محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک وسلم کی نعت اور آپ ﷺ کے معجزوں کے بیان میں ایمان، احسان اور اسلام کی تعریف میں اور توحید شریعت اور دین کی معرفت کے بیان میں

52 مقالہ 2 اور 3 ، درس

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات پر مشتمل کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے تعلیم ہو رہی ہے۔ ’’مقاماتِ قطبیہ‘‘ چونکہ مکمل ہو گئی ہے، اس لئے اب ’’مقالاتِ قدسیہ‘‘ کے مقالہ دوم سے بیان ہو رہا ہے جو آپ ﷺ کی نعت اور آپ ﷺ کے معجزوں کے بارے میں ہے۔

متن:

مقالۂ دوم

محمد رسول اللّٰہ ﷺ کی نعت اور آپ ﷺ کے معجزوں کے بیان میں

روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "أَنَا خَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ فِيْ أُمِّ الْکِتَابِ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِيْ طِیْنِہٖ" (المستدرک للحاکم بتغییر قلیل، رقم الحدیث: 4175) ”میں پیغمبروں کا خاتم ہوں، اور یہی بات اُم الکتاب یعنی لوح محفوظ میں درج ہے، اور اُس وقت حضرت آدم علیہ السلام اپنی مٹی کے گارے کی شکل میں تھے“ خاتِم ختم سے اسم فاعل ہے، یعنی ختم کرنے والا، یعنی میں آخری پیغمبر ہوں میرے بعد کوئی اور پیغمبر آنے والا نہیں۔ "فِيْ أُمِّ الْکِتَابِ" یعنی لوح محفوظ میں بھی ایسا ہی لکھا گیا ہے کہ میں پیغمبروں کا خاتم ہوں۔ "وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِيْ طِیْنِہٖ" اور اُس وقت حضرت آدم علیہ السلام ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں: ﴿وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن﴾ (الأحزاب: 40) ”لیکن (آپ) اللّٰہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبین ہیں“ حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا کہ "أَنَا أَوَّلُ شَفِیْعٍ فِي الْجَنَّۃِ" (الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب: قولہ علیہ السلام: أنا أول الناس یشفع…، رقم الحدیث: 196) کہ میں جنت میں پہلا شفیع ہوں گا۔ اور یہ روایت بھی کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ "أَنَا شَافِعٌ وَّ أَنَا أَوَّلُ شَفِیْعٍ یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ" (المعجم الأوسط للطبراني بمعناہ، باب: الألف، رقم الحدیث: 170) کہ میں شافع ہوں اور میں قیامت کے دن سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں گا، اور میں یہ بات فخر کی وجہ سے نہیں کہتا، بلکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کے کرم خاص کی وجہ سے ایک حقیقت ہے۔ اور شافع اور شفیع ایک معنیٰ میں ہیں اس پر اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان دلیل ہے: ﴿وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی﴾ (الضحٰی: 5) ”اور آئندہ کے لئے اللّٰہ تعالیٰ آپ کو عطا فرمائے گا، جس سے آپ راضی اور خوش ہو جائیں گے“ اور یہ عطا شفاعت کی عطا ہوگی۔ اور فرماتے ہیں کہ میں یہ بات فخر، گھمنڈ اور لاف زنی کے طور پر نہیں کہہ رہا ہوں، بلکہ تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ اس صفت کے ساتھ مجھے پہچان جاؤ، اور اس پر ایمان رکھو۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ انبیاء اور اولیاء کے تمام گروہوں کے شفیع ہوں گے۔

رسول کریم ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ "أَنَا أَفْصَحُ الْعَرَبِ" (الموضوعات الکبریٰ لملا علی القاری، رقم الحدیث: 69) میں تمام عرب میں سب سے زیادہ صاف زبان بولنے والا ہوں۔ اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ "أَنَا أَکْرَمُ الْأَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَلَا فَخْرَ" (الکامل في الضعفاء، تحت أحادیث سلمۃ بن وہرام بتغییر یسیر، رقم الصفحۃ: 367/4، دار الکتب العلمیۃ بیروت) کہ میں مخلوقات میں سے اولین اور آخرین سب سے زیادہ مکرم و معزز ہوں، اور یہ بطور فخر نہیں کہتا بلکہ حقیقت الامر یہی ہے، اور مخلوق پر کیا اور کیونکر فخر کروں، خالق نے یہ افتخار مجھے عطا فرمایا ہے۔ "قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْرًا" (سنن النسائی، کتاب السہو، باب: الفضل فی الصلوۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، رقم الحدیث: 1296) ”جناب سید المرسلین ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی مجھ پر ایک دفعہ درود بھیج دے اللّٰہ تعالیٰ اس پر دس دفعہ رحمت بھیج دیتا ہے“ "وَمَنْ صَلّٰی عَلَیَّ مِائَۃَ مَرَّۃٍ لَمْ یَمُتْ حَتّٰی یُبَشَّرَ لَہٗ بِالْجَنَّۃِ وَمَنْ صَلّٰی عَلَیَّ أَلْفَ مَرَّۃٍ لَمْ تَمَسَّ النَّارُ جُلُوْدَہٗ أَبَدًا" (لم أجد ہذا الحدیث) وَقَالَ رسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: "مَنْ نَسِيَ الصَّلٰوۃَ عَلَيَّ فَقَدْ أخَطَأَ طَرِیْقَ الْجَنَّۃِ" (سنن ابن ماجۃ بتغير یسیر، کتاب إقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیھا، باب: الصلوۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، رقم الحدیث: 908) ”اور جو کوئی مجھ پر سو بار درود بھیج دے تو اُس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ اُسے جنت کی بشارت نہ مل جائے۔ اور جو کوئی مجھ پر ہزار بار درود بھیج دے تو اُن کا چمڑہ آگ نہ چھو سکے گی۔ اور رسول اللّٰہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو مجھ پر درود بھیجنا بھول گیا تو اُس نے جنت کا راستہ بھلا دیا“۔

’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ‘‘۔

"قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: أَوَّلُ النَّاسِ دُخُوْلًا فِي الْجَنَّۃِ أَکْثَرُھُمْ عَلَیَّ صَلٰوۃً" (لم أجد ہذا الحدیث) ”رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جنت میں سب سے پہلے وہ شخص داخل ہو گا، جو مجھ پر زیادہ تعداد اور مقدار میں درود بھیج دے“۔ "قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: صَلٰوتُکُمْ عَلَيَّ تَمْحَقُ ذُنُوْبَکُمْ کَمَا تَمْحَقُ النَّارُ خُبُثَ الْحَدِیْدِ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”تمہارا مجھ پر درود بھیجنا تمہارے گناہوں کو ایسے کھا کر محو کر دیتا ہے جیسے کہ آگ لوہے کے زنگ کو کھا جاتی ہے“ "قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ فِيْ یَوْمٍ مِّائَۃَ مَرَّۃٍ قَضَی اللّٰہُ مِائَۃَ حَاجَۃٍ سَبْعِیْنَ مِنْھَا فِي الْآخِرَۃِ وَثَلَاثِیْنَ فِي الدُّنْیَا" (جلاء الأفہام، الفصل العاشر، رقم الصفحۃ: 430، دار العروبۃ الکویت) یعنی رسول اللّٰہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی مجھ پر دن میں سو بار درود بھیج دے تو اللّٰہ تعالیٰ اُس کی سو حاجتیں پوری کرے گا، جن میں سے ستر (70) حاجتیں آخرت کی اور تیس (30) حاجتیں دنیا کی ہوں گی۔

رسول اللّٰہ ﷺ کے معجزات کے بارے میں تفسیر زاھدی میں آیا ہے کہ جب محمد رسول اللّٰہ ﷺ کی ولادت ہوئی تو اُس کمرے میں چار اجنبی عورتیں آئیں۔ حضرت آمنہ اُن سے ڈر گئیں اور اُن سے پوچھنے لگیں کہ تم کہاں سے آئی ہو؟ تم تو مکہ مکرمہ کی رہنے والی نہیں ہو؟ تو اُن عورتوں نے کہا کہ مت ڈرو اور کچھ فکر اور رنج و تردد نہ کرو، اُن میں سے ایک نے کہا کہ میں تمام بنی نوع انسان کی ماں حوا ہوں، دوسری نے کہا کہ میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی والدہ سارہ ہوں، تیسری نے کہا کہ میں حضرت اسماعیل کی والدہ ھاجرہ ہوں اور چوتھی نے کہا کہ میں آسیہ بنت مزاحم ہوں۔ اور حضرت حوا کے ساتھ سونے کا ایک طبق تھا، حضرت سارہ کے ساتھ سونے کا ایک لوٹا تھا جس میں کوثر کا پانی تھا، حضرت ھاجرہ کے ساتھ جنت کے عطروں میں سے عطر تھا اور آسیہ کے ساتھ سبز کپڑا تھا جس کو آمنہ کے سامنے ڈال کر رکھ دیا۔ رسول اللّٰہ ﷺ پیدا ہوتے ہی سجدے میں گر گئے اور سجدے میں کہا کہ اے رب! مجھے میری اُمت عطا فرما، تو اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر آدمی اپنے نفس کے لئے کوشش کرتا ہے اور تم اپنی امت کی فکر اور کوشش میں ہو، پس میں نے تم کو تمہاری اُمت بخش دی۔

اور تفسیر میں ذکر ہے کہ جناب رسول اللّٰہ ﷺ پیر کے دن پیدا ہوئے اور اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو سات معجزوں سے شرف دیا، پہلا معجزہ یہ ہے کہ ہر حاملہ عورت کو حمل کی تکلیف ہوتی ہے اور رسول اللّٰہ ﷺ کی والدہ محترمہ کو حمل کی کوئی تکلیف اور مشقت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ دوسرا معجزہ یہ کہ ہر حاملہ کو بچہ جنائی کے وقت دردِ زہ ہوا کرتا ہے اور آپ ﷺ کی والدہ کو کوئی اور کسی قسم کی تکلیف نہیں تھی۔ تیسرا معجزہ یہ کہ جب رسول اللّٰہ ﷺ پیدا ہوئے تو آپ ﷺ پیدا ہوتے ہی سجدے میں گر گئے اور کہتے رہے "اُمَّتِيْ"۔ چوتھا معجزہ یہ کہ آپ پر سلسلۂ نبوت کو ختم فرمایا۔ پانچواں معجزہ یہ کہ جب آپ ﷺ پیدا ہوئے تو جنات اور شیاطین آسمانوں پر جانے سے منع کئے گئے۔ چھٹا معجزہ یہ کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی دایہ محترمہ حلیمہ کی ایک طرف کی چھاتی (پستان) سے دودھ جاری نہ تھا، جب آپ نے اس چھاتی کو رسول اللّٰہ ﷺ کی منہ میں دیا تو اس سے چشمے کی طرح دودھ جاری ہو گیا۔ ساتواں معجزہ یہ کہ جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی تو کعبہ کے چاروں گوشوں سے آواز آئی، پہلے گوشے سے آواز آئی: ﴿قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ﴾ (سبا: 49) یعنی حق آیا، اور باطل کو ہلاک کر ڈالا۔ دوسرے گوشے سے صدا آئی کہ ﴿لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسُکِمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤٗفٌ رَّحِیْمٌ﴾ (التوبة: 128) ”تمہارے نفسوں میں سے تمہارے پاس رسول آیا، تمہاری تکلیف سے اُس کو دکھ پہنچتا ہے اور تمہارے مؤمنوں کی تلاش میں رہتا ہے اور مؤمنوں پر نہایت شفقت کرنے والا اور مہربان ہے“۔ تیسرے گوشے سے آواز آئی کہ ﴿لَقَدْ جَاءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ﴾ (المائدۃ: 15)اللّٰہ کی جانب سے نور اور روشن کتاب آئی“۔ اور چوتھے کونے سے آواز آئی کہ ﴿یَأَیُّھَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا﴾ (الأحزاب: 45) ”اے پیغمبر! تحقیق کہ ہم نے تم کو شاہد، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بھیج دیا۔

رسول کریم ﷺ کی پھوپھی صفیہ حکایت بیان کرتی ہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی ولادت کے موقع پر میں دایہ گیری کرتی تھی، جب سرور عالم ﷺ کی ولادت ہوئی تو میں نے ارادہ کیا کہ آپ کو نہلا ڈالوں، گھر کے ایک کونے سے ہاتف نے آواز دی کہ اپنے آپ کو تکلیف نہ دو اور میرے حبیب کو غسل دینے کی تکلیف نہ اُٹھاؤ کیونکہ ہم نے اُس کو اوّل سے آخر تک نہلایا ہوا اور پاک و صاف پیدا کیا ہے۔ پھر میں نے آپ کو کپڑا اوڑھنا چاہا تو میں نے آپ کی پیٹھ پر مہرِ نبوت کو دیکھ لیا، جس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی: "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ تَوَجَّہْ حَیْثُ شِئْتَ فَإِنَّکَ مَنْصُوْرُ اللّٰہِ عَطُوْفٌ وَّ مُحَمَّدٌ وَّ رَؤٗفٌ"

حضرت ابو امامۃ الباھلی رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی صبح یا شام ایسی نہیں گزری جس میں اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے نہ کہا ہو کہ اپنی اُمت کو حکم فرماؤ کہ ہر صبح شام بلکہ فرائض (نمازوں) کے بعد اُس ختم نبوت کو دیکھو (دھیان رکھو) جس کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے پیغمبروں کا سلسلہ ختم کر دیا ہے، اور جو بلاؤں اور مصائب کو ٹال کر ختم کر دیتی ہے، اور ہلاک کنندہ اور ضرر رساں اشیاء سے نجات دلاتی ہے۔ اور جو کوئی اس کا خیال اور دھیان ہر روز شب کرتا رہے اور ایک روایت میں جمعہ شریف کے دن یا جمعہ شریف کی رات کو کرتا رہے تو وہ اللّٰہ کی حفاظت میں رہے گا، اور ہر تکلیف، آفت، بیماری، علت اور فتنوں سے اُس وقت تک امن میں ہوگا، جب تک اس ختم نبوت کو دیکھے گا۔ اور وہ مغفور ہوگا، اگرچہ وہ طلب مغفرت نہ کرے۔ اور اس ختم کی برکت اور طفیل سے اللّٰہ تعالیٰ اُس کو ہر مصیبت سے اور ہر دشمن سے جو کہ زمین و آسمان میں ہوگا، اور اللّٰہ تعالیٰ کی مخلوق میں کسی کا اُس پر بس نہیں چلے گا کہ اُس کا حق مارنے کا قصد کرے یا اُس امر کا کہ جس سے اُس کو خوف و خطرہ لاحق ہو، وہ کام اس کو کسی مجمع یا مجلس میں اُس وقت تک پیش کر سکے جب تک اُس کے پاس یہ خاتم ہو۔ اور جو شخص ملوک و سلاطین اور حکام کے سامنے پیش ہو اور اس کے پاس یہ خاتم ہو تو مطلق دیکھنے سے اُن کے دل میں شفقت اور محبت پیدا ہو گی اگرچہ وہ ہزار بار بھی غیض و غضب میں ہوں۔ ختم نبوۃ کے فضائل بہت ہیں جن کو شمار نہیں کیا جا سکتا، میں نے یہاں مختصر ذکر کیا۔

اور رسول اللّٰہ ﷺ کے فضائل میں سے ایک تو یہ ہے کہ "مَا وَقَعَ ظِلُّہٗ عَلَی الْأَرْضِ" (الخصائص الکبرٰی بمعناہ، رقم الصفحۃ: 122/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”آپ کا سایہ مبارکہ زمین پر نہیں پڑتا تھا“ "وَالثَّانِیْ مَا احْتَلَمَ قَطٌّ" (الخصائص الکبرٰی، رقم الصفحۃ: 120/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”اور دوسرا یہ کہ آپ کو کبھی بھی احتلام نہیں ہوا“ "وَالثَّالِثُ کَانَ مَخْتُوْنًا" (الخصائص الکبرٰی بمعناہ، رقم الصفحۃ: 90/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”اور تیسرا یہ کہ آپ ختنہ شدہ پیدا ہوئے تھے“ "وَالرَّابِعُ کَانَ یَرٰی مِنْ خَلْفِہٖ کَمَا یَرٰی مِنْ قُدَامِہٖ" (الخصائص الکبرٰی بمعناہ، رقم الصفحۃ: 104/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”چوتھا یہ کہ آپ پیچھے سے بھی ایسے دیکھتے تھے جیسے سامنے سے دیکھتے تھے“ "وَالْخَامِسُ کَانَ یَنَامُ عَیْنَاہٗ وَلَا یَنَامُ قَلْبُہٗ" (الخصائص الکبرٰی بمعناہ، رقم الصفحۃ: 118/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”اور پانچواں یہ کہ آپ کی آنکھیں خواب آلود ہو جاتیں، مگر دل جاگتا رہتا، اور دل خواب سے نا آشنا رہتا“ "وَالسَّادِسُ کَانَ کَتِفُہٗ أَعْلٰی مِنْ کَتِفِ جُلَسَائِہٖ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”چھٹا یہ کہ آپ کے کندھے آپ کے ساتھیوں اور اہل مجلس سے اونچے رہتے“ "وَالسَّابِعُ أَنَّ الدَّابَّۃَ الَّتِيْ رَکِبَھَا لَمْ یَھْرَبْ قَطُّ" (لم أجد ہذا الحدیث) "ساتواں یہ کہ جس سواری کے جانور پر آپ سواری فرماتے وہ کبھی بھی نہیں بھاگتا“ "إِلَی الْمَمَاتِ" ”موت کے وقت تک“ "وَالثَّامِنُ مَا قَصَدَ عَلَیْہِ ذُبَابٌ" (الخصائص الکبرٰی بمعناہ، رقم الصفحۃ: 117/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”آٹھواں یہ کہ آپ پر کبھی مکھی نے بیٹھنے کا ارادہ تک نہیں کیا“ "وَالتَّاسِعُ مَا ظَھَرَ بَوْلُہٗ عَلَی الْأَرْضِ" ”نویں بات یہ کہ زمین پر کبھی بھی آپ کا بول ظاہر نہ ہوتا“ "بَلِ ابْتَلَعَتْہٗ" (الخصائص الکبرٰی بمعناہ، رقم الصفحۃ: 120/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”بلکہ زمین اس کو نگل جاتی اور جذب کرتی" "وَالْعَاشِرُ کَانَ الْقَمَرُ یُحَرِّکُ مَھْدَہٗ" (الخصائص الکبرٰی بمعناہ، رقم الصفحۃ: 4/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”دسویں یہ کہ چاند آپ ﷺ کے پنگھوڑے کو جُھلاتا رہتا“۔ اور خلاصۃ الفقہ میں روایت ہے کہ آپ ﷺ کے جسم اطہر کا سایہ نہ تھا اور آپ ﷺ کے جسم اقدس پر مکھی نہیں بیٹھا کرتی اور آپ ﷺ کے سر پر ہمیشہ بادل کا سایہ رہتا اور آپ کی آنکھوں کی سفیدی انتہائی سفید اور سیاہی خوب سیاہ تھی اور آپ کے مبارک دانتوں کے درمیان فاصلہ تھا اور موتی کی طرح چمکتے تھے، آپ کی ناک بلند اور بھویں سیاہ تھیں اور آپ کے رخِ انور سے نور چمکتا تھا، اور آپ کی ریش مبارک مٹھی بھر تھی، اور اگر آپ ﷺ حیوانات کو طلب فرماتے تو وہ حاضر ہو جاتے، اور آپ ﷺ کے طلب کرنے پر چاند بھی حاضر ہوتا، اگر کسی کا عضو کٹ جاتا اور آپ ﷺ اُس پر لعاب دہن لگاتے تو وہ ٹھیک ہو جاتا، اور اگر کھارے پانی میں لعاب دہن ڈالتے تو وہ شیرین، میٹھا اور خوش ذائقہ ہو جاتا، اور اگر کسی خشک درخت کے نیچے کھڑے ہو جاتے تو وہ سبز ہو جاتا، اور اگر کسی گروہ میں کھڑے ہو جاتے تو سب سے بلند معلوم ہوتے اور آپ ﷺ کی عمر مبارک تریسٹھ سال تھی۔ اور اللّٰہ جل جلالہ نے آپ ﷺ کو تمام پیغمبروں میں منتخب فرمایا اور تمام پیغمبروں پر مرسل بنایا اور تمام مخلوقات، فرشتے، جن اور انسان آپ ﷺ کے مطیع اور فرمان بردار تھے اور تمام بادشاہوں پر آپ ﷺ کو فضیلت دی، آپ ﷺ کی شان میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ﴿خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ﴾ (الأحزاب: 40) آپ ﷺ کو پینتالیس سال کی عمر میں معراج کا شرف حاصل ہوا تھا، اور ایک روایت میں اکاون سال کی عمر میں اور ایک روایت میں باون سال ہے، اور یہ آخری روایت زیادہ صحیح ہے کہ باون سال کی عمر میں آپ ﷺ کو معراج حاصل ہوئی تھی۔ تمام وقتوں میں آپ ﷺ کی زبان ذکر میں اور دل فکر میں مشغول رہتا، لوگ حیرت میں تھے کہ جب دیکھتے تھے کہ جو کچھ کہ آپ ﷺ کی مبارک زبان سے نکلتا، وہ کبھی بھی غلط نہ ہوتا۔

یہ بات جان لو کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی چار پشت تک سلسلۂ نسب جاننا لازم ہے: محمد ﷺ بن عبد اللّٰہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔ اور اسی طرح چار مذہبوں کا جاننا لازم ہے: پہلا امام اعظم ابو حنیفہ نعمان ابن ثابت کوفی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مذہب، دوسرا امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مذہب، تیسرا امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مذہب اور چوتھا امام حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مذہب۔ اور اسی طرح بارہ اماموں اور چودہ معصومین کا نام جاننا ہر مؤمن مرد اور عورت پر لازم ہے، پہلے امام علی مرتضٰی کرم اللّٰہ وجہہ، دوسرے امام حسن مجتبیٰ رضی اللّٰہ عنہ، تیسرے امام حسین شہید دشت کربلا رضی اللّٰہ عنہ، چہارم امام زین العابدین، پانچویں امام محمد باقر، چھٹے امام جعفر صادق، ساتویں امام موسیٰ رضا، آٹھویں امام موسیٰ کاظم، نویں امام محمد تقی، دسویں امام محمد نقی، گیارہویں امام حسن عسکری، بارہویں امام محمد مہدی رضی اللّٰہ عنہم۔ اور چودہ معصوم جو ہیں اُن میں بارہ معصوم تو یہی ہیں، جو کہ ذکر ہوئے اور باقی دو میں سے ایک محمد رسول اللّٰہ ﷺ اور دوسری بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللّٰہ عنہا ہیں۔ اور دوسری روایت ہے کہ ہر روز آپ شغل فرما رہے ہیں جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِيْ شَأْنٍ﴾ (الرحمٰن: 29) ”ہر روز اُس کی جُدا جُدا شان ہے“۔

اور کہا جاتا ہے کہ ایمان دل کا عقیدہ اور تصدیق ہے اور اقرار کرنا (زبان سے اقرار کرنا) شرط ہے، تاکہ اسلام کے احکام کا اجراء کیا جا سکے، اور یہ ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی روایت ہے۔ "اَلْإِیْمَانُ بِالتَّفْصِیْلِ لَیْسَ بِوَاجِبٍ" یعنی تفصیل کے ساتھ ایمان واجب نہیں، بلکہ جب ایمان لایا جائے تو یہ ایمان لانا ہی کافی ہے۔ "اَلْإِیْمَانُ لَا یَزِیْدُ وَلَا یَنْقُصُ" ”ایمان نہ بڑھتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے“ اس میں کمی پیشی نہیں ہوتی، "لِأَنَّ الْأَعْمَالَ عِنْدَنَا لَیْسَتْ مِنَ الْإِیْمَانِ" ”کیونکہ ایمان ہمارے نزدیک اعمال میں سے نہیں“ "اَلْإِیْمَانُ لَا یَزِیْدُ وَلَا یَنْقُصُ وَلٰکِنْ لَّہٗ حَدٌّ فَإِنْ نَّقَصَ یَنْقُصُ وَإِنْ زَادَ فِیْ حَدِّہٖ زَادَ" ”ایمان کم و بیش نہیں ہوتا لیکن اُس کی ایک حد ہے، اگر وہ کم ہو جائے تو اس حد تک کم ہوتا ہے اور اگر اپنی حد تک زیادہ ہو جاتا ہے، تو زیادہ ہوتا ہے“ "وَأَصْلُہٗ شَھَادَۃُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ" ”ایمان کی اصل یہ ہے کہ اس بات کی شہادت دی جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی قابلِ عبادت نہیں وہ اکیلا و یکتا ہے، اور اُس کا شریک نہیں“ "وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عُبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ" ”اور میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ محمد رسول اللّٰہاللّٰہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں“ "اَلصَّلٰوۃُ وَالصَّوْمُ وَالزَّکوٰۃُ وَالْحَجُّ وَغُسْلُ الْجَنَابَۃِ۔ فَمَنْ زَادَ فِيْ حَدِّہٖ زَادَ حُسْنًا وَمَنْ نَقَصَ مِنْہٗ نَقَصَ ثَوَابًا" ”نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کرنا اور جنابت سے غسل کرنا ہے، جس نے اس حد میں زیادتی کی تو اس نے خوبی میں اضافہ کیا، اور جس نے اس میں کمی کی، تو اس کا بدلہ کم ہو جاتا ہے“ "إِیْمَانُ الْیَأْسِ غَیْرُ مَقْبُوْلٍ وَّ تَوْبَۃُ الْیَأْسِ مَقْبُوْلَۃٌ" ”یاس اور نا اُمیدی کا ایمان غیر مقبول ہے، اور یاس کی توبہ مقبول ہے“ "اَلْإِیْمَانُ غَیْرُ مَخْلُوْقٍ عِنْدَ أَھْلِ بُخَارَا وَعِنْدَ أَھْلِ سَمَرْقَنْدَ مَخْلُوْقٌ" ”اہل بخارا کے نزدیک ایمان غیر مخلوق ہے اور اہل سمرقند کے ہاں مخلوق ہے“۔ اور یہ اختلاف ان کے درمیان حقیقت کا ہے کیونکہ اہل بخارا کہتے ہیں کہ ایمان اللّٰہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو کہ بندہ کے لئے ہے اور یہ غیر مخلوق ہے۔ اور اہل سمرقند کہتے ہیں کہ ایمان بندے کا فعل ہے اور اسی وجہ سے مخلوق ہے اور اسی کے ذریعہ اللّٰہ تعالیٰ پہچانا جاتا ہے۔

ایمان عطائی ہے یا کہ کسبی، اس میں اختلاف ہے۔ "اَلْقُرْآنُ کَلَامُ اللّٰہِ غَیْرُ مَخْلُوْقٍ وَّ لَا مُحْدَثٍ وَالْمَکْتُوْبُ فِي الْمَصَاحِفِ" ”قرآن کریم اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہے جو کہ غیر مخلوق ہے، محدث یعنی حادث نہیں۔ اور مصحفوں میں لکھا گیا ہے“

اور آخرت میں اللّٰہ تعالیٰ کا دیدار حق ہے، آخرت میں اہل جنت بغیر کسی کیفیت اور بغیر کسی تشبیہ وغیرہ کے دیکھیں گے۔ اور خواب میں اللّٰہ تعالیٰ کا دیکھنا اکثر علماء کے نزدیک جائز نہیں، اور اس باب میں چپ رہنا بہتر ہے۔ "وَالْقَدَرُ خَیْرُہٗ وَشَرُّہٗ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی بِمَشِیَّتِہٖ وَإِرَادَتِہِ الْقَدِیْمَۃِ" ”اور نیکی اور بدی کا اندازہ اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، اور اُس کی مشیت اور قدیمی ارادے سے ہے“ "إِلَّا أَنَّ الْمَعَاصِيَ لَیْسَتْ بِرِضَاءِ اللّٰہِ تَعَالٰی" ”مگر گناہ اللّٰہ تعالیٰ کی رضا سے نہیں“۔

اللّٰہ کی تمام صفت قدیمی ہیں، اور ان میں تفصیل کی کوئی ضرورت نہیں۔ صفاتِ ذات و صفاتِ فعل کی تفصیل محتاجِ بیان نہیں، یہ اُسی کی ذات سے قائم ہیں، یہ نہ وہ ہیں اور نہ اُس کا غیر ہیں، جیسا کہ ایک دس میں سے ہے مگر نہ یہ عینِ دس ہے اور نہ اس کا غیر ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نہ تو جسم ہے، نہ جوہر ہے، نہ عرض ہے اور نہ کسی مکان میں ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کمال صفت سے موصوف ہے، اور اُس کی جو یہ صفت بیان کی جاتی ہے کہ اُس کے ہاتھ اور آنکھ ہیں، لیکن یہ ہاتھ اور آنکھ ہمارے ہاتھوں اور آنکھوں جیسے نہیں۔

سوال:

خدا کے لئے ہاتھ اور آنکھ کہنا جائز ہے یا کہ نا جائز؟

جواب:

خدا کے لئے ہاتھ کہنا جائز ہے اور آنکھ کہنا جائز نہیں۔

"وَإِذَا لُقِّنَتِ الْمَرْأَۃُ وَاسْتُوْصِفَتِ الْإِیْمَانَ فَلَمْ تَصِفْ فَإِنَّھَا لَا تَکُوْنُ مَؤْمِنَۃً حَتّٰی لَوْ مَاتَتْ لَا یُصَلّٰی عَلَیْھَا بِالِاتِّفَاقِ" ”اور جب ایک عورت کو ایمان کی تلقین کی گئی اور اس سے ایمان کی کیفیت بیان کرنے کا کہا گیا تو اگر وہ اسے بیان نہ کر سکی تو وہ مؤمنہ نہیں ہوگی، حتی کہ اگر وہ (اسی حالت میں) مر گئی تو بالاتفاق اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی جائے گی“ وَصِفَۃُ الْإِیْمَانِ مَا ذُکِرَ فِيْ حَدِیْثِ جِبْرِیْل عَلَیْہِ السَّلَامُ أَنْ تُوْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْآخَرِ وَالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ کَذَا فِيْ مَطْلُوْبِ الْوَاقِعَاتِ وَمَفْتُوْحِ الحَاجَاتِ"

ترجمہ: ”اور ایمان کی وہ صفت جو کہ حدیث جبریل میں بیان کی گئی ہے، کہ اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لایا جائے، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور آخرت کے دن اور خیر و شر کی مقدار کو اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے جاننا اور موت کے بعد پھر دوبارہ جی اُٹھنا، جیسا کہ مطلوب الواقعات اور مفتوح الحاجات میں ذکر ہے“۔ ایمان کے دو رکن ہیں: ایک زبان سے اقرار کرنا اور دوسرا دل سے اللّٰہ تعالیٰ کی ہستی، وحدانیت اور اُس کے کمال صفات کی تصدیق کرنا ہے۔ اور یہ کلمۃ اللّٰہ میں درج اور شامل ہے۔ اور یہ اس طرح کہ کلمۃ اللّٰہ کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ ذات جس کی ہستی واجب ہے اور اس کے کمال صفات جامع ہیں، اور ہر قسم کے نقصان سے اُس کی ذات پاک ہے۔ پس اس سے اُس کی (1) وحدانیت بھی معلوم ہو جاتی ہے اور اسی طرح (2) حیات، (3) تکوین، (4) علم، (5) قدرت، (6) سمع، (7) بصر، (8) کلام، (9) ارادت (10) اور ہر قسم کے عیب و نقصان مثل و مثال سے پاکی اور حق شناسی کی یہ دس صفتیں ضروری ہیں۔ اور کلمۃ اللّٰہ سے یہ تمام مفہوم نکلتے ہیں۔ اور وحدانیت کے یہ معنیٰ ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ یگانہ و یکتا ہے ذات میں بھی اور صفات میں بھی، اور اس کی مثل کوئی چیز نہیں، نہ ذات میں اور نہ صفات میں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی ذات و صفات قدیمی، ازلی اور ابدی ہیں۔ اور اُس کی ذات کے علاوہ ہر چیز حادث، ممکن اور فانی ہے۔ اور حیات کے یہ معنیٰ ہیں کہ وہ زندہ ہے اور کبھی بھی نہیں مرتا۔ اور تکوین کے یہ معنیٰ ہیں کہ ایسی ہستی جو کہ تمام اشیاء کو ہست کرنے والی ہے۔ اور علم یعنی ہر چیز پر عالم ہے۔ اور اِسی طرح اُس کی قدرت تمام اشیاء پر حاوی ہے کہ عجز کے لئے وہاں کوئی امکان یا راستہ نہیں۔ اگر چاہے کہ سات آسمانوں اور زمین کو ایک مچھر کے چمڑے میں بند کرے تو یہ کر سکتا ہے، قطع نظر اس سے کہ مچھر کا چمڑا بڑا کرے یا زمین و آسمان کو چھوٹا کرے۔ جو چاہتا ہے وہی کر لیتا ہے، عرش، کرسی، سات آسمان، سات زمینیں اور جو کچھ ہے، سب اُس کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اُس کے قابو اور قدرت کے زیر ہے اور یہ کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں، کیونکہ حقیقت میں کوئی دوسرا تصرف کنندہ نہیں۔ اور آفرینشِ عالم یعنی کائنات کے پیدا کرنے کے وقت اُس کا کوئی معاون اور مدد گار نہیں تھا۔ اور عرش معلیٰ و سدرۃ المنتھیٰ سے لے کر تحت الثریٰ تک کوئی چیز اُس کے حکم سے باہر نہیں، اور اُس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں، بلکہ صحراؤں کی ریت کے ذرات، درختوں کے پتے، دلوں کے افکار و اندیشے، ہواؤں کی لہریں اُس کے علم میں ایسے موجود ہیں جیسا کہ سات زمینوں اور آسمانوں کی تعداد۔ اور سمیع و بصیر کا مفہوم یہ ہے کہ ہر چیز پر دانا ہے اور ہر دیکھنے اور سننے کے قابل اشیاء کو دیکھتا اور سنتا ہے اور اُس کے دیکھنے اور سننے کے لئے دور و نزدیک برابر ہے، اور ایک چیونٹی کے پاؤں (اور اُس کی آواز) کہ جب وہ تاریک رات میں چلتی پھرے، اُس کے دیکھنے اور سننے کے دسترس سے باہر نہیں۔ اور تحت الثریٰ میں جو رنگ یا اشکال ہوں وہ بھی اُس کے دیکھنے سے بعید نہیں، اُس کا دیکھنا، سننا، آنکھ اور کان کے ذریعے سے نہیں ہوتا جیسا کہ اُس کی دانش اندیشہ اور تدبیر کی محتاج نہیں۔ اور اُمور تخلیق کسی آلے کے ذریعے نہیں کرتا۔ اور کلام کے معنیٰ اور مفہوم ایسے جاننا کہ اُس کا حکم سب پر جاری ہے اور اُس کی طاعت سب پر واجب ہے۔ اور جو کوئی بھی کسی قسم کی خبر دے اُن سب سے اس کی خبر درست و صحیح ہے اور وعدہ اور وعید سب اُس کا کلام ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بغیر کسی واسطے کے باتیں فرمائیں، اور اُس کی باتیں حلق، زبان اور منہ سے نہیں، جیسا کہ آدمی کی باتیں ہوتی ہیں، اس کی باتیں بے آواز اور بے حرف ہیں، یعنی اُس میں آواز نہیں، اللّٰہ تعالیٰ کی باتیں صوت و حرف سے پاک اور منزہ ہیں۔ قرآن کریم، تورات انجیل زبور سب اُس کا کلام اور صفت ہے اور اُس کی تمام صفات قدیم ہیں۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات پاک ہمارے دل میں معلوم ہے، اور ہماری زبانوں پر مذکور ہے۔ ہمارا علم عطا کیا ہوا اور مخلوق ہے لیکن جو ہمارے علم میں ہے یعنی ”معلوم“ قدیم ہے۔ ذاکر مخلوق اور مذکور قدیم اسی طرح اُس کی باتیں یعنی کلام بھی قدیم ہے، جو کہ ہمارے دلوں میں محفوظ، ہماری زبانوں پر جاری اور ہماری کتابوں میں تحریر ہے۔ ہمارے محفوظ اور حفاظت مخلوق اور ہمارا کہنا مخلوق، ہمارا مکتوب مخلوق، ہماری کتابت مخلوق اور جو کچھ کہ دنیا میں ہے، سب کچھ اُس کی مخلوق ہے۔ جو کچھ بنایا ہے تو ایسا بنایا ہے کہ اُس سے بہتر نہیں ہو سکتا۔ اگر تمام عاقلوں کی عقلیں متفق ہو جائیں اور فکر کریں کہ اس سے بہتر اور خوبصورت بنائیں تو ایسا نہیں کر سکتے اور نہ اس میں کمی و بیشی ترقی یا نقصان کو عمل میں لا سکتے ہیں۔ اور اگر یہ فکر کریں کہ اس سے بہتر بنایا جائے تو غلطی کرتے ہیں، کیونکہ اس تخلیق کے اسرار مصلحت اور حکمت سے بے خبر ہوں گے۔ پس جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے، حکمت اور عدل سے پیدا کیا اور ایسا پیدا کیا ہے جس طرح پیدا کرنا چاہئے تھا۔ اور یہ جو رنج، بیماری، درویشی، جہالت، عجز وغیرہ پیدا کئے ہیں، یہ سب عدل سے پیدا کئے ہیں، اُس سے ظلم کرنا مناسب نہیں، کیونکہ ظلم وہ ہوتا ہے جو کہ دوسرے کی ملکیت میں کیا جائے، اور جو اپنی ملکیت میں تصرف کرے، تو وہ ظلم نہیں کہلاتا، اور اُس کی ملکیت میں کسی دوسرے کا مالک ہونا محال ہے۔ جو کچھ موجود تھا اور موجود ہے، اور جو کچھ آئندہ ہونے والا ہے، یہ سب اس کے مملوک اور ملکیت ہیں، وہ بغیر کسی شریک یا ساجھے والے کے ہر چیز کا مالک ہے۔ محیط میں آیا ہے کہ اجمالی ایمان یہ ہے کہ تم یہ کہو کہ میں نے تصدیق کی اور یقین کیا کہ جو کچھ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا ہے، درست اور یقینی ہے۔

اور یہ بات جان لو کہ کلمۂ شہادت میں دس باتیں فرض ہیں: پہلی یہ کہ زبان سے عمر میں ایک دفعہ کہا جائے۔ دوسری یہ کہ اس کے معنیٰ جان لئے جائیں۔ تیسری، اُس کے معنیٰ کو دل سے جاننا اور اس پر یقین رکھنا۔ چوتھی، اُس معنیٰ پر موت کے وقت تک قائم رہنا۔ پانچویں، کلمے کے حروف اور اعراب کو ٹھیک طور سے ادا کرنا جو کہ شریعت میں قابل پذیرائی ہوں۔ چھٹی، یہ کہ جس وقت کلمہ پڑھا جائے اُس کا تکرار کرنا۔ ساتویں، اس کلمہ کو اللّٰہ تعالیٰ کی ہستی پر دلیل جاننا۔ آٹھویں، اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل سمجھنا۔ نویں یہ کہ اس کلمہ کو رسول اللّٰہ ﷺ کی رسالت کی دلیل سمجھ لینا۔ دسویں یہ کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی نسبت کو یعنی محمد بن عبد اللّٰہ بن عبد المطلب کو سمجھنا۔ اور اس کلمہ یعنی "أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ" یعنی یہ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدائے برحق کے علاوہ کوئی دوسرا معبود نہیں، اور یہ گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللّٰہاللّٰہ تعالیٰ کے بندے اور اُس کے فرستادہ رسول ہیں۔ اور جو کچھ آپ ﷺ نے اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے خبر دی ہے، وہ بر حق ہے۔ اور یہ بات جان لو کہ ایک دفعہ کلمہ پڑھنا فرض ہے، اور زیادہ پڑھنا سنت ہے، لیکن اُس وقت جب کوئی تم سے کہے کہ کلمہ پڑھو تو پھر اُس وقت کلمہ کا پڑھنا فرض ہو جاتا ہے۔

تشریح:

اللّٰہ جل شانہٗ کی پوری تعریف نہیں ہو سکتی، قرآن میں اس کے بارے میں ہے کہ اگر ساتوں سمندر سیاہی بن جائیں اور سارے درخت قلم بن جائیں اور وہ اللّٰہ کی تعریف لکھتے رہیں، تو اللہ کی تعریف پوری نہیں کر سکتے اور اس طرح اور ہو جائیں، پھر بھی پوری نہیں کر سکتے۔ لہٰذا حضرت نے اپنے حال کے مطابق جو مناسب سمجھا، بیان فرمایا، ورنہ پورا نہیں ہو سکتا۔ جو دو مقام آج حضرت نے اپنے مقالہ میں بیان فرمائے، دونوں پورے نہیں ہو سکتے۔ نہ اللّٰہ تعالیٰ کی پوری تعریف کی جا سکتی ہے اور نہ آپ ﷺ کے مقام کا احاطہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے تھے: ولی را ولی می شناسد، نبی را نبی می شناسد، خاتم النبیین را خدا می شناسد۔ یعنی ولی کو ولی جانتا ہے، نبی کو نبی جان سکتا ہے، خاتم النبیین کو صرف اللّٰہ جان سکتا ہے۔ کیونکہ اور کوئی خاتم النبیین نہیں ہے کہ جو ان کی طرح ہو اور ان کو جان سکے۔ لہٰذا آپ ﷺ کو بھی کوئی پوری طرح نہیں جان سکتا۔ باقی جہاں تک علمی باتیں ہیں، ان کو ہم علمی باتوں تک موقوف رکھتے ہیں، جن باتوں میں اختلاف ہے، اس اختلاف کو ہم مان لیتے ہیں۔ کیوں کہ علمی اختلاف تو ہوا کرتا ہے۔ جیسے: حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ، ان حضرات میں اختلاف ہے، لیکن چاروں اولیاء اللّٰہ ہیں اور بڑے اولیاء اللّٰہ ہیں۔ مثلاً: امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اَلْإِيْمَانُ لَا يَزِيْدُ وَلَا يَنْقُصُ‘‘ ’’ایمان نہ بڑھتا ہے، نہ کم ہوتا ہے۔ لیکن امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایمان زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی ہوتا ہے۔ اصل میں لفظی اختلاف ہوتا ہے، لیکن اگر حقیقت کو دیکھا جائے، تو حقیقت ایک ہوتی ہے۔ چنانچہ یقین کم و بیش ہوتا ہے، جیسا کہ شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے صراحتاً بیان فرمایا ہے کہ کم و بیش یقین ہوتا ہے۔ اور یقین کی کئی قسمیں ہیں: علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین۔ علم الیقین محض علم کی بنیاد پر ہے، مثلاً: آپ کو پتا ہے کہ ملیریا ایک بیماری ہوتی ہے، کتابوں میں آپ نے پڑھ لیا کہ ملیریا اس طرح ہے، پھر آپ نے ملیریا کے مریض کو خود دیکھا کہ وہ کیسا ہوتا ہے، یہ آپ کو عین الیقین ہو گیا۔ پھر آپ خود ملیریا میں مبتلا ہو گئے تو یہ حق الیقین ہو گیا کہ ملیریا کیسا ہوتا ہے اور وہ سارا کچھ آپ کے اوپر گزر گیا۔ اسی طرح یقین کے درجات ہیں۔ اس لئے: ﴿وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرۃ: 4) خصوصی طور پہ علیحدہ فرمایا ہے۔ حالانکہ پہلے بالتفصیل فرمایا ہے: ﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرۃ: 3-4)

ترجمہ: ’’جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا، اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔ اور جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں‘‘۔

اس میں آخرت پہ یقین کو علیحدہ طور پہ ذکر فرمایا، کیونکہ آخرت پہ یقین اعمال کے ظہور کا ذریعہ ہے، آخرت پر یقین سے اعمال وجود میں آتے ہیں۔ لہٰذا بالکل مومنین ہوں گے، ان کا ایمان ہو گا، لیکن یقین کم و بیش ہوتا ہے، اس لئے ان کے اعمال کم و بیش ہوتے ہیں۔ پس جنہوں نے یقین کو بھی ایمان سمجھا، انہوں نے کہا کہ ایمان بڑھتا رہتا ہے۔ اور جنہوں نے یقین اور ایمان کو علیحدہ علیحدہ سمجھا، انہوں نے کہا کہ ایمان کم و بیش نہیں ہوتا۔ کیونکہ ’’اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِيْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘ ایمان کے بارے میں ہے۔ یعنی زبان سے اقرار اور دل سے اس پر یقین رکھنا اور اس کی تصدیق کرنا۔ چنانچہ میں نے دل سے مان لیا کہ اللّٰہ ہے اور اللّٰہ ایک ہے، اللّٰہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے، اور اللّٰہ صفات کا مالک ہے، ان چیزوں کو اگر میں نے دل سے بھی مان لیا اور زبان سے بھی اقرار کر لیا، تو میں مومن ہوں۔ لیکن اس کے بعد صفات کا استحضار ہو جانا، جن میں سے ایک صفت اللّٰہ تعالیٰ کی آخرت کے بارے میں بھی ہے۔ لہٰذا اس پر جتنا یقین ہو گا، اتنا ہی میں اعمال پر زیادہ قائم ہوں گا۔

حضرت نے یہاں جو باتیں بیان فرمائی ہیں، ان میں سے بہت ساری باتیں ہم سب پہلے سے جانتے ہیں، یہ کوئی نئی باتیں نہیں ہیں۔ اور آپ ﷺ کے بارے میں جو احادیث شریفہ بیان ہوئی ہیں، تو بعض احادیث شریفہ علمی نقطہ نظر سے ضعیف ہوتی ہیں، لیکن اسی طرح کی کوئی اور حدیث شریف زیادہ صحت کے ساتھ، اس سے بھی اونچی موجود ہوتی ہے۔ جیسے: ابھی ایک حدیث شریف گزری ہے کہ میں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا، جب آدم علیہ السلام مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ یہ حدیث سند کے لحاظ سے کمزور ہے، لیکن ایسی ہی ایک اور حدیث شریف ہے، جو سند کے لحاظ سے بہت قوی ہے۔ وہ ہے: ’’میں اس وقت بھی خاتمُ النبیین تھا، جب آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے‘‘۔ ان دونوں حدیثوں کا مطلب ایک ہی ہے، اس طرح یہ حدیث سند سے ثابت ہو گئی۔ اب اگر میں صرف اس بات کو پکڑ لوں کہ یہ حدیث ضعیف ہے، لہٰذا یہ بات اس طرح ٹھیک نہیں ہے، تو یہ علمی بات نہ ہوئی، یہ صرف بحث و مباحثہ ہو گیا۔ کیونکہ ایک ہوتی ہے علمی بات کہ آپ کو حق معلوم کرنا ہے، آپ کو الفاظ سے غرض نہیں ہے۔ حق جس طریقے بھی معلوم ہو، بس وہ کافی ہے۔ پھر محدثین نے ایسی چیزوں کے بارے میں جو قانون بنایا ہے، اس کی اپنی اہمیت ہے۔ ایک قانون یہ ہے کہ جب ایک ہی مضمون کی کئی احادیث شریفہ مروی ہوں، تو بے شک ہر ایک میں ضعف ہو، لیکن ان سب کا ایک مضمون پہ جمع ہو جانا اس میں قوت پیدا کرتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ فضائل کے متعلق جو احادیث شریفہ ہوتی ہیں یا حقائق کے متعلق احادیث شریفہ ہوتی ہوں، ان پہ شریعت کے کسی حکم کا مدار نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہاں پہ یہ احادیث شریفہ چل سکتی ہیں۔ فضائل کے لحاظ سے اس لئے فرق نہیں پڑتا کہ مثلاً: میں کہتا ہوں کہ فلاں نماز کا ثواب ستائیس گنا ہے، اور دوسرا کہتا ہے کہ نہیں، انچاس کروڑ ہے۔ حالانکہ انچاس کروڑ سے یا ستائیس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ اگر انچاس کروڑ بھی ہو، تو بھی ہر رکعت میں دو ہی سجدے کریں گے۔ اس لئے نماز تو وہی ہو گی، نماز میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔ صرف ثواب کا فرق ہو گا۔ ثواب اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے، کسی اور کے ہاتھ میں نہیں ہے، چاہے ستائیس دے، چاہے انچاس کروڑ دے، لڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ بہت حکیم ہیں۔ اللّٰہ جل شانہٗ نے یہ احادیث شریفہ جمع کروائی ہیں اور اس کے لئے باقاعدہ پورا ایک فن وجود میں آیا ہے، اس کو اسماء الرجال کا فن کہتے ہیں، جس میں ہزاروں راویوں کے حالات جمع کئے گئے ہیں۔ ان کے حالات کے ذریعے سے آج بھی ہم کسی حدیث شریف کے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ صحیح ہے یا اس میں ضعف ہے، یہ حدیث کس قسم کی ہے، اس کے بارے میں معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اللّٰہ جل شانہٗ نے اس کا انتظام کروا دیا ہے۔ دو قسم کے محدثین ہیں: ایک وہ محدثین عظام ہیں (اللّٰہ تعالیٰ ان کے درجات بہت بلند فرمائے، ان کا ہمارے اوپر بہت بڑا احسان ہے) کہ انہوں نے صحیح روایات جمع کی ہیں، اس نیت کے ساتھ کہ کہیں آپ ﷺ کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہ ہو جائے۔ یہ کتنی اعلیٰ نیت ہے کہ کہیں آپ ﷺ کی طرف کوئی غیر واقعی بات منسوب نہ ہو جائے۔ اس لئے انہوں نے صرف صحیح روایات جمع کیں اور بڑے ہی تشدد کا معاملہ کیا۔ جن میں امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ، امام مسلم رحمۃ اللّٰہ علیہ زیادہ متشدد تھے۔ اسی وجہ سے جس حدیث پر یہ دونوں متفق ہو جائیں، اس کو متفق علیہ کہتے ہیں، اور اس کی value بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے بعد صحاح ستہ کی دوسری کتابیں ہیں، ان کے اندر بھی صحت کا خیال زیادہ رکھا گیا ہے، لیکن تدریجاً تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ۔ بہر حال! سب کا معیار اونچا ہے، لیکن ان دو کا بہت زیادہ اونچا ہے۔ ان کتابوں کو صحاح ستہ کہتے ہیں۔ لیکن محدثین کرام کا جو دوسرا گروہ تھا، انہوں نے سوچا کہ کہیں علم کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو جائے، لہٰذا انہوں نے ہر طرح کی روایات جمع کیں۔ اگر ہم زیادہ متشدد ہو جائیں اور زیادہ تشدد کریں کہ مثلاً: ایک مجہول راوی ہے، جس کے بارے میں مجھے علم نہیں کہ کون ہے اور وہ کوئی روایت کرے، تو سو فیصد یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ جھوٹ تھا، جیسے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے سچ کہا ہے۔ کیونکہ اس کو جھوٹا کہنے کی سند بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ لہٰذا ہم اگر اس لحاظ سے اس کو تطبیق دے دیں کہ یہ مجہول روایت ہے، لیکن عین ممکن ہے کہ کسی جگہ پر ایک clue دے دے، ایک راستہ دے دے، ایک صورت سامنے آ جائے، اس سے اس پر مزید تحقیق ہو جائے، اس سے وہ چیز ثابت ہو جائے۔ ایسا ہوتا ہے۔ جیسے امام بیہقی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ’’کنز الاعمال‘‘ ہے، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے محدث ہیں، معمولی محدث نہیں ہیں، بہت اونچے درجے کے محدث ہیں، وہ امام ابنِ تیمیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کو ایسے ڈانٹتے ہیں، جیسے طالب علم کو ڈانٹتے ہیں، لیکن یہ انہوں نے اس نیت سے کیا کہ کہیں ہمارے تشدد کی وجہ سے ایسی چیزیں رہ نہ جائیں۔ اس لئے انہوں نے بہت ساری احادیث شریفہ جمع کر دیں اور ان کی کتاب میں ہر قسم کی احادیث شریفہ موجود ہیں۔ بہر حال! شریعت چونکہ کسی چیز کی اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول کی طرف عمل کے لحاظ سے نسبت کا نام ہے، لہٰذا اس میں فقہاء بہت متشدد ہیں، یا تو وہ قرآن سے دلیل لیں گے یا صحیح احادیث شریفہ سے لیں گے۔ اور پھر اس میں بھی بہت غور و غوض کریں گے۔ اپنے اپنے فقہی اصولوں کے حساب سے انہیں پرکھیں گے۔ جیسے: بعض حضرات حدیثِ مرسل سے استدلال کرتے ہیں اور بعض حضرات نہیں کرتے۔ بہر حال! فقہ چونکہ ایک عملی چیز ہے، لہٰذا اس میں فقہاء کرام اپنے اپنے اصولوں کے اوپر قائم رہنے میں بہت زیادہ سختی کرتے ہیں۔ یہاں ایک عجیب بات درمیان میں آ گئی کہ اصولِ فقہ پہ بعض لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کہ اصولِ فقہ کہاں سے ہیں؟ یہ تو نہ قرآن سے ثابت ہیں، نہ حدیث سے ثابت ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے حدیث جمع کرنے کے جو اصول وضع کئے ہیں، وہ کہاں سے ثابت ہیں؟ یہ بھی نہ قرآن سے ثابت ہیں، نہ حدیث شریف سے ثابت ہیں۔ وہ ان کے اپنے اصول ہیں جمعِ حدیث کے حوالے سے۔ اس طرح فقہ کے بھی اصول ہیں۔ بہر حال! فقہی اور عمل کے حوالے سے جو احادیث ہیں، ان میں ضعیف احادیث شریفہ نہیں لی جاتیں، لیکن دو اور چیزیں بھی ہیں: حقائق، جن سے معرفت حاصل ہوتی ہے اور دوسری چیز ہے فضائل۔ فضائل سے اعمال کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اعمال کا شوق پیدا کرنا بذاتِ خود بہت بڑا شعبہ ہے، یہ اعمال کا انجن ہے، یعنی اعمال کو وجود اس کے ذریعے سے ملتا ہے۔ اعمال کا شوق اگر کسی کو ضعیف حدیث شریف کی وجہ سے ہو جائے، جس سے وہ عمل کر لے اور وہ عمل صحیح ہو، تو اس کو نقصان تو نہیں ہوا۔ ہاں! یہ الگ بات ہے کہ اس شخص کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ضعیف حدیث ہے، لہٰذا اس پہ متشدد نہ ہو، اس کو اس درجہ میں رکھے۔ جیسے فرمایا: ’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 6970)

ترجمہ: ’’میں اپنے بندے کے اس گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے‘‘۔

لہٰذا اگر کوئی یہ گمان رکھے کہ اللّٰہ تعالیٰ مجھے انچاس کروڑ نمازوں کا ثواب دے گا اور وہ نماز پڑھ رہا ہے، اور اللّٰہ تعالیٰ اس کو واقعی انچاس کروڑ نمازوں کا ثواب دے دے، تو آپ کو کیا تکلیف ہے؟ اللّٰہ ثواب دے سکتا ہے۔ لہٰذا اگر اللّٰہ دے دے، تو ٹھیک ہے۔ ہاں! یہ الگ بات ہے کہ جو حضرات انچاس کروڑ نمازوں کا ثواب کہتے ہیں، وہ اگر دوسرے دینی کاموں کو اس سے نکال دیں کہ ان کے لئے نہیں ہے، تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ ان کا تشدد ہو گا، ان کو بھی تشدد نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ جس طرح راستہ آپ کے لئے کھلا ہے، اس طرح دوسروں کے لئے بھی راستہ چھوڑنا چاہئے۔ چنانچہ یہ جو باتیں ابھی چلی ہیں، یہ حقائق اور فضائل میں سے ہیں، اس لئے دونوں جگہ جائز ہیں۔ اس وجہ سے اگر کوئی حقائق کو بیان کرے، تو اس کا انکار ٹھیک نہیں ہوتا۔ مثلاً: آپ ﷺ کا سایہ تھا یا نہ تھا؟ اس میں اختلاف ہے، کچھ حضرات مانتے ہیں، کچھ حضرات نہیں مانتے۔ اس لئے اس مسئلہ میں ہم خاموش ہیں، ہم درمیان میں بولتے ہی نہیں ہیں۔ یا تو میں اس پر سو فیصد تحقیق کر لوں، تو پھر میں اپنی کوئی رائے قائم کروں یا پھر میں چپ ہو جاؤں۔ اُن کے بارے میں بھی چُپ ہو جاؤں، اِن کے بارے میں بھی چُپ ہو جاؤں۔ جیسے حضرت نے تفسیرِ زاھدی کا حوالہ دیا ہے، وہ ان کی اپنی رائے ہے۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ سایہ تھا، البتہ ابھی تک مجھے یہ تحقیق نہیں ہوئی کہ آپ ﷺ کا سایہ نہ تھا۔ لیکن ایسی بھی کوئی حدیث کم از کم میری نظر سے نہیں گزری کہ آپ ﷺ کا سایہ تھا۔ حالانکہ آپ ﷺ نے پوری زندگی گزاری ہے۔ اسی لئے یہ مسئلہ کہ سایہ تھا یا نہیں تھا؟ اس میں ہم چُپ ہیں، ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، کیونکہ ہماری تحقیق نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اس پہ ہم لوگ حجت بازی بھی نہ کریں۔ علمائے کرام میں اس طرح اختلافات ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ امام حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ فاتحہ خلف الامام پڑھنا حرام ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس کو فرض کہا ہے۔ لیکن ہم کسی کو بھی غلط نہیں کہہ سکتے۔ بس دونوں کو صحیح کہتے ہیں۔ کیونکہ دونوں کی اپنی اپنی تحقیق ہے۔ اسی وجہ سے ہم ان باتوں میں بھی زیادہ تشدد نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے، جن کی رائے یہ ہے، ان کے پاس اپنے دلائل ہوں گے، جن کی رائے یہ ہے، ان کے پاس بھی اپنے دلائل ہوں گے۔ ہم لوگ اس مسئلہ میں خاموش ہیں۔ لیکن جو انہوں نے آپ ﷺ کے معجزات کے بارے میں بات کی، تو ان میں سے کئی معجزات کے بارے میں ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ یہ معجزات ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کے مقام کے بارے میں انہوں نے جو کہا ہے، یہ باتیں بھی ہم سب پہلے سے جانتے ہیں کہ یہ سب باتیں حقیقت ہیں، البتہ بعض چیزیں ذرا زیادہ تفصیل سے بیان کی گئی ہیں کہ جیسے آپ ﷺ کی ولادت پاک کے بارے میں جو واقعہ ہے، وہ انہوں نے ذرا زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ اس تمام مقالے کا نچوڑ بالکل ثابت ہے کہ اللّٰہ جل شانہٗ کی تعریف پوری نہیں ہو سکتی۔ اس لئے اگر آپ اس مقالے کو نہ بھی پڑھیں، پھر بھی یہ چیز تو ثابت ہے۔ اور حضرت یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی صفات بیان نہیں کی جا سکتیں، وہ بہت زیادہ ہیں۔ اور آپ ﷺ کا مقام مخلوقات میں بہت اونچا ہے، اس پہ بھی کوئی دوسری بات نہیں ہو سکتی۔ سب لوگ مانتے ہیں کہ آپ ﷺ کا مقام بہت بلند ہے اور قرآن اللّٰہ کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے۔ اس پر بھی کوئی دوسری بات نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا اصل تو ثابت ہے۔ تفصیلات میں کلام ہے اور کلام ہر علمی بات میں ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر اس میں کچھ کلام ہو، تو وہ confirm بات کے ساتھ معارض نہیں ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ آراء بھی پائی جاتی ہیں اور آراء پر بھی بات ہو سکتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے اکابر کو اللّٰہ نے بہت بڑا حوصلہ دیا ہے، یہ ہماری طرح متشدد نہیں ہوتے۔ ہم لوگ تو بعض اوقات اس کو کفر اور اسلام کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، مگر یہ حضرات ما شاء اللّٰہ رائے کا بہت احترام کرتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کا کتنا اونچا مقام تھا، لیکن صاحبین جو امام صاحب کے شاگرد ہیں، ایک مسئلہ میں ان کے ساتھ اختلاف ہو رہا ہے کہ اگر جماعت کھڑی ہو جائے اور ظہر کی سنتیں رہ جائیں، تو وہ کس ترتیب سے پڑھی جائیں؟ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی رائے یہ تھی کہ جس ترتیب سے پہلے سے ہیں، اسی ترتیب سے پڑھ لی جائیں۔ یعنی چار پہلے پڑھ لیں، اس کے بعد دو پڑھ لی جائیں۔ جس ترتیب سے ہیں، اسی ترتیب سے ادا کر لی جائیں۔ صاحبین نے عرض کیا کہ حضرت! چار تو اپنی جگہ سے ہل گئیں، تو یہ جو دو ابھی نہیں ہلی ہیں، ان کو کیوں ہلایا جائے۔ اس لئے ان دو کو پہلے پڑھ لیا جائے، پھر جو چار ہل گئی ہیں، ان کو بعد میں پڑھ لیا جائے۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کو یہ رائے پسند آ گئی اور انہوں نے اس پر ضد نہیں کی کہ میں استاد ہوں۔ لہٰذا علمی چیزوں میں یہ نہیں ہوتا۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اللّٰہ تعالیٰ نے اتنا حوصلہ دیا تھا کہ سبحان اللّٰہ! ایک مسئلہ پہ میرا حضرت سے کچھ علمی اختلاف تھا، علمی اختلاف ہوتا ہے، تربیت میں نہیں۔ کیونکہ شیخ کے ساتھ تربیت میں اختلاف نہیں ہو سکتا، علمی ہو سکتا ہے۔ جیسے: ایک شخص حنفی ہے، وہ کسی شافعیُ المسلک بزرگ سے بیعت ہو جائے، تو وہ اس کے لئے حنفیت کو نہیں چھوڑے گا۔ وہ حنفی ہی رہے گا۔ اور مرید بھی ہو گا۔ ایسی مثالیں موجود ہیں۔ یہ چونکہ علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں، اس لئے ان کو علیحدہ علیحدہ رکھنا ہوتا ہے۔ بہر حال! حضرت سے میرا علمی مسئلہ میں اختلاف تھا۔ اب میں یہ چاہتا تھا کہ حضرت مجھے حکم فرمائیں، تو میں اپنا مسلک چھوڑ دوں۔ اپنے شرحِ صدر سے نہیں چھوٹتا تھا کہ میں خود نہیں چھوڑ سکتا تھا، لیکن حضرت فرماتے، تو میں چھوڑ دیتا۔ میں نے حضرت کے سامنے باقاعدہ پوری ایک ترتیب بنائی کہ ہمارے ایک ساتھی نے کانفرس بلائی، اس کانفرس میں صدر جلسہ حضرت تھے اور میں سپیکر تھا۔ میں نے اپنی پوری بات شرح و بسط کے ساتھ بیان کر دی۔ حضرت چونکہ صدرِ جلسہ تھے، اس لئے صدرِ جلسہ کے لحاظ سے انہوں نے صدارتی تقریر کرنی تھی۔ حضرت نے صدارتی تقریر میں میرے نقطۂ نظر کو چھیڑے بغیر اپنا موقف بتا دیا۔ یہ نہیں فرمایا کہ یہ غلط ہے۔ بس اپنی بات کی، دلائل دے دیئے اور بات ختم کر دی۔ میں عصر کو حضرت کے پاس چلا گیا۔ میری دھلائی بہت ہوئی، اس لئے ہوئی کہ جو سپیکر ہوتا ہے، اس کے اندر تعلی تو آ ہی جاتی ہے، اور جب آدمی پوری کانفرس کا سپیکر ہو، تو آدمی اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ حضرت بات بات پہ ڈانٹ رہے تھے کہ مقرر بنتے ہو، بیٹھ جاؤ۔ یوں کافی ڈانٹ ڈپٹ چلتی رہی۔ لیکن مجھے چونکہ پتا تھا کہ جو گرد جمع ہو گئی، اس کو جھاڑ رہے ہیں، لہٰذا مجھے کوئی مسئلہ نہیں تھا، مجھے صرف اپنی فکر تھی۔ میں نے سوچا کہ میں حضرت کو کس طرح عرض کروں۔ لہٰذا میں نے ایک مضمون لکھا، جس میں میں نے پورا اپنا مسلک لکھا اور میں نے حضرت کو دیا کہ حضرت! اس کی اصلاح فرمائیں۔ حضرت نے اس میں صرف کا، کے، کی، درست کیا اور مضمون کو نہیں چھیڑا۔ لہذا پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ پھر صراحتاً مجھے پوچھنا پڑا، میں نے کہا: حضرت! یہ میرا مسلک آپ کے سامنے آ گیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے حکم فرمائیں کہ میں کون سا اختیار کروں۔ حضرت مراقب ہوئے اور مراقبہ کر کے پھر پوچھا: تم تحقیق کر رہے ہو؟ میں نے کہا: جی۔ فرمایا: ہاں، کرتے رہو، کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر کیا کہہ سکتے ہیں، بس ٹھیک ہے۔ چنانچہ تحقیق کے لئے چھوڑ دیا۔ یہ ہوتا ہے بزرگوں کا طریقہ۔ چھوئی موئی کا پھول والی بات نہیں ہوتی۔ بہر حال! بزرگوں کے ہاں رائے کا بہت زیادہ احترام کیا جاتا ہے۔ صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ (حضرت میرے بڑے محسن ہیں) نے فرمایا: شاہ صاحب! آپ لوگوں کو دین کا کام کرتے ہوئے دیکھتے ہوں گے، تو آپ کے دل میں آتا ہو گا کہ میں بھی ان کی طرح کام کروں، نہیں، نہیں! ایسا نہیں کرنا۔ اپنے شرحِ صدر پہ چلنا۔ یہ تو حضرت نے اصول بتا دیا۔ مگر تھوڑی دیر کوئی اور بات چل رہی تھی، تو مجھے اس پہ کچھ اپنا مشورہ دے دیا کہ کام اس طرح کرنا چاہئے۔ پھر فوراً ہی فرمایا: یہ میری رائے ہے، آپ اپنے شرحِ صدر پہ چلیں۔ گویا وہ اصول اپنے اوپر نافذ کر دیا۔ مقصد یہ ہے کہ ان حضرات کا دل بہت بڑا ہوتا ہے۔ بہر حال! ہمارے اندر ان مقالات کو پڑھنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ اسی طرح جو علمی باتیں ہیں، ان کو علمی طور پہ رکھنا چاہئے، جو فنی باتیں ہیں، ان کو فنی طور پہ رکھنا چاہئے۔ اور جو تربیتی باتیں ہوں، ان کو تربیت کے طور پہ رکھنا چاہئے، گڑبڑ نہیں کرنی چاہئے۔ ایک بہت بڑے مسئلے میں اختلاف تھا، ہم بھی ایک طرف تھے، کچھ اور حضرات تھے، وہ بھی ایک طرف تھے، دونوں طرف اہلِ حق تھے، کوئی بھی مسلکِ حق سے ہٹا ہوا نہیں تھا، لیکن بہر حال ایک اختلاف تھا۔ مولانا عبد الکریم مستانی صاحب کی خدمت میں میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں اس دوسرے فریق کے کوئی شخص آ گئے۔ حضرت مولانا بڑے جہاں دیدہ بزرگ تھے، انہوں نے فوراً مجھے ان کا تعارف کرایا کہ یہ فلاں صاحب ہیں اور فلاں سے پڑھے ہوئے ہیں، تاکہ میں محتاط ہو جاؤں، ان کے سامنے کوئی ایسی بات نہ چھیڑ دوں۔ ان کو بھی بتایا دیا کہ فلاں صاحب ہیں، فلاں جگہ سے ہیں۔ اور میرے بارے میں بھی ان کو بتا دیا، تاکہ وہ بھی محتاط ہو جائیں۔ میں تو حضرت کے مزاج کو سمجھ گیا تھا، لہٰذا میں تو خاموش رہا، میں اس پہ بات ہی نہیں کر رہا تھا۔ حالانکہ وہ حضرت کے شاگرد تھے، لیکن انہوں نے مسئلہ چھیڑ دیا۔ جب انہوں سے چھیڑ دیا، تو میں نے کہا: آپ نے وہ کتاب پڑھی ہے؟ کہا: نہیں۔ میں نے کہا: پھر تو آپ اس پہ بات ہی نہیں کر سکتے، آپ کو بات کرنے کا حق ہی نہیں ہے۔ یا تو اس کو پورا پڑھو، اس کے دلائل پوری طرح پڑھو یا پھر بات ہی نہ کرو۔ کیونکہ یہ علمی بات ہے، اس میں آپ نے دوسرے کے دلائل پڑھے ہی نہیں۔ آپ کو کیا حق ہے اس پر بات کرنے کا۔ اس نے کہا: میرے شیخ کی بات ہے۔ میں نے کہا: یہ ایک علمی بات کے بارے میں بات ہو رہی ہے، تربیت کے بارے میں بات نہیں ہو رہی۔ اگر شیخ کو درمیان میں لاؤ، تو پھر دوسرا شخص بھی شیخ کو لائے گا کہ میرے شیخ کی بات اس طرح ہے۔ ایسی صورت میں کوئی فیصلہ نہ ہو گا۔ ہر طرف مشائخ ہیں، آپ کی طرف بھی مشائخ ہیں، ان کی طرف بھی مشائخ ہیں۔ لہٰذا مسئلہ حل نہیں ہو گا، یہ کوئی قانون نہیں ہے۔ یہ تو علمی مسئلہ ہے، علمی طریقے پہ حل ہو گا۔ آپ اس کے علمی دلائل دیں گے اور علمی دلائل تب آپ کے قبول ہوں گے، جب آپ اس کتاب کو پڑھیں گے۔ خلطِ مبحث سے پرہیز کریں۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ مولانا عبد الکریم صاحب اس پر اتنے برس پڑے اور کہا کہ اب جواب دو۔ اب گونگے کیوں ہو گئے ہو؟ میں نے اشاروں اشاروں میں سمجھایا، تم نہیں سمجھے۔ اب بتاؤ، کیا بات کر سکتے ہو؟ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ خواہ مخواہ اپنے آپ کو پریشان کرتے ہیں۔ علمی بات علمی ہوتی ہے، فنی بات فنی ہوتی ہے، تربیت کی بات الگ ہوتی ہے۔ ان تینوں کو الگ الگ رکھو، ورنہ پریشان ہو جاؤ گے اور مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہو گا۔ مناظرے کا جو اصول ہے، ان میں جو چیز طے ہو چکی ہو، اس سے آگے پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا۔ اگر کوئی ہٹتا ہے، تو فوراً کہتے ہیں کہ آپ اس سے ہٹ رہے ہیں۔ کیونکہ ورنہ یہ ایک دورِ مسلسل بن جاتا ہے، اس کے بعد آدمی چکراتا جائے گا، کہیں ایک جگہ پہ آ ہی نہیں سکے گا۔ اس لئے ہر چیز کی اپنی اپنی حدود ہیں، ان حدود کے ساتھ بات کرنا چاہئے۔ یہ میں نے ساری باتیں اس لئے عرض کیں کہ اس میں کچھ باتیں ایسی سامنے آ رہی ہیں، ممکن ہے کہ اور حضرات کی رائے اس سے مختلف ہو، ہم اس مسئلہ میں اس وقت نہیں الجھتے، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ علماء ہیں، علماء کو اپنی رائے بیان کرنے کا حق ہے اور جو انہوں نے بیان کیا، وہ اپنے علم کے لحاظ سے بیان فرمایا ہے اور وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوابِ۔ ایسے موقع کے لئے ہوتا ہے۔ علمائے کرام اپنے سارے دلائل دینے کے بعد یہی فرماتے ہیں: وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوابِ۔ یعنی اللّٰہ ہی کو پتا ہے کہ اصل کیا ہے۔ بہر حال! جو صحیح عالم ہوتا ہے، وہ دل سے بات کہتا ہے۔ کیونکہ وہ ڈر رہا ہوتا ہے کہ کہیں میں اپنی طرف سے کوئی زیادتی نہ کر بیٹھوں۔ لہٰذا وہ اس ڈر کو دور کرنے کے لئے یہی کہتا ہے کہ بس اصل تو اللّٰہ پتا کو ہے، مجھے نہیں معلوم، لیکن میں تو اتنا ہی کہہ سکتا تھا۔ اور اگر کوئی کسی کو تبلیغ کرے، تو اس پر کہتے ہیں: ’’وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ‘‘ میرے اوپر تو صرف بات پہنچانا ہے۔ آگے کوئی مانتا ہے یا نہیں مانتا، اس کی اپنی مرضی ہے، اس میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ اگر کوئی مانتا ہے، تو اس کا اپنا فائدہ ہے، نہیں مانتا، تو اس کا اپنا نقصان ہے۔ لہٰذا خواہ مخواہ زبردستی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ان چیزوں کے بارے میں بہت clear اصول ہیں۔ حضرت کا یہ بھی اصول ہے کہ جب تک کوئی مشورہ نہ مانگے، تو خود نہ دو۔ اپنی طرف سے مشورہ دینا یہ ’’آ بیل مجھے مار‘‘ والی بات ہے۔ کیونکہ مشورہ اس کو دو، جو مشورے کا طالب ہے، اگر طالب ہے، تو پھر آپ کے مشورہ کی وقعت بھی ہے۔ اور تبلیغ کرنا ’’وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ‘‘ ہے۔ جتنا حکم ہے، اتنا کر لو۔ ہاں! جو آپ کے مرید ہیں، ان کے اوپر آپ ایک صحیح طریقے کے مطابق سختی بھی کر سکتے ہیں۔ یعنی جو چاہتا ہو کہ میری صحیح معنوں میں اصلاح ہو جائے، اس کو آپ مجاہدہ میں بھی لا سکتے ہیں، آپ اس کو ڈانٹ بھی سکتے ہیں، کیونکہ وہ خود اس مقصد کے لئے آیا ہے، اس نے تو بننا ہے اور آدمی اسی طریقے سے ہی بنتا ہے۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ حضرت کو فکر تھی کہ سٹیج پہ چڑھ کے علماء کے سامنے بول رہا ہے، اس کے اوپر کچھ اثرات آ چکے ہوں گے، تو ان اثرات کو دور کرنے کے لئے ڈانٹ رہے تھے۔ مجھے پتا تھا کہ ڈانٹنا چاہئے تھا، اس کے بغیر کام نہیں ہوتا، تو الحمد للہ! اللّٰہ کا شکر ہے کہ مجھے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

حضرت کے کمرے میں قالین بچھا ہوا تھا، ایک دفعہ میں آ رہا تھا، میں دروازے سے داخل ہوا، تو جوتوں کی جگہ اور قالین کے درمیان تقریباً ایک فٹ خالی جگہ تھی، چونکہ حضرت آخری سرے پہ بیٹھے ہوئے تھے، میں نے چونکہ وضو کیا تھا، تو پیر گھیلے تھے، میں نے پیر قالین پہ رکھا، لیکن حضرت کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں نے زمین پہ پاؤں رکھا ہے۔ حضرت نے زور سے ڈانٹا، مولوی بنے پھرتے ہو، کدھر قدم رکھا ہے؟ میں کھڑا ہو گیا۔ جب قریب ہوا، تو پوچھا: کہاں قدم رکھا؟ میں نے کہا: حضرت! قالین پہ۔ فرمایا: اچھا، اچھا، ٹھیک ہے۔ بہر حال! اگر آپ شیخ کی ڈانٹ نہیں سہہ سکتے، تو پھر تربیت کس کو کہتے ہیں۔ کہتے ہیں: ’’جورِ استاد بہ ز مہرِ پدر‘‘۔ استاد کی سختی باپ کی محبت سے زیادہ بہتر ہے۔ باپ تو محبت میں آپ کو بگاڑ سکتا ہے اور استاد آپ کو سختی سے بناتا ہے۔ استاد کی سختی صرف تعلیم کی حد تک ہے۔ اور جب تربیت کی بات ہوتی ہے، تو پھر سختی کا حق اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ تعلیم کا تعلق صرف ذہن کے ساتھ ہے اور تربیت کا تعلق نفس و قلب کے ساتھ بھی ہے۔ لہٰذا وہاں تو ڈانٹ اور زیادہ ضروری ہو جاتی ہے۔ لیکن ان کو ڈانٹو، جو ڈانٹ کے لئے آتے ہیں اور تیار ہوتے ہیں کہ ہاں! یہ بات صحیح ہے۔ میں اکثر ایک اصول بیان کرتا ہوں کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جو مشائخ کسی کا اکرام کرتے ہیں، شاید وہ ان کے زیادہ قریب ہوں گے، یہ بالکل الٹ ہے۔ جن کا زیادہ اکرام کرتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ قریب ہوں، عین ممکن ہے کہ وہ دور ہوں۔ جن کو ڈانٹتے ہیں، وہ زیادہ قریب ہوتے ہیں، دو وجوہات کی بنا پر، ایک ان کی فکر زیادہ ہوتی ہے کہ کہیں بگڑ نہ جائے، لہٰذا قریب ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کے بارے میں ان کو پتا ہوتا ہے کہ میرے ہیں، کہیں نہیں بھاگیں گے، چاہے میں ڈانٹ بھی دوں۔ اپنائیت والا عنصر درمیان میں پایا جاتا ہے۔ اور جن کے بارے میں یہ خطرہ ہو کہ میں نے اس کو تھوڑی سخت بات کی، تو سیدھا باہر کی راہ لے گا۔ آج کل کے فتنے کے دور میں کسی کو بھگانا ایسا ہے، جیسے کسی کو بھیڑیے کے منہ میں دینا۔ لہٰذا اس کے بارے میں ہم سو بار سوچتے ہیں کہ ان کو بھگائیں یا نہ بھگائیں۔ لہٰذا جن کے بارے میں آپ سوچتے ہوں، وہ قریب نہیں ہیں، بلکہ وہ قریب ہیں، جن کے بارے میں آپ کو سوچنا نہ پڑ رہا ہو۔ چنانچہ یہ بالکل بالعکس معاملہ ہے، یعنی لوگوں کو اس کا پتا نہیں چلتا کہ کون قریب ہے۔ مشائخ نے جن لوگوں کو زیادہ ڈانٹا ہوتا ہے، وہ بعد میں زیادہ بنے ہوتے ہیں۔ مفتی محمد حسن صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک روز حضرت نے اتنا ڈانٹا کہ میرے اوپر دنیا تنگ ہو گئی اور میں اپنے آپ کو بالکل ایک بیکار سمجھنے لگا کہ میں تو نالی کے کیڑے کی طرح ہوں اور یہ میرا جسم تو امت کے لئے ناسور ہے، اپنے بارے میں ایسے خیالات آنے لگے۔ بہت پریشان تھا۔ فرماتے ہیں کہ اتنے میں حضرت کے خادم نیاز آئے اور کہتے ہیں کہ حضرت! آپ کو بلا رہے ہیں۔ میرے پیروں سے زمین نکل گئی کہ یا اللّٰہ! اب کیا ہو گا، پتا نہیں اور کتنا امتحان ہے، بہت ڈرتے ڈرتے سہما سہما، میں اندر چلا گیا، جب اندر گیا، تو حضرت نے مجھے بٹھایا اور فرمایا کہ جو امانت مجھے بزرگوں کی طرف سے پہنچی تھی، میں توکلاً علی اللّٰہ آپ کو دیتا ہوں، آپ کو اجازت دیتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ میرے پیروں سے زمین نکل گئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے، یہ کیا چیز ہے۔ لیکن بہر حال! چیز تو یہی ہے۔

خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو حضرت بہت ڈانٹتے تھے۔ ایک دفعہ کسی کو حضرت نے بہت ڈانٹا اور نکال دیا، جب وہ وضو کر رہے تھے، تو خواجہ صاحب ان کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ ان سے کہتے ہیں: بھائی! سنو، تم اس وقت انتہائی خوش نصیب آدمی ہو کہ حضرت نے آپ کو ڈانٹنے کے لئے منتخب فرمایا۔ یاد رکھو! اس وقت حضرت کی قلبی توجہ آپ کی طرف سو فیصد ہے۔ آپ کہیں آگے پیچھے نہ سوچیں۔ کیونکہ جس کو ڈانٹتے ہیں، تو زبان سے ڈانٹتے ہیں، دل سے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ لہٰذا اس وقت حضرت کی توجہ آپ کی طرف سو فیصد ہے، اس لئے آپ پریشان نہ ہوں۔ ان کو حوصلہ دیا۔ واقعتاً ایسا ہی ہوتا ہے کہ جن کو پیار سے ڈانٹتے ہیں، ان کو بھگانا نہیں ہوتا، ان کو تو سمجھانا ہوتا ہے، ان کی تو صفائی ہو رہی ہوتی ہے۔ جو بھی چیزیں ہو رہی ہوتی ہیں، ان کا یہی مقصد ہوتا ہے۔ بہر حال! یہ ایک نظام ہے، جو چلتا ہے۔ اس میں ہمیں یہ خیال رکھنا چاہئے کہ جو صحیح شیخ ہوتا ہے، جس کو آپ نے شیخ سمجھا ہے، وہ خود اپنی رائے سے کچھ نہیں کر رہا ہوتا، بلکہ اپنے قلبی الہامات کے تحت کرتا ہے۔ کسی کے بارے میں جو الہام ہو جائے، اس کے مطابق کرتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر کوئی اس چیز کو برا سمجھتا ہے تو گویا پورا نظام اس کے سامنے آ جاتا ہے، ایسے لوگ خدانخواستہ اگر آگے پیچھے ہو جائیں، تو راندۂ درگاہ ہو جاتے ہیں، پھر کوئی بھی ان کو نہیں لیتا، کیونکہ نظام تو سارا ایک ہی ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ میں بہت محتاط رہنا چاہئے، انسان کو اپنا مقصود سامنے رکھنا چاہئے کہ میرا مقصود کیا ہے۔ مقصود تو اپنی اصلاح ہے۔ اور اصلاح میں نفس کی اصلاح اصل اصلاح ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں کہ نفس کی اصلاح اصل اصلاح ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس کی وجہ سے دل خراب ہوتا ہے، جب نفس کی اصلاح ہو جائے، تو دل تو بہت جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔ نقشبندی حضرات جنہوں نے دل کی اصلاح کو مقدم کیا ہے، انہوں نے اس کی وجہ یہی بتائی ہے کہ لوگوں میں نفس کی اصلاح کا شوق ختم ہو گیا تھا، اس کے لئے لوگ تیار نہیں تھے، اس لئے شوق کو پیدا کرنا تھا تاکہ لوگ نفس کی اصلاح کے لئے تیار ہو جائیں۔ اس لئے انہوں نے اس کو مقدم کیا۔ ورنہ اصل تو نفس کی اصلاح تھی۔ اس کے بعد تو سارے سلاسل ہی یہی فرماتے ہیں کہ جب نفس کی اصلاح ہو جاتی ہے، تو اس کے بعد دل کی اصلاح کے لئے بہت تھوڑا سا ذکر کافی ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ نہ ہو، تو کرتے رہو گے، مگر نفس اس کو بگاڑتا رہے گا۔ مثلا: گند کے نالے آپ نے بند نہیں کئے، مگر اور جگہوں کو آپ صاف رکھیں، تو کیسے صاف رکھیں گے؟ وہ صاف ہو ہی نہیں سکتیں۔ یہی اصل میں بنیادی بات تھی کہ جسے حضرت نے فرمایا تھا کہ میں انتہا کو ابتدا میں مندرج کرتا ہوں۔ وہ صرف اس مقصد کے لئے تھا۔ لہٰذا حضرت نے ایک مکتوب میں بات بالکل صاف کر دی ہے کہ ایک جذبِ مبتدی ہوتا ہے اور ایک جذبِ منتہی ہوتا ہے۔ اور جذبِ منتہی اصلاحِ نفس کے بعد ہوتا ہے۔ جب جذبِ منتہی اصلاحِ نفس کے بعد ہوا، تو یہ سارے سلسلوں میں یکساں ہو گیا، اس میں کوئی فرق نہیں رہا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ باقی حضرات پہلے سے شوق رکھتے ہیں اور تیار ہیں اور نقشبندی حضرات کو تیار کرنا پڑتا ہے کہ پہلے نفس کی اصلاح کے لئے تیار ہو جاؤ، پھر اس کے بعد وہ کر لو۔ اور نفس کی اصلاح مطلوب ہے اور کسبی ہے اور جذبِ منتہی وہبی ہے۔ گویا جذبِ مبتدی کسبی ہے اور جذبِ منتہی وہبی ہے۔ اور سلوک بھی کسبی ہے۔ آپ کو پتا ہے کہ سارے فیصلے کسب اور اختیاری عمل پر ہوتے ہیں۔ وہبی پر فیصلے نہیں ہوتے۔ وہبی تو ایک عنایت ہے۔ پہلے اپنے آپ کو عنایت کے قابل بنا دو۔

ان کے الطاف شہیدی تو ہیں مائل سب پر

تجھ سے کیا بیر تھا اگر تو کسی قابل ہوتا

یعنی اللّٰہ تعالیٰ آپ کو نوازنا چاہتے ہیں، لیکن تم اپنے آپ کو اس کا اہل تو بنا لو۔ پھر دیکھو کہ اللّٰہ تعالیٰ کتنا نوازتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو نوازے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ