اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات اور حالات پر مشتمل کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ کی تعلیم ہو رہی ہے، جو حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تصنیف ہے۔
باب چہاردہم کا تتمہ
جس میں حضرت صاحب کی وہ کرامات درج ہیں جو کہ شیخ عبد الحلیم کی کتاب میں نہیں
تشریح:
جنہوں نے بعد میں ترجمہ کیا ہے، انہوں نے یہ شامل کیا ہے۔
متن:
حضرت شیخ صاحب کے بعض مناقب میں نے شمس الدین صاحب کی کتاب سے نقل کر کے تحریر کر دیئے ہیں جنہوں نے فقیر صاحب اور اخوند سمیل صاحب کی کتابوں کا حوالہ دیا ہے، اور یہ دونوں حضرت شیخ جی صاحب کے مرید تھے۔ ان مناقب کو میں نے تتمہ کے طور پر تحریر کر دیا ہے تاکہ ناظرین اس میں اور شیخ عبد الحلیم صاحب کی کتاب میں تمیز کر سکیں۔
پہلی بات:
روایت ہے کہ شیخ ابک صاحب کے زمانے میں کشمیر نام کا ایک شخص تھا جس کا بیٹا سخت بیمار تھا، وہ اس کو شیخ ابک صاحب (ان کا نام بہادر بابا تھا اور حضرت صاحب کے والد صاحب تھے) کی خدمت میں لایا اور دُعا کی درخواست کی۔ شیخ ابک صاحب نے اس حدیث قدسی کی رو سے کہ جس میں فرمایا گیا ہے کہ "مَنْ لَّمْ یَذُقْ فَنَاءَ الْوَلَدِ بِمَحَبَّتِیْ وَ فَنَاءَ الْوَالَدِ بِمُرُوْءَتِیْ لَمْ یَجِدْ لَذَّۃَ الْوَحْدَانِیَّۃِ وَ الْفَرْدَانِیَّۃِ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”جس نے اپنے بیٹے کو میری محبت میں اور باپ کو میری مروت میں فنا ہوتے نہیں دیکھا تو اس کو وحدانیت اور فردانیت کی لذت نصیب نہیں ہوئی“ اپنی اہلیہ محترمہ کو فرمایا کہ اپنے بیٹے کو پاک و صاف کر کے سُرمہ لگا کر پنگھوڑے میں سلا دو۔ چنانچہ بی بی صاحبہ نے حکم کی تعمیل کی اور اپنے شیر خوار پھول جیسے بچے کو گہوارہ میں سلا دیا۔ جب کچھ دیر گزر گئی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کا بچہ فوت ہو چکا ہے۔ بہت غمزدہ ہوئیں، قریب تھا کہ جزع فزع اور فریاد کریں، شیخ صاحب نے ان کو تسلی دی کہ رب العٰلمین تجھے ایک فرزند عطا کرے گا جس کا نام "کشمیر" ہو گا اور وہ سورج کی مانند میں ظاہر اور نمایاں ہو گا۔ چنانچہ بی بی صاحبہ نے یہ سُن کر صبر اختیار کیا۔ کشمیر کا بیمار بیٹا صحت یاب ہو گیا اور مرے ہوئے بیٹے کی جگہ اللّٰہ تعالیٰ نے بی بی صاحبہ کو کاکا صاحب عطا فرمایا جو کہ قطبِ حقیقی کا مرتبہ رکھتے تھے اور محمد رسول اللّٰہ ﷺ کے قلب پر تھے۔
دوسری بات:
روایت ہے کہ حضرت شیخ صاحب نے جمعہ کے دن ولادت فرمائی اور اس روز شیخ ابک صاحب نے بی بی صاحبہ کو حکم دیا کہ اس بچے کو پاک و صاف کر کے عطر اور سُرمہ لگائیں اور گہوارہ میں ڈال کر ایک بلند جگہ پر رکھ دیں۔ چنانچہ ویسا ہی کیا گیا اور شیخ صاحب نے آپ کو پنگھوڑے میں ڈال کر ایک پہاڑی پر رکھ دیا، اور ابک صاحب اور دیگر لوگ وہاں سے ہٹ کر دور بیٹھ گئے۔ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ قبلہ کی جانب سے پانچ سفید رنگ کے پرندے آئے، ان کے پر رنگ رنگ کے تھے، اُن پرندوں میں سے چار تو گہوارے کے چار بازؤں پر بیٹھ گئے اور ایک جو ان سب میں خوبصورت تھا، گہوارے کے اوپر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بہت سے پرندے مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب کی جانب سے آ کر اکٹھے ہو گئے، بعض تو درخت پر بیٹھ گئے اور بعض ہوا میں اُڑ رہے تھے اور نماز ظہر سے عصر کی نماز تک یہی حالت رہی۔ جب سورج ڈوب گیا تو پرندوں میں جو بہت خوب صورت تھا وہ اُڑ گیا، اس کے بعد چار پرندے اُڑ گئے اور پھر سارے پرندے منتشر ہو گئے اور شام تک کوئی پرندہ باقی نہ رہا۔ اس کے بعد شیخ ابک صاحب نے اپنی بی بی صاحبہ سے فرمایا کہ جاؤ اور اپنے بیٹے کو لے آؤ کہ رسول اللّٰہ ﷺ سے ان کو کمال حاصل ہوا اور رسول اللّٰہ ﷺ اور بڑے جلیل القدر صحابہ اور سارے دُنیا کے اولیاء کرام نے نہایت شفقت اور مہربانی سے تمہارے فرزند کی زیارت فرمائی اور واپس تشریف لے گئے۔ آپ کو کاکا صاحب کا لقب رسول اللّٰہ ﷺ سے حاصل ہوا، ورنہ ماں باپ نے تو کشمیر نام رکھا تھا اور باقی لوگ آپ کو بابا جی، شیخ رحمکار و شیخ رامکار اور شیخ جی کہا کرتے تھے۔
تیسری بات:
روایت ہے کہ شیخ صاحب خوش خوراک نہ تھے، کبھی تو جَو کھاتے تھے اور کبھی جوار اور کبھی ایک گھاس کا دانہ جس کو پشتو زبان میں "شموخہ" کہتے ہیں، تناول فرماتے تھے، اور روٹی کو نہایت خشک کر کے کھاتے تھے جو کہ نمک سے مملو ہوتی تھی، اور کبھی سیر ہو کر اور پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، تمام عمر میں ایک من چار سیر غلہ کھایا تھا۔ اور آپ بازاری کھانا کبھی نہیں کھاتے تھے اور جس طعام پر نظر پڑ چکی ہو وہ بھی نہیں کھاتے تھے۔ اور بے ہودہ، لایعنی باتیں نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ ذکر میں مشغول رہا کرتے تھے اور بہت سے دوسرے اوصاف حسنہ رکھتے تھے۔
چوتھی بات:
روایت ہے کہ ایک شخص جو کہ ارادت اور دوستی رکھتا تھا، سخت بیمار ہوا۔ طبیب اس کے علاج سے لاچار ہو گئے لیکن اس کے باوجود یہ ہدایت کی کہ گوشت اور دہی کبھی بھی اکھٹے نہ کھاؤ کہ اس مرض کے لئے یہ سخت نقصان دہ ہے، اُس کے وارث اُسے حضرت شیخ صاحب کی خدمت میں لے آئے، شیخ صاحب نے اس کو حکم دیا کہ دہی اور گوشت کھائے، ہر چند کہ مریض اور اس کے وارثوں نے اس کو منع کیا کہ طبیبوں نے اس کے کھانے کی اجازت نہیں دی، مگر شیخ صاحب نے فرمایا کہ جب تم اس کو میرے پاس لائے ہو تو تم پر میرے حکم کی تعمیل فرض ہے۔ مجبورًا اس نے کھا لیا، تھوڑی دیر گزری تھی کہ اس کے پیٹ میں درد شروع ہوا اور وہ قے کرنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی قے میں ٹکڑے ٹکڑے سانپ نکل آیا، اور اُس نے شیخ جی صاحب کی برکت سے کلی صحت حاصل کی۔
دوسری روایت ہے کہ جب شیخ صاحب کی شہرت تمام دُنیا میں عام ہو گئی تو بالائی سوات کا ایک شخص جس کا نام کمال خان تھا اور لا ولد تھا، حضرت شیخ صاحب کی خدمت میں آیا اور تقریبًا ایک ماہ یا کم و بیش حضرت صاحب کی خدمت میں رہا، حیا اور شرم کے مارے لوگوں کے سامنے عرض حال نہیں بیان کر سکتا تھا اور تنہائی اس کو ہاتھ نہیں آتی تھی کہ اس میں اپنا حال بیان کرے۔ جب تنگ آیا تو حضرت صاحب کے ایک فقیر کے ساتھ مشورہ کیا کہ میں کیا تدبیر کروں کہ حضرت شیخ صاحب کو تنہائی میں مل سکوں؟ اس نے کہا کہ تم کسی وقت میں شیخ صاحب کو تنہا نہیں پاؤ گے، مگر شیخ صاحب کی عادت ہے کہ صبح ہونے سے پہلے صومعہ سے نکل کر مسجد تشریف لاتے ہیں، اگر رات کو بیدار رہ کر صومعہ کے دروازے پر منتظر رہو اور صبح تک انتظار کرو، شاید کہ کامیاب ہو جاؤ اور صاحب کو تنہا پا سکو۔ کمال خان کو یہ تدبیر پسند آئی، جب وہ دن گذر گیا اور رات آئی تو آدھی رات کو اٹھ کر صومعہ کے کونے میں انتظار کرنے لگا۔ جب تھوڑی دیر گزری تو اس کو ایک حادثہ پیش آیا کہ ایک نر اور ایک مادہ چیتا بھی آ گئے اور ایک اس کے دائیں ہاتھ کو اور دوسرا اُس کے بائیں ہاتھ کو کھڑا ہو گیا، وہ اس کے اتنے قریب تھے کہ جب یہ اپنے ہاتھ کو حرکت دیتا تو ان کو چھو جاتا۔ اس پر اتنا خوف طاری ہوا کہ فرزند کا سوال بھول گیا اور خاموش کھڑا رہا اور چیتے بھی چپ کھڑے رہے۔ جب صبح قریب ہوئی تو چیتوں نے فریاد شروع کر دی، جب شیخ صاحب نے نگاہ اٹھائی تو اس شخص کو چیتوں کے درمیان خوار و خستہ حالت میں خوف زدہ اور پریشان کھڑا دیکھا۔ شیخ صاحب نے اُسے فرمایا کہ تُو فرزند طلب کرنے کے لئے آیا ہے اسی طرح یہ چیتے بھی اولاد نہیں رکھتے اور فرزند کی طلب کی خاطر آئے ہیں۔ میں نے اللّٰہ تعالیٰ سے سوال کیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا، امید ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ تجھ کو پانچ بیٹے عطا فرمائے گا اور ان چیتوں کو بھی اولاد عنایت کرے گا۔ اب جاؤ، تم کو رخصت دی جاتی ہے۔ جب آپ نے یہ فرمایا تو چیتے بھی چلے گئے اور وہ شخص بھی رخصت ہو کر چلا گیا۔ جب گھر پہنچ گیا تو کچھ عرصے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے اُسے پانچ نرینہ اولادیں عطا فرمائیں۔
ایک دوسری روایت ہے کہ فقیر جمیل 1؎ بیگ صاحب نے فرمایا ہے کہ مجھے حضرت شیخ صاحب نے تین رازوں سے آ گاہ فرمایا، میں اُن کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس میں میری ہلاکت ہے۔ اُن میں سے ادنیٰ بات یہ ہے کہ جب میں انگوٹھا نیچے کر لوں تو مشرق سے مغرب تک کل جہان میرے تصرف میں آ جاتا ہے۔
فائدہ:
اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرق سے مغرب تک اور تحت الثریٰ سے عرش تک تمام جہان قطب مدار کے تصرف میں ہوتا ہے۔ شاید اس راز کے افشا کرنے کے وقت حضرت صاحب قطب مدار تھے اور ابھی قطب حقیقی کے مرتبے کو نہ پہنچے ہوں گے، اور یہ تصرف پر قادر کیوں نہ ہوں گے کہ اولیاء کرام رب العالمین کے خلیفہ ہوتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ اُن کی حالات سے یوں باخبر رہتا ہے کہ ﴿وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیْفَةًؕ قَالُوْۤا أَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ قَالَ إِنِّیْۤ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ: 30) ”جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا نائب پیدا کرتا ہوں تو فرشتوں نے عرض کی کہ کیا آپ زمین میں اُس شخص کو پیدا کرتے ہو جو کہ اس میں فساد کرے گا، ناحق خون ریزی کرے گا اور ہم آپ کی حمد کہتے ہیں اور آپ کی پاکی بیان کرتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں وہ سب کچھ جانتا ہوں جو کہ تم نہیں جانتے“ خلفاء سے مراد یہی اولیاء ہیں، نہ کہ اس سے مراد خاقانِ چین، قیصرِ روم، خدیو مہر وغیرہ ظاہری بادشاہ۔
فقط ختم شد کراماتِ شیخ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
تشریح:
کرامات ختم ہو ہی نہیں سکتیں، کیونکہ کرامات ولی کا فعل نہیں ہوتا، جب ولی کا فعل نہیں ہے تو اس کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ کیا ہو سکتا ہے اور کیا نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ سب کچھ کر سکتا ہے۔ لہٰذا اس پہ بات کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ سند کے لحاظ سے انسان کو دیکھنا چاہئے کہ اس کی سند ثابت ہے یا نہیں ثابت ہے۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر یہ سنداً صحیح ثابت نہ بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ روایت غلط ثابت ہو جائے گی، لیکن اس سے دین کا ہمارا کوئی حکم وابستہ نہیں ہے۔ اسی طرح کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی بزرگی بھی کرامات پر منحصر نہیں ہے کہ ہم سمجھیں کہ یہ ثابت نہیں ہوا تو کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ بزرگ نہیں رہے۔ صرف یہ ہے کہ ایک روایت ثابت نہیں ہو گی، بس ہم اس کو نہیں مانیں گے۔ لیکن جب تک ہمارے پاس یہ ثبوت نہیں ہے تو چونکہ اس سے کوئی حکم وابستہ نہیں ہے، اس لئے کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسے فضائل کا معاملہ ہے کہ فضائل میں بھی ضعیف احادیث چلتی ہیں، کیونکہ فضائل سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ثابت شدہ حکموں کی فضیلت میں تبدیلی ہوتی ہے۔ مثلاً عام نماز کا پچیس گنا، ستائیس گنا اجر روایت میں آتا ہے۔ لیکن جو اللّٰہ کے راستے میں نماز پڑھے، اس کے متعلق مختلف ضعیف روایتیں ہیں کہ اس کا اجر انچاس کروڑ نمازوں کے برابر ہوتا ہے۔ اب اس کے ساتھ الجھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کیونکہ نماز تو پڑھو گے ہی، نماز تو فرض ہے۔ اب آپ کو پچیس گنا ثواب مل جائے، چاہے ستائیس گنا مل جائے، چاہے انچاس کروڑ مل جائے، دینے والا تو اللّٰہ تعالیٰ ہے، آپ تو نہیں ہیں، تو آپ اس میں بخل کیوں کرتے ہیں۔ اگر اللّٰہ تعالیٰ کسی کو انچاس کروڑ دینا چاہتا ہے، تو انچاس کروڑ پر خوش ہو جاؤ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اگر وہ حضرات یہ کہیں کہ یہ صرف ہمارے لئے ہے، باقی دینی کام کرنے والوں کے لئے نہیں ہے، تو وہ غلط ہے، اس پر ان سے بات ہو گی کہ کہاں سے ثابت کر دیا کہ صرف آپ کے لئے ہے، کسی اور دینی کام کرنے والے کے لئے نہیں ہے۔ لیکن بہر حال فضائل میں ضعیف احادیث قابلِ عمل ہوتی ہیں۔ اس طرح کراماتِ اولیاء حق ہوتی ہیں، یہ ہمارے عقائد میں شامل ہے۔ اور کرامت کہتے ہی خرقِ عادت کو ہیں یعنی وہ چیز جو عام حالت سے ہٹی ہوئی ہو، عام حالت میں اس کو ثابت نہ کیا جا سکے۔ مختصر بات یہ ہے کہ اس کو سائنسی طریقے سے ثابت نہ کیا جا سکتا ہو۔ بہر حال! کرامات کے لئے کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے، یہ اللّٰہ جل شانہ کی طرف سے ہوتی ہیں اور اللّٰہ جل شانہ جس کو جس وقت جو بھی دے دے، وہ اس کی مرضی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ ایک بزرگ کے پاس ایک بڑھیا اپنا بچہ لے کر آئی کہ یہ مادر زاد نابینا ہے، آپ اس کے لئے دعا کریں کہ یہ بینا ہو جائے۔ وہ بزرگ اپنے کسی حال میں تھے، جیسے بزرگوں کے احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں تو انہوں نے فرمایا: میں کوئی موسیٰ ہوں، کوئی عیسیٰ ہوں کہ میں اس کی آنکھیں ٹھیک کروں۔ گویا انہوں نے کسرِ نفسی کا اظہار کیا کہ میرا مرتبہ یہ نہیں ہے کہ میں اس طرح کر سکوں۔ وہ بڑھیا روتی ہوئی چلی گئی۔ اتنے میں حضرت کو الہام ہو گیا اور الہام ان الفاظ میں تھا کہ موسیٰ کون؟ عیسیٰ کون؟ یہ تو میں کرتا ہوں۔ الہام اللّٰہ کی طرف سے ہوتا ہے لہٰذا اللّٰہ تو کہہ سکتے ہیں، اللّٰہ کے لئے سب بندے ہیں۔ اور چونکہ الہام اللّٰہ کی طرف سے ہوتا ہے اس لئے اولیاء اللّٰہ کو الہام کے ساتھ بڑی محبت ہوتی ہے۔ جب ان کو یہ الہام ہوا تو باوجود اس کے کہ اپنے علاقہ میں ان کی بہت شان تھی، اس عورت کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑ پڑے کہ موسیٰ کون؟ عیسیٰ کون؟ یہ تو میں کرتا ہوں، موسیٰ کون؟ عیسیٰ کون؟ یہ تو میں کرتا ہوں۔ اس عورت کے پاس پہنچ کر بچے کے چہرہ پہ ہاتھ پھیر رہے تھے اور کہہ رہے تھے موسیٰ کون عیسیٰ کون یہ تو میں کرتا ہوں۔ اور وہ بچہ ٹھیک ہو گیا۔ در اصل ایسے حضرات مقامِ عروج میں ہوتے ہیں۔ مقام عروج میں اسباب منقطع ہو جاتے ہیں اور پھر مقامِ نزول میں اسباب واپس آ جاتے ہیں۔ چنانچہ مقام عروج میں ان کو یہ الہام ہوا اور جو پہلے انکار کیا تھا اس وقت وہ مقامِ نزول میں ہوں گے۔ بہرحال وہ بچہ ٹھیک ہو گیا، مگر لوگ بڑے حیران ہو گئے کہ یہ کون سی بات ہے کہ موسیٰ کون؟ عیسیٰ کون؟ یہ تو میں کرتا ہوں۔ بظاہر تو بڑے گستاخی کے الفاظ ہیں، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام پیغمبر ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام بھی پیغمبر ہیں، اور پھر یہ دعویٰ کہ میں کرتا ہوں۔ چونکہ حضرت کی شان سے یہ بعید تھا، اس لئے حضرت سے پوچھا گیا کہ حضرت! یہ آپ کیا فرما رہے تھے؟ انہوں نے کہا: میں کیا کہہ رہا تھا؟ واقعی ایسے حالات میں انسان بعض دفعہ اپنے حواس میں نہیں ہوتا، کوئی بھی خوشی کا موقع ہوتا ہے تو بعض چیزیں بعض دفعہ disconnect ہو جاتی ہیں، اس کا خیال ہی نہیں ہوتا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ ان پر بھی اس قسم کی حالت تھی، ان کو پتا بھی نہیں چل رہا تھا میں کیا کہہ رہا ہوں۔ ان کو بتایا گیا کہ حضرت آپ تو یہ فرما رہے تھے۔ فرمایا: اچھا! اوہ ہو، میں اس لئے کہہ رہا تھا کہ اللّٰہ کی طرف سے الہام ہوا کہ موسیٰ کون؟ عیسیٰ کون؟ یہ تو میں کرتا ہوں۔ میں تو وہ الہام کے الفاظ دہرا رہا تھا، وہ میرے الفاظ نہیں تھے۔ اس پر فرمایا کہ اگر لوگ نہ پوچھتے اور یہ سمجھ لیتے کہ کہ وہی کرتے ہیں، تو کام خراب ہو جاتا، فائدے کی بجائے نقصان ہو جاتا۔ لیکن چونکہ لوگوں کو پتا چل گیا تھا کہ یہ انہوں نے نہیں کیا، اللّٰہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے۔ چنانچہ جو اللّٰہ والے ہیں، ان کے لئے اللّٰہ پاک نظام بناتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ میں نماز کے دوران لشکروں کا انتظام کرتا ہوں۔ چونکہ نماز میں انسان اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اور اللّٰہ کی طرف سے الہام ہوتا تھا کہ یہ کرو، یہ کرو۔ جیسے خطبہ کے دوران حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا کہ: ’’یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ‘‘ خطبہ بھی تو نماز کا ہی ہوتا ہے۔ در اصل بعض حضرات کو اللّٰہ جل شانہٗ استعمال فرماتے ہیں۔ اور استعمال کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ باقاعدہ نظامِ تکوین کی ایک کڑی ہو جائے، اور نظامِ تکوین کے پھر اپنے اسباب ہیں، اس کے اسباب ہی علیحدہ ہیں۔ وہاں بالکل اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں جیسے ہماری انجیئرنگ میں ہوتا ہے کہ prototype ہوتا ہے، اس کے اوپر probe پھرتا ہے اور بہت بڑی فیکڑی میں بہت بڑی جگہ پر وہ مشین اسی طرح کٹائی کر رہی ہوتی ہے، آپ کے سامنے بالکل چھوٹا سا دائرہ بن رہا ہو گا اور اُدھر بہت بڑا دائرہ بن رہا ہو گا۔ شاہ عبد العزیز رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! یہ کیسے ہوتا ہے؟ انہوں نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکال کے اوپر ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچیں اور فرمایا: جاؤ! فلاں جگہ پر ایک موچی بیٹھا ہو گا، اس کو دے دو۔ اس نے جا کر وہ کاغذ اس موچی کو دے دیا۔ اس نے اس کو دیکھا اور جیب میں رکھ لیا۔ تھوڑی دیر کے بعد موچی نے اوزار رکھنے والا بستہ اٹھایا، بکھرے ہوئے سارے اوزار کو اٹھا کے بستہ میں ڈالا، اٹھا، بستہ گلے میں ڈالا اور چل پڑا۔ سامنے انگریزوں کی فوج کی کانوائے تھی۔ ان کے میجر نے wistle بجائی اور سب نے اپنا اپنا سامان باندھ کر گاڑیوں میں ڈال لیا۔ اس کا مطلب تھا کہ کانوائے کوچ کر رہی ہے۔ چنانچہ گاڑیاں چل پڑیں۔ تھوڑی دیر کے بعد موچی صاحب پھر رکے اور انہوں نے پھر بیٹھ کر بستہ کھول لیا، اوزار باہر نکال لئے، جیسے کسی اور جگہ بیٹھتے ہوں۔ ان کو دیکھ کر میجر صاحب نے اشارہ دے دیا، ساری کانوائے رک گئی اور سامان unload کرنے لگی۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر موچی صاحب اٹھے اور پھر دوبارہ سامان سمیٹنا شروع کر دیا۔ تین دفعہ ایسا ہوا اور تین دفعہ وہاں کانوائے کے ساتھ یہی ہوا۔ بعد میں اس میجر سے فوجیوں نے پوچھا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی؟ وہ کہنے لگا کہ میں پاگل ہو گیا تھا، مجھے نہیں پتا کہ میں نے کیوں کیا، میرے ذہن میں کچھ نہیں ہے، بس میں نے کیا ہے، وجہ مجھے معلوم نہیں ہے۔ یہی تصرف ہے۔ تصرف بظاہر بستہ پہ تھا اور اوزاروں پہ تھا، حقیقت میں اس میجر پہ تھا۔ مجھے ایک روایت پہنچی ہے کہ مولانا غلام محمد دین پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ اتنے بڑے بزرگ ہیں، انگریزوں کے خلاف آپ اپنے تصرف کیوں نہیں استعمال کرتے؟ فرمایا: اچھا! یہ کہتے ہو۔ فرمایا: جاؤ، مطبخ سے پیاز لے آؤ۔ وہ پیاز لے آیا۔ انہوں نے پیاز کو چاقو سے اس طرح کاٹا، پھر اس طرح کاٹا، پھر اس طرح کاٹا۔ پورا پیاز کاٹنے کے بعد فرمایا: جاؤ! وہاں پیازوں کو دیکھو۔ دیکھا تو جتنے پیاز پڑے تھے وہ سارے پیاز اسی طرح کٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے فرمایا: تصرف تو یہی ہے، لیکن اللّٰہ کا حکم نہیں ہے، بس یہ بات ہے۔ چنانچہ تصرف تو یہ تھا کہ اگر ایک انگریز کا سر کٹتا تو سارے انگریزوں کے سر کٹے ہوتے۔ اگر ایسا ہو سکتا تو کون سا مشکل کام تھا۔ ایک بات یاد رکھو! نظیریں قرآن اور حدیث میں موجود ہوتی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ہم غور نہیں کرتے۔ سورۃ کہف میں جو خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہے اس میں یہ ہے کہ جو چیز شرعاً جائز نہیں تھی تو موسیٰ علیہ السلام چونکہ شریعت کے ذمہ دار تھے، لہٰذا انہوں نے فوراً اعتراض کیا، لیکن خضر علیہ السلام نے پہلے سے کہا تھا کہ آپ صبر نہیں کر سکیں گے، کیونکہ آپ صاحبِ شریعت ہیں اور یہ تکوین ہے، تکوین اور شریعت ایک جیسی نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا آپ صبر نہیں کر سکیں گے۔ ﴿وَكَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰى مَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ خُبْرًا﴾ (الکہف: 68)
ترجمہ: ’’اور جن باتوں کی آپ کو پوری پوری واقفیت نہیں ہے، ان پر آپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں؟‘‘۔
چنانچہ انہیں یہ تصرف حاصل تھا، لیکن اللّٰہ کے حکم سے تھا، چونکہ اللّٰہ کے حکم سے تھا لہٰذا خضر علیہ السلام پہ گناہ نہیں تھا۔ بس بچہ کو مار دیا۔ کیا کوئی اور کسی بچے کو مار سکتا ہے؟ مارے گا تو کافر ہو گا۔ اور یہی موسیٰ علیہ السلام نے بھی کہا کہ آپ نے کیوں اس کو مارا ہے؟ صاحب تکوین کو اپنے مرتبہ کا پتا ہوتا ہے۔ چنانچہ خضر علیہ السلام کو اتنا پتا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام جیسے اولو العزم نبی سے کہا کہ آپ نہیں سمجھ سکیں گے۔ اور بات بالکل صحیح تھی۔ حالانکہ کوئی پیغمبر کو یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ آپ کو پتا نہیں ہے۔ لیکن صاحبِ تکوین کو اللّٰہ تعالیٰ نے اس منصب پر رکھا ہوتا ہے کہ جیسے کسی فرشتہ کو اللّٰہ تعالیٰ کوئی کام سونپ دیتا ہے۔ جیسے عزرائیل علیہ السلام کو کام سونپا کہ وہ سب کی روحوں کو قبض کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ میں بھی عزرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی کرتا ہوں اور میں روحیں قبض کرتا ہوں، تو وہ نہیں کر سکتا۔ لیکن عزرائیل علیہ السلام کو کوئی گناہ نہیں، بلکہ ان کو تو حکم ہی یہی ہے۔ اسی طرح جلاد کا بھی یہی معاملہ ہے۔ جلاد جو لوگوں کو مارتا ہے، اس کو کوئی نہیں پکڑتا، کیونکہ اس کو یہ حکم ہوتا ہے، سرکاری قانون کے مطابق اس کو بتایا جاتا ہے۔ اس طرح جب اللّٰہ تعالیٰ کسی کو حکم دیتے ہیں تو اس پر بھی کوئی پکڑ نہیں ہے۔ چنانچہ اصحابِ تکوین کے اپنے قوانین ہیں، ان کا اپنا نظام ہے، جس کو وہی لوگ جانتے ہیں۔ بہرحال ایک طریقہ تو یہ ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ ولی جس کے ہاتھ پہ کرامت کا ظہور ہوتا ہے اور اس کو جو تکوینی حکم ہوتا ہے، یعنی تکوینی طور پر کسی کام کا ہونا یا نہ ہونا ہوتا ہے، بعض دفعہ اس ولی کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ یہ کرامت ہے، لوگ اس کا اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ کرامت ہے۔ ورنہ اس ولی کو نہیں پتا چلتا۔ اور بعض دفعہ پتا چلتا ہے، جیسے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس ایک بزرگ تشریف لائے تو کوئی شعر پڑھا گیا جس سے سب کو وجد آ گیا، اس بزرگ کو بھی وجد آ گیا۔ اس کے وجد سے پورے سرہند کی زمین ہلنے لگی۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک صاحب سے فرمایا کہ مجھے مسواک پکڑا دو۔ مسواک پکڑائی تو انہوں نے مسواک کو زمین پہ گاڑھ دیا اور فرمایا: دیکھو! آپ کی کرامت سے سرہند کی زمین ہلنے لگی ہے۔ اور اگر میں چاہوں تو سرہند کے سارے مردے زندہ ہو سکتے ہیں، لیکن یہ آپ کی کرامت اور یہ میری کرامت؛ یہ دونوں اس مسواک کے برابر نہیں ہیں، کیونکہ یہ سنت ہے۔ اب عوام کی نگاہوں میں کرامت کا مرتبہ بہت اونچا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ بس مقام تو یہی ہے۔ حالانکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ کرامت کا مرتبہ ایک دفعہ سبحان اللّٰہ کہنے کے برابر بھی نہیں ہے۔ کیونکہ سبحان اللّٰہ کہنا اختیاری عمل ہے اس پر اجر ہے۔ اور کرامت غیر اختیاری امر ہے، اس پر اجر نہیں ہے۔ بلکہ حضرت نے فرمایا کہ عین ممکن ہے کہ بزرگوں کو جو کرامات عطا فرمائی گئی ہوں، اس قدر ان کا حصہ کم ہو جائے۔ اور جن کو کرامت نہ ملے ان کا حصہ وہاں بڑھ جائے۔ چنانچہ عوام میں تو یہ مشہور ہے کہ کرامات ہی سب کچھ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سنت رسول ﷺ ہی سب کچھ ہے۔ سنت پر عمل کرنا ہمارے اختیار میں ہے، اگر ہم چاہیں تو اس پر عمل کر سکتے ہیں، وہ تو ہم کرتے نہیں۔ ایک دفعہ مجھے ایک عجیب خیال آیا، میں راستہ پہ چل رہا تھا، میں نے سوچا اگر میں حافظ ہوتا تو اس وقت میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہا ہوتا۔ یک دم خیال آیا کہ ٹھیک ہے، تم حافظ نہیں ہو، ذکر تو تم کر سکتے ہو، ذکر فکر میں محو ہو جاؤ۔ لہٰذا فکر کے تو سارے حافظ ہیں۔ چنانچہ انسان جو کر سکتا ہے وہ نہیں کرتا، اور جو نہیں کر سکتا اس کا افسوس کرتا ہے۔ اسی طرح کرامت انسان کے بس میں نہیں ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو لازم بھی نہیں کیا، وہ تو ہمارا کام ہی نہیں ہے، جبکہ ذکر تو ہم کر سکتے ہیں، سبحان اللّٰہ کہہ سکتے ہو، الحمد للہ کہہ سکتے ہو، اللّٰہ اکبر کہہ سکتے ہو، درود شریف پڑھ سکتے ہو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کہہ سکتے ہو، قرآن پاک کی تلاوت کر سکتے ہو۔ ان ساری چیزوں کے اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کے لئے دروازے کھولے ہوئے ہیں، بس ان دروازوں سے اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں قرب حاصل کرتے رہو، کس نے آپ کو روکا نہیں ہے۔ اور اگر آپ کی نیت کرامت سے یہ ہو کہ آپ دنیا میں مشغول ہو جائیں، تو یہ دنیا کے واسطے ہے۔ کل یہاں بیٹھے ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ خلافت کیا ہوتی ہے؟ میں نے کہا میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ کو خلافت کا پتا ہی نہیں ہے۔ یہی تو مسئلہ ہے، یہی تو رکاوٹ ہے۔ اگر آپ کو اس چیز کا پتا نہیں تو سبحان اللہ! یہ تو بڑی بات ہے۔ واقعتاً ایسا ہی ہے جیسے کسی نے کہا ہے:
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
یعنی اس قسم کے خیالات اور اس قسم کے شوق انسان کے لئے گلے کا پھندا بن جاتے ہیں۔ لہٰذا ان چیزوں کی طرف ذہن نہیں جانا چاہئے، رک جائے، آدمی محفوظ رہے۔ بس اللّٰہ کا بندہ رہنا چاہئے۔ میں چارسدہ میں ایک بات کر رہا تھا کہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بیٹے مولانا عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ، جن کی یہ کتاب ہے، انہوں نے پوچھا کہ بابا بزرگوں کے مقامات ہوتے ہیں، آپ کا کون سا مقام ہے؟ آپ نے فرمایا: میں نے بزرگی بزرگوں کے لئے چھوڑی ہے، درویشی درویشوں کے لئے چھوڑی ہے، اور تصوف صوفیوں کے لئے چھوڑا ہے۔ میں بس اللّٰہ کا بندہ ہوں، اللّٰہ نے میرے گلے میں بندگی کا جو طوق ڈالا ہوا ہے، بس میں کہتا ہوں کہ عمر بھر یہی رہے۔ سبحان اللہ! کیسی بلند بات ہے۔ کیونکہ تصوف سے بھی بندگی ہی حاصل ہوتی ہے۔ اور اگر بندگی حاصل نہیں ہوئی تو تصوف سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اگر صحیح معنوں میں بندگی حاصل ہو جائے، یقین کیجئے کرامات اور کشفوں وغیرہ کا معاملہ بالکل ختم ہو جائے گا۔ اسائنمنٹ کے طور پہ مل جائے علیحدہ بات ہے۔ جیسے تکوینی امور کا معاملہ ہوتا ہے، تو وہ ایک علیحدہ چیز ہے۔ لیکن اسائنمنٹ نہ ہو تو آپ بالکل بے کار ہیں۔ اسی طرح علماء کرام اور مشائخ فرماتے ہیں کہ صاحبِ کرامت اولیاء جب تک مامور نہ ہوں، اپنی کرامت کو اکثر و پیشتر ایسے چھپاتے ہیں، جیسے حائضہ اپنے خون کو چھپاتی ہے۔ اسی لئے میں نے عرض کیا کہ الحمد للہ! حضرت کی کرامات کے ہم انکاری نہیں ہیں، حضرت کی بہت کرامات ہیں، لیکن حضرت کی بزرگی کرامات کی وجہ سے نہیں تھی۔ حضرت کی بزرگی ان کے قلبی تعلق کی وجہ سے تھی۔ ان کا جو قلبی تعلق تھا، ان کا اپنے نفس پر جو قابو تھا، وہ اصل بات تھی۔ اور اسی چیز کو ہمیں حاصل کرنا چاہیے، کرامات کو ہم حاصل نہیں کر سکتے، نہ یہ اس کا شعبہ ہے، نہ ہمیں ان کا حکم ہے، نہ ہم ان کے مکلف ہیں۔ لہٰذا ان کے بارے میں تو ہمیں سوچنے کی ضرورت بھی نہیں۔ جس کے مکلف ہیں وہ یہ ہے: ﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ 0 اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ﴾ (الشعراء: 88-89)
ترجمہ: ’’جس دن نہ کوئی مال کام آئے گا، نہ اولاد۔ ہاں جو شخص اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آئے گا (اس کو نجات ملے گی)‘‘۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں یہ نصیب فرما دے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاک نفس لے کے ادھر جانا ہے۔ ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا 0 وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجم: ’’فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔‘‘
یعنی بالکل رذائل سے پاک نفس ہو۔ نیز بقول حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے فہیمِ سنت عقل نصیب ہو جائے۔ یہ تینوں چیزیں ہم لے کے چلے گئے تو سبحان اللہ! دنیا بھی اچھی، آخرت بھی اچھی۔ اور اس کے علاوہ سے اللّٰہ تعالیٰ بچائے۔
متن:
تتمہ
حضرت صاحب کی وفات کے حالات اور ان کی وفات اور تدفین
جب حضرت صاحب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو اپنے فرزندوں کو مرض موت میں فرمایا کہ جب مجھ پر مرض کی تکلیف بڑھ جائے تو بے گانے لوگ میرے نزدیک نہ رہنے دینا کیونکہ مجھے اللّٰہ تعالیٰ نے اسرار ربّی کے فاش کرنے سے محفوظ رکھا، مبادا کہ بیماری کی شدت کے باعث کچھ ظاہر کروں اور وہ لوگ پھر اس کو فاش کریں تو یہ اچھا نہ ہو گا۔ کیونکہ جو کوئی اللّٰہ تعالیٰ کے کرم سے کوئی چیز معلوم کر لے تو وہ شدنی بات ہوتی ہے اور وہ لازمی ظاہر ہو کر رہتی ہے۔ اور جو کچھ تقاضائے طبعی کے طور پر خواہش ہو تو وہ کبھی ظاہر ہوتی ہے اور کبھی ظاہر نہیں ہوتی، چنانچہ اس مرض میں آپ کی زبان سے دو باتیں صادر ہوئی تھیں، ایک یہ کہ آپ نے فرمایا تھا: جس گاؤں میں آپ کی سکونت تھی وہ ویران ہو جائے گا، چنانچہ کہا کرتے تھے کہ اے رب العالمین! اس جگہ کو ایسا ویران کر کہ دیکھنے والوں میں سے کوئی بھی یہ نہ جان سکے کہ یہاں کوئی آبادی تھی یا نہیں۔ چنانچہ دیکھنے والوں کو اب یہ پتہ تک نہیں کہ یہاں جوان مَردوں کی آبادی بھی تھی اور وہ جوان مرد لوگ گزر چکے ہیں۔
دوسری بات بقا باللّٰہ اور فنا فی اللّٰہ کے بارے میں خود آپ نے ارشاد فرمایا تھا چنانچہ اس بیماری کے دوران اپنے بھائی شیخ عفان کے ساتھ بقا کی حقیقت کا بہت دفعہ ذکر کیا تھا اور ان کو یاد دلایا تھا کہ اے برادرِ عزیز شیخ عفان! کیا تم کو وہ بات یاد ہے کہ مجھے شہباز خان نے ضیافت کی خاطر اکوڑہ خٹک بلایا تھا اور جب میں تمیم کی وادی کے کنارے پہنچا تو ہمارے سامنے ایک بجلی چمک کر ظاہر ہوئی تھی اور میں نے اس میں کلمہ طیبہ کا مکمل معنیٰ سیکھ لیا تھا اور ظاہری لوگوں نے جو معنیٰ سیکھا ہے یہ اُس سے دوسری قسم کا معنیٰ تھا اور اس کے بعد نذرانے کے جانور جو دامنِ کوہ میں تھے، میں نے اس غرض سے منگوا لئے تاکہ انہیں شہباز خان کے گھر میں فقیروں پر خرچ کر سکوں۔ پھر میں نے منع کر کے کہا کہ وہ جانور نہ لائے جائیں کہ میں نے خدا کو اپنا کارساز جانا ہے، وہاں بھی اللّٰہ تعالیٰ کوئی سبب بنائے گا۔ جب میں اکوڑہ کے گاؤں میں پہنچا تو گاؤں میں غل مچا اور شہر کے اکثر لوگ دنیاوی مال سے دستبردار ہو گئے۔ اور میں نے یہ بھی سُنا کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ خدا فلان فلان کا بیڑہ غارت کرے کہ مجھے شہباز خان کی ضیافت پر بلایا کہ شہر میں ایک مصیبت آ گئی، اور جب راستے میں اس مقام پر پہنچ گئے جہاں اب حضرت صاحب کا مبارک روضہ ہے، جب اس وادی کے سِرے پر پہنچ گئے تو مریدوں میں سے ایک مرید نے افغانی وزن پر عربی کا ایک شعر پڑھا، اس شعر کے سُنتے ہی آپ پر ایسے جذبات الٰہی طاری ہوئے کہ لوگوں کے درمیان میں سے گھوڑی پر ایک لمبی دوڑ لگا دی، اور اس کے بعد اُن کے مبارک کندھے سے چادر مبارک اُتار کر اُن کے سر پر چھتری بنا کر سایہ کیا۔ لمحہ بہ لمحہ اُن کا جذبہ زیادہ ہو رہا تھا جب تمیم کے مقام پر محبت کے بالوں سے معرفت کی بجلی چمکی اور جمال ذات کے مکاشفہ کی حقیقت ظاہر ہو کر فنا فی اللّٰہ اور بقا باللّٰہ کے کمال کو پہنچے اور کون و مکان سے گزر کر وہاں جا پہنچے جہاں نہ رات ہوتی ہے نہ دِن، نہ آسمان نہ زمین، نہ دایاں نہ بایاں، نہ اوپر اور نہ نیچے، نہ آگے نہ پیچھے، کیونکہ "لَا لَیْلَ وَ لَا نَہَارَ عِنْدَ اللہِ" یعنی نہ تو خدا کے نزدیک دن ہوتا نہ رات۔ اور سمجھنے والے سمجھ پاتے ہیں اور اس بات کو کوئی نہیں سمجھتا مگر جس کو سمجھایا جائے یعنی جن کو خدا سمجھائے۔
حکایت:
نقل کرتے ہیں کہ حسن نوری صاحب ایک دوسرے ولی کے ساتھ صحراء میں ملاقاتی ہوئے، اس دوسرے ولی نے حسن نوری صاحب کو سلام کیا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اے حسن نوری! حسن نوری صاحب نے سلام کا جواب دیا، پھر اس شخص نے کہا کہ اے حسن نوری! تھوڑی دیر کے لئے یہاں ٹھرے رہیے تاکہ آپ میرے جنازے اور تجہیز و تدفین کی خدمت انجام دے سکیں۔ حسن نوری اس بات سے حیران اور ششدر رہ گئے، جب وہ ولی فوت ہو گئے تو حسن نوری نے جنازہ پڑھ کر انہیں دفن کرنے لگے اور اُن کا چہرہ کھلا رکھا، اس دوران ان کے حق میں دُعائے مغفرت کی اور کہا کہ اے بارِ الہا! یہ آدمی غریب اور مسافر تھا، اس کو بخش دے اور اس پر رحم فرما۔ اس پر وہ مردِ خدا تبسّم کر کے ہنسے، حسن نوری نے اُنہیں قسم دے کر کہا کہ اگر تم زندہ ہو تو زندہ کو دفنانا جائز نہیں اور اگر مر چکے ہو تو مُردے بات نہیں کرتے بلکہ ایک دار سے دوسرے دار کو تبدیل ہو جاتے ہیں کہ "أَوْلِیَاءُ اللہِ لَا یَمُوْتُوْنَ وَ لٰکِنْ یَّنْتَقِلُوْنَ مِنْ دَارٍ إِلٰی دَارٍ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 197/5، دار الفکر، بیروت) ”اللّٰہ تعالیٰ کے دوست مرا نہیں کرتے بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہو جاتے ہیں“
اگرچہ موت کا حال علم غیب سے ہے (اور موت کی کسی کو اطلاع اور آگاہی نہیں) مگر اللّٰہ تعالیٰ کا کرم و احسان بعض دوستوں کی رہبری کرتے ہوئے اُن کو موت سے آگاہ کر دیتا ہے اور اس کا علم اُن پر ظاہر اور منکشف کراتا ہے، چنانچہ ہمارے شیخ صاحب بھی اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے اس بات کی آگاہی حاصل کر چکے تھے، اور اس بات کا علم ان کو حاصل ہو چکا تھا، بہت سے مقامات اور مواقع پر اس بات کا اظہار بھی آپ نے کیا، چنانچہ جو مریض حضرت صاحب کے پاس لائے جاتے، اللّٰہ تعالیٰ اکثر کو شفاء عطا فرماتے اور حضرت صاحب کی دعا سے وہ اپنی مراد پاتے۔ اور اگر مریض کی موت نزدیک ہوتی تو مریض کو نذر و نیاز منع فرما دیتے اور اس کو قبول نہ کرتے، پس وہ مریض مر جاتا اور جس کسی سے نذر و نیاز قبول کرتے وہ صحتیاب ہو جاتا۔ اسی طرح حضرت اپنی موت کی بیماری کے دوران جو کہ سال بھر سے زیادہ تھی، خود تمام کی تمام نمازیں وضو، قیام اور رکوع و سجود کے ساتھ کرتے اور حال یہ تھا کہ اکثر اوقات اُن کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، چنانچہ دو شخص اُن کو پکڑ کر اپنے مقام پر واپس لے آتے۔ نیز دیگر سابقہ بیماریوں میں بھی شریعت کے حکم پر عمل فرماتے اور تیمم کر کے یا حسب حال بیٹھ کر، لیٹ کر یا اشارے سے نماز پڑھتے۔ جب آپ کی وفات ہونے کا آخری دن آن پہنچا تو حکم دیا کہ آج عصر کی نماز تک کوئی عزیز دوست یہاں سے نہ جائے اور کوئی غیر حاضر نہ رہے۔ چنانچہ جمعۃ المبارک کے دِن ظہر کے وقت جب امام خطبہ دینے کے لئے ممبر پر تشریف لے آئے چوبیس تاریخ، ماہ رجب 1063ھجری کے دن آپ رحلت فرما گئے اور عصر کے وقت آپ دفن کئے گئے۔ إِنَّا لِلہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
اس دن گرد و نواح سے بہت زیادہ لوگ دوست و احباب جمع ہو گئے تھے، بعض نے رات گزاری اور بعض دوست اسی وقت واپس تشریف لے گئے۔
فائدہ:۔ آپ کی عمر اسی سال تھی، آپ کی رحلت 1063ھ تھی۔ تاریخ وفات "بہ فقر رفت" (یہ خوشحال خان خٹک نے تاریخ وفات نکالی تھی) فقر رفت" 1063ھ سے نکل آئی ہے۔ اس حساب سے 983ھ میں اکبر بادشاہ کے بیسویں سالِ جلوس میں پیدا ہوئے اور شاہ جہان کے چھبیسویں 26 سالِ جلوس میں وفات پائی۔ شاہ جہان کی بادشاہی 1069ھ میں ختم ہوئی، یعنی حضرت صاحب کی وفات کے بعد چھ سال تک شاہ جہان نے بادشاہی کی، اور حضرت شیخ المشائخ کے وفات کے چھ 6 سال بعد اورنگ زیب تخت نشین ہوئے۔ حضرت صاحب کی تاریخ وفات "کاکا قطب شیخ" کے کلمہ سے ابجد کے حساب سے نکل آئی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ آپ کو غریق رحمت فرمائے اور آپ کی برکت سے جناب مصنف صاحب اور عاجز مؤلف (اور فقیر مترجم) کو بھی مغفرت نصیب فرمائے اور نون و صاد پر ایک جگہ حشر فرمائے۔
تشریح:
حضرت کی وفات میں ایک بات بہت عجیب ہے۔ یہاں تو نہیں لکھی، لیکن دوسری جگہ میں نے پڑھی ہے کہ جمعہ کا دن تھا، جمعہ کا خطبہ پڑھا جا رہا تھا اور وہاں حضرت بڑی تکلیف سے بیٹھے تھے، کیونکہ بیمار تھے۔ خطیب نے یہ پڑھا: ’’اَلْمَوْتُ جَسْرٌ یُّوْصِلُ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ‘‘۔ کہ موت ایک پل ہے جو دوست کو دوست سے ملاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت نے جان دے دی۔ گویا یہ بہت بڑی بشارت ہے، اس حالت میں کہ جمعہ کے خطبہ کے دوران فوت ہونا اور پھر جمعہ کے دن عصر کے وقت تدفین ہوئی۔ اور جمعہ کے دن کی فضیلت الگ ہے۔ لہٰذا تکوینی اسباب اللّٰہ تعالیٰ خود ہی بنا لیتے ہیں۔ چونکہ اولیاء اللّٰہ اللّٰہ کے دوست ہوتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ اپنے دوستوں کے لئے بہترین چیزیں منتخب فرماتے ہیں۔ لیکن ہمیں ان غیر اختیاری چیزوں کے پیچھے نہیں جانا۔ ان سے حضرت کے مقام کا پتا چلتا ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہمیں حضرت کے کام کا پتا چلنا چاہئے کہ حضرت کا کام کیا تھا اور انہوں نے کیا کیا، اپنی زندگی کو کیسے استعمال کیا، جان، مال، وقت، اولاد کو کیسے استعمال کیا۔ بس ہمیں اس کتاب سے یہی چیزیں سیکھنی چاہئیں۔ بزرگوں کے واقعات سے ہمیں یہ چیزیں سیکھنی چاہئیں۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے کیا کیا ہے۔ یہ بات کہ ان کے ساتھ یہ کیوں ہوا ہے؟ یہ ہمارے شعبے کی بات نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے جو ارادتاً کیا کیا ہے، وہ ہمیں خیال میں رکھنا چاہئے۔
متن:
شیخ صاحب عبد الحلیم کتاب مقامات قطبیہ و مقالات قدسیہ کے مصنّف اور حضرت شیخ المشائخ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شجرۂ نسب کا ضمیمہ اور شیخ صاحب کے بھائیوں کے نام اور شیخ صاحب کے فرزندوں کے نام اور کاکا صاحب کے مشہور مُریدوں کے نام
کاکا صاحب المعروف بہ شیخ جی صاحب کا شجرۂ نسب:
معتبر تاریخوں، کتابوں اور بزرگوں کی تصانیف مثلًا شیخ یحییٰ صاحب المعروف حضرت جی صاحب اٹک جو فقیر جمیل بیگ صاحب کے مُرید تھے (فقیر بابا کا)
؎ (یہ بات تحقیق طلب ہے) اور جمیل بیگ صاحب حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مرید تھے، کی تصنیف سے معلوم ہوتا ہے کہ کاکا صاحب ہاشمی سادات میں سے تھے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ شیخ رحمکار صاحب بن سید بہادر المعروف بہ ابک صاحب بن سید مست صاحب بن سید غالب بن سید آدم (ان کے روضے کوہاٹ اور پشاور میں موجود ہیں) اور سید آدم صاحب بن سید یاسین صاحب بن سید محبت صاحب معروف بن سید حسن صاحب (اور ان کا مزار شریف خوست اور کرم کے درے میں ہے) اور سید حسن صاحب بن سید باقر صاحب (جو کہ شیخ بطن العالم کے نام سے مشہور ہیں اور جن کی قبر مبارک غزنی میں موجود ہے) و سید باقر صاحب بن سید محمود صاحب مشہور بہ یونس صاحب بن سید احمد صاحب مشہور بہ انوس صاحب بن سیف الدین صاحب مشہور بہ کرامت صاحب بن سعید الدین صاحب مشہور بہ توری بابا بن سید علی اکبر مشہور بہ تورمان صاحب (ان کے مکانات پشین میں موجود ہیں اور یہی سید علی اکبر صاحب) بن سید گل صاحب مشہور بہ لقمان صاحب بن سید رجال صاحب معروف بہ ککی بابا بن سیفان صاحب معروف بہ سید قاف صاحب اور لقمان صاحب و ککی بابا صاحب و سید قاف صاحب (ان کی قبریں بخارا میں موجود ہیں) اور سید قاف بن سید خاتم صاحب (جو کہ سید رجال صاحب کے نام سے مشہور ہیں) بن سید خاتم اور سید رجال صاحب و سید کاظم صاحب اور سید اسماعیل صاحب کی قبریں مشہد میں ہیں۔ اور سید اسماعیل صاحب بن امام جعفر صادق صاحب کا روضہ مبارک بغداد میں ہے۔ اور امام جعفر صادق خلف امام سید باقر صاحب جن کی قبر علاقہ شام میں ہے۔ اور سید امام باقر صاحب ابن امام سید زین العابدین صاحب خلف الرشید سید امام حسین صاحب شہید کربلا، جن کا روضۂ مطہرہ کربلا میں ہے۔ اور امام حسین رضی اللّٰہ عنہ خلف الرشید سیدۃ النساء خاتون جنت بی بی فاطمۃ الزہرا بنت محمد رسول اللّٰہ ﷺ۔ یہ حضرت جی صاحب اٹک کے شجرہ سے نقل کیا گیا ہے جو کہ فقیر جمیل بیگ صاحب کے مرید تھے اور فقیر جمیل بیگ صاحب فقیر صاحب کے نام سے مشہور تھے۔
تشریح:
ہمارا جو شجرہ یہاں لگا ہوا ہے وہ اسی ترتیب سے ہے۔
متن:
حضرت شیخ صاحب کے پانچ بیٹے تھے، بڑے بیٹے آزاد گل زیارت میں مدفون ہیں یہ صاحب کثیر الاولاد تھے، اکثر کاکا خیل ان کی اولاد ہیں اور تقریباً تمام کے تمام زیارت کاکا صاحب میں رہائش پذیر ہیں اور بہت کم باہر سکونت رکھتے ہیں۔ دوسرے بیٹے محمد گل صاحب ہیں، ان صاحب کی اولاد بہت کم ہے اور ایک نرینہ اولاد سے ان کی اولاد زیادہ نہیں اور وہ موضع کوٹ رانی زئی میں ہے۔ اُن کی قبر بھی زیارت میں ہے تیسرے بیٹے خلیل گل صاحب ہیں اور وہ والد صاحب کی زندگی میں موضع ٹوٹے علاقہ رانی زائی میں چلے گئے تھے اور وہاں اُن کا مزار ہے جو کہ منزری (شیر) بابا کے نام سے مشہور ہے۔ ان کی اولاد بھی کم ہے، صرف ٹوپی میں اور ہشت نگر میں دو چار گھر ہیں۔ چوتھے شیخ عبد الحلیم صاحب تھے جو مقامات قطبیہ و مقالات قدسیہ کے مصنف ہیں ان کی اولاد آزاد گل کی اولاد سے کم ہے، بعض اولاد زیارت میں رہتی ہے مگر اکثر باہر رہتے ہیں۔ علاقہ ہشت نگر بہت زیادہ ہیں، بعض پکلی مانسہرہ میں رہتے ہیں اور امازی گھڑی علاقہ مردان و اضا خیل علاقہ نوشہرہ میں بھی بعض سکونت پذیر ہیں۔ پانچویں بیٹا نجم الدین صاحب تھے جو بچپن میں فوت ہو چکے ہیں اور ان کی اولاد نہ تھی۔
تشریح:
حضرت آزاد گل صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ ہمارے جد ہیں، اکثر کاکا خیل ان کی اولاد سے ہیں، اور یہ کثیر الاولاد تھے۔
متن:
شیخ جی صاحب کی تمام اولاد اولیاء اللّٰہ میں سے تھی۔ اور حضرت صاحب کے دو بھائی تھے اور دونوں صاحبان ولایت تھے، ایک حیات خان اور دوسرے شیخ عفان تھے جو شیخ کے گنبد کے نزدیک دفن ہیں۔ اور حضرت شیخ صاحب کے مریدان کامل شمار سے زیادہ ہیں، اُن میں تین ہزار غلاموں کو آزاد کر دیا تھا اور یہ تمام صاحب کرامت گذرے ہیں۔ ان میں ایک مرید سعد اللّٰہ خان نے دولت کی خواہش کی تھی جو شاہ جہان کا وزیر ہو گیا تھا اور سعد اللّٰہ خان وزیر کے نام سے مشہور ہوا۔ ان کے علاوہ جو بہت زیادہ مشہور ہیں اور صاحبان کرامت تھے اور اُن کے مزار مشہور ہیں ذیل کی تفصیل کے ساتھ بیان کئے جا رہے ہیں:
پہلے غازی خان صاحب جو حضرت شیخ صاحب کے عزیز تھے اور آپ کے روضے سے مغرب کی جانب ان کا روضہ ہے۔ دوسرے عبد الرحیم جو شیخ رحیم خٹک کے نام سے مشہور ہیں، دوڑان کے رہنے والے تھے۔ تیسرے علی گل اور ملی گل جو حضرت صاحب کے خاص خادموں میں سے تھے، حضرت صاحب کے خاص روضے کے ساتھ دفن ہیں۔ چوتھے فقیر صاحب شگی جو شیخ جی صاحب کے روضے کے بائیں جانب دفن ہیں۔ پانچویں فقیر جمیل بیگ جو خٹک قبیلے کے تھے اور فقیر صاحب کے نام سے مشہور ہیں۔ 1؎ چھٹے مرزا گل صاحب جو مشہور ولی ہیں۔ ساتویں شیخ بابر صاحب، جن کی برکت سے ہر قسم کی ریحی دردوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ آٹھویں دریا خان چمکنی جو پہلے آدم بنوری کے مرید تھے اور آخر میں حضرت شیخ صاحب کے مرید بن گئے۔ نہم شیخ فتح گل صاحب جن کی زیارت نیلاب میں ہے۔ دسویں شیخ ادین صاحب جن کا مزار نیل بنڑ میں ہے۔ گیارہویں شیخ کمال صاحب جن کا مزار کمال زائی علاقہ بنگش میں ہے۔ بارہویں شیخ حیات جن کی زیارت خان پور میں ہے۔ تیرہویں پیر میاں جی صاحب جن کی زیارت شوہ گی میں ہے۔ چودھویں سر مست صاحب، پندرہویں نمیر صاحب، ان دونوں کی زیارت ریبازو میں ہے۔ سولہویں، سترہویں شیخ اختیار صاحب جو ہشت نگر میں آسودۂ خاک ہیں۔ اٹھارویں شاہی صاحب جن کا مزار شادی خیل علاقہ کوہاٹ میں ہے۔ انیسویں حسن بیگ اتمان خیل، بیسویں نور یوسف جن کی قبر مورہ علاقہ بونیر میں ہے، اکیسویں اخوند بلال صاحب جو ایک قلندر شخص تھے، بائیسویں اخوند اسماعیل، تئیسویں مظفر صاحب، یہ دونوں باپ بیٹے تھے اور دونوں مشہور زیارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے حضرت شیخ کی نسبت سے مناقب جمع کر رکھے تھے۔ چوبیسویں شیخ نذیر صاحب ساکن سوات جو آپ کی وفات کے بعد آپ کی اجازت سے شیخ جعفر اٹک کے مرید ہوئے اور وہیں رہتے تھے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے ہیں کیونکہ حضرت شیخ صاحب کیمیا نظر تھے۔ ان ناموں پر میں یہ کتاب ختم کرتا ہوں ان کا ذکر مشت نمونہ از خروارے کے طور پر کر دیا۔ کتاب کے خاتمے اور موت کے وقت کی حالت تک بالکل شیخ عبد الحلیم صاحب کی تصنیف ہے اور شجرۂ نسب کے بارے میں یہ ضمیمہ میں نے شمس الدین کی تصنیف سے بحوالہ فقیر صاحب اور حضرت جی اٹک جو دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے، اخذ کیا ہے۔
1؎: فقیر صاحب جو شہباز خان کے بیٹے اور خوشحال خان کے بھائی ہیں آپ کا مزار موضع تنگاڑو جو جہانگیرہ سے تقریبًا چھ میل بجانب جنوب مشرق واقع ہے موجود اور زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ (کوثؔر)
فائدہ:
مقامات قطبیہ میں بعض مقامات میں شیخ ابک صاحب کا نام بہادر خان اور کاکا صاحب کے بھائی کا نام حیات خان ہے اور ایک عزیز شیخ صاحب کا نام بہادر خان آیا ہے اور یہ نام عربی نہیں بلکہ افغانی ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ شیخ صاحب سید ہوتے تو ان کے والد اور عزیز کے نام خان نہ ہوتے۔ یہ عاجز مؤلف معترض کے اعتراض کے رفع کرنے کے لئے چند وجوہات بیان کر کے اس کی تسلی کرنا چاہتا ہے، پہلی وجہ اگر شجرۂ نسب پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ سید آدم سے لے کر سید بہادر صاحب تک پانچ پشت ہوتی ہیں، پانچ پشتوں سے یہ صاحبان کوہاٹ اور پشاور میں داخل ہیں، اور جو کوئی کسی ملک میں داخل ہو جاتے ہیں تو وہ اس ملک کے رسم و رواج اور طور طریقے قبول کرتے ہیں کہ نو وارد اور اصلی باشندوں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جب شاہان مغلیہ نے ہندوستان میں سکونت اختیار کی تو وہ ہندوستانی رسم و رواج اور لباس اختیار کر گئے۔ اور اسی طرح قریش اور سید کے درمیان تمیز نہیں ہوتی اور سید لوگ بعض کیا نام رکھتے ہیں۔ اور بعض کے نام بڈھا شاہ اور بعض اسی طرح کے کچھ۔ اور میں نے دہلی میں ایک سیّد کی ایک قبر دیکھی تھی جس پر تحریر تھا کہ فلان سید المعروف بہ کلن خان علی ہذا القیاس۔ ہمارے صاحبوں نے افغانوں کے ساتھ رشتے ناطے کئے ہیں اور ان کی مائیں افغان تھیں اور اکثر بچوں کے نام مائیں رکھتی ہیں، شاید یہ نام اُن کے ماؤں نے رکھے ہوں۔ تیسری وجہ یہ کہ شاید شیخ ابک صاحب کا نام بہادر الدین، حیات خان کا نام حیات الدین اور غازی خان کا نام غازی الدین ہو مگر کسی وجہ سے دین کی بجائے خان کا نام شامل ہوا ہو گا اور کسی نے اس پر اعتراض نہ کیا ہو گا۔ چنانچہ خود عاجز مؤلف کا نام مہتد اللّٰہ ہے اور طالب علمی کے زمانے میں لاہور کے مدرسے میں مہتد اللّٰہ خان درج ہوا تھا۔
تشریح:
بہت سارے لوگ مجھے شبیر حسین شاہ کہتے ہیں۔ بس ٹھیک ہے، جو شبیر احمد شاہ کہتے ہیں وہ بھی ٹھیک ہیں۔ جو شاہ صاحب کہتے ہیں وہ بھی ٹھیک ہیں۔ اب کس کس کا منہ روکیں۔ چنانچہ ایسے ہوتا ہے کہ لوگ اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان بے بس ہو جاتا ہے۔ کچھ نہیں کر سکتا۔ مثلاً: ایک بہت بڑی جگہ پہ لاؤڈ سپیکر میں میرا نام غلط لے لیا جائے، اور میں کہوں کہ یہ تو غلط کہتا ہے، میرا نام تو شبیر احمد ہے۔ یہ بہت عجیب لگے گا۔ اس لئے: نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن۔ لہٰذا نہ آدمی اقرار کر سکتا ہے، نہ انکار کر سکتا ہے۔ بعض دفعہ ایسے حالات ہو جاتے ہیں۔
متن:
اب میرا نام سرکاری کاغذات میں مہتد اللّٰہ خان ہے حالانکہ میں صاحبزادہ یعنی کاکا خیل ہوں اور صاحبزادگی کو خانی پر ترجیح دیتا ہوں بشرطیکہ صاحبزادہ اپنے بزرگوں کے طریقوں پر عمل کرے۔ مگر میں نے خان کے لفظ پر کوئی اعتراض نہیں کیا اسی وجہ سے میرا نام مہتد اللّٰہ خان رہ گیا۔ شاید موصوف صاحبوں کا بھی یہی حال ہو۔ چوتھی وجہ یہ کہ ہمارے بزرگوں نے نام رکھنے میں کبھی غور نہیں فرمایا۔ چنانچہ شیخ ابک صاحب کے والد صاحب کے والد بزرگوار کا نام شیخ مست صاحب اور دادا کا نام سید غالب تھا اور خود شیخ ابک صاحب نے جو کامل اور مکمل اور منصب قطب عالم پر متمکن تھے اپنے آخری بیٹے کا نام جو مرتبۂ معشوقیت کو پہنچے ہوئے تھے، کستیر یا کستیر گل رکھا۔ اب خدا جانتا ہے کہ کستیر کے کیا معنیٰ ہے اور یہ کس پھول دار درخت کا نام ہے یا اس میں کیا غرض تھی، کیونکہ مخلص لوگ ظاہر داری کا خیال نہیں رکھتے اور مدعی اور ریاکار لوگ ظاہر داری کا اہتمام کرتے ہیں
تشریح:
جو کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ ہوتے ہیں یا بڑے عہدوں پہ ہوتے ہیں وہ لباس کا اتنا خیال نہیں رکھتے، اور بعض دفعہ سادہ سی زندگی اختیار کرتے ہیں۔ اور جو لوگ ایسے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جن بیچاروں کو بعض دفعہ بڑی مشکل سے کپڑے میسر آتے ہیں، وہ لنڈا بازار سے لیں گے مگر وہی پینٹ پتلون اور اس طرح ساری چیزیں کریں گے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہماری عزت اس سے ظاہر ہو گی۔ اور جن کو اللّٰہ تعالیٰ نے عزت دی ہو وہ ان چیزوں کی پروا نہیں کرتے۔ اسی طرح صاحبِ عزت لوگوں کو یہ پروا نہیں ہوتی کہ ان کو کس طریقے سے پکارا جائے۔ یا اس طرح کی جو دوسری چیزیں ہیں، ان کی بھی ان کو کوئی پروا نہیں ہوتی۔
متن:
اور نام وغیرہ رکھنے میں احتیاط فرماتے ہیں اور بڑے بڑے نام رکھتے ہیں۔ اور اللّٰہ والے خود بھی سادہ ہوتے ہیں اُن کے کام بھی سادہ اور ان کے نام بھی سادہ ہوتے ہیں۔ اور یہ بات واضح رہے کہ میں نے شیخ عبد الحلیم صاحب کی تصنیف میں کوئی تحریف نہیں کی نہ تحریف معنوی کی جرأت کی ہے اور نہ تحریف لفظی کا اقدام کیا ہے کیونکہ دینی کتابوں میں تحریف کرنا گناہ کبیرہ ہے اور اس کتاب کی تالیف سے میرا مقصود ثواب حاصل کرنا ہے، نہ کہ عذاب اور سزا حاصل کرنا۔ ہاں البتہ پہلے یہ کتاب بے ترتیب تھی اور میں نے ترتیب دے کر باب اور مقالہ جات کو مناسب کیا اور ایسا کسی قسم کا رد و بدل نہیں کیا کہ معنیٰ میں فرق پڑ جائے۔ اور اگر اپنی جانب سے کوئی چیز تحریر کی ہے تو وہاں فائدہ کا لفظ لکھ کر اپنی تحریر کو جدا طور پر ظاہر کیا ہے۔ میں نے تو فقط بزرگوں کی تصنیف کو مکرر کیا ہے اور مشاطہ (اس زمانے میں مشاطہ کا بہترین مفہوم میک اپ سے ادا کیا جا سکتا ہے) کا کام کیا ہے۔ اور شیخ عبد الحلیم صاحب کی یہ تصنیف سال 1063ھ سے یکم محرم 1318ھ تک تقریباً دو سو پچپن سالہ دُلہن کی طرح ایسے لباس میں گونگھٹ لگائے ہوئی تھی کہ کوئی بھی اس کی ملاقات کا شرف حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ اور میں جتنی کہ میری لیاقت تھی، مقدور بھر اس کو خواہ اچھا ہو یا بُرا آراستہ و پیراستہ کر کے اللّٰہ تعالیٰ کے عاشقوں کے حوالے کر کے امید کرتا ہوں جو کوئی بھی اس کو دیکھے گا اس کا عاشق ہو جائے گا۔ بیت۔
؎ افسوس آنکه طالب عشق خدا کم است
آں را کہ درد عشق نہ باشد کہ آدم است
افسوس کی بات یہ ہے کہ خدا کے عشق و محبت کے طلب کرنے والے بہت کم ہیں اور جو کوئی عشق کے درد اور افسوس سے واقف نہ ہو بھلا وہ آدمی کب ہو سکتا ہے‘‘۔
اور جب کوئی اس کو دیکھ کر عاشق ہو جائیں اور اس کے دیکھنے سے سرور و انبساط حاصل کریں تو یہ ضروری ہے کہ اُس عالم سرور و نشاط میں اُس وقت مغفرت کے دروازے کھلے ہوتے ہیں اس کتاب کے مصنف اور مؤلف (اور مترجم) کو دعا میں یاد فرمائیں گے اور اللّٰہ تعالیٰ سے اُن کے لئے عفو اور بخشش کے طلب گار ہوں گے۔ تاکہ اگر گفتار میں کچھ بھول چوک اور سہو ہو یا نیت میں ریا کاری اور نام و نمود کا کچھ شائبہ شامل ہو گیا ہو تو اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور ان کی دعاؤں کے طفیل معاف فرمائے اور اس کتاب کے ثواب سے بے نصیب نہ فرمائے، کیونکہ اس سے بڑا کوئی نقصان نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص دعوت الی اللّٰہ کرتے ہوئے لوگوں پر نگاہ ڈالے اور خدا کی رحمت سے دور پوشیدہ رہے۔ اور اس کتاب کے خاتمے میں عرض کرتا ہوں۔ "اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَ نَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ نَعُوْذُ مِنْکَ" ”اے بارِ الٰہا! ہم آپ کے عفو کے ذریعے آپ کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں اور آپ کی گرفت سے آپ کی رضا کے ذریعہ پناہ مانگتے ہیں اور آپ ہی کی پناہ مانگتے ہیں“۔
تشریح:
ما شاء اللّٰہ کافی شرح و بسط کے ساتھ یہ کتاب لکھی کی گئی ہے۔ واقعی بہت کم لوگوں نے اس کتاب کو کھولا ہے۔ خود اس کے مؤلف کہہ رہے ہیں 255 سال ایسے گزرے کہ کسی نے بھی اسے پڑھا نہیں۔ اور پھر اس کا ترجمہ بھی کسی نے نہیں پڑھا۔ بس خدا کی شان ہے کہ بعض دفعہ اللّٰہ تعالیٰ نے کچھ چیزیں اس طرح رکھی ہوتی ہیں، ایک دفعہ میں اس بات پر حیران تھا کہ مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ اور شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتابوں سے استفادہ کیوں نہیں کیا جاتا، بالخصوص جو چیزیں مخفی رہ گئی تھیں، اس طرح کیوں ہوا؟ الحمد للہ اللّٰہ پاک نے ایک بزرگ کے ذریعے سے ظاہر فرما دیا کہ اللّٰہ پاک بعض دفعہ حکمتاً کچھ چیزوں کو چھپا دیتے ہیں کہ جن حالات کے لئے وہ ہوتی ہیں, ان حالات سے پہلے ان کو ظاہر نہیں کرتے۔ کیونکہ ورنہ دشمن ان کے خلاف منصوبہ بندی کر لیتے ہیں۔ لہٰذا جب ان کا وقت آ جائے اور اللّٰہ پاک ان کو ظاہر فرما دے تو ان سے فائدہ پہنچا دیتے ہیں۔ جیسے مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مکتوب نمبر 287 ہے، بڑی حیرت کی بات ہے کہ بڑے بڑے حضرات حیران ہوتے ہیں کہ ہم مکتوبات شریفہ پر کام کرتے رہے ہیں، یہ مکتوب کیوں ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ اب اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، سوائے اس کے کہ یہ ایک تکوینی سبب ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے اس چیز کو بس مخفی رکھا اور جب سامنے لانا چاہا تو لے آئے۔ اسی طرح شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب ’’الطاف القدس‘‘ کتنی عظیم کتاب ہے، لیکن مخفی تھی۔ بس یہ ہوتا ہے، یہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنا ایک نظام ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اپنی حکمتوں کو خوب جانتا ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں، جو اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت ہو، جس وقت اللّٰہ پاک جو کرنا چاہے، اس کے لئے ہم ذریعہ بن جائیں۔ اولیاء اللّٰہ کی کتابیں بڑی دولت ہے۔ میں نے ایک دفعہ جمعہ کے بیان میں شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ اور مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتابوں کے بارے میں کہا کہ میں افسوس کرتا ہوں کہ ابھی تک ہم نے یہ کتابیں کیوں نہیں پڑھیں، یہ پڑھنی چاہئے تھیں۔ اللّٰہ کا شکر ہے کہ اس کے اوپر کافی تفصیل سے بیان ہوا تھا۔ اس پر ایک صاحب کو شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زیارت ہوئی، انہوں نے فرمایا کہ جو ثواب ہمیں کتابیں لکھنے پر ملا، ان کو وہ ثواب اس دعوت پر ملا۔ الحمد للہ! کتنی دعوت دی ہو گی۔ یہ اصل میں چھپے خزانے ہیں۔ ان چھپے خزانوں کو ہم کچھ نہیں کر رہے، ہم نے تو کچھ نہیں کیا، ہم نے صرف حضرت کی باتوں کو آگے نقل کیا ہے۔ جو باتیں حضرت نے لکھی تھیں، انہی کو بیان کیا ہے۔ لیکن چونکہ ہم کمزور ہیں، اس لئے ہم سے کمزوریاں ہوئی ہوں گی، لیکن بیان تو ہم نے وہی حضرت کی باتیں ہی کی ہیں۔ الحمد للہ اس پر اللّٰہ کا شکر ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہماری اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس میں ہمارا حصہ شامل فرمائے۔ ایسی چیزیں صدقہ جاریہ ہوتی ہیں۔ اور میں اس پر شکر ادا کرتا ہوں کہ جن کتابوں کے بارے میں لوگوں کا شبہ تھا کہ یہ مشکل ہیں اور اتنی مشکل ہیں کہ لوگ ان کو سمجھ ہی نہیں سکتے، الحمد للہ! ہمارے سلسلہ کی ایک جماعت ان کو سمجھ رہی ہے۔ اور الحمد للہ اب میں یہ عرض کر سکتا ہوں کہ ما شاء اللّٰہ اب ایسا نہیں رہا کہ کوئی ان کو سمجھ نہیں رہا۔ ان شاء اللّٰہ مزید بھی لوگ آئیں گے، جو ان کو سمجھیں گے۔ کسی نے مجھے کہا تھا کہ آپ کو یہ کیسے پتا تھا؟ میں نے کہا ہمارا کام یہ نہیں ہے، ہم تو سب پر پیش کرتے ہیں، کیونکہ آج کل فتنہ تو ہے، لہٰذا جو اس کو سمجھ سکیں گے، سمجھ لیں اور جو نہیں سمجھ سکیں گے، تو ہم ان کے مکلف بھی نہیں ہیں۔ لیکن جو سمجھ سکیں گے، وہ اس امانت کو اٹھا لیں گے، ان شاء اللّٰہ۔ وہ اس کو آگے بھی لے جائیں گے، ان کو اللّٰہ تعالیٰ ذریعہ بنا دیں گے۔ لیکن ہم کسی پہ پابندی تو نہیں لگا سکتے کہ تم ہماری مجلس میں نہ بیٹھو، تم یہ نہیں سمجھ سکتے۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ جن کو ہم کہیں کہ یہ نہیں سمجھ سکتے، وہی بہت اچھا سمجھیں۔ ہمارے ایک ساتھی نے ایک مفتی صاحب سے وظیفوں کی ایک کتاب کا تقاضا کیا تھا کہ یہ مجھے دے دیں۔ مفتی صاحب نے کہا الماری میں دیکھ لو۔ وہاں ان کو میری کتاب ’’تصوف کا خلاصہ‘‘ ملی۔ انہوں نے وہ اٹھا لی۔ مفتی صاحب نے کہا: یہ آپ کو سمجھ نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر سمجھ نہیں آئے گی، تو نہیں پڑھوں گا، ایک مرتبہ پڑھ لیتا ہوں۔ ان کو الحمد للہ ایسی سمجھ آئی کہ پہلے وہ خود بیعت ہوئے اور بعد میں ان کے کہنے پہ مفتی صاحب بھی بیعت ہو گئے۔ لہٰذا ہم کسی کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ کس کو سمجھ آ سکتی ہے اور کس کو سمجھ نہیں آ سکتی۔ تشکیل من جانب اللّٰہ ہوتی ہے کہ کس کو کس چیز کے لئے ذریعہ بناتے ہیں۔ الحمد للہ جو حضرات یہاں پر آتے ہیں، وہ شوق سے آتے ہیں۔ اور میں کسی سے گلہ اس لئے نہیں کرتا کہ لوگ مصروف ہیں، وہ پانچ دن کیسے دے سکتے ہیں کہ وہ ہر روز آئیں اور مغرب کے بعد مجلس میں شریک ہوں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن جن کو اللّٰہ تعالیٰ نے ہمت عطا فرمائی ہے، وہ آتے ہیں اور ان کو اللّٰہ تعالیٰ اس ذریعے سے نوازتے ہیں، تو یہ ان کی قسمت ہے، ان کی خوش نصیبی ہے۔ اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ الحمد للہ ہمارے اوپر اللّٰہ پاک کا فضل و احسان ہے کہ اللّٰہ جل شانہٗ نے ایک عجیب امتزاج نصیب فرمایا ہے۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کا اپنا ایک انداز ہے، حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا اپنا ایک انداز ہے، حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کا اپنا ایک انداز ہے، حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کا اپنا ایک انداز ہے، حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا اپنا ایک انداز ہے اور کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا اپنا انداز ہے۔ ہمارے پاس ان سب کو الحمد للہ اللّٰہ پاک نے جمع کر دیا ہے۔ سبحان اللہ! ایسے لگتا ہے کہ جیسے ان کا آپس میں جو باہمی ربط ہے، وہ آج کل کے مسائل کا حل ہے۔ کسی کا نفس کے اوپر زیادہ کام ہے، کسی کا قلب کے اوپر زیادہ کام ہے، کسی کا عقل کے اوپر زیادہ کام ہے، کسی کا فکر کے اوپر زیادہ کام ہے۔ چنانچہ اللّٰہ پاک نے ہمیں کتنے پھول نصیب فرمائے ہیں۔ الحمد للہ ہم ان تمام چیزوں کو لے کے چل رہے ہیں۔ اور پھر الحمد للہ اللّٰہ پاک نے ہمیں وسعتِ نظری عطا فرمائی ہے کہ ہم کسی خاص جگہ ٹکتے نہیں ہے، بلکہ سب کو لے رہے ہیں، یہ بھی اللّٰہ پاک کا انعام ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ