اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر مشتمل کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ‘‘ کی تعلیم ہو رہی تھی، جو الحمد للہ گزشتہ منگل کو پوری ہو گئی تھی۔ آج حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب المعروف حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’مقالاتِ قدسیہ‘‘ شروع کی جا رہی ہے۔ جس کے مقالۂ اول کی ابتدا کی جا رہی ہے۔
مقالۂ اوّل
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ الَّذِيْ مَکْتُوْبٌ فِي التَّوْرٰۃِ وَمَمْدُوْحٌ فِي الإِنْجِیْلِ أَحْمَدُ مُحَمَّدٌ حَبِیْبُ رَبِّ العٰلَمِیْنَ وَعَلٰی آلِہٖ وَأَصْحَابِہٖ أَجْمَعِیْنَ
اس کتاب کے حصّہ اول یعنی مقامات قطبیہ کی تکمیل و تسوید کے بعد اس کے حصّہ دوم یعنی مقامات قدسیہ کو مرتب کرتا ہوں، لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا کے سچے طالب اور سالک کے لیے لازم ہے کہ اس کتاب سے استفادہ کرنے سے قبل اُسے چاہیے کہ اس کتاب میں شامل تحریر شدہ ضمیمہ اور اس سلسلے میں مؤلف کی وصیت کا نہایت غور و فکر اور اذعان سے مطالعہ کر کے ذہن نشین کر لے، ورنہ اس بات کا قوی احتمال ہے کہ وصیتِ مذکورہ پر عمل کیے بغیر اگر کتاب ہٰذا کے اذکار و اوراد پر عمل کرے گا تو نفع کی بجائے نقصان سے دو چار ہوگا۔ وَ مَا عَلَی الرَّسُوْلِ إِلَّا الْبَلَاغُ ۔ (ابو اسد اللہ)
تشریح:
یہ اس کتاب کے مرتب ابو اسد اللہ صاحب کی طرف سے نوٹ ہے۔
مقالۂ اوّل
محمد رسول اللہ ﷺ کے نور کے بارے میں
"اسرار المشائخ" نام کے ایک رسالے میں آیا ہے کہ اگر کوئی چاہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے تو اُس کو چاہیے کہ سرور عالم ﷺ کے نور پاک کی پیدائش کی کیفیت سے آگاہی حاصل کرے۔
جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ اپنی خدائی کو ظاہر کرے تو اپنے کمال قدرت سے نور محمدی ﷺ کی تخلیق فرمائی۔ چنانچہ سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ نُوْرِیْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 403/1، دارالفکر، بیروت) ”جو چیز اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیدا فرمائی وہ میرا نور تھا“۔ اور ایک دوسرے قول میں فرمایا ہے کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ عِشْقِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”خدا نے سب سے پہلے میرے عشق کو پیدا کیا“۔ اور یہ دونوں فرمان بالاتفاق ثابت ہیں۔ اور یہ تو ظاہر بات ہے کہ اگر عشق نہ ہوتا تو نور محمدی ﷺ کو کبھی بھی پیدا نہ کیا جاتا، اور اگر نور محمدی ﷺ کو پیدا نہ فرماتے تو اپنی خدائی کو ظاہر نہ فرماتے، سب سے پہلے نور محمدیﷺ کو پیدا کیا، اور پھر اپنی خدائی ظاہر کی۔
تشریح:
یہ بہت اہم باب ہے۔ کائنات کی تخلیق کب ہوئی، کیسے ہوئی، اس باب میں اس کے بارے میں معلومات ہیں۔ ہمیں اس بات سے تو منع کیا گیا ہے کہ ہم اللہ جل شانہٗ کی ذات کے اندر بات کریں، کیونکہ وہ وراء الوراء ہے۔ ہم لوگ اس کے بارے میں کچھ بات نہیں کر سکتے۔ کریں گے بھی تو ناقص بات ہو گی اور اس میں خطرے کا امکان ہے کہ کہیں بھٹک نہ جائیں۔ البتہ آپ ﷺ نے اللہ جل شانہٗ کی صفات کے اندر غور کرنے کا ارشاد فرمایا ہے۔ قرآن میں بھی اللہ پاک نے اس طرف اشارہ کیا ہے: ﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ 0 الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (آل عمران: 190-191)
ترجمہ: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار ! آپ نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجئے‘‘۔
یہاں ایک بات بہت زیادہ اہم اور ضروری ہے کہ فکر بہت سارے لوگ کرتے ہیں اور ذکر بھی بہت سارے لوگ کرتے ہیں۔ لیکن ان دونوں کو جمع بہت کم لوگ کرتے ہیں کہ ذکر بھی ہو اور ساتھ ساتھ فکر بھی ہو۔ جب انسان کسی چیز میں فکر کرتا ہے تو سب سے پہلے جو بات سامنے آتی ہے وہ فکر کرنے والے کی حالت پر منحصر ہوتی ہے۔ مثلاً فکر کرنے والے کی اگر اپنے اوپر نظر ہو تو وہ جتنی بھی فکر کرے گا، اس سے اس کی اپنی بڑائی بڑھتی جائے گی۔ جیسے سائنسدانوں کا عموماً یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ کائنات کی تخلیق میں ضرور غور کرتے ہیں، لیکن انہیں غور کرنے سے اللہ کی معرفت مطلوب نہیں ہوتی، بلکہ اپنی ذات کی بڑائی مطلوب ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ان کے پیپرز میں دو چیزوں پر زور ہوتا ہے، وہ جو چیز discover کرتے ہیں، اس کے اوپر زور ہوتا ہے اور جو discover کرتا ہے اس کے اوپر زور ہوتا ہے کہ میں نے یہ کیا اور میں نے یہ کیا اور میں نے یہ کیا۔ اسی پر سارا زور ہوتا ہے۔ نتیجتاً جتنی جتنی تحقیقات کرتے گا، اتنی اتنی بڑائی اس کے ذہن میں بڑھتی جائے گی اور اپنے آپ کو بڑے سے بڑا سمجھتا جائے گا۔ کہتے ہیں کہ فلسفہ کے اندر بنیادی طور پر تکبر پنہاں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان عقل سے کام لیتا ہے تو جتنا جتنا کام لیتا ہے اس کو باقی لوگ بیوقوف نظر آتے ہیں اور خیال کرتا ہے کہ یہ تو ان تک نہیں پہنچے۔ یہ تو یہ بھی نہیں جانتے، یہ تو یہ بھی نہیں جانتے۔ گویا لوگوں کی حقارت اور اپنی بڑائی ذہن میں بیٹھ جاتی ہے، اسی پہ بات چلتی ہے۔ اب اس سے کیسے بچا جائے، کوئی بچنے کا راستہ بھی ہو۔ بچنے کا راستہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ کو ساتھ ساتھ یاد کیا جائے۔ جب اللہ تعالیٰ کو یاد کرے گا تو اس کی اپنے اوپر نظر نہیں پڑے گی اور اس کو کائنات کی تخلیق میں غور کرنے سے اللہ کی بڑائی نظر آئے گی۔ اسی لئے ان دونوں کو جمع کیا ہے اور ذکر کو پہلے اور فکر کو بعد میں ذکر کیا ہے: ﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ (آل عمران: 190) اُولُو الْاَلْبَابِ کی تشریح میں فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ﴾ (آل عمران: 191) یعنی سب سے پہلے کھڑے بیٹھے لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرنے کا ارشاد فرمایا. اور اس کے بعد فرمایا: ﴿وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِۚ﴾ (آل عمران: 191) اگر انسان ذکر نہ کرے، صرف فکر کرے تو نہ یہ کہ یہ صرف ذہنی عیاشی بن جاتی ہے، بلکہ اپنے ذہن میں اپنے آپ کے بڑے ہونے کا ایک راستہ بن جاتا ہے، جس سے انسان کی اپنے اوپر زیادہ نظر پڑتی ہے۔ اس لئے ان دونوں کو جمع کرنا ضروری ہے اور کثرت کے ساتھ ذکر کرنا ضروری ہے۔ شیطان فارغ نہیں بیٹھا، اس نے باقاعدہ اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ کہا ہے کہ جن کی وجہ سے میرا یہ حال ہوا ہے، میں ان کی اولاد کے راستے میں بیٹھ جاؤں گا اور دائیں سے آؤں گا، بائیں سے آؤں گا، آگے سے آؤں گا، پیچھے سے آؤں گا، ان کو تجھ تک نہیں پہنچنے دوں گا: ﴿اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ﴾ (ص: 83) یعنی جو تیرے چنے ہوئے لوگ ہیں، ان پہ میرا بس نہیں چلے گا۔ اس سے پتا چلا کہ اللہ پاک کے کچھ چنے ہوئے لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن پہ شیطان کا بس نہیں چلتا۔ لہٰذا ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل ہونا چاہیے اور اس کا ذریعہ اللہ پاک کا ذکر ہے۔ ذکر کے بارے میں احادیث شریفہ میں بالکل صاف صاف ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ذکر کے بارے میں اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے کہ جو ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا، ان کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔ یعنی جو ذکر کرنے والا ہے اس میں حیات ہے، اور جو ذکر نہیں کرتا، اس میں حیات نہیں ہے۔ وہ مردے کی طرح ہے اگرچہ چلتا پھرتا ہے، مگر لاش ہے، اس کے senses out ہیں۔ ﴿لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا وَلَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ﴾ (الاعراف: 179)
ترجمہ: ’’ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں‘‘۔
یعنی ایسے لوگوں کی نہ تو آنکھیں کام کرتی ہیں جن سے وہ حقیقت کو دیکھ سکیں۔ نہ ہی ان کے کان کام کرتے ہیں جن سے وہ صحیح بات کو سن سکیں۔ نہ ان کے دل کام کرتے ہیں، جن سے وہ حقیقت کو سمجھ سکیں۔ یہ چوپایوں کی طرح ہوتے ہیں۔ آپ یورپ کی زندگی کو دیکھیں، میں بھی یورپ میں رہا ہوں، جانوروں سے بدتر زندگی ہے۔ کھانا پینا مباشرت، انہی چیزیں کے اندر مگن ہیں۔ پانچ دن گدھوں کی طرح کام کرتے ہیں اور دو دن پھر عیش و عشرت کرتے ہیں۔ بس یہ ان کا ماحول ہے۔ کچھ کھانا، کچھ پینا اور کچھ دوسری چیزیں، جو ان کو پسند ہیں، بس انہی میں ساری زندگی گزار دیتے ہیں۔ جتنی ریسرچ کرتے ہیں، انہی پہ لگاتے ہیں، جتنی کوشش و محنت کرتے ہیں انہی پہ لگاتے ہیں۔ ان کی ایسی حالت ہے، اللہ تعالیٰ معاف فرمائے، کتے کتیوں کو کچھ حیا آ جائے گی، مگر ان کو حیا نہیں آتی۔ چنانچہ جب تک انسان انسان نہیں بنتا، اس کو اللہ نظر نہیں آ سکتا۔ اس لئے فرماتے ہیں: ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَهٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهٗ‘‘۔ لہٰذا انسان پہلے بنے گا، اس کے بعد اس کو اللہ کا پتا چلے گا۔ تو اس انسانیت کو حاصل کرنے کے لئے ذکر بہت بڑی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بار بار ذکر کا تذکرہ کیا ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا وَّسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا﴾ (الاحزاب: 41-42)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو‘‘۔
کتنا ذکر کرنا ہے یہ نہیں فرمایا، بس یہ فرمایا کہ زیادہ بس زیادہ ہے۔ اسی طرح اللہ جل شانہ نے فرمایا: ﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرہ: 152)
ترجمہ: ’’لہذا مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا‘‘۔
میں کہتا ہوں کوئی اور آیت کوئی اور حدیث شریف نہ بھی ہوتی تو سمجھ دار کے لئے یہ آیت کافی تھی ’’فَاذْكُرُوْنِیْۤ‘‘ پس مجھے یاد کر۔ ’’اَذْكُرْكُمْ‘‘۔ میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا۔ بالکل ایسی ہی بات ہے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ ذکر بہت اہم چیز ہے۔ میں نے یہاں کائنات کی تخلیق کا کیوں بتایا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بارے میں بات ہو رہی ہے اور آپ ﷺ کی ذاتِ عالی تکوینی اور تشریعی دونوں فیوضات کی جامع ہے، دونوں فیوضات آپ ﷺ سے آتے ہیں۔ تکوینی فیوض بھی آپ ﷺ سے آتے ہیں، جیسے آپ ﷺ نے فرمایا: ’’إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ یُعْطِيْ‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: 71)
ترجمہ: ’’میں تو تقسیم کرنے والا ہوں، اللہ پاک عطا فرمانے والے ہیں‘‘۔
اسی طرح تکوینی نظام بھی آپ ﷺ کے ساتھ وابستہ کیا ہے اور تشریعی نظام بھی آپ ﷺ کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ کسی کا ایمان اس وقت تک محفوظ نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اس کے ایمان کی تار آپ ﷺ کے ساتھ نہ ملی ہو۔ پاکستان میں پہلے شراب پر پابندی نہیں ہوتی تھی، شراب خانہ بھی کھلے ہوتے تھے اور کچھ لوگ شراب بھی پی لیتے تھے، ان کے اوپر کوئی پکڑ دھکڑ نہیں تھی، عام معاشرے میں ان کا مقام تو گرتا تھا لیکن بہرحال قانوناً ان کے خلاف کوئی بات نہیں ہو سکتی تھی۔ ان دنوں ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ چونکہ یونیورسٹی میں تھے اور یونیورسٹی میں پروفیسر حضرات میں ہر قسم کے لوگ تھے، تو کچھ لوگ مولانا صاحب کی مجلس میں drink کر کے بھی آ جاتے، ایک شخص آیا ہوا تھا، وہ مولانا صاحب سے پوچھتا ہے مولانا! خدا تعالیٰ کی ذات پر تجھے یقین ہے؟ فرمایا: ہاں جی، مسلمان ہوں، کیوں نہیں۔ اس نے کہا: آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟ حضرت نے فرمایا چونکہ آپ ﷺ نے ایسا فرمایا ہے۔ اس نے کہا: کیا ایک گواہی پر آپ اتنی بڑی حقیقت کو مان سکتے ہیں؟ پٹھان حضرت کے ساتھ تھے، پٹھان تو ایسے لوگوں کو چھوڑتے نہیں ہیں، وہ بپھر گئے، قریب تھا کہ اس کا معاملہ گڑبڑ ہو جاتا۔ حضرت نے اشارے اشاروں میں منع کر دیا کہ میں جواب دے رہا ہوں، آپ لوگ آپے سے باہر نہ ہوں۔ وہ حضرت کے اشاروں کو سمجھ کر چپ ہو گئے۔ حضرت نے بات بہت دور پھیلا دی اور ادھر ادھر کی باتیں اس سے پوچھنے لگے اور پھر پوچھا کہ آپ کے والدین کیسے ہیں؟ اس نے کہا: میرے والد تو فوت ہو گئے ہیں۔ پوچھا: والدہ زندہ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ پوچھا: وہ پرانے دور کی عورت ہے، وہ بہت سچ بولتی ہوں گی؟ چونکہ ایسے لوگ broad-minded بھی ہوتے ہیں، تو کہنے لگا کہ نہیں اپنے مطلب کے لئے کبھی کبھی جھوٹ بھی بول لیتی ہیں۔ جب اس نے یہ بات کی تو مولانا صاحب نے کہا: اچھا، آپ کو کیسے یقین ہے کہ آپ اسی شخص کے بیٹے ہیں، جن کا آپ نے نام لیا ہے؟ آخر وہ بھی پٹھان تھا، غصے میں آ گیا۔ کہتا ہے: مولانا! گالی تو نہ دو۔ حضرت نے فرمایا: دیکھو آپ نے اتنی بڑی بات کی، میں نے اس کو سن لیا۔ اب میں نے جو کچھ کہا ہے، یہ آپ بھی پی جائیں۔ کیونکہ اب آپ حقیقت کی تلاش میں ہیں۔ پھر فرمایا: میں نے جن کے بارے میں بات کی ہے اور جن کی بات مان رہا ہوں، ان کے بارے میں تو کافروں نے بھی یہ الزام نہیں لگایا کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی چالیس سالہ زندگی ان کے سامنے پیش کر دی اور پوچھا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے کوئی دشمن ہے اور وہ ہمارے اوپر حملہ کرنے کے لئے آ رہا ہے، تو کیا آپ مان لو گے؟ کافروں نے کہا کہ کیوں نہیں مانیں گے، آپ صادق اور امین ہیں۔ یہ کافروں کا statement تھا۔ پھر آپ ﷺ نے دعوت دی۔
ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اس وقت مسلمان نہیں تھے، جب قیصر کے پاس ملنے گئے، تو قیصر نے ان سے سوالات کئے اور ان سے یہ سوال کیا کہ کیا آپ لوگوں نے اس سے جھوٹ سنا ہے؟ اب دیکھو! جن کے خلاف ایک شخص استغاثہ کرنے کے لئے گیا ہے، اسی سے پوچھا جا رہا ہے کہ آپ لوگوں نے ان سے کبھی جھوٹ سنا ہے؟ اگر کہیں کوئی تھوڑی سی گنجائش بھی ہوتی، تو وہ یہ موقع نہ چُھوڑتے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، ہم نے ان سے جھوٹ نہیں سنا۔ یہ کتنی بڑی گواہی تھی۔ قیصر نے کہا: جو انسانوں پر جھوٹ نہیں بولتا، وہ خدا پہ جھوٹ کیسے بولے گا۔ چنانچہ میں نے کہا کہ میں نے ان کے بارے میں بات کی، جن کو سب لوگ سچا مانتے ہیں۔ اور آپ اپنے طور پہ خود اقرار کر چکے ہیں کہ وہ عورت کبھی کبھی اپنے مطلب کے لئے جھوٹ بھی بولتی ہے، تو اپنی عزت کو بچانے کے لئے وہ کیوں جھوٹ نہیں بول سکتی۔ لہٰذا اگر اس نے جھوٹ بولا ہو، تو پھر؟ اس پر وہ چُپ ہو گیا، اس کے پاس جواب نہیں تھا۔ میری ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا ایمان آپ ﷺ کے اوپر pivotal ایمان ہے، جس پہ سارے ایمانوں کا دار و مدار ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات آپ ﷺ نے بیان کی ہیں، وہی ہم مانتے ہیں، اس سے زیادہ یا اس سے کم ہم نہیں مان سکتے۔ چاہے وہ صفاتِ ثبوتیہ ہیں یا صفاتِ تنزیہ ہیں۔ وہ سب کی سب ہم نے آپ ﷺ سے ہی حاصل کی ہیں۔ اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ چونکہ آپ ﷺ ہی اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، فرشتوں کو بھی مخلوقات میں سب سے زیادہ آپ ﷺ جانتے ہیں۔ جو کتابیں نازل ہوئی ہیں، ان کے بارے میں بھی سب سے زیادہ علم آپ ﷺ کو ہے۔ حاتم طائی کا بیٹا اسی طرح مسلمان ہوا تھا کہ اس کی آپ ﷺ کے ساتھ ملاقات ہوئی، تو وہ نصرانیوں کے جس فرقے سے تھے تو آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ تم تو فلاں ہو، تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ ان کے طریقے میں تو یہ ہے۔ وہ حیران ہو گیا کہ آپ ﷺ کو اس کا کیسے پتا ہے۔ چنانچہ کتابوں کے بارے میں بھی سب سے زیادہ آپ ﷺ جاننے والے ہیں۔ فرشتوں کے بارے میں بھی سب سے زیادہ آپ ﷺ جاننے والے ہیں اور جنت اور دوزخ کو تو آپ ﷺ دیکھ کے آئے ہیں۔ تقدیر کو بھی سب سے زیادہ آپ ﷺ جاننے والے۔ ہر چیز آپ ﷺ کے لئے مستحضر تھی۔ منکرینِ حدیث جو اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہتے ہیں، وہ لوگوں کو پھنسانے کے لئے ایک سوال کرتے ہیں کہ قرآن مجمل ہے یا مفصّل ہے؟ اس سوال میں لوگوں کو گھیرتے ہیں۔ اگر کہیں کہ مجمل ہے، تو کہتے ہیں کہ ہمارے لئے کیسے مفید ہے؟ اور اگر کہیں کہ مفصل ہے، تو کہتے ہیں کہ پھر یہ بتاؤ، یہ بتاؤ، یہ بتاؤ۔ ان کے لئے جواب یہ ہے کہ قرآن کریم آپ ﷺ کے لئے مفصل ہے، ہمارے لئے مجمل ہے۔ آپ ﷺ کے لئے اس لئے مفصل ہے کہ آپ ﷺ اس کی تمام تفصیلات جانتے ہیں۔ جب کہ ہم اتنا جانتے ہیں، جتنا بتایا جائے۔ اس وجہ سے قرآن اپنی تفسیر کے لئے آپ ﷺ کے قول پر منحصر ہے۔ چنانچہ اگر ہم صحابہ کا قول لیتے ہیں، تو وہ بھی آپ ﷺ کی طرف جاتا ہے اور اگر ہم آپ ﷺ کا قول براہِ راست لیتے ہیں، تو وہ ہے ہی آپ ﷺ کا قول۔ قرآن کی جس آیت کی جو تفسیر آپ ﷺ نے بیان فرمائی، وہی معتبر ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ﴾ (البقرہ: 43) عربی لغت کے اعتبار سے ’’اَلصَّلٰوةَ‘‘ کا ایک معنیٰ ہے کوہلے مٹکانا۔ لہٰذا عربی قاعدے کے لحاظ سے ’’اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ‘‘ کا مطلب بنتا ہے ڈانس کی محفلیں قائم کرو۔ لیکن یہاں عربی نہیں چلتی۔ ہر علم کی اپنی اصلاحات ہوتی ہیں۔ جیسے انگلش میں میڈکل بکس میں Medical terminology انگلش کی لغت کے مطابق explain نہیں ہو گی۔ اس کی اپنی terminology ہے۔ اسی طرح ہر علم کی اپنی terminology ہوتی ہے۔ آپ کوئی بھی ایسی ڈکشنری اٹھا لیں جو تھوڑی سی تفصیلی ہو، اس میں لکھا ہو گا کہ میڈیکل terminology میں اس کا معنیٰ یہ ہے اور سوشالوجی میں یہ معنیٰ بنتا ہے، حتیٰ کہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ تصوف میں یہ معنیٰ بنتا ہے۔ اسی طرح ﴿اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ﴾ کا معنیٰ دینی terminology کے مطابق ہو گا۔ اور دینی terminology آپ ﷺ ہی بتائیں گے۔ بہر حال! اگر ہم غور کریں، تو آپ ﷺ پر ہی تشریعی اور تکوینی ساری باتیں جمع ہو رہی ہیں۔ میں نے تفصیل سے اس لئے عرض کیا ہے، کیونکہ آگے جا کر اس کی ضرورت پڑے گی۔
متن:
’’أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ نُوْرِیْ‘‘ (روح البیان، رقم الصفحۃ: 403/1، دارالفکر، بیروت)
تشریح:
میں اس بارے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا، صرف یہی بات سجھ لیں کہ ہمیں اگر کبھی کوئی مسئلہ پیش آ جائے، تو ہم علماء سے ہی پوچھتے ہیں۔ چنانچہ جو اپنے آپ کو دیوبندی کہتے ہیں، دیوبندی علماء ان پر حجت ہیں۔ تو جو دیوبند کے بانی ہیں، تو ظاہر ہے کہ وہ بھی حجت ہوں گے۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ دیوبند کو کون جانتا ہو گا۔ اکثر لوگ اس میں پھنس جاتے ہیں۔ حالانکہ دیوبند چند حضرات کے concepts کا نام ہے، جس میں مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ صفِ اول میں ہیں، حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث شریف کے بارے میں فرماتے ہیں:
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقشِ روئے محمد بنایا گیا
پھر اسی نقش سے مانگ کر روشنی بزمِ کون و مکاں کو سجایا گیا
انہوں نے تو اپنا فتویٰ دے دیا۔ اب باقی تفصیلات میں آپ جائیں یا نہ جائیں، یہ آپ کی مرضی ہے۔ لیکن اگر آپ اپنے آپ کو دیوبندی کہتے ہیں، تو دیوبندی علماء کی approach کو لینا ہو گا۔
متن:
چنانچہ سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ نُوْرِیْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 403/1، دارالفکر، بیروت) ”جو چیز اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیدا فرمائی وہ میرا نور تھا“۔ اور ایک دوسرے قول میں فرمایا ہے کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ عِشْقِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”خدا نے سب سے پہلے میرے عشق کو پیدا کیا“۔ اور یہ دونوں فرمان بالاتفاق ثابت ہیں۔ اور یہ تو ظاہر بات ہے کہ اگر عشق نہ ہوتا تو نور محمدی ﷺ کو کبھی بھی پیدا نہ کیا جاتا، اور اگر نور محمدی ﷺ کو پیدا نہ فرماتے تو اپنی خدائی کو ظاہر نہ فرماتے، سب سے پہلے نور محمدیﷺ کو پیدا کیا، اور پھر اپنی خدائی ظاہر کی۔
سوال:
نورِ محمدی ﷺ کی تخلیق اور پیدا کرنے کی صفت کیسی ہے؟
جواب:
حدیث میں ہے کہ ایک دن جناب سید المرسلین رسول اکرم ﷺ تشریف فرما تھے، اور حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی بیٹھے ہوئے تھے، جناب رحمۃ للعالمین رسول اللہ ﷺ نے سوال فرمایا کہ اے بھائی جان جبرئیل! میں تم سے بڑا (عمر میں) ہوں یا کہ تم مجھ سے (عمر میں) بڑے ہو؟ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اے محمد! ﷺ آپ نے سوال فرمایا، میں نے آپ ﷺ کی عمر لوح محفوظ میں دیکھی ہے، لیکن مجھے سالوں کی تعداد معلوم نہیں، البتہ میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ آسمان میں ایک ستارہ تھا جو کہ تین ہزار سال کے بعد نکلا کرتا تھا اور پھر نظر سے غائب ہو جاتا تھا، اور اس طرح میں نے وہ ستارہ تیس ہزار مرتبہ طلوع و غروب ہوتے دیکھا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا، کہ کیا تم وہ ستارہ پہچانتے ہو؟ اُنہوں نے جوابًا عرض کی کہ ہاں پہچانتا ہوں۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے اپنے رُخ انور سے حجاب اٹھایا، جبرئیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کی پیشانی میں ایک نور دیکھا اور اس کو پہچان گئے، اور صدق دل سے کہا کہ اے محمد! ﷺ ہاں! یہ وہی ستارہ ہے جو کہ آپ کی مبارک پیشانی میں ظاہر ہے، یہی نور ہے۔ اے محمد! ﷺ (السیرۃ الحلبیۃ بتغییر قلیل، رقم الصفحۃ: 47/1، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ آپ کا مقدس نور عدم سے وجود میں لائے تو عالم ملکوت سے قبل چالیس ہزار شہر پیدا کر ڈالے، اور ہر شہر میں چالیس ہزار سرائے اور ہر سرائے میں چالیس ہزار مکانات بنائے اور ہر مکان میں چالیس ہزار گھر بنائے۔ اس کے بعد ایک مُرغ کو پیدا کیا اور اس مرغ کو حکم دیا کہ یہ سب چالیس ہزار شہروں کو اسپند (حرمل کا دانہ، عمومًا کالے دانے کے نام سے مشہور ہے) کے دانوں سے بھر کر تیری روزی کا انتظام کروں گا تاکہ تو روزی کے طور پر ان میں سے ہر روز اسپند کا ایک دانہ کھایا کرے۔ اس نے روزانہ ایک ایک دانہ کھانا شروع کیا، جب اسپند کے دانے کم ہوئے تو پھر ہر ہفتے ایک دانہ کھانا شروع کیا، اور اس کے بعد ایک ماہ کے بعد اور پھر ایک سال کے بعد ایک دانہ کھاتا رہا۔ جب سب ختم ہو کر ایک دانہ رہ گیا تو اُس کو چونچ میں پکڑ کر سجدے میں سر رکھ دیا اور رو رو کر فریاد کی کہ اے بار خدایا! اس ایک دانے کے علاوہ کوئی دوسرا دانہ نہیں، کہ جس کو میں کھاؤں، آخر روتے روتے اس دانے کو بھی نگل دیا، اور آخر کار وہ مر گیا اور وہ تمام شہر اُجڑ کر ویران ہو گئے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عرش، کرسی، لوح و قلم، جنت، دوزخ اور زمین و آسمان کو پیدا فرمایا، اور ان تمام مذکورہ چیزوں کے پیدا کرنے سے تین لاکھ سال قبل آپ کے نور کو پیدا فرمایا تھا۔ (لم أقف علی هذا الحدیث)
حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے تورات میں ایسا پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام ملکوتی اشیاء کی پیدائش سے تین لاکھ سال قبل رسول اکرم ﷺ کے نور اقدس کو پیدا کیا تھا، اس نے پیدا ہوتے ہی سر کو سجدہ میں رکھا اور اللہ تعالیٰ نے نور محمدی ﷺ کو اسی وقت یہ تسبیحات الہام فرمائیں کہ "بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، سُبْحَانَ الْقَدِیْمِ الَّذِیْ لَمْ یَزَلْ سُبْحَانَ الْحَلِیْمِ الَّذِیْ لَا یَعْجَلْ سُبْحَانَ الْجَوَادِ الَّذِیْ لَا یَبْخَلُ سُبْحَانَ الْعَلِیْمِ الَّذِیْ لَا یَجْھَلْ سُبْحَانَہٗ" اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بارہ پردے بنائے، پہلا پردہ شفاعت کا، دوسرا پردہ احسان کا، تیسرا حجاب کرامت کا، چوتھا رحمت کا، پانچواں حجاب سعادت کا، چھٹا حجاب سخاوت، ساتواں حجاب فرقت، آٹھواں حجاب ہیبت، نواں حجاب قدرت، دسواں حجاب ظرافت، گیارہواں حجاب عزت اور بارھواں حجاب عظمت کا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حکم صادر فرمایا کہ اے میرے خاص بندے کے نور! اور اے میرے محبوب کے نور! ان پردوں میں آ جا۔ محمد ﷺ کا نور سب سے پہلے حجاب شفاعت میں آیا، اس کے بعد ان بارہ حجابوں اور پردوں میں بارہ ہزار سال تک ٹھہر گیا، اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دس دریا پیدا فرمائے، پہلا دریا دریائے شفقت، دوسرا دریائے نصیحت، تیسرا دریائے شکر، چوتھا دریائے صبر، پنجم دریائے سخاوت، چھٹا دریائے شبہات، ساتواں دریائے یقین، آٹھواں دریائے حکمت، نواں دریائے قناعت اور دسواں دریائے محبت۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نور محمدی ﷺ کو حکم دیا کہ اے میرے حبیب کے نور! ان دریاؤں میں تشریف فرما ہو جا۔ نور محمدی ﷺ سب سے پہلے دریائے شفقت میں جلوہ افروز ہوا اور ایک ہزار سال تک وہاں ثنائے ربانی کرتا رہا اور کہتا رہا کہ "رَبِّيْ، رَبِّيْ، رَبِّيْ"۔ دوسری بار دریائے نصیحت میں چلا گیا اور وہاں ایک ہزار سال ثنا خوانی کرتا رہا اور کہتا رہا کہ "إِلٰہِيْ، إِلٰہِيْ، إِلٰہِيْ"۔ تیسری بار شکر کے دریا میں گیا اور وہاں تین ہزار سال تک حمد و ثنا کرتا رہا اور کہتا رہا "یَا سَیِّدِيْ، یَا سَیِّدِيْ، یَا سَیِّدِيْ"۔ چوتھی دفعہ دریائے صبر میں ورود کیا، وہاں چار ہزار سال ثنا بیان کرتا رہا اور کہتا رہا کہ "یَا فَرْدُ، یَا فَرْدُ، یَا فَرْدُ"۔ پانچویں بار دریائے سخاوت میں فروکش ہوا اور وہاں پانچ ہزار سال ثنا خوانی میں رطب اللسان رہا اور ورد کرتا رہا کہ "یَا أَحَدُ، یَا أَحَدُ، یَا أَحَدُ"۔ چھٹی دفعہ دریائے شبہات میں قیام کیا اور چھ ہزار سال تک "یَا عَلِيُّ، یَا عَلِيُّ، یَا عَلِيُّ" وردِ زباں رہا۔
تشریح:
علی اللہ تعالیٰ کا بھی نام ہے جیسے ’’اَللّٰہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ‘‘۔ لہٰذا ایسا نہ ہو کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف ذہن لے جاؤ۔
متن:
ساتویں بار دریائے یقین میں تشریف آوری فرمائی اور سات ہزار سال ثنا گوئی میں مشغول رہا اور "یَا عَظِیْمُ، یَا عَظِیْمُ، یَا عَظِیْمُ" کا ورد کرتا رہا۔ آٹھویں موقع پر دریائے حکمت میں آیا اور وہاں آٹھ ہزار سال ثنا کرتا رہا اور "یَا رَؤٗفُ، یا رَؤٗفُ، یا رَؤٗفُ" عرض کرتا رہا۔ نویں دفعہ دریائے قناعت میں ورود فرمایا اور وہاں نو ہزار سال ثناء کرتے ہوئے "یَا قُدُّوْسُ، یَا قُدُّوْسُ، یَا قُدُّوْسُ، یَا اَللہُ یَا اَللہُ یَا اَللہُ یَا کَرِیْمُ" کرتا رہا۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے اس دریا کے ایک کونے میں ایک بساط (فرش) بچھایا، اُس بساط کی بزرگی یعنی وسعت سات آسمانوں اور سات زمینوں کے برابر تھی،
تشریح:
ایک بات یاد رکھنی چاہئے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں چونکہ تفصیل سے بیان فرمایا ہے، تو میں زیادہ بات نہیں کروں گا کیونکہ اس میں کافی بات ہو چکی ہے۔ ایک ہے شریعت۔ شریعت کا علم فرض ہے، یعنی فرضِ عین درجہ میں فرض ہے اور فرضِ کفایہ درجہ میں فرضِ کفایہ ہے۔ دوسری چیز ہے حقائق۔ حقائق کا علم فرض نہیں ہے، لیکن مفید ہے۔ پہلے بھی میں اس پہ بہت تفصیل سے بات کر چکا ہوں، اس کی مثال بالکل ایسی ہے، جیسے قربُ الفرائض اور قربُ النوافل ہے۔ قربِ فرائض اصل قرب ہے، سب سے زیادہ قرب فرائض کے ذریعے سے ہوتا ہے، لیکن مقابلہ انسان جیتتا ہے نوافل کے ذریعے سے، کیونکہ فرائض میں نہ زیادتی ہے اور نہ ہی کمی کی گنجائش ہے۔ کمی کرو گے، تو بھگتنا ہوتا ہے اور زیادتی بھی نہیں کر سکتے، بس ایک حد ہے۔ چاہے آپ کچھ بھی کر لیں، دن میں آپ پانچ نمازیں فرض پڑھ سکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں پڑھ سکتے، اس سے زیادہ ایک بھی پڑھو گے تو نفل ہو جائے گی۔ اسی طرح پورے سال میں آپ ایک مہینہ فرض روزے رکھ سکتے ہیں، چاہے ایک روزہ بھی زیادہ رکھیں گے تو وہ نفل ہو جائے گا، فرض نہیں ہو سکتا۔ گویا فرائض محدود ہیں۔ اس طرح پوری عمر میں آپ ایک دفعہ فرض حج کر سکتے ہیں۔ سال میں ایک دفعہ ہی آپ زکوٰۃ دے سکتے ہیں جتنی مقدار اس کی بنتی ہو گی۔ لیکن نوافل کی کوئی حد نہیں ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ عام راتوں میں بھی ہر رات کو سو رکعت نفل پڑھا کرتے تھے۔ لہٰذا نوافل کو زیادہ بھی کیا جا سکتا ہے اور کم بھی کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ نوافل ایک اضافی چیز ہیں۔ اسی طرح کوئی نوافل پڑھے یا نہ پڑھے، اس پہ کوئی ملامت نہیں ہے۔ لیکن جو پڑھے گا، اس نے اپنا درجہ اونچا کر لیا۔ پس فرائض میں تو لوگ برابر ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا آپ کے پاس بڑھنے کا آپشن نوافل ہی ہے۔ نوافل کے علاوہ آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ اسی طرح حقائق کا علم ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔ اور جو حاصل کرتے ہیں، وہ خالی بھی نہیں ہیں، جو حاصل کرتے ہیں، معرفت میں ان کا ایک مقام بنتا ہے اور معرفت کے مطابق اجر ملتا ہے۔ جیسے حدیث شریف میں آتا ہے: ’’اِلَّا بِقَدْرِ عُقُوْلِہِمْ‘‘۔ یہاں عقل سے مراد معرفت ہے، چاہے کوئی زکوٰۃ دے، چاہے کوئی حج کرے، چاہے کچھ بھی کر لے، لیکن اس کا اجر بقدرِ عقل یعنی معرفت کے بقدر ملتا ہے۔ لہٰذا جس کی جتنی معرفت ہو گی، اسی حساب سے اجر ملتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ عارف کی دو رکعت کی نماز غیر عارف کی لاکھوں رکعتوں سے افضل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس پر جتنی معرفت کھولے، وہ اس کی مرضی ہے۔ مگر معرفت کی یہ ساری باتیں ہمارے لئے نہیں ہیں۔ ایک بات یاد رکھئے کہ شریعت کی ساری باتیں قرآن و سنت سے ثابت ہوتی ہیں، لیکن حقائق کا بہت سارا حصہ کشف و الہام سے ثابت ہوتا ہے۔ جو صاحبِ کشف اور صاحبِ الہام ہوتے ہیں، ان کو یہ نصیب ہو جاتا ہے۔ یہ میرے پاس پشتو زبان میں ایک بہت موٹی سی کتاب موجود ہے، اور بہت مستند کتاب ہے۔ اس میں خواجہ معینُ الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے شیخ کی خدمت میں گئے، تو اپنے شیخ کے ساتھ چوبیس گھنٹے گزارے، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اوپر دیکھو۔ پھر پوچھا: کیا ہے؟ کہا: وہاں وہاں تک نظر آ رہا ہے۔ پھر کہا: نیچے دیکھو۔ پھر پوچھا: کیا ہے؟ کہا: یہاں یہاں تک نظر آ رہا ہے۔ دو انگلیاں ان کے سامنے کیں، تو کہنے لگے: ان سے یہ نظر آتا ہے۔ حالانکہ باقی لوگ بھی موجود تھے، اُن کو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، اِن کو نظر آ رہا تھا۔ جن کو نظر نہیں آتا، ان سے کوئی مطالبہ بھی نہیں ہے، لیکن جن کو نظر آتا ہے، تو ظاہر ہے کہ ان کا مقام بنتا ہے۔ کیونکہ ’’اِلَّا بِقَدْرِ عُقُوْلِہِمْ‘‘ والی بات تو ہو گی۔ لہٰذا اگر کوئی نہ مانے، تو اس کے دین میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ اس تک نہ پہنچنے کی وجہ سے جو کمی ہو گی، وہ تو ہو گی، لیکن وہ کمی بنیاد میں نہیں ہے۔ جیسے اگر کوئی تہجد نہیں پڑھتا، تو بنیاد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہاں کمی ضرور ہے۔ کیونکہ جب مقابلہ تہجد والوں کے ساتھ ہو گا، تو ان کے ساتھ مقابلہ میں کمی ہو گئی۔ ہاں جو تہجد والے نہیں ہیں، ان کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسی طرح حقائق والوں کے ساتھ جو مقابلہ ہو گا، اس میں تو فرق پڑے گا، لیکن جو حقائق والے نہیں ہیں، ان کے لئے کوئی فرق نہیں ہے۔ لہٰذا اس پر ہم زور بھی نہیں دیتے کہ آپ یہ ساری باتیں مان لیں۔ کیونکہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ یہ ایسی چیزیں ہیں، جو اہل تک جانی چاہئیں۔ اس لئے کہ جو لوگ ان چیزوں کے لئے ظرف نہ ہوں، وہ ان کو کیسے جان سکتے ہیں۔ کیونکہ ظرف برتن کو کہتے ہیں، تو آپ دو من دودھ کو لوٹے میں تو نہیں لے جا سکتے۔ اس کے لئے آپ کے پاس بڑا برتن ہونا چاہئے۔ جس کا ظرف چھوٹا ہوتا ہے، وہ چھلک پڑتا ہے۔ اور جس کا ظرف بڑا ہوتا ہے، وہ لے لیتا ہے۔ جیسے دیوبند کے بارے میں شاہ رفیع الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا جو خواب تھا کہ ایک طالب علم نے شکایت کی کہ کھانا صحیح نہیں ہے، شکایت مہتمم صاحب تک چلی گئی، حضرت نے اس کو بہت غور سے دیکھا، پھر جو ریکارڈ والے لوگ تھے، ان کو بلایا کہ اس کی تحقیق کرو، مجھے یہ بچہ طالب علم نظر نہیں آ رہا۔ تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ وہ کوئی گاؤں کا آوارہ آدمی تھا اور طالب علموں میں شامل ہو کر طالب علموں کا کھانا کھاتا تھا، کھانے کے وقت آ جاتا۔ اب کون رجسٹر پہ حاضری لیتا کہ کون کون کھانا کھا رہا ہے، کیونکہ وہ اچھا دور تھا۔ چونکہ وہ آتا ہی کھانے کے لئے تھا، لہٰذا اس نے کھانے پہ اعتراض کیا، طالب علموں نے تو اعتراض نہیں کیا۔ بہر حال! اس کو نکال دیا گیا۔ حضرت تو بالکل اَن پڑھ تھے، حضرت سے پوچھا کہ آپ نے کیسے پہچانا کہ یہ طالب علم نہیں ہے؟ فرمایا: اصل میں میں نے خواب دیکھا تھا اور خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک کنواں ہے، جو دودھ سے لبا لب بھرا ہوا ہے اور آپ ﷺ اس سے دودھ تقسیم فرما رہے ہیں، کچھ لوگ آ کر پوری دیگ بھروا کر لے جاتے ہیں، کوئی کٹوری لے کے آتا ہے، کوئی کپ لے کے آتا ہے، کوئی ادھر ہی پی کے رخصت ہو جاتا ہے۔ وہ تو دیوبند کے لوگ تھے، ہر ایک نے اپنے اپنے ظرف کے مطابق لے لیا۔ یہ طالب علم مجھے وہاں نظر نہیں آیا تھا۔ لہٰذا میں نے کہا کہ یہ طالب علم نہیں ہو سکتا۔ بہر حال! ظرف ہر ایک کا اپنا اپنا ہوتا ہے، کسی کا ظرف بڑا ہوتا ہے، کسی کا چھوٹا ہوتا ہے۔ جس کا ظرف چھوٹا ہوتا ہے، وہ اپنی حیثیت کے مطابق ہی لے گا۔ بہر حال! یہ باتیں میں نے اس لئے کیں کہ یہ معرفت کی باتیں ہیں اور ہم اپنے ظرف کے مطابق ہی لے سکیں گے۔
متن:
"یَا قُدُّوْسُ، یَا قُدُّوْسُ، یَا قُدُّوْسُ، یَا اَللہُ یَا اَللہُ یَا اَللہُ یَا کَرِیْمُ" کرتا رہا۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے اس دریا کے ایک کونے میں ایک بساط (فرش) بچھایا، اُس بساط کی بزرگی یعنی وسعت سات آسمانوں اور سات زمینوں کے برابر تھی، اور اس بساط پر سترہ مقامات متعین کر دیے، ایک مقامِ توحید، مقامِ معرفت، مقامِ ایمان، مقامِ تسلیم، مقامِ خوف، مقامِ رجا، مقامِ شکر، مقامِ خشوع، مقامِ خضوع، مقامِ حب، مقامِ اثبات، مقامِ ہیبت، مقامِ خبریت، مقامِ قناعت، مقامِ تفضیل، مقامِ آزادی اور مقامِ محبت۔ سیدنا رسول اللہ ﷺ کا نور ان مقامات میں تشریف آور ہوا اور ہر مقام میں ایک ہزار سال گزارے، جب نور محمدی ان مقامات میں تشریف لاتا تو اس کو ایسی ہمت حاصل ہو جاتی کہ نہایت ذوق و شوق سے ذکر اور تسبیح کرتا، اور جب نور محمدی ان مقامات سے گزر گیا تو حضرت ذوالجلال و قادر با کمال کی جانب سے خطاب ہوا کہ اے نور محمد! میں کون ہوں؟ نور محمدی کو الہام ہوا اور جواب میں کہا کہ تم میرے خدا ہو، تم میرے پیدا کرنے والے ہو، مجھے روزی دینے والے ہو، مجھے زندہ کرنے والے اور مار ڈالنے والے ہو۔ فرمان الٰہی صادر ہوا کہ اے میرے حبیب کے نور! تم نے مجھے اچھی طرح سے پہچان لیا، اب میری پرستش اور عبادت کرو۔ پس نور محمدی نے نماز کی نیتِ تحریمہ باندھی اور کہا: "اَللہُ أَکْبَرُ"۔ ایک ہزار سال "اَللہُ أَکْبَرُ" میں گزار دیے، قیام کیا اور ایک ہزار سال قیام میں گزار دیے، جب رکوع میں چلا گیا تو ایک ہزار سال رکوع میں گزار دیے، سجدہ ریز ہوا تو ایک ہزار سال سجدہ میں گزار دیے، جب جلسہ میں بیٹھا تو ایک ہزار سال جلسہ اور پھر ہزار سال سجدہ میں گزار دیے، تشہد میں بھی ہزار سال بسر کیے، سلام پھیرنے میں بھی ہزار سال گزار دیے۔ جب نماز سے فارغ ہوا تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے خطاب ہوا کہ اے میرے حبیب کے نور! تم نے میری اچھی طرح سے عبادت کی مجھ سے کوئی چیز مانگو۔ نور محمدی نے الہام پا کر کہا کہ اے میرے رب! میں جانتا ہوں کہ مجھے رسولوں کے بعد آخر میں آپ ظاہر کریں گے اور مجھے ان کی شفاعت کا وسیلہ بنائیں گے، ان میں جو فرد نماز ادا کرے گا اور اس کی نماز میں کوئی قصور یا کمی ہو تو میری نماز اُن کی نماز کی کمی کو پورا کرے گی، اور ان کی نماز میں کوئی تقصیر نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے دربار عالیہ سے خطاب ہوا کہ اے میرے حبیب کے نور! تم نے بہترین استدعا کی، جو کہ میں نے قبول کی۔ اور نور محمدی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے نظر رحمت سے دیکھا، اور اُس پر رحمت و نور کی بارش فرمائی۔
تشریح:
میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ساری تفصیلات ہیں، ان کو ہم touch نہیں کرتے۔ جتنی بات بتائی گئی ہے، اتنی پہ رہ جاتے ہیں۔ مثلاً: آپ ﷺ نے فرمایا: میں اس وقت بھی خاتمُ النبیین تھا، جب آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے۔ یہ صحیح حدیث ہے۔ ’’بَیْنَ الْمَآءِ وَالطِّیْنِ‘‘ تو ضعیف روایت ہے، لیکن ’’بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ‘‘ یہ صحیح روایت ہے۔ کیا یہ بات عقل تسلیم کرتی ہے؟ عقل اس تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ آپ ﷺ 571ء میں پیدا ہوئے ہیں یعنی عیسیٰ علیہ السلام سے بھی پانچ سو سال بعد۔ آپ ﷺ صادق اور امین ہیں اور یہ روایت صحیح ہے۔ اس میں آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں اس وقت بھی خاتمُ النبیین تھا، جب آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے۔ لہٰذا اس روایت کو ہم مانتے ہیں، تو اس میں جو فرمایا گیا ہے، اس پر اکتفا کر لو، کوئی بات نہیں، یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن اگر کشفاً و الہاماً کسی پر اس سے زیادہ کھول دیا گیا، تو وہ بھی ٹھیک ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں اس سے پہلے کے متعلق نفی تو نہیں کی گئی کہ میں اسی وقت خاتمُ النیین تھا۔ بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ میں اس وقت بھی خاتمُ النبیین تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سے پہلے بھی تھے، مگر کتنے پہلے تھے؟ یہ نہیں فرمایا گیا۔
اب یہ جتنی بھی باتیں ہیں، اللہ تعالیٰ کے کارخانۂ قدرت کو سائنس دانوں نے جتنا study کیا ہے، وہ ایسے نمبرز ہیں، جن کا ہماری سمجھ میں اور ہماری کھوپڑی میں سمانا بڑا مشکل ہے۔ مثلاً: جتنے تارے ہمیں نظر آتے ہیں، یہ میں Astronomy کی باتیں کر رہا ہوں، حدیث کی باتیں نہیں کر رہا۔ یہ Astronomy جس کو مسلمانوں نے نہیں، بلکہ NASA کے scientists نے discover کیا ہے، ان لوگوں کی بات بتا رہا ہوں، ان کی سائٹ پر اب بھی موجود ہے، کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ اتنے دور ستارے بھی ہیں کہ بارہ ارب نوری سال کے فاصلہ پر واقع ہیں۔ بارہ ارب نوری سال سے مراد یہ ہے کہ روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل بھی سکینڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے، گویا بارہ ارب سال روشنی چلتی رہے، اتنے فاصلے پر وہ ستارے واقع ہیں۔ اور یہ آسمان ان ستاروں سے بھی آگے ہے، کیونکہ ستارے آسمانِ دنیا سے نیچے ہیں۔ ﴿وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ﴾ (الملک: 5)
ترجمہ: ’’اور ہم نے قریب والے آسمان کو روشن چراغوں سے سجا رکھا ہے‘‘۔
چنانچہ سب ستارے آسمانِ دنیا سے نیچے ہیں، گویا آسمان بارہ نوری سال سے بھی زیادہ دور ہے، جتنے اس کی observations کے procedures ہیں، تھوڑا سا ان کو study کر لو اور پھر دیکھو کہ وہ چیزیں کتنی authentic ہیں، یہ سب Indirect research ہے، direct کوئی نہیں ہے، یہ indirect چیزوں کا پورا ایک نظام ہے۔ یہ ساری باتیں سائنس کی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہیں، اس پر بڑی بڑی کتابیں موجود ہیں اور ساری indirect ہیں، direct نہیں ہیں۔ اب اگر یہ باتیں میں کروں، تو یہ بھی indirect ہی ہیں، کیونکہ اس میں کوئی بات براہِ راست ہے ہی نہیں۔ سائنس کی باتیں Material point of view سے indirect ہیں، اور تصوف کی باتیں Spiritual point of view سے indirect ہیں۔ لہٰذا جس طرح ان کو ہم مانتے ہیں، ان کو کیوں نہیں مان سکتے۔ کیونکہ سب indirect ہیں کہ جس میں ہر چیز دوسرے پہ depend کرتی ہے۔ چنانچہ اگر میں سائنس کی ان باتوں کو نہ مانوں اور کہوں کہ ستارے بارہ بلین سال دور نہیں ہیں، تو کیا میں اس کو بھی نہ مانوں کہ Hyderogen اور Oxygen مل کر پانی بن جاتا ہے۔ اس کو تو ماننا پڑے گا۔ باقی چیزیں اگر تمہاری range میں نہیں ہیں، تو جن کی range میں ہیں، ان کے لئے چھوڑ دو۔ اور آپ کی جتنی range میں ہیں، آپ اس کو لے لو۔ در اصل آج کل بہت جلدی حملہ کرنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں اور ساری چیزوں کو ناقابلِ اعتبار قرار دیں گے۔ مثلاً: آپ نے ذکر کے بارے میں ضعیف حدیث بتا دی، تو کہتے ہیں کہ یہ ساری ضعیف حدیثوں پر مشتمل ہیں۔ خدا کے بندے! اتنی جلدی تو نہ کرو۔ کہتے ہیں کہ فضائلِ ذکر میں ساری ضعیف حدیثیں ہیں۔ خدا کے بندو! قرآن کی آیتیں بھی ہیں، ان کو آپ کیسے ضعیف کہہ سکتے ہیں؟ ﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرہ: 152) کیا چیز ہے؟ ﴿اُذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا﴾ (الاحزاب: 41) کیا چیز ہے؟ اور پھر صحیح احادیث شریفہ بھی ہیں۔ اگر اپنے آپ کو balance رکھنا چاہتے ہو، تو جتنا سمجھ میں آتا ہے، وہ لے لو، جتنے کا مطالبہ ہے، اس کو نہیں چھوڑو۔ اور جتنا لے سکتے ہو، لے لو اور باقی کے بارے میں خاموش ہو جاؤ۔ اس وقت خاموشی میں آپ کا فائدہ ہے۔ کیونکہ دونوں طرف توازن ضروری ہے۔ جیسے وہاں سے زور نہیں ہے، ادھر تم اس کی مخالفت پہ بھی زور نہیں لگا سکتے۔ آپ کے پاس مخالفت پر زور کے لئے کوئی جواز نہیں ہے، اور ان کے پاس اس چیز کو direct ثابت کرنے کے لئے کوئی جواز نہیں ہے۔ لہٰذا وہ خاموش ہو گئے، تم بھی خاموش ہو جاؤ۔ justification کے Point of view سے یہ بہت آسان بات ہے۔ باقی جو مستند روایتیں ہیں یا احادیث شریفہ ہیں، ان کو تو نہیں چھوڑ سکتے۔ لیکن یہ چونکہ کشفی باتیں ہیں، تو کشفی باتوں کو ہم اس طرح نہیں مانیں گے، جس طرح وہ ہیں۔ لیکن ہم ان کا انکار بھی نہیں کریں گے، جس طرح ہمیں کشف نہیں ہوا، اسی طرح ہمیں نہ ہونے کا بھی کشف نہیں ہوا۔ دونوں طرف سے بات برابر ہے۔
متن:
نورِ محمدی ﷺ نے سر مُبارک کو حرکت دی، جس سے پانی کے ایک لاکھ چوبیس ہزار قطرے ٹپکے، اُن قطروں سے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر پیدا ہوئے۔ پانی کے تین سو تیرہ قطرے نورِ محمدی کے ہونٹوں سے ٹپکے، اُن سے تین سو تیرہ انبیائے مرسل پیدا ہوئے۔ پانی کے دو قطرے دائیں آنکھ سے ٹپکے جن سے جبرئیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔
تشریح:
یہ وہی بنیادی بات ہے۔ جیسے مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ: سب سے پہلے آپ ﷺ کے نور کو پیدا کیا گیا، پھر اس سے پوری کائنات کو پیدا کیا گیا۔ لہٰذا اگر کائنات کی تفصیل بتائی جاتی ہے، تو اس میں کیا مسئلہ ہے۔ کیونکہ یہ اس کی تفصیل ہی تو ہے کہ اس میں یہ ہوتا ہے، یہ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر اجمال مانتے ہو، تو تفصیلات کو بھی مانو۔
متن:
پانی کے دو قطرے دائیں آنکھ سے ٹپکے جن سے جبرئیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔ پانی کے دو قطرے بائیں آنکھ سے نکلے جن میں سے پہلے قطرے سے اسرافیل اور دوسرے قطرے سے عزرائیل علیہم السلام پیدا ہوئے۔ پانی کے دو قطرے دائیں کان سے برآمد ہوئے، پہلے قطرے سے عرش اور دوسرے قطرے سے کرسی وجود میں آئی۔ پانی کے دو قطرے بائیں کان سے ٹپکے، پہلے قطرے سے لوح اور دوسرے قطرے سے قلم پیدا ہوئے۔ اور ناک کے دائیں نتھنے سے آٹھ قطرے بر آمد ہوئے جن سے آٹھ جنتیں وجود میں آئیں، اور سات قطرے بائیں نتھنے سے ٹپکے جن سے سات دوزخیں پیدا ہوئیں۔ اور نور کے کندھوں سے دو قطرے ظاہر ہوئے جن میں ایک سے سورج اور دوسرے سے چاند پیدا ہوئے۔
تشریح:
یہ باتیں عجیب لگ رہی ہیں۔ میں اس سے بھی زیادہ عجیب باتیں بتاتا ہوں، سائنس کی عجیب باتیں بتاتا ہوں۔ پوری کائنات ایک ایٹم کے اندر High pressure اور High temperature کے ساتھ پڑی ہوئی تھی، پھر ایک دھماکہ ہوا، اس دھماکہ سے وہ ساری پھٹ پڑی اور پھر expansion شروع ہو گئی اور اس سے پورا یہ universal وجود میں آ گیا۔ یہ میں کوئی پہیلی نہیں بتا رہا، نہ میں نے کوئی افسانہ گھڑا ہے۔ ابھی انٹرنیٹ Big Bang Theory سرچ کر لو، پتا چل جائے گا کہ Big Bang Theory کیا کہتی ہے۔ میں باتیں اس لئے کر رہا ہوں تاکہ ہمیں اپنی حقیقت کا احساس ہو جائے کہ جس سائنس کو ہم مانتے ہیں، وہ بھی ایسی ہے، جیسے یہ (تصوف) ہے۔ جس طرح اس کے بارے میں خود آپ نے ریسرچ نہیں کی ہے، لہٰذا آپ اس کے بارے میں خاموش ہیں، آپ اس کے بارے میں نہ yes کہتے ہیں اور نہ no کہتے ہیں۔ جو Big Bang Theory کے بارے میں yes کہے گا، تو وہ پھر ان سوالوں کے جواب بھی دے گا کہ خدا کے بندے! High temperature, High pressure میں رکھا کس نے تھا؟ پھر جب دھماکہ کے ساتھ expansion ہو گئی، تو دھماکے سے چیزیں بنتی ہیں یا تباہ ہوتی ہیں؟ سائنس کیا کہتی ہے؟ سائنس دان تو کہتا ہے کہ اس سے چیزیں بننا شروع ہو گئیں، یہ میں نے کوئی عجوبے کی بات تو نہیں کہی۔ Darwin کہتا ہے کہ اصل میں ہمارے آباء و اجداد تو بندر تھے، بس اسے تھوڑی سی خارش ہوتی رہی، بالآخر دم گر گئی۔ اب بھی Tibraze میں دم والی جگہ موجود ہے۔ Darwin Theory ابھی انٹرنیٹ پر سرچ کر لو، یہ بات وہاں مل جائے گی۔ میں صاف صاف باتیں کر رہا ہوں تاکہ ہمیں ادراک ہو جائے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ان باتوں پہ اگر حیران ہو رہے ہو، تو پھر اس پہ بھی حیران ہو جاؤ۔ وہاں کیوں چُپ ہو؟ چنانچہ دنیا کے اندر بہت عجائبات ہیں، جہیں ہم مان لیتے ہیں۔
متن:
اور نور کے کندھوں سے دو قطرے ظاہر ہوئے جن میں ایک سے سورج اور دوسرے سے چاند پیدا ہوئے۔ دائیں ہاتھ سے پانچ قطرے نکلے، پہلے قطرے سے حوضِ کوثر، دوسرے سے درخت طوبیٰ، تیسرے قطرے سے سدرۃُ المنتھٰی، چوتھے قطرے سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی اور پانچویں قطرے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی پیدا ہوئے۔ پانچ قطرے بائیں ہاتھ سے ٹپکے، پہلے قطرے سے روح القدس، دوسرے قطرے سے بادِ صرصر، تیسرے سے بادِ فرفر، چوتھے سے بادِ رعد اور پانچویں سے برق پیدا کیے گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے خطاب فرمایا کہ اے میرے حبیب کے نور اور اے میرے محمد ﷺ کے نور! میں نے دیگر چار اشیاء کی تخلیق کی، آگ، ہوا پانی اور مٹی۔ (لم أجد ہذہ الروایۃ)
"ذُکِرَ مِنْ وَّھَبِ بْنِ مُنَبَّہٍ أَنَّہٗ قَالَ کَانَ بَیْنَ آدَمَ وَ بَیْنَ طُوْفَانِ نُوْحِ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَلْفَانِ وَ مِائَتَانِ وَ إِثْنَانِ وَ أَرْبَعُوْنَ سَنَۃً" (المختصر فی أحوال البشر بمعناہ، رقم الصفحۃ: 10/1، المطبعۃ الحسینیۃ المصریۃ) ”حضرت وہب بن مُنَبّہ سے روایت ہے کہ آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے طوفان کے درمیان دو ہزار دو سو بیالیس سال گزرے ہیں“ اور طوفان نوح اور حضرت نوح علیہ السلام کی موت میں تین سو پچاس سال کا فرق ہے۔ اور حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان دو ہزار دو سو چالیس سال کا فاصلہ ہے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان سات سو سال کا بُعد ہے۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کے درمیان پانچ سو سال کا وقفہ ہے۔ اور داؤد علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان بارہ سو سال ہیں۔ "وَ قَالَ بَعْضُھُمْ ھٰذَا لَا یَصِحُّ یَعْنِيْ مَا ذُکِرَ مِنْ مِّقْدَارِ السِّنِیْنَ، لِأَنَّ اللہَ تَعَالٰی قَالَ: ﴿وَ قُرُوْنًا بَیْنَ ذٰالِکَ کَثِیْرًا﴾ (الفرقان: 38) فَلَا یَعْرِفُ مِقْدَارَ ذَالِکَ إِلَّا اللہُ تَعَالٰی"
تشریح:
اصل بات تو یہی ہے کہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ’’الٓمّٓ‘‘ میں لوگوں نے اندازے لگائے ہیں، لیکن ان کے اوپر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ جس چیز کو اللہ نے چھپایا ہے، اس کو کون بیان کر سکتا ہے۔ لیکن جنہوں نے جو اندازہ کیا، اس کو غلط بھی نہیں کہہ سکتے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم۔ یہ اس موقع کا زیادہ بہتر جواب ہے۔
متن:
”اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ صحیح اور درست نہیں۔ یعنی سالوں کی یہ تعداد جو کہ ذکر ہوئی ہے یہ درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کے درمیان بہت سے قرن گزرے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا“ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کے درمیان پانچ سو ساٹھ اور مقاتل کی روایت کے مطابق چھ سو سال کا وقفہ حائل ہے۔ (تفسیر مقاتل بن سلیمان، رقم الصفحۃ: 553/3، دار إحیاء التراث، بیروت)
تشریح:
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔ ایک دعا ہے، اس پر میں اس بیان کو پورا کروں گا اور وہ دعا یہ ہے: ’’اَللّٰهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَهٗ وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّوَفِّقْنَا لِاجْتِنَابِهٖ‘‘۔
ترجمہ: ’’اے اللہ جو حق ہے، وہ ہمیں حق دیکھا دے اور اس کا اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما، اور جو باطل ہے، وہ باطل دیکھا دے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما‘‘۔
ہمارا اصل کام یہی ہے، ہم سب چیزوں کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ ہی ان چیزوں کو جانتا ہے۔ قرآن پاک میں سورۂ کہف میں اصحابِ کہف کے بارے میں اختلاف بیان کیا گیا ہے، کوئی کہتا تھا کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ کوئی کہتا کہ چھ تھے اور ساتواں ان کا کتا تھا۔ اخیر میں اللہ پاک نے نہیں بتایا کہ کتنے تھے، بلکہ فرمایا کہ اللہ کو پتا ہے کہ وہ کتنے تھے، تم اس میں نہ پڑو۔ لہٰذا اس کی قسم کی باتوں میں پڑنے کی بجائے ہم اس کا معاملہ اللہ کے حوالے کرتے ہیں۔ جیسے ہم نے سائنس دانوں سے Big Bang Theory سنی اور اس پر ان سے discussion نہیں کی۔ کیونکہ ہم اس پہ discussion کی range میں نہیں ہیں۔ وہ جو فیگرز ہمیں بتاتے ہیں، ان کو ثابت کرنے اور reject کرنے کے لئے کچھ علوم کی ضرورت ہے۔ جب تک ہمارے پاس وہ علوم نہیں ہیں، ہم خاموش ہی رہ سکتے ہیں۔ لیکن ہم صرف اتنا کہتے ہیں کہ اگر وہ آپ کے لئے کچھ figures ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ اس پر بات ہو سکتی ہے، تو پھر یہ بھی figures ہیں، ان کا source الگ ہے۔ آپ لوگوں کا source الگ ہے، اور پھر ثابت دونوں ہی نہیں ہیں، یعنی حقائق کشفاً اور الہاماً ملے ہیں اور وہ آپ کی اپنی observations سے معلوم ہوئے ہیں۔ بطور Astronomy کے طالب علم کے عرض کرتا ہوں کہ ستاروں کے جو فاصلے بتائے جاتے ہیں، اس کا طریقہ اتنا indirect ہے کہ آپ نے assume کیا ہوا ہے، اگر ذرا بھر بھی وہ اپنی جگہ سے ہل گیا، تو سارا نظام دھڑام سے گر جائے گا، پھر آپ کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ اس لئے ہم تو کہتے ہیں: وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ، اللہ کو پتا ہے کہ کیا کیا ہے۔ یہ ہم سائنس کے بارے میں بھی کہتے ہیں اور حقائق کے بارے میں بھی کہتے ہیں۔ ان کی انفارمیشن سے ہم نے انکار بھی نہیں کیا اور ان پر اصرار بھی نہیں کیا، بلکہ جو لکھا تھا، وہ مِن و عَن آپ کے سامنے بیان کر دیا اور اس کی حیثیت بھی آپ کو بتا دی کہ اس کی حیثیت یہی ہے کہ یہ سارا indirect علم ہے اور کشفی طور پر معلوم ہوا ہے۔ ایک بات ذرا غور سے سن لیں کہ آپ ﷺ کی باتیں آپ ﷺ کے صادق اور امین ہونے کی وجہ سے ہیں، ورنہ understandable تو وہ بھی نہیں ہیں۔ کیونکہ جنت اور دوزخ ہم نے نہیں دیکھی۔ ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے ہیں۔ ہم آپ ﷺ کو اس وجہ سے مانتے ہیں کہ آپ ﷺ صادق اور امین ہیں، لہٰذا جو آپ ﷺ نے فرمایا، وہ بالکل ٹھیک ہے۔ اسی طرح اولیاء اللہ کے مقام کو دیکھ کر ان کی باتوں کو ہم صفر سے ضرب نہیں دے سکتے، کیونکہ وہ اولیاء اللہ ہیں اور ان کی زندگی ہمارے سامنے ہے، اور ان کی باتوں کی وقعت ہے، ان کو بصیرت حاصل ہے۔ اور حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ: ’’اِتَّقُوْا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهٗ يَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ‘‘ (ترمذی شریف، حدیث نمبر: 3127)
ترجمہ: ’’مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔
لہٰذا مومن کی بات کو ہم اہمیت دیتے ہیں، چنانچہ اسی لحاظ سے ہم ان حقائق کو لیتے ہیں۔ لیکن انہوں نے بھی اس پر اصرار نہیں کیا کہ آپ ہماری باتیں as it is مان لیں۔ تاہم انہوں نے اپنی انفارمیشن دے دی اور یہ انفارمیشن صرف ایک شخص کی نہیں ہے، بلکہ ایک کثیر گروہ ہے، جو پیچھے سے چلا آ رہا ہے، جو اس قسم کی انفارمیشن دے رہا ہے، جو جو اس دائرہ میں جا رہا ہے، اس کو جہاں جہاں کی جو معلومات ہوتی ہیں، وہ معلومات اس کے سامنے آ رہی ہیں اور وہ اپنی معلومات سے ہمیں خبر دیتا ہے۔ چنانچہ یہ اس رخ کی باتیں ہیں۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔
یہ اصلاحی ذکر ہے اور اصلاحی ذکر باقاعدہ سیکھا جاتا ہے اور جتنا بتایا جاتا ہے، اتنا کرنا ہوتا ہے۔ البتہ جو غذائی اور ثوابی ذکر ہے، وہ فضائل کے مطابق کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر اس کی وجہ سے کسی ضروری کام میں حرج ہو رہا ہو، تو اس کو موقوف کیا جائے گا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ