اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللّٰہ کا شکر ہے کہ آج حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات پر مبنی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘ کا تیرھواں باب شروع ہو رہا ہے۔
تیرھواں باب
جنتیوں کی شراب اور جنت کا ساقی اور حقیقی ساقی اور اس بارے میں حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا علم
ہمارے حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ واصلانِ حق میں سے تھے، ما سوی اللّٰہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے اور اللّٰہ کے بغیر اُن کا کوئی مقصود نہیں تھا، اللّٰہ تعالیٰ کے سوا ان کے خواب و خیال میں بھی کوئی تصوّر سودا اور فکر نہیں ہوتا تھا۔ اور ذات باری کے سوا کوئی موجود چہرہ بھی ان کی نگاہ میں نہیں جچتا تھا، اُن کی تمام ہست و نیست محبوب حقیقی کا وصال ہے، غیر کی دوستی چھوڑ کر وصالِ دوست کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی سے سعادت مند و مشرف ہوئے تھے اور حقیقت میں وہ پیر تربیت اور پیر ارادت تھے۔
(ابیات, شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ)
؎ قیا درده شراب لالہ رنگ
آتشے در زن بکوئے نام ننگ
تا کے از ناموس و نام و گفتگو
تا کے از سالوس و رزق و بوئے رنگ
مستی بہ را بمے بستان ز ما
سینۂ ناموس ما بشکن بہ سنگ،
من خود از چشم تو بے خود ماندہ ام
گر بشوخی برد عقلم را بہ چنگ
بر دِل مجروح ما آید ہمہ
ہر مسلمانے کہ اندازد خدنگ،
نیم جانے دارم اکنوں بر سرت
گر پسند آید فشانم بے درنگ
’’اے میرے عزیز ساقی! لالہ گوں سُرخ شراب مجھے عطا فرما اور ننگ و ناموس کے کوچے کو آگ لگا, ننگ و نام اور عزت و ناموس کا خیال کب تک رکھو گے اور مکر و فریب بو اور رنگ کی باتوں کو کب تک مد نظر رکھو گے۔ ہم سے ہماری مستی کو شراب کا پیالہ دے کر لے لے اور ہمارے ناموس کے سینے کو پتھر دے مارو، میں تو خود تمہاری آنکھوں کی وجہ سے بے ہوش ہو چکا ہوں اور تمہاری حسن و شوخی نے، میری عقل اڑائی ہے جو مسلمان تیر اندازی کر کے تیر مارتا ہے تو وہ سیدھا میرے زخمی دِل کو ہدف بناتا ہے تمہارے سر کی قسم، میں نیم جان رکھتا ہوں اگر تم پسند کرتے ہو تو وہ بھی تم پر نچھاور کر لوں۔
حاصل کلام یہ کہ ﴿إِنَّ الْأَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَأْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا﴾ (الدھر: 5) ”البتہ نیک لوگ پیتے ہیں پیالہ جس کی ملونی (ملاوٹ) ہے کافور سے“ یعنی اے محبوب! ابرار کی جماعت کو کاسوں (پیالوں) سے شراب دی جائے گی۔ اور یہ اِس سبب سے کہ ابرار کی جماعت مقامِ تمنا میں ہوتی ہے اور طائفہ مقربین کو زنجبیل سے ممزوج شراب دی جائے گی، جب کبھی انسان پر مقربین کی حرارت غالب آ جاتی ہے تو مقربین کی غیرت کی حرارت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ابرار کو شراب کافوری دی جاتی ہے تاکہ یہ حرارت سرد ہو جائے۔ "اَلْمُقَرَّبُوْنَ غُیُوْرٌ" یعنی مقربین صاحبان غیرت ہوتے ہیں تاکہ اہلِ قربت کی غیرت زائل ہو جائے۔ اس لیے کافوری شراب سے اِن کی تواضع کی جاتی ہے کیونکہ "حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ" یعنی ابرار کی حسنات مقربین کی سیآت ہوتی ہیں۔ اور ابرار کی جماعت کے مئے خواروں کو غلمان اور جنت کے نوجوان لڑکے شراب دیتے ہیں اور مقربان کو بہشت کی حوریں کاسۂ زنجبیل سے شراب پلاتی ہیں کہ ﴿یُسْقَوْنَ فِیْھَا کَاْسًا کَانَ مِزَاجُھَا زَنْجَبِیْلًا﴾ (الدھر: 17) ”اُن کو وہاں پلاتے ہیں پیالے، جن کی ملونی(ملاوٹ) ہے سونٹھ“ اسی وجہ سے مقربین کی جماعت کے لیے مقامِ قربت میں تمنّا ہوتی ہے، اور جنت کے محلوں میں جب حوروں کے ہاتھ سے زنجبیل کے پیالے نوش کرتے ہیں تو قربت کی حرارت مقربین میں بڑھ جاتی ہے۔
؎ ساقیا مے بدہ تو مالا مال
کہ گرفتہ است مرا خویش ملال
گر شوم مست و بے خبر چہ غم است
چوں قریبم بد دوست در ہمہ حال
’’اے ساقی مجھے بھر پور انداز سے شراب پلا، کیونکہ میرا دل بہت رنجیدہ اور پُر ملال ہے۔ جب میں اپنے دوست کے قریب ہوں تو اگر میں مست اور بے ہوش ہو جاؤں تو مجھے کیا غم ہے‘‘۔
اور اے میرے عزیز! تیسری قِسم کی شراب کاسوں کے انداز و پیمانوں پر نہیں، بلکہ وہ شرابِ عاشقاں ہے اور وہ ﴿سَقَاھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا﴾ (الدھر: 21) ”اور پلائے ان کو ان کا رب شراب، جو پاک کرے دل کو“ (شیخ الہند) بیت
؎ نے گرمِ نما یدم نے سردی
لیکن قدمے ہست یک رنگی
’’نہ تو گرمی لاتی ہے اور نہ سردی، لیکن ایک رنگ کا پیالہ ہے‘‘۔
یعنی اے محبوب! عاشقوں کی شراب کاسوں کے پیمانے سے نہیں ہوتی کیونکہ یہاں ساقی خود اللّٰہ تعالیٰ ہے کیونکہ "حَسَنَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ سَیِّئَاتُ الْعَاشِقِیْنَ" یہاں تو مقربین تک کی نیکیاں عاشقوں کی سیئات شمار ہوتی ہیں۔ بیت
؎ آں را کہ نگار ہم ساقی باشد
تا روز ابد جانش باقی راند
’’اپنا معشوق جس کا خود ساقی ہو، تو ابد تک اُس کی روح باقی رہتی ہے‘‘۔
دانی کہ چہ مست گردد آں درویشک
او را کہ سلطان بخویشتن ساقی باشد
’’ تم جانتے ہو کہ وہ معمولی فقیر کیسا مست ہو جائے گا کہ جس کا بادشاہ بذات خود ساقی ہو جائے‘‘۔
تشریح:
اس وقت ہم لوگ چونکہ دنیا میں ہیں اور دنیا میں بہت ساری چیزیں ہمارے دل و دماغ کو کھینچتی ہیں، ہر وقت ہم لوگ ان کی کشش میں پھنسے ہوتے ہیں، اور ان کی یہ کشش اس حد تک ہوتی ہے کہ اس کشش کو محسوس کر کے آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ کس طرح ان کی کشش سے نکلا جا سکتا ہے۔ اللّٰہ پاک نے قرآن پاک میں بھی فرمایا: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ 0 وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ﴾ (القیامۃ: 20-21)
ترجمہ: ’’خبر دار (اے کافرو!) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئے ہوئے ہو‘‘۔
ایک ہوتا ہے علماً جاننا، ہم سب مسلمان ہیں، الحمد للہ۔ اور ہم سب علماً جانتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے، مسلمانوں میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہو گا جو یہ نہ مانتا ہو کہ دنیا فانی ہے۔ لیکن عملاً نہیں مانتے، اب یہ علماً سے عملاً کیسے بن جائے یعنی اپنے علم کو حال کیسے بنایا جائے، اس علم کو حال بنانے کا جو طریقہ ہے، وہ حال ہی ہے، یعنی حالاً وہاں کا عشق اتنا زیادہ ہو جائے کہ یہاں کا عشق اس کے سامنے مانند پڑ جائے، اور یہ کچھ بھی نظر نہ آئے۔ یہ ساری باتیں اسی رخ کی ہیں۔ اس میں ما سوٰی اللّٰہ (اللّٰہ کے علاوہ) کے ساتھ تعلق اضطراری ہے۔ جیسے مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے، اسی طرح ان چیزوں کی محبت ہمیں کھینچتی ہے، چاہے وہ مکان ہے، چاہے وہ گاڑی ہے، چاہے وہ اچھے کھانے ہیں، چاہے وہ عورتیں ہیں، الغرض تمام چیزیں ہمیں کھینچتی ہیں۔ بڑی بڑی باتیں کرنا تو ایک طرف، وہ تو ہمارا حال ہی نہیں ہے۔ حال یہ ہے کہ ہم لوگ کم از کم اتنا ہو جائیں کہ ان کی محبت کی وجہ سے کسی گناہ میں مبتلا نہ ہوں، کسی ناجائز امر میں مبتلا نہ ہوں، کم از کم اتنا تو لازم ہے۔ یہ سب حقیقت کی باتیں ہیں۔ مگر شریعت کا کم از کم یہ مطالبہ ہے کہ ان چیزوں کی محبت ہمیں گناہ میں مبتلا نہ کرے۔ مثلاً: مال کی محبت میں زکوٰۃ نہ دے کر گناہ میں نہ آ جائیں۔ کھانے پینے کی محبت ہمیں روزے سے نہ روک سکے۔ اور اللّٰہ نہ کرے، عورتوں کی محبت ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مبتلا نہ کرے۔ یہ ساری باتیں شریعت ہیں۔ یہ کسی اور دنیا کی باتیں نہیں ہیں، یہ یہاں کی باتیں ہیں۔ لیکن یہ بات کہ ان کا ہمارے اوپر اثر نہ ہو یا اتنا کمزور ہو جائے کہ ہم خطرے سے باہر آ جائیں۔ اس کے لئے کیا کرنا پڑے گا؟ اس کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کو پیدا کرنا پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے مثلاً ایک بوتل کے اندر ہَوا ہے، آپ اس سے ہوا نکالنا چاہتے ہیں تو کیسے نکالیں گے؟ اس سے ہوا کو نہیں نکال سکتے ہیں، جتنی نکالیں گے، اتنا اس کا نکالنا مزید مشکل ہوتا جائے گا، حتیٰ کہ اتنا مشکل ہو جائے گا کہ بوتل ٹوٹ جائے گی اور پچک جائے گی، لیکن اس سے آپ پوری ہوا نہیں نکال سکیں گے، vaccum بڑھتا جائے گا اور High pressure باہر سے اندر کی طرف آتا ہے، نتیجتا بوتل ٹوٹ جاتی ہے یا پچک جاتی ہے۔ مگر آپ اس کو خالی نہیں کر سکتے۔ اسی طرح اگر ہم دنیا کی محبت کو ویسے ہی اپنے آپ سے نکالنا چاہیں، تو ٹوٹ جائیں گے، یہ محبت نہیں نکل سکے گی۔ ایسی صورت میں طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ بوتل کے اندر پانی ڈالیں تو پانی ہوا کی جگہ گھیر لے گا اور ہوا نکل جائے گی۔ جب ہم ایف ایس سی میں experiment کرتے تھے، تو جب گیس بنتا تھا تو پانی نکلتا تھا۔ بہر حال! اگر پانی سے بوتل بھر دو تو ہوا بالکل نہیں رہے گی۔ اسی طرح اگر ہم اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کو پیدا کر لیں تو دنیا کی محبت نکل جائے گی۔ اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کو پیدا کرنے کے لئے ایک نظام ہے، جو ان حضرات کا تھا۔ اب یہ باتیں ہمیں بالکل ایسی لگتی ہیں جیسے ہم کوئی افسانوں کی باتیں کر رہے ہوں۔ یہ بات میں نے پہلے ہی عرض کی تھی کہ تین categories ہیں۔ پہلی category دنیا دار اور دین دار کا فرق۔ دنیا دار کو دین دار کی بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا باتیں کرتا ہے۔ چنانچہ جن کے دل میں دنیا کی محبت ہوتی ہے، وہ دین دار کی بات نہیں جانتا کہ کیسے یہ سود نہیں کھاتا، کیسے رشوت نہیں لیتا، کیسے زکوٰۃ دیتا ہے، کیسے صدقات کرتا ہے۔ یہ باتیں ان کو سمجھ نہیں آتیں۔ اسی طرح جو Second category ہے، اس کو Third category کی سمجھ نہیں آتی۔ Third category یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی محبت مخلوق کی محبت پر غالب ہو، اور مخلوق میں جنت بھی ہے۔ یہ بعینہ اسی قسم کی بات ہے کہ جب آپ کسی بادشاہ سے ملاقات کے لئے جاتے ہیں اور آپ بادشاہ کے عاشق ہوں، تو جب آپ بادشاہ کے ساتھ ملیں گے اور آپ کسی چیز کی طرف بھی توجہ نہیں کریں گے تو بادشاہ سب کچھ آپ کے حوالہ کر دے گا اور کہے گا کہ یہ تو میرا عاشقِ صادق ہے۔ اور اگر آپ نے اس کے سامنے چیزوں کی طرف توجہ کی تو جتنی چیزیں ہیں، وہ آپ کو دے دے گا، مگر وہ چیز نہیں ہو گی۔ میں اس کی مثال یوں دیتا ہوں کہ جیسے آپ بادشاہ کے پاس گفٹ کے طور پر دو بوتل شہد لے جائیں، بادشاہ بہت عالی حوصلہ ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اگر آپ نے اس کو ہدیہ کے طور پر شہد دیا ہے جس میں آپ کی کوئی اور چیز مطلوب نہ ہو، کیونکہ ہدیہ میں صرف مومن کی نیت محبت کی ہوتی ہے، اس میں ثواب کی نیت بھی نہیں ہوتی۔ تو اگر آپ صرف اس کی محبت کی وجہ سے ہدیہ لے جائیں، تو ممکن ہے کہ بادشاہ کے دل میں آپ کا ایسا گھر بن جائے کہ کسی وقت سب کچھ آپ کو دے دے۔ لیکن اگر اس کو ذرا بھر بھی بھنک پڑ گئی کہ یہ سمجھتا ہے کہ میں دو بوتل شہد لے آیا ہوں۔ تو ممکن ہے کہ بیس بوتل شہد آپ کے سر پر رکھ کے آپ کو رخصت کر دے۔ اس کے لئے کیا مشکل ہے؟ بس یہی بنیادی بات ہے کہ اگر ہم اللّٰہ کی محبت میں ان تمام چیزوں کو بھول جائیں تو اللّٰہ پاک غیور ہے، وہ اپنا ہاتھ اوپر رکھتا ہے۔ لہذا جو ٹوٹی پھوٹی چیز تیرے پاس ہے، اسی کے فضل سے جب وہ تو دے گا تو اس کے مقابلہ میں اللّٰہ پاک تجھے اتنا کچھ دے دے گا کہ تو سنبھال بھی نہیں سکے گا۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ آپ ایک پھول دیں گے تو وہ پورا گلزار آپ کے حوالہ کر دے گا۔ لیکن آپ کو حوصلہ مند ہونا چاہئے، وہ آپ کا حوصلہ دیکھتا ہے۔ وہ سب سے بہتر جانچنے والا ہے۔ آپ اس کے ساتھ دھوکہ نہیں کر سکتے۔ اور عشاق کی بات اور ہے۔ عشاق کی زبان سے بعض دفعہ ایسی باتیں نکلتی ہیں، جو باتیں دوسرے کریں تو دین سے نکل جائیں۔ جن کو ہم شطحیات کہتے ہیں۔ مگر ان کو وہ معاف ہوتی ہیں۔ بہر حال! عشق بہت بڑی چیز ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ﴾ (البقرۃ: 165)
ترجمہ: ’’اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، وہ اللّٰہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں‘‘۔
پتا نہیں کہ کوئی اشَدّ کا کیا ترجمہ کرتا ہو گا؟ اشَدّ شدید سے زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اشَدّ اسم تفضیل ہے، یعنی دوسرے درجہ کا۔ جس کا معنی ہے اور زیادہ سخت۔ اس کو comparative اور superlative کہتے ہیں کہ ترتیب یوں ہے: شدید، اشَدّ، اشَدّ ترین۔ گویا اتنی شدید محبت ہے کہ باقی تمام محبتوں کو cross کر کے محبت کرے کہ کوئی اس کے پیچھے نہیں پہنچ سکتا۔ اس کی terminology مختلف ہے۔ یہ terminology جتنی سمجھ آ جائے، اس کو یہ بات اتنی سمجھ آ سکتی ہے۔ یہ ساری چیزیں وہی بیان ہو رہی ہیں، اس لئے سمجھ میں نہیں آ رہیں، ہمارے پاس وہ terminology نہیں ہے۔ وہاں کا حال ادھر ہے نہیں، اور یہ چیز حال ہے، قال نہیں ہے۔ قال سے حال کو کیسے سمجھاؤ گے؟ قال سے حال کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ آگے حضرت فرماتے ہیں کہ:
متن:
ہمارے حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ واصلانِ حق میں سے تھے۔
تشریح:
یعنی اللّٰہ کو پا چکے تھے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ماسویٰ اللّٰہ کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کی محبت ساری کی ساری سمٹ آئی تھی اللّٰہ کی طرف۔ لہٰذا کسی اور کے ساتھ تعلق تھا ہی نہیں۔
متن:
اللّٰہ کے بغیر اُن کا کوئی مقصود نہیں تھا اللّٰہ تعالیٰ کے سوا ان کے خواب و خیال میں بھی کوئی تصوّر سودا اور فکر نہیں ہوتا تھا۔ اور ذات باری کے سوا کوئی موجود چہرہ بھی ان کی نگاہ میں نہیں جچتا تھا، اُن کی تمام ہست و نیست محبوب حقیقی کا وصال ہے، غیر کی دوستی چھوڑ کر وصالِ دوست کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی سے سعادت مند و مشرف ہوئے تھے اور حقیقت میں وہ پیر تربیت اور پیر ارادت تھے۔
تشریح:
یعنی چونکہ واصل تھے، لہذا کسی اور کو واصل کر سکتے تھے۔ پیر اسی لئے ہوتا ہے۔ یہ بات الفاظ کی حد تک تو ہمیں سمجھ آ رہی ہے، لیکن اللّٰہ کرے کہ حقیقت میں بھی سمجھ آ جائے۔
(ابیات، شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ)
؎ قیا درده شراب لالہ رنگ
آتشے در زن بکوئے نام ننگ
تا کے از ناموس و نام و گفتگو
تا کے از سالوس و رزق و بوئے رنگ
مستی بہ را بمے بستان ز ما
سینۂ ناموس ما بشکن بہ سنگ،
من خود از چشم تو بے خود ماندہ ام
گر بشوخی برد عقلم را بہ چنگ
بر دِل مجروح ما آید ہمہ
ہر مسلمانے کہ اندازد خدنگ،
نیم جانے دارم اکنوں بر سرت
گر پسند آید فشانم بے درنگ
’’اے میرے عزیز ساقی! لالہ گوں سُرخ شراب مجھے عطا فرما اور ننگ و ناموس کے کوچے کو آگ لگا دے۔
تشریح:
میں آپ کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شیخ کا کلام سناتا ہوں۔ وہ یہی بات کرتے ہیں۔ اصل میں کیفیت ایک ایسی چیز ہے، جسے صرف اشعار ہی تھوڑا بہت catch کر سکتے ہیں، ورنہ نثر میں بڑا مشکل ہوتا ہے:
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بر ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
نہ جانوں کیوں، ہو جب یار کا دیدار میں رقصاں
مگر ہے ناز مجھ کو یہ ہوں پیشِ یار میں رقصاں
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہر طرز کہ رقصانی منم ہے یار می رقصم
سنا ہے مجھ کو تو جب نغمہ و ہر بار میں رقصاں
کرائے مجھ کو جیسے بھی تو رقص ہے یار میں رقصاں
پتا نہیں کہ لوگ اس سے کیا کیا مطلب لیتے ہوں گے، لیکن اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ مجھ پر جو بھی حال اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے وارد ہوتا ہے، میں وہی کرتا ہوں۔ یعنی وہ مجھے جو بھی رقص کرائے، میں وہی کرتا ہوں۔ اس کو عاشقانہ زبان میں بتایا ہے۔ ایک تو عالمانہ زبان میں بتانا ہوتا ہے۔ ہر چیز کی اپنی اپنی terminology ہے۔ اس لئے یہ ایک عاشقانہ رنگ میں بتایا گیا۔ یہ معمولی شخص نہیں فرما رہے، یہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شیخ ہیں۔ اس سے آپ اندازہ کریں کہ وہ کیسے بات کر رہے ہوں گے۔
سراپا بر سرا پائے خودم از بیخودی قربان
بگرد مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم
جب اپنی بے خودی پہ عشق میں ہو جاؤں میں قرباں
ہو اپنے گرد ہوتا صورتِ پرکار میں رقصاں
خوشا رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم
یہ وہی بات ہے، جیسے حضرت نے فرمایا کہ اپنی ناموس اور سب کچھ ختم کر دے۔ ناموس سے مراد یہ ہے کہ جیسے کہتے ہیں کہ ہماری ناک کٹ جائے گی۔ کیونکہ شریعت پہ چلنے میں ہمارے لئے سب سے بڑی رکاوٹ انانیت ہے۔ اور عشق میں سب سے پہلے انانیت کو قربان کیا جاتا ہے۔
متن:
’’اے میرے عزیز ساقی! لالہ گوں سُرخ شراب مجھے عطا فرما اور ننگ و ناموس کے کوچے کو آگ لگا۔
تشریح:
اصل میں یہ ننگ و ناموس ہمیں مشکل میں ڈال دیتا ہے، یہ ہمیں روک دیتا ہے، ہمیں جو اپنی انانیت کا خیال ہوتا ہے کہ میں کچھ ہوں، اس کو ہم نہیں قربان کر سکتے۔ حالانکہ مقابلہ میں اللّٰہ جل شانہ ہیں۔ اب کہاں میں اور کہاں اللّٰہ جل شانہ! انسان بالکل حیران ہو جاتا ہے۔ ہمیں یہی چیز بچا سکتی ہے کہ عشق کو اس حد تک لے جائیں کہ دوسری تمام چیزیں ختم ہو جائیں، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، جو ہمیں بچا سکے۔ ننگ و ناموس کے کوچے کو آگ لگانے کا یہی مطلب یہی ہے۔
متن:
ننگ و نام اور عزت و ناموس کا خیال کب تک رکھو گے اور مکر و فریب بو اور رنگ کی باتوں کو کب تک مد نظر رکھو گے۔
تشریح:
ہم جب بات کرتے ہیں، تو اس میں یہ خیال ہوتا ہے کہ اس سے لوگ کیا مطلب لیتے ہیں اور میرے بارے میں کیا کہیں گے، یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا۔ ایسے لوگ نہیں چلتے، جب تک ہمارا یہ حال نہ ہو کہ ہم بالکل ان چیزوں کی پروا نہ کریں۔ پھر ہی بات چل سکے گی۔ جیسے علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے کہا کہ آپ کو پتا نہیں کہ میں کون ہوں؟ فرمایا: بالکل پتا ہے، پہلے گندا قطرہ تھا، اب گندگی کے ڈول ہو، پھر گندگی کے ڈھیر ہو گے۔ تین حالتیں ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنے بارے میں کہا کرتے تھے کہ کاش! میں میں سبزہ ہوتا، جسے جانور کھا جاتے۔ (مسند ابی بکر صدیق، حدیث نمبر: 174) لہذا جب آدمی فنا ہو جاتا ہے، تو اس کے نزدیک ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ لیکن جب تک انسان فنا نہیں ہوتا، اس وقت تک یہ سب سے اہم چیزیں ہوتی ہیں۔ پتا نہیں کہ کہاں کہاں یہ چیزیں ہمیں مصیبت میں ڈالتی ہیں۔ یہ ہماری نماز خراب کرتی ہیں۔ ہمارے روزے خراب کرتی ہیں۔ ہماری زکوٰۃ خراب کرتی ہیں۔ ہمارا حج خراب کرتی ہیں۔ ہر ہر چیز کے اندر یہ گھسی ہوتی ہیں۔ اس چیز کو ختم کرنے کے لئے اس عشق کا مطالبہ ہے۔
متن:
ہم سے ہماری مستی کو شراب کا پیالہ دے کر لے لے۔
متن:
یعنی یہ محبت دے دے اور یہ جو ہم دنیا میں مست ہیں، یہ لے لے۔
تشریح:
اور ہمارے ناموس کے سینے کو پتھر دے مارو، اور ہمارے ناموس کے سینے کو پتھر دے مارو، میں تو خود تمہاری آنکھوں کی وجہ سے بے ہوش ہو چکا ہوں اور تمہاری حسن و شوخی نے، میری عقل اڑائی ہے جو مسلمان تیر اندازی کر کے تیر مارتا ہے تو وہ سیدھا میرے زخمی دِل کو ہدف بناتا ہے
حاصل کلام یہ کہ ﴿إِنَّ الْأَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَأْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا﴾ (الدھر: 5) ”البتہ نیک لوگ پیتے ہیں پیالہ جس کی ملونی (ملاوٹ) ہے کافور سے“ یعنی اے محبوب! ابرار کی جماعت کو کاسوں (پیالوں) سے شراب دی جائے گی۔ اور یہ اِس سبب سے کہ ابرار کی جماعت مقامِ تمنا میں ہوتی ہے اور طائفہ مقربین کو زنجبیل سے ممزوج شراب دی جائے گی، جب کبھی انسان پر مقربین کی حرارت غالب آ جاتی ہے تو مقربین کی غیرت کی حرارت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ابرار کو شراب کافوری دی جاتی ہے تاکہ یہ حرارت سرد ہو جائے۔
تشریح:
یعنی وہ مقربین کی حرارت کو برداشت نہیں کر سکتے، اس لئے ان کو شرابِ کافوری دی جاتی ہے۔
متن:
"اَلْمُقَرَّبُوْنَ غُیُوْرٌ" یعنی مقربین صاحبان غیرت ہوتے ہیں تاکہ اہلِ قربت کی غیرت زائل ہو جائے۔ اس لیے کافوری شراب سے اِن کی تواضع کی جاتی ہے کیونکہ "حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ"
تشریح:
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک سے اس کے status کے مطابق معاملہ ہوتا ہے۔ چونکہ مقربین آگاہ ہوتے ہیں، لہٰذا جو آگاہ ہوں، اگر وہ ایسا کام کر لیں، تو وہ باقی لوگوں کے لئے تو بڑی value کی چیز ہوتی ہے۔ لیکن ان سے توقع کچھ اور زیادہ کی کی جاتی ہے کہ یہ تو ایسے ہیں۔ جیسے: حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ جب فوت ہو گئے، تو کسی نے ان کو خواب میں دیکھا، تو کہا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ انہوں نے فرمایا کہ اللّٰہ پاک کے سامنے میں پیش ہوا، اللّٰہ پاک نے مجھ سے پوچھا کہ میرے لئے دنیا سے کیا لائے ہو؟ میں نے سوچا کہ میں کیا کہوں۔ سب کچھ تو اللّٰہ کا ہی ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ ہاں، میں مسلمان تو تھا، توحید پر مرا ہوں۔ لہٰذا میں نے کہا: یا اللّٰہ! میں توحید لایا ہوں۔ اللّٰہ پاک نے فرمایا کہ وہ لیلۃ اللبن (دودھ والی رات) بھول گئے؟ لیلۃ اللبن میں یہ ہوا تھا کہ دودھ پیا ہوا تھا، جس سے رات کو پیٹ میں درد ہو گیا۔ صبح کسی نے پوچھا کہ کیسی طبیعت ہے؟ انہوں نے کہا: دودھ پیا ہوا تھا، تو اس سے رات کو پیٹ میں درد ہوا۔ اسی پہ explanation call ہو گئی۔ حالانکہ باقی لوگوں کے لئے یہی کہنا چاہئے، کیونکہ ان کا تعلق اللّٰہ کے ساتھ کمزور ہوتا ہے، لہذا وہ کہہ دیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے میرے پیٹ میں درد کر دیا، تو وہ خرابی کی طرف چلے جائیں گے۔ ان سے مطالبہ اس کا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ دودھ کی وجہ سے میرے پیٹ میں درد ہو گیا۔ وہ یہ کہیں گے، تو ان کو اس پر اجر دیا جائے گا۔ اور بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی explanation call ہو گئی کہ کیوں اس طرح کہا؟ توحید کدھر تھی؟ تو نے تو دودھ کی طرف نسبت کی۔ چنانچہ جتنا جتنا کسی کا مقام بڑھتا ہے، اتنا اتنا اس مقام کے حساب سے مطالبہ بڑھتا ہے۔ اسی لئے فرمایا:
متن:
"حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ" یعنی ابرار کی حسنات مقربین کی سیآت ہوتی ہیں۔ اور ابرار کی جماعت کے مئے خواروں کو غلمان اور جنت کے نوجوان لڑکے شراب دیتے ہیں اور مقربان کو بہشت کی حوریں کاسۂ زنجبیل سے شراب پلاتی ہیں کہ ﴿یُسْقَوْنَ فِیْھَا کَاْسًا کَانَ مِزَاجُھَا زَنْجَبِیْلًا﴾ (الدھر: 17) ”اُن کو وہاں پلاتے ہیں پیالے، جن کی ملونی(ملاوٹ) ہے سونٹھ“ اسی وجہ سے مقربین کی جماعت کے لیے مقامِ قربت میں تمنّا ہوتی ہے، اور جنت کے محلوں میں جب حوروں کے ہاتھ سے زنجبیل کے پیالے نوش کرتے ہیں تو قربت کی حرارت مقربین میں بڑھ جاتی ہے۔
؎ ساقیا مے بدہ تو مالا مال
کہ گرفتہ است مرا خویش ملال
گر شوم مست و بے خبر چہ غم است
چوں قریبم بد دوست در ہمہ حال
اور اے میرے عزیز! تیسری قِسم کی شراب کاسوں کے انداز و پیمانوں پر نہیں، بلکہ وہ شرابِ عاشقاں ہے (یہ Third category ہے) اور وہ ﴿سَقَاھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا﴾ (الدھر: 21) ”اور پلائے ان کو ان کا رب شراب، جو پاک کرے دل کو“
’’نہ تو گرمی لاتی ہے اور نہ سردی، لیکن ایک رنگ کا پیالہ ہے‘‘۔
یعنی اے محبوب! عاشقوں کی شراب کاسوں کے پیمانے سے نہیں ہوتی کیونکہ یہاں ساقی خود اللّٰہ تعالیٰ ہے کیونکہ "حَسَنَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ سَیِّئَاتُ الْعَاشِقِیْنَ" یہاں تو مقربین تک کی نیکیاں عاشقوں کی سیئات شمار ہوتی ہیں۔ (یعنی وہاں پر معاملہ اور ہو جاتا ہے۔)
؎ آں را کہ نگار ہم ساقی باشد
تا روز ابد جانش باقی راند
’’اپنا معشوق جس کا خود ساقی ہو، تو ابد تک اُس کی روح باقی رہتی ہے‘‘۔
دانی کہ چہ مست گردد آں درویشک
او را کہ سلطان بخویشتن ساقی باشد
’’ تم جانتے ہو کہ وہ معمولی فقیر کیسا مست ہو جائے گا کہ جس کا بادشاہ بذات خود ساقی ہو جائے‘‘۔
متن:
پہلے میں ایک بات عرض کر چکا ہوں، میں دوبارہ عرض کر دیتا ہوں کہ Third category کا جو معاملہ ہے کہ محض اللّٰہ اور صرف اللّٰہ۔ بعض دفعہ ایک فضول چیز ہوتی ہے، لیکن اس سے انسان understanding میں help لیتا ہے۔ جیسے آپ نے دیکھا ہو گا کہ گاڑیوں کے اوپر لکھا ہوتا ہے: ’’صرف تم‘‘۔ یہ تو محض ایک ہوس ہے اور نعرہ ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، کوئی حقیقت نہیں ہے۔ لیکن اللّٰہ کے ساتھ یہ معاملہ بالکل ٹھیک ہے کہ صرف وہ ہے۔ صوفیاءِ کرام نے اس کے لئے ایک لفظ استعمال کیا ہے اور وہ ہے: ذات بحت۔ ذات بحت سے مراد یہ ہے کہ صرف وہ۔ یعنی اور کوئی چیز شامل نہ ہو، حتیٰ کہ صفات تک پیچھے رہ جاتی ہیں۔ اسی کو ذات بحت کہتے ہیں، جسے شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ذکر کیا ہے۔ اس سے یہی ذات بحت مراد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس میں کچھ بھی اور نہیں ہے۔ جب کوئی ذات بحت کا عاشق بن جائے، تو اللّٰہ پاک کا قانون ہے کہ جتنا اِدھر سے ہوتا ہے، اس سے زیادہ اُدھر سے ہوتا ہے۔ پس اگر ہماری طرف سے (اللّٰہ ہمیں نصیب کرے) اللّٰہ کے ساتھ ایسی محبت ہو جائے، تو پھر ادھر سے کیا ہو گا؟ یہ وہ چیز ہے، جسے ہم understand نہیں کر سکتے۔ عشاق کا معاملہ بالکل الگ ہوتا ہے، ان کو وہاں بھی الگ رکھا جائے گا، یعنی ان کا مقام بہت اونچا ہو گا۔ کیونکہ وہ صحیح معنوں میں اللّٰہ والے ہوں گے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: اللّٰہ والے۔ یہ اللّٰہ والے کون ہیں؟ کیا وہ ہیں، جو اللّٰہ کی بھی بات کرتے ہیں اور ساتھ دوسری چیزوں کی بھی بات کرتے ہیں یا وہ اصل اللّٰہ والے ہیں، جو صرف اللّٰہ کی بات کرتے ہیں؟ بہر حال! جب انسان یہاں اللّٰہ تعالیٰ کے عشق میں سب کچھ فنا کر دے، تو وہاں سے بھی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی عنایت ہو گی، اور وہ عنایت ہماری سمجھ میں نہیں آتی ہو گی۔ مثلاً: ایک تکلیف وہ ہے، جو عام حالت میں آتی ہے۔ کوئی تکلیف آتی ہے، کوئی بیماری آتی ہے یا کوئی مالی نقصان ہوتا ہے اور اس پر وہ صبر کرتا ہے۔ اس پر بھی بڑا اجر ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرۃ: 153) لیکن وہ تکلیف جو خالصتاً اللّٰہ کی محبت کی وجہ سے آتی ہے، یعنی اللّٰہ کی محبت کی وجہ سے جو کسی کو تکلیف دی جائے گی۔ اس تکلیف پہ کیا ملے گا؟ اس کا تو ہم اندازہ ہی نہیں کر سکتے، کیونکہ انسان وہ تکلیف اللّٰہ کے لئے برداشت کرے گا۔ یہی وہ بات ہے، جو عشاق کو جب سمجھ آتی ہے، تو ان کی کیفیت اور ہوتی ہے۔ جیسے: خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے سامنے جب یہ شعر پڑھا جا رہا تھا:
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است
یعنی جو تسلیم کے خنجر سے قتل ہوئے ہیں، ان کو ہر وقت ایک نئی جان عطا کی جاتی ہے۔ یہ شعر حضرت کو اتنا پسند آیا کہ بار بار کہتے کہ اور پڑھو اور پڑھو۔ وہ پڑھتے اور حضرت سنتے تھے۔ یہ حضرت پہ وجد کا عالم تھا، یہ شعر سنتے سنتے حضرت کی جان نکل گئی۔ بہر حال! عشاق کو اس کے مقام کا پتا ہوتا ہے کہ اس کا کیا مقام ہے۔ وہ صرف اور صرف اللّٰہ تعالیٰ کو چاہتے ہیں، اس کے علاوہ کسی کو نہیں چاہتے۔
متن:
عاشق لوگ کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ اُس کے بغیر نہیں پیتے۔ پس اے میرے عزیز! "اَلشَّرَابُ نَوْعَانِ: شَرَابُ الْجَمَالِ فَھُوَ لِلْمَھْجُوْرِیْنَ وَمَنْ یَّشْرَبِ الْجَمَالَ فَھُوَ مَسْرُوْرٌ لِأَنَّ شَرَابَ الْجَمَالِ لِلْعَاشِقِیْنَ وَأَنَّ شَرَابَ الْوِصَالِ لِلْوَاصِلِیْنَ فَالْعَاشِقُ مَھْجُوْرُ الْأَبَدِ وَالْوَاصِلُ مَسْرُوْرُ الْأَبَدِ" ”شراب دو قسم کی ہوتی ہے: ایک شرابِ جمال ہے جو کہ مہجور لوگوں کے لیے ہے، اور جو کوئی شرابِ جمال نوش کرے تو وہ مسرور ہوتا ہے کیونکہ شرابِ جمال عاشقوں کے لیے ہوتی ہے اور شراب وصال واصلین کے لیے ہے۔ پس عاشق لوگ ہمیشہ مہجور ہوتے ہیں اور واصل ہمیشہ مسرور اور خوش ہوتے ہیں“۔ یعنی اے محبوب! شراب دو نوع کی ہوتی ہے: شرابِ جمال و شرابِ وصال؛ شرابِ وصال تو واصلین کے لیے ہوتی ہے اور شرابِ جمال عاشقوں کے لیے ہے۔ پس اے محبوب! عاشق مہجور ہے اور واصل مسرور۔ اور ہر شراب میں علیحدہ قسم کا سکر ہوتا ہے اور ہر سکر میں ایک خاص قِسم کا ذوق ہوتا ہے اور شوق کے سمندر کو مہمیز ملتا ہے اور اسی قدر شوق بڑھتا ہے، اور یہ سب کچھ مستور چیزیں مکشوف ہو جاتی ہیں، یعنی سب راز عیاں ہو جاتے ہیں۔ بیت
؎ شراب و شاہد و ساقی نہاں نمے ماند
کہ صبح پردہ درت میکنند غمازی
’’شراب معشوق اور ساقی کبھی بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتے کیونکہ پردہ دری کرنے والی صبح راز سے پردہ اٹھاتی ہے‘‘۔
اے میرے محبوب! یہ تینوں قسم کی شراب اللّٰہ تعالیٰ کے مئے خوارانِ محبت کو دنیا میں بھی حاصل ہوتی ہے اور آخرت میں بھی ملتی ہے۔ بعض کو شرابِ وصال اور بعض کو شرابِ جمال سے نوازا جاتا ہے اور اِن کے منہ سے آواز تک نہیں نکلتی۔ ابیات شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ
؎ مطربا پردہ ساز و جامم دہ
کہ فراقم بدل شدہ بہ وصال
گشتم امروز عاشق و معشوق
بہم آمیختہ چو آب زلال
علم توحید گشت حق بہ یقین
کردم ایں نکتہ را ازان تضمین
کہ ہمہ اوست ہر چہ ہست یقین
جان و جانان و دلبر و دل و دین
’’اے مطرب اُٹھیئے اور پردہ کرکے مجھے شراب کا پیالہ بھر دیجیئے تاکہ جدائی اور فراق وصل میں بدل جائے، آج میں عاشق اور معشوق ہو گیا اور ہم ایسے خلط ہو کر آپس میں مل گئے جیسا کہ پانی، علم توحید حق الیقین کے طور پر ثابت ہو گیا اور یہ نکتہ میں نے اسی ضمن میں بیان کیا کہ جو کچھ کہ ہے یہ سب ”وہ ہی ہے“۔
تشریح:
’’ہمہ او ست‘‘ اللّٰہ تعالیٰ نے عجیب معنیٰ دل میں ڈال دیا۔ جیسے بتایا گیا ہے کہ ’’ہمہ او ست‘‘ کو اگر کوئی فلسفہ بنا لے، تو زندیق ہو جائے، اور اگر حال کے طور پہ دیکھے، تو صدیق ہو جائے گا۔ ’’ہمہ او ست’’ ان معنوں میں بالکل صحیح طور پہ سمجھ آتا ہے، کوئی confusion نہیں، کوئی مسئلہ نہیں کہ جیسے یہاں پر ابھی تک ہم نے سنا اور پڑھا کہ صرف اللّٰہ مقصود ہو، صرف اللّٰہ محبوب ہو، اس کے علاوہ اور کوئی نہ ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر چیز ہمیں کھینچ رہی ہے، اور اللّٰہ ہمیں یہ نصیب فرما دے کہ ایک وقت آ جائے کہ ہمیں صرف اللّٰہ کھینچے اور کوئی نہ کھینچ سکے، ان کے دائرے سے ہم نکل جائیں۔ ایسی حالت میں عاشق کے لئے صرف اللّٰہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ایسی صورت میں اس کے علاوہ اور کیا وہ کہے گا؟ وہ یہی کہے گا ’’ہمہ او ست‘‘ کہ بس وہی ہے۔ عاشق کے لئے کوئی اور ہے ہی نہیں۔ یہاں پر تو کوئی شک نہیں ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ عاشق کے لئے صرف اور صرف اللّٰہ ہوتا ہے۔ اور ذات بحت میں بھی صرف ہے۔ صرف کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اور نہیں ہے۔ مگر علماً غائب ہونا اور ہے، ادراکاً غائب ہونا اور ہے، حقیقتاً غائب ہونا اور ہے۔ حقیقتاً مخلوق موجود ہے، لیکن عاشق کے لئے ادراکاً مخلوق غائب ہے، تبھی تو مخلوق کا اس پہ اثر نہیں ہے۔ کیونکہ مخلوق کی موجودگی اس کا اثر لائے گی۔ تو جس وقت تک اس کے دل و دماغ میں مخلوق کا اثر نہیں ہے، تو وہ محض اللّٰہ کے لئے ہے، خالص اللّٰہ کے لئے ہے۔ لہذا اس کے لئے تو ’’ہمہ او ست‘‘ ہی ہے۔ اس کے لئے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اگر اس کو کوئی ترتیبِ عشق سے سمجھنا چاہے، تو بہت آسان ہے۔ اور اگر کوئی اس کو ترتیبِ فلسفہ سے سمجھنا چاہے، تو نا ممکن ہے۔ کیونکہ مخلوق مخلوق ہے، خالق خالق ہے۔ بالکل اس کی مثال ایسی ہے، جیسے میں کسی چیز کو چاہتا ہوں اور میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ تو میری نظر اتنی محدود تو نہیں ہے کہ میں صرف اس نقطہ کو دیکھوں، اور بھی چیزیں مجھے نظر آتی ہیں، لیکن وہ اور چیزیں عملاً نظر نہیں آتیں۔ بعد میں اگر مجھ سے کوئی پوچھے، تو مجھے بالکل پتا نہیں ہو گا کہ میں نے اور کیا چیزیں دیکھی ہیں۔ مجھے صرف اسی چیز کا پتا ہو گا۔ یہ عشق کی بات ہے اور اس کے بغیر چارہ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا کی محبت کے بارے بتایا گیا ہے۔ ’’حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيْئَةٍ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5213)
ترجمہ: ’’دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے‘‘۔
پس ہر قسم کی خطا دنیا کی وجہ سے ہے۔ چونکہ جب تک دنیا کی محبت رہے گی، یہ چیزیں بھی رہیں گی، ان سے ہم نہیں بچ سکتے۔ اور دنیا کی محبت سے نکلنے کا طریقہ یہی ہے کہ اللّٰہ کے ساتھ اتنی محبت ہو جائے کہ دنیا کی محبت اس کے سامنے ہیچ ہو جائے۔ بس یہ مطلب ہے ’’ہمہ او ست‘‘ کا۔
متن:
یہ تفریق ظاہری حقیقت میں کچھ نہیں بلکہ ”ہمہ اوست“ سب وہ ہی ہے‘‘۔
پس اے محبوب! ساقی دو ہیں: ایک ساقی بالواسطہ اور دوسرا ساقی بلا واسطہ، ساقی واسطہ مثلًا انبیاء، اولیاء، فرشتے، روحانی حضرات و اکابر اور پیر تربیت کہ "اَلشَّیْخُ الْمُرَبِّيْ أَفْضَلُ مِنْ شَیْخِ الْإِرَادَۃِ" یعنی پیر تربیت مرید کے لیے پیر ارادت سے بہتر ہے کیونکہ یہی پیرِ تربیت ساقئ واسطہ ہے۔ اور پھر خوش نصیبوں کے لیے پیرِ ارادت بھی پیر تربیت کی مانند ہوتا ہے اور یہ بڑی خوش بختی ہوتی ہے۔ لیکن ایک بہت بڑا فائدہ اس میں ہوتا ہے کہ پیرِ ارادت پیر کی طرح تربیت کرتا ہے اور اسی وجہ سے مرید کو حکومت کا موقع ملتا ہے اور پیر مرید کے مقامات باطنی کے نور کو اچھی طرح سے دیکھتا ہے اور اُس کو اپنی نعمت عطا کرتا ہے، اور یہ وہی نعمت پھر دوسروں کو بخشتا ہے تاکہ ہر طرح کی نعمت پایۂ تکمیل کو پہنچے، کیونکہ یہ کامل مریدوں کی سرگزشت ہوتی ہے۔ اور پیرِ تربیت کی فضیلت یہ ہے کہ عالمِ جبروت، ملکوت و لاہوت کا فیض مرید کو اُسی کے واسطے سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اے عزیز! یہ بات یاد رکھو کہ مرید کے لیے یہ بات واجب ہے کہ پیر پر متواتر اعتقاد رکھے اور ان ہر دو پیروں کے معائنہ میں ذرہ بھر بھی کوتاہی نہ کرے۔ اور یہ بات میں نے تعلیم کے بارے میں کہی لیکن اس بات پر سب کا اعتقاد ہے کہ پیرِ تربیت پیر ہوتا ہے اور جس مرید نے پیرِ تربیت سے تربیت حاصل نہ کی ہو تو اُس مرید کو زائر (ملاقاتی) کہتے ہیں، اس کو مرید نہیں کیا جاتا، کیونکہ اس سے پہلے وہی ارادت نہیں ہوتی اور یہی تربیت صحبت میں ہوتی ہے اور ارادت بھی اِسی تربیت اور صحبت کو کہتے ہیں۔ اور اے عزیز! اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کا فیض پیرِ تربیت کے دل سے خوش نصیب مرید کے دل میں نفوذ و سرایت کرتا ہے، پس مرید کے اعتقاد، ارادت اور محبت کے اندازے اور مقدار کے برابر شیخ کو بھی (کہ مرید کی حالت اپنے پیر کی حالت کے اندازے پر ہوتی ہے) یہ محبت زیادہ ہو جاتی ہے۔ پس یہ مئے خوار اپنے مرید کو بھی اس بالواسطہ ساقی سے دنیا میں بھی حاصل کرنے کا سبب بھی ہوتا ہے۔ بیت۔
؎ ہر کہ امروز مبین رُخ آن یار ندید
طفل راہ کہ او منتظر فردا شد
’’جو کوئی آج روز روشن اُس محبوب کا چہرہ نہ دیکھے تو وہ راستے پر چلنے والا بچہ ہے جو اس انتظار میں ہے کہ کل (قیامت میں) ملاقات ہو گی‘‘۔
دوسرا ساقی بے واسطہ کہ ﴿وَسَقَاھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا﴾ (الدہر: 21) ”اور اُن کا رب اُن کو پاک شراب پلائے گا“۔ اے عزیز! شراب محبت کو کہتے ہیں اور طہور سے مراد پاک اور بے غل و غش محبت ہے کہ اس میں کچھ مقصود نہ ہو، یعنی غیر کی محبت سے پاک ہو اور اخلاق ذمیمہ سے پاک کرنے والی ہو۔ اور واصلین کے نزدیک اخلاق ذمیمہ یہ ہوتے ہیں: یعنی کرامت، زہد، علم، وقار، حلم، عبادت، سعادت، مرتبہ، شیخی، دیانت، مقامِ کشف و کرامت، مقتدائی اور پیشوائی کی ہوس اور حرص مدرسی یعنی تدریس کرنے کا عشق،
تشریح:
حجابات مختلف رنگ کے ہیں۔ ایک بہت بڑا حجاب جو ہر وقت کسی سالک کے لئے بھی منہ کھولے تیار رہتا ہے، اس میں بہتیرے غرق ہو چکے ہیں، وہ حجاب ہے خلافت کا کہ میں خلیفہ ہو جاؤں۔ یہ بہت بڑا حجاب ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ کشف و کرامات کا شوق، سعادت کا شوق اور وقار کا شوق، اس قسم کے سارے شوق حجابات ہیں کہ انسان کو ان چیزوں کی طلب ہو جائے۔ یہ راستہ کے milestones ہیں۔ milestones کے ذریعے سے راستہ تو معلوم کیا جا سکتا ہے، لیکن milestones کو مقصود نہیں بناتے، اس کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے۔ یہ سارے راستے کے کھیل تماشے ہیں۔ حضرت نے مجھے یہی فرمایا تھا کہ دور کرو، دور کرو، یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔ چنانچہ یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں، ان پہ کھڑا نہیں ہونا، ان کو مقصود نہیں سمجھنا، اور یہ بہت بڑی چٹان ہے، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جب انسان ان چیزوں میں پھنستا ہے، تو آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ نکلے کیسے۔ عالم کے لئے اپنا علم بہت مسئلہ ہوتا ہے۔ سید کے لئے سیادت اس راستے کا بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اسی طرح خلافت اور اس قسم کی چیزیں، یہ بہت بڑے مسئلے ہوتے ہیں۔ خود ہمارے ایک جد ’’احمد آتا‘‘ رحمۃ اللّٰہ علیہ کا واقعہ ہے۔ چونکہ ان دنوں اچھے دور تھے، شیخ کی تلاش میں نکلنا باقاعدہ ایک معمول کی کاروائی ہوتی تھی۔ اب تو گاہے گاہے کسی کو نصیب ہو، تو نصیب ہو۔ اب تو پاس محلہ میں بھی ہوتا ہے، تو پروا نہیں ہوتی، طلب نہیں ہوتی۔ لیکن اس وقت لوگ دور دور سفر کرتے تھے، سینکڑوں میل سفر کیا کرتے تھے۔ قافلہ کی صورت میں جا رہے تھے کہ ہم کسی شیخ کو تلاش کریں۔ جاتے جاتے راستہ میں ایک جگہ ایک درخت کے سایہ کے نیچے سستانے کے لئے ٹھہرے، گرمی کے دن ہوں گے۔ ایک گاؤبان، جن کی شکل بھی کوئی اتنی اچھی نہیں تھی، کالے رنگ کے تھے۔ وہ بھی پاس ہی گائیں چرا رہے تھے۔ انہوں نے آپس میں بات کی کہ اب فلاں جگہ پر فلاں پیر صاحب ہیں، فلاں جگہ پر فلاں ہیں، فلاں جگہ پر فلاں ہیں، ان سے ملیں گے، یہ کریں گے اور وہ کریں گے۔ شاید وہ مامور ہوں گے، تو انہوں نے کہہ دیا کہ اس وقت پوری دنیا میں مجھ سے بڑا ولی کوئی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ ہیں، تو آپ کے پاس ہم ٹھہر جاتے ہیں، ہمیں تو مقصد پورا کرنا ہے۔ سب ان سے بیعت ہو گئے۔ اور ہمارے دادا با دلِ نخواستہ بیعت ہو گئے، ان کو کوئی اتنا زیادہ شرحِ صدر نہیں تھا۔ بہر حال! بیعت تو ہو گئے۔ سب ان کی خانقاہ چلے گئے۔ سب کو اپنے اخلاص کی وجہ سے جلدی جلدی ترقی ہونے لگی۔ اور ہمارے دادا چونکہ با دلِ نخواستہ بیعت ہوئے تھے، اس لئے وہ رکے ہوئے تھے۔ اخیر میں ان کو خیال آیا کہ باقی لوگ تو نکل گئے، میں کہاں پھنسا ہوں۔ ان کو احساس ہو گیا کہ کچھ گڑبڑ ہو گئی ہے۔ انہوں نے سوچا کہ گڑبڑ تو یہی ہے کہ میں اپنے آپ کو سید سمجھ رہا ہوں اور عالم سمجھ رہا ہوں۔ چونکہ عالم بھی تھے اور سید بھی تھے۔ انہوں نے پیرانی صاحبہ سے درخواست کی کہ میری سفارش کر دیں، تاکہ شیخ کی توجہ میری طرف ہو جائے۔ انہوں نے سفارش بھی کی، لیکن کام نہیں ہوا، شیخ کی توجہ نہیں ہوئی۔
اخیر میں مجبوراً انہوں نے یہ کیا کہ اپنے آپ کو چٹائی کے اندر لپیٹ کے رات کو تہجد کے وقت جب حضرت نماز کے لئے آئے، تو ان کے سامنے اپنے آپ کو گرا دیا، رات کے اندھیرے میں ٹھوکر لگی، تو انہیں پتا چل گیا کہ اندر کوئی ہے۔ انہوں نے آواز دی کہ کون ہو؟ کہا: احمد، جو سیادت اور علم کے غرے میں ابھی تک آپ کی توجہ سے محروم ہے۔ یہ چیز حضرت کو بہت پسند آئی، تو ان کو چٹائی سے نکال کر اپنے گلے سے لگا لیا، اپنے ساتھ مسجد لے گئے، اور توجہ نصیب ہو گئی۔ چند دن میں حضرت نے خلافت دے کر رخصت کر دیا۔ کیونکہ عالم بھی تھے، سید بھی تھے، لیکن اس کو مٹانا تھا، اس کے بغیر مٹ نہیں رہا تھا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ سید کی سیادت نہیں ختم ہو سکتی، عالم کی عالمیت ختم نہیں ہو سکتی۔ لیکن اگر اس کا علم مقصودی چیز بن جائے اور وہی مطلوب ہو جائے یعنی وہ رکاوٹ اور حجاب بن جائے، تو اس کو دور کرنا پڑے گا۔ اسی طرح سید کا معاملہ ہے۔ لہذا انسان کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ یہ چیزیں رکاوٹ نہ بنیں۔ یہ چیزیں ہوں گی تو سہی، لیکن رکاوٹ نہ بن جائیں۔ ’’ہمہ او ست‘‘ کا یہی مطلب ہے کہ اس میں یہ چیزیں ختم ہو جاتی ہیں، لہذا صرف اللّٰہ ہی اللّٰہ مقصود ہو جاتا ہے، اللّٰہ ہی اللّٰہ محبوب ہو جاتا ہے اور ان کے دل میں اور تصور میں اللّٰہ ہی اللّٰہ رہ جاتے ہیں، اور کوئی نہیں رہتا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ