وصول اور کشف کے بیان میں

مقالہ 8 ، درس 62

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ان کے صاحبزادے شیخ عبد الحلیم رحمۃ اللہ علیہ نے جو کتاب ’’مقالاتِ قدسیہ‘‘ لکھی ہے، اس سے تعلیم ہوتی ہے۔ آج ان شاء اللہ مقالاتِ قدسیہ کے مقالۂِ ہشتم سے وصول اور کشف کے بارے میں بات ہو گی۔

متن:

مقالۂ ہشتم

وصول اور کشف کے بیان میں

شیخ شرف منیری رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب میں لکھا ہے، کہ اللہ تعالیٰ سے وصول (واصل ہونا) اس قبیل اور طریقے کا ہرگز نہیں، جیسا کہ ایک جسم کا دوسرے جسم سے وصال ہو یا عرض کا عرض سے یا جوہر کا جوہر سے یا علم کا معلوم سے یا عقل کا معقول سے یا کسی چیز کا دوسری چیز سے ہوتا ہے۔ "تَعَالٰی اللہُ عُلُوًّا کَبِیْرًا" ”اللہ تعالیٰ ان باتوں سے بہت بلند اور ارفع ہے“۔ یہ لفظ شریعت میں عُرفًا آیا ہے اور طریقت کے لوگوں کے گروہ میں معروف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے ملنا (وصول پیوستی) کیا چیز ہے؟ یہ بات جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ سے واصل ہونا (پیوستن) یہ ہے کہ لوگوں سے اور حق تعالیٰ کے سوا دوسروں سے بالکل کٹ کے رہ جائے۔ اتصال اللہ تعالیٰ کے ساتھ شغل رکھنا ہوتا ہے اور یہ فراغت کے اندازے پر ہوتا ہے کہ انسان غیرِ حق سے فارغ ہو کے رہے، جتنا کوئی غیر اللہ سے فارغ اور جدا رہے گا اللہ تعالیٰ کے ساتھ نزدیک اور متصل رہے گا۔ اگر دنیا سے منفصل یعنی بالکل جدا اور علٰیحدہ ہو جاؤ تو اُس کے ساتھ قرب و اتصال پاؤ گے۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں جہانوں سے جدائی حاصل فرمائی تھی یہاں تک کہ حق تعالیٰ سے اتصال پا کر رہے۔ اور اگر اُس کے سِر اور خیال میں کوئی چیز رہ گئی ہو تو کہے کہ "اَللّٰھُمَّ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ کَذَا" ”اے اللہ! میں تجھ ہی سے اس چیز سے پناہ مانگتا ہوں“ اور جب یہ کہا کہ "أَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ" تو یہ سچ کہا کہ اُس کے سِر اور خیال میں حق کے سوا کچھ بھی نہ رہا تھا۔ پس دُنیا سے علیحدگی اور جدائی (انفصال) عقبیٰ سے اتصال ہے، اور دونوں کونوں سے انفصال حق تعالیٰ سے اتصال ہے۔ اور اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ طواف کرتے وقت فرماتے تھے: "کُنَّا نَرَی اللہَ فِيْ ذٰلِکَ الْمَکَانِ" (لم أقف علی ہذا الأثر) ”اس مکان میں ہم نے مالک مکان کا دیدار حاصل کیا“ اور یہ بات اس وجہ سے فرمائی کہ اُن کا ظاہری جسم شریعت میں مشغول تھا اور اُن کا سِر اور خیال حقیقت میں منہمک تھا، حقیقت کے شغل میں شغلِ شریعت کو بھلا بیٹھا۔ نہ تو گھر کی خبر تھی اور نہ سلام کرنے والے کی، اللہ تعالیٰ کا شغل اُن کو ایسا بے خبر اور مست کر چکا تھا، اغیار کا سلام نہیں سنتا تھا۔ اور مالکِ مکان اور صاحب البیت کی تعظیم نے اُن کو ایسا از خود رفتہ بنایا تھا کہ اپنا گھر بھی اُنہیں یاد نہیں رہا۔ اسی وجہ سے فرمایا کہ "کُنَّا نَرَی اللہَ" ”ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھتے تھے“ اور جس شخص نے اُس وقت اُن کو سلام کیا، وہ اس بات سے آگاہ نہ تھا اس لئے زجر و عتاب کرنے لگا، مگر چونکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یہ مقام حاصل تھا اس لئے کچھ بھی نہ کہا، تو اس لئے یہ بات حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے دعویٰ پر دلیل ہو گئی کہ وہ درست ہیں، جیسا کہ فقہاء فرماتے ہیں: "تَرْکُ الْبَیَانِ فِي مَوْضِعِ الحَاجَۃِ إِلَی الْبَیَانِ بَیَانٌ" (أصول الشاشي بمعناہ، رقم الصفحة: 262، دار الکتاب العربي، بیروت) یعنی جہاں کچھ کہنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور کچھ نہ کہا جائے تو یہ بھی بیان اور کہنا ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اولین میدان میں ﴿أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ…﴾ (الأعراف: 182) کا عہد و پیمان ہر صاحب ایمان کی فطرت، روحانیت اور انسانیت کے خمیر میں خمیر کی مانند ڈالا گیا ہے، کہ "إِنَّ اللہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فِيْ ظُلُمَۃٍ ثُمَّ رَشَّ عَلَیْھِمْ مِّنْ نُّوْرِہٖ" (سنن الترمذي بمعناہ، أبواب الإیمان، باب: ما جاء في افتراق ہذہ الأمۃ، رقم الحديث: 2642) ”اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو ظلمت میں پیدا کیا، پھر اُن پر اپنے نور کا چھڑکاؤ کیا“ جام اَلست کے گھونٹ نے اُس کے حلق کو وہ ذوق عطا فرمایا کہ اُس کی روح سے اُس کا اثر نہیں نکل سکتا اور اُس کی تمام زندگی اُسی ذوق کی مرہون منت ہے۔ اُس نور کا قصد ہمیشہ کے لئے اپنے مرکز اور منبع پر ہوتا ہے، اس دنیا سے اُس کو الفت نہیں اور اس کے ساتھ اُس کا دل نہیں لگتا۔

رباعی ؎

عشاق تو مست الست آمدہ اند

سر مست ز بادۂ الست آمدہ اند

مے مے نوشند و پند نمے شوند

کایشان زازل مے پرست آمدہ اند

’’تمہارے عاشق الست سے مست آئے ہیں، اور الست کی شراب سے سرشار ہو کر آئے ہیں، شراب پیتے ہیں مگر نصیحت نہیں سنتے، کیونکہ یہ لوگ ازل سے مے پرست آئے ہیں‘‘۔

عشق و محبت کے وہ پروانہ صفت جانباز لوگ جن کی گردنوں میں الست کے دن کے جذبات اور الوہیت کے عہد و پیمان کے جذبات کی کمنڈ ڈالی گئی ہے، آج کے دن اتنے بال و پر کی طلب میں ہیں کہ شمع جلال کے جمال کے ارد گرد پرواز کر سکیں، تاکہ اس دعویٰ کی بناء پر کہ "مَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ زِرَاعًا" (الصحیح لمسلم، کتاب التوبۃ، باب: في الحض علی التوبۃ، رقم الحدیث: 2675) کہ جو کوئی میری طرف ایک بالشت بھر نزدیک آئے گا، میں اُس کی جانب ایک گز بھر نزدیک جاؤں گا۔ اور اس حقیقت کے تحت کہ "جَذْبَۃٌ مِّنْ جَذْبَاتِ الْحَقِّ تُوَازِيْ عَمَلَ الثَّقْلَیْنِ" ”حق کے جذبات میں سے ایک جذبہ بھی جنات اور انسانوں کے عمل نیک کے برابر ہے“ اُس کو اپنے کنار سے واصل کراتا ہے۔ تو کب تک ان ضعیف بال و پر کے ساتھ ہمارے جمال کے گرد پھرتے رہو گے؟ تم ان بال اور پروں کے ساتھ ﴿وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا…﴾ (العنکبوت: 69) ”جو لوگ ہماری راہ میں ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں“ کے مطابق کوشش کرو، تاکہ ہم اپنی سنت اور عادت کے مطابق ﴿لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا...﴾ (العنکبوت: 69) ”ہم اُن کو ضرور اپنی راہ دکھلائیں گے“ ہم تم کو اپنے انوار کی شعاع کے پروں سے نوازیں گے تاکہ تم ہمارے فضل و کرم سے راہ پا سکو۔ ﴿یَھْدِي اللہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَاءُ…﴾ (النور: 35) ”اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف راہ دکھاتا ہے“ اگر تمام فرشتے جنات اور انسان اکھٹے ہو کر کوشش کریں تو ایک بندہ بھی اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی صفت کی تجلی کا ظہور نہیں کر سکتا مگر یہ اللہ تعالیٰ کا جذبہ ہی ہے کہ بندہ کو اُس قرب تک پہنچاتا ہے جس کی جانب ﴿أَوْ أَدْنٰی﴾ (النجم: 9) میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اس لئے تمام مخلوقات کی کوششوں اور اعمال سے ایک جذبہ بہتر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جو خودی کے بند سے نجات پا چکے ہوں اور جذبات الوہیت کے تصرفات کی روشنی رکھتے ہوں تو اُن کی ایک سانس اہل دُنیا کے معاملات و معمولات کے برابر نکل آئے گی۔ اور اس خصوصیت کی طرف اس بیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ بیت ؎

صوفیان در دمے دو عید کنند

عنکبوتان مگس قدید کنند

’’اہل تصوف کے حضرات ایک دم اور لمحہ میں دو عید مناتے ہیں۔ اور عنکبوت (مکڑی) قسم کے لوگ مکھی (مار کر اُس کے گوشت کو خشک کر کے اُس) کا ذخیرہ کرتے ہیں‘‘۔

صوفی فانی ہر گھڑی اور ساعت ایک نیا وجود جنم لیتا ہے اور وہ جذبہ کے تصرف سے محو ہو جاتا ہے، اور اُس محو ہونے سے ایک قدم آگے سیر کرتا ہے، جذبے کے تصرف سے عالمِ الوہیت میں ﴿یَمْحُوا اللہُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ…﴾ (الرعد: 39) ”خدا سبحانہ و تعالیٰ جو چاہتا ہے اس کو محو کرتا ہے اور جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے“ پس ہر گھڑی اُس کو محو و اثبات حاصل ہوتا رہتا ہے۔ صوفی اُس میں دو عیدیں مناتے ہیں: پہلی عید محو کی اور دوسری عید اثبات کی۔ اس مقام پر اگر دونوں کو روح اللہ اور سمۃ اللہ کہا جائے تو یہ بات زیب دیتی ہے اور یہ قبا صوفی کی قد و قامت پر ٹھیک بیٹھتی ہے۔ اے بھائی! یہ بات خواجگی کی پگڑی سر پر رکھتے ہوئے کسی کو کب ہاتھ آتی ہے۔

تشریح:

یہ جو اس قسم کے بیان ہوتے ہیں، چونکہ یہ بہت پُر اثر لوگوں کی باتیں ہوتی ہیں؛ لہٰذا عام لوگوں کی سوچ سے اونچی چلی جاتی ہیں، جب تک ان کا مفہوم کسی پہ نہیں کھلتا، اس وقت تک ان کی سمجھ نہیں آتی، اور جب تک ان کی حقیقت کسی پہ نہیں کھلتی، اس وقت تک ان کے بارے میں کیسے جان سکتے ہیں، لیکن چونکہ یہ باتیں theoretical نہیں ہیں، practical ہیں؛ اس لئے لوگ جب ان کو theory میں تلاش کرتے ہیں، تو نہیں ملتیں۔ ہاں اگر اعتماد کے راستے پہ چلتے ہوئے اپنے مشائخ کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے ان باتوں پہ عمل کرتے رہتے ہیں، جن کے بارے میں وہ بتائیں کہ یہ تمہیں فائدہ دیں گی، تو پھر practically وہ احوال ان کو حاصل ہوتے رہتے ہیں کہ ہر اگلا حال اس کے پرانے حال کے بارے میں سمجھا رہا ہوتا ہے۔ گویا یہ ایک مسلسل محنت ہے اور مسلسل کوشش ہے۔ یہاں حضرت نے وصول کے بارے میں جو بات فرمائی ہے، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکتوبات شریفہ میں اسے بڑی تفصیل کے ساتھ واضح کیا ہے۔ جو لوگ حضرت کے مکتوبات شریفہ سے واقف ہوں، ان کو یہ باتیں آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہیں۔ حضرت نے اس میں شیخ شرف منیری رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب کا حوالہ دیا ہے کہ اللہ سے واصل ہونا ایسا نہیں ہے جیسا کہ ایک جسم دوسرے جسم کے ساتھ واصل ہوتا ہے۔ جیسے میں پشاور میں ہوں اور کوئی کراچی سے مجھے ملنے کے لئے آتا ہے، تو کہہ سکتا ہے کہ وہ مجھ سے واصل ہو گیا، ملاقات ہو گئی۔ یہ جسمانی فاصلہ تھا، جو اس نے طے کر لیا، آ گیا اور کہہ دیا کہ میں مل گیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان اس طرح فاصلہ نہیں ہے کہ اس کو طے کیا جائے۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾ (ق: 16)

ترجمہ: ’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘۔

اور یہ سب کے لئے ہے؛ لہٰذا یہ فاصلہ نہیں ہے۔ یہ اثر اور قبولیت کا فاصلہ ہے۔ جیسے ایک شخص کے متعلق میں کہتا ہوں کہ میں اس کو زیادہ چاہتا ہوں، یا وہ میری خواہش کے مطابق بات کرتا ہے، تو وہ مجھ سے زیادہ قریب ہے۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ جسے میں چاہتا ہوں، وہی چیز وہ بھی چاہے اور اس کو سمجھ آ جائے، تو سمجھ لو کہ وہ مجھ سے قریب ہے۔ چنانچہ یہاں اس قسم کی بات ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کا حکم ایک طرف ہے اور ہمارے نفس کی خواہشات دوسری طرف ہیں۔ ہمارا نفس ہمیں اللہ پاک کے احکامات سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے، اور شیطان اس کا ساتھ دیتا ہے، ایسی صورت میں اگر ہم نفس کی بات مانیں، تو ہم اللہ تعالیٰ سے دور ہو رہے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے، وہ ہم نہیں کر رہے، بلکہ جو ہمارا نفس چاہتا ہے، ہم وہ کر رہے ہیں۔ تو اس کے ذریعے سے ہم اللہ تعالیٰ سے دور ہو رہے ہیں۔ دوسری صورت میں اگر ہم نفس کی بات نہ مانیں، اللہ کی بات مانیں، اللہ پاک کے احکامات پہ عمل کریں، تو گویا ہم وہی کر رہے ہیں، جو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہم اللہ پاک کے قریب ہو رہے ہیں۔ یہ جو قرب ہے، الحمد للہ حدیث شریف سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً: حدیث شریف میں قرب بالفرائض اور قرب بالنوافل، یہ دو الفاظ مذکور ہیں، یعنی قرب بالفرائض سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اور قرب بالنوافل وہ قرب ہے، جس میں انسان ترقی کرتا رہتا ہے، کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے۔ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے۔ میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔ اسی چیز کو یہاں اس انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہاں قرب اسی چیز کو کہا گیا کہ فرائض کا اتباع کرنا، فرائض کو ماننا اور ان کے مطابق عمل کرنا۔ اور نوافل کا اتباع کرنا، نوافل احکامات کو ماننا، اور ان کے مطابق عمل کرنا۔ یہاں اس کو قرب کہا گیا ہے۔ اور دوری اس کے مخالف چیز ہے اور قرب اس کے موافق چیز ہے۔ لہٰذا جس چیز کے ذریعے سے بھی انسان اللہ کے قریب ہوتے ہیں، اس قریب ہونے کی انتہا کو واصل ہونا کہتے ہیں۔ چنانچہ پھر ہم کہتے ہیں کہ فلاں واصل ہو گیا۔ اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو میری طرف ایک بالشت قدم اٹھاتا ہے، میں ایک گز کے برابر اس کی طرف آتا ہوں۔ جو میری طرف چل کے آتا ہے، میری رحمت اس کی طرف دوڑ کے جاتی ہے۔ چنانچہ جس کو ہم قرب اور وصول کہتے ہیں، یعنی جسمانی فاصلہ طے کرنا، وہ یہاں مراد نہیں ہے، بلکہ محبت کا جو قرب ہے، قبولیت کا جو قرب ہے، قبولیت کا جو شرف ہے، اس کو یہاں پر قرب کہا گیا ہے، اسی کو یہاں پر وصول کہا گیا ہے۔ چونکہ دنیا اللہ تعالیٰ کی ضد ہے۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا: ’’حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيْٓئَةٍ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5213)

ترجمہ: ’’دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے‘‘۔

لہٰذا ہم جتنا جتنا دنیا کی محبت میں مبتلا ہوں گے، اتنا اتنا ہم اللہ پاک سے دور ہوں گے۔ کیونکہ خطیئہ یہی چیز ہے کہ ہم اللہ پاک کے قریب نہیں ہیں، دور ہیں۔ چنانچہ جو کوئی جتنا جتنا دنیا کے قریب ہے، اتنا اتنا اللہ تعالیٰ سے دور ہے۔ جتنا جتنا کوئی مذموم دنیا میں مبتلا ہے، اتنا اتنا اللہ سے دور ہے۔ اور جتنا جتنا کوئی اس مذموم دنیا کو چھوڑتا ہے، اتنا ہی وہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے۔ یہاں یہی بات فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ انسان غیرِ حق سے فارغ ہو کے رہے، اور واصل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں سے اور حق تعالیٰ کے سوا دوسروں سے بالکل کٹ کے رہ جائے۔ یعنی دوسروں کے لئے کام نہ کرے۔ اگرچہ لوگوں کے اندر ہی رہے گا، لیکن لوگوں کے لئے نہیں رہے گا، نفس کے لئے نہیں رہے گا، اللہ کے لئے رہے گا۔ لوگوں کے درمیان ہو کر اللہ کی مانے گا۔ آگے فرمایا کہ یہ فراغت کے اندازے پر ہوتا ہے کہ انسان غیرِ حق سے فارغ ہو کے رہے، جتنا کوئی غیر اللہ سے فارغ اور جدا رہے گا، اتنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور متصل رہے گا۔ اگر دنیا سے منفصل یعنی بالکل جدا اور علٰیحدہ ہو جاؤ، تو اُس کے ساتھ قرب و اتصال پاؤ گے۔ یعنی دنیا کا اس پہ کوئی بھی اثر نہیں ہو گا۔ بہت ساری باتیں اس میں آ جاتی ہیں، ہم لوگ اتنی آسانی سے ان کو سادہ طریقے سے بیان نہیں کر سکتے۔ مثلاً: علم قرب کا ایک ذریعہ ہے، لیکن اگر یہی علم میرے نفس کو پالنے کا ذریعہ بن جائے، تو یہ دوری کا ذریعہ بن جائے گا۔ جیسے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

علم را برتن زنی مارے بُود

علم گر بر دل زنی یارے بُود

علم کو اگر اپنے جسم کی تواضع کے لئے استعمال کرو گے، یعنی اپنے نفس کی خواہشات کے لئے استعمال کرو گے، تو یہ سانپ بن جائے گا۔ اور اگر اس کو دل، جس کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے، اس کے لئے استعمال کرو گے، تو یہ دوست بن جائے گا۔ اگر ہم اسی دنیا کو اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال کر لیں، تو یہ دوست بن جاتی ہے۔ اور اگر ہم اس دنیا کو دنیا کے لئے استعمال کر لیں، تو یہ دشمن بن جاتی ہے۔ کیونکہ اگر ہم پیسہ اللہ کے لئے خرچ کر لیں، تو یہ ہمارے لئے قرب کا ذریعہ ہے اور اگر ہم پیسہ اپنے نفس کے لئے استعمال کر لیں، تو یہ دوری کا ذریعہ ہے۔ یہ ساری چیزیں اس پر منحصر ہیں کہ ہمارا قلبی رخ کس طرف ہے۔ ہمارے دل کا تعلق کس کے ساتھ ہے۔ ہم اس سے کیا چاہتے ہیں۔ ’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1)

ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔

لہٰذا اس پر انحصار ہے کہ میری نیت کون سی ہے۔ اگر میری نیت صحیح ہے، تو سبحان اللہ۔ اگر نیت صحیح نہیں ہے، تو کام خراب ہے۔

متن:

رسول اللہ ﷺ نے دونوں جہانوں سے جدائی حاصل فرمائی تھی یہاں تک کہ حق تعالیٰ سے اتصال پا کر رہے۔

تشریح:

سبحان اللہ! کیا بات ہے۔ یہ جہان تو یہ جہان ہے، اس میں انسان اپنے نفس کی خواہشات کو قربان کرتا ہے۔ لیکن اُس جہان میں جو مزے ہیں، ان کی طرف بھی نظر اٹھا کے نہ دیکھیں۔ بلکہ اس میں بھی اللہ کی طرف نظر ہو۔ یعنی وہاں کے بارے میں بھی یہ سوچ نہ ہو کہ مجھے یہ ملے، یہ ملے۔ بلکہ وہاں بھی یہی ہو کہ مجھے اللہ ملے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے جو دے، وہ اس کی مرضی ہے۔ ایک بات میں عرض کرتا ہوں، کیا کروں کہ سمجھا نہیں سکتا، لیکن بہر حال کوشش کرتا رہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ اللہ کا قاعدہ، قانون اور سنتِ عادیہ یہ ہے کہ جو چیز بھی اللہ کے لئے قربان کرو گے، وہ تمہیں اللہ تعالیٰ بہترین صورت میں لوٹاتا ہے۔ مثلاً: جو اللہ تعالیٰ کے لئے پیسہ خرچ کرتا ہے، اللہ اس کو مختار کر دیتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے لئے عزت کو قربان کر لیتا ہے، تو اللہ اس کو معزز کر دیتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے لئے جان قربان کرتا ہے، اس کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیتا ہے۔ پس جو چیز بھی انسان اللہ کے لئے خرچ کرتا ہے، اللہ کے لئے قربان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بہتر دیتے ہیں، اور زیادہ اچھا کر کے دیتے ہیں۔ اس سے پتا چلا کہ دنیا کو قربان کرو گے، تو یہاں دنیا کی راحت ملے گی، اگرچہ لوگ اس کو راحت والا نہیں سمجھیں گے۔ لوگ کہیں گے کہ یہ تو بڑی تکلیف میں ہیں، لیکن تکلیف اور راحت دل کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ دل کا چین اور سکون ان کو ہے، جو اللہ کے ہیں۔ ﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد: 28)

ترجمہ: ’’ یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے، جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔

چنانچہ جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں، ان کو دل میں اطمینان نصیب ہو جاتا ہے، تو جو اللہ کے ہو جاتے ہیں، ان کو کتنا اطمینان ہوتا ہو گا، جو کہ ذکر کا نتیجہ ہے۔ بہر حال! اگر کوئی اس دنیا میں بھی اس کے لئے کوئی چیز چھوڑتا ہے، تو اللہ پاک اس دنیا کی بہترین چیز اس کو دیتا ہے۔ لیکن چونکہ یہاں حجاب کا معاملہ ہے، لہٰذا محجوبین کو نظر نہیں آئے گا کہ یہ مزے میں ہیں۔ وہ تو اس کو تکلیف میں سمجھیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جو شہید ہو گا، اس کی خواہش یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ اس کو پھر دوبارہ زندگی دے، پھر وہ شہید ہو جائے، پھر زندہ کرے، پھر وہ شہید ہو جائے، پھر وہ زندہ کرے، پھر وہ شہید ہو جائے۔ یہ خواہش کیوں کرتا ہے؟ کیا شہید ہونے میں تکلیف نہیں ہوتی؟ آخر اس کے بدلہ میں کچھ ملتا ہے، تبھی تو وہ اس کی خواہش کرے گا۔ وہ تکلیف اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ وہی تکلیف لذیذ بن جاتی ہے۔ پس جب انسان اس دنیا کو قربان کر کے اس سے بہتر دنیا حاصل کر لیتا ہے، تو جو وہاں کی زندگی اللہ کے لئے قربان کرے گا اور اس طرف بھی نظر نہیں کرے گا، تو پھر وہاں کیا کچھ نہیں ملے گا؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ تبھی تو میں عرض کرتا ہوں کہ میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن سمجھا نہیں سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بڑے حجابات ہیں اور حجابات سے اس چیز کو cross کرانا بڑا مشکل ہے۔ لیکن بہر حال! حق تو حق ہے، یہ ایک حقیقت ہے۔ آگے فرمایا کہ:

متن:

رسول کریم ﷺ نے دونوں جہانوں سے جدائی حاصل فرمائی تھی یہاں تک کہ حق تعالیٰ سے اتصال پا کر رہے۔ اور اگر اُس کے سِر اور خیال میں کوئی چیز رہ گئی ہو (یعنی جو اللہ اور اس کے درمیان حائل ہو) تو کہے کہ "اَللّٰھُمَّ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ کَذَا" ”اے اللہ! میں تجھ ہی سے اس چیز سے پناہ مانگتا ہوں“ اور جب یہ کہا کہ "أَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ" تو یہ سچ کہا کہ اُس کے سِر اور خیال میں حق کے سوا کچھ بھی نہ رہا تھا۔ پس دُنیا سے علیحدگی اور جدائی (انفصال) عقبیٰ سے اتصال ہے اور دونوں کونوں سے انفصال حق تعالیٰ سے اتصال ہے۔

تشریح:

یہ دو کون ہیں؟ ایک یہ دنیا ہے اور ایک وہ دنیا ہے اور پھر اللہ ہے۔ پس جنہوں نے اس دنیا کو جنت کے لئے چُھوڑا، ان کو جنت مل گئی۔ اور جنہوں نے جنت کو چُھوڑا اللہ کے لئے، تو ان کو اللہ مل گیا۔ یہ بات سمجھانا بڑا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ سمجھانے کے لئے مخلوق کے level پہ بات فرماتے ہیں، جو جتنا ہضم کر سکتا ہے۔ لہٰذا عام قاعدہ تو یہی ہے کہ مانگو: ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ‘‘۔ بالکل مانگو، لیکن جو محققین ہیں، جن سے حجابات اٹھ جاتے ہیں، ان کی نظر اس پر بھی نہیں رہتی۔ کیونکہ اس کا تعلق حقیقت کے ساتھ ہے، شریعت کے ساتھ نہیں ہے۔ شریعت کا تو وہی امر ہے، جو بتایا گیا ہے۔ حقیقت کے ساتھ اس کا تعلق اس طرح ہے کہ انسان کے اوپر جب حق کھل جائے، پھر وہ جو بات کرتا ہے، وہ اپنی معرفت کے مطابق کرتا ہے۔ حضرت صدر الدین مرغشی رحمۃ اللہ علیہ جو ہمارے سلسلہ میں اصحابِ چشت میں سے ہیں، جب فوت ہو رہے تھے، تو جنت کو ان کے سامنے کیا گیا۔ یہ وہ بزرگ ہیں، جو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ ہیں۔ جب جنت کو ان کے سامنے کیا گیا، تو انہوں نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا: یا اللہ! اگر میری محنت کا صلہ یہ ہے، تو میں نے زندگی ضائع کر دی۔ اللہ پاک نے جنت کو ہٹا دیا، ان پہ تجلی ڈال دی، اسی میں وہ فوت ہو گئے۔ لیکن یہ بات ہر ایک نہیں سمجھ سکتا۔ یہ اشارے ہیں، اشاروں کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں پر ایک اشارہ بتایا ہے:

متن:

اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ طواف کرتے وقت فرماتے تھے: "کُنَّا نَرَی اللہَ فِيْ ذٰلِکَ الْمَکَانِ" (لم أقف علی ہذا الأثر) ”اس مکان میں ہم نے مالک مکان کا دیدار حاصل کیا“ اور یہ بات اس وجہ سے فرمائی کہ اُن کا ظاہری جسم شریعت میں مشغول تھا اور اُن کا سِر اور خیال حقیقت میں منہمک تھا (یہ وہی بات ہے جو ابھی میں نے کی کہ شریعت یہاں تک ہے، اس کے بعد حقیقت کی بات ہے) اُن کا سِر اور خیال حقیقت میں منہمک تھا، حقیقت کے شغل میں شغلِ شریعت کو بھلا بیٹھا۔ نہ تو گھر کی خبر تھی اور نہ سلام کرنے والے کی، اللہ تعالیٰ کا شغل اُن کو ایسا بے خبر اور مست کر چکا تھا، اغیار کا سلام نہیں سنتا تھا۔ اور مالکِ مکان اور صاحب البیت کی تعظیم نے اُن کو ایسا از خود رفتہ بنایا تھا کہ اپنا گھر بھی اُنہیں یاد نہیں رہا۔

تشریح:

خانہ کعبہ کو اللہ نے مجازی محبت کا ایک شاہکار بنایا ہے۔ کسی شاعر نے اس بات کو سمجھانے کے لئے کہا ہے:

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

کیونکہ اللہ کو کوئی دیکھ تو نہیں سکتا، اس لئے شاعر کہتا ہے کہ یا اللہ! کوئی مجازی چیز ہو، جس کو میں دیکھ سکوں، اس حالت میں میں تجھے دیکھ لوں، تو سجدوں کے ذریعے سے میں اپنی محبت کا اظہار کر لوں۔

در اصل خانہ کعبہ کو اللہ جل شانہ نے اس کا مظہر بنایا ہے کہ کوئی اللہ کو تو نہیں دیکھ سکتا، لیکن اللہ جل شانہ نے اس گھر کے اوپر اپنی تجلی ڈالی ہوئی ہے، بس اس تجلی کے مظہر کو دیکھ لو اور اس کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کر لو، تو یہ ایسے ہی ہو گا جیسے تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کا اظہار کر رہے ہو۔ تبھی تو فرمایا کہ جو حجرِ اسود کو بوسہ دیتا ہے، وہ ایسا ہے جیسے اللہ کے ساتھ مصافحہ کر رہا ہے اور جو ملتزم شریف کے ساتھ اپنے سینہ کو ملا رہا ہے، وہ ایسا ہے جیسا کہ اللہ کے ساتھ معانقہ کر رہا ہے۔ اس مثال سے پتا چلا کہ اس بیت کی تعظیم صاحبِ بیت کی وجہ سے ہے۔ اس لئے فرمایا: ﴿وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ (الحج:32)

ترجمہ: ’’اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقوی سے حاصل ہوتی ہے‘‘۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک دل اللہ کے ساتھ نہیں لگا ہو گا، اس وقت تک شعائر اللہ کی تعظیم نہیں ہو سکتی۔ جیسے میں نے ابھی خانہ کعبہ کی مثال دی ہے۔ اللہ کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قرب کا جو تعلق ہے، وہ جس پہ کھلا ہو گا، وہ آپ ﷺ کی بے ساختہ تعظیم کرے گا۔ گویا یہ بھی دلوں کے تقویٰ کی وجہ سے ہے۔ کعبۃ اللہ کے ساتھ اللہ کا تجلی کے لحاظ سے جو تعلق ہے، جس پہ یہ بات کھلے گی، وہ کعبۃ اللہ کی بے ساختہ تعظیم کرے گا۔ قرآن پاک کے ساتھ کلام اللہ ہونے کی جو اللہ کو نسبت ہے، جس پہ یہ بات کھلے گی، وہ قرآن کی بے ساختہ تعظیم کرے گا۔ جو صفا مروۃ کے ساتھ ایک خاص موقع کی نسبت سے تجلیِٔ محبت کو پائے گا، وہ بے ساختہ اس کے ساتھ محبت کرے گا۔ اسی طرح نماز کے ساتھ اللہ جل شانہ نے اپنی بندگی اور عبدیت کو جو وابستہ کیا ہے، جو اس کو پائے گا، تو وہ خیال رکھے گا، نماز کی تعظیم کرے گا۔ یہ شعائرُ اللہ ہیں۔ آج کل بعض بیوقوف لوگ چونکہ ان باتوں کو نہیں جانتے، اس لئے ان کی تعظیم نہیں کرتے۔ لہٰذا بنصِ قرآن یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان کے دلوں میں تقویٰ نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو تقویٰ کے ساتھ مشروط قرار دیا: ﴿وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ (الحج: 32)۔ لہٰذا ہمیں یہ چیزیں جاننی چاہئیں، حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے۔ اگر حقیقت کا ادراک نہیں ہو گا، تو ان چیزوں سے ہم رہ جائیں گے۔ حقیقت کا ادراک شریعت کی مخالفت نہیں ہے، بلکہ شریعت ہی کا نتیجہ ہے۔ جس طرح سیر الی اللہ شریعت پر ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی جو لوگ شریعت کے اوامر و نواہی کو اچھی طرح سمجھ کر ان کے مطابق عمل کریں اور دل میں، نفس میں اور عقل میں جو اس کے لئے رکاوٹیں ہیں، ان کو دور کر لیں اور اپنے صاف دل کے ساتھ، صحیح فہم کے ساتھ، مطمئن نفس کے ساتھ شریعت پر چل رہے ہوں، تو ان کی سیر الی اللہ مکمل ہو گئی۔ لیکن سیر الی اللہ کے بعد سیر فی اللہ شروع ہو جاتی ہے۔ اور سیر فی اللہ ہی حقیقت کا ادراک ہے، وہ حقائق کے اندر سفر ہے، اس لئے اس کو سیر فی اللہ کہا گیا ہے۔ چنانچہ حقائق کے اندر سفر اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ جس طرح قرب بالفرائض کو بنیاد قرار دیا گیا، لیکن قرب بالنوافل کو تقرب کا اعلیٰ معیار بنا دیا گیا۔ کیونکہ تقرب بالنوافل میں تقرب بالفرائض خود بخود موجود ہے۔ تقرب بالفرائض کے بغیر تقرب بالنوافل ہو ہی نہیں سکتا۔ جس طرح بغیر شریعت کے حقیقت میں یہ سفر نہیں ہو سکتا، شریعت کا سفر طے کیا ہو گا، تو پھر ہی حقیقت کا سفر شروع ہو گا۔ جب یہ بات ہے، تو شریعت کے سفر کو اور حقیقت کے سفر کو آپس میں مقابل نہ لایا جائے، بلکہ اس کو اس کے اوپر مزید سمجھا جائے۔ جیسے ہم بھی شریعت پر چلتے ہیں۔ مثلاً: ہمارے بہترین شخص کو دیکھ لو کہ جو اس دور کا بہترین شخص ہو اور شریعت پر چلتا ہو، اس کا تصور کا کر لو۔ اور ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی کو دیکھو، جو شریعت پر چلتے تھے۔ ان دونوں کے درمیان کبھی بھی برابری نہیں ہو سکتی۔ آخر وہ کون سی چیز ہے، جس کی وجہ سے برابری نہیں ہو سکتی؟ شریعت پر تو دونوں چل رہے ہیں۔ وہ یہی حقیقت کی بات ہے کہ جو حقیقت صحابہ کو حاصل تھی، وہ اس دور میں حاصل نہیں ہو سکتی۔ وہ قربِ زمانی جو آپ ﷺ کے ساتھ تھا اور آپ ﷺ کے دیدار سے، آپ ﷺ کے قرب میں رہنے سے، جو ان کو حاصل ہو گیا تھا، وہ ہمیں حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ہم کیسے برابری کر سکتے ہیں۔ گویا تقرب کا لفظ عام ہے، لیکن حق کا ادراک خاص ہے۔ تقرب بالفرائض بھی تقرب ہے، تقرب بالنوافل بھی تقرب ہے، لیکن تقرب بالفرائض اور ہے، تقرب بالنوافل اور ہے۔ تقرب بالنوافل تقرب بالفرائض پر اضافہ ہے، اسی طرح تقرب بالحقائق اور تقرب بالمعرفۃ تقرب بالشریعۃ پر اضافہ ہے۔ جس نے جتنی صفائی کر لی، اس کا مقام اتنا ہی آگے بڑھ گیا۔ اسی کو سیر فی اللہ کہتے ہیں اور یہ سیر فی اللہ لا متناہی ہے، اس کو کوئی پورا نہیں کر سکتا۔ ہاں! جو کوئی جتنا آگے ہو گیا، اس کے حساب سے اس کا مقام بن گیا۔

متن:

اور مالکِ مکان اور صاحب البیت کی تعظیم نے اُن کو ایسا از خود رفتہ بنایا تھا کہ اپنا گھر بھی اُنہیں یاد نہیں رہا۔ اسی وجہ سے فرمایا کہ "کُنَّا نَرَی اللہَ" ”ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھتے تھے“ اور جس شخص نے اُس وقت اُن کو سلام کیا، وہ اس بات سے آگاہ نہ تھا اس لئے زجر و عتاب کرنے لگا، مگر چونکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یہ مقام حاصل تھا اس لئے کچھ بھی نہ کہا، تو اس لئے یہ بات حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے دعویٰ پر دلیل ہو گئی کہ وہ درست ہیں، جیسا کہ فقہاء فرماتے ہیں: "تَرْکُ الْبَیَانِ فِي مَوْضِعِ الحَاجَۃِ إِلَی الْبَیَانِ بَیَانٌ" (أصول الشاشي بمعناہ، رقم الصفحة: 262، دار الکتاب العربي، بیروت)

تشریح:

خاموشی بھی ایک بیان ہے کہ یہاں نہیں بولنا۔ کیوں کہ آپ ﷺ جس عمل کو دیکھ کر خاموشی فرماتے تھے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ ٹھیک ہے۔ اس کو تقریری حدیث کہتے ہیں۔ کیونکہ حدیث کی تین قسمیں ہیں: قولی حدیث، فعلی حدیث، تقریری حدیث۔ تقریری حدیث اسے کہتے ہیں کہ جو عمل آپ ﷺ کے سامنے ہوا اور آپ ﷺ نے اس پر رد نہیں فرمایا، منع نہیں فرمایا، روکا نہیں۔ تو یہ تقریری حدیث ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کام صحیح ہے۔ چنانچہ یہاں یہی فرمایا کہ خاموشی کے وقت جو ترکِ بیان ہے، وہ بھی بیان ہے۔

متن:

یعنی جہاں کچھ کہنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور کچھ نہ کہا جائے تو یہ بھی بیان اور کہنا ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اولین میدان میں ﴿أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ…﴾ (الأعراف: 182) کا عہد و پیمان ہر صاحب ایمان کی فطرت، روحانیت اور انسانیت کے خمیر میں خمیر کی مانند ڈالا گیا ہے، کہ "إِنَّ اللہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فِيْ ظُلُمَۃٍ ثُمَّ رَشَّ عَلَیْھِمْ مِّنْ نُّوْرِہٖ" (سنن الترمذي بمعناہ، أبواب الإیمان، باب: ما جاء في افتراق ہذہ الأمۃ، رقم الحديث: 2642)

تشریح:

مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مکتوب نمبر 234 میں بہت وضاحت کے ساتھ یہ بیان فرمایا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ وجود تو اصل میں اللہ کا ہے، باقی تو عدم ہے۔ اور عدم بالکل شر اور فساد ہے، گویا ظلمت ہے۔ پھر ظلمت کو اللہ پاک نے اپنے ارادے سے منور فرمایا: ﴿اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (النور: 35)

ترجمہ: ’’اللہ تمام آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘‘۔

متن:

پھر اُن پر اپنے نور کا چھڑکاؤ کیا“ جام اَلست کے گھونٹ نے اُس کے حلق کو وہ ذوق عطا فرمایا کہ اُس کی روح سے اُس کا اثر نہیں نکل سکتا اور اُس کی تمام زندگی اُسی ذوق کی مرہون منت ہے۔ اُس نور کا قصد ہمیشہ کے لئے اپنے مرکز اور منبع پر ہوتا ہے، اس دنیا سے اُس کو الفت نہیں اور اس کے ساتھ اُس کا دل نہیں لگتا۔

تشریح:

یعنی جو عشاق ہیں، جن کو اللہ جل شانہ نے اپنی محبت عطا فرمائی ہے، وہ میثاقِ اَلَسْت میں مست ہیں، کیونکہ اس میں انہوں نے کہا تھا: ’’بَلٰی‘‘ ’’کیوں نہیں‘‘۔ اللہ پاک کی محبت کا اظہار کیا تھا، اس وجہ سے اس میں مست ہیں۔ جیسے کہ حج کے موقع پر ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے کہ لوگوں کو حج کے لئے بلاؤ۔ انہوں نے کہا: یا اللہ! یہ کیسے ہو گا؟ میری آواز تو بہت مختصر ہے، کہاں تک پہنچے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اعلان تم کر دو، پہنچانا ہمارا کام ہے۔ انہوں نے اعلان کیا، تو اس اعلان کو اللہ پاک نے ارواح تک پہنچا دیا۔ فرمایا گیا ہے کہ جس نے جتنی مرتبہ لبیک کہا ہے، اتنی مرتبہ وہ حج کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنی دفعہ اس نے لبیک کہا، اس میں وہ مست ہو گیا۔ اب وہ مستی اس کو آرام سے نہیں ٹکنے دے گی۔ ایسے لوگوں کو کوئی سو بار بھی کہے کہ اور بھی نیک کام ہیں، آپ صرف حج ہی کر رہے ہیں، کیا دنیا میں صرف یہی کام رہ گیا ہے؟ وہ کہتے ہیں: ہاں! تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن میں یہی کروں گا۔ بس اس کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں۔ یہی تو مستی ہے۔ پس جو اُدھر سے مست ہو کے آ گیا ہے، وہ وہی کرے گا۔

متن:

رباعی ؎

عشاق تو مست الست آمدہ اند

سر مست ز بادۂ الست آمدہ اند

مے مے نوشند و پند نمے شوند

کایشان زازل مے پرست آمدہ اند

’’تمہارے عاشق الست سے مست آئے ہیں، اور الست کی شراب سے سرشار ہو کر آئے ہیں، شراب پیتے ہیں مگر نصیحت نہیں سنتے،

تشریح:

جیسے اگر آپ ان کو حج سے روکیں، تو وہ آپ کی نصیحت نہیں سنیں گے۔

متن:

کیونکہ یہ لوگ ازل سے مے پرست آئے ہیں‘‘۔ عشق و محبت کے وہ پروانہ صفت جانباز لوگ جن کی گردنوں میں الست کے دن کے جذبات اور الوہیت کے عہد و پیمان کے جذبات کی کمنڈ ڈالی گئی ہے،

تشریح:

یعنی جن کو اللہ پاک نے ذوق عطا فرمایا ہے، کسی اور کو سمجھ آئے یا نہ آئے، وہ اس کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں۔

متن:

آج کے دن اتنے بال و پر کی طلب میں ہیں کہ شمع جلال کے جمال کے ارد گرد پرواز کر سکیں، تاکہ اس دعویٰ کی بناء پر کہ "مَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ زِرَاعًا" (الصحیح لمسلم، کتاب التوبۃ، باب: في الحض علی التوبۃ، رقم الحدیث: 2675) کہ جو کوئی میری طرف ایک بالشت بھر نزدیک آئے گا، میں اُس کی جانب ایک گز بھر نزدیک جاؤں گا۔ اور اس حقیقت کے تحت کہ "جَذْبَۃٌ مِّنْ جَذْبَاتِ الْحَقِّ تُوَازِيْ عَمَلَ الثَّقْلَیْنِ" ”حق کے جذبات میں سے ایک جذبہ بھی جنات اور انسانوں کے عمل نیک کے برابر ہے“

تشریح:

یہ جذبہ کیا چیز ہے؟ اصل میں جذبہ اس تعلق کی وجہ سے ہے، جو کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حاصل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے اعمال کے اندر جو اخلاص آتا ہے، اس اخلاص کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ صحابہ کرام سے جب ایک کافر کہتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس شخص کو میں نے نیزہ مارا ہے، وہ کہتا ہے: ’’فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَۃِ‘‘ ’’ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا‘‘۔ صحابی نے کہا کہ تم شراب کے جام کو جس طرح چاہتے ہو، اس سے محبت کرتے ہو، ہم اس سے زیادہ موت کے ساتھ محبت رکھتے ہیں۔ اب یہ کیا چیز ہے؟ یہ تو صحابہ کی بات ہے۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ جذبہ اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ باقی لوگوں کے اعمال وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔

متن:

تو کب تک ان ضعیف بال و پر کے ساتھ ہمارے جمال کے گرد پھرتے رہو گے؟ تم ان بال اور پروں کے ساتھ ﴿وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا…﴾ (العنکبوت: 69) ”جو لوگ ہماری راہ میں ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں“ کے مطابق کوشش کرو،

تشریح:

یعنی کوشش کرنا ضروری ہے، کوشش سے رکاوٹ ڈالنے والی جو چیزیں ہیں، ان کو کم کرنا، ان سے رُکنا ضروری ہے۔ نفس اور شیطان سے بچنا ضروری ہے۔ پھر اللہ پاک کی طرف سے ﴿لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69) کی خلعت عطا کی جاتی ہے۔

متن:

﴿لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا...﴾ (العنکبوت: 69) ”ہم اُن کو ضرور اپنی راہ دکھلائیں گے“ ہم تم کو اپنے انوار کی شعاع کے پروں سے نوازیں گے تاکہ تم ہمارے فضل و کرم سے راہ پا سکو۔ ﴿یَھْدِي اللہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَاءُ…﴾ (النور: 35) ”اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف راہ دکھاتا ہے“ اگر تمام فرشتے جنات اور انسان اکھٹے ہو کر کوشش کریں تو ایک بندہ بھی اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی صفت کی تجلی کا ظہور نہیں کر سکتا (جب تک اللہ نہ چاہے۔)

تشریح:

اور یہ تو اللہ ہی کی چاہت ہے: ﴿اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (النور:35)

ترجمہ: ’’اللہ تمام آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘‘۔

چنانچہ یہ اللہ ہی کی چاہت ہے کہ اللہ جل شانہ تجلی ڈالتے ہیں اور اس سے لوگوں کو ما شاء اللہ توفیق ہوتی ہے۔

متن:

مگر یہ اللہ تعالیٰ کا جذبہ ہی ہے کہ بندہ کو اُس قرب تک پہنچاتا ہے جس کی جانب ﴿أَوْ أَدْنٰی﴾ (النجم: 9) میں اشارہ کیا گیا ہے۔

تشریح:

سبحان اللہ! بس تھوڑا سا حوصلہ کرنا چاہئے، ان شاء اللہ بات سمجھ میں آ جائے گی۔ جو یومِ اَلَسْت والا جذبہ ہے، وہ جذبِ مبتدی ہے، جس کو ہم ذکر اللہ اور مراقبات کے ذریعے سے جگاتے ہیں۔ اس کے بعد: ﴿وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69) والی بات آتی ہے۔ یعنی نفس کے شر سے بچنے کے لئے ہم نفس کے خلاف کام کرتے ہیں اور ہم نفس کو نفسِ مطمئنہ بناتے ہیں، تاکہ وہ ہمارے اندر رکاوٹ نہ ڈال سکے اور ذکر اللہ کے ذریعے سے دل کی اصلاح کرتے ہیں، تاکہ شیطان اس میں نہ آ سکے۔ ان کاموں کی ہم کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد پھر اللہ کی طرف سے قبولیت کا جو جذب آتا ہے، وہ جذبِ منتہی ہے۔ یعنی جذبِ کسبی نہیں ہے، بلکہ وہبی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ سارے لوگ مل کر بھی حاصل کرنا چاہیں، تو یہ جذب حاصل نہیں کر سکتے۔ پہلے والے جذب کے بارے میں یہ نہیں فرمایا، بلکہ پہلے کے لئے یومِ اَلَسْت کا فرمایا گیا ہے۔ لیکن یہ جو آخری جذب ہے، یعنی جذبِ منتہی، اس کے لئے محنت شرط ہے۔ لیکن محنت اس کی قیمت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فضل فرماتے ہیں۔ جس طرح جنت میں کوئی شخص اپنی محنت سے نہیں جائے گا۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی بھی اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا، اللہ کے فضل سے جائے گا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا: یا رسولَ اللہ! کیا آپ بھی؟ فرمایا: ہاں! میں بھی۔ لیکن مجھ پر اللہ پاک فضل فرما دیں گے۔ گویا جذبِ منتہی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن اصل چیز وہی ہے۔ اس میں انسان کو وصال حاصل ہوتا ہے۔

متن:

اس لئے تمام مخلوقات کی کوششوں اور اعمال سے ایک جذبہ بہتر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جو خودی کے بند (یعنی اپنے نفس) سے نجات پا چکے ہوں اور جذبات الوہیت کے تصرفات کی روشنی رکھتے ہوں (جذبِ منتہی کو حاصل کر چکا ہو) تو اُن کی ایک سانس اہل دُنیا کے معاملات و معمولات کے برابر نکل آئے گی۔

تشریح:

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عارف کی دو رکعت نماز غیر عارف کی لاکھوں نمازوں سے افضل ہے۔ اور عارف کون؟ عارف وہی ہے، جو جذبِ منتہی حاصل کر چکا ہے اور اللہ پاک کے ساتھ وصال حاصل کئے ہوئے ہے۔ پس اس چیز کے مقابلہ میں کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی۔ اس لئے جو حضرات ان چیزوں کو نہیں جانتے، وہ عارفین کی محنتوں کو صفر سے ضرب دیتے ہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں، اپنی جگہ پر بیٹھے ہیں، کچھ بھی نہیں کر رہے۔ حالانکہ وہ یہی کر رہے ہیں۔ جب ان کو اللہ تعالیٰ کا تعلق حاصل ہوتا ہے، تو ان کی ہر چیز اللہ کے لئے ہوتی ہے۔ ان کا چُپ رہنا بھی اللہ کے لئے ہوتا ہے، ان کا بولنا بھی اللہ کے لئے ہوتا ہے۔ یہی ان کی بنیاد ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کی جو بھی تشکیل فرما دیں، جس جگہ بھی تشکیل فرما دیں، بس وہ وہی کام کرتے ہیں۔ چاہے وہ جہاد کی تشکیل ہو، چاہے درس کی تشکیل ہو، چاہے تبلیغ کی تشکیل ہو، چاہے وہ ویسے ہی کوئی عام کام کر رہے ہوں۔ لیکن من جانبِ اللہ جو تشکیل ہو جاتی ہے، اس کے مطابق وہ کام کرتے ہیں۔

متن:

تو اُن کی ایک سانس اہل دُنیا کے معاملات و معمولات کے برابر نکل آئے گی۔ اور اس خصوصیت کی طرف اس بیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ بیت ؎

صوفیان در دمے دو عید کنند

عنکبوتان مگس قدید کنند

’’اہل تصوف کے حضرات ایک دم اور لمحہ میں دو عید مناتے ہیں۔ اور عنکبوت (مکڑی) قسم کے لوگ مکھی (مار کر اُس کے گوشت کو خشک کر کے اُس) کا ذخیرہ کرتے ہیں‘‘۔

صوفی فانی ہر گھڑی اور ساعت ایک نیا وجود جنم لیتا ہے۔

تشریح:

حضرت بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ جس شعر کو سنتے سنتے دنیا سے تشریف لے گئے تھے، وہ یہی شعر تھا:

کُشتگانِ خنجرِ تسلیم را

ہر زماں از غیب جانِ دیگر اَست

یعنی جو اللہ کی محبت کے خنجر سے شہید ہوتے ہوں، ان کو ہر وقت اس دربار سے ایک نئی جان ملتی ہے۔

متن:

وہ جذبہ کے تصرف سے محو ہو جاتا ہے،

تشریح:

یعنی جذبہ کے تصرف سے فانی ہو جاتا ہے، یعنی اصل جذبہ جو اخیر میں آیا ہے، وہ فانی ہو جاتا ہے۔

متن:

اور اُس محو ہونے سے ایک قدم آگے سیر کرتا ہے، جذبے کے تصرف سے عالمِ الوہیت میں ﴿یَمْحُوا اللہُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ…﴾ (الرعد: 39) ”خدا سبحانہ و تعالیٰ جو چاہتا ہے اس کو محو کرتا ہے اور جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے“۔

تشریح:

یہاں ﴿یَمْحُوا اللہُ سے مراد اللہ کی تجلی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو محو کر دیتے ہیں یعنی فانی کر دیتے ہیں۔ ﴿وَیُثْبِتُ﴾ یعنی پھر اس کے بعد اس کو باقی کر دیتے ہیں۔

متن:

پس ہر گھڑی اُس کو محو و اثبات حاصل ہوتا رہتا ہے۔ (یعنی یہ چیز ان کے ساتھ چلتی رہتی ہے) صوفی اُس میں دو عیدیں مناتے ہیں: پہلی عید محو کی اور دوسری عید اثبات کی۔ اس مقام پر اگر دونوں کو روح اللہ اور سمۃ اللہ کہا جائے تو یہ بات زیب دیتی ہے اور یہ قبا صوفی کی قد و قامت پر ٹھیک بیٹھتی ہے۔ اے بھائی! یہ بات خواجگی کی پگڑی سر پر رکھتے ہوئے کسی کو کب ہاتھ آتی ہے۔

اللہ جل شانہٗ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ