زمانہ طفولیت سے لیکر عمر کے آخری حصے اور وفات کے بعد بھی حضرت صاحب کے عادات و کرامات وغیرہ کے بیان میں اور آپکے متفرق اعمال اور وفات

باب 14 ، درس 46

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زندگی کے حالات بیان ہو رہے ہیں۔ یہ حضرت کے صاحبزادے حضرت مولانا حلیم گل صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بیان فرمائے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:

متن:

شیخ دریا خان چمکنی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ طریقت اختیار کرنے کے اوائل دنوں میں مجھے اپنے گاؤں میں نمبرداری اور ملکی حاصل تھی، لیکن اللّٰہ تعالیٰ کے کرم، احسان و عنایت اور سرور کائنات ﷺ کی مہربانی اور شفقت سے مجھ پر ایک ایسا وقت آیا کہ کچھ عرصہ کے لئے نماز اور تلاوت کلام اللّٰہ شریف کے علاوہ میری زبان پر کوئی دوسری بات نہیں آتی تھی، کچھ عرصہ بعد میں شیخ آدم رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ میری ملاقات ہوئی، میرے دل میں یہ بات آئی کہ ایک دوسرے کے ساتھ باہم قوت آزمائی کریں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ پہلے تم اپنی طاقت اور قوت مجھ پر آزماؤ اور میں کہتا تھا کہ نہیں، پہلے آپ اپنی قوت مجھ پر آزمانے کی کوشش کریں۔ چنانچہ شیخ آدم قدس سرہٗ نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور وہ مجھ پر غالب آ گئے، میں ان کی خدمت جا کر حاضر ہوا، اُنہوں نے مجھے تلقین و ارشاد فرمایا اور خلافت کا اِذن مرحمت فرمایا، لیکن میری خواہش تھی کہ دنیا کی محبت قطعی طور پر میرے دل سے نکل جائے اور اس سے قطع تعلق ہو جائے، لیکن اِن کی مجلس میں ایسی حالت مجھے نصیب نہ ہوئی۔ ایک دِن انہوں نے مجھے فرمایا کہ اے شیخِ دریا! کیا آپ نے شیخ رحمکار کو دیکھا ہے؟ یا یہ فرمایا کہ شیخ رحمکار صاحب کو دیکھ لو۔ میں نے جواب دیا کہ میں نے سنا ہے کہ ایک شخص ہے اس علاقے میں پہاڑوں کے اندر رہتا ہے، اُس کے بعد اُن سے میں رُخصت ہوا اور اپنی جگہ اور مقام کو چلا آیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ شیخ رحمکار باطنی طور پر میرے سامنے ظاہر ہوئے، اُن کے مقابلے میں میری کوئی قوت نہ تھی، چنانچہ میں نے اُن کی جوتیاں اٹھا کر خدمت کے طور پر اُن کے سامنے رکھ دیں۔ اُن کے مرتبہ کی مثال آسمان جیسی تھی اور میرا مرتبہ پستی میں زمین جیسا تھا، پس میرے دل میں اُن کی ملاقات کی محبت بہت زیادہ پیدا ہوئی اور ان کی ملاقات کا میں نے ارادہ کیا۔ جب پہلی بار شیخ صاحب کی ملاقات کا شرف و سعادت مجھے حاصل ہوئی تو ان کو دیکھتے ہی اُن کی محبت میرے دل میں موجزن ہو گئی اور میں ان کا عاشق ہو گیا۔ جب ان کی خدمت میں چند دفعہ آتا جاتا رہا تو آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ کھانا بہت کم کھایا کرو۔ جب میں یوسف خیل کے گاؤں میں پہنچا تو اسی رات میں نے خواب دیکھا کہ میں منبر میں چڑھ کر خطبہ اور تقریر کر رہا ہوں اور پیچ و تاب کھا رہا ہوں کہ اچانک ایک شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یہ خطبہ جناب شیخ المشائخ شیخ رحمکار صاحب کا ہے، تم اس کی انتہاء تک نہیں پہنچ سکتے، جو کچھ تمہاری مراد اور مطلب ہے وہاں تک پڑھ لو۔ جب میں اس خواب کو دیکھنے کے بعد جاگ اٹھا تو میں نے محسوس کیا کہ دنیا کی محبت کلی طور پر میرے دِل سے نکل چکی ہے۔ اس کے بعد میری نظر میں سونا اور چاندی مٹی کے برابر وقعت نہیں رکھتے تھے اور میں نرم و نازک لباس پہننے کی بجائے کھردرا لباس پہننے لگا۔ لیکن ہمارے شیخ صاحب نے ایک وقت مجھے فرمایا کہ تمہارے لئے قبا پہننا مناسب ہے،

تشریح:

اصل میں ایک ہوتا ہے علمی رنگ اور ایک ہوتا ہے خاص تصوف کا رنگ۔ یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ یہ بات مجھے حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے سمجھائی تھی۔ حضرت نے فرمایا تھا کہ ہمارے سلسلہ میں چونکہ علماء حضرات ہیں، جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی عالم تھے، حضرت فقیر محمد صاحب بھی عالم تھے۔ فرمایا: مجھے صحیح تصوف تصوف کے رنگ میں حضرت مہمند بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ نے سیکھایا۔ وہاں جا کر مجھے صحیح تصوف کا پتا چلا۔ یہ بات اتنی آسانی سے سمجھ نہیں آئے گی کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ کیونکہ علمی رنگ میں بعض علمی باتوں پہ اکتفا ہو جاتا ہے۔ جیسے ہم جرمنی میں گئے تھے، میرے ساتھ میرے گھر والے بھی تھے، چونکہ جرمنی میں انگریزی جاننے والے لوگ بھی تھے، جیسے میرے پروفیسر یا میرے colleagues وغیرہ۔ یہ لوگ چونکہ انگریزی زبان جانتے تھے، لہٰذا میرا کام انگریزی میں چل جاتا تھا۔ مجھے جرمن زبان کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں ہوئی۔ میرے گھر والوں کو چونکہ انگریزی نہیں آتی تھی، تو ان کا سارا زور اسی پر تھا، کیونکہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے جرمن زبان مجھ سے زیادہ سیکھی، میں سیکھنے میں پیچھے رہ گیا۔ یہاں بھی تقریباً یہی بات ہے کہ جب کسی کا کام کسی نہ کسی طریقے سے چل سکتا ہو، تو وہ اس سے کام چلا لیتے ہیں۔ لیکن جن کا کام نہیں چلتا، ان کو تو کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ خالص تصوف کا رنگ ان صوفیوں میں ملتا ہے، جو فرضِ عین درجہ کا علم تو جانتے ہیں، لیکن فرضِ کفایہ درجہ کا علم نہ ہو۔ جیسے: حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی چونکہ فرضِ عین درجہ کا علم رکھتے تھے، تو بڑے بڑے علماء ان کے پاس گئے۔ ان سے اپنی تربیت حاصل کی، انہوں نے بھی یہی بات بتائی۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ غیر عالم کے پاس کیوں گئے؟ حضرت نے فرمایا کہ ہاں، ہم عالم تھے، ہمیں پتا تھا کہ ککڑی بھی ہوتی ہے، کیلا بھی ہوتا ہے، سنگترا بھی ہوتا ہے، یہ بھی ہوتا ہے، وہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن کھایا کچھ بھی نہیں تھا۔ حاجی صاحب کے پاس گئے تو حاجی صاحب کو نام کسی چیز کا معلوم نہیں تھا، لیکن سب چیزیں ان کے پاس تھیں۔ کبھی ہمیں کیلے دے رہے ہیں، کبھی مالٹا دے رہے ہیں، کبھی ککڑی دے رہے ہیں۔ ہمیں پتا چلتا کہ کون سی چیز دے رہے ہیں، لیکن چیزیں وہی دے رہے تھے۔ بظاہر تو یہ بات ایک مذاق سی لگتی ہے، لیکن یہ بالکل صحیح بات ہے۔ احادیث شریفہ میں جن چیزوں کا ذکر آیا ہے جیسے: صبر ہے، شکر ہے، تقویٰ ہے، اخلاص ہے، تواضع ہے۔ یہ صرف نام تو نہیں ہیں، ان کے پیچھے پوری ایک حقیقت ہے، صبر کی اپنی ایک حقیقت ہے، شکر کی اپنی حقیقت ہے، تقویٰ کی اپنی حقیقت ہے۔ اگر میں صرف نام جان لوں، تو اس کے ساتھ حقیقت حاصل نہیں ہو گی۔ نام جاننا کافی نہیں ہے۔ اس کے پیچھے جو حقیقت ہے، وہ پانی چاہئے۔ جیسے: اگر میں نے اخلاص حاصل نہیں کیا، تو میں اخلاص کا نام لے کر کیا کروں گا۔ یہ تو اعمالِ قلبی (دل کے اعمال) ہیں۔ حضرت نے جو بات فرمائی ہے، اس سے مقصد ککڑی وغیرہ نہیں تھا، بلکہ صبر، شکر، تقویٰ، اخلاص، تواضع، یہ چیزیں مراد تھیں۔ حضرت کو پتا تھا کہ یہ چیزیں ہیں، لیکن ملیں حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے۔ اور حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو علمی طور پہ قرآن کی آیتیں شاید اتنی معلوم نہ ہوں، احادیث شریفہ اتنی زیادہ معلوم نہ ہوں، لیکن چیزیں ان کے پاس تھیں۔

حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ خود عالم تھے، لیکن ان پہ تصوف کا غلبہ تھا، تصوف آگے تھا۔ جیسے: امام ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ صوفی تھے، لیکن ان کا علم غالب تھا۔ اور حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ مفتی تھے، لیکن ان پہ تصوف غالب تھا۔ ایسا ہوتا ہے کہ بعض حضرات عالم ہوتے ہیں، ان پہ تصوف غالب ہوتا ہے، کوئی صوفی ہوتا ہے، لیکن ان پہ علم غالب ہوتا ہے۔ یہاں پر بھی یہی کہا گیا ہے کہ حضرت شیخ دریا خان چمکنی رحمۃ اللّٰہ علیہ پہ اللّٰہ پاک نے بڑی مہربانی فرمائی تھی، روحانیت میں اگلے مقام پر تھے۔ اور گزشتہ بزرگوں میں یہ بات تھی۔ بلکہ میں نے اپنی زندگی میں بھی اس طرح کے ایک بزرگ کو دیکھا ہے، وہ فرمایا کرتے کہ یہاں مجھ سے لو یا دو۔ دو باتیں ہیں، اگر دے نہیں سکتے، تو پھر لو۔ بہر حال! ایسے حضرات ہوا کرتے تھے، جو مطلب کے لوگ ہوتے تھے، ان میں تکلف نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے ہاں تکلف ہے۔ ہم خود کو کہتے ہیں حقیر پُر تکسیر، مگر دل میں اپنے آپ کو پتا نہیں، کیا سمجھتے ہیں۔ ان کے ہاں تکلف نہیں ہوتا تھا، بالکل صاف صاف باتیں ہوتی تھیں۔ ایک دفعہ کچھ لوگوں نے مجھ پہ الزام لگایا تھا کہ یہ بے ادب ہے، ادب نہیں کرتا۔ میں ان کو کیا جواب دے سکتا تھا۔ حضرت مفتی مختار الدین شاہ صاحب دامت برکاتھم تک بات پہنچ گئی، حضرت نے میری طرف سے فرمایا کہ ان کو بے ادب نہ کہو، پٹھان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ آپ لوگوں کی طرح اتنا زیادہ تکلف نہیں جانتے۔ جو وہ کہتا ہے، وہ اس طرح ہے بھی۔ اور کہا کہ میرے ساتھ بھی یہ مسئلہ ہے۔ جیسے: صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کتنے بڑے بزرگ ہیں، لیکن میں ان کو صوفی صاحب کہتا ہوں۔ کیا آپ یہ کہیں گے کہ میں بے ادب ہوں۔ چنانچہ بعض حضرات ایسے ہیں، جو زبان کے اتنے نہیں ہوتے، لیکن ان کو حقیقت حاصل ہوتی ہے۔ اور ان بزرگوں میں بھی تکلف نہیں تھا۔ جیسے یہاں پنجہ آزمائی کا ذکر ہے۔ کیا کبھی بزرگ آپس میں پنجہ آزمائی کرتے ہیں؟ در اصل پنجہ آزمائی کی بات نہیں تھی، اصل میں روحانیت کا تقابل تھا، لینا تھا یا دینا تھا، دونوں میں سے ایک کرنا تھا۔ اور یہ پنجہ آزمائی اسی لئے تھی کہ دینا ہے یا لینا ہے۔ یہ صرف ان کے ساتھ نہیں ہوا۔ سید احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ اور ہمارے سلسلے کے بزرگ حضرت شاہ عبد الرحیم ولایتی رحمۃ اللّٰہ علیہ جو چشتی بزرگ تھے، ان کا بھی اس طرح کا ایک واقعہ ہے۔ سید احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ جب ان کے علاقہ میں گئے، تو ان حضرات نے باقاعدہ روحانیت کا آپس میں تقابل کیا تھا۔ ارواحِ ثلثہ میں یہ واقعہ لکھا ہوا ہے کہ کمرہ تھا، جس کے دو دروازے تھے، ایک طرف سے سید صاحب داخل ہوئے، دوسری طرف سے حضرت شاہ صاحب داخل ہوئے اور دروازے بند کر دئے۔ جب اس سے نکلے، تو حضرت سید صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی نسبت ہنسنے کی تھی اور حضرت شاہ صاحب کی نسبت رونے کی تھی۔ جیسے عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام کا معاملہ تھا۔ چنانچہ جب باہر آ رہے تھے، تو سید صاحب رو رہے تھے اور شاہ صاحب ہنس رہے تھے۔ گویا دونوں کی نسبت ایک دوسرے کی طرف منتقل ہو گئی۔ انہوں نے ان کو دیا، انہوں نے ان کو دیا۔ گویا برابر کا معاملہ تھا۔ پھر دوبارہ اندر چلے گئے اور کافی دیر اندر رہے، پھر جب باہر آئے، تو سید صاحب اپنے حال پر تھے، ان کو کچھ بھی فرق نہیں پڑا تھا اور شاہ صاحب ہنس رہے تھے۔ گویا ان کی نسبت غالب آ گئی۔ جب ان کی نسبت غالب آ گئی، تو شاہ صاحب نے ان سے باقاعدہ بیعت کی۔ حالانکہ خود شیخُ المشائخ تھے۔ لیکن باقاعدہ بیعت کی اور حضرت سے استفادہ کیا۔ حضرت نے پھر ان کو اپنی طرف سے اجازت عنایت فرمائی۔ ہمارے پاس جو نقشبندی سلسلہ ہے، اس کا ایک source یہ بھی ہے۔ سید احمد شہید صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ چونکہ ہمارے سلسلہ میں تھے، لہٰذا ہمارے سلسلہ میں نقشبدیت آ گئی۔

ایسا ہوا کہ سید صاحب جن بزرگ کے خلیفہ تھے، وہ فوت ہو گئے تھے، ان کے صاحبزادگان سجادہ نشین تھے۔ سید صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ تو خالص توحید بیان کرتے تھے، جیسے ہمارے بزرگوں کا رنگ ہے۔ مگر صاحبزادگان کا یہ مزاج نہیں تھا۔ سجادہ نشینوں کے کہنے کی وجہ سے سید صاحب کے پاس بیٹھنے والے سارے چلے گئے، صرف چند لوگ رہ گئے۔ وہاں ایک حاجی صاحب بھی تھے، جن کو پاجی کہتے تھے۔ جو چند لوگ بیٹھے تھے، انہوں نے ان کو بھی کہہ دیا کہ آپ بھی چلے جاؤ، ایک پاجی کے ساتھ کیوں بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا: آپ کا شیخ بھی ہمیں کہہ دے کہ چلے جاؤ۔ ہم نہیں جائیں گے۔ اگر اُن کا شیخ بھی آ جائے اور وہ بھی کہہ دے، پھر بھی نہیں جائیں گے۔ اور اُن کا شیخ آ جائے، پھر بھی ہم نہیں جائیں گے۔ حضرت نے کہا: بس اتنا کافی ہے۔ بس نسبت نسبت کی بات ہے۔ یہاں بھی یہ فرمایا کہ ہم نے باقاعدہ قوت آزمائی کی اور وہ مجھ پر غالب آ گیا۔ جب غالب آ گیا، تو چونکہ لڑائی تو تھی نہیں، دونوں طرف اخلاص تھا، لہٰذا وہ ارشاد کے لئے باقاعدہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر انہوں نے تلقین و ارشاد بھی فرما دیا اور جب تکمیل ہو گئی، تو خلافت بھی مرحمت فرما دی۔ لیکن ایک چیز ان کو محسوس ہوتی کہ دنیا کی محبت پوری طرح نکلی نہیں ہے، کوئی مسئلہ ہے۔ چونکہ یہ دکان داری تو تھی نہیں۔ لہٰذا حضرت آدم بنوری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے خود ان سے فرمایا کہ کیا تو نے شیخ رحمکار کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! مجھے اندازہ ہے کہ ان پہاڑوں میں اس طرح کے کوئی صاحب ہیں۔ اس کے بعد اذن ہو گیا کہ ان کے پاس چلے جائیں۔ کہتے ہیں کہ میں ادھر سے چلا آیا اور اپنی جگہ پہ رہا۔ اس کے بعد حضرت شیخ رحمکار رحمۃ اللّٰہ علیہ باطنی طور پر مجھ پر ظاہر ہوئے۔ باطنی طور پر کیسے ظاہر ہوئے؟ اصل میں بزرگوں کی روحانیت ہوتی ہے، وہ روحانیت ہی اصل میں کام کرتی ہے۔ اور پھر آدمی کو اللّٰہ تعالیٰ ہی استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً: میرے دل میں آپ کے لئے یہ ڈالے کہ آپ کو یہ بات بتاؤں۔ تو میں آپ کو بتانے کا ذریعہ بن گیا، جس میں میں خود بھی شامل ہوا، میرا ارادہ بھی شامل ہوا، لیکن اصل ارادہ اللّٰہ تعالیٰ کا ہے کہ اللّٰہ پاک نے میرے اندر یہ بات ڈالی کہ میں آپ کو فلاں بات بتاؤں۔ یہ تو براہِ راست بتانا ہوا۔ ایک یہ ہے کہ میری روحانیت کو (اللّٰہ تعالیٰ نصیب فرمائے) براہ راست آپ تک پہنچا دے، جس میں مجھے پتا بھی نہ چلے۔ کیونکہ کرتا، تو اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہ چاہے صورتاً ظاہر ہو جائے، خواب میں آ جائے، یا کچھ اور ہو جائے، وہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنا نظام ہے، لیکن روحانیت استعمال ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگ سورج کی طرح ہوتے ہیں، جیسے سورج کو پتا نہیں ہوتا کہ میں کس کس کے لئے استعمال ہو رہا ہوں، لیکن سب کے لئے استعمال ہو رہا ہوتا ہے، اسی طرح اللّٰہ پاک بعض لوگوں کو اتنا فیاض بنا دیتے ہیں، ان کا فیض اتنا پھیلا دیتے ہیں کہ ان سے براہِ راست لینے والے بھی ہوتے ہیں اور ان کے علاوہ دوسرے راستوں سے بھی اللّٰہ تعالیٰ ان کے فیض کو پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ قطبِ ارشاد اور قطبِ مدار اسی طرح ہوتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کی روحانیت کو استعمال فرما رہے ہوتے ہیں۔ بزرگوں کے بہت سارے واقعات کتابوں میں ملتے ہیں، جنہیں پڑھ کر لوگ پریشان ہو جاتے ہیں، حالانکہ اگر کوئی اس چیز کو جانتا ہو، تو کوئی پریشانی کی بات نہیں ہوتی کہ یہ کیسے ہوا۔ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا نظام ہے، کسی کو بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ اس کو معلوم بھی ہو۔ کبھی کبھار معلوم بھی ہو جاتا ہے اور کبھی معلوم بھی نہیں ہوتا۔ چنانچہ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ روحانی طور پر ان پر ظاہر ہوئے۔ یہ حلیمی صاحب کے ساتھ بھی ہوا تھا، حلیمی صاحب نے خود مجھے اپنا واقعہ بتایا تھا، حضرت وزیرستان تشریف لے گئے تھے، وزیرستان میں حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ایک خلیفہ تھے، حضرت مولانا عبدالحمید ہربزی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔ کافی محبوب خلفاء میں سے تھے، ایسے محبوب تھے کہ حضرت ان کے لئے باقاعدہ ٹکٹ بھیجتے تھے کہ میرے پاس آ جاؤ۔ حلیمی صاحب فرماتے ہیں کہ میں سرکاری ڈیوٹی پہ وزیرستان گیا، تو وہاں ایک مسجد میں کسی طاق میں تسبیح پڑی تھی، میں نے وہ تسبیح اٹھا لی، اب وہ تسبیح میرے ہاتھ سے جا نہیں رہی تھی، قابو ہو گئی۔ میں حیران ہو گا۔ میں نے لوگوں نے پوچھا: یہ تسبیح کس کی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ حضرت عبد الحمید (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی ہے۔ میں نے کہا: مجھے ان کے پاس لے چلو۔ کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس چلا گیا۔ حضرت ما شاء اللّٰہ بہت خوش ہوئے اور پھر میرے لئے بہت لمبی دعا کی اور یہ فرمایا: یا اللّٰہ! جو تو نے مجھے عطا فرمایا، میں نے ان کو دے دیا۔ جو لوگ وہاں موجود تھے، سب آ کر میرے ساتھ مصافحہ کرنے لگے اور میرے ہاتھ چومنے لگے۔ میں نے کہا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت فرما رہے ہیں۔ اس کے بعد پھر میں وہاں سے چلا آیا۔ فرمایا کہ بعد میں میں نے مولانا فقیر محمد صاحب سے پوچھا تھا، جن کی تربیت میں تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ انہوں نے اجازت دی تھی، لیکن آپ کو بتایا نہیں۔ اور فرمایا کہ اب آپ کو مدینہ منورہ سے اجازت آئے گی۔ بہر حال! حضرت کی تسبیح میں روحانیت ہی تو تھی، اس نے پکڑ لیا اور پہنچا دیا۔ روحانیت کے مختلف رنگ ہوتے ہیں، ان میں سے یہ بھی ایک رنگ ہے۔

متن:

چنانچہ میں نے اُن کی جوتیاں اٹھا کر خدمت کے طور پر اُن کے سامنے رکھ دیں۔ (یہ سارا روحانی طور پر ہو رہا ہے) اُن کے مرتبہ کی مثال آسمان جیسی تھی اور میرا مرتبہ پستی میں زمین جیسا تھا۔

تشریح:

یعنی ان کی روحانیت مجھ پر اتنی کھل گئی کہ میں اس کی تاب نہیں لا سکا اور دیکھ رہا تھا کہ وہ تو بہت اونچے ہیں۔

متن:

پس میرے دل میں اُن کی ملاقات کی محبت بہت زیادہ پیدا ہوئی اور ان کی ملاقات کا میں نے ارادہ کیا۔

تشریح:

یہ سارا کچھ روحانی طور پر ہو رہا ہے، کیونکہ اس سے پہلے ملاقات تو نہیں ہوئی تھی۔

متن:

جب پہلی بار شیخ صاحب کی ملاقات کا شرف و سعادت مجھے حاصل ہوئی تو ان کو دیکھتے ہی اُن کی محبت میرے دل میں موجزن ہو گئی اور میں ان کا عاشق ہو گیا۔

تشریح:

حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک بات ارشاد فرمائی ہے۔ بہت بڑی بات ہے، اللّٰہ تعالیٰ نصیب فرمائے۔ حضرت چونکہ اس دور کے مجدد تھے، لہٰذا حضرت نے بعض اہم باتیں بہت سادہ زبان میں بیان فرمائی ہیں۔ حضرت نے فرمایا: کچھ لوگ اخیار ہوتے ہیں۔ اخیار وہ لوگ ہوتے ہیں، جو محنت کرتے ہیں، علم حاصل کرتے ہیں، پھر قوتِ ارادی کے ذریعے سے اس علم پر عمل کرتے ہیں۔ مثلاً: نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، حج کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ معاملات درست رکھتے ہیں، معاشرت ٹھیک رکھتے ہیں۔ گویا کہ نفس کے ساتھ ہر وقت ان کی لڑائی ہوتی ہے۔ کیونکہ نفس کرنے نہیں دیتا اور یہ کرتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ بھی واصلین ہوتے ہیں، لیکن کم تعداد میں ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایسا کرنا بڑا مشکل ہے۔ فرمایا: اس کے مقابلہ میں وہ لوگ نسبتاً زیادہ فائدہ میں رہتے ہیں، جو کسی شیخ کا ہاتھ پکڑ لیں، جس کی وجہ سے دو چیزیں ان کو مفت میں حاصل ہو جاتی ہیں۔ ایک شیخ کا تجربہ اور دوسرا شیخ کے سلسلے کی برکت۔ البتہ قوتِ ارادی کا سلسلہ اب بھی موجود ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کی قوتِ ارادی صرف اس میں خرچ ہوتی ہے کہ ہم نے شیخ کی بات ماننی ہے، اس کو نہیں چھوڑنا، ہم نے ان کے ساتھ رہنا ہے۔ چاہے نفس کے اوپر کتنا ہی شاق گزرے، یہ کہتے ہیں کہ باقی باتیں ایک طرف، لیکن یہ معاملہ یہاں نہیں چلے گا۔ ایسے لوگوں کو ابرار کہتے ہیں۔ ابرار حضرات اخیار کے مقابلہ میں نسبتاً زیادہ تیز رفتار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ کا تجربہ اور شیخ کے سلسلے کی برکت، جو ان کے ساتھ ہے، وہ پہلے والوں کے ساتھ نہیں ہے۔ لہٰذا شیخ ان کو جو بھی کام کرواتے ہیں، وہ نسبتاً آسان طریقے سے کروا دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کا تجربہ ہے، جس سے ان کو پتا ہوتا ہے کہ کس طرح کرنا ہے۔ اور سلسلہ کی برکت بھی ہوتی ہے، لہٰذا اس کا راستہ بہت آسانی کے ساتھ طے ہوتا ہے۔ یہ دو چیزیں ان کو extra حاصل ہوتی ہیں۔

حضرت نے فرمایا کہ تیسری قسم کے لوگ عشاق ہوتے ہیں، جو اپنے شیخ کے عاشق ہوتے ہیں۔ ان کا مرتبہ سب سے تیزی سے بڑھتا ہے۔ کیونکہ ان کو قوتِ ارادی کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ جو کسی کا عاشق ہو، وہ زبردستی اپنے آپ کو اس کی بات پہ عمل نہیں کروائے گا، اس کا دل خود چاہے گا کہ میں اس کی بات پہ عمل کروں۔ بلکہ اس سے روکنا مشکل ہو جائے گا۔ ایسا آدمی بڑا خوش نصیب ہوتا ہے، یہ بالکل پروا نہیں کرتا۔ ابھی حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ایک بات سامنے آئی، حضرت نے بڑی عجیب بات فرمائی، تقریباً یہی بات ہے، لیکن انہوں نے اپنے رنگ میں فرمایا ہے۔ جیسے ان حضرات کا اپنا اپنا رنگ ہوتا ہے۔ فرمایا کہ جو مرید فنا فی الشیخ ہوتا ہے، وہ اگر شیخ کی صفات میں فنا ہے، تو وہ ایک مستقل چیز نہیں ہے، مثلاً: اس کا شیخ عالم ہے اور یہ علم کی بہت قدر کرتا ہے، علم کی وجہ سے اس سے متاثر ہے۔ دوسرے آدمی کا شیخ بہت ہی زیادہ شفیق ہے، اس کی شفقت کی وجہ سے اس سے متاثر ہے۔ کسی کا شیخ بہت زیادہ عاجزی کرتا ہے، تو یہ عاجزی کی وجہ سے اس سے متاثر ہے۔ الغرض! شیخ کی کوئی بھی ایسی صفت ہے، جس کی وجہ سے وہ اس سے متاثر ہے۔ فرمایا: یہ صرف اس صفت میں فنا ہے، شیخ میں فنا نہیں ہے، اس کی یہ صفت کہیں اور مل جائے گی، تو وہ اور جگہ چلا جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی وقت اس پہ دوسری صفت غالب آ گئی، تو عین ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے وہ شیخ کو چھوڑ دے۔ فرمایا: یہ مستقل نہیں ہے، یہ شیخ میں فانی نہیں ہے، صرف صفات میں فانی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے بعض حضرات فنا فی اللّٰہ نہیں ہوتے، صرف فنا فی الصفات ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو فنا فی الشیخ ہو، ضروری نہیں کہ وہ شیخ میں فانی ہو، ممکن ہے کہ اس کی کسی صفت میں فانی ہو۔ آگے فرمایا: اصل فانی وہ ہوتا ہے، جو شیخ کی ذات میں فانی ہوتا ہے۔ یہ کسی حالت میں بھی شیخ کو نہیں چھوڑتا، چاہے دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے۔ جیسے ابھی میں نے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مثال دی ہے کہ سجادہ نشین نے حاجی کو پاجی کہا، تو لوگ چلے گئے۔ مگر وہ نہیں گئے جو پکے عاشق تھے، ذات میں عاشق تھے، ان پر کوئی اور بات چلی ہی نہیں۔ چنانچہ شیخ کے ساتھ جو عشق ہے، وہی اصل ہے، وہی کامیاب ہے۔ کیونکہ وہ کسی آزمائش میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ جیسے ایک بزرگ نے باقاعدہ امتحان لیا تھا، انہوں نے کہا کہ بہت میرے مرید ہو گئے، میں اتنے مریدوں کو برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ میں نے حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مواعظ میں پڑھا ہے۔ چنانچہ اپنے مریدوں سے کہا کہ فلاں جگہ جمع ہو جاؤ، سب جمع ہو گئے، تو اعلان کیا کہ کون ہے، جو میرے لئے جان دینے کے لئے تیار ہے؟ ایک آدمی اٹھا، اس کو بالا خانہ کی سیڑھوں پہ چڑھایا، تھوڑی دیر کے بعد پرنالے سے خون آنے لگا۔ پھر کہا کہ کون ہے، جو میرے لئے جان دینا چاہتا ہے؟ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا۔ وہ بھی اوپر چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پرنالے سے خون آنے لگا۔ پھر فرمایا اور کون ہے، جو میرے لئے جان دے گا؟ ایک اور آدمی اٹھا اور چل پڑا، لیکن گر گیا، چیخ مار کے بیہوش ہو گیا۔ اس کے بعد پھر کوئی نہیں اٹھا۔ کافی دیر تک حضرت فرماتے رہے کہ ہے کوئی؟ لیکن کوئی نہیں اٹھا۔ اخیر میں فرمایا: بس ٹھیک ہے۔ اوپر والوں کو بلا لو۔ جب وہ اوپر سے نیچے آئے، تو ان کے ہاتھ میں بکرے کی سریاں تھیں۔ گویا بکروں کو ذبح کیا گیا تھا۔ یہ امتحان تھا۔ فرمایا: یہ ڈھائی میرے مرید ہیں۔ باقی چلے جاؤ۔ میرے پاس نہیں آؤ۔ ڈھائی اس لئے کہ ایک اگرچہ بیہوش ہو گیا، لیکن اٹھا تو تھا، اس نے کوشش تو کی۔ فرمایا: باقیوں کا میں ذمہ دار نہیں ہوں، چلے جاؤ۔ اگر دیکھا جائے، تو یہ دو باتیں تقریباً ایک ہی ہیں۔ حاجی صاحب والی بات بھی یہی تھی کہ آزمائش میں فیل ہو گئے، خود ہی چلے گئے۔ یہاں خود نہیں گئے، نکال دیئے گئے، لیکن بات تو ایک ہی تھی۔ کیونکہ اصل عاشق نہیں تھے۔ یہاں بھی یہی فرمایا کہ حضرت نے فرمایا کہ ’’میں ان کا عاشق ہو گیا۔‘‘ سبحان اللّٰہ! کیا خوش نصیب تھے۔ آگے فرمایا:

متن:

جب ان کی خدمت میں چند دفعہ آتا جاتا رہا تو آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ کھانا بہت کم کھایا کرو۔

تشریح:

یہ حضرت کا خصوصی فیض تھا۔ در اصل نفس کا مجاہدہ بہت مشکل ہوتا ہے۔ بعض لوگ ذکر اذکار کو کافی سمجھ لیتے ہیں، جس سے کچھ چیزیں رہ جاتی ہیں۔ اور یہی چیز رہ جاتی ہے۔ یہ میں اکثر ذکر کرتا ہوں کہ لوگ مجاہدہ کرنا پسند نہیں کرتے۔ ذکر اذکار میں کمی نہیں ہے، ذکر بہت ہوتا ہے، قرآن بہت پڑھا جاتا ہے۔

متن:

جب میں یوسف خیل کے گاؤں میں پہنچا تو اسی رات میں نے خواب دیکھا کہ میں منبر میں چڑھ کر خطبہ اور تقریر کر رہا ہوں اور پیچ و تاب کھا رہا ہوں کہ اچانک ایک شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یہ خطبہ جناب شیخ المشائخ شیخ رحمکار صاحب کا ہے، تم اس کی انتہاء تک نہیں پہنچ سکتے، جو کچھ تمہاری مراد اور مطلب ہے وہاں تک پڑھ لو۔ جب میں اس خواب کو دیکھنے کے بعد جاگ اٹھا تو میں نے محسوس کیا کہ دنیا کی محبت کلی طور پر میرے دِل سے نکل چکی ہے۔ اس کے بعد میری نظر میں سونا اور چاندی مٹی کے برابر وقعت نہیں رکھتے تھے۔

تشریح:

یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ فرماتے ہیں ’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ ’’مر جاؤ اس سے پہلے کہ تم مر جاؤ‘‘۔ موت کے وقت آپ کو اپنے مال کی کیا حیثیت نظر آئے گی۔ کوئی فائدہ نہیں ہو گا آپ کو۔ فیصل آباد کے ایک تبلیغی بزرگ بیان میں فرما رہے تھے کہ میرے والد صاحب بہت پڑھے لکھے تھے، بڑی ڈگریاں تھیں۔ جب ان کی موت کا وقت آیا تو مجھے فرمایا: بیٹا! میری ڈگریاں لے آؤ۔ میں حیران ہو گیا کہ اس وقت ان کو ڈگریوں کی کیا سوجی! ڈگریاں میں نے ان کے ہاتھ میں تھما دیں، وہ رول تھیں، ان کو کھول کے دیکھا، پھر بند کیا اور پھر مجھے دیکھنے لگے اور کہا: لو بیٹا، اب یہ میرے کسی کام کی نہیں ہیں۔ حضرت نے گویا کہ ان کو مشاہدہ کرا دیا کہ ان چیزوں کے ساتھ دل نہیں لگانا چاہئے، ایسے ہی چھوڑ دیتی ہیں سب کو۔ پس ’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ والا منظر اگر کسی کو پہلے نصیب ہو جائے تو وہ خوش قسمت ہے، ہو گا تو ایسے ہی، چاہے آپ مانیں یا نہ مانیں۔ سب کچھ چھوڑ کے جانا پڑے گا، اس وقت بے شک آپ کروڑ کے مالک ہیں، اربوں کے مالک ہیں، چاہے آپ کے پاس سونے اور چاندی کے ڈھیر ہیں، آپ کو کوئی فائدہ نہیں۔ سب کچھ چھوڑ کے جانا پڑے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ موت سے پہلے یہ حالت ہو جائے کہ آپ کا دل اس میں نہ رہے، دل سے دنیا کی محبت نکل جائے۔

متن:

اور میں نرم و نازک لباس پہننے کی بجائے کھردرا لباس پہننے لگا۔ لیکن ہمارے شیخ صاحب نے ایک وقت مجھے فرمایا کہ تمہارے لئے قبا پہننا مناسب ہے، اگرچہ اس وقت حضرت صاحب کی بات میرے دل کو اچھی نہ لگی لیکن کچھ عرصے کے بعد اُن کی بات نے میرے دل پر اثر کیا اور قبا پوشی اختیار کی اور میں سمجھ گیا کہ آپ کو میرے کام کے بارے میں علم تھا اور مجھے کوئی علم اس کے بارے میں نہ تھا اور اسی وقت میں سمجھ گیا کہ اُن کی کوئی بات حکمت سے خالی نہیں تھی۔

دیگر:

اسی دریا خان سے روایت ہے کہ ایک دن میں نے حضرت شیخ صاحب قدس سرہٗ کے سامنے عرض کی کہ اے حضرت صاحب! آپ کے پیر صاحب کون ہیں؟ حضرت صاحب! آپ کے پیر صاحب کون ہیں؟ انہوں نے جواب فرمایا کہ سُن لیجیے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا ایک بندہ تھا، ایک دن اس کو ہاتف نے آواز دی کہ کیا تم دنیا کی بادشاہت قبول کرتے ہو یا میرا بندہ ہونا تمہیں پسند ہے؟ تو اللّٰہ تعالیٰ کے اس بندے نے عرض کی کہ اے میرے خدا! میں نے تمہارا بندہ ہونا قبول کیا اور بادشاہی سے منہ موڑتا ہوں اور بادشاہی کی مجھے کوئی خواہش نہیں۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ حضرت شیخ المشائخ نے بادشاہت کرنے سے منہ موڑ کر اللّٰہ تعالیٰ کی بندگی قبول کی تھی۔

تشریح:

حضرت کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ کیونکہ جیسے انبیاء کرام کی تربیت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے، اسی طرح اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت کی تربیت کچھ ایسی ہی فرمائی تھی۔ ان کے والد حضرت بہادر بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے وقت کے شیخ المشائخ تھے، لیکن وہ خود ان کو دیکھ کے حیران ہوتے تھے، کیونکہ بچپن میں رمضان میں دن کے وقت ماں کا دودھ نہیں پیتے تھے، شام کے وقت پیتے تھے۔ ان کے والد نے بتایا کہ اس سے گھبراؤ نہیں، اصل میں اس کا روزہ ہوتا ہے، اس وجہ سے اس وقت یہ دودھ نہیں پیتا۔ چنانچہ بعض بزرگوں کو اللّٰہ تعالیٰ نے دنیا میں ہی ایسا بنایا ہوتا ہے، اس پہ کوئی اعتراض نہ کرے کیونکہ انبیاء کی شان بھی یہی ہوتی ہے، اس پہ آدمی کیا کہے گا۔ انبیاء کی تربیت بھی تو اللّٰہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ نبوت کا سلسلہ نہیں چل رہا، وہ آپ ﷺ پہ ختم ہو گیا۔ لیکن بہرحال تربیت کا نظام تو موجود ہے، وہ تو ختم نہیں ہوا۔ جو مادر زاد ولی ہوتے ہیں ان کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ یا سلطان باھو رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے۔

متن:

دیگر:

میرے محترم استاد صاحب روایت فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت شیخ صاحب اپنے اہل خانہ سے ہنسی خوشی باتیں فرما رہے تھے آپ کی اہلیہ صاحبہ نے آپ سے استدعا کی کہ گرد و نواح کے لوگ آپ کی نظرِ کیمیا اثر سے فیوض پاتے ہیں اور انوار و لطائف سے وہ منور ہوتے ہیں اور اپنی مراد پا لیتے ہیں اور ہمارے فرزند اور اولاد ابھی تک محروم ہیں، اگر ان پر بھی مہربانی و لطف و کرم کی نظر فرمائی جائے تو میرے دل کا بوجھ ختم ہو جائے گا (گویا انہوں نے بھی دنیا کی چیز نہیں مانگی۔) اور ان کو بھی شرف حاصل ہو جائے گا۔ ہمارے شیخ صاحب نے ارشاد فرمایا کہ ہر درخت اپنے وقت اور موسم پر پھولوں اور میوہ سے بار آور ہوتا ہے۔ مگر شیخ صاحب کی اہلیہ نے اپنے فرزندوں اور بچوں کی محبت اور شفقت کی وجہ سے پھر التماس کیا کہ ازراہِ عنایت توجہ کی ایک نظر فرما دیجیے، تاکہ میرے بچے آپ کی نظر کرم سے مشرف ہو جائیں اور میرے دل سے غم دور ہو جائے۔ حضرت شیخ صاحب نے ارشاد فرمایا کہ جب تو اُس مقررہ وقت تک انتظار نہیں کر سکتی اور اللّٰہ تعالیٰ کی تقدیر کو نہیں دیکھتی تو کل جس وقت میں مسجد سے گھر آنے لگوں تو اِن کو راستے میں کھڑا کر دینا تاکہ تقدیر کے اسرار تم پر آشکارا ہو جائیں۔ جب وہ رات گزر گئی تو اگلے روز اہلیہ صاحبہ نے بعد از نماز اشراق اپنے بچوں کو خادمہ کے حوالے کر کے راستے میں کھڑا کر دیا۔ جب حضرت شیخ صاحب نے اشراق کی نماز ادا کی، مسجد سے روانہ ہو کر زمین پر نظریں جمائے گھر تشریف لا رہے تھے، جب گھر کے نزدیک پہنچے تو آپ کے فرزند وہاں سے چلے گئے تھے (کیونکہ بچے تھے، بچے بچے ہوتے ہیں) حضرت شیخ صاحب نے جب آنکھ اٹھا کر دیکھا تو اُن کی نگاہ ایک کالے کتے پر پڑ گئی، وہ کتا اسی وقت زمین لوٹنے لگا اور بے ہوش ہو گیا، حضرت صاحب تو اس جگہ سے چلے گئے مگر وہ کتا پانچ دِن رات تک بے ہوش پڑا رہا، اس کے بعد ہوش میں آیا اور حضرت شیخ صاحب کے گھر کے دروازے کے قریب ایک غار بنایا اور اس میں رہنے لگا۔ اس کے بعد ہر صبح و شام ارد گرد کے دیہات کے کتے اکھٹے ہوا کرتے تھے اور اس کتے کے آگے دو زانوں بیٹھ کر اپنی آواز سے اللّٰہ کا ذکر کرتے اور وہ مذکورہ کتا مراقبے کی شکل میں خاموش رہتا اور اپنا سر زمین پر رکھتا اور ان کتوں میں سے بعض کتے ایسے بے خود ہو جاتے کہ اپنے جگہ پر لوٹتے تھے اور اپنی حالت کی اُن کو کچھ خبر نہیں ہوتی تھی۔ لوگ عبرت اور تماشا کی خاطر اُن کتوں کو دیکھنے کے لئے اکٹھے ہو کر آتے۔ اُس کتے کی زندگی تک صبح و شام وہ کتے اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے اور یہ شیخ رحمکار رحمۃ اللّٰہ علیہ کا فیضانِ نظر تھا۔

دیگر:

حضرت صاحب کی خاصیتوں میں سے ایک یہ تھی کہ جو کوئی حضرت صاحب سے تصوف اور سلوک کی حقیقت کے بارے میں کوئی سوال پوچھتا تو اس کا نادر جواب عنایت فرماتے اور لمبی چوڑی قال و قیل نہ فرماتے اور خاموش رہتے۔ اگر کبھی کبھار کوئی جواب مرحمت فرماتے تو مثال کے طور پر کسی بزرگ کی بات نقل فرماتے۔ بیت ؎

؎ خوشتر آں باشد کہ سیر دلبران

گفتہ آید در حدیث دیگران

’’یہ بات بھلی لگتی ہے کہ معشوقوں کے اسرار کی باتیں دوسروں کی بیان میں کی جائیں‘‘۔ (یعنی اپنے آپ کو چھپا دیا جائے۔) (مؤلف) یعنی یہ کہ فلاں ولی کی ایسی اور اس طرح کی بات تھی اور طالب یا سائل کی جو مُراد ہوتی تو مثال دیتے ہوئے اُسی بزرگ کے حالات نقل کرتے ہوئے ظاہر کرتے اور اپنے آپ کو پوشیدہ رکھتے، جو کوئی حضرت شیخ صاحب کے حالات اور طریقوں سے آگاہ ہوتا تو وہ یقینی طور پر سب کچھ جان لیتا تھا کہ دوسرے کے مثال میں سب حال بیان کرتے ہیں، اور جو کوئی آپ کے حال سے آگاہ نہ ہوتے تو نا سمجھی اور کم فہمی کی وجہ آپ کے اسرار سے محروم رہتے، ان کو کچھ خبر نہ ہوتی اور عمومًا بے نصیب رہتے کیونکہ پرندوں کی زبان پرندے جانتے ہیں۔

(بیت)

؎ مرغانِ چمن بہر صباحی

خواند ترا باصطلاحی

’’چمن کے ہر پرندے ہر صبح تمہیں اپنے مخصوص اصطلاح سے یاد کرتے ہیں‘‘۔

دیگر:

آپ کی توجہ سے ایک دن ایک شخص کسی دور دراز جگہ سے آیا تھا اور حضرت سے استدعا کی اور بہت منت سماجت کی کہ مجھے اپنی توجہ سے محروم نہ رکھیے۔ جب وہ شخص حضرت صاحب سے رخصت ہو کر گھر کی جانب چلا گیا تو رات کو ایک جگہ ٹھہر گیا، اُسی رات اس کو خواب میں کوئی بڑا کام پیش آیا کہ دنیا اور دنیا کے فرزندوں کی محبت اُس کے دل میں سرد پڑ گئی۔ اس مقام سے واپس ہو کر حضرت صاحب کے پاس آیا، حضرت صاحب نے اُس سے کہا کہ جب تم رخصت ہو کر آمادۂ سفر ہو گئے تو تم میری یاد سے نہیں نکلے تھے؟ اس شخص نے عرض کی اے حضرت! مجھے ڈر ہے کہ میں دیوانہ نہ ہو جاؤں۔

تشریح:

گویا اس کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں میں دیوانہ نہ ہو جاؤں۔

متن:

حضرت صاحب نے اس کی ہمت افزئی اور اچھی طرح تسلی کرا دی کہ بالکل خیریت ہو گی تم کسی کا خوف و خطر نہ کرنا۔ پھر اُس آدمی نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ مجھے سخت ڈر ہے۔ تیسری دفعہ بھی حضرت صاحب کی تسلی دینے کے باوجود اس کی تسلی نہ ہوئی اور اُسے اطمینان قلبی حاصل نہ ہوا، چنانچہ اس کے بعد ہمارے شیخ صاحب نے اپنا مبارک ہاتھ اُس کے سر پر پھیر دیا، اس سے اس کی وہ حالت بدل گئی تب اس آدمی کو یقین ہوا کہ وہ حالت ایک عظیم نعمت تھی اور میں نے اس کی قدر نہ جانی۔ بہت شرمندہ ہوا، پھر اگرچہ اُس نے اس واقعے کے بعد بہت منت سماجت، اور الحاح و زاری کی اور بہت افسوس کا اظہار کیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا وہ وقت اس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔

تشریح:

واقعتاً جن کے مقدر میں نہ ہو، ان کو کوئی پہنچانا بھی چاہے، تو نہیں پہنچا سکتا، بس وہ محروم ہو جاتے ہیں۔

متن:

لیکن ہاں اس کو اتنا فائدہ حاصل ہوا کہ پنچگانہ نماز جماعت سے ادا کرتا تھا، اور قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتا تھا اور قرآن خوان ہو گیا اور بُرے کاموں اور منہیات شرعی سے بچتا رہا، لیکن اس کی سابقہ حالت اور محبت قلبی میں سے واپس کچھ ہاتھ نہ آیا۔

تشریح:

اصل میں اندر کوئی بات ہوتی ہے، جس کی وجہ سے انسان محروم ہوتا ہے۔ ورنہ اللّٰہ تعالیٰ کسی سے کوئی چیز واپس نہیں لیتے۔ مثلاً: یہاں یہ بات تھی کہ شیخ پر اعتماد نہیں کیا، شیخ نے اس کو کہہ دیا کہ کوئی پروا نہ کریں، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کو سمجھ جانا چاہئے تھا کہ جب وہ فرما رہے ہیں، تو وہی اس کے ذمہ دار ہیں، وہی سمجھ دار ہیں۔ میں کیوں درمیان میں اپنی بات کروں۔ گویا اپنے شیخ کے اوپر تفویض تام نہیں تھی، نتیجتاً محروم ہو گیا۔ سوچیں کہ جو ایک انسان یعنی بزرگ پہ تفویضِ تام کرتا ہے، اس کو ایسی حالت ہوتی ہے، تو جو اللّٰہ پہ تفویض کرے تو اس کی کیا حالت ہو گی۔ ﴿وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ (المؤمن: 44)

ترجمہ: ’’اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ یقینا اللہ سارے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔

لہٰذا اللّٰہ جل شانہ کے ساتھ بعض لوگ کا معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں، نتیجتاً اللّٰہ پاک کبھی ان کو نہیں چھوڑتے۔ اللّٰہ جل شانہ ان کا ایسا خیال رکھتے ہیں، جیسے اس دعا میں ہے: ’’اَللّٰهُمَّ وَاقِيَةً كَوَاقِيَةِ الْوَلِيْدِ‘‘ (الدعاء للطبرانی، حدیث نمبر: 1446)

ترجمہ: ’’(اے اللّٰہ! میری) اس طرح حفاظت فرما، جیسے بچہ کی حفاظت کرتا ہے‘‘۔

مگر اس میں ٹیسٹ ہوتے ہیں، جیسے اس پہ بھی ٹیسٹ آیا، یہ ٹیسٹ ہی تھا۔ آزمایا جاتا ہے کہ آیا کون بات سنتا ہے، کون نہیں سنتا۔ ہمارے شیخ کے ساتھ جو واقعہ ہوا تھا، وہ میں اکثر سنایا کرتا ہوں۔ حضرت کے پاس دو لڑکے آئے اور کہتے ہیں: حضرت آپ نے ہمارے لئے دعا نہیں کی۔ حضرت نے فرمایا: بیٹا میں نے تمہارے لئے دعا کی ہے۔ ایک لڑکا بار بار یہی کہہ رہا تھا کہ آپ نے دعا نہیں کی۔ جب اس نے تین چار دفعہ کہا، تو حضرت خاموش ہو گئے۔ اس کو احساس ہو گیا کہ یہ تو کچھ غلطی ہو گئی۔ پھر اس نے معافی مانگی، لیکن پھر بھی حضرت خاموش رہے۔ پھر وہ رونے لگا، پھر بھی حضرت خاموش رہے۔ پھر وہ بہت زیادہ رویا۔ حضرت نے فرمایا: بیٹا! اب کچھ نہیں ہو سکتا، جو ہونا تھا، ہو گیا۔ اس پر بھی لوگ کہتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ بھائی! اس نے اپنے شیخ پہ اعتماد نہیں کیا۔ حضرت نے جب فرمایا کہ میں نے تمہارے لئے دعا کی ہے، تو پھر اور کیا چاہئے اس کو؟ اس کو سمجھ جانا چاہئے تھا، لیکن نہیں سمجھا۔ جب نہیں سمجھا، تو پھر گیا۔ یہ وہی بات ہے کہ جو شیخ میں فنا نہیں ہوتا، اس کا معاملہ اور ہوتا ہے، وہ شیخ کی کسی صفت میں فنا ہوتا ہے۔ وہ فنا فی الشیخ نہیں ہوتا۔ جو صحیح معنوں میں شیخ میں فنا ہوتا ہے، وہ اپنی رائے کو بھی کچھ نہیں سمجھتا، اپنے حالات کو بھی کچھ نہیں سمجھتا، پھر وہ رسم و رواج کو بھی کچھ نہیں سمجھتا، بس جو حکم ہوتا ہے، بسر و چشم اس کو قبول کرتا ہے۔ درمیان میں کچھ ایسا نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں کو پھر سب کچھ ملتا ہے۔

متن:

دیگر:

آپ کی وفات کے بعد آپ کا ایک مرید بہت بے قرار اور مضطرب رہتا تھا، اُس نے ایک فاضل و دانا آدمی سے پوچھا اور اس کو اپنی بے قراری سے آگاہ کیا کہ میرے پیر شیخ المشائخ اس فانی دنیا سے رحلت فرما چکے ہیں، اگر میں کسی دوسرے مرشد کے حلقۂ ارادت میں داخل طریقت ہو جاؤں تو یہ شیخ المشائخ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں اچھی بات ہو گی یا کہ بُری اور بے ادبی کی بات ہو گی؟ اس فاضل آدمی نے جواب میں فرمایا کہ جب تمہارے دِل کو قرار نہیں کہ جس بزرگ پر تمہارا یقین ہو اسی بزرگ کے ہاں جاؤ تو اس کے بعد تمہارے لئے اس کا نتیجہ دو باتوں میں سے ایک تو ضرور ہو گا، یا تو خود شیخ المشائخ صاحب تم کو وہاں تک پہنچائیں گے اور تمہیں اس کے حوالے کریں گے، اور اسی طرح تم ترقی کرو گے اور اپنی مراد تک پہنچو گے۔ اور یا تمہیں کوئی اشارہ کریں گے اور تم کو وہاں سے دور رہنے کا فرمائیں گے۔ یہ بات سننے کے بعد وہ کسی دوسری جگہ جانے کا ارادہ کر کے چل پڑا اور دو مقامات کا ارادہ کیا اور دونوں جگہوں کو آنے جانے لگا۔ چند بار تو عبد اللّٰہ کوہاٹی کے پاس آتا رہا، مگر وہاں کچھ فائدہ معلوم نہ ہوا۔ اور چند بار اللّٰہ داد المعروف منڈوری کے ہاں آتا رہا، وہاں بھی کچھ فائدہ محسوس نہ کیا، اسی طرح بہت زیادہ عرصہ گزر گیا، وہ مرید اِن دو مقامات پر آتا جاتا رہا۔ اس کے بعد حضرت شیخ صاحب اُس پر ایسی حال میں ظاہر ہوئے کہ دونوں ہاتھوں میں دو پہاڑ اٹھا رکھے تھے اور اس مرید کو کہا: کیا تو چاہتا ہے کہ اس ایک پہاڑ کے نیچے عبد اللّٰہ کو ریزہ ریزہ کروں اور دوسرے پہاڑ سے اللّٰہ داد کو ریزہ ریزہ کروں؟ وہ مرید روایت کرتا ہے کہ مجھ میں اُس وقت جواب دینے کی طاقت نہ تھی، شیخ صاحب نے خود اپنا جواب خود ہی فرمایا: "اچھی بات ہے، میں ان کو چھوڑے دیتا ہوں، علماء ہیں، جانے دو" اور اُن پہاڑوں کو اپنی جگہ پر رکھ چھوڑا اور اپنے ہاتھ سے میرا کان پکڑ کر دو ٹکڑے کر دیا، اور پھر اپنے ہاتھ سے اس کو پیوستہ کر دیا اور پیوند چھوڑ دیا اور فرمایا کہ جہاں جانا چاہتے ہو چلے جاؤ، میں نے تم کو نشان زدہ کر دیا ہے (تمہیں نشان لگا دیا) (یعنی کان میں پیوند کاری کی)۔ اِس کے بعد اس مُرید کی محبت عبد اللّٰہ اور اللّٰہ داد سے بالکل منقطع ہو گئی اور پھر کبھی بھی اِن کے پاس نہ گیا، بلکہ حال اور وقت کچھ کیفیت بھی اس کو حاصل ہو گئی۔

تشریح:

بہر حال! بزرگوں کی باتیں بزرگ ہی جانیں۔ چونکہ اس مسئلہ میں تصرف ہے اور جس مسئلہ میں تصرف ہو، وہاں قاعدہ قانون بدل جاتا ہے۔ وہ normal قاعدہ قانون پھر نہیں چلتا۔ پھر وہی قانون بنتا ہے، جو تصرف والا ہوتا ہے۔ اسی طرح یہاں بھی ان کے لئے یہی قانون تھا کہ بس اس کے اوپر عمل کر لیں۔ جب حضرت دنیا سے تشریف لے گئے تھے، تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ہمارے ارد گرد بہت سارے بزرگ تھے، لیکن طبیعت نہیں مان رہی تھی کہ کہاں مولانا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ جیسے آدمی مل سکتے تھے۔ بہر حال! خانہ کعبہ پہ حاضر ہو کر استدعا کی کہ نظرِ کرم ہو جائے۔ پھر روضۂ اقدس پہ حاضری دی۔ وہاں پھر صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے خود ہی اپنی طرف سے مجھے اجازت عطا فرمائی، حالانکہ میں ان کا مرید نہیں تھا۔ اور ساتھ ہی فرمایا: مجھے تمہاری اشرفی نسبت معلوم ہے۔ یہ میری سند میں بھی لکھا ہے۔ گویا انہوں نے بھی حضرت کی برکت سے اجازت دی یعنی حضرت کو سامنے رکھا، مجھے سامنے نہیں رکھا کہ تو اس قابل ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ مجھے تمہاری اشرفی نسبت معلوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں پہلے کارڈ پہ خلیفہ فلاں لکھتا تھا، پھر اخیر میں لکھتا تھا مسترشد مولانا اشرف صاحب رحمہ اللّٰہ علیہ۔ حاجی عبد المنان صاحب نے مجھے بتایا کہ آپ کی اصل نسبت تو مولانا صاحب سے ہے، بعد میں تو لوگ ڈوپٹے سر پہ ڈال دیتے ہیں، اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ اس لئے آپ کو مولانا صاحب کا نام پہلے لکھنا چاہئے، اس کے بعد پھر دوسرے حضرات کا۔ چنانچہ پھر ہم نے مولانا صاحب کو کارڈ کے اوپر پہلے لکھ دیا کہ مسترشد مولانا اشرف صاحب۔ ان کے بعد دوسرے حضرات کا نام ہے، جن کی برکت اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے نصیب فرمائی۔ چنانچہ بعض حضرات بہت غیور ہوتے ہیں، ان میں کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی ایسے ہی ہیں۔ وہ اس مسئلہ میں کافی غیور ہیں۔

متن:

دیگر:

ایک آدمی آپ کی خدمت گزاری میں حاضر ہوا اور گناہوں سے توبہ کی۔

تشریح:

لیکن یہ وہی کر سکتے ہیں، جو بعد وفات تربیت کر سکتے ہوں، ہر ایک نہیں کر سکتا۔ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ہاں ایسا ہی ہے۔ وہ بعد وفات بھی تربیت کرتے ہیں۔ انہوں نے خود اپنے بیٹے کی تربیت کی ہے۔ یہ جن کی کتاب میں پڑھ رہا ہوں، ان کی تربیت بعد وفات ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ تو ہندوستان میں تھے، جب ہندوستان سے آئے، تو حضرت زندگی کے آخری حصے میں تھے۔ اس کتاب میں یہ لکھا ہے کہ پھر میں قبر شریف پہ بیٹھا رہتا تھا۔ مجھے حلیمی صاحب نے بتایا کہ حضرت اپنی قبر سے تربیت کر لیتے ہیں، لیکن وہ تربیت ان کی کرتے ہیں، جن کا پہلے سے تعلق تھا، لہٰذا ان کی تربیت continue ہو گئی ہے۔ یا دوسری صورت یہ ہےکہ نسبی تعلق ہو۔ بہر حال! ان کا یہ نظام کچھ نہ کچھ کرتا ہے۔ حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مجھے فرمایا کہ حضرت قبر شریف سے بھی تربیت کرتے ہیں۔ مجھے خود بھی اس چیز کا اتنا زیادہ ادراک نہیں تھا، لیکن پھر ادراک کروا دیا گیا، اس کے بعد میں بھی محتاط ہو گیا۔ بلکہ میرے خیال میں یہ جو تعلیم شروع ہوئی ہے، اس میں بھی ایک وجہ یہی ہے۔ کیونکہ تعلیم کے سلسلے تو ہمارے ہاں چل رہے تھے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مکتوبات کی اور مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مثنوی کی۔ باقی تو بعد میں شروع ہوئے ہیں۔ بہادر بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زیارت ہوئی۔ فرمایا: یہ جو آپ دوسرے بزرگوں کی کتابوں کی تعلیم کرتے ہیں، ما شاء اللّٰہ بہت اچھی بات ہے۔ پوری تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا: لیکن اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ اس وقت مجھے پتا چل گیا کہ مقصد یہ ہے کہ اس طرف آ جاؤ۔ پھر الحمد للہ اللّٰہ کا شکر ہے کہ یہ سلسلہ جاری ہوا۔ پہلے مجھے اس کتاب کے بارے میں بالکل پتا نہیں تھا کہ اس کے اندر کیا ہے۔ یہ تو جب ہم نے تعلیم شروع کی، تو پتا چلا کہ اس کے اندر تو پورا خزانہ ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ کھلتا ہے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا کہ اس کتاب تک ہماری رسائی ہوئی۔ واقعی بزرگوں کا اپنا ایک رنگ ہوتا ہے۔ میں اپنے والد صاحب کی قبر پہ بھی جب جاتا ہوں، تو وہاں بھی میری توجہ اسی طرف ہوتی ہے کہ چونکہ آپ ﷺ کی اولاد ہونے کی نسبت ہم تک والد صاحب کے ذریعے سے پہنچی ہے۔ اس کی لائن تو ادھر سے ہے۔ اس لئے میں باقاعدہ اس کا استحضار کرتا ہوں کہ ہماری وہ لائن صاف رہے۔ مجھے ایک دفعہ اس پہ تنبیہ بھی کی گئی۔ در اصل جب میں حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بیعت ہوا، تو حضرت نے مجھے ایصالِ ثواب کا طریقہ سیکھایا، جیسے میں آپ کو سیکھاتا ہوں۔ لہٰذا میں اس طرح کرتا رہتا ہوں۔ ان دنوں میں نے خواب دیکھا کہ ہمارے سلسلہ کے نسبی بزرگوں میں سے کوئی بڑا بزرگ، (مجھے نام یاد نہیں ہے، نہ کوئی تفصیل یاد ہے، لیکن اس کی صورت تقریباً کچھ نہ کچھ یاد ہے) وہ مجھے فرماتے ہیں کہ آپ تو اب اتنے بڑے ہو گئے ہیں کہ ہم آپ سے بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ میں حیران ہو گیا۔ خواب سے بیدار ہوا، تو بہت ڈر گیا، میں نے سوچا کہ یہ تو منہ پہ تھپڑ مارا ہے۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ تھپڑ کیوں مارا ہے۔ پھر میں حلیمی صاحب کے پاس چلا گیا، ایسی باتیں میں ان سے کیا کرتا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا، حضرت! کیا یہ تھپڑ مارا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر میں نے کہا: کیوں؟ کہتے ہیں: غور کرو، سوچو۔ میں نے کہا کہ کہیں یہ تو نہیں کہ میں ایصالِ ثواب صرف سلسلہ کے بزرگوں کے لئے کرتا ہوں، اُن کے لئے نہیں کرتا۔ کہتے ہیں: بالکل یہی بات ہے۔ اس کے بعد سے اب میں جب بھی ایصالِ ثواب کرتا ہوں، تو کہتا ہوں کہ ہمارے آباؤ اجداد کو بھی۔ یہ ہمارے آباؤ و اجداد کا کچھ سپیشل کیس ہے، اس میں ہم لوگ تو ڈرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک تسلسل ہے، سارے اولیاء ہیں، اس سلسلے میں سب ولی ابن ولی ابن ولی ابن ولی۔ یہ اولیاء اللّٰہ کا ایک سلسلہ ہے، آخر کوئی بات تو ہے، اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نظام ہے، جو چل رہا ہے۔ الحمد للہ! اب یہ جو میں پڑھا رہا ہوں، اس پر حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ خوش ہیں، ایک موقع پہ ایک صاحب کو زیارت ہوئی، تو فرمایا کہ عجیب بات ہے کہ میرا مرید ہے اور کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتابیں پڑھا رہا ہے۔ یہ خوشی کی وجہ سے فرمایا کہ ہم کاکا صاحب کی خدمت کر رہے ہیں۔ چنانچہ یہ سارے اوپر ملے ہوئے ہیں اور بہت خیال رکھتے ہیں۔

متن:

دیگر:

ایک آدمی آپ کی خدمت گزاری میں حاضر ہوا اور گناہوں سے توبہ کی، اِس سے قبل اس کے ایک عورت کے ساتھ نا جائز تعلقات تھے، اس کے توبہ کرنے سے وہ عورت بھی باخبر ہوئی کہ وہ شخص حضرت شیخ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر تائب ہو گیا ہے۔ ایک بار کہیں اُس عورت کے ساتھ ملاقات ہوئی اور اُس کو اپنے پاس بلایا، اُس عورت نے فورًا جواب دیا کہ تم نے حضرت صاحب کے ہاتھ پر توبہ کی ہے، خبردار! بدی کے ارادے سے بھی دور رہو۔ وہ شخص وہاں سے روانہ ہو کر چلا گیا، جب وہ حضرت صاحب کی مجلس میں پھر حاضر ہوا، حضرت صاحب نے اشارتًا فرمایا کہ یہ کیا نالائق بات ہے کہ پھر سے بُری نیت کے ساتھ اس عورت کو بلایا تھا اور شیطانی فعل کو پھر سے تازہ کرنا چاہتا تھا، اور اس دن کی شرمندگی سے نجات کیونکر پا سکتا تھا کہ قیامت کے دن خجالت اور شرمندگی سے پیش ہوتا؟ وہ شخص سر نیچے کئے ہوئے شرمندہ ہوا اور وہ جانتا تھا کہ حضرت شیخ صاحب اس کے ظاہر و باطن سے آگاہ تھے۔ اس کے بعد وہ شخص بُرے فعل سے مجتنب ہو گیا اور نیکی کی طرف راغب ہو کر متقی شخص بن گیا۔

دیگر:

حضرت صاحب جو عمل یا عبادت فرماتے یا اپنے دردِ محبت کا اگر اظہار فرماتے تو یہ سب کچھ الہام کے نتیجے میں فرماتے، یا اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے وہ کام کرتے۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت صاحب پر محبت کا غلبہ ہوا تو خٹک کے ارد گرد کے علاقے میں حکم فرمایا کہ ہر گھر کے افراد ایک گائے مجھے دے دیں تاکہ میں اس کو خدا کے نام پر صدقہ کر کے صرف کروں اور اس کے بعد جو کچھ تم چاہو اور جو مرضی ہو مجھ سے اُس کی قیمت مانگو، میں وہ قیمت ادا کروں گا۔ حضرت شیخ صاحب کا یہ حکم ایسا نہیں تھا کہ کوئی اس میں چوں و چراں یا حکم عدولی یا سرکشی کرتا، یہاں تک کہ روزانہ بیس، تیس، چالیس بلکہ اس سے بھی زیادہ گائیں ذبح کی جاتی تھیں۔ اور اسی طریقہ پر بہت زیادہ عرصہ یعنی سال بلکہ اِس سے بھی زیادہ گذر گیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک طالب علم کہتا تھا کہ میرے دِل میں بہت زیادہ خطرات تھے کہ حضرت شیخ جو کچھ کر رہے ہیں یہ ظلم ہے، وہ کہتا ہے کہ ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور حضرت صاحب آٹھ آدمیوں کے ساتھ تشریف رکھے ہوئے مجلس فرما رہے ہیں، حضرت صاحب نے مجھ سے پوچھ لیا کہ کیا تو ان کو پہچانتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ میں نے عرض کی کہ حضور میں اِن کو نہیں پہچانتا۔ حضرت شیخ صاحب نے فرمایا کہ ان میں سے ایک شخص حضرت سیدنا نوح علیہ و علی نبینا الصلوۃ و السلام ہیں اور یہ دوسرے بھی پیغمبر ہیں اور میں جو یہ صدقات اور خیراتیں کرتا ہوں ان کے حکم سے کرتا ہوں، اور اپنے حکم اور خواہش سے نہیں کرتا۔ جب وہ عالم یہ خواب دیکھ کر جاگ اٹھا تو سمجھ گیا کہ حضرت کے تمام کام کسی حکمت سے خالی نہیں اور اپنے مال سے خود دو گائیں لا کر حضرت شیخ صاحب کی خدمت میں پیش کیں اور آپ نے اُن کے ذبح کرنے کا حکم دے کر ذبح کر دیا۔

تشریح:

اصل میں ان بزرگوں کے ہاں بہت سی حکمتیں ہوتی ہیں، اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ان کی معرفت نصیب فرمائے۔ دراصل بعض دفعہ کوئی مشکل حالت پیش آنے والی ہوتی ہے، تو صدقات بلاؤں کو روکتے ہیں۔ ایسے حضرات پہ جب یہ بات کھل جاتی ہے، تو وہ کھل کر بات تو نہیں کرتے، لیکن مطلب پورا کر لیتے ہیں۔ اور ان پر جو لوگ اعتماد کر لیتے ہیں، ان کا بھلا ہو جاتا ہے۔ اور جو اعتماد نہیں کرتے، ان کا مسئلہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت مولانا یعقوب صاحب نانوتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا بھی واقعہ ہے جو میں نے حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مواعظ میں پڑھا ہے کہ حضرت کی زبان سے یہ بات نکلی: ’’اگر دیوبند کے گاؤں والے کچھ خیر خیرات کر لیں، تو خطرہ ٹل سکتا ہے‘‘۔ یہ بات دیوبند کے گاؤں والوں کو پتا چل گئی۔ وہ پہلے ہی کوئی زیادہ مدرسے کے حق میں نہیں تھے۔ مخالفین نے کہا کہ مدرسے میں کوئی ضرورت پڑ گئی ہو، اس وجہ سے انہوں نے یہ بات کی ہے۔ لیکن حضرت مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ مجذوب بزرگ تھے۔ حضرت مسلسل یہ کہنے لگے: یعقوب اور یعقوب کی اولاد اور کل دیوبند۔ جب بزرگوں کو پتا چلا، تو انہوں نے آ کر ان کے منہ پہ زور سے ہاتھ رکھا کہ کچھ نہ کہیں۔ لیکن وہ کہے جا رہے تھے۔ اس کے بعد جب ہیضہ کی وبا آئی، تو گھر گھر سے جنازے نکلنے لگے۔ خود مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی شہید ہو گئے اور ان کا بیٹا بھی شہید ہو گیا۔ جنازوں پہ جنازے اٹھ رہے تھے۔ اگر لوگ ان کی اس بات کو جان لیتے، تو بچ جاتے، لیکن بچنا نصیب میں نہیں تھا۔ یہاں جو بات کی گئی ہے، یہ بھی شاید اس طرح کوئی بات ہوئی ہو گی۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ بہر حال! کوئی ایسی بات ہو گی، جس کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو یہ نرم راستہ نصیب فرمایا۔

متن:

اسی طرح کسی دوسرے دن شوق و جذبہ کی حالت میں مستغرق ہو کر اور محبت الٰہی میں میں از خود رفتہ ہو کر اللّٰہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر ساٹھ گائیں ذبح کر ڈالیں اور محبت کے غلبہ کی وجہ سے سینہ دیگ کی طرح جوش کھاتا تھا، اتنے میں اچانک خٹک قوم کا سردار شہباز خان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا، جب شہباز خان نے آپ کو استغراق کی حالت میں دیکھا تو اس پر بہت زیادہ اثر ہوا، اس کے پاس ایک عراقی گھوڑا تھا جو ایک ہزار روپے کا خریدا گیا تھا، اس گھوڑے کو حضرت شیخ صاحب کی خدمت میں بطور نیاز پیش کیا۔ حضرت شیخ صاحب نے اس کو ذبح کرنے کا امر فرمایا، بعض علماء جو وہاں موجود تھے انہوں نے عرض و استدعا کی کہ اس گھوڑے کی قیمت ایک ہزار روپے ہے، اس کو فقیروں کے لئے بیچنا زیادہ نفع کی بات ہے۔ حضرت صاحب نے ان کی بات سے منہ موڑا اور ان کی بات نہ مانی اور ان کے جواب میں فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے تجارت اور سودا گری کرنے کے لئے نہیں پیدا کیا، مجھے خدشہ ہے کہ گھوڑا بیچنے سے میں تاجر اور سوداگر بن جاؤں گا،

تشریح:

یہ وہی محمود غزنوی رحمۃ اللّٰہ علیہ والی بات ہے کہ میں بت فروش نہیں بننا چاہتا، بت شکن کہلانا چاہتا ہوں۔

متن:

اور گھوڑے کے ذبح کرنے کا امر صادر فرمایا۔ شہباز خان نے خود اپنے ہاتھ سے گھوڑے کو ذبح کر ڈالا، اُن ساٹھ گائیوں کو بھی پکایا، کچھ نا پختہ گوشت بھی رہ گیا۔ اچانک قریب کے ایک آدمی کے ہاتھوں سے ایک دیگ ٹوٹ گئی، شہباز خان نے اُس آدمی کو بہت ڈانٹا اور اس کی زجر و توبیخ کی، پس حضرت شیخ صاحب نے اس شخص کی تسلی اور تسکینِ خاطر کے لئے اپنی زبان سے فرمایا کہ تمام دیگوں کو توڑ ڈالو۔ اس حکم کے سنتے ہی اہل مجلس اور موجود لوگوں میں سے اکثر لوگوں نے دیگوں کو توڑنا شروع کیا اور پختہ اور خام گوشت غارت ہوا۔ اتنے میں ایک سخت غلغلہ، چیخ و پکار اور شور اُٹھا جس کی ہیبت کی وجہ سے بعض ناواقف عورتوں نے شہر چھوڑ کر پہاڑ کی سمت بھاگنا شروع کر دیا۔ حضرت شیخ صاحب نے فرمایا کہ اس شور میں دیو و پری یعنی جنات بھی شامل ہوئے تھے، اور ان گایوں کا خون اور گوبر، ہڈی وغیرہ سب کو لوٹ کر لے گئے یہاں تک کہ اِن ساٹھ گایوں اور ایک گھوڑے کے خون اور لید وغیرہ سے زمین پر کچھ بھی باقی نہ رہا۔ اور بسا اوقات لوگ آپ کی خدمت میں اتنے زیادہ اور کثرت سے ہوتے تھے جن کا شمار کرنا ناممکن ہوتا تھا، اور جو کوئی اُن سے نکلنے کی کوشش کرتے تھے تو ان کی آواز کو کوئی نہیں سمجھتا تھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں اور ان کی آواز ایسی تھی جیسا کہ پرندے شام کے وقت جمع ہو کر شور مچاتے ہیں۔ اور اکثر اوقات پچاس ساٹھ دیگوں کے اوپر کی چربی اور روغن اکھٹا کر کے فقراء کو کھلاتے تھے اور باقی ماندہ مواد عام لوگوں کو کھلاتے تھے۔ اور کبھی کبھی ارد گرد کے دیہاتوں کے غلاموں اور نوکر چاکر لوگوں کو بلا کر روغن اور چربی، گوشت سیر کر کے کھلاتے تھے اور ان لوگوں پر بہت شفقت اور مہربانی کرتے تھے۔ مسکینوں اور فقیروں اور عاجزوں پر نگاہِ کرم مبذول فرماتے تھے اور جو شخص بھی جتنا عاجز ہوتا اِس کے ساتھ زیادہ محبت فرماتے تھے اور اس کو دوست رکھتے تھے، آپ اکثر قحط سالی کے دنوں میں بہت خیرات و صدقات فرماتے تھے، اگرچہ آپ عمومًا خیرات اور صدقات کرتے تھے، لیکن قحط کے ایام میں کثرت سے کیا کرتے تھے۔

تشریح:

اصل میں جب تک یہ حالت نہ ہو، تو یہ چیزیں ہم نہیں سمجھ سکتے۔ مجھے ایک صاحب نے بتایا تھا، وہ صاحب اب بھی مدینہ منورہ میں رہتے ہیں، الحمد للہ، میری ہر سال ان کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ ہمارے ساتھ حج پہ عنایت اللّٰہ ریاض صاحب بھی تھے، جو افغان مہاجرین کے کمشنر رہے تھے۔ وہ ان کو جانتے تھے، پہلی دفعہ انہوں نے مجھے ان کے ساتھ ملایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قربانی کے دنوں میں ایک دن یہ میرے پاس آیا اور مجھے کہا کہ اونٹ خریدنے ہیں، لیکن اونٹ خریدیں گے۔ پشتو میں شاید یہ کوئی سپیشل قسم کے اونٹ ہوں گے، بہت قیمتی اونٹ ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ بہت سارے ڈالر ان کے پاس تھے، کیونکہ تاجر آدمی تھے۔ سو اونٹ خریدے اور سو اونٹوں کی قربانی کی۔ اپنے لئے بھی، آپ ﷺ کی طرف سے، صحابہ کرام کی طرف سے، اہلِ بیت کی طرف سے اور ماؤں کی طرف سے۔ یہ آج کل کے دور کی بات بتا رہا ہوں، یہ کوئی پرانی بات نہیں ہے۔ لیکن کوئی نہیں سمجھتا۔ کیونکہ قربانی تو صرف ایک ہی واجب ہے۔ سو اونٹوں میں سات سو قربانیاں ہوتی ہیں۔ کیوں اس طرح کرتا تھا؟ کوئی بات تو ہے۔ یہاں تو کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو کہتے ہیں کہ قربانی نہ کرو، اس کے پیسے غریبوں کو دے دو۔ جب میں جرمنی میں تھا، تو ایک دفعہ مجھ سے بھی یہ کہا گیا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ کروڑوں روپے خرچ کر لیں، لیکن واجب قربانی نہ کریں اور دوسرا آدمی واجب قربانی کر لے اور ایک پیسہ بھی خرچ نہ کرے، وہ آدمی آپ سے آگے چلا گیا۔ کیونکہ اس نے واجب پہ عمل کیا ہے اور دوسرے نے واجب کو چھوڑا ہے۔ یہ باتیں لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتیں، لیکن جن کو اللّٰہ تعالیٰ نے نظر دی ہوتی ہے، ان کی بات الگ ہوتی ہے، ان کی بات عام لوگوں کی طرح نہیں ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو بھی صحیح فہم عطا فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ