اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کا درس ہوتا ہے۔ حضرت کے صاحبزادے حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ نے جو کتاب لکھی ہے یعنی ’’مقالاتِ قدسیہ‘‘، اس سے الحمد للہ آج کل ہم بیان کرتے ہیں۔ روح کے بارے میں بیان چل رہا ہے اور روح کے بارے میں یہ بات ہو چکی تھی کہ اس پر چونکہ تفصیل سے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کلام کر چکے ہیں، جیسے پچھلی دفعہ یہ بات بھی ہو چکی تھی کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ چونکہ بعد میں آئے ہیں، اس لئے انہوں نے ان ساری باتوں کو سمیٹ لیا ہے، جو ان سے پہلے کہی گئی ہیں۔ لہٰذا اسے پڑھنے کے بعد ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہو گی۔ بہر حال! برکت کے لئے ہم نے اس کو بیان کر دیا ہے۔ روح کے بارے میں بیان ہو چکا ہے، آج ’’اِنْ شَاءَ اللہ‘‘ اس سے اگلا مقالہ شروع کرتے ہیں۔
متن:
انسانی عقلوں کے تنوع اور رنگا رنگی جس سے انسان مخصوص ہے، کے بیان میں
رسالہ اسرار اللہ سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوق سے عقل کی وجہ سے مخصوص و ممتاز کیا ہے، تاکہ عقل کی وجہ سے حق و باطل میں فرق کر سکے۔ عقل روح کی وزیر ہے اور جسم کی خزانچی، وحی و الہام کی کاتب اور اخلاقیات کے دفتر کی لکھنے والی، اخلاق کی مربی، معلم، حواس کو تہذیب دینے والی، انفاس کو ادب سکھانے والی، وسوسوں اور شکوک کو دور کرنے اور جھٹکنے والی اور کدورتوں اور میل کچیل کو دھونے والی ہے۔ اور عقل نہ ہوتی تو انسان عبودیت کے راستے اور صراط مستقیم پر نہ ہوتا، عقل ملکوت کے کارخانے کی نقاش ہے، جو کچھ بزرگوں سے سن لیتی ہے تو اس کے وسیلے سے خیال اُس کا لطف اٹھا کر پہچان لیتا ہے اور اُس کے وجود کو اپنے ڈبے میں نقل کرتا ہے، "کَذَا مِنْ شَمَائِلِ أَتْقِیَاءَ"۔
عقلیں چار ہیں: عزیزی، الہامی، مجازی اور حقیقی۔ عزیزی وہ فکر و دانش ہوتی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں ودیعت فرمائی ہے تاکہ اس کے ذریعے نیک اور بُرے اعمال میں تمیز کرے، اور تمام جانوروں میں سے صرف آدمی اس کے لئے مخصوص ہے۔ اور عقل عزیزی کا مقام دِماغ میں ہے اور یہ دل کی حالت کی محتاج ہے، وہاں سے علوم الٰہی حاصل کرتی ہے۔ اور کم و بیش ہوتی ہے کیونکہ یہ مستقل حالت پر نہیں ہوتی، مگر فی نفسہ مستقل ہوتی ہے۔ (2) عقل الہامی فرشتوں کی مخاطبت ہوتی ہے، جو کہ لحظہ بہ لحظہ لوگوں تک پہنچتی ہے اور اُس کی برکت سے افعال حق کو افعال خلق سے اور صنائع اور تقدیر الٰہی کو پہچان لیتے ہیں، اور اُس کو جاری کرتے ہیں، اور اس عقل الہامی کے نور سے آیات قرآن میں سے بیش از بیش فیض حاصل کرتے ہیں اور قدیم کو حادث سے جدا کرتے ہیں اور اس کے متعلقہ حالات کو علیحدہ کرتے ہیں۔ اس عقل کا فعل دل میں ہوتا ہے، اگر یہ نہ ہوتی تو شیطان دل کو تکلیف دے دیا کرتا اور دل کتاب و سنت اور شریعت سے بالکل آگاہ نہ ہوتا جو کہ حقیقت کے موافق ہے۔ (3) عقل مجازی ایک ادراک ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے دل کی جبلت میں پیدا کیا ہے، اور دل انقلاب پذیر ہوتا ہے، اپنے ارادے سے کبھی غصّہ اور قہر میں پڑ جاتا ہے، اور کبھی لطف و رافت میں۔ اس مجازی عقل کی حالت ہمیشہ ایک طرح کی نہیں ہوتی، جو مجازی عقل قائم ہوتی ہے تو کسی طاعت سے اُس میں نقصان نہیں پڑتا۔ اور جو مستغرق ہو تو مناہی اور امور ممنوعہ سے سر باہر نکالتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہو کہ قضا و قدر کو بشری دُنیا میں قائم کرے تو اس عقل کو دل میں اطمینان سے سرفراز کرتا ہے۔ (4) عقل حقیقی وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش سے قبل محض اپنے نور سے پیدا کیا ہے اور اُس سے خطاب کیا ہے اور ربوبیت کے عجائب اُس کو دکھائے ہیں، تاکہ وہ عبودیت میں مضبوط رہے۔ اور ایجاد کرنے کے بعد اُس کو عالم جسمانی میں بھیج دیا اور روح کو عطا کر دیا، اس عقل کا مقام روحِ مقدس ہے اور موحدوں کی زندگی کلی طور پر اس سے قائم ہے۔ اور تمام انسانوں میں ظاہر ہے، تاکہ ہر گھڑی روح ناطقہ اس کو سونگھ لیا کرے اور بقاء جاودانی حاصل کیا کرے اور نور تجلی سے مزید انوار حاصل کرے تاکہ حق کے پاس رہے۔
عام معرفت عقل عزیزی کے جوہر کی وجہ سے حاصل ہے جو کہ اتنا زیادہ نہیں، اور معرفت خاص عقل الہامی کے طفیل سے ہے۔ اور معرفت خاص الخاص عقلِ کل کی وجہ سے ہے، اور یہ عقل حقیقی ہے جو کہ مسند حق کا غیب کے دروازے پر خلیفہ ہے۔ شمائل اتقیاء میں ایسا ہے۔
تشریح:
یہ بہت اہم مضمون ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی عقل پہ بہت بات کی ہے۔ جیسا کہ ابھی یہاں پر بھی گزرا ہے کہ اس میں تین لطائف زیرِ بحث رہے ہیں: ایک لطیفۂِ نفس، دوسرا لطیفۂِ قلب اور تیسرا لطیفۂِ عقل۔ ان تین لطائف کے ذریعے سے تربیت ہوتی ہے۔ یعنی انسان ان لطائف کے زیرِ اثر زندگی گزارتا ہے۔ ان لطائف کی جو حالت ہوتی ہے، اس کے مطابق اس کی زندگی گزر رہی ہوتی ہے۔ اگر ان کا balance صحیح جگہ پر سیٹ ہو گیا ہو، تو سارے کام ٹھیک ٹھیک ہو رہے ہوتے ہیں، اور اگر balance صحیح جگہ پہ سیٹ نہیں ہوا، تو مختلف قسم کے حالات ہو سکتے ہیں۔ جیسے عقل میں بہت تبدیلی ہو سکتی ہے، قلب میں تبدیلی ہو سکتی ہے، نفس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ ہر ایک کی اپنی اپنی تبدیلی ہو گی اور ان تبدیلیوں کا مجموعہ ایک الگ تبدیلی ہو گی۔ لہٰذا جب بھی ہم کسی کے بارے میں بات کریں گے، تو انہیں تین چیزوں کی combination سے بات بنے گی۔ لہٰذا اگر ہم ان کے بارے میں سوچیں گے، تو اس طرح سوچیں گے کہ یہ تین لطائف کس پوزیشن پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس کو لطائف کا علم حاصل نہ ہو، وہ اگر کسی کا علاج کرے گا، تو اٹکل پچو کے طریقے سے کرے گا، اس کو علاج کی معرفت حاصل نہیں ہو گی۔ جیسے حکیم حاذق علاج کرتا ہے، تو تمام چیزوں کو تفصیل سے جانتا ہے، دوائیوں اور مزاجوں کی تمام چیزوں کی تفصیلات کو جانتا ہے، لہٰذا وہ مزاجوں کی شناخت سے اور دوائیوں کی شناخت سے جو نتائج اخذ کرتے ہیں، وہ علاج میں بڑے معاون ثابت ہوتے ہیں، مزاجوں کی شناخت سے وہ بیماری کا پتا چلا لیتے ہیں اور اس بیماری کا علاج دوائیوں کی شناخت سے معلوم کر لیتے ہیں۔ لہٰذا وہ زیادہ بہتر طریقے سے علاج کر پاتے ہیں۔ اور اگر یہ چیز نہ حاصل ہو، تو صرف اندازوں سے علاج ہو گا۔ جیسے عطائی ڈاکٹر ہوتا ہے۔ عطائی ڈاکٹر علاج کرتا ہے، تو انسان ٹھیک بھی ہو سکتا ہے، لیکن علاج غلط بھی ہو سکتا ہے، زیادہ تر غلط ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ محض اندازے ہوتے ہیں، اور اندازوں سے یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔ بہر حال! حضرت نے پہلے مقالے میں تین باتیں کی ہیں، پہلے روح کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے۔ اور اب ’’مَا شَاءَ اللہ‘‘ عقل کے بارے میں تفصیل سے بات کر رہے ہیں۔ اور یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ بزرگوں کے ہاں ایسی عجیب و غریب نوادرات موجود تھیں، لیکن ہمیں پتا نہیں تھا کہ یہ چیزیں ان حضرات نے بیان کی ہوئی ہیں اور اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کی ہوئی ہیں۔ آج اس مقالہ کو اس انداز سے دیکھنے سے مجھے بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ ان بزرگوں نے ان چیزوں پر کتنی ریسرچ کی ہے۔ مگر ہم لوگ اس سے محروم ہیں۔
متن:
رسالہ اسرار اللہ سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوق سے عقل کی وجہ سے مخصوص و ممتاز کیا ہے،
تشریح:
واقعتاً باشعور اور عقل مند صرف انسان ہی ہے۔ باقی چیزیں جِبِلَّت سے چلتی ہیں اور انسان ارادے سے چلتا ہے اور اسے ارادہ کا مختار بنایا گیا ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ (الشمس: 9) میں اختیار کے استعمال کی طرف اشارہ ہے۔ کسی جانور کے بارے میں اس قسم کی بات نہیں ہے۔ اور فرشتوں کے بارے میں بھی ایسی بات نہیں ہے، کیونکہ فرشتے بھی وہی عمل کرتے ہیں، جو اللہ جل شانہ کا حکم ہوتا ہے۔ وہ اپنے اختیار سے کچھ نہیں کرتے۔ ان کے بارے میں قرآن کریم میں ہے: ﴿لَا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾ (التحریم: 6)
ترجمہ: ’’اللہ کے کسی حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں، جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔
لیکن انسان کے بارے میں ایسا نہیں کہا، انسان کے بارے میں فرمایا: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا 0 وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو (اس) نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہو گا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
دونوں چیزیں بتائی ہیں کہ جو اپنے نفس کو رذائل سے پاک کرتا ہے، اس کی کامیابی کا اعلان ہے اور جو اپنے نفس کو پاک نہیں کرتا اور اس کو اس حالت پہ چھوڑتا ہے، تو اس کی ناکامی اور تباہی کا اعلان ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ارادہ ہے کہ انسان کو ارادے کا اختیار دیا گیا ہے، وہ ارادے کا مکلف ہے اور اس چیز کا مکلف ہے، جس کو وہ کر سکتا ہو۔ جو وہ نہیں کر سکتا، اس کا مکلف نہیں ہے۔ ﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرہ: 286)
ترجمہ: ’’اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا‘‘۔
لہٰذا بے انصافی بھی نہیں ہے کہ اس کے اوپر ایسا بوجھ ڈال دیا جائے، جس کو وہ اٹھا نہ سکے۔ لیکن یہ بھی نہیں ہے کہ آزاد چھوڑ دیا ہے، بلکہ راستہ بتا دیا ہے کہ اس راستہ پہ اپنے ارادے سے چلے گا، تو پھر ’’مَا شَاءَ اللہ‘‘، ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ (الشمس: 9) کے ساتھ سرفراز ہو گا۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ خود بخود سب کچھ ہونے لگے۔ یہ لوگوں کے نظریات ہیں۔ حالانکہ یہ بہت بڑی گھاٹی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ پھر تو میں مجبور ہو جاؤں گا، مختار نہیں رہوں گا۔ یعنی اختیاری اعمال پر خیر بھی ہے۔ اگر کسی سے اس کے ارادے کے بغیر کوئی کام کروا دیا جائے، تو اس کو اس کا اجر نہیں ملے گا، کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ نے کروایا ہے۔ اس کو اجر تب ملے گا، جب اس کو اختیار دیا گیا ہو اور وہ اپنے اختیار سے وہ کام کرے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے عظیم نکتہ نکالا ہے کہ اختیاری کاموں میں پیچھے نہ رہو، اس میں سستی نہ کرو۔ اور غیر اختیاری کاموں کے در پے نہ ہو۔ مثلاً: ذوق و شوق غیر اختیاری ہے، لہٰذا اگر کسی کو یہ نہ ہو، تو اس سے مطالبہ نہیں ہے کہ آپ کے اندر ذوق و شوق کیوں نہیں ہے۔ کسی کو اچھے خواب آنا اختیاری نہیں ہے، کسی سے بھی یہ مطالبہ نہیں ہو گا کہ آپ کو اچھا خواب کیوں نہیں آیا۔ اسی طرح کرامت کا ہونا بھی اختیار میں نہیں ہے، لہٰذا کسی سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم صاحبِ کرامت کیوں نہیں ہو۔ کمال کی بات ہے کہ انسان فضیلت کا معیار ان چیزوں کو ٹھہراتا ہے، جو غیر اختیاری ہیں۔ حالانکہ فضیلت کا معیار اختیاری امور ہیں۔ جہاں پر مطالبہ ہے، جہاں عمل کا تقاضا ہے، وہاں کوئی عمل کرے گا اور نفس کی مزاحمت پر قابو پائے گا، تو اس پر اس کو اجر ملے گا۔ یہ جو ہم قدم اٹھاتے ہیں، یہ ایکشن ہے۔ اگر اس کے ساتھ ری ایکشن نہ ہو، تو ہم چل ہی نہیں سکتے تھے۔ ہمارا چلنا اسی کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ اگر زمین بالکل آئینے کی طرح ہموار ہو اور ٹائر بھی بالکل plain ہوں، تو گاڑی نہیں چلے گی۔ گاڑی چلنے کے لئے ری ایکشن ضروری ہے، بغیر ری ایکشن کے گاڑی نہیں جا سکتی۔ اسی طرح اللہ پاک نے ایسا نظام بنایا ہے کہ مزاحمت بھی اسی کے اندر ہے۔ چنانچہ ﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا﴾ (الشمس: 7) میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چونکہ دونوں ساتھ ساتھ ہیں، لہٰذا اگر کسی نفس کے اندر برائی کا تقاضا ہے اور اس تقاضے کو دبا کر کوئی اچھائی کرتا ہے، تو وہ تقویٰ ہے۔ پس برائی کا تقاضا جتنا زیادہ ہو گا، اتنا ہی اس کا تقویٰ زیادہ ہو گا۔ اس لئے وہ لوگ جو پریشان ہوتے ہیں کہ ہمارے اندر برائی کے بڑے تقاضے ہیں، ایسا ہے، ایسا ہے، ہم ان کو بشارت دیتے ہیں کہ اللہ پاک آپ کو زیادہ دینا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو، حفاظت مانگو۔ ’’اللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَةَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ ‘‘ یہ دعا کر لیا کرو۔ لیکن مقابلہ سے منہ نہیں موڑنا، بلکہ مقابلہ کرنا ہے۔ تو یہاں حضرت نے یہ فرمایا ہے کہ عقل ہی ان تمام چیزوں کی بنیاد ہے۔ سٹیرنگ پر عقل بیٹھی ہے۔ اس وجہ سے اللہ جل شانہ نے عقل دے کر ہمیں مکلف بھی بنا دیا، ہمیں مختار بھی بنا دیا اور ذمہ دار بھی بنا دیا۔ مکلف ذمہ دار ہی کو کہتے ہیں۔ یعنی ہم اب ذمہ دار ہیں۔ ایک دفعہ کسی صاحبِ قبر کے پاس کوئی شخص گیا، تو اس نے دیکھا کہ وہ صاحبِ قبر قرآن پاک کی تلاوت کر رہا ہے۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے، کیونکہ جن چیزوں کے ساتھ کسی کو محبت ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ بعض دفعہ قبر میں بھی اس کی توفیق عطا فرما دیتے ہیں۔ بہر حال! اس کو کشف ہوا کہ وہ قبر میں قرآن کی تلاوت کر رہا ہے۔ اس نے کہا: سُبْحَانَ اللہ! کیا عجیب بات ہے، قبر میں بھی قرآن مجید کی تلاوت کر رہا ہے۔ صاحبِ قبر کے ساتھ رابطہ ہوا، تو اس نے کہا کہ میں تین سو سال سے یہاں قبر میں قرآن پڑھ رہا ہوں۔ بس میرے ساتھ ایک سودا کر لیں کہ میرے تین سو سال کا اجر آپ لے لیں اور اس ایک بار ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ کہنے کا اجر مجھے دے دیں۔ اس نے کہا: یہ آپ گھاٹے کا سودا کیوں کر رہے ہیں؟ اس نے کہا: یہ میرے لئے گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ میرے لئے نفع کا سودا ہے۔ تمہارے گھاٹے کا ہے۔ کہا: وہ کیسے؟ اس نے کہا: تین سو سال سے جو میں عبادت کر رہا ہوں، اس کا کوئی اجر نہیں مل رہا ہے۔ یہ تو میں شوق سے کر رہا ہوں۔ اجر کا وقت تو چلا گیا۔ اب تو میں زندہ نہیں ہوں۔ تو زندہ ہے، تو مقامِ ابتلاء میں ہے، تو نے یہ جو ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ کہا ہے، اس کا آپ کو اتنا اجر مل گیا کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس لئے میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ یہ مجھے دے دو اور آپ یہ تین سو سال کا اجر لے لو۔ پس اس وقت ہم مقامِ ابتلاء میں ہیں، اس لئے مقامِ اجر میں ہیں۔ اس لئے اس وقت ہمارا جاگنا ضروری ہے، تاکہ ہم عمل کریں۔ کسی نے کہا ہے:
بخت جب بیدار تھا، کم بخت آنکھیں سو گئیں
سو گیا جب بخت تو بیدار آنکھیں ہو گئیں
یعنی جس وقت ہم کام کر سکتے تھے، ہمیں سب کچھ مل سکتا تھا، اس وقت ہم مزوں میں پڑ گئے، نفس نے ہمیں غافل کر دیا، نتیجتاً محروم ہو گئے۔ ہمارے ساتھی کہتے ہیں کہ یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ جب آنکھیں بند ہو جائیں گی، تو پھر یہ بات کھل جائے گی۔ کہتے ہیں: نہیں، یہ کہو کہ جب آنکھیں کھل جائیں گی، تو پھر حقیقت کا پتا چل جائے گا۔ واقعتاً جب آنکھیں کھل جائیں گی، پھر پتا چل جائے گا۔ بہر حال! اس وقت ہم مقامِ اختیار میں ہیں، مقامِ اجر میں ہیں، مقامِ ابتلاء میں ہیں، لہٰذا اس وقت کے اعمال کی قیمت ہے، ہمیں اس کو کمانا چاہئے۔
متن:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوق سے عقل کی وجہ سے مخصوص و ممتاز کیا ہے، تاکہ عقل کی وجہ سے حق و باطل میں فرق کر سکے۔ عقل روح کی وزیر ہے۔
تشریح:
یعنی روح بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ایک امر ہے۔ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ﴾ (بنی اسرائیل: 85)
ترجمہ: ’’کہہ دو کہ: روح میرے پروردگار کے حکم سے (بنی) ہے‘‘۔
اور عقل کو اس کا وزیر بنا دیا گیا ہے کہ روح جو آڈر کرے، عقل اس کو نافذ کرے۔ عقل جسم کی خزانچی ہے یعنی جسم جو کچھ کما رہا ہے، عقل اس کو محفوظ کرتی ہے۔ عقل وحی اور الہام کی کاتب ہے۔ کیونکہ وہی اس کو store کر سکتی ہے۔ وحی اور الہام کو عقل ہی سمجھ سکتی ہے۔
متن:
اور اخلاقیات کے دفتر کی لکھنے والی، اخلاق کی مربی، معلم، حواس کو تہذیب دینے والی، انفاس کو ادب سکھانے والی، وسوسوں اور شکوک کو دور کرنے اور جھٹکنے والی اور کدورتوں اور میل کچیل کو دھونے والی ہے۔ اور عقل نہ ہوتی تو انسان عبودیت کے راستے اور صراط مستقیم پر نہ ہوتا۔
تشریح:
کیونکہ اس کے پاس capability نہ ہوتی۔ اس لئے کہ یہ چلنا ہے، تو چلنا کسی طریقے سے ہو گا، چلنے کے ذرائع ہوں گے، تو چلیں گے، ذریعہ نہ ہوتا، تو کیسے چلتے۔
متن:
عقل ملکوت کے کارخانے کی نقاش ہے۔
تشریح:
یہ کیوں فرمایا؟ در اصل حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے روح کے تین اجزاء بیان کئے ہیں: روحِ ہوائی، نفسِ ناطقہ اور روحِ ملکوت۔ روحِ ملکوت اور نفسِ ناطقہ کی آپس میں جو combination ہے، وہ اصل میں انسان کو انسان بنانے والی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نفسِ ناطقہ اس کا ہیولیٰ ہے اور روحِ ملکوت اس کی صورت ہے۔ اور روحِ ملکوت عالمِ مثال سے آئی ہے۔
متن:
جو کچھ بزرگوں سے سن لیتی ہے تو اس کے وسیلے سے خیال اُس کا لطف اٹھا کر پہچان لیتا ہے۔
تشریح:
احادیث شریفہ میں بڑے اشارے ہوتے ہیں، لیکن جو ان اشاروں کو سمجھ سکتے ہوں، انہی کو پتا چلتا ہے۔ ایک حدیث شریف ہے جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ’’خطباتُ الاحکام‘‘ میں نوٹ کی ہے۔ فرمایا کہ انسان اعمال کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، زکوٰۃ دیتا ہے، حج کرتا ہے، لیکن اس کو اجر ’’بِقَدْرِ عَقْلِہٖ‘‘ ملتا ہے۔ اصل میں ’’بِقَدْرِ عَقْلِہٖ‘‘ میں سمجھ کی بات کی گئی ہے، اس میں اختیار ہے۔ اور اجر کے sources بھی یہی ہیں۔ کیونکہ ایک نا سمجھ آدمی بھی روزہ رکھ لیتا ہے۔ لیکن اس کو وہ چیز نہیں ملے گی، جو سمجھ کر روزہ رکھنے والے کو ملتی ہے۔ عبدیت کا احساس جو سمجھ دار کو ہے، وہ نا سمجھ کو حاصل نہیں ہے کہ عبدیت کیا چیز ہے، بندگی کیا چیز ہے۔ اور ان تمام چیزوں کا تعلق معرفت کے ساتھ ہے۔ ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذّٰرِیٰت: 56)
ترجمہ: ’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’لِیَعْرِفُوْنِ‘‘۔ یعنی اس لئے پیدا کیا تاکہ مجھے پہچانیں۔ پس پتا چلا کہ معرفت اور عبودیت یعنی عبادت اور پہچان آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ اگر معرفت نہ ہو، تو عبدیت نہیں ہو سکتی۔ معرفت ہو گی، تو عبدیت ہو گی، عبدیت ہو گی، تو معرفت موجود ہو گی۔ چونکہ یہ آپس میں لازم ملزوم ہیں، لہٰذا عقل جو معرفت کا source ہے، جب وہ موجود ہو گی، تو انسان کو وہ چیزیں حاصل ہوں گی، جو انسان حاصل کرنا چاہتا ہے۔
متن:
اس کے وسیلے سے خیال اُس کا لطف اٹھا کر پہچان لیتا ہے اور اُس کے وجود کو اپنے ڈبے میں نقل کرتا ہے۔ (یعنی وہ چیز وہاں محفوظ ہو جاتی ہے) "کَذَا مِنْ شَمَائِلِ أَتْقِیَاءَ"۔ عقلیں چار ہیں:
تشریح:
یعنی جیسے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے روح کے تین اجزاء بیان کئے ہیں۔ اور یہاں حضرت نے ’’شمائلِ اتقیاء‘‘ کے حوالے سے چار قسم کی عقل بیان کی ہیں۔ اس لئے میں بہت خوش ہوا کہ آج عقل کی detail آ رہی ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ:
متن:
عقلیں چار ہیں: عزیزی، الہامی، مجازی اور حقیقی۔ عزیزی وہ فکر و دانش ہوتی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں ودیعت فرمائی ہے۔
تشریح:
یعنی جیسے اللہ پاک نے انسان کے نفس کو فجور اور تقویٰ کا الہام کیا ہے، اسی طرح اللہ جل شانہ نے عزیزی عقل بھی ودیعت فرمائی ہے۔
متن:
تاکہ اس کے ذریعے نیک اور بُرے اعمال میں تمیز کرے۔
تشریح:
تقویٰ دل کا فعل ہے اور نفس میں پیدا ہوتا ہے۔ لیکن معرفت کا تعلق عقل کے ساتھ ہے۔ لہٰذا دونوں طرف ایک ایک چیز ہے۔ اِس طرف اگر تقویٰ الہام کیا ہے، تو اُس طرف عزیزی عقل الہام فرمائی ہے تاکہ تمیز ہو۔ تقویٰ میں ڈر ہے، لیکن اس ڈر کو satisfy کرنے کے لئے راستہ تمیز ہے۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، تو اللہ تعالیٰ کے ڈر کی وجہ سے مجھے جن اعمال کو چھوڑنا پڑے گا اور جن اعمال کو کرنا پڑے گا، وہ عزیزی عقل بتائے گی۔ ایک تو یہ بات ہے کہ ہدایت باہر سے کی گئی ہے، لیکن accept اندر سے کی گئی ہے۔ اور اندر سے accept اندر والی چیز ہی کرے گی، اور وہ عزیزی عقل ہے اور وہی اس کو قبول کر سکتی ہے۔
متن:
اور تمام جانوروں میں سے صرف آدمی اس کے لئے مخصوص ہے۔ اور عقل عزیزی کا مقام دِماغ میں ہے (یعنی یہ دماغ میں ہوتی ہے) اور یہ دل کی حالت کی محتاج ہے۔
تشریح:
یعنی دل کی ایمانی اور کفری حالت پر اس کا فیصلہ ہوتا ہے، اس لئے میں ایمانی عقل کہتا ہوں۔ یعنی اس پر منحصر ہے کہ دل کی حالت ایمان کی ہے یا دل کی حالت کفر کی ہے۔ کیونکہ ایمان اور کفر بھی دل کی چیز ہے۔ گویا دو راستے ہیں، ایک راستہ ایمان کو جاتا ہے اور ایک راستہ کفر کو جاتا ہے۔ اور اس پر منحصر ہے کہ اس کی جو understanding اور سمجھ ہے، وہ ایمان کے واسطے سے ہے یا کفر کے واسطے سے ہے۔ اگر ایمان کے واسطے سے ہو، تو ایمان کی خبروں پہ یقین کرے گا، جنت، دوزخ، نیکی، بدی، اچھا، برا، اس پر عمل کرے گا۔ اور اگر کفر کی طرف ہو، تو اسی دنیا کے مطابق عمل کرے گا یا جو بھی اس کا عقیدہ ہو گا، اس کے مطابق عمل کرے گا۔ جیسے عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو تکلیف پہنچاتے ہیں، اس پر وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اجر مل رہا ہے۔ جیسے اپنے اوپر کیل ٹھونکتے ہیں، اپنے آپ کو بھوکا رکھتے ہیں، اسی طرح کی ساری چیزیں کرتے ہیں، جس کو ہم رہبانیت کہتے ہیں۔ ان کی عقل ان کو یہی کہتی ہے، کیونکہ انہیں اپنے عقیدے سے جو راستہ ملتا ہے، اسی کے مطابق ان کی سمجھ ہے۔ جیسے ہندو پیشاب پیتے ہیں، تو کیا ان کے پاس ذہن نہیں ہے؟ بڑے بڑے ذہین لوگ ہیں۔ مراجی عیسائی ان کا وزیرِ اعظم تھا، وہ پیشاب پیتا تھا۔ انسان حیران ہو جاتا ہے۔ لیکن ان کا چونکہ عقیدہ ہے، وہ اس کو مقدس سمجھتے ہیں، ہولی سمجھتے ہیں۔ اور اسی عقیدہ کے مطابق سب کچھ کرتے ہیں۔ گائے کے پیشاب کے لئے باقاعدہ لائنیں لگی ہوتی ہیں، اور فریش پیشاب لیتے ہیں۔ گائے کا پیشاب باقاعدہ بکتا ہے، اور لوگ پیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ اس پہ ہنسنا نہیں چاہئے، کیونکہ ایمان ہمارا کمال نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے فضل سے دیا ہے۔ لیکن بہر حال شکر کی بات تو ہے۔
متن:
وہاں سے علوم الٰہی حاصل کرتی ہے۔ اور کم و بیش ہوتی ہے کیونکہ یہ مستقل حالت پر نہیں ہوتی۔
تشریح:
دل کبھی ایسے ہوتا ہے، کبھی ایسے ہوتا ہے۔ جیسے حدیث شریف میں آتا ہے۔ دل پَر کی طرح ہے، جیسے ہوا کی وجہ سے پَر ادھر ادھر ہلتا ہے، اسی طرح دل بھی ادھر ادھر ہوتا رہتا ہے۔
متن:
مگر فی نفسہ مستقل ہوتی ہے۔ (2) عقل الہامی فرشتوں کی مخاطبت ہوتی ہے۔
تشریح:
یوں کہہ سکتے ہیں کہ ملاءِ اعلیٰ سے جو چیز آ رہی ہوتی ہے، وہ عقلِ الہامی ہے۔ کیونکہ ملاءِ اعلیٰ سے فرشتے ہی آئیں گے۔ یعنی دل کا ضمیر جو الہامی چینل ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آ رہا ہے، وہ الہامی عقل ہے۔ یعنی ایک انسان کی اپنی سمجھ ہے، جو اس کے اندر نفس کے فجور کی طرح رکھی گئی ہے، وہ By default ہے، اس کی ایک capability اور صلاحیت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس صلاحیت کے مطابق جو سمجھ اس تک آ رہی ہے، تو اس کا اللہ کے ساتھ جتنا تعلق ہے اور اس کے دل کی جتنی صفائی ہے، جس کی وجہ سے اس کے لئے جتنا دروازہ کھلا ہے، اس کے حساب سے اس کو الہام ہوتا رہتا ہے۔ یہ الہامی عقل ہے۔
متن:
جو کہ لحظہ بہ لحظہ لوگوں تک پہنچتی ہے اور اُس کی برکت سے افعال حق کو افعال خلق سے اور صنائع اور تقدیر الٰہی کو پہچان لیتے ہیں،
تشریح:
افعالِ حق اور افعالِ خلق، یعنی اللہ کیا کر رہا ہے اور مخلوق کیا کر رہی ہے، جو موجودہ چیزیں ہیں، جو پیدا ہو چکی ہیں، اور تقدیر کیا چیز ہے یعنی اختیار کتنا ہے اور مجبور کتنا ہے، ان تمام چیزوں کو وہ understand کرتا ہے۔ واقعتاً یہ بہت بڑی بات ہے۔ کیونکہ جب انسان تقدیر کو نہیں جانتا، تب بھی نقصان اٹھاتا ہے اور تقدیر پہ سب کچھ چھوڑتا ہے، تو تب بھی نقصان اٹھاتا ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے جتنا اختیار دیا ہے، اتنا عمل کرنا ضروری ہے۔ یہ نہیں سوچنا کہ تقدیر میں میرے لئے کیا لکھا ہے۔ وہ آپ کا کام نہیں ہے، اللہ کا کام ہے۔ تم اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ تمہارا کام تو یہ ہے کہ جو حکم ہے، اس کے مطابق عمل کرو۔ ایک دفعہ میں کسی جگہ انٹرویو دے رہا تھا، انٹرویو لینے والے نے سوال کیا کہ شبیر! سورۂ فاتحہ کیا ہے؟ میں نے کہا: سورۂ فاتحہ دعا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھی ہے، وہ تمہیں ویسے بھی ملے گی، پھر دعا کیوں کرتے ہو؟ سوال خطرناک تھا، ایسا سوال کرنا نہیں چاہئے، لیکن بہر حال اس نے کر لیا۔ خدا کی شان! اللہ تعالیٰ سیکھانے والا ہے۔ میری زبان سے نکلا کہ سر! جتنا آپ جانتے ہیں، آپ سے زیادہ میں جانتا ہوں۔ حالانکہ انٹرویو میں کوئی ایسی بات نہیں کر سکتا۔ اس نے کہا: آپ کیسے زیادہ جانتے ہیں؟ میں نے کہا: سر! آپ نے جو بات کی کہ جب تقدیر پہلے سے لکھی گئی ہے، تو پھر دعا کی کیا ضرورت ہے، یہ آپ کی سمجھ ہے۔ میری سمجھ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی حکم بے فائدہ نہیں دیتا۔ اللہ پاک نے فرمایا: ﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ (المؤمن: 60)
ترجمہ: ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔
اس لئے میں تو اللہ کے حکم پر عمل کروں گا۔ کیونکہ اللہ پاک کا حکم بے فائدہ تو نہیں ہے۔ باقی ہو گا کیا، اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں۔ مَا شَاء اللہ! وہ چُپ ہو گئے۔ بعد میں جب مجھے select کیا گیا، تو وہ ادھر ہی تھے اور ہمارے colleague بن گئے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ میں آپ کے جواب سے بہت خوش ہوا تھا۔ آپ نے بہت صحیح جواب دیا تھا۔
متن:
اور اُس کو جاری کرتے ہیں، اور اس عقل الہامی کے نور سے آیات قرآن میں سے بیش از بیش فیض حاصل کرتے ہیں۔
تشریح:
جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ﴾ (ق: 37)
ترجمہ: ’’یقیناً اس میں اس شخص کے لیے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو‘‘۔
لہٰذا دل کا جتنا حصہ بنا ہوتا ہے، اس کے حساب سے ہدایت ملتی ہے۔
متن:
اور قدیم کو حادث سے جدا کرتے ہیں۔
تشریح:
یعنی ان کو یہ سمجھ ہوتی ہے کہ کون سی چیز قدیم ہے اور کون سی چیز حادث ہے۔
متن:
اور اس کے متعلقہ حالات کو علیحدہ کرتے ہیں۔ اس عقل کا فعل دل میں ہوتا ہے، اگر یہ نہ ہوتی تو شیطان دل کو تکلیف دے دیا کرتا اور دل کتاب و سنت اور شریعت سے بالکل آگاہ نہ ہوتا
تشریح:
جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ﴾ (ق: 37)
ترجمہ: ’’یقیناً اس میں اس شخص کے لیے بڑی نصیحت کا سامان ہے، جس کے پاس دل ہو‘‘۔
جو کہ حقیقت کے موافق ہے۔ (3) عقل مجازی (جیسے عقلِ عزیزی ایک capability ہے، اسی طرح یہ) ایک ادراک ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے دل کی جبلت میں پیدا کیا ہے، اور دل انقلاب پذیر ہوتا ہے، اپنے ارادے سے کبھی غصّہ اور قہر میں پڑ جاتا ہے، اور کبھی لطف و رافت میں۔ اس مجازی عقل کی حالت ہمیشہ ایک طرح کی نہیں ہوتی، جو مجازی عقل قائم ہوتی ہے تو کسی طاعت سے اُس میں نقصان نہیں پڑتا۔ اور جو مستغرق ہو تو مناہی اور امور ممنوعہ سے سر باہر نکالتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہو کہ قضا و قدر کو بشری دُنیا میں قائم کرے تو اس عقل کو دل میں اطمینان سے سرفراز کرتا ہے۔
تشریح:
یعنی عقلِ مجازی اللہ تعالیٰ کے فیصلے پہ مطمئن ہوتی ہے۔
متن:
(4) عقل حقیقی وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش سے قبل محض اپنے نور سے پیدا کیا ہے اور اُس سے خطاب کیا ہے اور ربوبیت کے عجائب اُس کو دکھائے ہیں،
تشریح:
یعنی ارواح سے جو میثاق لیا گیا تھا اور ارواح نے جو آواز سنی تھی، ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوْا بَلٰىۚۛ﴾ (الاعراف: 172)
ترجمہ: ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا تھا کہ: کیوں نہیں؟‘‘۔
عقلِ حقیقی اسی وقت سے ہے۔
متن:
اور ربوبیت کے عجائب اُس کو دکھائے ہیں، تاکہ وہ عبودیت میں مضبوط رہے۔ اور ایجاد کرنے کے بعد اُس کو عالم جسمانی میں بھیج دیا اور روح کو عطا کر دیا، (روح کے ساتھ اس کو شامل کر دیا) اس عقل کا مقام روحِ مقدس ہے اور موحدوں کی زندگی کلی طور پر اس سے قائم ہے۔ اور تمام انسانوں میں ظاہر ہے، تاکہ ہر گھڑی روح ناطقہ اس کو سونگھ لیا کرے (روحِ ناطقہ کا اس کے ساتھ تعلق ہوتا ہے) اور بقاء جاودانی حاصل کیا کرے۔
تشریح:
یعنی جب کوئی شخص باقی کے ساتھ تعلق قائم کر لیتا ہے، تو باقی ہو جاتا ہے۔ اور جب فانی کے ساتھ تعلق قائم کر لیتا ہے، تو فانی ہو جاتا ہے۔ چنانچہ باقی کے ساتھ شامل ہونے کی جو capability ہے، یہ اصل میں یہاں پر ہے۔
متن:
اور نور تجلی سے مزید انوار حاصل کرے تاکہ حق کے پاس رہے۔
عام معرفت عقل عزیزی کے جوہر کی وجہ سے حاصل ہے جو کہ اتنا زیادہ نہیں، اور معرفت خاص عقل الہامی کے طفیل سے ہے۔ اور معرفت خاص الخاص عقلِ کل کی وجہ سے ہے، اور یہ عقل حقیقی ہے
تشریح:
کئی حضرات نے اس پر کلام کیا ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے روح کی تین قسمیں بتائی ہیں۔ اس حوالے سے جن حضرات نے بات کی ہے، تو انہوں نے ایک روحِ مقدس کا بھی بتایا ہے، اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ روح انبیاء اور اولیاء کی ہوتی ہے۔ تو یہاں اس کا تذکرہ آ گیا۔
متن:
جو کہ مسند حق کا غیب کے دروازے پر خلیفہ ہے۔ شمائل اتقیاء میں ایسا ہے۔
عقلِ کل کی صفت:
تشریح:
اب آخری عقل، عقلِ کل کا ذکر ہے۔ ایک تو وہ عقلِ کل ہے، جس کو ہمارے محاورے میں عقلِ کل کہا جاتا ہے، کہ آدمی سمجھتا ہے کہ میں ہی سب کچھ جانتا ہوں۔ ایک یہ عقلِ کل ہے۔ اور ایک عقلِ کل یہ ہے، جس کی یہاں تعریف کی گئی ہے۔ ان میں تھوڑا سا فرق محسوس کریں۔
متن:
نور الٰہی کے معارف میں ایک موج ہوئی جس کا نام عقلِ کل، عشق و قلم اور نورِ محمد ہوا۔ یہی بات اس طرح شمائل اتقیاء میں ہے۔ اور شیخ احمد کے مکتوب میں آیا ہے کہ "اَلْعَقلُ الْکُلِّيُّ نُوْرٌ یُّفِیْضُ عَلٰی قَلْبِ الْمُحِبِّ مِنَ المَحبُوبِ فَیُنَوِّرُ بَاطِنَہٗ وَ یَصْفُوْا لَطَائِفَہٗ فَحِیْنَئِذٍ یَّصِیْرُ عِلْمُہٗ فَانِیًا فِيْ عِلْمِ الْمَحْبُوْبِ، فَبِعِلْمِہٖ یَعْلَمُ الْأَشْیَاءَ وَ بِبَصَرِہٖ یُبْصِرُ الْأَشْیَاءَ وَ بِسَمْعِہٖ یَسْمَعُ الْأَصْوَاتَ وَ فِيْ ہٰذِہِ الْحَالَةِ یَتَبَدَّلُ أَوْصَافُہ الذَّمِیْمَۃُ بَالاوْصَافِ الْحَسَنَۃِ وَ یَحْصُلُ لَهٗ شُعُوْرٌ تَامٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ وَ شَوْقٌ کَامِلٌ یَّتَوَاجَدُ بِہٖ" ”عقلِ کلی ایک نور ہے جو کہ محبوب کی جانب سے محب کے دل پر نازل ہوتا ہے تو اس کے باطن کو نورانی بنا دیتا ہے، اور اس کے ظاہر کو پاک و صاف بنا دیتا ہے۔ اسی عالم میں اس کا علم محبوب کے علم میں فنا ہو جاتا ہے۔
تشریح:
اگر ہم سمجھ لیں، تو میں کچھ چیزیں سمجھتا ہوں اور اللہ پاک سمجھتا ہے۔ لیکن اللہ کی سمجھ لامتناہی ہے اور ہماری سمجھ اس سے مستعار اور متناہی ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ جیسے آئینہ پڑا ہوا ہے، اس میں سورج کی روشنی آ رہی ہے۔ اس آئینہ سے جو روشنی باہر آ رہی ہے، اس کی سورج کی روشنی کے ساتھ کوئی نسبت نہیں ہے۔ اول تو اس کی ذات کی کوئی حیثیت نہیں ہے، کیونکہ وہ مستعار ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تھوڑی بھی ہے، اس لئے وہ سورج کے سامنے اپنے آپ کو نور کہتا ہوا شرمائے گا۔ یہاں بھی یہی بات ہے کہ اس کا علم محبوب کے علم میں فنا ہو جاتا ہے۔
متن:
اور پھر وہ اُس کے علم سے اشیاء کو جانتا ہے،
تشریح:
جب خود اس کا علم فنا ہو گیا، تو اس کے پاس کیا رہ گیا۔ جس نے اپنا علم اللہ کے لئے فنا کر دیا، تو confirm بات ہے کہ وہ بے علم نہیں ہو گا۔ کیونکہ یہ اللہ کا قاعدہ ہے کہ آپ جو چیز اللہ پاک کے لئے دیں، تو اللہ پاک وہی چیز اس سے زیادہ دیتا ہے۔ لہٰذا جس نے اپنے علم کو اللہ کے علم میں فنا کر دیا، تو وہ بے علم نہیں ہو گا۔ چنانچہ جو باقی رہ گیا، وہ اللہ کا ہی علم ہے۔ جب وہ اللہ کا علم ہے، تو وہ اللہ کے علم سے ہی سب کچھ کرتا ہے۔ کیونکہ خود اس کا علم تو رہا نہیں۔ چنانچہ باقی بات خود ہی اس کو پوری سمجھ میں آ جائے گی کہ جب اس کی نظر میں اس کا علم علم نہیں رہا اور وہ اپنے علم پر کوئی فیصلہ نہیں کر رہا، تو وہ اللہ کے علم پہ فیصلہ کرے گا۔ جب اللہ کے علم پہ فیصلہ کرے گا، تو پھر وہ ہو گا، جیسے آگے فرمایا:
متن:
اور پھر وہ اُس (یعنی اللہ) کے علم سے اشیاء کو جانتا ہے، اور اُس کی آنکھ سے اشیاء کو دیکھتا ہے، اور اُس کے کان سے سُنتا ہے، اور اس حالت میں اُس کی بُری صفتیں اچھی صفتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
تشریح:
فنا سے بقا میں چلا جاتا ہے۔ عدم فنا ہے، اس لئے فانی چیزوں کا عدم ہے، گویا عدم سے ہی وجود پا گیا یعنی اللہ کے ساتھ باقی ہو گیا۔ جب اللہ کے ساتھ باقی ہو گیا، تو اس کی جو صفات صحیح نہیں تھیں، فانی تھیں، اس کی وہی صفات اچھی ہو گئیں۔ کیونکہ اب اس کی نسبت اللہ کی طرف ہو گئی۔ میرے خیال میں بہت آسانی سے یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ جب اپنا علم فنا کر دیا، تو بے علم تو ہو نہیں سکتا۔ جب بے علم نہیں ہوا، تو وہ علم کون سا علم ہے؟ وہ اللہ کا علم ہے۔ اللہ کے علم سے ہی وہ سب کچھ کرے گا۔ جب اللہ کے علم سے ہی سب کچھ کرے گا، تو دیکھے گا بھی اس سے، سنے گا بھی اس سے، بولے گا بھی اس سے۔ اس حدیث شریف کے ساتھ مل جائے گا، جس میں فرمایا گیا ہے کہ میں اس کا کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے۔ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اس کا پاؤں بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔
متن:
اور اُس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے شعور تام حاصل ہو جاتا ہے، اور اُسی کی وجہ سے کامل عشق پا لیتا ہے۔“
تشریح:
میں کہتا ہوں کہ عشق وہی ہے، جو صحیح معشوق کے ساتھ ہو۔ جو عشق صحیح معشوق کے ساتھ نہ ہو، وہ عشق ہے ہی نہیں، وہ تو ہوس بن جائے گا۔
متن:
رسول اللہ ﷺ سے حدیث میں روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقل کو نور سے پیدا فرمایا اور اُس کو اپنے علم کے پردے میں محفوظ رکھا کہ نہ تو کسی فرشتے کو اُس کا علم ہوا اور نہ کسی پیغمبر کو۔ پھر اس کے لئے علم کو تن مقرر فرمایا۔ فہم کو اُس کی جان، زہد و تقویٰ کو اُس کے اسرار، اخلاص کو اُس کا چہرہ، شرم کو اُس کی آنکھ، خیر، نیکی اور سچ بولنے کو اُس کی زبان، تواضع کو اُس کی گردن اور ہوشیاری کو اُس کا گلا بنایا۔
تشریح:
لوگ confuse ہوتے ہیں کہ یہ کیا فرما رہے ہیں۔ یہ اثرات بتا رہے ہیں کہ اس علم کے اثرات کیا ہوں گے، کہاں کہاں پر کیا کیا ہوں گے۔ آنکھ پہ یہ اثر ہو گا کہ اس میں حیا آئے گی۔ زبان پہ یہ اثر آئے گا کہ وہ حق بولے گی۔ کان پہ یہ اثر آئے گا کہ وہ حق سنے گا۔ گویا اس کی وجہ سے جو جو چیزیں ہمارے حواس پہ قائم ہو رہی ہیں، وہی چیزیں بتا دیں، مثلاً: اخلاص کو چہرہ بنا دیا۔ اسی طرح باقی چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو اجر دے، یہ عجیب و غریب علوم ہیں۔
متن:
اُس کی آنکھ، خیر، نیکی اور سچ بولنے کو اُس کی زبان، تواضع کو اُس کی گردن اور ہوشیاری کو اُس کا گلا بنایا۔ اچھے کاموں کی پسند کو اُس کا سینہ، تفویض کو اُس کا دل، خود پسندی کو اس کا پیٹ، توکل کو اُس کی پشت
تشریح:
جیسے تکیہ ہوتا ہے۔ کیونکہ توکل کا معنیٰ ہے؛ بھروسہ کرنا۔ اور جس چیز پر انسان ٹیک لگاتا ہے، اس پر بھی بھروسہ کرتا ہے۔
متن:
سعادت کو اس کے ہاتھ، مواصلت کو انگلیاں، پرہیز کرنے کو اُس کا چمڑا، فصل اور جدا کرنے کو اُس کی پنڈلیاں، استقامت کو اُس کے پاؤں، خوف و ترس کو اُس کا نچھلا دھڑ اور اُمید و رجا کو اُس کا اوپر دھڑ بنایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُس کو کہا کہ مجھ سے اپنی حاجت طلبی کر، تو عقل نے عرض کیا یا الٰہی! اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما جس میں تو مجھے رکھے۔ خداوندِ جلیل و جبّار کی جانب سے آواز آئی کہ اے میرے فرشتو! تم اس بات کے گواہ رہنا کہ میں نے اُس شخص کو بخش دیا، جس شخص میں میں نے عقل کو ان اوصاف کے ساتھ رکھ دیا اور فرمایا: ﴿وَ أَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَ نَهَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ھِيَ الْمَاْوٰی﴾ (النازعات: 49-40)
تشریح:
گویا وہ جو اثرات ہیں، وہ ﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی﴾ میں ہیں۔ چنانچہ جس کی بنیاد تقویٰ ہے، اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔
متن:
”جس نے اپنے رب کے آگے کھڑے ہونے کے وقت اور حالت کا خوف کیا، اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے بچائے رکھا، تو اُس شخص کی آرام گاہ جنت ہے“۔ (لم أقف علی ہذا الحدیث)
اور عقل کی تخلیق کے برعکس ہوا (یعنی خواہشاتِ بد) کو پیدا کیا، جہالت کو اُس کا تن، غفلت کو اُس کی جان، اُمیدوں کو اُس کا سر بنایا، ریاکاری کو اُس کا چہرہ، شہوت کو اُس کی آنکھ، کبر و غرور کو اُس کی گردن، بیہودہ پن کو اُس کے کان، غرور کو اُس کا سینہ، لالچ کو اس کا منہ، جھوٹ کو اُس کی زبان، حسد کو اس کا دل، فسق کو اُس کا چہرہ، حرص کو اُس کا پیٹ، ظلم کو اُس کی پیٹھ، پلید کاری کو اُس کی شرم گاہ، فراموشی اور بھولنے کو اُس کی پنڈلیاں بنائیں۔ اب جو کوئی عقل رکھتا ہو اور ہوا و ہوس کے مطابق اعمال بجا لائے، وہ بھی ویسا تصور ہو گا، کہ اُس نے ہوا اور اپنی خواہشات کو اپنا خدا تسلیم و مقرر کیا ہے۔
﴿مَنِ اتَّخَذَ إِلٰھَہٗ ھَوَاہٗ…﴾ (الجاثیۃ: 23) اور جو کوئی اپنی خواہشات کے تحت عمل کرے تو ہاویہ (دوزخ) اُس کا مقام ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اطلاع ہم کو عطا فرمائی ہے: ﴿مَنِ اتَّخَذَ إِلٰھَہٗ ھَوَاہٗ…﴾ (الجاثیۃ: 23)
حدیث میں ہے کہ عاقل کون ہے عاقل وہ ہے جو کہ دنیا کے ساتھ محبت نہ کرے، اور آزاد وہ ہے جو کسی بندہ سے طمع نہ کرے۔
تشریح:
کیا بات ہے! واقعی آزاد وہ ہے جو لالچ نہ کرے۔ کیونکہ جو غرض کا بندہ ہے، وہ آزاد نہیں ہے۔
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست
میرے نفس کی خواہشات اتنی زیادہ ہیں کہ مجھے زنار کی حاجت نہیں ہے، کیونکہ سب چیزوں نے مجھے باندھ لیا ہے۔
میرے تارِ نفس کو نفس کے تاروں نے الجھایا
متن:
اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے بغیر مشغول ہو، اگرچہ وہ حلال فعل ہو تو وہ زیاں کار ہے اور اُس کو عاقل نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿يَآ أَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَ لَآ أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَأُولٰٓئِكَ هُـمُ الْخَاسِرُوْنَ﴾ (منافقون: 9) ”اے وہ لوگو! جو کہ ایمان لا چکے ہو، تم کو تمہارے مال و اولاد اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہ کریں۔ اور جس کسی نے ایسا کیا تو وہ زیان کار اور نقصان یافتہ ہے“ عقل معرفت کی وزیر و مشیر ہے اور اُس کا مقام دل میں ہے۔ اور عاقل اپنے گھر کو پاک و صاف رکھتی ہے تاکہ بادشاہ وہاں تشریف فرما کر نزول اِجلال فرمائے۔ اور امر و نہی عاقلوں کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بہترین اور بزرگ ترین نعمت اور محبت اُس کا اپنے بندوں کو عقل کا دینا ہے، پس باطن کے تمام اُمور عقل سے کئے جاتے ہیں۔ اور جو کچھ دل کے خزانے میں ہے، عقل کے نور کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔ جب تک نور معرفت اور نور عقل دونوں اکھٹے نہ ہوں، تو عاقل نہیں ہو سکتا، بلکہ ﴿أُوْلٰئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ھُمْ أَضَلُّ ۚ أُوْلٰئِکَ ھُمُ الْغَافِلُوْنَ﴾ (الأعراف: 179)
تشریح:
یہ بڑی عجیب آیت ہے: ﴿أُوْلٰٓئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ھُمْ أَضَلُّ﴾ یعنی پہلے فرمایا: وہ جانوروں کی طرح ہیں۔ پھر فرمایا: بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں۔ ﴿أُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْغَافِلُوْنَ﴾ یہی ہیں وہ، جو غافل ہیں۔ یعنی یہ اصل غافل ہیں، تبھی تو یہ جانوروں کی طرح ہو گئے ہیں۔
متن:
جانوروں اور چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے اور وہ غافل لوگ ہیں جس دل میں بُری باتیں زیادہ ہو جائیں، تو اچھی باتیں وہاں راہ نہیں پاتیں، کیونکہ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ "اَلضِّدَّانِ لَا یَجْتَمِعَانِ" (دو ضدیں آپس میں جمع نہیں ہو سکتیں) اپنے ذمائم یعنی بُری باتوں کو حمائد یعنی نیک باتوں سے تبدیل کرنا، تاکہ تُو عاقل ہو جائے۔ قول سے عقل کی تحقیق ہونی ہے۔ اور عقلِ عزیزی کا مغز یہ ہے کہ جو کچھ ظاہر ہو جائے اُس کو پہچان جائے، اور حال کا کمال اور حال کا فہم باطن سے تعلق رکھتا ہے۔
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ ظاہر یعنی ظاہری اعمال کو اس کے مطابق کر لے، جس طرح حکم ہے۔ اور جو حال ہے، اس کا تعلق باطن کے ساتھ ہے۔ یعنی میں نے نماز پڑھ لی، شریعت پہ عمل ہو گیا۔ لیکن طاقت کتنی آئے گی، جتنا اس کے اندر حال ہو گا۔ جتنی اس کے باطن میں طاقت ہو گی، اتنی ان اعمال کے اندر طاقت ہو گی۔ بے شک میں اپنے چہرے کو خوب رگڑوں، بیس دفعہ دھو کر پاک کر لوں، لیکن اس میں نور نہیں آئے گا۔ تین دفعہ دھونے سے نور آئے گا، کیونکہ یہ سنت ہے۔ گویا کہ ضروری طور پہ تو میں نے بہت رگڑا ہے، لیکن نور کا تعلق رگڑنے سے نہیں ہے، اس کا تعلق تو اس سے ہے، جہاں سے وہ آیا ہے۔ لہٰذا سنت طریقہ پہ عمل کرنے سے وہ نور حاصل ہوتا ہے۔ اور سنت پہ عمل سنت کے فہم سے ہو گا اور سنت کا فہم عقل کا کام ہے۔ جیسے حضرت نے فرمایا: عقل فہیمِ سنت ہو۔ چونکہ سنت کا فہم عقل کا فہم ہے، لہٰذا باطن سنورتا ہے حقیقی عقل سے، ایمانی عقل سے۔ یہ ایمانی عقل ہو گئی۔ کیونکہ سنت میں ہمیں تین دفعہ بتایا گیا۔ یہ ایمانی عقل ہے تبھی تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں تم میں دو چیزیں چھوڑے دیتا ہوں۔ ایک قرآن ہے اور دوسری چیز میری سنت ہے۔ اور اللہ پاک نے بھی فرمایا: ﴿اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ﴾ (النساء: 59) یہ سب ایمانی باتیں ہیں۔ کیونکہ یہ ہماری باتیں نہیں ہیں، یہ باتیں اوپر سے آئی ہیں۔ لہٰذا جب اس پر میں عمل کرتا ہوں، تو چونکہ یہ ادھر سے آیا ہے، لہٰذا اس میں نور ہے۔ اور جو میری طرف سے آیا ہے، فانی چیز سے آیا ہے، میری خواہش سے آیا ہے، اس میں نور نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے: ’’کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘ کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ کیونکہ یہ یہاں سے آئی ہے، ہمارے نفس کی خواہش سے آئی ہے۔ سُبْحَانَ اللہ! ایک عجیب بات ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ویسے حدیث شریف میں تو یہ آیا ہے کہ جس نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کی، اس نے خطا کی۔ چاہے اس نے صحیح تفسیر کر لی، لیکن اگر اس آیت کو ساتھ ملا دیا جائے: ﴿لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ﴾ (الحجرات: 2)
ترجمہ: ’’اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند مت کیا کرو‘‘۔
اگر اس کو دیکھا جائے، تو جو تفسیر آپ ﷺ سے منقول ہے، وہ الہامی تفسیر ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ کو وحی ہوئی ہے یا الہام ہوا ہے۔ جو بھی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ جب اللہ کی طرف سے ہے، تو آپ ﷺ نے جو تفسیر بتائی ہے، اگر آپ نے اس کا خیال نہیں کیا اور آپ نے قرآن کی اپنی طرف سے تفسیر بتائی، تو گویا یہ آپ ﷺ کے الفاظ پہ اونچا بول ہوا۔ اس وجہ سے اس میں راستہ کفر کو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ البتہ چونکہ عمومی قانون ظاہر پر چلتا ہے، لہٰذا الفاظ تو ظاہری یہی ہوں گے، جو مذکور ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ انسان کو وہی صحیح سمجھنا چاہئے، جو سنت سے ثابت ہے۔ جو سنت نہیں ہے، اس کو سنت کے مقابلہ میں صحیح سمجھنا، بالکل یہی بات ہے اور بدعت اسی کو کہتے ہیں۔ بدعت کو کوئی شخص ویسے نہیں کرتا، بلکہ اس کو ثواب سمجھ کے کرتا ہے۔ اور جو ثواب سمجھ کے نہیں کرتا، پھر وہ بدعت نہیں رہے گی۔ کیونکہ وہ دین کی چیز نہیں بنی، اور بدعت کا تعلق دین کے ساتھ ہے، دین کے اندر اضافہ، دین کے اندر نئی چیز پیدا کرنا۔ اس لئے اگر کوئی شخص غیرِ سنت کو کسی سنت کے برابر لا کھڑا کرتا ہے، تو ایک سنت سے محرومی ہو جاتی ہے اور دوسرا بدعت کا شکار ہو جاتا ہے اور ’’کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘ ساری بدعتیں گمراہی ہیں۔ اور فرمایا کہ ساری گمراہیاں جہنم میں جا رہی ہیں۔ لہٰذا ہم لوگوں کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ اول تو ہمیں غفلت سے بچنا ہے، کیونکہ غفلت سے ساری چیزیں آئی ہوئی ہیں۔ غفلت کا توڑ ذکر ہے اور اپنے آپ کی پہچان یعنی معرفت فکر ہے، یعنی معرفت ذکر کے ساتھ ہے۔ یعنی آپ کسی بھی چیز کی خاصیت کو جانتے ہیں، تو سوچ سے ہی جانیں گے۔ پانی کی خاصیت آپ جانتے ہیں، تیل کی خاصیت جانتے ہیں، کوئی شخص کھانے کے ساتھ تیل نہیں پیتا، کیونکہ اس کو پتا ہے کہ تیل اس کے لئے نہیں ہے۔ وہ یہ بات ذہن میں رکھتا ہے۔ اور اگر نہیں رکھتا، تو سزا بھی مل جاتی ہے۔ کوکا کولا پیپسی کولا کی طرح اپنا کباڑا بھی کرتے ہیں، پیسے بھی دیتے ہیں۔ نقصان بھی اپنے آپ کو پہنچاتے ہیں۔ بس جو چاہتے ہیں، وہ کریں۔ گویا ان چیزوں میں سوچ ہے، اس میں فکر ہے۔ جب ذکر اور فکر ملتے ہیں، تو یہ عقل مندی بن جاتی ہے۔ ذکر سے غفلت دور ہو گی، فکر سے سمجھ آئے گی۔ وہ سمجھ جو اللہ جل شانہ کے حوالہ سے ہو، وہ اصل سمجھ ہے۔ کیونکہ جب اللہ یاد ہو گا، تو اللہ کی طرف سے جو آ رہا ہے، اس کی افادیت کا وہ اقرار کرے گا اور اس کو سمجھے گا۔ اور اللہ یاد نہیں ہو گا، تو اپنے نفس کی کوئی خواہش یاد ہو گی۔ میں آپ کو ایک عجیب و غریب چیز بتاتا ہوں۔ اس discussion میں پتا نہیں کیسے یہ بات ذہن میں آ گئی۔ بہر حال! آ گئی۔ ہم جرمنی میں تھے، تو وہاں فروری میں ایک فیسٹیول منایا جاتا تھا، اس کو وہ فاشنگ کہتے تھے۔ فاشنگ کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ سردی کو رخصت کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں فروری میں سردی ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں تو سردی ختم نہیں ہوتی، لیکن ان کے خیال میں ختم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ میں فاشنگ کے فیسٹیول کے ساتھ چل رہا تھا، تو -1 temperature تھا۔ میرے پیروں میں خون جم گیا، پھر میں تیز تیز چلنے لگا۔ در اصل وہ سردی کو رخصت کر رہے تھے۔ سردی کو ایسے رخصت کر رہے تھے کہ بوڑھے بوڑھے مرد، بوڑھی بوڑھی عورتیں، پتا نہیں، عجیب و غریب حرکتیں کر رہے تھے، کہیں سے سرخ، کسی کو سفید، کسی کو سبز۔ زبان لبمی بنا رہے تھے، چہرے بنا لیتے۔ بس اسی میں لگے رہتے۔ یہ میں نے جتنے واقعات بیان کئے ہیں، آخر وہ کون سی چیز تھی، جو یہ سب کام کرا رہی تھی۔ اس کے پیچھے عقل کی کون سی بات تھی۔ لیکن جب اوپر سے کٹتا ہے، تو وہ کٹے ہوئے پتنگ کی طرح ہوتا ہے، پھر وہ کہیں بھی گر سکتا ہے۔ شرک کی یہی مذمت آئی ہے کہ جو شرک کرتا ہے، اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی کو راستہ میں کوئی پرندہ اچک لیتا ہے یا کسی گہری وادی میں گر کے پاش پاش ہو جاتا ہے۔ بہر حال! جب اللہ تعالیٰ سے رابطہ کٹتا ہے، تو پھر یہی کرتے ہیں۔ جانوروں کی زندگی گزارنے پہ فخر کرتے ہیں۔ جانوروں کی زندگی گزارنے پہ فخر کرتے ہیں، یہ اس کا نتیجہ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی کو کہہ دیں کہ تم جانور ہو، تو غصہ ہو جائے گا۔ لیکن جانوروں کی طرح کام کرے گا، مگر اس پہ غصہ نہیں ہو گا۔ یہی اصل میں بنیادی بات ہے کہ عقل جب تک صحیح کام نہ کرے، اس وقت تک انسان حیوان ہی ہے۔ حیوان اور انسان کے درمیان عقل ہی کا فرق ہے۔ لہٰذا جب عقل درمیان سے ہٹ جائے، تو پھر حیوان ہی ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ الگ ہے کہ یہ عقل میں نے تمہیں ممتاز بننے کے لئے دی ہے۔ استعمال نہیں کرو گے، تو چونکہ تم نے اس کی ناقدری کی، تو نتیجتاً جانور تو تم ہو ہی، بلکہ جانوروں سے بھی نیچے چلے گئے ہو۔ تمہاری حیثیت جانوروں سے نیچے ہے۔ کام تو جانوروں کے کر رہے ہو، لیکن حیثیت تمہاری جانوروں سے بھی نیچے ہو گئی ہے: ﴿أُوْلٰٓئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ھُمْ أَضَلُّ﴾ (الأعراف: 179)
ترجمہ: ’’وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں‘‘۔
انسان کو انسان رہنا چاہئے۔ ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ 0 ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ﴾ (التین: 5-4)
ترجمہ: ’’ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔ پھر ہم اسے پستی والوں میں سب سے زیادہ نچلی حالت میں کر دیتے ہیں‘‘۔
پس انسان کو اپنی انسانیت پہ فخر کرنا چاہئے۔ یہ غفلت والا فخر نہیں ہے، بلکہ معرفت والا فخر ہے کہ اللہ پاک نے مجھے انسان بنایا ہے۔ اس پر خوش ہونا چاہئے اور انسانیت کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے، حیوانیت کو دور کرنا چاہئے۔ حیوانیت بہت ہی نقصان کی چیز ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو صحیح معرفت نصیب فرما دے۔ اچھے اعمال کی توفیق عطا فرما دے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ