زمانہ طفولیت سے لیکر عمر کے آخری حصے اور وفات کے بعد بھی حضرت صاحب کے عادات و کرامات وغیرہ کے بیان میں اور آپکے متفرق اعمال اور وفات

باب 14 ، درس 48

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات پر مشتمل کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے تعلیم ہوتی ہے۔ اس کا تیرھواں باب چل رہا ہے۔ اس میں مسلسل ایک مضمون چل رہا ہے۔ ایک صاحب تھے، جن پہ حضرت کی خصوصی نظرِ کرم ہوئی تھی، انہوں نے بہت مجاہدات کئے اور مجاہدات کی برکت سے اللّٰہ تعالیٰ نے ان پہ بہت ساری چیزیں کھولیں، ان کی بات چل رہی ہے۔ اس ضمن میں پچھلی دفعہ میں عرض کر رہا تھا کہ ایک ہوتا ہے مرید اور ایک ہوتا ہے مراد۔ جو مرید ہوتا ہے، وہ ارادہ کرتا ہے اور اپنے ارادے کے ذریعے سے اپنا مقصود حاصل کرتا ہے۔ اور جو مراد ہوتا ہے، اس کو چُن لیا جاتا ہے اور پھر اس کو اس مقام تک پہنچا دیا جاتا ہے جہاں تک پہنچانا ہوتا ہے۔ لیکن مرید کو جو مجاہدات کرنے پڑتے ہیں، وہی مجاہدات مراد کو بھی کرنے پڑتے ہیں۔ لہٰذا کسی کو بھی مفت کوئی چیز نہیں مل رہی۔ گویا مرید تلاش میں ہے اور تلاش کے بعد اس کو ملتا ہے اور دوسرے کو ملتا پہلے ہے، لیکن qualify کرنا پڑتا ہے۔ اور qualify کرنے میں وہی مجاہدات ہوتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ ﷺ سے بڑا مراد کوئی نہیں ہو سکتا، لیکن آپ ﷺ خود ارشاد فرماتے ہیں: ’’اللّٰہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں دی گئیں کہ اتنی کسی کو نہ دی گئیں ہوں گی، اور میں اللّٰہ کی راہ میں اس قدر ڈرایا گیا کہ اتنا کوئی نہیں ڈرایا گیا ہو گا‘‘۔ (ابن ماجہ: حدیث نمبر: 151)

ایک اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا: ’’سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: انبیاء و رسل پر، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں‘‘۔ (مسند احمد، حدیث: 27078)

اس سے پتا چلا کہ مشقت تو ہو گی۔ اب وہ مشقت کوئی خوشی خوشی اٹھاتا ہے یا اس مشقت سے اس کو تکلیف ہوتی ہے، وہ علیحدہ بات ہے، لیکن مشقت تو کرنی پڑتی ہے۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس بات کو سمجھانے کے لئے شعر کہا ہے:

کہا سمندر کی سیر کا شوق ہے

کہا کرو، کہا طوفان کا ڈر ہے

کہا طوفان تو ہو گا

کہا اونٹ کی سواری کا شوق ہے

کہا کرو، کہا کوہان کا ڈر ہے

کہا کوہان تو ہو گی

یعنی یہ چیزیں تو ان کے ساتھ لگی ہیں۔ ذرا سمجھانے کے لئے اس کے ساتھ میں نے بھی ایک چھوٹا سا ٹکڑا لگایا ہے:

کہا پڑھنے کا شوق ہے، کہا پڑھو

کہا امتحان کا ڈر ہے، کہا امتحان تو ہو گا

یعنی یہ چیزیں کرنی پڑیں گی، چاہے مرید ہو، چاہے مراد ہو۔ جیت اس کی ہے، جو اپنے آپ کو اس کی طلب میں فنا کر دے۔ جو بھی ایسا ہو، وہ جیت گیا، وہ کامیاب ہو گیا، وہ تَر گیا۔ اور جو سوچنے میں لگ گیا کہ فلاں کو یہ ملا اور فلاں کو یہ ملا اور مجھے یہ ملا، یہ ملا، وہ بیچارہ پیچھے رہ گیا۔ اس کے لئے آگے بڑھنا بڑا مشکل ہے۔ غیر پہ نظر ہونا ایسی چیز ہے کہ اس سے بچنا بڑا مشکل ہے۔ لہٰذا جس کا معاملہ خالصتاً اللّٰہ کے ساتھ ہو، وہ کامیاب ہے۔

نہ آہ چاہتا ہوں، نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کے لئے میں خدا چاہتا ہوں

یہ بنیادی چیز ہے۔ ہماری ایک غزل ہے جو میں الحمد للہ اپنے ساتھیوں کو بھی بھیج دیتا ہوں، اس کے بارے میں ساتھی اکثر مجھے تاثرات بھیجتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر ارشد صاحب کو میں نے وہ غزل بھیجی تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے پیغام دیا کہ یہ کیسی غزل ہے کہ اس سے سن کر میں ابھی تک وجد میں ہوں۔ یہ بات بالکل صحیح ہے۔ میں وہ غزل آپ کو سنا دیتا ہوں۔ در اصل اس کا پہلا شعر اس بات کی تشریح ہے کہ مراد اور مرید کی سوچ میں جو پڑ گیا، وہ بیچارہ رہ گیا۔ لیکن جو اصل کو پا گیا، اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ بیچارے اسی میں مارے جاتے ہیں کہ میں ایسا کیوں نہیں ہوں، میں ایسا کیوں نہیں۔ بھائی! محنت کرنا تمہارا کام ہے، آگے فیصلہ اللّٰہ کے پاس ہے۔ جو اس کا فیصلہ ہے، اس کو دل سے مان لو، اسی میں تمہارا فائدہ ہے، ورنہ اگر خود کچھ کرو گے، تو بچنا بڑا ہی مشکل ہے۔

کیسے کہوں کہ اس نے بلایا نہیں مجھے

کافی ہے اپنے در سے اٹھایا نہیں مجھے

چپکے سے میرے کان میں کچھ ایسا کہہ دیا

لوگوں کے کہنے سننے کی پروا نہیں مجھے

بیکار اگر لوگ کہیں مجھ کو تو کہیں

اب اس کو چھوڑنے کا حوصلہ نہیں مجھے

اس کا ہوں، اس کا ہی رہوں، اس کا ہی بنوں میں

روکے اب اس سے کوئی رشتہ نہیں مجھے

میں اس کے سہارے سے ہی قائم رہوں شبیرؔ

اب دوسروں پہ کوئی بھروسہ نہیں مجھے

اس میں پہلا شعر بنیادی شعر ہے، جو اسی مفہوم کا ہے۔

کیسے کہوں کہ اس نے بلایا نہیں مجھے

یہ اصل میں مراد کے لئے ہے کہ مجھے کیوں نہیں چنا؟

کافی ہے اپنے در سے اٹھایا نہیں مجھے

یعنی کم از کم مجھے مرید تو بننے دیا، اس سے تو مجھے نہیں محروم کیا۔ یہ بڑی بات ہے۔ جس کو اللّٰہ تعالیٰ توفیق دے اور اس کے دل میں ڈالے اور وہ اس طرف آئے تو اور کیا چاہئے۔ کیونکہ انسان کو کسی طرف سے بھی آئے، مقصود تو وہی ہے۔ بس یہی بنیادی چیز ہے۔ میں نے آپ سے جو واقعات بیان کئے، ان میں چونکہ یہ شخص مراد تھے، اس لئے ممکن ہے کہ بعض لوگ کہیں کہ ان کے ساتھ تو بہت آسانیاں ہو گئیں۔ حالانکہ ان سے مجاہدے کتنے لئے ہیں؟ اگر یہ مجاہدے ہم سے لئے جائیں، تو کیا ہو گا؟ میں ذرا سنا دیتا ہوں کہ ان سے کیا مجاہدہ لیا گیا تھا۔

متن:

دیگر:

حضرت صاحب کی نگاہ کیمیا اثر تھی، جس ناخواندہ شخص پر بھی آپ کی نگاہ پڑتی تو اُس کو باطن کا حال معلوم ہو جاتا اور اس کو ایسا علم حاصل ہو جاتا کہ لوگ اس کے کلام و گفتگو کو سُن کر دنگ رہ جاتے، اور کوئی عالم شخص بھی اس کی کسی بات کو بھی دلیل سے رد نہیں کر سکتا تھا، اور بے علمی کے باوجود وہ شخص شریعت پر عمل کرتا اس کو طریقت سے بھی آگاہی ہوتی اور معرفت اور حقیقت کو بھی اچھے طریقے سے بیان کرتا۔ چنانچہ ایک شخص جس کا نام فتح تھا ناخواندہ، اَن پڑھ اور بے علم تھا جو کہ اکثر حضرت صاحب کی مجلس میں حاضر ہوتا۔ دورانِ مجلس ایک دفعہ آپ نے اس شخص کے اچھے اوصاف بیان فرمائے، اس شخص نے اپنے عمل و کردار سے شرمندہ ہو کر نگاہیں زمین پر گاڑ دیں اور جی میں کہتا کہ حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ میرے جو اوصاف بیان فرماتے ہیں مجھ میں اُن کی بُو تک موجود نہیں، میرا عمل نا شائستہ اور نہایت بُرا ہے لیکن اس کے باوجود حضرت صاحب اُس کے حال پر مہربانی فرمایا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب نے رحلت فرمائی وفات کے تیسرے دن یا کم و بیش دنوں کے بعد اس شخص پر ظاہر ہوا اور اُس پر توجہ اور مہربانی فرمائی اور اس پر ایک عظیم الشان تاثیر رونمائی ہوئی، حضرت صاحب نے اس کو حکم فرمایا کہ فلاں مکان میں قیام کر۔ وہ مکان تقریبًا بارہ تیرہ میل دور تھا، اسی شخص نے وہاں جا کر اُس مکان میں گوشہ نشین ہو کر لوگوں سے تنہائی اختیار کی مگر اس کے دل میں خطرے اور وسوسے آتے رہے کہ مبادا یہ شیطانی کام نہ ہو یا شاید کہ رحمانی ہو، اس کی وجہ سے وہ بہت رویا کرتا تھا اور نہایت غم زدہ اور پُرملال رہتا۔ پس حضرت صاحب اُس پر دوسری بار ظاہر ہوئے اور اس کو کہا کہ اُس شخص کی برابری کون کر سکتا ہے جس کا خود اللّٰہ تبارک و تعالیٰ وکیل ہو۔ پس اُس کے دل سے وہ خطرہ کافور ہو گیا اور اسی مذکورہ مکان میں سکونت اور آرام سے رہا، کم و بیش سات سال (آج کل تو ہتھیلی پہ سرسوں بھی نہیں جماتے) کم و بیش سات سال تک وہاں خلوت نشین رہا اور ہمیشہ بیمار اور مریض رہتا تھا جیسا کہ کہا گیا ہے کہ "اَلْبَلَاءُ مُوَکَّلٌ بِالْأَنْبِیَاءِ ثُمَّ الْأَوْلِیَاءِ…" (إحیاء العلوم، کتاب التوبۃ، بیان کیفیۃ توزع الدرجات و الدرکات في الآخرۃ، رقم الصفحۃ: 27/4، دار المعرفۃ بیروت) ”مصائب و آلام انبیاء علیہم السلام پر آتی رہتی ہے پھر اُن کے بعد اولیاء کرام رحمہم اللّٰہ پر“ وہ شخص خود نقل کرتا ہے کہ اِس بیماری کے دوران میں ایک بچے کی طرح تھا کہ پیدا ہونے کے بعد پہلے تو وہ نیند کرتا ہے پھر اُس کے بعد بیٹھتا ہے اور اس کے بعد تھوڑا تھوڑا چلنے نکلتا ہے۔ میں بھی مذکورہ بچے کی طرح تھا اور ان سات سالوں میں سے پہلے تین سال مجھ پر غلبۂ حال تھا اور اس دوران شیخ المشائخ ہمیشہ کوشش اور توجہات فرماتے تھے، یہاں تک کہ شیخ المشائخ رحمۃ اللّٰہ علیہ کو میری جانب سے اطمینان ہوا کہ میرا رفیق مجھ سے مل گیا، یعنی مجھے اللّٰہ تعالیٰ کا وصال نصیب ہوا۔ اور یہ بھی وہ شخص نقل کرتا ہے کہ حضرت شیخ المشائخ نے تین دفعہ میرے لئے رسول اللّٰہ ﷺ کے دربار عالیہ میں التجا کی، جو تیسری دفعہ شرفِ پذیرائی پا گئی۔ اور خود رسول اللّٰہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے اور مجھے اپنی ملاقات اور دیدار کی سعادت عظمیٰ سے نوازا، اور صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ اجمعین میں سے بعض بزرگ ہستیاں بھی آپ ﷺ کے ہم رکاب تھیں۔ اِن میں سے ایک حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہٗ بھی تھے اور ہمارے شیخ صاحب اُن کے دائیں طرف سے ادبًا آتے جاتے تھے، اور اُن کو عرض کرتے تھے کہ آہستہ آہستہ جایئے تاکہ وہ ڈر نہ جائے۔ جب سرورِ کائنات فخرِ موجودات ﷺ تشریف لے آئے اور مجھے اپنے دیدار سے مشرف فرمایا اور مُسکراتے رہے کہ الٰہی بعض لوگ کیا کرتے ہیں اور بعض کیا؟ یہ بندہ جس کے پاؤں گوبر اور لید سے آلودہ ہیں لیکن یہ صرف تمہارا کرم ہے، یعنی بعض لوگ بہت نیکی کرتے ہیں لیکن وہ قبول نہیں ہوتی اور بعض لوگ اگرچہ خرابات میں ہوتے ہیں، تمہارا فضل اس کی رہنمائی کرتا ہے، وہ توبہ کرتے ہیں جو قبول ہوتی ہے اور عجیب کہ حقیقت پا جاتے ہیں۔ پس اُس شخص کو علوم باطن سے ایسا علم نصیب ہوا گویا کہ اس کے سینے میں ایک بڑا سمندر ہے، جس میں علمِ معرفت، علم حال اور علمِ حقیقت کے سمندر موجیں مارتے ہیں کہ "مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ شَيْءٌ" یعنی جس نے اللّٰہ کو پہچانا تو اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی۔

تشریح:

اصل میں اللّٰہ تعالیٰ بعض چیزوں کا ظہور چاہتا ہے اور اس معاملہ میں کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا، کیونکہ اللّٰہ پاک مختارِ مطلق ہے۔ جن کے اندر وہ صفات پائی جاتی ہوں جو اس ظہور کا تحمل کر سکتی ہوں، ان کو چن لیا جاتا ہے۔ جیسے شیطان کو آدم علیہ السلام سے مسئلہ ہو گیا تھا۔ لیکن بہر حال آدم علیہ السلام چن لئے گئے۔ جیسے فرمایا: ﴿وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا (البقرہ: 31)

ترجمہ: ’’اور آدم کو (اللّٰہ نے) سارے نام سکھا دیئے‘‘۔

اصل میں لوگوں کو پتا نہیں ہوتا کہ ان کے اندر کیا ہے، جب کہ اللّٰہ کو پتا ہے کہ ان کے اندر کیا ہے۔ اسی طرح ظاہر چاہے کچھ بھی ہو، اس کے اندر جو صلاحیت ہوتی ہے، وہ لوگوں کو بعد میں پتا چلتی ہے اور اللّٰہ کو پہلے سے معلوم ہوتی ہے۔ فرق صرف یہی ہے۔ پس جو چنے جاتے ہیں، وہ اصل میں کچھ چیزوں کی وجہ سے چنے جاتے ہیں، ان کے اندر وہ چیز ہوتی ہے جو بعد میں ظاہر ہوتی ہے۔ اب اس شخص کے اندر آخر کوئی چیز تو تھی۔ گویا ان کے اندر مجاہدے کا تحمل ہے، تبھی تو وہ چن لئے گئے۔ یہ کوئی اتنا آسان نہیں ہے۔ قریش کو اللّٰہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ظہور کے لئے چن لیا تھا، گویا ان کے اندر کچھ چیزیں تھی، اگرچہ بظاہر بہت بگڑے ہوئے لوگ تھے، ایسے بگڑے ہوئے تھے کہ کوئی ان پہ حکومت نہیں کرنا چاہتا تھا، حکومت کے قابل ہی نہیں سمجھتے تھے کہ ان پر حکومت کی جائے۔ ایک طرف قیصرِ روم ہے اور دوسری طرف کسریٰ ہے۔ دونوں نے ان کو چھوڑا ہوا تھا کہ ان پر حکومت کرنا خواہ مخواہ اپنے لئے مسئلہ بنانا ہے۔ لیکن اللّٰہ پاک نے ان کو وہ صلاحیتیں دی تھیں کہ انہی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں، انہی میں حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں، انہی میں حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں، انہی میں حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں، انہی میں حضرت طلحہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں، انہی میں حضرت زبیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں اور پتا نہیں، کون کون سے حضرات ہیں۔ اور ہر ایک کی اپنی اپنی صفات ہیں۔ حضرت صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی اپنی صفات ہیں، حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی اپنی صفات ہیں، حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی اپنی صفات ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ ہر ایک کی ایسی ایسی صفات ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے۔ بہر حال! اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو ایسی صفات عطا فرمائی تھیں۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ وہ تو مراد ہیں، وہ تو ایسے ہیں۔ خدا کے بندو! زندگی انہوں نے بھی گزاری ہے، زندگی تم نے بھی گزاری ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو چُن لیا، ان کو جو تکالیف اور پریشانیاں آئیں، انہوں نے صفات کی برکت سے برداشت کر لیں۔ تم محنت کرو، محنت کر کے کسبی ذریعے سے حاصل کر لو۔ آپ کے لئے راستہ بند تو نہیں کیا گیا۔ بس یہ بنیادی بات ہے، جس کو لوگ نہیں جانتے، لہٰذا پریشان ہو جاتے ہیں۔

متن:

وہ شخص کہتا ہے کہ زمین کی تمام بیماریاں مجھے دکھائی دیا کرتی تھیں اور میں اُن سے واقف ہوتا اور میں دیکھتا تھا۔ اور یہ بھی فرماتے تھے کہ میں نے تجربے سے معلوم کیا کہ اعمال میں سے بہترین عمل نیک نیت ہے جو کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑنی چاہئے۔

تشریح:

آپ ﷺ نے فرمایا:

’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1)

ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔

نیت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، ویسے تو بظاہر آسان لگتا ہے کہ اس میں ایسا کیا کرنا ہے۔ ایمان بظاہر کوئی مشکل کام نہیں ہے، اس میں کچھ بھی محنت نہیں ہے، نہ ہاتھ مارنا ہے، نہ پاؤں مارنا ہے، نہ اور کچھ کرنا ہے۔ بس ایک کیفیت ہے، جس کو انسان مان لیتا ہے اور اس کے مطابق چلتا ہے، یہی ایمان ہے۔ لیکن لوگوں کے لئے کتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پارٹی بدلنا اتنا مشکل ہوتا ہے، تو دین بدلنا کتنا مشکل ہو گا۔ گویا انسان کے ساتھ یہ چیزیں لگی ہوئی ہیں۔ نیت کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ نیت بہت زبردست عمل ہے۔ حضرت عبد العزیز دباغ رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی اَن پڑھ تھے۔ بالکل وہی واقعہ جس میں ایک محدث ان سے بیعت ہوئے تھے، بہت بڑے آدمی تھے۔ وہ بیعت اس طرح ہوئے تھے کہ انہوں نے ان کا ٹیسٹ لیا تھا کہ ایک فقرہ بنایا، جس میں ایک لفظ قرآن سے لیا، ایک حدیث شریف سے لیا، ایک عام عربی سے لیا، اور ایک حدیثِ قدسی سے لیا۔ مثلاً: ’’جَآءَ فِرْعَوْنُ‘‘ میں فرعون کا لفظ قرآن سے لیا گیا ہو۔ اس طرح کا ایک فقرہ ان کے سامنے رکھ دیا، اور پوچھا: حضرت! یہ کیا ہے؟ جو قرآن سے لیا تھا، اس پہ ہاتھ رکھا کہ یہ تو قرآن ہے۔ جو حدیث سے لیا تھا، اس کے متعلق کہا کہ یہ تو حدیث ہے۔ پھر کہا کہ یہ درمیان کی کوئی چیز ہے یہ نہ تو قرآن ہے اور نہ حدیث ہے۔ گویا اتنے اَن پڑھ تھے کہ ان کو حدیثِ قدسی کا بھی پتا نہیں تھا۔ وہ عالم سمجھ گئے کہ بالکل صحیح فرمایا ہے۔ پھر جو عربی والا حصہ تھا، اس کے متعلق فرمایا کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ عالم اتنے حیران ہوئے، کہنے لگے کہ حضرت! بات یہ ہے کہ میں کسی عالم کے سامنے رکھتا، تو وہ بھی نہ بتا سکتے، آپ نے کیسے بتایا؟ فرمایا: بیٹا! مجھے تو علم نہیں ہے، بس مجھے اتنا پتا ہے کہ قرآن کا ایک نور ہوتا ہے، مجھے معلوم ہے کہ قرآن کا نور ایسا ہوتا ہے۔ اور حدیث کا بھی نور ہوتا ہے، وہ بھی مجھے معلوم ہے کہ کیسا ہوتا ہے۔ اور یہ درمیان والی جو عبارت تھی، اس کا ایسا نور تھا کہ جو نہ قرآن کا تھا اور نہ حدیث کا تھا، بلکہ درمیان درمیان میں تھا۔ اور جہاں بالکل نور نہیں تھا، تو میں نے کہا کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ چنانچہ علم نور ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو ان کے استاد نے یہی کہا تھا کہ علم نور ہے۔ چنانچہ علم نور تو ہے، لیکن وہ ہر ایک کو نظر نہیں آتا، جن کو نظر آتا ہے، ان کا معاملہ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے عبد العزیز دباغ رحمۃ اللّٰہ نے کیا۔ بہر حال! اس پر انہیں بیعت فرما لیا۔

بعض حضرات خصوصی طور پہ کائنات کے اندر پھر رہے ہوتے ہیں، جن کو کوئی نہیں جانتا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو جس طرف بھی بھیجنا ہو، اس طرف ان کی خصوصی تشکیل کر دیتے ہیں۔ اسی طرح عبد العزیز دباغ رحمۃ اللّٰہ علیہ کو جب چُن لیا گیا تھا، تو ایک صاحب نے جن کی انہوں نے تربیت کی تھی، ان کی طرف بھی ایک بھیج دیا گیا۔ وہ مختلف احوال میں ٹیسٹ کرتے رہے۔ ایک جگہ ایک بہت خوبصورت عورت بغیر لباس کے بار بار ان کے سامنے آتی تھی، یہ اپنی آنکھیں دوسری طرف پھیر لیتے۔ پھر اور صورت میں آتی، پھر یہ آنکھیں دوسری طرف پھیر لیتے، کئی بار اس طرح ہوا۔ اخیر میں دیکھا کہ وہ وہی بزرگ تھے، جو تکوینی بزرگ تھے۔ مختلف شکلیں بدلتے رہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ مجھے آپ کے اوپر اسی کا خطرہ تھا، میں نے اس کا امتحان لینا ضروری سمجھا، کیونکہ سادات کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ سید تھے۔ اس لئے فرمایا کہ میں نے آپ کو جانچا کہ آپ میں یہ چیز تو نہیں ہے۔ شکر ہے کہ کوئی ایسی بات نہیں۔ دیکھئے! یہ کتنا بڑا امتحان ہے۔ مختلف صورتوں میں عورت بن کر آ جاتے۔ ان کو پتا نہیں تھا کہ میرا امتحان لیا جا رہا ہے۔ اگر پہلے سے پتا چل جائے، تو پھر تو کوئی امتحان نہیں ہے۔ جیسے ڈرامہ ہوتا ہے، ڈرامہ میں پتا ہوتا ہے کہ یہ کرنا ہے۔ یہ کرنا ہے، یہ کرنا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ڈرامہ بن جائے گا۔ لیکن جب پتا نہ ہو تو کافی مشکل امتحان ہے، آسان امتحان نہیں ہے۔ اس طرح ان حضرات کا بھی امتحان لیا جاتا ہے، لیکن طریقہ کار الگ ہوتا ہے۔

متن:

’’شیخ کے اتنے سارے فنون کی قیمت ایک آدھے خس کے برابر بھی نہیں، تو دلوں کی آرام اور راحت، پہنچانے کی کوشش کرتا رہ، (کہ یہی ہمارا طریقہ ہے) اور اس کے سوا کچھ نہیں‘‘۔

دیگر:

حضرت صاحب نے اپنے ایک خاص مرید کو حکم فرمایا کہ اپنے لئے ایک خاص حجرہ اور تنہا جگہ بنا اور اس میں رہا کر۔ چنانچہ مرید نے حسبِ حکم اپنے لئے علیحدہ جگہ بنا کر اس میں رہائش اختیار کی۔ تھوڑے عرصے کے بعد اس کو رمزیہ طور پر اشارتًا ظاہر ہوا کہ وہ زمین پر آ رہا ہے اور اس کا مکان زمین پر ایک شگاف معلوم ہوتا تھا۔ اور اس شگاف سے دل کا سوراخ دکھائی دیتا تھا اور ہر قسم کے علوم کشف و کرامات الہام اور دیگر تمام علوم اس کو حاصل ہوئے، اور علوم کے خزانے اس پر روشن اور ظاہر ہوئے اور یہ دل پر ضرب کی مثال ہے۔

دیگر:

ایک دفعہ ایک وقت ایسا آیا تھا کہ محبت کا ایسا استغراق طاری ہوا تھا کہ وجود فنا میں تبدیل ہوا اور تمام جسم اور وجود سونے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ مریدوں میں سے ایک مرید اُس وقت حاضر تھا، حیرت زدہ اور پریشان ہو کر آپ کو دیکھ رہا تھا، مگر ادب کی خاطر کچھ نہیں کہہ سکتا تھا اور نہ کچھ پوچھ سکتا تھا۔ جب حضرت صاحب ہوش میں آ گئے اور اپنا سابقہ وجود دوبارہ حاصل ہوا تو اس مرید کو اشارتًا فرمایا اگر اللّٰہ تعالیٰ کا ارادہ یا خواہش و مرضی ہو جائے تو تجھے بھی یہ حال حاصل ہو گا اور اس کو بھی کچھ عرصہ کے بعد وہی حال حاصل ہوا اور وہی درجہ اس کو ہاتھ آیا۔

دیگر:

ایک وقت آپ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ حضرت اپنا بستر اور سرہانہ کبھی بھی بچھا دیتے تھے، اور کبھی پھر اُس کو سمیٹ لیتے تھے۔ خود بیانی کے طور پر اُس نے فرمایا کہ یا کسی کے پوچھنے پر اُنہوں نے جواب دیا کہ جب میں اس کو بچھا کر دراز کرنا چاہتا ہوں تو اقصائے زمین سے آگے نکل جاتی ہے اور جب اس کو سمیٹ لینا چاہوں تو پھر اپنے مکان و مقام پر آ جاتی ہے۔ اور اسی طور اور رمز پر منصور حلاج کی بات بھی تھی کہ جب آخر کار ان کے ہاتھ کاٹے گئے تو انہوں نے کہا کہ میرے ظاہری ہاتھوں کو تم نے کاٹ لیا لیکن میرے باطن کے ہاتھ جو کہ عرش تک پہنچے ہیں کوئی بھی نہیں کاٹ سکتا۔

تشریح:

اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنے بھی ہمارے لطائف ہیں، ان کے اصول (جڑیں) عرش میں ہیں۔ لہٰذا اس دل کو تو کوئی چیر لے گا، لیکن وہ جو اصل قلب ہے، اس کو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔

متن:

دیگر:

شیخ دریا خان سکنہ چمکنی جو کہ آپ کے بزرگ خلفاء میں سے ہیں، آپ کے علم غیبی کے رموز کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حج کا ارادہ کیا

تشریح:

یہ انباءُ الغیب ہوتے ہیں، لیکن ویسے عام انداز میں کہہ دیتے ہیں۔ یہ کبھی ہوتے ہیں، کبھی نہیں ہوتے۔

متن:

میں نے حضرت سے التماس کیا مگر آپ نے مجھے اجازت نہیں دی اور میرے ساتھ تھوڑی دور چل کر واپس ہوئے۔ کچھ عرصے بعد میں نے پھر خدمتِ اقدس میں عرض کی اور حج پر جانے کی اجازت چاہی پس حضرت صاحب نے اجازت مرحمت فرما کر رخصت کیا اور رفاقت کے طور پر تھوڑی دور تک ساتھ ہو لئے۔ پھر واپسی کے وقت فرمایا کہ اے شیخ دریا! یہ دیکھنا اور ملاقات، قیامت کی ملاقات کی مانند تصوّر کرنا۔ شیخ دریا رخصت ہو کر حج کو روانہ ہوئے۔ جب شیخ دریا مناسک حج سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو راستے میں ہی قندہار میں ان کو شیخ صاحب کی وفات کی خبر موصول ہوئی۔ نہایت غم زدہ ہو کر تأسف کیا اور حضرت صاحب کی بات اُنہیں یاد آئی کہ یہ ملاقات قیامت کی ملاقات کی طرح دکھائی دیتی ہے، رخصت کرنے کے وقت کی بات اب ظاہر ہوئی۔

دیگر:

ایک شخص حضرت صاحب کی زیارت کرنے کے لئے آیا، مسجد میں بیٹھ کر رات گزارنے کا قصد کیا، جب رات ہوئی اور تھوڑی سی رات گذر گئی تو اچانک حضرت صاحب نے مسجد میں تشریف لا کر اس شخص کو نیند سے جگایا اور اس کو حکم دیا کہ گھر چلے جاؤ۔ وہ شخص روانہ ہوا، جب گھر کے محاذ پر پہنچا تو آسمان پر بادل آئے اور چھاجوں پانی برسایا، اُس کے مویشی ایک وادی (نالے) میں تھے فورًا جا کر اُن کو وہاں سے نکال لایا، اُس کے بعد اس جگہ سخت سیلاب آیا، اگر وہ حاضر نہ ہوتا تو اُس کے تمام مویشی ڈوب کر ہلاک ہو جاتے۔ پس حضرت صاحب کے کلام اور اُن کے حکم کی حقیقت اور حکمت اُس نے یقینی طور پر جانی اور اس کو نافع اور مفید پایا۔

تشریح:

اس پر لوگ حیرت کرتے ہیں اور بعض دفعہ بڑے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اصل میں سارے کام اللّٰہ ہی کرتے ہیں، اب کوئی اللّٰہ کی طرف چلا اور اللّٰہ نے اس کا چلنا قبول فرما لیا اور اللّٰہ پاک اس پر مہربان ہوئے، تو وہ مہربانی وہاں بھی ہوتی ہے اور یہاں بھی ہوتی ہے۔ یہاں پر مہربانی یہ ہوتی ہے کہ دنیا کے کام کاج بعض لوگوں کے آسانی کے ساتھ ہو جاتے ہیں، اور بعض کے آسانی سے نہیں ہوتے۔ جیسے بیماری ہے، پریشانی ہے۔ جیسے اللّٰہ تعالیٰ اس کو ایک مصیبت سے، تکلیف سے بچانا چاہتا ہے، اس تکلیف سے بچنے کے اللّٰہ تعالیٰ کے پاس بے شمار ذرائع ہیں، اللّٰہ کے لئے کیا مشکل ہے۔ لہذا کیا یہ مشکل ہے کہ اللّٰہ پاک اس تکلیف سے بچانے کے لئے کسی خاص صاحب کو ذریعہ بنا دیں اور اس کے دل میں ڈال دیں۔ بلکہ خود اس کے اپنے دل میں بھی ڈال سکتے تھے کہ گھر جاؤ۔ میں ایک دفعہ رائیونڈ اجتماع پہ گیا تھا، وہاں رائیونڈ کے خدام میں سے ایک صاحب کو میرے ساتھ کافی مناسبت ہو گئی، وہ مجھے اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے کہ بس میں ان کے ساتھ ہی رہوں۔ مجھے کہتے تھے کہ بیان تو بہت ہوتے ہیں، بس میرے ساتھ بیٹھو۔ یہاں سب کچھ ہے۔ لیکن میرا دل چاہتا کہ میں بیان پہ جاؤں، لیکن وہ مجھے چھوڑ نہیں رہے تھے۔ ایک دفعہ میں چھپ کے بیان میں چلا گیا کہ مجھے خواہ مخواہ اپنے ساتھ بٹھایا ہوا ہے۔ میں بیان سننے کے لئے جہاں جانا چاہتا تھا، اسٹیج اس جگہ کے بہت قریب تھا۔ اچانک مجھے خیال ہوا کہ میں نے بستر کہاں چھوڑا ہے، کہیں اس پر جو فلاں چیز تھی، وہ آگے پیچھے نہ ہو جائے، تو بستر کو ٹھیک کرنے کے لئے میں واپس آیا، جب واپس پہنچا، تو وہ تہجد کی نماز کا سلام پھیر رہے تھے، اور مجھے کہتے ہیں: آ گئے ہو؟ میں نے کہا: جی۔ کہتے ہیں کہ ابھی میں نے آپ کے لئے نماز پڑھی تھی کہ آپ آ جائیں۔ میں نے کہا: حضرت! معذرت۔ ظاہر ہے کہ اب میں کیا کہہ سکتا تھا۔ بہر حال! جس کا اللّٰہ کے ساتھ ایسا تعلق ہو، پھر ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ جیسے مجھے یاد آ گیا کہ بستر ٹھیک کرو، لیکن در اصل ان کی دعا قبول ہوئی تھی، ان کا کھڑا ہونا قبول ہو گیا تھا۔ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ کسی کے دل میں بھی بات ڈالی جا سکتی ہے کہ تمہارا فلاں کام ہے، وہاں چلے جاؤ۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ دکھانا تھا کہ کاکا صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) میرے مقبول بندے ہیں، اور ان کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ ان کو دلوانا چاہتا ہے۔ لہٰذا اس میں مشکل کیا ہے۔ مشکل کوئی نہیں ہے، لیکن اس سے کم از کم یہ تو پتا چلتا ہے کہ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ اللّٰہ کے مقبول بندے ہیں۔ اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے سے یہ کام کر دیا۔

متن:

دیگر:

آپ کے مریدوں میں سے ایک مرید حج کا ارادہ کرتے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حج پر جانے کی اجازت کی درخواست کی، آپ اجازت نہیں دیتے تھے، کچھ عرصہ بعد دوبارہ اجازت چاہی اس بار اجازت عطا فرما کر اس کو رخصت کیا اور اس کو نصیحت کی کہ جب کبھی اور جہاں تم کو کوئی مصیبت یا مشکل پیش آئے مجھے یاد کر کے فریاد رسی کے لئے بلانا۔ مذکورہ مرید قندہار اور اصفہان کے راستے حج کے لئے روانہ ہوا۔ چند اور حاجی بھی ان کے ہمراہ تھے اور رافضیوں کے ملک میں سے گذر رہے تھے کہ رافضیوں نے اِن کو گرفتار کر کے کہا کہ شیخین یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ، کے بارے میں بدگوئی کرو۔ ان حاجیوں نے شیخین رضی اللّٰہ عنہم کو گالی دینے سے انکار کیا آخر رافضیوں نے حجام کو بلایا کہ ان حاجیوں کے داڑھی مونڈھ ڈالو۔ حجام نے ان میں سے ایک کی داڑھی مونڈ ڈالی۔ جب دوسرے کی مونڈنے لگے تو وہ دوسرا شیخ یہ شخص تھا کہ جس کو حضرت شیخ صاحب نے فرمایا تھا کہ سختی کے وقت مجھے یاد کرنا، تو وہ شیخ اپنے آپ کو ہلا رہا تھا اور داڑھی کو مونڈنے نہیں دیتا تھا۔ آخر کار اس کو مغلوب کیا گیا اور تھک ہار کر داڑھی مونڈنے پر آمادہ ہوا کہ اچانک اس کو اپنے حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی بات یاد آ گئی۔ اس نے چیخ مار کر فریاد کی کہ اے کاکا! مجھے نہیں چھوڑتے اور میری داڑھی مونڈتے ہیں۔ جب اُس نے یہ آواز بلند کی تو اللّٰہ کے فضل سے رافضیوں میں اختلاف اور بے اتفاقی پیدا ہو گئی وہ دو گروہ بن گئے اور حضرت صاحب کا مرید اُن سے نجات پا گیا۔ بہت سے لوگ حضرت صاحب کو کاکا کے نام سے پکارتے ہیں۔ پھر دوسری دفعہ بھی روافض نے اس کو تنہا پا کر پکڑ لیا اور شیخین کو گالی نہ دینے پر مارنے پیٹنے لگے اور وہ انکار کرتا رہا، قریب تھا کہ مجبور ہو کر داڑھی مونڈوانے پر آمادہ ہو جائے کہ پھر اُسی طریقے سے فریاد کر کے پکارنے لگا، اس دفعہ ایک بوڑھی عورت نے اس کو رہائی دلائی، کیونکہ اِس دفعہ معاملہ شہر کے اندر کا تھا۔ جب مکہ مکرمہ پہنچا تو ایک بزرگ نے اُسے ذکر کرنے کی تلقین کی تو اُس نے جواب دیا کہ میں نے محبت کا مقام پا لیا ہے میں اپنے آپ پر حکم نہیں رکھتا، اختیار کی لگام میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی ہے۔ وہ بزرگ بہت کوشش کرتا رہا مگر اُس کی کوشش اور سعی کار گر نہ ہوئی، کیونکہ عاشق اپنے معشوق کے حسن و جمال کے بغیر کسی دوسری چیز کو نہیں دیکھتا کہ میں سر اور مال سے گذر چکا ہوں اور اگر میرا چمڑا بھی کھینچا جائے تو میں اِس سے بھی دریغ نہیں رکھوں گا۔ اس کے بعد اُس بزرگ نے کہا کہ یہ عارفوں کی نِشانی ہے، پھر ملک شام کے ایک دوسرے بزرگ نے بھی یہی تلقین کی مگر اس کو بھی یہی جواب دیا اور اس کی خدمت میں آنے کو قبول نہ کیا۔ جب وہ مرید حج سے فارغ ہو کر اپنے وطن کو واپس ہوا تو حضرت شیخ المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت صاحب نے اُس کو کہا کہ مکہ مکرمہ اور شام کے اُن بزرگوں نے تم سے باتیں کیں مگر ازل کے لکھے ہوئے کو نہیں دیکھا۔ اس مرید کو یقین ہو گیا کہ حضرت صاحب کو میرے تمام کاموں کی اطلاع اور واقفیّت ہے، عرض کی کہ بیان کرنے کی حاجت نہیں جو کچھ کہ مجھ پر گزری ہے آپ نے دیکھی ہے۔

تشریح:

در اصل یہ ساری باتیں بالکل اسی ربط کے ذریعے سے ہوتی ہیں کہ اللّٰہ جل شانہ جس کو جس کے بارے میں جو حال پہنچانا چاہے، پہنچا دیتا ہے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو ہمارے ساتھی نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مجھے نصیحتیں فرما رہے تھے، اس میں حضرت نے اخیر میں یہ بھی فرمایا کہ آپ کے بارے میں مجھے پتا چلتا رہتا ہے، مجھے بتا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ حضرت تو فوت ہو چکے ہیں۔ چنانچہ فوت شدہ حضرات کو اگر اللّٰہ تعالیٰ کسی کے بارے میں بتا سکتے ہیں اور وہاں تک بات پہنچتی ہے، تو زندوں کو نہیں پہنچا سکتے؟ کرنے والی ذات تو اللّٰہ کی ہے۔ یہ جو ان چیزوں کو روکا جاتا ہے، وہ اصل میں عوام کی وجہ سے روکا جاتا ہے۔ کیونکہ عوام اس چیز کو نہیں جانتے، ان کو پریشانی ہوتی ہے۔ مثلاً: جس کا نظریہ، یقین اور عقیدہ یہ ہو کہ سب کچھ اللّٰہ کرتے ہیں، تو دور والا تو در کنار قریب والے پہ بھی اس کی نگاہ نہیں جاتی کہ یہ کرتا ہے۔ وہ تو یہی عقیدہ رکھتا ہے کہ سب کچھ اللّٰہ کرتا ہے۔ جب اس کے دل و دماغ میں یہ چیز موجود ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ سب کچھ کرتے ہیں، تو اس کے ساتھ جو بھی بات کی جائے گی اور جس کے ذریعے سے بھی کی جائے گی، اس کو پیچھے صرف اللّٰہ تعالیٰ ہی نظر آتا ہے۔ لہٰذا اس کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ کاکا صاحب کو بلا لے یا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بلا لے، تو وہ اس کو ایک ذریعہ سمجھ کے کہہ رہا ہوتا ہے۔ اصل بات تو اس کو پتا ہوتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کر رہا ہے، لہٰذا اس کو مسئلہ نہیں ہوتا۔ یہ بالکل وہی بات ہے کہ جیسے حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا ’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہْ‘‘ کہنا جائز ہے؟ فرمایا: کس کے لئے؟ اس نے کہا: میرے لئے۔ فرمایا: جائز نہیں ہے۔ اس نے سوچا کہ یہ جو پوچھا ہے کہ کس کے لئے؟ شاید کچھ اور بات بھی ہو۔ تو پوچھا: حضرت! آپ کے لئے؟ فرمایا: میرے لئے جائز ہے۔ اس نے کہا: یہ کیسے؟ آپ کے لئے جائز ہے اور میرے لئے ناجائز ہے۔ یہ کیوں؟ فرمایا: تم ’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہْ‘‘ کے ساتھ آپ ﷺ کو بلاتے ہو کہ ادھر آ جاؤ۔ گویا کہ تم آپ ﷺ کو حاضر ناظر سمجھتے ہو، اور میں ’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہْ‘‘ کہتے ہوئے اپنی روح کو بھیجتا ہوں کہ میری روح ادھر موجود ہے۔ لہٰذا یہ فرق ہے کہ میں ان کو ادھر نہیں بلاتا، بلکہ میں خود روحانی طور پر ادھر حاضر ہوتا ہوں۔ جیسے کوئی تصور میں کسی جگہ پہنچ جائے، تو اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ لیکن جو آپ ﷺ کو حاضر ناظر سمجھتا ہے، تو وہ ٹھیک نہیں ہے اور حاضر ناظر سمجھنے کے عقیدہ میں مسئلہ ہے۔ تصور میں تو انسان کہیں بھی پہنچ سکتا ہے، تصور میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اصل یہ باریک چیزیں ہوتی ہیں، عوام چونکہ ان چیزوں کو نہیں جانتے، لہٰذا ان کی نفی کی جاتی ہے، اور اس وقت نفی ضروری ہوتی ہے کیونکہ اس سے عقیدہ بچتا ہے اور عقیدہ بچانا لازم ہے۔ لیکن جن کا عقیدہ بچایا جا رہا ہوتا ہے یعنی عوام، ان کے لئے تو یہ قانون ہے۔ اور جو عوام کے درجہ سے آ گے خواص کے درجہ میں ہیں، جن کو ساری چیزوں کا علم ہو گا، ان پہ قوانین کا اطلاق نہیں ہو گا۔ ان کے لئے تو ہر چیز بالکل سامنے ہے، لہٰذا ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مثلاً: اگر ملاءِ اعلیٰ کے ساتھ میرا تعلق ہے (اللّٰہ کرے) اور ایک بزرگ امریکہ میں ہے، اس کا بھی ملاءِ اعلیٰ کے ساتھ تعلق ہے، اور میں نظر کر لوں اور ان کی بھی نظر ہے اور ہماری نظریں مل جائیں، تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ یعنی اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کو عوام نہیں سمجھتے۔ جیسے ٹیلی پیتھی ایک exercise ہے یعنی ایک ذہن کی دوسرے ذہن کے ساتھ communication، مثلاً: ایک آدمی سعودی عرب میں ہے اور میرا اس کے ساتھ ذہن مل گیا اور میرے ذہن سے اس کو بات جا رہی ہو اور وہاں کی بات میرے پاس آ رہی ہے، یہ ممکن ہے۔ آج کل یہ چیزیں ممکن ہیں اور ہو رہی ہیں اور باقاعدہ سائنسی طور پہ ہو رہی ہیں۔ اس کو ٹیلی پیتھی کہتے ہیں۔ جب ٹیلی پیتھی ٹھیک ہے اور اس کو لوگ مانتے ہیں، اور یہ ایک سائنسی بات ہے کہ ذہن کا ذہن کے ساتھ کنکشن ہو جاتا ہے۔ لیکن جب میرا روحانی کنکشن ملاءِ اعلیٰ کے ساتھ ہو گیا اور کسی اور کا بھی روحانی کنکشن ملاءِ اعلیٰ کے ساتھ ہے، تو ملاءِ اعلیٰ ہمارے لئے جنکشن بن گیا۔ جیسے exchange میں ایک تار آتا ہے، اور دوسرا تار بھی آتا ہے، لہٰذا ٹیلی فون ہو جاتا ہے۔ اس کو لوگ ناممکن نہیں سمجھتے۔ اسی طرح ملاءِ اعلیٰ میں میرا بھی کنکشن لگا ہوا ہے اور کسی اور کا بھی لگا ہوا ہے، اس ملاءِ اعلیٰ کے ذریعے سے میں اپنی بات اس تک پہنچا سکتا ہوں اور وہ اپنی بات مجھ تک پہنچا سکتا ہے، تو اس میں کیا مسئلہ ہے۔ لیکن یہ بات عوام کو سمجھ نہیں آئے گی۔ اور عوام کے اوپر لازمی بھی نہیں ہے۔ عوام کو بتانا ضروری بھی نہیں۔ بلکہ ایسی باتوں کے بتانے سے عوام کو نقصان ہو جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ ان باتوں کو سمجھ سکتے ہیں، ان کو بتانا لازم ہے، اس لئے کہ کتابوں میں یہ باتیں واقعات کے طور پہ لکھی ہوئی ہیں۔ لہٰذا اگر نہیں بتائی جائیں گی، تو جن کے بارے میں لکھی گئی ہیں، ان کے اوپر بدگمانی ہو جائے گی۔ اس بدگمانی سے بچانے کے لئے سمجھایا جا رہا ہے کہ بد گمانی نہ کرو، اس طرح ہو جاتا ہے۔ اور ’’یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ‘‘ کسی کے لئے بھی ہو سکتا ہے اور جس کے لئے ہو سکتا ہے، اس کے بارے میں بدگمانی نہ کرو۔ بس یہی بنیادی بات ہے۔ اور یہاں بھی یہی بات تھی۔ بہر حال! حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اللّٰہ پاک نے اتنا مقام عطا فرمایا تھا کہ آن کی آن میں جس کی دنیا بدل جاتی اور وہ چیزیں ان کے سامنے آ جاتیں اور ان کو سمجھ بھی آ جاتیں، ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن ہم لوگوں کے لئے مسئلہ ہے، ہم اس طرح نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہمیں احتیاط کرنا ہو گی۔

متن:

دیگر:

حضرت صاحب اپنے جد بزرگوار شیخ مست بابا صاحب قدس سرہٗ کے مزار کو تشریف لے گئے، زیارت کرنے کے بعد جب واپس ہونے لگے تو وہاں کے باشندے آپ کی قدم بوسی کے لئے آئے تو ان لوگوں میں سے ایک شخص نے نیاز کے طور پر ایک گائے نذر کر دی اور حضرت صاحب سے رخصت ہوا۔ تھوڑی دور وہ شخص گیا تھا کہ اُس کے دل میں یہ بات گزری کہ میرے گاؤں میں بھی محتاج اور مسکین ہیں، کاش کہ یہ گائے میں اپنے گاؤں میں خیرات کرتا۔ اس خیال کے آتے ہی یہاں سے حضرت شاہ صاحب نے ایک شخص کو اُسے بلانے کے لئے بھیج دیا، جب وہ حاضر ہوا تو اس کو فرمایا کہ کل اپنے گاؤں کے محتاجوں اور مسکینوں کو گائے کے ساتھ یہاں لانا تاکہ ان سب کو اور دوسرے محتاجوں کو کھلایا جائے کیونکہ رسول اللّٰہ ﷺ نے اپنے اصحاب کرام کو فرمایا ہے کہ تمہاری خیرات جو میرے ہاتھوں سے صرف ہو جائے تو یہ اس خیرات سے بہتر ہے جو تمہارے ہاتھ سے خرچ ہو۔ اُس شخص نے ویسا ہی کیا جیسا کہ حضرت صاحب نے ان کو فرمایا تھا۔

تشریح:

در اصل یہ قبولیت کی بات ہے۔ ایک صاحب کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی وفات کے بعد ان کے لئے حج کرنا چاہتے تھے، کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے (خواب میں) ان سے فرمایا کہ حضور ﷺ کے لئے کر لو، اس سے پوری امت کو فائدہ پہنچے گا۔ اب نیت حج کی تو ایک ہی تھی، جو حج کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے لئے تھا، وہی آپ ﷺ کے لئے تھا۔ صرف نیت کا فرق تھا۔ حدیث پاک میں ہے: ’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1)

ترجمہ: ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔

لہٰذا جتنی اونچی نیت ہو گی، اسی کے حساب سے اس کا معاملہ بھی اونچا ہو گا۔ تو کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے اوپر ایثار کر دیا اور فرمایا کہ یہ حج آپ ﷺ کے لئے کر لو، اس کا فائدہ پوری امت کو پہنچے گا۔ یہاں بھی حضرت نے ان کو یہی فرمایا ہے۔ چونکہ ان کو اشکال ہوا تھا کہ میں اپنے گاؤں کے غرباء کو بھی خیرات دیتا، تو اچھا تھا۔ تو حضرت نے فرمایا: ٹھیک ہے، ایسے ہو، لیکن نیت یہ ہو کہ میرے ہاتھ سے خیرات ہو جائے۔

متن:

دیگر:

ایک شخص حضرت شیخ صاحب کی زیارت کو آئے اور کچھ نیاز بھی لائے، حضرت صاحب نے اُن سے حال احوال پوچھا اور ان پر شفقت فرمائی، تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب گھر کی طرف چل دیئے، چند قدم تشریف لے گئے تھے کہ واپس ہو کر اس شخص کے سامنے کھڑے ہو گئے اور اس کی طرف توجہ کر کے دیکھا، حضرت صاحب کی توجہ کی وجہ سے اُس شخص کا ایسا حال ہوا کہ تین ماہ تک اس کے جسم پر نیند غالب نہ ہوئی، نگاہ کیمیا اثر اسی کو کہتے ہیں۔

دیگر:

حضرت صاحب کے بعض مریدوں کو ایسا علم و دانش حاصل تھا کہ اگرچہ عامی اور ان پڑھ ہوتے، مگر اُن کے علم و دانش اور فہم و خرد مندی کے آگے علماء و فاضلان حیران رہ جاتے اور حضرت صاحب کی ایک نگاہ سے اُن پر اسرار اور رموز اور علم کے ایسے خزانوں کے در کھل جاتے کہ وہ مرید از خود رفتہ ہو کر اپنے آپ سے بے نیاز ہو جاتے اور دنیا کی محبت اُن کے دل سے بالکل قطع اور محو ہو جاتی اور اللّٰہ تعالیٰ کی طرف کلی طور پر متوجہ ہو کر عشق الٰہی میں دیوانے، مست اور بے خود ہو جاتے اور اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے سے سوال نہ کرتے، نہ کسی غیر اللّٰہ سے ڈرتے اور نہ خوف کھاتے، کسی خوشی اور غم سے خوش اور مغموم نہ ہوتے اور لوگوں کی تعریف اور ہجو سے بالکل بے پروا ہو جاتے اور اپنے نفع و نقصان کا تصور غیر اللّٰہ سے نہ کرتے اور اکثر اوقات کچھ نہ کھاتے اور بھوک سے کچھ تکلیف نہ ہوتی اور نہ اس سے کمزوری محسوس کرتے، مفلسی کا انہیں کُچھ غم نہ ہوتا، گرمی سردی کی اُنہیں کچھ پرواہ نہ ہوتی اور نام و نمود اور بے جا نام نہاد ننگ و غیرت اُن کے لئے سدِ راہ یا حجاب نہ بن جاتے، اور لوگوں سے دور رہ کر خوش ہوتے اور ہمیشہ اللّٰہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی طلب میں منہمک رہتے، غیر اللّٰہ کا خیال دل میں نہ لاتے۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک بار ایک درویش کو ایک مالدار آدمی نے اپنا مہمان بنایا، مالدار آدمی نے جب اس کی بے نوائی کو محسوس کیا تو اگلے روز اس کے پاس کچھ نقد رقم ارسال کی، درویش نے وہ رقم واپس کرتے ہوئے یہ پیغام بھیج دیا کہ یہ اس بات کی بہت کڑی سزا ہے کہ میں نے تم کو اپنی درویشی کی اطلاع دی۔ اسی طرح حضرت صاحب کے دیگر مریدوں کے حالات ہیں۔

تشریح:

اصل میں یہ اللّٰہ پاک کے نظام ہیں، اللّٰہ تعالیٰ جس رنگ سے بھی کوئی کام کرنا چاہیں، تو کر لیتے ہیں۔ ایک تو یہ رنگ ہے کہ لوگ مشغول ہوتے ہیں اور اعمال کرتے ہیں اور اعمال کی وجہ سے ان کو مقامات ملتے ہیں اور یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ اور کوئی شخص ایسا ہوتا ہے کہ جو پوری کائنات کے اندر کسی ہیرے کو چن لیتا ہے۔ جب اس نے ہیرے کو چن لیا، تو ہیرے کے خواص اس کے قابو میں آ جائیں گے۔ چنانچہ اعمال تو انسان کو کرنے ہوتے ہیں، لیکن ایک شخص اعمال خود اپنے طور پر کرتا ہے۔ دوسرا آدمی کسی اللّٰہ والے کے ساتھ تعلق بنا کر اعمال کرتا ہے۔ ان میں فرق تو ہو گا۔ تو یہ جو حضرات حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس گئے ہیں، ان کا کاکا صاحب کے پاس اس مقصد کے لئے جانا، یہ اصل میں ان کا بڑا عمل تھا۔ جیسے آپ ﷺ کے صحابہ اس دور میں آپ ﷺ کے پاس جاتے، تو یہی ان کا سب سے بڑا عمل تھا، اور اسی میں ان کو سب کچھ مل جاتا۔ باقی چیزیں ان کے ساتھ associate تھیں، باقی چیزیں تو ان کے ساتھ ویسے ہی ان حالات کے مطابق ہو رہی تھیں۔ اسی طرح اس وقت ہم کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو کتاب میں سے دیکھ رہے ہیں اور حضرت کی زندگی گزر گئی ہے۔ گزرے ہوئے آخری حالات بھی ہمارے سامنے ہیں، لہٰذا اگر ہم ادھر جاتے ہیں، تو ہمارے لئے یہ کوئی امتحان نہیں ہے۔ لیکن جب حضرت صاحب زندہ تھے، تو جیسے اس صاحب کو بار بار وسوسے آتے تھے کہ کہیں میں کسی غلط راستہ پہ تو نہیں جا رہا، اور اس بات کا امکان تو تھا، کیونکہ اس وقت تو کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی یہ چیزیں سامنے نہیں آئی تھیں۔ لہٰذا ان کا کاکا صاحب کے ساتھ اپنا دل وابستہ کرنا، یہی ان کا بہت بڑا عمل تھا۔ چنانچہ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ جو اللّٰہ تعالیٰ نے نظام رکھے ہوئے تھے، وہ سارے ان کے ساتھ چل پڑتے تھے۔ یہی معاملہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ بھی تھا۔ یہی معاملہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ بھی تھا۔ یہی معاملہ مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ بھی تھا۔ صحیح بات عرض کرتا ہوں، جس شخص کو بھی اللّٰہ پاک قبول فرمائیں، تو خوش قسمت لوگ وہ ہوتے ہیں، جو اس کے ساتھ اپنے آپ کو adjust کر لیتے ہیں۔ یہی خوش قسمتی والی بات بعض لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آتی، لہٰذا وہ محروم رہتے ہیں۔ لیکن جن کو سمجھ آ جائے اور ان کو اللّٰہ پاک دے دیں، تو اشکال کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کیونکہ ان کو اللّٰہ پاک نے راستہ دے دیا۔ لہٰذا ان واقعات کو اگر لوگ صرف کرامات کی حد تک پڑھ کر بھول جائیں، تو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ فائدہ تب ہو گا کہ جب میں اس سے کچھ حاصل کر لوں۔ اور وہ حاصل کرنا کیا ہے؟ ہر دور کے اندر اللّٰہ پاک نے ایسے لوگوں کو بٹھایا ہوتا ہے۔ مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ ہمارے خاندان کے بزرگ تھے، دور دور سے لوگ ان کے پاس آتے تھے۔ ایک دفعہ مجھ سے تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پوچھا کہ کیا آپ نے عزیر گل صاحب رحمہ اللہ کی زیارت کی ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ فرمایا: عجیب آدمی ہو، پوری دنیا سے لوگ ان کی زیارت کے لئے آتے ہیں اور تمہیں پتا بھی نہیں ہے۔ میں نے کہا: مجھے تو پتا بھی نہیں تھا۔ فرمایا: اچھا ٹھیک ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد فرمایا: چلو چلتے ہیں۔ ہم روانہ ہو گئے۔ حالانکہ حضرت مفلوج تھے، شفقت کی بات تھی، پیدل ہی ساتھ چل پڑے۔ تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلہ پہ ان کا گھر تھا۔ اس وقت مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نابینا ہو گئے تھے۔ حضرت کے ساتھ ملاقات ہو گئی۔ حضرت نے میرا تعارف دو طرح سے کرایا، ایک میرے شیخ کی وساطت سے کہ یہ مولانا اشرف صاحب کے مرید ہیں۔ حضرت بہت خوش ہوئے۔ اور دوسرا میرے والد صاحب کے حوالے سے کہ یہ فلاں کے بیٹے ہیں، اس پر بھی بہت خوش ہوئے اور پھر نصیحتیں فرمانے لگے۔ ایک بات انہوں نے یہ بھی فرمائی کہ میرے پاس کیوں آتا ہے؟ مولانا اشرف صاحب میرے پاس آتے ہیں اور مجھے بزرگ سمجھتے ہیں، حالانکہ بزرگ تو وہ ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ مولانا اشرف صاحب کو اللّٰہ پاک نے اس لئے بٹھایا ہے کہ جن کو اللّٰہ ہدایت دینا چاہے، حضرت کے ذریعے سے ان کو ہدایت دے۔ جب ہم واپس آ رہے تھے، تو مجھ سے پوچھا کہ کچھ سمجھے؟ میں نے کہا: کیا مطلب؟ فرمایا: انہوں نے مولانا اشرف صاحب کے بارے میں جو فرمایا ہے، ان کو بھی اسی لئے بٹھایا گیا ہے، اور فرمایا کہ مولانا کی بیماری تکوینی بیماری ہے، یہ بیماری لائی گئی ہے، کیونکہ اس میں حکمت یہ تھی کہ مولانا صاحب تبلیغی جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، ان کو لوگ اپنی جگہ پہ نہیں دیکھ سکتے، یہ تو چلتے رہتے ہیں۔ اس لئے اللّٰہ نے ان کو بٹھا دیا تاکہ لوگ ایک ہی جگہ پہ ان سے استفادہ کر سکیں۔ بہر حال! مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ واقعتاً بہت بڑے بزرگ تھے، لیکن مجھے نہیں پتا تھا، اس لئے میں کبھی نہیں گیا تھا۔ تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ کمال ہے کہ آپ ان کے پاس گئے نہیں، دور دور سے لوگ آتے ہیں۔ پھر الحمد للہ ایسا حال ہو گیا کہ میں کبھی کبھی خود جایا کرتا تھا۔ میں جب بھی جاتا تھا تو حضرت کو گلے لگا لیتا تھا۔ حضرت کو بھی الحمد للہ ہمارے ساتھ محبت تھی۔ ہمارا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ میں حضرت کو اطلاع کر دیتا تھا، کیونکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مواعظ میں پڑھ چکا تھا۔ حضرت نے بزرگوں کے جو آداب سیکھائے تھے، وہ الحمد للہ مجھے معلوم تھے کہ بزرگوں کو تنگ نہیں کرنا، ان کی مرضی کے خلاف کام نہ کرنا، ان کو تکلیف نہ دینا۔ اس لئے میں جا کر اطلاع کر دیتا کہ شبیر آیا ہوا ہے۔ حضرت بھی بے تکلف فرما دیتے کہ آپ کا آنا منظور ہے۔ پھر فرماتے کہ چونکہ میں معذور ہوں، باہر نہیں آ سکتا، دعا کرتا ہوں۔ اور میں مان جاتا۔ لیکن حضرت کے بھتیجے قاسم صاحب مجھے کہتے کہ آپ نے جانا نہیں ہے، فلاں صاحب آ رہے ہیں، تو باہر آئیں گے اور ملاقات ہو جائے گی۔ وہ مجھے بٹھا دیتے، چائے وغیرہ بھی پلا دیتے۔ اتنے میں حضرت کو اطلاع کر دیتے کہ فلاں صاحب آ رہے ہیں۔ حضرت فرماتے: اچھا! شبیر اگر نہ گیا ہو، تو اس کو بھی کہہ دو کہ ذرا ٹھہر جائے۔ ایک دفعہ ڈاکٹر اسرار صاحب تشریف لا رہے تھے، تو مجھ سے بھی حضرت نے فرما دیا تھا۔ میں مطمئن ہو گیا، قاسم صاحب نے کہہ دیا کہ ڈاکٹر اسرار صاحب آ رہے ہیں، جب ان کے لئے باہر آئیں گے، تو آپ بھی زیارت کر لینا۔ جب ڈاکٹر صاحب آئے اور تو ان کو ڈاکٹر صاحب کے لئے اطلاع دے دی گئی۔ حضرت نے وہی بات فرمائی۔ کمال کی بات ہے کہ چونکہ میں پہلے گیا تھا، تو حضرت نے باہر آتے ہی پوچھا کہ شبیر کدھر ہے؟ چونکہ نابینا ہو چکے تھے، میں قریب ہو گیا اور عرض کیا کہ حضرت میں ادھر ہوں۔ پھر حضرت نے مجھ سے پوچھا: فلاں کیسا ہے؟ فلاں کیسے ہوا؟ ساری تفصیلات پوچھیں۔ حتیٰ کہ مجھے شرمندگی ہوئی کہ ڈاکٹر اسرار صاحب اتنے دور سے آئے ہوئے ہیں، کہیں یہ محسوس نہ کر لیں کہ یہ بچہ درمیان میں رکاوٹ ہے۔ بہر حال! میں نے کہا کہ حضرت! میں آپ کے ساتھ ہی کھڑا ہوں، ڈاکٹر اسرار صاحب بھی آئے ہوئے ہیں۔ پھر فرمایا: ڈاکٹر اسرار صاحب! کیا حال ہے؟ خیریت ہے؟ یوں پھر ان کے ساتھ بات شروع کر لی۔ ایک دفعہ مجھے احساس ہوا کہ حضرت میرے ساتھ بہت ہی محبت کرنے لگے ہیں، میں حیران تھا، میں نے سوچا کہ یہ کیا بات ہو گئی، کون سا ایسا کام ہے کہ جس کی وجہ سے حضرت بہت توجہ دینے لگے ہیں، تو مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ حضرت کا چھوٹا سا پوتا اپنے ماموں کے ساتھ ہوتا، تو میں اس کو کبھی کوئی چیز سیکھاتا، کبھی کوئی دعا سیکھاتا، کبھی کوئی طریقہ سیکھا دیتا۔ وہ جا کر حضرت کو بتاتے کہ مجھے شبیر صاحب نے یہ سیکھایا ہے، مجھے شبیر صاحب نے یہ سیکھایا ہے۔ میں نے کہا: اچھا! یہ تو زکریا کی برکت ہے۔ چونکہ وہ ان کا پوتا تھا۔ تو اس سے مجھے قانون مل گیا کہ اگر کسی بزرگ کے ہاں کوئی وقعت پانا چاہتا ہے، تو سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ ان کی اولاد پہ محنت کرو۔ اور یہ قانون زندہ اور فوت شدہ سب کے لئے ہے۔ آپ کسی کی اولاد پہ محنت شروع کر لیں، آپ کو ان کے آباء و اجداد کا تعلق حاصل ہو جائے گا۔ جیسے: سادات پر محنت کرو، تو آپ ﷺ کا تعلق نصیب ہو جائے گا۔ کاکا خیلوں پہ محنت کرو گے، تو کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا تعلق نصیب ہو جائے گا۔ ہمارے ساتھی ڈاکٹر ارشد صاحب جب مردان کے مولانا صاحب سے بیعت ہوئے، تو کہتے ہیں کہ خواب میں کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زیارت ہوئی، انہوں نے ان کو ہار پہنایا۔ گویا رسید مل گئی۔ چنانچہ ہمیں ان چیزوں کو حاصل کرنا چاہئے۔ یہ صرف واقعات نہیں ہیں، بلکہ ان کے اندر بہت کچھ ہے۔ ان بزرگوں کو اللّٰہ نے چُنا ہوتا ہے، یہ معمولی لوگ نہیں ہوتے۔ علامہ اقبال مرحوم نے شعر کہا ہے:

نہ پُوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو، تو دیکھ ان کو

یدِ بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

واقعتاً ان کے ذریعے سے بہت کچھ ملتا ہے، مگر دیتا اللّٰہ ہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اگر کسی کی نظر اس بزرگ پہ ٹھہر گئی اور اللّٰہ تک نہیں گئی، تو شرک شروع ہو گیا۔ اور اگر اس بزرگ پر اس کی نظر نہیں ٹھہری، اللّٰہ تک بات پہنچ گئی، تو سبحان اللّٰہ! اس کو کمال حاصل ہو گیا۔ لہٰذا ان بزرگوں کے ساتھ یہ بات ہوتی ہے کہ جن کی نظر صرف بزرگوں پہ ٹھہر جائے، تو معاملہ اور ہو جاتا ہے، لیکن جن کی نظر وہاں سے اللّٰہ تعالیٰ پہ پہنچ گئی، تو انسان فنا فی الشیخ سے فنا فی الرسول تک پہنچتا ہے اور پھر فنا فی الرسول سے فنا فی اللّٰہ تک پہنچتا ہے۔ اور سب سے آسان طریقہ یہی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ