وجد تواجد قبض اور بسط وغیرہ کے بیان میں

مقالہ 9 ، درس 66

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
مکہ مکرمہ - مکہ مکرمہ مسجد الحرام




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اللہ کا شکر ہے کہ ہم حرمِ مکہ میں موجود ہیں اور الحمد للہ بزرگوں کے مقالات اور ملفوظات سے مستفید ہو رہے ہیں۔

آج کل حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے ہم تعلیم کر رہے ہیں۔ آج مقالۂِ نہم جو وجد، تواجد، قبض اور بسط کے بارے میں ہے، ان شاء اللہ اس پہ بات ہو گی۔ ان حضرات اکابر نے بہت کام کیا ہوا ہے، چنانچہ اب جو چیزیں آ رہی ہیں، انہیں چیزوں کو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی discuss کیا ہے اور ہماری کتاب ’’لطائف کی حقیقت‘‘ جو در حقیقت حضرت کی کتاب کی تشریح ہے، اس میں بھی ان چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن یہ باتیں چونکہ متقدمین کی کتابوں کا نچوڑ ہوا کرتی ہیں؛ اس لئے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ حضرت اس مقالہ میں فرماتے ہیں:

متن:

آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ وجد، تواجد، قبض، بسط، محاضرہ، مکاشفہ، علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کا ذکر مقاماتِ قطبیہ میں ہو چکا ہے، وہاں تلاش کیا جائے۔ سلک سلوک نامی کتاب میں آیا ہے کہ اس علم کی اصطلاحات میں لوائح، لوامع اور طوالع ہیں: "فَاللَّوَائِحُ کَالْبَرْقِ یَظْھَرُ وَ یَسْتُرُ سَرِیْعًا" ”لوائح برق کی طرح ہوتے ہیں، جلدی ظاہر اور جلدی سے چھپ جاتے ہیں“، "وَ اللَّوَامِعُ أَظْہَرُ مِنَ اللَّوَائِحِ وَ لَیْسَ زَوَالُھَا بِتِلْکَ السَّرعَۃِ" ”لوامع لوائح سے زیادہ روشن ہوتے ہیں، اور یہ اتنی جلدی سے زائل نہیں ہوتے جیسے کہ لوائح جلدی زائل ہوتے ہیں“، "وَ الطَّوَالِعُ أَبْقٰی وَقْتًا وَّ أَقْوٰی سُلْطَانًا وَّ أَدْوَمُ مَکْثًا" ”طوالع روشنی ہوتی ہے جو زیادہ عرصہ رہتی ہے، اور اُس کا غلبہ قوی تر ہوتا ہے اور دائمی طور پر ٹھہر جاتی ہے“۔ اور بعض کہتے ہیں: "وَ الطَّوَارِقُ وَ الْبَوَارِقُ وَ الْبَوَادِيْ وَ الطَّوَامِعُ وَ اللَّوَامِعُ وَ اللَّوَائِحُ أَلْفَاظٌ مُّتَقَارِبَۃُ الْمَعْنٰی مِنْ مَّبَادِي الْاَحْوَالِ وَ مُقَدَّمَاتِھَا" ”طوارق، بوارق، بودای، طوامع، لوامع اور لوائح قریب المعنیٰ الفاظ ہیں، جو اپنے احوال کی ابتدا اور مقدمات کے لحاظ سے ہیں“۔

دوسری یہ کہ اس علم کی اصطلاحات میں سے غیبت اور حضور ہے۔

تشریح:

حضرت فرماتے ہیں کہ یہ وجد، تواجد، قبض و بسط، محاضرہ، مکاشفہ، علمُ الیقین، عینُ الیقین اور حقُ الیقین کے بارے میں چونکہ ہماری کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ‘‘ میں یہ باتیں گزری ہیں، اس لئے وہاں سے ان کو تلاش کیا جائے۔ واقعتاً یہ باتیں ہوئی ہیں مختلف طریقے سے۔ یعنی وجد یہ ہوتا ہے کہ جس میں کوئی فوری جذبۂ روحانی انسان کو متحرک کر دیتا ہے اور پھر اس حرکت کو انسان کنٹرول نہیں کر سکتا۔ اگر کنٹرول ہو جائے، تو وہ وجد نہیں ہوتا، پھر وہ قابو ہو جاتا ہے۔ جیسے حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے آتا ہے کہ وہ تشریف فرما تھے اور کسی نے شعر پڑھا، تو سب کو وجد آیا۔ لیکن حضرت کو کچھ بھی نہیں ہوا۔ حضرت سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو کیوں اثر نہیں ہوا؟ فرمایا! میرے جسم کے کسی حصہ کو ہاتھ لگاؤ۔ ہاتھ لگایا، تو وہاں سے خون ابل پڑا۔ فرمایا: سب کچھ ہو، لیکن اندر ہی اندر ہو۔ یعنی باہر نہ آئے۔ یہ کنٹرول کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ یعنی انسان جذبات سے پر ہو، مگر جذبات پر کنٹرول بھی ہو۔ مثلاً: ایک انسان بہت خوش ہو، خوشی میں آدمی کی کبھی چیخ نکل جاتی ہے، کبھی ہذیانی قسم کی حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ جیسے انگریز hurry کہہ دیتے ہیں، اسی طرح پٹھان اپنے طور پہ آوازیں لگاتے ہیں، کچھ لوگ ڈانس کرنا شروع کر دیتے ہیں، کچھ لوگ میوزک بجانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سب خوشی کی تحریک ہونے کے بعد کی ہیجانی کیفیات ہوتی ہیں۔ اور اگر اس طرح کا کوئی روحانی جذبہ آ جائے اور اس سے اس قسم کی کچھ چیزیں وجود میں آ جائیں، تو اس کو وجد کہتے ہیں۔ اور اگر کنٹرول ہو جائے، تو وجد اندر چلا گیا، باہر کچھ نہیں آیا۔ لہٰذا اس کو وجد نہیں کہتے۔ بلکہ اس نے وجد کو قابو کر لیا۔ تو یہ بہت پاورفل لوگ ہوتے ہیں۔ اور تواجد اسے کہتے ہیں کہ کسی کو کوئی جذبہ حاصل نہ ہو، لیکن وہ ایسا ظاہر کرے کہ جیسے مجھے حاصل ہے۔ جیسے رومی رقص ہے۔ کیونکہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی تو وجدی کیفیات تھیں، وجدی کیفیات میں انسان اچھل کود بھی کر سکتا ہے، وہ اچھل کود ان کے کنٹرول میں نہیں ہوتی، وہ وجد ہے۔ لیکن اگر اس کو باقاعدہ اُسی طریقے سے یا اپنی مرضی کے مطابق اُسی کے نام پر کوئی چیز ارادتاً پیدا کی جائے، تو وہ وجد نہیں، تواجد ہوتا ہے۔ یہ چیز جائز نہیں ہوتی۔ اس میں پھر شریعت کی پابندی کا خیال رکھنا پڑے گا کہ وہ شریعت کے مطابق ہے یا نہیں۔ اگر شریعت کے مطابق بھی ہو، لیکن اس کو لوگ اعلیٰ مقام سمجھتے ہوں، جب کہ ایسا کرنے والے کو یہ مقام حاصل نہ ہو، صرف شو کر رہا ہو، تو وہ تصنع میں آئے گا۔ اور اگر شریعت کے مخالف ہو، تو وہ مزید نقصان ہے۔ اس لئے تواجد میں خیر نہیں ہے، اور وجد میں معذوری ہے۔ اور قبض اسے کہتے ہیں کہ جب قلبی احوال بند ہو جاتے ہیں، جیسے مزہ نہیں آ رہا، جیسے مستی نہیں ہے، جیسے انسان کو بہت اعلیٰ مضامین نہیں مل رہے، تو یہ قبض کی کیفیت بن جاتی ہے۔ اور بسط اس کا الٹ ہے کہ جب یہ چیزیں بہت زیادہ آنے لگیں۔ اور یہ دونوں غیر ارادی ہوتے ہیں۔ قبض بھی غیر ارادی ہوتا ہے اور بسط بھی غیر ارادی ہوتا ہے۔ اس قسم کی حالت میں یہ ہوتا ہے کہ دروازہ کبھی کھلا، کبھی بند ہو گیا۔ جب دروازہ بند ہو گیا، تو یہ قبض ہے اور جب دروازہ کھل گیا، تو بسط ہے۔ محاضرہ کا مطلب ہے کہ کسی چیز کو سامنے حاضر کرنا۔ اور مکاشفہ کا مطلب ہے کہ کشف کے ذریعے سے کسی چیز کو حاصل کرنے کی محنت۔ اور علمُ الیقین، عینُ الیقین، حقُ الیقین، ان کی تفصیلات مقاماتِ قطبیہ میں گزر چکی ہیں۔

متن:

سلک سلوک نامی کتاب میں آیا ہے کہ اس علم کی اصطلاحات میں لوائح، لوامع اور طوالع ہیں۔

تشریح:

لوائح کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ برق کی طرح ہوتے ہیں یعنی آ جاتے ہیں اور جلدی گزر جاتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہ فرمایا تھا۔ یعنی یہ دیرپا نہیں ہوتے۔ ان کی مثال ایسے ہے جیسے چمک آ جاتی ہے۔ جیسے بجلی چمکتی ہے، تو چمک آ جاتی ہے اور پھر چلی بھی جاتی ہے۔ اور لوامع ان سے زیادہ دیرپا ہوتے ہیں، زیادہ دیر کے لئے رکتے ہیں۔ اور طوالع باقی رہنے والی روشنی ہے۔ جیسے سورج طلوع ہو جاتا ہے، چاند طلوع ہو جاتا ہے، ستارے طلوع ہو جاتے ہیں، تو کافی دیر تک ان کی روشنی موجود رہتی ہے۔ بہر حال! یہ اصطلاحات ہیں۔

متن:

"وَ اللَّوَامِعُ أَظْہَرُ مِنَ اللَّوَائِحِ وَ لَیْسَ زَوَالُھَا بِتِلْکَ السَّرعَۃِ" ”لوامع لوائح سے زیادہ روشن ہوتے ہیں، اور یہ اتنی جلدی سے زائل نہیں ہوتے جیسے کہ لوائح جلدی زائل ہوتے ہیں“، "وَ الطَّوَالِعُ أَبْقٰی وَقْتًا وَّ أَقْوٰی سُلْطَانًا وَّ أَدْوَمُ مَکْثًا" ”طوالع روشنی ہوتی ہے جو زیادہ عرصہ رہتی ہے، اور اُس کا غلبہ قوی تر ہوتا ہے اور دائمی طور پر ٹھہر جاتی ہے“۔ اور بعض کہتے ہیں: "وَ الطَّوَارِقُ وَ الْبَوَارِقُ وَ الْبَوَادِيْ وَ الطَّوَامِعُ وَ اللَّوَامِعُ وَ اللَّوَائِحُ أَلْفَاظٌ مُّتَقَارِبَۃُ الْمَعْنٰی مِنْ مَّبَادِي الْاَحْوَالِ وَ مُقَدَّمَاتِھَا"

تشریح:

بہر حال! یہ الفاظ و اصطلاحات ہیں۔ یہ چیزیں ضروری اصطلاحات کے عنوان سے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی اس کتاب میں شامل کی گئی ہیں۔

انہوں نے اپنے طریقے سے بیان کیا ہے کہ نا کافی وصال میں اگر لوامع اور لوائح ایک وقت میں ظاہر اور پھر محو ہو جائیں، تو ان کو لوامع اور لوائح کہتے ہیں۔ بعض لوگ فرماتے ہیں کہ یہ جو طوارق، بوارق، بوادی، طوامع، لوامع اور لوائح ہیں، یہ قریب قریب معنی کے الفاظ ہیں اور یہ احوال کے مطابق صادر ہوتے ہیں۔ گویا یہ ہر ایک کے احوال کے لحاظ سے احوال کی کیفیت کو بتا رہے ہوتے ہیں۔

متن:

دوسری یہ کہ اس علم کی اصطلاحات میں سے غیبت اور حضور ہے۔ "فَالْغَیْبَۃُ أَنْ تَغِیْبَ الْقَلْبُ مِنْ أَحْوَالِ الدُّنْیَا" ”غیبت یہ ہے کہ دل دنیا کے احوال سے پھر جائے“

تشریح:

یعنی سرد ہو جائے۔ دنیا کے بارے میں اس کے احوال کا غلبہ نہ رہے۔ مثلاً: میں بہت بڑا بن جاؤں، یہ ہو جاؤں، وہ ہو جاؤں۔ ان چیزوں سے بے نیاز ہو۔

متن:

"وَ الْحُضُوْرُ أَنْ یَّحْضُرَ الْقَلْبُ بِأَحْوَالِ الْعُقْبٰی" ”اور حضور یہ ہے کہ قلب آخرت اور عقبیٰ کے احوال پر حاضر ہو جائے“۔ بعض کہتے ہیں کہ غیبت سکر کے منزلہ پر ہوتی ہے۔

تشریح:

اور یہ زیادہ اقرب ہے، اس کی طرف غالباً شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اشارہ فرمایا ہے کہ غیبت سکر کے منزلہ پر ہوتی ہے۔ یعنی اس میں انسان جوش میں ہوتا ہے، ہوش میں نہیں رہتا۔ اور جوش کی وجہ سے، محبت کے جذبہ کی وجہ سے، ان سے وہ ساری چیزیں چھپ جاتی ہیں، جو باقی لوگوں کو نظر آتی ہیں۔ جیسے کوئی عاشق جو اپنے محبوب کی سوچ میں جا رہا ہے اور اس کا والد سامنے جا رہا ہے، مگر اس کو والد نظر ہی نہیں آئے گا۔ اس کا بیٹا سامنے جا رہا ہو گا، اس کو اپنا بیٹا نظر نہیں آئے گا۔ اب یہ اس کے سامنے ہوتے ہیں، لیکن اس کو نظر نہیں آتے، وہ اپنے دھن میں مست ہوتا ہے۔ جیسے حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں آئے، تو حضرت کے ساتھ ان کے گھر والے بیٹھے ہوئے تھے۔ گھر والی اٹھ کر جانے لگی، تو انہوں نے کہا: ان کو کچھ نظر نہیں آتا، بیٹھی رہو۔ جب ان کو افاقہ ہونے لگا، تو فرمایا کہ اب جاؤ۔ یعنی اس وقت وہ ایسی حالت میں تھے کہ ان کو کوئی اور چیز سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی۔ یہی مطلب ہے اس کا کہ غیبت سکر کے منزلہ پر ہوتی ہے۔

متن:

اور حضور محو کے مشابہ ہوتا ہے۔

تشریح:

حضور میں گویا انسان دوبارہ ہوش میں آ جاتا ہے۔

متن:

اے میرے عزیز! جو کوئی حضور میں دوست ہوتا ہے وہ اپنے حضور سے دور ہوتا ہے۔

تشریح:

در اصل یہاں ترجمہ غلط ہوا ہے۔ اصل میں یوں ہے کہ جو کوئی اپنے کسی دوست کے حضور میں ہوتا ہے، تو جو دوست کے حضور میں ہوتا ہے وہ اپنے حضور سے دور ہوتا ہے۔ یعنی جس کو اللہ یاد ہے، وہ اپنے آپ کو بھول گیا، اپنے تقاضوں کو بھول گیا، اللہ تعالیٰ کے تقاضوں کو، اللہ جل شانہ کے حکم کو سامنے رکھا اور اللہ پاک کی محبت کو غالب رکھا اور اپنی ذات کی محبت کو دور رکھا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا، جب تک میں تمہیں اپنے والدین، اپنی اولاد، بلکہ تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ اور ایک روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: جب تک میں تجھے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں، اس وقت تک تم مؤمن نہیں ہو سکتے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اب تو آپ مجھے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اَلْاٰنَ یَا عُمَرُ‘‘ اے عمر! اب بات بن گئی۔ بہر حال! آپ ﷺ کے ساتھ اتنی محبت ہونی چاہئے۔ اور پھر جن کی وجہ سے یہ محبت ہے یعنی اللہ تعالیٰ، ان کے ساتھ کتنی محبت ہو گی۔

متن:

ہاں جو کوئی اپنے سے غیبت نہ کرے، اپنے دوست کے ساتھ حضور نہیں کر سکتا۔

تشریح:

یعنی جس سے اپنے تقاضے نہیں چھوٹ رہے، اپنی خواہشات اس سے ہٹ نہیں رہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پہ عمل نہیں کر سکتا۔ جیسے جو لوگ فرض روزے بھی نہیں رکھتے، وہ کیوں نہیں رکھتے؟ ظاہر ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات کا سامنا نہیں کر سکتے، نفس کی خواہشات غالب ہیں۔ لہٰذا وہ روزے نہیں رکھتے، چاہے ایئرکنڈیشن میں بیٹھے ہوئے ہوں۔ اور جنہوں نے یہ چیز حاصل کی ہوتی ہے اور وہ اللہ جل شانہ کی بات کو آگے رکھتے ہیں، ان سے بہت سارے حجابات دور ہو جاتے ہیں۔ ایک غیر مسلم شخص تھا، جو کسی ship کا کیپٹن تھا اور بعد میں مسلمان ہوا، اس نے مسلمان ہونے کی وجہ یہ بتائی کہ میں نے دیکھا کہ سامان unload ہو رہا تھا، تو ایک ادھیڑ عمر شخص تھا، اسے پسینے چھوٹ رہے تھے، لیکن مجھے پتا تھا کہ وہ مسلمان ہے اور ان دنوں رمضان تھا، مجھے اس پہ بڑا ترس آیا۔ جب unloading ہو گئی، تو میں نے اس کو اپنے کیبن میں بلایا اور دروازہ بند کر کے فریج سے شربت نکال کے اس کو دیا کہ آپ یہ پی لیں۔ وہ کہنے لگا کہ میرا تو روزہ ہے۔ میں نے اسے کہا کہ وہ تو مجھے پتا ہے، لیکن یہاں کوئی آپ کو نہیں دیکھ رہا۔ تو وہ بجائے خوش ہونے کے ناراض ہو گیا، اور کہتا ہے: ’’أَیْنَ اللہ‘‘ یعنی پھر اللہ کدھر ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ بات مجھے بڑی عجیب لگی کہ کوئی اس کو دیکھ نہیں رہا، لیکن یہ اس بات پر بڑا پکا ہے کہ اللہ تو دیکھ رہا ہے۔ حالانکہ اس کو بھی بڑی خواہش ہو گی، پیاس لگی ہو گی۔ لیکن اس کو پتا تھا کہ اس وقت اللہ کا حکم ہے کہ میں نہ پیوں۔ تو اس نے نہیں پیا۔ چنانچہ آدمی اپنی خواہشات سے اپنے آپ کو نہیں کاٹ سکتا، اللہ کی مرضی پہ نہیں چل سکتا، اسی لئے سلوک طے کرنا شرط ہے۔ کیونکہ سلوک میں یہی کیا جاتا ہے کہ خواہشاتِ نفس کو باقاعدگی کے ساتھ ایک ایک کر کے چُھڑایا جاتا ہے۔ لوگ اندازے لگاتے ہیں کہ اب کچھ نہیں ہو گا، مجھے تو بڑی محبت ہو گئی۔ لیکن جب وقت آ جاتا ہے، تو فیل ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنی خواہشاتِ نفس کا اندازہ ہی صحیح نہیں لگایا ہوتا کہ کتنی پاور فُل ہیں۔ جب عین وقت پہ آتی ہیں، تو فیل ہو جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں اور غلط چیز کی طرف چلے گئے، تو اپنے آپ کو روک ہی نہیں سکتے۔ سب کچھ چل رہا ہوتا ہے، اللہ کا حکم بھی سامنے ہے، لیکن نہیں رک رہے۔ کیونکہ اپنا غلط اندازہ لگایا۔ سمجھتے ہیں کہ میں کامل ہو گیا ہوں، میں کر سکتا ہوں، میں غلط نہیں ہوں گا۔ لیکن عین وقت پر پھسل جاتے ہیں اور بہک جاتے ہیں۔ کیونکہ اپنے اوپر کنٹرول نہیں ہے۔ لہٰذا اپنے آپ کو درست کرنے کے لئے سلوک طے کرنا لازمی ہے، تاکہ ان چیزوں کی جڑ کٹ جائے۔ ورنہ پھر عین وقت پہ انسان مار کھائے گا۔ اور پھر کچھ نہیں ہو سکتا۔

متن:

اور محو و اثبات، فنا و بقا، سکر و محو، جمع و تفرقہ، تکوین و تمکین اور قلبِ سلیم کی بحث مقامات قطبیہ میں گزر گئی۔

تشریح:

فنا و بقا، سکر و صحو کے بارے میں بات ہو چکی ہے۔ اور جمع و تفرقہ کے بارے میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مکتوب شریف گزر چکا ہے۔ اسی طرح تکوین و تمکین اور قلبِ سلیم کی بحثیں بھی گزر گئی ہیں۔

متن:

اور سلک سلوک میں آیا ہے کہ یہ بات جاننا چاہئے کہ سالک جب تک معرفت کی راہ میں تگ و دو کرے تو وہ کمالیت کا اُمیدوار ہے۔

اور علم سلوک کی اصطلاح میں ایک کو سالک کہتے ہیں، دوسرے کو واقف اور تیسرے کو راجع کہتے ہیں۔ سالک وہ ہے جو اس راستے پر ہمیشہ چلتا رہے۔ اور اگر اس راستے پر کچھ ٹھہر کر توقف کرے، اُس کو واقف کہتے ہیں۔ اگر جلدی سے اس حالت کا تدارک نہ کیا جائے اور اُس کو توبہ کی توفیق نہ ملے تو خطرہ ہے کہ وہ راجع ہو جائے۔

تشریح:

یعنی سالک تو ہمیشہ اس راہ پہ چلے گا، جس راہ پہ چلنے کا حکم ہے۔ ﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾ (الفاتحہ: 5)

ترجمہ: ’’ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما‘‘۔

اور جو صراطِ مستقیم پہ چل رہا ہے، وہ سالک ہے۔ اور جو کسی وجہ سے ٹھہر گیا، کوئی نظارہ یا کوئی اور چیز اس کے لئے رکاوٹ بن گئی، تو یہ واقف ہے۔ اور جو اس میں پڑ گیا، وہ راجع ہے۔ مثلاً: ایک شخص اپنی ڈیوٹی پر جا رہا ہے، گھر جا رہا ہے، راستے میں کوئی ڈگڈگی والا تماشا دکھا رہا ہے، اس نے اس کو دیکھا کہ یہ کیا ہے، تو یہ واقف ہے۔ اور اگر باقاعدہ تماشا دیکھنے لگا، تو یہ راجع ہے۔ کیونکہ اس نے راستہ طے کرنا بند کر دیا۔ گویا ایک سالک وہ ہے، جو چلتا ہے۔ دوسرا وہ ہے، جو واقف ہے یعنی ٹھہر گیا ہے۔ اور تیسرا وہ ہے کہ جسے اگر توبہ کی توفیق نہیں ہوئی، تو وہ راجع ہو جائے گا۔ یہ جو عملیات والے لوگ ہیں، وہ بھی راجعیت والے ہیں۔ کیونکہ وہ جو علمیات کرتے ہیں، ان کو اپنی عملیات کو active رکھنے کے لئے معمولات کرنے ہوتے ہیں اور دو دو، تین تین، چار چار گھنٹے کرنے ہوتے ہیں۔ اکثر جو لوگ عملیات کا شوق رکھتے ہیں، ابتدا میں تو ان کو شوق ہوتا ہے کہ یوں کر لیں گے، تو یہ ہو جائے گا۔ لیکن بعد میں یہ چیزیں ان کے گلے پڑ جاتی ہیں۔ کیونکہ روزانہ تین تین گھنٹے کون کر سکتا ہے۔ ہم آدھے گھنٹے کا وظیفہ دیتے ہیں، لوگ وہ نہیں کر سکتے۔ جب کہ ان کو تین تین گھنٹے لازماً کرنے ہوتے ہیں، چاہے مر رہے ہوں، پھر بھی کرنے ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں بہت مشکل ہوتی ہے۔ مجھ سے کسی مولوی صاحب نے فون پر پوچھا کہ کسی نے مجھے فلاں عمل بتایا ہے، کیا میں کر لوں؟ گویا مجھ سے اجازت لینا چاہتے تھے۔ میں نے کہا: میں اور تو کچھ نہیں کہتا، لیکن میں نے آپ جیسے لوگوں سے یعنی عملیات کرنے والوں سے سنا ہے کہ عملیات میں شامل ہونے کے ہزار راستے ہیں، مگر ان سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس لئے جو اس جال میں پھنس گیا، تو پھر پھنسا رہے گا۔ پھر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا، رہ جاتا ہے۔ پھر یہی ہوتا ہے کہ اگر وہ عملیات چھوڑ دے، تو جنات شروع ہو جاتے ہیں، کیوں کہ اگر کسی نے جنات مارے ہوں یا کچھ چیزوں کو روکا ہو، تو وہ بدلہ تو لیں گے۔ اور بدلہ اس وقت تک نہیں لے سکتے، جب تک آپ اپنے معمولات کی وجہ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اگر آپ نے یہ کام چھوڑ دیا، تو وہ تو ادھر ادھر پھر رہے ہیں، وہ حملہ کریں گے۔ لہٰذا پھر مسائل ہوں گے۔ اس لئے عملیات کرنے والے ڈرتے ہیں، وہ چھوڑ ہی نہیں سکتے۔ تین تین گھنٹے معمولات کرنے پڑتے ہیں، یہ کتنی خطرناک بات ہے۔ مشکلات ہوتی ہیں۔ ایک آدمی کو بخار ہے، لیکن وہ معمولات کر رہا ہے۔ انٹرویو کے لئے جانا ہے، تیاری کرنی ہے، لیکن معمولات کرنے ہیں۔ حج پہ آیا ہوا ہے، لیکن معمولات کرنے ہیں۔ تو ان کے ساتھ یہ مسائل ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے میں نے کہا کہ میں نے یہ سنا ہے، اب آپ کی مرضی ہے۔ مگر میں عامل نہیں ہوں کہ میں آپ کو اس کی اجازت دوں۔ اصل میں یہ آج کل لوگوں کا شوق ہے۔ الحمد للہ! اللہ کا بہت شکر ہے، اللہ تعالیٰ نے بہت کرم فرمایا اور مجھے ان چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے ہٹائے رکھا ہے۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مواعظ میں فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ اپنے استاد حضرت مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت! کیا تسخیر کا عمل ہوتا ہے؟ تسخیر کا عمل اس طرح ہوتا ہے کہ جس کے بارے میں آپ یہ عمل کر لیں، تو وہ آپ کا مسخر ہو جائے گا۔ وہ آپ کی بات مانے گا، آگے پیچھے نہیں ہو سکے گا۔ بہر حال! جب میں نے پوچھا، تو حضرت نے فرمایا: ہاں! ہوتا ہے، میں جانتا ہوں اور تمہیں سکھا بھی سکتا ہوں، لیکن مجھے صرف ایک بات بتاؤ کہ تو خدائی کے لئے آیا ہے یا بندگی کے لئے آیا ہے؟ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اس سے ایسی نفرت ہو گئی کہ اس کی جڑ ہی کٹ گئی۔ واقعتاً یہ جو افسری کا نشہ ہوتا ہے کہ انسان چند لوگوں پہ افسر ہو جائے، تو یہ بھی ایک نشہ ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کے اوپر ایک جزوی کنٹرول ہوتا ہے، صرف دفتر کے دوران۔ اور اس کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اس طرح نہیں ہوتا کہ آپ ان کے ساتھ سب کچھ کر سکیں، لیکن اس کا بھی بڑا نشہ ہوتا ہے۔ چنانچہ جب آپ کو جنات پر کنڑول حاصل ہو جائے کہ گرفتار کرنا، سزا دینا اور مارنا اور اس قسم کی چیزوں کا آپ کو اختیار مل جائے، تو اس کا نشہ کتنا ہو گا۔ اور پھر ایسے لوگوں کا Discussion mood ہی یہی ہوتا ہے کہ جب اس طرح کے دو آدمی آپس میں ملتے ہیں، تو ان کی یہی باتیں ہوتی ہیں کہ میں نے فلاں کو گرا دیا، فلاں کو یہ کر دیا۔ بس یہی ساری باتیں ہوتی ہیں۔ میں نے سنی ہیں یہ باتیں۔ اس پر وہ فخر کرتے ہیں، حالانکہ فخر و مباہات کوئی اچھی بات تو نہیں ہے۔ میرے پاس ایک عامل آیا تھا کچھ سیکھنے کے لئے، میرے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا شاگرد ہمارا مرید تھا، وہ بھی بیٹھا تھا۔ جب وہ یہاں بیٹھا ہوا تھا، تو مجھے یہی قصے بتاتا رہا کہ میں نے اس کے ساتھ یہ کر دیا، فلاں کے ساتھ یہ کر دیا۔ میں تو ان چیزوں سے بہت بور ہوتا ہوں، مجھے تو اس سے خوشی نہیں ہوتی کہ مجھے لوگ یہ چیزیں بتائیں، لیکن میں ہوں، ہاں کرتا رہا۔ ان دنوں کچھ لوگ آئے تھے، جو اس وقت بیعت ہوئے تھے یا پہلے سے بیعت تھے، ان کو میں وظائف دے رہا تھا۔ میں نے کسی کو تیسرا کلمہ تین سو دفعہ اور سو دفعہ اس کا پہلا حصہ بتایا، تو وہ کہتا ہے: ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃّ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘۔ صابر صاحب نے کہا کہ اگر یہ کرنے میں کامیاب ہو گیا، تو یہ بہت کچھ ہے۔ بہر حال! جب وہ عامل چلا گیا، تو اس کا شاگرد جو میرا مرید تھا، اس نے مجھے کہا کہ آپ کو پتا ہے کہ وہ کیا کر رہا تھا؟ کہا کہ وہ آپ کے مؤکلوں سے اپنے مؤکلوں کو لڑا رہا تھا۔ میں نے کہا کہ میرے تو مؤکل ہیں ہی نہیں۔ میں کوئی عامل تو نہیں ہوں کہ میرے مؤکل ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ آپ کو پتا نہیں ہے، لیکن ہیں۔ میں نے کہا: چلو ہوں گے۔ اگر مجھے پتا نہیں ہے، تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ بہر حال! میں نے کہا کہ کیوں لڑا رہا تھا؟ اگر میرے مؤکل ہیں، تو میرے مؤکلوں نے ان کے ساتھ کیا زیادتی کی تھی کہ اپنے مؤکلوں کو ان کے ساتھ لڑا رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ بس یہ ان کو خارش ہوتی ہے، اپنی طاقت کے اظہار کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ کسی کے پاس کوئی طاقت ہو، تو اسے شو کرنا ہوتا ہے یا کسی کو ٹیسٹ کرنا ہوتا ہے کہ پتا نہیں یہ چیز ہے یا نہیں۔ واقعتاً یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ عملیات میں اپنے آپ کو سلوک پہ قائم رکھنا بڑا مشکل ہے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک اچھی بھلی گاڑی سے اتر کے آپ ایسی گاڑی میں بیٹھ جائیں کہ اس کا سٹیرنگ اس طرف گھومائیں، تو وہ دوسری طرف چلنا شروع ہو جائے، آپ اُس طرف گھومائیں، تو وہ دوسری طرف چلنا شروع ہو جائے۔ اس میں کچھ uncertainity ہو۔ کبھی کچھ کرے، کبھی کچھ۔ کبھی خراب کلچ پہ پیر رکھیں، تو کام خراب ہو جائے۔ کبھی گیر خراب، تو کبھی کیا۔ سلوک کے بارے میں عاملوں کی حالت کچھ اسی قسم ہوتی ہے کہ بیچارے نہیں سمجھ پاتے۔ ان کو ہم کچھ کہتے ہیں، تو وہ مطلب کچھ لیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا اپنی عملیات کا experience ہوتا ہے اور اسی میں پڑے ہوتے ہیں۔ مجھ سے جب کوئی عامل بیعت ہو جائے، تو میں اس کو جب وظیفہ بتاتا ہوں، تو اکثر مجھے کہتے ہیں کہ کیا وقت کی پابندی ہے؟ میں ان سے کہتا ہوں کہ ہاں، جگہ کی بھی پابندی ہے، تو وہ حیران ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود جگہ کی پابندی بھی کرتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے، تو رومال اپنے ساتھ رکھتے ہیں، اس کے اوپر وظیفہ کرتے ہیں، یا چادر بچھا کر کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ کھانے کی پابندیاں ہوتی ہیں، کچھ اندر کی پابندیاں ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ پابندیاں نہیں ہیں۔ تو وہ بڑے حیران ہو جاتے ہیں۔ بہر حال! یہاں یہ باتیں اس لئے آئی ہیں کہ سلوک میں بعض لوگ چلتے ہیں، بعض لوگ رک جاتے ہیں، بعض لوگوں کو رجعت ہو جاتی ہے یعنی واپس ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس چیز سے ہمیں بچائے۔ کل بھی مجھے ایک صاحب کا واٹس ایپ آیا ہے کہ تین سال سے میں رکا ہوا ہوں اور وظائف وغیرہ میں نہیں کر سکا، اب میں دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اخیر میں پوچھا: آپ کا وظیفہ کیا تھا؟ اس نے کہا: اتنا مجھے پتا ہے کہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ تھا۔ اس کے بعد اخیر میں دل پہ اللہ اللہ کرنا تھا۔ اور کچھ یاد نہیں ہے۔ میں سمجھ گیا کہ 200، 400، 600 کو تو cross کر گیا تھا، کیونکہ یہ تبھی میں دیتا ہوں۔ میں نے پھر اس کو 100 100 دفعہ کا ابتدا والا ذکر بتا دیا کہ یہ کر لو۔ گویا کتنا وقت ضائع کر دیا۔ 200، 400، 600 کو cross کر چکا تھا اور لطائف پہ بھی کام شروع ہو چکا تھا، مگر اسے دوبارہ سب کچھ سارا کرنا پڑا۔ یہی رجعت ہے کہ دوبارہ گزشتہ حالت پر آجانا۔

متن:

یہ بات جاننی چاہئے کہ دین کے مرد اور یقین کے جوان مرد کہتے ہیں کہ جس آنکھ کو رونے کی لذت ملی، وہ کبھی بھی ہنسی کی طرف مائل نہ ہو گی۔ "اَلْبُکَاءُ جِلَاءُ مِرْاٰۃِ الْجَنَانِ مِنْ صَدَءِ الْآخِرَۃِ" ’’گریہ و بکا دل کے آئینے کو آخرت کی گرد سے صاف و شفاف بناتا ہے“۔ جس نے اندوہ و فکر اور غم کا ذوق دیکھ لیا، وہ کبھی بھی خوشی، شادی کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھے گا۔

تشریح:

چلو، یہ باتیں تو سمجھ میں نہیں آئیں گی، لیکن یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ انسان جب روتا ہے، تو دل کی روحانی کیفیت درست ہوتی ہے۔ یعنی انسان کے دل کے اوپر برسوں کی جو گرد و غبار پڑی ہوتی ہے اور باطنی کیفیت بہت خراب محسوس کرتا ہے۔ اور جب وہ کسی اللہ والے کے پاس بیٹھ جاتا ہے، تو اسے رونا آ جاتا ہے، دعا کے ساتھ رونا آ جاتا ہے، نماز میں رونا آ جاتا ہے، خانہ کعبہ کو دیکھ کر رونا آ جاتا ہے، تو پھر وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ حالانکہ رونا خوشی سے عبارت نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رونا غم سے ہوتا ہے اور اس کا تعلق اس عالم کے ساتھ ہو جاتا ہے، تو وہ یہاں کے معاملات سے نکل جاتا ہے۔ جیسے اس کو بقا کے ساتھ تعلق ہونا شروع ہو جائے، تو اتنی ہی وہ فنا کی وسعت پاتا ہے، اور اس کو اچھی حالت محسوس ہوتی ہے۔ یہاں حضرت نے یہی بات بتائی ہے۔ اس لئے میں نے کہا کہ یہ بات تو سمجھ میں نہیں آئی گی کہ جس نے غم کو پا لیا، وہ خوشی کی طرف نہیں دیکھے گا۔

متن:

"إِنَّ اللہَ یُحِبُّ کُلَّ قَلْبٍ حَزِیْنٍ" ”خداوند تعالیٰ ہر حزین اور غمزدہ دل سے محبت کرتا ہے۔ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے تاج و تخت کو فقیری کی گدڑی سے تبدیل کیا، جو کوئی اُن کو دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اُن کو ہر لحظہ نئی مصیبت پہنچی ہے۔ اے میرے عزیز! حق کی راہ بھی عجیب راہ ہے، جس میں حاضر اور نقد محنت اور قرض دینا راحت ہوتی ہے۔

تشریح:

یعنی عقبیٰ کے لئے اس دنیا کی چیزوں کو چھوڑنے کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ جائز چیزوں کو چھوڑا جائے۔ اصل میں اس میں لوگ confuse ہو جاتے ہیں، اسی لئے پریشان ہو جاتے ہیں اور صوفیوں کو بھی غلط باتیں کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چوبیس گھنٹے ہمارے اوپر خواہشاتِ نفس کی دعوت کا ایک میدان جاری ہے۔ ہمارے دل اور روح کو ہمارا نفس اپنی طرف کھینچ رہا ہوتا ہے، کبھی بڑا بننے کے لئے کھینچ رہا ہوتا ہے، کبھی لذتوں کے لئے کھینچ رہا ہوتا ہے، کبھی آنکھ کی وجہ سے کھینچ رہا ہوتا ہے، کبھی کان کی وجہ سے کھینچ رہا ہوتا ہے، کبھی زبان کی وجہ سے کھینچ رہا ہوتا ہے، کبھی lungs کی وجہ سے کھینچ رہا ہوتا ہے۔ گویا ہماری روح اور نفس مسلسل چوبیس گھنٹے ان خواہشات کا شکار ہوتے ہیں۔ اب اس شکار کو روکنے کے لئے کیا کرنا ہو گا؟ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اتنا کرو، اتنا نہ کرو؟ بلکہ اس وقت یہ بات سمجھ ہی نہیں آئے گی۔ حدود کی بات تو بعد میں ہو گی، پہلے اس سے چھڑانا تو شروع کرو۔ اس کے مقابلہ میں جب آپ بھر پور دعوت دیں گے کہ سب کو چھوڑنا ہے، (یہ اللہ تعالیٰ آج بڑا علم نصیب فرما رہے ہیں) تو جب آپ سب کچھ چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائیں گے، تو پھر اللہ تعالیٰ آپ کو کہیں گے کہ نہیں! یہ کر سکتے ہو۔ آپ سب کچھ چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، تو اللہ جل شانہ آپ کو شریعت کی جائز چیزوں پر لے آئے گا۔ لیکن جب تک آپ سب کچھ نہیں چھوڑیں گے، تو جائز پر آپ آ ہی نہیں سکتے۔ آپ جائز کی دعوت دو گے، تو اوپر اوپر ہی بات رہ جائے گی۔ جس کی مثال میں اکثر یہ دیا کرتا ہوں کہ جیسے کسی کاغذ کو موڑ دیا، تو اگر اس کو کھولو گے، تو وہ پوری طرح سیدھا نہیں ہو گا۔ سیدھا کرنے کے لئے اس کو Opposite direction میں موڑنا ہو گا۔ پھر جب کھولو گے، تو سیدھا ہو جائے گا۔ یہ جو دعوت اختیاری مجاہدے کی دعوت ہے، یہ اصل میں شرعی مجاہدے کے لئے تیار کرنا ہے۔ اختیاری مجاہدہ سے لوگ بدک جاتے ہیں کہ یہ کیا ہے، یہ تو شریعت میں نہیں ہے۔ بھائی! شریعت پر آؤ، تو سہی، کسی اور طریقے سے اگر آ سکتے ہو، تو آ جاؤ۔ ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔ چونکہ یہ چیزیں تجرباتی ہیں، اس لئے تجربہ یہ بتاتا ہے کہ آپ صرف شریعت پر آنے کی جو محنت کرتے ہیں، وہ راستے میں ٹھہر جاتی ہیں۔ وہ صرف انسان کا ایک دعویٰ ہی ہوتا ہے۔ جیسے میں نے بتایا کہ آدمی کہتا ہے کہ بس میں تو کامل ہو گیا، مجھے کچھ نہیں ہو گا۔ لیکن جس وقت صورتحال سامنے آ جائے، تو سارا کچھ ہو جاتا ہے۔ پھر آدمی کہتا ہے کہ یہ کیا ہوا۔ اسی طرح انسان شرعی مجاہدہ کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے، تو اختیاری مجاہدہ اس کو شرعی مجاہدہ پہ لے آتا ہے۔ کیونکہ وہ چوبیس گھنٹہ کی دعوت پھر بھی موجود رہے گی، وہ ختم تو نہیں ہو گی۔ آپ اسی کی بات سنیں گے۔ آپ انہی لوگوں کے درمیان رہیں گے، آپ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے درمیان رہیں گے۔ وہ سب وہی باتیں کریں گے، تو وہ ساری دعوتیں ہی ہیں۔ کوئی کیا کہے گا، کوئی کیا کہے گا۔ جیسے ایک مولوی صاحب ذرا اچھی فیملی کے تھے، اس فیملی کے سارے لوگ Well to do تھے، کوئی جنرل ہے، کوئی سپیشلسٹ ڈاکٹر ہے، کوئی انجینئر ہے، کوئی پروفیسر ہے، کوئی scientist ہے۔ کوئی کیا ہے، کوئی کیا ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے لحاظ سے بہت اچھی پوزیشن پر تھا۔ کسی فیملی فنگشن میں سب اکٹھے ہو گئے۔ سب نے مل کے اس کو لتاڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اشاروں اشاروں میں کہا کہ اس کو خراب کرنا ہے۔ چنانچہ جنرل صاحب سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ کی کیا priviliges ہیں؟ اس نے اپنی priviliges بتائیں کہ یہ یہ ہیں، اتنی تنخواہ ہے، butman ہے، گاڑی ہے اور فلاں فلاں ہے، اتنی پینشن ہو گی، پلاٹ ملے گا۔ اس مولوی کو جلانے کے لئے یہ سارا کچھ بتا دیا۔ انجینئر صاحب سے لوگوں نے پوچھا، تو انجینئر نے بھی سارا کچھ بتا دیا کہ یہ ہے اور وہ ہے۔ ڈاکٹر نے بھی بتا دیا۔ پروفیسر صاحب اور scientist اور سب نے اپنا اپنا بتا دیا۔ مقصود یہ تھا کہ اس کو جلایا جائے کہ تیرے پاس کیا ہے۔ اور یہ صحیح بات ہے کہ کوئی comparison نہیں ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ آج کل minimum تنخواہ سرکاری قانون کے مطابق چودہ ہزار ہے۔ اور مولویوں کی تنخواہ اتنی ہوتی ہے کہ اس minimum کو بھی touch نہیں کرتی۔ یہ بالکل fact ہے، اس میں کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔ بہر حال! مولوی صاحب سے کہا کہ حضرت! آپ کی کیا priviliges ہیں؟ انہوں نے ذرا مریل سی آواز میں کہا کہ میری تنخواہ ابھی شروع نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا: آپ کو کیوں تنخواہ نہیں دے رہے؟ کہتے ہیں کہ ابھی گزارہ الاؤنس مل رہا ہے، تنخواہ موت کے بعد ملے گی۔ بس ان کی سو باتوں کا جواب ہو گیا۔ وہ چونکہ دنیا کے لئے یہ باتیں کر رہے تھے، اس لئے دنیا کے ریفرنس سے ان کو جواب نہیں دیا، بلکہ آخرت کے مطابق جواب دیا۔ پس اگر کوئی اس قسم کا فیصلہ کر لے،، تو اس کو کوئی نہیں چھیڑ سکتا۔ لیکن اگر دنیا کے مطابق فیصلہ کیا ہے،، تو بہت جلدی چھت گر جائے گی۔ لوگ اس کی چھت گرا دیں گے۔ کیونکہ وہ اس طرح کرنے کے capable ہوں گے۔ کیونکہ دنیوی لحاظ سے وہ کہیں پر بھی exist نہیں کرتا۔ ہاں اگر آخرت کے لحاظ سے دیکھیں،، تو سبحان اللہ! ایسے بھی لوگ ہیں، جن کو اللہ جل شانہ چیونٹیوں کی طرح کھلاتا ہے، ان کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ آج کھاناا ملے گا یا نہیں۔ لیکن پھر بھی سب سے اچھا کھاتے ہیں۔ جیسے شبلی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ کے متعلق بتایا کہ وہ فاقہ کش تھے، لیکن ان کے دستر خوان پر پندرہ پندرہ سو لوگ روزانہ کھاتے تھے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بھی تین تین چار چار سو مہمان آتے تھے۔ حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں چائے کی چینک اترتی نہیں تھی۔ ان کے ہاں یہ سب کچھ چل رہا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ان کا نظام چلا لیتے ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس حاضر سرمایہ کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن جس کے پاس سب کچھ ہے،، وہ سب ان کے پاس ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ لوگوں میں بیٹھے ہوئے ہیں، جس بنیے سے سودا لاتے تھے، اس کو لوگوں نے اکسایا ہوا تھا کہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے، کنگلے ہیں، خزانہ میں کچھ نہیں ہے، تمہارا سرمایہ ڈوب جائے گا، تم ان کے پاس جا کر ان سے پیسے لے لو۔ لوگ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں، وہ آ گیا اور کہا کہ مجھے آج ہی پیسے دے دیں، ورنہ میں سودا بند کرنے والا ہوں، کیونکہ کھاتے کے پیسے بہت ہو گئے ہیں۔ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: کل اس وقت آ جانا۔ جب وہ چلا گیا، تو خزانچی گھبرایا ہوا آ گیا کہ حضرت! آپ نے کیسے اس کو کہہ دیا کہ کل آ جانا، ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ فرمایا: تیرا کام نہیں ہے، تو چھوڑ۔ وہ چلا گیا کہ حضرت کو کچھ پتا ہو گا۔ اگلے دن محفل لگی ہوئی ہے اور وہ شخص آ گیا۔ اس سے تھوڑی دیر پہلے ایک شخص آیا اور کہتا ہے کہ ہدیہ دینا چاہتا ہوں۔ حضرت نے لے کر رکھ لیا۔ اتنے میں وہ بنیا آ گیا۔ اسے کہا تھا کہ حساب کر کے لانا کہ تمہارے کتنے پیسے ہیں۔ وہ حساب کر کے لایا کہ اتنے پیسے بنتے ہیں۔ حضرت نے اس سے کہا کہ یہ پیسے ابھی آئے ہیں، ان میں سے لے لو، جتنے آپ کے بنتے ہیں۔ دیکھا تو بالکل اتنے ہی پیسے تھے، جتنا وہ حساب کر کے لایا تھا۔ وہ پیسے اس کو دے دیئے۔ وہ آدمی خوش خوش چلا گیا، کہ میرا کام ہو گیا۔ سب لوگوں نے کہا: حضرت! ہدیہ تو کسی وقت بھی آ سکتا ہے، لیکن اتنے پیسوں کا ہدیہ آنا عیجیب ہے۔ حالانکہ حساب تو معلوم بھی نہیں تھا کہ کتنا حساب بنے گا۔ یہ عین اس وقت سے کچھ پہلے اتنے پیسوں کا آ جانا جتنا وہ حساب کر کے لا رہا تھا، یہ کیسے ہوا؟ یہ تو عجوبہ اور کرامت تھی۔ حضرت نے فرمایا: الحمد للہ! جب سے میں جوان ہوا ہوں، میں نے اللہ تعالیٰ کو ناراض نہیں کیا، مجھے اللہ پاک سے یہ امید تھی کہ کسی بنیے کے سامنے مجھے ذلیل نہیں کرے گا۔ جیسے: ’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 6970)

ترجمہ: ’’میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے‘‘۔

یہی معاملہ ان کے ساتھ ہو گیا۔ دیکھئے! ان کے پاس وسائل نہیں ہیں، لیکن جس کے ہاتھ میں سارے وسائل ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ، وہ ان کے ساتھ ہیں۔ اسی لئے کہہ رہا ہوں کہ جب ہم اختیاری مجاہدات کراتے ہیں،، تو بعض لوگ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کہاں سے ثابت ہیں؟ حالانکہ مجاہدہ شرعی ثابت ہے، کرنا تو وہی ہے، نماز پڑھنی ہے، جو کہ مجاہدہ ہے۔ روزہ رکھنا ہے، یہ بھی مجاہدہ ہے، حج کرنا ہے، یہ بھی مجاہدہ ہے۔ تو شرعی مجاہدات ثابت ہیں۔ اختیاری مجاہدات تجرباتی ہیں، تجربہ سے ثابت ہیں کہ اگر یہ نہیں کریں گے،، تو مجاہداتِ شرعی نہیں ہو سکتے۔ گویا یہ شرعی مجاہدات کے لئے ہیں۔ جیسے صحت ثابت ہے، بیماری ثابت نہیں ہے، بیماری ہر ایک کی اپنی اپنی ہوتی ہے۔ اس بیماری کے لئے علاج تجرباتی طور پر ثابت ہوتا ہے۔ ڈاکٹر لوگ اسی چیز سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ