اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ آپ کی صحت اور زندگی پر برکات نازل فرمائے آمین۔ جب میں نے تربیت کروانا شروع کی تھی تو پہلی چیز جس سے میں دور ہوئی تھی وہ موسیقی اور گانے تھے۔ پہلے مجھے گانوں سے بہت لگاؤ تھا لیکن بعد میں ایسی نفرت ہو گئی کہ لگتا ہی نہیں تھا جیسے مجھے کبھی گانوں سے لگاؤ تھا۔ اب شادی کے بعد میرے شوہر موسیقی سنتے ہیں، میں نے کبھی دھیان نہیں دیا لیکن جب وہ موسیقی چلاتے ہیں تو آواز آتی ہے، چاہے میں کچن میں ہوں یا کمرے میں۔ اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ پہلے میں کام کرتے ہوئے درود پڑھتی تھی اب میری زبان پہ گانا آتا ہے اور گنگنانے لگتی ہوں، جب موسیقی چل رہی ہوتی ہے تو سنتی بھی ہوں۔ یہ مرض لگ گیا ہے اور پھیل رہا ہے لیکن دل بہت اداس ہے کہ میں نے تو اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ زندگی میں کبھی موسیقی نہیں سنوں گی لیکن اب یہ کیا کر رہی ہوں۔ جب بھی گانا لگتا ہے دل بہت پچھتاتا ہے۔ آپ کی رہنمائی چاہتی ہوں۔
جواب:
بعض دفعہ نا سمجھی کی وجہ سے انسان گمراہی میں چلا جاتا ہے۔ موسیقی کی وبا بہت خطرناک ہے۔ آج کل موسیقی اور تصویر تقریباً ہر چیز کے اندر گھسی ہوئی ہیں۔ یاد رکھیے جب اس قسم کی وبا عام ہوتی ہے تو جو لوگ اس سے بچتے ہیں ان کو اجر بھی بہت زیادہ ملتا ہے۔ لہٰذا آج کے دور میں جو لوگ موسیقی اور تصویروں سے بچتے ہیں ان کے لئے اجر کے خزانے ہیں۔
آپ جس وقت سلسلے میں شامل ہوئیں تو سلسلے کی برکات آپ پہ اتریں جس کی وجہ سے آپ میں نیکی کا جذبہ آیا، آپ کو ایسا لگا جیسے دوبارہ آپ کبھی گانے نہیں سنیں گی اور آپ نے گانے سننا چھوڑ دئیے۔ در اصل تصوف میں ابتداءً جذب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے یہ اللہ کی محبت اور شوق کا عالم ہوتا ہے، لیکن یہ عارضی ہوتا ہے اگر آپ اس عارضی جذبہ میں ہمت کریں اور اس کو پختہ کر لیں تو پھر دوبارہ آپ گناہوں کی طرف نہیں جائیں گی اور اگر اس سے کام نہ لیا تو یہ آہستہ آہستہ کم ہو جائے اور آخر کار ختم ہو جائے گا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس عارضی جذبہ کو صبح کاذب کہتے تھے۔ یہ صبح کاذب ہے یعنی تھوڑی دیر باقی رہنے والی روشنی ہے۔ اگر انسان مجاہدہ کے ذریعہ اس کو پکا کر لے تو یہ جذبہ صبح صادق بن جاتا ہے، یعنی تا دیر باقی رہتا ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو بالفاظ دیگر یوں سمجھایا ہے کہ ابتدائی جذبہ کی مثال ایسی ہے جیسے کسی پہلوان کو کھلایا پلایا جاتا ہے، کُشتی کی تربیت دی جاتی ہے لیکن جب اسے کُشتی کے میدان میں اتارا جاتا ہے تب وہ کہتا ہے کہ مجھ سے تو کُشتی نہیں لڑی جاتی، وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک بہت ہی ملامت والی بات ہوتی ہے۔ اسی طرح ابتدائی جذبہ کے ذریعہ انسان کچھ دن تو اعمال میں شوق سے لگا رہتا ہے لیکن چونکہ ابھی نفس کی اصلاح نہیں ہوئی ہوتی، نفس کا شر اور خواہشات دوبارہ سر اٹھاتی ہیں، یا کسی وجہ سے انسان نا مناسب ماحول میں جا کر اُس ماحول کا اثر قبول کرنے لگ جاتا ہے، ایسے موقع پر صرف جذبہ کام نہیں آتا، بلکہ باقاعدہ تربیت کام آتی ہے۔
آپ سمجھ لیں کہ اب میں اکھاڑے میں آ گئی ہوں، اب تھیوری ختم ہو گئی ہے اور عملی مشق شروع ہو گئی ہے، اب صرف جذبہ کام نہیں آئے گا بلکہ مجھے عملی طور پر نفس سے لڑنا ہو گا، اِس کے تقاضوں کو دبانا ہو گا اور اس کی اصلاح کرنا ہو گی۔
جس وقت آپ کو موسیقی کی آواز آئے، آپ ”یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“ کا ورد کرنا شروع کر دیا کریں۔ اس ورد سے آپ کو دو فائدے ہوں گے۔ (1) اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے ذریعے موسیقی اور اس کے شر سے محفوظ رکھیں گے۔ (2) یہ ورد ایک بہترین ذکر بھی ہے، اس سے ذکر کا ثواب بھی ملتا رہے گا۔ لہٰذا جب موسیقی چل رہی ہو تو آپ اس کی طرف دھیان نہ لگائیں، اس وظیفہ کا ورد کرتی رہیں۔ غیر اختیاری طور پر اگر کانوں میں آواز آتی ہے تو آنے دیں، اس کا آپ سے کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔ اگر ممکن ہو تو Ear plugs لے لیں، جب موسیقی وغیرہ چلے تو Ear plugs کانوں میں ڈال لیا کریں، اگر یہ Ear plugs دیکھنے میں ایسے لگیں جیسے آپ کوئی چیز سن رہی ہیں تو زیادہ بہتر ہے، اس طرح کوئی آپ کے اوپر اعتراض بھی نہیں کرے گا۔ ان دو طریقوں پر عمل کر کے آپ اپنے آپ کو بچائیں۔ Ear plugs لگانے کے بعد موسیقی کی آواز نہ آئے تو اس پہ اللہ کا شکر ادا کریں۔ آپ نے ان طریقوں پر ثابت قدمی سے عمل کرتے رہنا ہے، پیچھے نہیں ہٹنا کیونکہ اگر آپ اس سے پیچھے ہٹ گئیں تو یہ صرف اس میدان میں پیچھے ہٹنا نہیں ہو گا بلکہ آپ کو اس کی وجہ سے بہت سارے میدانوں میں پیچھے ہٹنا پڑے گا کیونکہ شیطان کو رستہ مل جائے گا وہ سمجھ جائے گا کہ اگر اس کو کچھ مسائل پیش آئیں تو یہ پیچھے ہٹ سکتی ہے، یوں شیطان آپ کے پیچھے لگ جائے گا اور آپ کو مزید شکستوں پہ شکست دے گا۔ لہٰذا آپ نے شکست نہیں کھانی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے۔ میں بھی دعا کرتا ہوں، الله جل شانہ اپنے سلسلے کی برکت سے آپ کی مدد فرمائے، آمین۔
سوال نمبر2:
ایک خاتون نے بہت ہی زیادہ درد انگیز واقعات لکھے ہیں۔ اخیر میں ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ انہوں نے لکھا ہے کہ ازراہِ کرم میری مغفرت کی دعا کریں، پتا نہیں میں اپنے کس برے عمل کی وجہ سے ایسی سخت پکڑ میں ہوں۔
جواب:
یہ ضروری نہیں ہے کہ تکلیفیں اور مصیبتیں صرف برے اعمال کی وجہ سے ہی آئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ سب سے زیادہ تکلیفیں مجھے دی گئی ہیں اور میرے بعد سب سے زیادہ تکالیف انبیاء کرام کو دی گئی ہیں۔ (نعوذ باللہ من ذالک) وہ کون سا برا عمل تھا، کون سا گناہ تھا جس کی وجہ سے انبیاء کرام پر تکالیف آئیں؟ یہ سوچ ہی غلط ہے کہ ابتلا صرف گناہوں کی وجہ سے آتی ہے۔ بلاشبہ بعض اوقات گناہوں کی وجہ سے بھی پریشانیاں اور مصیبتیں آتی ہیں لیکن ہمیشہ یہی وجہ نہیں ہوتی۔
ایک کیپٹن صاحب ہمارے جاننے والے تھے۔ وہ کبھی کبھی میرے پاس آیا کرتے تھے۔ بہت پریشانیوں میں مبتلا تھے، گھر میں بھی بڑے پریشان، دفتر میں بھی بڑے پریشان، لوگ بھی ان کو ٹینشن دیتے تھے۔ میرے پاس آ کر یہ سب کچھ بتایا کرتے تھے۔ میں ان سے کہتا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بہت بڑا درجہ دینا چاہتے ہیں، آپ کے ساتھ جو یہ معاملات ہو رہے ہیں، یقیناً آپ کے درجات بلند ہو رہے ہیں، یقیناً اللہ پاک نے آپ کے لئے کوئی بڑا فیصلہ کیا ہے۔ میں بھی آپ سے یہی کہوں گا کہ اگر اللہ پاک نے آپ کو اس چیز کے لئے منتخب کیا ہے تو اس پہ اللہ پاک کا شکر ادا کریں۔ اگر یہ معاملہ نہ ہوتا تب بھی تو آپ اس دنیا میں ہی ہوتیں۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ کو اللہ پاک نے اس دنیا کا ایک پہلو دکھا دیا۔ جب انسان کسی کا برا عمل دیکھتا ہے تو سب سے بڑی نصیحت یہ ہوتی ہے کہ انسان ارادہ کر لے کہ میں ایسا کبھی نہیں کروں گا، جو عمل مجھے اتنا برا لگ رہا ہے میں کسی کے ساتھ بھلا ویسا عمل کیوں کروں گا۔ آپ ان حالات کے مثبت پہلو کی طرف دھیان رکھیں کہ اللہ پاک ان کے ذریعے آپ کے درجات بلند کر رہے ہیں۔ ایسی باتیں مت کیا کریں کہ جانے کس برے عمل کی سزا ہے اور جانے کس گناہ کی پکڑ ہے۔ ایسی باتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے دوری ہو جاتی ہے۔ شیطان کے ہاتھ آپ کو مایوس کرنے کا موقع لگ جاتا ہے۔ شیطان آپ کو ایسے حالات میں الله جل شانہ کی طرف سے سختی کا پہلو دکھائے گا، حالانکہ اس سختی میں اللہ تعالیٰ نے کتنی ہی برکات رکھی ہوتی ہیں۔ اگر آپ کو اللہ پاک نے اس طرح نوازا ہے کہ تکالیف کے ذریعہ آپ کو اجر دے رہا ہے، تو اس پر اللہ کا شکر ادا کر یں۔ یہ اجر آپ کو یہاں نظر نہیں آ رہا، اس کا پتا قیامت میں چلے گا کہ اللہ پاک نے آپ کو کتنے بڑے اجر سے نوازا ہے۔ روایات میں یہاں تک آتا ہے کہ جب دنیا میں تکالیف اٹھانے والوں کو اللہ پاک قیامت کے دن اجر سے نوازیں گے تو باقی لوگ اس اجر کو دیکھ کر کہیں گے کہ کاش ہماری جلدیں قینچیوں سے کاٹ دی جاتیں اور ہمیں اس کا اجر یہاں مل جاتا۔ اس لئے آپ فی الحال یہ فیصلہ نہ کریں کہ یہ تکلیف اور پریشانی آپ کے کسی گناہ کی پکڑ ہے، بلکہ اس پر اللہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ پاک نے اس تکلیف کو آپ کے لئے اجر کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ الله جل شانہ اپنی حکمتوں کو خوب جانتا ہے۔
سوال نمبر3:
حضرت جی دل سے دنیا کی محبت کیسے نکلے گی؟
جواب:
کمال ہے! کوئی آدمی ابھی پرائمری میں ہو اور پوچھے کہ ڈاکٹر کیسے بنیں گے، یا انجینئر کیسے بنیں گے تو اس کو کوئی کیا بتائے گا؟ یہ ایک لمبا چوڑا طریقۂ کار ہے دو تین فقروں میں کیسے بتایا جا سکتا ہے؟ دنیا کی محبت نکالنا ہی تو سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس کے لئے استقامت درکار ہے، مستقل محنت کی ضرورت ہے۔ اس کی جڑیں بڑی گہری ہوتی ہیں۔ اس پر ہمارا ایک شعر ہے:
دنیا کی جو رنگینی ہے بھاتی بہت دلوں کو ہے
یہ سب کچھ ماند ہو جائے اگر عارفِ جانان ہو جائے
اگر انسان عارفِ جانان ہو جائے یعنی اللہ پاک کی محبت اتنی بڑھ جائے کہ انسان ہر چیز پر اللہ کی محبت کو ترجیح دینا شروع کر دے تو پھر دنیا کی محبت نہیں رہے گی۔ اللہ پاک کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے دو کام کرنے پڑتے ہیں (1) کثرت ذکر۔ (2) دنیا کی چیزوں کو اللہ پر قربان کر دینا۔ اپنے نفس کو دنیا کی محبت کے لحاظ سے کند چھرے سے ذبح کرنا پڑے گا۔ اللہ پاک اس کے مواقع دیتے رہتے ہیں۔ آپ پر اکثر ایسا وقت آئے گا جب آپ کو اللہ کی بات اور دنیا کی بات میں سے کسی ایک کو چننا پڑے گا۔ اس وقت دنیا کی بات بہت حاوی ہو گی، لیکن اگر آپ نے دنیا کی بات کو چھوڑ دیا اور اللہ کی بات کو لے لیا تو وہیں سے دنیا کی محبت نکلنا شروع ہو جائے گی۔ آپ تمام گناہوں سے سچی توبہ کر لیں اور آئندہ کے لئے عزم کر لیں کہ آئندہ میں پیچھے نہیں ہٹوں گی، دنیا کے حق میں فیصلہ نہیں کروں گی، میرا ووٹ دنیا کے لئے نہیں ہو گا بلکہ اللہ کے لئے ہو گا۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم۔ حضرت جی آج عبقات کے درس میں یہ بات چل رہی تھی کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین نے کیسے آپ ﷺ کی تصدیق کی تھی۔ اس پر اچانک ذہن میں سوال آیا کہ کاش صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ سے اللہ کے بارے میں پوچھ لیتے تو ہمیں بھی معلوم ہو جاتا کیونکہ وہ آپ ﷺ کے پاس تھے اور سوال کر سکتے تھے، پھر بھی انہوں نے اس بارے میں سوال کیوں نہیں کیا؟
جب میرے ذہن میں یہ سوال آیا تو ساتھ ہی اس کے جواب بھی آنے لگے۔ ایک بات تو یہ ذہن میں آئی کہ صحابۂ کرام کی معرفت بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے وہ مشیت الٰہی کو جانتے تھے۔ ایک اور بات بھی ذہن میں آئی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تعجیل نہیں کرتے تھے۔ یہ باتیں تو میرے ذہن میں آئیں، باقی رہنمائی آپ فرما دیں کہ اصل وجہ کیا ہے۔ میری بات غلط ہو تو اس کی نشاندہی بھی فرما دیں۔ حضرت جی اصل بات آپ کی ہی ہے۔
جواب:
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ صحابۂ کرام کا طریق تھا: ”اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنا“ ”ہم ایمان لائے اور ہم نے تصدیق کر لی“ اور ”سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا“ ”ہم نے سن لیا اور ہم نے اطاعت کر لی“۔ ہم نے بھی یہی سیکھنا ہے۔ اسی کو ہم سیر فی اللہ کہتے ہیں۔ عقائد درست ہو جائیں، یہ ”اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنا“ ہے اور عمل درست ہو کر شریعت کے مطابق ہو جائے یہ ”سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا“ ہے۔ یہی طریقِ صحابہ ہے، اسی کے لئے سیر الی اللہ ہے۔ جب تک سیر الی اللہ نہ ہو تب تک سیر فی اللہ کی باتیں سوچنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ عمل کی توفیق تب ملتی ہے جب سیر الی اللہ مکمل ہو جائے۔ صحابۂ کرام کا سیر الی اللہ مکمل ہو گیا تھا، انہیں معرفت الٰہی حاصل ہو گئی تھی اس وجہ سے انہوں نے سوال نہیں کیا اور چونکہ آپ کا سیر الی اللہ مکمل نہیں ہوا، معرفت حاصل نہیں ہوئی اس لئے آپ نے کہا کہ کاش وہ سوال کر لیتے۔ در اصل ان کا سیر الی اللہ مکمل ہو چکا تھا، وہ نفس کے اوپر قابو پا چکے تھے، ان کا دل صاف تھا اور عقل فہیم ہو چکی تھی تو پھر وہ کیوں سوال کرتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے مزاج شناس تھے۔ آپ ﷺ نے باقاعدہ فرمایا تھا کہ اتنے سوال نہ کیا کرو کہ موسیٰ علیہ السلام کی طرح اپنے آپ کو پھنسا لو۔ وہ نبی ﷺ کے مزاج شناس تھے، یہی ان کی بڑی صفت تھی، ”سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا“ ان کی جان تھی۔ ہمیں بھی انہی کے نقش قدم پہ چلنا ہے۔
جہاں تک تعجیل کا تعلق ہے تو وہ شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ شیطان خاص مقصد کے لئے تعجیل دل میں ڈالتا ہے، اس کا مقصد ہوتا ہے کہ سالک بد گمان ہو جائے، پہلے شیخ سے پھر شریعت سے پھر آپ ﷺ سے اور پھر اللہ تعالیٰ سے بد گمان ہو جائے۔ اس مقصد کے لئے شیطان تعجیل کو اپنا ہتھیار بناتا ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ تعجیل کتنی خطرناک چیز ہے۔
خوب سمجھ لیں کہ تعجیل کا مطلب یہ ہے کہ جس محنت کی ضرورت تھی وہ محنت تو آپ نے کی نہیں لیکن نتیجہ اُتنی محنت والا چاہتے ہیں۔ آپ راتوں رات دولت مند ہونا چاہتے ہیں، راتوں رات ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں، راتوں رات انجینئر بننا چاہتے ہیں، راتوں رات ولی اللہ بننا چاہتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا، یہ محنت کی بات ہے، محنت کرنی پڑتی ہے، اس محنت کے لئے تیار ہو جائیں، یہ لمبا کام ہے، یہاں شارٹ کٹ سے کام نہیں چلتا۔ لہٰذا انسان کو جس راستے پہ ڈالا جائے جس طریقہ سے ڈالا جائے اسی طریقہ کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لے یہی عقل مندی ہے۔
سب سے پہلی عقل مندی یہ ہے کہ استاذ کی بات کو ماننا سیکھ لے، باقی عقل مندی وہ اسے خود سکھا دے گا۔ اگر کوئی اس پہلی عقل مندی میں فیل ہو گیا تو اس کے بعد والی عقل مندی اسے کوئی استاذ نہیں سکھا سکتا۔ پہلی عقل مندی یہ ہوتی ہے کہ اپنے استاذ کی بات کو ماننا پڑتا ہے جیسے وہ بتاتا ہے اسی طریقہ سے کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی استاذ کے حکم پر کہے کہ یہ میں نہیں کر سکتا، مجھ سے ایسا ہو نہیں رہا۔ اس کا مطلب ہے کہ در اصل وہ آدمی کچھ کرنا ہی نہیں چاہتا اس کے پاس صرف جذبات ہی ہیں اور خالی جذبات سے گاڑیاں نہیں چلتیں۔ اس کے لئے سارا نظام عملی طور پر اپنانا پڑتا ہے۔ ہر چیز کی الگ اہمیت ہوتی ہے اور اپنے مقام پہ ضرورت پڑتی ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر گاڑی پٹڑی پر نہ ہو، یا اس کے پہیے نہ ہوں اور اس کا انجن بہت طاقتور ہو تو وہ ہل تو سکتا ہے مگر پٹری اور پہیوں کے بغیر چل نہیں سکتا۔ صرف طاقتور انجن سوائے ہلنے کے اور کچھ نہیں کر سکے گا، اپنے آپ کو بھی خراب کرے گا زمین کو بھی خراب کرے گا۔ پھر اگر اس کے لئے پٹری اور پہیے مہیا کر دیئے جائیں اور وہ چلنا شروع کر دے تو صرف چلنے سے بھی کام مکمل نہیں ہوتا بلکہ بریک کی بھی ضرور پڑے گی تاکہ بوقت ضرورت اسے روکا جا سکے ورنہ حادثہ کا خطرہ رہے گا۔ معلوم ہوا کہ سب چیزوں کی اپنے اپنے مقام پہ ضرورت ہوتی ہے۔
ایک صاحب نے ایک خاص مسئلے کے بارے میں مجھ سے استفسار کیا جس کا تعلق افتاء سے تھا۔ ہمارا اصول اور طریقہ ہے کہ افتاء کے مسائل میں ہم خود فیصلہ نہیں کرتے بلکہ اسے مفتیوں کے ذمہ لگا دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افتاء میں شیخ کی بات نہیں چلتی بلکہ مفتی کی بات چلتی ہے، جبکہ تربیت میں مفتی کی بات نہیں چلتی بلکہ شیخ کی بات چلتی ہے۔ شیخ کی محنت افتاء پہ نہیں ہوتی بلکہ قلب، عقل اور نفس کی اصلاح پر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی کام نہیں ہے۔ بہر حال میں نے ان صاحب سے کہا کہ آپ یہ مسئلہ کسی مفتی صاحب سے پوچھیں۔ اس نے کسی مفتی صاحب سے نہیں پوچھا بلکہ پیام سحر وٹس ایپ گروپ میں مسئلہ بھیج دیا۔ یہ غلط بات تھی، مسئلہ بڑا نازک تھا، اگر گروپ کے مفتیان ان کو وہاں جواز کا فتویٰ دے دیتے تو لوگ اس کو بنیاد بنا لیتے اور جواب نہ دیتے تو بھی مسئلہ تھا۔ اسے یہ مسئلہ گروپ میں پوچھنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ خیر جب اس نے گروپ میں پیغام بھیجا تو میں نے فوراً اسے کہا کہ اپنا میسج ڈیلیٹ کر دو۔ اس نے ڈیلیٹ کرنے میں بے احتیاطی کی اور سب کے لئے ڈیلیٹ کرنے کی بجائے صرف اپنے لئے ڈیلیٹ کر دیا۔ اس کے بعد اسے فوراً یہ کرنا چاہیے تھا کہ کہ گروپ کے منتظم کو کہہ دیتا کہ مجھ سے صحیح طرح ڈیلیٹ نہیں ہوا، آپ اسے ڈیلیٹ کر دیں لیکن اس نے ایسا بھی نہیں کیا۔ اگلے دن مجھے کہنے لگے کہ مجھے اس مسئلہ کے بارے میں کالز آ رہی ہیں، اب کیا کروں۔ میں نے کہا: کمال کی بات ہے آپ کو اسی وقت اس کا خیال کرنا چاہیے تھا، اس کا مطلب ہے کہ آپ غیر محتاط آدمی ہیں، لہٰذا آپ کو اس گروپ سے نکلنا پڑے گا۔ کہنے لگے: گروپ سے نہ نکالیں، ایک موقعہ دے دیں، یہ میری پہلی غلطی ہے۔ میں نے کہا یہ پہلی غلطی نہیں ہے، دوسری غلطی ہے، اور یہ چھوٹی غلطی بھی نہیں بڑی غلطی ہے کیونکہ آپ پورے دین کی بنیاد کو ہلا رہے ہیں، پھر یہ انفرادی غلطی نہیں اجتماعی غلطی ہے، مزید یہ کہ آپ کو پتا بھی نہیں کہ میں کیا غلطی کر رہا ہوں، یہ آخری غلطی پہلی سب غلطیوں سے بڑی غلطی ہے، ایسے غیر محتاط آدمی کو گروپ میں نہیں ہونا چاہیے، پہلے آپ گروپ انتظامیہ سے تربیت لیں کہ مجھے گروپ میں کیسے رہنا ہے، جب آپ کی تربیت مکمل ہو جائے اور وہ مطمئن ہو جائیں، پھر مجھے کہیں تو میں آپ کو دوبارہ گروپ میں شامل کر دوں گا۔ کہنے لگے صرف ایک موقعہ دے دیں، میں نے کہا کہ یہ بات موقعہ کی نہیں بلکہ اصول کی ہے، اگر دو سو آدمی گروپ میں ہوں اور میں ہر ایک کو ایک ایک موقعہ دیتا رہوں تو کتنی غلطیاں ہوں گی اور کتنے موقعے دینے پڑیں گے، پھر تو ہم سارا وقت اسی کام میں لگے رہیں گے۔ بہر حال ان کے لئے یہ بات بڑی سخت تھی۔ اگر وہ یہ مان گئے تو شاید ان کی ترقی کے راستے کھل جائیں، کیونکہ شیخ کی ڈانٹ اور تنبیہ ہمیشہ مرید کے فائدہ کے لئے ہوتی ہے۔
ہارون الرشید کے بیٹوں مامون الرشید اور امین الرشید کے استاذ نے ایک بار ان پر کچھ سختی کی، انہوں نے ہارون الرشید سے اس کی شکایت کی تو ہارون الرشید نے کہا:
”جور استاد بہ ز مہر پدر“
”استاذ کی سختی باپ کی شفقت سے بہتر ہوتی ہے“۔
اور ہم کہتے ہیں کہ شیخ کی سختی استاذ کی سختی سے بھی بہتر ہوتی ہے۔
بہر حال اگر وہ صاحب یہ بات بھی نہیں سمجھے تو یہ ان کی پانچویں غلطی ہو گی۔
سوال نمبر5:
ایک محترمہ نے بڑا اچھا سوال کیا تھا ان کو تو میں جواب دے چکا ہوں لیکن یہاں اس لئے ذکر کر رہا ہوں کہ باقی لوگ بھی اِس کو سمجھ جائیں۔ ایسی غلطیاں بہت سارے لوگوں کی طرف سے ہونے کا امکان ہے اس لئے اس بارے میں بتانا ضروری ہے۔ خاتون کا سوال یہ تھا:
حضرت ایک چیز کے بارے میں رہنمائی چاہتی ہوں۔ مجھے طلباء کو Child abuse کے بارے میں لیکچر دینا ہے کہ وہ خود کو دوسروں سے کیسے بچا کے رکھیں۔ اس کے بارے میں کچھ رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
میں نے ان خاتون سے پوچھا کیا آپ بیان میں آتی ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ایک بار آئی ہوں، اس کے بعد گھر میں ہی آن لائن بیانات سنتی ہوں۔
میں نے انہیں یہ جواب دیا کہ آپ کا موضوع نفسیات کے لحاظ سے بہت اہم ہے، لیکن اگر میں ایسی چیزوں کے جواب دینے لگوں جو بہت ضروری تو ہیں لیکن ہمارے اصل کام سے خارج ہیں، تو پھر ہمارا اصل کام رہ جائے گا۔ میں چونکہ اپنے اصل کام یعنی خانقاہی کام میں مصروف ہوں اس لئے آپ کو تفصیل سے نہیں سمجھا سکوں گا اور اگر مختصر سمجھاؤں گا تو آپ کو ٹھیک سے سمجھ نہیں آئے گی، اس لئے اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ آپ خود تحقیق کیا کریں، پھر وہ تحقیقی کام مجھے بھیج دیا کریں، میں اسے دیکھ لیا کروں گا، اگر کوئی ایسی بات ذہن میں آئی جو آپ کے لئے مفید ہو سکتی ہے تو وہ آپ کو بتا دیا کروں گا، لیکن اس طرح آپ کو مکمل تحقیق کر کے تفصیلی جواب دینا میرے لئے نا ممکن ہے، کیونکہ میری اس پر مکمل تحقیق نہیں ہے اور بغیر تحقیق کے بات کرنا فضول ہے، اگر خود تحقیق کرنے بیٹھوں تو اس میں بہت وقت لگتا ہے، اس لئے میں خود تحقیق کر کے بھی آپ کو نہیں بتا سکتا۔
اکثر لوگ مجھ سے کاروبار کے بارے میں مشورہ کرتے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں خدا کے بندو میں نے ملازمت تو کی ہے لیکن کبھی کاروبار نہیں کیا، اس لئے میں ملازمت کے بارے میں تو کچھ مشورہ دے سکتا ہوں لیکن کاروبار کے بارے میں مشورہ نہیں دے سکتا۔ اگر کسی کو مشورہ دوں گا بھی تو اصولاً غلطی ہو گی، ممکن ہے نقصان بھی ہو جائے، اس لئے میں کاروباری مشورے نہیں دیا کرتا۔
یہ ضروری باتیں ہیں، سمجھنی چاہئیں۔ خانقاہی لائن بہت اہم کام ہے اور ہمارا مقصد اسی لائن پہ کام کرنا ہے۔ اگر میں کہیں جاتا ہوں اور بیان بھی کرتا ہوں تو میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی تربیت کے لئے تیار ہو جائیں اور اپنے نفس کی اصلاح کر لیں، اس کے لئے ضروری نہیں کہ مجھ سے ہی بیعت ہوں، چاہے کسی اور سے ہی بیعت ہو جائیں لیکن اپنی اصلاح کا کام ضرور شروع کر لیں۔ اب اگر کوئی میرے پاس آ کر یہ کہنے لگے کہ مجھے فلاں بیماری ہے اس کے لئے دعا کر دیں، فلاں تکلیف ہے اس کے لئے دم کر دیں، فلاں مسئلہ ہے اس کے لئے وظیفہ دے دیں، تو اس سے میرا کون سا کام پورا ہو گا، میرا اصل کام تو پھر بھی رہ جائے گا۔ لوگ پیروں اور مشائخ کا پہلا کام یہی سمجھتے ہیں کہ ان سے وظیفے لے لئے جائیں دم کروا لیا جائے یا تعویذ لے لیا جائے، حالانکہ یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی آدمی 5000 روپے میں چائے پکانے لگ جائے، چائے تو پک جائے گی، لیکن خرچ بہت زیادہ ہو جائے گا۔
ایسی چیزوں کو جاننا چاہیے، آخرت کی تیاری کے لئے جتنا کام ہو سکتا ہے استطاعت کے مطابق ضرور کریں، اس کے لئے اپنی تربیت لازمی کروائیں، چاہے مجھ سے کروائیں چاہے کسی اور سے کروا لیں یہ آپ کی صواب دید پہ منحصر ہے لیکن تربیت ہر حال میں کروائیں۔ اگر کوئی ہمارے پاس آتا ہے تو ہماری مجبوری ہے، ہم نے اسے بیعت کرنا ہی ہوتا ہے کیونکہ ہمیں بزرگوں نے فرمایا ہے کہ جو اس کام کے لئے آئے اسے قبول کر لیں ایک منٹ بھی دیر نہ کریں۔
بلاشبہ دین کے باقی کاموں میں بھی تعاون کرنا چاہیے، لیکن اصل توجہ اور ترجیح اپنے اصل کام کو دینی چاہیے، باقی شعبوں میں اس شرط پر کام کرنا چاہیے کہ اپنے اصل کام میں کوئی کمی کوتاہی اور حرج نہ ہو۔ دیکھیں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی سارے کام نہیں کئے۔ کوئی علم کے میدان میں چلا گیا، کوئی جہاد کے شعبہ میں شاہسوار بنا، کوئی بہت اچھا مبلغ بنا۔ صحابۂ کرام کا یہی رنگ تھا کہ مختلف شعبے زندہ تھے اور دین کے سارے کام چل رہے تھے۔ ہمیں بھی اس طرح کرنا چاہیے کہ جو شخص جس شعبے میں کام کر رہا ہے اس میں خوب محنت کرے اور باقی شعبوں کے ساتھ دعا اور خیر خواہی کے ذریعے تعاون کرے۔ آپ سب جن جن شعبوں میں کام کر رہے ہیں ان شعبوں میں خوب لگیں اور باقی شعبوں کے لئے دعا کے ذریعہ سے مدد کریں۔ اگر آپ کے پاس کسی دوسرے شعبے سے متعلقہ رہنمائی کے لئے کوئی آدمی آ جائے تو اسے انہی شعبوں کے ماہرین کے پاس بھیج دیں، یہ بھی تعان اور کام کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اللہ کرے کہ ہمیں ان باتوں کی سمجھ آ جائے۔
ایک صاحب مجھے روزانہ دعا کے لئے لکھتے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ معمولات کا چارٹ فِل کیا ہے یا نہیں؟ اس کا کوئی جواب نہیں دیتے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ صاحب اتنا عرصہ میرے ساتھ رہے ہیں لیکن ابھی تک میرے مزاج کو نہیں سمجھے۔ میرے مزاج کو سمجھنا چاہیے، میرا مزاج خالص خانقاہی مزاج ہے۔ جو لوگ میرے مزاج کے مطابق چلتے ہیں چاہے وہ مجھے دعا کے لئے کہیں یا نہ کہیں ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں لوگ رہا کرتے تھے حضرت کی مجالس اور صحبت سے فائدہ اٹھایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کچھ دنوں کے لئے حضرت کی خانقاہ میں ٹھہرے، وہ اپنے شیخ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کے علمی کام کے لئے کچھ تحقیق کر رہے تھے جس کی وجہ سے انہیں خانقاہ تھانہ بھون میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی مجالس میں بیٹھنے کا موقع نہیں ملتا تھا ہر وقت اپنے شیخ کے کام کے لئے تحقیق کرتے رہتے تھے، کبھی ایک کتاب لی کبھی دوسری کتاب، کبھی لائبریری جا رہے ہیں کبھی کہیں اور۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ انہیں دیکھتے تھے۔ چند دنوں بعد حضرت شیخ الحدیث نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ حضرت میں بہت ہی زیادہ محروم آدمی ہوں، اتنے لوگ آپ کی خدمت میں رہتے ہیں اور آپ سے استفادہ کرتے ہیں لیکن میں باوجود خانقاہ میں موجود ہونے کے آپ سے استفادہ نہیں کر رہا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر ان کو عجیب جواب دیا۔ فرمایا: باقی لوگ میری مجلس میں ہوتے ہیں اور میں آپ کی مجلس میں ہوتا ہوں، جب آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ اتنے انہماک کے ساتھ اپنے شیخ کے کام میں لگے ہوئے ہیں تو مجھے آپ پہ بڑا رشک آتا ہے اور میں آپ کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔
اب دیکھئے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مزاج کے مطابق کام کرتے ہیں تو ان کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جبکہ بعض لوگ دعاؤں کا بہت کہتے ہیں لیکن شیخ کے مزاج کے مطابق کام نہیں کرتے، انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا شیخ کے مزاج کے مطابق کام کرنا چاہیے تاکہ شیخ کے دل سے خود ہی دعائیں نکلیں۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم۔ خانقاہ میں ایک صاحب نے پوچھا کہ ایک عام آدمی کو یہ بات کیسے معلوم ہو گی کہ فلاں شخص شیخ کامل ہے یا مجذوب متمکن۔ اِس پر گفتگو ہوئی کہ آٹھ نشانیوں سے یہ بات معلوم ہو سکتی ہے کہ شیخ کامل ہے یا نہیں۔ لیکن ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے اور یہی طے پایا کہ شاہ صاحب سے پوچھا جائے۔ حضرت جی اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔ دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
یہ بہت اہم سوال ہے جس کا جواب سمجھنے کے لئے کافی عقل کی ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے کہ جس آدمی میں آٹھ نشانیاں موجود ہوں اس سے اپنی اصلاح کے لئے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔
(1)۔ پہلی نشانی عقائد کی ہے۔ کہ اس کے عقائد اہل سنت و الجماعت کے مسلک کے مطابق درست ہوں۔
(2) دوسری نشانی فرض عین علم کی ہے، فرض عین علم مکمل جانتا ہو۔
(3) تیسری نشانی عمل کی ہے۔ اس کا عمل شریعت کے مطابق ہو۔ اگر اس کا عمل شریعت کے مطابق نہیں ہے، مثلاً خواتین کے ساتھ اختلاط رکھتا ہے، مالی مسائل میں گڑبڑ کرتا ہے، کوئی اور غیر شرعی کام کرتا ہے تو پھر چاہے وہ کسی کا خلیفہ ہی کیوں نہ ہو، وہ شیخ کامل نہیں ہے بلکہ مجذوب متمکن ہے۔ وہ اپنے نفس پہ حاوی نہیں ہو سکا۔
(4) چوتھی نشانی یہ ہے کہ صحبت کا سلسلہ نبی ﷺ تک پہنچتا ہو۔
(5) اسے کسی شیخ کامل سے اجازت حاصل ہو۔
(6) اس کا فیض جاری ہو۔ فیض جاری ہونے سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ ان کے پاس جائیں ان کو فائدہ محسوس ہوتا ہو، فائدہ سے مراد یہ نہیں کہ اچھل کود شروع کر دیں یا اچھے اچھے خواب آنا شروع ہو جائیں، یا پر لطف کیفیات محسوس ہونے لگ جائیں بلکہ فائدہ سے مراد یہ ہے کہ شریعت پر عمل ہونے لگے۔ پہلے شریعت پر عمل نہیں تھا لیکن اس کی صحبت اور رابطہ سے شریعت پر عمل شروع ہو گیا۔
میرے پاس ایک اسی قسم کا آدمی آ گیا جس کے مراقبے تو بہت زبردست تھے لیکن فجر کی نماز اس سے نہیں پڑھی جاتی تھی۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو کہتا ہے کہ حضرت یہ میرے لئے بہت مشکل ہے میں یہ نہیں کر سکتا۔ میں نے کہا پھر آپ کے مراقبے کس چیز کے لئے ہیں؟ کیا یہ صرف سیر کرنے کے لئے ہیں؟ مراقبے تو اس لئے ہوتے ہیں تاکہ آپ اللہ پاک کا استحضار حاصل کر سکیں۔ کیا اللہ تعالیٰ کا استحضار حاصل کرنے کے بعد آپ بے نمازی ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ہو سکتے تو پھر اتنے سارے مراقبے کرنے کے باوجود آپ کی فجر کی نماز ٹھیک کیوں نہیں ہے۔ خیر پھر انہوں نے رابطہ رکھا اور ہدایات پر عمل کیا جس سے الحمد للہ ان کے حالات کافی بہتر ہو گئے۔
در اصل لوگوں نے شیخ کی تلاش کے مرحلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے، جب بھی کوئی کسی سے بیعت ہونا چاہے تو پہلے دیکھ لے کہ اس میں یہ نشانیاں پائی جاتی ہیں یا نہیں۔
اگر آپ بیعت کرنا چاہتے ہیں تو بیعت کرنے کے لئے یہ چیزیں دیکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ ایک دفعہ آپ نے کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا تو اس کو واپس نہیں کر سکتے لہٰذا یہ آپ کا حق ہے کہ آپ پوری تفصیل سے ان نشانیوں کی جانچ پڑتال کریں۔ ان تمام نشانیوں پر ایک ایک کر کے غور کریں کہ اس کا عقیدہ صحیح ہو، فرض عین درجے کا علم حاصل ہو، فرض عین علم پر عمل حاصل ہو یعنی عمل کرتا ہو نوافل کے پیچھے نہ بھاگ رہا ہو۔ آج کل یہ بہت دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نوافل پڑھتے ہیں یا نہیں، اشراق، چاشت اور اوابین پڑھتے ہیں یا نہیں۔ ایک آدمی بہت اہم کام میں لگا ہوا ہے، اس کو چاشت کی نماز پڑھنے کی فرصت نہیں ہے، اگر وہ چاشت کی نماز نہ پڑھے تو اس میں کوئی ملامت کی بات نہیں ہے۔ ملامت تو فرائض و واجبات کے ترک پر ہوتی ہے اور حلال و حرام کا خیال نہ رکھنے پر ہوتی ہے۔
بہر حال جن سے آپ بیعت کر رہے ہوں آپ کو ان کے بارے میں پوری تحقیق کرنی چاہیے تاکہ صحیح معنوں میں آپ کی اصلاح ہو سکے۔
سوال نمبر7:
حضرت جی، جو سالک کسبی محبت کو مقصود سمجھ بیٹھے کیا اسے مجذوب متمکن کہہ سکتے ہیں؟ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ اصل محبت وہبی ہوتی ہے، کسبی محبت صرف سلوک کی تیاری کے لئے ہوتی ہے۔ سلوک میں مجاہدہ ہوتا ہے، جب انسان مجاہدہ کرتا ہے تو روح نفس سے آزاد ہو جاتی ہے جس کے بعد اصلی محبت حاصل ہو جاتی ہے۔ حضرت جی آپ کے اس بیان مبارکہ سے میں یوں سمجھا ہوں کہ ذکر اللہ بلا واسطہ کسبی محبت کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور مجاہدہ بالواسطہ اصلی محبت کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اگر میں غلطی پر ہوں تو مجھ پر کرم فرماتے ہوئے میری غلطی کی اصلاح فرمائیں۔
جواب:
اگر کسی آدمی کو کسبی محبت حاصل ہو جائے لیکن وہ نفس کی اصلاح سے غافل ہو اور اس کی ضرورت نہ سمجھے تو پھر وہ مجذوب متمکن ہے۔ مقصود کی دو قسمیں ہیں: مقصود فی الاصل اور مقصود للغرض۔ اگر کسی کام کا مقصد خود وہ کام نہ ہو بلکہ کوئی اور چیز ہو تو اسے مقصود للغرض کہتے ہیں۔ مثلاً میڈیکل کالج میں داخلہ لینے سے مقصود ڈاکٹری کی تعلیم کا حصول ہے۔ لہٰذا میڈیکل کالج میں داخلہ لینا مقصود للغرض ہے۔ کسبی محبت بھی مقصود للغرض ہے کیونکہ یہ خود مقصود نہیں بلکہ ایک اور مقصود کے لئے ذریعہ ہوتی ہے، اس سے اصل مقصود سلوک پر چلنے کی تیاری ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی آدمی اس محبت کو حاصل کر لے لیکن اس چیز کی طرف نہ آئے جس کے لئے یہ محبت حاصل کی گئی تھی یعنی ذریعہ کو کافی سمجھ لے اور مقصود کی طرف نہ آئے تو وہ مجذوب متمکن بن کے رہ جائے گا۔ اکثر اوقات ایسی صورتوں میں سالک کی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ کسبی محبت کو مقصود سمجھ بیٹھتا ہے، لہٰذا اسی پہ اکتفا کر لیتا ہے۔ اس کے لئے حضرت حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مثال بیان فرمائی ہے کہ ایک آدمی خانہ کعبہ جا رہا تھا، راستہ میں کسی عمارت کو خانہ کعبہ سمجھ کے بیٹھ گیا اور وہیں پر طواف و اعتکاف کرنا شروع کر لیا۔ مجدد صاحب فرماتے ہیں کہ یہ آدمی علماً بھی محروم ہے عملاً بھی محروم ہے، یہ مجذوب متمکن ہے۔ اس آدمی کا سلوک طے نہیں ہوا، اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنا سلوک مکمل کرے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس بات کی مزید تفصیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب دل کی اصلاح ہو جاتی ہے تو سالک کی آنکھوں سے پٹی ہٹ جاتی ہے، راستہ نظر آ جاتا ہے اور اس کا دل صراط مستقیم پر چلنے کو چاہتا ہے لیکن ابھی اس کے نفس کی اصلاح نہیں ہوئی اس لئے وہ اسے اس راستہ پر چلنے نہیں دے گا، صرف پٹی ہٹنا اور راستہ کا نظر آنا کافی نہیں ہے بلکہ نفس کی اصلاح کرتے ہوئے اس راستہ پہ چلنا ضروری ہے۔ اگر نفس کی اصلاح نہ ہوئی اور اس راستے پر چلنا شروع نہیں کیا تو ممکن ہے کہ دل دوبارہ خراب ہو جائے اور جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی وہیں دوبارہ پہنچ جائے۔ اس لئے دل کی اصلاح کے بعد، کسبی محبت کو حاصل کرنے کے بعد فوراً اپنے نفس کی اصلاح کرنے پہ زور دینا چاہیے، جب نفس کی اصلاح ہو جائے گی تو پھر یہ دوبارہ واپس نہیں جائے گا۔ لیکن اگر نفس کی اصلاح نہ ہوئی اور سالک محبتِ کسبی کی بنا پر اپنے آپ کو بزرگ سمجھ بیٹھا تو پھر بالکل ہی محروم ہو جائے گا، البتہ اگر اس نے اپنا ہاتھ کسی شیخ کامل کے ہاتھ میں دیا ہوا ہو تو وہ اسے اس مصیبت سے نکال سکتا ہے۔
جذب کسبی یا محبت کسبی کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کی روح کو عالم ارواح میں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل تھی، جب یہ روح انسان کے جسم میں آئی اور نفس کے ساتھ اکٹھی ہوئی تو یہ نفس کے شکنجہ میں آ گئی اور اللہ کی محبت کو بھول گئی۔ جذب کسبی اسی بھولی ہوئی محبت کے یاد دلانے کا نام ہے، مشائخ سالک کو ذکر و اذکار دیتے ہیں جن کے ذریعے اس کی روح کو اللہ پاک کی بھولی ہوئی محبت یاد آ جاتی ہے اور وہ نفس کے شکنجہ سے نکلنا چاہتی ہے۔ یہاں ایک نکتہ مد نظر رکھیں، جو محبت روح کو عالم ارواح میں حاصل تھی وہ محبت اصلیہ تھی وہاں اسے بہکانے اور بھٹکانے کے لئے نفس موجود نہیں تھا لیکن یہاں دنیا میں نفس موجود ہے، اگر ہم روح کو وہ محبت یاد دلا بھی دیں پھر بھی نفس اسے بہکاتا اور بھٹکاتا رہتا ہے۔ لہٰذا ہمیں پہلے تو روح کو محبت یاد دلانا ہوتی ہے تاکہ وہ اس محبت کے دائمی حصول کے لئے محنت کوشش کرنے کے لئے تیار ہو جائے، اس کے بعد نفس کی اصلاح کرنا ہوتی ہے تاکہ یہ اس محبت کے کامل ہونے میں رکاوٹ نہ ڈالے، روح کو نفس کے شکنجہ سے مکمل طور پر چھڑانا ہوتا ہے، اور یہ چھڑانا مجاہدہ اور سلوک طے کرنے کے ذریعہ ہوتا ہے۔ سلوک میں مجاہدات و ریاضات کروائے جاتے ہیں جن کے ذریعہ نفس سیدھا ہونا شروع ہو جاتا ہے، جب مکمل اصلاح ہو جاتی ہے تو نفس نفسِ امارہ نہیں رہتا بلکہ مطمئنہ بن جاتا ہے، اس کے شرور ختم ہو جاتے ہیں، یہ موجود تو ہوتا ہے لیکن کالعدم ہوتا ہے، اس کا روح کے اوپر پہلے جیسا اثر نہیں رہتا بلکہ یہ شریعت پر عمل کرنے میں روح کا ساتھ دیتا ہے۔ اس میں بھی بہت محنت اور مجاہدہ درکار ہوتاہے، خیر جب نفس ایسا ہو جاتا ہے تو پھر سالک کو وہی اصلی محبت حاصل ہو جاتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جذب کسبی اور محبت کسبی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، محبت کی یہ قسم مقصود نہیں بلکہ ایک ذریعہ ہے سلوک پہ چلنے کے لئے تیاری کا، جب یہ محبت حاصل ہو جائے اور سالک سلوک کی مشقتیں برداشت کرنے کو تیار ہو جائے، تو پھر اسے سلوک پہ لگا دینا چاہیے، اگر کوئی سالک اسی محبت کو منزل مقصود سمجھ کر اسی پہ اکتفا کر بیٹھا تو خطرہ ہے کہ وہ مجذوب متمکن بن جائے گا، ایسی صورت میں اگر وہ شیخ کامل سے رہنمائی لیتا رہے تو اس خطرہ سے محفوظ رہ سکتا ہے بصورت دیگر خود بھی بھٹکے گا اور دوسروں کو بھی بھٹکائے گا۔ لہٰذا اس محبت پہ اکتفا نہیں کرنا ہوتا بلکہ اسے استعمال کرتے ہوئے سلوک طے کر کے محبت اصلیہ/جذب وہبی کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم۔ کل سے قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ شروع کرنے کا دل کر رہا ہے۔ حضرت جی مجھے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
ماشاء اللہ بڑی نیک خواہش ہے۔ میں نے بھی اپنے شیخ سے اس کی اجازت لی تھی۔ حضرت نے فرمایا تھا کہ ایک رکوع ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ روزانہ پڑھ لیا کریں۔ الحمد للہ آج تک میرا یہ معمول جاری ہے۔ آپ تفسیر عثمانی اور معارف القرآن لے لیں، اور روزانہ ایک رکوع ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھ لیا کریں۔
سوال نمبر9:
مثنوی شریف کا درس سننے کی سعادت و توفیق ہوئی، بہت ہی اعلیٰ مضامین ملے اور الحمد للہ بہت ہی فائدہ پہنچا۔ درس مذکورہ میں چند نکات و مضامین جو حضرت نے بیان فرمائے ان کا خلاصہ عرض کرتا ہوں: حضرت والا نے فرمایا کہ:
نفس امارہ روح کو کھینچتا ہے اپنی بری خواہشات کی طرف، اس لئے روح کو اِس سے الگ کرنا پڑے گا۔
لوگ کہتے ہیں ”میرے دل کی خواہش ہے“ حالانکہ در اصل خواہش تو نفس کی ہوتی ہے لیکن دل کے ذریعے نظر آتی ہے۔ اِس مثال سے بہت فائدہ ہوا۔
مقام توبہ کے حصول کے لئے تمام گناہوں سے ایک ایک کر کے شعوری توبہ کرنا ضروری ہے۔ لفظ شعور کے تحت توبہ کا استحضار اور تین شرائط شامل ہیں: گناہ سے دوری، ندامت اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم۔ لہٰذا اپنے تمام گناہوں سے شعوری توبہ کرنی چاہیے، ”شعور“ کے لفظ میں توبہ کی تمام تفصیل آ جاتی ہے۔
الحمد للہ ان نکات سے بے حد فائدہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ مجھے مزید توفیق نصیب فرماوے۔
جواب:
یقیناً شعوری توبہ بہت اہم عمل ہے۔ توبہ کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ آئندہ اس گناہ کو دوبارہ نہ کرنے کا عزم ہو۔ اگر گناہ اور توبہ کا شعور ہی نہ ہو تو پھر دوبارہ نہ کرنے کا عزم کیسے ہو سکتا ہے۔ اس لئے اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ میں کس چیز سے توبہ کر رہا ہوں۔ مقامِ توبہ میں باقاعدہ شعوری طور پر توبہ کرائی جاتی ہے جس میں ہر پہلو کو لیا جاتا ہے۔ صرف اجمالی توبہ نہیں کی جاتی بلکہ تفصیلی توبہ کی جاتی ہے۔ اجمالی توبہ کی افادیت سے انکار نہیں ہے لیکن تفصیلی بھی ضروری ہے کیونکہ اصلاح تب ہو گی جب انسان شعوری اور تفصیلی توبہ کرے گا۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم۔ حضرت ایک بہت عجیب و غریب بات عرض کرنی ہے۔ بارہا یہ دیکھا ہے کہ جس مضمون کو حضرت شروع فرماتے ہیں وہ مضمون تمام مجالس میں آ جاتا ہے۔ مثلاً جب آپ نے مقامات سلوک کی تفصیل شروع فرمائی، اسی ہفتے مکتوبات شریف میں، مثنوی شریف میں، مقامات قطبیہ و مقالات قدسیہ میں اور عبقات میں الغرض سب کتُب کے دروس میں وہی موضوع آ جاتا ہے۔ اِس میں کیا راز ہے۔ آج کل بھی یہی بات دیکھنے میں آ رہی ہے کہ حضرت مقامات کی باتیں فرما رہے ہیں، سلوک و ریاضات و مجاہدات اور روح کو نفس کے شکنجے سے چھڑانے کی باتیں ہو رہی ہیں تو یہی موضوع تمام اکابر کی کتابوں میں آرہا ہے۔ گویا جیسے یہ کوئی جیتی جاگتی کتابیں ہیں اور ان سب میں خاص روحانی ربط ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ آپ نے اپنے جذبات و خیالات کا بڑا عمدہ اظہار فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض ہیں:
یہ سب چیزیں پہلے بھی ہوتی تھیں، ہاں ان کا احساس پہلے نہیں ہوتا تھا، اب احساس ہونے لگ گیا ہے۔ ایک ہی وقت میں تمام کُتب میں ایک ہی مضمون کا آ جانا منجانب اللہ تائید الٰہی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ہمارے اس کام کے ساتھ اللہ پاک کی تائید ہے، بڑے بزرگوں کی توجہات ہیں، ان توجہات کی برکت سے الله جل شانہ دروس کی ترتیب ایسی بنا دیتے ہیں کہ ہمیں ایک ہی مضمون تمام دروس میں بیک وقت مل جاتا ہے۔ ہمیں اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
میں اپنے دفتر کے ایک دوست سے عرض کر رہا تھا کہ آپ نے دیکھا کہ جب کبھی ہمیں کسی چیز کی ضرورت پڑی، اسی وقت وہ چیز مہیا ہو گئی۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ ہے۔ اسی طرح یہاں خانقاہ میں جو دروس اور بیانات ہوتے ہیں، ان میں بھی اللہ تعالیٰ کی تائید شامل حال ہے۔ یہ باتیں اللہ پاک سامنے لاتے ہیں۔ اللہ پاک کی طرف سے ہمارے اوپر بہت احسان ہے۔ احسان جتنا زیادہ ہوتا جائے شکر کی کفیت کا بھی اسی تناسبت سے بڑھنا ضروری ہے۔ ہمیں انفرادی شکر بھی کرنا چاہیے اور اجتماعی شکر بھی۔ اجتماعی شکر یہ ہے کہ پورا سلسلہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھائے کیونکہ یہ اللہ پاک ہم جیسے لوگوں کو دے رہا ہے۔ اس پر ہمیں اللہ پاک کا بہت شکر ادا کرنا چاہیے اور ان چیزوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ میں نے اس بارے میں اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ خدا کے بندو! اللہ تعالیٰ اتنا دے رہا ہے اور آپ لوگ اس سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھ رہے ہو، یہ کیا کر رہے ہو، اگر ان کی قدر نہ کی تو یہ علوم کسی اور کے پاس بھی جا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھلی آنکھوں سے دکھایا ہے کہ جہاں قدر نہیں ہوتی وہاں سے علم اٹھ جاتا ہے۔
ایک مرتبہ ایک جگہ میرا بیان تھا، بیان کے بعد مجھے ایک مفتی صاحب سے ملنے جانا تھا۔ وقت کم تھا، میں نے وہاں جاتے ہی کہہ دیا کہ میرا بیان صرف 20 منٹ کے لئے ہو گا، لہٰذا کوئی درمیان میں اٹھے نہیں، جس نے اٹھنا ہے ابھی اٹھ جائے، درمیان میں اٹھنے بیان پر منفی اثر پڑتا ہے، میں آپ سے یہ نہیں کہتا کہ بیان لازمی سنیں لیکن جو بیان سنے وہ درمیان میں اٹھے مت۔ یہ درخواست کرنے کے بعد ابھی بیان شروع کئے دو تین منٹ ہی ہوئے تھے کہ تین چار آدمی اٹھ گئے۔ میں نے کہا: کیا میں نے آپ کے ساتھ کسی اور زبان میں بات کی ہے جو آپ کو سمجھ نہیں آئی؟ ابھی میں بیان روک رہا ہوں جسے اٹھنا ہے ابھی اٹھا جائے، اس کے بعد بیان ختم ہونے سے پہلے کوئی درمیان میں نہ اٹھے۔ یہ کہہ کر میں نے چند لمحات توقف کرکے دوبارہ بیان شروع کیا۔ جوں ہی میں نے بیان شروع کیا تین چار آدمی پھر اٹھ گئے۔ اس پر میں نے بیان روک دیا اور دعا کر کے وہاں سے چلا آیا۔ وہاں سے نکل کر مفتی صاحب کے ہاں پہنچے، ان سے جو گفتگو کرنا تھی وہ بھی ہو گئی، الحمد للہ مغرب سے پہلے ہماری ملاقات مکمل ہو گئی۔ اب مغرب کے بعد ہمارے پاس وقت تھا۔ مفتی صاحب نے اپنی مسجد میں مغرب کی نماز پڑھانے کے بعد ہمیں بتائے بغیر خود ہی اعلان کر دیا کہ شاہ صاحب آئے ہوئے ہیں وہ بیان کریں گے اور بیان ختم ہونے سے پہلے کسی نے اٹھنا نہیں ہے۔ میں نے وہی بیان تقریباً 20 منٹ تک وہاں کیا، الحمد للہ وہ بیان اتنا مقبول ہوا کہ ہمیں اسے چھاپنا پڑا۔
اب دیکھیں وہ بیان میں نے تیار کہاں کے لئے کیا تھا لیکن کہاں جا کر ہوا۔ یہ قدر کی بات ہے، جب کسی نعمت کی قدر نہیں جاتی تو اللہ پاک وہ نعمت کسی اور کو دے دیتے ہیں۔ اس لئے جو علم کی نعمت ہمارے پاس ہے اللہ ہمیں مسلسل دے رہا ہے ہمیں اس پہ شکر ادا کرنا چاہیے، اس کی قدر کرنا چاہیے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
سوال نمبر11:
حضرت جی درج ذیل مسئلہ کے بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔
ایک مُتَصَوِّف صاحب جن کا بزرگوں سے بیعت کا تعلق ہے، انہوں نے وٹس ایپ پر ایک میسج بھیجا جس میں حضرت جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مصرعہ لکھا تھا اور ساتھ ایک تصویر بنی ہوئی تھی۔ میں نے پہلے وہ میسج اپنے پاس سے ڈیلیٹ کیا، پھر انہیں پیغام بھیجا کہ آپ ایسی چیزیں شئیر نہ کیا کریں۔ لیکن وہ الٹا اس پر تاویلات پیش کرنے لگے اور کہنے لگے کہ کیا یہ جائز نہیں ہے؟ مفتی رفیع نے تو کہا ہے کہ یہ جائز ہے۔
میں نے جواب دیا کہ میں آپ سے اس مسئلہ پر بحث نہیں کر رہا کہ تصویر جائز ہے یا نا جائز۔ آپ نے ایک مرحوم ولی اللہ حضرت جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی تصویر یا کارٹون شئیر کیا ہے، اِس پر تمام علمائے حق اور مفتیان کرام کا اجماع ہے کہ یہ جائز نہیں ہے۔
انہوں نے ڈیجیٹل تصویروں کے متعلق بحث شروع کر دی کہ یہ جائز ہیں یا ناجائز۔ میں نے انہیں کہا کہ اس کے متعلق آپ کو ایک کتاب بھیج دیتا ہوں۔ حضرت حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فیض یاب ایک اچھے عالم و مفتی ہیں جنہوں نے یہ کتاب لکھی ہے، آپ اس کا مطالعہ کر لیجئے گا۔ میں آپ سے اس پر مزید بحث نہیں کرتا لیکن آپ اتنی مہربانی کریں کہ مجھے جاندار کی تصاویر مت بھیجا کریں۔
مجھے لگتا ہے کہ شاید وہ صاحب میری بات کا برا مان گئے۔ حضرت جی آپ رہنمائی فرمائیے کہ کیا میں نے اس طرح بات واضح کر کے صحیح کیا یا پھر کسی اور انداز میں کہنا چاہیے تھا۔ کیونکہ حضرت کی منشا مبارک یہی ہے کہ صحیح بات کہنے میں خوشامد نہ کیا کرو۔ جزاک اللہ خیرا۔
جواب:
اس سلسلے میں چند باتیں عرض ہیں:
پہلی بات یہ ہے کہ ہر معاملے میں شریعت کا خیال رکھنا بہت اچھی فکر ہے۔ اللہ ہم سب کو یہ نصیب فرمائے۔ اسے سلطانِ علم کہتے ہیں، جب تک انسان ہر معاملے میں شریعت کو سامنے نہیں رکھتا تب تک اپنی عقل سے کام کرتا ہے اور عقل بہت ٹھوکریں کھاتی ہے۔ شریعت کی رہنمائی کے بغیر ہماری عقل کچھ بھی نہیں ہے، شریعت کو نظر انداز کر کے محض عقل کی پیروی کرنا بڑے پیچیدہ مسائل کا سبب بنتا ہے۔
تصویر کے بارے میں ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آخر شریعت میں جاندار کی تصویر سے منع کیوں کیا گیا ہے؟
در اصل جاندار کی تصویر میں دو پہلو ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ جس کی تصویر ہے، دیکھنے والے کے دل میں اس کے لئے عزت و احترام اور تقدس ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس تصویر میں بے حیائی پر مبنی مواد نظر آتا ہے۔ جاندار کی تصویر انسان کے ایمان کے لئے بے حد نقصان دہ ہے چاہے ان دونوں میں سے کسی بھی قسم کی ہو۔
اگر وہ تصویر کسی معزز و محترم ہستی ہے کی ہے کہ جس کا لوگوں کے دل میں بے حد عزت و احترام اور محبت ہے تو خطرہ ہے کہ کہیں یہ محبت اور عزت و احترام آہستہ آہستہ تعظیم کی طرف نہ لے جائے اور پھر یہ تعظیم شرک کی طرف نہ لے جائے۔ ایسا ہونا نا ممکن نہیں ہے۔ قوم نوح میں شرک اسی طرح عام ہوا تھا۔ ان کے ہاں پانچ بڑے اولیاء اللہ تھے جن کے نام سورۃ نوح میں ذکر کیے گئے ہیں:
﴿وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا ﴾ (نوح: 23)
ترجمہ: ” اور (اپنے آدمیوں سے) کہا ہے کہ : اپنے معبودوں کو ہرگز مت چھوڑنا۔ نہ ود اور سواع کو کسی صورت میں چھوڑنا، اور نہ یغوث، یعوق اور نسر کو چھوڑنا“۔
یہ سب ان بتوں کے نام ہیں جن کو حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پوجا کرتی تھی۔ یہ پانچ حضرات بڑے بڑے اولیاء گزرے تھے، لوگوں نے ان کی تصویریں بنائیں تاکہ ان نیک لوگوں کو دیکھ ہمیں ان کی یاد آئے اور ہم بھی ان کی تقلید میں نیک کام کریں، پھر تصویروں سے ایک قدم آگے بڑھ کر ان کے بت بنا دیئے گئے۔ پھر ان کے سامنے جھکنے لگے، ان سے مرادیں مانگنے لگے اور آخر کار ان کی عبادت پر سلسلہ تمام ہوا۔ اس طرح سارا مسئلہ خراب ہو گیا اور اس کی وجہ بنی وہ پہلی تصویریں جو انہوں نے ان بزرگوں کی بنائی تھی۔
اس سے معلوم ہوا کہ تصویروں کے ساتھ شغف رکھنا شرک کی طرف لے جا سکتا ہے۔
زرتشتی لوگ اپنی جیب میں زرتشت کی تصویر رکھتے ہیں، جب ان کی عبادت کا وقت آتا ہے، اس تصویر کو اپنی جیب سے نکال کر اس کی تعظیم وغیرہ کرتے ہیں۔
لہٰذا اکابر کی تصاویر رکھنے میں تو یہ مسئلہ ہے کہ انسان کے دل میں پہلے تعظیم بڑھتی ہے پھر وہ شرک کی طرف لے جاتی ہے۔ اس وجہ سے جاندار کی تصویر کو حرام و ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ حقیقی تصویر کے بارے میں تو تمام علماء کے نزدیک متفق علیہ ہے، ہاں ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں کچھ علماء جواز کا فتویٰ ضرور دیتے ہیں، لیکن ڈیجیٹل تصویر میں بھی وہی مسائل موجود ہیں جو دوسری تصویر میں ہوتے ہیں۔
آپ کو شاید یاد ہو جب The Message فلم ریلیز ہوئی تھی، اس کے بنانے والوں نے اس فلم میں صحابہ کرام کے کردار بنائے تھے (نعوذ باللہ من ذلک) اس پر پوری دنیا میں مسلمانوں اور علماء کی طرف سے بہت احتجاج ہوا تھا۔ آپ غور کریں وہ سب بھی تو تصویروں اور ویڈیوز میں دکھایا گیا تھا، اور وہ تصویریں اور ویڈیوز ڈیجیٹل ہی تھیں، پھر بھی اتنے بڑے غلط کام کا سبب بنیں۔ کچھ لوگوں میں عقل نہیں ہوتی وہ شریعت کے مطابق نہیں چلتے جس کی وجہ سے ایسے نقصان ہو جاتے ہیں۔ وہ اس مسئلہ میں شریعت کی بات نہیں مانتے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر شریعت کا سلطان نہیں ہے، لہٰذا انہوں نے اپنی عقل کو کھلا چھوڑا ہوا ہے، جس طرف بھی جانا چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں۔
جاندار کی تصویر میں دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ بے حیائی والے مواد پر مبنی ہو۔ ایسی تصویر بھی چاہے وہ حقیقی ہو یا ڈیجیٹل، بے شمار مفاسد کا باعث ہے، اسے دیکھنے والے کا دل سیاہ ہوتا ہے۔ انسان کے ذہن میں برے خیالات تو آتے ہی رہتے ہیں، جب وہ ایسی تصاویر دیکھتا ہے تو اس کے خیال کو ایک بنیاد مل جاتی ہے، وہ خیال اس کے دماغ میں پکنے لگتا ہے، جس کا نتیجہ فحاشی کی صورت میں نکلتا ہے۔
جو مفاسد حقیقی تصویر میں ہیں وہی مفاسد ڈیجیٹل تصویر میں بھی ہیں، جیسے وہ تصویر تعظیم و شرک اور بے حیائی کی طرف لے جا سکتی ہے ایسے ہی یہ تصویر بھی تعظیم و شرک اور بے حیائی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ دونوں قسم کی تصاویر اور ویڈیوز سے بلا ضرورتِ شدیدہ بچنا چاہیے۔ بلاشبہ کچھ علماء نے ڈیجیٹل تصویر کے جواز میں فتاویٰ دیئے ہیں، لیکن لوگوں نے تصویر کے جواز کو بنیاد بنا کر اس تصویر کو حرام کاموں کے لئے بھی استعمال کرنا شروع کر لیا ہے اور انہوں نے ڈیجیٹل تصاویر کے جواز کو ہر قسم کی تصویر تک پہنچا دیا ہے، بینرز پر، پوسٹرز پر اور دیواروں پر جو تصاویر بنائی جاتی ہیں کیا یہ ڈیجیٹل ہیں؟ یقیناً یہ ڈیجیٹل نہیں ہیں لیکن لوگ انہیں بھی جائز سمجھنے لگے ہیں۔ حالانکہ ڈیجیٹل تصویر کے جواز کا فتویٰ دینے علماء بھی حرام کاموں کو کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ڈیجیٹل تصاویر کے جواز کا فتویٰ دینے والوں کے ساتھ علماء کی اکثر تعداد متفق نہیں ہے، خصوصاً بڑے علماء ان کے ساتھ متفق نہیں ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ جن علماء نے یہ فتویٰ دیا تھا اب وہ بھی کڑھ رہے ہیں، مسئلہ ان کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ انہوں نے تو ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں فتویٰ دیا تھا لیکن لوگوں نے اس کو حقیقی تصویر پر بھی چسپاں کر دیا ہے۔ اسی بات سے ان علماء کو ڈرایا گیا تھا کہ ایسا نہ کرو ایک دفعہ آپ کے ہاتھ سے فتویٰ نکل گیا تو پھر آپ اس کو واپس نہیں لے سکیں گے۔
کوئی کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو، حق حق ہی ہوتا ہے۔ ہمارے لئے سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ ہمارے اکابر علماء تصویر کے جواز کے خلاف ہیں چاہے وہ حقیقی تصویر ہو یا ڈیجیٹل تصویر ہو۔ مجھ سے سوال پوچھا گیا تھا کہ ڈیجیٹل تصویر سے کیا کیا مسائل پیش آ سکتے ہیں۔ 7 سوالات کئے گئے تھے جن کے جوابات میں نے دیئے تھے۔ اس کے بعد میں نے کہا تھا کہ میں خود ڈیجیٹل تصویر اور اس کی سائنس میں ماہر نہیں ہوں، میں اس کے ماہر کے سامنے یہ جوابات رکھوں گا، وہ اس سے اتفاق یا اختلاف جو بھی کرے گا میں آپ کو مطلع کر دوں گا۔ پھر میں نے ڈیجیٹل تصویر اور اس کی سائنس کے ماہرین سے گفتگو کی، ان کے سامنے یہ ساتوں سوالات و جوابات رکھے۔ انہوں نے میرے ساتوں کے ساتوں سوالات کے جوابات کی تصدیق کی اور کہا کہ آپ میری طرف سے بس ایک تبصرہ بھیج دیں کہ خدارا اس دروازے کو نہ کھولیں، ایک دفعہ یہ کھل گیا تو بند نہیں ہو سکے گا۔ حالانکہ وہ ایک دنیا دار پروفیسر تھے، پھر بھی ان کا یہ خیال تھا کہ یہ کام بہت خطرناک ہے، ایک بار یہ راستہ کھل گیا تو بند نہ ہو سکے گا۔
بہر حال ہماری رائے تو یہی ہے کہ جاندار کی تصویر کسی بھی قسم کی ہو، مذکورہ بالا مفاسد کی وجہ سے ناجائز ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرما دے۔
سوال نمبر12:
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ بیعت ہونے کے بعد اس مرید کو اللہ رب العزت مزید لوگوں کے اپنے شیخ تک پہنچنے اور بیعت ہونے کا ذریعہ بنائے۔ اس کے کہنے پر لوگوں کا دل واقعی اصلاح کروانے پر آمادہ ہو جائے اور وہ لوگ شیخ سے رابطہ بھی کریں۔ اِس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے، اگر کسی وجہ سے ایسا ممکن ہو تو اس مرید کو ایسا کیا کرنا چاہیے کہ دل میں عجب نہ آئے؟
جواب:
ایک آسان بات بتاتا ہوں اسی پہ عمل کر لیں۔ مسلمان کی شان یہ ہے کہ جس چیز کو اپنے لئے پسند کرتا ہے دوسرے کے لئے بھی وہی پسند کر لے۔ اگر کسی کو کسی شخص سے فائدہ ہوا ہے تو اس کے بارے میں بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کسی کو شیخ سے مناسبت نہ ہونے کی وجہ سے فائدہ نہ ہو تو اس سے ناراض نہ ہو۔ کیونکہ مناسبتیں اللہ پاک نے پیدا کی ہیں یہ اسی کی تقسیم کے مطابق کام کرتی ہیں۔
لہٰذا دوسروں کو اس بارے میں بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ کو فائدہ ہوا ہے لیکن دوسروں سے اصرار مت کریں کہ وہ بھی آ کر اپنی اصلاح کروائیں۔ کیونکہ ضروری نہیں ہے کہ جس شیخ سے آپ کو مناسبت ہو باقیوں کو بھی ان سے ہی مناسبت ہو۔
سوال نمبر13:
مرید اپنا حال سوائے شیخ کے کسی کو نہ بتائے۔ اس سے کیا مراد ہے ؟
جواب:
اس سے مراد یہ ہے کہ ذکر و اذکار اور مراقبات کرتے ہوئے آپ پر جو روحانی کیفیات و احوال وارد ہوتے ہیں اور جو آپ کی روحانی اچھائیاں برائیاں ہیں ان کے بارے میں شیخ کے علاوہ کسی کو مت بتائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو آپ بتانا چاہتے ہیں وہ یا تو غلط بات ہو گی یا اچھی ہو گی۔ اگر غلط ہے تو اسے بتانا جرم ہے اور اگر اچھی ہے تو اسے بتانا ریا کے زمرے میں آ سکتا ہے جس سے اس کے ضائع ہونے کا خطرہ ہوتاہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ علاجی ذکر و اذکار اور مراقبات دوائی کی طرح ہوتے ہیں، اگر کسی خاص ذکر یا مراقبہ سے کسی آدمی کا کوئی حال اچھا ہو جاتا ہے یا برا ہو جاتا ہے اور وہ دوسرے کو بتاتا ہے تو اس کا بھی یہی ذہن بن جائے گا کہ اس ذکر یا مراقبہ کا یہ اثر ہوتا ہے۔ حالانکہ دوائی کا اثر ہر آدمی پہ ایک سا نہیں ہوتا ایک آدمی ایک دوائی سے ٹھیک ہو رہا ہے تو دوسرا اس سے بیمار بھی ہو سکتا ہے۔ آج کل ہمارے یہاں یہ بڑا مرض ہے کہ اگر کسی دوائی سے میری بیماری دور ہو گئی تو میں ڈاکٹر بن جاتا ہوں اور سب کو بتانے لگ جاتا ہوں کہ تم بھی یہ دوائی کھاؤ حالانکہ ضروری نہیں کہ وہ دوائی دوسروں کے لئے بھی مفید ہو، ہر ایک کے لئے ایک ہی دوائی مفید نہیں ہوتی، مزاجوں کا اختلاف ہوتا ہے، بیماریوں کا اختلاف ہوتا ہے اور سمجھ کا اختلاف ہوتا ہے۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر اپنے احوال کسی کو نہیں بتانے چاہئیں، اس سے نقصان ہو سکتا ہے۔ ہمارے اکابر اس بات پر بہت شدت سے زور دیتے تھے، اس لئے ہم بھی اپنے متعلقین کو یہی سمجھاتے ہیں کہ اپنے احوال شیخ کے علاوہ کسی کو نہ بتائیں۔
سوال نمبر 14:
حال میں کیا کیا شامل ہے؟
جواب:
حال سے اپنی کیفیات مراد ہیں۔ مثال کے طور پر سالک کے اوپر جو بات گزر رہی ہے وہ جس چیز کو محسوس کر رہا ہے اسے حال کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ احوال اس طرح لکھنے چاہئیں کہ تمام احوال کا ذکر بھی ہو جائے اور بات لمبی بھی نہ ہو، یعنی مختصر اور جامع انداز میں احوال لکھے جائیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ پانچ سات صفحات ہی لکھ دیں بلکہ مختصر انداز میں بتانے کا ڈھنگ آنا چاہیے۔
سوال نمبر15:
بیعت ہونے کے بعد نفس بہت زیادہ رکاوٹیں پیدا کرنا شروع کر دے اور اصلاح کی کوئی بات نہ مانے، شیطان نفس کی اس حالت سے فائدہ اٹھا کر دل میں وسوسہ ڈالے کہ بھئی اصلاح تو بہت مشکل ہے اس پر طبیعت راضی نہیں ہوتی، پہلے تو اتنی تنگی نہ تھی دیکھو اب طبیعت کتنی تنگ ہوتی ہے، اس کام کو چھوڑ ہی دو۔ اس طرح شیطان بھاگ جانے کے مشورے دے تو ان سے اپنے آپ کو کیسے محفوظ رکھا جائے۔
جواب:
ہمت مرداں مدد خدا۔ ہمت کرے، اللہ پاک کی مدد ساتھ ہو گی۔
سوال نمبر16:
اگر خاتون مرید کے دل میں شیخ کے لئے محبت یا عقیدت ہو تو یہ گناہ تو نہیں؟
جواب:
آپ ﷺ مرد ہیں، خواتین کو نبی پاک ﷺ کے ساتھ محبت ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ یقیناً ہوتی ہے۔ لہٰذا شیخ کے بار ے میں یہ سوچ رکھی جائے کہ شیخ نبی پاک ﷺ کا نائب ہوتا ہے۔ اس انداز میں شیخ کی محبت کو سمجھا جائے تو کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ ہاں شریعت کی پابندی ضروری ہے، شیخ سے محبت ہونے کے باوجود اس سے پردہ ضروری ہے۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ غیر اختیاری طور پر ان کی نظر کسی عورت پہ پڑی، آپ ﷺ نے ان کا چہرہ اپنی انگلی مبارک سے دوسری طرف کر دیا۔ مجھے بتاؤ دنیا میں کون سا ایسا بزرگ ہو گا جو صحابی سے اونچا ہو۔ جب صحابی کے لئے بھی شریعت پر عمل سے کوئی چارہ کار نہیں ہے تو کسی اور کے لئے کوئی چھوٹ کیسے ہو سکتی ہے۔ لہٰذا شرعی پردہ اور شرعی احکام اپنی جگہ قائم و دائم رہیں گے ان پر عمل کرنا ضروری ہو گا۔ شریعت پر عمل کے ساتھ ساتھ اگر شیخ کے ساتھ اس وجہ سے محبت کی جائے کہ وہ نبی ﷺ کا نائب ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ اچھی محبت ہو گی۔
سوال نمبر17:
اگر گھر کا کوئی فرد بیعت ہونے اور کافی عرصہ اُس راستے میں لگنے کے بعد تھوڑا بگڑ جائے، ظاہری طور پر تصوف سے دور دور رہنے لگے اور دنیاوی چیزوں کی طرف متوجہ ہو جائے تو اس کے لئے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
اس کے لئے دعا کرنا چاہیے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِین