اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
السلام علیکم۔ حضرت جی کل سے بزرگی سے توبہ والا عمل شروع کر لیا ہے، اس سے بہت فائدہ محسوس ہو رہا ہے۔ نماز اور دیگر اعمال میں بھی یہ کیفیت مستحضر رہی کہ میں تو اعمال کرنے کے قابل بھی نہیں، یہ محض اللہ ہی کا کرم اور فضل ہے کہ اس نے توفیق دے دی۔ اپنی کم مائیگی کا احساس بھی ہو رہا ہے۔ یہ پیغام لکھتے ہوئے بھی یہ ڈر غالب ہے کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ لکھ دوں جس سے اپنی بزرگی کی بو آتی ہو۔
جواب:
اپنے آپ کو بزرگ سمجھنا بہت خطرناک مرض ہے۔ اس سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ ہر وہ چیز جس سے بزرگی کا احساس ہو اس کا قلع قمع کرنا چاہیے، اس سے توبہ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ یہ تمام اعمال کو ضائع کرنے والی چیز ہے۔ اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ میں تو کچھ بھی نہیں، میرے اعمال کچھ بھی نہیں، اگر اللہ کی طرف سے قبولیت ہو جائے تو پھر سب کچھ ہے، پھر کوئی خطرہ نہیں رہتا۔ اگر نظر اپنے اوپر ہو، پھر چاہے کتنا ہی اچھا عمل کیوں نہ ہو اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا لہذا اپنے اوپر نظر نہیں رکھنی چاہیے۔ ہمارے اکابر سلوک میں فنائیت کے اوپر بڑا زور دیتے ہیں۔ جب فنائیت حاصل ہو جاتی ہے، انسان اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا تو پھر اس کو یقین ہو جاتا ہے کہ میرا کوئی عمل کسی قابل نہیں ہے، بس اللہ پاک اپنے فضل سے قبول فرما لے تو یہ اس کا کرم ہے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم۔ اللہ کریم کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں سلسلے میں شامل فرمایا۔ اللہ کریم کی رحمت سے اپنی اصلاح کی امید ہے۔ اس جوڑ میں مشورہ ہوا تھا کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”احیاء العلوم“ میں سے گناہوں کی ایک فہرست بنا کر آپ کی خدمت میں پیش کی جائے کہ آپ اپنے تجربے اور فراست سے آج کے دور کے مطابق اس فہرست کو درست فرما لیں، اس طرح توبہ کا مقام تفصیلی طور پر طے کرنے کے لئے جملہ گناہوں کی تفصیل آ جائے گی۔ کل تقریباً 10 بجے رات کو گھر پہنچا تو آپ کا تفصیلی توبہ والا پیغام مل گیا جس پہ خوشی ہوئی۔ لاہور کے جوڑ کا مشورہ آپ کی توجہ کی برکت سے تھا۔ حضرت ميں اللہ کریم کے بھروسے پر 10 مقامات تفصیلی طور پر طے کرنے کے راستے میں آپ کی رہنمائی اور اس سلسلے کی برکت کے ساتھ قدم رکھتا ہوں، اس یقین کے ساتھ کہ کامیابی اور ناکامی سے قطع نظر یہ سفر بجائے خود ایک بڑی نعمت ہے۔ طالبِ دعا
جواب:
یہ واقعی ایک بہت ہی ضروری کام تھا۔ پہلے وقتوں میں یہ بہت اہم چیز ہوتی تھی بلکہ سلوک طے کرنا اسی کو کہتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں ختم ہوتی گئیں پھر ان چیزوں کی طرف دھیان نہیں رہا، زیادہ زور ذکر اذکار، مراقبات اور کیفیات پر رہنے لگ گیا۔ اگرچہ یہ کیفیات عارضی ہوتی تھیں لیکن ان کی وجہ سے لوگ اپنے آپ کو بزرگ سمجھنے لگتے تھے، نتیجتاً اصلاح کا راستہ رک جاتا تھا۔ اب الحمد للہ اس کا استحضار ہو گیا ہے اور اس کے لئے عملی مشق بھی شروع ہو گئی ہے، اللہ کرے کہ یہ سلسلہ مکمل ہو اور اس کے ذریعے ہم سب کی اصلاح ہو جائے۔
سوال نمبر3:
حضرت جی کبھی کبھی نعت پڑھنے کو دل کرتا ہے، اگر آپ کی اجازت ہو تو آپ کی لکھی ہوئی کوئی نعت پڑھ کر آپ کو ارسال کروں؟
جواب:
آپ ضرور نعت پڑھیں، بلاشبہ یہ اچھی بات ہے لیکن اعمال کی قربانی کی قیمت پر نہیں، اول درجہ اور ترجیح فرائض و واجبات اور سنن مؤکدہ اعمال کی ہی ہے۔ ایک شخص کی آواز بہت اچھی ہے تو یہ اللہ پاک کی نعمت ہے، اسے چاہیے کہ اس نعمت کا شکر ادا کرے اور اسے صحیح چیزوں میں استعمال کرے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی اعمال سے غافل ہو جائے۔ شکر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی صلاحیتیں اور وقت اللہ تعالی کی پسندیدہ چیزوں میں لگائے، اس لئے اگر کسی کمال اور نعمت کی وجہ انسان کو قرب حاصل ہونے لگے تو نہ صرف یہ کہ اس نعمت کو باقی رکھے، اسے ضائع نہ ہونے دے بلکہ اس نعمت کو باقی برکات کو حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لے اور اعمال میں ترقی کرے۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی مقام توبہ کیا ہے؟ کیا یہ کثرت سے استغفار کرنے سے حاصل ہوتا ہے؟
جواب:
”مقام“ جگہ کو کہتے ہیں، ایسی جگہ جہاں کسی کو پہنچنا تھا وہ پہنچ جائے اور اس جگہ پہ استقرار حاصل کر لے، ایسی جگہ کو مقام کہتے ہیں۔
ایک حال ہوتا ہے اور ایک مقام ہوتا ہے۔ حال عارضی ہوتا ہے، انسان کو عارضی طور پر کوئی کیفیت حاصل ہو جائے اسے حال کہتے ہیں جبکہ مقام ایسی صفت کو کہتے ہیں جو انسان میں اس طرح راسخ ہو جائے کہ اس کی طبیعت اور فطرت ثانیہ بن جائے اور اس کے زائل ہونے کے اسباب بہت کم ہو جائیں۔
اب توبہ کو سمجھیں۔ توبہ کا مطلب ہے گناہ چھوڑ کر نیکی کی طرف آنا اور اللہ پاک کی طرف رجوع کرنا۔ توبہ کی ایک قسم تو یہ ہے کہ آدمی نے کوئی گناہ کیا، اسے احساس ہوا کہ میں نے گناہ کیا اور اس نے توبہ کر لی اللہ پاک سے استغفار کر لیا، لیکن جن اسباب کی وجہ سے وہ گناہ ہوا تھا ان کو دور نہیں کیا، توبہ کو برقرار رکھنے کا انتظام نہیں کیا۔ مثلاً خدا نخواستہ ایک آدمی انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی لت میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے وہ اکثر گناہ میں پڑ جاتا ہے، اس نے اس گناہ سے توبہ تو کر لی لیکن انٹرنیٹ کے غلط استعمال کو چھوڑنے کا انتظام نہیں کیا اور پھر کسی وقت دوبارہ اس میں مبتلا ہو گیا۔ اب اگرچہ یہ دوبارہ توبہ کر سکتا ہے لیکن کیا پتا کس وقت اس کی موت آ جائے، لہٰذا اسے جلد سے جلد انٹرنیٹ کے غلط استعمال کا سد باب کرنا ہو گا تاکہ آئندہ اس قسم کے گناہ میں مبتلا ہونے کے امکان کم سے کم ہوں۔ جب یہ آدمی ایسا انتطام کرے گا کہ آئندہ اس گناہ کے اسباب بھی سامنے نہ آئیں اور اس انتطام میں مکمل طور پہ پختگی لائے گا تب ہم کہیں گے کہ اسے اس گناہ کے لحاظ مقام توبہ حاصل ہو گیا ہے۔ یہی مقام توبہ ہے اور یہ صرف ایک گناہ میں نہیں بلکہ تمام گناہوں کے لحاظ سے حاصل کرنا ہوتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو پرکھتا اور جانچتا ہے، تمام ممکنہ گناہوں کے تمام ممکنہ رستوں اور اسباب کا سدباب کرتا ہے، ان گناہوں سے توبہ کر کے اللہ کے حضور استغفار کرتا ہے پھر ان گناہوں کو دوبارہ نہ کرنے کا عزم کرتا ہے اور جن اسباب سے وہ ان گناہوں میں پڑا تھا ان سب کو روکنے کا مکمل انتظام کر لیتا ہے تب اسے مقام توبہ حاصل ہوتا ہے۔
یقیناً مقامِ توبہ کا ایک پہلو کثرت سے استغفار کرنے سے حاصل ہو جاتا ہے لیکن حقیقی توبہ اور مقام توبہ تب ہی حاصل ہوتے ہیں جب کثرت سے استغفار کے ساتھ ساتھ اس گناہ کے مکمل طور پر دوبارہ نہ ہونے کے انتظامات کئے جائیں اور شعوری توبہ کی جائے یعنی باقاعدہ اس کا استحضار ہو، آدمی کو شعوری طور پر پتا ہو کہ میں کس چیز سے توبہ کر رہا ہوں تاکہ آئندہ کے لئے اس سے بچنے کا سامان کر سکے۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم۔ حضرت جی آپ نے ”زبدۃ التصوف“ اور ”تصوف کا خلاصہ“ کتابیں پڑھنے کو فرمایا تھا۔ میں نے ”زبدۃ التصوف“ پڑھ لی ہے، اب ”تصوف کا خلاصہ“ شروع کرنے لگی ہوں۔
جواب:
ماشاء اللہ، اللہ پاک نے آپ کو توفیق عطا فرمائی۔ ”زبدۃ التصوف“ ایک اچھی کتاب ہے، اس کے اندر تصوف سے متعلق بنیادی چیزیں موجود ہیں۔ اگر کوئی ”زبدۃ التصوف“ کو اچھی طرح سمجھ کر پڑھ لے تو اسے کم از کم تصوف کے بنیادی مفاہیم سے آگاہی ہو جائے گی اور آئندہ کے لئے اس کو تصوف کے بارے میں اشکالات کم ہوں گے۔ اس کے مطالعہ کے بعد بھی اگر کچھ اشکالات باقی رہ جاتے ہیں تو ان کا جواب ”تصوف کا خلاصہ“ میں ہے۔ یہ کتاب سوال و جواب کی صورت میں ہے۔ اگر یہ بھی آپ پڑھ لیں تو ان شاء اللہ العزیز فائدہ مستقل رہے گا۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم۔ حضرت جی مجھے ایک مسئلہ بہت پریشان کر رہا ہے۔ نفس کی بری خواہشات سے بچنا مشکل لگتا ہے۔ میں آپ کی ہدایات کے مطابق نفس کی خواہشات میں لگنے کے ذرائع کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ آپ نے ہر نماز کے بعد اللہ پاک کے نام ورد کرنے کے لئے دیئے تھے وہ بھی پڑھتی ہوں لیکن مسئلہ تب ہوتا ہے جب اچانک برے خواب اور حد درجہ برے وسوسے آنے لگ جاتے ہیں اور ڈر کے مارے آنکھ کھل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ میں نے اپنے بارے میں یہ جانا ہے کہ جب میں گھر والوں کے ساتھ ہوتی ہوں فضول باتوں میں بہت وقت لگاتی ہوں اور اکیلے رہوں تو برے وسوسے آنے لگ جاتے ہیں اِس سے بہت نقصان ہوتا ہے اور ناپاکی کے ایام میں ایسے مسائل زیادہ پیش آتے ہیں۔ اعتکاف کے بعد چھوٹے چھوٹے مسائل اور دنیاوی جائز امور کی پریشانیاں یکے بعد دیگرے آ جاتی ہیں۔ پھر مجھے فرض عین کورس کرنے کی اور بعد میں درود پاک پڑھنے کی بھی بہت زیادہ فکر لگی رہی۔ ڈیڑھ ماہ سے دائیں بازو، گردن اور کندھے میں درد ہے جو مکمل طور پہ ٹھیک نہیں ہو رہا لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ عام حالات میں صحت کی خرابی رہتی ہے تو میرے اوپر مجاہدہ اور ذہنی و جسمانی تکلیف کی سی کیفیت رہتی ہے، اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کم سے کم نفس کا بری خواہشات کی طرف دھیان نہیں جا پاتا اس لئے یہ سب نعمت محسوس ہوتا ہے۔ آپ نے کورس میں فرمایا تھا کہ نفس کی بری خواہشات کو دبانے کے لئے روزے کثرت سے رکھنے چاہئیں جبکہ میری حالت یہ ہے کہ مجھ سے قضا روزے ہی بہت مشکل سے پورے ہو پاتے ہیں، شوال یا ذی الحج کے روزوں میں پورا کرتی ہوں، ابھی بھی کچھ روزے رہتے ہیں، ارادہ کرتی ہوں کہ کل سے شروع کروں گی لیکن شروع نہیں کر پاتی، یہ سوچ کر گھبرا جاتی ہوں کہ گھر میں ماحول تو برا ہی ہے، گانے وغیرہ چلتے ہیں، کبھی اپنے آس پاس کوئی نظم و ضبط نہیں دیکھا۔ میں نے بچپن سے وقت پہ کوئی کام نہیں کیا، نہ پڑھائی، نہ معمولات اور نہ سونا نہ جاگنا، لیکن اس درجے کا صبر ہے کہ اتنا ضرور کرنا ہے کہ کسی بھی طرح معمولات پورا ہو جائیں۔ معمولات ضرور پورے کرتی ہوں چاہے رات جاگ کر کرنا پڑیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ معمولات کو باقی کاموں پر ترجیح دیا کریں لیکن افسوس ہے کہ مجھ سے اپنے اوپر وقت کی پابندی نہیں ڈالی جاتی اس لئے 3 بجے رات کو سوتی ہوں پھر روزے کے لئے بالکل جاگ نہیں پاتی، فجر اور اشراق کے لئے جاگ جاتی ہوں۔ فی الحال گھر میں ہی رہتی ہوں، کلینک میں ملازمت کی درخواست دی تھی وہاں سے ابھی کوئی جواب نہیں آیا، اس سلسلے میں پریشانی ہے، کئی بار وسوسے آئے جس سے نقصان ہوا۔ فی الوقت جیسے بھی حالات ہیں آپ سے عرض کر رہی ہوں، ازراہ کرم آپ رہنمائی فرمائیں تاکہ میں اس کے مطابق کام کروں۔ غض بصر کا مجاہدہ جاری ہے، کچھ دنوں کا رہ گیا ہے مکمل کر کے ان شاء اللہ اطلاع دوں گی۔
جواب:
حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
شہوتِ دنیا مثلِ گلخن است
از وے حمامِ تقویٰ روشن است
دنیا کی شہوات، پسندیدہ چیزیں اور لذات اصل میں تقوی کے حمام کو گرم کرنے کے لئے خس و خاشاک ہیں۔
اس لئے ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ جتنے سخت وسوسے آئیں گے ان میں استقامت سے اتنا ہی اعلیٰ تقویٰ حاصل ہو گا۔ وسوسوں سے گھبرانا نہیں چاہیے، ہمت کرنی چاہیے کبھی نفس کی نہیں ماننی چاہیے۔ جب آپ نفس کی کوئی بات نہیں مانیں گی تو آہستہ آہستہ نفس کا زور کم ہوتا جائے گا۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، اللہ تعالی نے یہ چیزیں اس لئے بھیجی ہیں تاکہ ہم ان کے ذریعے سے کمائیں۔ جس کو برائی کی طلب زیادہ ہو گی، وہ اسے جتنی زیادہ محنت و کوشش سے روکے گا، اسے اتنا زیادہ تقویٰ حاصل ہو گا۔
جس طرح آپ دنیاوی چیزوں کے لئے انتظام و اہتمام کرتی ہیں اور وہ کام ہو جاتے ہیں اسی طرح ان چیزوں کے لئے بھی باقاعدہ انتظام کر لیا کریں، یہ کام بھی ہو جائیں گے۔ ضروری نہیں کہ انتظام کے بعد یہ کام آسانی سے ہو جائیں، مشکل ضرور ہو گی لیکن جتنی مشکل ہو گی آپ کو اجر بھی اتنا ہی زیادہ ملے گا۔
جو مجاہدہ آپ کو دیا گیا ہے اسی مجاہدہ کو کرتی رہیں، ان شاء اللہ جب یہ پورا ہو جائے گا پھر اور مجاہدات بھی ہوں گے اور اُن مجاہدات سے ان شاء اللہ آہستہ آہستہ یہ تمام چیزیں آسان ہو جائیں گی۔ ایک دن میں سارا مسئلہ حل نہیں ہوتا وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ مسائل حل ہوتے ہیں۔ آپ ہمت نہیں ہاریے گا۔
سوال نمبر7:
ایک شخص نے لکھا ہے:
”محبوب حقیقی کو کوئی تلاش نہیں کرتا جب تک وہ خود اسے اپنی تلاش کی توفیق نہ دے۔ سو اگر تمہیں اس کی تلاش عطا ہوئی ہے تو جان لو کہ اسے بھی تمہاری تلاش ہے۔ اہل عشق کی محبت خام کو بھی خاص بنا دیتی ہے۔ جب دل میں محبت کی آگ جلنے لگے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بھی تم سے محبت کرتا ہے کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اگر کوئی پیاسا پانی پانی پکارتا ہے تو پانی بھی صدا دیتا ہے کہ کہاں ہے میرا پینے والا۔ صرف پیاسے کو پانی کی پیاس نہیں ہوتی بلکہ پانی کو بھی پیاسے کی پیاس ہوتی ہے۔ ہماری روح میں اس ذات کی پیاس اسی ذات کی کشش کا کمال ہے وہ خود ہمیں اپنی جانب کھینچتا ہے کیونکہ ہم اس کے ہیں اور وہ ہمارا۔“ حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ۔
جواب:
سبحان اللہ یہ بہت اچھا مضمون ہے لیکن اس کو اچھی طرح سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ حدیث شریف میں ہے:
”اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللہ“ (شعب الایمان للبیہقی: (6/ 2528)
ترجمہ: ”مخلوق اللہ پاک کا کنبہ ہے“۔
اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق سے بڑی محبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو مخلوق خدا کی خدمت کرتا ہے اللہ تعالی اس سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے والد صاحب شاہ عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ بڑے صاحب کشف بزرگ تھے، ان کے کشفیات بڑے مشہور ہیں۔ ایک دن کہیں جا رہے تھے، ایک جگہ پر سارا راستہ کیچڑ سے اس طرح بھرا ہوا تھا کہ کیچڑ میں پاؤں رکھے بغیر ایک وقت میں ایک ہی شخص راستہ عبور کر سکتا تھا۔ حضرت وہ راستہ عبور کرنے لگے تو سامنے سے ایک کتا آ گیا، انہوں نے اپنے دل میں کہا کہ کاش یہ کتا راستہ چھوڑ دے تو میں چلا جاؤں گا، کتا تو ویسے بھی غیر مکلف ہے اگر وہ کیچڑ میں اتر بھی جائے تو کوئی حرج نہیں اس کے کپڑے تو نہیں ہیں کہ وہ خراب ہو جائیں جبکہ میں تو جمعہ کی نماز کے لئے جا رہا ہوں اگر میں کیچڑ میں اتر گیا تو میرے لئے مسئلہ ہو گا۔ یہ سوچ رہے تھے کہ کتے کو زبان مل گئی، اللہ تعالی نے اس کو زبان دے دی، اس طرح نہیں کہ وہ انسانوں کی طرح بولنے لگا بلکہ مطلب یہ ہے کہ انہیں اس کی بات سمجھ آنے لگ گئی۔ کتے نے کہا ٹھیک ہے میں اتر جاتا ہوں کوئی بات نہیں میرے لئے کوئی مشکل نہیں ہے، اگر تو اترے گا تو تیرا کپڑا نجس ہو گا جو تھوڑے سے پانی سے دھل سکتا ہے لیکن اگر تو نہیں اترے گا میں اتر جاؤں گا تو تیرے دل میں یہ بات آئے گی کہ تو کتے سے اچھا ہے، یہ بات اتنا بڑا گند ہے کہ سات سمندر بھی اس کو نہیں دھو سکتے۔ یہ سن کر حضرت کیچڑ کے اندر اتر گئے اور بعد میں کپڑے تبدیل کر لئے۔ اللہ پاک نے ان کو الہام کیا کہ تجھے جو نعمت ملی ہے وہ اس وجہ سے ملی ہے کہ ایک بار تو نے ایک کتے پہ رحم کیا تھا، وہ سردی سے ٹھٹھر رہا تھا اور تو نے اس پہ بوریا ڈالا تھا، آج میں نے اس کی نسل سے تجھے وہ نعمت دلوا دی جو میں اپنے خاص بندوں کو عنایت کرتا ہوں۔
اس سے پتا چلا کہ اللہ پاک اپنی مخلوق پر بہت زیادہ کرم کرتا ہے، اللہ پاک کو اپنی مخلوق کے ساتھ محبت ہے۔ اگر کوئی کمی ہوتی ہے تو وہ ہماری اپنی وجہ سے ہوتی ہے، ہمارا نفس گڑبڑ کر رہا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہمیں روحانی و جسمانی مسائل پیش آتے ہیں۔ ہماری روح بھی اللہ کے ساتھ محبت کرتی ہے لیکن نفس کے شکنجہ میں آ کر وہ اس محبت کو بھول چکی ہے۔ اسے اللہ کی محبت یاد دلانے کے لئے جذب کسبی حاصل کیا جاتا ہے تاکہ روح کو اللہ پاک کے ساتھ محبت یاد آ جائے۔ محبت تو اللہ پاک نے پہلے سے ہمارے اندر رکھی ہوئی ہے، اب اس کے لئے ہمیں ہمت کرنی ہے اور کوشش کر کے اس کو ابھارنا ہے، اگر ہم نے اس کو ضائع کر دیا تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ اللہ پاک نے کسی کو کوئی نعمت دی ہو اور وہ اس کی قدر نہ کرے تو وہ نعمت ضائع ہو جاتی ہے۔ ہمارے اندر اللہ پاک نے جو محبت رکھی ہے اس کی ناقدری کرنے سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں یہ ہماری کمزوری اور غفلت کی وجہ سے ہم سے چھین نہ لی جائے۔ اللہ پاک کو یقیناً ہم سے محبت ہے اور ہمیں بھی اللہ پاک سے محبت کرنی چاہیے۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی اگر سفر کے دوران نماز کے لئے گاڑی رکوا لی جائے اور کہنے کے باوجود کوئی نماز نہ پڑھے، اکیلے نماز پڑھنی پڑ جائے تو کیا با جماعت نماز والا چلہ پھر سے شروع کرنا پڑے گا؟ میں نے یہ چلہ تیسری دفعہ شروع کیا تھا۔
جواب:
اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو مسلسل طلب میں رکھتا ہے، کبھی کبھی کسی معمولی وجہ سے جس میں اس کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا‘ ایک معمول رہ جاتا ہے لیکن اس میں اللہ پاک کی کوئی حکمت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اللہ پاک اپنے بندے سے وہ کام نئے سرے سے کروانا چاہتا ہے۔ آپ نیت کر لیں کہ عمر بھر میں یہ کوشش جاری رکھوں گا کہ میرا چلہ پورا ہو، چاہے بار بار ٹوٹتا ہی رہے پھر بھی میں اپنی کوشش جاری رکھوں جب تک پورا نہیں ہوگا ہر بار ٹوٹنے پر نئے سرے سے شروع کر دوں گا۔ یہی اس کا حل ہے اور یہی اس کا علاج ہے، اس میں اپنی ہمت نہ ہاریں۔
سوال 9:
حضرت جی آپ نے بتایا تھا کہ کھانا، سونا اور بولنا، اِن تینوں پہ قابو پانا ضروری ہے۔ میں اِن میں سے کوئی مجاہدہ نہیں کر رہی جبکہ نفس کی اصلاح کے لئے آپ نے ان پر قابو پانا لازمی قرار دیا ہے۔ حضرت جی مجھے بھی کوئی مجاہدہ دیں۔
جواب:
آپ مجھے اپنے احوال بتائیں کہ آپ کی کھانے، پینے، سونے اور جاگنے کی عادتیں کیا ہیں، اس کے بارے میں کچھ تفصیلات مجھے بتا دیں تاکہ میں آپ کی رہنمائی کر سکوں کہ کون سا مجاہدہ اب آپ کے لئے بہتر رہے گا۔
سوال 10:
حضرت جی آپ نے مجھے وظیفہ دیا ہے جو نماز کے بعد کرنا ہے لیکن میرے لئے ایک مشکل ہے۔ میں ڈاکٹر ہوں اور میری ڈیوٹی کے اوقات بدل رہے ہیں، الحمد للہ اب تک تو کوئی نماز قضا نہیں ہوئی، لیکن نئے نظام الاوقات کے مطابق نماز کے وقتوں میں‘ میں آپریشن تھیٹر میں ہوا کروں گا۔ کافی پریشان ہوں کہ ایسے میں نمازیں کیسے پڑھوں اور وظیفہ کیسے جاری رکھوں۔
جواب:
آپ الله جل شانهٗ سے مانگتے رہیے اور متقی مفتیان کرام کے ساتھ رابطہ رکھیں، ان کو اپنے احوال بتا دیں وہ آپ کو اس میں جتنی گنجائش ہو سکے گی‘ بتا دیں گے، آپ اس کے مطابق عمل کر لیا کریں۔ نماز کی جو ترتیب وہ بتائیں گے اسی کے مطابق جب آپ نماز پڑھیں، نماز کے بعد ہی ذکر بھی کر لیا کریں۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت کیا میں اپنے فارغ وقت میں چلتے پھرتے عدد متعین کئے بغیر درود شریف پڑھ سکتا ہوں؟
جواب:
جی ہاں کیوں نہیں۔ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم علاجی ذکر کے علاوہ مسنون ذکر دیتے ہیں کہ روزانہ 100 دفعہ درود شریف، 100 دفعہ استغفار اور 100 دفعہ تیسرا کلمہ پڑھا کریں۔ اس کے علاوہ اگر کسی کے پاس وقت ہو اور وہ ذکر کرنا چاہے تو فجر سے لے کر دوپہر تک ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُحَمّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ“ پڑھ لیا کرے، دوپہر سے مغرب تک درود شریف پڑھ لیا کرے اور مغرب کے بعد استغفار پڑھ لیا کرے۔ آپ بھی اس طرح کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت صاحب میرا ذکر جاری ہے لیکن کافی ناغے ہو گئے ہیں۔
جواب:
اس میں آپ کی ایک بات اچھی اور ایک بات بری ہے۔ اچھی بات کو برقرار رکھیں اور بری بات سے توبہ کر لیں اور اپنے آپ کو اس سے بچائیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ آپ نے ذکر چھوڑا نہیں ورنہ شیطان یہ بھی ترغیب دیتا ہے کہ جب ذکر نہیں ہو رہا تو چھوڑ دو، لیکن الحمد للہ آپ نے نہیں چھوڑا۔ بری بات آپ کی یہ ہے کہ درمیان میں آپ ناغے کرتی ہیں۔ ڈاکٹر کو یہ اطلاع دینا کہ میں دوائی نہیں کھا رہی اس سے ڈاکٹر کو صرف اتنا پتا چل جاتا ہے کہ آپ دوائی نہیں کھا رہیں اس کے علاوہ کوئی اضافی فائدہ نہیں ہوتا، فائدہ تو آپ کو تب ہو گا جب آپ خود سمجھ داری کا مظاہرہ کریں اور اپنا نقصان نہ ہونے دیں۔ اپنے آپ کو نقصان سے بچائیں اور پابندی کے ساتھ علاجی وظیفہ جاری رکھیں۔
سوال نمبر13:
حضرت جی میں سوچ رہی تھی کہ شکر اور توبہ بھی عجیب چیزیں ہیں، ان کی کوئی حد نہیں، بندہ کب تک کرے اور کتنا کرے اس لئے کہ یہ جس سے تعلق رکھتے ہیں اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ اب سمجھ آ گئی کہ توحید کی کیوں کوئی حد نہیں، اخلاص کی کیوں کوئی حد نہیں، تواضع کی کیوں کوئی حد نہیں، رضا کی کیوں کوئی حد نہیں اور پھر سیر فی اللہ کی کیوں کوئی حد نہیں۔ حضرت جی اب میری طرف سے بھی حد ہٹ گئی ہے۔
جواب:
واقعتاً شکر نہیں ہو سکتا، کوئی شکر کا حق ادا نہیں کر سکتا اور کوئی توبہ کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ ہم کیا حیثیت رکھتے ہیں، پیغمبروں تک نے ایسا کہا ہے:
﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ﴾ (الاعراف: 23)
ترجمہ: ”اے ہمارے پروردگار ! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم نا مراد لوگوں میں شامل ہو جائیں گے“۔
لہٰذا ہمیں توبہ کرتے رہنا چاہیے، توبہ کرتے رہنے میں ہمارا فائدہ ہے۔ اسی طرح شکر کرتے رہنا چاہیے اور اس کو بھی ناشکری سمجھنا چاہیے کہ جس طرح اور جتنا شکر ہونا چاہیے تھا ہم نے اس طرح اور اتنا شکر ادا نہیں کیا۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: میرے جتنے بال ہیں اگر اتنے منہ ہو جائیں اور ہر منہ میں 70 زبانیں ہو جائیں اور ہر زبان اللہ پاک کا ذکر کرے تو میں اس بات کا شکر کیسے ادا کروں گا کہ اللہ پاک نے اتنی زبانیں دی ہیں اور ان سے شکر کرنے کی توفیق دی ہے۔ ہم اللہ پاک کا شکر نہیں کر سکتے البتہ شکر کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر14:
روحانیت کے راستے میں سالک کب گرتا ہے؟
جب وہ اپنے پیر بھائیوں کی خامیاں دیکھنے لگتا ہے، جب وہ پرانے سالکین اور خلفائے کرام کی خامیاں ڈھونڈنے لگتا ہے پھر اسے شیخ میں بھی خامیاں نظر آنے لگتی ہیں اور وہ اپنی اصلاح سے بے خبر ہو جاتا ہے حالانکہ اس کے اندر بڑی بڑی خامیاں ہوتی ہیں۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو اسے دوسروں کی خامیاں دیکھنے میں لگا دیتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کسی سے راضی ہوتے ہیں تو وہ اپنی خامیاں دیکھتا ہے اور ان کی اصلاح کرتا رہتا ہے۔ جب انسان شیخ سے کٹنے لگتا ہے تو اپنی کم علمی و کم فہمی کی وجہ سے پہلے اسے شیخ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے پھر بد گمانی ہوتی ہے پھر بد زبانی پہ اتر آتا ہے جس کی وجہ سے سلسلے کے مشائخ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں اور اس کے اندر بے سکونی، بے چینی اور بے برکتی پیدا ہو جاتی ہے پھر بعد میں وہ خود فتنہ بن جاتا ہے۔
حضرت جی آپ اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
جواب:
یہ سب باتیں درست ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے لکھا ہے کہ ہر چیز کا اپنا ایک قدرتی طریقۂ کار ہوتا ہے جس کا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے، اس وقت سے پہلے غفلت بھی ٹھیک نہیں ہوتی اور تعجیل بھی ٹھیک نہیں ہوتی۔ اس لئے تصوف میں ہمیں وہ معمولات کرنے پڑتے ہیں جو شیخ نے بتائے ہوں اور معمولات کے ساتھ ساتھ دو باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے ایک تو یہ کہ معمولات میں سستی اور غفلت نہ ہو، دوسرا یہ کہ اگر معمولات پابندی سے ہو رہے ہیں تو پھر جلدی نہ مچائی جائے۔ کیونکہ اگر معمولات پابندی سے ہو رہے ہیں تو ان کا نتیجہ ایک خاص وقت کے بعد ظاہر ہو گا اس سے پہلے ظاہر نہیں ہو گا، وقت سے پہلے نتیجہ چاہنا تعجیل کہلاتا ہے اور معمولات کو پابندی سے پورا نہ کرنا غفلت کہلاتا ہے، یہ دونوں چیزیں موانع میں سے ہیں۔ ان سے سالک کو نقصان ہوتا ہے۔ جب سالک وقت آنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ مجھے وہ نتیجہ نہیں مل رہا جو ان معمولات سے ملنا چاہیے، تو وہ اسے شیخ کی غلطی سمجھنے لگتا ہے اور شیخ پر بد اعتمادی اور بدگمانی کر بیٹھتا ہے، جس سے اس کا رہا سہا کام بھی خراب ہو جاتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس موقع پہ فرمایا کرتے تھے۔
ان کے الطاف شہیدی تو ہیں مائل سب پر
تجھ سے کیا بیر ہے اگر تو کسی قابل ہوتا
اللہ تعالیٰ کے الطاف تو ہر طرف ہیں اور شیخ کا دل اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے وہ اسے جس طرف چاہے پھیر دیتا ہے وہ مقلب القلوب ہے۔ لاکھوں مریدوں میں سے جو سچا طالب ہوتا ہے اس پہ شیخ کی نظر پڑ جاتی ہے یا اللہ کی طرف سے شیخ کی نظر اس پہ ڈال دی جاتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ مرید کی طلب میں کمی ہے۔ اب جس کی نظر اپنی غلطیوں پہ ہو گی اسے اپنی کمزوری نظر آ جائے گی وہ اس کو ٹھیک کر لے گا اور جس کی نظر اپنی غلطیوں پہ نہیں ہو گی اسے شیخ کے اندر کمزوری نظر آئے گی نتیجتاً وہ غلط راستے پہ پڑ جائے گا۔
کہتے ہیں: پہلے شیخ کے بارے میں غلط فہمی ہو جاتی ہے، اس کے بعد بد گمانی پیدا ہو جاتی ہے، پھر بد گمانی سے بڑھ کر وہ بد زبانی پر اتر آتا ہے، پھر مشائخ سے ناراض ہو جاتا ہے، آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ تک بات پہنچ جاتی ہے اور بے چارہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ ذرا غور کریں کہ یہ شروع کہاں سے ہوا تھا؟ صرف غلط فہمی سے شروع ہوا تھا اور غلط فہمی کیا ہوئی تھی؟ یہ کہ اپنی غلطی کو نہیں دیکھا، اپنے آپ کو اچھا سمجھا اور قدرتی طریقے کو نہیں سمجھ سکا۔ اگر روٹی 5 منٹ میں پکتی ہو، آپ اس کو 4 منٹ میں پکانا چاہیں تو وہ جل جائے گی، روٹی بے جان چیز ہے، اس کے ساتھ بھی آپ یہ نہیں کر سکتے تو جان دار کے ساتھ کیسے کر سکتے ہیں۔ آپ قدرتی طریقۂ کار کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ لہٰذا غفلت اور تعجیل سے بچنا چاہیے اور شیخ کی رہنمائی میں اس کے دیئے ہوئے معمولات پابندی سے کرتے رہنا چاہیے۔
تربیت تین چیزوں کا مجموعہ ہے، عقل کی اصلاح، دل کی اصلاح اور نفس کی اصلاح۔ دل کے اوپر کسی کا قابو نہیں ہے، نفس کے اوپر کسی کا قابو نہیں ہے، عقل اور سوچ کے اوپر کسی کا قابو نہیں ہے۔ جب ان تینوں کو قابو کرنے کے طریقۂ کار میں لگتے ہیں تو بہت مسائل پیش آتے ہیں، یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے کہ اس کا سرا ہاتھ میں دلوا دیتا ہے، ورنہ صحیح بات یہ ہے کہ ان تینوں چیزوں کو کوئی قابو نہیں کر سکتا، یہ قابو سے باہر ہیں لیکن جب انسان سچا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود مدد فرماتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ انسان سچے دل سے ارادہ کرے اور اللہ سے گڑگڑا کر، رو کر اور الحاح و زاری کے ساتھ مانگے۔ جب آدمی رونا شروع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ رونا شروع کر لیں اللہ تعالیٰ آپ کو فیض پہنچانا شروع کر دے گا۔ اگر کوئی شخص حقیقت میں طالب ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے پورے نظام کو ٹھیک کر دیتے ہیں۔
٭٭٭٭
کلام
مقامات کے بارے میں ایک کلام ہے، وہ عرض کرتا ہوں۔
گو ہر گناہ سے تو ہوتی ہے ضروری توبہ
کام مگر آئے مستقبل میں شعوری توبہ
تشریح:
شعوری توبہ سے مراد یہ ہے کہ آپ کو پتا ہو کہ میں کس چیز سے توبہ کر رہا ہوں، اس کے اسباب کا پتا ہو اس کی تمام چیزوں کا پتا ہو اور آئندہ کے لئے نہ کرنے کا ارادہ ہو، اس طرح شعوری توبہ ہو جاتی ہے اور اس کا اثر مستقبل پہ ہوتا ہے کہ آدمی سے دوبارہ اس گناہ کے ہونے کا امکان نہیں رہتا۔
فسق کے اسباب مٹانے سے مکمل ہو یہ
اس طرح کر لے جو اس کو وہ ہے پوری توبہ
اور اگر اس طرح ممکن نہ ہو تو بھی کر لو
جتنا بھی ہو ہے مفید گو ہے ادھوری توبہ
تشریح:
اگرچہ ادھوری توبہ ہے لیکن پھر بھی آپ کو کچھ نہ کچھ مل جائے گا، اس سے محروم مت ہونا۔
آن کی آن میں گناہ سارے مٹائے توبہ
جب گناہ ہو تو ہے لازم اس پہ فوری توبہ
ظلمتیں فسق کی اک آن میں ختم ہوویں شبیرؔ
جب کوئی جذب میں کر دے سامنے نوری توبہ
تشریح:
اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ جب جذب کسبی حاصل ہو جائے تو اس کے بعد مقامات سلوک طے کرنے ہوتے ہیں، اور مقامات سلوک میں سب سے پہلا مقام مقامِ توبہ ہے، لہٰذا جب جذب حاصل ہو اور اس کے فوراً بعد آپ مقام توبہ کی طرف آ جائیں، تو وہ ظلمتیں جو فسق کی وجہ سے ہیں وہ ساری کی ساری کافور ہو جائیں گی، اور آپ ایک نئی روشنی کے ساتھ مقامات سلوک طے کرنا شروع کر لیں گے۔
مقام توبہ مٹائے تیرے ماضی کے گناہ
اور دے مقام انابت نیکیوں کی تجھے راہ
اور اس میں جو بھی مشکلات بنیں کسی کے لئے
تو لے مقامِ ریاضت سے مشکلات سے پناہ
حرص سے دنیا کو ختم کرنا ہے سلوک کا حصہ
کہ تیرے راہ میں نہ اٹکائے روڑے حب دنیا
کر حاصل واسطے اس کے جو ہے قناعت کا مقام
کہ قابو آئیں حب جاہ، حب مال اور حب باہ
مقام زہد میں ان سب پہ عمل ہووے نصیب
حاصل کرنا بنے ممکن مقام تقویٰ کا
تشریح:
مقامِ قناعت میں آپ اپنے لئے زیادہ چیز کا حصول ضروری نہیں سمجھتے، آپ کا دل، نفس اور عقل کم پہ بھی راضی ہو جاتے ہیں جبکہ مقامِ زہد اس کا عملی اظہار ہے۔ جب مقام زھد حاصل ہو جاتا ہے تو انسان اپنے اوپر قناعت کو عملی طور پر نافذ کر لیتا ہے۔ مثلاً قناعت میں آپ اپنے لئے زیادہ ضروری نہیں سمجھتے، لیکن صرف زیادہ ضروری نہ سمجھنا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے اوپر عمل کرنا بھی ضروری ہے، اگر آپ کے پاس 50 جوڑے ہیں، آپ اپنے پاس صرف 2 جوڑے رکھ لیں، باقی خیرات کر دیں تو یہ مقامِ زہد ہے۔ دونوں مقام ضروری ہیں، پہلے کیفیت اور جذبہ پیدا ہو گا پھر انسان عمل پر آئے گا۔
مقام صبر مشکلات پہ صبر استقامت
سوچ مشکل ہو تو لے مقام توکل میں پناہ
کر لے حاصل گر اس کے بعد مقامِ تسلیم
پھر تو اسلام حقیقی میں ہو دخول تیرا
تشریح:
اسلام کیا ہے؟ اسلام کا مطلب ہے سلامتی والا ہو جانا، اپنے آپ کو سلامتی والا بنا دینا۔ اپنے آپ کو سلامتی والا بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اللہ پاک کے تکوینی احکامات کے سامنے بھی سرِ تسلیم خم کر دیں اور تشریعی احکامات کے سامنے بھی سرِ تسلیم خم کر دیں۔ یہ مقامِ تسلیم ہے اور اس کا عملی مظاہرہ مقام رضا کے حصول سے ہوتا ہے۔
اس سے نفس تیرا شریعت پہ مطمئن ہو شبیرؔ
یہی ہے، نہیں کچھ اور، جو ہے مقامِ رضا
تشریح:
جب اللہ پاک کی شریعت پر عمل ہو گا اور آپ کو مقامِ رضا حاصل ہو جائے گا تب آپ اللہ پاک کی اس بشارت اور فضیلت کے مستحق ہو جائیں گے جو قرآن میں دی گئی ہے:
﴿يٰٓاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ﴾ (الفجر: 27-30)
ترجمہ: ” (البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پا چکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آ جا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں۔ اور داخل ہو جا میری جنت میں“۔
الله جل شانهٗ ہم سب کو نصیب فرما دے۔
سوال نمبر15:
الحمد للہ حضرت والا کی تحریرات مبارکہ ”حقیقت جذب و سلوک، سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی جدید ترتیب، فہم التصوف“، مجالس مبارکہ میں اور سوال و جواب کی مجلس میں بارہا درج ذیل باتیں واضح ہو چکی ہیں:
سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں جذب پہلے ہوتا ہے اور سلوک بعد میں طے کرایا جاتا ہے۔
دس مقاماتِ سلوک طے کئے بغیر نفس کی اصلاح نہیں ہوتی۔
انسان اپنے اعضاء و جوارح سے نفس کے خلاف جو عمل کرتا ہے اسے مجاہدہ کہتے ہیں اور جب نفس مطمئنہ حاصل ہو جائے تب جبلت کے خلاف عمل کرنے کو مجاہدہ کہتے ہیں۔ یہ بہت باریک نکتہ ہے الحمد للہ اس سے بہت فائدہ ہوا۔
ان سب باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت کی خدمت میں ایک سوال عرض ہے:
جیسا کہ حضرت کی تصنیف ”حقیقت جذب و سلوک“ میں درج ہے کہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں سلوک طے کرانے سے پہلے ابتدائی طور پر جذب پیدا کیا جاتا ہے، اسے جذب کسبی کہتے ہیں۔ بقدر ضرورت جذب کسبی کے حصول کے بعد مقامات سلوک طے کرائے جاتے ہیں جس کے بعد جذب وہبی حاصل ہو جاتا ہے اور سیر الی اللہ مکمل ہو جاتی ہے۔ جبکہ باقی سلاسل میں جذب کسبی کی ترتیب نہیں ہوتی بلکہ ابتدا ہی سے سلوک پر چلایا جاتا ہے، مجاہدات کروائے جاتے ہیں، سلوک طے کرنے کے بعد انہیں جذب کے راستے سے واصل کرایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دوسرے سلاسل میں جس جذب کے ذریعے واصل کرایا جاتا ہے اس جذب سے کون سا جذب مراد ہے، جذب کسبی یا جذب وہبی، اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ تمام مشائخ فرماتے ہیں کہ ہمارے سلسلے میں بنیاد شیخ کی محبت ہے۔ جذب بھی دل کی محبت ہی کو کہتے ہیں۔ اب سلسلہ نقشبندیہ میں ابتداءً جذب سے سلوک طے کرانے کا کام لیا جاتا ہے، کیا دوسرے سلاسل میں جذب کسبی کی جگہ شیخ کی محبت کے ذریعے مجاہدہ کروایا جاتا ہے؟ کہ شیخ کی محبت اتنی ہوتی ہے کہ شیخ جو کہتا ہے اس پہ عمل کرتے ہیں، مجاہدے کرتے ہیں اور سلوک طے کروا لیتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا شیخ کی محبت جذب کسبی کے قائم مقام ہوتی ہے؟ جزاکم اللہ خیر۔ السلام علیکم
جواب:
جذب کسبی کا تعلق نقشبندی سلسلے کے ساتھ ہے کیونکہ یہ طریقہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت کیا تھا۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مکتوب نمبر 287 میں اس پر کلام فرمایا ہے کہ خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے وہ طریقہ دریافت کر لیا جس سے روح کو گزشتہ محبت کا سبق یاد دلایا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ جذب کسبی والا طریقہ سلسلہ نقشبندیہ کے ساتھ خاص ہے۔ البتہ دوسرے سلاسل میں ابتداءً مجاہدہ کرایا جاتا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اُس وقت لوگ شروع ہی میں مجاہدے کے لئے اور سلوک طے کرنے کے لئے کیسے تیار ہوتے تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت زیادہ تر اصلاح کرانے والے لوگ علماء ہوتے تھے۔ اس وقت یہ رواج تھا کہ اکثر علماء حصول علم سے فراغت کے بعد باقاعدہ شیخ کی تلاش میں نکلتے تھے تاکہ کسی شیخ کامل کی رہنمائی میں سلوک کی منازل طے کر لیں۔ وہ ذہنی طور پر پہلے سے ہی ہر قسم کے مجاہدہ کے لئے تیار ہوتے تھے۔ جیسے ہی وہ کسی شیخ کے پاس آتے فوراً اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے اور اس کا ہر حکم ماننے کے لئے تیار ہوتے تھے، اس لئے انہیں جذب کسبی جیسی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی اور انہیں فوراً سلوک کی راہ پر چلا دیا جاتا تھا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اصلاح کے طالب لوگوں کی تین قسمیں بتائی ہیں۔ اخیار، ابرار اور شطاریہ۔ اخیار یہ سوچ تو رکھتے ہیں کہ ہماری اصلاح ہونی چاہیے البتہ وہ اِس کے لئے شیخ کی ضرورت کو نہیں سمجھتے بلکہ وہ خود اپنی قوت ارادی کے ذریعے سے علم حاصل کرتے ہیں اور اپنی قوت ارادی کے ذریعے اپنے نفس کی مخالفت بھی کر لیتے ہیں اور شریعت کے احکامات پر اپنے خیال میں سختی کے ساتھ پابندی کرتے ہیں۔ بلاشبہ اس کا ان کو فائدہ بھی ہوتا ہے لیکن ایسے حضرات کے پاس دو چیزیں نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے اس بات کا کافی امکان ہوتا ہے کہ وہ نقصان اٹھا لیں۔ ایک تو اُن کے پاس شیخ کی رہنمائی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ اپنے لئے مشکل راستہ اختیار کر لیں اور اُسی میں رہ نہ جائیں یا اپنے لئے ضرورت سے زیادہ نرم راستہ اختیار کر لیں اُسی پہ چلتے رہیں اور کبھی پہنچ ہی نہ پائیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُن کو راستے کی سمجھ نہ آئے اور کسی غلط راستے پہ نکل جائیں۔ ان سب امکانات کی وجہ سے ایسے لوگوں میں سے بہت کم منزل پر پہنچ پاتے ہیں۔
دوسرا رستہ ابرار کا راستہ ہے۔ یہ پہلے راستے کی نسبت زیادہ محفوظ اور تیز راستہ ہے۔ اِس میں شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت کی جاتی ہے، شیخ کی رہنمائی کے ساتھ سلسلے کی برکت بھی مل جاتی ہے۔ شیخ کا تجربہ، رہنمائی اور سلسلے کی برکت مل کر کافی آسانی کے ساتھ سلوک کا راستہ طے کروا دیتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو اسی راستے سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس راستے میں بھی کچھ مسائل ہوتے ہیں لیکن اگر سالک اپنے شیخ کی اتباع کرتا رہے، غفلت اور تعجیل نہ کرے تو ان مسائل سے بچتے ہوئے منزل پر پہنچ جاتا ہے۔
تیسری قسم کے لوگ شطاریہ کہلاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے شیخ کے ساتھ بے انتہا محبت کرتے ہیں اور حقیقی معنوں میں فنا فی الشیخ ہو جاتے ہیں، ایسے لوگوں میں یہ اصطلاح مشہور ہوتی ہے: ”پِیر من خس است، ما را بس است“ میرا پِیر اگر خس بھی ہو پھر بھی میرے لئے وہی کافی ہے“ یہ لوگ صرف ایک بات میں پوری محنت لگاتے ہیں کہ پِیرِ صحیح اور شیخ کامل ڈھونڈتے ہیں، جب شیخ کامل مل جائے تو اس کے بعد دوسرا کام یہ کرتے ہیں کہ شیخ کے سامنے مکمل طور پر سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں اور فنا فی الشیخ ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے راہ سلوک بہت جلدی طے ہو جاتی ہے۔
دوسرے سلاسل میں شیخ کی محبت ہی جذب کسبی کے قائم مقام ہو جاتی ہے، یہ محبت ان کو سلوک پر چلاتی ہے، اسی کی وجہ سے ان کے لئے ابتداءً سلوک طے کرنا مشکل نہیں رہتا۔
حضرت شیخ عبد الرحیم سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ انگریز فوج میں سپاہی تھے۔ استعفیٰ دے کر ملازمت چھوڑی اور حضرت مولانا عبد الغفور سواتی بابا المعروف بہ سوات بابا رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔ حضرت نے اُن کو کوئی ذکر وغیرہ نہیں دیا بس یہ فرمایا کہ فلاں وادی ميں چلے جاؤ، وہیں نماز پڑھتے رہنا، جو میسر ہو کھا پی لینا اور جب تک میں نہ بلاؤں وہیں رہنا۔ ان کو یہ کہہ کر بھیج دیا پھر خبر بھی نہیں لی۔ تقریباً ایک سال کے بعد مریدوں نے حضرت کو ان کے بارے میں یاد دلایا، انہوں نے کہا اچھا اسے بلا لو۔ جب وہ آئے تو بس ان کو کچھ اذکار بتا دیئے اور چند دن بعد خلافت و اجازت دے کر فرمایا: جاؤ اپنے علاقے میں، علماء تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ اپنے علاقے میں تشریف لے گئے اور رائے پور کی خانقاہ قائم فرمائی۔ بہت سے علماء کرام حضرت سے بیعت ہوئے اور اللہ پاک نے ان سے خوب کام لیا۔
اس واقعہ میں غور کریں، آپ دیکھیں گے کہ حضرت عبدالرحیم سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کو جذب کسبی کی ضرورت نہیں پڑی، وہ اپنے شیخ کی محبت میں ایسے فانی تھے کہ جو انہوں نے کہا، بلا چوں و چرا اسے مان لیا اور جب تک انہوں نے اگلا حکم نہیں دیا وہی کرتے رہے، ان کے لئے شیخ کی محبت نے جذب کسبی کا کام دے دیا۔ ایسے لوگوں کو شطاریہ کہتے ہیں، یہ پہلے فنا فی الشیخ کا مقام حاصل کرتے ہیں اس کے ذریعے فنا فی الرسول اور پھر فنا فی اللہ کا مقام حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کے لئے سلوک طے کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے واقعہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے خواب میں آکر حاجی صاحب کا ہاتھ ایک بزرگ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ یہ انہیں ڈھونڈتے رہے ڈھونڈتے رہے، آخر کار وہ مل گئے، حضرت حاجی صاحب نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جن کے ہاتھ میں نبی کریم ﷺ نے میرا ہاتھ تھمایا تھا۔ اُن کے قدموں پہ گر گئے۔ حضرت نے اُن کو اٹھایا اور فرمایا کہ تجھے اپنے خواب پر بڑا وثوق ہے۔ اب حضرت حاجی صاحب پہلے سے ہی مکمل طور پر شیخ کے حکم کی تعمیل کرنے کو تیار تھے، انہیں کسی جذب کسبی کی ضرورت نہیں پڑی، جو شیخ نے حکم دیا، بلا کم و کاست مان لیا نتیجتاً انہیں وصول الی اللہ کا مرتبہ حاصل ہو گیا۔
جذب کسبی ہو، شیخ کی محبت ہو، ذکر اذکار ہوں یا کوئی بھی اور طریقہ ہو، ان سب کا اصل مقصد سلوک کے لئے تیار کرنا ہے۔ جب آدمی سلوک کے لئے کسی بھی طریقے سے تیار ہو جائے تو سمجھا جائے گا کہ اسے جذب کسبی حاصل ہو گیا ہے، اب اسے سلوک کی طرف آنا چاہیے۔ پھر سلوک مکمل طور پہ طے کرنے کے بعد اللہ پاک کی طرف سے قبولیت والا ایک جذب ملتا ہے اسے جذبِ وہبی کہتے ہیں۔
مذکورہ بالا ساری تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ سلوک کے لئے تیاری کے مختلف ذرائع ہوتے ہیں، جب کوئی سالک شیخ کے پاس آتا ہے تو یہ شیخ کی صواب دید پر منحصر ہے کہ اسے کس ذریعہ کا استعمال کروا کے سلوک پر لائے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سالک کو شیخ کے ساتھ پہلے سے ہی محبت ہوتی ہے، وہ شیخ کی ہر بات ماننے کو تیار ہوتا ہے، ایسے سالک کو شیخ براہ راست سلوک طے کرنے پر لگا دیتا ہے اور سلوک طے کرانے کے بعد ذکر اذکار بھی دیتا ہے۔ بعض صورتوں میں سلوک طے کراتے ہوئے ساتھ ساتھ ہی ذکر اذکار دے دیتے ہیں، دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ بہرحال جو بھی طریقہ ہو ایک بات سب میں مشترک ہے کہ سلوک طے کرنا لازمی ہے۔ جب ایک بار سلوک طے ہو جائے تو باقی سارا کام آ سان ہو جاتا ہے۔
اس سلسلے میں یہ بہت اہم بات ہے کہ اپنے شیخ پر اعتماد ہو، کسی بھی حالت میں شیخ سے رابطہ نہ چھوڑے، کسی بھی صورت میں شیخ کی باتوں پر عمل کرنا نہ چھوڑے۔ اگر سالک یہ سب کام کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ مدد فرماتے ہیں اور سلوک طے ہو جاتا ہے۔
مجاہدے کی کئی قسمیں ہیں، مجاہدہ صرف ڈنڈ پیلنے کو نہیں کہتے، مجاہدے کے لئے پہاڑوں پہ چڑھنا ضروری نہیں ہوتا، نفسیاتی مجاہدہ اِس سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ حضرت بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں سلوک طے کر رہے تھے۔ ایک بار بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ اُن کو ”فصوص الحکم“ کا درس دے رہے تھے۔ جس نسخہ سے درس دیا جا رہا تھا وہ کافی پرانا نسخہ تھا۔ خواجہ صاحب کی زبان سے نکلا کہ حضرت میرے پاس ایک نیا نسخہ آیا ہے کیا میں وہ لے آؤں؟ یہ پرانا ہو چکا ہے۔ حضرت نے سرسری سے انداز میں جواب دیا کہ آپ کا نسخہ تو اچھا ہی ہوتا ہے۔ بس اِس طرح فرما دیا اور درس جاری رکھا۔ ان کے صاحبزادے سمجھ گئے کہ حضرت کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ انہوں نے کہا خواجہ صاحب کچھ پتا ہے کہ یہ کیا ہوا ہے، آپ کی بات حضرت کو ناگوار گزری ہے۔ خواجہ صاحب کو احساس ہو گیا، انہوں نے فوراً معافی مانگی لیکن معافی نہیں ملی۔ کئی مرتبہ معافی مانگی پھر بھی کام نہیں ہوا حتیٰ کہ رونے لگ گئے پھر بھی معافی نہیں ملی۔ پھر حضرت کے جوتے سر پہ رکھ کر روتے رہے، مزید معافیاں مانگیں پھر بھی کام نہیں ہوا۔ جب رونا دھونا حد سے تجاوز کر گیا اور خوار و خَجِل ہو گئے تو صاحبزادے نے سفارش کی کہ حضرت میرے خیال میں اب اِن کو معاف کرنا چاہیے، تب حضرت نے اُن کی سفارش پہ معاف کر دیا اور اس کے ساتھ ہی اجازت اور خلافت بھی دے دی۔ فرمایا کہ یہ سب آپ کی تکمیل کے لئے کیا جا رہا تھا۔
حضرت مفتی محمد حسن رحمۃ اللہ علیہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے آخری دن باتوں باتوں میں میری اتنی دھنائی کی کہ مجھے اپنے آپ سے نفرت ہو گئی، مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ کیڑے بھی مجھ سے اچھے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد پھر حضرت کے خادم نے آ کر کہا کہ حضرت آپ کو بلا رہے ہیں۔ کہتے ہیں میں بہت گھبرا گیا کہ اب پتا نہیں کیا ہو گا۔ ڈرتے ڈرتے حضرت کے پاس گیا تو حضرت نے فرمایا کہ مجھے اپنے مشائخ سے جو اجازت اور امانت پہنچی ہے میں اللہ پہ توکل کر کے آپ کو وہ اجازت دیتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر اور زیادہ گھبرا گیا کہ یا تو وہ حالت تھی یا پھر اب یہ حالت ہے۔
در اصل یہ حضرات اپنے مریدوں سے مجاہدہ کروا رہے تھے۔ مجاہدہ کی کئی قسمیں ہوتی ہیں ہر ایک کا مجاہدہ ایک جیسا نہیں ہوتا، بلکہ جس کو آپ مجاہدہ سمجھتے ہیں وہ تو مجاہدہ ہی نہیں ہو گا، مجاہدہ وہ ہو گا جو شیخ آپ کے لئے تجویز کرے گا۔
بہرحال یہ سب چیزیں مشائخ کی صواب دید پر منحصر ہوتی ہیں کہ جذب کسبی کیسے حاصل کرنا ہے، سالک کو سلوک کے لئے کیسے تیار کرنا ہے، کس راستے سے لے جانا ہے۔ مرید کو ان سب چیزوں کی تفصیل میں نہیں پڑنا چاہیے نہ اِس پہ زیادہ بحث کرنی چاہیے، یہ مرید کا میدان نہیں ہے بلکہ شیخ کی صوابدید پر منحصر ہے۔ مرید بس ایک چیز پہ ساری توجہ مرکوز رکھے کہ سلوک طے کرنا ہر صورت میں لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا سلوک طے کرا دے۔ (آمین)
سوال 16:
حضرت جی آپ بار بار دس مقاماتِ سلوک کا ذکر فرما رہے ہیں، کیا جذب کے بعد اصل سلوک ان مقامات کا طے کرنا ہی ہے؟ جب تک یہ جذب حاصل نہ ہو اس وقت تک انتظار کریں یا پھر کیا کریں؟ میں ان مقامات کی فکر ابھی سے کروں یا ابھی جلدی نہ کروں؟
جواب:
نہیں، آپ ابھی اپنے مراقبات کو ٹھیک کریں، جب سلوک طے کرنے کا وقت آئے گا تب خود ہی پتا چل جائے گا کہ آپ وہ بوجھ آپ اٹھا سکتی ہیں، ان شاء اللہ پھر آپ کو سلوک کے مقامات طے کرا دیئے جائیں گے۔
سوال نمبر17:
حضرت جی میرے درج ذیل سوالات ہیں:
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ بیعت کے بعد اس مرید کو اللہ رب العزت اور لوگوں کو اپنے شیخ تک پہنچانے اور ان سے بیعت ہونے کا ذریعہ بنائے۔ اس کے کہنے پر لوگوں کا دل واقعی بیعت ہونے کو کرے اور وہ لوگ شیخ سے رابطہ بھی کریں۔ اگر کسی وجہ سے ایسا ممکن ہے تو اس مرید کو ایسا کیا کرنا چاہیے کہ دل میں اچھا بندہ ہونے کا خیال نہ آئے۔
مرید کا شیخ کے سوا کسی کو اپنا حال نہ بتانا، اس سے کیا مراد ہے؟ حال میں کیا کیا شامل ہے؟
اگر مرید کو زیادہ بولنے کی عادت ہو تو فوری طور پر اس کام سے کیسے بچے۔
بیعت ہونے کے بعد نفس کی طرف سے نہ ماننے کے تقاضے کو کیسے دبایا جائے۔ شیطان اس مشکل پر بھاگ جانے کا مشورہ دے تو اس سے اپنے آپ کو کیسے محفوظ رکھا جائے۔
اگر خاتون مرید کے دل میں شیخ کے لئے محبت و عقیدت ہو تو یہ گناہ تو نہیں، شیخ سے محبت کس حد تک جائز ہے؟
اگر گھر کا کوئی فرد بیعت ہونے اور کافی عرصہ اس راستے میں لگانے کے بعد تھوڑا بگڑ جائے، ظاہری طور پر روحانیت سے دور رہنے لگے اور دنیاوی چیزوں کی طرف متوجہ ہو جائے جیسے زیادہ تنخواہ، یا دوسری شادی یا بیرون ملک نوکری کرنے کی خواہش کرنا یا باہر settle ہونا وغیرہ، تو اس کی پیر بہن ہونے کے ناطے اس کے لئے کیا کرنا چاہیے؟
حضرت جی میرے سوالات سے میری ناسمجھی و نالائقی صاف واضح ہو رہی ہو اور کوئی غلطی ہو تو معاف فرما دیجیے گا۔
جواب:
آپ کے سوالات بہت اچھے ہیں لیکن وقت کم ہے اور سوالات زیادہ ہیں۔ ان سوالات کی نوعیت ایسی ہے کہ مجلس میں ان کا جواب تفصیلی دیا جانا چاہیے، مختصر جواب سے کئی شبہات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس وقت تفصیلی جواب دینا ممکن نہیں، اگر موقع ہوا تو میں آپ کو انفرادی طور پر جواب دے دوں گا۔
سوال نمبر18:
تبلیغ میں بتایا جاتا ہے کہ فضائل سننے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فضائل کا نور انسان کو عمل پہ لے آتا ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
در اصل اس چیز کو ”تذکیر“ کہتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے:
﴿وَذَكِّر فَإِنَّ الذِّكرىٰ تَنفَعُ المُؤمِنينَ﴾ (الذاریات: 55)
ترجمہ: ” اور نصیحت کرتے رہو، کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ دیتی ہے“۔
تذکیر میں جب قرآن اور سنت سے استدلال کیا جاتا ہے اور فضائل پر مبنی احادیث شریفہ سنائی جاتی ہے تو بلا شبہ قرآن و سنت کا نور انسان کو فائدہ دیتا ہے۔ اس بارے میں یہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ تذکیر یا فضائل سے انسان کس عمل کے لئے تیار ہوتا ہے، اگر انسان فضائل اور تذکیر کے ذریعے اپنے نفس کے خلاف اعمال کرنے کے لئے تیار ہو جائے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ فضائل کے ذریعے لوگ عبادات وغیرہ پر آ جاتے ہیں مگر معاملات اور اخلاق کی اصلاح کی طرف نہیں آتے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جن کے معاملات اور معاشرت کے رذائل صرف فضائل سن کر ٹھیک ہوئے ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فضائل کا اثر دل پر ہوتا ہے، لیکن جب تک نفس کی اصلاح نہیں ہوتی تب تک نفس کی خواہشات اور گناہوں کی وجہ سے دل پر پردے پڑے رہتے ہیں، لہٰذا انسان وقتی طور پر فضائل کے ذریعے کچھ مخصوص اعمال پر تیار ہو جاتا ہے لیکن مکمل طور پر دین پہ عمل نہیں کرتا۔ جیسے فضائلِ اعمال میں عبادات سے متعلق احادیث شریفہ ہیں ایسے ہی معاشرت سے متعلق احادیث بھی ہیں، معاملات سے متعلق احادیث بھی ہیں، اصلاح اور اخلاق سے متعلق احادیث بھی ہیں، جہاد سے متعلق احادیث بھی ہیں، لیکن ہم کھلی آنکھوں دیکھتے ہیں کہ ایک مخصوص حصے پر سب کا عمل ہوتا ہے اس کے علاوہ فضائل اعمال کا ایک بڑا حصہ جو عبادات کے علاوہ دوسرے اعمال سے متعلق ہے اس پر عمل کرنے والے لوگ تبلیغیوں میں بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ حالانکہ دین صرف عبادات یا چند مخصوص اعمال کا نام نہیں بلکہ دین نام ہے زندگی کے ہر ہر شعبے میں اسلام اور شریعت کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّةً وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ﴾ (البقرۃ: 208)
ترجمہ: ”اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے“۔
لہٰذا فضائل کی احادیث شریفہ اس نیت سے ضرور سننی اور پڑھنی چاہئیں کہ ان میں نور ہے اور یہ نور اعمال پر لانے میں مدد گار ہوتا ہے، اس کی برکت ہوتی ہے لیکن اس پر مطمئن ہو جانا کافی نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ انسان کسی شیخ کامل کی رہنمائی میں اپنی مکمل اصلاح کروائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ