زمانہ طفولیت سے لیکر عمر کے آخری حصے اور وفات کے بعد بھی حضرت صاحب کے عادات و کرامات وغیرہ کے بیان میں اور آپکے متفرق اعمال اور وفات

باب 14 ، درس 47

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ملفوظات، تعلیمات اور ان کے واقعات کی تعلیم ہو رہی ہے۔ حضرت کی زندگی کے واقعات بتائے جا رہے ہیں۔

متن:

دیگر:

ایک دفعہ آپ کو کھانا پکانے کا شوق ہوا، ایک ہزار روپے (اس وقت کے ایک ہزار) کے چاول خرید لیے اور حکم دیا کہ ان کو رات کے وقت پکایا جائے اور خود کھڑے ہو کر تمام رات نماز پڑھتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو دیکھا گیا کہ وہ سب چاول لوگ خام و پختہ شکل میں لے گئے ہیں، ایک شخص نے عرض کی کہ حضرت صاحب! لوگ سب چاول لے گئے ہیں۔ حضرت شیخ صاحب نے جواب دیا کہ میری مُراد بھی یہی تھی جیسا کہ ہو چکا، اور اسی وجہ سے میں نے رات کے وقت ان کے پکانے کا حکم دیا تھا۔ ایک دن ایک شخص نے عرض کی کہ جو لوگ آپ کی اجازت کے بغیر آپ کی خیرات و صدقات کی چیزیں لے جاتے ہیں یا کھاتے ہیں، قیامت کے دن ان کا کیا حال ہوگا؟ حضرت صاحب نے ان کو جواب دیا کہ میں خیرات اور صدقات لوگوں کو نفع پہنچانے کی خاطر کرتا ہوں، اس غرض سے نہیں کرتا کہ ان کا مؤاخذہ ہو اور ان کو تکلیف و سزا ملے۔ اور حضرت شیخ صاحب خیرات و صدقات کے لیے اتنا قرض لے لیتے تھے کہ یہ بات عقل میں نہیں آتی تھی کہ حضرت شیخ صاحب کو اس قرض سے کبھی بھی رستگاری نصیب ہوگی، لیکن اللّٰہ تعالیٰ اُس قرض کو تھوڑی مدت میں ادا فرماتے اور حضرت شیخ صاحب حسبِ معمول اور قرض حاصل فرماتے اور اس کو خیرات کرتے، لیکن اللّٰہ تعالیٰ اُس کو بھی تھوڑے عرصہ میں ادا کراتے اور موت کے وقت تک قرض کا یہ سلسلہ جاری تھا۔ اور اس طرح قرض لے کر خیرات فرمایا کرتے اور حسب دستور بہت تھوڑے عرصے میں وہ قرض اللّٰہ تعالیٰ کے کرم و احسان سے ادا ہو جاتا۔ اکثر دفعہ تو آپ اتنا قرض لے لیتے کہ اُس کی ادائیگی کی عقل کی بموجب کچھ گنجائش نہ ہوتی، لیکن جو کوئی اللّٰہ تعالیٰ پر توکل کرے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوتا ہے، ﴿وَ مَنْ یَّتَوکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ…﴾ (الطلاق: 3) ”جو اللّٰہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اُس کے لیے کافی ہوتا ہے“۔

تشریح:

اللّٰہ جل شانہ بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ فرماتے ہیں۔ لیکن اس کے گمان کا بننا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ اس کے لئے اپنے نفس کو مارنا ہوتا ہے۔ جو کوئی اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ جیسا گمان کر لیتا ہے، تو چونکہ اللّٰہ کے ہاں کمی نہیں ہے، لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ ویسے کر لیتے ہیں۔ آپ ﷺ بھی لوگوں کے لئے قرض لیا کرتے تھے اور پھر قرض ادا ہو جاتا تھا۔ بہت سارے اکابر ایسے گزرے ہیں، جو قرض لے کر خرچ کرتے تھے۔ صحابہ کرام میں بہت سے ایسے حضرات ہیں، جیسے: عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے حضرات بہت زیادہ خرچ کرتے تھے، انسان حیران ہو جاتا ہے۔ گویا نہ سمجھ آنے والی بات ہوتی تھی کہ کیسے کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کا عمل ایسا ہوتا، لہٰذا ان کے ساتھ معاملہ بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ جس طرح اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی معاملہ رکھتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ اس کے ساتھ ویسے ہی معاملہ رکھتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ (البقرہ: 276)

ترجمہ: ’’اللّٰہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے‘‘۔

لہٰذا جو اس آیت کے اوپر عامل ہوں اور اس آیت پہ ان کو یقین ہو تو اللّٰہ تعالیٰ ان کے ساتھ ویسے ہی معاملہ فرماتے ہیں۔ یہ آیت بھی تقریباً اس آیت کی طرح ہے ﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا (الطلاق: 2)

ترجمہ: ’’اور جو کوئی اللّٰہ سے ڈرے گا، اللّٰہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا‘‘۔

واقعتاً بہت ساری جگہوں پہ مخفی وعدے موجود ہیں، ایک ہوتا ہے جلی وعدہ کہ میں یہ کر دوں گا۔ ایک مخفی وعدہ ہوتا ہے، مخفی وعدہ یہ ہوتا ہے کہ اصول ایسا بنایا ہوتا ہے کہ اس کے مطابق ہوتا ہے، بس صرف اس کے اوپر یقین کرنا ہوتا ہے۔ اگر کسی کو یقین آ جائے، تو اس کے ساتھ پھر ایسا ہی ہو گا۔ جیسے حدیث شریف میں آتا ہے: ’’مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰهِ رَفَعَهٗ اللهُ‘‘ (مشکٰوۃ المصابیح، حدیث نمبر:5119)

ترجمہ: ’’جو اللّٰہ تعالیٰ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ اس کی عزت کو بڑھاتے ہیں‘‘۔

لیکن یہ تواضع کرنا کوئی آسان بات تو نہیں ہے، اپنی انانیت پہ چھری چلانی ہوتی ہے۔ معافی مانگنا بہت مشکل کام ہے، حالانکہ خود قصور کیا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہم کوئی غلط بات زبان سے نکالیں، تو اس غلطی کا اعتراف بہت مشکل ہوتا ہے، حالانکہ وہ غلطی ہوتی ہے، جانتا بھی ہے کہ میں نے غلط کیا ہے، لیکن اس کا اعتراف بہت زیادہ مشکل کام ہے۔ بعض خال خال ہی اکابر گزرے ہیں، جو کھلم کھلا اعتراف کرتے تھے، جن میں ایک حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی ہیں۔ بہت اونچی علمی شان رکھتے تھے، اس کے باوجود جب کبھی ان کو شرحِ صدر ہو جاتا کہ جس نے میری غلطی کی اصلاح کی ہے، وہ صحیح ہے، ایسا ہی ہے، تو فوراً رجوع فرما لیتے۔ ان کا ایک رسالہ تھا ’’النور‘‘ اس میں باقاعدہ حضرت شائع فرما دیتے کہ یہ میں نے لکھا ہے اور فلاں صاحب نے یا کبھی کبھی نام نہ بھی بتاتے، یہ لکھ دیتے کہ کسی ساتھی نے مجھے میری غلطی بتائی ہے، واقعی ان کی بات صحیح ہے، میں اس سے رجوع کرتا ہوں، اگر کسی کو میری طرف سے وہ تحقیق پہنچی ہے، تو میں کہتا ہوں کہ اب میں نے اپنی اس تحقیق سے رجوع کر لیا ہے، لہٰذا میری وجہ سے اس پر عمل نہ کریں۔ اور یہ بہت مشکل کام ہے۔ حتیٰ کہ علماء کرام نے لکھا ہے کہ پھونک پھونک کر چلو اور سوچ سوچ کے بولو۔ کیونکہ ایک دفعہ غلط بول دیا، تو اس سے رجوع کرنا بہت مشکل ہے، آسان نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی کو اللّٰہ جل شانہ نے ظرف دیا ہو اور دل صاف ہو چکا ہو اور نفس کا تزکیہ ہو چکا ہو، تو اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ جیسے: حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ، اللّٰہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے۔ بہت بڑے بزرگ تھے، شیخ الحدیث تھے اور واقعی شیخ الحدیث تھے، ایک ہوتا ہے آج کل شیخ الحدیث بننا، یہ تو بہت آسان ہو گیا ہے کہ مدرسے بہت زیادہ ہو گئے۔ میرے خیال میں بنات کے مدارس کی وجہ سے شیخ الحدیث زیادہ کافی ہو گئے ہیں، مفتی بھی بہت زیادہ ہو گئے ہیں، ان کی بھی کوئی کمی نہیں ہے اور شیخ الحدیث بھی بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ حالانکہ پہلے دور میں یہ چیزیں خال خال ہوا کرتی تھیں۔ حضرت واقعی شیخ الحدیث تھے۔ ایک دفعہ کسی نے حضرت کو خط لکھا اور یوں لکھا: ’’شیخ الحدیث مولانا زکریا مدینۃ المنورۃ‘‘۔ حالانکہ وہاں پر ’’ص ب‘‘ (صندوق البرید) کے عنوان سے خط لکھتے ہیں۔ اس کے بغیر کسی کے نام سے نہیں پہنچتا۔ لیکن حضرت کو خط پہنچ گیا، اس سے پتا چلا کہ حضرت کو وہاں کے لوگ بھی شیخ الحدیث سمجھتے تھے، حتیٰ کہ postman بھی شیخ الحدیث سمجھتے تھے۔ یہ بات واقعی مسلم تھی۔ جب بھی حضرت کی نئی کتاب آتی، تو حضرت اس پہ علماء کو مقرر کر دیتے اور ان سے فرماتے کہ جس نے ایک غلطی نکالی، اس کو ایک روپیہ، جس نے دس غلطیاں نکالیں، اس کو دس روپے۔ گویا باقاعدہ اس پہ انعام مقرر فرماتے۔ اس وقت ایک روپیہ بڑی چیز ہوتی تھی۔ حضرت کے توکل کا یہ حال تھا کہ جب ابو داؤد کی مشہور شرح ’’بذل المجہود‘‘ چھپی، تو حضرت کو اپنے ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ حضرت! آج کل فوٹو لینے کا دور آ گیا ہے، آپ اس کے حقوق محفوظ کروا دیجئے گا، کیونکہ ابھی آپ کی کتاب مارکیٹ میں ہی پڑی ہو گی اور لوگ اس کی فوٹو لے لیں گے۔ چونکہ اس کی کتابت پہ بھی خرچہ آیا ہے۔ کیونکہ ابتدا میں کتابت پہ کافی خرچ آتا ہے۔ لوگ اس کا فوٹو لے لیں گے اور بغیر کتابت کے کم خرچ پہ چھاپ لیں گے اور آپ کی کتاب ادھر کی ادھر بازار میں ہی رہ جائے گی۔ حضرت نے جواب دیا: جو اس کو چھپواتا ہے، میں اس کو اپنی طرف سے پیسے دے دوں گا کہ وہ چھپوا دے، اور میری کتاب بھی ان شاء اللّٰہ نکل جائے گی۔ اور وہی ہوا کہ حضرت کی کتاب مارکیٹ میں آنے کی دیر تھی کہ لوگ انتظار میں تھے، جلد از جلد ختم، پہلا ایڈیشن گیا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا اور حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللّٰہ علیہ کا اس مسئلہ میں ایک ہی طرزِ عمل تھا، اپنی کتابوں کے حقوق محفوظ نہیں کرواتے تھے۔ کتابیں چھاپ کے مارکیٹ میں پیش کر دیتے تھے۔ جیسے بہشتی زیور کتنی زیادہ چھپتی ہے۔ اگر حضرت صرف اسی کی royalty لے لیتے، تو کسی اور چیز کی ان کو ضرورت نہیں تھی۔ لیکن ایسا نہیں کیا۔ اپنی کسی کتاب کے حقوق محفوظ نہیں کیے۔ اصل میں یہ بہت بڑا سودا ہے، یہ صدقہ جاریہ ہے، صدقہ جاریہ یہی ہوتا ہے کہ آپ نے ایک خیر کا کام کر لیا، آپ فوت ہو گئے، آرام سے چلے گئے، لیکن آپ کے بعد وہ کام چل رہا ہے۔ جتنے لوگوں کو اس کا فائدہ ہو رہا ہے، وہ آپ کے کھاتے میں جا رہا ہے۔ جو لوگ یہ ذوق رکھتے ہیں، ان کی نظر بہت زیادہ اونچی ہوتی ہے، ان تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا بھی یہی طریقہ تھا کہ وہ بھی بہت زیادہ قرض لیا کرتے تھے۔ اور یہ سنت ہے۔ آپ ﷺ کا بھی یہ طریقہ تھا کہ دوسروں کے لئے قرض لیا کرتے تھے اور خرچ کرتے تھے اور صحابہ کرام کا مستقل یہ طریقہ رہا ہے۔ بہت سارے صحابہ کرام ایسے تھے کہ خود ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا، لیکن دوسرے کو دیا کرتے تھے۔ بس یہ ظرف کی بات ہوتی ہے۔ اللّٰہ جل شانہ ہمیں بھی نصیب فرما دے۔

متن:

﴿وَ مَنْ یَّتَوکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ…﴾ (الطلاق: 3) ”جو اللّٰہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اُس کے لیے کافی ہوتا ہے“۔ اور اسی طرح یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ "مَنْ لَّہُ الْمَوْلٰی فَلَہُ الْکُلُّ" یعنی جس کا اللّٰہ تعالیٰ مولیٰ ہو تو سب کچھ اس کے لیے ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے کی مراد پوری ہوتی ہے اور اس کا ہر کام اچھی طرح سر انجام پاتا ہے، مصرع:

؎ اللّٰہ بس ما سوا ہوس

یعنی ’’اللّٰہ بس، باقی ہوس‘‘۔

دیگر:

ایک دفعہ حضرت شیخ صاحب کو قرض لینے کا شوق ہوا، اس زمانے کے امیروں سے دس ہزار روپے بطور قرض لیے اور سب کچھ خیرات کر ڈالا، پس آپ کی والدہ محترمہ نے اُس وقت کے بعض فاضل لوگوں کو شفیع و سفیر بنا کر ایسا کرنے سے منع کرنے کو کہا۔ بعض مریدوں نے بھی رمز اور چھپے لفظوں میں ایسا ہی کیا۔ اُن فاضل لوگوں نے عرض کی کہ عام افغان لوگوں سے قرض لیا جائے تو یہ بُری بات نہیں، مگر امیر لوگوں سے قرض لینا زیب نہیں دیتا۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کے فرزندوں اور اہل و عیال پر باقی رہ جائے اور اُس قرض کی وجہ سے ان کو تکلیف پہنچ جائے۔ یہ سُن کر حضرت صاحب نے مریدوں کی جانب دیکھا اور غصّہ ہوئے اور فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جب مجھے اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں خیرات کرنے کا شوق ہو جائے تو میرے مرید، میری اعانت کریں گے۔ میرا یہ خیال کبھی نہ تھا کہ یہ لوگ میری راہ میں روڑے اٹکائیں گے اور میرے پروگرام میں خلل اندازی کے مرتکب ہوں گے۔ میرے لیے خدا کافی ہے

تشریح:

حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ ایک دفعہ مطبخ کے انچارج نے کہہ دیا کہ حضرت اپنی کتابوں کے حقوق محفوظ کروا دیجئے گا، ورنہ آپ کے مطبخ کا خرچہ نہیں چل سکے گا۔ حضرت کے دستر خوان پر ہزارہا مہمان کھانا کھاتے تھے۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ہاں بھی ایسے ہی تھا، ان کی بھی چینک نہیں رکتی تھی۔ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ہاں بھی ہزار پندرہ سو مہمان کھانا کھاتے تھے۔ حضرت سے جب اس نے یہ کہا، تو حضرت بہت سخت غصہ ہوئے، فرمایا: آج سے تم مطبخ کے انچارج کے منصب سے معزول ہو۔ پھر فرمایا: میرا مطبخ تم نہیں چلاتے ہو، اللّٰہ چلاتا ہے۔ یہ بڑی حیرت کی بات ہوتی ہے۔ ان لوگوں کے دل کو اگر آپ دیکھنا چاہیں، تو ان کے عمل میں دیکھو، باتیں کرنا تو بہت آسان ہے۔ لیکن یہ دیکھو کہ ان کا اللّٰہ پہ کتنا بھروسہ ہے۔

متن:

اور ان فاضلین کو کچھ جواب نہ دیا اور نہ اُن کے ساتھ کوئی بات چیت کی، لیکن اُنہوں نے عذر کر کے عرض کی کہ اے حضرت شیخ! میں نے آپ کی والدہ محترمہ کی خاطر آپ سے عرض کرنے کی گستاخی کی ورنہ میری ہرگز یہ مرضی اور خواہش نہ تھی، جو آپ کر رہے ہیں وہی درست ہے اور یہی کرنا چاہیے۔

دیگر:

ایک بار آپ کو غلام آزاد کرنے کا شوق دامن گیر ہوا، افغانوں کے علاقے میں جو غلام بھی حضرت شیخ صاحب کو غلامی سے آزاد ہونے کے لیے عرض کرتا اور اگر دربار عالی میں فریاد کرتا حضرت شیخ صاحب اُس کو آزاد اور رہا کرنے کی سعی فرماتے۔ بعض تو قیمت دے کر اور بعض بلکہ اکثر مفت کہ مالک کو نصف قیمت بھی نہیں ملتی، آزاد کراتے۔ آپ کا یہ شوق کم و بیش تین سال تک جاری تھا۔ اور میرے اُستاد صاحب نے یہ محسوس فرمایا تھا کہ حضرت شیخ صاحب غلاموں کو اس وجہ سے آزاد فرماتے ہیں کہ وہ خود بھی اللّٰہ تعالیٰ کے بندے اور غلام تھے۔ اور یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کو بھی آزادی کی نعمت سے نوازے۔ اور شیخ ملی گل صاحب جو کہ حضرت شیخ صاحب کی مجلس میں اکثر حاضر رہا کرتے تھے، کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے تین ہزار غلام آزاد کر لیے تھے اور سب کی مرادیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس روایت میں کمی بیشی کا احتمال ہے۔ اور اسی طرح بعض غلاموں کے مالکوں کو واجب الاداء حق سے زیادہ بھی عنایت فرماتے تاکہ وہ راضی اور خوش ہو جائیں۔ انہی دنوں ایک غلام حضرت شیخ صاحب کی خدمت میں آ کر فریاد کرنے لگا اور حضرت صاحب کے دامن کو پکڑ کر اپنی آزادی کے لیے استدعا کی۔ حضرت صاحب نے اس کے مالک کو بلوا لیا اور اس کو تسلی دے کر غلام کی آزادی کے لیے کہا، مگر وہ شخص اعراض اور رو گردانی کرتا رہا اور انکار کرتا رہا اور کسی طریقے سے راضی نہیں ہوتا تھا۔ حضرت صاحب بار بار اس کو کہتے رہے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا، آخر بہت کوشش اور محنت کے بعد جب اُس آدمی نے چھٹکارے اور نجات کی کوئی صورت نہ دیکھی، آخر کار اُس نے عرض کی کہ اگر آپ واقعی اس کو خدا کی رضا طلبی کے لیے آزاد کرانا چاہتے تھے تو دو سو اسی ادھیلی (اس زمانے کا سکہ) جب کہ ہر ادھیلی پر کابل کی ٹکسال کی ضرب اور نشانی ہو، مرحمت فرما دیجیے تو میں یہ غلام آپ کو دوں گا، ورنہ بصورت دیگر میں اس کو آزاد نہیں کر سکتا۔ جب حضرت صاحب نے دیکھا کہ یہ شخص اس آخری بات سے ٹلنے والا نہیں، اپنے گھر تشریف لے گئے اور دو سو اناسی یعنی دو سو اسی سے ایک ادھیلی کم رقم اپنے دولت خانے سے لے آئے اور شیخ ملی جو کہ مریدان خاص میں سے تھے، ان سے کہا کہ یہ ادھیلی گاؤں میں پیدا کر کے اس شخص کو دے دیجیے۔ شیخ ملی نے جوابًا عرض کی کہ اے ہمارے محترم شیخ صاحب! تمام ادھیلیوں کو جو کہ کابل کا سکہ ہے، آپ حاصل کر کے لے آئے اور یہ ایک ادھیلی ہاتھ نہیں آئی، اور مجھے معلوم ہے کہ اس سارے گاؤں میں پیدا نہیں ہو سکتی۔ اب یہ بات خدا جانتا ہے کہ وہ ادھیلی بھی حضرت صاحب نے گھر سے لا کر دی اور اُس غلام کے مالک کا مطالبہ پورا کر دیا، مالک نے رقم مذکورہ لے کر اس غلام کو حضرت صاحب کے حوالہ کر دیا، اور خود چلا گیا حضرت صاحب نے اُس غلام کو آزاد فرمایا۔ اور یہ قصہ حضرت صاحب کی کرامات کی طرف ایک رمزیہ اشارہ ہے کیونکہ حضرت صاحب کے پاس کچھ بھی موجود نہ تھا لیکن اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سب کچھ مہیا ہو کر ہاتھ آیا۔ ﴿وَ لِلّٰہِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ…﴾ (المنافقون: 7)

تشریح:

ہمارے دادا پیر ہیں؛ حضرت شاہ عبد العزیز دعا جو رحمۃ اللّٰہ علیہ۔ ان کا بھی یہ حال تھا۔ وہ بے دریغ خرچ کرتے تھے، اور ان کے ساتھ بھی یہ معاملہ ہوتا تھا۔ ان کی ایک کوٹھڑی سی ہوتی تھی، اسی میں رہتے تھے، کوئی مہمان جاتا، تو اس میں جاتے اور باہر آ جاتے اور چیزیں لے آتے تھے۔ در اصل پہلے انسان کو مجاہدہ کرنا پڑتا ہے اور پھر مشاہدہ ہوتا ہے۔ مجاہدہ کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلاً: انسان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا، لیکن جو اس کے پاس ہوتا ہے، وہ دے دیتا ہے، اس کے بس میں جتنا ہوتا ہے، وہ دے دیتا ہے۔ اور اس کے دل میں جو تڑپ ہوتی ہے کہ اگر مزید میرے پاس ہوتا، تو میں وہ بھی کر لیتا۔ یہ تڑپ اللّٰہ پاک دیکھ لیتا ہے، اس کے بعد جب فیصلہ ہو جائے کہ یہ بندہ میرا ہے، تو وہ دروازہ بن جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ مختلف طریقوں سے معاملہ ہوتا ہے۔ جیسے شاہ عبد العزیز دعا جو رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ اپنا طریقہ تھا۔ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ اپنا طریقہ تھا۔ باقی حضرات کے پاس اپنے طریقے ہوں گے۔ بہر حال! کوئی نہ کوئی طریقہ ہوتا ہے جس سے وہ کام چل پڑتا ہے۔

ایک صحابی تھے، جو بہت سادہ طبیعت کے تھے۔ سادہ لوگ بڑے کام کے ہوتے ہیں۔ ان کے گھر میں آٹا نہیں تھا، سوچا کہ میں مسجد میں دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھ کے آتا ہوں۔ مسجد میں دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھ کر گھر آ کے پوچھا کہ آٹا نہیں آیا؟ گھر والوں نے کہا: کیسے آتا؟ کہا: میں نے دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھی ہے۔ سوچا: شاید میں نے غلط پڑھی ہو گی، میں دوبارہ پڑھتا ہوں۔ یہ نہیں کہا کہ کیوں نہیں آیا؟ بات اپنے اوپر لی کہ میں نے غلط پڑھی ہو گی، کوئی قصور کیا ہو گا۔ جا کر پھر دو رکعت پڑھی، پھر گھر آ کر پوچھا: ابھی بھی نہیں آیا آٹا؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ اس طرح تقریباً آٹھ دس دفعہ گئے اور پھر آخری بار جب آئے، تو دیکھا کہ ان کے گھر جو چکی پڑی ہوئی تھی، وہ خود بخود ہی چلنا شروع ہو گئی اور اس سے آٹا گرنا شروع ہو گیا۔ ان کی بیوی نے ان کے آنے تک یہ کیا کہ گھر میں جتنے بھی برتن یا کوئی چادریں تھیں۔ غریب تھے، گھر میں زیادہ برتن بھی نہیں ہوں گے۔ بہر حال! جو برتن تھے، سب میں آٹا جمع کر لیا تھا، اور چکی ابھی تک چل رہی تھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ چکی چل رہی ہے، چونکہ ان کا کام پورا ہو گیا تھا کہ بہت سارا آٹا جمع ہو گیا تھا۔ دیکھنے لگے کہ یہ آٹا کہاں سے آ رہا ہے، سادہ آدمی تھے، چکی کو اٹھایا، تو آٹا بند ہو گیا۔ کیونکہ چکی کے اندر تو کچھ بھی نہیں تھا۔ چکی رکھ دی اور آپ ﷺ کو ساری بات عرض کی، یا رسول اللّٰہ! میرے ساتھ ایسا ہو گیا ہے۔ فرمایا: اگر تو یہ نہ اٹھاتا، تو قیامت تک یہ چکی چلتی اور اس سے آٹا نکلتا۔ اللّٰہ تعالیٰ کی یہ رحمت جاری رہتی۔ لیکن اللّٰہ پاک کی اپنی حکمتیں بھی تو ہیں، وہ سب کچھ کر سکتا ہے، اللّٰہ پاک کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ امتحان کا عنصر قائم رکھتے ہیں۔ اس دنیا میں چونکہ امتحان کے لئے آئے ہیں۔ اگر ساری چیزیں کرامت کے ذریعے سے ہونے لگیں، تو امتحان ختم ہو جائے۔ چنانچہ امتحان کا عنصر تو ہوتا ہے اور جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور جو غیب پر یقین رکھتے ہیں، ان کے ساتھ غیب سے ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ غیب پر ایمان تو سب لاتے ہیں کیونکہ ایمان کہتے ہی اسی کو ہیں: ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (البقرۃ: 3) لیکن یقین ہر ایک کا نہیں ہوتا، یقین کسی کسی کا ہوتا ہے۔ جس کا یقین ہوتا ہے، اس کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر یقین بھی سب کا ہوتا، تو ﴿وَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (البقرۃ: 5) تو سارے فلاح پاتے۔ کیونکہ صرف یہ دو شرطیں ہیں: ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ﴾ (البقرۃ: 3) اور ﴿وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرہ: 4) اسی پر یہ نتیجہ ہے کہ: ﴿اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (البقرۃ: 5)

ترجمہ: ’’یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے پروردگار کی طرف سے صحیح راستے پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں، جو فلاح پانے والے ہیں‘‘۔

متن:

”زمین اور آسمانوں کے خزانے اللّٰہ تعالیٰ کے پاس ہیں“ اس آیت مبارکہ کے اسرار و رموز کا یہی مفہوم ہے۔

دیگر:

اس زمانے کے بڑی عمر کے لوگوں سے منقول ہے کہ ایک دن حضرت صاحب اپنے مریدوں کے درمیان ایسے بیٹھے تھے جیسے پروانوں کے درمیان شمع منور ہو، کہ اچانک مریدوں میں سے ایک مرید کی نگاہ آپ کے کُرتے کی آستین پر پڑی جو کہ سیاہ اور زرد ہو چکا تھا۔ یہ خلاف معمول بات دیکھ کر اس مُرید نے حیرت سے پوچھا کہ حضرت ذرا اس بات کی وضاحت فرما دیجیے کہ آپ کا ہاتھ اور آستین کیوں کر سیاہ اور زرد ہو گئے ہیں تاکہ میرے دل کی تشویش رفع ہو کر اطمینان حاصل ہو جائے۔ حضرت شیخ صاحب نے مہربانی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ایسی ناسمجھ اور نادان قوم میرے نصیب کی ہے کہ جو عقل و تمیز سے نا آشنا ہیں اور ہر بات میں مجھ کو یاد کرتے ہیں۔ فلاں گاؤں میں ایک عورت تھی جو کہ ننگے سر بیٹھی تھی اور ہانڈی آگ پر چڑھائے ہوئے بیٹھی تھی۔ ہانڈی کے نیچے آگ جل رہی تھی، عورت نے گود میں بیٹا لے رکھا تھا جو ضد کر کے رو رہا تھا اور کچھ آرام نہیں کرتا تھا، اس مٹی کی ہانڈی کے پیندے میں دراڑ پڑ گئی اور اس سے پانی بہنے لگا۔ اس عورت نے فریاد اور آہ و زاری شروع کی اور چلاتی رہی کہ اے حضرت شیخ صاحب! پہنچ جائیے۔ میں نے اس ہانڈی کے نیچے ہاتھ رکھا تاکہ ہانڈی بند ہو جائے، میرا ہاتھ دھوئیں اور آگ کی وجہ سے زرد اور سیاہ ہو گیا۔ الحمد للہ کہ ایسا مہربان غوث ہمارا مقتدا ہے کہ ہر مشکل اور صعوبت میں ہماری دستگیری فرماتا ہے۔

تشریح:

میں نے ایک بات کافی عرصہ پہلے بھی بیان کی تھی اور اب بھی عرض کروں گا کہ اللّٰہ جل شانہ ہی سب کچھ کرتے ہیں، اس میں کوئی دوسری بات نہیں ہے۔ لہٰذا اللّٰہ جل شانہ جس کی بھی مدد فرمانا چاہتے ہیں، تو اس کے لئے کسی کو بھی ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ چاہے فرشتے کو ذریعہ بنا دیں، فرشتہ پہنچ جائے۔ اللّٰہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ چاہے کسی انسان کو ذریعہ بنا دیں، وہ بھی ممکن ہے۔ چنانچہ ابدال اور غوث یہ سارے انسان ہی ہوتے ہیں، لیکن کام فرشتوں والے کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ جو کام کر رہے ہیں، وہ فرشتوں کے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال قرآن میں موجود ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے جو کام کیے ہیں، کیا وہ انسانوں کے کام ہیں؟ ان کا کون سا کام انسانوں والا ہے؟ سب فرشتوں کے کام ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے پاس پیغمبر کو بھیجا تھا یعنی موسیٰ علیہ السلام کو۔ یہی معرفت کے وہ حقائق ہیں، جن کے لئے موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا گیا۔ شریعت تو موسیٰ علیہ السلام کے پاس تھی۔ مگر جیسے شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ شریعت اور حقائق الگ الگ ہیں۔ حقائق کا جاننا ہر کسی کے اوپر لازم نہیں ہے، لیکن حقائق موجود ہیں، ان سے معرفت ملتی ہے اور معرفت کی وجہ سے شریعت پر عمل کرنے کی قوت حاصل ہوتی ہے اور وہ قوت اتنی ہوتی ہے کہ اس کا اجر بھی بڑھ جاتا ہے، یعنی یقین بڑھ جاتا ہے۔ یہ جو نظام اللّٰہ تعالیٰ نے بنایا ہے، اس میں جب انسانوں کو استعمال کرتے ہیں، تو دو طرح کے کام ہوتے ہیں۔ یا تو ان کی مثالی صورت بھیج دی جاتی ہے۔ صورتِ مثالی ایسی ہوتی ہے کہ جس میں اس ولی اللّٰہ کو پتا لگنا بھی ضروری نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی ولی اللّٰہ کی صورتِ مثالی کو کسی کی مدد کے لئے بھیج دیا جائے اور بعد میں اس ولی اللّٰہ کو پتا چل جائے۔ جیسے: حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مواعظ میں اپنا واقعہ بیان کیا ہے کہ میرے ایک ساتھی کی سینکڑوں میل دور کسی بازار میں دکان تھی۔ بازار میں آگ لگ گئی۔ اس نے مجھے خط لکھا ہے کہ میں بڑا پریشان تھا کہ میں کیا کروں، اتنے میں آپ آ گئے اور آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جلدی جلدی قیمتی سامان کسی صندوق میں ڈال دو۔ کہتے ہیں: آپ نے بھی میرے ساتھ مدد کی اور جو جو سامان بچ سکتا تھا، وہ ہم نے صندوق میں ڈال لیا۔ پھر ایک طرف سے آپ نے پکڑا، ایک طرف سے میں نے پکڑا۔ کہتے ہیں کہ اس وقت میرا دماغ بالکل کام نہیں کر رہا تھا کہ آپ کیسے آ سکتے ہیں، کیونکہ میں تو ٹینشن میں تھا۔ جب ہم کافی دور نکل گئے اور باہر محفوظ جگہ پہ پہنچ گئے، تو آپ نے صندوق رکھوا دیا۔ میں نے کسی کام سے دوسری طرف دیکھا، جب پیچھے دیکھا، تو آپ نہیں تھے، آپ غائب ہو گئے۔ پھر مجھے ہوش آیا کہ حضرت یہاں کیسے آ سکتے ہیں، یہ کون تھے۔ فرمایا کہ اس نے لکھا کہ اس وجہ سے آپ سے استفسار کر رہا ہوں کہ آپ بتا دیجئے کہ یہ کون تھے؟ حضرت نے فرمایا: میں تو نہیں تھا، میں ہوتا، تو مجھے پتا ہوتا۔ میں تو نہیں تھا، کون تھا؟ یہ مجھے بھی علم نہیں ہے، عین ممکن ہے کہ اللّٰہ پاک نے کسی فرشتہ کو میری صورت میں بھیجا ہو۔ بس اللّٰہ پاک نے آپ کی مدد فرمائی ہے سلسلہ کے ذریعہ سے۔ اور میری شکل میں اس لئے بھیجا کہ اگر کوئی اور ہوتا، تو آپ سمجھتے کہ کوئی ڈاکو ہے، آپ کا اعتماد نہ ہوتا، پریشانی بدستور رہتی۔ اس پریشانی کو دور کرنے کے لئے میری صورت میں بھیج دیا۔ باقی وہ اللّٰہ کا تصرف تھا، آپ کو اس وقت خیال ہی نہیں آیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے اور پھر ہو گیا۔ لیکن کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا یہ جو واقعہ ہے، یہ صورتِ مثالی کا نہیں ہے۔ یہ صورتِ اصلی کا ہے۔ یہ بالکل حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے واقعے کی طرح ہے۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ممبر پہ کھڑے ہو کے جمعے کا خطبہ دے رہے تھے، اچانک فرمایا: ’’يَا سَارَيَةُ الْجَبَلَ، يَا سَارَيَةُ الْجَبَلَ‘‘ (الاعتقاد للبیقہی، ج1، ص334) لوگ حیران ہیں کہ یہ ساریہ کو کیوں پکار رہے ہیں، وہ تو بہت دور جنگ میں ہیں۔ اُدھر انہوں نے بھی آواز سن لی۔ ادھر تو حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے حاضرین نے سنی، لیکن ادھر ساریہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی سن رہے ہیں۔ انہوں نے جب پہاڑ کی طرف دیکھا، تو واقعی کفار کا لشکر پیچھے سے حملہ کرنے والا تھا۔ انہوں نے دفاعی پوزیشن لے لی اور حفاظت ہو گئی۔ یہ صورتِ مثالی نہیں ہے، صورتِ اصلی کا واقعہ ہے۔ کیونکہ درمیان میں اللّٰہ تعالیٰ تنابیں ختم کر دیتے ہیں۔ جیسے عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے لئے آواز کا کیا اور کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے لئے صورت کا کیا۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی اس طرح کی بہت ساری کرامتیں تواتر کے ساتھ مشہور ہیں۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے تو خود اپنے مکتوبات شریفہ میں لکھا ہے، میں نے پڑھا ہے۔ جس میں فرمایا کہ میں سوچتا رہا کہ آخر شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ یہ معاملہ کیسے تھا! کیونکہ کرامات اتنی زیادہ تھیں کہ کسی اور کی ہم نے کم ہی سنی تھیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ پھر حضرت نے اس کی وجہ بیان فرمائی کہ در اصل ان کا نزول صرف روح تک تھا، نفس تک نہیں تھا۔ ایسی حالت میں روح عالمِ امر میں سے ہے، جتنا انسان کا عروج اوپر ہوتا ہے، اتنی ہی اس کی کرامات زیادہ ہوتی ہیں، کیونکہ ان کو ظن زیادہ ہوتا ہے۔ اور فرمایا: جب کوئی نزول کرتا ہے، تو نزول کی حالت میں بالکل عالمِ اسباب میں آ جاتا ہے، اور پھر عالمِ اسباب والا معاملہ اس کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام معجزانہ طور پر آسمان سے دمشق کے مینار پر اتریں گے، اور پھر سیڑھی لگائی جائے گی، اور سیڑھی سے نیچے اتریں گے۔ تو کیا وہ زمین پر براہِ راست نہیں اتر سکتے۔ گویا ابتدا میں یعنی آسمان سے دمشق کی جامع مسجد تک اترنا معجزانہ طور پر عالمِ امر والی بات ہے۔ اور آگے عالمِ اسباب والی بات ہے۔ پھر جب نیچے تشریف لائیں گے، تو پھر اسباب والی باتیں چلیں گی۔ جو سب کے ساتھ معاملہ ہو گا، وہی عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہو گا۔ آپ ﷺ کے ساتھ بھی معجزے مسلسل تو نہیں ہوتے تھے۔ اسباب کی باتیں ہوتی تھیں۔ آخر پیٹ پر دو پتھر بھی تو باندھے تھے۔ جیسے روایات میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے کہا: یا رسول اللّٰہ! میں نے تو پیٹ پہ پتھر باندھا ہے۔ آپ ﷺ نے اپنا پیٹ مبارک دکھایا، تو اس پہ دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔ چنانچہ ان باتوں کو ہم neglect نہیں کر سکتے، لیکن اس کی بنیاد پر ہم اسباب کو چھوڑ نہیں سکتے۔ کیونکہ اسباب کو چھوڑنا کرامت کی آرزو میں بزرگی کی بیماری ہے، اور خطرناک بیماری ہے۔ اور اسباب اختیار کر کے اللّٰہ کی طرف سے کرامت کا وجود میں آنا اللّٰہ کا فضل ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ جب بھی فضل فرمائیں، یہ اس کا معاملہ ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے راستے بند نہیں ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ جب بھی چاہیں، کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم سارے بزرگوں سے کرامات کے طالب ہوتے ہیں کہ وہ کرامات کا ظہور کر دیں، بس نظر فرما دیں۔ بھائی! یہ کیا بات ہے کہ نظر فرما دیں۔ یعنی آپ نے کچھ کرنا نہیں ہے اور سارا کچھ نظر سے ہو جائے۔ نظر ہوتی ہے اور نظر سے بھی ہوتا ہے، آپ ﷺ کے ہاں ہوا ہے۔ صحابہ کے ہاں ہوا ہے۔ نا ممکن نہیں ہے، ہوتا ہے۔ جیسے ایک مشہور حدیث ہے جس میں ایک صحابی کو کچھ وسوسہ آیا کہ جیسے آپ ﷺ پہ حملہ کر لیں گے۔ آپ ﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور ان کے سینہ پہ جھٹک کے ہاتھ مارا، جس سے سب کچھ صاف ہو گیا۔ یہ تصرف تھا۔ گویا آپ ﷺ کے ذریعے سے بھی نمونے دیکھائے گئے، صحابہ کرام کے ذریعے سے بھی نمونے دیکھائے گئے، اولیاء اللّٰہ کے ذریعے سے بھی نمونے دیکھائے گئے۔ یہ سب کچھ ممکن ہے، لیکن فیصلہ اللّٰہ کا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ جب فیصلہ فرمائیں، تو سب کچھ ہو سکتا ہے اور کسی کا حق نہیں ہے۔

متن:

دیگر:

حضرت صاحب کی نگاہ کیمیا اثر تھی، جس ناخواندہ شخص پر بھی آپ کی نگاہ پڑتی تو اُس کو باطن کا حال معلوم ہو جاتا اور اس کو ایسا علم حاصل ہو جاتا کہ لوگ اس کے کلام و گفتگو کو سُن کر دنگ رہ جاتے، اور کوئی عالم شخص بھی اس کی کسی بات کو بھی دلیل سے رد نہیں کر سکتا تھا،

تشریح:

اس وقت تو خیر بڑے لوگ تھے۔ زیارت کاکا صاحب میں ایک آدمی تھے، جن کو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اب تو فوت ہو گئے ہیں، دستار استاد ان کا نام تھا، بالکل ان پڑھ تھے۔ لیکن قرآن کی ایسی تفسیر کرتے کہ علماء، دیوبند کے استاد سن کر دنگ رہ جاتے کہ کہاں سے کر رہے ہیں۔ زیارت کاکا صاحب میں دیوبند کے بہت سے حضرات تھے، دارالعلوم دیوبند میں پڑھانے والے حضرات تھے۔ وہ فرماتے کہ یہ الہامی باتیں ہیں، انسانی نہیں ہیں۔ جب وہ جذب میں آتے اور شروع ہو جاتے، تو تفسیر، احادیث شریفہ اور فقہ کے متعلق کیا خوب گفتگو کرتے۔ انہوں مسجد کے امام کو پکڑ لیا اور کہا کہ یہ جو پیسے آپ نے لئے ہیں، یہ کون سی مد میں لئے ہیں؟ قرآن میں تو یہ یہ مصارف، آپ نے ان میں سے کون سی مد میں لئے ہیں؟ اب وہ پریشان کہ کیا کہیں۔ بالکل ان پڑھ آدمی تھے، لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے علمِ لدنی سے نوازا تھا۔ ان کی بدعا بہت سخت ہوتی تھی، غلطی سے بھی بدعا دیں تو لگ جاتی۔ کسی کو بدعا نہیں دینا چاہتے تھے، لیکن غلطی سے بھی اگر کسی کو بدعا دیتے، وہ لگ جاتی۔ وہ دکان داری کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک پولیس والا آیا، پولیس والے بعض دفعہ بڑے بگڑے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے پاس پاور بھی ہوتی ہے۔ ان سے کسی چیز کا پوچھا، تو انہوں نے وہی جذب والے انداز میں جواب دے دیا۔ پولیس والے نے ان پر ہاتھ اٹھایا، جب ہاتھ اٹھایا، تو ہاتھ ادھر ہی رہ گیا، اور نیچے نہیں آ رہا تھا۔ اس نے ملک محمد امین (مرحوم) کے ہاں جانا تھا، ادھر پہنچ گیا، مگر ہاتھ اسی طرح اوپر تھا، نیچے نہیں آ رہا تھا۔ اس نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ کہا: پتا نہیں، وہاں پر بازار میں کوئی دکان دار تھا، اس کو میں نے اس طرح کیا، تو اس کے بعد سے یوں ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: دستار استاد تو نہیں تھے؟ اے بد بخت! تو نے کیا کیا! چلو چلتے ہیں ان کے پاس۔ وہ ملک کا خیال رکھتے تھے، کیونکہ اسی گاؤں کے تھے۔ انہوں نے منت سماجت کی، تو ان کے لئے دعا کی، جس سے وہ ٹھیک ہو گیا۔ یہ تو ہمارے دور کی بات ہے۔ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا معاملہ تو بہت ہی اونچا تھا، ان کی تو بات ہی الگ تھی۔ ہماری نانی فوت ہوئی تھیں، تو ان کی قبر پہ انہوں نے ہی بیان کیا تھا۔ چونکہ ان میں جذب تو تھا، لہٰذا بڑا زبردست وسیع بیان کیا، اور بہت عالمانہ بیان کیا۔ بیان کے بعد ہم ان کے پاس آ گئے۔ چونکہ خود تو ان کے کنٹرول میں نہیں ہوتا، جب دعا کر رہے تھے، تو یہ کہہ رہے تھے: یا اللّٰہ! ان سب کو بخش دے۔ پشتو میں کہا: ’’نه ې بخښنې نو نه ئې بخښه‘‘ اگر نہیں بخشنا، تو نہ بخشو۔ اب یہ ایک جذب والی بات تھی، اس میں تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بہر حال! یہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرتیں ہیں، اللّٰہ تعالیٰ اپنی قدرتیں دیکھاتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو دیکھ کر ان چیزوں پہ حیران ہوتے ہیں۔ در اصل یہ ہمارا کام نہیں ہے، اللّٰہ کے کام ہیں۔ یہ صرف نبی کے ہاتھ پر ہوتا ہے یا ولی کے ہاتھ پر ہوتا ہے۔ نبی کے ہاتھ پر ہو، تو معجزہ ہے، ولی کے ہاتھ پر ہو، تو کرامت ہے۔ اس کے علاوہ ان میں کچھ بھی فرق نہیں ہوتا، اس لئے وہی لوگ پریشان ہوتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ مردہ کو کیسے زندہ کیا! یہ کام تو عیسیٰ علیہ السلام کرتے تھے۔ بھائی! عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے تھے، نبی تھے۔ وہ بھی اللّٰہ ہی کرتے تھے۔ جب اللّٰہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے کروا سکتا ہے، تو کسی اور سے بھی کروا سکتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے واقعہ بیان کیا ہے، جو میں نے حضرت کے مواعظ میں پڑھا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ ایک بزرگ کے پاس کوئی عورت آئی اور ان سے درخواست کی کہ میرا یہ بیٹا مادر زاد اندھا ہے، اس کے اوپر ہاتھ پھیریں، تاکہ یہ بینا ہو جائے۔ وہ جس حال میں بھی تھے، انہوں نے کہا کہ میں کوئی موسیٰ ہوں یا عیسیٰ ہوں کہ میں اس طرح کروں گا۔ عورت بہت پریشان ہو گئی اور روتی ہوئی واپس ہو گئی۔ اتنے میں ان کو اللّٰہ پاک کی طرف سے الہام ہوا: موسیٰ کون، عیسیٰ کون، یہ تو میں کرتا ہوں۔ الہام چونکہ من جانب اللّٰہ ہوتا ہے، اس لئے اولیاء اللّٰہ کو اس کے ساتھ بہت محبت ہوتی ہے۔ آپ ﷺ کی طرف سے صحابہ کو کوئی بات پہنچتی، تو اس کو کتنا محفوظ رکھتے تھے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کیسے باہر بھاگے تھے۔ تو جب اللّٰہ کی طرف سے یہ بات آ جائے، تو پھر بات ہی اور ہے۔ بہر حال! یہ فوراً ادھر سے اٹھے اور اس عورت کے پیچھے بھاگے اور اس سے مسلسل یہ کہہ رہے تھے: موسیٰ کون، عیسیٰ کون، یہ تو میں کرتا ہوں۔ یہ کہتے کہتے بچے کے چہرے پہ ہاتھ پھیرا، جس سے وہ وہ بینا ہو گیا۔ بعد میں ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا کہ یہ آپ کیا کہہ رہے تھے؟ موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام پیغمبر ہیں۔ کوئی امتی تو اس طرح نہیں کہہ سکتا ہے۔ اگر انسان اپنے ارادہ سے یہ کہے تو بہت بڑی گستاخی کی بات ہے۔ چونکہ وہ خود سے تو نہیں کہہ رہے تھے، صرف الہام کے الفاظ دوہرا رہے تھے، انہوں نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ اس لئے جب لوگوں نے پوچھا کہ یہ آپ کہا کہہ رہے تھے؟ کہتے ہیں: میں کیا کہہ رہا تھا؟ لوگوں نے کہا: آپ کہہ رہے تھے: موسیٰ کون، عیسیٰ کون، یہ تو میں کرتا ہوں۔ فرمایا: اف! غلطی ہو گئی۔ یہ تو الہام کے الفاظ تھے، میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا تھا۔ یہاں حضرت نے فرمایا: یہی وجہ ہوتی ہے کہ لوگ چونکہ اصل کو جانتے نہیں، اس لئے پریشان ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ جان لیتے کہ الہام کے الفاظ کہہ رہے ہیں، تو پریشانی نہ ہوتی۔ لیکن لوگ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ خود ہی اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں۔ او اپنی طرف سے اس طرح کہنا تو گستاخی ہے، پیغمبر کے بارے میں کوئی ایسی بات کر نہیں سکتا۔ میرا خیال ہے کہ دستار استاد کی بات بھی ایسی ہی تھی جیسے آگے فرمایا:

متن:

اور بے علمی کے باوجود وہ شخص شریعت پر عمل کرتا اس کو طریقت سے بھی آگاہی ہوتی اور معرفت اور حقیقت کو بھی اچھے طریقے سے بیان کرتا۔ چنانچہ ایک شخص جس کا نام فتح تھا ناخواندہ، اَن پڑھ اور بے علم تھا جو کہ اکثر حضرت صاحب کی مجلس میں حاضر ہوتا۔ دورانِ مجلس ایک دفعہ آپ نے اس شخص کے اچھے اوصاف بیان فرمائے، اس شخص نے اپنے عمل و کردار سے شرمندہ ہو کر نگاہیں زمین پر گاڑ دیں اور جی میں کہتا کہ حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ میرے جو اوصاف بیان فرماتے ہیں مجھ میں اُن کی بُو تک موجود نہیں، میرا عمل نا شائستہ اور نہایت بُرا ہے لیکن اس کے باوجود حضرت صاحب اُس کے حال پر مہربانی فرمایا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب نے رحلت فرمائی وفات کے تیسرے دن یا کم و بیش دنوں کے بعد اس شخص پر ظاہر ہوا اور اُس پر توجہ اور مہربانی فرمائی اور اس پر ایک عظیم الشان تاثیر رونمائی ہوئی، حضرت صاحب نے اس کو حکم فرمایا کہ فلاں مکان میں قیام کر۔ وہ مکان تقریبًا بارہ تیرہ میل دور تھا، اسی شخص نے وہاں جا کر اُس مکان میں گوشہ نشین ہو کر لوگوں سے تنہائی اختیار کی مگر اس کے دل میں خطرے اور وسوسے آتے رہے کہ مبادا یہ شیطانی کام نہ ہو یا شاید کہ رحمانی ہو، اس کی وجہ سے وہ بہت رویا کرتا تھا اور نہایت غم زدہ اور پُرملال رہتا۔ پس حضرت صاحب اُس پر دوسری بار ظاہر ہوئے اور اس کو کہا کہ اُس شخص کی برابری کون کر سکتا ہے جس کا خود اللّٰہ تبارک و تعالیٰ وکیل ہو۔

تشریح:

جیسے: اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِیْلُ (آل عمران: 173)

ترجمہ: ’’ہمارے لئے اللّٰہ کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے‘‘۔

﴿نِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِیْرُ (الانفال: 40)

ترجمہ: ’’بہترین رکھوالا اور بہترین مدد گار ہے‘‘

پس اُس کے دل سے وہ خطرہ کافور ہو گیا اور اسی مذکورہ مکان میں سکونت اور آرام سے رہا، کم و بیش سات سال تک وہاں خلوت نشین رہا اور ہمیشہ بیمار اور مریض رہتا تھا جیسا کہ کہا گیا ہے کہ "اَلْبَلَاءُ مُوَکَّلٌ بِالْأَنْبِیَاءِ ثُمَّ الْأَوْلِیَاءِ…" (إحیاء العلوم، کتاب التوبۃ، بیان کیفیۃ توزع الدرجات و الدرکات في الآخرۃ، رقم الصفحۃ: 27/4، دار المعرفۃ بیروت) ”مصائب و آلام انبیاء علیہم السلام پر آتی رہتی ہے پھر اُن کے بعد اولیاء کرام رحمہم اللّٰہ پر“ وہ شخص خود نقل کرتا ہے کہ اِس بیماری کے دوران میں ایک بچے کی طرح تھا کہ پیدا ہونے کے بعد پہلے تو وہ نیند کرتا ہے پھر اُس کے بعد بیٹھتا ہے اور اس کے بعد تھوڑا تھوڑا چلنے نکلتا ہے۔ میں بھی مذکورہ بچے کی طرح تھا اور ان سات سالوں میں سے پہلے تین سال مجھ پر غلبۂ حال تھا اور اس دوران شیخ المشائخ ہمیشہ کوشش اور توجہات فرماتے تھے، یہاں تک کہ شیخ المشائخ رحمۃ اللّٰہ علیہ کو میری جانب سے اطمینان ہوا کہ میرا رفیق مجھ سے مل گیا، یعنی مجھے اللّٰہ تعالیٰ کا وصال نصیب ہوا۔ اور یہ بھی وہ شخص نقل کرتا ہے کہ حضرت شیخ المشائخ نے تین دفعہ میرے لیے رسول اللّٰہ ﷺ کے دربار عالیہ میں التجا کی، جو تیسری دفعہ شرفِ پذیرائی پا گئی۔ اور خود رسول اللّٰہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے اور مجھے اپنی ملاقات اور دیدار کی سعادت عظمیٰ سے نوازا، اور صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ اجمعین میں سے بعض بزرگ ہستیاں بھی آپ ﷺ کے ہم رکاب تھیں۔ اِن میں سے ایک حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہٗ بھی تھے اور ہمارے شیخ صاحب اُن کے دائیں طرف سے ادبًا آتے جاتے تھے، اور اُن کو عرض کرتے تھے کہ آہستہ آہستہ جایئے تاکہ وہ ڈر نہ جائے۔ جب سرورِ کائنات فخرِ موجودات ﷺ تشریف لے آئے اور مجھے اپنے دیدار سے مشرف فرمایا اور مُسکراتے رہے کہ الٰہی بعض لوگ کیا کرتے ہیں اور بعض کیا؟ یہ بندہ جس کے پاؤں گوبر اور لید سے آلودہ ہیں لیکن یہ صرف تمہارا کرم ہے، یعنی بعض لوگ بہت نیکی کرتے ہیں لیکن وہ قبول نہیں ہوتی اور بعض لوگ اگرچہ خرابات میں ہوتے ہیں، تمہارا فضل اس کی رہنمائی کرتا ہے، وہ توبہ کرتے ہیں جو قبول ہوتی ہے اور عجیب کہ حقیقت پا جاتے ہیں۔ پس اُس شخص کو علوم باطن سے ایسا علم نصیب ہوا گویا کہ اس کے سینے میں ایک بڑا سمندر ہے، جس میں علمِ معرفت، علم حال اور علمِ حقیقت کے سمندر موجیں مارتے ہیں کہ "مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ شَيْءٌ" یعنی جس نے اللّٰہ کو پہچانا تو اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی۔

تشریح:

در اصل کچھ لوگ ہوتے ہیں مراد اور کچھ لوگ ہوتے ہیں مرید۔ جو مراد ہوتے ہیں، وہ چن لئے جاتے ہیں۔ جب وہ چن لئے جاتے ہیں، تو ان کے بھی وہ سارے کام کروا دیئے جاتے ہیں، جو مریدوں کے کروا دیئے جاتے ہیں۔ لیکن فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ مراد پہلے منتخب ہوتے ہیں، اس کے بعد ان کا کام ہوتا ہے اور مرید پہلے گزارے جاتے ہیں، پھر ان کا کام ہوتا ہے۔ اور حضرت کو سارے مراحل سے گزروایا گیا، سات سال مجاہدہ کروایا گیا تھا۔ لیکن پہلے چن لئے گئے تھے، اس کے بعد مجاہدہ کروایا گیا۔ اور بعض حضرات سے پہلے مجاہدہ کروایا جاتا ہے، ذکر اذکار کروایا جاتا ہے، اور اس کے بعد ان کو چن لیا جاتا ہے۔ گویا بات تو ایک ہی بنتی ہے۔ آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں جتنا مجھے ڈرایا گیا ہے، اتنا کسی اور کو خوف زدہ نہیں کیا گیا اور اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں جتنا مجھے ستایا گیا ہے، اتنا کسی اور کو نہیں ستایا گیا۔ (ترمذی، حدیث نمبر: 2480) آپ ﷺ تو مرادوں کے بادشاہ تھے۔ لیکن تکلیفیں پہنچی ہیں، مجاہدات ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ کو ذہنی تکلیفیں زیادہ پہنچی ہیں۔ حضرت مریم علیہا السلام کو بھی زیادہ تکلیفیں ذہنی پہنچی ہیں۔ جیسے قرآن میں ہے کہ جس وقت ان کو دردِ زہ شروع ہوا، تو ان کے الفاظ تھے: ﴿یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَكُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا﴾ (مریم: 23)

ترجمہ: ’’کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی، اور مر کر بھولی بسری ہو جاتی‘‘۔

بہت پریشان ہو گئیں۔ کیونکہ کنواری ہیں اور ان کے بچہ ہو رہا ہے، پیغمبر گھرانے سے ہیں، زکریا علیہ السلام کی بھانجی تھیں۔ یہ کوئی معمولی دھچکا نہیں ہے۔ کیونکہ عزت کے معاملے میں دل بہت حساس ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ کتنا بڑا دھچکا پہنچا ہو گا۔ ﴿وَكُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا (مریم: 23) کہ میں بھول بھلیا ہو جاتی، لوگ مجھے بھول جاتے، میں نہ ہی پیدا ہوتی۔ اس حد تک ذہنی اذیت ہوئی۔ اسی طرح جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا پہ تہمت لگی تو آپ ﷺ کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ چنانچہ ہر ایک کے ساتھ الگ الگ معاملہ ہوتا ہے۔ بس یہ مجاہدہ ہے۔ یہ اللّٰہ کا ایک نظام ہے۔ ہمارے بزرگوں نے ہمیں بتایا ہے کہ جب کسی بزرگ کی نسبت کسی کو وہبی طور پر منتقل ہوتی ہے، تو اس میں جو مجاہدہ لیا جاتا ہے، وہ اس بزرگ کے فیض کے مطابق ہوتا ہے۔ یعنی جب کوئی بہت بڑا بزرگ ہوتا ہے، تو ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ جیسے انسان بالکل جیتے جی مر جاتا ہے۔ ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ ایسے ہوا تھا۔ حضرت کو حضرت مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کا فیض منتقل ہوا تھا۔ ان دنوں حضرت کی یہ حالت تھی کہ دل کے دورے پڑ رہے ہیں اور بیماریاں اور پتا نہیں، کیا کیا تکلیفیں اور پریشانیاں تھیں۔ نور الہی صاحب جو تبلیغی جماعت کے بزرگوں میں تھے، چونکہ حضرت بھی تبلیغی جماعت کے بزرگوں میں سے تھے۔ نور الہی صاحب نے اپنے انداز میں کہا، جیسے لوگ کہتے ہیں: ’’جی عجیبه بزرګ وو زمونږ خو ئې‘‘۔ کہ ہمیں تو بالکل پھاڑ کے رکھ دیا۔ یعنی حضرت کے اوپر ایسی حالت گزری کہ ہمیں تو پھاڑ کے رکھ دیا۔ بہر حال! نسبت منتقل ہونا کوئی آسان بات نہیں ہوتی۔ کیونکہ اللّٰہ جل شانہ مجاہدہ کے ذریعے سے اس کے لئے جگہ بنواتے ہیں۔ کیونکہ یہ اللّٰہ کا قانون ہے۔ جیسے آپ ﷺ پہ وحی اپنے گھر میں بھی آ سکتی تھی، لیکن غارِ حرا میں آئی اور آپ ﷺ نے وہاں وقت گزارا۔ جو لوگ اس غار میں گئے ہیں۔ الحمد للہ میں بھی گیا ہوں، اللّٰہ تعالیٰ نے وہاں پہنچایا ہے۔ وہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنی تنگ سی غار ہے، بڑی مشکل سے انسان اس میں کھڑا ہوتا ہے۔ اس میں غالباً تین پتھر ہیں، جو اس طرح لگے ہوئے ہیں جیسے کھڑکی سی بن جاتی ہے، اور اس کا رخ بالکل سیدھا خانہ کعبہ کی طرف ہے۔ یعنی اگر درمیان سے پہاڑ اور بلڈنگیں ہٹا دی جائیں، تو بالکل سیدھ میں خانہ کعبہ ہے۔ آج کل تو مکہ ٹاور سے ہر جگہ نظر آ جاتی ہے اور پتا چل جائے گا کہ کس جگہ سے خانہ کعبہ کس طرف ہے۔ گویا آپ ﷺ نے ایسی جگہ منتخب کی تھی کہ خلوت میں تھے، لیکن بہترین جلوہ سامنے تھا۔ یعنی خلوت کے اندر جلوت تھی۔ چنانچہ غارِ حرا میں اتنا عرصہ گزارنے کے بعد وحی آئی۔ تو یہ من جانب اللّٰہ نظام ہوتا ہے۔ اگر کسی کو اللّٰہ پاک نعمت دیتے ہیں اور پہلے مجاہدہ نہ کیا ہو یعنی مرید نہ ہو، مراد ہو، تو بعد میں مجاہدہ لے لیا جاتا ہے، یہ غیر اختیاری مجاہدہ ہوتا ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ