اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الْصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
ایک صاحب نے اپنے والد صاحب کی بیماری کا اور بہت ساری پریشانیوں کا پوچھا ہے کہ میں ان میں کیا کروں؟
جواب:
قرآن پاک نے اس کا جواب دیا ہے: ﴿اَلَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ 0 اُولٰٓىِٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ﴾ (البقرہ: 156)
ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
جب نیک لوگوں کو یعنی اچھے لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ﴾ یہ صرف کہنا نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ کے ہیں، اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔ لہذا اللہ تعالی کو ہمارے اندر تصرف کرنے کا حق حاصل ہے، اللہ پاک جو بھی کرنا چاہے کر سکتا ہے، یہ حقیقت کا اعتراف ہے۔ جیسے ایک حقیقت ہوتی ہے لیکن کوئی اس کو مانتا ہے کوئی اس کو نہیں مانتا۔ ظاہر ہے جب بھی کوئی رحمت کی درخواست کی جاتی ہے تو پہلے اس کے اختیار کو تسلیم کیا جاتا ہے، پھر رحمت کی درخواست کی جاتی ہے جب تک آپ نے اختیار کو تسلیم نہیں کیا تو آپ درخواست کس طرح کر سکتے ہیں؟ تو یہ گویا کہ اس کا پہلا مرحلہ ہے کہ آپ نے اختیار تسلیم کر لیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے، آپ ادھر ادھر جا بھی نہیں سکتے، کام بھی اللہ کے ساتھ ہے فیصلہ بھی اللہ کا ہے، لہٰذا وہی کیا جاتا ہے جو کہ الله جل شانهٗ کو پسند ہوتا ہے اور وہ ہے صبر۔ تو پھر ایسے لوگوں پر اللہ پاک کی خصوصی رحمت نازل ہوتی ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہوتے ہیں۔ بہرحال ہر موقع کی دعا ہے یعنی انسان کو جو بھی پریشانیاں اور مشکلیں در پیش ہوں ان میں دعا لازمی کرنی چاہئے اور دعا کو تمام اسباب سے اوپر سمجھنا چاہئے۔ اسباب اختیار کرنا ضروری ہے، جیسے والد صاحب بیمار ہیں تو علاج کرنا ضروری ہے، لیکن شفاء ڈاکٹروں کے ہاتھ میں نہیں ہے وہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، لہذا اللہ تعالی پر بھروسہ کر کے علاج کرنا چاہئے اور اللہ پاک سے دعا کرنی چاہئے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی! زوال کا وقت کب سے کب تک ہوتا ہے؟ مثال کے طور پر آج ظہر کا وقت 11:52 پر داخل ہوا ہے تو اس صورت میں زوال کا وقت کب سے کب تک ہو گا؟
جواب:
زوال کے وقت کا حساب ظہر کے وقت کے حساب سے مقرر ہوتا ہے، مثلاً اگر ظہر کا وقت بارہ بج کر دو منٹ پر ہے تو اس سے چار پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد یعنی دس منٹ تک زوال کا وقت سمجھنا چاہئے۔ تو آپ 11:52 سے پانچ منٹ منفی کریں تو 11:47 سے 11:57 تک زوال کا وقت ہو گا۔
سوال نمبر 3:
حضرت کیا اپنی اہلیہ کو ترغیب دینے کی نیت سے نفلی صدقہ اس کے سامنے کر سکتے ہیں؟
جواب:
بہتر یہی ہوتا ہے کہ نفلی صدقہ خفیہ طور پہ کرے، البتہ جو فرض اعمال ہیں جیسے زکوۃ وغیرہ، وہ سامنے ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔
سوال نمبر 4:
کسی نے دبئی سے لکھا ہے شاہ صاحب! میں آنے سے پہلے آپ سے بیعت ہو کر آیا تھا اور جو وظیفہ آپ نے دیا تھا وہ تو مکمل ہو گیا تھا، لیکن اس کے بعد مزید میں کوئی وظیفہ نہیں لے سکا۔ مجھے یہاں چھ مہینے ہو گئے ہیں اور میرے معاملات بہت خراب ہیں۔ مجھے یہاں ابھی تک نوکری نہیں ملی اور کام صحیح نہیں ہو رہا، میرا دل بہت بے چین ہے اور سکون نہیں ہے، میں چوبیس گھنٹوں میں صرف دو سے تین گھنٹے سوتا ہوں، نیند بھی نہیں آتی اور نہ ہی کسی چیز میں دل لگ رہا ہے، نہ نماز میں اور نہ قرآن میں، میں نماز پڑھتا ہوں، قرآن بھی پڑھتا ہوں، لیکن یہ سب دل سے نہیں ہو رہا، عجیب حالات ہو رہے ہیں، میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اس وقت تو سب سے پہلے دو رکعت صلاۃ التوبہ پڑھ لیں، تاکہ اگر یہ حالات آپ کے قصور کی وجہ سے ہوں تو اللہ پاک آپ کو معاف فرمائے، اس کے بعد دو رکعت صلاۃ الحاجت پڑھ لیں کہ الله جل شانهٗ آپ کے مسائل کو حل فرما دے اور اس پر بھی اللہ پاک سے معافی مانگیں کہ آپ نے وظیفہ جاری نہیں رکھا اور اس کی اطلاع بھی نہیں دی اور جب آپ کے حالات خراب ہو گئے تو ابھی آپ اطلاع دے رہے ہیں! اتنے عرصے میں آپ کو اس وقت یاد آیا جب آپ کے حالات خراب ہو گئے، جب حالات تھوڑے سے آپ کے کنٹرول میں ہوں تو اس وقت آپ کو یاد آنا چاہئے تھا۔ اس پر بھی اللہ تعالی سے معافی مانگیں، حالات بدلنا اللہ کا کام ہے، لیکن اپنے آپ کو بدلنے کی نیت کرنا ہمارا کام ہے، ہمیں خود اپنے آپ کو بدلنا ہو گا، حالات بدلنے کے لئے۔ پچھلا وظیفہ اگر چالیس دن مکمل ہو گیا تھا تو اگلا وظیفہ آپ لے لیں کہ تیسرا کلمہ سو دفعہ، درود شریف سو دفعہ، استغفار سو دفعہ۔ اور ذکر اگر آپ نے ہمارے ساتھ کبھی کیا ہو تو "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" سو دفعہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ" سو دفعہ، "حَقْ" سو دفعہ اور "اَللہ" سو دفعہ یہ آپ روزانہ کر لیا کریں۔
سوال نمبر 5:
The wrong time I really hit myself in Ramzan by blessing of Allah I do wazaif and Quran tilawat but not tie first time after marriage I do taraweeh without any complaint before this I did tarawih by force. Allah bless you.
جواب:
الحمد للہ! کسی خاتون نے سلسلے کی برکت سے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ الله جل شانهٗ ان کو سلسلے کی اور برکات بھی عطا فرمائیں۔
سوال نمبر 6:
کسی نے کوئی کلپ شیئر کیا ہے جس میں جبرائیل علیہ السلام اور آپ ﷺ کا تذکرہ ہے لیکن ساتھ سند نہیں ہے۔
جواب:
میں نے لکھا ہے کہ اس کی سند کی تحقیق ضروری ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کوئی بھی غیر مستند بات کرنا جہنم میں جانے کا ذریعہ بن سکتا ہے، اس کا خیال رکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بات چاہے وہ کتنی ہی اونچی کیوں نہ ہو سند کے بغیر آگے بیان نہیں کرنی چاہئے، مثال کے طور پر معراج شریف بہت اونچا واقعہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت اونچے مقام تک گئے لیکن اگر ہم کسی جگہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو خلاف واقعہ ہو، جس کی سند نہ ہو، تو اس کو آگے شئیر نہ کریں، وہ جھوٹ ہو گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جھوٹ منسوب کرنے میں نقصان ہے۔
سوال نمبر 7:
ایک صاحب نے ای میل کے جواب میں لکھا ہے، میں وہ سنا دیتا ہوں تاکہ ان کو پتہ چل جائے۔
Aslam o alikum. I think and understand why it happened but that time I was feeling too frustrated. The first time I heard about someone raising my mother, I was disturbed but it's ok now. I think I am too selfish. everyone I was just hold the daughter and my sister
جواب:
ٹھیک ہے، الحمد للہ آپ کو سمجھ آگئی، الله جل شانهٗ مزید سمجھ عطا فرمائے۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم حضرت!
Fulan Here. Pray for me and pray for my mother. She wants to perform hajj this year. It's too late but in fact we were unable to afford it. Anyways, she wants to perform hajj. She is ill and weak. Please pray for her.
جواب:
آپ ذرا ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں کہ کیا وہ حج کرنے کے قابل ہیں یا نہیں؟ اگر وہ حج کرنے کے قابل نہ ہوں تو پھر ان کی طرف سے کوئی اور حج کر لے کیونکہ ایسا نہ ہو کہ وہاں مسئلہ بن جائے۔ اس کے بارے میں اچھی طرح تحقیق کر لیں، حج فرض ہے لیکن اس وقت فرض ہے جب دو چیزیں میسر ہوں: صحت ہو اور مالی استطاعت ہو، مالی استطاعت تو آپ کی ہے لیکن صحت کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے وہ تو آپ جانتی ہیں یا آپ کے ڈاکٹر جانتے ہیں، اس لئے پہلے تحقیق کر لیں۔
سوال نمبر 9:
قیامت کے دن قبروں سے اٹھنے کے بعد جب ہم میدانِ حشر کی طرف جا رہے ہوں گے تو اس وقت شیخ اپنے مرید کی رہنمائی کرے گا؟
جواب:
اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ایسی چیزوں کے متعلق، کتابوں میں تو ایسے نہیں لکھا۔ یہ اللہ پاک کی قدرت ہے، کر بھی سکتا ہے اور اگر ارادہ نہ ہو تو اس کی مرضی ہے، سلسلے کی برکت تو یقینی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے، کیونکہ ساری سلسلے کی برکتیں ہوتی ہیں، لیکن جیسے کہتے ہیں کہ دو کاغذ ہیں، ان کو جوڑنے کے لئے سریش نہ ہو تو اگر آپ ہاتھ ہٹالیں گے تو وہ الگ ہو جائیں گے، سریش ہو تو جڑ جائیں گے اسی طرح شیخ اور سلسلے کی برکت تب ہو گی جب انسان اس کے لئے کوشش کرے۔ تو پھر ضرور اللہ تعالی کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔ یعنی سلسلہ کا آ جاتا ہے، شیخ کام آ جاتا ہے۔ امام رازی کا مشہور واقعہ ہے کہ موت کے وقت شیطان سے مناظرہ شروع ہو گیا تھا ان کے شیخ پہ اللہ نے معاملہ کھول دیا اور انکے ذریعے سے مدد فرمائی۔ بہرحال انسان پہلے سے کوشش جاری رکھے۔ کچھ لوگوں نے اس کو اپنے رنگ میں پھیلایا ہے، اور دوسروں نے اسے اپنے رنگ میں سمجھ لیا ہے اس وجہ سے اس پہ گفتگو کرنا مناسب نہیں ہے۔
سوال نمبر 10:
سنا ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ آپ رہتے ہیں یا جن لوگوں کو پسند رکھتے ہیں انہی کے ساتھ قیامت والے دن اٹھائے جائیں گے۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟
جواب:
یہ بات ٹھیک ہے، جن کے ساتھ محبت ہو گی اللہ تعالی ان کے ساتھ حشر کرے گا لیکن محبت کا پیمانہ بھی تو اللہ کے پاس ہے، یعنی یہ فیصلہ تو اللہ نے کرنا ہے کہ ہماری محبت واقعتاً کس طرح کی ہے یعنی ہم صرف محبت ہی رکھتے ہیں یا محبت کا حق بھی ادا کرتے ہیں۔ بعض لوگ محبت کا حق ادا نہیں کرتے، مثال کے طور پر بیعت ہو گیا پھر پروا ہی نہیں ہے، جیسے ابھی لڑکے کی بات گزری کہ ذکر و اذکار کی کوئی پروا نہیں کی، جب مسئلہ ہو گیا تو پھر رابطہ کرتے ہیں۔ یہ بے وفائی ہے، یہ تو دنیا داری ہے، صرف اور صرف دنیا کے لئے تعلق رکھنا ہے۔ اگر اللہ کے لئے تعلق ہے تو پھر اس کا حق بھی ادا کرنا ہوتا ہے، وہ یہ کہ اعمال کرنے ہوتے ہیں۔ پھر اللہ کی مدد ضرور آتی ہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ کم از کم اپنے آپ کو اس سلسلے کا سمجھا تو جائے، یعنی آپ وابستہ رہیں اور جو کام آپ کو بتایا جائے وہ کام کرتے جائیں۔
سوال نمبر 11:
حضرت نماز کے دوران خیالات و وساوس آتے ہیں۔ اس کا کیا حل ہے؟
جواب:
نماز کے دوران آنے والے خیالات کی پروا نہ کریں اور توجہ بھی نہ دیں۔ اپنی توجہ نماز کی طرف رکھیں تو ان وساوس سے نقصان نہیں ہوتا۔
سوال نمبر 12:
تراویح کے دوران اگر قاری صاحب قرأت کرتے ہیں تو قرأت کی طرف دھیان کرنا چاہئے یا اس کے مفہوم کی طرف بھی دھیان کر سکتے ہیں؟
جواب:
اس کے مفہوم کی طرف بھی دھیان کر سکتے ہیں، تاکہ وہ سمجھ آئے لیکن بہت زیادہ گہرائی میں نہ جائیں بس ساتھ ساتھ چلیں۔ مفہوم سمجھ میں آ رہا ہو، بس اتنا کافی ہے۔ اور جو مفہوم رواں ہے اس کے ساتھ ہی چلیں یہ اس میں دل لگنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔
سوال نمبر 13:
حضرت جی حقیقتِ صلوٰۃ، حقیقتِ کعبہ اور حقیقتِ قرآن کے مراقبات کی وضاحت فرما دیں۔
جواب:
حقیقت کعبہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت خانہ کعبہ پر آ رہی ہے اور وہاں سے ہمای طرف آ رہی ہے۔ حقیقتِ قرآن کا مراقبہ یہ ہے کہ قرآن کا نور میرے سینے میں آ رہا ہے۔ اور نماز کا مراقبہ یہ ہے کہ بندگی والی کیفیت حاصل ہو جائے کہ میری روح اللہ کے سامنے حاضر ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ