اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
متن:
’’جو کچھ میں جانتا تھا، اس سے بالکل توبہ کی، جب سے میں نے تمہارا نام یاد کیا‘‘۔
علماء نے کہا ہے کہ بے نیازی کا سورج جب علم اور علماء کے دریا پر چمک اُٹھا تو تمام دریاؤں میں ایک قطرہ تک نہ رہا۔ لوگوں نے کہا کہ اے صادق! تمہاری کلید (کنجی) سے تمام بندشیں کُھل جاتی ہیں، تمہارا دروازہ کیوں بند ہوا؟ تم کو علم ہے کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ ستاروں اور سیاروں کو اپنے وجود کا دعوٰی اُس وقت تک ہوتا ہے جب تک سورج کا بادشاہ نہیں نکل آتا ہے، جب سلطان آفتاب طلوع ہو جائے تو پھر کسی کے وجود کا دعویٰ باقی نہیں، نہ اُن کے دعوے ہیں، نہ چمک دمک اور نہ گلہ باتیں۔ اس حقیقت کو دیکھ کر یہ سمجھ لو کہ وجود کی ذات کی توحید کی برق کے سامنے کیا طاقت ہے۔
تشریح:
اصل میں اپنا اپنا اندازِ بیان ہے، ورنہ صحیح بات یہ ہے کہ بے انتہا کو انتہا کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔ جو بے انتہا ہوتا ہے، وہ بے انتہا ہوتا ہے اور جس کی انتہا ہوتی ہے، اس کی انتہا ہوتی ہے، چاہے وہ کتنا بڑا حضرت ہی کیوں نہ ہو۔ ہم بے انتہا کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اسی وجہ سے ہمیں مثالیں دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہماری کمزوری ہوتی ہے۔ مثلاً: آخرت کی زندگی لا متناہی ہے، تو اس سے لوگ اثر نہیں لیتے، لیکن کسی کو اگر کہہ دیں کہ تمہیں پانچ لاکھ سال جہنم میں رہنا پڑے گا، تو اس سے اثر لیتے ہیں، حالانکہ کہاں پانچ لاکھ سال اور کہاں بے انتہا! کوئی نسبت بھی نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ہم لوگ انتہا کے عادی ہیں، اس لئے بے انتہا سمجھ میں نہیں آتا۔ مثالیں دینی پڑتی ہیں۔ اللہ جل شانہ کی ذات چونکہ متناہی نہیں ہے، بلکہ غیر متناہی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے لئے جو محبت ہے، وہ بھی ایسی ہی ہو گی۔ نتیجتاً اس کو بیان بھی نہیں کیا جا سکے گا۔ ایسی صورت میں جتنا بھی بیان ہو گا، وہ ناکافی ہو گا۔ تبھی تو اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں کہ:
﴿وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ﴾ (لقمان: 27)
ترجمہ: ’’اور زمین میں جتنے درخت ہیں، اگر وہ قلم بن جائیں، اور یہ جو سمندر ہے، اس کے علاوہ سات سمندر اس کے ساتھ اور مل جائیں (اور وہ روشنائی بن کر اللہ کی صفات لکھیں) تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہیں ہوں گی‘‘۔
گویا یہ بھی اللہ پاک نے انتہا کے ذریعے سے سمجھایا۔ کیونکہ سات سمندر کی بھی تو انتہا ہے، محدود ہیں، لا محدود نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ سارے کا سارا بے انتہا کا بیان ہے، تو بے انتہا کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ لہٰذا اس کے بارے میں کوئی جتنی بھی کوشش کرے گا، وہ ناکافی ہو گی۔ اب اس کو آپ کسی بھی طریقے سے سمجھ لیں، بات اتنی ہی ہے۔ یہ جو بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ: "کَیْفَ الطَّرِیْقُ إِلَی اللہِ؟ فَقَالَ لِلسَّائِلِ: إِنْ غِبْتَ عَنِ الطَّرِیْقِ تَصِلُ إِلَی اللہِ" کہ اللہ تعالیٰ کی جانب کون سا راستہ ہے؟ فرمایا: جب تم اس راستہ پہ غائب ہو جاؤ گے، تو اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاؤ گے۔ یہ وہی وحدت الوجود ہے، جس میں انسان غائب ہو جاتا ہے، فنا ہو جاتا ہے۔ بے انتہا کے لئے فنا لازمی ہے۔ گویا فنا بھی بے انتہا ہوتی ہے۔ آپ اس کو اس مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ اگر ہم vaccum بنانا چاہیں، مثلاً: ہم نے کسی برتن سے ہوا نکالنا چاہی، آدھی ہوا نکال دی، تو 0.5 ہو گئی، پھر 0.4 ہو گیا، 0.3 ہو گیا۔ گویا جتنا جتنا آپ مزید کریں گے، تو جتنی طاقت آپ نے گزشتہ پہ استعمال کی، تو اس سے جو آدھی ہوا کم ہوئی تھی، اس سے اگلی دفعہ اتنی طاقت سے ہوا نہیں نکل سکے گی۔ پھر اس کے بعد جب مزید کریں گے، تو پھر اس سے دوگنا زور لگانا پڑے گا اور اتنی اور ہوا کم ہو جائے گی، مگر صفر تک کبھی نہیں آئے گی۔ گویا فنا بھی لا متناہی ہے اور بقا بھی اس کے ساتھ ہے۔ لہٰذا جب تم غائب ہو جاؤ گے اور فنا ہو جاؤ گے، تو پھر اللہ کو پا لو گے۔ گویا تمہاری ذات اللہ اور آپ کے درمیان حائل ہے۔ جب تک اس کو پورا غائب نہیں کرو گے، اس وقت تک اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتے۔ اگر ذرہ بھر بھی کسی جگہ بھی تم باقی ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تک تم واصل نہیں ہو۔ وہاں تم پہنچے ہوئے نہیں ہو۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی مثال مختلف طریقوں سے دی ہے۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ صرف مثالیں دیتے رہیں گے۔ اور وہ چیز نامکمل ہو گی۔ فرمایا کہ انسان اگر اللہ پاک کی ذات میں فنا ہوتا ہے، تو فنا ہے، ورنہ اگر صفات میں فنا ہو، تو جن جن صفات میں فنا ہے، ان میں تو فنا ہے، اور جن میں فنا نہیں ہے، وہاں ابھی موجود ہے۔ اگر وہ سامنے آ جائیں گی، تو مسئلہ ہو جائے گا۔ گویا جب انسان ذات میں فنا ہو گا، تو باقی نہیں رہے گا اور اگر باقی رہے گا، تو فنا نہیں ہو گا۔ جیسے ذات بے انتہا حیرت ہے، اسی طرح فنا بھی محویت ہے۔ انسان اس کو نہیں سمجھ سکتا، یہ حیرت در حیرت ہے۔
یہاں بھی یہ فرمایا ہے کہ ہم اپنے آپ میں لگے ہوئے ہیں، کیونکہ ابھی فانی نہیں ہیں، اپنے مفادات میں لگے ہوئے ہیں۔ کتاب میں فنا کے عنوان پہ ہماری بات ہو رہی تھی، جس میں یہ بتایا گیا کہ جیسے اللہ تعالیٰ میں فنائیت کامل تب ہوتی ہے، جب انسان ذات میں فنا ہو، صفات میں فنا نہ ہو، اسی طرح جس کو شیخ کی ذات میں فنا حاصل ہو، وہ فانی ہوتا ہے۔ اور جو صفات میں فانی ہوتا ہے، وہ اصل میں فانی نہیں ہوتا۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی، ہضم نہیں ہو رہی تھی، تو اس کی مثال یہ دی گئی کہ جیسے کوئی کسی شیخ کی خوش خلقی سے مرغوب ہے اور اس میں فانی ہے، تو اگر شیخ تربیتاً کبھی سختی کرے گا، تو یہ چلا جائے گا۔ کیونکہ فانی نہیں ہے۔ کیونکہ شیخ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا وہاں پر بھی یہ معاملہ سامنے آئے گا کہ آیا آپ اپنے آپ کو مٹا کر واصل ہوئے ہو یا نہیں؟ لوگ بیعت کا لفظ کس لئے استعمال کرتے ہیں؟ ہم لوگ الفاظ رٹ لیتے ہیں، لیکن الفاظ کو سمجھتے نہیں ہیں۔ بیعت کرنے کا مطلب ہے؛ اپنے آپ کو بیچنا۔ چنانچہ جب اپنے آپ کو بیچ دیا، تو پھر تم تو ہو ہی نہیں۔ بہر حال! انسان جب تک خود کسی نہ کسی درجہ میں موجود ہے، اس وقت تک وہ واصل نہیں ہے۔
متن:
ہم اپنے سر اور داڑھی کی فکر میں ہیں، چونکہ ہم خود اپنے آپ کو دیکھتے ہیں اِس لیے ہم اپنے آپ کی پرستش کرتے ہیں۔
تشریح:
یعنی اپنے جذبات، احساسات اور نفس کی خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں، پرستش کا لفظ اصل میں کنایہ ہے، یہ اصل نہیں ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کوئی نفس کی پرستش کیسے کر سکتا ہے؟ قرآن پاک میں ہے: ﴿اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ﴾ (الجاثیہ: 23)
ترجمہ: ’’پھر کیا تم نے اسے بھی دیکھا، جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہے‘‘۔
یہاں نفس کی خواہشات کو اِلٰہ کہا گیا ہے، اور اِلٰہ کی پرستش کی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کو آگے رکھتا ہے۔ لہٰذا معاملہ خطرناک ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ پاک بہت غفور و رحیم ہے، بہت زیادہ معاف فرماتے ہیں۔ ورنہ صحیح بات یہ ہے کہ اگر ہماری ایک ایک چیز بھی تولی جائے، تو کام خراب ہو جائے گا۔
متن:
اور اگر ہماری نگاہ اپنی نادانی اور جہالت کی وحشت اور اپنے نفس کے بت پر پڑ جائے اور ہم ان کا خیال رکھیں تو پھر ہم ہرگز مسلمانی نہیں کریں گے۔ (نفس درمیان میں حائل ہو جائے گا) اور یہ نگاہ تم اُس وقت کر سکو گے کہ شریعت کے جام سے ایک قطرہ تمہاری زندگی کے منہ میں پڑ جائے اور تمہارے دل کی آنکھ کھل جائے تو پھر اُس وقت تم اس شعر کے معنی سمجھ جاؤ گے۔ فرمایا ہے: بیت ؎
توبہ کردم ز ہر چہ دانستم
نامہ چوں نام تو زبر کردم
’’جو کچھ میں جانتا تھا، اس سے بالکل توبہ کی، جب سے میں نے تمہارا نام یاد کیا‘‘۔
تشریح:
یعنی جب تو مجھے یاد ہو گیا، تو میں خود اپنے آپ کو بھول گیا۔ کیونکہ تیری یاد ایسی ہے کہ اگر حقیقی معنوں میں ہو، تو وہ کسی اور چیز کو باقی نہیں رہنے دیتی۔ اور تو چھوڑیں، ہماری زندگی میں بھی کئی ایسی چیزیں موجود ہیں۔ آج بھی ہماری آپس میں یہ بات چل رہی تھی کہ جو چیزوں کو بھول جاتا ہے، اس کو ہم پروفیسر کہتے ہیں۔ عینک پروفیسر کے پاس ہوتی ہے اور وہ عینک کو تلاش کر رہا ہوتا ہے، لوگ اس پہ ہنستے ہیں۔ حالانکہ ہنسنے والی بات نہیں ہوتی۔ وہ اپنے topic میں اتنا گم ہے کہ اس کو اپنی چیز یاد نہیں رہتی، گویا کسی بھی چیز میں ایک انسان depth میں جائے گا، تو باقی چیزیں اس کی نظر سے ہٹتی جائیں گی۔ اور جب اس میں تکمیل تک پہنچ جائے گا، تو اپنا سب کچھ بھول جائے گا۔ اپنے آپ کو بھی بھول جائے گا۔ یہی فنا ہے۔
متن:
علماء نے کہا ہے کہ بے نیازی کا سورج جب علم اور علماء کے دریا پر چمک اُٹھا تو تمام دریاؤں میں ایک قطرہ تک نہ رہا۔
تشریح:
کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کے سامنے کسی کا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو بے نیازی کو جانتے ہوں، وہ لزرتے رہتے ہیں اور جو عفو و کرم کو جانتے ہیں، وہ خوش ہوتے رہتے ہیں۔ جیسے میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
عدل کریں تے تھر تھر کمبن، اُچیاں شاناں والے
فضل کریں تے بخشے جاون، میں جے وی منہ کالے
یعنی اگر عدل کریں، تو پھر ہمارا معاملہ خراب ہے، پھر بڑے بڑے لوگ تھر تھر کانپیں اور اگر کرم کریں، تو پھر سب تر جائیں۔
متن:
لوگوں نے کہا کہ اے صادق! تمہاری کلید (کنجی) سے تمام بندشیں کُھل جاتی ہیں، تمہارا دروازہ کیوں بند ہوا؟ تم کو علم ہے کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ ستاروں اور سیاروں کو اپنے وجود کا دعوٰی اُس وقت تک ہوتا ہے جب تک سورج کا بادشاہ نہیں نکل آتا ہے،
تشریح:
یعنی جب سورج نکل آتا ہے، تو ستارے چُھپ جاتے ہیں۔ یہ بالکل وحدت الوجود ہی کو بیان کر رہے ہیں۔
متن:
جب سلطان آفتاب طلوع ہو جائے تو پھر کسی کے وجود کا دعویٰ باقی نہیں، نہ اُن کے دعوے ہیں، نہ چمک دمک اور نہ گلہ باتیں۔ اس حقیقت کو دیکھ کر یہ سمجھ لو کہ وجود کی ذات کی توحید کی برق کے سامنے کیا طاقت ہے،
تشریح:
یعنی اللہ کے علاوہ جو موجود ہے، توحید کے سامنے وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اگر کسی کا کچھ ہے، تو اس کی حقیقت وہی ہے۔ جیسے آگے فرمایا:
متن:
جب اُس کے علم کا آفتاب نمایاں ہو کے چمکے تو تمام علوم جہل بن جاتے ہیں، اور جب اُس کی ارادت کی روشنی ضیا پاشی کرے تو تمام ارادے نیست و نابود ہو جاتے ہیں، اور جب اس کی قدرت ضوفنائی پر اُتر آئے تو تمام قدرتوں کا ناطقہ بند ہو جاتا ہے، اور جب اُس کی عزت کا جلال رونمائی کرے تو تمام جلال اور تمام عزتیں ذلت کی مٹی میں مِل جاتی ہیں، اور جب اُس کی وحدانیت اپنے جمال سے پردۂ کبریائی سرکائے تو تمام موجودات عدم کے صحرا میں نابود ہو جاتے ہیں، جہاں تک تم سے ہو سکے، کچھ ہونے یا کچھ کر سکنے کا دعویٰ نہ کرو، اگرچہ اللہ تعالیٰ نے تم کو بہت کچھ عطا فرمایا۔ اور تم کو سرمایہ دینے میں بخل سے کام نہیں لیا ہے لیکن با ایں ہمہ تم اپنے آپ کو اور اپنی حیثیت کو فراموش نہ کرو، اور اپنی انانیت کے دعوے سے باز آؤ۔ یہ نہ کہو کہ میں ایسا ہوں اور ایسا دعویٰ رکھتا ہوں، ورنہ تمہارے ساتھ بھی وہی کچھ کرے گا جو کہ فرعون سے کیا تھا جس نے یہ بڑ ہانکی تھی کہ ﴿أَنَا رَبُّکُمُ الْأَعْلٰی﴾ (النازعات: 24)
تشریح:
فرعون نے اعلاناً کہا تھا۔ اور ہمارا نفس ہر وقت یہ کہتا ہے، لیکن چُھپ کے کہتا ہے۔ چنانچہ جب آپ اللہ کے حکم کو بائی پاس کرتے ہیں، تو گویا آپ نے نفس کو بڑا مان لیا۔
متن:
اور تمہارا نفس، جبہ و دستار کی آڑ اور پندار میں تم سے کہتا ہے کہ "أَنَا رَبُّکُمْ" ”میں تمہارا رب ہوں“ تمہارا نفس بھی وہی دعویٰ کرتا ہے جو دعویٰ فرعون کا نفس کرتا تھا لیکن فرعون کا نفس جیسا کہ وہ تھا برملا بلا کم و کاست اپنے آپ کو ظاہر کرتا تھا، مگر تمہارا نفس مسلمانی کے لباس میں تم سے کہتا ہے اور تم غرور اور دھوکے کے جام چڑھاتے رہتے ہو، تمہارے نفس کا بھی وہی دعویٰ ہے جو کہ فرعون کے نفس کا تھا لیکن تمہارے نفس کو جان کا خوف ہے، اگر وہ یہ دعویٰ کرے تو خطرہ ہے کہ برباد ہو جائے گا۔ یاد رکھو اور ہوش میں رہو کہ خداوند، آقا اور مالک نہ بنو، بلکہ غلام ہو کر رہو۔ کیونکہ یہاں توحید کی شمشیر بُراں نکالی گئی ہے، جو کوئی پیدا ہوتا ہے اُس کا سر قلم کیا جاتا ہے، چنانچہ ابلیس پیدا اور ظاہر ہوا تو اُس کا سر اُڑا دیا۔ بندہ اور غلام کی کچھ ملکیت نہیں ہوتی اور نہ اُس کی بادشاہی ہوتی ہے، چاہے جو کچھ کرے اپنے مالک کی اجازت سے کرے، نہ کہ اپنی مرضی اور اختیار سے کرے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ ﴿ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰى شَيْءٍ…﴾ (النحل: 75) ”اللہ تعالیٰ نے مثال دی ہے ایک مملوکہ بندے کی جو غیر کا مملوک اور بندہ ہے، اور کسی چیز کے کرنے کی قدرت نہیں رکھتا“
ایک عالم کے لیے معرفت چاہئے اور ایک پیرِ کامل کا سایہ چاہئے، کیونکہ ایک پیرِ کامل کے دربار کے بغیر علم و معرفت حاصل کرنا مشکل ہے۔ کہا گیا ہے کہ "مَنْ لَّمْ یَکُنْ إِمَامُہٗ فِي الدِّیْنِ فَإِمَامُہُ الشَّیْطٰنُ" ”جس کا کوئی امام اور مرشد دین میں نہ ہو تو اس کا امام شیطان ہوتا ہے“ اور علماء نے فرمایا ہے کہ "اَلْعِلْمُ یُؤْخَذُ مِنْ أَفْوَاہِ الرِّجَالِ" ”علم لوگوں کی زبان سے حاصل کیا جاتا ہے“ جو کوئی اپنی مراد و خواہش سے اپنا معاملہ طے کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ ایک ہوشیار شخص کتاب سے یاد کرے اور پھر وہ کہہ ڈالے۔ اگرچہ وہ عالم ہوتا ہے مگر چونکہ بے اُستاد ہوتا ہے اس لیے ٹھیک نہیں ہوتا۔ پس یہ بات جان لو کہ جب تم نے توبہ کی تو تمہارا لقمہ بدل جائے گا اور تمہارا کام بدل جائے گا، اور اگر تم ہزار مرتبہ اپنے لباس و خوراک کو تبدیل کرو گے، جب تک کہ خود تبدیل نہیں ہوتے تو یہ سب کچھ، کچھ فائدہ نہیں دیتا۔ اس بات سے معلوم ہوا کہ اس گروہ کے درمیان اصلی چیز گردش ہے اور مجاہدہ ریاضت اور خلوت سے مراد گردش ہے۔ گردش کے بغیر کوئی روشنی حاصل نہیں ہوتی، تم جس کو بھی دیکھو گے اپنی ظاہری شکل کے ساتھ چمٹا ہوا ہے، اپنی پگڑی، چہرے، جوتے کے غم میں اور کپڑوں کی درازی، سفیدی اور سبز رنگ کی فکر میں گرفتار ہے،
تشریح:
حضرت نے معاشرے کی ساری چیزیں کھول کر رکھ دی ہیں۔ انسان ان چیزوں میں پھنسا ہوتا ہے۔ یہ بنیادی بات ہے۔ یہی چیزیں انسان کے لئے حجابات ہیں، انسان ان چیزوں کی فکر کرتا ہے۔ مثلاً: حق بات سے رُکتا ہے، اور اس لئے رُکتا ہے کہ لوگ ناراض نہ ہو جائیں اور لوگ میری بے وقعتی نہ کریں۔ گویا دنیا کی چیزوں میں پھنسا ہوا ہے۔ کیونکہ آدمی یہی سوچتا ہے کہ کہیں پوسٹ سے محروم نہ ہو جاؤں، کہیں پیسوں سے محروم نہ ہو جاؤں، گاہک ناراض ہو جائے گا، کہیں تعلقات سے محروم نہ ہو جاؤں۔ کبھی کسی اور چیز کا سوچتا ہے کہ اس سے محروم نہ ہو جاؤں۔ یہ ساری کی ساری باتیں اپنے آپ کی ہیں، اپنے آپ کو پروان چڑھانے کی ہیں۔ حق بات کی طرف نہیں ہیں۔ یہ باتیں کیسے نکلیں گی، صرف باتوں سے تو نہیں نکلیں گی۔ یہ ریاضت کے ذریعے سے نکلتی ہیں۔ خواجہ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادگی ریاضت اور مجاہدے سے نکلی تھی۔ صاحبزادگی کیا ہوتی ہے؟ اپنی حیثیت کو یاد رکھنا کہ میں تو فلاں کا بیٹا ہوں، فلاں کا پوتا ہوں، یہی صاحبزادگی ہوتی ہے۔ ان کو یہ چیز یاد تھی، لہٰذا اس کا اثر زیادہ تھا۔ چنانچہ اس کو نکالنے کے لئے کون سا کام کروایا گیا؟ کیا ان کو یہ نصیحت کی گئی کہ تم صاحبزادے نہیں ہو؟ کیا ان کو روزانہ لیکچر دیئے گئے کہ تم صاحبزادے نہیں ہو؟ اس طرح کی ایک بات بھی نہیں کی گئی کہ تم صاحبزادے نہیں ہو، بلکہ ان کو ریاضت کی بھٹی سے گزارا گیا، وہ خود ہی جان گئے کہ میں کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ جب نفس کے اوپر زور پڑتا ہے، تو یہ مانتا ہے۔ اور جب تک نفس نہیں مانتا، لیکچروں سے نہیں مانتا۔ لیکچروں سے تو آدمی صرف حاصل کر لیتا ہے کہ میں عالم ہوں، اپنے آپ کو عالم کہلوانا حاصل کر لیتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو عالم سمجھتا ہے۔ بس یہی بنیادی چیز ہے، جس کے بارے میں حضرت نے بتایا ہے کہ ہمارے اور اللہ کے درمیان ہمارا نفس آڑ ہے۔ ہم جب نفس کی بات مانتے ہیں، تو اللہ سے دور ہو جاتے ہیں۔ اللہ کے قریب آنے کے لئے طریقہ یہ ہے کہ اپنے نفس کی بات نہ مانیں۔ گویا اپنے آپ کو یاد نہ رکھیں۔ اپنے آپ کو یاد نہ رکھنے کے لئے اور اپنے نفس کو مٹانے کے لئے ریاضت کی ضرورت ہے اور ریاضت کے ذریعے سے جب نفس مٹتا مٹتا بالکل فنا ہو جاتا ہے، تو پھر اپنا آپ بالکل یاد نہیں رہتا کہ میں کون ہوں۔ پھر اللہ جل شانہ اس کو دوبارہ ایک نئی جان دیتے ہیں، جس کو بقا کہتے ہیں۔ اس وقت اس کو یہ یاد ہوتا ہے کہ جو میرا ہے، وہ میرا نہیں ہے، وہ نسبت یاد رہتی ہے۔ مثلاً: گاڑی میرے پاس ہے، لیکن rent a car والی ہے، تو میں اس کو اپنی گاڑی نہیں کہوں گا۔ اگرچہ میں اس کو چلاؤں گا، اس کو خوب استعمال کروں گا، لیکن اس کو کبھی بھی اپنی گاڑی نہیں کہوں گا۔ اسی طرح آپ کسی کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں اور کوئی دوست آپ کو کہتا ہے کہ ’’مَا شَاءَ اللہ‘‘ آپ کا بہت اچھا مکان ہے۔ آپ کہتے ہیں: ہاں! مکان تو اچھا ہے، لیکن میرا نہیں ہے۔ مکان کے اچھے ہونے سے انکار نہیں ہے، لیکن میرا نہیں ہے، میری ملکیت نہیں ہے۔ اسی طرح جب عالم کو معرفت بھی حاصل ہو جائے اور نفس درمیان سے نکل جائے، تو پھر اس کو پتا ہوتا ہے کہ یہ علم ہے، لیکن میرا نہیں ہے۔ ﴿وَمَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ﴾ (ھود: 88) ان الفاظ کو ہر ایک یاد رکھتا ہے، لیکن کیا اس کو ہر ایک سمجھتا ہے؟ جب کوئی اس کو سمجھ گیا، تو پھر اس پر عجب اور فخر نہیں ہو گا۔ فخر اسی وقت ہو گا، جب اس کو اپنا سمجھتا ہے۔ اگر اللہ کا سمجھے، تو یہ شکر ہو جائے گا۔ لہٰذا کسی چیز کو اللہ کا سمجھنا ہی شکر ہے۔ بہر حال! اگر ایک انسان ان چیزوں میں گرفتار ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا۔ ہمارے مشائخ جو مجاہدات و ریاضات کراتے رہتے ہیں اور مٹاتے رہتے ہیں، یہ کیوں مٹاتے رہتے ہیں؟ کیا ان کو شوق ہے؟ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جب سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور حضرت سے نصیحت کی درخواست کی، تو حضرت نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا اور فرمایا: اتنے بڑے علامہ کو میں کیا نصیحت کروں گا۔ اس میں حضرت نے اپنے آپ کو مٹایا۔ پھر فرمایا: ہاں! ایک نصیحت جو میں اپنے آپ کو کرتا رہتا ہوں، سب کو کر سکتا ہوں۔ فرمایا: ہم یہاں مٹنے کے لئے آئے ہیں، جتنا اپنے آپ کو مٹا سکتے ہیں، مٹائیں۔ بس یہی فرمایا۔ یہ مٹانا کیا چیز ہے؟ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ پہلے بھی عالم تھے اور زبردست عالم تھے، لیکن مٹے ہوئے نہیں تھے۔ جب اس راستے پہ گئے اور مٹ کے واپس آ گئے، تو ان کا علم بڑھ گیا تھا، لیکن پھر اپنے آپ کو عالم نہیں سمجھتے تھے۔ یعنی جو اپنے آپ کو عالم کہتا ہے، سو فیصد یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ علم کو بھی نہیں جانتا کہ علم کس کو کہتے ہیں۔ لہٰذا وہ کیسا عالم ہے۔ وہی عالم بن سکتا ہے، جو پہلے علم کو تو جانے۔ جو علماء اس نقطہ کو جان لیں کہ علم کیا ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو عالم نہیں کہتے، بے شک دنیا ان کے علوم سے مستفید ہو، لیکن وہ اپنے آپ کو عالم نہیں کہیں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میرا تو اس میں کوئی کمال نہیں ہے۔ یہی ہمیں تعلیم دی جاتی ہے: ﴿وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ﴾ (الکہف: 23-24)
ترجمہ: ’’اور (اے پیغمبر!) کسی بھی کام کے بارے میں کبھی یہ نہ کہو کہ میں یہ کام کل کر لوں گا۔ ہاں ( یہ کہو کہ) اللہ چاہے گا، تو (کرلوں گا)‘‘۔
’’اِنْ شَاءَ اللہ‘‘ کے فقرے میں اپنے آپ کو مٹانا ہے۔ ’’مَا شَاءَ اللہ‘‘ میں بھی اپنے آپ کو مٹانا ہے۔ ’’سُبْحَانَ اللہِ‘‘ میں بھی اپنے آپ کو مٹانا ہے۔ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ میں بھی اپنے آپ کو مٹانا ہے۔ کیا ان معنوں کے ساتھ کوئی ان کو سمجھتا ہے؟ ’’سُبْحَانَ اللہِ‘‘ میں تم اللہ پاک کی پاکی بیان کرتے ہو، اپنے آپ کو پاک نہیں سمجھتے۔ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ میں اللہ کی تعریف بیان کرتے ہو، اپنی تعریف سے نظر ہٹاتے ہو۔ ’’مَا شَاءَ اللہ‘‘ میں تمہاری نظر اللہ کی طرف جاتی ہے، چیزوں سے ہٹ جاتی ہے، اپنے آپ سے ہٹ جاتی ہے۔ ’’اِنْ شَاءَ اللہ‘‘ میں تم اپنے ارادے کو مٹاتے ہو کہ میرا ارادہ کچھ بھی نہیں ہے، جب اللہ کا ارادہ ساتھ نہیں ہو گا، تو کام نہیں ہو سکتا، گویا اس میں بھی اپنے آپ کو مٹاتے ہو۔ ہمیں تعلیم ہی ساری یہی دی گئی ہے۔ جیسے ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ ہے، یہ بھی اسی کی ایک تعلیم ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں تصوف نہیں ہے، حالانکہ تصوف اسی کو کہتے ہیں۔ تصوف یہی ساری چیزیں ہیں۔ اصل میں اگر ہم تھوڑا سا غور کریں، تو لفظ لفظ میں ان چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن ہم غور نہیں کرتے۔
متن:
اور خود اپنی پرستش کرتا ہے، یا تو تم اپنی غلامی کرو گے اور یا دین کی غلامی کرو گے، کیونکہ "اَلضِّدَّانِ لَا یَجْتَمِعَانِ" ”دو ضدیں اور مخالف چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہوا کرتیں“۔ جس وقت تک تم اپنے دل میں اپنے لیے جاہ و جلال اور شان و شوکت کی آرزو و خواہش اور لوگوں میں مقبولیت کی تمنا رکھتے ہو اور جب لوگ تم کو حقیر جانیں اور تم اُن کی بے عزتی اور بے حرمتی کا ارادہ رکھتے ہو اور اُن کے بارے میں تمہارے دل میں غصّہ ہو تو سمجھ لو کہ تم وہی ہوشیار آدمی ہو یا کوئی محترم خواجہ ہو، اور ابھی تک دین نے تم کو قبول نہیں کیا ہے، تم کو چاہئے کہ اپنے آپ کو تبدیل کرو، تم صرف کپڑے تبدیل کرتے ہو
تشریح:
یعنی عمامہ پہن لیتے ہو، قبا پہن لیتے ہو۔ گویا کپڑے تبدیل ہو گئے، اپنے آپ کو تبدیل نہیں کیا۔
متن:
ایک ہزار سال بھی ایک ہی خرقہ میں گزارو اور تمام عمر ایک پاؤں پر کھڑے رہو اور صومعہ میں مقیم رہو اور اُس کے دروازے کو بالکل بند کر دو تاکہ کوئی شخص تم کو نہ دیکھے اور پرندے تم پر گرمی کے موسم میں سایہ کریں، تو خیال کرو کہ اپنے نفس سے دھوکہ نہ کھاؤ کہ سب نفس کا فریب، دھوکہ اور فکر ہے۔ خیال کرو، تاکہ تمہارے جسم کا ہر بال تمہارے کفر پر گواہی نہ دے اور تم سے بیزاری اختیار نہ کرے، تم پر سعادت کا دروازہ نہیں کھولا جائے گا اور دین کا بادشاہ تمہاری حمایت نہیں کرے گا، آخر تم نے دیکھا ہوگا کہ سانپ اور بچھو سردی کے موسم میں حرکت نہیں کرتے اور کسی مقام میں خلوت گزین ہوتے ہیں، اُن کا یہ عمل اصلاح اور تقویٰ کی وجہ سے نہیں، بلکہ حالات اُن کے حق میں نہیں ہوتے،
تشریح:
یعنی لوگوں کے ڈر سے خاموش ہو جانا، لوگوں کے ڈر سے متقی بن جانا، یہ تقویٰ نہیں ہے۔ تقویٰ تو اللہ کے ڈر سے ہوتا ہے۔
متن:
جب ہوا گرم ہو جاتی ہے اور گرم ہوا چلنے لگتی ہے اور حالات اُن کے موافق ہو جاتے ہیں، تو تم اُس وقت دیکھو اور تماشا کرو کہ وہ کیا کرتے ہیں، انسان کا نفس اُس کا سانپ اور بچھو ہے، اگر کچھ عرصہ وہ گھر میں بیٹھے اور اپنی اصلاح خود کرے تو سمجھ لو کہ یہ سب کچھ کیا ہے، معاملہ اُس کے حسبِ خواہش نہیں، اُس کی خواجگی اور سرداری میں کچھ نقصان پڑ چکا ہے، یہ چاہتا ہے کہ اس کی سرداری بڑائی اور خواجگی میں جو کمی واقع ہوئی ہے وہ اسی دھوکہ اور فریب سے چھپ جائے۔ چنانچہ تم نے بہت سے اہل روزگار ملازم پیشہ اور کارداروں کو دیکھا ہوگا کہ جب وہ اپنے کام سے معزول ہو جائیں اور اُن کے اختیارات اور فرمان روائی میں فرق اور کمی آجائے تو وہ مصلیٰ بچھا کر اُس پر بیٹھ جاتے ہیں۔
تشریح:
اور اگر ان کو پھر ایسا کام مل جائے، تو پھر وہی کرنے لگتے ہیں۔ گویا وہ عبادت صرف حالات کی وجہ سے کر رہے تھے۔
متن:
اور رحل سامنے رکھ کر اُس میں قرآن کریم رکھ کر قرآن خوانی کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، نفل پڑھتے ہیں، اور لمبی لمبی نمازیں پڑھتے ہیں، اور جو کوئی ان کو دیکھ پاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اگر کچھ کام ہے تو یہی کام ہے، لیکن حقیقت میں یہ کام نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر احسان فرمایا ہے، یہ باتیں حقیقت میں درست اور صحیح ہیں مگر ان سے وہ مراد نہیں جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ تم نہیں دیکھتے کہ اگر اُس کو وہ شغل، وہ مرتبہ اور وہ مقام پھر سے دیا جائے تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے گا، اور پیروں، مرشدوں اور بزرگوں کی روح پر دعویٰ کرے گا۔ اس طرح ایک آدمی اپنے گھر میں کچھ عرصے کے لیے بیٹھ جاتا ہے اور زبان کو درست کرتا ہے اور اُس تلوار کو زہر کا پانی دیتا ہے تاکہ اُس سے لوگوں کو مارتا جائے، اور جہالت کی وجہ سے اپنے نفس کے اس زہر کو دین پر غیرت کرنا کہتا ہے، اور اپنی حماقت اور نادانی سے نفس کی پاسداری اور عزت کو شریعت کی نگہبانی کہتا ہے۔
تشریح:
حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ عجیب بات فرمائی تھی۔ فرمایا: لوگ دین کو بنیاد بنا کر غصہ کرتے ہیں، حالانکہ وہ غصہ اپنی ذات کے لئے کرتے ہیں۔ کسی بات کے تناظر میں یہ بات بیان فرمائی تھی۔ میں جب اس بات پر غور کرتا ہوں، تو مجھ پر بہت سی حقیقتیں کھلتی جاتی ہیں۔ لوگوں نے دین کو آڑ بنایا ہے۔ جو ان کا نفس کرتا ہے، اس کو وہ دین کا کام دکھا کر کرتے ہیں کہ میں تو دین کا کام کر رہا ہوں۔ ہماری پشتو میں اس کے لئے ایک ضربُ المثل ہے: ’’د مانځه په بهانه ترې خوړل‘‘۔ یعنی نماز پڑھنے کے بہانے کھیرے کھانا۔ کوئی آدمی کھیروں کے کھیت میں گیا تھا، کھیرے کھانا چاہتا تھا، مالک آیا، تو اس نے نماز کی نیت باندھ لی اور جب سجدے میں جاتا، تو کھیرے کھا لیتا، پھر کھڑا ہو جاتا۔ اس کی نماز اللہ کے لئے تھوڑی تھی! وہ تو کھیروں کے لئے تھی۔ اور ایسا ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے، لیکن یہ ایسا سچ ہے کہ جس کو سچ سمجھنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے، کیونکہ یہ سچ اپنے آپ کے ساتھ ٹکرا رہا ہے۔ یہی چیز ہمارے ارد گرد نظر آ رہی ہے۔ اللہ ستّاری فرما دے، تو علیحدہ بات ہے، ورنہ چیز تو یہی ہے۔ اگر اللہ ستَّاری فرمائیں، تو یہ اس کا کرم ہے، یہ ہمارا حق نہیں ہے۔ لہٰذا کبھی اگر پردہ اٹھا دیں اور حقیقت دکھا دیں، تو کیا ہو جائے۔ مثلاً: میں بڑا نیک بنا ہوا ہوں، لیکن کسی کے خواب میں میرے بارے میں ساری چیزیں کھل جائیں، تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ اللہ کے لئے نا ممکن تو نہیں ہے۔ یا کسی نیک آدمی کو الہام کر دے کہ میری حالت کو ذرا صحیح صحیح بیان کر دیں کہ یہ اس طرح ہے۔ لہٰذا ستَّاری پہ انسان کو دلیر نہیں ہونا چاہئے۔ اس پہ انسان کو مزید فکر مند ہونا چاہئے۔ اللہ تعالی ستَّاری فرماتے ہیں، لیکن ستَّاری سے لوگ ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں، اس پہ ڈرتے رہیں، اللہ پاک سے معافی مانگتے رہیں۔ یہ جو فرمایا کہ (اور جہالت کی وجہ سے اپنے نفس کے اس زہر کو دین پر غیرت کرنا کہتا ہے) اس سے مجھے حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات یاد آئی۔
متن:
اور اپنی حماقت اور نادانی سے نفس کی پاسداری اور عزت کو شریعت کی نگہبانی کہتا ہے۔ خیال رکھو! یہ بات کبھی بھی اُس سے قبول نہ کرو اور غلطی نہ کھاؤ۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ کسی کے لیے بھی پیر کے بغیر اس راہ میں قدم رکھنا درست نہیں، کیوں کہ بزرگوں نے کہا ہے کہ روح عالمِ استغراق میں ایک پرندے کی طرح دام میں پھنسی ہوئی ہے، وہ جتنا بھی پھڑکتی اور حرکت کرتی ہے، اُس کے ہاتھ پاؤں زیادہ سختی سے کس کر بندھتے جاتے ہیں۔ اور کسی ایسے شخص کی محتاج ہوتی ہے جو اُس کو اس قید و بند سے آزاد کرے، اور وہ شخص پیر و مرشد ہی ہوتا ہے۔ اور پیغمبروں اور دوسرے بزرگوں کے بھیجنے کا راز یہی ہے کہ ابتدائے حال میں مریدِ حق کے انوار قبول کرنے کا اہل اور قابل نہیں ہوتا، کیونکہ اُس کی مثال چمگادڑ کی طرح ہوتی ہے کہ اُس کی آنکھیں سورج کی روشنی کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتیں اور تاریکی میں تگ و دو کرنا محض گمراہی اور ضلالت ہے اور ہلاک ہونے کا خطرہ اس میں ہوتا ہے۔ پس اس کے لیے روشنی چاہئے جو کہ سورج سے کم تر ہو تاکہ اُس سے فائدہ حاصل کیا جائے اور اُس روشنی کے ذریعے راستے پر چلا جا سکے، اور وہ روشنی مرشدوں اور پیروں کا دل ہوتا ہے جو کہ چاند کی روشنی کی طرح انوارِ غیب کے قابل ہوتا ہے۔ (یہ کنایہ ہے) جس گھڑی مرید کے دل میں طلب کا درد پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اس دردِ طلب کی شفا کی تلاش و جستجو میں پڑ جاتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ کیا کیا جائے اور کیا کرنا چاہئے، تب اللہ تعالیٰ کا احسان و عنایت اُس کو کسی پیر کے درِ دولت تک پہنچا دیتا ہے اور اسی طرح درِ دولت سے اندرون خانہ راستہ پا لیتا ہے اور پیر کے ذریعہ اور توسل سے اُس کے دل و دماغ میں پیر کی خوشبو پہنچ جاتی ہے، اور اُسی کے حکم کے آگے گردن رکھ کر سکون پا لیتا ہے اور اسی کا نام ارادت ہے۔ اے بھائی! اس مشتِ خاک میں یہ اسرار و رموز ہیں اور اس میں یہ عزت و اکرام ودیعت فرمائی گئی ہے۔ مثنوی
؎ آں را کہ ز محبوب سلامے باشد
از حضرت او بہ او پیامے باشد
در حلقۂ بند گانش خورشید منیر
قصۂ چہ کنم کم از غلمانکے باشد
’’جس کسی کو یہ سعادت اور شرف حاصل ہو کہ اُس کو محبوب کا سلام و پیام پہنچے، تو میں اُس کے مقام رفیع اور اوج سعادت کے بارے میں کیا کہوں، بلکہ مختصر طور پر یہ کہوں گا، کہ یہ چمکتا ہوا سورج اُس کے غلاموں کے درجہ اور پایہ سے کم شمار ہوتا ہے‘‘۔
(منقول از مکتوب شیخ شرف منیری)
تشریح:
اگر میں اس مقالے کا نچوڑ بیان کرنا چاہوں، تو وہ دو باتیں ہیں: ایک یہ کہ اللہ کی معرفت میں سب سے بڑی حائل چیز ہمارا نفس ہے۔ اور اس نفس کا توڑ ریاضت میں ہے۔ دوسری طرف اگر دل دنیا کی محبت میں بر سرِ پیکار ہے، تو اس میں اللہ کی محبت کو لانا؛ یہ اس کا علاج ہے۔ اور یہ دونوں کام کسی شیخ کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ فرمایا: چونکہ سورج کی روشنی چمگاڈر برداشت نہیں کر سکتی، اس لئے ابتدا میں اس کو اس سے کم درجہ کی روشنی چاہئے، جو کم از کم برداشت کر سکے۔ اسی طرح ان کو پیروں کے دل کی روشنی چاہئے، جو چاند کی طرح ہوتی ہے اور مستعار ہوتی ہے۔ گویا اس میں یہ بتایا گیا کہ اپنے اس مقام سے کہ جس میں جہالت ہی جہالت ہے، دعویٰ ہی دعویٰ ہے، اس مقام سے نکلنے کے لئے پیر کے پاس جانا پڑے گا اور پیر کی بات ماننی پڑے گی۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ پیر کی بات ماننے کے لئے بھی پہلے پیر کے ساتھ وہی کرنا پڑے گا، جو بعد میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرنا ہو گا، یعنی پیر کی ذات میں فنا ہو، پیر کی صفات میں فنا نہ ہو۔ صفات کے ذریعے آؤ گے، لیکن ان میں رہو گے نہیں، بلکہ پیر کی ذات میں فنا ہو جاؤ گے، تو پھر کام بنے گا۔ جب پیر کی ذات میں فنا ہو جاؤ گے، تو پھر وہ جو آپ کو بتائیں گے، ان کی بات آپ کی سمجھ میں آئے گی۔ ورنہ یہ ہو گا کہ جہاں آپ کا نفس فانی نہیں ہو گا، وہاں وہ اپنی جگہ موجود ہو گا۔ پیر کی اس بات کی وہ اپنے نفس کے مطابق تاویل کر لے گا۔ لہٰذا جو چیز پیر سے چاہئے، وہ نہیں ملے گی۔ کیونکہ اس نے پوری بات نہیں مانی۔ جب میں نے مجاہدہ کی باتیں کیں، تو مجھ سے بعض ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں آپ مجاہدہ دے سکتے ہیں؟ میں مسکرایا۔ کیونکہ مجھے پتا ہے کہ مجاہدہ کس چیز کو کہتے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ مجاہدہ کسی خاص کورس وغیرہ کو کہتے ہیں۔ حالانکہ مجاہدہ کورس نہیں ہے۔ مجاہدہ تو نفس کی مخالفت کا نام ہے۔ جو بھی شخص جس کسی چیز کے لئے تیار ہو، وہ چیز اس کے لئے مجاہدہ نہیں ہے۔ اور جب پیر اس سے ہٹ کر کوئی چیز دے گا، تو وہ اس کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ جب تیار نہیں ہو گا، تو وہ اس کو کرے گا نہیں۔ لہٰذا یہ تو محض کہنا ہی ہوا۔ چنانچہ مجاہدے کا اس وقت پتا چلتا ہے، جب آپ کی مرضی کے خلاف آپ کو کچھ کہا جائے گا اور آپ مانیں گے۔ لیکن جو آپ کہیں گے کہ مجھے فلاں مجاہدہ دے دو، تو وہ مجاہدہ نہ ہوا، وہ آپ کے لئے کورس ہو گیا۔ مجاہدہ نفس کی مخالفت کا نام ہے۔ لہٰذا مجاہدہ اور ذکر کی تلقین کا اختیار اسی لئے شیخ کو دیا گیا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ڈاکٹر کے پاس دوائیوں کا اور پرہیز کا اختیار ہے۔ مریض خود اپنی مرضی سے نہیں کہہ سکتا۔ اگر کہے گا، تو جو سمجھ دار ڈاکٹر ہو گا، وہ کہے گا کہ یا تو صحیح صحیح بات مانو، ورنہ نکل جاؤ، میں تمہارا علاج نہیں کر سکتا۔ یہی کرنا پڑے گا۔ اور وہ کیا کر سکتا ہے؟ جب وہ مانے گا نہیں، تو اس کا کیا فائدہ۔ اور پھر لوگ اپنے اندازے بھی لگاتے ہیں کہ فلاں کے ساتھ ایسے ہو گیا، تھوڑی دیر میں اس کے ساتھ یہ ہو گیا۔ میں ابھی تک ایسا ہوں۔ حالانکہ بعض کو نظر انداز کرنا ہی مجاہدہ ہوتا ہے، اور اس کے لئے وہ تیار نہیں ہوتے۔ بعض لوگ توجہ چاہتے ہیں اور جب ان کی طرف توجہ نہیں کرے گا، تو یہ مجاہدہ ہو گا۔ پھر وہی بات آئے گی کہ لوگ اپنے نفس کے غلام ہیں۔ بس یہی بنیادی باتیں ہیں اور حضرت یہی باتیں سمجھانا چاہتے ہیں۔ چونکہ اپنی حالت کے مطابق سمجھانا چاہتے ہیں، اس لئے لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو مشکل ہے۔ حالانکہ مشکل نہیں ہے، چیزیں یہی ہیں۔ ورنہ اس کے علاوہ کوئی چیز ثابت کر دیں۔ صرف یہ بات ہے کہ الفاظ ان کی اپنی شان کے مطابق ہیں اور ہم آج کل کے دور کے مطابق بات کرنے کے مکلف ہیں۔ آج کل کے دور کے حال کے مطابق بات کریں، تاکہ لوگوں کو بات سمجھ آ جائے۔ بات تو وہی ہے، اس کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے۔ بہر حال! اصل چیز یہی ہے کہ انسان کو اللہ والوں کی صحبت میں رہنا چاہئے اور اللہ کی محبت کو حاصل کرنے میں ہمارا نفس جو رکاوٹ ہے، اس کا علاج کرنا چاہئے۔ اس کا علاج کرنے کے لئے ہمیں مجاہدہ و ریاضت سے گزرنا ہے۔ یہ اس مقالے کا نچوڑ ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرما دے۔
ایک ہے لوگوں کا تصوف کو چیستان بنانا یعنی سادہ چیز کو مشکل بنانا، وہ اپنے طور پہ غلط ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ جو بیان کیا جا رہا ہے، وہ اپنے نفس کے مطابق نہ ہو، تو اس کو اپنی تاویل سے تبدیل کر لینا اور اس کے مطابق بات کرنا۔ یہ دوسری قسم کا نقصان ہے۔ دونوں سے بچنا ہو گا۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ تصوف ایک عملی چیز ہے، theoratical نہیں ہے۔ لہٰذا اس میں عملی طور پہ کام کرنا پڑے گا، یہ نہیں کہ ہم چند الفاظ جان لیں، تو ہم صوفی ہو گئے۔ جیسے میں نے ابھی عرض کیا کہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ سب کہتے ہیں، لیکن ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ میں اپنے آپ کو فانی نہیں کر رہے۔ ’’سُبْحَانَ اللہِ‘‘ سب کہتے ہیں، لیکن ’’سُبْحَانَ اللہِ‘‘ میں اپنے آپ کو فانی نہیں سمجھتے۔ ’’اَللہُ اَکْبَرُ‘‘ سب کہتے ہیں، لیکن ’’اَللہُ اَکْبَرُ‘‘ میں اپنے آپ کو فنا نہیں کرتے۔ الفاظ بہت ہیں، لیکن حقیقت کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ باقی چیزوں کو چھوڑیں، نماز کو دیکھ لیں۔ فرماتے ہیں: آخر وقت میں پوری مسجد میں صف در صف لوگ ہوں گے، لیکن وہاں کوئی خشوع و خضوع والا نہیں ہو گا، جو نماز کی جان ہے۔ اعمال ہو رہے ہوں گے، ان میں اخلاص والا کوئی نہیں ہو گا۔ لہٰذا جو روح ہے، اس کا خیال کرنا پڑے گا اور اس کے لئے جو رکاوٹ ہے، وہ دور کرنی چاہئے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ