اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہماری خانقاہ سے حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر مشتمل کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے تعلیم ہوتی ہے۔ اس وقت چونکہ ہم حج کے سفر پر ہیں، اس لئے الحمد للہ مکہ مکرمہ سے یہ پروگرام نشر ہو رہا ہے۔ آج ’’بارہواں مقالہ مجذوب اور سالکِ طریقت کے بارے میں‘‘ اس پر بات کی جائے گی۔ حضرت فرماتے ہیں:
بارھواں مقالہ
مجذوب اور سالک طریقت کے بارے میں
انہی شیخ شرف منیری رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب میں آیا ہے کہ اس راہ پر چلنے والے مسافر دو قسم کے ہیں: ایک مجذوب، دوسرا سالک۔ مجذوب وہ لوگ ہیں کہ ان کو جذبہ کی کمند سے ہاتھ میں لا کر اُس مرتبہ تک پہنچاتے ہیں، اور غلبہ شوق میں تمام مقامات اُس سے عبور کراتے ہیں، لیکن ان کو زیادہ آگاہی نہیں ہوتی کہ راستے کی حالت اور مقامات کی شناخت اور آفاق کا کشف اور جو کچھ راہ میں ہوتے ہیں، اُس سے یہ آگاہ نہیں ہوتے اور نہ خیر و شر اور نفع و نقصان کی ان کو خبر ہوتی ہے، یہ لوگ شیخی اور مسند ارشاد کے لئے موزوں نہیں ہوتے، کیونکہ شیخی اور مسند ارشاد کے لئے وہ شخص موزوں ہوتا ہے کہ اگرچہ اُس کو جذبہ کی کمند میں اسیر کر کے مقام ترقی پر لے جاتے ہیں مگر آہستگی، سکون اور آرام کے ساتھ لے جاتے ہیں، تاکہ ہر مقام میں اس مقام کی پہچان اور اُس مقام کی شناخت کے ساتھ انصاف کر سکے، اور خیر و شر اور صلاح و فساد کی تمام کیفیتیں اور احوال اُس کو دکھائے جاتے ہیں، کبھی راہ پر لے جاتے ہیں، کبھی بے راہ تاکہ راہ اور بے راہی سے واقفیت حاصل کرے اور دوسری جماعت کے لئے راہ کا تعین کر سکے۔ لیکن اس راستے پر چلنے والے لوگوں نے اس راہ کے نشانات یوں بیان کئے ہیں کہ اگر سالکین کو صفاتِ خاکی کے ساتھ گذر کرنا پڑے تو واقعہ میں ایسا دیکھتے ہیں کہ جنگلوں، کوچوں اور کنوؤں، پہاڑوں اور تاریک تاریک جگہوں سے نکل کر اُجاڑ اور ویران مقامات، ویرانوں، پانیوں اور پہاڑوں سے گذرتے ہیں، اور گرانی اور ظلمت و تیرگی سے نجات حاصل کر کے لطافت اور ہلکا پن محسوس کرتے ہیں اور یہ لطافت اور طبیعت کا ہلکا پن اُن میں پیدا ہو جاتا ہے۔ دوسرے مرتبے جب صفتِ آبی یعنی پانی کے ساتھ متعلق صفت میں جب اُن کا گذر ہو جائے تو سبزہ زاروں، مرغزاروں، درختوں، لہلہاتے ہوئے کھیتوں، بہتے ہوئے پانی اور چشموں اور دریاؤں اور اسی طرح کی اشیاء دیکھتے ہیں۔ تیسرے مرتبے میں جب یہ صفتِ بادی سے گزر کرتے ہیں تو ہوا پر چلنا، اُڑنا، بلندیوں پر جانا، وادیوں اور صحراؤں پر اُڑنا، اور اسی طرح کی چیزیں دیکھتے ہیں۔ اور چوتھے مرتبے میں جب آگ کی صفات پر گذر کرتے ہیں تو چراغ، شعلے اور آگ وغیرہ کو دیکھتے ہیں۔ پانچویں مرتبے میں جب افلاک اور اجرامِ آسمانی میں سے گذرنا پڑے تو اپنے آپ کو آسمانوں پر چلتا اور اُڑتا اور ایک آسمان سے دوسرے آسمان کو اُڑتا ہوا اور آسمانوں کی گردش اور فرشتوں کا چلنا پھرنا دیکھتا ہے۔ چھٹے مرتبے میں جب ستاروں کے ملکوت پر گذرنے لگیں تو ستارے، چاند، سورج، انوار اور دیگر اس جنس کی اشیاء دیکھتے ہیں۔ ساتویں مرتبے میں جب صفات حیوانی پر گذرنا پڑے تو جس صفت حیوانی مثلًا درندے، چرندے وغیرہ پر گزر کریں، اُسی قسم کے حیوانات دیکھتے ہیں۔ اور اگر اپنے آپ کو اُس حیوان پر غالب دیکھیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اُس صفت حیوانی سے وہ آگے نکل گئے ہیں۔ اور اگر اپنے آپ کو اُس حیوان کا اسیر محکوم یا کمتر دیکھیں یا اُس حیوان سے ڈر محسوس کریں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اُس قسم کی صفت حیوانی کا ان پر غلبہ اور استیلاء ہے اور اُس صفت کا غلبہ اور وہ صفت ان میں باقی ہے۔ اور اسی طرح کئی ہزار دوسرے عالم ہیں، سالک کو اُن سے گذرنا پڑتا ہے۔ اور ہر عالم میں اُس کی مناسبت سے مشاہدہ ہوتا ہے۔ اور اُس کے حالات اور دقائق اُس پر ظاہر ہوتے ہیں۔
اور اسی کتاب میں مذکور ہے کہ جو کوئی اس راستے کا طالب ہو تو اُس کو چاہئے کہ شریعت کا سرمایہ حاصل کرے تاکہ شریعت سے طریقت کا راستہ حاصل کر سکے۔ اور طریقت سے جب بہرہ ور ہو جائے تو طریقت سے حقیقت کی جانب قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔ اور جس نے ابھی تک شریعت کو نہیں پہچانا ہے تو وہ طریقت سے کیسے ملاقات کر سکتا ہے؟ اور جس نے ابھی طریقت کو نہیں دیکھا تو اُُس بیچارے کا حقیقت سے کیا واسطہ اور کیا کام؟ یہی وجہ ہے کہ کسی کو بھی اجازت نہیں دی گئی کہ کوئی نا سمجھی اور دین و شریعت کے علم و معرفت کے بغیر اس راستے میں قدم رکھے، کہ ہلاک ہونے کا سخت خطرہ ہے اور کسی مقام پر نہیں پہنچ سکتا۔ اور اگر مجاہدہ و ریاضت کورانہ طریقے پر کرے اور اندھوں کی طرح راستے کے نشیب و فراز سے بے خبر رہے اور اُس میں کوئی انوکھی چیز اُس کو ظاہر ہو جائے تو اس سے اُس میں اتنا غرور، جہالت، خود نمائی، خود پسندی اور حماقت پیدا ہوتی ہے کہ اپنے ایمان کو بھی برباد کرتا ہے اور شیطان کا ساتھی بن جاتا ہے۔ یہ بات یقین اور وثوق سے جان لینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ولی جاہل نہیں ہوا ہے، اور نہ ہو گا۔ "مَا اتَّخَذَ اللہُ وَلِیًّا جَاھِلًا" ”اللہ تعالیٰ نے کوئی جاہل ولی نہیں رکھا ہے“۔ یہ تو مشائخ کا فرمودہ ہے، اور قرآن مجید میں اس بات کی طرف اشارہ ہے: ﴿وَلَمْ یَکُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ…﴾ (الإسراء: 111) ”خدا نے کسی جاہل کو اپنی دوستی کے لئے پسند نہیں فرمایا ہے“ جہل تمام ذلتوں کی جڑ اور اصل ہے۔
اور کہتے ہیں کہ سالکانِ حق کے راستے کا دار و مدار بارہ علموں کے جاننے پر ہے: علمِ توحید، علمِ معاملات، علمِ معرفت، علمِ حالت، علمِ مکاشفہ، علمِ مشاہدہ، علمِ خطاب، علمِ سماع، علمِ وجد، علمِ معرفتِ روح، علمِ معرفتِ نفس اور علمِ معرفتِ شیطان۔ ان علوم کے سیکھے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ پس جاننا چاہئے کہ یہ طائفہ اور یہ جماعت صاحبِ شریعت، صاحبِ طریقت اور صاحب حقیقت ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہے، اور آئندہ بھی ہوگی۔ پس اس راستے کے مسافر کو چاہئے کہ اپنے نفس کا مجاہدہ اور ریاضت کی کٹھالی میں ڈال کر فنا کرے اور جو کچھ حق کے علاوہ ہے، اُس کو کبھی یاد نہ کرے بلکہ یاد میں نہ لائے۔ اگر دائیں طرف دیکھتا ہو تو حق کو دیکھے، بائیں جانب دیکھتا ہو تو حق کو دیکھے۔ غرض اٹھتے بیٹھتے اللہ کو دیکھے اور دنیا اور آخر کی حکومت اور جاہ و حشمت اُس کی نظر میں ذرہ کی مقدار میں نہ آئے۔ اُس کا وجود شوق میں پگھلتا رہے اور اُس کا دل حضرت قدس پر ناز کرے اور زن و فرزند کے تفکرات اور دنیا اور آخر کی فکر و غم اُس کے دل کے پاس بھی پھٹکنے نہ پائے۔ اگرچہ اس کا جسم دُنیا میں ہو لیکن اُس کا دل اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہو، وہاں پر حاضر ہو اور اُس منزل پر پہنچ کر دل کی آنکھوں سے اپنے دوست کا نظارۂ جمال کرتا رہے۔ یہ مقام کامل پیر و مرشد کے سائے میں حاصل کیا جا سکتا ہے اور پیرِ کامل کی پناہ میں اس راستے کی آفتوں سے سلامت گزرا جا سکتا ہے کیونکہ تمام طبقوں کے مشائخ بزرگان دین اور علمائے سلف اس بات پر متفق ہیں کہ پیرِ کامل کے بغیر کوئی بھی حق تک نہیں پہنچ سکتا مگر شاید شاذ و نادر کہیں ایسا ہوا ہو۔ بیت
؎ گر تو نشیبی بہ تنہائی بسے
راہ نتوانی بدیدن بے کسی
پیر باید راہ را تنہا مرو
از سر عمیا دریں دریا مرو
’’اگر تو تنہائی میں بہت زیادہ بھی بیٹھے، تو بغیر کسی (کی مدد اور راہنمائی) کے تو راستہ نہ دیکھ سکے گا، اس راستے کے لئے پیر چاہئے تنہا نہ جائیؤ، اور اندھوں کی طرح اس دریا میں مت اُترو‘‘۔
ایک دفعہ خواجہ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوں سے ایک مرید وضو کر کے اپنے خلوت خانے چلا گئے، وہاں اس نے ایک نور دیکھا اور نعرہ لگایا کہ میں نے خدا کو دیکھا۔ شیخ کو یہ بات معلوم ہوئی تو اُس کو کہا کہ اے نا تجربہ کار! یہ تیرے وضو کا نور ہے جو تو نے دیکھا ہے، تو کہاں اور وہ کہاں۔ راہِ سلوک کے بہت سے مسافر اس مقام پر مغرور ہو جاتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ انہوں نے حق کا نور پا لیا، اگر کوئی پیرِ کامل میسر نہ ہو تو اس گرداب سے نکلنا بہت مشکل ہے بلکہ جاہل شخص شیطان کے مکر اور نفس کے فریب کی وجہ سے مغرور ہو جاتا ہے اور قسم قسم کے دعوے کرتا ہے۔ کسی سے دو چار حرف سیکھ لیتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ وہ منزل مقصود اور مقام کمال کو پہنچ گیا۔ اور اپنے آپ کو مملکت خداوندی میں جائز التصرف سمجھ لیتا ہے۔ اور اس وجہ سے اباحت اور زندقہ میں پڑ کر ہلاک ہو جاتا ہے چنانچہ کسی نے اس طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے۔ کہ بیت ؎
؎ پوشیدہ مرقع اندریں خامے چند
بر گفتہ بہ طامات الف لامے چند
نا رفتہ رہ صدق و صفا گامے چند
بد نام کنندۂ نیکو نامے چند
’’ان خام اور نا پختہ اشخاص میں چند مرقع یعنی رنگ رنگ کے صفات ہیں، اور لا یعنی اور بے ہودہ باتیں الف لام سے شروع کر کے کہہ ڈالتے ہیں یہ لوگ صدق و صفا کے راستے پر چند قدم بھی نہیں چلے ہوتے ہیں، (حقیقت میں) یہ چند نیک نام لوگوں کے بد نام کرنے والے ہوتے ہیں‘‘۔
پس جو لوگ اس راستے پر چلنا چاہیں اور یہ کام کرنا چاہیں، اُن کے لئے ضروری ہے کہ پیروں اور مشائخ کے درمیان جو شخص بھی مشہور ہوا اور لوگ اُس کی اقتدا پر اتفاق کر چکے ہوں اور مملکت خداوندی میں جائز التصرف نافذ المشیت اور صاحب کرامت ہو، اُس کی خدمت میں حاضر ہو کر خدمت گزاری کریں۔ مثنوی
پیر بالا بذرہ آمد ترا
در ہمہ کاری بسا آمد ترا
چوں تو ہر گز راہ نشناسی ز چاہ
بے عصا کش کے توانی برد راہ
کوہ ہائے آتشی در راہ بسے است
ایں چنیں نہ ہر کار کسے است
’’تم کو پیر اور شیخ ضرور حاصل کرنا چاہئے، جو کہ تمہارے سب کاموں میں تمہارے کام آئے، جب تم راستہ نہیں جانتے ہو اور راستے اور کنویں میں تمیز نہیں کر سکتے، تو عصا کے بغیر راستہ پر کیسے جاؤ گے، اس راستے میں بہت سارے آگ کے پہاڑ آتے ہیں، اور یہ کام یعنی اس راہ پر چلنا ہر آدمی کا کام نہیں‘‘۔
مرید کے لئے یہ ضروری شرط ہے کہ پیر کامل کی ارادت اُس کے کہنے مرضی اور حکم پر بلا چوں و چراں عمل کرے۔ ارادت کے معنیٰ لغت میں چاہنا، ارادہ کرنا ہیں اور مرید اُس کو کہتے ہیں جس کو چاہت ہو، اور اس راہِ سلوک و طریقت کے لوگوں کے درمیان مرید اُس شخص کو کہتے ہیں جس کی اپنی کوئی خواست (خواہش) چاہت اور مراد نہ ہو۔ مشائخ کہتے ہیں کہ مرید کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے پیر کے تصرف کے تحت ایسا بے حرکت رہے جیسا کہ مردہ تختے پر غاسل (غسل دینے والے) کے تحت پڑا ہو، جس کو وہ جس طرف بھی چاہے اُلٹ دیتا ہے۔ اور مرید کو چاہئے کہ پیر کے حکم کا ایسا مطیع ہو کہ اگر پیر حکم اور اشارہ کرے کہ دُنیاوی مال جان وغیرہ ترک کر دے اور اگر مرنے کا بھی حکم دے تو اُس کی تعمیل کرے اور اُس میں کچھ انکار نہ کرے، اور بغیر کسی تاخیر کے اُس کے حکم کی تعمیل کرے، اور اس کے حکم میں اپنی مرضی اور علم کے مطابق کچھ تصرف اور تغیر و تبدل نہ کرے۔
تشریح:
مجذوب اور سالک کے بارے میں چونکہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی کافی تشریحات موجود ہیں۔ اس میں ہم لوگوں کو ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ ایک ہوتی ہے اختیاری چیز اور دوسری ہوتی ہے غیر اختیاری چیز۔ انسان اختیاری چیزوں کا مکلف ہے، غیر اختیاری چیزوں کا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرہ: 286)
ترجمہ: ’’اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا‘‘۔
لہٰذا جو چیز اختیار میں نہیں ہے، اس کا مطالبہ نہیں ہے۔ چنانچہ جو چیزیں کشف سے تعلق رکھتی ہیں یا خوابوں سے تعلق رکھتی ہیں، وہ چونکہ اختیار میں نہیں ہیں، لہٰذا ان کا مطالبہ بھی نہیں ہے۔ جب یہ بات سمجھ میں آ گئی، تو یہاں پر شریعت، طریقت اور حقیقت کے بارے میں جو بات ہوئی ہے، اب ذرا وہ سمجھ لیں۔ شریعت میں جو اوامر و نواہی ہیں، وہ اختیاری ہیں۔ غیر اختیاری چیز کے بارے میں کوئی حکم نہیں ہے۔ کیونکہ انسان غیر اختیاری کا مکلف ہی نہیں ہے۔ شریعت پر عمل کرنے کے لئے چونکہ دو رکاوٹیں ہوتی ہیں، ان دو رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ اس میں ایک رکاوٹ شیطان کی ہے اور ایک رکاوٹ نفس کی ہے۔ اس لئے طریقت اسے کہتے ہیں کہ شیطان اور نفس کے جو موانع ہیں، ان سے اپنے آپ کو بچا کے انسان شریعت پر چلنے کا ڈھنگ حاصل کر لے اور اس پر اس کو تجربہ حاصل ہو اور بغیر کھٹکے کے شریعت پر عمل کر سکے۔ اب اس میں دو چیزیں آئی ہیں: ایک نفس ہے اور دوسرا شیطان ہے۔ نفس تو ہم خود ہیں، یعنی ہمارا جسم سارا کا سارا نفس ہے۔ اس کی کچھ خواہشات ہیں، نفس ان خواہشات کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ اللہ پاک نے نفس کے اندر یہ خاصیت رکھی ہے کہ جب اس کی بات مانو گے، تو یہ مزید طلب کرے گا۔ اور جب اس کی بات نہیں مانو گے، تو کم پر آمادہ ہو جائے گا۔ یہ نفس کا قانون ہے۔ اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا 0 وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 09-10)
ترجمہ:’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہو گا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
اس سے پتا چلا کہ نفس کی اصلاح کے لئے ہم نفس کی مخالفت کریں گے۔ اور نفس کی مخالفت مجاہدہ ہے۔ مجاہدہ دو قسموں پر ہے: ایک مجاہدہ شرعی ہے اور دوسرا مجاہدہ تربیتی اور علاجی ہے۔ مجاہدہ شرعی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو بھی احکامات ہیں، انہیں چاہے نفس مانے یا نہ مانے، ہم نے ہر حال میں ان پر عمل کرنا ہے۔ جیسے نماز بے شک میرا دل بالکل نہ چاہے، لیکن میں نے نماز پڑھنی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جب میرا جی چاہے گا، تو میں نماز پڑھوں گا۔ بے شک عمر بھر بھی جی نہ چاہے، پھر بھی نماز پڑھنا فرض ہے، پڑھنی پڑے گی۔ نہیں پڑھیں گے، تو اس کی سزا ہو گی۔ گویا نماز کا حکم بھی ایک مجاہدہ کے ذریعے پورا ہو سکتا ہے۔ روزہ بذاتِ خود مجاہدہ ہے، جس میں نفس کی تین بڑی خواہشات کو بند کیا گیا ہے۔ جو لوگ روزے رکھ رہے ہیں، ان کے لئے روزے ابتدا میں مشکل ہوتے ہیں، بعد میں آسان ہو جاتے ہیں اور پھر رکھتے جاتے ہیں۔ اور جو نہیں رکھتے، ان کے لئے بڑے مشکل ہوتے ہیں، وہ نہیں رکھ سکتے۔ اسی طرح زکوٰۃ مال کی محبت کا توڑ ہے۔ اس کے لئے بھی انسان کو مجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور حج تو ہے ہی سارا مجاہدے کا عمل۔ اسی طرح تمام شرعی اعمال کے لئے شرعی مجاہدہ کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر کسی میں یہ ہمت نہ ہو کہ شرعی مجاہدہ مسلسل کر سکے، تو اس کو چاہئے کہ اختیاری اور تربیتی مجاہدہ کر کے اپنے نفس کو رام کرے۔ نفس کو اس مجاہدہ سے گزار کر شرعی مجاہدات کے لئے تیار کیا جائے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام شیخِ کامل کے ذریعے سے ہی ہو سکتا ہے۔ نفس کا علاج چونکہ مجاہدہ میں ہے اور مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، لیکن چونکہ اس کو ہر ایک سمجھ نہیں سکتا، overestimate کر کے غلطی کر سکتا ہے، یعنی زیادہ مجاہدہ کر کے تعطُّل میں چلا جائے یا کم مجاہدہ کر کے فائدہ ہی حاصل نہ ہو۔ اس لئے شیخ اتنا مجاہدہ کراتا ہے، جتنی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں تک شیطان سے بچنے کا تعلق ہے، تو شیطان کے جدال کا میدان دل ہے، وہ دل پر بیٹھا ہوتا ہے اور ادھر سے کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا ذکر کے ذریعے سے دل کو صاف کیا جاتا ہے، ذکر کے ذریعے سے شیطان سے دل کو بچایا جاتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب انسان ذکر کرتا ہے، تو شیطان بھاگ جاتا ہے اور جس وقت ذکر نہیں کرتا، تو وہ دوبارہ آ جاتا ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کے لئے کوئی صفائی کا آلہ ہوتا ہے اور دلوں کی صفائی کا آلہ ذکرُ اللہ ہے۔ پس پتا چلا کہ دل کی صفائی شیطان سے بچنے کے لئے ضروری ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ معلومات سے صحیح فائدہ اٹھانے کے لئے عقلِ فہیم کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لئے عقل پر محنت کرنی ہوتی ہے اور عقل پر محنت کرنے کے لئے فکر کی ضرورت ہے۔ اور ذکر پہلے ہی دل کے لئے موجود ہے۔ اس لئے فکر کرنی چاہئے، جسے ہم مراقبات کے ذریعے سے حاصل کرتے ہیں۔ گویا یہ ساری چیزیں حاصل کرنی ہوتی ہیں، اور ان تمام چیزوں کے حصول کے process کو طریقت کہتے ہیں۔ آگے سلوک اور جذب کی بات ہے۔ جذب کا مطلب ہے محبت کے ذریعے سے دل کے خفیہ گوشوں کو بیدار کرنا۔ نقشبدی سلسلہ میں شوق پیدا کرنے کے لئے جذبِ کسبی استعمال کیا جاتا ہے۔ چشتیہ اور باقی سلسلوں میں سلوک پہلے طے کرا دیا جاتا ہے، اس کے بعد ذکر اللہ کے ذریعے سے اور شیخ کی نظر سے جذب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، جسے جذبِ منتہی کہتے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا گیا کہ جذب میں چونکہ direct والا معاملہ ہے، لہٰذا ان کو راستے کا پورا پتا نہیں ہوتا یا حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں: کیونکہ جذب مقامِ قلب میں پہنچنا ہے اور مقامِ قلب میں نفس اور روح گتھم گتھا ہوتے ہیں، لہٰذا مجاہدہ اور ریاضت کے ذریعے سے نفس کو نیچے کر دیا جاتا ہے اور روح کو اس سے چھڑا دیا جاتا ہے، تو روح مقامِ بالا پہ پہنچ جاتی ہے اور یہ نفس نیچے آ جاتا ہے۔ پھر جو شخص اس مقام پر پہنچ جاتا ہے، تو یہ برزخ بن جاتا ہے۔ پھر یہ روح اور قلب کے ذریعے سے لیتا ہے اور نفس کے ذریعے سے لوگوں کو دیتا ہے۔ جیسے فرمایا کہ باقی ساری چیزیں نظر آ رہی ہوں۔ یعنی نفس کے تمام مکائد کا پتا ہو۔ چنانچہ نفس کے مکائد سے بھی گزروایا جاتا ہے، ان کو پتا چل جاتا ہے۔ میں نے ابتدا میں ایک بات کی تھی کہ کشف چونکہ اختیاری نہیں ہے اس لئے اس کا مطالبہ بھی نہیں ہے۔ ابھی جو کشفی طریقے بتائے گئے ہیں، تو ان حضرات کو کشف حاصل تھا، لہٰذا انہوں نے جو کہا ہے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ لیکن جن کو کشف نہیں حاصل ہوتا، وہ کیا کریں گے۔ ان کے لئے پھر آج کے دور کے مجدد حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے طریقوں کو استعمال کیا جائے۔ کیونکہ حضرت کشفی چیزوں پر کام نہیں کرتے تھے۔ بلکہ procedures کو follow کرتے تھے۔ اور بغیر کشف کے بھی ان مقامات تک رسائی ہو جاتی تھی۔ یہ جو بات کی ہے کہ جو مجذوب ہوتا ہے وہ چونکہ ساری چیزوں کو نہیں دیکھ چکا ہوتا، لہٰذا چاہے وہ خود کتنا ہی بڑا بزرگ ہو، باقی لوگوں کی اصلاح نہیں کر سکتا۔ اور مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ یہ نہ خود پہنچا ہوتا ہے نہ دوسروں کو پہنچا سکتا ہے۔ لہٰذا اپنی تربیت کے لئے ایسے لوگوں کے پاس جانا ہی نہیں چاہئے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں حضرت نے فرمایا ہے کہ چونکہ یہ توجہ کی زیادہ قوت رکھتے ہیں اس لئے بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اسی میں گم ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم کامل ہو گئے اور باقی لوگوں کی تربیت بھی کرنے لگتے ہیں۔ چنانچہ اس سے وہ بے راہ ہو جاتے ہیں۔ اس لئے جذب حاصل ہونے کے بعد یا جذب حاصل ہونے سے پہلے سلوک طے کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ سلوک طے کرنے کا مطلب ہے کہ نفس کی شناخت سلوک کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ نفس کی تربیت سلوک کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ جب تک نفس کی تربیت نہ ہو چکی ہو اس وقت تک دل اندھا ہے کہ دل کو اگر نظر بھی آ رہا ہے تو کچھ فائدہ نہیں ہو گا، وہ کچھ کر نہیں سکتا۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ شیخِ کامل سے اپنا سلوک طے کرایا جائے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دس مقامات بتائے ہیں۔ ان دس مقامات کو باقاعدہ تفصیل کے ساتھ طے کرنا ہوتا ہے۔ بہرحال میں عرض کر رہا تھا کہ کشف و حقائق صوفیاء کے ہاں ایک طریقہ ہے، لیکن کشف غیر اختیاری ہوتا ہے اور غیر اختیاری چیز کا مطالبہ نہیں ہوتا۔ صرف اتنا مطالبہ ہوتا ہے کہ جس کو وہ حاصل ہو اس کو صحیح طریقے سے استعمال کر لے، غلط طریقے کی طرف نہ جائے۔ اگر انسان ان تین آیتوں کو اچھی طرح سمجھ لے تو اس پہ ان کی معرفت کھل جائے گی۔ ایک آیت ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا 0 وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 09-10)
ترجمہ:’’فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔‘‘
گویا بے عملی یعنی نفس کی تربیت نہ کرنا تباہی ہے اور ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهََا﴾ کی رو سے نفس کی تربیت کرنا فرض عین ہو گیا۔ لیکن ﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ میں وہ تمام طریقے جو انسان کے بس میں نہیں ہیں، غیر اختیاری ہیں، آؤٹ ہو گئے۔ لہٰذا اگر وہ تمام طریقے جو انسان کے بس میں نہیں ہیں، اگر انہیں کو اس کی بنیاد بنا لیا جائے تو ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهََا﴾ پورا نہیں ہو سکے گا۔ اور ﴿قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ میں وہ نہیں آئیں گے۔ جب کہ اللہ پاک کا نظام ایسا نہیں ہے۔ اب اس کو کیسے حل کیا جائے؟ در اصل ذرائع متفرق ہیں، ہر ایک شخص کے لئے الگ الگ ذرائع ہیں۔ ایک ہوتا ہے ظاہری علم، وہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ وہ تو سب کو حاصل ہو سکتا ہے۔ ایک ہوتی ہے اس علم کی حقیقت۔ یہ دو طریقوں سے حاصل ہو سکتی ہے، کشف کے ذریعے سے حاصل ہو سکتی ہے اور غور و فکر کے ذریعے سے بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ غور و فکر کے نتیجے میں جب کوئی اللہ پاک سے مدد مانگتا ہے اور صحیح راستہ پہ گامزن ہو تو اللہ جل شانہٗ سینہ کو کھول دیتے ہیں۔ اس کو شرحِ صدر کہتے ہیں۔ یہ طریقہ اتنا پہلے سے چلا آ رہا ہے کہ قرآن پاک میں بھی اس کا ذکر ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے مانگا تھا: ﴿قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ 0 وَیَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْۙ 0 وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْۙ 0 یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ۪﴾ (طٰهٰ: 25-28)
ترجمہ: ’’موسیٰ نے کہا: پروردگار! میری خاطر میرا سینہ کھول دیجئے۔ اور میرے لیے میرا کام آسان بنا دیجیے۔ اور میری زبان میں جو گرہ ہے، اسے دور کر دیجئے، تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں‘‘۔
جب انہوں نے اللہ پاک سے یہ مانگا تو اللہ پاک نے دے دیا۔ اور آپ ﷺ کا تو شق صدر ثابت ہے۔ لہٰذا سینہ کھولنا ثابت ہوا۔ صحابہ کرام کو اگر ہم دیکھیں تو ان کے ہاں کشفیات بہت کم نظر آتی ہیں، وہاں شرحِ صدر زیادہ نظر آتا ہے۔ آخر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب قرآن پاک کو لکھنے پہ تیار نہیں تھے اور سب لوگ ان سے کہہ رہے تھے اور وہ دلائل دے رہے تھے، حتیٰ کہ اللہ پاک نے ان کا سینہ کھول دیا اور اس کے لئے تیار ہو گئے۔ یہ شرح صدر تھا۔ لیکن جب وہ تیار ہو گئے تو جن کی ذمہ داری لگائی وہ بھی صحابہ تھے، وہ تیار نہیں ہو رہے تھے۔ یعنی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ تو پھر وہی دلائل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دینے لگے۔ حتیٰ کہ ان کا سینہ بھی کھل گیا اور انہوں نے بھی حامی بھر لی۔ اس طرح قرآن کی کتابت یعنی اس کی حفاظت کے لئے اللہ پاک نے شرحِ صدر کو استعمال کر دیا۔ گویا شرحِ صدر اتنی عظیم چیز ہے کہ جس پر اتنے بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔ لہٰذا شرحِ صدر جو اتنی عظیم چیز ہے یہ اللہ پاک نے سب کے لئے رکھی ہوئی ہے۔ یہ کسی کے لئے بھی اللہ پاک استعمال فرما سکتے ہیں، چاہے کسی کو کشف ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو۔ بلکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی کو کسی چیز کا شرحِ صدر حاصل ہوتا ہے اور بعض لوگوں کو اس کا کشف حاصل نہیں ہوتا۔ تو جن کو کشف حاصل نہیں ہوتا وہ رلتے رہتے ہیں اور شرح صدر والا stable ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان چیزوں کا دیکھنا اور ان کے دیکھنے سے جو چیز حاصل ہوتی ہے، اس کو حاصل کرنا، یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ آج کل کے دور کے مجدد ہیں، لہٰذا حضرت کے اوپر آج کل کے دور کی باتیں بہت کھلی ہیں۔ اور حضرت نے ان کو ایک مثال کے طور پر اس طرح فرمایا ہے کہ ایک شخص ہے جو کسی غریب کو دیکھتا ہے یا بیمار کو دیکھتا ہے یا مظلوم کو دیکھتا ہے تو اس کا دل ابھر آتا ہے اور آنکھوں سے آنسو آ جاتے ہیں اور اس کی طبیعت پہ بہت بوجھ آتا ہے، اس کے بعد جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے اور کچھ پیسے نکالتا ہے اور ان کو دیتا ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوتا، آنکھوں سے آنسو بھی نہیں آتے اور دل بھی نہیں ابھرتا، چہرہ پہ بھی تاثر نہیں آتا۔ لیکن جیب میں ہاتھ چلا جاتا ہے اور جو پیسے وہ نکال کے دینا چاہتا ہے وہ دے دیتا ہے۔ حضرت نے فرمایا یہ جو دوسرا شخص ہے یہ زیادہ کامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا اخلاق اللہ تعالیٰ کے اخلاق کی طرح ہے۔ ’’تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہِ‘‘ کے زیادہ قریب ہے۔ کیونکہ اللہ جل شانہٗ چونکہ تاثرات سے پاک ہے، براہِ راست اپنے ارادے سے کام کرتے ہیں۔ تو اس شخص کو یہ تمام چیزیں نہیں ہوئیں جن کو ہم تاثرات کہتے ہیں۔ بغیر تاثرات کے اس نے سارا کام کر دیا۔ گویا اس لحاظ سے وہ زیادہ کامل ہے۔ اگر اسی نقطۂ نگاہ کو دیکھا جائے، تو شرحِ صدر اس کے زیادہ قریب ہے کہ بعض لوگوں کو کشف کے ذریعے سے کسی چیز کا علم ہو جائے اور بعض کو شرحِ صدر کے ذریعے سے علم ہو جائے۔ اگر کسی کو شرحِ صدر ہو جائے اور اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ معرفت نصیب فرما دے، تو یہ طریقہ تو قیامت تک چل رہا ہے، اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔ لہٰذا یہاں مجذوب اور سالک کی جو بحث چلی ہے، اس میں جذب دو قسم کا ہوتا ہے: ایک جذبِ منتہی ہے اور دوسرا جذبِ مبتدی ہے۔ باقی سلاسل میں صرف جذبِ منتہی ہے، لیکن نقشبندی سلسلہ میں دونوں جذب ہیں۔ ایک جذبِ مبتدی ہے اور دوسرا جذبِ منتہی ہے۔ جذبِ مبتدی مجبوری ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق نقشبندی سلسلہ عوام کے لئے زیادہ مفید ہے اور چشتیہ سلسلہ خواص کے لئے زیادہ مفید ہے۔ اس کی وجہ حضرت یہ بیان فرماتے ہیں کہ چونکہ عوام کو پہلے کام کرنے کا شوق نہیں ہوتا، تو نقشبندی سلسلہ میں اس شوق کو پیدا کرنے کے لئے اگر ذکر اذکار سے کام لے لیا جائے، مراقبات سے کام لے لیا جائے اور ان میں اتنا جذب پیدا ہو جائے کہ وہ جذب ان کو کام پر آمادہ کر لے۔ تو یہ جذبِ مبتدی کہلائے گا، یہ جذب مکتسب ہو گا یعنی اس کو اختیاری طور پہ حاصل کیا گیا ہو گا۔ اور اس کے ذریعے سے وہ کام کرنے ہیں جو اختیاری ہیں، یعنی اس سے اختیاری امور کے اندر آسانی پیدا ہوتی ہے۔ میں اگر انجینرنگ کی زبان میں کہوں تو یوں کہوں گا: This is lubrication یعنی یہ جذب lubrication ہے۔ کیونکہ lubrication کے بغیر اگر آپ کوئی چیز فٹ کرتے ہیں تو اس میں توڑ پھوڑ کا بڑا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لئے آپ اتنا جذب پیدا کر لیں کہ اس کی فٹنگ آسان ہو جائے۔ بہرحال چونکہ بغیر سلوک کے مقامات حاصل نہیں ہوتے، مقامات سلوک کے ذریعے سے حاصل ہوتے ہیں، لیکن یہ جذب اس کو حاصل کرنا آسان کر دیتا ہے۔ اس لئے جذبِ مبتدی lubrication کے طور پر ہے۔ شوق کو بڑھانے کے لئے اس کو ہم استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کو اگر کسی نے جذبِ منتہی سمجھ لیا تو یہ عدمِ معرفت ہے، اس کا نقصان ہو جائے گا۔ اب اگر کسی کو پتا نہ ہو تو جہالت ہے۔ اور اگر پتا ہو، اس کے باوجود ایسا ہو پھر تو حماقت ہے۔ چنانچہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جہالت کو دور کر دیا، انہوں نے اس کے بارے میں وضاحت کے ساتھ فرما دیا کہ یہ جذب صرف شوق پیدا کرنے کے لئے ہے اور یہ مکتسب ہے، اس کو صرف سلوک طے کرنے کے لئے استعمال کرنا ہے، آگے اس کا کوئی اور کام نہیں ہے۔ جو اصل جذب ہے، جس کو جذبِ منتہی کہتے ہیں، وہ سلوک طے کرنے کے بعد حاصل ہو سکتا ہے۔ جب وہ جب حاصل ہو جاتا ہے تو سبحان اللہ ساری چیزیں ٹھیک ہو جاتی ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جذبِ منتہی کی بہت اچھی مثال دی ہے کہ اگر ایک انسان کوشش کرتا ہے، کام نہیں ہوتا، پھر کوشش کرتا ہے، نہیں ہوتا، بس وہ بار بار کوشش کرتا ہے۔ بس اس میں یہی نہ چھوڑنے والی بات ہے۔ کیونکہ شیطان مسلسل پیچھے لگا ہوتا ہے کہ یہ تجھ سے نہیں ہو گا، یہ تجھ سے نہیں ہو گا، وہ تجھے رکوانا چاہے گا، لیکن جو مصمم ارادہ رکھتا ہو کہ میں عمر بھر کوشش کروں گا، نہ ہو تو نہ ہو، یہ میرا کام نہیں ہے، میں نے تو مسلسل کوشش کرنی ہے۔ جب وہ مسلسل کوشش کرتا ہے، تو فیل ہوتا ہے، پھر کوشش کرتا ہے، فیل ہوتا ہے، پھر کوشش کرتا ہے، تو پھر اللہ جل شانہ کا فضل سامنے آ جاتا ہے۔ اس کی مثال حضرت نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جیسے کوئی شخص بچے کو چلنا سکھانا چاہتا ہے، تو اس کو کہتا ہے کہ آ جاؤ، آ جاؤ، آ جاؤ۔ اس کو ہماری پشتو میں کہتے ہیں: پاپلی، پاپلی، پاپلی۔ بچہ چلنا شروع کرتا ہے، لیکن دو قدم چل کے گر جاتا ہے، پھر اٹھتا ہے، پھر دو قدم چل کے گر جاتا ہے، پھر اٹھتا ہے، پھر دو قدم چل کے گر جاتا ہے، حتیٰ کہ رونا شروع کر دیتا ہے، تو والدہ کو پیار آ جاتا ہے اور فوراً اس کو اٹھا لیتی ہے۔ فرمایا: یہ جو اٹھانا ہے، یہ جذب ہے۔ اللہ جل شانہ پھر اٹھا لیتے ہیں۔ پھر بس ہزاروں، لاکھوں سال کا راستہ اللہ تعالیٰ طے کرا دیتے ہیں۔ یہ پھر اس کا کام ہے، وہ انسان کے بس میں نہیں ہے۔ یہی جذبِ منتہی ہے۔ یہ جذب جب حاصل ہو جائے، تو راستہ بہت آسان ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ جب قبول فرماتے ہیں، تو پھر رد نہیں فرماتے۔ اللہ کا ہاتھ پیچھے نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس تک محنت کرنی ہے، اس تک آپ نے لگنا ہے۔ سیر الی اللہ یہاں تک ہے۔ اگر یہ چیز حاصل ہو جائے اور سیر الی اللہ complete ہو جائے، تو اس کے بعد سیر فی اللہ ہے۔ اس میں پھر limit نہیں ہے۔ اس میں جو کوئی جتنا آگے بڑھنا چاہے، بڑھ سکتا ہے۔ بہر حال! سلوک باقاعدہ ہے اور جذب میں کوئی قاعدہ نہیں ہے۔ جذب اللہ کا فضل ہے۔ فضل کے لئے کسی قاعدہ کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ یہ مصمم ارادہ کئے ہوئے ہے یا نہیں۔ آج کل بالکل الٹ معاملہ ہے۔ آج کل یہ معاملہ ہے کہ ہم bluffing کرتے ہیں۔ bluffing سے مراد یہ ہے کہ ہم دیکھائی اس طرح دیتے ہیں کہ جیسے ہمیں خواہش ہے، لیکن جیسے ہی کوئی مشکل آ جاتی ہے، تو چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ تو ہم سے نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہی تو ٹیسٹ ہوتا ہے۔ یہاں تو فیل نہیں ہونا۔ اسی میں لوگ رہ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ہم سے نہیں ہوتا۔ یہ تو بالکل موسیٰ علیہ السلام کی قوم والی بات ہو گئی کہ ان کو بتا بھی دیا کہ تمہیں فتح حاصل ہو گی، اس شہر کے اندر چلے جاؤ، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اگر ایسی بات ہے، تو پھر آپ اور آپ کا رب جنگ کے لئے چلے جائیں اور ہم تو ادھر ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ بس پھر ان کے اوپر ذلت مسلط کر دی گئی۔ چنانچہ نہ کرنا کہ یہ مجھ سے نہیں ہوتا، یہ جملہ اللہ کو پسند نہیں ہے۔ ہاں! رونا اللہ کو پسند ہے، مانگنا اللہ کو پسند ہے۔ نہیں ہوتا، تو مانگنا شروع کر لو، رونا شروع کر لو، یہی طریقہ ہے۔ لیکن رونے میں بھی کوشش اللہ کی طرف ہونا ضروری ہے۔ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب نے اس چیز کو بہت اچھی طرح سمجھایا ہے۔ فرمایا کہ میں ایک دفعہ گھر میں جا رہا تھا، تو میری نواسی کسی بات پہ اپنے بیٹے کو مار رہی تھی۔ وہ رو بھی رہا تھا، لیکن بھاگ کر والدہ کی طرف ہی جا رہا تھا۔ یعنی والدہ سے بھاگ نہیں رہا تھا، بلکہ والدہ کی طرف ہی بھاگ رہا تھا۔ فرمایا: یہی طریقہ ہونا چاہئے کہ رونا شروع کر لو اور اللہ کی طرف ہی بھاگو۔ ﴿فَفِرُّوْۤا اِلَی اللّٰهِ﴾ (الذّٰرِیٰت: 50)
ترجمہ: ’’لہٰذا دوڑو اللہ کی طرف‘‘۔
لہٰذا اللہ کی طرف ہی بھاگنا چاہئے، اللہ سے بھاگنا نہیں چاہئے۔ جو لوگ درمیان میں اپنی خواہشاتِ نفس کے لئے اللہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بس ہم سے نہیں ہوتا، یہ سارا فراڈ ہے، اپنے ساتھ دھوکہ ہے۔ اصل میں جذب اسی barrier کو cross کرنا ہے۔ اس پہ الحمد للہ اکثر جذب حاصل ہو جاتا ہے کہ جب خواہشاتِ نفس کا زور ہو اور کوشش بھر پور ہو اور ناکامی سامنے نظر آ رہی ہو، اس وقت بھی چھوڑے نہیں اور اللہ پاک کی طرف بھاگنے کا سلسلہ جاری رکھے، اپنے شیخ کے ساتھ رابطہ بحال رکھے اور جتنی کوشش وہ کر سکتا ہے، کرتا رہے، اسی میں لگا رہے، تو جذب کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد آ جاتی ہے، او وہ چیز ہو جاتی ہے۔ لہٰذا سلوک باقاعدہ ہے، اس میں باقاعدگی کے ساتھ سارا کچھ کرنا ہوتا ہے۔ اس میں عیوب کو دور کرنے ہوتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ طریقہ تھا کہ وہ فرماتے تھے کہ مجھے لسٹ بتا دو کہ کیا کیا عیوب ہیں۔ لسٹ لے لیتے تھے اور پھر اپنی بصیرت کی بنیاد پر نشان لگا دیتے کہ پہلے اس کو نکالو، پھر اس کو، پھر اس کو۔ یوں باقاعدگی کے ساتھ کام ہوتا تھا۔ اور یہ ہر ایک کے لئے مختلف بھی ہو سکتا تھا۔ اور مرید کے اوپر یہ لازم ہوتا کہ اطلاع کرے اور ساتھ ساتھ جو بتایا جاتا، اس کے اوپر عمل کرے۔ باقی آسان طریقہ سوچنا شیخ کا کام ہوتا ہے، مرید کا نہیں۔ کیونکہ جس چیز کو مرید آسان سمجھ رہا ہے، ممکن ہے کہ وہ خواہشِ نفس ہو یا وہ آسان ہی نہ ہو۔ کیونکہ دونوں صورتیں ہو سکتی ہیں کہ آسان نہ ہو یا خواہشاتِ نفس کی وجہ سے ہو۔ ان دونوں سے بچنا ہوتا ہے اور شیخ باہر سے دیکھ رہا ہوتا ہے، لہٰذا وہ اس کو بھی دیکھ سکتا ہے کہ خواہشاتِ نفس کی وجہ سے ہے یا علم نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ جیسے ڈاکٹر سے میٹھی دوائی چاہنا، یہ خواہشِ نفس ہے۔ یا انسان ایسی دوائی opt کرے، جو اس کے لئے مناسب ہی نہیں ہے۔ اسی طرح یہاں شیخ کی ہی بات چلے گی۔ اپنے آپ کو مکمل حوالے کرنا ہے۔ جیسے یہاں فرمایا کہ غسَّال کے سامنے جیسے مردہ کی حالت ہوتی ہے، اس طریقے سے شیخ کے حوالہ کرنا اور اپنی ساری باتیں ان کے اوپر چھوڑنا، یہ مرید کی طرف سے کام ہوتا ہے۔ باقی اللہ کا فضل کیسے ہوتا ہے، وہ شیخ کے دل پر مرید کے لئے اللہ تعالیٰ القا فرماتے ہیں کہ اس کے لئے کیا اللہ پاک نے بہتر رکھا ہوا ہے۔ یہ بھی شرحِ صدر ہی کی صورت ہے۔ عین ممکن ہے کہ دو لوگوں کی بالکل حالت ایک ہو، مگر ایک کے لئے ایک علاج ہو اور دوسرے کے لئے دوسرا طریقۂ علاج ہو۔ ڈاکٹری لائن میں بھی ایسا ہوتا ہے، کیونکہ طبیعتوں کا فرق ہوتا ہے۔ جب ایک کی بیماری مختلف طبیعتوں سے آتی ہے، تو اس کا علاج بھی مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً: کھانسی کی مثال لے لیں۔ کھانسی بظاہر تو ایک نظر آئے گی، لیکن وہ مختلف وجوہات سے ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر ہی اس کو جان سکتا ہے کہ کس قسم کی کھانسی ہے اور اس کا علاج کیا ہے۔ اسی طرح مرید کا اپنی تمام چیزیں بتانا، اس کا کام ہے، پھر اللہ تعالیٰ شیخ کا شرحِ صدر فرماتے ہیں اور شیخ کو الحمد للہ اللہ تعالیٰ القا فرماتے ہیں۔ بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خط سے ہی شیخ کو اندازہ دلوا دیتے ہیں کہ اس کی یہ کیفیت ہے۔ یہ بھی ایک ذریعہ ہے۔ بعض دفعہ کوئی خواب شیخ کو آ جاتا ہے، ایسا بھی ممکن ہے۔ اور بعض دفعہ شیخ کے دل پر اس کا خیال گزرتا ہے، اس خیال کے بعد اس کے سامنے جو events آتے ہیں، وہ events اس کی تائید کر رہے ہوتے ہیں۔ اس سے اس کو پتا چل جاتا ہے کہ یہ آدمی اس طرف جا رہا ہے۔ اس لئے سلوک میں Step by step approach ہے۔ لہٰذا جیسے شیخ چاہے اسی طریقے سے کرتے رہیں، مرید کا یہی کام ہے۔ اور جذب کے لئے چونکہ کوئی قاعدہ نہیں ہے، اس میں بس surrender ہی ہے اور surrender پر ہی اللہ تعالیٰ نواز دیتے ہیں، اسی پر ہی سب کچھ مل جاتا ہے۔ لہٰذا جتنی عاجزی ہم اپنے لئے لا سکتے ہیں، لائیں اور surrender اور follow کرنے پر ہی اللہ تعالیٰ جذب کو مرتب فرما دیتے ہیں اور ہمارا مقصد حل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا کشفیات کا جہاں تک تعلق ہے، تو جن کو کشف ہوتا ہے، ان کو اس سے بہت کچھ پتا چل جاتا ہے۔ جیسے لطائف ہیں، لطائف کے بارے میں ہمارے نقشبندی حضرات بڑے particular ہوتے ہیں اور وہ لطائف کے ذریعے سے ما شاء اللہ بہت کچھ حاصل کرتے ہیں۔ جس کو ہم جذبِ مکتسب کہتے ہیں۔ کتابوں میں ان لطائف کے باقاعدہ انوارات لکھے ہیں کہ فلاں لطیفے کے نور کا رنگ کیا ہے اور اس کی ساری چیزیں بتائی جاتی ہیں۔ لیکن جس کو کشف نہیں ہوتا، اس کو نظر تو نہیں آئے گا، تاہم اس کی برکات اس کو بھی حاصل ہوں گی۔ چاہے اس کو وہ رنگ نظر نہیں آئے گا، لیکن لطیفۂ قلب جاری ہو گا، تو اس کے اثرات ہوں گے۔ کراچی کی ایک خاتون نے مجھ سے فون پہ بات کی تھی، اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی، اس کو یہ مسئلہ ہو گیا تھا کہ دنیا سے اس کا دل بالکل اچاٹ ہو گیا تھا، کوئی دنیوی کام کرنے کو جی نہیں کرتا تھا۔ نئی دلہن کے لئے یہ بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ سسرال میں اس کی شامت آ جائے گی۔ مجھ سے انہوں نے رابطہ کیا، تو میں نے ان سے کہا کہ کون سا لطیفہ چل رہا ہے؟ اس نے تین لطائف کا بتایا۔ میں نے پوچھا کہ لطیفۂ قلب ٹھیک چل رہا ہے؟ کہتی ہیں: جی۔ میں نے پوچھا: لطیفۂ روح کیسا چل رہا ہے؟ کہتی ہیں: کمزور ہے۔ میں نے پوچھا: لطیفۂ سر؟ کہتی ہے: بالکل ٹھیک چل رہا ہے۔ میں نے کہا: بس کمزوری روح میں ہے۔ آپ اپنے لطیفۂ روح پہ محنت کر لیں، یہ ٹھیک ہو جائے گا۔ جب لطیفۂ روح پہ محنت کی، تو ما شاء اللہ ٹھیک ہو گئیں۔ چنانچہ لطائف کے اپنے اثرات ہیں۔ لطیفۂ قلب انسان کو دنیا سے بھگاتا ہے۔ لطیفۂ روح اس کو واپس دنیا میں لاتا ہے کام کرنے کے لئے۔ اور لطیفۂ سر اس کو مزے میں لاتا ہے۔ لہٰذا ہر ایک کا اپنا اپنا کام ہے۔ اگر کسی کا اوپر سے کنکشن ملا ہوا ہو اور یہاں سے دل اچاٹ ہو گیا ہو اور واپس لانے والا نظام باقی نہ ہو، تو اس کا نتیجہ یہی ہو گا۔
بہر حال! یہ سب شرحِ صدر کی بات ہے۔ حالانکہ آپ کو پتا ہے کہ مجھے کشف نہیں ہوتا۔ پس اللہ جل شانہ نے جو کام جس کے حوالے کیا ہوتا ہے، اس کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ خود ہی بھیج دیتے ہیں۔ اللہ پاک کے بے انتہا ذرائع ہیں۔ ان ذرائع سے اللہ تعالیٰ مدد فرماتے ہیں۔ لہٰذا کشفیات میں الجھنا نہیں چاہئے۔ جن کو کشف ہوتا ہے، ان کی تربیت بھی اسی لائن میں ہوتی ہے۔ کیوں کہ کشفیات میں شیطان کا دھوکہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس دھوکہ میں انسان کو بعض دفعہ بہت نقصان ہو جاتا ہے۔ شیاطین بعض دفعہ کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں، ذہن میں بیٹھا دیتے ہیں، نظریات خراب کر دیتے ہیں، اعتقادات خراب کر دیتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں شیطان کے لئے ممکن ہیں۔ اور کشف اس کے لئے ایک Open channel ہے، کیوں کہ شیطان دل میں وسوسہ ڈالتا ہے اور کشف کا تعلق بھی دل کے ساتھ ہے۔ لہٰذا وہاں پر بیٹھ جاتا ہے اور وہاں سے operate کرنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن جس کو کشف نہیں ہوتا، کم از کم اس کا یہ چینل تو آف ہے، شیطان ادھر سے تو نہیں آ سکتا، لہٰذا وہ محفوظ ہے۔
چنانچہ کشف کو handle کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اور اگر کسی کو یہ حاصل ہے، تو اس کو handle کرنا پڑے گا۔ پھر اس کو سمجھنا پڑے گا۔ ورنہ پھر کشف کے اوپر یقین نہ کرے، اس کے اوپر عمل نہ کرے۔ اس لئے ان تمام چیزوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ لہٰذا جن کو کشف حاصل نہیں ہوا، وہ تو اس کی طرف سوچیں بھی نہیں، طلب بھی نہ کریں اور جن کو حاصل ہوا، وہ اس کی فکر کریں کہ کہیں غلط استعمال نہ ہو۔ اور اللہ پاک سے ہمیشہ رہنمائی مانگیں، کیونکہ کشفِ صحیح کے لئے بھی شرحِ صدر کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہرحال! ultimate بات کشف تک ہی جاتی ہے۔ اللہ جل شانہ کی مدد کے بغیر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ وہ چیزیں نصیب فرما دے، جو ہمارے لئے مفید ہیں اور ان چیزوں سے ہماری حفاظت فرما دے، جو کسی صورت میں بھی ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ