علمِ سلوک کی متفرق باتوں کے بیان میں تجلیات کے بارے میں

مقالہ 10 اور 11 ، درس 67

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
مکہ مکرمہ - مکہ مکرمہ مسجد الحرام




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کا درس چل رہا ہے۔ آج ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ کے مقالۂِ دہم کا درس ہو گا، جو کہ سلوک کی متفرق باتوں کے بیان میں ہے۔

متن:

شیخ شرف منیری کے مکتوب میں آیا ہے کہ جب دل کا آئینہ صاف ہو جاتا ہے اور طبیعت کا زنگ اور بشریت کی ظلمت اور صفت اُس سے محو ہو جاتی ہے اور دل انوار غیبی کے قابل ہو جاتا ہے، ابتدائی دور میں اُن انوار کا حال بجلی کے کوندنے کی طرح لوامع اور لوائح کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ دل کا آئینہ جتنا زیادہ صاف و پاک ہو، یہ انوار اُتنی زیادہ قوت سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اُس کے بعد وہ بجلی کی کوند چراغ، شمع، مشعل اور آگ کی مانند روشن ہوتی ہے، اُس وقت علوی انوار ظاہر ہوتے ہیں۔ ابتدا میں چھوٹے بڑے ستاروں کی صورت میں پھر چاند کی طرح دکھائی دیتے ہیں، اور اُس کے بعد سورج کی طرح ہویدا ہو جاتے ہیں۔ پس یہ بات جان لو کہ جو انوار، برق، لوامع اور لوائح کی صفت اور صورت میں دکھائی دیتے ہیں، وہ اکثر وضو اور نماز کی برکت سے ہوتے ہیں۔ اور جو چراغ، مشعل، شمع اور اسی طرح نظر آئیں وہ اپنے شیخ کا ایک نور ہوتا ہے یا رسول اللہ ﷺ کے انوار میں سے ہوتے ہیں۔ اور وہ چراغ یا شمع دل ہوتا ہے کہ اُس مقدار میں روشن اور منور ہوتا ہے۔ اور اگر فانوس یا تیز روشنی کے چراغ کی شکل میں دیکھ لے تو اُس کے بھی یہی معنیٰ ہیں۔ اور جو عالم بالا اور علوی شکل میں یعنی سورج چاند ستاروں کی شکل میں نظر آئے، وہ روحانیت کے انوار ہوتے ہیں جو دل کے آسمان پر اُس کی صفائی کے اندازے پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اور جب دل کا آئینہ ستارے کے انداز میں صاف ہوتا ہے، تو روح کا نور ستارے کے اندازے پر ظاہر ہوتا ہے۔ اور جب چاند دیکھے، اگر چاند پورا اور مکمل ہو، تو سمجھ لیجیے کہ تمام دل صاف ہو چکا ہے۔ اور اگر کچھ کمی ہو تو اُس کمی کے اندازے پر ابھی کدورت باقی ہے۔ اور جب دل کا آئینہ صفائی میں کمال کو پہنچ جائے تو پھر دل روح کے نور کا قابل ہو جاتا ہے اور پھر سورج کی طرح دکھتا ہے، جتنی صفائی زیادہ ہو تو چمکتے ہوئے سورج کی روشنی بھی اُتنی تیز ہو گی، یہاں تک کہ روشنی میں سورج سے ہزار بار زیادہ روشنی نظر آتی ہے۔ اگر چاند اور سورج؛ دونوں کو ایک دفعہ اکھٹے دیکھے تو چاند دل ہے، جو کہ روح کے نور کے عکس سے منور اور روشن ہوا ہے اور سورج روح ہوتا ہے، جو کہ دیکھا جاتا ہے، جو ابھی تک حجاب کے پیچھے سے دکھائی دیتا ہے کہ اُس کے خیال کو سورج کی شکل میں دیکھ لیتے ہیں ورنہ روح کا نور بغیر کسی شکل اور صورت کے ہوتا ہے۔

اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صفاتِ خداوندی کے انوار اس طریقہ پر استقبال کرتے ہیں جیسا فرمایا گیا ہے کہ "مَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا" (الصحیح لمسلم، کتاب التوبة، باب: في الحض على التوبة، رقم الحدیث: 2675) ”جو کوئی میری جانب ایک بالشت بھی نزدیک ہو جائے تو میں اُس کی جانب گز بھر نزدیک ہو جاتا ہوں“۔ اور اس دلی اور روحانی حجاب سے دل کے آئینہ پر عکس پڑتا ہے اور اُس کی صفائی کے اندازے پر ہوتا ہے۔

سوال:

اگر کوئی سوال کر کے پوچھے کہ یہ کس طرح معلوم کیا جائے گا کہ یہ عکس اور پرتو نورِ صفات کے ہیں، یعنی صفات خداوندی کے نور کے پرتو ہیں؟

جواب:

یوں کہا گیا ہے کہ جو کچھ صفاتِ حق کے انوار سے دل کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، تو وہ نور خود اپنا تعارف کراتا ہے۔

تشریح:

یہ حضرت نے اپنے مقالے میں شیخ شرف منیری کے مکتوب کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ انسان جب روحانی ترقی کرتا ہے، تو اس کی کیا stages ہوتی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ دل کا آئینہ صاف ہو جاتا ہے، یعنی دل سے دنیا کی محبت دور ہو جاتی ہے اور طبیعت کا رنگ اور بشریت کی ظلمت اور صفت اُس سے محو ہو جاتی ہے، یعنی نفس کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ کیونکہ طبیعت بھی نفس ہے، اور بشریت کی ظلمت بھی نفس ہے۔ تو یہ اس سے محو ہو جاتی ہے۔ یعنی نفس کی خواہشات دل کو متاثر نہیں کر سکتیں۔

متن:

اور دل انوار غیبی کے قابل ہو جاتا ہے۔

تشریح:

یعنی جب عقل سِر بن جاتی ہے، تو وہ غیب سے چیزیں لینا شروع کر دیتی ہے۔

متن:

ابتدائی دور میں اُن انوار کا حال بجلی کے کوندنے کی طرح لوامع اور لوائح کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

تشریح:

لوائح تھوڑی دیر کے لئے ہوتے ہیں، جیسے شعلے کی چمک سی ہوتی ہے۔

متن:

دل کا آئینہ جتنا زیادہ صاف و پاک ہو، (یعنی دل کی صفائی جتنی زیادہ ہو) یہ انوار اُتنی زیادہ قوت سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اُس کے بعد وہ بجلی کی کوند چراغ، شمع، مشعل اور آگ کی مانند روشن ہوتی ہے، (یعنی آہستہ آہستہ بڑھتی ہے) اُس وقت علوی (عالم بالا کے) انوار ظاہر ہوتے ہیں۔ ابتدا میں چھوٹے بڑے ستاروں کی صورت میں پھر چاند کی طرح دکھائی دیتے ہیں، اور اُس کے بعد سورج کی طرح ہویدا ہو جاتے ہیں۔ پس یہ بات جان لو کہ جو انوار، برق، لوامع اور لوائح کی صفت اور صورت میں دکھائی دیتے ہیں، وہ اکثر وضو اور نماز کی برکت سے ہوتے ہیں۔ اور جو چراغ، مشعل، شمع اور اسی طرح نظر آئیں وہ اپنے شیخ کا ایک نور ہوتا ہے یا رسول اللہ ﷺ کے انوار میں سے ہوتے ہیں۔ اور وہ چراغ یا شمع دل ہوتا ہے کہ اُس مقدار میں روشن اور منور ہوتا ہے۔ اور اگر فانوس یا تیز روشنی کے چراغ کی شکل میں دیکھ لے تو اُس کے بھی یہی معنیٰ ہیں۔ اور جو عالم بالا اور علوی شکل میں یعنی سورج چاند ستاروں کی شکل میں نظر آئے، وہ روحانیت کے انوار ہوتے ہیں (یعنی روح کی چمک سے آتے ہیں) جو دل کے آسمان پر اُس کی صفائی کے اندازے پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اور جب دل کا آئینہ ستارے کے انداز میں صاف ہوتا ہے، تو روح کا نور ستارے کے اندازے پر ظاہر ہوتا ہے۔ اور جب چاند دیکھے، اگر چاند پورا اور مکمل ہو، تو سمجھ لیجیے کہ تمام دل صاف ہو چکا ہے۔ اور اگر کچھ کمی ہو تو اُس کمی کے اندازے پر ابھی کدورت باقی ہے۔ اور جب دل کا آئینہ صفائی میں کمال کو پہنچ جائے تو پھر دل روح کے نور کا قابل ہو جاتا ہے۔

تشریح:

جیسے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دل روح ہو جاتا ہے۔ یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ دل روح کے نور کے قابل ہو جاتا ہے۔

متن:

اور پھر سورج کی طرح دکھتا ہے، جتنی صفائی زیادہ ہو تو چمکتے ہوئے سورج کی روشنی بھی اُتنی تیز ہو گی، یہاں تک کہ روشنی میں سورج سے ہزار بار زیادہ روشنی نظر آتی ہے۔ اگر چاند اور سورج؛ دونوں کو ایک دفعہ اکھٹے دیکھے تو چاند دل ہے، جو کہ روح کے نور کے عکس سے منور اور روشن ہوا ہے (یعنی دل میں اوپر سے روشنی آتی ہے) اور سورج روح ہوتا ہے، اور سورج روح ہوتا ہے، جو کہ دیکھا جاتا ہے، جو ابھی تک حجاب کے پیچھے سے دکھائی دیتا ہے کہ اُس کے خیال کو سورج کی شکل میں دیکھ لیتے ہیں ورنہ روح کا نور بغیر کسی شکل اور صورت کے ہوتا ہے۔

اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صفاتِ خداوندی کے انوار اس طریقہ پر استقبال کرتے ہیں جیسا فرمایا گیا ہے کہ "مَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا" (الصحیح لمسلم، کتاب التوبة، باب: في الحض على التوبة، رقم الحدیث: 2675) ”جو کوئی میری جانب ایک بالشت بھی نزدیک ہو جائے تو میں اُس کی جانب گز بھر نزدیک ہو جاتا ہوں“۔ اور اس دلی اور روحانی حجاب سے دل کے آئینہ پر عکس پڑتا ہے اور اُس کی صفائی کے اندازے پر ہوتا ہے۔

سوال:

اگر کوئی سوال کر کے پوچھے کہ یہ کس طرح معلوم کیا جائے گا کہ یہ عکس اور پرتو نورِ صفات کے ہیں، یعنی صفات خداوندی کے نور کے پرتو ہیں؟

جواب:

یوں کہا گیا ہے کہ جو کچھ صفاتِ حق کے انوار سے دل کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، تو وہ نور خود اپنا تعارف کراتا ہے۔ اور روح میں ایک ایسا ذوق پیدا ہو جاتا ہے کہ اس ذوق سے یہ جان لیتا ہے کہ میں یہ جو دیکھتا ہوں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ہے، نہ کہ اغیار کی جانب سے۔ یہ ایک ذوقی مفہوم اور حال ہے جو عبارت میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اور کہا گیا ہے کہ صفاتِ جمال کے انوار مُشرِق (روشن، روشن کنندہ) ہوتے ہیں، مُحرِق (جلانے والے) نہیں ہوتے اور صفات جلال کے انوار مُحرِق ہوتے ہیں، نہ کہ مُشرِق۔ عقل و فہم اس مقام پر پگھل جاتے ہیں، اور از کار رفتہ ہو جاتے ہیں۔ اور کبھی ہوتا ہے کہ دل کی صفائی کمال کو پہنچ جاتی ہے اور ﴿سَنُرِیْھِمْ آیَاتُنَا فِي الْآفَاقِ وَ فِيْ أَنْفُسِھِمْ...﴾ (فصلت: 53) ”ہم ان کو آفاق میں اور ان کے اپنے نفسوں کے اندر اپنی نشانیاں دکھائیں گے“ کے اسرار رونما ہوتے ہیں۔ اگر ایسی حالت میں اپنے آپ کو دیکھے تو حق دکھتا ہے اور اگر موجودات کو دیکھے تو سب حق دکھتے ہیں۔ چنانچہ ایک بزرگ نے فرمایا ہے: "مَا نَظَرْتُ فِيْ شَيْءٍ إِلَّا وَ رَاَیْتُ اللہَ فِیْہِ" ”میں جس چیز کو بھی دیکھوں مجھے اس میں اللہ تعالیٰ دکھائی دیتا ہے“ جب حق تعالیٰ کا نور اپنا عکس نور روح پر ڈالتا ہے تو ذوقِ شہود کے ساتھ مشاہدہ کی آمیزش ہوتی ہے۔ اور جب حق تعالیٰ کا نور بغیر کسی روح یا دلی حجاب کے ہویدا ہوتا ہے تو وہ بغیر کسی رنگ، کیفیت، حد، مثل اور ضد کے ظاہر ہوتا ہے، تمسُّک اور تمکُّن یعنی قبضہ جمانا اور قائم رہنا اُس کے لوازم ہوتے ہیں، یہاں نہ طلوع ہوتا ہے نہ غروب، نہ دایاں نہ بایاں، نہ اوپر نہ نیچے، نہ مکان نہ زمان، نہ قرب نہ بعد اور نہ رات نہ دن ہوتا ہے۔ یہاں نہ تو عرش ہے نہ فرش، نہ دنیا نہ آخرت، یہاں قلم ٹوٹ جاتا ہے اور زبان کی حرکت ختم ہو جاتی ہے، عقل عدم کے اتھاہ کنویں میں گر جاتی ہے اور علم و فہم حیرت کے بیابان میں گم ہو جاتے ہیں۔

تشریح:

یعنی اتنی ساری چیزیں گرتے گرتے اخیر میں مقامِ حیرت میں پہنچ گیا، جہاں سارا کچھ ختم ہے۔ گویا ابتدا میں بھی کچھ نہیں ہے یعنی علم کے لحاظ سے۔ اور انتہا میں بھی کچھ نہیں ہے یعنی علم کی وجہ سے۔ گویا علم کی وجہ سے مقامِ حیرت میں چلا جاتا ہے اور وہاں ساری چیزیں ختم ہو جاتی ہیں۔

متن:

علم و فہم حیرت کے بیابان میں گم ہو جاتے ہیں۔ اب تُم اس حسرت میں جلتے اور پگھلتے رہو کہ "قُمْ مُقَامَ بُعْدٍ" میں ہو، اور اُس چیز کی حسرت کرتے رہو جو ابھی تمہیں نہیں ملی، اور یہ حسرت اُس سے بہتر ہے کہ تم مقام قرب میں رہو۔ تم یافت اور ملنے کی گھمنڈ میں ہو گے اور یہ گھمنڈ زوال کی وجہ ہے، اور یہ حسرت عطا و کرم کا وسیلہ ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اپنا راستہ صاف رکھنا چاہئے اور بشریت کا جامہ چاک کرنا چاہئے اور آنکھوں میں مٹی اور دھول ڈالنی چاہئے کہ اس خود بینی اور گھمنڈ میں ہونا ہیجڑوں اور مخنثوں کے زمرے میں آنا ہے۔

تشریح:

یعنی اپنے آپ سے نکلنا بڑا مشکل کام ہے اور مردانگی اپنے آپ سے نکلنے میں ہے۔ جب مردانگی نہیں ہو گی، تو ہیجڑے اور مخنث ہی ہوں گے۔ انسان اسی اپنے آپ میں لگا رہتا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جو بالکل clear ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں سمجھنے کے لئے غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً: ہمارے ایک ساتھی تھے، ان کے والد صاحب ہماری کالونی میں آتے تھے، self-centered تھے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ فلاں کو جانتے ہیں؟ جواب میں دو باتوں میں سے ایک ہو سکتی تھی کہ جانتا ہوں یا نہیں جانتا، مگر انہوں نے جواب دیا کہ وہ مجھے جانتے ہیں۔ گویا اس میں بھی اپنے self-centeredness کا اظہار کیا کہ میں کوئی چیز ہوں کہ مجھے جانا جاتا ہے۔ تو بعض self-centered لوگ ہوتے ہیں، وہ کسی دوسرے کی تعریف سن ہی نہیں سکتے۔ کوئی کسی دوسرے کی تعریف کر رہا ہو، تو وہ فوراً اپنی بات چلا لیں گے کہ میرے ساتھ بھی یہ ہے، میں بھی یہ کر سکتا ہوں۔ گویا اس طرح کے لوگ اپنے نفس کے خول میں بند ہیں، وہ اپنے نفس کے خول سے نکلے نہیں ہیں۔ لہٰذا وہ اپنے نفس کے اندر ہی سوچتے ہیں، اپنے نفس کے اندر ہی بولتے ہیں۔ نفس کے اندر ہی رہتے ہیں۔ لیکن جو مرد ہوتے ہیں، وہ اس سے نکل جاتے ہیں، وہ اپنے آپ کی پروا نہیں کرتے۔ لہٰذا خُود بینی سے انسان اپنے آپ کو بچائے۔ خود رائی اور خود بینی بہت خطر ناک چیزیں ہیں۔

متن:

آدم علیہ السلام کے زمانے میں کوئی تھا جو کہ خود نمائی کرتا تھا، اگرچہ وہ فرشتوں کا اُستاد تھا اور ان کا مقدم (پیشرو) تھا، مگر جب خود نمائی کا مرتکب ہوا تو اُس کو مخنث اور مؤنث بنا کے رکھ دیا اور دنیا کی خانہ آرائی اور آرائش اُس کے حوالے کی، تاکہ کم ہمت لوگوں کی نگاہ میں اس کو باوقعت بنائے، اور ابلیس پر اپنا قہر و غضب مسلط کیا اور اس مشت خاک (انسان) پر لطف کیا اور ایک کو تاجدار بنا کے رکھ دیا۔ یہ بات جان لے کہ ابلیس کو رد کیا، اُس کو کبھی قبول نہیں کیا جائے گا اور آدم علیہ السلام کو قبول کیا، اُن کو کبھی بھی رد نہیں کیا جائے گا۔ کیا تم کو معلوم ہے کہ سب کچھ کس لئے ہے؟ جہاں کہیں بھی کوئی صاحب جمال اور خوبصورت ہو تو اُس کے مقابلے میں کوئی بد نما ہو گا، جہاں کوئی محل ہو گا، اُس کے مقابلے میں کوڑا کرکٹ کا ڈھیر اگر نہ ہو گا تو وہ محل ناقص ہو گا۔ اسی طرح جہاں کوئی دل نورِ طہارت سے روشن ہوا، وہاں اُس کے مقابلے مں نفس خبیث کے کوڑا کرکٹ کا ڈھیر بھی ہو گا۔

تشریح:

جیسے ربڑ کو ایک طرف سے کھینچتے ہیں، تو ایک سرا لمبا ہوتا ہے، دوسرا سرا چھوٹا اورTotal energy same لینے کی وجہ سے energy دوسرا لیتی جائے گی۔ یعنی کہیں پر کیا، کہیں پر کیا۔ اسی طرح آدم علیہ السلام کو اللہ پاک نے ایک pole بنا دیا اور ابلیس کو دوسرا pole بنا دیا۔ آدم علیہ السلام کو خیر کا pole بنا دیا اور شیطان کو شر کا pole بنا دیا۔ خیر کا pole ان کو عاجزی پہ لے آیا، انہوں نے اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھا، انہوں نے اللہ کو دیکھا۔ اور جو شر کا pole تھا، اس نے اپنے آپ کو دیکھا اور کہا: ﴿اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ ۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ﴾ (الاعراف: 12)

ترجمہ: ’’میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اور اس کو مٹی سے پیدا کیا‘‘۔

یہ چیز اب بھی چل رہی ہے۔ جو جو اللہ والے ہوں گے، ان میں عاجزی ہو گی اور جو جو اہلِ دنیا ہوں گے، ان کے اندر عجب اور تکبر ہو گا۔ یہاں تک کہ غریبوں میں بھی تکبر ہوتا ہے۔ صرف مال داروں میں نہیں ہوتا۔ ہم نے غریبوں میں بھی تکبر دیکھا ہے۔ ان کا بھی اپنے انداز میں اپنی جگہوں پہ اپنے لوگوں کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے یا فقیر کا دوسرے فقیر کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے، اس میں یہ چیز موجود ہوتی ہے۔ ہاں! اگر تربیت ہو جائے، تو امیر میں بھی تکبر نہیں ہو گا۔ امیر بھی بہت downward ہو گا۔ بہر حال! یہ poles بن گئے۔

متن:

جہاں کوئی دل نورِ طہارت سے روشن ہوا، وہاں اُس کے مقابلے مں نفس خبیث کے کوڑا کرکٹ کا ڈھیر بھی ہو گا۔ جب دل کو طہارت کا لباس پہنا کر سجایا جاتا ہے تو وہاں اُس کو ظلوم و جہول کا مقام دکھلا کر متنبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو فراموش نہ کرو کہ تم کون ہو۔ مور جب اپنے پر پھیلاتا ہے تو پروں پر خوش ہوتا ہے، جب اپنے پاؤں کو دیکھتا ہے، تو وہ سب خوشی بھلا بیٹھتا ہے۔ بیت ؎

طاؤس را بہ نقش و نگارے کہ ہست خلق

تحسین کنند و او خجل از پائے زشت خویش

’’مور کے خوبصورت اور نقش و نگار والے جسم و پروں کو جب لوگ دیکھتے ہیں، تو اُس کی تعریف کرتے ہیں، مگر مور بے چارہ اپنے کالے کلوٹے بد نما پاؤں کی وجہ سے شرمندہ ہے‘‘۔

تشریح:

یہ اللہ جل شانہ کا نظام ہے۔ اس لئے اپنے آپ کو اس pole کے قریب کرنا چاہئے، جو اللہ والا pole ہے، اللہ کی طرف جا رہا ہے۔

متن:

گیارھواں مقالہ

تجلیات کے بارے میں

شیخ شرف منیری رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب میں درج ہے کہ تجلی سے مراد ظہورِ ذات اور صفات الٰہیت ہے، اور روح کی بھی تجلی ہوتی ہے۔ راہ سلوک کے بہت سے مسافر اس جگہ پر ناچار ہو گئے ہیں، اُن کا خیال ہوتا ہے کہ انہوں نے حق کی تجلی حاصل کی، اگر شیخ کامل اور صاحب تصرف نہ ہو تو اس بھنور سے چٹکارا مشکل ہوتا ہے۔ پس جس کسی کو سچی طلب ہو تو اُس کو چاہئے کہ کسی اہل اور صاحب مقام شیخ کا دامن تھام لے تاکہ اُس کی برکت و طفیل سے منزلِ مقصود اور مقامِ مراد کو پہنچ جائے۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: ﴿وَ أْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ أَبْوَابِھَا...﴾ (البقرۃ: 189) ”گھروں کو دروازوں کے راستے سے آؤ“۔ رباعی

؎ بے واسطۂ واسطہ گر راہ روی

از راہ بیفتی و سوے چاہ روی

درپے او روشے کنی زمن قدمش

در یک دو زمان بعالم شاہ روی

’’اگر واسطے کے بغیر راستے پر سفر کرو گے، تو راہ سے بے راہ ہو کر کنوئیں میں گر پڑو گے۔ اُس کی پیروی میں قدم آگے بڑھاتے رہو، تا کہ تم تھوڑی دیر میں بادشاہ کے دربار میں پہنچ جاؤ‘‘۔

یہ بات اب گرہ میں باندھ لیجیے کہ تجلی ربانی اور تجلی روحانی میں فرق ہے۔ جب دل کا آئینہ ما سوی اللہ کے وجود کی کدورت سے صاف ہو جائے اور یہ صفائی کمال کو پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ کے جمال کے سورج کا مطلع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اُس کی ذات کا آئینہ بن جاتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر اُس شخص کو جس کو یہ صفائی نصیب ہو جائے، مشاہدۂ جمال کی سعادت بھی حاصل ہو جائے، کیونکہ ﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ…﴾ (المائدۃ: 54) ”یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے جس کو وہ چاہتا ہے، بخش دیتا ہے“۔ یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی زیادہ دوڑتا ہے تو افزونی اور زیادہ فائدہ وہ اٹھائے گا، لیکن بہرحال افزونی اور فائدہ وہ حاصل کرتا ہے جو دوڑتا ہے۔

تشریح:

یعنی جو دوڑتے ہیں، ان کو تو فائدہ حاصل ہوتا ہے، لیکن ہر دوڑنے والے کو نہیں ہوتا۔ کیونکہ جو فرسٹ آئے گا، وہ دوڑنے والا ہی ہو گا۔ لیکن ہر دوڑنے والا تو فرسٹ نہیں آئے گا، لیکن کوشش تو کرے گا۔ میرے خیال میں اگر اس چیز کو سمجھ لیا جائے، تو ہمارے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جو دنیاوی ترقیاں ہوتی ہیں، ان میں لوگ محنت کرتے ہیں اور محنت اس طرح کرتے ہیں کہ اپنا بہت کچھ ضائع کر کے اس مقام کو کمانا چاہتے ہیں، جس کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً: کوئی Top level کا کرکٹر بننا چاہتا ہے، تو بس ہر چیز میں کرکٹ۔ کرکٹ کے لئے سب کچھ داؤ پہ لگاتا ہے۔ مگر یقیناً کوئی کوئی نکلتا ہے، سارے لوگ تو نہیں نکلتے۔ لاکھوں میں کوئی سات آٹھ نکلتے ہیں۔ لیکن ساتھ آٹھ بن بھی گئے، تو کیا ہوا۔ اسی طرح ہر کوئی فلمی ایکٹر نہیں بن سکتا۔ بہت سارے لوگ اپنے آپ کو expose کرتے ہیں، مگر ان میں سے کتنے لوگ ہیں، جو فلمی ایکٹر بن جاتے ہیں۔ اسی طرح بہت سارے لوگ آرٹس کے امتحانات دیتے ہیں، لیکن سب تو کامیاب نہیں ہوتے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر وہ اچھی چیز ہے، تو خیر اس کی تو بات الگ ہے، اس کے لئے تو کوشش کرنی چاہئے۔ اور اگر بری چیز ہے، تو اس بری چیز کا دنیوی فائدہ بھی ﴿خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةَ﴾ والی بات ہو جاتی ہے۔ لہٰذا وہ ایکٹر بھی نہیں بن سکا کہ دنیا کا فائدہ حاصل کر لیتا، مگر اپنا سارا کچھ بھی ضائع کر دیا۔ ہاں! اگر دین کے لئے کوئی دوڑتا ہے، تو اس میں اگر وہ ناکام بھی ہے، تو بھی کامیاب ہے، اس کو اللہ تعالیٰ کامیاب بنا دیتا ہے۔ پس اگر یہ بات سمجھ آ جائے، تو بہت ساری باتیں آسانی سے clear ہو جائیں گی۔

متن:

جب وہ دل کے آئینے کو بشریت کی صفات اور طبیعت کے زنگ سے صاف کرتا ہے تو بعض روحانی صفات اُس کے دل پر تجلی افروز ہوتی ہیں۔ اور یہ روحانیت کے انوار کے غلبہ سے ہوتا ہے کہ روح مکمل طور پر صفاتِ بشری سے باہر ہوتی ہے۔ پس کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ روح کی ذات جو حق کا خلیفہ ہے، تجلی کر کے خود "أَنَا الْحَقُّ" کا دعویٰ کر لے، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تمام موجودات کو ایسی حالت میں دیکھتا ہے کہ وہ روح کی خلافت کے تخت کے سامنے سجدہ ریز ہیں تو اس وقت وہ غلطی میں پڑ جاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ خود حضرتِ حق ہے۔ اس حدیث پر قیاس کیا جاتا ہے، فرمایا گیا ہے"إِذَا تَجَلَّی اللہُ لِشَيْءٍ خَضَعَ لَہٗ" (سنن ابن ماجۃ بمعناہ، کتاب إقامۃ الصلوۃ و السنة فیھا، باب: ما جاء فی صلوۃ الکسوف، رقم الحدیث: 1262) ”جس وقت اللہ تعالیٰ کسی چیز پر اپنی تجلی کرتا ہے تو اُس کو عاجز کرتا ہے“ اور اس کی بہت غلطیاں ہوتی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی حمایت اور مدد کے بغیر نہیں نکلا جاتا۔

اب دونوں تجلیوں کے درمیان یہ فرق ہے کہ روحانی تجلی حدوث یعنی حادث ہونے کی کثافت رکھتی ہے اور اُس میں فنا کرنے کی طاقت نہ ہوتی۔ اگرچہ اپنے ظہور کے وقت صفاتِ بشری کو زائل کرتی ہے مگر فنا نہیں کر سکتی۔ جس وقت وہ تجلی پردے میں ہو جائے اُسی وقت صفات بشری لوٹ کر پیدا ہوتی ہیں، لیکن حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی تجلی میں یہ آفات نہیں ہوتیں۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات نفس کی ہر قسم کی اطوار کی ضد ہوتی ہیں اور باطل کے زہوق (ختم ہونے اور زائل ہونے) کی خاصیت رکھتی ہیں۔ ﴿جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا﴾ (الإسراء: 81) ”حق آیا اور باطل چلا گیا کیونکہ باطل زائل ہونے اور ختم ہونے کی چیز ہے“۔

دوسری بات یہ ہے کہ روحانی تجلی سے دل میں طمانیت اور سکون و آرام پیدا ہوتا ہے اور انسان کو شکوک اور فریب سے نجات حاصل ہوتی ہے اور معرفت کا ذوق بھی پوری طرح ہاتھ نہیں آتا اور تجلئ حق اس کے خلاف ہوتی ہے۔ اور یہ بات جان لو کہ روحانی تجلی سے غرور اور بڑائی پیدا ہوتی ہے، ہستی کا غرور بڑھ جاتا ہے اور طلب میں کمی پیدا ہوتی ہے اور اللہ کے ڈر اور عاجزی میں کمی آ جاتی ہے اور حق کی تجلی سے یہ تمام چیزیں بڑھ جاتی ہیں اور ترقی کرتے ہوئے ہستی کو نیستی میں بدل لیتی ہے، طلب و جستجو میں زیادتی اور تشنگی پیاس اور تڑپ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

یہ بات جان لیجیے کہ انسان ذات و صفات الٰہی کا آئینہ ہے۔ جب آئینہ صاف ہو تو جس صفت کے ساتھ اللہ تعالیٰ چاہے تجلی فرماتا ہے۔ اگر حیات کی صفت سے تجلی فرمائے تو پھر ایسا ہوتا ہے کہ خضر و الیاس علیھما السلام زندہ ہیں۔ اور اگر کلام کی صفت سے تجلی فرمائے تو ایسا ہو گا جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا کہ ﴿وَ كَلَّمَ اللهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًا﴾ (النساء: 164) ”اور باتیں کیں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے بول کر“ اور اگر رزاقیت کی صفت کے ساتھ جلوہ آرائی اور تجلی فرمائے تو وہ ایسا ہو گا جیسا کہ مریم علیھا السلام کے ساتھ معاملہ تھا ﴿وَ هُزِّيْ إِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ…﴾ (مریم: 25) ”اور کھجور کے درخت کی جڑ کو اپنی طرف ہلا“۔ اور جب خلاقیت کی صفت کے ساتھ تجلی فرمائے تو وہ ایسا ہوتا ہے جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا ﴿وَ إِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْــئَـةِ الطَّیْرِ بِإِذْنِيْ فَتَنْفُخُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًۢا بِإِذْنِيْ وَ تُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ بِإِذْنِيْ وَ إِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِإِذْنِيْ…﴾ (المائدہ: 110) ”جب مٹی سے پرندے کی شکل کو بنایا اور اُس میں پھونک ماری پس وہ میرے اِذن سے پرندہ بن گیا۔ اور تم اچھا کر دیتے تھے مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے، اور جب کہ تم مردوں کو نکال کر کھڑا کرلیتے تھے میرے حکم سے“۔ اگر امانت کی صفت سے تجلی فرمائے تو وہ ایسا ہوتا ہے، جیسا کہ ابو تراب نخشبی، کہ اُس حالت میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر اُن پر پڑی تو اُنہوں نے ایک نعرہ لگایا اور جان دے دی۔ ایسا شخص جس پر توجہ کرے تو اُس کو ہلاک کر ڈالتا ہے اور دوسری صفتیں بھی اس طرح ہیں، ان میں فرق کرنا بہت باریک اور مشکل ہے۔ یہ فرق و تمیز مشاہدے، مکاشفے اور تجلی میں مکمل بصیرت اور بہت فکر کے بعد آتی ہے، لکھنے سے بات بڑھ جاتی ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ سمجھانا چاہے وہ سمجھ جاتا ہے لیکن تجلی کا معنیٰ اور مفہوم پہچاننا چاہئے۔ تجلی اور استتار دو لفظ ہیں، اور عارفوں کی جماعت میں تجلی کا مفہوم ظاہر کرنا اور کھول دینا ہے، اور استتار کا مفہوم پوشیدہ رکھنا ہے۔ اور اس جماعت کی تجلی سے مراد اللہ تعالیٰ کا ظہور اور کھل کر دکھائی دینا ہے اور استتار سے مراد حق کا پوشیدہ ہونا ہے۔ اور حق سے مراد یہاں حق کی ذات نہیں کیونکہ اس کی ذات کے لئے تلون اور تفسیر جائز نہیں۔ یہ ایسا ہے کہ کوئی یہ کہے کہ یہ مسئلہ یا معمہ کھل گیا تو مسئلہ اور معمہ بعینہٖ اپنی حالت پر ہوتے ہیں، وہ کھلتے یا بند نہیں ہوا کرتے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کا سینہ کھل جاتا ہے۔ اور اُس مسئلے یا معمے کو بوجھ لیتا ہے۔ اُس مسئلے کے علم اور جاننے کو مسئلے کا کھلنا کہتے ہیں۔ اور اُس مسئلے کی لاعلمی اور جہل کو مسئلے کا پوشیدہ ہونا کہتے ہیں۔ جب کوئی اپنے آپ پر توجہ کرے تو غیب کی حالت چھپ جاتی ہے، اس کو استتار کہتے ہیں۔ پھر جب ہر چیز حق سے جانے اور حق کی جانب سے دیکھے اور خود اپنے آپ سے نہیں اور نہ اپنی جانب سے تو درمیان سے بشریت اُٹھ جاتی ہے اور غیب پر نگاہ پڑتی ہے، اس کو تجلی کہتے ہیں۔ اس بارے میں حکیم ثنائی فرماتے ہیں۔ رباعی

؎ تا بہ جاروب لا نہ روبی راہ

کے رسی در سرائے الا اللہ

بر نگیرد جہان عشق دوئی

چہ حدیث است ایں حدیث قوی

’’جب تک تو ''لَا'' کی جھاڑو سے راستے کو صاف نہ کرے، ''إِلَّا اللہُ'' کی محل سرائے کو کب پہنچ سکو گے۔ عشق کی دُنیا میں دوئی سے کام نہیں چلتا، یہ مضبوط بات کیسی اچھی بات ہے‘‘۔

کہتے ہیں کہ جو جانور نمک کی کان میں گر پڑے تو وہ بھی نمک بن جاتا ہے۔ جب مخلوقات میں سے ایک مخلوق میں اتنا اور ایسا اثر ہوتا ہے کہ اُس (گرے ہوئے) کی صفت اُس سے سلب کی جاتی ہے، اور اپنا اثر اُس میں نافذ کرتی ہے تو توحید کے بادشاہ کا ایسا اثر کیوں اور کیسے نہ ہو گا کہ بندے کو استغراق کی حالت میں اپنے مشاہدہ سے بشریت کی صفت سے ہٹا کر عالم ملکوت کو پہنچائے اور پھر اُس کو عالم ملکوت سے بھی آگے لے جا کر اپنے آپ میں نیست کرے، تاکہ وہ خود ہو جائے، خود کہے، خود سنے اور وہ درمیان میں ایک نشانہ ہو۔ کسی عزیز نے کہا ہے کہ بیت ؎

در شہر بگو یا کہ تو باشی یا من

شوریدہ شود کار ولایت بہ ذو تن

’’شہر میں یہ اعلان کرو کہ یا تو شہر میں تم (حاکم) ہو گے، یا میں۔ سلطنت کا کام دو آدمیوں کی وجہ سے خراب ہو جاتا ہے‘‘۔

تشریح:

تجلی کسی چیز کے ظاہر ہونے کو کہتے ہیں اور استتار پوشیدہ ہونے کو کہتے ہیں۔ جو بھی چیز ظاہر ہوتی ہے، وہ اس کی تجلی قرار دی جاتی ہے۔ روح کی تجلی بھی ہوتی ہے، گویا روح منکشف ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تجلی بھی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت ظاہر ہو جاتی ہے۔ اللہ جل شانہ کوئی چیز لانا چاہتا ہے، تو اس کو ظاہر کر دیتا ہے۔ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ تجلی سے مراد ظہورِ ذات اور صفاتِ الہیہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کا اپنے تنزل کے ساتھ ظہور کرنا، یعنی کوئی ایسی چیز ظاہر کر دے، جس سے وہ چیز اللہ تعالیٰ کی طرح ظاہر ہو جائے اور صفاتِ الہیہ میں سے کوئی چیز ظاہر ہونا۔ اور روح کی بھی تجلی ہوتی ہے یعنی روح؛ بذاتِ خود بھی اس کی تجلی ہوتی ہے۔

متن:

راہ سلوک کے بہت سے مسافر اس جگہ پر ناچار ہو گئے ہیں،

تشریح:

یعنی راہِ سلوک کے بہت سارے مسافر یہاں پر پریشان ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ روح کی تجلی حاصل کر لیتے ہیں، تو سمجھتے ہیں کہ شاید ہم نے حق کی تجلی حاصل کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روح بہت ہی عجیب رنگ رکھتی ہے، لہٰذا اس کی تجلی پہ انسان confuse ہو سکتا ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں فرمایا تھا کہ جیسے اگر ایک آدمی چھت سے نیچے ہے، چھت کے اوپر نہیں پہنچا، تو وہ جب اوپر دیکھے گا، تو چھت ہی کو دیکھے گا، آسمان کو نہیں دیکھ سکتا۔ آسمان کو تب دیکھ سکتا ہے، جب چھت کے اوپر چلا جائے۔ اسی طرح جب تک وہ روح کے مقام کو طے نہیں کر چکا، تو جب بھی اس پر تجلی ظاہر ہو گی، روح کی تجلی ہو گی۔ اس لئے اگر وہ ذرا سا بھی ڈر گیا، تو سمجھے گا کہ وہ حق کی تجلی نظر آئی ہے، کیونکہ اس میں اشتباہ ہوتا ہے۔ یہاں پر بھی یہ فرمایا کہ بھنور سے چھٹکارا مشکل ہوتا ہے۔ ہاں! اگر شیخ کامل ہو، تو پھر کام بن سکتا ہے۔ وہ پھر سمجھا دیتا ہے۔

متن:

﴿وَأْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ أَبْوَابِھَا...﴾ (البقرۃ: 189) ”گھروں کو دروازوں کے راستے سے آؤ“۔

تشریح:

یعنی اگر واسطہ کے بغیر کوئی سفر کرتا ہے، تو راستے سے بہرہ ہو کر کنویں میں گر جاتا ہے۔ اور اگر کوئی اپنے شیخ کی پیروی میں قدم بڑھاتا رہتا ہے، تو تھوڑی دیر میں بادشاہ کے دربار میں پہنچ سکتا ہے۔

متن:

یہ بات اب گرہ میں باندھ لیجیے کہ تجلی ربانی اور تجلی روحانی میں فرق ہے۔ جب دل کا آئینہ ما سوی اللہ کے وجود کی کدورت سے صاف ہو جائے۔

تشریح:

کیونکہ دل ایک آئینہ ہے، اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ ما سوی اللہ سے مراد نفس کی خواہشات ہیں۔

متن:

اور یہ صفائی کمال کو پہنچ جائے (بالکل صاف ہو جائے) تو اللہ تعالیٰ کے جمال کے سورج کا مطلع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اُس کی ذات کا آئینہ بن جاتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر اُس شخص کو جس کو یہ صفائی نصیب ہو جائے، مشاہدۂ جمال کی سعادت بھی حاصل ہو جائے،

تشریح:

یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔ لیکن اللہ کا فضل انہیں پر ہوتا ہے، جو اس کے اہل ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے نوازنا چاہتا ہے۔ جیسے محنت کے بارے میں ہے کہ جنت کے لئے اللہ پاک نے باقاعدہ اعمال کا حکم دیا ہے اور دعا کے لئے بھی کہا ہے۔ لیکن آپ ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ جنت میں انسان اپنے عمل سے نہیں جائے گا، بلکہ اللہ کے فضل سے جائے گا۔ حالانکہ اللہ پاک کا کوئی حکم بے فائدہ نہیں ہو سکتا۔ جب اعمال کا حکم کیا ہے، تو گویا اس میں استعداد تو ہے۔ لیکن اپنے اعمال کو انسان کسی وجہ سے ضائع بھی کر سکتا ہے۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو عمل کرتا ہے، ضروری نہیں کہ اسے جنت مل جائے۔ تاہم اللہ جل شانہ فضل فرماتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ہم کوئی کام کریں اور اللہ پاک اس کا صلہ ہمیں نہ دے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف کوئی چیز نہیں رکھتے۔ لہٰذا انسان سچے دل سے کام کرے گا، کوئی کھوٹ نہیں ہو گی، تو اللہ پاک ضرور اس کو نصیب فرما دیتے ہیں۔ لیکن بہرحال! ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے۔

متن:

کیونکہ جب وہ دل کے آئینے کو بشریت کی صفات اور طبیعت کے زنگ سے صاف کرتا ہے تو بعض روحانی صفات اُس کے دل پر تجلی افروز ہوتی ہیں۔ اور یہ روحانیت کے انوار کے غلبہ سے ہوتا ہے کہ روح مکمل طور پر صفاتِ بشری سے باہر ہوتی ہے۔ پس کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ روح کی ذات جو حق کا خلیفہ ہے، تجلی کر کے خود "أَنَا الْحَقُّ" کا دعویٰ کر لے، (کہ میں حق ہوں) اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تمام موجودات کو ایسی حالت میں دیکھتا ہے کہ وہ روح کی خلافت کے تخت کے سامنے سجدہ ریز ہیں تو اس وقت وہ غلطی میں پڑ جاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ خود حضرتِ حق ہے۔

تشریح:

یعنی انسان اس میں بھی غلطی کر سکتا ہے، اس وقت پھر کوئی شیخِ کامل کام آتا ہے۔

متن:

جس وقت اللہ تعالیٰ کسی چیز پر اپنی تجلی کرتا ہے تو اُس کو عاجز کرتا ہے (یہ حدیث شریف کی طرف اشارہ ہے) اور اس کی بہت غلطیاں ہوتی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی حمایت اور مدد کے بغیر نہیں نکلا جاتا۔

اب دونوں تجلیوں کے درمیان یہ فرق ہے کہ روحانی تجلی حدوث یعنی حادث ہونے کی کثافت رکھتی ہے۔

تشریح:

کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے، قدیم نہیں ہے، حادث ہے۔ اور حادث ہونے کی وجہ سے اس میں مخلوق کی صفت ہوتی ہے۔

متن:

اور اُس میں فنا کرنے کی طاقت نہ ہوتی۔ اگرچہ اپنے ظہور کے وقت صفاتِ بشری کو زائل کرتی ہے۔

تشریح:

لیکن جب وہ چیز ختم ہو جاتی ہے، تو صفاتِ بشری دوبارہ واپس آ جاتی ہیں۔

متن:

جس وقت وہ تجلی پردے میں ہو جائے اُسی وقت صفات بشری لوٹ کر پیدا ہوتی ہیں، لیکن حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی تجلی میں یہ آفات نہیں ہوتیں۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات نفس کی ہر قسم کی اطوار کی ضد ہوتی ہیں اور باطل کے زہوق (ختم ہونے اور زائل ہونے) کی خاصیت رکھتی ہیں۔ ﴿جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا﴾ (الإسراء: 81)

دوسری بات یہ ہے کہ روحانی تجلی سے دل میں طمانیت اور سکون و آرام پیدا ہوتا ہے اور انسان کو شکوک اور فریب سے نجات حاصل ہوتی ہے اور معرفت کا ذوق بھی پوری طرح ہاتھ نہیں آتا اور تجلئ حق اس کے خلاف ہوتی ہے۔ اور یہ بات جان لو کہ روحانی تجلی سے غرور اور بڑائی پیدا ہوتی ہے، ہستی کا غرور بڑھ جاتا ہے اور طلب میں کمی پیدا ہوتی ہے اور اللہ کے ڈر اور عاجزی میں کمی آ جاتی ہے

تشریح:

انسان چونکہ اپنی روح کو دیکھ رہا ہوتا ہے، اس لئے اپنے آپ پہ فخر کرنے لگتا ہے۔ اس میں ذرا خود پسندی آ جاتی ہے۔ در اصل نورانی حجابات اور ظلماتی حجابات دو طرح کے حجابات ہوتے ہیں۔ نورانی حجابات میں یہی ہوتا ہے کہ انسان کی اپنی روح ہی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ چنانچہ نورانی حجابات اپنی روح کی وجہ سے ہوتے ہیں، تو ان میں انسان کے اندر انانیت آ جاتی ہے اور آدمی سمجھتا ہے کہ میں تو ایسا ہوں۔ مثلاً: اپنے وقت کے بہت بڑے نقشنبدی ہیں، میں ان کا نام نہیں لوں گا، کیونکہ بلا وجہ کام خراب ہو گا۔ وہ جب آخری فرقہ بن رہے تھے، تو اس سے کچھ عرصہ پہلے کہنا شروع کر دیا کہ میری توجہ بہت زبردست ہے، میری توجہ اتنی دور تک ہے۔ بس اپنے اوپر نظر پڑ گئی۔ چنانچہ پھر یہ چیزیں شروع ہو جاتی ہیں، اس پہ فخر کرنے لگتے ہیں اور راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ کیونکہ جب تک نفس ختم نہیں ہوتا، اس وقت تک ان چیزوں سے بچنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب تک یہ تمام راستے ان سے کاٹے نہ جائیں، کوئی نہ کوئی چیز آڑے آ جاتی ہے۔ کیونکہ جس وقت نفس کے تقاضے موجود ہوں، تو جیسے ہی انسان دل کی آنکھیں کھولے گا، تو نفس کے اوپر پڑیں گی، نفس کا شکار ہو جائے گا۔

بہر حال! ایک ہوتے ہیں ظلماتی حجابات اور ایک ہوتے ہیں نورانی حجابات۔ ظلماتی حجابات تو براہِ راست نفس کے ہوتے ہیں اور نورانی حجابات یہ ہوتے ہیں کہ جو بظاہر گناہ کے نہیں ہوتے، بلکہ تقدس کے حجابات ہوتے ہیں۔ آدمی بزرگی کے رنگ میں آ جاتا ہے اور یہ چیز انسان کے لئے حجاب بن جاتی ہیں۔ جیسے میری دعا قبول ہو گئی، میرا دم چل گیا، یا میرا کوئی اور کام ہو گیا۔ یہی چیزیں ہمارے لئے حجابات ہوتی ہیں۔ ان سے نکلنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ کافی سخت حجابات ہوتے ہیں۔ ظلماتی حجابات سے نکلنا آسان ہوتا ہے۔ نورانی حجابات سے نکلنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔

متن:

اور اللہ کے ڈر اور عاجزی میں کمی آ جاتی ہے اور حق کی تجلی سے یہ تمام چیزیں بڑھ جاتی ہیں۔

تشریح:

جتنا جتنا انسان کو حق کی تجلی ہوتی ہے، تو انسان اپنے آپ کو بھول جاتا ہے۔ روح کی جو تجلی ہے، وہ تو چونکہ اپنی چیز ہے، اس لئے اس کی بڑائی جتنی کھلے گی، اپنے اوپر نظر آئے گی کہ میں ایسا ہوں۔ اور حق کی تجلی چونکہ اپنی نہیں ہے، اس لئے جب حق کی تجلی کھلی، تو اپنی ساری چیزیں down نظر آ گئیں۔ لہٰذا وہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھے گا۔ روح کی تجلی چونکہ اپنی ہوتی ہے، لہٰذا اس کا جو بھی کمال ہوتا ہے، اس کو اپنا کمال خیال کرتا ہے، اور اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ اس کا استدراک بھی حجاب ہوتا ہے۔ جبکہ حق کی تجلی اُن تمام چیزوں کو جلا دے گی، جو کہ کی صورت میں ہو سکتی ہیں، یعنی حق کے جذبات سارے کے سارے جل جاتے ہیں۔

متن:

انسان ذات و صفات الٰہی کا آئینہ ہے۔ جب آئینہ صاف ہو تو جس صفت کے ساتھ اللہ تعالیٰ چاہے تجلی فرماتا ہے۔ اگر حیات کی صفت سے تجلی فرمائے۔

تشریح:

یہ اللہ جل شانہ کی ذات کی تجلی بھی ہوتی ہے اور صفات کی تجلی بھی ہوتی ہے۔ جب صفات کی تجلی ہوتی ہے، تو جس صفت کی تجلی کسی پر ہو جائے، اس پر اس صفت کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ جیسے: عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ ان پر خلق کی تجلی ہوئی، تو اس سے تخلیق کی صورتیں پیدا ہو گئیں۔ کلام کی تجلی ہوئی، تو کلام کی صفت پیدا ہو گئی۔ حیّی کی تجلی ہو گئی، تو اللہ تعالیٰ نے بڑی لمبی عمر عطا فرما دی۔ گویا یہ سب چیزیں تجلیات ہیں۔ چنانچہ جب کسی پر صفات کی تجلی ہوتی ہے، تو اس کے ساتھ اس قسم کا معاملہ ہوتا ہے۔

متن:

ان میں فرق کرنا بہت باریک اور مشکل ہے۔ یہ فرق و تمیز مشاہدے، مکاشفے اور تجلی میں مکمل بصیرت اور بہت فکر کے بعد آتی ہے۔

تشریح:

فکر کا تعلق عقل کے ساتھ ہے، چنانچہ اگر عقل کامل ہو اور مشاہدہ اور بصیرت موجود ہو، تو ایسی صورت میں انسان کو اس بات کی سمجھ آ سکتی ہے۔

متن:

جس کو اللہ تعالیٰ سمجھانا چاہے وہ سمجھ جاتا ہے لیکن تجلی کا معنیٰ اور مفہوم پہچاننا چاہئے۔ تجلی اور استتار دو لفظ ہیں، اور عارفوں کی جماعت میں تجلی کا مفہوم ظاہر کرنا اور کھول دینا ہے، اور استتار کا مفہوم پوشیدہ رکھنا ہے۔ اور اس جماعت کی تجلی سے مراد اللہ تعالیٰ کا ظہور اور کھل کر دکھائی دینا ہے اور استتار سے مراد حق کا پوشیدہ ہونا ہے۔ اور حق سے مراد یہاں حق کی ذات نہیں کیونکہ اس کی ذات کے لئے تلون اور تفسیر جائز نہیں۔ یہ ایسا ہے کہ کوئی یہ کہے کہ یہ مسئلہ یا معمہ کھل گیا تو مسئلہ اور معمہ بعینہٖ اپنی حالت پر ہوتے ہیں، وہ کھلتے یا بند نہیں ہوا کرتے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کا سینہ کھل جاتا ہے۔

تشریح:

یعنی مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ آسان اس لئے ہو جاتی ہے کہ اس کی کوشش کام آ جاتی ہے۔ حالانکہ وہ مشکل اپنی جگہ پہ ویسی کی ویسی موجود ہوتی ہے۔

بہر حال! میں یہ عرض کر رہا تھا کہ حق کی تجلی تمام چیزوں کو جلا دیتی ہے اور اس کو صرف اپنا بنا لیتی ہے۔ چاہے صفات کے ذریعے سے اپنا بنا لے، چاہے اپنی ذات میں گم کر دے۔ بہر حال! تجلیات ظہور کے معنٰی میں ہیں اور استتار کا معنیٰ ہے چھپے رہنا۔

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جو مضمون آ رہا ہوتا ہے، اس سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کوئی چیز بھیج چکے ہوتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایک ساتھی نے پڑھ بھی لیا۔ وہ میں سنا دیتا ہوں۔

ہم فکر آگہی سے جہالت کو پا گئے

نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے

پھنسے ہوئے تھے جال میں اپنی شان کے ہر دم

اس کا بھرم کھلا اس کی عظمت کو پا گئے

خوش فہمیوں کے جال سے نکلے، تو اس کے بعد

دیکھا، جو اس کو شان عبدیت کو پا گئے

قرآن ایک کتاب تھی رکھی تھی جو پڑھی

دل سے اس پیغامِ محبت کو پا گئے

حج گو کہ چند اعمال کے کرنے کا تھا ایک نام

دیکھا اس شاہرائے محبت کو پا گئے

ٹوٹے ہوئے الفاظ میں شاعری جو کی شبیرؔ

اس کے فضل سے اس کی نصرت کو پا گئے

’’ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو علم میں ترقی کرتے رہے اور آگہی حاصل کرتے رہے، اس کا end یہ ہوا کہ ہم نے اپنی جہالت کو پہچان لیا کہ ہم دنیا میں کتنے جاہل ہیں۔ یہ جہالت علم کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے، یعنی جتنا جتنا کسی کا علم بڑھتا ہے، اس کو اپنے علم کی کمی کا احساس زیادہ ہو گا۔ اور جب انسان اپنی نظروں سے گرتا ہے، تو لوگوں میں عزت پاتا ہے۔ کیونکہ وہ خود رائی سے نکل جاتا ہے۔ جو خود رائی سے نکل گیا، وہ دوسرے لوگوں کی نظروں میں عزت پاتا ہے۔ جو آدمی خود رائے ہوتا ہے، اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ لوگ اس کی عزت نہیں کرتے، وہ اپنی نظروں میں بہت معزز ہوتا ہے، لیکن لوگوں کی نظروں میں بہت ذلیل ہوتا ہے۔ بہر حال! فرمایا کہ بعض لوگ اپنے آپ کو بہت اونچا سمجھ رہے ہوتے ہیں، مگر لوگوں کی نظروں میں خنزیر اور کتے سے بھی زیادہ ذلیل ہوتے ہیں۔ ہم خوش فہمی کے جال میں پھنسے ہوتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ یہ ہو جائے گا، یہ ہو جائے گا۔ یہ سب طفل تسلیاں ہوتی ہیں۔ انہیں میں ہم پھنسے ہوتے ہیں۔ لیکن جب ہم اپنے رب کو دیکھتے ہیں، اپنے رب کی شان کو دیکھتے ہیں اور اپنے آپ کو دیکھتے ہیں، تو عبدیت کو پہچان لیتے ہیں کہ ہم کیا ہیں۔ یہاں پر بھی تجلی کی بات آ گئی کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجلی ہو گئی، تو شانِ عبدیت پا گئے۔ یعنی جب رب کی طرف دیکھا، تو تجلی ذات حاصل ہو گئی اور شانِ عبدیت کو پاگئے۔

قرآن ایک کتاب تھی اور رکھی تھی، لیکن جب دل سے پڑھی، تو پتا چلا کہ یہ تو سراپا پیغامِ محبت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ محبت کی وجہ سے اپنی مخلوق کو اپنی طرف کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح حج چند اعمال کے کرنے کا نام تھا، لیکن جب اس پہ غور کیا، تو پتا چلا کہ وہ تو شاہرائے محبت ہے۔ یہ جو ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہیں، ان میں جب اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی، تو اللہ پاک نے اس کو قبولیت سے نوازا۔ گویا انسان اپنی نیستی کی طرف جب جاتا ہے، تو سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہوتی ہے۔ اور جب انسان اپنی ہستی کی طرف جاتا ہے، تو سمجھ لیں کہ یہ اللہ تعالیٰ سے دوری ہوتی ہے۔ اور تصوف اور انسان کی تمام محنتوں کا حاصل یہ ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں، اپنی غلطیوں، اپنی خطاؤں اور اپنے نقصانات سے بچا رہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت آ جائے۔ ورنہ اپنے اوپر ظلم کرے گا۔ کیوں کہ اگر یہ نہیں ہوتا، تو ہمارے اوپر ہر وقت نفس موجود ہے، لہٰذا وہ کسی وقت بھی ہمیں تباہ کر سکتا ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ عطا فرما دے اور ہر ایسے عمل سے بچائے، جس سے نقصان ہوتا ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ