زمانہ طفولیت سے لیکر عمر کے آخری حصے اور وفات کے بعد بھی حضرت صاحب کے عادات و کرامات وغیرہ کے بیان میں اور آپکے متفرق اعمال اور وفات

باب 14 ، درس 49

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں ہمارے حضرت جد امجد کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات کا درس ہوتا ہے۔ اکثر لوگ بزرگوں کی کرامات سنتے ہیں اور سننے پر ہی گزارہ کرتے ہیں۔ لیکن اصل میں بزرگوں کی کرامات سے زیادہ ان کی تعلیمات سننا اہم ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارا فائدہ اسی میں ہوتا ہے۔ کیونکہ کرامات کے سننے سے زیادہ سے زیادہ ہم ان کو بزرگ مان لیں گے۔ جب کہ بزرگ تو ہم ان کو پہلے سے تسلیم کرتے ہیں۔ لہٰذا اس میں کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ لیکن ہر ولی کی تو کرامات نہیں ہوتیں۔ بہرحال اولیاء اللّٰہ کی کرامات ہوتی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ ’’کَرَامَاتُ الْاَوْلِیَآءِ حَقٌّ‘‘ (اولیاء اللّٰہ کی کرامات حق ہیں) یہ ہمارے عقائد کا حصہ ہے۔ لہٰذا ان کی کرامات بیان کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے، لیکن صرف کرامات نہ بیان کی جائیں، بلکہ کرامات کو اس ضمن میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی بھی بہت ساری کرامات مشہور ہیں، لیکن ہم صرف انہیں اس حد تک محدود رکھیں گے، جو ہمارے ان بزرگوں نے ہمیں بتائی ہیں۔ کیونکہ یقیناً انہوں نے تحقیق کر کے یہ باتیں بتائی ہیں اور عمومی طور پر عام لوگ جو بات کرتے ہیں، اس میں تحقیق کا عنصر کم ہی ہوتا ہے۔ لہذا ہم ان کے بارے میں تو نہیں کچھ کہہ سکتے۔ لیکن جو کرامات یہاں بتائی گئی ہیں ان کو ہم مان سکتے ہیں۔ اور ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ کرامت کے بارے میں یہ جاننا چاہئے کہ کرامت اللّٰہ کا فعل ہوتا ہے اور مرید کے ہاتھ پر اس کا ظہور ہوتا ہے، وہ ولی کا فعل نہیں ہوتا۔ بلکہ بعض دفعہ ولی کو پتا بھی نہیں چلتا کہ یہ کرامت ہے۔ جیسے سورج سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ لیکن سورج کو کیا پتا۔ اسی طرح بعض اولیاء اللّٰہ جن سے مخلوق خدا کو فائدہ ہوتا ہے، لیکن ان کو بعض دفعہ پتا بھی نہیں ہوتا۔ بہرحال کئی قسم کی باتیں ہیں۔ یہاں حضرت کی جو کرامات بتائی گئی ہیں اسی قسم کی ہیں۔ بہرحال اولیاء اللّٰہ کی کرامات حق ہیں، لیکن مستند ہونا ضروری ہے۔

متن:

دیگر:

آپ کے مریدوں میں سے ایک مرید ایک دفعہ آپ سے ملاقات کے لئے آ گئے، اس سے قبل وہ کبھی نہیں آئے تھے، حضرت صاحب کی جب خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے پاس پانچ روپے تھے، خیال کیا کہ ایک روپیہ روز نذر پیش کروں گا تاکہ وقت بھی زیادہ لگے اور مجلس کی حاضری بھی ہاتھ آ جائے۔ وہ شخص کہتے ہیں کہ ایک دن اُن پر توجہ کی نگاہ ڈالی، آپ کی ایک نگاہ کیمیا اثر اور نظر کرم سے مجھے اتنا فیض حاصل ہوا کہ سونا اور مٹی میری نگاہ میں ایک جیسے ہو گئے اور دنیا سے قطع تعلق کر لیا اور میرے دل میں دنیا کی محبت کا ایک ذرہ بھی باقی نہ رہا۔

تشریح:

حضرت کا خود اپنا حال یہی تھا کہ حضرت کے سامنے ان چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تھی۔ اس لئے ان کا فیض بھی اکثر یہی ہوتا تھا۔ چونکہ حضرت پہ زہد کا بڑا غلبہ تھا، لہٰذا ان کے پاس جو لوگ آتے تھے، وہ زہد کا اثر بہت زیادہ لیتے تھے۔ اس طرح کرامات بھی اسی ذیل سے ہیں۔ یہاں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ان کو اصل چیز حاصل ہو گئی یعنی دنیا سے ان کا جی بھر گیا۔ یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرما دے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيْٓئَةٍ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5213)

ترجمہ: ’’دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے‘‘۔

ایک بات یاد رکھنی چائیے کہ دنیا میں ایک ہوتا ہے اسائمنٹ کے طور پہ رہنا، اور ایک یہ ہے کہ انسان دنیا میں مزے کے لئے رہے۔ ان دو نیتوں میں بہت فرق ہے۔ اسائمنٹ کے طور پہ رہنا یہ ہوتا ہے کہ ہم نے یہاں رہنا ہے، اللّٰہ تعالیٰ کو اس میں راضی کرنا ہے اور باقی گزارہ کرنا ہے، جو حالت بھی آ جائے، شکر کے حالات آئیں تو شکر کرنا چاہئے۔ صبر کے حالات آ جائیں، تو صبر کرنا چاہئے۔ لیکن ہمارا اصل کام ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئے۔ جیسے کوئی سفر پہ جاتا ہے، تو اگر اچھی حالت میں چلا جائے تو شکر کرتا ہے اور اگر مشکل حالت میں چلا جائے تو صبر کرتا ہے۔ لیکن اس کا مقصود چونکہ سفر میں مزہ لینا نہیں ہوتا، لہٰذا وہ اس کو اس طرح نہیں لیتا، جس طرح گھر میں لیتا ہے۔ گھر کی بات اور ہوتی ہے۔ گھر میں تمام پسند کی چیزوں کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور سفر میں گزارہ کرتا ہے۔ یہی بات اس دنیا میں بھی ہے کہ transit ہے۔ یہاں گزارہ ہے اور جو اصل وطن ہے یعنی آخرت، وہاں ہم ساری چیزوں کو بھیجتے ہیں کہ وہاں ہماری زندگی اچھی گزرے۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ یہاں اگر ہم بیرون ملک چلے جائیں اور کچھ بھیجیں تو وہ بھی ایک محدود عرصے کے لئے ہو گا، زیادہ سے زیادہ بیس تیس سال ہو گا اگر کسی کی قسمت میں ہوا تو۔ آج ہی ایک صاحب سعودی عرب سے آ رہے تھے، ٹکٹ لے بھی لیا تھا، آج اس نے روانہ ہونا تھا، مگر کل ایکسیڈنٹ ہوا اور آج اس کی Dead body آ گئی۔ بس آدمی کیا کہہ سکتا ہے۔ زندگی کا کچھ پتا نہیں ہے۔ اس نے وہاں پر کتنی محنت کی ہو گی، لیکن آدمی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ چنانچہ انسان کو اس دنیا کے ساتھ جی نہیں لگانا چاہئے، دنیا جی لگانے کی جگہ نہیں ہے۔ ہاں محنت کی جگہ ہے۔ یہاں محنت کرنی چاہئے۔ باقی تو گزارہ ہے۔ اچھی حالت آ جائے تو شکر کرو اور مشکل حالت آ جائے، تو صبر کرو، جس طرح سفر میں کرتے ہیں۔

متن:

دیگر:

حضرت صاحب کے مریدوں میں سے ایک مرید آپ کی زیارت کے لئے آئے اور مجلس میں بیٹھے، حضرت صاحب نے اِن کی طرف نظر کی اور توجہ فرمائی۔ مرید کہتے ہیں کہ حضرت صاحب کی ایک نگاہ سے میں نے محسوس کیا کہ میرا سر آسمان سے بلند ہو گیا ہے جب دوسری دفعہ نگاہ فرمائی تو میرا جسم موم کی طرح آگ پر پگھل گیا، مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ شاید میرا جوڑ جوڑ جدا نہ ہو جائے لیکن خیریت ہوئی کہ میں اپنی اصلی حالت پر رہا۔

تشریح:

اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا، لیکن لگتا یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت بعض علاقوں پہ کچھ کرم کی نظر ڈال لیتی ہے، تو وہاں پر دینے کے لئے ایسا نظام بنایا جاتا ہے۔ اور یہ باتیں کسبی کم ہیں اور وہبی زیادہ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اگر کوئی نہ لے تو وہ محروم ہے۔ بعض دفعہ ایسے حالات آ جاتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کسی کی وجہ سے عطا فرما دیتے ہیں۔ بس وہ اللّٰہ تعالیٰ کا نظام ہے، اس کے ذریعے سے دیتا ہے۔ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا معاملہ بھی ایسا تھا کیونکہ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ ان اولیاء میں سے تھے جو بس دینے کے لئے بنائے جاتے ہیں، ان کو اللّٰہ تعالیٰ ایک ذریعہ بناتے ہیں لوگوں کو دینے کے لئے۔ کیونکہ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے سارے واقعات تقریباً اس قسم کے ہیں کہ خود بھی بالکل تارکُ الدنیا اور جو بھی ان کے ساتھ آتے تھے وہ بھی ایسے ہو جاتے تھے۔ یہ کام بڑا ہی مشکل تھا، اگر کسی کو اللّٰہ تعالیٰ ویسے کسی کے ذریعے سے دے دے تو کتنی بڑی چیز ہے۔ دنیا کو دل سے نکالنا کوئی آسان کام نہیں ہے، بہت مشکل کام ہے۔ لیکن اگر پھر بھی انسان نہ چاہے تو یہ بالکل ایسا ہے جیسے کوئی دعا کرنا چاہے کہ مجھے آخرت کا فائدہ ہو اور دل میں کہتا ہے کہ کہیں قبول نہ ہو جائے۔ اور بعض لوگ ڈرتے ہیں کہ موت آ جائے گی، یا پتا نہیں کہ کیا ہو جائے گا۔ قدرت اللّٰہ شہاب کے ساتھ یہ واقعہ ہوا تھا، جو انہوں نے اپنے ’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھا ہے اور طویل واقعہ ہے، میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ لکھتے ہیں کہ میں خواب دیکھتا ہوں کہ خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللّٰہ علیہ تشریف لاتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ اگرچہ تو ہمارے گروپ کا آدمی نہیں ہے، لیکن چونکہ ایک بڑی ہستی نے آپ کی سفارش کی ہے، لہٰذا ہم آپ کو دینا چاہتے ہیں۔ تو ایک پیالہ دودھ کا بھرا ہوا میرے سامنے رکھ دیا اور فرمایا: بتاؤ! دنیا چاہتے ہو یا آخرت؟ کہتے ہیں کہ میرے نفس نے گڑبڑ کر دی۔ کہنا تو مجھے چاہئے تھا کہ میں آخرت چاہتا ہوں، لیکن میرے دل میں چور تھا اور میں سمجھ رہا تھا کہ اگر میں نے آخرت کہہ دیا، تو فوراً موت نہ ہو جائے۔ اس لئے میں نے کہا کہ کچھ دنیا، کچھ آخرت۔ کہتے ہیں کہ یہ کہنا تھا کہ کتا آیا اور اس نے اس پیالہ میں منہ ڈال دیا۔ حضرت نے افسوس کیا کہ اوہ ہو! یہ مفت کی سعادت آپ کی قسمت میں نہیں تھی، اب مجاہدہ کرنا پڑے گا۔ اور پھر ان سے جو مجاہدہ لیا گیا، اس کے واقعات انہوں نے خود سنائے ہیں۔ بڑے عجیب عجیب حالات تھے ان کے۔ ان کے اوپر ایک جن مسلط کر دیا گیا، اس کو وہ کہتے تھے: Ninety year old man اور وہ ان کی تربیت کرتا تھا۔ اور اس کی تربیت کا عجیب و غریب طریقہ تھا۔ بس یہ اللّٰہ تعالیٰ کا نظام ہے، جس کے لئے جو چیز سیٹ کر لے۔ ان کے لئے اللّٰہ پاک نے ایسی سیٹنگ کر دی۔ لیکن اگر وہ فوراً آخرت کا کہہ دیتے، تو سہولت ہو جاتی۔

متن:

دیگر مناقب:

آپ کا ایک مرید ایک دفعہ آپ کی مجلس میں حاضر تھا، اس وقت آپ جذباتِ الٰہی کے اتھاہ سمندر میں غرق تھے، مذکورہ مرید بھی متاثر ہو کر کھڑا اپنے بے قراری ظاہر کر رہا تھا اور سر کو جنبش دے رہا تھا اور خیال کر رہا تھا کہ اس کا سر آسمانِ چہارم پر ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے ایک شخص کو کہا کہ اس سے کہہ دو کہ قرار و سکون اختیار کرے۔ مجذوب مرید نے کہا کہ اختیار میرے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور اب میرے ہاتھوں میں اختیار نہیں ہے۔ یہ باتیں کہتے ہوئے اس مُرید کی حالت اعتدال پر آ گئی اور اس کو صبر و سکون حاصل ہو گیا اور آرام سے بیٹھ گیا۔

دیگر:

حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے خاص مُریدوں میں سے ایک مُرید بیت اللّٰہ شریف کے سفر میں ایران کے ملک میں کمزوری یا خستہ حالی اور در ماندگی کی وجہ سے نیند اور خواب کے غلبہ کی وجہ سے قافلے سے پیچھے رہ گیا، یعنی قافلہ تو کوچ کر گیا اور وہ بے چارہ سوتا رہ گیا۔ مذکورہ مرید کہتا ہے کہ جب میرے مرض میں کمی ہوئی اور تھکن میں کمی محسوس کی تو میں نے دیکھا کہ میری پشت کی جانب سے دور گرد و غبار اُٹھ رہا ہے، میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ ایک قافلہ آ رہا ہے، میں حیران ہوا کہ ہمارے پیچھے تو کوئی قافلہ نہیں تھا یہ گرد و غبار کہاں سے ہے۔ جب غبار نزدیک ہوا تو میں نے دیکھا کہ یہ وہی قافلہ تھا جس سے میں رہ گیا تھا، وہی قافلہ میرے پیچھے آ رہا ہے، میں تاڑ گیا کہ حضرت صاحب مجھے لا چکے ہیں اور ان کے ساتھ ملایا ہے۔

دیگر:

میں نے روایت سنی ہے کہ آپ مکہ مکرمہ میں نماز پڑھتے تھے اور پھر غائب ہو جاتے تھے اور ہمیشہ ایک مقررہ جگہ پر کھڑے ہو جاتے تھے، ایک دن سلام پھیرنے کے بعد ایک شخص نے آپ کی ران پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ تم کون ہو؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا، اس نے پھر قسم دے کر کہا کہ تمہیں رب ذو الجلال کی قسم بتلا دو کہ تم کون ہو؟ اس کے بعد آپ نے جواب دیا کہ میں رحمکار خٹک ہوں۔ وہ شخص روایت کرتے ہیں کہ اس کے بعد وہ غائب ہو کر چلے گئے۔

تشریح:

یہ بعض بزرگوں کو اللّٰہ تعالیٰ ایسے مقامات دیتے ہیں اور طیُّ الارض والا معاملہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ان کو جہاں پہنچانا چاہے پہنچا دیتا ہے۔ جیسے مشہور واقعہ ہے کہ ایک بزرگ کے تین مرید تھے، اور باکمال مرید تھے، جن کو طے ارض حاصل تھا۔ عید پڑھنے کا وقت آ رہا تھا تو انہوں نے اپنے ایک مرید سے پوچھا کہ بتاؤ نماز عید کہاں پڑھنی ہے؟ اس نے کہا میرا تو خیال ہے کہ مکہ میں پڑھوں۔ فرمایا: سبحان اللہ! بڑا اونچا خیال ہے، اللّٰہ نصیب کرے۔ دوسرے مرید سے پوچھا کہ آپ کا کدھر کا ارادہ ہے؟ اس نے کہا کہ میرا تو خیال ہے حرم نبوی میں پڑھ لوں۔ فرمایا: واہ کیا بات ہے، سبحان اللہ! بہت اچھا خیال ہے۔ تیسرے سے پوچھا آپ کا کیا ارادہ ہے؟ اس نے کہا میرا ارادہ تو یہ ہے کہ بس آپ کے ساتھ پڑھ لوں، آپ جہاں بھی پڑھیں گے، میں آپ کے ساتھ پڑھوں گا۔ فرمایا: تو دونوں سے جیت گیا۔ بس اللّٰہ تعالیٰ جن کو نصیب فرمائے، بعض بزرگ ایسے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ مہمند بابا جی رحمۃ اللّٰہ علیہ حلیمی صاحب کے شیخ تھے، تسنیم الحق صاحب کے بھی شیخ تھے، غالباً آخری ملاقات تھی۔ پہاڑ میں رہتے تھے، ہم ان سے ملنے کے لئے گئے تو تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو رخصت کرنے کے لئے پہاڑ سے نیچے آئے۔ ہم سمجھے کہ بس یہاں تک آئے ہیں، واپس ہو جائیں گے۔ لیکن آپ ساتھ ساتھ ہمارے چلے آئے۔ ایک تو یہ ہوا کہ حضرت نے تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو آگے کرنا چاہا کہ آپ آگے ہو جائیں۔ چونکہ ان کے شیخ تھے، اس لئے وہ آگے نہیں ہو رہے تھے۔ پٹھان مرید بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں، جب بار بار کہا تو انہوں نے کہا: غرنۍ مې څه؟ یعنی مجھے غرق کرنا چاہتے ہو۔ تو مہمند بابا جی نے کہا کہ آپ مجھے غرق کرنا چاہتے ہو۔ بہرحال کہا کہ تم آگے چلو۔ لہٰذا وہ ان کے ساتھ ساتھ چلتے رہے اور راستے میں بات بھی کرتے رہے۔ وہ راستہ اتنا کم ہوا کہ ہم حیران تھے کہ کیا ہوا کون سا راستہ ہے۔ پھر پتا چلا کہ یہ تو کوئی اور چیز تھی۔ کیونکہ سواری کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔ بہرحال اللّٰہ تعالیٰ جن کے لئے جو چیز آسان کرنا چاہے، اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔

متن:

دیگر:

میں نے سُنا ہے کہ ایک شخص دہلی شہر میں ہمارے شیخ المشائخ کے ساتھ بہت ارادت و عقیدت رکھتا تھا اور خاص یقین رکھتا تھا اور وہ شخص دنیا دار تھا اور وہاں کے بڑے لوگوں کے ساتھ تنازعہ اور جھگڑا رکھتا تھا، اُن لوگوں نے اس کو بہت تنگ کیا اور اس کے قتل کا ارادہ کیا اور اس کو اہل و عیال کے ساتھ مکان میں محصور کر کے اس شخص کو زخمی کر دیا، وہ بھی مکان کا دروازہ خوب مضبوط بند کر کے ہاتھ میں تلوار لے کر کھڑا ہو گیا اور اپنے بعض دشمنوں کو بھی زخمی کر دیا، رات کا کچھ حصہ گذر گیا تھا کہ حضرت صاحب ان کے پاس آئے اور اس کو فرمایا کہ ایک گھٹڑی ہاتھ میں اٹھا کر مع اہل و عیال نکل جاؤ اور باقی مال یہاں چھوڑو۔ اس شخص نے کہا کہ میں کیسے نکل جاؤں، دشمن مکان کے چاروں طرف تاک لگائے بیٹھے ہیں، مگر حضرت صاحب نے مکرر طور پر کہا کہ ایک گھٹڑی اٹھا کر مع اہل و عیال نکل جاؤ۔ یہ سُنتے ہی اس شخص نے صرف ایک گٹھڑی اٹھائی اور مع اہل و عیال کے باہر چلے جانے کے ٹھانی، وہ شخص کہتا ہے کہ شیخ صاحب ہمارے آگے اور ہم اُن کے پیچھے چلے جا رہے تھے، جب دروازے پر پہنچے تو ہم حیران ہو گئے کہ دروازہ مقفل ہے ہم کس طرح نکلیں گے، اچانک ہم نے آواز سنی کہ قفل خود بخود کُھل گیا، جب دروازے پر پہنچے تو دروازہ بھی کھلا تھا، ہم باہر بھی نکل گئے پھر جو ہم نے دیکھا تو حضرت صاحب غائب تھے، ہم حیران و سرگرداں رہ گئے، جب ہم نے نظر اٹھا کر دیکھا ایک جنگل پر نظر پڑی، ہم وہاں ٹھہر گئے اور ہم پر ہیبت اور خوف چھایا ہوا تھا کہ اس جگہ ہم کو دشمن دیکھ پائیں گے۔ جب صبح صادق کی روشنی پھیل گئی اور ہم نے ماحول کو دیکھ کر غور و فکر کیا تو ہم کو معلوم ہوا کہ ہم قصور کے گرد و نواح میں ہیں، قصور میں میرا ایک واقف اور دوست تھا، اپنے بال بچوں کو میں نے تسلی دی کہ ہم قصور کے علاقے میں آئے ہیں کچھ خطرے کی بات نہیں، یہاں میرا ایک واقف اور دوست ہے جو ہماری اچھی طرح خاطر تواضع اور خدمت کرے گا، اس کے بعد ہم اُس دوست کے گھر چلے گئے اور ہم نے وہاں آرام سے سکونت اختیار کی یہاں تک کہ میرے زخم بھر کر اچھے ہو گئے اور اپنے اُس دوست کی مدد سے دشمنوں سے اپنا مال بھی واپس لے لیا۔

تشریح:

یہاں ایک صاحب ہیں، جو غالباً ایک دو ہفتہ پہلے آئے بھی تھے۔ ان کو شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ بہت عقیدت تھی۔اور وہ عمرے کافی کرتے تھے، ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک دفعہ عمرہ کے لئے جا رہے تھے کہ ان کو ٹکٹ بغداد کے راستے سے مل گیا۔ کیونکہ Air routes ایسے ہی ہوتے ہیں۔ بہرحال ایئر پورٹ پر ہی ان کو transit تھی۔ کہتے ہیں کہ میں بغداد ایئر پورٹ پہ اگلی فلائٹ کا انتظار کر رہا تھا، پتا نہیں، مجھے کیا ہوا کہ اپنے آپ سے باتیں شروع کر دیں اور کہا کہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شہر میں ہوں اور یہ کیسی عجیب بات ہو گی کہ میں ان کے شہر میں آیا ہوا ہوں اور ان کے مزار کی زیارت کئے بغیر چلا جاؤں۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اتنے میں ایک suited booted آدمی آیا، جس کو دیکھ کر سب الرٹ ہو گئے جیسے کوئی بڑا افسر ہو۔ وہ سیدھا میری طرف آیا اور مجھے کہتا ہے کہ کیا کرتے ہو؟ اٹھو۔ میں اٹھ کے اس کے ساتھ چلا گیا، گاڑی تیار تھی، اور کہا کہ ادھر بیٹھو۔ میں بیٹھ گیا۔ رات کا وقت تھا، سیدھا مجھے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مزار پہ پہنچا دیا۔ جیسے یہاں جو فرمایا گیا ہے کہ دروازہ خود بخود کھل گیا۔ اسی سے مجھے یہ واقعہ یاد آیا ہے۔ کہتے ہیں کہ جس راستہ پہ میں جا رہا تھا، لائٹیں خود بخود آن ہو جاتیں۔ جب میں بالکل قبر شریف کے پاس پہنچ گیا، تو دیکھا کہ قبر مبارک کے بالکل چاروں کونوں میں ایک ایک آدمی سبز کپڑے پہنے ہوئے بالکل باادب کھڑا ہے۔ میرا تو ان سے کوئی سروکار نہیں تھا، بس صرف دیکھ لیا، وہاں میں نے فاتحہ پڑھی، کچھ دیر وہاں رہا۔ اس شخص نے مجھے ایک جگہ بتائی تھی کہ وہاں آ جانا۔ جب میں ادھر سے فارغ ہو گیا، تو میں ادھر چلا گیا، وہاں گاڑی کھڑی تھی۔ اس نے مجھے کوئی بات چیت نہیں کی، بس کہا کہ بیٹھو۔ میں بیٹھ گیا۔ بغداد ایئر پورٹ پہ جا کر اس نے مجھے چُھوڑ دیا اور چلا گیا۔ بہر حال! دنیا میں یہ عجیب و غریب چیزیں ہوتی ہیں، اللّٰہ تعالیٰ نے نظام بنایا ہوا ہے۔ اصل میں: ’’اَلْمَوْتُ جَسْرٌ یُّوْصِلُ الْحَبِیْبَ إِلَی الْحَبِیْبِ‘‘ ’’موت ایک پل ہے جو محبوب کو محبوب سے ملا دیتا ہے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید یہ موت منقطع کرنے والی چیز ہے، حالانکہ سب کے لئے ایسا نہیں ہے۔ در اصل آخرت میں علیین اور سجین دو جگہیں ہیں۔ سجین قید خانہ ہے، علیین قید خانہ نہیں ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ پروٹوکول وہاں پر بھی چلتا ہے۔ لیکن ہر آدمی کے حال کے مطابق اللّٰہ تعالیٰ پروٹوکول بتا دیتے ہیں کہ یہ کرنا ہے۔ جو اللّٰہ والے ہوتے ہیں، ان سے بعض دفعہ اللّٰہ تعالیٰ موت کے بعد بھی کام لیتے ہیں، سب سے نہیں لیکن بعض لوگوں سے لیتے ہیں۔ جن اولیاء اللّٰہ سے کام لیا جاتا ہے ان میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا نام سرفہرست ہے اور کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی ان میں ہیں۔ کچھ اور حضرات بھی ہیں۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ جن سے کام لیتے ہیں، ان کے ذریعے سے کام ہو جاتا ہے۔ لیکن ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ (الفاتحۃ: 4) پہ بات نہیں آنی چاہئے، وہ change نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہی بنیادی مسئلہ ہے۔ اور جو صحیح تصوف کے راستہ سے چلتے ہیں، ان کو ساری چیزیں ملتی بھی ہیں اور ان کا ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُخراب بھی نہیں ہوتا، وہ ان کا ٹھیک چلتا ہے، ان کے اندر disturbance نہیں ہوتی۔ یعنی تعلق وہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے رکھتے ہیں۔ باقی تو سارے راستے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ جس طرح بھی چاہے، اس کے لئے کیا مشکل ہے۔ یہ کوئی ایسی باتیں نہیں ہیں کہ جو ہو نہ سکیں۔ ہمارے بزرگوں کی کتابیں ان چیزوں سے بھری پڑی ہیں، جس میں انہوں مختلف حالات لکھے ہیں۔ شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتابیں پڑھو، وہ جو اپنے والد صاحب کے قصے بتاتے ہیں کہ ان کے والد صاحب کے ساتھ کیا کیا ہوا۔ اور یہ واقعہ میں نے آج بھی کسی کو بتایا کہ شاہ عبد الرحیم صاحب کے والد صاحب خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مزار پہ گئے اور مراقب ہوئے، تو حضرت سے ملاقات ہوئی، حضرت نے فرمایا: بتاؤ کوئی اچھا مضمون ہو، اور اس کو کوئی بیان کرے، تو کیسا ہے؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! بڑی اچھی بات ہے۔ فرمایا: اگر وہ مضمون شعر میں ہو؟ فرمایا: یہ تو اس سے بھی اچھی بات ہے۔ فرمایا: اگر وہ اچھی آواز میں پڑھا جاتا ہو تو؟ فرمایا: سبحان اللہ! یہ تو نور علیٰ نور ہے۔ فرمایا: ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتے تھے، تم بھی کبھی کبھی سن لیا کرو۔ چونکہ شاہ عبد الرحیم صاحب نقشبندی بزرگ تھے، اور نقشبندی بزرگ ان چیزوں میں ذرا زیادہ محتاط ہوتے ہیں۔ اور خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللّٰہ علیہ چشتی بزرگ تھے۔ گویا دلائل سے ان کو اپنا مسلک بتا دیا کہ یہ کلام اگر اشعار میں کوئی سنے تو کوئی حرج کی بات نہیں، بلکہ مفید بات ہے۔ بلکہ ان سے ہی کہلوایا۔ بہت سارے واقعات شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے والد کے بتائے ہیں، خود اپنے واقعات بھی بتائے ہیں۔ دراصل محجوبین ان چیزوں کو نہیں جانتے۔ لیکن وہ لوگ بھی محجوبین ہیں جو ان باتوں کو مانتے ہیں مگر ان میں اتنے منہمک ہو جاتے ہیں کہ اللّٰہ کو بھول جاتے ہیں، بلکہ وہ اصل محجوبین ہیں۔ لیکن ان چیزوں سے اگر اللّٰہ یاد آ جائے اور اللّٰہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ پہ یقین ہو جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ سب کچھ کر سکتا ہے۔ سبحان اللّٰہ نور علیٰ نور ہے اور بہت زیادہ اللّٰہ تعالیٰ عطا فرما دیتے ہیں۔

متن:

دیگر:

ایک دن ایک امیر جس کا دادا حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا معتقد تھا، کامرو کے مقام پر ایک مشکل میں پھنس گیا اور کسی صورت میں بھی اپنی رہائی کی شکل نظر نہ آتی تھی، لیکن حضرت صاحب کی توجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی نجات کی کوئی صورت بہم پہنچائی، اور وہ مع اپنے لشکر کے، اُس مشکل سے آزاد ہوا۔ جب وہ امیر حضرت کی زیارت کو آیا تو شیخ المشائخ حضرت صاحب نے اُس کو بتایا کہ ایک دفعہ کامرو کے مقام پر تم ایک مشکل میں پھنس گئے تھے، تمہارے حق میں اللّٰہ تعالیٰ سے دُعا مانگی۔ اس امیر نے جواب دیا کہ میں سمجھ گیا تھا کہ ہماری رہائی آپ ہی کی توجہ کے مرہون منت تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ توجہ کرنا اس امیر کے دادا کی وجہ سے تھا ورنہ وہ امیر خود صادق العقیدہ نہ تھا۔

تشریح:

در اصل کبھی کبھی انسان نیک لوگوں کی اولاد میں ہونے کی وجہ سے اچھے لوگوں کی نظروں میں آ جاتا ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں انجینئرنگ فسٹ ایئر کا امتحان دے رہا تھا اور practical تھا۔ اس میں ایک بوڑھے میجر صاحب Viva لینے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ practical ہو گیا تھا، میں نوٹ بُک پر دستخط کرانے کے لئے لائن میں کھڑا تھا، وہ کسی اور کے سائن کر رہے تھے، میں اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ انہوں نے اچانک دوسری طرف دیکھا، تو میں نظر آیا۔ یک دم وہ اتنے پریشان ہو گئے اور کہنے لگے: اوہ! آپ کھڑے تھے، میں آپ کی طرف دیکھ نہیں سکا، جلدی جلدی مجھ سے میری نوٹ بُک لے لی اور اس پہ سائن کر دئیے۔ میں حیران ہوا کہ یہ مجھے جانتے ہیں، کیا مسئلہ ہے؟ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ لیکن شاید وہ کوئی عام شخص نہیں تھا، شاید کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا یہ رنگ تھا، کیونکہ بعض دفعہ اولاد میں ایسا ہو جاتا ہے۔

ایک دفعہ ہم جہانگیرہ کے سکول میں تھے، وہاں پانچ چھ سیڑھیاں تھیں، میں اوپر سے آ رہا تھا، مجھے ٹھوکر لگی اور میں سیڑھیوں پہ لڑکھنے لگا۔ محمد حسین نامی ہمارے ایک ٹیچر تھے، وہ کاکا صاحب کے بہت معتقد تھے، وہ سامنے برآمدے میں کھڑے تھے، مجھے کہنے لگے: کاکا صاحب کدھر گئے، کاکا صاحب کدھر گئے، کاکا صاحب کدھر گئے، پشتو میں مسلسل کہے جا رہے تھے: کاکا صاحب څه شو کاکا صاحب څه شو۔ مجھے تو خیر سنائی نہیں دے رہا تھا، کیونکہ میں تو لڑکھ رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی میں بالکل آخری سیڑھی سے گرا تو، جو بھی ہوا، واللّٰہ اعلم، میں سیدھا کھڑا ہو چکا تھا اور مجھے بالکل کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ جیسے میرے لئے کوئی gymnastics تھا۔ وہ مجھے کہنے لگے: میں نہیں کہتا تھا۔ ان دنوں ہم ان چیزوں میں ذرا سخت تھے۔ ہم دوسرے گروپ میں تھے، ان کی باتوں کا مذاق اڑاتے تھے کہ یہ کیا کہتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی خوش عقیدگی میں بہت زیادہ خیال کرتے تھے۔ لیکن ہم ان کو ذرا reject کرتے تھے کہ یہ کیوں اس طرح کرتے ہیں۔ بہر حال! ان کی خوش عقیدگی تھی کہ اللّٰہ پاک نے معاملہ مختلف کر دیا۔

بہر حال! میں دیکھتا ہوں کہ عجیب و غریب معاملات ہوتے ہیں۔ خود حلیمی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ایک اپنا واقعہ ہے، یہ انہوں نے مجھے خود سنایا ہے۔ کہتے ہیں کہ بٹ خیلہ میں ہماری سرکاری ڈیوٹی تھی، میرے ساتھ دفتر کے ساتھی تھے۔ مہمند بابا جی جو بعد میں ان کے شیخ بھی بن گئے، وہ اسی علاقہ میں تھے۔ ہم ان کے پاس جانے کے لئے روانہ ہو گئے۔ راستہ میں وہ ساتھی کہنے لگے کہ ہم مہمند بابا جی کو اس وقت مانیں گے کہ جب ہم وہاں جائیں گے، تو مرغِ مسلّم پہلے سے تیار پڑا ہو۔ کہتے ہیں کہ میں نے ان کو ڈانٹا کہ بزرگوں کے پاس کیا کوئی اس لئے جاتا ہے، یہ کوئی چیز ہے؟ ان سے تو آپ روحانیت لے لیں، یہ تم بہت غلط بات کر رہے ہو۔ ان کو تو ڈانٹا۔ لیکن جب ہم حضرت کے پاس پہنچے، تو کھانے کے وقت دیکھا کہ مرغِ مسلّم تیار ہے اور وہ سارا کچھ موجود ہے، جو انہوں نے کہا تھا۔ کہتے ہیں کہ ہم لوگ آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں کہ اب حضرت کے کوئی مہمان ہوں گے، وہ آئیں گے، تو ہم بھی کھانا کھائیں گے۔ بابا جی نے کہا: کیوں؟ کھانا نہیں کھاتے؟ کہتے ہیں: حضرت جی! آپ کے مہمان آ جائیں، پھر کھائیں گے۔ فرمایا: میرے کون سے مہمان! تم ہی میرے مہمان ہو۔ انہوں نے کہا: اچھا! ہم مہمان ہو گئے، لیکن آپ کو اطلاع کس نے دی تھی کہ ہم آ رہے ہیں؟ آپ نے تیاری پہلے کیسے کی ہے؟؟ انہوں نے کہا: مجھے کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بتایا تھا کہ آج میرا نواسا آ رہا ہے، میں دیکھتا ہوں کہ تم اس کے لئے کیا کرتے ہو۔ چونکہ حلیمی صاحب میرے پھوپھا تھے، تو یہ واقعہ وہ مجھے میری پھوپھی کے سامنے بتا رہے تھے۔ چونکہ اپنے اپنوں کو کو کچھ نہیں سمجھتے، تو میری پھوپھی نے ہنس کر کہا کہ کاکا صاحب سمجھتے ہیں کہ یہ میرا نواسا بڑا پیٹو ہے، تو اس کے پیٹ کا بند و بست کیا جائے۔ یعنی اس کو اس sense میں interpret کر دیا۔ میرا مقصد یہ ہے کہ کس کس چیز کا آپ انکار کریں گے؟ چیزیں تو بہت ہیں۔ صرف اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ انسان اپنا عقیدہ disturb نہ کرے۔ ان چیزوں کے انکار کی ضرورت نہیں ہے، نہ ان پہ اصرار کی ضرورت ہے۔ اگر نہ ہوں، تو اصرار کی ضرورت نہیں ہے اور اگر ہوں، تو انکار کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اپنے عقیدے کو disturb نہ کریں اور عقیدہ ہمارا یہ ہو کہ کرتا سب کچھ اللّٰہ جل شانہ ہے۔ اس کی مرضی ہے، جو چاہے کرے۔ موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا کہ پانی پر عصا مارو، بس وہ بارہ راستے بن گئے۔ کیوں بن گئے؟ کیسے بن گئے؟ وہ تو اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی ہے، بس بن گئے۔ یہ ساری باتیں اللّٰہ تعالیٰ کی ہیں۔ اللّٰہ جل شانہ دکھاتا ہے کہ قدرت میری ہے اور اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ہاں اپنے آپ کو بچانا ہوتا ہے، ایک تو عقیدہ کے لحاظ سے بچانا ہے کہ عقیدہ خراب نہ ہو، لہٰذا اچھی طرح سمجھ ہونی چاہئے۔ دوسری بہت بڑی چیز کہ جس چیز سے لوگوں کو بچانا ہے، جس سے اکثر لوگ عقیدے کے معاملے میں نہیں بچ پاتے۔ اگرچہ عقیدے میں بہت سارے لوگ بچ بھی جاتے ہیں، یعنی ایسے بہت ہی بد نصیب ہوں گے، جو اس کو دوسری طرف لے جائیں گے، لیکن ایک چیز ہے کہ جس سے بچنا بڑا ہی مشکل کام ہے، اس میں تقریباً اکثر لوگ لڑکھ جاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ایسے بزرگوں کے پاس جانے میں دنیا کی نیت ہو جائے۔ مثلاً: آپ نے دیکھ لیا اور سن لیا کہ فلاں کو یہ مل گیا، فلاں کو یہ مل گیا، فلاں کو یہ مل گیا۔ یہ سب واقعات ہیں۔ اگر آپ نے یہ واقعات سن لئے اور پھر آپ اسی نیت سے جائیں، تو آپ نے بہت کم کو لیا۔ جیسے کہا گیا: ’’نرخ بالا کن کہ ارزانی ھنوز‘‘۔ یعنی اگر آپ نے دنیا کی کسی چیز پر سمجھوتہ کر لیا، تو یہ آپ نے بہت کم پہ سمجھوتا کیا۔ لہٰذا سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللّٰہ سے اللّٰہ کو مانگو۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس کی عجیب نظیر بتائی ہے۔ فرمایا: ایک بادشاہ تھے۔ بادشاہوں کے اپنے موڈ ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ موڈ میں آ جاتے ہیں اور کچھ سے کچھ کر جاتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ جس کے سامنے جو کچھ ہے، جس نے جس چیز پہ ہاتھ رکھا، وہ اس کی۔ کسی کا فانوس پہ ہاتھ ہے، کسی کا کرسی پہ ہے، کسی کا میز پہ ہے، کسی کا سیٹ پہ ہے، کسی کا پردوں پہ ہے۔ جس کے سامنے جو تھا، اس نے اس پر ہاتھ رکھ دیا اور قانون تھا کہ بس یہ اسی کا ہے۔ اس وقت بادشاہ کو ایک کنیز پنکھا جھل رہی تھی۔ اس نے بادشاہ پہ ہاتھ رکھا ہوا تھا، بادشاہ نے کہا: پگلی! سارے لوگ لوٹ رہے ہیں، تم بھی کچھ اٹھا لو۔ اس نے کہا: بادشاہ سلامت! میں نے بھی ہاتھ کسی جگہ رکھا ہوا ہے۔ بادشاہ نے جب دیکھا، تو کہا: تو سب سے زیادہ ہوشیار نکلی۔ حضرت نے فرمایا: یہی بات ہے۔ یہاں دنیا کی لوٹ ہے، لیکن دنیا کی چیزوں کو لوٹ کے کیا کرو گے؟ سب کچھ یہاں رہ جائے گا۔ صندل بابا جی رحمۃ اللّٰہ علیہ اسلام آباد تشریف لائے تھے، میں پاس بیٹھا ہوا تھا۔ پشتو بولنے والے ایک صاحب آئے اور اتنا خوشامدی لہجہ تھا کہ مجھے ان کی باتوں پہ غصہ آ رہا تھا۔ صندل بابا جی کی وجہ سے میں کچھ کہہ نہیں رہا تھا، لیکن مجھے سخت غصہ آیا کہ اتنی خوشامد بھی ہوتی ہے۔ اس کو تو ہر ایک محسوس کرتا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا: آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، قربان جاؤں وغیرہ وغیرہ۔ کہنے لگا کہ آپ نے مجھے جو وظیفہ دیا تھا، اگر دوبارہ مجھے اس کی اجازت دے دیں، تو مہربانی ہو گی، کیونکہ مجھ سے یہ ہو گیا، یہ ہو گیا، اس طرح کچھ بتانے لگا۔ حضرت نے اس کو بہت آرام سے فرمایا: بھائی! دنیا کو چھوڑو، اپنی قبر کو بناؤ، کب تک خواب میں رہو گے، آخر اترو گے، تو سہی، جہاں اترو گے، وہاں کے لئے کچھ کام کرو۔ یہ کن چیزوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔ در اصل وہ علمیات وغیرہ کی کچھ چیزیں پوچھ رہا تھا۔ کیونکہ حضرت نے کسی وقت کسی چیز کی اجازت دی تھی۔ مجھے بھی حضرت نے الحمد للہ اسماءُ الحسنیٰ کی اجازت دی تھی۔ مجھے تو باقاعدہ لکھ کے دے دیا تھا۔ بہر حال! حضرت نے کسی وقت ان کو اجازت دی ہو گی، تو اس میں کوئی technical مسئلہ ہو گیا ہو گا، تو وہ اس مقصد کے لئے آیا ہوا تھا۔ بہر حال! حضرت نے ان کو سمجھایا کہ اپنی آخرت کو بناؤ، اپنی قبر کو بناؤ۔ چنانچہ بزرگ تو یہی کہتے ہیں، لیکن اگر آپ نے بالکل وہی لینا ہے، تو وہ بھی دے دیں گے۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ آپ نے تہیہ کیا ہوتا ہے، لہٰذا بزرگ وہ بھی دے دیتے ہیں، لیکن آپ نے بہت کم پہ سودا کر لیا۔ جیسے: کوئی پانچ ہزار روپے کے نوٹوں سے چائے پکائے، چائے تو پک جائے گی، لیکن آپ نے کیا کیا، کس چیز کے لئے استعمال کیا ہے۔ جیسے: میں نے عرض کیا کہ ایسے بزرگوں کے ساتھ ایسے معاملات ہوئے۔ ایسی صورت میں دو کام ہو جاتے ہیں۔ ایک تو عقیدے پہ ضرب پڑ سکتی ہے۔ اگر آپ نے بزرگوں کو یاد رکھا اور اللّٰہ کو بھول گئے، تو تباہی ہے۔ اور اگر ما شاء اللّٰہ اس سے بچ گئے، لیکن اگر آپ نے دنیا کو یاد رکھا، تو پھر بھی تباہی ہے۔ اور یہ تباہی زیادہ لوگوں کی ہے۔ یعنی جو لوگ دنیا کی چیزوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں، تو وہ بھی مل جاتی ہیں، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ لیکن اس نیت سے نہیں جانا چاہئے۔ بلکہ جب بھی کسی اللّٰہ والے کے پاس جاؤ، تو یہ سمجھو کہ یہ میرے لئے اللّٰہ تعالیٰ سے لینے کا نظام ہے۔ سب سے پہلے تو یہ مانگو کہ اللّٰہ مجھے مل جائے۔ پھر اگر ساتھ آپ کی ضروریات بھی ہیں، تو ان کے مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ سے بھی ہم مانگتے ہیں، دنیا بھی مانگتے ہیں، لیکن ضرورت کے مطابق مانگتے ہیں۔ اصل ہماری خواہش، تمنا اور ذوق اس بات پہ ہو کہ ہمیں اللّٰہ مل جائے، اگر ہم یہ بات کر سکتے ہیں، تو سبحان اللّٰہ اس میں بہت کچھ ہے۔

متن:

دیگر:

حضرت صاحب کا ایک مرید تھا جس کا بیٹا ہندوستان کی جانب چلا گیا تھا، کچھ عرصہ بعد وہ مرید حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کر کے اجازت چاہی کہ اپنے بیٹے کی تلاش میں چلا جائے۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ چند دِن ٹھہرو، اس مرید نے حضرت صاحب کے کہنے پر عمل کیا اور حضرت صاحب کے ہاں دس بارہ دِن ٹھہرا رہا۔ انہی دنوں میں اس کا بیٹا اتفاقًا آیا اور اپنے باپ کے ساتھ وہاں ملاقات کی۔ حضرت صاحب نے دونوں کو رخصت کر کے گھر روانہ کیا اور ان کو حضرت صاحب کے حکم کا نتیجہ ظاہر ہوا اور ان کا یقین بڑھ گیا۔

دیگر:

حضرت صاحب کا یوسف زئی کے علاقے میں نذر نام کا ایک مرید تھا جو سوات میں رہا کرتا تھا، بہت عرصے تک حضرت صاحب کی خدمت میں آتا جاتا تھا، حضرت صاحب کی رحلت کا وقت قریب ہوا، اس آخری دفعہ جب وہ شخص آیا تو اپنی اہلیہ کو بھی ساتھ لایا اور حضرت صاحب کی زیارت کی اور کچھ عرصہ حضرت صاحب کی خدمت میں رہا۔ جب وہ میاں بیوی رخصت ہونے لگے تو حضرت صاحب نے اُن کو شیخ جعفر اٹک کے ہاں بھیج دیا کہ وہاں جائیں اور وہیں مشغول رہا کریں۔ اس کے بعد حضرت شیخ صاحب اس دار الفنا سے رحلت فرما گئے، وہ شخص بدستور شیخ جعفر اٹک کے ہاں مقیم تھا، میں نے اٹک میں اتفاقًا شیخ جعفر کے ساتھ ملاقات کی تو میں نے اس مرید کو بھی وہاں دیکھا۔ اثنائے گفتگو میں اس شخص نے کہا کہ میں شیخ صاحب کے حکم سے یہاں آیا ہوں، وہ ایک حاذق طبیب تھے اگر میں یہاں مشغول نہ ہوتا تو آپ کی جدائی میں غم سے مر جاتا اور شیخ جعفر کے سامنے حضرت صاحب کی یہ کرامت بھی بیان فرمائی کہ جب ہم آخری بار اپنی اہلیہ کے ساتھ حضرت صاحب کی زیارت کو آئے تھے تو جب ہم دونوں کو رخصت فرمایا، تو راستے میں میرہ کے میدانی علاقے میں سخت بارش ہوئی، چنانچہ بلڑ اور کلپانی کے نالے میں طغیانی اور سیلاب آیا اور ہمارے لئے آگے جانے کا راستہ بند ہو گیا، ہم حیرت زدہ ہو کر رہ گئے۔ اندھیری رات تھی اور ابھی بارش برس رہی تھی اسی اثناء میں حضرت صاحب ظاہر ہوئے اور کہا کہ تمہاری بیوی میری بیٹی ہے، اس کو ایک بازو اور مجھے دوسرے بازو سے پکڑ کر نالے کی جانب بٹھایا اور اپنا مصلیٰ ہمارے سر پر ڈال دیا، بارش تھم گئی، ہم کو رخصت کیا اور خود غائب ہو گئے۔ اور حضرت صاحب نے ان کو جو اذن فرمایا تھا کہ شیخ جعفر اٹک کے ہاں جاؤ تو یہ ان کی دل جوئی کی وجہ سے تھا کہ یہ لوگ شیخ جعفر کے ساتھ محبت اور دلی لگاؤ رکھتے تھے۔ جب شیخ جعفر صاحب نے اِن سے حضرت صاحب کی یہ کرامات سُنیں تو فرمایا کہ حضرت شیخ صاحب اپنے زمانے کے ایک عظیم ولی اور مرتاض تھے۔

دیگر:

حضرت صاحب کے مریدوں میں ایک مُرید نے سوات میں بازوں کے شکار کے لئے دام بچھایا تھا، چند دن گزر گئے اور کوئی باز شکار نہ ہوا کیونکہ حضرت صاحب کی مرضی کے خلاف تھا۔ ایک دِن اُس نے دیکھا کہ ایک پنجہ نمودار ہوا جس نے بچھے ہوئے دام کو لپیٹ لیا اور اس کو اکٹھا کر کے ڈال دیا اور پھر وہ پنجہ غائب ہو گیا۔ وہ شخص بیان کرتا تھا کہ میں خوب جانتا تھا کہ یہ پنجہ حضرت صاحب ہی کا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ میں گھر چلا گیا اور بازوں کا شکار کرنا چھوڑ دیا۔ حضرت صاحب اپنے بعض مریدوں کو دنیا کے کاموں سے منع فرماتے تھے کیونکہ دنیا کے کاموں میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

دیگر:

حضرت صاحب اپنے والد بزرگوار شیخ بہادر بابا صاحب سے نقل فرماتے ہیں کہ مرضِ موت میں زندگی کی آخری ساعتوں میں صاحب موصوف فرماتے تھے کہ اے الہ العالمین! اُس محبت کے چشمے کی وجہ سے جو میرے دانتوں کی جڑ سے پھوٹتا تھا مجھے کبھی بھی غذا کھانے کی ضرورت نہیں تھی، مگر بغیر کسی حاجت اور ضرورت کے لوگوں کی خاطر کھاتا تھا اور اس وقت اُسے قے کرنے کا خوف بھی رکھتا تھا، اب وہ سب کھایا ہوا زہر بن گیا ہے اور سخت کڑوا ہو گیا ہے۔ یہ روایت حضرت صاحب نے اپنے آخری وقت مرضِ موت میں کی تھی گویا کہ اپنی بات فرما رہے تھے۔

دیگر:

علماءِ ظاہر میں سے ایک عالم آپ کی زیارت کو آئے تھے، حضرت صاحب نماز کی امامت کرا رہے تھے اور پاؤں کے پھٹ جانے کی وجہ سے نماز ذرا کراہت سے ادا کرتے تھے۔ عالم کے دل میں یہ بات ناگوار گذری کہ اسی طرح کی کراہت سے نماز ادا کرتے ہیں، شاید ان کی یہ شہرت غلط اور بے موقع ہے۔ سلام پھیرتے ہی ہمارے شیخ صاحب نے فرمایا کہ اس طرح کراہت سے نماز ادا کرنا عجز کی وجہ سے ہے کہ اس طرح ادا کرنے کے علاوہ دوسری طرح ادا نہیں کر سکتا۔ اس بات سے ان عالم صاحب کے دل کا خطرہ ٹل کر ان کے خیالات صاف ہوئے۔

دیگر:

ایک دفعہ یوسف زئی قوم کے ایک لشکر نے خٹک قوم پر فوج کشی کی اور دریا کے کنارے کے دیہات پر حملہ کیا، خٹک قوم کے لوگ بھی مقابلے پر اُتر آئے، قضائے الٰہی سے خٹک قوم کو شکست ہوئی اور انہوں نے فرار اختیار کیا اور دریا کے کنارے کے گاؤں کو برباد کیا۔ اُس دن ایک شخص لشکر سے پیچھے رہ گیا تھا جس نے اپنے آپ کو چھپائے رکھا تھا اور جس جگہ گاؤں کے لوگ گھاس چارہ اور لکڑی وغیرہ جمع کرتے تھے اُس نے اپنے آپ کو اس میں چھپائے رکھا، مگر جس جگہ وہ چھپا تھا وہاں کافی لکڑی وغیرہ نہیں تھی، اگر کوئی تھوڑی سی توجہ بھی کرتا تو وہ دیکھا جا سکتا اور اللّٰہ تعالیٰ کے کرم اور حضرت صاحب کی توجہ کے علاوہ کوئی بات نہیں تھی جو اسے بچاتی، اچانک یوسف زئی کے لشکر کے بندوقچیوں اور توپچیوں نے وہاں مورچہ بنایا اور بندوقوں سے دریا کے دوسرے کنارے پر گولہ باری شروع کر دی اور خٹک قوم نے بھی دریا کے مقابل کنارے سے بندوق چلانا شروع کی اور لڑائی شروع کر دی۔ وہ شخص اس جگہ یوسف زئی کے لشکر کے پاؤں کے نیچے نہایت خوف ڈر اور ہراس سے بیدِ لرزان کی طرح کانپ رہا تھا، اگر کسی کی نگاہ اس پر پڑ جاتی تو اس کو قتل کر دیتے۔ پس وہ اپنا کل مال مویشی اور جانور جو دس راس سے زیادہ تھے، ان کو نذرانہ کر کے حضرت صاحب کے درگاہ میں التجا کی، اللّٰہ تعالیٰ نے اُن بندوقچیوں کو وہاں سے ہٹایا اور وہ جگہ خالی رہ گئی۔ جب مذکورہ شخص نے امن محسوس کیا تو اپنے نذرانہ ماننے سے نادم اور پشیمان ہوا اور اپنے وعدے سے پھر گیا، پھر تھوڑی دیر بعد اس جگہ پہلے سے زیادہ خوف و ہراس اور ڈر کا معاملہ پیش آیا اور اُس پر نہایت بُرا وقت آن پڑا، شخص مذکور نے پھر زاری اور فریاد کا معاملہ شروع کیا کہ اے حضرت شیخ المشائخ! میں توبہ کرتا ہوں، میرے کردار پر نہ جائیے، مجھ پر اپنی توجہ مبذول فرمائیے، آپ کا نذرانہ تمام کا تمام ادا کروں گا اور پھر اپنی بات پر نادم اور پشیمان نہیں ہوں گا، اللّٰہ تعالیٰ نے پھر وہ سختی اُس پر آسان کر دی اور دشمنوں سے نجات پا کر سلامت رہا، گھر آنے کے بعد جب وہ نذر کردہ مال حضرت صاحب کی خدمت میں لے آیا تو حضرت صاحب نے اُسے فرمایا کہ یہ مال میں نے دوبارہ تجھے بخش دیا، لیکن ندامت اور پشیمانی مردوں کو زیب نہیں دیتی اور مردوں کے لئے ایسا کرنا خوب نہیں۔ پس تمام حاضرین سمجھ گئے کہ حضرت صاحب اِن کے حال سے واقف ہیں اور وہ خود بھی عذر و معذرت کرنے لگا اور اپنی تقصیر کی معافی مانگنے لگا۔

دیگر:

چند سالوں کے لئے خٹک کے علاقے میں سخت قحط پڑا، چنانچہ لوگ اپنے جانور گھاس چارے کے لئے دور کے علاقوں میں لے گئے تھے۔ جب کچھ عرصہ گذر گیا تو آپ نے حکم فرمایا کہ خٹک قوم کے جو لوگ وطن چھوڑ کر مسافری کر رہے ہیں وہ اپنے وطن کو واپس آ جائیں۔ بہت سے لوگ حضرت صاحب کے حکم کے منتظر تھے، جب حضرت صاحب کا حکم سُنا تو تمام لوگ جوق در جوق وطن کو واپس آنے لگے، ابھی راستے میں ہی تھے کہ سخت بارش برسنے لگی اور اللّٰہ تعالیٰ نے اس قحط کو رفع دفع کیا۔

دیگر:

اس اثناء میں کمال خان کے دور میں جب کہ مغل اور افغانوں میں فتنہ و فساد اور جھگڑا تھا، افغانوں کی تمام قوم و قبیلے ایک طرف تھے اور متفق اور اکھٹے ہو کر مغلوں کے خلاف معرکہ آرا تھے، مگر شہباز خان خٹک مغلوں کا طرف دار تھا۔ آخر کار جب افغان قوم نے مغلوں پر غلبہ پایا تو مغل شکست کھا کر پشاور کے قلعہ میں بند ہو کر محصور ہو گئے اور بہت تنگ ہوئے۔ افغان قوم کے خوف کی وجہ سے شہباز خان خٹک نے اٹک کا ارادہ کیا اور اپنے اہل و عیال اور تابعین کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب خیر آباد پہنچ گیا تو حضرت صاحب نے اپنے بھائی شیخ حیات خان کو اُس کے پیچھے پیغام دے کر بھیجا کہ تم خیر آباد میں تین دن تک ٹھہرے رہو اور انتظار کرو کیا ہونے والا ہے، اس کے بعد تم کو مناسب اذن دیا جائے گا اور جو کچھ ہو گا اس حقیقت کی تم کو اطلاع دی جائے گی۔ شہباز خان آپ کے خاص مریدوں میں سے تھا، اگرچہ اُس نے یہ حکم مناسب نہ سمجھا مگر حضرت صاحب کے حکم کو مان کر تین دن تک خیر آباد میں ٹھہر گیا اور انتظار کر رہا تھا کہ اچانک تیسرے دن خبر ہوئی کہ مغل افغانوں پر غالب آ گئے ہیں اور پشاور میں مغلوں سے افغانوں نے شکست کھائی اور مغل غالب آ گئے۔ اس کے بعد شہباز خان نے اپنے ساتھیوں کی طرف منہ کر کے کہا کہ تم نے شیخ صاحب کے کلام میں حکمتیں ملاحظہ کیں؟ اور شاید حضرت صاحب کا حکم ملنے سے قبل شہباز خان کے بعض مال و سامان کو دریا سے پار کر کے اٹک کے قلعے میں محفوظ کیا گیا تھا اس کے بعد عزت اور سرخروئی کے ساتھ سرائے اکوڑہ میں واپس ہوا اور مغلوں کا معتمد خاص بنا رہا۔ (بیت)

؎ بہ مے سجادہ رنگین کن گرت پیر فغان گوید

کہ سالک بے خبر نبود ز راہ و رسم منزلہا

’’اگر پیر مغان تم کو کہے تو اپنے جائے نماز اور سجادہ کو شراب سے رنگین بنا لو، کیونکہ ایسا کہنے کے وقت سالک اور مرشد راہ کی منزلوں کے راہ و رسم سے بے خبر نہیں ہوا کرتا‘‘۔

حضرت صاحب کو علم لدنی حاصل تھی اور بہت سے موقعوں پر اُس علم کے اشارات اور اشارے کنائے آپ سے ظاہر ہوئے تھے، چنانچہ کِسی وقت پشاور کا صوبے دار یا اس کا جانشین (مجھے ٹھیک سے یاد نہیں) شہباز خان کا مخالف تھا، اُس صوبے دار نے اپنے منہ بولے بیٹے کو طلب کر کے شہباز خان خٹک کا علاقہ لے کر اُس کے حوالے کر کے اس کو مقرر کیا۔ اُس معاملہ میں شہباز خان بادشاہ کے پاس جا کر اپنے لئے کوشش کر رہا تھا اور اس کے پیچھے خٹک قوم کے بعض لوگوں نے اس شخص کو قتل کر دیا۔ مذکورہ صوبے دار نے غصہ ہو کر اپنے ساتھ لشکر لے کر حملہ کرنا چاہا کہ پہاڑ کے دامن کے بعض گاؤں کو تخت و تاراج کرے۔ وہاں کے لوگوں کو سخت خطرہ تھا، سب لوگ حضرت شیخ المشائخ کی خدمت میں آ کر عرض کرنے لگے کہ حضرت! آپ ہمارے شیخ ہیں اور ہم آپ کی قوم ہیں، ہمارے سروں پر سخت تباہی منڈلا رہی ہے جس بات سے ہماری مشکلات حل ہو سکیں وہ ہمیں ارشاد فرمائیں تاکہ ہم ساحلِ مراد کو پہنچ جائیں، کیونکہ ایک طرف تو ازبک اور دوسری جانب سے خٹک قوم کے کچھ لوگ بھی مغلوں کے ساتھ ہو گئے ہیں، ہم کسی صورت میں نجات کی راہ نہیں دیکھ پاتے، اور مغل لشکر کا ہراول دستہ اس مہم کو سر کرنے کے لئے اُس دن ہزار خوانی پشاور کی جانب نکل آیا تھا۔ حضرت صاحب نے اِن کو ہدایت فرمائی کہ آج رات کو ہر ایک آدمی اپنی توفیق کے مناسب خیرات کرے اور جو کوئی دنبے کے ذبح کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ دنبہ ذبح کرے اور جو کوئی خالی طعام اور روٹی وغیرہ کی طاقت رکھتا ہو وہ خالی روٹی پکا کر صدقہ کرے، امید ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ خیر کرے گا اور آپ کو نجات دے گا۔ پس تمام قوم نے حضرت صاحب کے حکم کے مطابق عمل کیا اور ہر گھر کے لوگوں نے خیرات کر کے صدقے دئیے۔ اللّٰہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ اُن دنوں مذکورہ امیر نے اپنا ایک عزیز رشتہ دار آفریدیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے مع لشکر بھیجا تھا، وہاں سے اطلاع آئی کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے کمک لے کر پہنچ جائیں ورنہ ہم سب کے سب قتل کئے جائیں گے وہاں سے وہی ہراول لشکر ہزار خوانی سے آفریدیوں کے مقابلے کے لئے بھیجا گیا اور خٹک کی مہم ترک کی گئی اور شہباز خان کو اپنی جگہ پر عارضی حاکم بنایا گیا۔ یہ سب کچھ حضرت صاحب کے علم لدنی کا اثر تھا، چنانچہ نقل کیا جاتا ہے کہ ایک ولی اللّٰہ نے جس کو علم لدنی حاصل تھا، ایک دفعہ اعلان کیا کہ جس کے گھر میں مُرغ ہو اس کو ذبح کرے اور فلاں رات گھر میں کوئی بھی آگ نہ جلائے۔ پس کچھ گھروں اور دیہات والوں نے اس پر عمل کیا اور کچھ نے نہ کیا۔ خدا کی قدرت کہ اس وقت کے بادشاہ نے حملہ کیا اور جن لوگوں نے مُرغ زندہ اور آگ جلائے رکھا اُن کے گھروں کو تخت و تاراج کر دیا اور جن لوگوں نے اُس ولی اللّٰہ کے کہنے پر عمل کر کے مُرغ اور آگ بجھائے رکھا تھا اُس دیہات کو ویران سمجھ کر اُن کو کوئی ضرر اور نقصان نہیں پہنچایا اور سب سلامت رہے۔

دیگر:

یہ اُن دنوں کی بات ہے کہ نوشہرہ میں تھانے دار شمشیر خان تھا، اُس نے یوسف زئی قوم کو تخت و تاراج کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا اور اس کے لئے مناسب وقت کی تلاش میں تھا۔ خدا کی قدرت کہ ایک دفعہ اس کو موقع مل گیا اور اس نے یوسف زئی کے بعض گاؤں کو تخت و تاراج کر کے لوٹ لیا اور بعض لوگوں کو قیدی بنایا اور بہت سا مال بھی لوٹ کر لے آیا۔ قیدیوں کے سرغنہ لوگوں کو صوبے دار کے پاس بھیج دیا جو کم و بیش چالیس آدمی تھے اور کچھ قیدی اپنے ہاں نوشہرہ میں رکھے۔ ان قیدیوں کے عزیز و اقارب نے حضرت صاحب کے دربار میں حاضر ہو کر فریاد کی، پس حضرت صاحب کے نوشہرہ لانے کی کیفیت اور حقیقت خود شمشیر خان نے اس فقیر کو بیان کی کہ جب میں نے دریا کی دوسری جانب چند فقیروں کو دیکھا تو میں نے پوچھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک فقیر پہاڑ میں رہتے ہیں وہ تشریف لائے ہیں، اور یہ دوسرے لوگ اُن کے رفیق ہیں۔ شمشیر خان نے مجھے کہا کہ میں نے اس سے قبل حضرت صاحب کو نہیں دیکھا تھا، حضرت صاحب کشتی پر سوار ہو کر دریا کے اِس پار میری جگہ پر آئے میں اُن کے استقبال کے لئے چلا گیا، اور آداب بجا لایا۔ جب وہ بیٹھ گئے تو مجھ پر نگاہ ڈالی اور کہا کہ تمام قیدی مجھے دے کر بخش دو۔ شمشیر خان نے کہا کہ مجھے دم مارنے کی طاقت نہ تھی کہ ان کے آگے زبان ہلا سکوں، مذکورہ قیدیوں کو آزاد کرانے کا اختیار میں نے حضرت صاحب کو دے دے دیا۔ میرے اس کام سے حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اس کے بعد فرمایا کہ صوبے دار سے بھی اُن چالیس قیدیوں کو رہائی دلا دو۔ میں نے عرض کیا کہ وہ لوگ میرے اختیار سے نکل چکے ہیں، جو کچھ میرے ہاتھ اور بس میں تھا میں نے آپ کی خدمت میں دے دیا، ان کی رہائی کی طاقت نہیں رکھتا پس آنجناب نے تھوڑی دیر تشریف رکھی، چند جام پانی پیا، کھانا نہیں کھایا، پھر اُٹھ کر روانہ ہوئے۔ اُس کے بعد اُن دیگر قیدیوں کو آزاد کرانے کے لئے پشاور کی جانب چلے گئے اور شیخ عثمان کے گھر میں جو اس وقت وہاں کے ارباب تھے، رات بسر کی، اور شیخ عثمان سے کہا کہ یوسف زئی کے ان قیدیوں کو صوبہ دار سے آزاد کرا کر ہمارے حوالے کرو۔ شیخ عثمان نے سُستی دکھا کر اور بے ہمتی کر کے دلیلیں دینا شروع کیں، حضرت صاحب واپس اپنے گھر آ گئے۔ چند دن بعد پھر قیدیوں کی رہائی کے خاطر شیخ عثمان کے گھر تشریف لے گئے۔ دو راتیں گذر گئیں اور شیخ عثمان نے ادب کا طریقہ اختیار نہیں کیا جیسا کہ لازم تھا اور سُستی دکھائی، حضرت پھر اپنے گھر آ گئے، لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے ایک سبب بنایا جس سے تمام قیدی خود بخود آزاد ہو گئے۔ اور اُن قیدیوں کی رہائی کا سبب میں نے شمشیر خان سے سُنا ہے، اُس نے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب پشاور تشریف لے گئے تو صوبے دار کو حضرت صاحب کی آمد کی غرض و غایت بیان کی گئی کہ ایک بزرگ ہستی قیدیوں کے آزاد کرنے کے لئے ایک عرضداشت کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، جو کچھ آپ حکم دیں گے اس پر عمل کیا جائے گا۔ صوبے دار نے غصہ سے لال پیلے ہو کر کہا کہ افغانوں میں ایسے شیخ بہت ہیں، اگر کوئی چالیس ہزار روپے لے آئیں تو یہ قیدی اُن کو دوں گا۔ اتفاقًا خود صوبے دار ایک بڑے لشکر کے ساتھ یوسف زئی قوم کی مہم پر کمر بستہ ہو کر روانہ ہوا، خدا کی قدرت جس وقت صوبے دار کا لشکر یوسف زئی کے علاقہ میں پہنچا تو سخت بارش شروع ہو گئی۔ صوبے دار اُس مہم میں کامیاب نہ ہوا اور آخر کار عاجز ہو کر صلح کر لی اور تمام قیدی مع مال و دولت آزاد کر دیے جو وطن واپس ہوئے۔

ان مناقب میں تین نکتے ہیں: پہلا یہ کہ شمشیر خان یوسف زئی کی تمام ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو گیا جو اللّٰہ تعالیٰ کا فضل اور حضرت صاحب کی دُعا تھی۔ اور اس کی تمام مرادیں پوری ہوئیں، چنانچہ کچھ عرصہ بعد حیات خان سے شمشیر خان بن گیا۔ پہلے اِس کا نام حیات خان تھا، پھر منصب میں بھی اضافہ ہوا اور نام بھی شمشیر خان ہوا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کے قدم کے طفیل ان قیدیوں کو بغیر کسی منت و فدیہ کے آزاد کرایا بلکہ ان کو خلعت بھی مل گئی۔ تیسرا نکتہ یہ کہ شیخ عثمان نے چونکہ سُستی اور تساہل سے کام لیا تھا اور ادب نہیں کیا تھا اس وجہ سے وہ نیست و نابود ہو گیا اور اس کے تمام مکانات وغیرہ اُجڑ گئے اور اس کی اولاد گداگری کرتی اور بھیک مانگا کرتی تھی۔

حکایت:

ایک دفعہ ایک بزرگ کسی شخص کے گھر گئے، مذکورہ شخص نے ان بزرگوں کو اپنے گھر میں جگہ نہ دی اور گھر میں نہ رہنے دیا۔ اس کے پڑوس میں ایک اندھا شخص تھا، وہ بزرگ وہاں چلے گئے، اس نے ان بزرگوں کو جگہ دی، جس کی برکت سے وہ اندھا شخص بینا ہو گیا۔ حضرت صاحب اہل حق اور افراد میں سے تھے، اُن کا مطلب اور مراد کرامت کا اظہار نہ تھا، جو کچھ ہوا کرتا تھا اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہوتا تھا۔ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے افراد کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر اظہار کرامت ایک حجاب ہوتا ہے۔ چونکہ شیخ عثمان نے بھی سوئے ادبی کی وجہ سے کہا کہ اے شیخ! یہ بات کرامت کے بغیر نہیں ہو سکتی، آپ کرامت ظاہر کریں۔ پس شیخ صاحب نے خود اپنی زبان مبارک سے فرمایا کہ میں یہاں نفع اور فائدہ پہنچانے کی خاطر آ گیا ہوں کسی کو ضرر یا نقصان پہنچانے نہیں آیا ہوں۔ یقینًا اللّٰہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر حضرت صاحب کو کرامت ظاہر کرنے کی طرف میل یا رغبت نہ تھی اور اس طرح کرامت کا ظاہر کرنا مکروہ سمجھتے تھے۔

نوٹ:

اس باب کی ابتدا اور تمہید میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ قابل ملاحظہ ہے اور اس پر غور کرنا چاہئے کہ کرامت ایک تکوینی امر نہیں، بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ کائنات کے پیدا کرنے کے وقت اللّٰہ تعالیٰ کے دو قسم کے احکامات تھے: ایک خلقی، جن کا اسباب کے ساتھ تعلق ہے، جیسا کہ درخت نباتات اور حیوانات۔ اور دوسرا امر، جیسا کہ ارواح کی پیدائش اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور اس کو تکوینی اس لئے کہتے ہیں کہ کُن کے امر سے ایک معدوم چیز موجود ہوتی ہے۔ ﴿بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ إِذَا قَضٰى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهٗ كُنْ فَيَكُونُ﴾ (البقرۃ: 117)اللّٰہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نئے سرے سے پیدا کرنے والا ہے اور جس وقت کسی کام کے کرنے کی خواہش کرے تو اس کو کُن یعنی ہو جا کہتا ہے تو وہ ہو جاتا ہے“ اس پر دلیل ہے۔

دیگر:

حضرت صاحب سانپوں کے کاٹے کا زہر دفع کرنے کے لئے کھانے کے لئے نمک دیا کرتے تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مار گزیدہ کو شفا بخشتے تھے اور اس سانپ کا زہر زائل ہو جاتا تھا۔ حضرت صاحب کا یہ مجرب نسخہ تھا اور اُن کی رحلت کے بعد آج تک جاری ہے۔

دیگر:

بعض مریدوں کے دل میں کسی قسم کا شک یا انکار نہیں تھا، اگر پیر کے تصرف سے مرید کے دل میں ذرا برابر بھی انکار یا اعراض و تردّد ہو تو وہ مریدی کے مقام تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا۔ جیسا کہ امت کے لئے اگر پیغمبر کے حق میں ان کے قول و فعل کے بارے میں تھوڑا سا انکار یا خلش بھی باقی رہے تو اس امتی کے ایمان میں خلل ہوتا ہے۔ خبردار! مریدوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ پیر جو تصرف کرتے ہیں تو گویا کہ یہ نازل شدہ وحی ہے۔ اگر تیرے دل میں بال برابر بھی انکار یا چوں چراں ہو تو پھر تم کو مرید نہیں کہا جا سکتا بلکہ تم منکر ہو۔

(ابیات)

؎ او دلیل تو بس تو راہ مجوئ

او زبان تو بس تو یاوہ مگوئی

ہر چہ او گفت راز مطلق دان

ہر چہ او کرد کردۂ حق دان

خاک او باش و بادشاہی کن

آن اوباش ہر چہ خواہی کن

’’وہ تمہارا رہبر و رہنما ہے تم راستوں کی تلاش نہ کر، وہ تمہاری زبان ہے تم بے ہودہ باتیں نہ کر، جو کچھ اُس نے کہا، اس کو مطلق ایک راز سمجھ، جو کچھ اس نے کیا اس کو حق کا فضل سمجھ، اس کے سامنے مٹی بن کر رہ اور بادشاہی کرو، پھر اس کا ہو کر رہو اور جو کچھ چاہو کرتے رہو‘‘۔

ایک دودھ پیتے بچے کو مردوں کے کام سے کیا واسطہ؟ اور ایک نا رسیدہ اور خام بچے کو اسرار و رموز اور شریعت حق سے انکار کی کیا گنجائش ہے؟ اللّٰہ تعالیٰ تمہیں برکت دے، ذرا سوچو اور بات سمجھو۔

دیگر:

ان مناقب کو جمع کرنے والا مؤلف وہ شخص ہے جس نے پہلی بار چمکنی کے شیخ دریا خان (جو کہ حضرت صاحب کے خلیفہ تھے) کے حلقۂ ارادت میں شمولیت اختیار کی، جس نے اِس کو ذکر اور وظائف کی تلقین کرتے ہوئے کم خوراک کھانے کی ہدایت کی۔ کچھ عرصہ گذرا اور یادداشت حاصل ہو گئی اور اس کے تمام رگ و پے ذکر کرنے میں آرام و راحت محسوس کرنے لگے۔ اس کے بعد دریا خان کے حکم و ہدایت کے تحت اس نے شیخ محمد سر غلانی سے ملاقات کی جنہوں نے سلسلہ کبرویہ کے اوراد وظائف کی اس کو تلقین کی اور چند چلے بھی کھینچے۔ وہاں سارے جسم کا ذکر اُسے حاصل ہوا (یعنی سلطان الاذکار) اور اطوار و انوار کی حقیقت اُس پر ظاہر ہوئی اور بہت سے مکاشفات اور ملاحظہ جات اُسے حاصل ہوئے۔ اس کے بعد باطنی توجہ کی رو سے شیخ علی چشتیہ طریقے سے اس پر متوجہ ہوئے اور اُسے بہت سے فیوضات ہاتھ آئے۔ چنانچہ اس کے بدن نے روح کی شکل اختیار کی اور اس کا بدن روحی اور قلبی ہو گیا اور وہ مصفیٰ و مزکیٰ ہوا اور "ھُوْ" کے ذکر نے اس پر غلبہ کیا۔ اس کے بعد وہ تینوں بزرگ دار فانی سے دار البقا کو رحلت فرما گئے اور حق کو پہنچے، کیونکہ "اَلْمَوْتُ جَسْرٌ یُّوْصِلُ الْحَبِیْبَ إِلَی الْحَبِیْبِ" کہ موت ایک پل ہے جو ایک دوست کو دوسرے سے ملاتی ہے، یعنی موت نے اُن کو واصل بحق کر دیا۔ ان کی وفات کی وجہ سے یہ شخص مغموم و محزون ہو کر رہ گیا، اسی سراسیمگی اور حیرت و پریشانی کے عالم میں اُس نے حضرت شیخ صاحب کے روضۂ انور پر حاضر ہونے کا ارادہ کیا اور حضرت شیخ کے روضے کی طرف آمد و رفت اختیار کی۔ اسی طرح آتا جاتا رہا کہ ایک دن حضرت صاحب کے روضۂ پُرنور سے ایک نور ظاہر ہوا اور اس شخص کے سینے میں پیوست ہو گیا، جس کی وجہ سے وہ تمام مقامات و حالات جو اپنے شیوخ اور مرشدین سے اُس کو اُن کے دور حیات میں حاصل ہوئے تھے، اُسے دوبارہ حاصل ہوئے اور وہ ان تمام مقامات پر غالب آیا۔

اور حضرت صاحب کی محبت و ارادت جس دل میں ہو تو وہ دل غیرِ حق کی محبت سے خالی اور فارغ ہوتا ہے اور اللّٰہ کی محبت اس کے دِل میں روز بروز رو بہ ترقی ہوتی ہے، اور اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت دل کو نفسانی اور شیطانی خطرات سے محفوظ کرتی ہے اور دل سے ہر ناشائستہ اور بری بات کو دور ہٹاتی ہے، اور انسان کو خواب غفلت سے جگا لیتی ہے اور ہر لمحہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف متوجہ بناتی ہے، اور ریاض معرفت سے روح کی نسیم اور لطیف ہوا اس کو معطر بناتی ہے۔ اور اس کی روح و دل کو منور بناتی ہے اور لا متناہی جذبات کو تسکین و فرحت پہنچاتی ہے۔ میں نے اس کتاب میں جو مناقب سپرد قلم کر دیئے، یہ میں نے صرف ایک رمز اور ایک اشارہ بلکہ اُن کے حالات و مقامات سے صرف ایک ذرہ تحریر کیا ہے، ورنہ حضرت شیخ المشائخ کے بلا نہایت معانی و حقائق اور لا تعداد اسرار و رموز ہیں، ان کے اسرار و رموز کے خزانے اتنے بے شمار ہیں کہ تحریر میں نہیں آ سکتے اور ان چند مختصر صفحوں میں اُن کی گنجائش نہیں، اس لئے اختصار اختیار کیا اور طوالت سے گریز کیا۔

تشریح:

یہ کرامت کی باتیں تو درمیان میں آ گئیں، اصل مقصد اللّٰہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔ اگر اللّٰہ تعالیٰ آپ سے اپنے شیخ کے اتباع کے ذریعے سے راضی ہو اور آپ کو اس سے اپنا مقصود حاصل ہو جائے، تو وہ (اتباعِ شیخ) آپ کے لئے اہم نہیں رہ جاتی، بلکہ ثانوی چیز رہ جاتی ہے۔ اگر کسی کی یہ نیت ہو کہ ان کو اللّٰہ مل جائے اور اس سلسلہ میں شیخ کی خدمت میں رہتا ہے اور اس کا یہ شیخ کے پاس رہنا اللّٰہ تعالیٰ کو قبول ہو جائے اور پھر اس کو اللّٰہ جل شانہ معرفت کی کچھ خاص چیزیں دینا چاہے اور اس معرفت کے لئے کچھ چیزیں اللّٰہ تعالیٰ اس پر کھولیں، جو کرامت کے قبیل سے ہوں، تو وہ کرامت اس کے لئے دنیا نہیں بنتی، بلکہ اس کو دین کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ بس اصل مقصود اس میں یہی ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے لئے یہ ذریعہ ہوتا ہے کہ اپنے شیخ کے ساتھ ان کا تعلق بڑھ جائے اور وہ اپنے شیخ سے استفادہ کریں۔ حضرت کے ہاں اوراد و وظائف کم دیئے جاتے تھے، لیکن مجاہدات اور یہ چیزیں زیادہ کرائی جاتی تھیں یا پھر تربیت کا وہ انداز ہے کہ کچھ کام بتا دیا اور اس کے کرنے سے اس کا کام بھی چل پڑا۔ جیسے: فقیر گل بابا بھی کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مرید ہیں، ان کے والد صاحب شاہ مستان بھی مرید تھے، خوشحال خان خٹک بھی مرید تھے۔ شہباز خان والد ہیں اور خوشحال خان خٹک اور فقیر بابا ان کے بیٹے ہیں۔ خوشحال خان خٹک اور شہباز خان کی مریدی اس level کی نہیں تھی، جتنی کہ فقیر بابا کی تھی۔ یعنی انہوں نے حضرت کے پاس رہ کر وہ چیزیں حاصل کیں، جو کہ عام لوگ حاصل کرتے ہیں، لیکن فقیر بابا نے اپنا سب کچھ لُٹا دیا، انہوں نے خانی چھوڑ دی تھی، اپنی خانی خوشحال خان خٹک کے حوالے کر دی۔ جیسا کہ ان کا نام بعد میں مشہور ہوا ’’فقیر بابا‘‘۔ ان کو اللّٰہ پاک نے صاحبِ سلسلہ بنایا اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان سے سلسلہ چلایا۔ اٹک کے حضرت جی بابا ان کے خلیفہ ہیں اور بڑے بزرگ ہیں۔ چونکہ فقیر بابا نے سارا کچھ چھوڑ دیا تھا، تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو یہ چیز عطا کر دی۔ در اصل دل میں کوئی چیز ہوتی ہے، جس کی وجہ سے آدمی کا کام بن جاتا ہے۔ فقیر بابا اصل میں خان زادہ تھے، ایک دفعہ گھوڑے پر آ رہے تھے، اس دور میں خان زادوں جیسا لباس تھا، وہ زیبِ تن کیا ہوا تھا۔ اس وقت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! اہلِ جنت کیسے ہوتے ہیں؟ سامنے سے یہ آ رہے تھے، اس وقت جمیل بیگ کے نام سے جانے جاتے تھے، حضرت نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ ایسے ہوتے ہیں۔ بس یہ کہنا تھا کہ یہ گھوڑے سے گر گئے۔ حضرت نے ان کو اٹھایا اور ان پر پانی چھڑکا اور ہوش میں لے آئے۔ پھر وہ ایسے ہو گئے کہ سارا کچھ چھوڑ دیا اور فقیری اختیار کر لی۔ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ پر ایک مقالہ فقیر بابا کا بھی لکھا ہوا ہے، جو فارسی میں ہے۔ اولیاء اللّٰہ کے ساتھ یہ معاملہ چلتا رہتا ہے کہ ان کے پاس کون کس مقصد کے لئے جاتا ہے، کون دنیا کے لئے جاتا ہے، کون دین کے لئے جاتا ہے۔ جو لوگ دنیا کے لئے جاتے ہیں، ان کو دنیا مل جاتی ہے، لیکن وہ چیز نہیں ملتی۔ جیسے حج کے متعلق قرآن پاک میں ہے:

﴿فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ (البقرۃ: 200)

ترجمہ: ’’پھر جب تم اپنے حج کے کام پورے کر چکو، تو اللہ کا اس طرح ذکر کرو، جیسے تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ ذکر کرو۔ اب بعض لوگ تو وہ ہیں، جو (دعا میں بس) یہ کہتے ہیں کہ: ’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما‘‘ اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا‘‘۔

اسی طرح اولیاء اللّٰہ کے ساتھ لوگوں کا معاملہ دونوں قسم کا ہوتا ہے، جو دنیا کے طالب ہوتے ہیں، ان کو دنیا مل جاتی ہے۔ الحمد للہ ہمارے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بھی بے شمار واقعات ہیں۔ کتاب درویش اور دوسری کتابوں میں بھی کافی سارے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ بہر حال! یہ چلتا تھا۔ ہمارا بھی یہ حال تھا، ہم کوئی الگ لوگ نہیں تھے، سٹوڈنٹ تھے۔ مولانا صاحب کے پاس آتے اور کہتے: مولانا صاحب دم که په سر مې درد دے۔ یعنی مولانا صاحب! سر میں درد ہے، دم کر دیں۔ مولانا صاحب دم کرتے، سر کا درد ٹھیک ہو جاتا، کبھی کوئی اور مسئلہ ہوتا، کبھی پیپر ہو رہے ہیں، تو ہم کہتے کہ مولانا صاحب! دعا کریں۔ مولانا صاحب دعا کر دیتے۔ ایک دن میں حضرت کے پاس بیٹھا ہوا تھا، میرے سر میں درد تھا۔ میں نے حضرت سے کہا: مولانا صاحب! دم کر دیں، سر میں درد ہے۔ حضرت نے دم کرنا شروع کر دیا۔ ایک مہمان آئے ہوئے تھے، اس نے مولانا صاحب سے کہا کہ مولانا صاحب! آپ کے پاس دنیا کے لئے کتنے لوگ آتے ہیں اور دین کے لئے کتنے لوگ آتے ہیں؟ بس یہ سننا تھا کہ میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ یہ تو میری بات ہو رہی ہے۔ اس کے بعد میں نے تہیہ کر لیا کہ میں حضرت سے دنیا کے لئے کچھ نہیں کہوں گا۔ ما شاء اللّٰہ! پھر حالت بدل گئی، پھر ہم نہیں کہتے تھے۔ مولانا صاحب پوچھتے تھے کہ تمہارا امتحان ہو رہا ہے؟ کیسا ہو رہا ہے؟ پھر تو بتانا ہوتا تھا۔ بس حضرت دعا فرما دیتے۔ کبھی کوئی اور مسئلہ حضرت خود پوچھ لیتے۔ گویا معاملہ بالکل الٹ ہو گیا، پھر ہم نہیں کہتے تھے، حضرت پوچھتے تھے۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ کا معاملہ یہی ہوتا ہے۔ حلیمی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنا یہ واقعہ مجھے خود سنایا ہے کہ ان کی ایک آنکھ بالکل ختم ہو گئی تھی۔ میں نے حضرت سے پوچھا کہ آپ نے مولانا فقیر محمد صاحب سے دعا کے لئے کہا ہے؟ حضرت بہت غصہ ہو گئے، فرمایا: کیا میرا شیخ میرا تعویذ ہے کہ میں ان سے یہ باتیں کروں گا؟ میں چپ ہو گیا۔ آپ اندازہ کریں کہ نظر چلی گئی، جو کہ معمولی بات نہیں ہے، مگر اپنے شیخ سے دعا کے لئے نہیں کہا۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ حضرت کی کچھ باتیں بالکل مختلف تھیں۔ اگرچہ کچھ لوگوں کو کچھ باتوں میں حضرت کے ساتھ اختلاف بھی ہو گا، لیکن اصل میں حضرت کے بارے میں بعض لوگ بعض چیزوں کو نہیں جانتے تھے۔ مثلاً: ان کی یہ بات بڑی زبردست تھی کہ جب تک ان کی والدہ زندہ تھیں، انہوں نے اپنی جائیداد سے کچھ بھی نہیں لیا، سب چھوڑ دیا۔ اس طرح جب ان کو تسلیم الحق حلیمی صاحب کی جائیداد سے حصہ ملا، کیونکہ ان کی صرف بیٹیاں ہی تھیں، جس وجہ سے بھائیوں کا حصہ بیٹیوں سے زیادہ تھا، کیونکہ بھائی چار تھے اور بیٹیاں دس تھیں، تو دو بٹا تین، دس تقسیم کرو، تو ایک بٹا پندرہ بن جاتا ہے اور باقی ایک بٹا تین بارہ بن جاتا ہے۔ چنانچہ بھائیوں کا حصہ بیٹیوں سے زیادہ تھا، مگر حلیمی صاحب نے نہیں لیا۔ بلکہ تسلیم الحق حلیمی صاحب کی جو غیر شادی شدہ بیٹیاں تھیں، ان کو دے دیا۔ یہ ان کی بڑی بات تھی کہ معاملات کے بارے میں اور اس قسم کی چیزوں کے معاملہ میں بہت عزیمت والے تھے۔ بعض چیزوں میں ان کی رخصتیں بھی تھیں۔ جن چیزوں میں رخصت تھی، تو میں اکثر کہا کرتا کہ خدا کے بندو! ان کے پاس یہ چیزیں بھی تو تھیں، جس سے ان کا معاملہ برابر ہو گیا۔ ہمارے پاس تو وہ چیزیں نہیں ہیں، اگر ہم ان رخصتوں میں حرص کریں کہ ہم بھی اس طرح ہو جائیں، جب کہ آگے کا معاملہ ہمارا پہلے سے گول ہے، تو ہم کیا کریں گے۔ لہٰذا یہ بات تو ہم تب کریں کہ جب ہمارے باقی اعمال بھی ان جیسے ہوں۔ چونکہ ہمارے باقی اعمال ان جیسے نہیں ہیں، لہٰذا ہمارے پاس تھوڑی سی پونچی ہے، اس کو بھی ہم لوٹا دیں اور کہیں کہ ہم ان کی طرح کریں گے۔ در اصل اس چیز کو جاننا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ overall پہ نظر رکھنی ہوتی ہے۔ انسان اکثر تنگ نظر ہوتا ہے، تھوڑی چیز پہ نظر کرتا ہے۔ در اصل نفس بھی انسان کے ساتھ ہے، اس لئے انسان کو جس چیز میں مزہ آتا ہے، تو کہتا ہے کہ فلاں بھی ایسا کرتا ہے۔ بھائی! یہ ان کا معاملہ ہے، اس مسئلہ میں کیوں پڑتے ہو۔ ان کی ان چیزوں کو لو، جو قابلِ رشک ہیں۔ بس یہ بنیادی بات ہے۔ بہر حال! کرامات اولیاء کے ہاتھ پر ظاہر ہوتی ہیں، ان سے انکار نہیں ہے، لیکن کرامات ہی کے پیچھے پڑنا اور تعلیمات کو چھوڑنا، یہ بہت بڑی جہالت ہے۔ دوسری طرف اگر اللّٰہ تعالیٰ کسی ولی کی کرامات کو ولی سے استفادہ کا ذریعہ بنا دیتے ہیں، تو پھر تو اس سے مقصود حاصل ہو رہا ہے، لہٰذا یہ تو بہت اچھا ہے۔ لیکن اگر صرف حرص ہو رہا ہو، تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ