ایمان احسان اور اسلام کی تعریف میں اور توحید شریعت اور دین کی معرفت کے بیان میں

53 مقالہ 3 ، درس

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کا درس ہوتا ہے اور ابھی حضرت کے صاحبزادہ حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے مقالۂ سوم کا درس ہو گا۔ ان شاء اللہ۔ یہ مقالۂ سوم ایمان، احسان اور اسلام کی تعریف میں ہے۔ در اصل اس میں حدیثِ جبرائیل کی تشریح کی گئی ہے اور توحید، شریعت اور دین کی معرفت کے بیان میں ہے۔

متن:

"فَإِنْ قِیْلَ مَا الْإِیْمَانُ وَ مَا الْإِحْسَانُ وَ مَا الْإِسْلَامُ؟" ”اگر تم سے پوچھا جائے کہ ایمان کیا ہے، احسان کیا ہے اور اسلام کیا ہے؟“ "فَقُلْ: اَلْإِیْمَانُ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِیْقٌ بِالْجَنَانِ،"

تشریح:

تصدیق بالقلب بھی ہے اور تصدیق بالجنان بھی ہے۔

”تو کہہ دیجیے کہ زبان کا اقرار اور دل کی تصدیق ایمان کہلاتا ہے“ اور اللہ تعالیٰ کے اوامر کو مان کر اُن پر عمل کرنا اور اللہ تعالیٰ کے ممنوعہ یعنی نواھی سے جان بچا کر رکھنا اسلام ہے۔ اور احسان اللہ کی مخلوق کے ساتھ احسان کرنا ہے اور اُن پر بغیر کسی احسان جتانے کے شفقت کرنا ہے۔ اور احسان کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس انداز سے عبادت کرو گویا تم خدا کو دیکھ کر اس کی عبادت کر رہے ہو اگر ایسا تم سے ممکن نہ ہو تو پھر ایسی عبادت کرنا کہ گویا وہ تمھیں خود دیکھ رہا ہے۔

تشریح:

یہ اس حدیث شریف کی طرف اشارہ ہے جس میں ہے کہ آپ ﷺ ایک دفعہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ تشریف فرما تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بالکل ستھرے کپڑوں میں ایک اجنبی صاحب جن کو ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا، اندر داخل ہوئے اور آپ ﷺ کے زانوں کے ساتھ زانوں ساتھ ملا دئیے۔ ظاہر ہے کہ اتنی بے تکلفی کسی صحابی کو آپ ﷺ کے ساتھ نہیں تھی۔ اور دوسری بات یہ کہ ہم حیران ہو گئے کہ ہے اجنبی، لیکن بالکل صاف ستھرے کپڑے والا ہے۔ آج کل اس پر حیرانی نہیں ہوتی، کیونکہ آج کل ائیر کنڈیشن کار میں آدمی آ جاتا ہے۔ اگر لاہور سے بھی آیا جائے، تو اس کے اوپر سفر کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ لیکن ان دنوں مال دار سے مال دار آدمی کو بھی ایئر کنڈیشن گاڑی میسر نہیں تھی۔ لوگ اونٹوں اور گھوڑوں پہ آتے تھے، گرد و غبار ہوتی تھی۔ جیسے آج کل بہترین سے بہترین موٹر سائیکل پہ بیٹھ کر آپ آ جائیں، تو بھی نہیں بچ سکتے۔ اسی طرح اس وقت بہترین سے بہترین گھوڑے پر بھی کوئی آ جاتا، تو گرد و غبار سے نہیں بچ سکتا تھا۔ بڑی حیرت تھی کہ اجنبی ہے اور ہم میں سے کوئی اس کو جانتا نہیں ہے اور بالکل صاف ستھرے لباس میں ہے، جیسے بالکل ابھی نہا کے آیا ہو۔ اور تیسری بات یہ ہوئی کہ آپ ﷺ کے ساتھ گھٹنوں سے گھٹنے ملا کے بیٹھ گئے اور آپ ﷺ کی ران مبارک پہ ہاتھ رکھ کے سوال کئے۔ ہم بالکل حیران ہو گئے کہ یہ کیسا شخص ہے۔ آپ ﷺ سے انہوں نے پہلا سوال کیا: ’’مَا الْإِیْمَانُ‘‘ اس کے جواب میں آپ ﷺ نے ایمان کے شعبہ بتا دیئے۔ پھر پوچھا: ’’مَا الْإِسْلَامُ‘‘ اس کے جواب میں آپ ﷺ نے اسلام کے ارکان بتا دیئے۔ پھر پوچھا: ’’مَا الْإِحْسَانُ‘‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’’أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهٗ يَرَاكَ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 50)

ترجمہ: ’’اللہ کی عبادت و بندگی تم اس طرح کرو، گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، کیوں کہ اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھتے ہو، پر وہ تو تم کو دیکھتا ہی ہے‘‘۔

چند دن پہلے میں نے یہ بات عرض کی تھی کہ فرمایا گیا ہے: ’’فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ‘‘ کہ اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا۔ حالانکہ اس سے پہلے آیا ہے: ’’کَاَنَّکَ تَرَاہُ‘‘۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اس کو تو دیکھ رہا ہے۔ گویا کہ ’’جیسے اس کو دیکھ رہا ہے‘‘، اس کو دیکھنے کے قائم مقام سمجھا گیا ہے۔

متن:

تَصْدِیْقٌ بِالْجَنَانِ جنان کیا ہے؟ "اَلْجَنَانُ ھُوَ الْقَلْبُ الَّذِيْ یَکَوْنُ الْمَعْرِفَۃُ فِیْہِ" ”جنان وہ دل ہے جس میں اللہ تعالٰی کی معرفت ہو“ "وَ الْقَلْبُ وِعَاءٌ لَّہٗ" ”اور معرفت کے لیے قلب یعنی دل ایک برتن ہے“

تشریح:

ایک بات یاد رکھیں کہ پچھلی دفعہ سفر میں جو درس ہوا تھا، سفر میں ہونے کی وجہ سے صفحے بہت آگے پیچھے ہوئے، بہت اکھاڑ بچھاڑ ہوئی۔ کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ سفر میں ہمارے پاس اتنا ٹائم بھی نہیں تھا، سگنلز کا بھی مسئلہ تھا اور سفر کی وجہ سے گاڑیوں سے بچنا بچانا اور اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ لہٰذا توجہ کتاب کی طرف اتنی نہیں ہو سکتی تھی۔ نتیجتاً جو ہو رہا تھا، وہ ہو رہا تھا۔ لہٰذا اب اس کو دوبارہ بیان کیا جا رہا ہے، تاکہ مطلب صحیح طور پہ سمجھ آ جائے۔ اس لئے اگر کسی کو وہ uploaded نہ ملے، تو پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ کیونکہ اس کو ہم نے منسوخ کر دیا۔ اب دوبارہ وہ درس دیا جا رہا ہے۔

چنانچہ یہاں فرمایا ہے کہ "وَالْقَلْبُ وِعَاءٌ لَّہٗ" یعنی دل اللہ تعالیٰ کی معرفت کا برتن ہے۔ یہاں سے وہ بات بھی clear ہو گئی ہے۔ کیونکہ قلب ایک عام لفظ ہے، کافر کا دل بھی ہوتا ہے، مسلمان کا دل بھی ہوتا ہے اور جانور کا دل بھی ہوتا ہے۔ لیکن جنان عام لفظ نہیں ہے، یہ خاص لفظ ہے۔ چنانچہ اصل قلب یعنی روحانی قلب جنان ہے۔ یہاں یہ واضح طور پہ بتایا گیا ہے کہ جنان اصل قلب ہے۔ کیونکہ جسمانی قلب تو خون سپلائی کرتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کمال کرتے ہو، اس میں تو شیطان کا وسوسہ بھی آتا ہے، اس میں اللہ پاک کا کلام بھی آتا ہے، یہ کیسے ہوتا ہے؟ یہ تو گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اسی وجہ سے لوگ confuse ہوتے ہیں۔ لیکن اب اس لفظ کے آنے سے یہ confusion دور ہونی چاہیے۔ یہاں فرمایا گیا:

متن:

اَلْجَنَانُ ھُوَ الْقَلْبُ الَّذِيْ یَکَوْنُ الْمَعْرِفَۃُ فِیْہِ" ”جنان وہ دل ہے جس میں اللہ تعالٰی کی معرفت ہو“ "وَ الْقَلْبُ وِعَاءٌ لَّہٗ" ”اور معرفت کے لیے قلب یعنی دل ایک برتن ہے“ "وَ ھُوَ الْمُشْتَقُّ مِنَ الْجِنِیْنِ" ”اور جنان کا لفظ جنین سے مشتق ہے“

تشریح:

طالب علم حضرات جانتے ہیں کہ مشتق کس کو کہتے ہیں۔ مشتق اس کو کہتے ہیں، جس سے لفظ لیا گیا ہو۔

متن:

"وَ الْجِنِیْنِ کَانَ فِي الرَّحِمِ" ”اور جنین رحم میں ہوتا ہے“ "و الرَّحِمُ فِي الْبَطْنِ" ”اور رحم پیٹ میں ہوتا ہے“ "یَعْنِي الْبَطْنَ وِعَاءُ الرَّحِمِ" ”یعنی پیٹ رحم کا برتن اور ظرف ہے“ "وَ الرَّحِمُ وِعَاءٌ لِّلْجَنَانِ" ”اور رحم جنین یعنی بچے کا برتن ہے“ "قَوْلُہٗ: ھُوَ الِانْقِیَادُ" انقیاد اللہ تعالیٰ کے احکام کے آگے گردن رکھنا، اور اللہ تعالیٰ کے احکام اور رزق پر راضی رہنا۔ اور اللہ تعالیٰ جو بیماری اور مصیبت نازل کرے اُس پر صبر کرنا اِنقیاد کہلاتا ہے۔

تشریح:

انقیاد بڑا اچھا لفظ ہے۔ جیسے کہتے ہیں یہ ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔ یعنی کسی حالت میں جدا نہ ہونے والا۔ یہ ہندی کا لفظ ہے۔ انقیاد کا لفظ اٹوٹ کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔ چنانچہ انقیاد کا معنیٰ ہے کسی چیز کو قید کرنا، اس کے ساتھ نتھی کرنا۔ مثلاً کہا جائے کہ اگر یہ نہیں تو یہ بھی نہیں ہے، اگر یہ ہے تو یہ بھی ہے۔ جو اس طرح کی حالت ہوتی ہے اصل میں اس کو انقیاد کہتے ہیں۔ یہ انقیاد پیر کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ چار حق مرشد کے ہیں رکھ ان کو یاد، اطلاع و اتباع و اعتقاد و انقیاد۔ یعنی ہر حالت میں اس کے ساتھ ہونا۔ جیسے شاہ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ جب انہیں شکاری کتے نظر آئے، تو انہوں نے رسیاں اپنی کمر کے گرد باندھ لی تھیں، تاکہ اپنے آپ کو اس کے ساتھ قید کر لیں تاکہ ان کتوں سے جُدا نہ ہوں، کیونکہ پیر کا حکم تھا کہ ان کتوں سے کسی حالت میں جُدا نہ ہوں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب کتے شکار پر ٹوٹ پڑے تو یہ گر گئے اور گھسٹتے جا رہے تھے۔ چاہے کوئی جھٹکا لگا یا کچھ اور ہوا وہ الگ نہیں ہوئے۔ میرے خیال میں اس سے اور زیادہ آپ کو واضح ہو جائے گا جیسے افریقی عورتیں کرتی ہیں کہ انہوں نے پیچھے ایک تھیلا سا باندھا ہوتا ہے اور اس میں انہوں نے اپنے بچوں کو رکھا ہوتا ہے، جہاں جاتی ہے بچے ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ بچے ان سے ہل نہیں سکتے، اس کے اندر adjust ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اللہ پاک کے ساتھ اپنے آپ کو ہر حال میں مقید کرنا، چاہے اچھی حالت ہو یا مشکل حالت ہو، چاہے جو بھی ہو، بس اللہ کے ساتھ ہی ہونا یہ انعقاد ہے۔

متن:

مسئلہ:

"سُئِلَ شَقیْقٌ الْبَلْخِیُّ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ عَنِ الْإِیْمَانِ وَ الْمَعْرِفَۃِ وَ التَّوْحِیْدِ وَ الشَّرِیْعَۃِ وَ الدِّیْنِ فَقَالَ: "اَلْإِیْمَانُ إِقْرَارٌ بِوَاحْدَانِیَّۃِ اللہِ تَعَالٰی شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ ایمان، معرفت، توحید، شریعت اور دین کیا ہیں؟ وَ أَمَّا الْمَعْرِفَۃُ مَعْرِفَۃُ اللہِ تَعَالٰی بِلَا کَیْفِیَّۃٍ وَّ لَا تَشْبِیْہٍ

تشریح:

اور معرفت اللہ تعالیٰ کی پہچان ہے بغیر کسی کیفیت اور تشبیہ کے۔

یہ بڑا ہی مشکل کام ہے کہ پانی میں جائیں، لیکن گھیلے نہ ہوں۔ بلا کیفیت اور بلا تشبیہ اسی قسم کی چیز ہے۔

متن:

وَّ أَمَّا التَّوْحِیْدُ فَھُوَ إِقْرَارٌ بِتَوَحُّدِ رَبِّہٖ بِأَنَّہٗ وَاحِدٌ بِلَا ابْتِدَاءٍ وَّ لَا انْتِھَاءٍ

تشریح:

جہاں تک توحید کا تعلق ہے تو اپنے رب کے ایک ہونے کا اقرار ہے کہ وہ ایک ہے، اکیلا ہے ابتدا کے لحاظ سے بھی انتہا کے لحاظ سے بھی۔

متن:

وَّ أَمَّا الشَّرِیْعَۃُ فَھُوَ الِانْقِیَادُ لِرَبِّہٖ بَتَقْدِیْمِ أَوَامِرِہٖ وَ الِاجْتِنَابِ عَنْ نَّوَاھِیْہٖ وَ أَمَّا الدَّیْنُ فَھُوَ الدَّوَامُ وَ الثُّبُوْتُ عَلٰی ھٰذِہِ الْأَرْبَعَۃِ إِلَی الْمَوْتِ" (لم أعثر علی ہذہ العبارۃ)

تشریح:

شریعت اپنے آپ کو مقید کرنا ہے، اپنے آپ کو مجبور کرنا ہے، اپنے رب کے ہر حکم کے لئے، چاہے وہ کرنے کا امر ہو، چاہے کسی سے بچنے کا امر ہو۔ یعنی اپنے آپ کو اس پہ مجبور کرنا ہے۔ اور دین کیا ہے؟ دین ان چاروں کے اوپر اپنے آپ کو موت تک قائم و دائم رکھنا کہ اس میں کوئی متخلل نہ ہو۔

متن:

"قَوْلُہٗ: مِنْ غَیْرِ تَشْبِیْہٍ" بغیر کسی تشبیہ سے کیا مراد ہے؟ "یَعْنِيْ یَنْبَغِيْ لِلنَّاسِ أَنْ لَّا یُشَبِّہُوا اللہَ تَعَالٰی شَیْئًا مِّنَ النُّوْرِ وَ الظُّلُمَۃِ وَ الشَّجَرِ وَ الْجَوَاھِرِ" ”یعنی لوگوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشابھت کسی چیز کے ساتھ نہ کریں، نہ نور سے، نہ ظلمت سے، نہ درخت اور نہ جواہر وغیرہ سے“

تشریح:

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌ (الشوریٰ: 11)

ترجمہ: ’’کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے‘‘۔

لہٰذا آپ نور بھی نہیں کہہ سکتے کہ نور روشنی ہے، نور بھی مخلوق ہے، ظلمت بھی نہیں کہہ سکتے۔ بس اللہ اللہ ہے۔

متن:

"قَوْلُہٗ: بِلَا تَعْطِیْلٍ یَعْنِيْ لَا یَنْبَغِيْ لِلنَّاسِ أَنْ یَّعْلَمُوْا بِلَا شُغُلٍ کَمَا ظَنَّ الْیَہُوْدُ فِیْ یَوْمِ السَّبْتِ بَلْ ھُوَ عَلٰی شُغْلٍ فِيْ کُلِّ یَوْمٍ کَمَا قَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِيْ شَأْنٍ﴾ (الرحمٰن: 29) وَ أَصْلُ الْإِیْمَانَ ھُوَ الِاعْتِقَادُ بِالْقَلْبِ وَ إِنَّمَا الْإِقْرَارُ شَرْطٌ لِّإِجْرَاءِ أَحْکَامِ الْإِسْلَامِ" ”بلا تعطیل کا مطلب یہ ہے کہ کوئی لمحہ بھی اس سے معطل نہیں ہوتا۔

تشریح:

اللہ تعالیٰ ہر کام خود کر رہا ہے اور مسلسل کر رہا ہے اور درمیان میں ایک لمحہ کا بھی وقفہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہود کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہفتہ کے دن کچھ نہیں کرتے۔

متن:

بلکہ لوگوں کو چاہیے کہ یہ عقیدہ رکھیں۔ کہ اللہ رب العزت ہر دن کسی نا کسی کام میں مشغول ہیں، جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا: "ہر دن وہ ایک شان میں ہے"

اور کہا جاتا ہے کہ ایمان دل کا عقیدہ اور تصدیق ہے اور اقرار کرنا (زبان سے اقرار کرنا) شرط ہے، تاکہ اسلام کے احکام کا اجراء کیا جا سکے۔

تشریح:

دل سے کسی نے تصدیق کی، تو مسلمان تو ہو گیا، لیکن مسلمانوں کو پتا نہیں چلا، لہٰذا اگر وہ مر گیا، تو لوگ اس کا جنازہ نہیں پڑھ سکیں گے اور اس پہ اسلام کے احکامات لاگو نہیں ہو سکیں گے۔ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کر سکیں گے، کیونکہ لوگ تو اقرار کو دیکھیں گے، کیونکہ دل کا تو اللہ کو پتا ہے۔ لوگوں کو اس کا پتا نہیں چل سکتا۔ اس لئے فرمایا: ’’اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِيْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘ یعنی دل سے تصدیق بھی کرنا ہے اور زبان سے اقرار بھی کرنا ہے۔

متن:

اور یہ ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے۔ "اَلْإِیْمَانُ بِالتَّفْصِیْلِ لَیْسَ بِوَاجِبٍ" یعنی تفصیل کے ساتھ ایمان واجب نہیں، بلکہ جب ایمان لایا جائے تو یہ ایمان لانا ہی کافی ہے۔ "اَلْإِیْمَانُ لَا یَزِیْدُ وَلَا یَنْقُصُ" ”ایمان نہ بڑھتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے“ اس میں کمی پیشی نہیں ہوتی، "لِأَنَّ الْأَعْمَالَ عِنْدَنَا لَیْسَتْ مِنَ الْإِیْمَانِ" کیونکہ ہمارے نزدیک اعمال ایمان سے نہیں ہیں۔

تشریح:

اعمال اور ایمان جُدا جُدا ہیں، اعمال کا انحصار ایمان پر ہے، لیکن اعمال ایمان نہیں ہیں۔ آپ کرسی کے اوپر بیٹھے ہیں، لیکن آپ کرسی نہیں ہیں۔

متن:

"اَلْإِیْمَانُ لَا یَزِیْدُ وَ لَا یَنْقُصُ وَ لٰکِنْ لَّہٗ حَدٌّ فَإِنْ نَّقَصَ یَنْقُصُ وَ إِنْ زَادَ فِیْ حَدِّہٖ زَادَ" ”ایمان کم و بیش نہیں ہوتا لیکن اُس کی ایک حد ہے، اگر وہ کم ہو جائے تو اس حد تک کم ہوتا ہے اور اگر اپنی حد تک زیادہ ہو جاتا ہے، تو زیادہ ہوتا ہے“ "وَ أَصْلُہٗ شَھَادَۃُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ" ”ایمان کی اصل یہ ہے کہ اس بات کی شہادت دی جائے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی قابلِ عبادت نہیں وہ اکیلا و یکتا ہے، اور اُس کا شریک نہیں“ "وَ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عُبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ" ”اور میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں“ "اَلصَّلٰوۃُ وَ الصَّوْمُ وَ الزَّکوٰۃُ وَ الْحَجُّ وَ غُسْلُ الْجَنَابَۃِ۔ فَمَنْ زَادَ فِيْ حَدِّہٖ زَادَ حُسْنًا وَ مَنْ نَقَصَ مِنْہٗ نَقَصَ ثَوَابًا" ”نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کرنا اور جنابت سے غسل کرنا ہے، جس نے اس حد میں زیادتی کی تو اس نے خوبی میں اضافہ کیا، اور جس نے اس میں کمی کی، تو اس کا بدلہ کم ہو جاتا ہے“ "إِیْمَانُ الْیَأْسِ غَیْرُ مَقْبُوْلٍ وَّ تَوْبَۃُ الْیَأْسِ مَقْبُوْلَۃٌ" ”یاس اور نا اُمیدی کا ایمان غیر مقبول ہے،

تشریح:

جب کسی کو یقین ہو جائے کہ میں مرنے لگا ہوں اور وہ اس وقت ایمان لے آئے، تو وہ ایمان مقبول نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ پہلے سے مومن ہیں، تو توبہ کرنا مقبول ہے۔ یہ بڑی بات ہے۔ جب بیماری کی وجہ سے نا امیدی ہو جائے، تو اس وقت توبہ قبول ہے، لیکن اگر فرشتے نظر آنے لگیں، تو اس وقت توبہ قبول نہیں ہے۔ بس توبہ کا دروازہ بند ہو گیا۔

متن:

اور یاس کی توبہ مقبول ہے“ "اَلْإِیْمَانُ غَیْرُ مَخْلُوْقٍ عِنْدَ أَھْلِ بُخَارَا وَ عِنْدَ أَھْلِ سَمَرْقَنْدَ مَخْلُوْقٌ" ”اہل بخارا کے نزدیک ایمان غیر مخلوق ہے اور اہل سمرقند کے ہاں مخلوق ہے“۔ اور یہ اختلاف ان کے درمیان حقیقت کا ہے کیونکہ اہل بخارا کہتے ہیں کہ ایمان اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو کہ بندہ کے لیے ہے اور یہ غیر مخلوق ہے۔ اور اہل سمرقند کہتے ہیں کہ ایمان بندے کا فعل ہے اور اسی وجہ سے مخلوق ہے اور اسی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ پہچانا جاتا ہے۔

ایمان عطائی ہے یا کہ کسبی، اس میں اختلاف ہے۔ "اَلْقُرْآنُ کَلَامُ اللہِ غَیْرُ مَخْلُوْقٍ وَّ لَا مُحْدَثٍ وَ الْمَکْتُوْبُ فِي الْمَصَاحِفِ" ”قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو کہ غیر مخلوق ہے، محدث یعنی حادث نہیں۔ اور مصحفوں میں لکھا گیا ہے“

اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار حق ہے،

تشریح:

محدَث اس کو کہتے ہیں، جو بعد میں آیا ہو۔ اور قرآن کریم تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے، لہٰذا حادث نہیں ہے۔

متن:

اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار حق ہے، آخرت میں اہل جنت بغیر کسی کیفیت اور بغیر کسی تشبیہ وغیرہ کے دیکھیں گے۔ اور خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیکھنا اکثر علماء کے نزدیک جائز نہیں، اور اس باب میں چپ رہنا بہتر ہے۔ "وَ الْقَدَرُ خَیْرُہٗ وَ شَرُّہٗ مِنَ اللہِ تَعَالٰی بِمَشِیَّتِہٖ وَ إِرَادَتِہِ الْقَدِیْمَۃِ" ”اور نیکی اور بدی کا اندازہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، اور اُس کی مشیت اور قدیمی ارادے سے ہے“ "إِلَّا أَنَّ الْمَعَاصِيَ لَیْسَتْ بِرِضَاءِ اللہِ تَعَالٰی" ”مگر گناہ اللہ تعالیٰ کی رضا سے نہیں“۔

اللہ کی تمام صفت قدیمی ہیں، اور ان میں تفصیل کی کوئی ضرورت نہیں۔ صفاتِ ذات و صفاتِ فعل کی تفصیل محتاجِ بیان نہیں، یہ اُسی کی ذات سے قائم ہیں، یہ نہ وہ ہیں اور نہ اُس کا غیر ہیں، جیسا کہ ایک دس میں سے ہے مگر نہ یہ عینِ دس ہے اور نہ اس کا غیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ تو جسم ہے، نہ جوہر ہے، نہ عرض ہے اور نہ کسی مکان میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کمال صفت سے موصوف ہے، اور اُس کی جو یہ صفت بیان کی جاتی ہے کہ اُس کے ہاتھ اور آنکھ ہیں، لیکن یہ ہاتھ اور آنکھ ہمارے ہاتھوں اور آنکھوں جیسے نہیں۔

سوال:

خدا کے لیے ہاتھ اور آنکھ کہنا جائز ہے یا کہ نا جائز؟

جواب:

خدا کے لیے ہاتھ کہنا جائز ہے اور آنکھ کہنا جائز نہیں۔

"وَ إِذَا لُقِّنَتِ الْمَرْأَۃُ وَ اسْتُوْصِفَتِ الْإِیْمَانَ فَلَمْ تَصِفْ فَإِنَّھَا لَا تَکُوْنُ مَؤْمِنَۃً حَتّٰی لَوْ مَاتَتْ لَا یُصَلّٰی عَلَیْھَا بِالِاتِّفَاقِ" وَ صِفَۃُ الْإِیْمَانِ مَا ذُکِرَ فِيْ حَدِیْثِ جِبْرِیْل عَلَیْہِ السَّلَامُ أَنْ تُوْمِنَ بِاللہِ وَ مَلٰئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْآخَرِ وَ الْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ مِنَ اللہِ تَعَالٰی وَ الْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ کَذَا فِيْ مَطْلُوْبِ الْوَاقِعَاتِ وَ مَفْتُوْحِ الحَاجَاتِ"

ترجمہ: ”اور ایمان کی وہ صفت جو کہ حدیث جبریل میں بیان کی گئی ہے، کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا جائے، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور آخرت کے دن اور خیر و شر کی مقدار کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے جاننا اور موت کے بعد پھر دوبارہ جی اُٹھنا، جیسا کہ مطلوب الواقعات اور مفتوح الحاجات میں ذکر ہے“۔ ایمان کے دو رکن ہیں: ایک زبان سے اقرار کرنا اور دوسرا دل سے (اس کی تصدیق کرنا) اللہ تعالیٰ کی ہستی، وحدانیت اور اُس کے کمال صفات کی تصدیق کرنا ہے۔ اور یہ کلمۃ اللہ میں درج اور شامل ہے۔ اور یہ اس طرح کہ کلمۃ اللہ کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ ذات جس کی ہستی واجب ہے اور اس کے کمال صفات جامع ہیں، اور ہر قسم کے نقصان سے اُس کی ذات پاک ہے۔ پس اس سے اُس کی (1) وحدانیت بھی معلوم ہو جاتی ہے اور اسی طرح (2) حیات، (3) تکوین، (4) علم، (5) قدرت، (6) سمع، (7) بصر، (8) کلام، (9) ارادت (10) اور ہر قسم کے عیب و نقصان مثل و مثال سے پاکی اور حق شناسی کی یہ دس صفتیں ضروری ہیں۔

تشریح:

یہ صفات اللہ کے لئے خاص ہیں، حیات یعنی زندہ، تکوین یعنی سب کچھ کرنا، اس کے پاس علم ہے، قدرت ہے، سمع ہے، بصر ہے، کلام ہے اور ارادت ہے۔ اور وہ ہر قسم کے عیب و نقصان اور مثل و مثال سے پاک ہے۔

متن:

اور کلمۃ اللہ سے یہ تمام مفہوم نکلتے ہیں۔ اور وحدانیت کے یہ معنیٰ ہیں کہ اللہ تعالیٰ یگانہ و یکتا ہے ذات میں بھی اور صفات میں بھی، اور اس کی مثل کوئی چیز نہیں، نہ ذات میں اور نہ صفات میں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی ذات و صفات قدیمی، ازلی اور ابدی ہیں۔ اور اُس کی ذات کے علاوہ ہر چیز حادث، ممکن اور فانی ہے۔ اور حیات کے یہ معنیٰ ہیں کہ وہ زندہ ہے اور کبھی بھی نہیں مرتا۔ اور تکوین کے یہ معنیٰ ہیں کہ ایسی ہستی جو کہ تمام اشیاء کو ہست کرنے والی ہے۔ اور علم یعنی ہر چیز پر عالم ہے۔ اور اِسی طرح اُس کی قدرت تمام اشیاء پر حاوی ہے کہ عجز کے لیے وہاں کوئی امکان یا راستہ نہیں۔ اگر چاہے کہ سات آسمانوں اور زمین کو ایک مچھر کے چمڑے میں بند کرے تو یہ کر سکتا ہے، قطع نظر اس سے کہ مچھر کا چمڑا بڑا کرے یا زمین و آسمان کو چھوٹا کرے۔ جو چاہتا ہے وہی کر لیتا ہے، عرش، کرسی، سات آسمان، سات زمینیں اور جو کچھ ہے، سب اُس کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اُس کے قابو اور قدرت کے زیر ہے اور یہ کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں، کیونکہ حقیقت میں کوئی دوسرا تصرف کنندہ نہیں۔ اور آفرینشِ عالم یعنی کائنات کے پیدا کرنے کے وقت اُس کا کوئی معاون اور مدد گار نہیں تھا۔ اور عرش معلیٰ و سدرۃ المنتھیٰ سے لے کر تحت الثریٰ تک کوئی چیز اُس کے حکم سے باہر نہیں، اور اُس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں، بلکہ صحراؤں کی ریت کے ذرات، درختوں کے پتے، دلوں کے افکار و اندیشے، ہواؤں کی لہریں اُس کے علم میں ایسے موجود ہیں جیسا کہ سات زمینوں اور آسمانوں کی تعداد۔ اور سمیع و بصیر کا مفہوم یہ ہے کہ ہر چیز پر دانا ہے اور ہر دیکھنے اور سننے کے قابل اشیاء کو دیکھتا اور سنتا ہے اور اُس کے دیکھنے اور سننے کے لیے دور و نزدیک برابر ہے، اور ایک چیونٹی کے پاؤں (اور اُس کی آواز) کہ جب وہ تاریک رات میں چلتی پھرے، اُس کے دیکھنے اور سننے کے دسترس سے باہر نہیں۔ اور تحت الثریٰ میں جو رنگ یا اشکال ہوں وہ بھی اُس کے دیکھنے سے بعید نہیں، اُس کا دیکھنا، سننا، آنکھ اور کان کے ذریعے سے نہیں ہوتا جیسا کہ اُس کی دانش اندیشہ اور تدبیر کی محتاج نہیں۔ اور اُمور تخلیق کسی آلے کے ذریعے نہیں کرتا۔ اور کلام کے معنیٰ اور مفہوم ایسے جاننا کہ اُس کا حکم سب پر جاری ہے اور اُس کی طاعت سب پر واجب ہے۔ اور جو کوئی بھی کسی قسم کی خبر دے اُن سب سے اس کی خبر درست و صحیح ہے اور وعدہ اور وعید سب اُس کا کلام ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بغیر کسی واسطے کے باتیں فرمائیں، اور اُس کی باتیں حلق، زبان اور منہ سے نہیں، جیسا کہ آدمی کی باتیں ہوتی ہیں، اس کی باتیں بے آواز اور بے حرف ہیں، یعنی اُس میں آواز نہیں، اللہ تعالیٰ کی باتیں صوت و حرف سے پاک اور منزہ ہیں۔ قرآن کریم، تورات انجیل زبور سب اُس کا کلام اور صفت ہے اور اُس کی تمام صفات قدیم ہیں۔

تشریح:

لوگ حیران ہوں گے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آواز نہیں ہے، لیکن بات کرتے ہیں۔ یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ مثلاً: (یہ مثال سمجھانے کے لئے دے رہا ہوں، ورنہ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی مثال نہیں ہے) میں کوئی چیز سوچوں اور میں آپ کے ذہن کو ایسا متأثر کر لوں کہ جو میں سوچ رہا ہوں، وہ آپ کو بھی پہنچ رہا ہو۔ آپ کو محسوس ہو گا جیسا کہ آپ آواز سن رہے ہیں، لیکن وہ آواز نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ جب ارادہ کر لیتا ہے کہ کسی کو وہ چیز سنائی دے، تو وہ اس کو سنائی دے گا، اس کو ایسے محسوس ہو گا جیسے آواز ہے، لیکن وہ آواز نہیں ہو گی۔ کیونکہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، ہر کام کر سکتا ہے۔ جیسے وہ پیدا کرنا چاہے گا، ویسے ہو جائے گا۔ وہ اللہ کی آواز نہیں ہو گی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے وہ آواز پیدا کی ہو گی اپنے تصرف سے، اپنے اختیار سے، اپنے ارادہ سے۔ آپ کو ایسے سنائی دے گا، جیسے آپ آواز سن رہے ہیں، لیکن وہ آواز نہیں ہو گی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی آواز ہو گی۔ آج کل ان چیزوں کو سمجھنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ کیونکہ کمپیوٹر کے ذریعے سے ایسے کام ہو سکتے ہیں، جو پہلے نہیں ہو سکتے تھے۔ جیسے scientific حروف emphasize ہو جاتے ہیں، تو وہ اس طرح تو نہیں ہو جاتے، جیسے ہم لوگ بولتے ہیں۔ جیسے سافٹ وئیر جو text پڑھ رہا ہوتا ہے، تو وہاں کوئی بھی نہیں بول رہا ہوتا۔ صرف سافٹ وئیر ہی بول رہا ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ جل شانہ کی جو چیزیں ہوتی ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے ساتھ ہیں، لیکن وہ اللہ پاک کی ذات کے ساتھ نہیں ہیں، وہ اللہ کی ذات سے خارج ہیں۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے خارج ہیں۔ اللہ پاک نے ان کو پیدا کیا ہے، لیکن وہ اللہ کی ذات کا حصہ نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات سے متعلق ہیں اور مخلوقات ہیں۔

متن:

قرآن کریم، تورات انجیل زبور سب اُس کا کلام اور صفت ہے اور اُس کی تمام صفات قدیم ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہمارے دل میں معلوم ہے، اور ہماری زبانوں پر مذکور ہے۔ ہمارا علم عطا کیا ہوا اور مخلوق ہے لیکن جو ہمارے علم میں ہے یعنی ”معلوم“ قدیم ہے۔ ذاکر مخلوق اور مذکور قدیم اسی طرح اُس کی باتیں یعنی کلام بھی قدیم ہے، جو کہ ہمارے دلوں میں محفوظ، ہماری زبانوں پر جاری اور ہماری کتابوں میں تحریر ہے۔ ہمارے محفوظ اور حفاظت مخلوق اور ہمارا کہنا مخلوق، ہمارا مکتوب مخلوق، ہماری کتابت مخلوق اور جو کچھ کہ دنیا میں ہے، سب کچھ اُس کی مخلوق ہے۔ جو کچھ بنایا ہے تو ایسا بنایا ہے کہ اُس سے بہتر نہیں ہو سکتا۔ اگر تمام عاقلوں کی عقلیں متفق ہو جائیں اور فکر کریں کہ اس سے بہتر اور خوبصورت بنائیں تو ایسا نہیں کر سکتے اور نہ اس میں کمی و بیشی ترقی یا نقصان کو عمل میں لا سکتے ہیں۔ اور اگر یہ فکر کریں کہ اس سے بہتر بنایا جائے تو غلطی کرتے ہیں، کیونکہ اس تخلیق کے اسرار مصلحت اور حکمت سے بے خبر ہوں گے۔ پس جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے، حکمت اور عدل سے پیدا کیا اور ایسا پیدا کیا ہے جس طرح پیدا کرنا چاہیے تھا۔

تشریح:

انسان بہت جلد باز ہے، وہ کسی ایسی چیز کو دیکھ لیتا ہے، تو کہتا ہے کہ میں نے بنایا ہے۔ اول تو اس نے بنایا ہی نہیں ہے، بلکہ اللہ پاک نے بنوایا ہے، لیکن اگر انسان نے کچھ بنایا بھی ہے، تو وہ اس طرح تو نہیں ہے، جس طرح اللہ پاک نے چیزیں بنائی ہیں۔ مثلاً: ہماری آنکھ ہے، اس آنکھ کی طرح کوئی کیمرہ نہیں دیکھ سکتا۔ کیونکہ اس کے اندر سامنے لاکھوں cones ہیں اور لاکھوں rods لائیو ہیں اور یہ ہر ایک چیز کو دیکھ رہے ہیں اور ساری دیکھی ہوئی چیزوں کو ہر طرف سے جمع کیا جا رہا ہے۔ اور کوئی بھی کیمرہ اس کی طرح کی کوئی بھی چیز نہیں بنا سکتا کہ جو بالکل اسی طرح ہو، جس طریقے سے آپ یہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ نا ممکن ہے، چاہے کتنے ہی ترقی یافتہ کیمرے کیوں نہ ہوں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ