے دوران اذان ہوتی ہے، تو آپ کی توجہ دونوں کی طرف ادھوری رہتی ہے۔ اس کے بارے میں سمجھ لیں کہ اذان اللہ پاک کی طرف بلاوا ہے اور بہت بڑی دعوت ہے۔ مشائخ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اذان کے وقت سارے کاموں کو چھوڑ کر اذان کی طرف متوجہ ہو کر اس کا جواب دینے لگے تو یہ حُسنِ خاتمہ کے اسباب میں سے ہے۔ لہٰذا ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ اذان کے وقت خاموش ہو کر اذان کا جواب دیا جائے۔ البتہ اگر کوئی دینی مسئلہ بیان کیا جا رہا ہو تو اس میں یہ پابندی نہیں ہے، کیونکہ دینی بات کی value بہت زیادہ ہے، دینی مسئلہ بتاتے ہوئے اذان شروع ہو جائے اور میں اذان کا جواب نہ دوں، تو اس پہ پکڑ نہیں ہے۔ لیکن ایسی صورت میں بھی میں خاموش ہو جاتا ہوں، تاکہ لوگوں کو اذان کی اہمیت کا پتا چل جائے، کیونکہ آج کل لوگوں کو اس کا پتا ہی نہیں ہے، حتی کہ علماء بھی اس کا خیال نہیں رکھتے۔ اور چونکہ لوگ علماء کو دیکھتے ہیں، تو ان کی پیروی کرتے ہوئے پھر کوئی بھی خیال نہیں رکھتا۔ اس لئے اگر میں کوئی دینی مسئلہ بھی بیان کر رہا ہوتا ہوں اور اذان شروع ہو جائے تو خاموش ہو جاتا ہوں اور اس کا جواب دیتا ہوں، حالانکہ میرے اوپر اس وقت یہ پابندی لاگو نہیں ہوتی۔

ہمیں اس مسئلہ کا علم اس طرح ہوا کہ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ (جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے) حرم شریف میں بیان فرما رہے تھے اور اذان شروع ہو گئی۔ حضرت نے تھوڑی دیر کے لئے بیان جاری رکھا پھر فرمایا میں نے بیان اس لئے جاری رکھا تاکہ پتا چل جائے کہ جب دینی بات ہو رہی ہو تو اس کے اوپر وہ پابندی نہیں ہے وہ اذان کے وقت بھی جاری رکھی جا سکتی ہے۔ لیکن چونکہ آج کل عموماً لوگ اذان کا ادب نہیں کرتے، لہٰذا اس کی طرف توجہ دلانی پڑتی ہے۔ اس لئے جب آپ کے ہاں اذان ہو تو آپ اذان کی طرف متوجہ ہو جایا کریں۔ بیان چھوڑ دیا کریں کیونکہ یہ بیان record ہوتا ہے اس کو بعد میں بھی سنا جا سکتا ہے۔ اور یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ سارا بیان live سن لیں، جتنا live سن لیا ٹھیک ہے، اور جو رہ گیا، اسے بعد میں پورا کر لیں۔

(3) ۔ اس میں یہ تفصیل ہے کہ لوری دیتے وقت آپ جو اللہ اللہ کہیں، اگر آپ اس کی tone اس طرح کر لیں کہ اس میں ضرب نہ آتی ہو، پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ عورتوں کے لئے ذکر جہری کی پابندی تب ہے جب غیر مرد تک آواز پہنچنے کا خدشہ ہو، اس کے علاوہ منع نہیں ہے ہاں اس کی tone ایسے رکھی جائے کہ ضرب کی صورت نہ بنے۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت والا کی خدمت اقدس میں سوال عرض ہے کہ اس بات میں کیا راز ہے کہ مرید اپنے شیخ کے خدمت میں اور با برکت صحبت میں جب حاضری کی سعادت حاصل کرتا ہے تو وقت میں اتنی برکت محسوس ہوتی ہے کہ سب کام انجام پا جاتے ہیں اور تمام معمولات دین اور انتطامی کام بغیر تھکان کے بآسانی ہو جاتے ہیں اور پھر بھی وقت میں برکت رہتی ہے، جسم میں قوت رہتی ہے۔ لیکن حضرت! اس برکت کو ہم اپنے ہاں نہیں پاتے ہیں، حالانکہ ہم یہاں وہی کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ویسی برکت محسوس نہیں ہوتی، انہی کاموں کو کرنے میں زیادہ دیر لگ جاتی ہے۔ تو اس برکت کو کیسے حاصل کیا جائے۔ جزاکم اللہ خیرا۔

جواب:

ایک بات تو یہ ہے کہ شیخ کچھ نہیں دیتا، دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، البتہ یہ نظام چونکہ الله جل شانهٗ نے بنایا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی لاج رکھتا ہے، اور جسے یہ نکتہ سمجھ آ جائے تو اس کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ کیونکہ جس کو دروازہ نظر آ گیا، اس کو فیض بھی مل جائے گا۔ جس کو دروازہ نظر نہیں آیا، اس نے اسے عام چیز سمجھ لیا، اس کو فیض نہیں ملے گا۔ بزرگوں نے یہ بات فرمائی ہے کہ اگر کوئی اپنے شیخ کو قطب وقت سمجھے، بے شک وہ در حقیقت قطب وقت نہ بھی ہو، پھر بھی مرید کو اس شیخ سے قطب وقت کا ہی فیض ملے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ دینے والی ذات تو اللہ کی ہے، جب مرید نے اپنے دروازے کی قدر کی تو اللہ پاک نے اس کے حساب سے دے دیا۔

قرآن پاک میں ہے: لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ (ابراھیم: 7) ترجمہ: ’’جو شکر کرتا ہے اس کو اللہ پاک مزید عطا فرما دیتے ہیں۔‘‘ لہٰذا جو آدمی شیخ کے ہاں آتا ہے اور اس کے ذہن میں جو بات ہوتی ہے اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ اللہ پاک اس کے لئے انہونی کو ہونی کر دیتا ہے۔ وہ چیزیں جو عام لوگوں کو سمجھ نہیں آتیں، اللہ پاک اس پہ کھول دیتے ہیں۔

ایک تو یہ بات ہوئی۔ دوسری بات وہی حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی بات ہے کہ جب وہ آپ ﷺ کی مجلس سے آئے تو کہنے لگے کہ حنظلہ منافق ہو گیا، حنظلہ منافق ہو گیا، حنظلہ منافق ہو گیا۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ حنظلہ منافق ہو گیا۔ پوچھا: کیسے؟ جواب دیا: میں جب آپ ﷺ کی مجلس میں ہوتا ہوں تو معاملہ اور ہوتا ہے جب باہر آتا ہوں تو اور ہوتا ہے، یہ تو نفاق کی علامت ہے کہ ہم ان کے سامنے ایک طرح ہوتے ہیں اور باہر دوسری طرح ہوتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ بھی فکر مند ہو گئے کہ چلو آپ ﷺ کے پاس چلتے ہیں، یہ تو میرے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ دونوں آپ ﷺ کے خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے دونوں کی بات سنی پھر فرمایا کہ اگر تم ایسے ہی باہر بھی ہونے لگو جیسے میرے پاس ہوتے ہو تو پھر فرشتے تمہارے ساتھ بستروں پہ مصافحہ کرنے لگیں گے۔ لیکن ایسا تو گاہے گاہے ہوتا ہے، ایسا تو گاہے گاہے ہوتا ہے۔

تو یہ بات حقیقت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جو حالت خانقاہ میں ہوتی ہے وہ دوسری جگہوں پر نہیں ہوتی۔ خانقاہ کی برکات اپنی جگہ ہیں اور خانقاہ کی فکر کی برکات اپنی جگہ ہیں۔ جب آپ خانقاہ میں ہوتے ہیں تو خانقاہ کی برکات لے رہے ہوتے ہیں اور جب خانقاہ سے باہر ہوتے ہیں اور آپ کی فکر خانقاہی ہوتی ہے تب آپ خانقاہ کی فکر کی برکات لے رہے ہوتے ہیں۔ اور جتنی خانقاہی فکر اس وقت آپ کے پاس ہے یقیناً کسی اور کے پاس اتنی نہیں ہو گی۔ لہٰذا آپ کو خانقاہ کی فکر کی جو برکات حاصل ہو رہی ہیں اس پہ شکر کریں، اتنا شکر کر لیں کہ آپ کو خانقاہ کی برکات کے برابر برکات ملنے لگیں۔ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ (ابراھیم: 7) لہٰذا اگر آپ خانقاہ کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں، خانقاہی فکر رکھتے ہیں، خانقاہی معمولات کرتے ہیں تو ان شاء اللہ یہ چیزیں وہاں پر بھی وجود میں آئیں گی۔ کیونکہ دینے والی ذات وہی ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ یہاں پر خانقاہ میں جو لوگ آتے ہیں وہ صرف اللہ کے لئے آتے ہیں۔ الحمد للہ! یہاں پر دنیا کے لئے کوئی نہیں آ سکتا۔ منجانب اللہ نظام ہی ایسا بنا ہوا ہے کہ جو دنیا کے لئے آتے ہیں، وہ discourage ہو جاتے ہیں۔ جو بھی آتے ہیں اللہ کے لئے آتے ہیں۔ جس خانقاہ میں اتنے سارے لوگ اللہ کے لئے آ رہے ہوں، ان کی برکت ہو گی یا نہیں ہو گی؟ وہ جو ذکر یہاں پر کریں گے، جو فکر کریں گے، جو اللہ کی طرف ان کی توجہ ہو گی، اس کا اپنا ایک اثر تو ہو گا۔ بے شک وہ اپنے آپ کو کتنا ہی کم سمجھیں لیکن اس چیز کی برکت تو ہو گی۔ ہماری خانقاہ کی یہ ایک خصوصیت ہے کہ اس کو اللہ پاک نے ایسی چیزوں سے ابھی محفوظ رکھا ہے۔ اللہ کا شکر ہے۔ اللہ آئندہ بھی محفوظ رکھے۔ یہاں جو لوگ بھی آئیں گے، وہ اللہ کے لئے آئیں گے اور اسی کی بات یہاں پر ہوتی ہے، یہی بات چلتی ہے، اسی بات کی تلقین کی جاتی ہے۔ تو یہ سلسلہ یہیں چلتا ہے۔ الحمد للہ ۔ ہم دنیا مانگنے سے منع نہیں کرتے، نہ تعویذ کے خلاف ہیں نہ دم کے خلاف ہیں، لیکن ہم یہاں پر دنیاوی چیزوں کو encourage نہیں کرتے۔ آپ بھی آج میری یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لیں، بہت اہم بات کر رہا ہوں۔ ہم یہ کہتے ہیں کیونکہ یہ چیز عاجلہ ہے۔ تعویذ سے آپ کو دنیا کا جو فوری فائدہ ملتا ہے، یہ عاجلہ ہے۔ اور جس کی بات ہم کر رہے ہیں یعنی آخرت، وہ آجلہ ہے۔ جب عاجلہ اور آجلہ اکٹھے ہو جاتے ہیں تو عاجلہ کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے۔ كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ۔ وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ (القيامة: 21-20) یہ اللہ پاک نے فرمایا ہے، ہماری screening کی ہے کہ تم فوری چیز کو پسند کرتے ہو اور آخرت کو چھوڑتے ہو۔ اس لئے ہم نے اس خانقاہ میں ایسی چیزوں کو باوجود اس کے کہ وہ جائز ہیں، encourage نہیں کیا۔ کیونکہ اگر ہم یہاں ان عاجلہ والی چیزوں کو اختیار کر لیں گے، تو لا محالہ ذہن اس طرف جائے گا، نتیجتاً یہ عاجلہ ہی رہ جائے گا اور آجلہ کی بات ختم ہو جائے گی۔ اس لئے الحمد للہ، یہاں پر ہم نے عاجلہ کو discourage کیا ہوا ہے کہ عاجلہ کی بات ہی نہیں کرتے۔ نہ اس کو encourage کرتے ہیں نہ کوئی اس قسم کی بات کرتے ہیں جس سے ایسے لوگوں کو شہ ملے۔ اسی لئے ہمارے پاس تعویذ کے لئے لوگ نہیں آتے، بلکہ آ ہی نہیں سکتے۔ اس لئے ہم ان چیزوں سے محفوظ ہیں۔ اس سلسلے میں میں نے بارہا یہ بتایا ہے کہ ایک بار میں نے استخارہ کیا۔ لوگوں کی تکلیف دیکھ کر میرے دل میں خیال آتا تھا کہ میں بھی یہ خدمت کر لوں تاکہ لوگوں کو فائدہ ہو جائے۔ استخارہ میں جواب آیا کہ نہیں تو نے نہیں کرنا۔ کچھ عرصہ بعد دل میں پھر مخلوق خدا کی خدمت کا جوش آیا، میں نے سوچا کہ خود نہیں کرتا، کسی کو اجازت دے دیتا ہوں کہ وہ کرتا رہے۔ تو میں نے پھر استخارہ کیا۔ جواب آیا کہ نہیں خانقاہ میں نہیں کرنا۔ اس سے پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ اس خانقاہ کو بچانا چاہتے ہیں، یہاں اس چیز کو لانا ہی نہیں چاہتے۔ تو میں اس چیز کو غلط بھی نہیں سمجھتا، ناجائز بھی نہیں سمجھتا کہ ان کے اوپر فتوے لگانا شروع کر دوں کہ تعویذ شرک ہے وغیرہ وغیرہ۔ نہیں بھئی یہ ہمارے بزرگ کرتے رہے ہیں اور پیغمبروں سے بھی ثابت ہے۔ اس کے لئے تو ہم خود دلائل دیتے ہیں۔ یہ ناجائز نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ جو چیز جائز ہو وہ ہر جگہ ہو۔ آخر جہاں پر engineering ہو رہی ہو وہاں medical چیزیں نہیں ہوتیں، تو کیا medical جائز نہیں ہے۔ medical جائز ہے لیکن engineering کے ہاں تو نہیں ملے گی، وہ تو medical کی دکانوں پہ ملے گی۔ اسی طرح ہر جائز چیز ضروری نہیں ہے کہ ہر جگہ ہو۔ ہماری خانقاہ ان جائز چیزوں کے لئے نہیں ہے، ہم کوشش کرتے ہیں کہ یہاں پر یہ چیزیں نہ ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس میں اللہ پاک کی طرف سے تائید بھی ہے۔ اگر مجھے ذرہ بھر بھی کسی پہ شک ہو جاتا ہے کہ یہ دنیا کے لئے آیا ہے تو اس کے ساتھ میری ٹون خود بخود چینج ہو جاتی ہے۔ اس میں میرا اپنے اوپر control ہی نہیں ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ پاک نے یہاں نظام ہی ایسا رکھا ہوا ہے۔ میں بھی اللہ پاک کا بندہ ہوں اور اللہ پاک کے اختیار میں ہوں۔ اللہ پاک میرے دل کو جس طرح کر دے میں اسی طرح کروں گا۔ لوگوں کے دل بھی اللہ پاک کے اختیار میں ہیں۔

بہرحال اس خانقاہ کی اپنی برکت ہے۔ جو لوگ اس خانقاہ میں آئیں گے ان کو یہ فائدے ہوں گے، ان شاء اللہ۔ اور اگر آپ نے اپنے ہاں انگلینڈ میں اس انداز میں کام شروع کر لیا تو امید کرتا ہوں کہ یہی چیزیں وہاں پر بھی پیدا ہو جائیں گی، ان شاء اللہ۔ کیونکہ خانقاہ کی فکر تو ایک ہی ہے، جو فکر یہاں ہے وہاں پر بھی منتقل ہو جائے گی، نتیجتاً جو برکات یہاں پر ہیں وہ برکات وہاں بھی نصیب ہوں گی۔ کیونکہ دینے والی ذات وہی ہے، جو ادھر دے رہا ہے وہ ادھر بھی دے گا۔ ان شاء اللہ!

سوال نمبر 4:

سوال خدمت اقدس میں عرض ہے کہ حضرت والا اکابر اولیا مجددین کی جن مبارک تصانیف کی تشریح اور مجلس منعقد فرماتے ہیں، اس کی تعلیم فرماتے ہیں، ہمیں سمجھانے کی کوشش فرماتے ہیں، تاکہ ہم اپنے عمل میں ان چیزوں کو لائیں، اپنی زندگی کو تبدیل کریں تو اس کا پورا پورا فائدہ کیسے اٹھایا جائے، اس کی سچے معنی میں قدر دانی کیسے کی جائے، سننے کے علاوہ انسان اس سے مزید فائدہ کیسے حاصل کرے، اس کا شکر کیسے ادا کرے، اس سے پورے پورے طور سے مستفید کیسے ہو؟

جواب:

سوال میں آپ نے جو باتیں فرمائی ہیں، وہی آپ کے سوال کا جواب بھی ہیں۔ کیونکہ جب آپ کو اس کا استحضار ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے، تو اس کا مطلب ہے آپ اس سے مستفیض ہو رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل کے دور میں ان چیزوں کا ہمیں مل جانا، یہ محض اللہ پاک کا فضل و احسان ہے۔ ہم ذرہ بھر بھی اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھ سکتے۔ آپ تصور کریں کہ 2015 کے آخری مہینوں میں ہم نے مکتوبات شریف کا درس شروع کیا، اس سے پہلے ہمیں مکتوبات شریف کا ذرہ بھر بھی پتا نہیں تھا۔ بعض کو کچھ نہ کچھ تو پتا ہوتا ہے لیکن ہمیں کچھ بھی پتا نہیں تھا۔ مکتوبات شریف دیکھے تو تھے مگر کبھی پڑھے نہ تھے۔ جو چیز آپ نے پڑھی نہ ہو اور الله جل شانہ آپ کو اس line کے ساتھ ملا دے اور پھر باقاعدہ اس کا درس شروع ہو جائے اور اللہ تعالیٰ اس کے برکات کو کھولنے لگیں اور پوری دنیا میں پھیلانے لگیں، تو محض انہی کا احسان عظیم ہے۔ کیا ہم اس قابل ہو سکتے ہیں؟ یہ قابلیت والی بات نہیں ہے۔ اور جس وقت انسان کو یہ پتا ہو کہ قابلیت والی بات نہیں ہے تو پھر شکر واجب ہے۔ اس میں ہماری اپنی ذات کی کوئی بات ہی نہیں ہے، محض اللہ تعالیٰ ہی دے رہا ہے۔ اس بات کو اچھی طرح ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم اس قابل نہیں ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ دے رہے ہیں۔ اللہ پاک ہی سب اسباب بنا رہے ہیں اور سب اسباب کو ملا رہے ہیں۔ مثنوی شریف کے درس میں جو نتیجہ آتا ہے، مکتوبات شریف کے نتیجہ سے اس کی تائید ہوتی ہے، کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات سے اس کی تائید ہوتی ہے، عبقات کے درس سے اس کی تائید ہوتی ہے، حضرت شاہ ولی رحمۃ اللہ علیہ کے درس سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ ان تمام چیزوں کا کسی ایک نکتے پر اکٹھا ہو جانا یہ بذات خود بہت بڑی معرفت ہے جو اللہ تعالیٰ ہمیں دے رہے ہیں ۔ اس معرفت کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھنا اور لینا یہ بہت ہی اہم بات ہے۔ دیکھو رمضان شریف کے مہینہ میں اللہ پاک دیتا ہے، اس کی رحمت دینے کے لئے خوب برستی ہے کہ جتنا کوئی لوٹ سکتا ہے لوٹ لے۔ اللہ پاک اتنا زیادہ دینا چاہتے ہیں، افطاری کے وقت، سحری کے وقت، آخری عشرے میں اور لیلۃ القدر کی رات، پھر آخری رات، الغرض ایک کوئی وقت بھی ایسا نہیں ہوتا جس میں اللہ پاک کی رحمت برس نہ رہی ہو۔ اس وجہ سے اللہ پاک اس کا شکر بھی چاہتا ہے۔ اگر کوئی نہیں لینا چاہتا تو اس کی سزا بھی اللہ پاک تجویز کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب اللہ پاک اپنی طرف سے خزانے کھول کے دے رہا ہوتا ہے، تو اس کے خزانوں کے لئے دل کو کھول لینا چاہیے، اپنے دل کو بند نہیں کرنا چاہیے اور ہر وقت طالب رہنا چاہیے۔

حضرت ایوب علیہ السلام، اللہ تعالیٰ حضرت کے مقامات اور بلند فرمائے، ان کو اللہ پاک نے تکلیف سے آزمایا۔ وہ بھی آزمائش میں کھرے ثابت ہوئے اور بے مثال صبر کیا۔ بعد میں جب آزمائش ختم ہوئی اور وہ امتحان میں کامیاب ہوئے تو اللہ پاک نے ان کو صحت عطا فرمائی اور گزشتہ اموال اور سارے احوال سب چیزیں دوبارہ واپس لوٹا دیں، بلکہ پہلے سے زیادہ دے دیں تو پھر اللہ پاک نے شکر سے آزمایا اور ایسا آزمایا کہ ان کے گھر پہ سونے کی ٹڈیوں کی بارش ہو گئی۔ حضرت ایوب علیہ السلام چونکہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے، اور اللہ تعالیٰ کے نظام کو جانتے تھے۔ تو جب سونے کی ٹڈیوں کی بارش ہوئی تو وہ باہر بھاگتے تھے اور جھولی بھر کر اندر جا کر رکھ کے پھر دوبارہ بھاگ کر آتے، جھولی بھرتے اور اندر جاتے۔ اللہ پاک کی طرف سے آواز آئی کہ ایوب تیرا پیٹ کب بھرے گا، ایوب تیرا پیٹ کب بھرے گا! انہوں نے فرمایا: یا اللہ تیری رحمت سے میرا پیٹ بھر ہی نہیں سکتا۔ اس کا تو میں ہر وقت محتاج ہوں۔ آپ ﷺ جس وقت کھانا کھاتے، ایک تو یہ خیال کرتے تھے کہ لوگوں کو پہلے بیٹھنا چاہیے کھانا بعد میں آنا چاہیے۔ مسنون دعا فرماتے اور ساتھ یہ فرمایا کرتے کہ یا اللہ میں اس کا پھر بھی محتاج ہوں۔ وقتی طور پہ تو میں اس کو واپس کر رہا ہوں لیکن پھر بھی اس کا محتاج ہوں۔ اس کو یوں سمجھیں۔ مثلاً آپ کو سونے کی کان پر لگا دیا جائے کہ جتنا چاہے سونا لے لو تو کیا خیال ہے آپ تھکیں گے؟ کوئی بھائی آئے گا آپ سے ملنے، کیا آپ اس سے ملیں گے؟ کوئی آپ کے لئے چائے لائے گا، آپ چائے پئیں گے؟ اس وقت آپ کے کیا احوال ہوں گے؟ آپ کہیں گے مجھے زیادہ سے زیادہ لینا چاہیے۔ جو لوگ seasonal کام کرتے ہیں جب ان کے کام کا season ہوتا ہے تب وہ کسی کی پروا نہیں کرتے۔ اپنے دوست کی پروا کرتے ہیں نہ اپنے رشتہ دار کی۔ کہتے ہیں یار پھر ملیں گے ابھی season ہے۔ ان کو پتا ہوتا ہے کہ اس وقت اگر میں نے ان کی طرف توجہ دی تو کام رہ جائے گی۔ جب بڑے بڑے officials کی meeting ہو رہی ہوتی ہے تو کیا ان کے ساتھ کوئی مل سکتا ہے؟ وہ اس وقت اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری meeting ہے ہم اس وقت اور کچھ نہیں کر سکتے۔ انسان کو سمجھ ہوتی ہے کہ مجھے کس چیز میں فائدہ ہے۔

لہٰذا میرا اپنا خیال یہ ہے کہ انسان کو ان تمام چیزوں کا خیال رکھنا پڑے گا۔ ہمیں اللہ پاک جس رفتار سے دے رہے ہیں اور جو چیزیں بار بار سامنے لا رہے ہیں، اس سے مجھے یہی لگ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک خاص چیز اس عالم پہ کھولنا چاہتے ہیں۔ اب اس کے لئے اگر اللہ پاک ہمیں ذریعہ بنانا چاہتے ہیں تو اس کی بہت زیادہ قدر کرنی چاہیے اور ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں نا قدری کی وجہ سے ہم اس سے محروم نہ ہو جائیں۔ میں اکثر سب سے کہتا ہوں کہ یہ special چیز ہے، لہٰذا تھکاوٹ والا معاملہ تو ممکن ہے، قدرتی طور پہ انسان تھکتا ہے تو ذرا سستا لیتا ہے، لیکن اکتانے والی بات نہیں ہونی چاہیے۔ تھکنے والی بات ممکن ہے لیکن اکتانے والی بات نہیں ہونی چاہیے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جس کی قسمت میں جتنا ہوتا ہے اتنا ہی ملتا ہے، یہ ممکن ہے کچھ لوگ پیچھے ہو جائیں، لیکن نظر تو یہی آ رہا ہے کہ اس میں جو جتنا زیادہ حصہ ڈال سکے اسے ڈالنا چاہیے اور اللہ پاک سے مانگنا بھی چاہیے کہ اے اللہ! میں اس قابل نہیں ہوں مجھے اس کے قابل بھی بنا دے اور مجھے اس میں قبول بھی فرما لے۔

سوال نمبر 5:

حضرت صاحب! میں رات کو duty کرتا ہوں۔ دن کو پہلے پہر آرام کرتا ہوں۔ مجھے آج بروز منگل خواب آیا، جس میں دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکا نعت پڑھ رہا ہے، نعت ختم ہونے کے بعد اس لڑکے نے مجھے کہا کہ وہ جو آپ کے مرشد ہیں سید شبیر احمد کاکا خیل صاحب، میں آپ کو ان کی نعت سناؤں؟ میں نے کہا سناؤ۔ جیسے ہی اس نے نعت شروع کی تو دروازے پہ دستک ہوئی اور میری آنکھ کھل گئی۔ اس کی تعبیر بتلا دیں۔

جواب:

اس کی تعبیر یہی ہے کہ ہمارے اصلاحی کلام اور نعتوں میں فیض ہے۔ اس فیض کو حاصل کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ ہماری بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ چیزیں بھیجی جاتی ہیں۔ اس میں مریدوں کو فائدہ ملتا ہے۔

سوال نمبر 6:

ایک صاحب نے مجھے لکھا کہ معمولات میں ناغے ہوتے ہیں تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔

جواب:

میں نے ان کو جواب میں لکھا کہ یہ priority کا مسئلہ ہے۔ آپ معمولات کو وہ priority نہیں دے رہے جو دینی چاہیے۔

اس نے کہا کہ آپ نے بجا فرمایا۔

پھر میں نے انہیں ہدایت کی کہ اب جب بھی ناغہ ہو تو اس سے experience حاصل کرنے کی کوشش کر لیا کریں، غور کر لیا کریں کہ ناغہ کس وجہ سے ہوا ہے پھر اس سے بچنے کی کوشش کر لیا کریں۔ اس کو اپنے لئے challenge سمجھیں اور اس میں ہار نہ مانا کریں۔ اگر شیطان نے آپ کو نیچے گرا دیا ہے تو آپ بھی اس کو گرائیں، بجائے اس کے کہ اسے اور زیادہ موقع دیں، اس کا مقابلہ کریں اور جس وجہ سے ناغہ ہو آئندہ اس سے بچنے کی کوشش کریں۔

سوال نمبر 7:

ایک خاتون کا سوال ہے کہ یہ بات بہت مشکل لگتی ہے کہ بڑے سے بڑے گناہ گار سے بھی اپنے آپ کو حقیر سمجھا جائے۔ کیا پتا اسے توبہ نصیب ہو جائے، اس کا خاتمہ ہم سے اچھی حالت میں ہو اور ہماری کسی عمل پہ پکڑ ہو جائے۔ میں اپنے آپ کو دوسروں سے اچھا تو نہیں سمجھتی البتہ یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ نے مجھے اس حالت سے بچایا ہوا ہے۔ میں دوسروں کو حقیر تو نہیں سمجھ رہی ہوتی لیکن اس کو اپنے سے اچھا بھی نہیں سمجھ پاتی۔ دل سے ایسا نہیں ہوتا۔ کیا یہ تکبر ہے؟

جواب:

ماشاء اللہ اچھی سوچ ہے۔ اس میں تکبر تو نہیں، بے وقوفی ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ پہلے ڈاکو تھے بعد میں اولیاء اللہ کے سردار بنے۔ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ برے سے برے آدمی کو بھی جس اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر چاہے پہنچا دے۔ اگر اپنے آپ کو سب سے حقیر سمجھنے سے آپ کی اصلاح ہو سکتی ہے تو ضرور سوچنا چاہیے۔

سوال نمبر 8:

ایک خاتون مجھے بار بار کہتی تھیں کہ میرا دل ذکر نہیں کرتا۔ کل اس کا میسج آیا کہ حضرت جی یہ دل اللہ پاک کی یاد میں بہت روتا ہے، تڑپتا ہے ایسے لگتا ہے کہ پھٹ جائے گا۔ تمام لطائف ایک ساتھ حرکت میں آ جاتے ہیں۔

میں نے لکھا کہ پہلے تو آپ کہہ رہی تھیں کہ نہیں ہو رہا، اب ہو رہا ہے تو برداشت کریں۔

انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ حضرت! کیا یہ اللہ پاک کی محبت کا کا مل ہوجانا ہے، اس میں میری روحانی ترقی ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ان تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے؟ یہ تو ’’لگے رہو لگے رہو لگ جائے گی ‘‘والی بات ہے۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ صاحب اپنا واقعہ بتاتے ہیں کہ میں ایک دفعہ حضرت کے پاس گیا اور عرض کیا کہ حضرت لوگوں کو رونا آتا ہے مجھے تو بالکل نہیں آتا۔ انہوں نے فرمایا بھئی یہ کوئی ضروری بات نہیں ہے، کبھی کبھی آ بھی جاتا ہے۔ کہتے ہیں اس کے بعد اتنا رونا آنا شروع ہو گیا کہ پسلیاں ٹوٹنے لگیں۔ میں پھر حضرت کے پاس گیا میں نے عرض کیا کہ حضرت اب تو پسلیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ فرمایا یہ کوئی اتنی اہم بات نہیں ہے، ختم بھی ہو جاتا ہے، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کہتے ہیں اس کے بعد وہ ختم ہو گیا۔ چند دن بعد پھر گیا تو میں نے کہا حضرت اب تو بالکل نہیں ہوتا۔ فرمایا پھر پسلیاں ٹوٹنا شروع ہو گئیں تو کیا کرو گے۔ تو بات یہ ہے کہ واقعتاً یہ مقصود نہیں ہے، مقصود تو اس سے یہ ہے کہ اللہ کا تعلق حاصل ہو جائے۔ باقی کوئی چیز حاصل نہ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اسی پہ خوش ہے کہ تم اس کے دروازے پہ کھڑے ہو کر روتے رہو۔ اور تم اس کے دروازے پر ہاتھ پھیلائے کھڑے رو رہے ہو تو سمجھو یہ کامیابی ہے، اس وقت یہی کامیابی ہے۔ اگر وہ اسی پہ راضی ہے تو بس تم یہی کرو۔ کہتے ہیں اپنے لئے خود کوئی چیز تجویز نہ کرو۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اس کو مقصود نہیں بنایا تو تم بھی اس کو مقصود نہ بناؤ۔ اس کے اندر گر کی بات یہی ہے۔ باقی اللہ پاک ہر چیز اپنے وقت پر دیتا ہے۔ جلدی نہیں مچانی چاہیے، اسی کو تعجیل کہتے ہیں۔

سوال نمبر 9:

کچھ دن پہلے آپ نے ایک بات فرمائی تھی کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دونوں کی تعلیمات میں امتیاز یہ ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سالک کو خوش فہمی میں نہیں رہنے دیتے اور آج کل کے حالات کے مطابق بات کرتے ہیں اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات سے اعلیٰ مقامات کی طرف بڑھنے کی حرص ہوتی ہے۔ اس بات کی وضاحت فرما دیں۔

جواب:

ہر زمانے، ہر دور کے اپنے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں لوگوں نے اپنے targets کافی کم رکھے تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ مطمئن ہو جاتے تھے۔ کوئی وجد پہ مطمئن ہو گیا، کوئی خوابوں پہ مطمئن ہو گیا، کوئی چھوٹی چھوٹی تسلیوں سے مطمئن ہو گیا۔ تو حضرت مجدد صاحب نے اس چیز کو discourage کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اخروٹ اور چھوٹی موٹی چیزوں پہ دھوکہ نہ کھانا۔ چلتے رہو چلتے رہو، آگے بڑھتے رہو آگے بڑھتے رہو۔ یہاں کوئی سٹاپ نہیں ہے۔ gain کرتے رہو۔ کیونکہ زندگی بڑی قیمتی ہے۔ آپ اخیر وقت تک ترقی کر سکتے ہیں، بعد میں پھر افسوس ہو گا۔ حضرت کے مد نظر یہ بات تھی کہ لوگ ان چیزوں سے بچ جائیں۔ جبکہ اس وقت میں یہ مسئلہ ہے کہ لوگوں نے واقعتاً اپنے لئے کچھ خوش فہمیاں generate کی ہوتی ہیں۔ بالخصوص شاعروں نے بہت بگاڑ پھیلایا ہے۔ انہوں نے حقائق کو theoretical بنا دیا۔ اور theoretically سمجھ لیتے ہیں کہ بس یہ چیزیں ہمیں حاصل ہو گئیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایسی چیزوں کو discourage کرتے تھے کہ بھئی خوش فہمی میں نہ پڑو کہ اب میں بزرگ بن گیا۔ جیسے کسی نے کہا جی میں ابدال ہو گیا ہوں تو حضرت نے فرمایا بہت افسوس ہوا پہلے آپ گوشت تھے اب دال ہو گئے۔ اس طرح اگر کوئی اپنے بارے میں بزرگی کا شائبہ بھی رکھتا تو حضرت اس پہ اچھی خاصی گرفت کرتے تھے، اور اس بات کو بہت برا سمجھتے کہ اپنے احوال دوسروں کو بتائے جائیں۔ بعض مریدوں میں یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ کوئی اچھا حال محسوس ہو گیا تو دوسروں کو بتاتے پھرتے ہیں۔ یہ بھی بزرگی کا ہی ایک مرض ہے۔ حالانکہ اول تو اچھا حال ضروری نہیں کہ اچھا ہو۔ حضرت اس کی مثال ایسے دیتے تھے کہ جیسے جسم میں سوجن اور ورم ہو تو جسم پھول جاتا ہے۔ بظاہر دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ شاید اس کی صحت بڑی زبردست ہے اور ڈاکٹروں کو دکھائیں تو وہ بتاتے ہیں کہ یہ بے چارہ تو بڑا بیمار ہے۔

مجددین کا کام یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے دور کے مسائل کے لحاظ سے اصلاح کرتے ہیں۔ مجددین کی بالخصوص اور مشائخ کی بالعموم یہ کوشش ہوتی ہے کہ لوگ ان مسائل میں نہ پھنسیں۔ مثلاً یہ خلافت کا چکر بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو بھی بہت discourage کیا ہے۔ اگر کسی کو خلافت کا خیال بھی آتا تو حضرت اس کو بہت پیچھے کر دیتے۔ اصل چیز یہی ہے کہ اگر ایک شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا ہے تو اپنی رائے ختم کر دو، اس کی رائے پہ چلو۔ اگر وہ کہتے ہیں تم ٹھیک ہو گئے ہو تو سمجھو کہ ٹھیک ہو گیا ہوں اور اگر وہ کہتے ہیں کہ ٹھیک نہیں ہوئے تو پھر سمجھو کہ ٹھیک نہیں ہوا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جن کو توفیق عطا فرما دیتے ہیں تو انہیں اتنی تواضع عطا فرما دیتے ہیں کہ انہیں یقین نہیں ہوتا کہ ہمیں نسبت حاصل ہو گئی ہے، پھر شیخ ان کو تسلی دیتا ہے کہ الحمد للہ آپ کو نسبت حاصل ہو گئی اور وہ اپنے اوپر بد گمانی میں اس حد تک چلا گیا ہوتا ہے کہ اس کو تسلیم نہیں کر پاتا۔

جب میں نے مفتی نعیم صاحب کو اجازت دی تو وہ کہتے ہیں میں پورے راستے میں یہی سوچتا رہا کہ آخر شاہ صاحب بھی انسان ہیں، ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے میرے معاملے میں غلط ہو گئے ہوں۔ اب یہ سوچ ان کی خوبی تھی، لیکن اس کو دور کرنا بھی ضروری تھا کیونکہ خلاف واقعہ تھی۔ بعد میں اللہ پاک نے خود اس کو دور کر دیا۔ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے خاندان کے سادات میں سے بڑے بزرگوں میں سے کوئی آئے، انہوں نے میرا سینہ چیرا اور اس سے دل نکالا، دل کو چیرا، اس میں سے گند نکالا پھر اس میں تختی رکھ دی۔ تختی پہ لکھا ہوا تھا کَرّمَ اللّٰہُ وَجْہَہ۔ پھر وہ تختی دل میں رکھ کر دل کو بند کیا، پھر سینے کو بند کیا۔ جب میری آنکھ کھلی تو مجھے شرح صدر ہو گیا۔ میں نے کہا کہ آپ کو شرح صدر تو نہیں شق الصدر ہو گیا۔

اس لئے عرض کرتا ہوں کہ سب سے بڑی بات ہے اللہ پہ توکل کرو اور ہر بات اللہ پہ تفویض کر دو۔ اور اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے شیخ پر اعتماد کر لو۔ بس یہ دو باتیں ہیں، اصل بات تو اللہ پہ تفویض و توکل اور بھروسہ ہے، پھر اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے شیخ پر اعتماد ہے۔ جس کو یہ چیز جلدی حاصل ہو گئی تو اس کو جلدی فائدہ ہونا شروع ہو جاتا ہے جس کو دیر سے حاصل ہو اس کو دیر سے فائدہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر 10:

شاہ صاحب! یہ جو شیطانی وسوسے آتے ہیں، ان سے کس طرح بچا جا سکتا ہے؟

جواب:

ماشاء اللہ! بڑا اچھا سوال ہے۔ بیٹا بات یہ ہے کہ آپ نے کہا کہ شیطانی وسوسے۔ اب آپ بتائیں کہ اگر زید نے کوئی غلطی کی تو کیا بکر سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اس نے غلطی کیوں کی؟ کیا خیال ہے؟ اس سے پوچھا جائے گا؟ آپ میری بات تک نہیں پہنچے۔ اگر احمد نے غلطی کی تو عبد الرحمن سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اس نے کیوں غلطی کی؟ ہرگز نہیں پوچھا جائے گا۔ اسی طرح سمجھیں کہ اگر شیطان نے کوئی غلط بات کی یا آپ کے دل میں وسوسہ ڈال دیا، تو یہ شیطان کا کام ہوا، تو اس کے کام کے بارے میں آپ سے تو نہیں پوچھا جائے گا۔ جب آپ سے پوچھا ہی نہیں جائے گا تو پھر اس کی فکر کیوں کرتے ہو؟ جب آپ اس کی فکر چھوڑ دیں گے تو یہ چیزیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ جتنا آپ اس کی فکر کریں گے یہ مزید بڑھیں گے۔ کیونکہ شیطان کو پتا چل جائے گا کہ یہ اس طرح سے تنگ ہوتا ہے اور وہ تنگ ہی کرنا چاہتا ہے، اس لئے مزید وسوسے ڈالے گا۔ جب آپ بالکل پروا کرنا چھوڑ دیں گے تو وہ کہے گا یہ تو میری ساری محنت ضائع و رائیگاں چلی جاتی ہے، یہ تو پروا ہی نہیں کرتا، لہٰذا وہ وسوسے ڈالنا چھوڑ دے گا۔

سوال نمبر 11:

حضرت! عاجلہ اور آخرہ کے حوالے سے ایک بزرگ عالم نے فرمایا کہ جب آیا کرو کوئی ہدیہ لے آیا کرو۔ اب بظاہر بات عاجلہ کی تھی لیکن اس سے مجھے ایک دینی تقویت ملی اور مجھ پہ بہت اچھا اثر پڑا۔ ایسے لگا جیسے انہوں نے میری کوئی اصلاحی بات کی ہے۔ کسی دوسرے موقع پر ایک صاحب نے بظاہر آخرت کے حوالے سے ایک دینی بات کی، لیکن اس کا اثر اس طرح پڑا کہ جیسے انہوں نے چھرا مار دیا ہو۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

جواب:

اس کی وجہ مناسبت اور عدم مناسبت ہے۔ جن کے ساتھ آپ کو مناسبت نہیں ہے، نہ وہ آپ کو سمجھ سکتے ہیں نہ آپ ان کو سمجھ سکتے ہیں۔ لہٰذا اس نے غلط جگہ پہ غلط بات کر لی۔ جو بات اس کو آپ کے ساتھ کرنی چاہیے تھی اس نے کی ہی نہیں۔ اگر آپ کو کوئی نہ سمجھے تو وہ آپ کے بارے میں صحیح بات نہیں کر سکتا۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں اور تبلیغی جماعت کی مثال دیتا ہوں کیونکہ آپ اس میں رہے ہیں۔ ایک تبلیغی بیان ہو رہا تھا ایک صاحب آ کر بیان میں بیٹھے۔ بیان ختم ہوا تو بہت سارے لوگوں نے وقت لکھوایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ بہت پر اثر بیان تھا۔ ان صاحب نے اس بیان کو رٹ لیا اور ایک دوسری جگہ وہی بیان کیا۔ لیکن نتیجہ ویسا نہ نکلا۔ کسی نے بھی وقت نہیں لکھوایا۔ ان صاحب نے اپنے ایک بزرگ سے پوچھا کہ یہ کیا وجہ ہے کہ پہلے تو بہت سارے لوگوں نے وقت لکھوایا، اب یہاں میں نے وہی باتیں کیں لیکن کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا؟ بزرگ نے پوچھا کہ آپ نے کون سے مجمع سے بات کی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ غریبوں کا مجمع تھا۔ بزرگ نے کہا کہ اصل بیان مالداروں کے مجمع میں ہوا تھا۔ جو بیان مال داروں کے لئے تھا آپ نے غریبوں میں کیا، اس لئے اس کا ویسا اثر نہ ہوا۔ تو یہ مناسبت کی بات ہوتی ہے کہ بعض اوقات انسان کو تسلی دینی ہوتی ہے، اس وقت آپ اس کو مایوس کر دیتے ہیں تو ظاہر ہے اس پہ آپ کی بات اثر نہیں ہوتا اور بعض اوقات کسی کو ڈرانا ہوتا ہے، آپ اس کو خوش خبریاں سنانا شروع کر لیتے ہیں تب بھی اس پہ اثر نہیں ہوتا۔ اسی لئے ہمارے شیخ نے تو فرمایا تھا بھئی باتیں سب کی سنو، لیکن مانو اس کی جس کو مربی بنایا ہے۔ حضرت نے یہ مجھے خاص نصیحت فرمائی تھی۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ