خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔
سوال نمبر1:
ایک صاحب نے ما شاء اللہ ایک مبارک سلسلہ شروع کیا ہے۔ ہمارے عبقات کے درس کا ایک خلاصہ ہمیں بھیج دیتے ہیں اور یہ ماشاءاللہ ان کی دلچسپی کی علامت ہے اور واقعتاً یہ بہت اہم موضوع ہے کیونکہ ان اصطلاحات کے سمجھنے کے بعد ان شاءاللہ حضرت شاہ ولی اللہؒ کی کتابیں سمجھنا اور آسان ہو جائیں گی۔ اس میں فرماتے ہیں عبقات کا درس اس لحاظ سے اہم ہے کہ ہمیں امت کے بڑے بڑے عارفین کے کلام کو سمجھنے کے قابل بناتا ہے، یہ نعمت ہمیں ہمارے شیخ کی برکت سے حاصل ہو رہی ہے۔ کتاب آج کل کے دور کی استعداد کے لحاظ سے تھوڑی سی مشکل ہے اس لئے خدشہ تھا کہ کہیں اس نعمت کی ناقدری نہ ہو جائے، کوشش کی کہ پچھلے دروس کے پوانٹس یا دروس بن جائیں جن سے اگلے دروس کے سمجھنے میں مدد ملے، اس کتاب کو ڈاؤن لوڈ کر کے اگر نوٹس کے ساتھ دروس سے پہلے ایک دفعہ پڑھ لیا جائے تو ان شاءاللہ سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ سب سے پہلے اصطلاحات جاننا چاہیے۔
نمبر1: ثبوت معلومات
عام طور پر ہمارے نزدیک چیزوں میں خصوصیات اس وقت آتی ہیں جب وہ پیدا ہو چکی ہوتی ہیں، لیکن وجود میں آنے سے پہلے بھی ایک حقیقت ہوتی ہے: مثلاً جو بھی انسان ابھی پیدا نہیں ہوا اس کو آپ تصور میں لاتے ہیں تو بولنے اور حیران ہونے کی صفت اس وقت بھی اس تصور سے اٹیچ ہو گی پھر جب وہ پیدا ہو گا تو عملاً ایسا کرے گا یعنی بولنے لگے گا اور حیران ہو گا اس بات کو ثبوت معلومات کہتے ہیں۔ انسان کا تصور اگرچہ ذہنی ہے، وجود نہیں رکھتا لیکن خارج میں جو انسان ابھی پیدا نہیں ہوا اور معدوم ہے، اس کو ثابت بھی کرتا ہے۔
تشخص: یہ اصطلاح عبقہ نمبر 4 میں آئی ہے۔ وہ چیز جس کا معدوم طریقے سے ثبوت موجود تھا، جب وہ وجود میں آگئی تو پہلی حالت جس وجہ سے وہ عدم سے وجود میں آئی ہے، اس کو تعین و تشخص کا مبدا کہتے ہیں، یہ کسی چیز کا معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس سے مراد ہے کسی چیز کا اس قابل ہونا کہ اس کی طرف اشارہ کیا جا سکے، جب تک اس چیز کا صرف ذہنی تصور ہے، اس تصور میں آپ جتنی مرضی باریکات لائیں وہ خارجی وجود نہیں پا سکتی، اس کے لئے خارجی وجود چاہیے مثلاً ذہنی تصور کے لئے لوہا، کرسی کے تصور کے لئے لکڑی اور انسان کے لئے کوشش جس کو مبدا تعین کہتے ہیں۔
اس طرح ما شاء اللہ انہوں نے ان چیزوں کی تلخیص کی ہے اللہ تعالیٰ اس کا اجر دے اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان مبارک کتابوں سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر2:
ہمارے ایک ساتھی جو پہلے ذرا ایسی لائن میں تھے جس میں حلال رزق نہیں تھا۔ تو انہوں نے اس لائن کو چھوڑ دیا، اب وہ نیا حلال کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں، اس میں کچھ رکاوٹ ہے، ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے دعا کی درخواست کی ہے۔
جواب:
اللہ جل شانہ ان کو حلال رزق وافر نصیب فرمائے اور ہم سب کو حلال رزق وافر نصیب فرمائے اور میں جو طریقہ بتاتا ہوں پتہ نہیں لوگوں کو کیوں بھول جاتا ہے! اللہ جل شانہ نے ہمیں بہت بڑی سعادت عطا فرمائی ہے کہ تہجد کی نماز کے بعد جس وقت اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا اس کو دوں! ہے کوئی پریشان حال کہ اس کی پریشانی دور کر دوں! تو یہ چیزیں اور سعادتیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں، تو تہجد کی نماز شروع کر کے اس میں اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہیے اور بہت مانگنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے مطابق مانگنا چاہیے، اپنے آپ کے مطابق نہیں، کیونکہ اللہ پاک تو بہت دیتا ہے۔ بہر حال میں ان سے بھی یہی کہتا ہوں، البتہ ہم بھی دعا کرتے ہیں۔
سوال نمبر3:
ایک صاحب نے منزل کی اجازت مانگی ہے۔
جواب:
آپ منزل پڑھ سکتے ہیں۔ یہ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جمع کر دہ وہ آیات مبارکہ ہیں جن کو وظیفہ کے طور پر پڑھنے سے اللہ جل شانہ جنات اور دوسری بلاؤں سے محفوظ فرماتے ہیں اور جادو وغیرہ سے حفاظت ہو جاتی ہے۔
سوال نمبر4:
ایک صاحب جو ہمارے ساتھی بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں جب بھی خانقاہ آتا ہوں تو گھر میں امی کہتی ہیں کہ تو جب بھی پنڈی آتا ہے خانقاہ کے علاوہ تیرا اور کوئی کام نہیں ہوتا اور کاروبار کی طرف دھیان نہیں دیتا، حضرت ان حالات میں میں کیا کروں؟
جواب:
حقیقتِ حال یہ ہے کہ یہ صاحب سال میں تین چار مرتبہ آتے ہیں اور گھنٹہ، ڈیڑھ کے بیان کے لئے آتے ہیں۔ یہ بھی ان پہ بھاری ہے تو ہم کیا کریں اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کوئی شرابی تھا، اس سے کسی نے پوچھا کہ شراب کب پیتے ہو۔ اس نے کہا: کبھی صبح پیتا ہوں، کبھی دوپہر، کبھی شام پیتا ہوں۔ پوچھا نماز بھی پڑھتے ہو؟ کہتا ہے کبھی کبھی پڑہتا ہوں۔ بس یہی ہمارا حال ہے اب کیا کریں۔ پھر جب پھنس جاتے ہیں تو پھر چیختے ہیں، پھر کہتے ہیں یہ دعا کریں، یہ دعا کریں اور جو وقت کام کرنے کا ہو اس وقت اعتراض کرتے ہیں۔ جن کی شامت آجاتی ہے وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ ان کو شرم نہیں آتی۔ اب سال میں 4 گھنٹے ان کے لئے بھاری ہوتے ہیں۔ اور باقی سارے وقت میں وہ دنیا کے لئے رلتے رہتے ہیں اور پھر جب مصیبت آتی ہے تو ہمارے پاس آتے ہیں، تو اب بھی ان کو ادھر ہی لے جاؤ وہاں ٹھیک ہو جائیں گے! افسوس کر سکتے ہیں بس۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے ہاں آئیں۔ مرضی ہے کسی کی آتا ہے یا نہیں آتا، ہمیں کوئی اس کی حاجت تو نہیں ہے، ہر ایک اپنے فائدے کے لئے آتا ہے۔ لیکن حقیقت حقیقت ہوتی ہے، حقیقت بتانی پڑتی ہے۔
ہمارے پاس بعض دفعہ طالب علم آ جاتے ہیں۔ والدین کو پریشانی ہو جاتی ہے کہ پتا نہیں یہ خراب ہو گیا حالانکہ اگر وہ ایک گھنٹہ ہمارے پاس لگاتے ہیں یا کسی کے پاس بھی اللہ کے لئے جاتے ہیں، ہمارے ساتھ تخصیص نہیں ہے۔ اس سے ان کے دماغ کی جو حالت درست ہوتی ہے اور ان کو جو پڑھائی میں یکسوئی ملتی ہے اور جو ان کے کئی گھنٹے فضول خرچ ہونے سے بچ جاتے ہیں، تو اس چیز کو لوگ نہیں دیکھتے۔ جو بچے wheeling کرتے ہیں اور جو بازاروں میں لوفروں کی طرح پھرتے ہیں، اور پھر جب چور ڈاکو بن جاتے ہیں ان کا کیا حال ہے! ہمارے پاس جو لوگ آتے ہیں ان میں سے بعض تیسرے درجہ میں پاس ہونے والے ہوتے ہیں، لوگ کہتے ہیں پہلی پوزیشن کیوں نہیں لیتے! بھائی اگر تیسری پوزیشن سے دوسرے درجے میں بھی آ گئے تو یہ بڑی نعمت ہے۔ یا تو پہلے اچھی پوزیشن چکے ہوں تو پھر بات کریں۔ یعنی پہلے اول نمبر پہ تھے ہمارے پاس آ کر تیسرے نمبر پہ آ گئے پھر اعتراض بنتا ہے۔ ہمارے پاس دنیا کے فائدوں کے لئے آنے کا تو ہم کہتے ہی نہیں ہیں۔ وہ تو اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے عطا فرماتے ہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے اللہ تعالیٰ دنیا بھی دیتے ہیں، اللہ کا شکر ہے ہم پشاور یونیورسٹی میں اپنے شیخ کے پاس جاتے تھے۔ وقت ہمارا بھی لگتا تھا، یہ نہیں کہ ہمارا نہیں لگتا تھا، لیکن ایک گھنٹہ لگتا تھا، پانچ چھ گھنٹے بچ جاتے تھے، کبھی الحمد للہ ہمارا پڑھائی کا نقصان نہیں ہوا۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اچھا رکھا کیونکہ ان چیزوں سے نقصان تو ہوتا ہی نہیں ہے، ہاں اگر کسی کا دماغ خراب ہو تو علیحدہ بات ہے۔ ہماری بات ہی نہ سنے کہ کیا کہہ رہے ہیں، ورنہ ہم تو ایسا نہیں کہتے ہم تو باقاعدہ کہتے ہیں کہ بھائی پڑھو۔ آپ مجھے اپنی ہسٹری بھیج دیں کہ پچھلے سال آپ کتنے گھنٹے یہاں پر آئے ہیں۔ چار گھنٹے سے زیادہ ثابت کر دیں۔ کیا کہہ سکتے ہیں! بس ان کو وہ بیٹا مبارک ہو۔ جو ان کے خیال میں ٹھیک ہے۔
سوال نمبر5
ایک صاحب باہر ملک میں ہیں کہتے ہیں رمضان کی تیاری کے لئے عربی سیکھنے کے ذرائع اختیار کر لوں یا نہیں؟ ارادہ یہ ہے کہ مراقبہ اور وظیفے کے بعد زیادہ وقت اس پر صرف کروں۔
جواب:
رمضان شریف کے مہینے میں کتنے دن باقی ہیں؟ تقریباً دو تین ہفتے ہی رہتے ہیں۔ یہ تین ہفتے میں کتنی عربی سیکھ لیں گے؟ عربی سیکھنا رمضان شریف کے لئے تھوڑی ہے، وہ تو ایک مستقل کام ہے اس کے اوپر مستقل محنت ہے۔ عربی سیکھنے سے منع نہیں کرتا لیکن اس کو رمضان شریف کے ساتھ نہ جوڑیں۔ یہ ایک مستقل محنت ہے۔ قرآن جاننے کے لئے سیکھیں۔ احادیث شریفہ جاننے کے لئے سیکھیں لیکن اپنے احوال کو دیکھ کر، اگر آپ کے حالات اجازت دیتے ہوں تو ہم منع نہیں کرتے، لیکن اپنے احوال کا خود جائزہ لو کیونکہ ہمیں تو نہیں معلوم کہ آپ کے احوال کیا ہیں۔ آپ کے پاس کتنا ٹائم ہے، کیونکہ ترتیب یہ ہے که فرائض و واجبات کو سنن و مستحبات کے لئے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مثال کے طور پر ایک شخص صبح تاخیر سے اٹھا اور بمشکل وضو کر کے دو رکعت فرض ہی پڑھ سکتا ہے تو کیا پڑھے گا؟ سنتیں پڑھے گا یا فرض پڑھے گا؟ فرض پڑھے گا کیونکہ اس وقت وہی کر سکتا ہے۔ تو ترجیح فرائض و واجبات کی ہے۔ پھر اس کے بعد سنن مؤکدہ کی ہے، پھر اس کی بعد سنن زوائدہ کی ہے، پھر عام مستحبات کی ہے پھر مباحات کی بات آتی ہے۔ تو فرضِ عین درجے کے علم کو حاصل کرنا فرض ہے۔ سب سے پہلے اہم بات یہی ہے کہ فرضِ عین درجے کا علم چاہے آپ عربی میں پڑھیں یا فارسی میں پڑھیں، چاہے آپ اردو میں پڑھ لیں، چاہے آپ پشتو میں پڑھ لیں، مقصد یہ ہے کہ فرض عین درجہ کا علم حاصل کر لیں۔ اس کے بعد اعمال کو دیکھنا چاہیے کہ اعمال میں کوئی کمی تو نہیں، اس پر غور کرنا چاہیے۔ اور اپنی تربیت کی بات کرنی چاہیے، ان شاء اللہ اپنے وقت پر اس کا بھی موقع مل جائے گا۔
سوال نمبر6:
ایک خاتون لکھتی ہے شیخ صاحب! میں جب بھی اللہ کی محبت اور خشیت پہ بیان سنتی ہوں تو دل کرتا ہے کہ رو رو کے بے حال ہو جاؤں، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے وہاں چلی جاؤں جہاں صرف میرے ساتھ اللہ کی یاد ہو اور دنیا کی باتیں جو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہیں وہ نہ ہوں، میرا دل اللہ کی یاد میں تڑپتا رہتا ہے؛ ایک بے چینی سی ہر وقت رہتی ہے، کچھ بتائیں کہ دل سکون میں آ جائے۔
جواب:
میرا سوال ہے کیا اللہ کی یاد میں بے چینی اچھی ہے یا اس سے غفلت کا سکون چاہیے؟ ہمارے شعر کا ایک مصرع ہے
درِ دولت پہ اس کے جو بھی آیا تشنہ لب نکلا
اگر الله جل شانهٗ کا تعلق کسی کو حاصل ہو جائے تو وہ اس دنیا میں کم از کم چین نہیں پا سکتا۔ مولانا الیاس رحمة اللہ علیه ایک دفعہ چار پائی پہ الٹ پلٹ ہو رہے تھے، ان کی بیوی نے پوچھا کیا مسئلہ ہے؟ فرمایا: اگر تجھے پتا چل جائے تو ایک کی جگہ دو ہو جائیں۔ تو بہرحال اللہ پاک سے سکون مانگیں، اس میں کوئی شک نہیں لیکن وہ سکون جو اس کی یاد سے فافل نہ کر دے تو ٹھیک ہے۔ اس تڑپنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم اپنے فرائض سے غافل ہو جائیں اور جو ہمارے دوسرے کام ہیں اس سے غافل ہو جائیں۔ یہ بالکل ایسی بے چینی ہے جیسے کسی کو اس کا محبوب بازار بھیجے کہ میرے لئے فلاں چیز لاؤ تو وہ پورے نرخ بھی طے کرے گا، جانچ پڑتال بھی کرے گا، کوشش کرے گا کہ اچھی سے اچھی چیز لے لے، لیکن اس کا دل وہیں پر ہو گا کہ میں کب واپس جاؤں۔ تو اس میں دونوں چیزیں جمع ہوتی ہیں لہٰذا جو ہمارے لئے احکام شریعت ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کہتا ہے کہ فلاں چیز لے آؤ، تو ہمیں یہ کام کرنا ہی ہے البتہ اس بات کی بے چینی کہ کہیں مجھ سے ناراض نہ ہوں اور کہیں میں ان سے دور نہ ہو جاؤں یہ بڑی مبارک ہے۔ حضرت تھانوی رحمة الله عليه کو کسی نے لکھا کہ مجھے تو بڑا خطرہ ہے۔ فرمایا یہ خطرہ تو معرفت کا ایک قطرہ ہے۔ اس سے تو معرفت شروع ہوتی ہے۔ اور حضرت کو کسی نے کہا کہ کچھ طریقہ بتائیں کہ سکون حاصل ہو جائے، اطمینان ہو جائے۔ فرمایا: مجھ سے کفر کی بات پوچھتے ہو؟ اس دنیا میں تو سکون کفر ہے۔ تو یہ ہو نہیں سکتا، مل نہیں سکتا۔ کیا خیال ہے فجر کی نماز کے لئے اٹھنے کے لئے جو تیاری کرے گا تو سکون ہو گا یا بے سکونی ہو گی؟ رمضان شریف کے جو روزے رکھے گا آسانی سے رکھ لے گا یا مشکل ہو گی؟ اور جو حج کرے گا یہ تو ہو نہیں سکتا که مشکل نہ ہو! بہرحال اس چیز کو ماننا چاہیے۔
سوال نمبر7:
شیخ صاحب! میرے سوال کا جواب جس لنک پہ بھیجیں پلیز ساتھ میں بتا دیں، میں نے پہلے بھی آپ سے دو تین سوال پوچھے تھے مگر پتہ نہیں چل رہا آپ نے ریپلائی کہاں کیا ہے۔
جواب:
ہماری ویب سائٹ Tazkia.org کو چلانا سیکھ لیں، اس پہ براہ راست آپ سن سکتی ہیں اور ریکارڈنگ بھی سن سکتی ہیں۔ جہاں ان سوالوں کے جوابات ریکارڈنگ کے طور پہ آپ کو مل جائیں گے تو میں ان شاء اللہ العزیز آپ کو بتا دوں گا کہ فلاں تاریخ کی جو ریکارڈنگ ہے، اس میں آپ اپنے سوالات کے جوابات سن لیں۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم حضرت! میرا ذکر پانچ مئی کو ختم ہو گیا تھا، لیکن اسکول کی مصروفیات کی وجہ سے کال نہ کر سکی، آج کال کی ہے مگر رابطہ نہ ہو سکا حضرت اب پھر کل سے اسکول کی مصروفیات ہیں، تو بارہ بجے کال نہیں کر سکتی۔ اب ذکر لینے کے لئے کس طرح رابطہ کروں؟
جواب:
طریقہ یہ ہے کہ جو ذکر آپ کو دیا جائے اس کو اس وقت تک جاری رکھیں جب تک اس کو تبدیل نہ کیا جائے۔ آپ رابطے کی کوشش کریں نہ ہو سکا تو اسی ذکر کو فی الحال جاری رکھیں، اگر فون پر رابطہ نہ ہو سکا تو کم از کم سوالوں کے جوابات میں تو ہو ہی جاتا ہے۔ یعنی آپ نے سوال بھیجا ہے تو آپ کو پیر کے دن جواب مل جائے گا، اس کے بعد آپ خود سن کر اس پر عمل کر سکتی ہیں، تو زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کی دیر ہی ہو سکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں ہو ہو گی۔ لہذا ایک ترتیب کے ساتھ جو ہم چل رہے ہیں، اس ترتیب کے ساتھ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں تو ان شاء اللہ کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔
آپ اپنا پرانا ذکر اس وقت تک چلاتی رہیں جب تک کہ آپ کو نیا ذکر نہ دیا جائے۔ کیونکہ سوال میں آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ کا آخری ذکر کون سا تھا؟ لہٰذا میں اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ کیونکہ مجھے تو کسی کا ذکر یاد نہیں ہوتا کہ کیا دیا تھا۔ ایک دفعہ ڈاکٹر ریحان صاحب جن سے میں علاج کراتا تھا، میں نے ان سے کہا که آپ نے جو پہلی دوائی لکھی تھی، اس کا نسخہ میرے پاس نہیں ہے۔ انہوں نے پوچھا: کیا لکھا تھا؟ میں نے کہا: مجھے تو یاد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: میرے پاس روزانہ سینکڑوں مریض آتے ہیں میں کیسے یاد رکھ سکتا ہوں که میں نے کسی کے لئے کیا لکھا ہے؟ تو یہی بات ہمارے ساتھ بھی ہے کہ ہمیں کس طرح پتا چلے گا کہ ہم نے کس کو کیا لکھا ہے۔ اتنا کام تو عقل سے بھی لینا چاہیے۔ ہم تو سب کے اذکار یاد نہیں رکھ سکتے۔ آئندہ جب بھی لکھیں تو اس میں بتا دیا کریں کہ پہلے کیا ذکر دیا گیا تھا۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی! آپ کی خدمت میں دو مسائل عرض کرنے تھے نمبر 1: فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے میں سستی اور مشکل ہوتی ہے۔ حضرت جی! پچھلے ڈیڑھ مہینے سے میرا دفتر جانے کا وقت شام چار بجے سے لے کر رات بارہ بجے تک ہے اور یہ وقت رمضان مبارک تک رہے گا کیونکہ ہماری کمپنی میں ایک ملازم چھٹیوں پہ ہے اور اپنے ملک گیا ہوا ہے اس لئے مجھے اس کا کام بھی کرنا پڑ رہا ہے، اس کے دفتر آنے کا وقت یہی تھا۔ حضرت کبھی رات بارہ بجے دفتر سے نکلتا ہوں کبھی اس سے بھی دیر سے فارغ ہوتا ہوں۔ کام زیادہ ہوتا ہے اس طرح گھر پہنچتے پہنچتے اور سوتے سوتے ایک یا دو بج جاتے ہیں، میں تقریباً روز تہجد کے لئے الارم لگا کر سوتا ہوں، لیکن کبھی تو الارم کا پتہ بھی نہیں چلتا، اگر پتہ چل بھی جائے تو نیند اتنی غالب ہوتی ہے کہ پھر الارم بند کر کے دوبارہ سو جاتا ہوں اور فجر کی نماز کا وقت جب 45 منٹ رہ جاتا ہے تو زبردستی اٹھ کر فجر کی نماز گھر میں پڑھ لیتا ہوں، کیونکہ نماز کی تیاری میں تقریباً 20، 25 منٹ لگ جاتے ہیں اور جتنا وقت بچتا ہے اس میں جماعت ملنے کا موقع بہت کم ہوتا ہے۔
جواب:
تہجد کا بہتر وقت تو رات کا آخری چھٹا حصہ ہے، لیکن آدھی رات کے بعد اگر کوئی پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔ اس کے لئے آپ یوں کریں کہ آتے ہی دفتر سے وضو کرکے پہلے تہجد پڑھ کر سو جایا کریں، اس میں آپ کو یہ بھی فائدہ ہو گا کہ با وضو سونے کی توفیق ہو جائے گی اور آپ کی تہجد بھی ہو جائے گی۔ تو پھر آپ فجر کے لئے اٹھ جایا کریں گے تو ممکن ہے کہ آپ کو ماشاءاللہ جماعت کا بھی موقع مل جائے، لیکن بہرحال اگر جماعت نہ مل سکے تو فجر تو آپ کو مل ہی جائے گی۔ بہرحال آپ تہجد آتے ہی پڑھ لیا کریں۔ اس سے ان شاء اللہ آپ کی پریشانی کم ہو جائے گی۔
سوال نمبر10:
Dear Syed Shabir Ahmed Kakakhail Aslam o Alicum! Kindly let me know from where should I get the nimaz time chart compiled by you for Islamaba?۔
جواب:
آپ اس کو ہماری ویب سائٹ سے لے سکتے ہیں Tazkia org پر اردو کو آپ سلیکٹ کریں وہاں پر نمازوں کے اوقات کے چارٹ اور سحر و افطار کے چارٹ کا فولڈر مل جائے گا، اس کو کلک کریں تو پھر آپ اسلام آباد کے مطابق اس کو دیکھ لیں، اس کو بے شک آپ پرنٹ کر لیں تو آپ کو نمازوں کے اوقات کا چارٹ بھی مل جائے گا اور آج کل سحری و افطار کا چارٹ بھی آپ کو مل سکتا ہے۔
سوال نمبر11:
اپریل کے مہینے کے احوال و معاملات کا چارٹ اٹیچ کر رہا ہوں پچھلے مہینے سوال جواب کے سیشن میں احوال کے حوالے سے آپ کا حکم مل گیا تھا، کچھ دن ٹھیک رہنے کے بعد پھر معمولات بگڑ گئے۔ ان شاء اللہ اس ماہ مکمل طور پر کرنے کی پوری کوشش رہے گی۔
جواب:
ظاہر ہے فیصلہ تو آپ کو کرنا ہے۔ اختیاری امور میں انسان کو ہمت سے کام کرنا ہوتا ہے اور اسی پر اجر ہے اور اس میں کمی پر سزا بھی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اختیاری امور میں آپ چستی کریں گے تو کام ہو گا، ہمارے ہاں کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ دم کرنے سے آپ نمازیں پڑھنے لگیں اور آپ کے معمولات خود بخود چلنے لگیں۔ ہم صرف گائیڈ کر سکتے ہیں، آگے کام آپ کا اپنا ہے۔ اس وجہ سے میں پھر کہوں گا کہ ہوش کے ناخن لیں اور کام کو صحیح طریقے سے کریں، اختیاری امور میں سستی سے کام نہ لیں اور غیر اختیاری کے درپے نہ ہوں۔
سوال نمبر12:
ایک خاتون نے لکھا کہ السلام علیکم حضرت جی! کیا میں آپ کی دعا کے قابل نہیں ہوں؟
جواب:
یہ آپ کیسی باتیں کرتی ہیں! ہمارے ہاں اس قسم کی بات نہیں ہوتی، ہر مسلمان دعا کے قابل ہے۔ ہمارے ہاں صرف یہی چیز ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ صرف دعاؤں پہ نہ چلو، جہاں ہمت کی ضرورت ہو وہاں صرف دعاؤں پر چلنا فرار ہے۔ جیسے آپ بیمار ہیں اور ڈاکٹر سے علاج نہیں کر رہے اور صرف دعائیں کر رہے ہیں تو اگر ایسا ہے تو پھر ٹھیک ہے آپ یہاں بھی ایسا ہی کر لیں، حالانکہ وہاں تو اس طرح نہیں کرتے۔ بلکہ وہاں اگر ڈاکٹر لا علاج قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لے جاؤ اور بس دعا کرو، تو اس حالت میں بھی کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب کچھ کرو، اخیر وقت تک نہیں چھوڑتے۔ تو یہاں پر بھی اس قسم کی بات ہے، ہمت اور کوشش کی بات ہے، اسباب اختیار کرنے ہیں۔ ہم جب اسباب کے اختیار کرنے کی بات کرتے ہیں تو آپ سمجھتے ہیں شاید آپ دعا کے قابل نہیں ہیں، اس طرح تو ہم نے کسی کو نہیں کہا کہ آپ دعا کے قابل نہیں ہیں، لیکن ایسی دعا جس میں انسان اسباب اختیار کرنے سے انکار کر دے یہ ہمارے ذمہ نہیں ہے۔ کوئی کہتا ہے: میں کھانا نہیں کھاتا بس دعا کروں گا اور میں سیر ہو جاؤں گا، تو کوئی اس طرح کرتا ہے؟ کھانا کھاتے ہیں یا دعا کرتے ہیں؟ کہ الحمد للہ اس کو میرے لئے صحیح بنا دے، نیکی کا ذریعہ بنا دے، بس میں صرف اتنا عرض کرتا ہوں۔ باقی کسی کے لئے دعا سے انکاری نہیں ہوں بلکہ میں تو الحمد للہ اسی وقت دعا کر دیتا ہوں، قبول کرنے والا اللہ تعالی ہے۔ لیکن میرے خیال میں آپ کا یہ گمان ہے کہ دعا صرف اس وقت ہو گی جب ہاتھ اٹھائے جائیں گے، تو آپ کا یہ خیال درست نہیں۔ شریعت میں بہت ساری دعائیں ایسی ہیں جن میں ہاتھ نہیں اٹھائے جاتے۔ مثلاً بیت الخلاء جاتے وقت جو دعا ہے اس میں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں؟ کپڑے بدلنے کے لئے جو دعا ہے اس کے لئے ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں؟ کتنی مسنون دعائیں ہیں جن میں ہاتھ نہیں اٹھائے جاتے اور کوئی آپ کو کہہ دے 'اللہ آپ کا بھلا کرے' یہ دعا ہے یا نہیں؟ کیا اس میں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں؟ السلام علیکم یہ بھی دعا ہے، جو آپ کہتے ہیں مبارک ہو یہ بھی دعا ہے۔ یہ سب دعائیں ہیں، ہم جس وقت کہتے ہیں ”یا اللہ خیر“ یہ بھی دعا ہے۔
مجھے اس بات پر حیرت ہوتی تھی کہ اگر کوئی بچہ گر جاتا تو ہمارے علاقے کی بڑی بوڑھیاں کہتیں ”بسم اللہ“۔ میں نے سوچتا تھا کہ اس وقت تو کچھ ایسے الفاظ کہنے چاہئیں جیسے ”اللہ بچا دے“، یہ کہتی ہیں کہ بسم اللہ، یہ کیا ماجرا ہے؟ تو ایک دفعہ مسنون دعاؤں کی کتاب میں پڑھ رہا تھا اس میں لکھا تھا کہ حادثوں کے وقت کی دعا ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ ہے، میں نے کہا یہ بوڑھیاں ہم سے زیادہ جانتی ہیں۔ تو دعاؤں سے انکار نہیں۔ الحمد للہ ہم فوراً دعا کر دیتے ہیں لیکن اس کو لوگ دعا سمجھتے نہیں۔ مثلاً میرے پاس کبھی ٹیلی فون آتا ہے کہتے ہیں کہ بس یہ مصیبت ہے آپ دعا فرما دیں۔ میں اسی وقت کہتا ہوں: اللہ تعالی آپ کے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائے، الله جل شانهٗ مصیبت کو دور فرمائے۔ تو اس کو اگر کوئی دعا نہیں سمجھتا تو میں کیا کروں؟ اس کے بعد تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن یاد رکھو! ایسی باتوں سے بعض دفعہ نقصان ہوتا ہے۔ ہمارے شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دو لڑکے آئے، دونوں نے کسی مقصد کے لئے دعا کی درخواست کی، حضرت نے دونوں کے لئے دعا فرمائی۔ چند دن کے بعد ان میں سے ایک لڑکا آیا اور کہا: حضرت آپ نے فلاں کے لئے تو دعا کی میرے لئے نہیں کی، حضرت نے فرمایا: نہیں بیٹا میں نے آپ کے لئے بھی کی تھی۔ آگے اللہ کی مرضی کون سی دعا قبول فرمائے، اور کون سی نہ ہو، اس کی مرضی ہے۔ اس نے کہا: نہیں حضرت! آپ نے میرے لئے دعا نہیں کی تھی، حضرت نے فرمایا: بیٹا میں نے آپ کے لئے دعا کی تھی۔ جب چار پانچ دفعہ ہو گیا تو حضرت چپ ہو گئے۔ اب وہ کہتا ہے کہ حضرت آپ نے میرے لئے دعا نہیں کی۔ حضرت خاموش کچھ نہیں کہہ رہے حتی کہ اس کو احساس ہو گیا کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہو گیا ہے تو اس نے فوراً معافی مانگی کہ حضرت مجھے معاف کر دیں مجھ سے غلطی ہو گئی، حضرت پھر بھی چپ۔ اس نے پھر کہا کہ حضرت آپ مجھے معاف کر دیں پھر رونی سی آواز نکال کے کہا: مجھے معاف کر دیں، پھر بھی حضرت چپ۔ حتی کہ باقاعدہ رونے لگا۔ اس وقت حضرت نے فرمایا بیٹا! اب کچھ نہیں ہو سکتا جو کچھ ہونا تھا ہو گیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ شاید یہ سخت دلی ہے، جب کہ اس نے چار پانچ دفعہ ہمارے شیخ پر جھوٹ کا الزام لگایا یا نہیں؟ وہ فرما رہے ہیں: میں نے دعا کی، کہتا ہے نہیں! آپ نے دعا نہیں کی۔ تو جھوٹ ہے یا نہیں؟ الزام ہے یا نہیں؟ تم ایک بڑے شیخ کے اوپر الزام لگا رہے ہو کہ تم جھوٹ بول رہے ہو اور پھر وہ خاموش ہو جائے تو پھر یہ سنگ دلی ہو گی؟ لوگ اپنی حالت کو دیکھتے نہیں ہیں اور بعض دفعہ بہت غلط باتیں کر دیتے ہیں۔ بعض دفعہ اس سے نقصان بھی ہو جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ اس وجہ سے آپ کو نقصان ہو گیا، اللہ تعالی آپ کو نقصان سے بچائے لیکن بہرحال ہو تو سکتا ہے۔
سوال نمبر13:
جب میں نے پوچھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ پتہ نہیں حضرت جی میرا ذہن کیوں اتنا منتشر ہے۔ میں ایک جگہ پہ کیوں نہیں ٹک پا رہی۔ میں ایک جگہ پہ ٹکنا چاہتی ہوں بہت بھٹک لیا، تھک گئی ہوں، نہ نماز میں دل لگتا ہے، نہ کسی انسان کے ساتھ لگتا ہے، بس دل کرتا ہے اکیلے بیٹھوں اور اللہ جی سے بہت ساری باتیں کرتی رہوں، میرے ساتھ بس میرے بچے ہوں۔ آپ تو روحانی ڈاکٹر ہیں، بتائیں ایسا میرے ساتھ کیوں ہو رہا ہے؟
جواب:
کسی ڈاکٹر کے پاس کوئی مریض آ جائے تو ڈاکٹر کی ذمہ داری کیا ہے؟ اس کا علاج کرنا یا یہ معلوم کرنا کہ کیوں بیمار ہو گیا ہے؟ یہ عام طور پر اس کا کام نہیں ہوتا۔ بس یہی شیخ کا بھی کام ہے، وہ صرف علاج کر سکتا ہے آپ کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ تو یہ اللہ تعالی کی حکمتیں ہیں اللہ تعالی کی حکمتوں کا کون احاطہ کر سکتا ہے؟ ہر شخص کے ساتھ اللہ تعالی کا اپنا معاملہ ہے۔
میں آپ کو ایک عجیب واقعہ سناتا ہوں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ ایک بزرگ کے پاس ایک مرید آیا اس بزرگ پہ اللہ تعالی نے الہام کے ذریعے سے ایک بات کھولی کہ اس کی تربیت ایک خاص طریقہ سے کرنی ہے، اللہ کی مرضی ہے۔ خاص طریقہ کیا الہام ہوا؟ الہام یہ ہوا کہ حضرت نے اپنے مریدوں سے کہا روزانہ آپ میں سے کوئی ایک کسی نہ کسی بات پر اس مرید کے ساتھ الجھ جائے اور اخیر میں کہے کہ بس تم تعلق کے قابل نہیں ہو، ہمارے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح روزانہ کوئی ایک اس کے ساتھ کرتا رہا۔ وہ بے چارہ دل میں کہتا کہ چلو کوئی بات نہیں میں شیخ کے پاس آیا ہوں، ان کے پاس تھوڑی آیا ہوں، لہذا وہ اپنے آپ کو تسلی دیتا رہا۔ جب سب مرید برا بھلا کہہ چکے تو ایک دن شیخ نے بھی کہہ دیا کہ تم ہو ہی ایسے! یہ سارے لوگ ویسے ہی غلط ہیں؟ تجھ میں ہی گڑبڑ ہے یہاں سے نکل جا، اس کو خانقاہ سے نکال دیا۔ اب اس کا دل ٹوٹ گیا کہ میں جس کے پاس آیا تھا اس نے بھی مجھے نکال دیا، میں تو اب کسی بھی قابل نہیں رہا۔ تو یہ مسجد چلا گیا سجدہ میں پڑا ہوا ہے رو رہا ہے۔ حضرت کو الہام ہوا کہ اب اس کو وہ مقام حاصل ہو گیا ہے جس کے لئے یہ سارا کچھ ہوا تھا، تو پھر وہ شیخ اپنے سارے مریدوں کے ساتھ گئے اور کوئی ان کے دامن کو چوم رہا ہے، کوئی ان کے ہاتھوں کو چوم رہا ہے اور شیخ نے بھی کہا: اب ماشاء اللہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام دے دیا ہے۔ اب ہمارے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالی ہمیں بھی قبول فرمائے۔ اللہ کی مرضی جس کی جس طرح تربیت کروائے۔
قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ دیکھو کہ ان کے ساتھ کیا ہوا؟ تو ہر ایک کے ساتھ اللہ کا اپنا معاملہ ہے، کیوں ہوا؟ اس کا جواب نہیں ہے۔ اس معاملے میں کرنا کیا چاہیے؟ یہ بتا سکتا ہوں اور وہی کریں جو ان بزرگ کے مرید نے کیا، یعنی صبر کریں، صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے کیوں کہ ہم نے لوگوں سے نہیں لینا، ہم نے اللہ سے لینا ہے۔ اگر آپ کے اوپر کسی وجہ سے ایک بات کھل جائے کہ اللہ ہی سے لینا ہے تو اس سے بڑی خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے؟ سب سے بڑی بات تو یہی ہے۔ اس پر میں آپ کو ایک کلام سنا دوں جو اسی موضوع پر ہے سب سن لیں گے ان شاء اللہ سب کو فائدہ ہو جائے گا۔
یہ جو شکایتی لوگ ہوتے ہیں یہ ان کا علاج ہے۔ بھائی شکایت نہ کیا کرو حالات کو پہچانو کہ میرے لئے اللہ پاک نے اس میں کیا خیر رکھی ہوئی ہے؟ اس کو سیکھنے کی کوشش کرو ان شاء اللہ آپ کو بھی اپنا حصہ مل جائے گا۔
کیسے کہوں کہ اس نے بلایا نہیں مجھے
کافی ہے اپنے در سے اٹھایا نہیں مجھے
چپکے سے میرے کان میں کچھ ایسا کہہ دیا
لوگوں کے کہنے سننے کی پرواہ نہیں مجھے
بے کار اگر لوگ کہیں مجھ کو تو کہیں
اب اس کو چھوڑنے کا حوصلہ نہیں مجھے
اس کا ہوں اس کا ہی رہوں اس کا ہی بنوں میں
روکے اب اس سے کوئی رشتہ نہیں مجھے
میں اس کے سہارے سے ہی قائم رہوں شبیرؔ
اب دوسروں پہ کوئی بھروسہ نہیں مجھے
تو اس سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ ہمارا مطمح نظر کیا ہونا چاہیے۔ ہمارا مطمح نظر صرف اور صرف اللہ پاک کو راضی کرنا ہونا چاہیے، مخلوق راضی رہے سبحان اللہ، شکر کریں، نہ راضی ہو چھوڑ دیں۔ ایک اللہ کو ناراض نہ کریں۔
ایک اور بھی اسی سے متعلق کلام ہے اور اس کی اس بات سے کچھ زیادہ مناسبت ہے۔
یہ جو حالات ہم پر آتے ہیں
اسی سے ہم کو وہ سمجھاتے ہیں
ہو رہا ہوتا ہے کچھ اپنے ساتھ
کچھ حقائق ہمیں سمجھاتے ہیں
ہاں نظر اس پر رکھنا لازم ہے
ورنہ دائم بھی یہ ہو جاتے ہیں
اس کے احکام ہیں پر
ان کو ساتھ ساتھ وہ چلاتے ہیں
کچھ احکامات تکوینی ہیں
دنیا کے کام ان سے چلاتے ہیں
دوسرے احکام ہیں تشریعی بھی
اپنے بندوں سے وہ منواتے ہیں
انبیاء ان کے لئے آئے ہیں
علماء یہ ہمیں سمجھاتے ہیں
ہم شریعت کے مکلف ہیں شبیر
وہ اس طرف ہمیں بلاتے ہیں
بہرحال باتیں بہت ہیں اور نتیجہ وہی ہے کہ حالات چاہے کچھ بھی ہوں لیکن اس میں جن اعمال کو کرنے کی ضرورت ہے وہ ہم لوگ شریعت سے حاصل کریں گے۔ مثلاً اچھے حالات ہیں تو اس کے شکر کا مطالبہ شریعت میں ہے اور اگر مشکل حالات ہیں تو ان پر صبر کا مطالبہ ہے۔ اگر کسی شخص کو پریشانی میں مبتلا دیکھیں تو اس کی مدد کرنے کا حکم ہے اور اگر آپ خود کسی پریشانی میں ہیں تو آپ اپنی نظر اللہ پہ رکھیں، دوسروں سے مدد کی توقع نہ کریں۔
حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی سے طمع نہ کرو، فرمایا: مجھ سے بھی طمع نہ کرو۔ واقعی جو مشکل کام ہے وہ یہی ہے کہ آدمی چونکہ لوگوں سے طمع کرتا ہے اور لوگ ایسے ہوتے نہیں ہیں تو نتیجتاً پھر خفا ہوتا ہے، ہر ایک سے شاکی ہوتا ہے کہ اس نے یہ نہیں کیا، اس نے یہ نہیں کیا۔ آپ معاملہ یہ رکھیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ دوسروں کو کیا کرنا چاہیے یہ آپ کا کام نہیں ہے، اس کا حساب اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ کرے گا۔ اس وجہ سے اپنے آپ سے شاکی ہونا چاہیے اور دوسروں سے شاکی نہیں ہونا چاہیے، اور حضرت شیخ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے شیخ شہاب رحمۃ اللہ علیہ سے دو نصیحتیں پہنچی ہیں، ایک تو یہ ہے کہ ”بر خود خوش بین مباش و بر غیر بد بیں مباش“ اپنے آپ پر اچھا گمان نہ رکھو اور دوسرے پر بدگمانی نہ کرو۔ فرمایا: سارے مسائل اسی سے پیدا ہوتے ہیں کہ ہم اپنے آپ سے اچھا گمان رکھتے ہیں اور دوسروں سے برا گمان رکھتے ہیں تو یہ طریقہ ہمارا ٹھیک نہیں ہے۔ آپ نے جو کہا: انتشار ذہنی، انتشار ذہنی یہی ہے کہ بس آپ اپنے حالات کو جو سمجھ رہی ہیں اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ اس کو سمجھیں کہ اللہ تعالی نے میری بھلائی کے لئے یہ حالات پیدا کیے ہیں، میں نے ان حالات میں اللہ پاک کو راضی کرنا ہے، اگر آپ اس میں کامیاب ہو گئیں، سبحان اللہ! یہی ہمارا کام ہے، اللہ پاک سب کو نصیب فرمائے۔
سوال 14:
حضرت جی لطیفۂ قلب اور روح پر مراقبہ کرتے ہوئے ایک ماہ ہو چکا ہے۔ دونوں جگہ ذکر محسوس ہوتا ہے۔ آئندہ کے لئے رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
اب تیسرا لطیفہ شروع کر لیں لیکن دونوں کو ساتھ رکھ کر دس دس منٹ کا کر لیں، دس قلب کر لیں اور دس منٹ روح کا کر لیں، اور پندرہ منٹ دل سے چار انگل اوپر اور دو انگل سینے کی طرف، پہلے چار انگل اوپر لے کے، پھر اس پوانٹ سے دو انگل سینے کی طرف، اس کو لطیفہ سِر کہتے ہیں۔ دس منٹ قلب پر دس منٹ روح پر اور پندرہ منٹ لطیفہ سِر پر کریں۔
سوال نمبر15:
آپ کہہ رہے تھے کہ فرض عین علم ضروری ہے، تو فرض عین علم کون سا ہو سکتا ہے؟
جواب:
فرض عین علم وہ ہے جس کا مطالبہ ہر مسلمان سے ہے اور 24 گھنٹے ہمیں کسی وقت بھی اس کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ تو اس کا مستحضر ہونا ضروری ہے کیونکہ اس وقت آپ کے پاس بتانے کے لئے تو کوئی نہیں ہو گا تو وہ علم آپ کے پاس ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر نماز کا علم, فرائض واجبات سنن اور سجدہ سہو اور اسی قسم کی جو تمام چیزیں ہیں اور نماز کے لئے کپڑے پاک ہونا جسم اور جگہ کا پاک ہونا یہ سب باتیں آپ کو معلوم ہونی چاہئیں روزہ کے بارے میں، زکوۃ کے بارے میں، حج کے بارے میں، یہ سب عبادتیں ہیں۔ اس کے بعد معاملات کا علم، جس میں لین دین والے مسائل اور آپس میں جو معاملات ہوتے ہیں، ان کا علم بھی ضروری ہوتا ہے۔ الغرض ہر وہ چیز جو کسی وقت پیش آ جائے جیسے آپ نے سودا لینا ہے، اس سے متعلق مسائل کی آپ کو ضرورت ہو گی۔ اور آپ کسی کو وکیل بنا رہے ہیں، کسی کو بر طرف کر رہے ہیں، کسی کو وصیت کر رہے ہیں، اب یہ ساری باتیں آپ کی ضرورت ہیں تو ان کے لئے معاملات کا علم آپ کے پاس ہونا چاہیے۔ پھر معاشرت ہے که آپ زندگی کیسے گزارتے ہیں، سوسائٹی میں آپ کا کردار کیا ہے اس کو جاننا که وہ شریعت کے دائرے میں ہے؟ اس طرح آپ کے اخلاق کا علم، یعنی اس میں حسد بغض وغیرہ دل میں نہیں ہونا چاہیے۔ ان سب چیزوں کا علم فرض عین ہے۔ اس کے علاوہ پھر تفصیلات ہیں، جیسے فنون ہیں، عربی کے بارے میں یا منطق ہے، اس طرح فلسفہ ہے، ظاہر ہے یہ عام لوگوں کے کام کے نہیں ہیں، یہ کچھ خاص لوگوں کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جیسے قرآن پاک کی تفسیر عام لوگوں کا کام نہیں ہے حدیث شریف کی تشریح بھی ہر ایک کا کام نہیں ہے۔ یعنی جو چیزیں اس طرح تفصیل میں جانے والی ہیں، جن کی ضرورت ہر ایک کو پیش نہیں آتی، اگر سب کی طرف سے اتنے افراد ہوں کہ سب کا کام پورا جائے تو ان افراد کے حاصل کر لینے سے دوسرے سب لوگ معاف ہو جائیں گے، اس کو فرض کفایہ کہتے ہیں، فرض کفایہ علم مدارس میں پڑھایا جاتا ہے، 8 سال میں کورس پورا ہوتا ہے اور فرض عین علم ہر مسلمان کے ذمے ہے۔ ہم نے اس کے لئے کوشش کی ہے کہ اپنی ویب سائٹ کے اوپر فرض عین علم کے بارے میں بتا دیا ہے اگر آپ ویب سائٹ دیکھیں گے تو معاملات و معاشرت اور اخلاق آپ کو مل جائیں گے، آپ اسی کو دیکھ لیں، اس کو سمجھیں ان شاءاللہ فرض عین علم آپ کو حاصل ہو جائے گا۔
سوال نمبر16:
دل میں حسد ہے یا نفرت ہے تو یہ کس طرح دور ہوں گے؟
جواب:
سبحان اللہ، ایک اس کا علم ہے وہ تو فرض عین علم ہے اور ایک اس کا عمل ہے وہ تصوف ہے، اب اس کو کیسے آپ حاصل کریں گے، وہ علم جو تصوف سے متعلق ہے وہ تو فرض عین علم میں آ گیا۔در اصل حسد میں یہ بات ہوتی ہے کہ کسی کے پاس کوئی نعمت ہے اور وہ نعمت آپ کے پاس نہیں ہے آپ یہ چاہیں کہ وہ نعمت اس سے زائل ہو جائے، یہ حسد ہے۔ اگر آپ اس پر ناراض ہوں، اور آپ کے دل میں یہ بات ہو که یہ کیوں اس کے پاس ہے، یہ حسد کی تعریف ہے۔ لیکن اس کو آپ کیسے دور کریں گے؟ یہ تصوف سے دور ہوتا ہے۔ یہ بھی ویب سیٹ پہ موجود ہے۔
ہماری ویب سائٹ الحمد للہ تین چیزوں پر مبنی ہے اور حدیث جبریل میں وہ تین چیزیں شامل ہیں، حدیث جبریل میں تین سوال کیے گئے تھے: ایمان کیا ہے؟ اسلام کیا ہے؟ احسان کیا ہے؟ ایمان کیا ہے، کا جواب عقائد ہیں، اسلام کیا ہے، کا جواب فقہ ہے اور احسان کیا ہے، اس کا جواب تصوف ہے۔ یہ تین شعبے ہماری ویب سائٹ پر ہیں۔ عقائد، فقہ اور تصوف آپ ان تینوں کے بارے میں دیکھ لیں۔
سوال 17:
حضرت جی ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ کا جہری ذکر کرتے ہوئے بعض اوقات الفاظ کچھ ٹھیک سے ادا نہیں ہو پاتے، مثلا ”اِلَّا اللہ“ روانی میں پڑھتے ہوئے ”اِیلَا اللّٰہ“ بن جاتا ہے۔ بعض اوقات لفظ ”اَللہ“ کی لام پر کھڑی زبر ادا نہیں ہوتی۔ کیا اس طرح ترجمہ پر فرق نہیں آتا؟ اور کیا اس طرح پڑھنے سے گناہ نہیں ہوتا؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
حضرت مولانا تھانوی رحمة اللہ علیه سے کسی نے پوچھا کہ یہ جو ہم کہتے ہیں ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ“ تو یہ تجوید کے قواعد کے مطابق صحیح نہیں بیٹھتا۔ فرمایا: اس میں مقصود الفاظ نہیں، اس میں مقصود کیفیت ہے۔ اگر آپ کے الفاظ ٹھیک نہ بھی ہوں لیکن آپ کی کیفیت اس کے ساتھ ٹھیک ہو تو آپ نے مقصود حاصل کر لیا۔ مثلاً نفی و اثبات ہے۔ نفی و اثبات میں مقصود کیفیت یہ ہے کہ ماسوائے اللہ کے اپنے دل کو کاٹ رہے ہیں اور اللہ کے ساتھ جوڑ رہے ہیں، اس کو نفی اثبات اس لئے کہتے ہیں۔ تو مقصود یہ کیفیت ہے، اتنے بڑے شیخ نے فتویٰ دے دیا تو ماننا چاہیے۔
سوال نمبر18:
مراقبہ کے دوران دل میں سے ایسی کوئی تسبیح نکل رہی ہے اور خود بخود جاری ہوتی ہے بندہ منہ سے بول نہیں رہا، یا ذکر نہیں کر رہا لیکن اپنے آپ سانس باہر جا رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ ہورہا ہے۔
جواب:
وہ علیحدہ ذکر ہے، وہ بتایا جاتا ہے، وہ جب بتایا جائے تب کرنا چاہیے۔ سانس کے ساتھ جو ذکر ہوتا ہے اس کو فاسِ انفاس کہتے ہیں، وہ باقاعدہ دیا جاتا ہے، ابھی آپ صرف یہی کریں جو آپ کو بتایا گیا ہے۔
سوال نمبر19:
یہ جو پہلا کلمہ ہے ”لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ“ اس میں ”لَا اِلٰہ“ میں ”لَا“ نفی ہے اور ایک لفظ ”اِلَّا اللہ“ ہے۔ ایک اس طرح لکھا ہوا ہے اور ایک دوسری طرح لکھا ہوا ہے۔ ”اِلٰہ“، ”اِلَّا“ اور ”اَللہ“ میں فرق بتا دیں۔
جواب:
”God“ انگریزی کا، ”الہ“ عربی کا، ”خدا“ اردو کا۔ اِلٰہ نکرہ ہے اور اللہ معرفہ ہے، یعنی ”Proper noun“ ہے کیونکہ اسم ذات ہے۔ جیسے ایک ہے کوئی بھی آدمی اور ایک ہے خاص آدمی۔ جیسے یہ سارے آدمی ہیں، مثلاً اب اگر کوئی کہے: آدمی! تو بہت سے آدمیوں کی طرف ذہن چلا جائے گا لیکن اگر کوئی کہے: کامران! تو تمام آدمیوں سے ذہن ہٹ کر صرف کامران کی طرف جائے گا۔ اسی طرح معبود تو غیر مسلموں کے بہت سے ہو سکتے ہیں، کافروں اور مشرکوں کے کتنے معبود تھے، لیکن ہم کہتے ہیں نہیں کوئی معبود نہیں "اِلَّا اللہ" صرف اللہ کے، تو تمام معبودوں کی نفی کی گئی، پھر اس کے بعد صرف اللہ کا اثبات ہو گیا، یعنی معبود کوئی نہیں مگر اللہ، یعنی وہ صرف ایک ہی ہے۔ یہ عربی کا قاعدہ ہے شاید کسی اور زبان میں نہیں ہے کہ جس میں نفی اثبات کے ذریعے سے کلام میں زور پیدا کیا جاتا ہے۔ جیسے: ﴿وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ اِلَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْر﴾ (العصر: 1-4) یعنی پہلے نفی کر دیتے ہیں پھر اس کے بعد اثبات کرتے ہیں، تو اس میں زور اتنا آ جاتا ہے کہ باقی بالکل ختم، تو یہ بہت پاور فل چیز ہے، یہ صرف میں نے عربی میں ابھی تک دیکھا ہے، مجھے نہیں معلوم کسی اور زبان میں شاید یہ ہو۔
سوال نمبر20:
رمضان قریب ہے، اس میں جو چارٹ دیا ہوا تھا اس چارٹ کے مطابق روزہ کھولا جائے بند کیا جائے یا پانچ منٹ تک فرق رکھا جائے؟
جواب:
ہمارا رمضان کا چارٹ ویب سائٹ پر موجود ہے اسلام آباد کا۔ بلکہ آپ نقشہ بھی حاصل کر سکتے ہیں، چھپا ہوا ہے۔ اس پہ آپ من و عن عمل کر سکتے ہیں، اگر آپ کی گھڑی صحیح ہے کیونکہ ان تمام چیزوں کو شامل کیا گیا ہے۔ مزید کچھ کمی بیشی نہیں کرنی بس آپ نے براہ راست اس پہ عمل کرنا ہے اور اس کے لئے آپ نے گھڑی کو درست کرنا ہے۔ اپنے موبائل کا انٹرنیٹ ٹائم پاکستان سٹینڈرڈ ٹائم کے حساب سے سیٹ کر دیں وہ درست وقت دکھا دے گا، آج کل تو یہ بہت آسان ہے۔
وَ مَا عَلَینَا اِلَّا البَلَاغ