اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر بات ہوتی ہے۔ اس وقت حضرت کے صاحبزادے حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ کے مقالات پڑھے جا رہے ہیں۔ آج کا مقالہ ہے: ’’صوفیوں کے بارے میں‘‘۔ فرماتے ہیں:
متن:
صوفیوں کے بارے میں:
یہ صوفی صاحبان تین قسم کے ہیں: ایک صوفی، دوسرا متصوف اور تیسرا متشابہ صوفی۔ صوفی وہ ہوتا ہے جو کہ اپنے آپ سے فانی ہو، اور حق کے ساتھ باقی ہو اور طبیعت و خواہشات کے قبضہ سے آزاد ہو گیا ہو اور حقائق کی حقیقت سے آگاہ و ہمنوا ہو گیا ہو۔ اور متصوف وہ ہوتا ہے جو اپنی ریاضت اور مجاہدہ سے یہ درجہ طلب کرتا ہو اور اپنی طلب ان کے معاملات کی روشنی میں درست کرتا ہو۔ اور متشابہ صوفی وہ ہوتا ہے جو جاہ طلبی اور مزے لوٹنے کی خاطر اپنے آپ کو اُن صوفیائے کرام جیسا بناتا ہو۔ اور حقیقت میں دونوں معنوں یعنی صوفی اور متصوف کی خاصیتوں سے تہی دامن خالی اور بے خبر ہو، لیکن اُمید ہے کہ ان سے تشبہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی ان سے ہو جائے، اور ان کی برکت کے سائے میں دونوں جہانوں سے گزر جائے۔ کیونکہ لشکر میں بہادر، جنگ جو اور جنگ آزما تو ایک ہوتا ہے مگر دوسرے اُس کے طفیلی ہوتے ہیں۔ شہر میں خلیفہ اور بادشاہ ایک ہوتا ہے اور دوسرے لوگ اُس کی حکومت کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ تمام جماعت میں محقق تو تھوڑے ہوتے ہیں لیکن سب کو محققین کی جماعت کہا جاتا ہے۔ اور شریعت کا فتویٰ ہے کہ "مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ" (سنن أبي داوٗد، کتاب اللباس، باب في لبس الشهرة، رقم الحدیث: 4031) ”پس جو قوم کہ گفتار و کردار میں آپ کو کسی کا مشابہ کرے، تو وہ شخص اُس قوم سے شمار ہوتا ہے“۔
دوسری بات یہ ہے کہ صوفی کی مثال زمین کی مانند ہے کہ ہر نیک و بد اُس پر قدم رکھتا ہے، یا یہ بادل ہے جو ہر جگہ سایہ کرتا ہے، یا یہ بارش ہے جو ہر جگہ ہر کسی کو پانی دیتی ہے۔ صوفی کیا ہے؟ گوندھی ہوئی مٹی ہے جس میں پانی شامل کیا گیا ہو، نہ تو پاؤں کے اوپر کے حصّہ پر اُس کی گرد پڑتی ہے، اور نہ پاؤں کے تلوے کو اُس سے درد ہوتا ہے۔
تشریح:
حضرت نے تین قسم کے صوفیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ ایک صوفی وہ ہوتا ہے، جو فنا فی اللہ کا مقام حاصل کر چکا ہو، اللہ کی محبت میں اپنی تمام باقی محبتوں کو فنا کر چکا ہو، اس کا سب کچھ اللہ کے لئے ہو اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی تائید اس کو حاصل ہو۔ اسی کو باقی باللہ کہتے ہیں۔ اصل صوفی یہی ہے۔
دوسرا متصوف ہے، یعنی تصوف کے راستے پہ ہے اور ریاضت اور مجاہدہ کے ذریعے سے اس درجہ کا خواہش مند ہے اور اپنی طلب کو اس کے لئے درست کرتا رہتا ہے، یعنی راستہ پہ گامزن ہے، کوشش میں لگا ہوا ہے، محنت کر رہا ہے۔
تیسرا متشابہ صوفی ہوتا ہے، یعنی صوفیوں کی طرح ہوتاہے۔ وہ حقیقت میں صوفی نہیں ہوتا، لیکن صوفیوں کی طرح ہوتا ہے، اپنے آپ کو صوفیوں جیسا ظاہر کرتا ہے۔ جیسے: وجد آنا ایک غیرِ اختیاری فعل ہے، لیکن تواجد ایک اختیاری چیز ہے۔ تواجد میں وجد کی طرح اچھل کود ہوتی ہے، لیکن وہ ارادتاً ہوتی ہے، جب کہ وجد میں ارادتاً نہیں ہوتی۔ اسی طرح صوفی جو کچھ کر رہا ہوتا ہے، وہ حقیقت میں اس کو حاصل ہوتا ہے۔ یعنی اگر وہ کہتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں، تو واقعی وہ سمجھ رہا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ ایسا نہیں کہ وہ زبان سے کہہ رہا ہو کہ میں کچھ بھی نہیں اور اپنے دل میں سمجھتا ہو کہ میں سب کچھ ہوں۔ اپنے آپ کو حقیر پُر تقصیر کہتا ہو، تو بالکل یہی سمجھتا ہو، جب کہ دوسرا صرف الفاظ کو استعمال کرتا ہو۔ کہاں الفاظ اور کہاں حقیقت! ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ لہٰذا متشابہ صوفی ان تمام چیزوں کو سیکھ لیتا ہے کہ صوفی کیسے نظر آتے ہیں۔
حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ چونکہ اپنے دربار سے ان تمام غیر شرعی چیزوں کو نکالنا چاہتے تھے، درباروں میں بہروپیے بھی ہوا کرتے تھے۔ حضرت کا ارادہ تھا کہ ان بہروپیوں کو ختم کیا جائے۔ لیکن چونکہ بادشاہ کی اپنی آن ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی کہتا کہ یہ بخیل ہے، یہ کسی کو کچھ نہیں دیتا، تو یہ بھی بادشاہ کے اوپر ایک الزام تھا۔ اور لوگ تو باتیں بناتے ہیں۔ بالخصوص یہ ڈوم ٹائپ لوگوں کو باتیں بنانا بہت آتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے ان کو ختم کرنے کے لئے ایسا طریقہ اختیار کیا کہ خود بخود ختم ہو جائیں۔ انہوں نے ان سے کہا کہ تم چونکہ بہروپیے ہو، اس لئے ایسی صورت میں آنا ہے کہ میں تمہیں پہچان نہ سکوں۔ اگر میں نے تمہیں پہچان لیا، تو تمہاری ڈیوٹی ختم ہو جائے گی۔ اس لئے وہ لوگ مختلف بہروپ بناتے اور بادشاہ ان کو جان لیتے کہ یہ تو فلاں ہے، لہٰذا وہ ختم ہو جاتا۔ ایک پرانا بہروپیے تھا، وہ غائب ہو گیا، پتا ہی نہیں چلا کہ کدھر گیا۔ بادشاہ کا طریقہ یہ ہوتا کہ جب سفر کرتے، تو راستہ میں غرباء، فقراء اور نیک لوگوں کے ساتھ ملا کرتے تھے۔ چونکہ خود بھی صوفی تھے۔ پوچھا کہ جس راستہ پہ میں جا رہا ہوں، اس پہ کوئی بزرگ ہے کہ ان سے ملاقات کی جائے؟ لوگوں نے کہا کہ ایک تارکُ الدنیا بزرگ ہے، جو کسی سے ملتا بھی نہیں ہے، نہ کسی کے پاس جاتا ہے، نہ کسی کے بلانے سے آتا ہے۔ حضرت نے فرمایا: کوئی بات نہیں، ہم حضرت کے پاس چلے جائیں گے، وہ نہ آئیں۔ چنانچہ وہ ان کے پاس چلے گئے۔ وہ اپنے دھیان میں بیٹھا ہوا تھا، زبردست قسم کی صوفیانہ باتیں ہو رہی ہیں، معارف بیان کئے جا رہے ہیں۔ بادشاہ بھی بڑا متأثر ہوا۔ بادشاہ نے آتے ہوئے اشرفیوں کی ایک تھیلی ان کو نذر کی کہ حضرت! یہ آپ کی خدمت ہے۔ اس نے اس کو لات ماری اور کہا: مجھے بھی اپنی طرح دنیا دار سمجھتا ہے، لے جاؤ، میرے کسی کام کی نہیں ہے۔ بادشاہ نے اٹھوا لی۔ ان کے دل میں اس کی وقعت اور بڑھ گئی۔ جب بادشاہ چلنے کو ہوا تو پیچھے دیکھا تو وہی صوفی فرشی سلام کر رہا ہے: بادشاہ سلامت! آداب عرض ہیں۔ اور کہا: اب تو آپ نے مجھے نہیں پہچانا۔ میں وہی بہروپیہ ہوں، غائب ہو گیا تھا۔ مجھے پتا تھا کہ آپ نے اس راستہ پہ آنا ہے، لہٰذا میں نے یہ سارا ناٹک رچایا ہے۔ آپ نے مجھے نہیں پہچانا۔ بادشاہ نے کہا: واقعی تو نے بڑا کمال کا فن ادا کیا ہے، آپ کو میں انعام دیتا ہوں۔ اس پہلی رقم کے مقابلے میں کافی تھوڑی رقم عنایت کی۔ اس نے سر آنکھوں پہ چوما اور لے لی اور سلام کر کے جانے لگا۔ بادشاہ نے کہا: اچھا، آپ نے کمال تو کر ہی لیا۔ میں نے ذرا آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ میں نے جو اشرفیاں آپ کو دی تھیں، وہ تو بہت زیادہ تعداد میں تھیں۔ اگر آپ ان کو لے لیتے اور بعد میں مجھے پتا چل جاتا، تو میں آپ سے واپس تو نہ لیتا۔ وہ بھی تمہاری ہو جاتیں اور یہ انعام بھی تمہیں دیتا۔ آپ نے اس کو لات کیوں ماری؟ اس نے کہا: پھر بہروپ صحیح نہ ہوتا۔ ہمارے راستے کے بھی کچھ آداب ہیں۔ ان میں یہ بھی ہے کہ بہروپ مکمل ہونا چاہئے۔ پھر تو میں واقعی دنیا دار نظر آتا، صوفی نظر نہ آتا۔ بادشاہ اس سے بہت خوش ہو گیا۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ اصل صوفی ایسا ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک بہروپیہ بھی اصل صوفی اسی کو سمجھتا ہے، جو ان چیزوں کے پیچھے نہ جاتا ہو، نفس سے آزاد ہو چکا ہو۔ آگے حضرت نے جو بات فرمائی ہے، وہ بڑی گہری بات ہے۔ فرمایا:
متن:
متشابہ صوفی وہ ہوتا ہے جو جاہ طلبی اور مزے لوٹنے کی خاطر اپنے آپ کو اُن صوفیائے کرام جیسا بناتا ہو۔ (اس کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے) اور حقیقت میں دونوں معنوں یعنی صوفی اور متصوف کی خاصیتوں سے تہی دامن خالی اور بے خبر ہو، لیکن اُمید ہے کہ ان سے تشبہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی ان سے ہو جائے، (یعنی اگر ان پہ اللہ پاک کا فضل ہو جائے) اور ان کی برکت کے سائے میں دونوں جہانوں سے گزر جائے۔ (یعنی حقیقت میں صوفی ہو جائے) کیونکہ لشکر میں بہادر، جنگ جو اور جنگ آزما تو ایک ہوتا ہے مگر دوسرے اُس کے طفیلی ہوتے ہیں۔ (ان کو بھی نوازا جاتا ہے کہ یہ بڑا زبردست لشکر ہے) شہر میں خلیفہ اور بادشاہ ایک ہوتا ہے اور دوسرے لوگ اُس کی حکومت کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ تمام جماعت میں محقق تو تھوڑے ہوتے ہیں لیکن سب کو محققین کی جماعت کہا جاتا ہے۔ اور شریعت کا فتویٰ ہے کہ "مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ" (سنن أبي داوٗد، کتاب اللباس، باب في لبس الشهرة، رقم الحدیث: 4031) ”پس جو قوم کہ گفتار و کردار میں آپ کو کسی کا مشابہ کرے، تو وہ شخص اُس قوم سے شمار ہوتا ہے“۔
دوسری بات یہ ہے کہ صوفی کی مثال زمین کی مانند ہے کہ ہر نیک و بد اُس پر قدم رکھتا ہے، (ہر ایک اس سے فائدہ اٹھاتا ہے) یا یہ بادل ہے جو ہر جگہ برستا ہے (اچھی جگہ پہ بھی برستا ہے اور بری جگہ پہ بھی برستا ہے بلکہ صوفی ایک) گوندھی ہوئی مٹی ہے جس میں پانی شامل کیا گیا ہو، نہ تو پاؤں کے اوپر کے حصّہ پر اُس کی گرد پڑتی ہے، اور نہ پاؤں کے تلوے کو اُس سے درد ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس ناسوتی پنجرے میں قید لاہوتی پرندے کو آزاد کرنا بغیر اس کے نہیں ہو سکتا کہ اُس جذبے کی تاثیر پیدا کی جائے جو کہ مُصطفیٰ ﷺ کی متابعت کرتے ہوئے ہو۔
تشریح:
ناسوتی پنجرہ، ہمارا نفس ناسوت کہلاتا ہے۔ روح اللہ تعالیٰ کی عاشق ہے، لیکن جب اس ناسوتی پنجرے میں قید ہو گئی، تو اس پہ اس جیسے حالات طاری ہو گئے۔ لہٰذا اس کو اس ناسوتی پنجرے سے آزاد کرانا ہوتا ہے، جو کہ ریاضت و سلوک طے کئے بغیر نہیں ہوتا۔ اور دل میں ایسا جذبہ اور ایسی تاثیر پیدا کرنی چاہئے کہ دل سے دنیا کی محبت نکل جائے اور آپ ﷺ کی متابعت پر آ جائے۔
متن:
دوسری بات یہ کہ سالک وہ ہوتا ہے جس نے حق کی جانب رُخ کیا ہو، دائیں ہاتھ میں کتاب اللہ اور بائیں میں سنت رسول اللہ ﷺ کو مضبوط پکڑا ہو اور ان دونوں کی روشنی میں راستہ طے کرتا رہے۔
دوسری بات یہ کہ سالک کے لئے چار چیزوں کے بغیر کوئی چارہ نہیں: اول علم جو اُس کی تربیت دے اور اُس کے اخلاق کو نرم کرے۔ دوم ذکر جو اُس کا مونس و ہمدم رہے تاکہ وہ تنہا نہ ہو۔ سوم وہ ورع اور تقویٰ جو اُس کو ناموزوں اور ناجائز کاموں سے منع کرتا رہے اور چہارم یقین جو اُس کی سواری ہو تاکہ ہمراہیوں اور ساتھیوں سے نہ رہ جائے۔
تشریح:
حضرت فرماتے ہیں کہ سالک حق کی جانب چلتا ہے اور اس کے لئے راستہ کے رہبر دو ہیں: ایک قرآن ہے اور دوسری سنتِ رسول ﷺ ہے۔ یہ دونوں قندیلیں اس کے پاس ہوں، ان قندیلوں کی روشنی میں راستہ طے کر رہا ہو۔ اور چار چیزیں حاصل کرنا اس کے لئے ضروری ہیں: پہلا علم ہے، جس سے اس کو پتا چل جائے کہ کیا چیز جائز ہے، کیا چیز ناجائز ہے۔ اور ساتھ ساتھ تربیت بھی ہو، تاکہ اس کے اخلاق نرم ہوں۔ اور ذکر کا بھی عادی ہو، تاکہ اس کے ساتھ ہمہ وقت موجود رہے۔ جیسے حدیث قدسی ہے: ’’أَنَا جَلِيْسُ مَنْ ذَكَرَنِيْ‘‘ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر:680)
ترجمہ: ’’میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، جو میرا ذکر کرتا ہے‘‘۔
اس لئے ذاکر تنہا نہیں ہوتا۔ تیسری چیز یہ ہے کہ ورع و تقویٰ اس کو حاصل ہو۔ تقویٰ انسان کو برائیوں سے روکتا ہے۔ چوتھی چیز یہ ہے کہ اس کو یقین کی سواری حاصل ہو، تاکہ یہ اپنے ہمراہیوں سے پیچھے نہ رہ جائے۔
متن:
دوسری بات یہ کہ سالک کو چاہئے کہ چار قسم کی موتوں کو یاد کرتا رہے تاکہ فقر کے مرتبہ تک پہنچ جائے۔ (1) الموت الأبیض (سفید موت) جو کہ بھوک ہے، (2) الموت الأسود (سیاہ موت) لوگوں کی ایذاء رسانی پر صبر کرنا، (3) الموت الأحمر (سُرخ موت) جو کہ اپنی نفس کی مخالفت ہے، (4) اور الموت الأخضر (سبز موت) نئے لباس پہننے کی بجائے پرانے لباس پر قناعت کرنا۔
دوسری بات یہ کہ جس حد تک سالک کو تجلی کے وقت کسی صورت میں بھی حق نظر آئے تو اُس کو اُسی صورت میں جاننا چاہئے، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے سُنا کہ ﴿إِنِّيْ أَنَا اللہُ…﴾ (القصص: 30) ”تحقیق میں اللہ ہوں“ پس وہ درخت خدا نہ تھا لیکن اُس کی تجلی تھی جو درخت کی شکل میں نمودار ہوئی۔
مصابیح القلوب میں یہ بات اسی طرح آئی ہے کہ نفحات الانس میں آیا ہے کہ ولایت مخصوصہ ارباب سلوک میں سے واصلان کے ساتھ مخصوص ہے اور واصلین سے مراد ہے۔ "ھِيَ عِبَارَۃٌ عَنْ فَنَاءِ الْعَبْدِ فِي الْحَقِّ وَبَقَائِہٖ بِہٖ فَالْوَلِيُّ ھُوَ الْفَانِيْ فِیْہِ وَالْبَاقِيْ بِہٖ" ”جب بندہ حق میں فنا ہو جائے اور اُس پر اسے بقا ہو، پسم ولی اُس میں فانی اور اُس پر باقی کو کہتے ہیں“۔ اور فنا سے مراد ہے کہ سیر الی اللہ کی انتہا اور بقا سے مراد سیر فی اللہ کی ہدایت، کیونکہ سیر الی اللہ اُس وقت ختم ہو جاتی ہے کہ وجود کے قدم کو صدق کے قدم سے یک دم قطع کیا جائے۔ اور سیر فی اللہ اُس وقت حقیقت بن جاتی ہے اور بندے کو فنا کے بعد ایسا وجود اور ایسی ذات حدوث کی غلاظت اور گندگی سے پاک و صاف بخشتی جاتی ہے جس وجود کے ساتھ عالمِ انصاف میں اوصاف ربانی اور اخلاق الٰہی کی متابعت اور عمل میں ترقی ہو۔
تشریح:
یہاں حضرت نے فرمایا کہ سالک کو چاہئے کہ چار موتوں کو یاد رکھے۔ اصل میں موت بھی فنا کی طرف ہی اشارہ ہے۔ خواہشات کی فنا بھی موت ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ کی حدیث شریف ہے کہ موت کو کثرت کے ساتھ یاد کرو، کیونکہ وہ لذات کو توڑنے والی ہے۔ لہٰذا موت بھی فنا کی تعبیر ہے۔ بعض دفعہ انسان خواب میں کسی کو دیکھتا ہے کہ فلاں مر گیا ہے، تو اس کی کئی تعبیریں ہیں اور جس سے متعلق وہ خواب ہے، اس کے مطابق معنی لئے جاتے ہیں۔ اس کا ایک معنی یہ ہے کہ مرنے والے کو فنا حاصل ہو گئی، وہ فانی ہو گیا۔ یہاں چار موتوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ ایک ہے؛ الموت الأبیض (سفید موت) یعنی بھوک کو اپنا شعار رکھے۔ دوسری الموت الأسود (سیاہ موت) ہے۔ یہ لوگوں کی ایذا رسانی پر صبر کرنا ہے۔ تیسری الموت الأحمر ہے یعنی اپنے نفس کی مخالفت۔ اور چوتھی الموت الأخضر ہے، یعنی نئے لباس پہننے کی بجائے پرانے لباس پر قناعت کرنا۔ یہ گویا کہ مجاہدات کی پوری ایک سیریز ہے۔ انسان جب اللہ کے راستے کا سالک ہو، اس راستے میں جو مشکلات آتی ہیں، ان مشکلات کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرنا ہے۔ ہم بھی دیکھتے ہیں کہ جس کو کسی کے ساتھ محبت ہوتی ہے، جب وہ اس سے ملنے کے لئے جاتا ہے، تو اس سے روکنے والی جتنی بھی رکاوٹیں ہوتی ہیں، وہ ان کی پروا نہیں کرتا، بس وہ قدم بڑھاتا جاتا ہے اور تمام چیزوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح جو اللہ کا عاشق ہو گا، وہ اللہ تعالیٰ کے عشق میں ان تمام تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہو گا۔ ان چار قسم کی موتوں میں ایک بھوک ہے، چنانچہ اگر بھوک آئے، تو اس کو بھی اپنا مہمان سمجھے۔ اور اگر لوگوں کی طرف سے تکلیفیں آتی ہیں، تو ان کو بھی اللہ کی طرف سے سمجھے۔ اپنے نفس کی مسلسل مخالفت کرتا رہے۔ اور پرانا لباس پہننا کرے، نئے لباس سے اپنے آپ کو بچائے رکھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ صوفی اپنی طرف سے یہ باتیں کرتے ہیں، حالانکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ مجھے پھٹے پرانے کپڑے میں کفن دینا، کیونکہ نیا لباس زندوں کا حق ہے۔ اگر اللہ نے مجھے بخش دیا، تو جنت سے کفن آ جائے گا اور اگر یہ نہیں ہوا، تو پھر میں اسی قابل ہوں۔ در اصل لوگ بھول جاتے ہیں۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کپڑے دیئے کہ حضرت! آپ جا رہے ہیں، تو ان کو پہنیں۔ حضرت نے جیسے ہی پہنے، تو فوراً اتار دیئے اور فرمایا: معاویہ! تو نے تو مجھے ہلاک کر دیا تھا۔ اور فرمایا: میرا نفس اس میں مشغول ہونے لگا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دفعہ اپنی آستین اچھی نظر آئی، تو اس کو چھری سے کاٹ دیا۔ آج کل تو لوگ فیشن کے مطابق کف کو کاٹ دیتے ہیں، اس لئے یہ فیشنی طریقے سے ہوتا ہے۔ گویا ہمارے ہاں سادگی بھی فیشن ہی ہے، جب کہ وہاں واقعی سادگی تھی۔ بہر حال! یہ ساری چیزیں لوگ صوفیوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں، حالانکہ صحابہ کرام میں بھی یہ چیزیں تھیں۔ لیکن ہم لوگ بھول جاتے ہیں۔ بلکہ صحابہ کرام کے بارے میں لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ چونکہ بڑے لوگ تھے، اس لئے وہ اس طرح کرتے تھے۔ ہم اس طرح نہیں ہیں، ہم تو مزے لوٹیں گے۔ لیکن ساتھ یہ بھی سجھتے ہیں کہ ہوں گے ہم صحابہ کرام کے ساتھ۔ End result ہمارا صحابہ کرام کے ساتھ ہو گا۔ البتہ زندگی ہم اپنی مرضی کے مطابق گزاریں گے۔ صوفیاء کرام اس بات کے مخالف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ ان کے ساتھ ہونا چاہتے ہیں، تو ان کی طرح بننے کی کوشش تو کرو۔ کم از کم ان چیزوں کو اچھا تو سمجھو۔
متن:
دوسری بات یہ کہ جس حد تک سالک کو تجلی کے وقت کسی صورت میں بھی حق نظر آئے تو اُس کو اُسی صورت میں جاننا چاہئے۔
تشریح:
اللہ جل شانہ مختلف چیزوں پہ تجلی ڈالتے ہیں۔ جیسے خانہ کعبہ پہ تجلی مسجودی ہے۔ جو لوگ اس کے جاننے والے ہوتے ہیں، وہ سجدہ میں اس کا لطف اٹھاتے ہیں۔ جب سجدہ میں جاتے ہیں، تو ان کو پتا ہوتا ہے کہ میں کس کو سجدہ کر رہا ہوں۔ اپنے دل میں اس کی عظمت کو پاتے ہیں۔ اور جس قسم کی بھی تجلی ہو، اس تجلی میں ان کو وہ چیز نظر آ جاتی ہے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کی مثال دی کہ جب ان کو درخت سے آواز آئی، تو درخت خدا تو نہیں تھا، نہ خدا کی طرح تھا، لیکن اللہ پاک نے اس پر اپنی تجلیِٔ کلام ڈالی، لہٰذا وہ کلام کی تجلی کو پہچان گئے۔ لہٰذا اتنی معرفت حاصل ہو کہ تجلی کو پہچان سکے۔ اس کو دھوکہ نہ دیا جا سکے۔
متن:
مصابیح القلوب میں یہ بات اسی طرح آئی ہے کہ نفحات الانس میں آیا ہے کہ ولایت مخصوصہ ارباب سلوک میں سے واصلان کے ساتھ مخصوص ہے۔
تشریح:
اصل میں ولایت کی دو قسمیں ہیں: ایک ولایتِ خاصہ ہے اور دوسری ولایتِ عامہ ہے۔ ولایتِ عامہ عام مسلمانوں کو بھی حاصل ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ﴾ (البقرہ 257)
ترجمہ: ’’اللہ ایمان والوں کا رکھوالا ہے، وہ انہیں اندھیریوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے‘‘۔
اور ولایتِ خاصہ کا تعلق ان کے ساتھ ہے، جو واصل ہو چکے ہیں۔ جیسے فرمایا: ﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ 0 الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَ﴾ (یونس: 62-63)
ترجمہ: ’’یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں، ان کو نہ کوئی خوف ہوگا، نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو ایمان لائے، اور تقوی اختیار کیے رہے‘‘۔
متن:
واصلین سے مراد ہے۔ "ھِيَ عِبَارَۃٌ عَنْ فَنَاءِ الْعَبْدِ فِي الْحَقِّ وَبَقَائِہٖ بِہٖ فَالْوَلِيُّ ھُوَ الْفَانِيْ فِیْہِ وَالْبَاقِيْ بِہٖ" ”جب بندہ حق میں فنا ہو جائے اور اُس پر اسے بقا ہو، پسم ولی اُس میں فانی اور اُس پر باقی کو کہتے ہیں“۔
تشریح:
یعنی بندے کا حق میں فنا ہونا ہے، جس سے اس کے ساتھ وہ باقی رہتا ہے۔ یعنی ولی اس میں فانی بھی ہوتا ہے اور اس کے ساتھ باقی بھی ہوتا ہے۔
متن:
اور فنا سے مراد ہے کہ سیر الی اللہ کی انتہا اور بقا سے مراد سیر فی اللہ کی ہدایت،
تشریح:
سیر الی اللہ میں رذائل دب جاتے ہیں، یعنی خواہشات راستے کی رکاوٹ نہیں بنتیں۔ اور سیر فی اللہ کی چونکہ انتہا نہیں ہے اور وہ زندگی میں دوبارہ واپس آتا ہے۔ اس لئے وہ زندگی میں واپس تو آ گیا، لیکن اب اس کا roll وہ نہیں ہوتا، جو فنا سے پہلے ہوتا ہے۔ بلکہ اب وہ اللہ ہی کا ہوتا ہے۔ ہر چیز میں اللہ ہی کا بندہ بنتا ہے اور اللہ ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ بقا باللہ کہلاتی ہے۔
متن:
کیونکہ سیر الی اللہ اُس وقت ختم ہو جاتی ہے کہ وجود کے قدم کو صدق کے قدم سے یک دم قطع کیا جائے۔
تشریح:
یعنی وجود کے متعلقات صدق کے ذریعے سے یک دم قطع کئے جائیں۔
متن:
اور سیر فی اللہ اُس وقت حقیقت بن جاتی ہے اور بندے کو فنا کے بعد ایسا وجود اور ایسی ذات حدوث کی غلاظت اور گندگی سے پاک و صاف بخشتی جاتی ہے جس وجود کے ساتھ عالمِ انصاف میں اوصاف ربانی اور اخلاق الٰہی کی متابعت اور عمل میں ترقی ہو۔
تشریح:
یعنی پھر اس کا وجود تو ہوتا ہے، لیکن وہ وجود اس کا نہیں ہوتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ پاک ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
متن:
دوسری عبارت میں سلوک کا بیان:
یہ بات جان لیجیے کہ سلک سلوک میں آیا ہے کہ علمِ طریقت کی اصطلاحات میں سے ایک توبہ ہے۔ "اَلتَّوْبَۃُ أَصْلُ کُلِّ مَقَامٍ وَّ مِفْتَاحُ کُلِّ حَالٍ وَّ ھِيَ مَقَامَاتٌ وَّ ھِيَ مُشَابَهَةُ الْأَرْضِ بِبِنَاءٍ فَمَنْ لَّا أَرْضَ لَہٗ لَا بِنَاءَ لَہٗ وَمَنْ لَّا تَوْبَۃَ لَہٗ لَا حَالَ وَلَا مَقَامَ لَہٗ" ”توبہ ہر مقام کی اصل ہے اور ہر حال کی کلید اور کنجی ہے اور یہ سب مقامات میں سے پہلا مقام ہے۔ اور یہ بنیاد رکھنے اور عمارت بنانے کے لئے زمین کی مانند ہے، پس جس کی زمین نہ ہو اُس کی بنیاد نہیں ہوتی اور جس کی توبہ نہ ہو تو اُس کو کوئی مقام اور حال نصیب نہیں ہوتا“۔
تشریح:
ماضی کے گناہوں سے اپنے آپ کو کاٹنا، ان پہ پشیمان ہو کر، نادم ہو کر، اللہ کے حضور گڑ گڑا کے مغفرت طلب کرنا، معافی مانگنا اور ان تمام گناہوں کو آئندہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ آگے بڑھنا، یہ توبہ ہے۔ اور یہ توبہ ایک مقام ہے، جو تمام مقامات کی کنجی ہے۔ تمام مقامات اسی سے شروع ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب کوئی بیعت کرتا ہے، تو بیعت میں توبہ کرائی جاتا ہے، تاکہ وہ پہلے مقام میں فوراً داخل ہو جائے۔ اور یہ تمام سلوک کی عمارت کی بنیاد ہے۔ لہٰذا اگر یہ نہ ہو، تو بنیاد ہی نہیں ہو گی اور پھر عمارت کس چیز پہ کھڑی ہو گی۔
متن:
جب توبہ کل مقامات کی اصل ہوئی تو جو کوئی چاہے کہ وہ صاحبِ مقامات ہو جائے پس اُس کو چاہئے کہ سب سے پہلے توبہ کرے اور توبہ کرنے والے پر واجب ہے کہ گناہ کو توبہ کرنے کے بعد ایسا دشمن جانے جیسا کہ توبہ کرنے سے قبل اس کو پسند کرتا تھا۔ "قَالَ یَحْیَی بْنُ مُعَاذٍ رَّحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ: زَلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ لِّلتَّائِبِ بَعْدِ التَّوْبَۃِ أَقَبْحُ مِنْ سَبْعِیْنَ زَلَّۃً قَبْلَھَا" ”یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ توبہ کرنے والے کے لئے توبہ کرنے کے بعد ایک لغزش توبہ کرنے سے قبل کی ستر 70 لغزشوں سے زیادہ بری اور قبیح ہے“۔ اور توبہ ہر وقت میں اچھی بات ہے خواہ بڑھاپے میں ہو خواہ جوانی میں۔
اور یہ بات بھی جاننی چاہئے کہ اس علم کی اصطلاحات میں سے ایک مقام ہے، جو کہ میم پر زبر کے ساتھ ہے۔ "وَمَقَامُ کُلِّ وَاحِدٍ مَّوْضِعُ إِقَامِتِہٖ عِنْدَ ذَالِکَ وَالْمَقَامُ سُمِّيَ مَقَامًا لِّثُبُوْتِہٖ وَاسْتِقْرَارِہٖ وَقَدْ یَکُوْنُ الشَّيْءُ بِعَیْنِہٖ حَالًا ثُمَّ یَصِیْرُ مَقَامًا" ”مقام ہر ایک کی جائے قرار و اقامت ہوتی ہے،
تشریح:
یعنی ایک جگہ پر establish ہونے کو مقام کہتے ہیں۔ establish ہونا زیادہ بہتر لفظ ہے۔ جو چیز ابھی transition میں ہے، وہ establish نہیں ہے۔ لیکن جب وہ establish ہو جائے، جیسے lubrication condition میں آ جائے، تو یہ establish ہونا ہوتا ہے۔ مثلاً: جو چیز جتنی جا رہی ہے، اتنی ہی آ رہی ہے تو اپنی جگہ پہ establish ہے۔ Dynamic equilibrium, static equilibrium سے مختلف ہے۔ بہر حال! مقام establishment کو کہتے ہیں۔ یعنی کسی چیز پہ قرار پکڑنا، اس کے اندر مزید variation نہ ہونا۔ اس کو ہم مقام کہتے ہیں۔ مقام fixed ہوتا ہے، حال variable ہوتا ہے۔
متن:
”مقام ہر ایک کی جائے قرار و اقامت ہوتی ہے، کیونکہ وہ اس جگہ پر ثبات اور قرار حاصل کرتا ہے۔ اور اکثر ایک چیز حال ہوتی ہے پھر وہ مقام بن جاتی ہے“۔ ارباب احوال اور مقام کہتے ہیں کہ سالک کو جو چیز پہلے ہی آتی ہے وہ حال ہوتی ہے پھر وہ مقام بن جاتی ہے۔ چنانچہ جب کوئی باطن میں اپنے نفس کے محاسبے کی خواہش کرتا ہے تو اس خواہش اور داعیہ کو حال کہتے ہیں اور جب وہ بتدریج نفس پر غالب ہو اور مالکِ محاسبہ ہو جائے تو محاسبۂ نفس کے اس داعیے کو مقام کہتے ہیں۔ اور حالِ مراقبۂ حال اور مشاہدہ وغیرہ اور اُن کا مقام ہونا یہی عمل ہوتا ہے۔
اب یہ بات جان لیجیے کہ مقامات محدود ہیں کیونکہ مقامات کسبی ہوتے ہیں، اور کسبی اشیاء کی حد ہوتی ہے اور یہ متناہی ہوتے ہیں۔
تشریح:
یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ مقامات کسبی ہوتے ہیں اور حال میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اگلے مقام تک پہنچنے کے لئے جو تبدیلی ہوتی ہے، وہ حال ہوتا ہے، پھر وہ مقام میں بدل جاتا ہے۔ اور مقامات چونکہ کسبی ہوتے ہیں، لہٰذا یہ محدود ہوتے ہیں۔ لا محدود نہیں ہوتے۔ کیونکہ کسبی چیزیں محدود ہی ہوتی ہیں۔ لیکن چونکہ ہمیں کسب کا مکلف بنایا گیا ہے، لہٰذا ہماری کمائی یہی ہے کہ ہم ان مقامات کو کسبی طور پر حاصل کریں۔
متن:
سن لیجیے کہ مشائخِ طریقت، صاحبانِ مقامات ہوتے ہیں اور طریقت کے سو مرتبے مقرر ہیں، اور کشف و کرامت اُس کا سترہواں مرتبہ ہے۔ پس اگر سالک بغیر پروں کے ہوا میں اُڑ جائے یا بغیر قدموں کے آسمان پر چلا جائے تو یہ ہو سکتا ہے مگر اس پر مغرور نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ سترہواں مرتبہ ہے کوئی زیادہ چیز نہیں۔ اگر اس سترہویں مرتبے پر راضی ہو کر رہے اور تِراسی مرتبے قطع کر کے کچھ حاصل نہیں کرے گا۔ اور سالک ایک مقام سے دوسرے مقام کو ترقی نہیں کرتا جب تک کہ پہلے مقام کا حق ادا نہ کرے۔ مقامات کسبی ہوتے ہیں، اور کسبی اشیاء کی حد ہوتی ہے اور یہ متناہی ہوتے ہیں۔ سن لیجیے کہ مشائخِ طریقت، صاحبانِ مقامات ہوتے ہیں اور طریقت کے سو مرتبے مقرر ہیں، اور کشف و کرامت اُس کا سترہواں مرتبہ ہے۔ پس اگر سالک بغیر پروں کے ہوا میں اُڑ جائے یا بغیر قدموں کے آسمان پر چلا جائے تو یہ ہو سکتا ہے مگر اس پر مغرور نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ سترہواں (seventeen) مرتبہ ہے کوئی زیادہ چیز نہیں۔ اگر اس سترہویں مرتبے پر راضی ہو کر رہے اور تِراسی مرتبے قطع کر کے کچھ حاصل نہیں کرے گا۔ (یعنی تراسی مرتبے ضائع چلے جائیں گے) اور سالک ایک مقام سے دوسرے مقام کو ترقی نہیں کرتا جب تک کہ پہلے مقام کا حق ادا نہ کرے۔ (اور پہلے مقام کا حق ادا اس کا حق یہی ہے کہ اس میں مغرور نہ ہو) "فَإِنَّ مَنْ لَّا قَنَاعَۃَ لَہٗ لَا یَصِحُّ لَہُ التَّوَکُّلُ وَمَنْ لَّا تَوَکُّلَ لَہٗ لَا یَصِحُّ لَہُ التَّسْلِیْمُ" ”جس کو قناعت حاصل نہ ہو اُس کو توکل حاصل نہیں، اور جس کو توکل نہ ہو تو مقامِ تسلیم اُس کے ہاتھ نہیں آتا“۔
تشریح:
حضرت یہ مثال دے رہے ہیں کہ جب تک ایک کا حق ادا نہ کرے، دوسرے پہ نہیں جا سکتا۔ لہٰذا اگر کوئی قناعت حاصل نہیں کر سکا، تو توکل بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور جب توکل حاصل نہیں کر سکتا، تو اس کو تسلیم کا مرتبہ بھی نہیں ملے گا۔
سرِ تسلیم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے
متن:
ایک مقام سے جب نہیں نکلتا تو دوسرے مقام کو کیسے پہنچے گا؟
سلکِ سلوک نامی کتاب میں آیا ہے کہ اس علم کی اصطلاحات میں سے ایک حال ہے۔ "اَلْحَالُ مَا یُرِدُ عَلَی الْقَلْبِ مِنْ طَرْبٍ أَوْ حُزْنٍ أَوْ بَسْطٍ أَوْ قَبْضٍ وَّ الْحَالُ سُمِّيَ حَالًا لِّتَحَوُّلِہٖ" ”حال ایک حالت ہوتی ہے جو کہ دل پر خوشی، غم، فراخی اور تنگی کی صورت میں کبھی کبھی طاری ہوتی ہے، اس کو حال اس لئے کہتے ہیں کہ یہ بدلتا رہتا ہے اور اہل ریاضت کہتے ہیں کہ اُس پر ایمان، توبہ، زہد اور دوامِ عبودیت کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور پھر تمام احوال و مقامات حاصل کرتا ہے، اور یہ تھوڑا کھانا، تھوڑا کلام کرنا، تھوڑی نیند کرنا اور لوگوں سے جُدا رہنا ہے۔
اب یہ بات جان لو کہ سلوک میں ایک کو صاحبِ وقت کہتے ہیں، دوسرے کو صاحبِ احوال اور تیسرے کو صاحب انفاس۔ صاحبِ وقت ابھی مبتدی ہوتا ہے اور صاحب انفاس منتہی ہوتا ہے، صاحب احوال ان دونوں کے درمیان ہوتا ہے۔ احوال کی کوئی حد نہیں اور یہ متناہی نہیں ہوتے کیونکہ احوال مواہب ہیں اور مواہبِ خداوندی کی کوئی انتہا نہیں۔
اے عزیز! احوال مواہب غیبی ہوتے ہیں، اور اُن کے ذوق کا اظہار اور بیان کرنا اور قلم سے تحریر کرنا ناممکن ہے۔ "وَقِیْلَ الْمَقَامَاتُ مِنَ الْمَکَاسِبِ وَالْأَحْوَالُ مِنَ الْمَوَاھِبِ" ”کہتے ہیں کہ مقامات (مثل توبہ، صبر، رضا، شکر، توکّل، زہد اور قناعت) کسبی ہیں اور احوال (مثال کے طور پر خوشی، رنج، شوق و ذوق، فراخی، تنگی، حیا اور ہیبت) عطائے الٰہی ہیں“۔ حال کسب سے حاصل نہیں ہوتا، حال مواہبِ غیبی ہے اور یہ لطفِ الٰہی ہے، جس نے اس کا ذائقہ چکھا تو وہ خوش نصیب رہا، تم اس کا ذوق جب تک کہ اُس کو چکھ نہ لو، حاصل نہیں کر سکتے۔ (ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں)۔
تشریح:
حضرت فرماتے ہیں کہ دل پر جو خوشی، غمی، فراخی، تنگی وغیرہ کی صورتیں آتی ہیں، ان کو احوال کہتے ہیں، اور یہ بدلتے رہتے ہیں۔
متن:
اہل ریاضت کہتے ہیں کہ (جس کو یہ احوال حاصل ہوں) اُس پر ایمان، توبہ، زہد اور دوامِ عبودیت کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور پھر تمام احوال و مقامات حاصل کرتا ہے، اور یہ (مجاہدات و ذرائع) تھوڑا کھانا، تھوڑا کلام کرنا، تھوڑی نیند کرنا اور لوگوں سے جُدا رہنا ہے۔ اب یہ بات جان لو کہ سلوک میں ایک کو صاحبِ وقت کہتے ہیں، دوسرے کو صاحبِ احوال اور تیسرے کو صاحب انفاس۔ صاحبِ وقت ابھی مبتدی ہوتا ہے اور صاحب انفاس منتہی ہوتا ہے، صاحب احوال ان دونوں کے درمیان ہوتا ہے۔ احوال کی کوئی حد نہیں اور یہ متناہی نہیں ہوتے۔
تشریح:
احوال وہبی ہوتے ہیں یعنی اللہ کی طرف سے عطا کئے جاتے ہیں اور اللہ کی عطا کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اور مقامات کسبی ہوتے ہیں، کیونکہ وہ خود کمانے ہوتے ہیں اور جو چیز خود کمائی جاتی ہے، وہ اتنی ہی ہوتی ہے، جتنی ہو سکتی ہے۔
متن:
اور اُن کے ذوق کا اظہار اور بیان کرنا اور قلم سے تحریر کرنا ناممکن ہے۔ "وَقِیْلَ الْمَقَامَاتُ مِنَ الْمَکَاسِبِ وَالْأَحْوَالُ مِنَ الْمَوَاھِبِ"
تشریح:
یعنی مقامات کسبی ہیں اور احوال وہبی ہیں۔ جو مقامات ہیں، مثلاً: توبہ، صبر، رضا، شکر، توکل، زہد اور قناعت یہ سب کسبی ہیں اور جو احوال ہیں، مثلاً: خوشی، رنج، شوق و ذوق، فراخی، تنگی، حیا اور ہیبت، یہ عطاءِ الٰہی ہوتے ہیں۔ حال کسب سے حاصل نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ وہبی انعام ہے اور لطفِ الٰہی ہے۔ جس نے اس کو چکھ لیا، وہ خوش نصیب رہا۔ جب تک تم اس کو چکھ نہیں سکتے، اس وقت تک اس کو حاصل نہیں کر سکتے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ حال انسان خود کما تو نہیں سکتا یعنی اسے حاصل نہیں کر سکتا، لیکن اگر حال آ جائے، اور وہ اس کا حق ادا کرے، تو یہ اس کو آگے لے جائے گا۔ جیسے: غم کی حالت طاری ہو گئی، تو آپ اس کا حق ادا کریں، صبر کریں۔ خوشی کی حالت طاری ہو گئی، تو شکر کریں۔ اسی طرح جو بھی حال آپ کے اوپر طاری ہو جائے، آپ اس کا حق ادا کریں۔ اور اسی کے لئے کسی ماہر کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ ان تمام چیزوں کا حق بتا سکتا ہے۔ ورنہ احوال ملتے رہتے ہیں اور ضائع ہوتے رہتے ہیں۔ جیسے: چقماق سے آپ آگ جلا رہے ہیں، اس سے انگاریاں نکلتی ہیں، لیکن اگر آپ کو اسے آگ میں convert کرنا نہیں آتا، اس کے لئے ضروری چیزیں آپ کے پاس نہیں ہیں یا آپ صحیح طریقہ اختیار نہیں کر رہے، تو وہ ضائع ہوتی رہیں گی۔ اسی طرح احوال آتے رہتے ہیں، کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے انعام ہے۔ مثلاً: کوئی خانہ کعبہ گیا، تو وہاں الحمد للہ بہت ساری چیزیں ملتی ہیں۔ لیکن اس پر انحصار ہے کہ آپ نے کتنی pick کیں اور کتنی آپ نے ضائع کیں۔ اس لئے alert رہیں۔ اسی طرح یہاں روضۂ اقدس پر بہت ساری چیزیں ملتی رہتی ہیں، لیکن کتنی آپ نے pick کر لیں اور کتنی ضائع کر دیں۔ فرماتے ہیں کہ ان دونوں جگہوں پہ ملتا تو سب کو ہے، اور بہت ملتا ہے، لیکن کوئی اس کو اپنی یہاں کی رہائش تک بھی نہیں پہنچا سکتا، ضائع کر دیتا ہے۔ اور کوئی اس کو ایئر پورٹ تک نہیں پہنچا سکتا، اور کوئی اپنے گھر تک نہیں پہنچا سکتا۔ اور کوئی اس کو موت تک نہیں پہنچا سکتا۔ یعنی ضائع ہو جاتی ہیں۔ اس لئے ان چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ احوال کے بارے میں یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ اپنا مصاحبین ان کو بناؤ، جو حال کو جانتے ہوں۔ کیونکہ جب کوئی حال طاری ہو جائے، تو وہ آپ کا ساتھ دے سکیں۔ مثلاً: آپ کے اوپر رقَّت طاری ہے اور وہ آپ کے اوپر ہنس رہے ہیں، تو آپ کے دل کے اوپر چوٹ پڑے گی اور آپ کو نقصان ہو جائے گا۔ کیونکہ آپ اپنے ساتھ ایسے ساتھی کیوں رکھتے ہیں، جو ان چیزوں کا مذاق اڑاتے ہوں اور ان چیزوں کو سمجھتے نہیں۔ کسی ایسے شخص کو دوست رکھو، جو ان چیزوں کو جانتا ہو۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: حال بڑا ہی نازک مہمان ہوتا ہے، کیونکہ اللہ کی طرف سے ہے، اس لئے تھوڑی سی بات پہ روٹھ جاتا ہے، لہٰذا اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بہر حال! صاحبِ مقام صاحبِ حال کو جانتا ہے اور صاحبِ مقام صاحبِ حال کی تربیت کر سکتا ہے۔ لیکن چونکہ احوال ملتے رہتے ہیں، لہٰذا اگر کسی شیخ کامل کے ساتھ تعلق ہے، تو ان احوال کی قدر دانی کی توفیق ہو جاتی ہے اور وہ اس کو اونچے درجہ پہ لے جانے کے لئے ذریعہ بن جاتے ہیں۔ جیسے کہتے ہیں کہ جو لوگ اشراق کی نماز کے لئے بیٹھے ہوتے ہیں، ان کو کوئی خاص روحانی چیز کھلائی جاتی ہے۔ اور جو اس وقت سو رہے ہوتے ہیں، وہ رہ جاتے ہیں۔ گویا ملتا سب کو ہے، نعمت تو آ گئی، لیکن اس نعمت کے لئے آپ تیار بھی ہیں یا نہیں، آپ نے اس کے لئے جگہ بنائی ہے یا نہیں۔ اگر آپ نے جگہ بنائی ہو گی، تو ما شاء اللہ آپ کو حاصل ہو گی۔ بہر حال! اللہ والوں کے ساتھ رابطہ رکھنا، ان کی صحبت میں رہنا، ان سے تربیت حاصل کرنا اور جب کبھی اس قسم کی باتیں ہوں، تو ان سے پوچھ کر راستہ اختیار کرنا، یہ سب ضروری ہوتا ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اس پہ کامیابی کی توفیق عطا فرما دے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ