سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 348

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال نمبر1: 

حضرت جی، جزاک اللہ خیراً۔ آپ نے میرے سوال کا جو جواب دیا میں نے اسے بار بار سنا، دل کو بہت سکون ملا۔ دعا کیجئے کہ میں دوبارہ نارمل زندگی کی طرف آ جاؤں بظاہر تو سب کے لئے نارمل ہوں، اب اندر سے بھی ٹھیک ہو جاؤں۔ افسوس آج فجر قضا ہو گئی تھی۔ ازراہِ کرم مجھے دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ اللہ آپ پر ہزاروں لاکھوں نعمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔ 

جواب:

اگر آپ کو اس جواب سے فائدہ ہوا ہے تو اچھی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اللہ پاک نے کسی کو میرے ذریعے فائدہ پہنچایا۔

نارمل زندگی گزارنے کے لئے تین کام کرنے ہوتے ہیں۔ دل کو سنبھالنا ہوتا ہے، نفس کو سدهارنا ہوتا ہے اور عقل کو سمجھانا ہوتا ہے۔ جب یہ تینوں کام ہو جاتے ہیں تو پھر انسان نارمل زندگی گزارتا ہے۔

آپ کی جو نماز قضا ہوئی ہے، اس کی قضا تو آپ پڑھ چکے ہوں گے۔ آئندہ کے لئے یہ خیال رکھیں کہ جس طریقے سے بھی ممکن ہو نماز وقت کے اندر اندر ضرور پڑھ لیں، بخار کے سبب یا کسی اور وجہ سے پانی استعمال نہ ہو سکے تو تیمم کر کے پڑھ لیں، کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکیں تو بیٹھ کر اور بیٹھ کر نہ پڑھ سکیں تو لیٹ کر اشاروں سے پڑھیں۔ نماز ہر صورت میں وقت کے اندر اندر پڑھنا فرض ہے۔ اس میں انسان جتنی مشکل برداشت کرے گا اتنا ہی اجر ملے گا۔

سوال نمبر2:

السلام علیکم حضرت۔ اس دفعہ مثنوی شریف کا بیان سننے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ کہیں اپنے نفس کی اصلاح میں پیچھے نہ رہ جاؤں۔ آپ نے مجھے غض بصر کا مجاہدہ دیا تھا جس کو مجلس کے دوران بیٹھ کر کرنا تھا وہ مجھ سے نہیں ہو سکا۔ اس کی ایک وجہ میری سستی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میرے گھر میں ایسی مجلس اور گفتگو والا ماحول نہیں ہے۔ میں نے کوشش کی کہ باجی کے گھر میں جا کر یہ مجاہدہ کر لوں لیکن جب وہ لوگ یہ دیکھتے کہ میں بول نہیں رہا تو اس جگہ کو چھوڑ کر یہ سمجھ کر چلے جاتے کہ کوئی مراقبہ کر رہا ہو گا۔ اب میں یہ سوچ رہا ہوں کہ باجی کو کہہ دوں گا کہ میں اپنا مجاہدہ کر رہا ہوں آپ لوگ اپنی باتیں وغیرہ کرتے رہیں اور یہاں سے نہ اٹھیں۔ حضرت جی آپ بھی تجویز دیں تاکہ میں بھی کچھ نہ کچھ اصلاح میں لگ جاؤں۔ 

جواب:

غالباً آپ کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ آپ نے غض بصر کا مجاہدہ کرنا تھا خاموشی کا مجاہدہ نہیں۔ غض بصر کے مجاہدے میں بولنا منع نہیں ہوتا، نظریں اٹھانا منع ہوتا ہے۔

میں اس پر آپ کو ایک سچا لطیفہ سناتا ہوں۔ میرے بھائی نے جب روزے رکھنا شروع کئے تو اس کی عمر کافی کم تھی، چھوٹا سا بچہ تھا۔ اس کو یہ سمجھ بھی نہیں تھی کہ روزے میں پیشاب کرنا منع نہیں ہوتا صرف کھانا پینا منع ہوتا ہے۔ اس نے روزے کے دوران اپنا پیشاب بھی روکا ہوا تھا۔ آخر کار عصر کے وقت وہ رو پڑا کہ اب مجھ سے اور پیشاب نہیں روکا جا رہا۔ والدہ نے کہا کہ پیشاب کر کیوں نہیں رہے۔ کہتا ہے کہ میرا روزہ ہے اس لئے نہیں کر رہا۔ پھر اسے سمجھایا گیا کہ روزے میں پیشاب کرنا منع نہیں ہوتا۔ پھر اس نے جا کر پیشاب کیا۔ بہرحال وہ تو بچہ تھا لیکن آپ بچہ نہ ہوتے ہوئے بھی شاید بچے بن گئے ہیں اور آپ نے سمجھا کہ غض بصر کے مجاہدے میں بولنا بھی نہیں ہوتا۔

غض بصر کے مجاہدے میں بولنے پہ کوئی پابندی نہیں ہے بس اتنا کرنا ہوتا ہے کہ آدمی نیچے دیکھ کے بات کرے۔ یہ بات ہر آ دمی کو سیکھنی چاہیے کہ نظر ملائے بغیر اور اوپر دیکھے بغیر کیسے بات کرتے ہیں۔ بعض اوقات آدمی کہیں پر خریداری کر رہا ہوتا وہاں سیلز گرلز ہوتی ہیں، سودا ان سے لینا پڑتا ہے، ایسے مواقع پر یہ مشق کام آتی ہے اور انسان اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے ضروری بات کر سکتا ہے اور سودا وغیرہ لے سکتا ہے۔ بیرون ممالک میں اس کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے۔ میں بھی جرمنی میں ایسے ہی کرتا تھا، بعض خواتین سیلز گرلز کو اس پر بہت زیادہ غصہ آتا اور وہ کاؤنٹر پر چیزیں پٹخ کر رکھتی تھیں۔ لیکن ان کے غصہ سے ہمیں کیا، ہماری اپنی ثقافت ہے ان کی اپنی ثقافت ہے۔ ہم لوگ مذہب کے پابند ہیں۔

غض بصر کا مجاہدہ اسی چیز کی مشق ہے کہ انسان نظریں ملائے بغیر ضروری بات چیت کیسے کر سکے، اور اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بد نظری سے محفوظ رہتا ہے۔ ڈاکٹر حضرات کے لئے بھی یہ سیکھنا بہت ضروری ہے کہ مریض خواتین کو چیک کرتے ہوئے بد نظری سے کیسے محفوظ رہیں، اس کے لئے بھی یہ مجاہدہ بہت کام آتا ہے۔ بہر حال اب آپ کو سمجھ آ گئی ہو گی، لہٰذا اس مجاہدہ کو جاری رکھیں۔

سوال نمبر3:

السلام علیکم۔ حضرت جی انتہائی دکھی دل کے ساتھ آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ جو لوگ آپ کی بات کو غلط رخ دے کر جھگڑے پیدا کریں، آپ کی خیر خواہی کو آپ کی سازش یا چالاکی سمجھ کر آپ کو برا سمجھیں لیکن کام کے وقت میٹھے بن جائیں، آپ کا فائدہ اٹھا کر آپ کو ذلیل کرتے پھریں، آپ کو سب کے سامنے اس طرح برا بنائیں کہ آپ اپنی صفائی بھی نہ دے سکیں۔ ایسے لوگوں سے کیسا رویہ رکھا جائے؟

جواب:

یقیناً ایسے چالاک لوگ معاشرہ میں ہوتے ہیں جو ہر وقت اپنا فائدہ سوچتے ہیں، دوسروں کی بری باتیں سامنے لاتے ہیں اور اپنی اچھی باتیں سامنے لاتے ہیں۔ ان کا یہ رویہ ان کے لئے تو بہت خطرناک ہے البتہ آپ کے لئے یہ انتہائی صبر کا موقع ہے اور آپ کو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے یا بات چیت کرتے ہوئے اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنے چاہئیں کہ کہیں یہ آپ کے منہ سے ایسی باتیں نہ نکلوائیں جن پر آپ کو بعد میں پشیمانی ہو۔ زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ ایسے لوگ آپ کی زبان سے کوئی بات نکلوا کر دوسرے کے خیر خواہ بن کر ان تک پہنچاتے ہیں اور آپ کے لئے ماحول خراب کرتے ہیں۔ آپ اس بات کا دھیان رکھیں اور ایسے لوگوں کے ساتھ کم سے کم بات کریں۔ بالخصوص تب جب وہ آپ کے ساتھ اکیلی ہوں۔ ایسی صورت میں آپ اپنی رائے محفوظ رکھیں، اپنے کام سے کام رکھیں اور دوسروں کے کاموں پہ تبصرہ بالکل چھوڑ دیں۔ اس احتیاط کے باوجود بھی اگر کچھ ایسا ہو جائے تو معاملہ اللہ کے حوالے کریں، اللہ تعالیٰ آپ کے لئے کوئی رستہ بنا دے گا جیسے یوسف علیہ السلام کے لئے بنایا تھا۔ اللہ پاک قادر ہے وہ رستے بنا دیتا ہے، جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے کوئی نہ کوئی رستہ نکال دیتا ہے۔

سوال نمبر4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت اگر میاں بیوی میں صرف اس وجہ سے لڑائی ہوتی ہو کہ خاوند خود تو بچوں کو مارے اور ڈانٹے لیکن اگر بیوی مارے تو بچوں کے سامنے اس کی بے عزتی کرے۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ بیوی نے ہر طرح سے شوہر کو سمجھایا لیکن کوئی حل نہیں نکلا۔ 

جواب:

یہ بات بہت اہم ہے۔ گھروں میں اس قسم کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ آپ کا پہلا کام یہ ہے کہ آپ ان باتوں کو گھر سے باہر نہ نکالیں یعنی کسی کو نہ بتائیں البتہ مجھے بتا کر یقیناً آپ نے اچھا کیا ہے کیونکہ یہاں سے آپ دونوں کے لئے خیر کی صورت بتائی جائے گی۔ جس طرح بیوی کے اوپر میاں کے حقوق ہیں اسی طرح میاں پر بیوی کے حقوق بھی ہوتے ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے، دونوں کو ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے اور دونوں کو ایک دوسرے کی حفاظت کرنی چاہیے۔ جیسے عزت نفس خاوند کی ہے اسی طرح عزت نفس بیوی کی بھی ہے بالخصوص بچوں کے معاملہ میں اس چیز کا خیال رکھنا اور زیادہ ضروری ہے۔ بچے زیادہ تر وقت ماں کے ساتھ گزارتے ہیں اس لئے ماں بچوں سے پیار بھی زیادہ کرتی ہے لیکن بعض دفعہ تنبیہ بھی کرتی ہے۔ اگر وہ کوئی نامناسب تنبیہ کرے تو میاں کو چاہیے کہ اسے علیحدگی میں بتائے، بچوں کے سامنے نہیں بتانا چاہیے، اصولی بات کرنی چاہیے جذباتی بات نہیں کرنی چاہیے۔ بچوں کو مارنا مناسب نہیں ہے بلکہ تنبیہ کرنا اور سمجھانا مناسب ہے۔ آپ لوگ آپس میں بھی نہ لڑیں کیونکہ آپ کا آپس میں لڑنا آپ کے بچوں پر برا اثر ڈالتا ہے۔ اگر آپ دونوں ان چیزوں کا خیال رکھیں گے تو ان شاء اللہ زیادہ فائدہ ہو گا۔ آپ یہ جواب اپنے میاں کو بھی سنا دیں۔

سوال نمبر5:

السلام علیکم حضرت۔ آپ کی تنبیہ کے بعد میں نے پکی توبہ کر لی تھی۔ اب میں فلمیں بالکل نہیں دیکھتا، ساری نمازیں پڑھتا ہوں۔ اپنے والدین کی خدمت بھی دل سے کرتا ہوں۔ اپنے فارغ اوقات میں کلمہ طیبہ، درود شریف، اور استغفار کرتا ہوں، آپ سے دعا کی درخواست ہے۔ اللہ مجھے استقامت دے۔ آمین۔

جواب: 

دل سے دعا کرتا ہوں۔ ہمیشہ کوشش کریں کہ گناہ کی طرف بالکل نہ جائیں۔ گناہ کے راستوں سے بچیں۔ یہی گناہوں سے بچنے کا گُر ہے۔ اگر آپ گناہوں کے رستے پہ جائیں گے تو گناہوں سے بچنا مشکل تر ہوتا جائے گا۔ بچنے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ گناہوں کے رستے پہ ہی نہ جائیں۔ اگر کوئی اپنی نظر کی حفاظت نہیں کرتا تو زنا میں پڑ جاتا ہے۔ زنا کی ابتدا بد نظری سے ہوتی ہے اور اس سے بچنے کی ابتدا نظر کی حفاظت سے ہوتی ہے۔ آپ نظر کی اور سماعت کی حفاظت رکھیں گے تو ان شاء اللہ بہت ساری برائیوں سے حفاظت ہو گی۔

سوال نمبر6:

السلام علیکم۔ الحمد للہ ایک نئی جگہ اچھی ملازمت مل گئی ہے۔ وہاں نئی آبادی شروع ہوئی ہے۔ مسجد کافی دور ہے اس لئے نماز دفتر میں ہی ادا کی جاتی ہے۔ دفتر میں نماز کی امامت کا شرف مجھے حاصل ہو رہا ہے۔ امید ہے اس کی وجہ سے نمازوں میں سستی ختم ہو جائے گی۔ حضرت جی ایک سوال ہے کہ میں نے پینٹ شرٹ پہنی ہوتی ہے، مگر سب لوگ امامت کی ذمہ داری مجھ نا چیز پر ڈال رہے ہوتے ہیں۔ کیا پینٹ شرٹ میں امامت کروائی جا سکتی ہے؟ 

جواب:

آپ ایسا کر لیں جیسے تُرک حضرات کرتے ہیں۔ انہوں نے مساجد میں عبائیں لٹکائی ہوتی ہیں نماز کے وقت وہ عبائیں پہن لیتے ہیں جس کی وجہ سے پینٹ شرٹ کا مسئلہ نہیں رہتا۔ آپ بھی ایسی عبا کا انتظام اپنے دفتر میں کر لیں نماز کے وقت اسے پہن کر نماز پڑھا کیا کریں۔ 

سوال نمبر7:

السلام علیکم۔ حضرت جی سخاوت اور توکل کی نعمت کیسے ملتی ہے؟

جواب:

جب سلوک طے ہو جاتا ہے تب یہ چیزیں مل جاتی ہیں۔ بخل قناعت کے نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے، اگر آپ مقام قناعت طے کر لیں تو آپ کو سخاوت مل جائے گی اور بخل سے جان چھوٹ جائے گی۔ مقام توکل طے کرنے سے آپ کو توکل حاصل ہو جائے گا۔ جب آپ کو مقامات سلوک طے کروائے جائیں گے تب یہ چیزیں مستقل طور پر مل جائیں گی۔ فی الوقت آپ اپنے آپ کو یہ سمجھا سکتی ہیں کہ اپنی ضرورت سے زیادہ چیزیں دوسروں کو دے دوں گی تو اس کا اجر اللہ پاک کے پاس جمع ہو جائے گا، اپنے پاس جمع کرنے سے اللہ پاک کے پاس جمع کرنا بہتر ہے۔ اپنے ذہن میں یہ بات سوچا کریں، اس طرح سخاوت نصیب ہونا شروع ہو جائے گی۔ توکل کے حصول کے لئے یہ سوچا کریں کہ اللہ کی طاقت میری طاقت سے بلکہ ساری کائنات کی طاقت سے زیادہ ہے، اس لئے اگر میں اللہ پہ بھروسہ کروں گی تو زیادہ فائدہ ہو گا، اپنے آپ پر یا کسی اور پر بھروسہ کروں گی تو فائدہ نہیں ہو گا۔ اسباب اختیار کرنا بھی اللہ پاک کے حکم کے مطابق ہوتا ہے، اس لئے اسباب اختیار کروں گی اور بھروسہ اللہ پہ کروں گی۔ یہی توکل ہے۔ 

سوال نمبر8:

السلام علیکم۔ حضرت جی میری ازدواجی زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے لیکن آج مجھ سے غلطی ہو گئی۔ میں سفر سے واپس گھر پہنچا، بہت تھکا ہوا تھا، کسی بات پر گھر والی سے تکرار ہو گئی، پتا نہیں مجھے کیا ہوا کہ اس پر بچوں کے سامنے ہی ہاتھ اٹھا دیا۔ اب معافی مانگی ہے مگر دل بہت پریشان ہے۔ میں عورت پر ہاتھ اٹھانے کو بہت غلط اور بزدلانہ فعل سمجھتا تھا لیکن پتا نہیں مجھ سے ایسا کیوں ہو گیا۔ اب اس کا کفارہ کیا ہو گا؟

جواب:

معافی تو آپ نے مانگ ہی لی ہے۔ اب آپ یہ کریں کہ جیسے آپ نے اس کو تکلیف دی ہے اور اس کا دل دکھایا ہے اب اس کا دل خوش کرنے کے لئے کچھ ایسا کر لیں جس سے وہ خوش ہوتی ہو، کوئی چیز لے کے دے دیں یا جو بھی طریقہ ممکن ہو اس کے ذریعہ اسے خوش کریں۔ چونکہ آپ نے اسے بچوں کے سامنے مارا ہے اس لئے معافی بھی بچوں کے سامنے مانگیں تاکہ ان کے اندر بھی معافی کا تصور آ جائے اور ان کا دل میلا نہ ہو۔ آپ کی یہ بات صحیح ہے کہ کمزور پر ہاتھ اٹھانا یہ کوئی بہادری نہیں ہے بلکہ کمزور کے ساتھ اپنے نفس کو قابو کرنا بہادری ہوتی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی دیوار کمزور ہو تو اس کی قوت اِسی میں ہوتی ہے کہ اسے تھامے رکھیں، گرنے نہ دیں، کمزور دیوار کو گرنے دینا طاقت کی نہیں بلکہ کمزوری کی علامت ہوتی ہے۔ بہرحال آئندہ ایسی غلطی سے بچیں۔

سوال نمبر9:

السلام علیکم۔ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ مراقبہ شروع کئے ہوئے تقریباً دو مہینے ہو گئے ہیں مگر ابھی تک بالکل توجہ نہیں ہے۔ اس دوران دو تین دفعہ ناغہ بھی ہوا ہے۔ توجہ قائم رکھنے کی بہت کوشش کرتی ہوں لیکن کوشش کے باوجود سوچ نہ جانے کہاں سے کہاں تک چلی جاتی ہے، بہت پریشان ہوں۔ پہلے خانہ کعبہ کا سوچتی تھی تو دل کانپ سا جاتا تھا اب یہ کیفیت بالکل ختم ہو گئی ہے۔ کیا یہ نقصان دہ بات ہے؟ میں بہت پریشان ہوں مجھے تو اپنا آپ بہت خسارہ میں لگ رہا ہے؟ دعا کی محتاج ہوں۔

جواب:

ایک تو کوشش کرنا ضروری ہے اور دوسرا یہ ضروری ہے کہ طریقہ صحیح ہو۔ مراقبہ کا طریقہ یہ ہے کہ آپ یہ نہ سوچیں کہ میں خود کر رہی ہوں بلکہ یہ سوچیں کہ جو ہو رہا ہے میں اسے سننا چاہتی ہوں۔ مراقبہ میں آپ کا کام صرف توجہ سے سننا ہے، آپ کا کام دل سے ذکر کروانا نہیں ہے، وہ پہلے سے ہی ذکر کر رہا ہے بس آپ نے اسے سننا ہے۔ اگر صرف سننے کی کوشش کریں گی تو پھر آپ تھکیں گی بھی نہیں اور توجہ بھی اسی طرف مرکوز رہے گی۔

خانہ کعبہ کے بارے میں سوچ کر پہلے دل کانپ سا جاتا تھا اور اب نہیں کانپتا تو اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں، یہ ایک تاثر انفعالیت تھا۔ انفعالیت غیر اختیاری چیز ہوتی ہے، اس پر کسی کا بس نہیں ہوتا، جس طرح کیفیات از خود آ جاتی ہیں اس طرح خود چلی بھی جاتی ہیں، یہ اختیاری نہیں ہوتیں، ہاں اپنا دل اور نیت صاف رکھنا اختیاری چیز ہے اور یہی آپ کے ذمہ ہے۔ آپ اپنے دل کا پیالہ کھلا رکھیں، اس میں دنیا کی محبت، نفس کی خواہشات یا اور کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ 

سوال نمبر10:

السلام علیکم۔ حضرت جی کل میں نے خواب میں دیکھا کہ میں آپ کے پاس راولپنڈی خانقاہ میں آیا ہوں اور آپ مجھ سے ملنے کے بعد فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کا خواب والا میسج پڑھ لیا تھا جس میں آپ نے اللہ تعالیٰ کے دیدار والے خواب کے بارے میں بتایا تھا، لیکن حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی کوئی جہت نہیں ہے کیونکہ آپ نے ایک جہت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی ایک تجلی تھی جو آپ نے دیکھی۔

جواب: 

آپ نے بالکل صحیح خواب دیکھا ہے۔ خواب میں آپ کو بتایا گیا ہے کہ آپ نے جو اللہ پاک کو دیکھا وہ اللہ کی تجلی ہے، خود اللہ پاک نہیں ہیں کیونکہ اللہ پاک تو وراء الوراء ہے اس کو کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ اس کو تجلی صوری کہتے ہیں، آپ کو یہ تجلی صوری حاصل ہو گئی ہے۔ الحمد للہ یہ بھی بہت بڑی بات ہے۔

سوال نمبر11:

ایک صاحب نے مجھ سے کچھ چیزوں کے بارے میں پوچھا تھا کہ کچھ مسائل ہیں آپ رہنمائی کریں کہ میں کیا کروں؟

میں نے پوچھا کہ آپ کو جو ذکر دیا تھا اس کی کیا صورت حال ہے۔

انہوں نے جواب میں کہا کہ وہ مجھ سے چھوٹ گئے ہیں۔

میں نے کہا کہ میں یہاں عامل بن کر نہیں بیٹھا۔ اگر آپ اپنی اصلاح میں سنجیدہ نہیں ہیں تو مجھے میسج وغیرہ مت کیا کریں۔ اب اس کا جواب آیا ہے کہ میں معذرت چاہتا ہوں اور آج سے معمولات کی پابندی شروع کرتا ہوں۔

جواب:

ٹھیک ہے آپ اپنے وعدے پہ قائم رہیں اور اپنا کام شروع کر لیں۔ یہ جو ذکر میں نے آپ کو دیا ہے اس میں ناغہ نہ کریں۔ ناغہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کو اس میں دلچسپی نہیں ہے۔ جس چیز میں دلچسپی ہوتی ہے اس کے لئے انسان کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتا ہے۔ جس طرح آپ کو اس مسئلہ میں دلچسپی ہے تو آپ راستہ نکال لیتے ہیں کسی نہ کسی طریقہ سے اس کے بارے میں پوچھ لیتے ہیں لیکن ذکر میں اتنی دلچسپی نہیں ہے اس لئے اس کے بارے میں بتاتے بھی نہیں ہیں۔ اگر میں نے خود آپ سے ذکر کے بارے میں نہ پوچھا ہوتا تو آپ نے بتانا بھی نہیں تھا، آپ تو اس کو چھپا گئے تھے لیکن جب میں نے پوچھا تو پھر آپ نے بتایا۔ اس حد تک سستی نہیں کرنی چاہیے ہمارے مزاج کو سمجھنا چاہیے۔ اگر آپ نے ہمارے ساتھ چلنا ہے تو ہمارے دیئے ہوئے معمولات پر عمل کرنا پڑے گا اور اصلاح کی فکر کرنی پڑے گی۔ جب اصلاح ہو جاتی ہے تو اللہ پاک بہت ساری نعمتیں عطا فرما دیتے ہیں، آپ بنیادی چیز پر زور رکھیں کہ آپ کی اصلاح ہو جائے، باقی مسائل خود حل ہو جائیں گے۔

سوال نمبر12:

شیخ صاحب مجھے درج ذیل ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے، آگے بتا دیں کہ کیا کرنا ہے:

ذکر: ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 100 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 100 مرتبہ، ”حَقْ“ 100 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 100 مرتبہ۔

اس کے علاوہ سو سو دفعہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار۔

جواب:

اب آپ اگلے ایک ماہ کے لئے پہلا ذکر اس ترتیب سے کریں:

”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 200 مرتبہ، ”حَقْ“ 200 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 100 مرتبہ۔

ایک ماہ یہ ذکر کرنے کے بعد اطلاع کریں۔

تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار والا ذکر عمر بھر جاری رہے گا۔

سوال نمبر13:

السلام علیکم حضرت شاہ صاحب۔ ذکر قلبی والا مراقبہ 15 منٹ دوسری بار بلاناغہ مکمل ہو گیا ہے۔ اللہ اللہ کی آواز ابھی تک محسوس نہیں ہوئی اور نہ سنائی دی ہے۔ دل کی کیفیت پہلے سے زیادہ بہتر ہے، کبھی کبھی سختی آ جاتی ہے اور نماز و ذکر سے دل متنفر ہو جاتا ہے اور آپ کے بارے میں غلط وسوسے آتے ہیں لیکن میں ہمت نہیں ہارتا اور مقابلہ جاری رکھتا ہوں۔ ﴿سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ (يس :58) والا وظیفہ بھی جاری ہے۔ 

جواب:

کچھ چیزیں اختیاری ہوتی ہیں کچھ غیر اختیاری ہوتی ہیں، اختیاری میں سستی نہ کرو اور غیر اختیاری کے پیچھے نہ پڑو۔ بلا ناغہ مراقبہ کرتے رہنا اختیاری ہے، اس کو جاری رکھیں اس میں سستی نہ کریں جبکہ اللہ کی آواز سنائی دینا غیر اختیاری چیز ہے اسے اللہ پہ چھوڑ دیں۔ اللہ پاک کے تمام احکام اختیاری ہیں، جس جس کا وقت آ جائے آپ اس حکم کو پورا کرتے رہیں، خواہ دل چاہے یا نہ چاہے۔ دل کا چاہنا ضروری نہیں ہے بلکہ ان کاموں کا کرنا ضروری ہے۔ دل نہ چاہنے کے با وجود کام کرتے رہنے سے اجر بڑھ جاتا ہے۔ بے شک دل اچاٹ ہو جائے آپ پروا نہ کریں۔ اللہ پاک بڑے مہربان ہیں، جب انسان دل نہ چاہنے کے باوجود ان کے حکم پہ عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو بندے پہ بہت پیار آتا ہے اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں، ایسے موقع پر خوب اجر سے نوازتے ہیں۔ لہٰذا جب وسوسے زیادہ آ رہے ہوں تو اللہ کی طرف متوجہ زیادہ ہونا چاہیے، وسوسوں کی پروا نہیں کرنی چاہیے خواہ وہ وسوسے کسی کے بارے میں بھی آئیں چاہے اللہ کے بارے میں آ جائیں چاہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں، چاہے میرے بارے میں چاہے کسی اور کے بارے میں آ جائیں آپ ان کی پروا نہ کریں کیونکہ آپ ان کے ذمہ دار ہی نہیں ہیں، ان کا ذمہ دار شیطان ہے وہ خود ہی بھگتے گا۔ بس آپ پروا نہ کریں، آپ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ 

سوال نمبر14:

السلام علیکم۔ ”اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ

I make توبہ from all the wrong decisions I have taken in my life and from wrong thoughts I had for the creation of Allah سبحانہ تعالیٰ. From now onwards, I will not harbor any bad thoughts nor will I make any wrong decision. I will think before I make any decision whether it is right or wrong according to شریعت. Please make دعا for me to accept my توبہ and keep me قائم on it.

جواب:

Yes of course I pray for you. May اللہ grant you توفیق to do all these things and توبہ is the best thing what a person can do in this life because with توبہ all the sins that he has committed are forgiven. May اللہ سبحانہ تعالیٰ forgive our all of our sins!

سوال نمبر15:

حضرت جی میں نے کسی صاحب سے سورۂ کوثر کا وظیفہ لیا ہے جو روزانہ 139 بار کرتی ہوں۔ پھر میں نے سورۂ کوثر کی تفسیر پڑھی تو مجھے اس سے محبت ہو گئی، میں مغرب اور عشاء کے درمیان بڑی محبت کے ساتھ یہ وظیفہ کرتی ہوں۔

جواب:

محبت کے ساتھ وظیفہ کرنے میں تعداد نہیں ہوتی جبکہ بطور وظیفہ کرنے میں تعداد ہوتی ہے۔ اگر آپ اس کو وظیفے کے طور پر کر رہی ہیں تو یہ بتا دیجئے گا کہ کس مقصد کے لئے کر رہی ہیں، پھر کچھ عرض کر سکوں گا۔

سوال نمبر16:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی اگر صبح و شام کے اعمال سفر اور بیماری کی وجہ سے رہ جائیں تو ان کو اگلے دن پورا کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

جو اعمال شریعت نے فرض و واجب کی حیثیت سے مقرر کئے ہیں انہیں کسی صورت میں چھوڑنا نہیں چاہیے، ہر صورت ادا کر لینا چاہیے، ہاں اتنی نرمی ہو سکتی ہے کہ اگر کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکیں تو بیٹھ کر پڑھ لیں، بیٹھ کر نہ پڑھ سکیں تو لیٹے لیٹے اشاروں کے ساتھ پڑھ لیں۔ پھر بھی اگر ایسے اعمال رہ جائیں تو ان کی قضا کر لینی چاہیے۔

ان کے علاوہ وہ اعمال جو ہم لوگ سالکین کو علاجی طور پر دیتے ہیں اگر وہ رہ جائیں تو انہیں دوبارہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی مثال ورزش اور دوائی کی طرح ہے اگر ایک دن ورزش رہ جائے تو آپ دوسرے دن دگنی ورزش نہیں کر سکتے، اگر ایک دن دوائی رہ جائے تو دوسرے دن دگنی مقدار میں دوائی نہیں کھا سکتے۔ اس کی کوئی تلافی نہیں ہوتی بس اس کا نقصان برداشت کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا آئندہ خیال رکھا کریں اور علاجی ذکر میں ناغہ کسی صورت نہ کیا کریں۔ بے شک پورا نہ بھی ہو سکے تو کم کر لیا کریں لیکن ناغہ بالکل نہ کریں۔ ناغہ سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ 

سوال نمبر17:

السلام علیکم۔ حضرت جی اللہ پاک کا شکر ہے کہ اس نے مجھ پہ خصوصی کرم فرمایا، مجھے صبر کے ساتھ ساتھ شکر کی توفیق دی۔ معمولی تکلیف ہے مگر الحمد للہ ہاتھ پاؤں سلامت ہیں کسی کی محتاجی نہیں ہے۔ پہلے چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر دل میں آ جاتا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے لیکن الحمد للہ اب کی بار اللہ پاک دل میں ڈال رہے ہیں کہ اے میری بندی تو اپنے اندر اخلاص اور طلب پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اصلاح کے راستے میں لگی ہے، اس لئے میں تجھے اپنے قریب کر رہا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے احساس کی نعمت مل رہی ہے، گھر میں سب میرے لئے دعا کر رہے ہیں اور بہت محبت کر رہے ہیں اور سب ہمیشہ شفقت اور دعا فرماتے ہیں تو میرا پاک رب اس وقت مجھ سے کتنی محبت فرما رہا ہو گا، میرے درجات بڑھا رہا ہو گا۔ پہلے مجھے لگتا تھا کہ میں اس قابل بھی نہیں کہ آپ کو کچھ بتاؤں، آپ کے پاس میری فالتو باتوں کے لئے وقت کہاں ہو گا لیکن شکر ہے کہ اللہ پاک نے حجاب ہٹا دیا ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ اگر کوئی کیفیت اور حال نہیں نظر آ رہا تو اپنے شیخ کو یہ بھی بتاؤ کہ تمہارا کوئی حال نہیں، اس لئے سب آپ سے عرض کرتی ہوں۔ اللہ پاک نے بھائی کو بھی مدد کے لئے ساتھ رکھا جو آپ ہی کی باتیں بار بار دھراتے رہتے ہیں کہ جو اللہ پاک سے مانگے گا اللہ پاک اس کو ضرور ہدایت کے رستے سُجھائے گا، اللہ کے راستے میں جتنی مشکل آئے گی اتنی ہی مدد بھی آئے گی۔ اس لئے ہر بات جو دل میں آئے آپ کو بتاتی ہوں کہ اگر اچھی بات ہے تو اس پہ استقامت کی دعا فرمائیں گے اور بری ہو گی تو اس کی اصلاح اور دعا فرمائیں گے۔ اس سے مجھے فائدہ ہوتا ہے۔ دل میں یہ بات آتی ہے کہ اللہ پاک کہتے ہیں بس اپنے شیخ کا ہاتھ پکڑ کر چلتی رہو، کام ہو جائے گا۔ مجھے اب سمجھ میں آگئی ہے کہ ہمارے لئے اس دنیا میں آپ سے زیادہ مخلص اور کوئی نہیں ہے۔ اللہ پاک آپ کا سایۂ شفقت ہمارے اوپر قائم رکھے اور ہمیں ناقدری سے بچائے۔ آمین۔

جواب: 

ماشاء اللہ آپ کے بڑے اچھے جذبات ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کو یہ چیزیں سمجھا دی ہیں، یہ اس کا فضل اور سلسلے کی برکت ہے۔ یقیناً سلسلے کی برکت بہت بڑی چیز ہے اس کے ذریعہ سے بڑے بڑے مسائل حل ہوتے ہیں، اللہ پاک نے آپ کے بھی یہ مسائل حل کر دیئے ہیں۔ تکلیف بذاتِ خود مسئلہ نہیں ہے تکلیف کے بعد غلط سوچ کا آ جانا بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ حادثہ اتنا برا نہیں ہوتا لیکن حادثہ کے برے اثرات خطرناک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کی نفسیات پہ برا اثر پڑتا ہے۔ اگر اس منفی نفسیاتی اثر سے انسان بچ جائے تو حادثہ سے بعض اوقات عبرت مل جاتی ہے اور فائدہ ہو جاتا ہے۔ بہرحال اگر آپ کو پتا چل گیا ہے، آسانی ہو گئی ہے اور بات سمجھ میں آ گئی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اس پر اللہ پاک کا مزید شکر ادا کریں۔

سوال نمبر18:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت آپ نے ایک بیان میں فرمایا تھا کہ انسان کی جبلت نہیں بدلتی۔ اگر کچھ برائیاں میری جبلت میں ہیں تو پھر وہ برائیاں کیسے ٹھیک ہوں گی؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔ اللہ پاک آپ سے راضی ہو۔ آمین۔

جواب:

میرے خیال میں شاید آپ نے پوری بات یاد نہیں رکھی۔ میں نے یہ عرض کیا تھا کہ جبلت نہیں بدلتی بلکہ جبلت کے اندر نفس بدلتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جبلت ظرف ہے مثلاً ہمارا جسم ظرف ہے اور اس کے اندر موجود ہمارا نفس مظروف ہے۔ ہمارا جسم بھی عناصر اربعہ آگ، پانی، ہوا اور مٹی سے بنا ہے اور مظروف یعنی نفس بھی انہی عناصر سے بنا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ظرف یعنی جسم فکسڈ ہے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی لیکن مظروف یعنی نفس فکسڈ نہیں ہے اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ وہ اگر امارہ ہے تو اسے بدل کر مطمئنہ بنایا جا سکتا ہے۔ اب نفس تو مطمئنہ بن جاتا ہے لیکن جبلت نہیں بدلتی۔ مثلاً پٹھان پٹھان ہی رہتا ہے اس کو غصہ جلدی آتا ہے، اس کا نفس مطمئنہ بھی ہو جائے تب بھی غصہ کا عنصر اس میں باقیوں سے زیادہ رہے گا۔ اگر وہ غصہ کو قابو کرے گا تو یہ اس کا مجاہدہ ہے اس پر اسے اجر ملے گا۔ ایک شخص طبعاً بخیل ہے، اس کا نفس مطمئنہ ہو بھی جائے تب بھی اس کے اندر اس کی طبیعت کی وجہ سے بخل کسی حد تک باقی رہے گا، ایسے وقت میں اس کا خرچ کرنے کو جی نہیں چاہے گا لیکن وہ زکوۃ و صدقات دے گا تو اس کا مجاہدہ ہو گا اور اس پر اسے اجر ملے گا۔

نفس کے مطمئنہ ہونے کے بعد انسان کی جبلت ہی اجر ملنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ آپ کو کسی نے پکڑا ہوا ہو، جانے نہ دیتا ہو، آپ نے زور لگا کر اپنے آپ کو اس سے چھڑا لیا۔ اس سے چھڑانے کے بعد آپ نے آگے تو جانا ہی ہے، ہمیشہ وہیں تو نہیں کھڑے رہنا، لیکن آگے جانے کے لئے چلنا تو پڑے گا۔ نفس نے جو آپ کو پکڑا تھا وہ تو اصلاح کے بعد آپ چھڑا لیں گے لیکن اس رستے پہ چلنا تو پھر بھی پڑے گا، بعض اوقات طبیعت نہیں چاہے گی پھر بھی چلنا پڑے گا طبیعت کے نہ چاہنے کے با وجود چلیں گے تو اس پہ اجر ملے گا۔ یہ اللہ نے اجر کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ نفس کی اصلاح کے بعد ہمیں اپنی جبلت اور طبیعت کے نہ چاہنے کو ذرا زور لگا کے قابو رکھنا پڑے گا اور ان شاء اللہ یہ اجر کا باعث ہو گا۔

سوال نمبر19:

السلام علیکم۔ حضرت جی حضور کی محبت حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ عقیدت تو ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے لیکن ایسی محبت کہ اللہ کو پسند آ جائے اس کے حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ 

جواب:

اس کا طریقہ ہم نے کئی بار بتایا ہے۔ فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ۔ اس طریقہ پر قدم بہ قدم چلنے سے اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت حاصل ہو جاتی ہے۔ فنا فی الشیخ کے ذریعہ آدمی فنا فی الرسول ہو جاتا ہے کیونکہ وہ شیخ کو سنت کی اتباع میں مشغول دیکھتا ہے، شیخ اسے سنت کی اتباع کی ترغیب دیتا رہتا ہے تو اس کے دل پر اثر ہوتا رہتا ہے، اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی کتابیں پڑھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کثرت سے درود شریف پڑھے تو آپ ﷺ کی محبت حاصل ہو جاتی ہے۔ ہمیں وہ تمام کام کرنے چاہئیں جو اختیاری ہیں، غیر اختیاری چیزیں اللہ پاک عطا فرماتے ہیں۔

سوال نمبر20:

حضرت جی میں پہلے مراقبہ کرتی تھی لیکن اب آپ کی طرف سے مراقبہ سے منع کر دیا گیا ہے اور سلوک شروع کروایا گیا ہے۔ دو دن سے سوتے وقت دل کی دھڑکن سے اللہ اللہ کا لفظ بنتا محسوس ہوتا ہے، توجہ ہٹانے سے بھی نہیں ہٹتی۔ کیا میں اس سے توجہ ہٹایا کروں یا رہنے دیا کروں۔ 

جواب: 

غیر اختیاری طور پہ جو بھی اچھا ہو رہا ہے اس کو اللہ کا فضل سمجھیں اور اختیاری طور پہ وہ کریں جو آپ کو ہدایت کی گئی ہے۔ پہلے اختیاری طور پر آپ سے مراقبہ کروایا جاتا تھا، اب آپ کو اپنا اختیار سلوک کی طرف استعمال کرنے کے لئے کہا گیا ہے، آپ کی توجہ سلوک کی طرف دی گئی ہے، لہٰذا غیر اختیاری چیزیں جیسے ہو رہی ہیں ویسے ہی ہونے دیں اور اپنی توجہ اختیاری کاموں پہ رکھیں۔

سوال نمبر21:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ

You instructed me to suspend all نوافل، ذکر، 

مراقبہ and focus on سلوک ,مقام

,مقام توبہ and then انابت. Can I continue تہجد and درود 1000 times at least and مراقبہ?

جواب:

میں نے آپ کے علاجی اذکار چھڑوائے تھے نوافل نہیں چھڑوائے تھے۔ آپ جتنے چاہیں نوافل پڑھ سکتے ہیں، نفلی اذکار کی پابندی بھی نہیں لگائی، وہ بھی جتنے چاہیں کر سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علاجی اذکار کے ذریعہ سے ضرورت کے مطابق جذب حاصل ہو چکا ہے اب اسے سلوک میں استعمال میں کرنا چاہیے اور سلوک کے لئے پوری توجہ چاہیے ہوتی ہے اس لئے ہم نے علاجی اذکار چھڑوا دیئے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ علاجی اذکار اس لئے چھڑوائے ہیں تاکہ ان کو مقصود نہ سمجھا جائے، کیونکہ یہ مقصود اصلی نہیں ہوتے بلکہ مقصود اصلی یعنی سلوک کے لئے ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔

ہمارے سلسلہ میں یہ بہت بڑا انقلاب ہے، اللہ پاک اپنے فضل سے ہمارے سلسلے کے ذریعہ سے اس بات کو متعارف کروا رہے ہیں کہ ذریعہ اور مقصد میں فرق کو سمجھا جائے اور ہمیشہ ذرائع پر لگے رہنے کی بجائے اصل مقصد کی طرف توجہ دی جائے۔ مراقبات اور علاجی اذکار جذب کو حاصل کرنے کے لئے ایک ذریعہ ہیں، جب جذب حاصل ہو گیا تو علاجی اذکار کا مقصد پورا ہو گیا، سلوک کے لئے تیاری ہو گئی اب آپ سلوک کی طرف چلے جائیں، اب علاجی اذکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال نمبر22

I am focusing even more specially when traveling by train on مجاہدہ of نظر as you instructed me in the dream I told you to tell everyone in U.K to do توبہ from حرام glances at non محرم. Please advise جزاک اللہ.

جواب:

ماشاء اللہ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ بھی سلوک کی ایک منزل ہے۔ سلوک میں اصل چیز گناہوں سے بچنا ہی ہے، مراقبات اور اذکار کی کثرت تو اچھے اعمال کے اندر جان ڈالنے کے لئے ہے۔ اچھے اعمال کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کے لئے تین کام ضروری ہیں ایک یہ کہ برے اعمال کو حتی الامکان روکا جائے۔ دوسرا یہ کہ جو اعمال صحیح نہیں ہو رہے انہیں صحیح طریقے سے کیا جائے اور تیسرا یہ کہ صحیح اعمال کے اندر جان ڈالی جائے۔ جب سلوک طے ہو جائے گا تو برے اعمال رک جائیں گے، اچھے اعمال ہونا شروع ہو جائیں گے، گناہوں سے بچنے اور ذکر کی برکت سے اللہ پاک ان اعمال میں جان ڈال دیں گے۔ الله جل شانهٗ ہم سب کو یہ چیز زیادہ سے زیادہ نصیب فرما دے۔ آمین

سوال نمبر23:

السلام علیکم۔ حضرت جی ایک بار آپ کی خانقاہ میں آیا تھا۔ ازراہ کرم مجھے کوئی مشورہ دیں کہ مجھے اچھی ملازمت مل جائے اور میری فلاں جگہ شادی ہو جائے۔

جواب:

ہمارا یہ کام نہیں ہے، اس سلسلے میں ہم آپ کی کوئی خدمت نہیں کر سکتے۔ ہاں دعا کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے مسائل حل فرمائے۔ اگر ممکن ہو تو آپ اپنی اصلاح کا انتظام کریں۔ 

سوال نمبر24:

حضرت صاحب میں نے دو خواب بڑے عجیب دیکھے ہیں۔

پہلا خواب: میں نے دیکھا کہ میں توبہ کی تلاش میں تھی، میرے ساتھ کچھ لوگ صدقہ دے رہے تھے، میں خود سے کہہ رہی تھی کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ بخش دے گا۔ پھر دیکھا کہ اللہ پاک کا نام آسمان سے نیچے آ رہا تھا جو زمین تک آتے آتے ٹوٹ گیا، میں اس کو جوڑ رہی تھی تو اس کے ٹکڑوں کے انگارے بن جاتے تھے۔

دوسرا خواب: میں نے دیکھا کہ آسمان بادلوں سے بھرا ہوا تھا، اچانک انگارے گرنا شروع ہوئے۔ میری بہن کے ہاتھ میں ایک لاٹھی تھی وہ اس کو انگاروں کے سامنے کرتی تو انگارے ختم ہو جاتے تھے ہمارے گھر والے اور میں استغفار کر رہے تھے۔ اس کے بعد آنکھ کھل گئی۔

جواب:

پہلے خواب کا مطلب یہ ہے کہ توبہ کرتے رہنا چاہیے، توبہ کی تلاش میں ہونا اچھی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچی توبہ کی توفیق عطا فرما دے۔ واقعتاً صدقہ دینے سے اللہ پاک کا کرم متوجہ ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ پاک اپنی مخلوق پر مہربان ہے لہٰذا جو لوگ صدقہ کر رہے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی بخشش کا انتظام فرما دیتے ہیں۔ 

اللہ کا نام آسمان سے نیچے آنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری روح کو اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل تھی، جب روح نیچے زمین پر جسم میں آ گئی تو وہ بکھر گئی اور اس کی توجہ دنیا میں لگ گئی۔

انگاروں سے مراد نفس کی خواہشات ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جب روح کو اللہ تعالیٰ کی محبت یاد دلانے کی کوشش کرتے ہیں تو نفس رکاوٹیں ڈالتا ہے اور خواہشات کی آگ بھڑکاتا ہے۔

یہ جو انگارے آسمان سے گر رہے ہیں یہ آج کل کے حالات کے فتنے ہیں، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرما دے۔ ان سے استغفار کے ذریعہ حفاظت ہو سکتی ہے اس لئے استغفار کی کثرت کرنی چاہیے۔

وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن