اس بیان میں کہ عالم کی چند اقسام ہیں

مقالہ 13 ، درس 70

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں ہمارے جدِ امجد حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر مشتمل صاحبزادہ حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے الحمد للہ تعلیم ہوا کرتی ہے۔ بزرگوں کی کتابوں میں بڑا نور ہوتا ہے اور ان حضرات کے تمام تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے اور یہ چونکہ عملی باتیں ہوتی ہیں، نظریاتی باتیں نہیں ہوتیں، اس وجہ سے ان کو بہت زیادہ شوق سے پڑھنا چاہئے۔ کیونکہ ان میں فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے انسان جو بھی عمل کرتا ہے، اگر اس کو وہ عمل صحیح طریقے سے کرنا آ جائے، تو یہ بہت ہی مفید بات ہوتی ہے۔ اس کی قدر وہی لوگ کرتے ہیں، جن کو اس قسم کی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیرھواں مقالہ ہے: ’’اس بیان میں کہ عالم چند اقسام کے ہیں‘‘۔

متن:

تیرھواں مقالہ

اس بیان میں کہ عالم کی چند اقسام ہیں

عالم کی تفصیل یہ ہے: (1) عالم ناسوت، (2) عالم ملکوت، (3) عالم جبروت، (4) عالم لاہوت، (5) عالم اسرار اور (6) عالم رموز۔ یہ بات گرہ میں باندھ کے رکھو کہ کامل محققوں نے مقامِ ناسوت، ملکوت، جبروت اور لاہوت کے حقائق کو مختلف اوصاف اور مفاہیم سے بیان کیا ہے۔

رسالۂ غریب میں آیا ہے کہ عالمِ ناسوت کو عالمِ ملک و خلق، عالمِ محسوس، عالمِ شہادت، عالمِ صورت، عالمِ جوارح اور عالم ظاہر کہتے ہیں۔ اور عالمِ ملکوت کو عالمِ امر، عالمِ معقول، عالمِ قلبی، عالمِ غیب، عالمِ معنیٰ اور عالمِ باطن کہتے ہیں۔ اور مقامِ جبروت کو عالمِ روح، عالمِ موجود بالقوۃ، عالمِ ممکنات، عالم ماہیات، عالم کلیات، عالمِ باطن اور عالم غیب و معنیٰ کہتے ہیں۔ اور مقام لاہوت و مکاں کا مکان ذات الٰہی ہے۔ اور اُس کی شرح و بیان نہیں کی جا سکتی۔ الا ما شاء اللہ۔

تشریح:

یہ نام تو بہت زیادہ معروف ہیں۔ جب بھی ہم اس قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں، تو یہ نام آتے ہیں۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ چونکہ مختلف حضرات نے اپنی تحقیقات کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے، لہٰذا ناموں کا بعض دفعہ فرق پڑ جاتا ہے، لیکن اصل میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ کیونکہ کوئی کسی چیز کو جس نام سے بھی پکارے گا، چیز تو وہی ہوتی ہے، اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ البتہ نام نہ جاننے کی وجہ سے بعض دفعہ انسان پریشان ہو جاتا ہے۔

ایک عالم تھے، ان کا تعلق اس مکتبہِ فکر سے تھا جو آپ ﷺ کے علم غیب کو ثابت مانتے ہیں۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ علمِ غیب کس کو کہتے ہیں؟ کیا یہ ذاتی ہے یا عطائی ہے؟ کہتے ہیں: عطائی ہے۔ میں نے کہا: کیا وقتی ہے یا دائمی ہے؟ کہا: وقتی ہے۔ میں نے کہا: کیا جزوی ہے یا کلی ہے؟ کہا: جزوی ہے۔ میں نے کہا: یہ جو صفات آپ نے بیان کی ہیں، اس کو علمِ غیب نہیں کہتے، بلکہ اس کو اخبارُ الغیب یعنی غیب کی خبریں کہتے ہیں۔ غیب کی خبریں تو کسی وقت بھی اللہ پاک کسی کو بھی دے سکتے ہیں۔ جیسے یعقوب علیہ السلام کو اللہ جل شانہ نے یوسف علیہ السلام کی خوشبو پہنچائی، لیکن جب بالکل پاس ہی کنعان کے کنویں میں تھے، تو اس وقت ان کو پتا نہیں چلا۔ یہ تو ہو سکتا ہے۔ اس کو تو ہم انباءُ الغیب یا اخبارُ الغیب کہتے ہیں۔ کہنے لگے: آپ صحیح کہتے ہیں۔ پھر کہا کہ اصل میں یہ نزاعِ لفظی ہے۔ ہم اس وقت چونکہ لائبریری میں تھے، وہاں ایک شیشہ تھا، جس میں دوسری طرف کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ تو انہوں نے کہا کہ نزاعِ لفظی کی مثال یہ ہے کہ اگر اس شیشے کی ایک طرف بھی کوئی آدمی بیٹھا ہو اور دوسری طرف بھی ایک آدمی بیٹھا ہو۔ ایک بھی تربوز کھا رہا ہے، دوسرا بھی تربوز کھا رہا ہے۔ اور وہ آپس میں الجھنے لگیں، ایک کہے کہ میں watermelon کھا رہا ہوں۔ دوسرا کہتا ہے: میں تربوز کھا رہا ہوں، اور آپس میں اختلاف ہونے لگے۔ حالانکہ بات تو ایک ہی ہو گی۔ لیکن ان کا اختلاف تو ہوا۔ چنانچہ کہا کہ اسی کو نزاعِ لفظی کہتے ہیں۔ اور علماء کو چاہئے کہ لوگوں کو نزاعِ لفظی سے نکالیں، اور صحیح بات کو واضح کریں۔ کیونکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس چیز کو کیا نام دیتے ہیں۔ لیکن اس چیز کی اصل بتائیں، جب اصل بتائیں گے، تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ چنانچہ یہاں حضرت نے بہت احتیاط کی ہے کہ ان چیزوں کے جو دوسرے نام ہیں، وہ بھی بتا دیئے کہ بعض لوگ ان کو دوسرے ناموں سے بیان کرتے ہیں۔ مثلاً: متن:

کامل محققوں نے مقامِ ناسوت، ملکوت، جبروت اور لاہوت کے حقائق کو مختلف اوصاف اور مفاہیم سے بیان کیا ہے۔

رسالۂ غریب میں آیا ہے کہ عالمِ ناسوت کو عالمِ ملک و خلق، عالمِ محسوس، عالمِ شہادت، عالمِ صورت، عالمِ جوارح اور عالم ظاہر کہتے ہیں۔

تشریح:

اس دنیا میں جو چیزیں ہیں، یہ سب عالمِ ناسوت ہے یعنی روح اور جسم اکٹھے۔ گویا کہ نفس، قلب اور روح کی جو اکٹھی صورتِ حال ہے، یہ عالمِ ناسوت ہے۔ نفس ناس سے ہے، جس کا معنیٰ ہے لوگ۔ عالمِ ناسوت کو عالمِ ملک و خلق کہتے ہیں۔ خلق سے مراد مخلوق ہے اور عالمِ محسوس یعنی جو چیزیں محسوس کی جا سکتی ہیں۔ عالمِ شہادت یعنی سامنے نظر آنے والا۔ عالمِ صورت یعنی جن چیزوں کی صورتیں ظاہر ہیں۔ اور عالمِ جوارح یعنی وہ چیزیں جو جسم کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ اور عالمِ ظاہر یعنی جو ظاہر کی باتیں ہیں۔

متن:

عالمِ ملکوت کو عالمِ امر، المِ معقول، عالمِ قلبی، عالمِ غیب، عالمِ معنیٰ اور عالمِ باطن کہتے ہیں۔

تشریح:

عالمِ امر، جیسے: ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ (بنی اسرائیل: 85)

ترجمہ: ’’کہہ دو کہ: روح میرے پروردگار کے حکم سے (بنی) ہے‘‘۔

چونکہ روح باطن ہے، قلب باطن ہے، یہ ساری چیزیں چُھپی ہوئی ہیں۔ اس لئے ان کو عالمِ ملکوت کہتے ہیں، کیونکہ فرشتے بھی چُھپے ہوئے ہیں۔

متن:

اور مقامِ جبروت کو عالمِ روح، عالمِ موجود بالقوۃ، عالمِ ممکنات، عالم ماہیات، عالم کلیات، عالمِ باطن اور عالم غیب و معنیٰ کہتے ہیں۔ اور مقام لاہوت و مکاں کا مکان ذات الٰہی ہے۔ اور اُس کی شرح و بیان نہیں کی جا سکتی۔ الا ما شاء اللہ۔

تشریح:

جبروت یعنی آسمانوں کے اوپر کا نظام۔ اور مقامِ لاہوت کا کچھ پتا نہیں ہوتا، لاہوت جیسے لامکان ہوتا ہے۔ اس کا کوئی بھی پتا نہیں چلا سکتا ہے۔ اور اس کی کوئی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی، الا ما شاء اللہ۔ یعنی اللہ تعالیٰ جس پر کھول دے، جتنا کھول دے، یہ اس کی مرضی ہے۔ لیکن وہ جتنا کھولا جاتا ہے، اتنا ہی انسان عالمِ محویت میں جاتا ہے، جتنا جتنا کھولا جاتا ہے، اس سے علم بر آمد نہیں ہوتا، جہل بر آمد ہوتا ہے۔ جہل اس طرح بر آمد ہوتا ہے کہ انسان کو اپنی جہالت کا پتا چلتا ہے۔ کیونکہ جہالت کو نہ جاننا بھی جہالت ہے، اپنے آپ کو جاہل نہ کہنا بھی تو جہالت ہے۔ جب یہ جہل دور ہوتا جاتا ہے، تو دوسرا جہل سامنے آتا جاتا ہے، یعنی انسان کو پتا چلتا ہے کہ میں جاہل ہوں۔ واقعتاً بڑے بڑے علماء کو ہم دیکھیں کہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے اور چھوٹے چھوٹے علماء بڑے الجھتے ہیں، آپس میں بڑی بحثیں کرتے ہیں۔ بڑے بڑے سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی باتیں میں نے سنی ہیں۔ ان کی باتیں بھی اسی طرح ہوتی ہیں کہ ہاں ہو سکتا ہے، ٹھیک ہے، اس طرح بھی ہو سکتا ہے، کبھی کبھی، پتا نہیں، ٹھیک ہے۔ بس اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ مکمل بات نہیں کریں گے کہ یہ اس طرح ہے۔ اور جو چھوٹا ڈاکٹر ہوتا ہے، وہ کہتا ہے کہ بس یہ یوں ہے۔ اس کو کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وجہ یہ ہے کہ اس کو پورا علم ہی نہیں ہے۔ ہمارے ایک دوست تھے، جو Metallurgy کے انجینئر تھے۔ انہوں نے مجھے اپنا واقعہ سنایا، بڑا عجیب واقعہ ہے۔ میں نے ان کو کہا کہ آپ بڑے محقق آدمی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے Metallurgy میں بی ایس سی کیا، تو میں نے کہا: بس Metallurgy کا سارا علم میرے پاس ہے۔ اور کلاس میں میں نے کہہ دیا: Ask me any question about Metallurgy۔ اس وقت میرا حال یہ تھا۔ اس کے بعد میں پی ایچ ڈی کے لئے گیا۔ جب پی ایچ ڈی کے لئے گیا، تو ادھر کولیگز تھے، وہاں میں ایک سے پوچھتا، تو اس کی بات سمجھ میں نہ آتی، دوسرے سے پوچھتا، تو اس کی بات سمجھ میں نہ آتی۔ تیسرے سے پوچھ رہا ہوں، تو اس کی بات سمجھ میں نہیں آ رہی، حالانکہ وہ سب Metallurgy میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ میں نے کہا: مجھے Metallurgy کا کیا آتا ہے۔ مجھے تو کوئی بات بھی سمجھ نہیں آتی۔ پھر اپنی حالت کا احساس ہو گیا۔ جتنا جتنا میں depth میں جاتا گیا، مجھے اپنی ان چیزوں کا پتا چلتا گیا کہ میں تو یہ بھی نہیں جانتا، میں تو یہ بھی نہیں جانتا، میں تو یہ بھی نہیں جانتا۔ بس نہ جاننے کا یہ ایک عظیم سلسلہ تھا۔ ریسرچ تو میں نے کر لی، presentation بھی میں نے کر لی۔ جب انہوں نے مجھ سے سوالات کئے، ان سوالات کے میں نے Incomplete answers دیئے اور میں نے کہا: ہاں ٹھیک ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے، فلاں یہ بھی کرتے ہیں، لیکن یہ بھی ہوتا ہے، یہ بھی ہوتا ہے، فلاں نے یہ کیا، فلاں نے یہ کیا۔ میں نے اس قسم کے جوابات دیئے۔ اب مجھے یقین تھا کہ میں فیل ہو گیا۔ بہر حال! میں باہر آ گیا۔ چونکہ وہ کچھ دیر کے بعد آپس میں فیصلہ کر لیتے ہیں۔ جب انہوں نے مجھے ڈگری دینے کا فیصلہ کر لیا، تو انہوں نے مجھے دیکھا اور کہا: ڈاکٹر صاحب! کیونکہ یہ اس طرح ہی کہتے ہیں۔ میں حیران ہو گیا، کیونکہ میں نے اتنا خراب کام کیا۔ کہ یہ میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں: مجھے اس وقت یقین آیا، جب انہوں نے مجھے پی ایچ ڈی کا کاغذ تھمایا۔ کہتے ہیں: ابھی تک مجھے یقین نہیں کہ میں پی ایچ ڈی ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ ہی اصل پی ایچ ڈی ہیں، آپ نے واقعی پی ایچ ڈی کی ہے۔ واقعتاً جتنا انسان کے علم کا دائرہ بڑھتا جاتا ہے، اتنا اس کو اپنا جہل نظر آتا جاتا ہے۔ میں آپ کو کیا بتاؤں، اس وقت ہم کتنی ساری چیزیں دیکھ رہے ہیں اور کتنی نہیں دیکھ رہے۔ آپ حیران ہو جائیں گے کہ جو چیزیں ہم نہیں دیکھ رہے، وہ اتنی زیادہ ہیں کہ جو دیکھ رہے ہیں، ان کی percentage بہت کم ہے۔ جیسے Microbiology والی چیزیں اگر ہم دیکھیں، تو کیا ہوتا ہے؟ یہ ساری چیزیں ہم سے چُھپی ہوئی ہیں اور موجود ہیں، ہمارے ساتھ لگی ہیں، چُھپی ہوئی ہیں، تو یہ تو خیر micro صورت ہے۔ macro کی بات کر لیں۔ macro کی یہ حالت ہے کہ Hidden matters کے بارے میں کہتے ہیں کہ جتنی چیزیں دریافت ہو چکی ہیں، ان سے زیادہ Hidden matter ہے۔ اور آپ حیران ہو جائیں گے کہ ہم سب جو ایک دوسرے کو نظر آ رہے ہیں، تو کتنی percentage ہے اس کی جو نظر آ رہا ہے اور کتنی percentage ہے اس کی جو hidden ہے۔ 99% کے لگ بھگ ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ کیا بات کر رہے ہیں۔ میرے پاس ابھی بھی کتاب موجود ہو گی، ڈاکٹر ارشد صاحب نے مجھے بھیجی تھی۔ در اصل یہ جو ایٹم ہے، اس میں nucleous تو تھوڑا سا ہوتا ہے، باقی ارد گرد electrons ہیں، درمیان میں اس کا space ہے، وہ nucleous کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح آپ کا Body structure زیادہ تر آپ کو نظر نہیں آتا۔ آپ ذرا تھوڑا سا کمپیوٹر کی سکرین پہ چلے جائیں اور اس کی resolution ذرا کم کرتے جائیں، تو آپ کو ساری چیزیں چوکور چوکور نظر آ جائیں گی اور جو مختلف رنگ نظر آئیں گے، ان میں تین زرد ہیں، دو سرخ ہیں۔ اس طرح کچھ اور رنگ ہیں، ان سے مل کر جو رنگ بنتا ہے، تو ہم کہتے ہیں کہ یہ فلاں رنگ ہے۔ لہٰذا ہماری imigination بذاتِ خود کم علمی ہے۔ لیکن اس کم علمی کا ان کو پتا چلتا ہے، جن کو ان چیزوں کا علم ہوتا ہے۔ یہاں یہی فرمایا کہ عالمِ ملکوت ہے، اس کے بعد عالمِ جبروت ہے، پھر عالمِ لاہوت ہے۔ بہر حال! جتنا جتنا علم آتا جاتا ہے، اتنا اتنا جہل بڑھتا جاتا ہے۔

متن:

شمائل اتقیاء میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال دو قسم کے ہیں: ایک ملک، دوسرا ملکوت۔ جو کچھ اِس جہان اور اُس جہان میں ہے، ملک اور ملکوت کہلایا جاتا ہے اور جو کچھ کہ اِس جہان اور اُس جہان میں نہیں ہوتا، اُس کو جبروت کہتے ہیں۔ جب تو ملک کو نہ پہچانے تو ملکوت کو نہیں پہنچ سکتا، اور جب ملکوت کو پہچان کر اُس کو پس پشت نہ چھوڑے تو جبروت تک نہیں پہنچ سکتا۔

اور اللہ تعالیٰ کے اس عالم میں تین خزانے ہیں۔ ﴿وَ لِلهِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ…﴾ (المنافقون: 7) ”اور اللہ کے لئے آسمانوں اور زمین کے خزانے ہیں“ لیکن اُن کو منافق نہیں جانتا۔ راہ سلوک میں اتنی سعی و جد وجہد کرنی چاہئے کہ ملک سے ملکوت کو پہنچ سکے اور پھر ملکوت اسفل میں اتنا سلوک کرنا چاہئے کہ ملکوت اعلٰی (ملاءِ اعلیٰ) کو پہنچ جائے، اُس کے بعد اتنا سلوک کرنا چاہئے کہ اس صورت کا جمال نظر آئے کہ ﴿سُبْحَانَ الَّذِيْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَيْءٍ وَّ إِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ﴾ (یس: 83) ”پاکی ہے اُس ذات کے لئے کہ اس کے دست قدرت میں ہر چیز کی بادشاہی ہے اور اُسی کی جانب سب کو لوٹنا ہے“۔ بیت

ہر آں ملکے کہ از واپس گذاری

دو صد ملک دگر در پیش آری

’’جس کسی ملک کو تم چھوڑ جاؤ گے، تو دو صد دوسرے ملک سامنے پاؤ گے‘‘۔

تفسیر کاشف رفیقی میں آیا ہے کہ جو کچھ نظر آئے وہ ملک ہے۔ جس گھڑی حق کی عدالت کا وقت اور نوبت آ جائے تو (خوف کے مارے) انبیاء علیہم السلام بھاگنے اور فرار کی تلاش میں ہوں گے۔ اور فضل و کرم کی نوبت آ جائے تو شراب خانے والے اور اہل مئے کدہ بھی سر اُٹھائیں گے۔ بعض محرمان راز اور رموزِ صمدیت و احدیت کے بعض شناسا اصحاب نے اشاروں کی کتابوں میں مقام لاہوت کے بارے میں کچھ بیان کیا ہے، لیکن مصنف کہتا ہے کہ ہر کسی کی عقل و فہم اور ادراک و فکر اُس مقام تک نہیں پہنچ سکتی، جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے الہام اور مدد نہ ہو۔

تشریح:

الہام تو ہو سکتا ہے، لیکن الہام کو سمجھنے کے بھی تو مسائل ہیں۔ الہام تو چُھپی ہوئی چیز ہے، جب کہ قرآن بالکل سامنے کی چیز ہے، لیکن کتنے لوگ ہیں جو قرآن کو اصل معنوں میں جانتے ہیں۔ قرآن کے اندر اللہ تعالیٰ جو چیزیں کھولتا جاتا ہے، کھولتا جاتا ہے، تو آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ کیا کیا چیزیں ہیں اس کے اندر۔ در اصل ہمارا نفس ہمارے لئے ادراک میں رکاوٹ ہے۔ مثلاً: جب تک transperancy نہ ہو، آپ کوئی چیز نہیں دیکھ سکتے۔ جیسے کوئی شیشہ transparent نہیں ہے، تو آپ اس میں سے نہیں دیکھ سکتے۔ چنانچہ جب آپ اس میں transperancy پیدا کریں گے، تو آپ اس میں سے دیکھ سکیں گے۔ اسی طرح ہمارا نفس opacity ہے، یہ آپ کو چیز اسی رنگ میں نہیں دیکھنے دے گا، جس طریقے سے ہے، بلکہ آپ کے نفس کی خواہش کے مطابق وہ چیز آپ کو نظر آئے گی۔ جیسے بھوکے سے کسی نے پوچھا کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں؟ وہ کہتا ہے: چار روٹیاں۔ کیونکہ وہ بھوکا تھا، اس لئے اس کو اپنی روٹیوں سے غرض تھی۔ اسی طرح لوگ قرآن کے اندر بھی اپنے مقصد کی باتیں ڈھونڈتے ہیں۔ اقبال نے بھی کہا تھا:

قرآن کو تعبیر سے بنا دیتے ہیں

یعنی تعبیر کر کر کے قرآن کو پارسیوں کی کتاب بنا دیتے ہیں۔ جتنے بھی گمراہ لوگ ہیں، فتّین ہیں، وہ قرآن کو اس کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ وَّیَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًا (البقرۃ: 26)

ترجمہ: ’’(اس طرح) اللہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے‘‘۔

قرآن کریم کتاب تو اللہ کی ہے۔ کتاب بھی ﴿لَا رَیْبَ فِیْهِ ہے۔ یعنی بالکل پکی بات ہے کہ اس کے اندر کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن شک تب نہیں ہو گا، جب انسان کو پورا تقویٰ حاصل ہو گا: ﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ: 2) چنانچہ شک تو اس میں نہیں ہے، یہ قرآن کی صفت ہے۔ (یہ علم ابھی الحمد للہ القا ہوا ہے۔) اور ہدایت transfer ہوتی ہے یعنی پڑھنے والے کو اس کتاب سے ہدایت مل جائے، اس کے لئے تقویٰ شرط ہے۔ کیونکہ تقویٰ کے بغیر transparency حاصل نہیں ہو سکتی۔ ہدایت کے لئے حائل یعنی نفس موجود ہے۔ کیونکہ نفس کے اندر دو چیزیں ہوتی ہیں۔ فجور ہوتا ہے یا تقویٰ ہوتا ہے۔ اگر فجور نہ ہو، تو تقویٰ ہو گا۔ جو فاجر نفس ہے، وہ آپ کو قرآن سے ہدایت نہیں لینے دے گا۔ اس لئے فرمایا: ﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا (الشمس: 10)

ترجمہ: ’’اور نا مراد وہ ہو گا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

اور اگر نفس رذائل سے پاک نہیں ہوتا، تو نفس غالب ہے۔ جب نفس غالب ہے، تو وہ آپ کو کسی بھی ہدایت کے نظام کے ساتھ attach نہیں ہونے دے گا۔ بلکہ اسی کو pollute کرے گا۔ آپ کو جو نظر آئے گا، وہ نفسانی پردوں کے پیچھے نظر آئے گا۔ نفسانی خواہشات کے مطابق نظر آئے گا۔ لہٰذا آپ اس کی ترتیب اسی طرح بنا لیں گے۔ نتیجتاً ہدایت کی بجائے آپ گمراہی کا شکار ہو جائیں گے۔ ﴿یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ وَّیَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًا﴾ (البقرۃ: 26) اس لئے جتنا جتنا آپ اپنے نفس کے اوپر محنت کریں گے اور اپنے نفس کو پاک کرتے جائیں گے، اتنا اتنا آپ کو قرآن اپنی اصل حالت میں نظر آتا جائے گا۔ اور یہ لا متناہی سلسلہ ہے۔ یعنی جتنا جتنا آپ اپنے آپ کو نفس کی خواہش سے صاف کرتے جائیں گے، اتنا اتنا آپ کو قرآن صحیح معنوں میں نظر آتا جائے گا اور پھر آپ اس کے اندر وہ علوم پائیں گے، جن علوم کے بارے میں آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا، وہ علوم اللہ تعالیٰ آپ کو نصیب فرما دیں گے۔

متن:

بعض شناسا اصحاب نے اشاروں کی کتابوں میں مقام لاہوت کے بارے میں کچھ بیان کیا ہے، لیکن مصنف کہتا ہے کہ ہر کسی کی عقل و فہم اور ادراک و فکر اُس مقام تک نہیں پہنچ سکتی، (کیونکہ ہر شخص کی صفائی اتنی نہیں ہوتی) جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے الہام اور مدد نہ ہو اس مقام کا سمجھ میں آنا ناممکن ہے۔ طوالع میں حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ عالم لاہوت ایک عالم ہے، عرش اُس کی عزت، کرسی اُس کی کبریائی، لوح اُس کی قدر، قلم اُس کی قضا اور فلک اُس کی عظمت ہے۔ اُس کا کیوان اور آسمان اُس کا قہر، اُس کا مشتری سیارہ لطف اور جلال، اُس کا سورج اُس کا جمال ہے، غضب اُس کی آگ، رحمت اُس کا پانی، حکمت اُس کی خاک ہے۔

تشریح:

یہ سب چیزیں اشاروں کی زبان ہیں، حقیقت والی بات نہیں ہے۔ کیونکہ جن چیزوں کا نام لیا گیا، یہ وہ نام ہیں جو لوگوں میں معروف ہیں۔ اور معروف چیزوں کے ذریعے سے معروف چیزوں کا بتایا جاتا ہے اور سمجھایا جاتا ہے۔ علم تو اسی کو کہتے ہیں۔ جیسے مثال ہوتی ہے کہ مثال اس چیز کی دی جاتی ہے کہ جو معلوم ہوتی ہے۔ اور اس سے وہ چیز سمجھی جاتی ہے، جو معلوم نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہاں جتنی باتیں بتائی گئی ہیں، وہ پہلے سے چونکہ معروف ہیں، اس لئے لوگوں کو سمجھانے کی اس طرح کوشش کی جاتی ہے۔ جیسے سائنس کا subject اگر آپ پڑھائیں گے، تو اسی طرح پڑھائیں گے کہ آپ اس کی مثالیں بنائیں گے، جیسے کوئی Quantum Mechanics ہے، ذرا مشکل subject ہے۔ کہتے ہیں کہ دروازہ اس طرح ہے، اس کے ساتھ یہ چیز ہے، پھر یہ چیز ہے، یہ ساری چیزیں بتائی جاتی ہیں، تو آدمی ہنستا رہتا ہے کہ یہ کیا کہانیاں بتا رہے ہیں۔ کیونکہ وہ چیزیں اس طرح نہیں ہوتیں، لیکن سمجھانے کا کوئی ڈھنگ تو ہو گا۔ لہذا یہ صرف سمجھانے کا نظام ہے۔ یہ بس اللہ تعالیٰ کی مرضی ہی ہے، جتنا سمجھا دے۔ جس کو سمجھایا جاتا ہے، اس کے لئے چونکہ transparency ہوتی ہے، اس لئے اس کو سمجھ آ جاتی ہے۔ اور جس چیز سمجھائی جا رہی ہوتی ہے اس میں transparency نہیں ہوتی، لہٰذا وہ اس میں پریشان ہوتا رہتا ہے۔ اس کو سمجھاتے سمجھاتے یہ بھی پریشان ہوتا رہتا ہے کہ میں اس کو کیسے سمجھاؤں۔ بہر حال! اس میں یہ مسائل ہوتے ہیں۔

متن:

غضب اُس کی آگ، رحمت اُس کا پانی، حکمت اُس کی خاک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن کی بصیرت کی آنکھیں اپنے فضل سے کھول رکھی ہوں، اور وہ صفات جن کی اضافت ”تجھ“ سے ہے، تجھ سے جڑ کر ختم ہو جائیں، تو اسی نسبت سے تمام ممکنات کو معدوم دیکھو گے۔

تشریح:

یہ وہی بات ہے جو مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مکتوب نمبر 234 میں بیان کی ہے۔ حضرت نے فرمایا: اصل یا تو وجود ہے یا عدم ہے۔ وجود تو اللہ جل شانہ کا ہے۔ آگے حضرت فرماتے ہیں: ( یہ حضرت کے الفاظ ہیں، میں ذمہ دار نہیں ہوں) تنزل کے طور پر تجلیوں کے ذریعے سے اللہ جل شانہ کے بارے میں ہم کچھ نہ کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی اللہ جل شانہ کی تجلیات سے استفادہ کرتے ہیں۔ تنزُّل سے مراد یہ ہے کہ اصل یہ نہیں ہے، گویا سمجھانے کے لئے تھوڑا سا کم کر کے بتایا جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو وراءُ الوراء ہے۔ دوسری طرف تمام ممکنات عدم ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے وجود کی تجلی جب ان عدمات پر پڑتی ہے، تو یہ ترقی کر کے ممکنات کی صورت میں ظاہر ہوتی جاتی ہیں۔ یعنی یہ جو کچھ نظر آ رہا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی تجلی کے ذریعے سے نظر آ رہا ہے، ورنہ ہے تو عدم ہی۔ اگر ہم نے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی یہ چیزیں نہ پڑھی ہوتیں، تو اس کو سمجھانا مشکل ہوتا۔ آگے یہی فرمایا کہ (تو اسی نسبت سے تمام ممکنات کو معدوم دیکھو گے۔) یعنی تجلی کے ذریعے سے یہ چیزیں منور ہوئی ہیں۔ ﴿اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (النور: 35)

ترجمہ: ’’اللہ تمام آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘‘۔

نور سے مراد یہ نہیں ہے، جیسے روشنی ہوتی ہے۔ کیونکہ نور بھی ایک مخلوق ہے، جس طرح مخلوق والا نور ہے، اللہ تعالیٰ اس طرح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس چیز سے پاک ہے۔ بلکہ اللہ جل شانہ نور اس معنی میں ہے کہ وہ تمام چیزوں کو منور کرتا ہے۔ گویا منور کرنے والی چیز تجلی ہے۔ چنانچہ جب اللہ جل شانہ نے درخت کے اوپر کلام کی تجلی ڈالی، تو درخت سے کلام نکلنے لگا۔ اسی طرح ممکنات کا وجود اصل میں اللہ کے وجود کی نسبت سے ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے وجود کی نسبت کو آپ اس سے ہٹاتے ہیں، تو وہ عدم ہے۔ کچھ بھی نہیں ہے، معدوم ہے۔

متن:

اللہ تعالیٰ نے جن کی بصیرت کی آنکھیں اپنے فضل سے کھول رکھی ہوں، اور وہ صفات جن کی اضافت ”تجھ“ سے ہے، تجھ سے جڑ کر ختم ہو جائیں، تو اسی نسبت سے تمام ممکنات کو معدوم دیکھو گے۔

سوال:

مجھے جواب دو کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ سات زمینیں پیدا کر دیں تو یہ زمینیں کس چیز سے بنی ہیں اور ان زمینوں میں کونسی مخلوق ہے؟

جواب:

اللہ تعالیٰ نے یہ سات طبق زمینیں بنائیں اور ان سب کو ایک دوسرے کے اوپر رکھ دیا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر جناب رسول اللہ ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ سات طبق زمینوں کی تخلیق فرمائی اور ایک دوسرے کے اوپر رکھ دینے پر زمین میں ہوا پیدا فرمائی۔ اور ہر زمین سے دوسری زمین تک کے درمیان میں پانچ سو سال کا راستہ ہے۔ پہلی زمین کو آدمیوں، جنات اور جانوروں کا مسکن (جائے سکونت) بنایا، دوسری زمین میں مخالف قسم کی ہواؤں کے مقامات ہیں اور اُن کو اُس میں رکھا ہے۔ جس اندازے کے بارے میں فرمان صادر ہوتا ہے اُس مقدار میں انہیں دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ اور دنیا میں کسی قوم کی تباہی کے لئے ان ہواؤں میں سے کوئی ہوا بھیجی جاتی ہے اور اس قوم کو اُس ہوا سے ہلاک کیا جاتا ہے۔ تیسری زمین میں ایک مخلوق ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو آدمیوں کی طرح پیدا کیا ہے، ان کے منہ کتوں کے منہ کی طرح، ان کے کان بھیڑوں اور دنبوں کی کانوں کی مانند، ان کے پاؤں بیل گائے کے پاؤں کی شکل میں اور ان کے بال بھیڑیوں کے بالوں جیسے پیدا کئے گئے ہے۔ انہوں نے لمحہ بھر کے لئے بھی خدا کی نافرمانی نہیں کی اور قیامت تک نافرمانی اور گناہ نہیں کریں گے اور قیامت کے دن یہ جنت میں ہوں گے۔ جس وقت ہم پر رات ہو جاتی ہے تو ان پر دن کا وقت ہوتا ہے، کیونکہ آسمان چکر لگاتا ہے اور سورج پر بھی چکر لگواتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلک نہیں پھرتا بلکہ جو کچھ آسمان یعنی فلک میں ہے، وہ پھرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ﴿کُلٌّ فِيْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ﴾ (یٰسین: 40)

تشریح:

اصل میں تشریح انسان اپنے وقت کی سائنس کے مطابق کرتا ہے۔ کیونکہ سائنس تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ لہٰذا ہم ان چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں کہیں گے۔ ہم کہیں گے کہ یہ تو اس دور کی سائنس تھی، یہ انہوں نے اس دور کی سائنس کے مطابق بات کی، جو ٹھیک ہے۔ یہ وہی بات ہے، جیسے ہمارے بزرگوں نے عناصرِ اربعہ کی بنیاد پر بہت ساری باتیں کی ہیں، تو ٹھیک کی ہیں۔ کیوں کہ اس وقت ان کو یہی کچھ حاصل تھا۔ وہ ان کو عناصر کہتے تھے، ہم ان کو ایسا نہیں کہتے۔ انہوں نے عناصر کہا، حالانکہ وہ مرکبات تھے، ہوا مرکب ہے، خاک مرکب ہے، آگ انرجی ہے اور پانی مرکب ہے۔ ان مرکبات کو انہوں نے عناصر کا نام دیا تھا، کیوں کہ اس وقت کی سائنس نے اتنا ہی دریافت کیا تھا۔ بعد میں دریافتیں بڑھتی گئی اور پتا چلا کہ پانی عنصر نہیں ہے، بلکہ مرکب ہے اور اس کے اندر عناصر ہیں، ایک Hydrogen ہے، دوسرا Oxygen ہے۔ لیکن آگے جا کر پتا چلا کہ یہ جن کو ہم عناصر کہتے ہیں، آگے جا کر ان کی بھی تقسیم ہے۔ پہلے وقتوں میں کہا جاتا تھا کہ ایٹم نا قابلِ تقسیم ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ ایسا نہیں ہے۔ ابھی بھی میٹرک میں سائنس کی کوئی کتاب پڑھیں، تو اس میں کہتے ہیں کہ ایٹم کو تقسیم نہیں کر سکتے۔ لیکن ایم ایس سی میں ایسے نہیں ہوتا، بی ایس سی میں بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ میٹرک والے اتنا ہی سمجھ سکتے ہیں۔ بہر حال! اب کہتے ہیں کہ ایٹم بھی قابلِ تقسیم ہے اور اس میں Neutron ہے، Proton ہے۔ پھر Neutron, Proton, Electron بھی تو کسی material سے بنیں ہیں۔ اور پھر جس سے material بنیں ہیں، وہ بھی تو کوئی material ہے۔ گویا محویت تو اس میں آئے گی۔ جیسے پروفیسر حضرات آخری دنوں میں مفقودُ الحواس ہو جاتے ہیں، یہی تو محویت ہوتی ہے۔ وہ سوچتے رہتے ہیں کہ یہ اس طرح، یہ اس طرح، یہ اس طرح۔ جیسے ایک پروفیسر صاحب جا رہے تھے، تو سوچتے سوچتے کسی بھنس کے ساتھ ٹکر ہو گئی۔ کہتے ہیں: محترمہ معاف کیجئے۔ دیکھا، تو بھینس ہے۔ اب ان کے ذہن میں یہ آ گیا کہ جس سے ٹکر ہوتی ہے، وہ بھینس ہوتی ہے۔ آگے جا کر واقعی کسی محترمہ سے ٹکر ہو گئی، تو کہنے لگے: کھلی چھوڑ دیتے ہیں۔ گویا مفقودُ الحواس ہو جاتے ہیں۔ اور یہ actually میں ہے، میں ویسے ہی مبالغہ کے طور پہ نہیں کہہ رہا، بلکہ آج کل مفقودُ الحواس کو پروفیسر کہتے ہیں کہ یہ پروفیسر ہو گیا۔ بہرحال! Deep thinking سے یہ چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ محویت یہ ہے کہ انسان پھر بہت ساری باتوں کی تشریح نہیں کر سکتا۔ اپنی اصطلاحات کے گورکھ دھندے میں پھنس جاتا ہے۔ جس نے اپنی اصطلاحات بنائی ہوتی ہیں، وہ اصطلاحات فیل ہو جاتی ہیں۔ وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ کسی حد تک آگے جا سکتا ہے، آگے جا کر وہ پریشان ہوتا ہے۔ بہر حال! جیسے فرمایا: ﴿کُلٌّ فِيْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ﴾ (یٰس: 40) اور آج کل کی سائنس یہی کہتی ہے کہ ہر چیز حرکت میں ہے۔

ثبات ایک تخیل کو ہے زمانہ میں

یعنی ہر چیز حرکت میں ہے۔ جیسے یہ چارپائی لکڑی کی ہے، لیکن stationary نہیں ہے۔ اس وقت ہم stationary نہیں ہیں۔ بس میں جو لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، بس چل رہی ہوتی ہے، وہ stationary نہیں ہوتی۔ اسی طرح ہر چیز حرکت کر رہی ہے۔ مثلاً: اس وقت میں جو بیٹھا ہوں، میں آپ کو ساکن نظر آ رہا ہوں، لیکن میں اپنی جگہ پہ ساکن نہیں ہوں، بلکہ میں زمین کے اوپر بیٹھا ہوں اور زمین اس وقت پانچ قسم کی حرکتیں کر رہی ہے۔ عموماً دو قسم کی ہیں۔ پہلی حرکت تو اس کا اپنے محور کے گرد گھومنا ہے۔ وہ تقریباً ہزار میل فی گھنٹہ اور جتنی خطِ استوا سے دور ہے، اس کے حساب سے ہوتی ہے۔ تقریباً جو ہے وہ یوں سمجھ لیجئے کہ مطلب اس کو ضرب دیں تو اس کے حساب سے نو سو ہو جائے کچھ اس کے حساب سے ہماری حرکت چل رہی ہے۔ بہر حال! نو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہم چل رہے ہیں۔ پھر کہتے ہیں ہم تو کھڑے ہیں۔ یہ تو ایک حرکت ہو گئی۔ دوسری حرکت یہ ہے کہ ستر میل فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے، گویا ایک سیکنڈ میں ستر میل کا فاصلہ زمین طے کر لیتی ہے۔ اور پھر سورج ایک بہت سے star کے گرد گھوم رہا ہے اور اس کی اپنی رفتار بہت زیادہ ہے۔ پھر کہکشاں گھوم رہے ہیں۔ تو کیا خیال ہے ہم کھڑے ہیں؟ یہ تو Macro level کی بات ہے۔ اور Micro level کی بات کریں تو electron کی کیا رفتار ہے۔ تو کون سی چیز ہے جو stationary ہے۔

﴿کُلٌّ فِيْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ﴾ (یٰسین: 40) لہٰذا سب اپنے اپنے مدار میں گھومتے ہیں۔ آج کل کی سائنس تو اس پر قائم ہے کہ اور یہ ہے وہ تو کہتا ہے کہ واقعی

متن:

”جو چیز فلک میں ہے پھرتی ہے“ یا ہر چیز آسمان میں پھرتی ہے۔ چوتھی زمین میں سنگِ کبریت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے دوزخیوں کو عذاب دینے کے لئے پیدا کیا ہے۔ قیامت کے دن دوزخ کو اُن پتھروں سے گرم کیا جائے گا، ہر پتھر پہاڑ کے برابر ہے، چنانچہ قرآن کریم فرمایا گیا ہے کہ ﴿فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِيْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ…﴾ (البقرۃ: 24) ”اُس دوزخ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں“ رسُول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے قسم ہے اُس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے، دوزخ میں سنگ کبریت کی وادیاں ہیں اور اُس پتھر کی آگ اتنی تیز ہوتی ہے کہ اگر دنیا کے پہاڑ اُٹھا کر اس میں ڈال دیے جائیں تو اُس کی گرمی سے موم کی طرح پگھل جائیں گے۔ حدیث میں منصور بن عمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان پتھروں کی گرمی ایسی ہے کہ اگر اس کا ایک قطرہ بھی اس دنیا میں آ کر گرے تو اس کی گرمی اور بدبو سے دنیا کے تمام جاندار مر کر ہلاک ہو جائیں گے۔ پانچویں زمین میں بچھو ہیں، اور یہ دوزخ کے بچھو ہیں جو اونٹوں کی مانند ہوتے ہیں، ان کے دانت بڑے نیزوں کی طرح ہیں اور ہر بچھو کے ڈنک میں تین سو ساٹھ "فوق" زہر رکھا ہوا ہے۔ اور ہر "فوق" میں تین سو ساتھ "کلہ" ہیں۔ اگر اُن سے ایک "کلہ" بھی دنیا میں رکھ دیا جائے تو دنیا کے جانور مر جائیں گے، اُس کی بو اور زہر سے تمام میوے اور کھانے پینے کی اشیاء، دریاؤں اور نہروں کا پانی تلخ اور کڑوا ہو جائے گا اور اُن کو کوئی نہیں کھا سکے گا۔ چھٹی زمین میں دوزخ کے دیو و پری اور سانپ پیدا کئے ہیں۔ اگر ان سانپوں میں سے ایک سانپ دنیا میں آ جائے تو تمام دُنیا کو ایک دانت سے نگل جائے گا، اگر پہاڑ کو ڈسے تو وہ ریت کی مانند ہو جائے گا، اُن سانپوں کی بو سے دوزخیوں کے تمام اندام جھڑ جائیں گے اور ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ ساتویں زمین میں ابلیس لعین کی جگہ ہے اور اُس کا تخت اُس جگہ رکھا ہوا ہے اور وہ اس تخت پر بیٹھا ہے اور تمام شیطان اُس کے تخت کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ اور جو کوئی دنیا میں فساد اور معصیت کرے اسی کو بہت عزیز اور دوست رکھتے ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ ہر زمین کا کیا نام ہے۔ حدیث شریف میں وہب ابن منبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پہلی زمین کو دنیا کہتے ہیں، دوسری زمین کو بساط، تیسری زمین کو شقیان کہتے ہیں، چوتھی زمین کو بضی کہتے ہیں، زمینِ پنجم کو شانہ، چھٹی کو ماسکہ اور ساتویں کو تری کہتے ہیں۔ (سراج القلوب)

سوال:

آسمان کے سات طبق کو کس چیز سے بنایا ہے؟

جواب:

تفسیر چرخی میں کعب الأحبار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دنیا کا آسمان پانی کی موج سے ہے، دوسرا آسمان سفید موتی سے ہے، تیسرا آسمان لوہے سے، چوتھا مس یعنی جست سے، پانچواں چاندی سے، چھٹا سونے سے اور ساتواں آسمان یاقوتِ سُرخ سے بنایا گیا ہے

تشریح:

اب میں ذرا اس کے اندر ایک عمومی بات عرض کرنا چاہتا ہوں، جو ضروری ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ آسمان نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو آسمان نظر ہی نہیں آ سکتا۔ کیونکہ ہماری نظر کی حد بہت کم ہے۔ یہ جس کو ہم دیکھتے ہیں اور اس کو ہم آسمان کہتے ہیں، یہ آسمان نہیں ہے، یہ ہماری نظر کی حد ہے۔ کیونکہ آسمان اس سے بہت اوپر ہے۔ کتنا اوپر ہے، یہ میں سائنس کی زبان میں بتاتا ہوں، سائنس تو اس کو نہیں مانتی، لیکن میں سائنس اور مذہب کو ملا کر بتاتا ہوں۔ کیونکہ جو چیز مذہب سے ثابت ہے، سائنس اس کو نہیں ثابت کر سکتی۔ کیونکہ مذہب فائنل چیز دکھاتا ہے اور سائنس ہمارے فوری تجربات و مشاہدات کو ہی دکھا سکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں دکھا سکتی۔ سائنس کہتی ہے کہ ہماری کہکشاں کے اندر ایک طرف ستارے ہیں اور اس طرح کی اربوں کہکشائیں ہیں اور ہماری کہکشاں میں اتنے بڑے ستارے موجود ہیں کہ ایک ستارے کے اندر ایک ارب سورج سما سکتے ہیں۔ جن میں سے ایک کا نام ابط الجوزاء ہے۔ جس میں ایک ارب سورج سما سکتے ہیں۔ ایک کھرب سورج ہماری کہکشاں میں ہیں اور پھر اربوں کہکشائیں ہیں۔ سائنس دان کہتے ہیں (یہ میں مذہب کی بات نہیں کر رہا) کہ جتنا ہم دیکھ سکتے ہیں، کائنات اتنی نہیں ہے، کائنات اس سے بہت زیادہ ہے۔ اور یہ سائنس دانوں کی زبان ہے کہ اگر ہمارے پاس اتنی بڑی دور بینیں بھی ہو جائیں جتنی ہماری خواہش ہے، تو پھر بھی ہم کائنات پوری نہیں دیکھ سکتے۔ پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اتنے دور ستارے بھی ہیں کہ وہ بارہ ارب نوری سال کے فاصلہ پر واقع ہیں۔ نوری سال اسے کہتے ہیں کہ روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے جب سفر کرتی ہے، تو وہ بارہ ارب سال میں جتنا سفر کرے گی، اتنے فاصلہ پہ وہ ستارے ہیں۔ یہ سائنس دانوں کی بات کر رہا ہوں، مذہب کی بات نہیں کر رہا۔ اب مذہب کی بات ساتھ ملاتا ہوں۔ مذہب میں یہ ہے: ﴿وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ (الملک: 5)

ترجمہ: ’’اور ہم نے قریب والے آسمان کو روشن چراغوں سے سجا رکھا ہے‘‘۔

جتنے ستارے ہمیں نظر آتے ہیں، سب آسمانِ دنیا سے نیچے ہیں۔ یہ confirm بات ہے، ورنہ نظر نہ آتے۔ گویا بارہ ارب نوری سال کے فاصلے پر جو ستارے ہیں، وہ آسمان کے نیچے ہیں۔ لہٰذا آسمان کتنا اوپر ہے! یہ میں پہلے آسمان کی بات کر رہا ہوں۔ پھر اس کے بعد دوسرا آسمان، پھر تیسرا آسمان، پھر چوتھا آسمان، پھر پانچواں آسمان، پھر چھٹا آسمان، پھر ساتواں آسمان ہے۔ یہ کھل رہے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ آسمان چھت کی طرح ہے، حالانکہ زمین گول ہے، جس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب ’’دنیا میرے آگے‘‘ پڑھو۔ اس میں لکھتے ہیں کہ وہ کراچی سے انگلینڈ گئے، انگلینڈ سے امریکہ گئے، امریکہ سے West coast۔ یعنی East coast سے West coast گئے ہیں۔ پھر West coast سے بحر الکاہل کو کراس کر کے جاپان گئے ہیں۔ پھر جاپان سے کراچی آ گئے۔ گویا مسلسل مغرب میں سفر کر رہے ہیں۔ اور پھر دوبارہ کراچی پہنچ گئے۔ اگر زمین گول نہ ہوتی، تو وہ دوبارہ کراچی نہ پہنچ سکتے۔ اس سے پتا چلا کہ زمین گول ہے۔ جب زمین گول ہے، تو آسمان ادھر بھی نظر آتا ہے، دوسری طرف امریکہ میں بھی نظر آتا ہے۔ اور امریکہ ہمارے بالکل Opposite direction پر ہے۔ تو ان کا آسمان کس طرف ہے؟ یہ تب ہو سکتا ہے کہ جب یہ کرہ ہو۔ مثلاً: چھوٹا کرہ، پھر اس سے بڑا کرہ، پھر اس سے بڑا کرہ، پھر اوپر آسمان ہے اور سب سے اوپر عرش ہے۔ گویا جو micro فاصلے ہیں، وہ سائنس کی زبان میں بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتے۔ تو جو نظر کے فاصلے ہیں، وہ کس طرح سمجھ میں آئیں گے، جو کہ ان سے بھی زیادہ ہیں۔ ہاں! یہ الگ بات ہے کہ سائنس کی زبان میں آپ قریب ترین تارے پر بھی نہیں پہنچ سکتے۔ کیونکہ اس کے لئے جس سپیڈ کی ضرورت ہے، وہ آپ کا راکٹ میسر نہیں کرتا۔ قریب ترین تارا ساڑھے چار نوری سال کے فاصلہ پر ہے۔ کیا پہنچ سکتے ہیں؟ نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن یہاں معاملہ اور ہے، یہاں چونکہ ما بعد الطبیعات والی بات ہے، فزکس وہاں نہیں پہنچ سکتی۔ رحمٰن بابا کا شعر ہے پشتو زبان میں:

چې په یو قدم تر عرشه پورې رسی

ما لیدلې دے رفتار دَ دروشانو

جو ایک قدم سے عرش تک پہنچ سکتے ہیں، میں نے درویشوں کی یہ رفتار دیکھی ہے۔ اس لئے ان کی الگ شان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طریقے سے آپ ﷺ کو جسمانی معراج کرائی تھی، اسی طرح اولیاء اللہ کو روحانی معراج ہوتی ہے۔ جسمانی معراج بھی آپ ﷺ کے لئے ثابت ہے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس پر یہ عمل تھا کہ جب ابو جہل نے ان سے کہا کہ آپ کا ساتھی تو کہتا ہے کہ میں ایک رات میں آسمانوں پہ پہنچ گیا اور یہ یہ کیا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ واقعی وہ یہ کہہ رہے ہیں؟ ابو جہل کو امید ہو گئی کہ شاید معاملہ ٹھیک بن رہا ہے۔ کہنے لگا کہ ابھی بھی جا کر دیکھیں، ابھی بھی وہ یہی بات کر رہے ہیں۔ فرمایا: میں ایمان لاتا ہوں کہ ایسا ہی ہے۔ وہ حیران رہ گیا کہ ابھی حیران ہو رہے تھے اور اب کہتے ہیں کہ میں ایمان لاتا ہوں۔ فرمایا: جب میں ان کے قول کے مطابق اس پر یقین کرتا ہوں کہ فرشتہ دن میں کئی مرتبہ ادھر جاتا ہے اور پھر آتا ہے، تو اگر اللہ پاک بندہ کو ہی لے جائے، تو اس کے لئے کیا مشکل ہے۔ فرشتے بھی تو اللہ کی مخلوق ہیں اور آپ ﷺ بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ اب یہ ایمانی بات ہے۔ اور ایمانی بات کے لئے سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔

حضرت عیسائی علیہ السلام جب اخیر زمانے میں دنیا میں تشریف لائیں گے تو دمشق کے مینار پر اتریں گے۔ وہاں تک تو معاملہ معجزاتی ہے۔ لیکن پھر مینار سے سیڑھی لگا دی جائے گی۔ کیا بطور معجزہ کے مینار سے سیڑھی کے بغیر نہیں آ سکتے تھے۔ پس یہ اسباب عالمِ اسباب کی بات ہے۔ چنانچہ اللہ جل شانہ کا جو نظام ہے، جتنا جتنا اللہ تعالیٰ کسی پر کھولتا ہے، اتنا اتنا نظر آ سکتا ہے۔ لیکن نظر آنے کے لئے بھی انسان کے اندر استعداد ہونی چاہئے کہ اس کو برداشت کر سکے۔ جیسے فرمایا: ﴿لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ (الحشر: 21)

ترجمہ: ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا، تو تم اسے دیکھتے کہ وہ اللہ کے رعب سے جھکا جا رہا ہے، اور پھٹا پڑتا ہے‘‘۔

پس اس علم کو بھی برداشت کرنے کے لئے استعداد ہونی چاہئے۔ یہ استعداد پہلے پیدا کی جاتی ہے، پھر علم دیا جاتا ہے۔ اس کے لئے نفس کا فانی ہونا ضروری ہے۔ اور فنا کے بعد ہی بقا مل سکتی ہے۔ یہ چیزیں آپس میں لگی ہوئی ہیں۔ جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ہم تو اپنی خواہشِ نفس کے مطابق زندگی گزاریں گے اور اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ معاملہ صحابہ کی طرح کرے۔ بالکل یہی بات ہے، میں مبالغہ کی بات نہیں کر رہا۔ ہماری سوچ یہی ہے کہ ہم کریں گے اپنی مرضی اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ معاملہ صحابہ والا کرے، جب کہ ایسا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا اپنا قانون ہے۔ لہٰذا جو لوگ اس راستہ پہ چلتے ہیں، ان کو ماننا پڑتا ہے، ماننے سے ملتا ہے۔ ان کو وہ چیزیں پہلے سے ماننی پڑتی ہیں، جو ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ جتنا ہم مانتے جاتے ہیں، تو جو چیزیں سمجھ میں نہیں آتیں، اتنی اتنی وہ چیزیں سمجھ میں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اور یہ چیز سائنس میں بھی ہے۔ ہمارے فزکس کے ٹیچر تھے ڈاکٹر نجم صاحب، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ ہمیں فزکس کی چیزیں پڑھا رہے تھے Nuclear Engineering کی۔ جب کوئی مشکل جگہ آ جاتی، تو سٹوڈنٹس پوچھتے کہ یہ کیا ہے؟ فرماتے: مان جایئے، مان جایئے، مان جایئے، بعد میں سمجھ آ جائے گی۔ یعنی اس وقت تو میں آپ کو سمجھا نہیں سکتا، اس وقت آپ مان جائیں، اس ماننے کے بعد سمجھ آ جائے گی۔ پس ماننے کے بعد ہی سمجھ آتی ہے۔ اس لئے جب تک شیخ کی بات ماننے کے لئے انسان تیار نہیں ہوتا، نفس کے میدان سے وہ نکل ہی نہیں سکتا، نا ممکن ہے۔ کیونکہ اصل میں تو اللہ کے حکم کو ماننے پہ آنا ہے، لیکن اللہ کی ذات تو وراءُ الوراء ہے، وہ تو سامنے نہیں ہے۔ اس کے لئے آپ کو پہلے ایک نظام دیا گیا ہے، جو نظام آپ کے سامنے موجود ہے۔ وہ ہے قرآن و سنت کا نظام، اوامر و نواہی کا نظام، شریعت کا نظام۔ اس پہ آنا ہوتا ہے۔ اللہ پاک تو وراءُ الوراء ہے، لیکن یہ نظام ظاہر ہے۔ لیکن اس نظام پر آنے کے لئے بھی آپ کو شیخ کی بات ماننی ہوتی ہے۔ میں آپ کو ابھی کا واقعہ سناتا ہوں۔ ایک صاحب تھے، جس نے مجھ سے بیعت کی۔ مجھے کیا پتا کہ وہ کیا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ وہ کراچی کے تھے اور ٹیلی فون پہ بیعت کی، کبھی ملا بھی نہیں، ابھی تک نہیں ملا۔ میرا بار بار زور تھا کہ مجھے معمولات کا چارٹ بھیجو۔ کیونکہ اس چیز پہ میں زور دیتا ہوں۔ وہ بھیج ہی نہیں رہا تھا۔ اخیر میں میں نے کہا: اگر معمولات کا چارٹ نہیں بھیجتے ہو، تو بس میرے ساتھ رابطہ منطقع کر دو۔ چنانچہ جب چارٹ بھیجا، تو پتا چلا کہ وہ کوئی نماز ہی نہیں پڑھ رہا، اور درمیان میں کچھ اور چیزیں بھی تھیں۔ اب شیخ کا کام غصہ نہیں ہوتا۔ اس کا غصہ بھی انتظامی ہوتا ہے۔ خیر! میں نے اس پر غصہ نہیں کیا، میں نے اس کو سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے، اس کو ماننا پڑتا ہے۔ شیطانی جال سے نکلنے کے لئے دو طریقے ہیں۔ میں نے اس کو صاف بتا دیا کہ آپ اصل میں شیطانی جال کے اندر مکمل پھنسے ہوئے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ میں نماز پڑھ ہی نہیں سکتا۔ جن گناہوں کے بارے میں اس نے مجھے ذکر کیا، کہتا ہے کہ میں ان گناہوں سے بچ ہی نہیں سکتا۔ میں نے کہا کہ اس سے نکلنے کے لئے آپ کو کم از کم ایک راستہ اختیار کرنا پڑے گا، اگر دو اختیار نہیں کر سکتے، تو ایک تو کرنا ہی پڑے گا۔ یا تو گناہوں کو چھوڑنا پڑے گا، کہ اس ذریعے سے اللہ کی مدد آئے گی کہ جس نے اللہ کی مدد کو روکا ہوا ہے۔ یا پھر روحانیت بڑھانی پڑے گی، جو کہ عبادات کی لائن ہے۔ اس کے ذریعے سے آپ کو اللہ کی مدد لینی پڑے گی۔ ﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ (البقرۃ: 46) ان دو کاموں میں سے ایک آپ کو کرنا پڑے گا۔ میں اس مسئلہ میں آپ کی اتنی خدمت کر سکتا ہوں کہ میں نے آپ کو اصول بتا دیا ہے۔ اگر آپ اس اصول پر عمل کرتے ہیں، تو میں آگے جا کر بعد میں آپ کو کوئی وظیفہ بتا دوں گا۔ لیکن وظیفے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں سے کوئی ایک کام کرو کہ گناہ چھوڑو یا نماز پڑھنے لگو۔ کون سا کام کر سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ نہ مجھ سے نماز پڑھی جا رہی ہے اور نہ گناہ چھوٹ رہے ہیں، میری ہمت ہی نہیں ہے۔ میں نے کہا: اگر ہمت نہیں ہے، تو ٹھیک ہے، مجھے چھوڑ دو، آسان بات ہے۔ اس کے علاوہ میں اور کیا کہہ سکتا ہوں۔ مگر وہ ہر بار دعا کے لئے اصرار کرے کہ دعا کریں۔ اخیر میں میں نے کہا کہ اگر آپ نے مجھے اپنی نماز کے بارے میں کوئی خوشخبری نہ سنائی، تو مجھے آئندہ میسج نہ کرنا، مجھے آپ کی کوئی بات نہیں سننی۔ الحمد للہ اس نے خوشخبری سنائی کہ کل دو نمازیں پڑھ لیں، جب دو نمازیں پڑھ لی، تو میں نے کہا کہ آپ نے ثابت کر دیا کہ آپ میں ہمت ہے۔ اسی سے تو آپ نے دو نمازیں پڑھی ہیں۔ لہٰذا اب تو آپ کو پوری نمازیں پڑھنی پڑیں گی۔ تو کل مجھے اس نے میسج کیا کہ الحمد للہ میں نے بر وقت پانچ نمازیں پڑھ لیں۔ میں نے کہا: الحمد للہ! میں نے کہا: دل چاہتا ہے کہ آپ کا ماتھا چوم لوں، لیکن آپ دور ہیں۔ اب ما شاء اللہ پڑھنا شروع ہو گیا، اللہ تعالیٰ کی مدد بھی آ گئی۔ دو نمازیں پڑھنے کے بعد ترتیب بن گئی۔ اس طرح ہی کام ہوتا ہے۔ بتائیے! کیا یہ شریعت کا حکم اس کو پہلے معلوم نہیں تھا۔ کیا اس علم نے کام کیا؟ یہی وہ سلسلہ ہے، جو سمجھ میں نہیں آتا۔ لوگ کہتے ہیں کہ شریعت پر عمل کرنا ہے اور کیا کرنا ہے، لیکن درمیان میں یہ چیزیں بھی تو ہیں، نفس کو چھوڑنا کوئی آسان بات تھوڑی ہے، نفس ہے، شیطان ہے۔ یہ پکی باتیں ہیں، کوئی کچی باتیں تو نہیں ہیں۔ اس لئے پہلے شیخ کے ساتھ اپنا رابطہ بناؤ گے، پھر شریعت کے لئے پل بنے گا، جس سے آپ شریعت پر آ جائیں گے۔ جب شریعت پہ آ جائیں گے، تو آپ ﷺ کے طریقہ پہ آ جائیں گے۔ اس کو فنا فی الرسول کہتے ہیں۔ پہلے فنا فی الشیخ ہوتا ہے، پھر فنا فی الرسول آ جاتا ہے۔ جب شریعت پر آ گئے، تو فنا فی الرسول ہو گیا۔ جب آپ فنا فی الرسول پہ چلتے ہو، تو جب اس میں اخلاص آ جائے اور فنائیت آ جائے، تو فنا فی اللہ ہو گیا۔ بس یہی تین چیزیں ہیں۔ فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ۔ یہی ہمارے سارے کام ہیں۔ شاہ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ اپنے پردادا شیخ عبد القدوس رحمۃ اللہ علیہ کے پڑپوتے ہیں، سارا کچھ جانتے ہیں، سارا کچھ مانتے ہیں۔ اس کے باوجود خود دیکھتے ہیں کہ میرے پاس وہ چیز نہیں ہے، جو میرے دادا کے پاس تھی۔ چونکہ قسمت والا تھے، تو لوگوں سے پوچھا: کیا ہمارے دادا کے کوئی خلفاء موجود ہیں، جو یہ کام کر رہے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں! شیخ جلال رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑا کام کر رہے ہیں، ما شاء اللہ ان کا حلقہ کافی مضبوط ہے۔ سوچا کہ میں ادھر جاتا ہوں۔ حضرت کو اطلاع ہو گئی۔ حضرت اپنے خدام اور لاؤ لشکر کے ساتھ استقبال کے لئے آ گئے کہ صاحبزادہ تشریف لائے ہیں۔ آپ حضرات کو شاید علم ہو گا کہ اوچ شریف میں جو گیلانی خاندان ہے، جو آج کل سجادہ نشین ہے۔ پیر پگاڑہ صاحب وغیرہ، ان کے والد صاحب کے خلیفہ تھے۔ تو یہ کبھی کبھی ادھر جاتے تھے، تو پیر پگاڑہ ان کی بہت خدمت کرتے تھے۔ لیکن یہ معاملہ ان کا یہیں تک رہتا ہے، کیونکہ دونوں طرف معاملہ دنیا بن چکا ہے۔ لہٰذا معاملہ اسی پہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن وہاں معاملہ الٹ تھا، کیونکہ وہ کسی اور چیز کے لئے گئے تھے۔ شاہ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ حضرت! یہ آپ کیا کر رہے ہیں، میں اس چیز کے لئے نہیں آیا۔ کہا: کس چیز کے لئے آئے ہو؟ کہا: میں تو وہ چیز آپ سے لینا چاہتا ہوں، جو آپ نے میرے دادا سے لی ہے۔ فرمایا: اچھا! پھر یہ تو ان کپڑوں میں نہیں ہو سکتا۔ پوچھا: پھر کیسے ہو گا؟ تو ان کو خادموں کے کپڑے دیئے کہ یہ پہنو۔ یعنی جس صاحبزادہ صاحب کو تین دن دعوتیں کھلاتے رہے، اب ان کو خادموں کے کپڑے پہنا دیئے۔ پھر ان سے فرمایا: یہ حمام ہے، اس کی آگ تم نے جھونکنی ہے، کھانا وقت پہ ملے گا، نماز پڑھو گے، آرام کرو گے، حمام جھونکو گے، اور کوئی کام نہیں ہے۔ اور ملنا بھی نہیں۔ چھ مہینے تک خبر ہی نہیں لی کہ کوئی بندہ یہاں پر ہے۔ آج کل صورتِ حال یہ ہے کہ میرا ضروری کام ہو، جس وجہ سے میں ادھر ادھر ہوں تو کہتے ہیں کہ یہ کیسا عجیب ہے، میں اتنی دور سے آیا، میری پروا ہی نہیں کر رہا۔ دل میں محسوس کرتا ہے۔ جب کہ انہوں نے چھ مہینہ خبر ہی نہیں لی۔ اس کے بعد ایک دن جمعدارنی سے کہا کہ ان کے راستے میں کچھ گند ڈالو۔ اس نے جب ان کے راستے میں گند ڈالا، تو چونکہ طبیعت میں صاحبزادگی تھی تو گھور کے دیکھا اور کہا: ’’نہ ہوا گنگوہ ورنہ میں تجھے بتاتا‘‘۔ حضرت کو اطلاع ہوئی، تو فرمایا: اچھا، صاحبزادگی کی کچھ خو بو باقی ہے، ابھی چلتا رہے گا، مزید شروع ہو گئے۔ پھر چھ مہینے کے بعد دوبارہ گند کا ٹوکرا قریب سے گزارا، تو انہوں نے گھور کے دیکھا، لیکن کچھ کہا نہیں۔ جمعدارنی نے جا کر اطلاع کی کہ ایسے ہوا۔ فرمایا: الحمد للہ ترقی ہوئی ہے۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد پھر جب انہوں نے کہا کہ اس دفعہ تھوڑا سا گند ان کے اوپر بھی گرا دینا۔ جب یہ کیا، تو انہوں نے کہا: اوہو! معافی چاہتا ہوں، میں غلط راستہ میں بیٹھا ہوا تھا، آپ کو تکلیف ہو گئی، وہ گند ہاتھوں سے اٹھا اٹھا کر اس کی تگاری میں ڈال دیا۔ اب جب حضرت کو پتا چلا، تو فرمایا: ما شاء اللہ کام ہو گیا۔ آخری کار گزاری یہ ہوئی کہ شکار کے لئے دو شکاری کتے پالے ہوئے تھے۔ جب شکار کے لئے جانا ہوا، تو ان کو دو کتے دے دیئے اور کہا کہ کسی حال میں ان کو چھوڑنا نہیں ہے۔ انہوں نے اس ڈر سے کہ کہیں چھوٹ نہ جائیں، ان کی رسی کمر کے ساتھ باندھ لی۔ کتوں نے جب شکار کو دیکھا، تو وہ تو جھپٹ پڑے، اور یہ مجاہدہ کی وجہ سے کمزور ہو گئے تھے، اس لئے نیچے گر گئے اور کبھی جھاڑیوں میں اور کبھی کھیتوں میں لہو لہان ہوتے جا رہے ہیں۔ اتنے میں حضرت شیخ قدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی حضرت کو زیارت ہوئی، فرمایا کہ میں نے تو تجھ سے اتنی مشقت نہیں لی تھی۔ بس مجاہدہ کے بعد اللہ کی مدد آ گئی۔ ﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 69) چنانچہ پھر راستہ بن جاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد آ گئی، تو انہوں نے کہا کہ اس باولے کو دیکھو، وہ کہاں پر ہے، دیکھا، تو جھاڑیوں میں پڑے ہیں، لہو لہان ہیں اور چہرے پہ خوشی ہے۔ پتا چلا کہ ان پہ اللہ کی طرف سے تجلی ہو گئی تھی، اس تجلی میں مست تھے، اور پھر بعد میں وہ تجلی میں اتنے مست ہو گئے کہ کہا کہ مجھ پر دوسری دفعہ وہ تجلی ہو جائے، اپنے آپ کو بھول گئے تھے، مگر دوسری مرتبہ نہیں ہو رہی تھی۔ چونکہ یہ نعمت مجاہدہ کے ذریعے سے ملی تھی، تو ان کو پتا چل گیا کہ مجاہدہ کے ذریعے سے ملتی ہے، تو انہوں نے سانس روک لی اور کہا کہ اس وقت تک میں سانس روکے رکھوں گا، جب تک کہ یہ تجلی نہ ہو جائے۔ کافی دیر سانس رکا رہا، تو اللہ پاک نے دوسری بار تجلی فرمائی، تو اچانک ان کا سانس کھل گیا، جس سے دو پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ چنانچہ پھر غیب سے ایک چمچ آیا، اس میں دوا تھی، وہ ان کے منہ میں ڈال دی اور فرمایا: اپنے شیخ کو کہو کہ چوزوں کا شوربا پلائیں۔ چند دن ان کو چوزوں کا شوربا پلایا، تو ٹھیک ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ٹھیک کر دیا۔ اور پھر شیخ نے ان کو خلعت پہنائی اور فرمایا: جاؤ، جو نعمت میں تمہارے گھر سے لے کر آیا تھا، وہ آپ کو دے دی ہے۔ یہ ہیں شاہ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ۔ ہمارے سلسلہ میں ان کا نام ہے۔ بہر حال! یوں یہ چیزیں ملتی ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں گھر بیٹھے سارا کچھ مل جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ چیزیں اپنے آپ کو فنا کرنے سے ملتی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اتنا مجاہدہ آج کل ہم سے نہیں لیا جاتا، لیکن ایسا بھی تو نہیں کہ بالکل ہی ان چیزوں کو ختم کیا جائے۔ کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔ بہر حال! موجود تو سب کچھ ہے، ہر چیز موجود ہے، لیکن اس تک رسائی کے راستے ہیں۔ اور وہ راستہ یہی ہے کہ مجاہدہ کے ذریعے سے اور روحانیت کے ذریعے سے یہ چیزیں حاصل کی جائیں۔ روحانیت کے لئے ذکر اذکار اور مراقبات ہیں، اور نفس کو توڑنے کے لئے مجاہدات ہیں اور ان دونوں کا سنگم کام بناتا ہے۔ پھر سلاسل کے طریقہ کار مختلف ہیں، کبھی مجاہدہ پہلے کیا جاتا ہے، کبھی بعد میں کیا جاتا ہے، لیکن بہر حال! دونوں میں یہ ہوتا تو ہے۔ ہر جگہ پر یہ چیز ہوتی رہتی ہے۔ جلد بازی اس میں ممنوع ہے، کیونکہ جلد بازی سے کام خراب ہوتا ہے۔ میڈیکلی بھی جلد بازی سے کام خراب ہوتا ہے۔ مثلا: کسی نے ٹی بی کا نو مہینے کا علاج شروع کیا ہو اور دو مہینے کے بعد کہے کہ میں ٹھیک کیوں نہیں ہو رہا ہوں اور ڈاکٹر کے ساتھ لڑ پڑے، تو ڈاکٹر اسے یہی کہے گا کہ جاؤ، جس سے بھی علاج کروانا چاہو، کروا لو، میرا دماغ خراب نہ کرو۔ لیکن نقصان تو اس کو ہی ہو گا۔ لہٰذا جلد بازی سے کام خراب ہوتا ہے۔ اپنے شیخ پر اعتماد ہی اس کا علاج ہے، بشرطیکہ شیخ صحیح ہو۔ اس لئے بیعت کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ میں کسی ایسے شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دوں، جو مجھے خراب کرے، یعنی اناڑی شیخ ہو یا اس کا سلسلہ صحیح نہ ہو۔ اس لئے ایسے شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دینا چاہئے۔ لیکن اگر ایک دفعہ آپ نے یہ فیصلہ کر لیا، ان تمام چیزوں کو دیکھ کر آپ نے اپنے شیخ کو مان لیا، تو اس کے بعد پھر سوچنا منع ہے۔ پھر جو شیخ کہے، اس پر ہی عمل کرو۔ سوچ شیخ کی ذمہ داری ہے، وہ سوچے گا کہ میں اس کو کیا بتاؤں، کیا نہ بتاؤں، کم بتاؤں، زیادہ بتاؤں۔ میرے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ مجھے تین تسبیحات سے زیادہ ذکر نہیں دیتے تھے۔ میں اپنے ہاتھ سے جن کو بیعت کروا رہا تھا، ان کو میرے سامنے بڑا ذکر دے رہے تھے۔ میں نے حضرت کو کہا بھی تھا۔ جب میں کو بیعت کروا رہا تھا، تو اس کو دو تسبیح، دو تسبیح، دو تسبیح، سو، سو۔ گویا کہ سات اذکار دیئے اور مجھے تین دیتے۔ میں نے کہا: حضرت! یہ تو بچہ ہے۔ فرمایا: چھوڑو، صحیح ہے۔ بس یہ حضرت کی ذمہ داری تھی۔ میری ذمہ داری تو نہیں تھی کہ میں کیا کروں۔ باقیوں سے ناراض ہوتے کہ یہ ذکر نہیں کرتے۔ میں جب کبھی کہتا، تو فرماتے: تیرے پاس ٹائم ہے؟ فرماتے: اچھا، بس ٹھیک ہے، یہ کافی ہے۔ چنانچہ ان کے اوپر ہے کہ وہ کیا دیتے ہیں، کیا نہیں دیتے، کب دیتے ہیں، کب نہیں دیتے۔ جیسے ڈاکٹر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ڈاکٹر میجر جنرل بادشاہ کے ساتھ مجھے کام تھا، میں ان کے پاس گیا، تو ان کا پوتا بیمار تھا، اس کو سی ایم ایچ لے جا رہے تھے۔ مجھے کہتے ہیں کہ گاڑی میں بیٹھو۔ میں ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ راستے میں میں نے پوچھا: اس کو کیا مسئلہ ہے؟ کہا: Oh no! don't talk about it, this is doctor problem not my problem یعنی یہ ڈاکٹر کی بات ہے، ہماری بات نہیں۔ صاف صاف کہہ دیا۔ بس میں کیا کہہ سکتا تھا۔ وہ چونکہ فوجی آدمی تھے، فوجی straightforward ہوتا ہے، وہ دو دو چار کی طرح بات کرتا ہے، تو انہوں نے بالکل صاف کہہ دیا کہ بھائی! یہ ڈاکٹر کا مسئلہ ہے، میرا مسئلہ نہیں ہے، حالانکہ ان کا اپنا پوتا تھا۔

چنانچہ ایک دفعہ جب انسان کسی کو شیخ تسلیم کر لے کہ یہ میرا شیخ ہے، تو پھر اس کو شیخ ہی مانو۔ جب تک آپ شیخ اس کو اس طرح نہیں مانتے، جس طرح شیخ کو مانا جاتا ہے، اس وقت تک ناپختگی برقرار رہے گی، پختگی نہیں آ سکتی۔ جتنا جلدی آپ نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا، تو پختگی کا سامان فراہم ہو گیا، بنیاد بن گئی۔ اس کے بعد سلسلہ شروع ہو جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ جتنا جلدی نوازنا چاہے گا، نواز دے گا۔ جیسے ابھی میں نے کراچی کے ایک صاحب کی جو مثال دی ہے، اسے میں نے دلیل دی اور اپنا واقعہ بتایا کہ اللہ پاک چیزوں کو آسان کرتا ہے، لیکن اس کے لئے پہلے کچھ کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کہا کہ ہم مدینہ منورہ سے فلائٹ میں آ رہے تھے اور ساڑھے بارہ بجے کے لگ بھگ ہماری فلائٹ شروع ہوئی، ظہر کی نماز تو باہر پڑھی، عصر کی نماز تک مجھ پر نیند کا بہت بڑا حملہ ہوا، کیونکہ تقریباً دو دن کا جاگا ہوا تھا، تو نیند کی وجہ سے طبیعت بہت زیادہ مغلوب تھی، اور نیند میں کر نہیں سکتا تھا، کیونکہ میں سو جاتا، تو جہاز میں تو وضو نہیں کرنے دیتے، لہٰذا مسئلہ ہو جاتا، جس کی وجہ سے میں پریشان تھا اور دعا کر رہا تھا کہ یا اللہ! کہیں نیند نہ آ جائے۔ نیند کے سامنے لڑ رہا تھا، کبھی زور زور سے قرآن پڑھ رہا ہوں، کبھی کیا کر رہا ہوں، کبھی باتیں کر رہا ہوں، تاکہ نیند نہ آئے۔ عصر کی نماز تک تو میں اس کے ساتھ لڑا، الحمد للہ میں نے عصر کی نماز پڑھ لی۔ عصر کی نماز کے بعد ایسی حالت ہو گئی کہ جیسے نیند تھی ہی نہیں۔ نیند ختم۔ اور بالکل تازہ دم مغرب کی نماز پڑھی۔ الحمد للہ میں نے مغرب کی نماز بھی اسی وضو سے پڑھی۔ عشاء کے لئے پھر میں نے نیا وضو کیا۔ تو یہ اللہ کی مدد تھی، بس اللہ کی مدد آ گئی۔ لیکن عصر تک مجاہدہ کرنے کے بعد آئی تھی۔ ﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے‘‘۔

اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ