سوال: (سائل نے حضرت سے کوئی فقہی سوال کیا جس پر حضرت نے درج ذیل جواب دیا)
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً ہر موضوع پر کچھ کام کیا، حضرت مفسر بھی تھے، محدث بھی تھے، مفتی بھی تھے۔ انہوں نے ہر فن پر کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن ایک موقع پہ انہوں نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ مجھ سے تصوف کے علاوہ کوئی اور کام نہ لیا جائے، کیونکہ باقی کاموں کے لئے لوگ موجود ہیں، وہ کام کر رہے ہیں لیکن اس کام کے لئے لوگ بہت تھوڑے ہیں۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرا سارا وقت اس پر لگ جائے۔
اندازہ کریں حضرت رحمۃ اللہ علیہ تو دین کے بہت سارے کام کر سکتے تھے لیکن پھر بھی حضرت نے فرمایا کہ مجھے دین کا یہ کام کرنے دیا جائے۔ اسی طرح ہم جیسے لوگ اگر ان کاموں میں لگ جائیں جو دوسرے حضرات کے کرنے کے ہیں اور وہ یہ کام مجھ سے اچھے انداز میں کر سکتے ہیں، تو ہمارا ان کاموں میں لگ جانا مناسب نہیں ہے۔ جیسے فتویٰ دینا مفتی حضرات کا کام ہے، تو اگر میں فتویٰ کے کام شروع کروں تو یہ میرے لئے ٹھیک بھی نہیں اور اگر صحیح جواب بھی دوں تو اس کے لئے مجھے محنت زیادہ کرنی پڑے گی۔ لہذا اگر ہم تصوف سے متعلق ہی کام کریں جس کے لئے بزرگوں نے ہمیں بٹھایا ہے تو زیادہ بہتر ہو گا۔
سوال نمبر 01:
میں اپنے آپ میں یہ مرض دیکھتا ہوں کہ اپنی اصلاحِ نفس سے زیادہ دنیا بدلنے کی سوچ و فکر ہے۔ تو جب یہ سوچ زیادہ بڑھ جاتی ہے تو آپ کے بتائے ہوئے اعمال چھوٹنے لگتے ہیں۔
جواب:
یہ حقیقت ہے کہ شیطان بہکانے کا ماہر ہے اور دو وہ طریقوں سے وار کرتا ہے، پہلے یہ وار کرتا ہے کہ برائی اور گناہ میں مبتلا کرے، مثال کے طور پر معاذ اللہ کسی کو کفر میں مبتلا کرتا ہے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر اس کو بڑے گناہ میں مبتلا کرتا ہے، بڑے گناہ میں اگر مبتلا نہ کر سکے تو پھر چھوٹے گناہوں کی کثرت میں مبتلا کرتا ہے، الغرض کسی نہ کسی گناہ میں اس کو لے آتا ہے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر خیر کے جو کام وہ کر رہا ہے ان کو چھڑاتا ہے، اور ان کو چھڑانے کے لئے اس کے پاس بہت سے طریقے ہیں مثلاً یہ شخص جو فرما رہے ہیں کہ مجھے دنیا کے بدلنے کی سوچ آ جاتی ہے یہ بھی شیطان کا ایک حربہ ہے۔
کیا میں یہاں بیٹھے بیٹھے امریکہ کو بدل سکتا ہوں؟ میں یورپ کو بدل سکتا ہوں؟ تو جو کام میں نہیں کرسکتا وہ مجھ سے کروا رہا ہے، اور جو کام میں کر سکتا ہوں وہ مجھے چھڑا رہا ہے۔ تو شیطان کا یہ کام ہے جس کے شیطان کو طریقے بھی بہت آتے ہیں۔ اگر کسی کو عقل ہو تو وہ اس سے بچ سکتا ہے مثلاً وہ سوچتا ہے کہ جو کام میرے ذمہ ہے میں نے وہ کرنا ہے، جو کام میرے ذمہ نہیں ہے میں اس کے لئے دوسرا کام کیوں چھوڑوں۔ اور ایسا شخص اپنے شیخ سے رابطہ کرے، جیسے اِنہوں نے رابطہ کیا، تو پھر وہ اس کو سنبھال لیں گے۔ لہذا شیطان کے داؤ میں نہیں آنا چاہیے۔
سوال نمبر 02:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک تحقیق پڑھی کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں حضرت نے علمِ حدیث سے ثابت کیا کہ ’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ کَاَنَّکَ تَرَاهُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَاِنَّهٗ يَرَاکَ‘‘۔ یہ نہ تو مراقبات ہیں اور نہ ہی مراقبہ کے درجات ہیں، حضرت کی تحقیق علمِ تصوف سے منطبق لگتی ہے۔ کیونکہ اگر یہ مراقبات ہیں تو پھر مراقبات مقاصد میں شامل ہوئے، حالانکہ مراقبہ تو ذریعہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کوئی جوگی والا مراقبہ سیکھ لے تو اسے محسن نہیں کہہ سکتے کیونکہ احسان مراقبہ کا نام نہیں ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب:
در اصل ’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ کَاَنَّکَ تَرَاهُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَاِنَّهٗ يَرَاکَ‘‘ یہ ایک کیفیت ہے جسےکیفیتِ احسان کہتے ہیں۔کیفیت کی مثال ایسی ہے جیسے: ’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ (ترجمہ: مر جاؤ اس سے پہلے کہ تم مر جاؤ) حالانکہ وہ انسان مرا ہوا تو نہیں ہوتا، بلکہ اس میں احساس دلانا مقصود ھے تاکہ تم کام کر سکو، کیونکہ موت کے بعد انسان کو بہت افسوس ہو گا کہ میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ تو یہ افسوس اس کو اسی وقت ہونا چاہیے، اگر اِس وقت ہو گیا تو وہ توبہ و استغفار کر لے گا اور اس کو فائدہ ہو جائے گا۔
اسی طرح یہ کیفیتِ احسان بھی ہے کہ عبادت ایسے کرو جیسے خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر خدا کو دیکھ نہیں پا رہے ہو، یہ کیفیت تمہیں حاصل نہیں ہے تو کم از کم یہ تو جان لو کہ خدا تمہیں یقیناً دیکھ رہا ہے۔
اب یہ دیکھیں اگر یہ کیفیت ہماری پکی ہو جائے تو کیا ہم گناہ کر سکیں گے؟ پھر گناہ نہیں کر سکیں گے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ بہت اہم کیفیت ہے، اسی کیفیت کو حاصل کرنے کے لئے مراقبات، ذکر اذکار اور اشغال کیے جاتے ہیں۔ تو یہ شغل، ذکر اور مراقبہ اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے ہیں اور جو حاصل ہو رہا ہے وہ ’’کیفیت‘‘ ہے۔ تو کیفیت احسان ایک کیفیت ہے اور مراقبات کیفیت نہیں ہیں۔
سوال نمبر 03:
حضرت جی میری طبیعت کچھ دنوں سے عجیب ہو گئی ہے دل پر بوجھ، اعمال کرنا مشکل۔ دماغ کرنا چاہتا ہے، دل روکتا ہے، سمجھ نہیں آ رہی۔ مہربانی کر کے رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
حضرت تھانوی رحمة الله عليہ کو کسی نے کہا کہ حضرت میرا نماز پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ حضرت نے فرمایا: جب سو فیصد نمبر لینے کا وقت آ گیا تو بھاگتے ہو؟ کیونکہ جب آپ کا جی چاہے گا تو کچھ نمبر تو اس سے کٹ جائیں گے کیونکہ اللہ کی طرف سے یہ چیز آپ کو مل گئی۔ سو نمبر آپ کو تب ملیں گے جب آپ صرف اللہ کے لئے کریں گے۔ جبکہ آپ کا نفس نہیں چاہتا اور آپ کریں گے تو صرف اللہ کے لئے ہو گیا، اپنے مزے کے لئے نہیں ہوا۔ لہٰذا اگر کسی کا جی نہیں چاہتا اور وہ کوئی نیک عمل کرے، کوئی اچھا عمل کرے تو یہی موقع ہے کہ اس میں زیادہ کما سکتا ہے اس وقت ہمت کر کے اس کام کو کرنا چاہیے، پیچھے نہیں ہونا چاہیے۔
سوال نمبر 04:
شیخ صاحب! مجھ میں صبر، تحمل اور برداشت کی بہت کمی ہے، مجھے غصہ بہت جلدی آ جاتا ہے، جس کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں۔ مجھے کوئی ایسا عمل یا مجاہدہ دیں جس سے میری یہ عادت ختم ہو جائے اور مجھ سے کوئی زیادتی کرے تو میں صبر اور تحمل سے کام لوں۔
جواب:
ما شاء اللہ جذبہ بہت اچھا ہے لیکن ہر بیماری کا دو قسم کا علاج ہوتا ہے۔ ایک ہوتا ہے کہ اس بیماری کی کیفیات کو فوری دور کر لو۔ لیکن اصل بیماری کا علاج لمبا چلتا ہے جیسے اگر کسی کو ٹی بی کا مرض ہو تو اس بیماری میں اگر اس کو بخار ہو جائے تو فوری طور پر بخار کے لئے پیراسٹامول دیں گے۔ تو کیا پیراسٹامول سے ٹی بی ختم ہو جائے گی؟ ٹی بی تو ختم نہیں ہو گی لیکن وہ بخار اس وقت ختم ہو سکتا ہے۔ لہذا اس قسم کے غصے کے پیچھے جو مرض ہے جب تک اس کا ازالہ نہیں ہو گا وہ چیزیں باقی رہیں گی۔ البتہ اگر اس دوران غصہ میں آجائے تو فوری طور پر کیا کرنا چاہیے؟
تو فوری طور پر اس کا علاج یہ ہے کسی کو غصہ آجائے تو اگر وہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہے تو لیٹ جائے، پانی پی لے، جگہ بدل لے، سامنے اگر چھوٹا ہے تو اپنے سے ہٹا دے، اگر سامنے بڑا ہے تو اس سے ہٹ جائے۔
بہر حال فوری علاج تو انسان اس طرح کر سکتا ہے لیکن اس کا اصل علاج یہی ہے کہ اگر انسان اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے تو اس سوچ کو ختم کر دے، اسی کو فنا کی کیفیت کہتے ہیں۔ جب فنا کی یہ کیفیت حاصل ہوتی ہے تو پھر اس کے بعد ساری چیزیں ہٹ جاتی ہیں، اس کے لئے محنت کرنی ہے، اس میں ذکر بھی ہے، مجاہدہ بھی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا اس کے بعد یہ مستقل علاج ہو گا۔ لیکن وہ جو فوری علاج ہے وہ تو بہرحال کرنا پڑے گا۔
سوال نمبر 05:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز فرمائے اور صحت عطا فرمائے۔ (آمین) حضرت جی دو مہینے ہونے کو ہیں ملازمت نہیں مل رہی، والدین کی وفات ہو چکی ہے، بزرگوں میں سے ساس ہی ہیں جو اس معاملہ میں پریشان ہیں، کل وہ درود شریف کا ورد کرتے کرتے سو گئیں، خواب میں دیکھا کہ ایک حسین شخص آسمان سے بہت خوبصورت تختی لے کر آتے ہیں اور میری ساس کو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اپنے نام بھیجے ہیں اور آپ کی دعائیں قبول ہو جائیں گی۔ اس خواب میں بشارت تو ہے۔ کیا کچھ پڑھنے کی طرف اشارہ بھی ہے؟
جواب:
تہجد کے وقت اسماء الحسنیٰ کا ورد کریں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے ان کے وسیلے سے دعا مانگا کریں۔
اللہ جل شانہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن