اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
حضرت جی۔ میں پہلے کی طرح دعائیں نہیں مانگ رہا، بے ہمت سا ہو گیا ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ یہ حالت تباہ کن ہے لیکن میں اسی حالت میں پھنس گیا ہوں۔ اللہ کرے کہ میں تباہی کے راستے پہ نہ جاؤں، جو چیزیں مجھے اللہ سے دور کرنے والی ہیں اللہ تعالیٰ مجھے ان سے بچائے۔
جواب:
ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں۔ اگر انسان قبض و یاس کی حالت میں صبر کر لے اور اور الله جل شانہٗ کے کئے پر راضی رہے تو تصوف میں سلوک کے مشکل مقامات بہت آسانی کے ساتھ طے ہو جاتے ہیں۔ اگر انسان کی تمام خواہشیں دنیا میں پوری ہو جائیں تو بلا شبہ اس کی دنیا کامیاب ہے لیکن ایسی صورت میں آخرت میں کامیابی کے لئے بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ اگر دنیا میں کچھ خواہشات پوری نہ ہوں کچھ حالات اپنی منشا کے مطابق نہ ہوں تو اس پر انسان کو جو تکلیف ہوتی ہے اللہ پاک آخرت میں اس تکلیف کا اجر دیں گے۔
لہٰذا اگر آپ اپنی اس حالت کو اپنی اصلاح کے لئے استعمال کر لیں اور یہ سوچیں کہ یہ میری تربیت ہو رہی ہے کہ ایسے حالات مجھ پر آ گئے ہیں کہ مجھے کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا اور اس پر صبر کریں تو ان شاء اللہ اللہ پاک اسے آپ کی دنیا اور آخرت دونوں کے لئے آسانی کا ذریعہ بنا دیں گے۔ قرآن شریف میں آتا ہے:
﴿وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِؕ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ﴾ (البقرۃ: 214)
ترجمہ: ”ابھی تمہیں اس جیسے حالات پیش نہیں آئے جیسے ان لوگوں کو پیش آئے تھے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں، اور انھیں ہلا ڈالا گیا، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ایمان والے ساتھ بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ یاد رکھو! اللہ کی مدد نزدیک ہے۔“
ایسے حالات میں یہ سوچنا چاہیے کہ اللہ پاک نے یہ حالات مجھ پر اس لئے ڈالے ہیں تاکہ میں صبر کروں، اللہ پاک کے سامنے گڑگڑاؤں، الحاح و زاری کروں اور اس کے بدلے میں میرے درجات بلند ہوں، میری تکلیف کے بدلے میں میرے لئے آخرت کے ذخیرے تیار ہوں۔
ہم ایسی حالت کو غیر اختیاری مجاہدہ کہتے ہیں۔ غیر اختیاری مجاہدے میں برسوں کے راستے آن کی آن میں طے ہو جاتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنا چاہیے اور اللہ پاک کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اگر دل نہ چاہتا ہو پھر بھی زبردستی اللہ پاک کی طرف توجہ رکھنی چاہیے۔ دل نہ چاہنے کے باوجود اللہ پاک کے آگے دست سوال دراز کرنا، یہی تو مجاہدہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر رونا نہ آئے تو رونے کی شکل بنا لیں۔ اسی طرح اگر دل راضی نہیں ہے تو کوئی بات نہیں راضی ہونے کی صورت بنا لے، زبان سے کہے کہ یا اللہ میں اس پر راضی ہوں تو مجھے قبول فرما لے اور میری مشکلات کو دور فرما دے۔ دعاؤں میں کمی نہیں کرنی چاہیے۔ آپ یہ جو کہہ رہے ہیں کہ اللہ نہ کرے کہ میں گناہوں اور اللہ پاک سے دور کرنے والے اعمال کی طرف چلا جاؤں۔ یہ بھی تو دعا ہی ہے، دعا تو آپ کر ہی رہے ہیں بس اتنا اور کر لیں کہ مایوس نہ ہوں، مایوسی انسان کو بہت دور لے جاتی ہے۔ آپ اللہ پاک سے اچھی چیز کی امید رکھیں۔
خود میرے ساتھ یہ حالت تقریباً 8 مہینے گزری ہے۔ ایک دن میں نے قرآن پاک کھولا کہ دیکھوں میرے لئے کیا پیغام ہے۔ قرآن پاک کھولنے پر اللہ پاک کی طرف سے جو صفحہ کھلا اور جو آیت سامنے آئی وہ یہ تھی:
﴿عَسىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْـًٔا وَّ هُوَ خَيرٌ لَكُم ۖ وَ عَسىٰ أَن تُحِبّوا شَيْـًٔا وَّ هُوَ شَرٌّ لَكُم وَ اللهُ يَعلَمُ وَ أَنتُم لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرہ: 216)
ترجمہ: ”عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو، اور (اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے“۔
جب میں نے یہ آیت پڑھی تو میری ساری پریشانی دور ہو گئی۔ میں نے سوچا کہ اللہ جب چاہے گا میری حالت ٹھیک کردے گا۔ اس کے بعد حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے۔ یہی چیز اللہ پاک نے مجھے دکھانی تھی بلکہ اس حالت تک پہنچا کر مجھے سمجھانا تھا۔ الحمد للہ اس حالت پہ پہنچ کر وہ نعمت مجھے مل گئی۔
بہرحال میری رائے یہی ہے کہ دل نہ بھی چاہے تو ایسی حالت میں اللہ پاک کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، خوب دل سے ذکر کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر2:
الحمد للہ ذکر اور قرآن پاک کی تلاوت ایک پاؤ زبانی اور ایک سہ پارہ ناظرہ کا باقاعدہ آغاز آج سے کر دیا ہے۔ کل سے ان شاء اللہ با جماعت نماز اور دروس میں شرکت کا ارادہ بھی ہے۔ دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
اللہ پاک کا شکر ہے کہ آپ کو اس کی فکر ہو گئی۔ اللہ جل شانہ آپ کو یہ سمجھ پختہ طور پر عنایت فرما دے اور دروس میں بھی شرکت کی توفیق عطا فرمائے۔ انسان بارہا ارادہ کر لیتا ہے لیکن شیطان اس کو عمل نہیں کرنے دیتا۔ جو ارادہ کیا جائے چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، اس پر فوراً عمل کرنا چاہیے تاکہ شیطان کو شکست ہو اور نفس کی تربیت شروع ہو جائے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی اللہ تعالیٰ آپ کی صحت اور عمر ميں برکت عطا فرمائے۔ دفتر کی طرف سے میری duty رات کو لگا دی گئی ہے، پوری رات کام کرنا ہے، clients پکڑنے ہیں اور project deliver بھی کرنے ہیں۔ گھر میں بھی کام کرنا ہے۔ سالانہ statistics کی وجہ سے فی الحال کام بھی نہیں ہے، حالات کچھ ایسے بن رہے ہیں کہ شاید میں اِن کے ساتھ زیادہ عرصہ نہ رہ سکوں، ملک سے باہر جانے کو بھی دل نہیں کرتا۔ اپنا کام شروع کرنا چاہتا ہوں، لیکن ہمت نہیں ہوتی۔ سوچ میں تضاد کی وجہ سے کسی کے ماتحت کام زیادہ دیر نہيں چلتا۔ جب سے دینی معاملات قدرے بہتر ہوئے ہیں دنیاوی کام بھی بہتر ہوئے ہیں، حالات کچھ اس طرح بن جاتے ہیں جو میرے لئے اچھے ہوتے ہیں۔ موجودہ حالات بھی ایسے بن رہے ہیں کہ یا تو کہیں اور ملازمت کروں یا اپنا کام شروع کر دوں، سرکاری نوکری کے لئے بھی درخواستیں دینا شروع کی ہیں۔ سنت صحابہ یہ رہی ہے کہ آپ ﷺ سے اپنے دنیاوی معاملات کے بارے میں مشورہ فرماتے تھے۔ آپ سے اس معاملے میں رہنمائی کی درخواست ہے۔ اگر لکھنے میں کوئی غلطی یا کمی کوتاہی ہوئی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔
جواب:
بلاشبہ دعائیں کرنی چاہئیں اور میں ہمارے سب ساتھیوں کی بہتری کے لئے دعائیں کرتا ہوں، دنیا کے لئے بھی اور آخرت کے لئے بھی۔ البتہ یہ جو آپ نے فرمایا کہ صحابہ آپ ﷺ سے اپنے دنیاوی معاملات کے بارے میں مشورہ فرماتے تھے تو یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ ﷺ نے کچھ معاملات میں انہیں یہ بھی فرمایا ہے:
”اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ“ (صحیح مسلم: 2363)
ترجمہ: ”تم اپنے دنیاوی امور کو زیادہ جانتے ہو“
کچھ معاملات آپ ﷺ نے انہی کے اوپر چھوڑے ہیں۔ اتنا حکم ضرور دیا ہے کہ دنیاوی معاملات میں شریعت کی مخالفت نہیں ہونی چاہیے لیکن دنیاوی معاملات کیسے کرنا چاہئیں یہ ہر کوئی اپنے شعبہ کے بارے میں زیادہ بہتر جانتا ہے۔
مجھ سے کسی نے کاروبار کے بارے میں مشورہ کیا تو میں نے جواب دیا کہ بھئی میں ملازم تو رہا ہوں، ملازمت کے بارے میں تو کچھ بہتر جانتا ہوں، اگر اس کے بارے میں کوئی مشورہ کرنا چاہے تو اس کو مشورہ بھی دے سکتا ہوں لیکن میں نے کبھی کاروبار نہیں کیا ہے لہٰذا کاروبار کا مشورہ کیسے دوں گا اگر دوں گا بھی تو شاید اسباب کے رخ سے مناسب نہ ہو، ممکن ہے اس میں غلطی ہو جائے۔ اس وجہ سے میں کاروباری مشورے نہیں دیا کرتا، البتہ دعا ہر صورت میں کرتا ہوں۔
آپ کے لئے یہ مشورہ ہے کہ آپ استخارہ کر لیں اور استخارہ کے بعد جو آپ کے دل میں آ جائے وہی کر لیں۔ البتہ کسی کام میں سستی نہیں ہونی چاہیے، سستی کا علاج چستی ہے۔ مثلاً آپ کسی جگہ ملازمت کر رہے ہیں تو اس میں سستی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ آپ اس کے ذریعہ سے کما رہے ہیں۔ اس لئے کوئی بھی معاملہ ہو اپنے آپ کو سستی سے بچائیں۔ البتہ یہ کہ آپ اپنے دنیاوی معاملات میں کیا کریں اور کیا نہ کریں، اس کے بارے میں میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ آپ کے دل میں صحیح بات آ جائے۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم۔ حضرت جی کچھ عرصہ پہلے میں نے بد نظری کا مجاہدہ کیا تھا جس سے اللہ پاک کی بہت مدد آئی۔ اس وقت معمولات میں کبھی کبھار ناغہ ہو جاتا تھا اب اللہ کے فضل سے ناغوں میں کمی آ گئی ہے لیکن بد نظری کا مسئلہ دوبارہ پیش آنے لگا ہے۔ کیا بد نظری کا مجاہدہ دوبارہ شروع کر دوں۔ رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
مجاہدہ حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی نے کوئی چیز حاصل کی ہو، اس کے اندر دوبارہ کمزوری آ جائے تو اسے دوبارہ وہی مجاہدہ کر لینا چاہیے۔ در اصل آپ کے معمولات میں پابندی آ گئی ہے اس لئے شیطان آپ کی طرف زیادہ متوجہ ہو گیا ہے اور اب آپ کو اِس طرف سے خراب کرنا چاہتا ہے۔ شیطان کا مقابلہ کرنے کے لئے آپ دوبارہ بد نظری کا مجاہدہ کر لیں۔ یہ 25 منٹ کا مجاہدہ جو آپ نے پہلے کیا تھا وہی روزانہ کر لیا کریں۔ ان شاء اللہ العزیز اللہ جل شانہ تو فیق عطا فرمائیں گے۔
سوال نمبر5:
حضرت ایک بہت اہم بات دریافت کرنی ہے کہ نقشہ جات میں مکروہ وقت زوال سے 40، 45 اور 50 منٹ پہلے کا لکھا ہے کہ اس وقت میں نماز پڑھنا ممنوع ہے، یہ کس بنیاد پر لکھا گیا ہے؟
جواب:
در اصل یہ ایک غلط فہمی ہے جو کسی وقت ہوئی تھی۔ مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کے بارے میں لکھا ہے۔ حدیث شریف سے زوال کا جو وقت ثابت ہے وہ استوائے شمس کا وقت ہے یعنی جب سورج بالکل وسط میں آ جائے، مغرب اور مشرق کے بالکل درمیان آ جائے۔ جب اس کا سایہ جنوب سے شمال کی طرف شمالی نصف کرہ میں آ جائے تو اس کو ہم وقت زوال کہتے ہیں۔ یہ اصل میں تو بس ایک لمحہ کے لئے ہوتا ہے کیونکہ جس وقت سورج کی قرص (ٹکیہ) اس لائن پر آئے گا وہ صرف ایک لمحہ کے لئے ہو گا، ایک ہی لمحہ بعد سورج درمیان میں نہیں رہے گا بلکہ آگے بڑھ جائے گا۔ علمائے فن نے اس پر یہ کہا ہے کہ جتنی دیر میں سورج کی پوری ٹکیہ اس لائن سے گزرتی ہے وہ پورا وقت زوال کا ہے اور یہ وقت تقریباً 2 منٹ 8 سیکنڈ بنتا ہے۔ 2 منٹ 8 سیکنڈ میں پورے سورج کا قرص اس لائن سے گزر جاتا ہے۔ یہی وقت زوال ہے۔ جب ہم زوال کے وقت کا حساب لگاتے ہیں تو بڑے علاقہ کے لئے 3 یا 4 منٹ کا اضافہ احتیاط کے طور پر کرتے ہیں اور یہ اضافہ ابتدا اور انتہا دونوں طرف ہوتا ہے۔ اس حساب سے اگر کسی نقشے میں 3 منٹ کی احتیاط ہے تو اس کے ساتھ 6 منٹ اضافی شامل کرنے ہوں گے، لہٰذا کسی نقشے میں زوال کا جو وقت لکھا ہو آپ احتیاطاً 6، 7 منٹ اس کے شروع ہونے سے پہلے شامل کر لیں اور 6، 7 منٹ اس کے ختم ہونے کے بعد شامل کر لیں، درمیان کا سارا وقت زوال کا شمار ہو گا، اس وقت میں آپ کوئی نماز نہ پڑھیں۔ باقی یہ جو 40، 50 منٹ والی بات ہے اس کا زوال سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ در اصل ایک غلط فہمی تھی جو بعد میں حل ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بعض لوگوں نے نصف النہار شرعی اور نصف النہار حقیقی میں فرق نہیں کیا۔ نصف النہار شرعی اس کو کہتے ہیں کہ جیسے کسی نے روزہ رکھا ہے، روزہ کے وقت کو دو حصوں میں برابر تقسیم کریں تو جس وقت پر پہلا حصہ ختم ہوتا ہے وہ نصف النہار شرعی کہلائے گا۔ اگر کسی نے صبح روزہ کی نیت نہ کی ہو تو نصف النہار شرعی تک نیت کر سکتا ہے، اس وقت تک نیت معتبر ہو گی، نصف النہار شرعی کے بعد کی نیت معتبر نہیں ہو گی، اگر کوئی نصف النہار کے بعد روزہ کی نیت کرے تو اس کا روزہ نہیں ہو گا۔ یہ نصف النہار شرعی زوال سے 40، 50 منٹ پہلے ہوتا ہے، اس کو لوگوں نے نصف النہار حقیقی سمجھ لیا۔ یہ غلط فہمی ہے اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم۔ حضرت جی الحمد للہ خواتین کے group میں ہر ہفتے سنت بھیجنے کا معمول جاری ہے پہلے ہفتے 4 سنتیں بھیجی گئیں۔ کھانے کی سنت، سونے کی سنت، قضائے حاجت کی سنت، مسواک کی سنت۔ ایک سوالنامہ بنا کر رپورٹ لے لی ہے جو اگلے میسج میں بھیج رہی ہوں۔
جواب:
اللہ تعالیٰ مزید برکت عطا فرمائے۔ مجھے اس بات پر بڑی خوشی ہے کہ خواتین میں سنتوں پہ عمل کی سرگرمی ہو رہی ہے، اللہ تعالیٰ مردوں کو بھی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
سوال نمبر7:
حضرت جی آپ نے مجلسِ سوال و جواب میں بتایا تھا کہ یہ کیسے پتا چلتا ہے کہ ہمیں جذب حاصل ہو گیا ہے۔ کیا اللہ پاک کو پانے کی خواہش کرنا اور اللہ کی یاد میں رونا جذب کی نشانی ہے؟
جواب:
جب کوئی سالک اپنے شیخ کے ساتھ تعلق اور رابطہ مسلسل استوار رکھتا ہے اور شیخ کو اپنے احوال سے آگاہ کرتا رہتا ہے تو شیخ کو معلوم ہوتا رہتا ہے کہ کیا صورت حال ہے۔ شیخ جو معمولات سالک کو دیتا ہے، سالک ان پر عمل کر کے شیخ کو اپنے احوال و کیفیات بتاتا ہے، ان سے شیخ اندازہ لگا لیتا ہے کہ اسے جذب حاصل ہوا ہے یا نہیں۔ اس بات کا پتا لگانا در اصل شیخ ہی کا منصب ہے، سالک کا کام نہیں کہ وہ اس کی جستجو کرے کہ مجھے جذب حاصل ہوا یا نہیں، اس کا کام صرف شیخ کے دیئے ہوئے معمولات پر عمل کر کے شیخ کو احوال و کیفیات سے آگاہ کرتے رہنا ہے۔ جو خود اپنے طور پر اس بات کا اندازہ لگانے لگ جائے وہ خود رائی کا شکار ہو جاتا ہے اور خود رائی ایک صفت مذمومہ ہے اس سے بچنا چاہیے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک مرید نے لکھا کہ ”حضرت میں اَبْدال ہو گیا ہوں“۔ حضرت نے فرمایا: ”بہت افسوس ہوا، آپ پہلے گوشت تھے اب دال ہو گئے ہیں“۔
اپنے بارے میں اندازہ لگانا بڑا مشکل کام ہے اس لئے یہ کام شیخ پہ چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر مرید شیخ کو اپنے احوال و کیفیات سے آگاہ کرتا رہے تو شیخ کو مرید کے بارے میں بہت ساری معلوم ہو جاتی ہیں جو خود مرید کو معلوم نہیں ہوتیں۔ بعض دفعہ مرید کے روحانی حالات بہت اعلیٰ ہوتے ہیں لیکن شیخ اس کے اوپر کچھ نہیں کھولتا تاکہ وہ عجب میں نہ آئے، اس کے ساتھ سختی کا معاملہ کرتا ہے اور بعض دفعہ مرید بہت نچلی سطح پہ ہوتا ہے لیکن شیخ اس کی ہمت بڑھانے کے لئے اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اسے اس کی اصل حالت سے آگاہ نہیں کرتا کہ کہیں یہ مایوس نہ ہو جائے۔
لہٰذا اس بات کا پتا لگانا خود اپنے لئے بھی مشکل ہے اور دوسرے لوگوں کے لئے بھی مشکل ہے، ان چیزوں کا فیصلہ شیخ پر چھوڑنا چاہیے۔ اگر وہ کسی کے بارے میں فیصلہ کرے کہ اس کو جذب حاصل ہو چکا ہے تو خود ہی اسے سلوک پر لگا دیں گے۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم شاہ صاحب انسان کو کیسے پتا چلتا ہے کہ اُس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟
جواب:
اس بات کا تو قرآن و سنت سے ہی پتا چل سکتا ہے کہ ہمارا مقصد کیا ہے۔ اللہ پاک ہم کو بہتر جانتے ہیں، اللہ پاک ہم پر ہم سے زیادہ مہربان بھی ہیں اور ہماری ساری باتوں کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ اللہ ہی جانتے ہیں کہ ہمارے پیدا ہونے کا مقصد کیا ہے۔ لہٰذا جو مقصد اللہ پاک نے بتا دیا وہی ہمارا مقصد ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
﴿وَما خَلَقتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلّا لِيَعبُدوْنِ﴾ (الذاریات: 56)
ترجمہ: ”اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں“۔
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”لِیَعْبُدُوْنِ اَیْ لِیَعْرِفُوْنِ“۔
ترجمہ: ”تاکہ وہ میری عبادت کریں یعنی وہ مجھے پہچانیں“۔
یعنی اللہ پاک نے ہمیں اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ ہم اللہ پاک کی عبادت کریں، یہاں عبادت سے مراد اللہ کی معرفت حاصل کرنا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ عبادت اور عبدیت ظاہر ہے اور معرفت باطن ہے۔ معرفت کے بغیر عبادت نہیں ہو سکتی اور عبادت و عبدیت کے بغیر معرفت حاصل نہیں ہو سکتی، یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔
معلوم ہوا کہ ہماری زندگی کا مقصد اللہ پاک کی بندگی کرنا اور اس کی معرفت حاصل کرنا ہے۔ بنیادی مقصد تو یہی ہے باقی سب اس کی تشریحات ہیں۔ الله جل شانہٗ سمجھ کی توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر9:
حضرت جی۔ میرے خواب بہت پریشان ہوتے ہیں میں اکثر یہ پریشان خواب دیکھتی رہتی ہوں، یہ بات مجھے تکلیف پہنچاتی ہے۔ کافی عرصے سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ نہ یہ خواب بہت برے ہیں اور نہ ہی اچھے ہیں لیکن میں ان سے تنگ ہوں۔
جواب:
اس سلسلے میں یہ عرض کروں گا کہ ممکن ہے آپ خوابوں سے اس لئے تنگ ہوں کہ آپ خوابوں کو اہمیت دیتی ہیں۔ خوابوں کو اہمیت دینا چھوڑ دیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جو اس صدی کے مجدد ہیں، وہ اکثر ایسے مواقع پر یہ شعر پڑھا کرتے تھے:
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم
من ہمہ ز آفتاب و ہمہ ز آفتاب گویم
نہ تو میں رات ہوں نہ رات کا پرستار ہوں کہ رات کی باتیں کروں میں تو آفتاب کے ساتھ ہوں اور دن کی باتیں کرتا ہوں۔
اس لئے دن کے حالات میں اپنے احوال کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ خوابوں کی دنیا میں نہ رہیں خوابوں کی دنیا سے باہر آ جائیں۔ اگر کوئی برا خواب آئے تو حدیث شریف میں اس کا طریقہ موجود ہے اس پر عمل کریں۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ جب برے خواب سے آنکھ کھلے تو بائیں طرف بشرطیکہ وہ قبلہ کا رخ نہ ہو‘ 3 بار تھتکاریں پھر ”اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم“ پڑھیں۔ خواب کسی کو نہ بتائیں اور بس بھول جائیں تو اس خواب کا کوئی برا اثر نہیں ہو گا۔ ایسا کرنے سے یہ خواب وسوسے کی طرح ہو جائیں گے۔ وسوسہ آنا یا نہ آنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا اس کا علاج یہی ہوتا ہے کہ اس کی پروا نہ کرے، جب پروا کرنا چھوڑ دے گا تو تنگ نہیں ہو گا۔ اگر وسوسہ کی پروا کرے گا تو وسوسے اور زیادہ آئیں گے۔ جب آپ ان خوابوں کے ساتھ یہ طریقہ کار اختیار کریں گی اور پروا نہیں کریں گی تو ان شاء اللہ یہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔
سوال نمبر10:
خواتین کے مخصوص ایام میں وہ نماز نہیں پڑھ سکتیں، لیکن نماز کے بعد جو تسبیحات پڑھی جاتی ہیں ان کا کیا حکم ہے، وہ پڑھ سکتی ہیں یا نہیں؟ نیز یہ بھی بتا دیں کہ عام دنوں میں نماز قضا ہو جانے کی صورت میں ان تسبیحات کا کیا حکم ہے؟
جواب:
نماز کے بعد کی تسبیحات نماز کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہیں، جب نماز وقت پہ پڑھی جائے گی تو اس کے ساتھ ہی ان تسبیحات کو پڑھیں گے اور اگر نماز قضا ہو جائے تو جب قضا پڑھیں گے تو اس کے ساتھ ہی ان تسبیحات کو بھی پڑھ لیں گے۔ مجبوری کے ایام میں خواتین کے لئے نماز معاف ہے، ان نمازوں کے ساتھ ان کی تسبیحات بھی معاف ہیں۔ ہمارے بزرگ فرماتے ہیں بہتر یہ ہے کہ خواتین مجبوری کے ایام میں نماز کے وقت بیٹھ کر کچھ اللہ اللہ کر لیا کریں تاکہ نماز کی عادت نہ چھوٹے۔ بہر حال عام دنوں میں نماز کی قضا بالکل نہیں کرنی چاہیے، جبکہ مخصوص دنوں میں نماز معاف ہوتی ہے اور تسبیحات بھی معاف ہوتی ہیں، ہاں خواتین کو چاہیے کہ نماز کے اوقات میں کچھ دیر بیٹھ کر ذکر کر لیا کریں تاکہ عادت برقرار رہے۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم۔ حضرت جی آج کل میرے احوال اچھے نہیں ہیں۔ میں نمازیں نہیں پڑھ رہا۔ فلمیں دیکھتا ہوں۔ جو مسائل پہلے تھے وہی پھر ہو گئے ہیں۔ توبہ کرتا ہوں، ایک دن ٹھیک گزرتا ہے اگلے دن پھر وہی سب شروع ہو جاتا ہے۔ نیند کی روٹین بھی پہلے جیسی ہو گئی ہے، ساری رات جاگنا دن کو سونا۔ سب ختم ہو گیا ہے۔
جواب:
کیا خیال ہے میں اس پہ آپ کو مبارک باد دے دوں؟ چلیں اگر آپ مبارک باد چاہتے ہیں تو میں مبارک باد دے دیتا ہوں، آپ نے بہت اچھا کیا کہ اپنے آپ کو اس حالت تک پہنچا دیا۔
یہ تو ہمت کی باتیں ہوتی ہیں، ہمت کرنے سے ہوتی ہیں۔ اگر آپ اپنے دنیا کے کام نہیں کریں گے تو لوگ آپ کو کیا کہیں گے؟ یہی کہیں گے کہ ہمت کرو بے ہمتی نہ کرو۔ اسی طرح جب آپ دین کے کام چھوڑ دیں گے تو اس سلسلہ میں جو آپ کا مخلص ہو گا وہ یہی کہے گا کہ بے ہمتی نہ کرو، ہمت کرو۔ آپ کا دل نہیں چاہتا پھر بھی ہمت کریں۔ دل نہ چاہنے کے باجود اگر آپ ہمت کریں گے تو آپ کو اجر بھی زیادہ ملے گا۔ اگر آپ نے یہ طریقہ اپنایاہے کہ جب میرا دل چاہے گا تب تو کروں گا اور جب جی نہیں چاہے گا تب نہیں کروں گا تو پھر اللہ پاک کے فیصلے بھی موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے انجام سے بچائے۔ یہ بہت خطرناک بات ہے، توبہ کرنی چاہیے اور ہمت کرنی چاہیے، اعمال کے اندر سستی نہیں کرنی چاہیے۔ سستی کا علاج چستی ہے۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم
My father doesn't live here as he is transferred to another place. So, my mother and I live alone except on Sunday. So, you can send me messages now and I can understand Urdu and write anything I want to write. There are so many prayers left because I am very lazy. I keep sleeping half of the time. والسلام
جواب:
اگر آپ ہماری سوال و جواب کی مجلس سن لیا کریں تو امید ہے آپ کو کافی فائدہ ہو گا۔ پیر کے دن ہمارے سوال و جواب کی مجلس منعقد ہوتی ہے، ہماری ویب سائٹ tazkia.org پر ہر ہفتہ یہ مجلس اپ لوڈ کی جاتی ہے، اسے باقاعدگی کے ساتھ سن لیا کریں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کے کئی سوالوں کے جواب ان مجالس میں مل جائیں گے۔ خیر! آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ سستی کا علاج چستی ہے، یہ بات نہیں ہو سکتی کہ انسان کی سستی معاف ہو جائے، سستی معاف نہیں ہوا کرتی۔ مثال کے طور پر آپ ریل کی پٹری کو پار کر رہی ہیں، ٹرین آ رہی ہے اور آپ درمیان میں تھوڑی سی سستی کر لیں تو اس سستی کی معافی نہیں ملے گی، ٹرین آپ کو کچلتے ہوئے گزر جائے گی اور اس میں قصور صرف آپ کا اور آپ کی سستی کا ہو گا۔ بعینہ اگر آپ نے کچھ اعمال سستی کی وجہ سے چھوڑ دیئے تو آپ نے اپنے آپ کو نقصان پہنچا دیا۔ اُس سستی کی وجہ سے جان گئی اور اِس سستی کی وجہ سے ایمان جا سکتا ہے، اِس سستی کی وجہ سے اعمال جا سکتے ہیں۔ لہٰذا سستی چھوڑ کر چستی پہ آ جائیں۔ اللہ پاک نے آپ کو جو وقت دیا ہے، جو توفیق دی ہے اس وقت اور توفیق سے فائدہ اٹھائیں اور کبھی سستی نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد سے جلد اس سستی کے چکر سے نکال دے۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم۔ حضرت جی غالباً مکتوبات شریفہ یا شاید مثنوی شریف کے درس میں یہ بات آئی تھی کہ ”اللہ تعالیٰ کے اولیا جب وحدت الشہود کے مقام میں آ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بعضوں کو کتاب کی طرف روانہ کر دیتے ہیں، ایسے حضرات اللہ کی محبت و معرفت کا اظہار لکھ کر کرتے ہیں۔ بعض حضرات کو رشد و ہدایت اور تبلیغ کی لائن میں لگا دیا جاتا ہے۔“
آج کل حضرت کے بیانات میں ایک خاص روشنی مل رہی ہے، سوال و جواب کی مجلس ہو، عبقات مبارکہ ہو، مکتوبات شریفہ یا مثنوی شریف کا درس ہو، سب میں ایک خاص نور محسوس ہوتا ہے۔ بعض لوگ تصوف کو دین کا ایک حصہ سمجھتے تھے۔ آپ نے خاص طور سے فرمایا ہے کہ یہ سب ذرائع ہیں، اور ان سب کا مقصد یہ ہے کہ شریعت کے احکام پر عمل شروع ہو جائے۔ ان اعمال پر آنے کے لئے ہم تصوف کو بطور ذریعہ استعمال کرتے ہیں۔
مجھے حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول سمجھ نہیں آتا تھا جو انہوں نے اپنی آپ بیتی میں اکثر جگہ لکھا ہے، فرماتے ہیں کہ ”میں نے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں سنا ہے اور حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا ہے کہ یہ حضرات ذکر جہری نہیں چھوڑتے تھے، آخری عمر میں بڑھاپے اور ضعف کے باوجود انہوں نے ذکر نہیں چھوڑا۔“ حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھ تک بزرگوں کا قول پہنچا ہے کہ: ”جس چیز نے ہمیں یہاں تک پہنچایا اسے چھوڑنے میں شرم و حیا آتی ہے“۔
مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ ذکر چھوڑنے سے بھلا کیسے شرم آ سکتی ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ ذکر سے ہی تو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اللہ اللہ کرنے سے ہی تو اللہ کی یاد مستحضر رہتی ہے، اسے چھوڑنے کی گنجائش کہاں ہے، اس کے بغیر تو دنیا میں قیامت آ جائے گی، جب اللہ اللہ کرنے والا کوئی نہ رہے گا تب قیامت کا آنا لازمی ہے، پھر اس کو چھوڑنے کا کیا مطلب۔ حضرت کی مجالس مبارکہ اور بیانات سے یہ قول سمجھ میں آ گیا اور یہ بات واضح ہوئی کہ ذکر چھوڑنے کا مقصد یہ ہے کہ در اصل ذکر جہری بطور ذریعہ کے کروایا جاتا ہے، جب مقصد حاصل ہو جائے تو ذرائع کو پہلے کی طرح تھامنا ضروری نہیں ہوتا، بس اصل مقصد یعنی شریعت پر صحابہ کے طریقے کے مطابق چلتے رہنا ہوتا ہے۔ لیکن ان حضرات نے ذکر جہری مقصد حاصل ہونے کے بعد بھی نہیں چھوڑا، بلکہ اسے اخیر عمر تک کرتے رہے۔
حضرت والا مرشدی و مولائی کی برکت سے الحمد للہ واقعی تصوف کو سمجھنا بہت آسان ہو گیا ہے اور مستند بھی ہو گیا کہ اس پر کوئی بدعت کا الزام بھی نہیں لگا سکتا۔ فجزاکم اللہ خیرا۔
جواب:
یہ بہت اہم اور ضروری نقطہ ہے کہ ہم اچھی طرح یہ بات سمجھ جائیں کہ تصوف مقصد نہیں بلکہ ذریعہ ہے۔ اللہ پاک کا ارادہ بھی یہی نظر آتا ہے کہ یہ چیزیں واضح اور ظاہر ہو جائیں۔ وقت کے ساتھ بہت سی ضمنی چیزیں اصل چیزوں کے سامنے حجاب کے طور پہ آ جاتی ہیں، لوگ حجاب کے بادلوں میں لپٹتے جاتے ہیں، اصل چیزیں گم ہوتی جاتی ہیں اور ضمنی چیزوں کو اصل سمجھ لیا جاتا ہے۔
بنیادی بات تو یہ ہے کہ شریعت پر عمل کرنا ہے۔ شریعت صرف ظاہری ہی نہیں ہوتی بلکہ شریعت باطنی بھی ہوتی ہے، جیسے نماز، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ ظاہری شریعت ہے جبکہ اخلاص، تقوٰی، حسد نہ کرنا وغیرہ باطنی شریعت ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ شریعت ظاہر ہے اور طریقت باطن ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ شریعت ہی کی دو قسمیں ہیں، ایک شریعت ظاہری، ایک شریعت باطنی۔ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی پر مشتمل تمام احکام کو شریعت کہتے ہیں۔ ہمیں ساری زندگی اس شریعت پر عمل کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شریعت پر عمل کیسے ہو گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت پر عمل کرنے میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں دور کر لیا جائے تو شریعت پر عمل کرنا آسان ہو جائے گا۔ دو بنیادی رکاوٹیں ہیں جو شریعت پر عمل کرنے میں پیش آتی ہیں، ایک نفس ہے اور دوسرا شیطان ہے۔ شیطان دل کے راستے سے وساوس ڈالتا ہے اور نفس کا اثر بھی دل پر ہوتا ہے، جس سے دل میں دنیا کی محبت آ جاتی ہے۔ اس لئے دل کو پاک صاف کرنا ہے اور نفس کو قابو میں لانا ہے۔ نفس سے رذائل کو دور کرنا ہے، باغی نفس، نفس امارہ کو نفس مطمئنہ میں بدلنا ہے۔ یہی بنیاد ہے اور یہی ضروری ہے۔ جب نفس مطمئنہ ہو جائے گا اور دل کی اصلاح ہو جائے گی تو شریعت پر عمل میں آنے والی دونوں رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔ اسی کو سیر الی اللہ مکمل کرنا کہتے ہیں۔ جب نفس مطمئنہ حاصل ہو جائے، اس کے ساتھ عقل اور دل کی اصلاح ہو جائے تو سیر الی اللہ مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد سیر فی اللہ ہے۔ سیر فی اللہ کیا ہے؟ ظاہری شریعت اور باطنی شریعت پر صحابہ کے طریقے کے مطابق عمل کرتے رہنا سیر فی اللہ ہے۔ جب انسان نفس اور شیطان کے چنگل سے آزاد ہو کر شریعت پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالی اس پہ حقائق کھول دیتے ہیں اور اپنی معرفت نصیب فرما دیتے ہیں۔
لہٰذا ہمارا اصل کام اور مقصد شریعت پر چلنا ہے اور اس میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ رکاوٹیں دور کرنے کے لئے سیر الی اللہ طے کرتے ہیں۔ صحابہ کرام کا سیر الی اللہ آپ ﷺ کی زیارت سے ہی مکمل ہو جاتا تھا، ان کو بس سیر فی اللہ ہی کرنا ہوتا تھا۔ سیر فی اللہ میں جہاں کہیں رکاوٹ آ جاتی اسے وہ اسی وقت کسی مجاہدہ سے دور کر لیتے تھے۔ سیر فی اللہ لا محدود ہے اس کی کوئی حد نہیں ہے۔
جب سیر الی اللہ مکمل ہو جائے تو کیفیت احسان حاصل ہو جاتی ہے۔ در اصل جب تک نفس مطمئنہ حاصل نہ ہوا ہو تب تک نفسِ امارہ نے روح کو جکڑا ہوا ہوتا ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا، اپنے میں مگن رکھتا ہے۔ جیسے ہی روح نفس سے آزاد ہو جاتی ہے تو ملاء اعلیٰ پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا روحانی مشاہدہ شروع کر لیتی ہے۔ یہی کیفیت احسان ہے، یہی چیز قلب روح کے ذریعے لیتا ہے اور نفس کو عبادت میں مشغول کرتا ہے جس سے کیفیت حضوری حاصل ہوتی ہے۔
ان سب باتوں کو پڑھتے اور بتاتے ہوئے بے ساختہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے رفع درجات کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے کیونکہ یہ ساری باتیں ان کا خاص فیض ہیں اور یہ پورے سلوک کی جان ہے۔
سوال نمبر14:
حضرت جی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی آپ کے اوپر اور آپ کے ذریعہ سلسلہ کے اوپر نعمتِ عظیمہ ہے۔ ہم نے آج تک یہ کہیں نہیں پڑھا اور سنا تھا کہ کیفیت احسان کب حاصل ہوتی ہے ہاں کچھ کچھ مبہم طور پر پتا تھا لیکن آپ کی برکت سے وضاحت سے معلوم ہو گیا کہ انسان جب سیر الی اللہ پار کر لے، نفس کے شکنجہ سے آزاد ہو جائے، روح کو آزاد کرا لے تو کیفیت احسان حاصل ہو جاتی ہے۔ اس بات سے اور بہت سی باتیں کھل رہی ہیں جو حضرت والا کی مجالس مبارکہ میں بزرگوں کے بارے میں سننے کو ملی ہیں کہ کئی صحابہ کرام بڑے بڑے اعمال مختصر وقت میں کر لیا کرتے تھے، کیسے حضرت عثمان رضی الله تعالیٰ عنہ دو رکعت میں پورا قرآن ختم کر لیتے تھے۔ آج تک ہم یہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنے نفس کو دبا کر، مجاہدہ کر کے اعمال کیا کرتے تھے۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ انہیں اس مجاہدہ کی ضرورت نہیں تھی وہ مجاہدہ نہیں کر رہے تھے بلکہ مشاہدہ کر رہے تھے۔ وہ ان کا مشاہدہ تھا، مجاہدہ نہیں تھا۔ ہم سنتے تھے کہ بزرگان دین ایک رات میں پورا قرآن پاک پڑھ لیتے تھے اور کئی کئی رکعت نفل پڑ لیتے تھے، اس کے ساتھ اپنے علمی کام فتاوی، درس و تدریس اور تصنیف تالیف بھی جاری رکھتے تھے۔ ہم حیران ہوتے تھے کہ اپنے اوپر اتنا بوجھ کوئی کیسے ڈال سکتا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مفتی محمود گنگوہی کے بارے میں پڑھا تھا کہ ان کا معمول روزانہ 100 رکعت نفل پڑھنے کا تھا۔
میں سمجھتا تھا کہ ان سب بزرگوں کے یہ کام ان کا مجاہدہ تھا، یہ ان کا نفس کی خواہشوں کے خلاف مجاہدہ اور نفس کو عبادت پر زبردستی لگانا تھا۔ لیکن حضرت نے واضح فرما دیا کہ یہ در اصل مشاہدہ تھا، یہ حضرات اللہ کے مشاہدہ کی لذت لے رہے تھے۔
میں حضرت کا بیان بار بار سن رہا ہوں، یہ بار بار سننے اور پڑھنے کے لائق ہے میں اس کو تب تک پڑھتا رہوں گا جب تک یہ بات میرے دل میں راسخ نہیں ہو جاتی۔ آپ اس کو افادۂ عام کے لئے شائع کریں اور آگے بھیجیں۔اگر اجازت ہو تو میں اسے آگے شئیر کر دوں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
جواب:
یہ ہم پر اللہ کی طرف سے واردات ہوتی رہتی ہیں، ہم لوگ اپنے طور پر کچھ بھی نہیں جانتے، جو چیز بھی اللہ تعالیٰ دل میں ڈال دے اور سمجھ میں آ جائے بس وہ اللہ پاک کی نعمت ہے۔ باقی جو آپ نے یہ فرمایا کہ یہ مشاہدہ تھا مجاہدہ نہیں تھا۔ بلا شبہ یہ مشاہدہ تھا اور اس کی برکت سے ان کے لئے یہ سب اعمال آسان ہو رہے تھے۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ جو حضرات سیر الی اللہ مکمل کر کے سیر فی اللہ میں چل رہے ہوتے ہیں وہ مجاہدہ نہیں کرتے، وہ حضرات بھی مجاہدہ کرتے ہیں لیکن ان کا مجاہدہ دوسرے رنگ کا ہوتا ہے۔ ان کا مجاہدہ نفس کے خلاف نہیں ہوتا کیونکہ ان کا نفس مطمئنہ ہو چکا ہوتا ہے، ان کا مجاہدہ اپنی جبلت کے خلاف ہوتا ہے۔ در اصل کچھ برائیاں تو نفس امارہ کی وجہ سے ہوتی ہیں اور کچھ انسان کی جبلت میں بھی ہوتی ہیں، نفس امارہ کی طرف سے پیش آنے والی برائیاں تو تب موقوف ہو جاتی ہیں جب نفس کی اصلاح ہو جاتی ہے، لیکن انسان کی جبلت تو ہمیشہ ساتھ رہتی ہے، اسے کنٹرول کرنا ہوتا ہے، سیر فی اللہ والے حضرات کا مجاہدہ اس جبلت پہ کنٹرول کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ ایک طبیعت کے خلاف مجاہدہ ہے اور ایک نفس کے خلاف مجاہدہ ہے۔ ان حضرات کا مجاہدہ نفس کے خلاف نہیں ہوتا بلکہ طبیعت کے خلاف ہوتا ہے اور یہ مجاہدہ ہمیشہ جاری رہتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ انہیں مشاہدہ بھی حاصل ہوتا ہے تو ماشاء اللہ ان کا مجاہدہ اور مشاہدہ ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔
ایسے حضرات میں بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ہر لمحہ مجاہدہ بھی ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ ان کے نفس کی رکاوٹ بالکل ختم ہو چکی ہوتی ہے لیکن چونکہ اعمال نفس کے ذریعہ ہوتے ہیں اور نفس کی اپنی فطرت ہے کہ وہ آرام چاہتا ہے، اس کے آرام کو روک کر جس قدر مجاہدہ ہو رہا ہوتا ہے اس لمحے اتنا ہی مشاہدہ ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ البتہ ناپختہ لوگ دو طرح کے ہو سکتے ہیں، ایک وہ جن میں مجاہدہ ہی نہ ہو، دوسرے وہ جن میں مجاہدہ تو ہو لیکن مشاہدہ نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے اعمال کا کچھ حصہ نفس اپنے لئے رکھ لیتا ہے، ان کی نظر اپنے اوپر چلی جاتی ہے جس کی بنا پر للہیت کی کیفیت حاصل نہیں ہو پاتی۔ اس وجہ سے مجاہدہ کا کچھ حصہ بغیر مشاہدہ کے ضائع ہو جاتا ہے۔ اس میں کافی باریک نکتہ ہے وہی ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔ حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا تھا کہ حضرت آپ بھی وہی اعمال کر رہے ہیں جو ہم کر رہے ہیں مگر آپ آپ ہیں اور ہم ہم ہیں۔ حضرت نے فرمایا تھا: یہ اس لئے ہے کہ تمہارا نفس تمہارے اعمال کھا جاتا ہے۔
انسان کے اندر ایک نفس ہوتا ہے اور ایک اس کی جبلت ہوتی ہے۔ جبلت میں عناصر اربعہ آگ، پانی، ہوا اور مٹی کا اثر ہوتا ہے۔ ہر شخص میں ان مختلف کی ترکیب ہوتی ہے۔ سیر الی اللہ کی تکمیل کے بعد بھی جبلت فنا نہیں ہوتی بلکہ باقی رہتی ہے۔ جیسے بعض لوگ جلالی ہوتے ہیں بعض جمالی ہوتے ہیں۔ طبیعتوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے ان کے مزاج مختلف ہوتے ہیں، اقوام کے اختلاف کی وجہ سے بھی مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ اس لئے مشائخ کو ان کی معرفت ہونی چاہیے کیونکہ ان طبیعتوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے کہ فرمایا گیا ہے: پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے لیکن فطرت نہیں بدل سکتی۔ علاج نفس کا کرنا ہوتا ہے جبلت کا نہیں کرنا ہوتا، جبلت ہمیشہ ویسی ہی رہتی ہے، اس کا علاج بس یہ ہوتا ہے کہ اگر اس میں کچھ غلط ہے تو اس غلط چیز کو قابو میں رکھا جائے۔
اسی طرح نفس میں دو طاقتیں ہوتی ہیں ایک خیال کی طاقت اور ایک حیوانیت کی طاقت۔ خیال کے بگاڑ کو خیال سے دور کیا جا سکتا ہے جس کے لئے ذکر، مراقبہ اور اشغال کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ حیوانیت کا بگاڑ مجاہدہ کے ذریعہ سے دور کیا جاتا ہے۔
بعض اوقات انسان میں حیوانیت کا بگاڑ کم ہوتا ہے لیکن خیالات میں بگاڑ کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے آدمی کا علاج زیادہ تر خیالات کو ٹھیک کرنے میں ہوتا ہے۔ بعض لوگوں میں قوت حیوانیہ کا بگاڑ زیادہ ہوتا ہے، ان کا علاج مجاہدہ کے ذریعہ ہوتا ہے۔
سوال نمبر15:
حضرت اقدس آپ کی برکت اور توجہ کا ثمرہ ہے کہ جو الہامی مضامین اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت مجدد صاحب کی برکت سے عنایت فرمائے ہیں، میں اکثر ان کا مطالعہ کرتا رہتا ہے۔ ابھی میں پڑھ رہا تھا صفحہ نمبر 34 مقصد اول میں لکھا ہے کہ:
”جاننا چاہیے کہ وہ مجذوب جس نے سلوک کو مکمل طے نہیں کیا اگرچہ جذب قوی رکھتے ہوں اور خواہ کسی بھی راستے سے منجذب ہوئے ہوں وہ اربابِ قلوب کے گروہ میں داخل ہیں، کیونکہ بغیر سلوک کے اور تزکیہ نفس کے وہ مقام قلب سے آگے نہیں گزر سکتے، اور مقلبِ قلب یعنی حق تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتے، ان کا جذب انجذاب قلبی ہے اور ان کی محبت عارضی ہے ذاتی نہیں ہے، عارضی ہے اصلی نہیں ہے“۔
یہ میں نے کئی مرتبہ پڑھا ہے سوال جواب کی مجلس میں بھی اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ پوچھا تھا جس کا جواب حضرت والا نے عنایت فرمایا تھا۔ اس وقت دل میں یہ سوال اٹھا تھا کہ وہ لوگ جنہوں نے جذب حاصل کر لیا مگر سلوک طے نہیں کیا ان کی محبت عارضی کیوں ہوتی ہے؟ محبت کرنا دل کا فعل ہے اور دل کی محبت ہی عارضی ہوتی ہے، ایسا کیوں ہے؟ میں سمجھا تھا کہ سلوک طے نہ کرنے کی وجہ سے ایسا آدمی دوبارہ گناہ کر سکتا ہے اور گناہ سے نفس اور دل دوبارہ آلودہ ہو جاتے ہیں۔ حضرت والا! آپ ہی کی برکت سے مجھے اس کا جواب مل گیا۔ آپ نے بارہا فرمایا ہے کہ سنت اللہ یہی ہے کہ جو چیز اللہ کے پاس جمع کرا دی جاتی ہے وہ باقی ہے اور جو چیز دنیا میں رہ جاتی ہے وہ عارضی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ یہ محبت جو ذکر اذکار کے ذریعے حاصل کی گئی ہے اور جذب حاصل کیا گیا ہے یہ اللہ کے ہاں جمع نہیں کرایا گیا کیونکہ اس کے ذریعے مجاہدہ کر کے نفس کی خواہشوں کو کاٹ کر اللہ پر قربان نہیں کیا گیا، جب سالک اللہ پر اپنی خواہشوں کو قربان کرے گا تو گویا اس نے یہ محبت اور جذب اللہ کے حضور جمع کرا دیئے، تب اس کی محبت عارضی نہیں رہے گی، لیکن جب تک سلوک طے نہیں کرے گا تب تک محبت کتنی ہی قوی کیوں نہ ہو جذب کتنا ہی پختہ کیوں نہ ہو وہ عارضی ہی رہیں گے۔ الحمد للہ اس سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔ ہمیشہ کچھ نہ کچھ نئے نکات ظاہر ہوتے ہیں۔
جواب:
اصل میں جب تک انسان نفس کا مجاہدہ نہیں کرتا اور نفس کو قابو نہیں کرتا تب تک دل کے دوبارہ میلا ہونے کا خطرہ رہتا ہے بلکہ کئی بار انسان دوبارہ گناہوں میں مبتلا بھی ہو جاتا ہے۔ جذب سے صرف اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔ دیکھیں اللہ کی محبت تو پہلے بھی حاصل تھی جب ہم عالم ارواح میں تھے لیکن دنیا میں آ کر نفس کی وجہ سے وہ سب کچھ بھول گیا۔ پھر ہم نے دوبارہ محنت کی، جذب کسبی حاصل کر لیا جس سے اللہ کی محبت پھر حاصل ہو گئی۔ اللہ کی محبت تو حاصل ہو گئی لیکن نفس ابھی زندہ ہے، وہ فعال ہے اور مسلسل رکاوٹ ڈال رہا ہے، اس نفس کی رکاوٹ کی وجہ سے پھر وہی صورت بن جائے گی جو پہلے بنی تھی۔ لہٰذا صرف جذب سے جو محبت حاصل ہوتی ہے وہ عارضی ہوتی ہے البتہ اگر نفس کی اصلاح ہو گئی اور نفس قابو میں آ گیا تو اس کے بعد وہ محبت دائمی ہو جائے گی، پھر اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتے ہیں۔ ایسا انسان باقی باللہ ہو جاتا ہے اور اس کی محبت ہمیشہ کے لئے ہوتی ہے کیونکہ اسے جذب منتہی/ جذب وہبی حاصل ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر16:
تصوف میں بتایا جاتا ہے کہ ارادہ فنا کر لو۔ یہاں پر ارادے کے کیا معنی ہیں کیونکہ انسان کو تو اجر ہی اسی کام کا ملتا ہے جس کا اس نے ارادہ کیا ہے۔ جس بھی نیکی کے کرنے کا ارادہ کیا جائے تو اس کا ثواب مل جاتا ہے، ارادے سے ہی اعمال حرکت میں آتے ہیں۔ کیا مذکورہ بالا قول میں ارادے سے مراد دنیا کے متعلق منصوبے ہیں کہ اس میں ارادہ نہ کرو، یا اس کا کوئی اور معنی ہے؟
جواب:
اس ارادہ سے مراد وہ ارادہ ہے جو شریعت کے مقابلے میں ہو اور ارادہ فنا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب شریعت کی بات ہو تو اپنے ارادے اور اپنی خواہش کو شریعت کے اوپر قربان کر دے اور بالکل فنا کر دے۔
گفتگو:
ہماری کسی کے ساتھ کچھ گفتگو ہوئی تھی جس میں کچھ باتیں ہوئیں، وہ یہاں بیان کرتا ہوں تاکہ باقی لوگوں کو بھی فائدہ ہو جائے۔
جب یہ تین چیزیں درست ہو جائیں اور سیر الی للہ مکمل ہو جائے تو انسان روح کے ذریعہ ملاء اعلیٰ سے لیتا ہے اور نفس مطمئنہ کے ذریعہ اپنے آپ پر نافذ کرتا ہے۔ سِرّ کے ذریعہ سے اس کو فقاہت ملتی ہے جو ہدایت کا راستہ ہموار کرتی ہے۔ اس طرح تقویٰ میں مسلسل ترقی ہوتی رہتی ہے۔ یہ ترقی لا محدود ہے، اس ترقی کو حاصل کرتے کرتے آخر کار انسان صدیقین، علمائے راسخین یا زہاد میں سے کسی نہ کسی گروہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: جس کے دل کی صفائی زیادہ ہو وہ صدیقین میں ہو جاتا ہے، جس کی عقل میں صفائی زیادہ ہو وہ علمائے راسخین میں ہو جاتا ہے اور جس کے نفس میں صفائی زیادہ ہو تو وہ زہاد میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کا عمل وہی رہے گا یعنی کیفیت احسان کے ساتھ شریعت کے مطابق زندگی گزارتے رہنا۔ سیر الی اللہ مکمل ہونے کے بعد ہر ایک کی اپنی اپنی تشکیل ہوتی ہے۔ یہ علم واقعی نعمت عظیمہ ہے۔
جب یہ 3 چیزیں نفس، قلب اور عقل درست ہو جائیں اور سیر الی اللہ پورا ہو جائے تو کیفیت احسان حاصل ہو جاتی ہے۔ اس سے پہلے نفس نے روح کو جکڑا ہوتا ہے اس لئے نفسانی خواہشات انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتیں، اپنے میں مگن رکھتی ہیں۔ جیسے ہی روح نفس سے آزاد ہو جاتی ہے تو رکاوٹ دور ہو جاتی ہے اور روح ملاء اعلیٰ جا کر اللہ تعالیٰ کا روحانی مشاہدہ شروع کر لیتی ہے۔ یہ کیفیت احسان کا ابتدائی درجہ ہوتا ہے۔ سالک جتنا اپنے آپ کو یکسو کرتا رہتا ہے اتنی اس کی کیفیت احسان میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ اس وقت قلب روح کے ذریعہ لیتا ہے اور نفس مطمئنہ کے ذریعہ اپنے آپ پر نافذ کرتا ہے اور نفس کو عبادت میں مشغول کرتا ہے اور باقی اوقات میں اسے کیفیت حضوری حاصل ہو جاتی ہے۔ جس وقت عقل قلب کی ایمانی کیفیت سے منور ہوتی ہے تو ایمانی اخبار سے مغلوب ہو رہی ہوتی ہے تب اس کا عالم بالا کے ساتھ تعلق ہو جاتا ہے، اس تعلق کی بنیاد پر اس پر حقائق کھلتے ہیں اور مکاشفات ہوتے ہیں، اسے سِرّ کہتے ہیں، جس کے ذریعہ سے اس کا قلب سر بن جاتا ہے، اس کے ذریعہ فقاہت تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے اور ہدایت کا رستہ ہموار ہو جاتا ہے، اس سے اس کے تقوی میں ترقی ہو رہی ہوتی ہے جس کی کوئی انتہا نہیں اور جیسے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس کے دل کی صفائی زیادہ ہو وہ صدیقین میں ہو جاتا ہے اور جس کی عقل میں صفائی زیادہ ہو وہ علمائے راسخین میں ہو جاتا ہے اور جس کے نفس میں صفائی زیادہ ہو وہ زہاد میں شامل ہو جاتا ہے، اس طرح ہر ایک کی تشکیل اپنی اپنی ہوتی ہے۔ یہ نعمت عظیمہ ہے۔
ہمارا ارادہ ہے کہ تصوف و سلوک اور شریعت و طریقت کے متعلق اس قسم کے نکات ایک جگہ جمع کر کے شائع کیے جائیں، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ایک چھوٹا سا کتابچہ بنا لیا جائے جس کا نام ہم نے ”مختصرات سلوک“ رکھا ہے۔ جس میں یہ مختصر مختصر باتیں ہیں لیکن وہ بڑی بڑی باتوں کا نچوڑ ہیں، جب یہ شائع ہو گا تو ان شاء اللہ اس میں یہ سب چیزیں آ جائیں گی۔
سلسلے کی برکات پر ہم نے ایک غزل لکھی ہے وہ پیش خدمت ہے:
سلسلے کے ہی برکات ہیں سب
یہ اپنے قلب کے جو حالات ہیں سب
لینا اس سے لینا جی بھر کے لینا
کہ یہ بے شک نوادرات ہیں سب
سلسلے کے ہی برکات ہیں سب
برکت ہے یہ اپنے بزرگوں کی
جو تحریرات و بیانات ہیں سب
سلسلے کے ہی برکات ہیں سب
یہ اپنے قلب کے جو حالات ہیں سب
اپنے اللہ کا ہے یہ فضل سارا
اترے جو قلب پہ الہامات ہیں سب
سلسلے کے ہی برکات ہیں سب
یہ اپنے قلب کے جو حالات ہیں سب
نفس، قلب و عقل کے واسطے شبیر
کیا خوب ذرائع نجات ہیں سب
سلسلے کے ہی برکات ہیں سب
یہ اپنے قلب کے جو حالات ہیں سب
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن