اللہ تعالیٰ کی معرفت کے بارے میں

55 مقالہ 4 ، درس

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کا درس ہوتا ہے۔ آج کل حضرت کے صاحبزادہ مولانا عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ جن کا عرف حلیم گل بابا ہے، ان کے مقالات جو مقالاتِ قدسیہ کے نام سے اس کتاب میں شامل ہیں، ان کا درس جاری ہے۔ مقالۂ چہارم شروع ہوا تھا، اور یہ مقالہ اللہ جل شانہ کی معرفت کے بیان میں ہے۔ چونکہ پچھلے ہفتے اس کا کچھ حصہ بیان ہو چکا ہے، اس لئے اس سے آگے ’’اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْزُ‘‘ اب ہم بیان کریں گے۔ اس کتاب میں چونکہ کچھ صفحات میں گڑبڑ ہو چکی ہے، اس لئے ان صفحات کی وجہ سے ہمیں پلاننگ میں کچھ مشکل پڑ رہی تھی، جس کی وجہ سے اس کی سپیڈ بھی کم ہو گئی ہے۔ یہ بات چل رہی تھی کہ اللہ جل شانہ کی معرفت اللہ پاک کے فضل سے ہی نصیب ہو سکتی ہے۔ اور میں نے غالباً پشتو زبان کا ایک شعر پڑھا تھا، جس کے بارے میں کسی بزرگ نے مجھے ارشاد فرمایا تھا کہ کسی نے پتا نہیں، کس نیت سے اس کو پڑھا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شاید کسی صاحبِ دل صاحبِ نسبت نے پڑھا ہے۔

خدائے په لوئے فضل به کیږی په عقل ګرانه ده زما دَ جانان مینه

یعنی اللہ پاک کے بہت فضل کے ساتھ ہی اس کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے، کیونکہ عقل کے ساتھ تو یہ بہت مشکل کام ہے۔ اللہ جل شانہ اپنی ذات کی معرفت ہم سب کو نصیب فرما دے۔ اللہ جل شانہ کا وجود عقلی دلائل سے بہت آسانی سے ثابت ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ کیونکہ ہر کام کے لئے کسی فاعل کا ہونا ضروری ہے، بغیر فاعل کے کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ سائنس کا Entropy law بھی یہ بات دکھا رہا ہے کہ ہر چیز کے اندر جو بگاڑ کا رجحان ہے، اس بگاڑ سے اگر بچانا ہو، تو اس کے لئے بھی کسی فاعل کی ضرورت ہو گی، ورنہ وہ چیز خود بخود بگاڑ کی طرف مائل ہو گی اور خود اپنے آپ ہی تباہ ہو جائے گی، چہ جائیکہ کوئی چیز خود بخود وجود میں آ جائے۔ ایک سائنس دان نے اس کا بہت اچھا analysis کیا ہے کہ فرض کریں کہ ایک بندر ہے، جو ناسمجھ ہے، اس کو کمپیوٹر بورڈ پہ بٹھا دیا جائے اور وہ اس پہ الٹا سیدھا ہاتھ مارنے لگے، تو کچھ نہ کچھ تو حروف آئیں گے۔ تو اس نے یہ calculate کیا ہے کہ اس کے اس طرح ٹائپ کرنے سے، اس بات کا کتنا امکان ہے کہ اس سے ایک Reasonable statement بن جائے، جس کا کوئی مفہوم بھی ہو۔ تو اس نے کہا کہ اس سے کوئی قابلِ فہم جملہ بننے کا امکان اتنا ہے کہ اگر اشاریہ کے بعد 37 صفر لگائے جائیں اور پھر ایک لگایا جائے۔ بس اتنا امکان ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ ننانوے اشاریہ ننانوے فیصد یہ چیز اس طرح ہے، تو اس پر ہم سو فیصد کا یقین کر لیتے ہیں۔ یعنی اس کے بعد دو نوے ہیں۔ یہاں یہی بات ہے کہ جس جملے کا کوئی قائل ہو، اس کے خود بخود صحیح جملہ آنے کا امکان اتنا ہے کہ جیسے ننانوے اشاریہ نو کے بعد 37 نو لگا دیں۔ اور اگر اس کا کوئی سمجھ دار فاعل نہیں ہے، تو اشاریہ کے بعد 37 صفریں لگا دیں، اور پھر ایک لگادیں۔ گویا بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ یعنی یہ آپ کیسے تصور کر سکتے ہیں کہ یہ پوری کائنات خود بخود پیدا ہو گئی۔ اس سے کیا یہ تصور کر سکتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ گویا Entropy بھی کہتی ہے، تجربہ بھی یہی کہتا ہے۔ اور اس پر بھی بہت سارے دلائل ہیں کہ ہر چیز کے لئے کوئی فاعل ہونا چاہئے۔ پس اللہ جل شانہ کے وجود کی تو کافی عقلی دلیلیں موجود ہیں۔ اور اللہ کے ایک ہونے کی دلیل، اس پر بھی پکے دلائل موجود ہیں اور اتنی بات پہ ایمان مکمل ہو جاتا ہے کہ اللہ جل شانہ کو آپ مان لیں اور اس کو ایک مان لیں۔ اور صفات کے متعلق پیغمبر جو بتاتے ہیں، وہی ہوں گی۔ لیکن عقلی طور پر اتنی بات آپ بہت آسانی کے ساتھ کر سکتے ہیں، اس کا جواب منکرین کے پاس نہیں ہے۔ لیکن آپ اللہ کو مزید پہچان لیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ صفات کے اندر غور کر لو، ذات کے اندر غور نہ کرو، کیونکہ ذات وراء الوراء ہے۔ اور یہ بات صحیح ہے کہ وہ ہمارے ذہن سے اوپر ہے۔ لہٰذا اللہ جل شانہ کی ذات کا استحضار اور ذات کی معرفت کافی مشکل ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ فضل فرما دے اور یہ ہو جائے، تو علیحدہ بات ہے۔ بہر حال! عقلی لحاظ سے ایمان کافی آسان ہے، لیکن معرفت کے لئے بے نفسی کی ضرورت ہے، اور عقل اور دل کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ پھر کبھی اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے۔ اور اس کے لئے بہت کوشش کی ضرورت ہے۔ چنانچہ یہاں جو فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر بالکل معرفت حاصل نہیں ہو سکتی، یہ بالکل صحیح ہے۔

متن:

"عَرَفْتُ اللہَ بِاللہِ وَعَرَفْنَا مَا دُوْنَ اللہِ بِنُوْرِ اللہِ" (لم أجد ہذا القول) ”میں نے اللہ تعالیٰ کو اللہ ہی سے پہچانا، اور ما سوی اللہ کو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نورِ ہدایت سے پہچانا“۔

متن:

؎ خدا کی دَین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال

کہ آگ لینے کو جائے پیغمبری مل جائے

طلب و تلاش اور جستجو و چاہت میں سب برابر ہیں مگر حاصل ہونے اور پا لینے میں فرق ہے۔ بت پرست لوگ اُس کو بُت سے طلب کرتے ہیں، عیسائی اُس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں تلاش کرتے ہیں اور یہود اس کو حضرت عزیر علیہ السلام سے طلب کرتے ہیں۔ (قطعہ)

؎ میل خلق جملہ عالم تا ابد

گرچه باشد ورنہ باشد سوئے تست

جز ترا چوں دوست نتواں درشتن

دوستی دیگراں بر بوئے تست

’’تمام دنیا کے لوگوں کی توجہ اور خواہش ابد تک تمہاری طرف ہے، خواہ وہ خواہش محسوس ہو یا نہ ہو، تمہارے علاوہ جب کسی کو دوست رکھنا ممکن نہیں، اس لیے اگر کسی دوسرے کے ساتھ بھی دوستی ہو، تو تمہاری ہی خوشبو کی وجہ سے ہے۔

پس تمام لوگ اُس کے طالب ہیں اور اسی طلب و تلاش میں راستہ گم کرتے ہیں۔ ہر شخص کے آگے کوئی چیز رکھی ہوئی ہوتی ہے جو اُس کے لیے پردہ بن جاتی ہے اور ایک گروہ کے سامنے سے یہ تمام سامان اٹھائے جاتے ہیں، تاکہ وہ سیدھا راستہ پا لیں۔

تشریح:

اللہ جل شانہ آسان فرما دے۔ اس وجہ سے دعا کی کثرت کی ضرورت ہے، دعا میں انسان اللہ سے مانگتا ہے۔ اللہ ساری چیزوں پہ قادر ہے، اور کوشش میں انسان اپنے بس کے مطابق کوشش کرتا ہے کہ جس میں انسان قادر ہے۔ کوشش ضرور کرنی چاہئے، لیکن دعا کے بغیر نہیں۔ دعا کے بغیر کوشش انسان میں تکبر پیدا کرتی ہے، تعلی پیدا کرتی ہے کہ میں یہ ہوں، میں یہ ہوں۔ فلسفہ میں انسان کی اپنے اوپر نظر ہوتی ہے۔ آج کل کی سائنس میں بھی اپنے اوپر نظر ہوتی ہے، لہٰذا اس سے بھی انسان میں تعلی پیدا ہوتی ہے۔ اس تعلی کو توڑنے کے لئے کثرتِ ذکر کی ضرورت ہے، تاکہ اللہ یاد آئے۔ جب اللہ یاد رہے گا، تو یہی چیز آپ کے لئے ذریعۂ معرفت بن جائے گی۔ جب اللہ یاد نہیں رہے گا، تو یہی چیزیں آپ کے لئے ذریعۂ غفلت بن جائیں گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان کوشش کے ساتھ، جد و جہد کے ساتھ، مانگنا شروع کر لے۔ مانگے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اللہ سے اللہ مانگو، اللہ تعالیٰ سے اللہ تعالیٰ کی معرفت مانگو، اللہ تعالیٰ سے اللہ کا فضل مانگو، اللہ کا کرم مانگو، پھر راستہ کھلتا ہے۔ اور جب اللہ راستہ کھولتا ہے، تو ہر چیز کے اندر راستہ نظر آتا ہے، کفر کے اندر بھی اللہ پاک سیدھا راستہ دکھا دیتے ہیں۔ یعنی انسان کسی کفرستان میں چلا جائے، اور وہاں پر بھی اگر کوئی طلب کرے، تو اس کو سیدھا راستہ نظر آ جائے گا۔ جب کوئی اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے، تو اللہ پاک بہت دیتا ہے۔ یہ ہم ان لوگوں سے سیکھ سکتے ہیں، جو دیارِ کفر میں پیدا ہوئے اور وہیں مسلمان ہوئے، وہ آپ کو اپنے صحیح تجربات اور احساسات بتا دیں گے۔ اللہ جل شانہ سے مانگنا چاہئے، اللہ پاک ہی ہدایت دینے والا ہے۔ یہ قرآن کے اندر بھی موجود ہے: ﴿یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ وَّیَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًا(البقرۃ: 26)

ترجمہ: ’’اللہ اس (مثال) سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے‘‘۔

جب نظر میں ٹیڑھ آ جائے، تو اس کے بعد چیزیں ٹیڑھی نظر آئیں گی۔ ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ (اٰل عمران: 8)

ترجمہ: ’’(ایسے لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب! تو نے ہمیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے، اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ ہونے دے، اور خاص اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا فرما۔ بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے، جو بے انتہا بخشش کی خوگر ہے‘‘۔

جو چیز دل کی آنکھوں سے نظر آتی ہے، اس میں دل اندھا ہو، تو کیسے نظر آئے۔ اور دل کے اندر کجی ہو، تو پھر کیسے آپ کو سیدھی نظر آئے گی۔ اس وجہ سے دل کا معاملہ اللہ پاک کے ساتھ رکھیں اور اس میں اللہ کی محبت لائیں اور اللہ تعالیٰ سے مانگیں، تو راستہ مل جاتا ہے۔ حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم ایک بیان میں فرما رہے تھے کہ میں ایک دفعہ گھر میں داخل ہوا، تو میری پوتی اپنی بیٹی کو نہلا رہی تھی۔ بچی کوئی شرارت کر رہی تھی، تو وہ اس کو مار رہی تھی، جس کی وجہ سے وہ رو رہی تھی اور رونے میں بھی والدہ کی طرف ہی جا رہی تھی۔ فرمایا: میں نے کہا کہ یہ ہدایت ہے کہ جس کو ہدایت مل جائے۔ اگر اس کو اللہ تعالیٰ کسی وجہ سے لتاڑیں، تو وہ اللہ ہی کی طرف بھاگے گا۔ اور جو بدبخت ہوتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے دور چلا جاتا ہے۔ نیک بخت ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف جاتا ہے اور اللہ ہی کی طرف بھاگتا ہے۔

متن:

یک شہر پُر از حدیث آن روئی نکوست

دلہائے جہانیاں ہمہ بر بودۂ است

ما مے کوشیم و دیگراں مے کوشند

تا بخت کرا بود و چرا دارد دوست

’’اُس خوبصورت چہرے کی تعریف میں ایک دُنیا مصروف ہے، اور تمام اہل جہاں کے دل وہ لے گیا ہے ہم بھی کوشش کرتے ہیں، اور دوسرے لوگ بھی کوشش میں لگے ہیں، دیکھئے بخت اور قسمت کس کی یاوری کرتی ہے اور وہ کس کو دوست بناتا ہے‘‘۔

معرفت کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے معبود کو اس انداز سے پہچانا جائے جیسا کہ اُس کی ذات اور صفات اور افعال ہیں، اور اُس کو پہچاننے میں کوئی غلطی واقع نہ ہو۔ اور عارف کے لیے اس انداز میں معرفت حاصل کرنی چاہئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام مجید میں بیان فرمایا ہے

تشریح:

اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذٰریٰت: 56)

ترجمہ: ’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی تفسیر میں مروی ہے کہ ’’لِیَعْبُدُوْنِ‘‘ کا معنیٰ ہے: ’’لِیَعْرِفُوْنِ‘‘ یعنی معرفت کے لئے پیدا کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے انسان اور جنات کو اپنی معرفت کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ معرفت عبدیت کے ذریعے سے ملتی ہے۔ یعنی ’’لِیَعْرِفُوْنِ‘‘ کا ماخذ ’’لِیَعْبُدُوْنِ‘‘ ہے۔ ایک صاحب نے مراقبہ کیا کہ معرفت کیسے حاصل ہوتی ہے، مراقبہ کے اندر ان کے اوپر اللہ پاک نے جو بات کھولی، وہ دل کو لگنے والی ہے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے کھولی کہ ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذّٰریٰت: 56) کا جو نور ہے، وہ ﴿اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (النساء: 59) میں ملے گا۔ اور یہ بات بھی فرمائی گئی کہ کسی کو بھی پوری معرفت نہیں ملتی، بلکہ قطرہ قطرہ ملتی ہے اور قطرہ قطرہ اسی بقدر ملتی ہے، جتنا وہ کام کرتا ہے۔ اصل میں ہمارا معاملہ الٹا ہے، نتیجتاً ہمیں پریشانی ہوتی ہے۔ الٹا یوں ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ پہلے ہم ساری چیزیں جان لیں، پھر ہم مان لیں گے۔ اللہ کا کام یہ ہے کہ پہلے مان لو، پھر جان لو گے۔ یہی تو فرق ہے۔ جو لوگ اس پر بضد ہیں کہ ہم پہلے جانیں گے، پھر مانیں گے۔ عمر گزر جائے گی، مگر وہ چیز حاصل نہیں ہو گی۔ چنانچہ ﴿اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ﴾ یہ ماننا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس ماننے کے بقدر معرفت عطا فرماتے ہیں۔ اور پھر ساتھ ساتھ معرفت بڑھتی رہتی ہے۔ صحابہ کرام کا یہ کردار تھا کہ وہ کہتے تھے: ’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘ ’’ہم نے سن لیا اور ہم نے اطاعت کر لی‘‘۔ ’’اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا‘‘ ’’ہم ایمان لائے اور ہم نے تصدیق کی‘‘۔ اس میں بھی یہی direction ہے کہ پہلے مانا ہے۔ چنانچہ پھر اللہ پاک نے ان پر معرفت کے دروازے کھول دئیے تھے۔ ﴿وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے‘‘۔

یعنی جو ﴿اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ﴾ کے ذریعے سے مجھ تک پہنچنے کے لئے کوشش اور محنت کرتے ہیں، ہم ان کو ضرور بضرور ہدایت کے راستے سُجھائیں گے۔ گویا ساری چیزیں مل گئیں۔ چنانچہ ﴿اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ﴾ کے ذریعے سے ہی جد و جہد ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔

متن:

اور عارف کے لیے اس انداز میں معرفت حاصل کرنی چاہئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام مجید میں بیان فرمایا ہے لیکن کمالِ معرفت کی کیفیت کی بارے میں علمائے متکلمین کے دو قول ہیں: ایک گروہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایسا اور اس طور پر پہچانا جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے آپ کو پہچانتا ہے، کیونکہ اگر کامل طور پر نہ پہچانے، کچھ جانے اور کچھ نہ جانے، تو اللہ تعالیٰ تجزّی یعنی ٹکڑے ٹکڑے ہونا قبول نہیں کرتا۔ پس تمام عارف اپنے معروف کی معرفت میں برابر ہیں اور سب کے سب معروف کو ایسا جانتے ہیں جیسا کہ معروف خود اپنے آپ کو پہچانتا ہے، اس گروہ کو کمالِ معرفت کا دعویٰ ہے۔ اور دوسرے گروہ کا قول یہ ہے اور بعض عقلاء اور اہل دانش اور متکلمین اور صوفیاء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کمالِ معرفت کسی کو بھی حاصل نہیں،

تشریح:

یہ وہی بات ہے، جو ابھی گزری کہ پوری معرفت کسی کو بھی حاصل نہیں ہوتی۔

متن:

سب اس کو ایسا جانتے پہچانتے ہیں جیسا کہ وہ ہے اور اس حد تک جانتے ہیں کہ جس کے ذریعے نجات پائیں، لیکن وہ کمال کا دعویٰ نہیں کرتے، جیسا کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ "اَلْعِجْزُ عَنْ دَرْکِ الْإِدْرَاکِ إِدْرَاکٌ" (احیاء العلوم، کتاب التوحید و التوکل، باب: بیان حقیقۃ التوحید الذی هو أصل التوکل، رقم الصفحۃ: 252/4، دار المعرفۃ بیروت) ”جاننے سے عاجز ہو کر رہنا جاننا ہی ہے“

تشریح:

یعنی شکر سے اپنے آپ کو قاصر سمجھنا شکر ہے۔ کیونکہ آپ نے شکر کا مقام اپنی range سے اوپر رکھا ہے کہ یہ میرے بس سے باہر ہے۔ اور اگر آپ نے کہا کہ میں نے شکر کر لیا، تو گویا آپ نے اس کو کم سمجھا ہے۔ چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ میں نے حاصل کر لیا، تو آپ نے اس کو کم سمجھ لیا اور اگر آپ نے کہا کہ میں اس سے عاجز ہوں، تو آپ نے اس کو زیادہ سمجھ لیا۔ تو اس میں دو فائدے ہوں گے: ایک تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی عظمت کو مان لیا۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ اس کی ایک زبردست دلیل مجھے مل گئی قرآن پاک کی آیت سے: ﴿لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ﴾ (الانعام: 103)

ترجمہ: ’’نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں، اور وہ تمام نگاہوں کو پالیتا ہے‘‘۔

یہ قرآن پاک کی نص ہے۔ یعنی ہم اللہ کی حقیقت کو نہیں جان سکتے، لیکن اللہ تعالیٰ ہماری حقیقت کو پورا پورا جانتا ہے۔ لیکن جو کہتے ہیں کہ ہم نے پورا پا لیا ہے، اس کی وجہ غالباً ایمان میں کمی بیشی کے بارے میں اختلاف ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ در اصل ایمان کی تعریف میں اختلاف ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی statement ہے کہ ’’اَلْإِیْمَانُ لَا یَزِیْدُ وَلَا یَنْقُصُ‘‘ کہ ایمان نہ گھٹتا ہے، نہ بڑھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان کچھ چیزوں کو ماننے اور اقرار کرنے کا نام ہے، جیسے کہتے ہیں: ’’إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘۔ اور جو اقرار والی باتیں ہیں، وہ ساری کی ساری مشترک ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ اللہ ہے۔ پس حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہی کہتے ہیں اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے۔ اسی طرح ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے، وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے۔ چنانچہ اس طرح کی باتیں سب میں مشترک ہیں۔ لہٰذا حضرت فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایمان اور عام آدمی کا ایمان برابر ہے، کیونکہ اقرار میں برابر ہیں۔ فرق صرف یقین میں ہے۔ جس کا یقین پورا ہے ﴿وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ(البقرۃ: 4) تو اس کے اعمال پورے ہیں۔ لہٰذا اعمال میں فرق پڑتا ہے، اعمال میں کوئی کم اور کوئی زیادہ ہوتا ہے۔ اور اعمال میں فرق حسبِ یقین پڑتا ہے۔ لہٰذا یقین میں کمی بیشی آ جاتی ہے، کیونکہ یہ دماغ کی چیز ہے اور ایمان میں فرق نہیں آتا، کیونکہ یہ دل کی چیز ہے: "اَلْإِیْمَانُ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ"۔ اور ایمان کے لئے تو عام درجہ کا فعل بھی کافی ہے۔ لہٰذا ایک شخص ہے، جو اللہ کو مانتا ہے اور انتہائی سادہ آدمی ہے۔ جیسے امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے مرتے وقت کہا تھا کہ میں بغداد کی بوڑھیوں کے ایمان پہ مرتا ہوں، اس لئے کہ بغداد کی بوڑھیاں سادہ تھیں، لیکن ایمان ان کو حاصل تھا۔ گویا ایمان کم سے کم والا بھی وصول کر سکتا ہے۔ لیکن اس سے آگے جو معرفت کی بات ہے، اس میں موانع کو دور کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر ایمان کی بنیاد پر بات کی جائے، تو متکلمین کی بات صحیح ہو گی۔ لیکن یہاں ایمان کی بات نہیں ہو رہی، معرفت کی بات ہے۔ اگر ایمان اور معرفت ایک ہوں، تو پھر عمل میں فرق نہیں ہونا چاہئے۔ عمل میں فرق اس بات کو indicate کر رہا ہے کہ معرفت اور ہے، ایمان اور ہے۔ ایمان اس کا Starting point ہے۔ کم سے کم معرفت ایمان ہے۔ لہٰذا یہودی پروفیسر جو معرفت کے اوپر بڑی لمبی چوڑی تقریر کر رہا ہے، لیکن وہ مسلمان نہیں ہے اور دوسرا ایک سادہ سے سادہ آدمی ہے، جس کو کچھ پتا نہیں ہے، لیکن اس کا اللہ پر ایمان ہے، اس کی معرفت اس سے زیادہ ہے، کیونکہ اِس کے پاس بنیاد ہے، اُس کے پاس بنیاد ہی نہیں ہے، کیونکہ معرفت کی بنیاد ایمان ہے۔ اگر ایمان نہیں ہے، تو معرفت کسی کام کی نہیں ہے۔ مثلاً: ایک آدمی آپ ﷺ کے ساتھ بہت محبت کا دعویٰ کرے۔ جیسے میرے پاس clip آیا ہے کہ ایک ہندو شاعر ہے، جو آپ ﷺ کی اتنی اعلیٰ درجہ کی تعریف کرتا ہے کہ آپ حیران ہو جائیں گے۔ مسلمانوں کو کہتا ہے کہ تم لوگوں نے ان کو اپنا کیوں سمجھا ہے، وہ ہمارے بھی ہیں۔ بڑے جذباتی انداز میں اشعار سناتا ہے۔ یہ ساری باتیں صحیح ہیں، ہم اس پہ داد بھی دیں گے، کیونکہ آپ ﷺ تو ہیں ہی قابلِ حمد، کیونکہ آپ ﷺ کا نام ہی محمد محبت ہے۔ یہ بات تو ہم مانتے ہیں، لیکن اس ہندو کے بارے میں ہم کہیں گے کہ اس کو آپ ﷺ کی محبت تو حاصل ہے، لیکن آپ ﷺ کی معرفت حاصل نہیں ہے۔ اگر آپ ﷺ کی معرفت حاصل ہوتی، تو وہ بغیر ایمان کے ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ فوراً آپ ﷺ پر ایمان لاتا۔ اگر یہ آپ ﷺ کے ساتھ اتنی محبت کرتے ہیں، تو آپ ﷺ کو سچا کیوں نہیں مانتے، اور آپ ﷺ سچے ہیں، تو آپ ﷺ تو کہتے ہیں کہ مجھ پر ایمان لاؤ۔ اور آپ ﷺ پر ایمان ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے: ’’قُوْلُوْا لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ تُفْلِحُوْا‘‘۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 16022) چنانچہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔ بہر حال! بڑی جذباتی محبت ہے، مان سکتے ہیں، لیکن یہ محبت صرف اس دنیا تک اس کا ساتھ دے رہی ہے، اس سے زیادہ نہیں ہے، آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیونکہ ایمان نہیں لایا اور ایمان درمیان میں حائل ہے۔ آخرت کی ساری خیروں کا آغاز ایمان سے ہوتا ہے، جیسے معرفت کا آغاز ایمان سے ہے۔ سبحان اللہ! اللہ پاک نے بہت اعلیٰ مضمون بھیج دیا کہ جیسے یہاں پر ایمان سے معرفت start ہوتی ہے، اسی طرح وہاں پر بھی درجات ایمان سے شروع ہوتے ہیں، لیکن ملتے حسبِ معرفت ہیں، جس کی جتنی معرفت ہے، اس کا اتنا ہی درجہ ہے۔ لہٰذا جو کوئی یہاں جتنا درجہ حاصل کرے گا، تو وہاں پر بھی وہ اتنا درجہ حاصل کرے گا۔ لہٰذا اگر وہاں پر درجات حاصل کرنے ہیں، تو معرفت ضروری ہے۔ ایمان کی بدولت خلاصی ہو جائے گی۔ اور عمل بھی حسبِ معرفت ہے۔ یہاں جتنا آپ عمل کر رہے ہیں، وہ معرفت کے بقدر کر رہے ہیں۔ جتنا اللہ کو آپ نے پہچانا، اتنی ہی آپ کو اعمال کی توفیق ہو گی۔ بلکہ یہ Vice versa ہے، ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں۔ ﴿اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ سے معرفت حاصل ہوتی ہے اور معرفت کے بعد ﴿اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ حاصل ہوتا ہے۔ میں یوں کہہ سکتا ہوں کہ تم invest کرو، جتنی تمہیں معرفت حاصل ہے، اس کے بقدر عمل کر لو، تو مزید اللہ تعالیٰ آپ کو معرفت عطا کر دے گا، تو اس معرفت کے بقدر عمل کر لو۔ مزید معرفت حاصل کر لو، اور اس معرفت کے بقدر عمل کرو، اور پھر مزید معرفت حاصل ہو جائے گی۔ اسی طریقے سے آپ بڑھ سکتے ہیں۔ جیسے ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی، دوسری سیڑھی سے تیسری سیڑھی۔ معرفت ترقی کا ذریعہ ہے۔ متکلمین کی جماعت نے جو فرمایا کہ ہم نے احاطہ کر لیا ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے۔

متن:

جیسا کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ "اَلْعِجْزُ عَنْ دَرْکِ الْإِدْرَاکِ إِدْرَاکٌ" (احیاء العلوم، کتاب التوحید و التوکل، باب: بیان حقیقۃ التوحید الذی هو أصل التوکل، رقم الصفحۃ: 252/4، دار المعرفۃ بیروت) ”جاننے سے عاجز ہو کر رہنا جاننا ہی ہے“ اور فرمایا گیا ہے کہ "اَللہُ تَعَالٰی أَخَصُّ وَصْفًا لَّا یَعْرِفُہٗ غَیْرُ اللہِ" ”اللہ تعالیٰ صفت کے لحاظ سے نہایت ہی خاص ہے، اور خدا کے علاوہ دوسرا کوئی بھی اُس کو نہیں جانتا“۔

تشریح:

اس سے الحمد للہ ایک اور بھی بہت بڑی دلیل مل گئی، ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: ولی را ولی می شناسد، نبی را نبی می شناسد، خاتمُ النبیین را خدا می شناسد۔ چنانچہ جب خاتمُ النبیین کو خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے، تو خدا کو کون جان سکتا ہے۔ لہٰذا اللہ کو مکمل طور پر اللہ ہی جانتا ہے۔ باقی آپ کو کتنا نظر آتا ہے، یہ آپ کی چشمِ بصیرت پر منحصر ہے کہ اس نے جتنی ترقی کی ہے، اس کے حساب سے اس کو نظر آئے گا۔ مثلاً: ہماری آنکھوں کے سامنے ایک ہزار پردے ڈال دیئے جائیں، لیکن وہ مکمل پردے نہ ہوں، بلکہ transparent سے پردے ہوں، جیسے پلاسٹک کے کاغذ ہوں، تو آپ جتنے پردے اٹھاتے جائیں گے، اتنا آپ کو چیزوں کا کچھ vision clear ہوتا جائے گا۔ پھر اور clear پھر اور clear پھر اور clear ہوتا جائے گا۔ بہر حال! آپ میں جتنی چشمِ بصیرت ہے، اس کے حساب سے آپ کو اللہ تعالیٰ کی پہچان ہو گی۔

متن:

پس جو کچھ معرفت کی طریقت نے خبر دی ہے اُس کو جان لیا جائے اور قبول کیا جائے اور کوئی بھی کمال کا دعویٰ نہ کرے۔

حاصل کلام یہ کہنا چاہئے کہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کہا جاتا ہے وہ خود اُس حد سے زیادہ بڑھا ہوا ہے جس حد تک ہم جانتے ہیں۔ ہم اُس کی کمالِ معرفت تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ وہ ہماری سمجھ کی حد سے ماوراء ہے۔ (ابیات)

؎ آن عقل کجا کہ در کمال تو رسد

آن روح کجا کہ در جلال تو رسد

ترجمہ:۔ وہ عقل کہاں سے لائیں، جو تیری کمال تک پہنچ سکے۔ وہ روح کہاں جو تیری جلال کو رسائی حاصل کرے۔

گیرم کہ تو پردہ بر گرفتی ز جمال

آن دیده کجا کہ در جمال تو رسد

مجھے تسلیم ہے کہ آپ نے اپنے جمال سے پردہ اُٹھا دیا، مگر وہ آنکھ کہاں ہے جو آپ کے جمال کے دیکھنے کی تاب لائے۔

تشریح:

گویا وہ جو transparent پردے ہیں، ان کو آپ ایک خاص حد سے زیادہ دور بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی بات تو چھوڑیں، اللہ تعالیٰ کی ذات کی بات تو اور ہے، وہ تو وراء الوراء ہے۔ سورج کو ان کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ گویا آپ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق کو نہیں دیکھ سکتے، تو اللہ پاک کو کیسے دیکھیں گے۔ لہٰذا جتنی اللہ پاک نے آپ کو طاقت دی ہے، اسی کے بقدر آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ایک 6x6 نظر والا سورج کو زیادہ دیر تک دیکھ سکتا ہے۔ اسی لئے مکروہ وقت کی مقدار آنکھ کے اوپر منحصر ہے۔ کیونکہ اگر کسی کی نظر 6x6 ہے، تو وہ طلوع ہوتے ہوئے سورج کو زیادہ دیر تک دیکھ سکے گا۔ جس کی نظر کمزور ہو گی، وہ بہت جلدی فیل ہو جائے گا، وہ نہیں دیکھ سکے گا اور چھ منٹ پر کہے گا کہ مکروہ وقت گزر گیا، اب میں نہیں دیکھ سکتا۔ اور جس کی نظر تیز ہو گی، وہ بارہ منٹ تک دیکھ سکے گا۔ اس لئے فقہاء نے بارہ منٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ اگر کوئی اندھا ہو گا، تو اس کا مکروہ وقت ہو گا ہی نہیں۔ لہٰذا اس کو معیار نہیں بنایا جا سکتا، معیار صحت مند آدمی کو بنایا جائے گا۔ لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ صحت مند آدمی کی نظر ٹیسٹ کر لو، اگر اس کی نظر 6x6 ہے تو وہ سورج کو جتنی دیر کے لئے دیکھ سکتا ہے، مکروہ وقت کی وہی صحیح مقدار ہے۔ اور مشاہدہ یہ ہے کہ وہ وقت تقریباً دس منٹ سے بارہ منٹ تک ہے۔ یہ مشاہدہ میں نے نہیں کیا، میں نے مانا ہے۔ یہ مشاہدہ مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ احسنُ الفتاویٰ جلد دوم میں اس کی تفصیلات بتائی ہیں۔ اور میں نے اس کو اس کے قریب پایا ہے، لہٰذا میں کہتا ہوں کہ یہ ٹھیک ہے۔ بہر حال! دس سے لے کر بارہ منٹ تک اصل وقت ہے، باقی درمیان میں احتیاط کی مقدار تین منٹ ہے، وہ شامل کریں تو پندرہ منٹ ہو گئے۔ اس لئے آپ نے دیکھا ہو گا کہ پندرہ منٹ بعد بہر حال! ہماری آنکھ ایک حد سے زیادہ نہیں دیکھ سکتی۔ اور جس کی نظر کمزور ہے، وہ تو ابتدا ہی سے نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن جس کی نظر تیز ہے، ماننی تو اس کی ہی پڑے گی۔ لہٰذا ہم عارفین کی بات مانیں گے، اپنی بات نہیں مانیں گے۔

متن:

الغرض معرفت نجات کا ذریعہ ہے، اگر معرفت کی شرطوں سے کچھ فوت ہو جائیں تو نجات کا حکم لگانا درست نہیں۔ کہتے ہیں کہ عارفوں کے پاس ایک صاف شیشہ ہوتا ہے اور آئینہ صافی دل ہوتا ہے جو اُس کے سامنے رکھا ہوتا ہے اور وہ اُس میں دیکھتے ہیں، اور مصنوع اور صانع کے حقوق جان لیتے ہیں۔ اور جس طرح کہ معرفت کا طریقہ ہے، اُس پر عمل کرتے ہیں۔ مثنوی۔

ہر دم کہ در فضائے رُخ یار بنگرد

گردد ہمہ جہان بحقیقت مصورش

چوں باز در صفائے دل خود نظر کند

بنِد چو آفتاب رُخ خوب دلبرش

ترجمہ:۔ جب کبھی اپنے محبوب کے چہرے پر نظر ڈالے، تو تمام جہان حقیقت میں اُس کی تصویر بن جائے گی۔ اور پھر جب اپنے دل کی صفائی پر نگاہ ڈالے گا، تو اپنے معشوق کے رخ روشن کو سورج کی طرح چمکتا ہوا پائے گا۔

جو اہل دل عارف ہو جائے، تو تمام کائنات اور ساری مخلوق اُس کی نگاہ میں حجت اور دلیل ہوتی ہے۔ "وَفِيْ کُلِّ شَيْءٍ لَّہٗ آیَۃٌ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ وَاحِدٌ" ”ہر ایک چیز میں ایک ایسی نشانی موجود ہے جو اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ وہ ایک ہے اور اُس کی وحدانیت پر ہر چیز دلالت کرتی ہے‘‘۔

؎ رو دیدہ بدست آر کہ ہر ذرۂ خاک

جائے ست جہاں نمائے کہ در وے نگری

’’اپنے لیے دیدہ بینا حاصل کر کیونکہ خاک کا ہر ذرہ ایک جہاں نما جام ہے، اگر تو اُس میں دیکھ سکے‘‘۔

اور کہا گیا ہے کہ "وَمَا رَأَیْتُ شَیْئًا إِلَّا وَرَأَیْتُ اللہَ" ”میں نے بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی چیز نہیں دیکھی“

تشریح:

جیسے ایک شعر ہے کہ میں نے دیکھا، تو دیکھا بس خدا دیکھا۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے۔

متن:

یعنی جو چیز میں نے دیکھی تو مجھے اُس میں خدا نظر آیا۔ اشیاء میں خدا کا نظر آنا ایک دلیل ہے، جو کہ مصنوع میں صانع کی موجودگی پر دلالت ہے۔ کیونکہ ہر صنع کا صانع اور ہر فعل کا فاعل ہونا لازمی طور پر ہوتا ہے اور صنع و فعل صانع و فاعل کی وجود پر دلیل ہیں۔ (بیت)

گوید آں کس دریں مقام فضول

کہ تجلی نداند او ز حلول

’’وہ شخص فضول باتیں کرتا ہے جو کہ تجلی اور حلول میں تمیز نہیں کر سکتا‘‘۔

ارباب حقیقت کی معرفت حال ہوتا ہے، یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ صحتِ حال کو معرفت کہتے ہیں۔ اور دوسرے لوگ یعنی علماء و فقہاء صحتِ علم کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معرفت کہتے ہیں۔ اور علمائے اُصول (متکلمین) علم اور معرفت میں فرق نہیں کرتے، اور علمائے اُصول علم اور معرفت میں فرق نہیں کرتے،

تشریح:

یہی تو سب سے بڑی بات ہے، جو ہم اکثر کرتے رہتے ہیں کہ جب کبھی آپ جمعہ کا خطبہ پڑھیں، جہاں سے بھی پڑھیں، جو بھی پڑھیں، وہ سارا تصوف پر مبنی ہوتا ہے، لیکن عمل کو دیکھو، تو تصوف سے دور ہوتا ہے۔ بلکہ زیادہ تر انکار ہوتا ہے، حالانکہ آپ ہر چیز کے لئے ذریعہ مانتے ہیں، تو ان چیزوں کے لئے ذریعہ کیوں نہیں مانتے۔ کیونکہ اگر آپ کو صبر ویسے حاصل ہو جائے، تو پھر فرق کس چیز میں ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (البقرۃ: 153)

ترجمہ: ’’بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔

اور ایسے لوگ بھی ہوں گے، جو صبر نہیں کرتے ہوں گے تو اللہ ان کے ساتھ نہیں ہو گا۔ لہٰذا فرق کون کرے گا؟ کیسے ہو گا اور کس بنیاد پر ہو گا؟ صبر علم نہیں ہے، عمل ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صبر کا علم رکھنے والوں کے ساتھ ہے، بلکہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ گویا صبر ایک عمل ہے، جو صبر کا عمل کرتا ہے، اس کے ساتھ اللہ ہے۔ یہی تو مسئلہ ہے کہ لوگ علم اور معرفت میں فرق نہیں کرتے، علم و عمل میں فرق نہیں کرتے۔ اسی قسم کے مسائل ہیں۔ اور اس میں رکاوٹ نفس ہے۔ کیونکہ نفس کام کرنے کو نہیں مانتا، نفس محنت نہیں کرنا چاہتا۔ نفس کہتا ہے کہ بس مجھے تیار اور پکی پکائی مل جائے۔ جو میری مرضی ہو، وہ مجھے مل جائے۔ میں نے کچھ اور نہیں کرنا۔ جیسے بچہ ضد کرتا ہے کہ مجھے یہ چیز مل جائے، حالانکہ وہ اس کے مناسب نہیں ہوتی۔ بہر حال! نفس رکاوٹ بنتا ہے۔ جیسے اللہ پاک نے بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا تھا کہ ’’دَعْ نَفْسَکَ وَتَعَالَ‘‘ کہ اپنے نفس کو چھوڑ دے اور میرے پاس آ جا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

متن:

بجز اس بات کے کہ کہتے ہیں یہ بات مناسب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو عالم کہا جائے اور یہ بات نامناسب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو عارف کہا جائے، لیکن مشائخِ طریقت رضوان اللہ علیہم اجمعین اُس علم کو جو حال کے معاملہ کے قرین ہو اور لوگ اُس کو حال سے عبارت کریں، یعنی اُس کو حال جانیں، تو اُس کو معرفت کہتے ہیں اور عالم اُس کو علم۔ پس جو شخص ایک چیز کے معنیٰ اور حقیقت کا علم رکھتا ہو، اُس کو معرفت کہتے ہیں، اور جو کوئی محض اُس کو عبادت جانے اور اُس کے معنیٰ اور حقیقت کی سمجھ سے بے بہرہ ہو اُس کو دانش مند کہتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب یہ گروہ اپنے دست احباب پر اپنا استحقاق جتلانا چاہیں، تو اپنے آپ کو دانش مند کہتے ہیں۔ اور ظاہر بین (ظاہر کو دیکھنے والے) کو بین کی یہ بات بُری معلوم ہوتی ہے۔ اور ان کی مراد علم کی بُرائی نہیں ہوتی کہ علم کو حاصل کیا جائے بلکہ اُس علم پر عمل نہ کرنے کی برائی کرتے ہیں۔ اگرچہ حقیقت میں یہ لوگ زیادہ عارف ہوتے ہیں لیکن اپنے آپ کو یہ لوگ زیادہ عاجز، کم سواد اور مبتدی خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں، اور معرفت کو اپنے دعویٰ اور لاف زنی سے پاک رکھتے ہیں اور معرفت کے اضافے اور ترقی کی کوشش کرتے ہیں،

تشریح:

یعنی معرفت کو اونچا کام سمجھتے ہیں، اس کو اپنا زیرِ دست نہیں سمجھتے۔ جیسے شاکر آدمی شکر کو اپنے زیرِ دست نہیں سمجھتا۔

متن:

نہ کہ عبارت آرائی کی سعی میں مشغول رہتے ہیں۔ اور معروف کے حسن و جمال کو عارف اپنے دل میں سما کر اور سنبھال کر ایسا رکھتا ہے کہ خلوت میں بھی معرفت ہوتی ہے اور وہ اس انداز سے کہ دفتروں میں اس کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں تو صورت کی تنگ سی جگہ میں اُس کی گنجائش کہاں ہو سکتی ہے۔ فقیروں کی جھونپڑی میں بادشاہوں کا کیا کام؟ مسافر (عارف) کے لیے یہ بات لازمی شرط ہے کہ جب تک وہ معروف تک نہ پہنچے کسی چیز پر قناعت نہ کرے، اور راہ معرفت میں کہیں نہ ٹھہرے۔

تشریح:

یہ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رکنا نہیں ہے۔ جہاں تم رک گئے، وہاں تنزّل شروع ہو گیا۔

متن:

جتنا کہ راہ معرفت میں زیادہ وہ علم حاصل کرے تو اُس سے زیادہ اور بہت زیادہ کی طلب اور جستجو کرے۔ شرابِ معرفت کے جتنے زیادہ جرعے نوش کرے، اُس سے زیادہ کی خواہش کرے اور زیادہ تشنگی محسوس کرے۔

تشریح:

یعنی جو رک گیا کہ بس، گویا اس کی بس ہو گئی۔ جس نے کہا: بس، اس کی ہو گئی بس۔ بلکہ ہو گیا بے بس۔

متن:

؎ اگر در روز ہزار بار بہ بستیم

در آرزوئے بار دگر خواہم بود

’’اگر ایک دن میں ہزار بار بھی وصل سے لطف اندوز ہو جاؤں، تو دوسری دفعہ کی (خواہش اور) آرزو دل میں موجزن ہو گی‘‘۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان کی یہ حالت تھی کہ "لَوْ وُزِنَ إِیْمَانُ أَبِيْ بَکْرٍ مَعَ إِیمانِ اُمَّتِيْ لَرَجَحَ کَفُّہٗ" (الکامل فی الضعفاء بمعناہ، تحت مرویات عبداللہ بن عبد العزیز بن أبی روّاد، رقم الصفحۃ: 335/5، دار الکتب العلمیۃ، بیروت) ”اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان اُمت کے ایمان کے ساتھ تولا جائے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان کا پلڑا بھاری ہو گا“ اُنہوں نے فرمایا کہ اے رسول اللہ! ﷺ ایمان بس یہی تشنگی ہے۔ (لم أجد ہذا الحدیث)

اور کیا تم نے یہ سُنا ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے یہی شراب نوش فرمائی تھی اور اسی خمار و مستی میں حلقۂ ارباب اور محفل یاراں میں تشریف آوری فرمائی، اور اُن کو کہنے لگے "تَعَالَوْا نُؤْمِنُ سَاعَۃً" (الصحیح للبخاری تعلیقًا بمعناہ، رقم الصفحۃ: 10/1، دار طوق النجاۃ) ”دوستو! آ جاؤ گھڑی بھر کے لیے ایمان لے آئیں“ جب اُن کے دوستوں نے ان کی یہ عجیب بات سُنی تو سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ معاذ ہم سے ایسا کہتے ہیں کہ "تَعَالَوْا نُؤْمِنُ سَاعَۃً" یا رسول اللہ! ﷺ کیا ہم ایمان نہیں لائے ہیں، جو کہ وہ ہم کو گھڑی بھر کے لیے ایمان لانے کا کہہ رہے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: "اے معاذ! محبت کے مئے کدہ سے شراب نوش کر کے دوستوں کے ساتھ ایسی باتیں کرتا ہے؟" (لم أجد ہذہ القصۃ) یہی وہ تشنگی اور پیاس ہے، جو کہ بڑھتی جاتی ہے۔

تشریح:

در اصل وہ جو گھڑی بھر کے لئے ایمان لانے کا کہہ رہے تھے، اس سے مراد معرفت ہے۔ کیونکہ معرفت تو ختم نہیں ہوتی، وہ تو بڑھتی رہتی ہے۔ ایمان تو بر قرار رہتا ہے۔ صحابہ کی بات بھی صحیح تھی کہ ایمان ان کو حاصل تھا۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات بھی صحیح تھی۔ وہ معرفت کی بات کر رہے تھے۔ یعنی معرفت اور ایمان کے اندر الفاظ کا ہیر پھیر ہو سکتا ہے۔ کیونکہ معرفت پہچان ہے اور پہچان سے ہم اس کو جان رہے ہیں اور جاننے سے مان رہے ہیں۔ حالانکہ جب بنیادی چیز آپ نے مان لی ہے، تو ایمان تو پورا ہو گیا۔ اس کے بعد مزید پہچان سے جو اضافہ ہے، وہ در اصل معرفت میں اضافہ ہے۔ ایمان تو اپنی جگہ پر قائم ہے۔ گویا صحابہ نے جو بات کی تھی، وہ عقیدہ اور ایمان کی بات تھی۔ اور آگے حال کی بات ہے۔ اور حال متغیر ہے، حال ایک جگہ پہ نہیں رہتا، کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔ گویا وہ حال کی بات تھی اور حال میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ یہاں الفاظ کا ہیر پھیر ہے۔ جیسے فقہاءِ کرام مختلف روایتوں سے جو مختلف الفاظ میں ہوتی ہیں اور ان سے جو ایک نچوڑ نکلتا ہے، اس سے ایک تعریف نکال لیتے ہیں۔ جیسے: فرض یہ ہے، واجب یہ ہے۔ آج کل غیر مقلد ان چیزوں کو نہیں مانتے، کیونکہ ان کو یہ چیزیں معلوم نہیں ہیں۔ بہر حال! فقہاء فرض و واجب اور تمام چیزوں کی جو تخصیص کرتے ہیں، وہ ان تمام منتشر الفاظ سے ایک منظم لفظ نکال کے سامنے لاتے ہیں۔ اس طرح جو احوالِ معرفت کے موجزن ہیں، وہ بھی ان تمام منتشر الفاظ سے یہ بات نکال لیتے ہیں کہ ایمان اپنی جگہ پہ قائم ہے اور معرفت تبدیل ہوتی رہتی ہے، کم و بیش ہوتی رہتی ہے اور وہ حال کے درجہ میں ہے۔ لہٰذا ہر روایت اپنی اپنی جگہ درست نظر آ جاتی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے، تو اشکالات شروع ہو جاتے ہیں کہ پھر یہ کیا ہے؟ پھر یہ کیا ہے؟ پھر یہ کیا ہے؟ تعریفات انہی اشکالات کو دور کرنے کے لئے ہوتی ییں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ اصطلاحات مبتدی کے لئے سیڑھی کا کام کرتی ہیں اور منتہی کے لئے عیب ہیں۔ کیونکہ منتہی ان کا محتاج نہیں ہوتا اور مبتدی ان کے بغیر گزارہ نہیں کر سکتا۔

متن:

بیت

؎ مستک شدہ تو وندانی ہی

یارانت کہ بودند و کجا خوردی مے

ترجمہ:۔ تو مست و مخمور ہوا ہے، اور یہ نہیں جانتا کہ تمہارے ساتھی کون تھے، اور تو نے کس کی شراب پی ہے۔ رباعی

بیش نما جمال شہر افروز

چوں نمودی برد پسند بسوز

آں جمال تو چیست مستی او

واں پسند تو چیست ہستی او

’’اپنی دُنیا کو روشن کرنے والے جمال کو زیادہ ظاہر نہ کر، اور جب ظاہر کیا، تو اُس پر پسند کو جلا ڈال۔ تمہارا جمال کیا ہے؟ اُس کی مستی ہے اور وہ پسند کیا چیز ہے؟ وہ اُس کی ہستی ہے‘‘۔

اور کہتے ہیں، کہ روزانہ کئی دفعہ عرش کرسی سے کہتا ہے کہ "ھَلْ لَّکَ خَبَرٌ؟" ”کیا کوئی نئی تازہ خبر ہے؟“ اور کرسی عرش سے پوچھتی ہے کہ "ھَلْ لَّکَ أَثَرٌ؟" ”کیا تمہارے پاس کوئی بات ہے؟“ آسمان زمین کو کہتا ہے، "ھَلْ مِنْ طَالِبِ رَبِّکَ؟" ”کیا تمہارے ہاں رب کا کوئی طالب ہے؟“ اور زمین آسمان سے استفسار کرتی ہے کہ "ھَلْ سَافَرَ فِیْکِ عَاشِقٌ؟" ”کیا تم میں کسی عاشق نے سفر کیا؟“ یہ سب فریاد اسی پیاس اور تشنگی سے ہے۔ اے بھائی! اُس کے واسطے اس راہ میں ہزاروں شہید اور مقتولین ہیں اور ہزاروں فریادی ہیں۔ اہل دانش و خرد اُس کی طلب میں پریشان ہیں اور اصحاب علم اُس کے جلال و جبروت کی تلاش و جستجو میں سر گرداں ہیں اور اہل نظر اور اصحاب بصیرت اس کی عظمت کے سمندر کے ایک ایک قطرے میں مستغرق ہیں اور اُس کے آتش جلال کے شراروں کے سوختہ ہیں۔

ایک شخص نے شراب خانے کے دروازے پر آکر شراب فروش سے استدعا کی کہ اُسے شراب دی جائے۔ شراب فروش نے کہا کہ شراب کا خم خالی ہو گیا ہے اب کوئی شراب باقی نہیں رہی۔ اُس شخص نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں مگر عرض یہ ہے کہ مجھے شراب کے خم کے کنارے تک لے جاؤ تاکہ میں اُسے سونگھوں اور اس کی بُو سے میں ایسا مست ہو جاؤں کہ دوسرے لوگ سینکڑوں ساغر و کاسه کے نوش کرنے سے بھی کیا مستی کریں گے۔ (بیت)

؎ مست از مئی عشق آن چنا نم کہ اگر

یک جرعہ ازاں پیش خورم نیست شوم

’’میں عشق کی شراب سے ایسا سخت مست ہوا ہوں، کہ اگر ایک گھونٹ بھی اور مزید پی لوں تو ختم ہو جاؤں گا‘‘۔

اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ اس دربار کے گدا اور فقیر اُس کی بُو سے اتنے مست اور از خود رفتہ ہیں کہ ملاء اعلیٰ اور عرش کے فرشتے بھی اُس کے بوجھ کا تحمل نہیں رکھتے۔

تشریح:

کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کو بڑی بڑی چیزوں سے بھی وجد نہیں آتا اور بعض لوگ جو پہلے سے مست ہوتے ہیں، ان کو ہوا چلنے سے بھی وجد آ جاتا ہے۔ ہر شخص کا اپنا اپنا حال ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ نشہ شراب میں ہوتا، تو بوتل ناچتی۔ بوتل میں شراب سے مست ہونے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ جس میں صلاحیت ہو، وہ اس کی بو سے بھی مست ہو جاتا ہے۔ بس یہ اپنی اپنی صلاحیت ہے۔

متن:

ملاء اعلیٰ اور عرش کے فرشتے بھی اُس کے بوجھ کا تحمل نہیں رکھتے۔ لطف کی ایک ہوا چلی جو کہ دل جلے گدا کے سینے پر سے گزری، تمام فرشتے ہوش و حواس کھو کر بے ہوش گر پڑے۔ جب پھر سے ہوش میں آئے تو جبرئیل علیہ السلام سے فرشتوں نے پوچھا کہ ہم نے سات لاکھ سالوں میں ایسی خوشبو نہیں دیکھی تھی جیسا کہ ہم نے قاب قوسین کے صاحب یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کے مبارک عہد میں دیکھی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جناب رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ "إِنِّيْ لَأَجِدُ نَفَسَ الرَّحْمٰنِ مِنْ قِبَلِ الْیَمَنِ" (إحیاء العلوم بمعناہ، کتاب قواعد العقائد، الفصل الثالث، رقم الصفحۃ: 104/1، دار المعرفۃ بیروت) ”میں رحمٰن کی خوشبو یمن کی جانب سے محسوس کر رہا ہوں“ یہ خوشبو اور یہ نسیم ایک شتربان یعنی اونٹ چرانے والے کے جلے ہوئے سینے سے آ رہی ہے جو کہ یمن کے علاقہ میں مستی فرما رہا ہے۔

تشریح:

یہ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔

چنانچہ معرفت ایک سمندر ہے۔ قسمت میں کتنی ہے، یہ اللہ کو پتا ہے۔ لیکن جو عاشق ہوتا ہے، وہ قسمت میں ہونے نہ ہونے کو نہیں سوچتا۔ جو سوچنا شروع کر دے، وہ عاشق نہیں ہے۔ جو عاشق ہوتا ہے، وہ سوچتا نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی عاشقوں کی category میں ہونا چاہئے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ