زمانہ طفولیت سے لیکر عمر کے آخری حصے اور وفات کے بعد بھی حضرت صاحب کے عادات و کرامات وغیرہ کے بیان میں اور آپکے متفرق اعمال اور وفات

باب 14 ، درس 45

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ 0 الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَ ونس: 62-63) صَدَقَ اللّٰہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ

در اصل آج ہمارا پروگرام یہاں نہیں تھا۔ ہوا یوں کہ ڈسکہ میں ہمارا جوڑ تھا، وہاں سے ہماری واپسی ذرا لیٹ ہوئی۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم خانقاہ پہنچ جائیں گے، لیکن وقت کو دیکھا، تو ایسا ممکن نہیں تھا۔ دوسری طرف الحمد للہ ہمارا یہ معمول ہے کہ خانقاہ میں ہمارے جو پروگرام چلتے ہیں، ان میں ناغہ نہیں ہونے دیتے۔ اس لئے یہ فکر بھی تھی کہ کہیں ناغہ نہ ہو جائے اور چونکہ یہ پروگرام، جیسے ابھی آپ دیکھ رہے ہیں، نیٹ پر چلتا ہے اور الحمد للہ پوری دنیا میں سنا جاتا ہے، اور ساتھی انتظار میں ہوتے ہیں، لہٰذا ناغہ صرف یہاں کے لئے نہیں ہوتا، بلکہ ان کے لئے بھی ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیں خیال رکھنا پڑتا ہے۔ الحمد للہ ہماری خانقاہ میں چار پروگرام چلتے ہیں، جو مسلسل چل رہے ہیں۔ جن میں ایک تو بہت پرانا ہے ’’درسِ مثنوی‘‘۔ میرے خیال میں کوئی نو سالوں سے چل رہا ہے، الحمد للہ۔ ہر ہفتے کے دن مغرب کے بعد یہ پروگرام ہوتا ہے۔ اس کا اپنا ایک ذوق ہے اور بعض ایسے مضامین جو ویسے مشکل سے سمجھ میں آتے ہیں، حضرت نے اپنی مثنوی میں ان کو بہت آسان طریقے سے اور مؤثر طریقے سے بیان فرمایا ہے۔ اور ہمارے اکابرین اس کا درس دیا کرتے تھے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بائیس جلدوں میں ’’کلیدِ مثنوی‘‘ لکھی ہے۔

دوسرا درس منگل کے دن ہوتا ہے، جیسے آج ہے۔ ہمارے جدِ امجد حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات کا اور حالات کا درس ہوتا ہے۔ یہ بھی انتہائی مبارک درس ہے۔ اور کسی درجے میں اولیاء اللّٰہ کی صحبت کا قائم مقام ہے، کیونکہ جب ان حضرات کی صحبت میسر نہ ہو، تو پھر ان کے حالات پڑھنے سے اور ان کی تعلیمات کو جاننے سے اس کا کچھ حصہ نصیب ہو سکتا ہے۔

تیسرا درس بدھ کے دن ہوتا ہے۔ یہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مکتوبات شریفہ کا درس ہے۔ یہ بہت قیمتی درس ہے۔ اس میں حضرت کی روحانیت کی برکت سے بہت مشکل چیزیں الحمد للہ آسان ہو جاتی ہیں۔ یہ درس بھی سال سے زیادہ عرصے سے چل رہا ہے۔ ان درسوں سے ما شاء اللّٰہ کتاب بھی وجود میں آئی، جس کا نام ہے ’’حقیقتِ جذب و سلوک‘‘ یہ درس بھی چل رہا ہے اور یہ بھی الحمد للہ عالمی سطح پر بہت زیادہ سنا جاتا ہے۔

ہمارا چوتھا درس حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب ’’الطافُ القدس‘‘ کا ہوتا ہے۔ جس میں حضرت نے لطائف کا ذکر کیا ہے، یعنی انسان کے جسم میں جو لطیفے ہیں، جو ذکر سے منور ہوتے ہیں اور پھر بعد میں اللّٰہ جل شانہ کے تعلق کا بہت زبردست ذریعہ بنتے ہیں۔ ان پر کلام فرمایا ہے۔ یہ بہت مشہور اور اہم کتاب ہے۔ لیکن اس کی تشریح آج کل ضروری تھی، الحمد للہ وہ تشریح اللّٰہ تعالیٰ نے کروا دی۔ امید ہے کہ ان شاء اللّٰہ یہ چھپ جائے گی۔ اور پھر جمعرات کے دن ہی حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب ’’عبقات‘‘ شروع ہو چکی ہے، اس کے تین درس ہو چکے ہیں۔ بہر حال! یہ جتنے بھی دروس ہیں، چونکہ ان میں شامل حضرات کی بھی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ ان میں ناغہ نہ ہو اور ان تمام چیزوں سے وہ واقف ہوں۔ چونکہ آج منگل کا دن حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات کا تھا، اس لئے سب سے پہلے میں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا تعارف پیش کرتا ہوں، کیونکہ نئے ساتھیوں کے سامنے تعارف اچھا طریقہ ہے۔

حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا زمانہ اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللّٰہ علیہ سے تقریباً کچھ عرصہ پہلے کا ہے، کچھ وقت ان کا بھی پایا ہے۔ اور KPK کے انتہائی اونچے درجہ کے بزرگوں میں شامل ہیں۔ عارفین حضرات جانتے ہیں کہ KPK میں ان کے بعد ان کے درجے کا کوئی بزرگ ابھی تک نہیں آیا۔ اللّٰہ جل شانہ نے حضرت کو بڑے اونچے درجات عطا فرمائے تھے۔ ظاہر ہے کہ بڑے بڑے اولیاء اللّٰہ گزرے ہیں، لیکن ان اولیاء اللّٰہ کی اولاد میں بعد میں بھی ولایت کا سلسلہ چلتا رہا ہو، یہ ہر جگہ نہیں ہوتا۔ مگر اس خاندان کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بیٹوں تک ولایت کا یہ سلسلہ مسلسل چلا آ رہا ہے۔ ان کے والد صاحب سہروردی سلسلہ کے بزرگ تھے، ان کے دادا مست بابا چشتیہ سلسلہ کے بزرگ تھے، ان کے والد صاحب غالب بابا نقشبندی سلسلہ کے بزرگ تھے۔ گویا مختلف سلسلوں میں ان کا سلسلہ چلا آ رہا ہے اور ولی ابن ولی ابن ولی ابن ولی، الغرض! یہ سلسلہ آپ ﷺ تک چلا جا رہا ہے۔ چنانچہ یہ انتہائی اونچے درجہ کی ولایت کے حضرات تھے۔ لیکن ہمارے ہاں ایک کمی پائی جاتی ہے، وہ کمی بہت محروم کرنے والی ہے۔ اسی لئے ہم نے یہ سلسلہ شروع کیا۔ جتنے بھی اولیاء اللّٰہ گزرے ہیں، ان کے خاندان والے یا ان کی اولاد یا ان کے ماننے والے معتقدین ایک ہی کام کرتے ہیں کہ ان کی کرامات بیان فرماتے ہیں، مگر ان کی تعلیمات بیان نہیں کرتے۔ حالانکہ کرامات ان کو بیان کرنی چاہئیں، جو ان کو نہ مانتے ہوں۔ جو نہ مانتا ہو، اس کے سامنے ان کی کرامات بیان کرو۔ لیکن جو مانتا ہو، اس کو ان کی تعلیمات چاہئیں۔ اور تعلیمات سے ہی عوام کو فائدہ ہوتا ہے۔ الحمد للہ! ان کے صاحبزادہ کی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘، اس میں جہاں انہوں نے کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے احوال بیان کئے، وہاں حضرت کے احوال کے ساتھ ساتھ حضرت کی تعلیمات بھی ہیں۔ یقیناً حضرت کی کرامات بہت ساری تھیں، وہ بھی اس کتاب میں ہیں۔ لیکن اصل چیز جس پہ زور دیا گیا، وہ حضرت کی تعلیمات ہیں۔ اور اتنے اونچے درجہ کی تعلیمات ہیں کہ جنہوں نے بھی یہ دروس سنے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایسی باتیں ہم نے پہلے کبھی نہیں جانی تھیں۔ گویا بہت اونچے درجہ کی معرفت کی باتیں حضرت کی طرف سے ان کے صاحبزادہ نے کی ہیں۔ ایک دفعہ اس کتاب کے مؤلف، حضرت کے صاحبزادہ مولانا حلیم گل بابا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پوچھا: بابا! بزرگوں کے مقامات ہوتے ہیں، آپ کا کون سا مقام ہے؟ حضرت نے فرمایا: بیٹا! میں نے بزرگی بزرگوں کے لئے چھوڑی ہے، درویشی درویشوں کے لئے چھوڑی ہے، علم علماء کے لئے چھوڑا ہے، بس بندگی کا ایک طوق ہے، جو میرے گلے میں ہے، میں سمجھتا ہوں کہ موت تک اگر یہ باقی رہے، تو یہی میری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت کو اللّٰہ تعالیٰ نے مقامِ عبدیت کی نعمت نصیب فرمائی تھی، جو ولایت کا سب سے اونچا مقام ہے۔ چنانچہ عبدیت یعنی خالص بندگی کا حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے لئے اظہار فرمایا ہے۔ ایک دفعہ مجھے ایک خصوصی موقع پر مہمانِ خصوصی کے طور پر زیارت کاکا صاحب بلایا گیا، تو وہاں پر ساری کی ساری کرامات بیان کی جا رہی تھیں۔ میں نے ان سے بھی یہ بات عرض کی کہ کرامات تو ان کے سامنے بیان کرو، جو ان کا منکر ہو۔ یہاں تو منکر کوئی نہیں، یہاں سارے ماننے والے ہیں، ان کے لئے تعلیمات بیان کرو، تاکہ ان کو فائدہ ہو۔ اللّٰہ کا شکر ہے کہ اس کے بعد سب مقررین نے کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات پر بھی کسی نہ کسی درجہ میں بات کی۔ الحمد للہ اس کتاب کی برکت سے ہمیں بھی حضرت کی بہت ساری چیزیں معلوم ہو گئیں اور ما شاء اللّٰہ اس سے ایسی ایسی باتیں معلوم ہوئیں، جو پہلے کبھی ذہن میں بھی نہیں آئیں۔ جیسے: فقر کی تعریف ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان وہ عمل کیوں نہیں کرتا، جو کرنا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس ہمارے لئے ایک رکاوٹ ہے، لہٰذا نفسانی خواہشات غالب آ جاتی ہیں، جس کی وجہ سے انسان عمل سے رہ جاتا ہے۔ دنیا کی محبت غالب آ جاتی ہے، جس کی وجہ سے انسان رہ جاتا ہے۔ نفس کا علاج مجاہدہ ہے، اور دل کا علاج دنیا کی محبت کو نکالنا اور اللّٰہ کی محبت کو اس میں ڈالنا ہے۔ اور اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کو ڈالنے کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرایا جاتا ہے، اتنا ذکر کرایا جاتا ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کو دل میں راسخ کر دے۔ گویا کہ ایک طرف عشق اس درجہ پہ پہنچ جائے کہ دنیا کی محبت اس کے سامنے ہیچ ہو جائے۔ اور زہد نفس کا علاج ہے، یعنی نفس کا یہ مجاہدہ ہے کہ نفس جو چیز چاہے، اس سے انکار کرنا۔ جب زہد اور عشق آپس میں مل جائیں، تو اس کو فقر کہتے ہیں۔ خوشحال خان خٹک رحمۃ اللّٰہ علیہ پشتو زبان کے مشہور شاعر گزرے ہیں، لیکن بہت بڑے عالم بھی تھے اور کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مرید تھے۔ کاکا صاحب کی آخری رات خدمت انہوں نے کی ہے۔ حضرت جس رات فوت ہوئے ہیں، اس رات کی خدمت خوشحال خان خٹک نے حضرت کے بیٹوں سے منت کر کے لی تھی کہ آپ مہربانی کر کے مجھے موقع دیں کہ میں حضرت کی خدمت کر لوں۔ اور کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا تشریف لے جانے کا موقع بھی بڑا عجیب تھا، جس سے ان کے مقام کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ جمعہ کا دن تھا، خطیب خطبہ دے رہے تھے، خطبے کے اندر کسی بزرگ کا یہ قول پڑھا جا رہا تھا: ’’اَلْمَوْتُ جَسْرٌ يُّوْصِلُ الْحَبِيْبَ إِلَى الْحَبِيْبِ‘‘ کہ موت تو ایک پل ہے، جو حبیب کو حبیب کے ساتھ ملا دیتی ہے۔ ادھر خطبہ میں یہ قول پڑھا جا رہا تھا اور ادھر حضرت کی جان نکل گئی۔ گویا ایسے موقع پہ روح پرواز کر گئی کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ عشاق کی اللّٰہ تعالیٰ کتنی لاج رکھتے ہیں، کیونکہ پوری عمر عشق میں گزری ہے، لہٰذا آخری وقت بھی اللّٰہ تعالیٰ نے ایسا نصیب فرمایا کہ جمعہ کے دن فوت ہوئے اور جمعہ کے دن دفن ہوئے، لہٰذا یہ برکت بھی حاصل ہو گئی۔ در اصل فقر عشق اور زہد کا اجتماع ہے۔ جیسے: موسیٰ علیہ السلام مدین گئے تھے، تو اس وقت ان کے پاس کچھ نہیں تھا، بس اللّٰہ کی محبت سے سرشار تھے۔ قرآن پاک میں ان کے بارے میں آیا کہ: ﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ (القصص: 24)

ترجمہ: ’’میرے پروردگار! جو کوئی بہتری تو مجھ پر اوپر سے نازل کر دے، میں اس کا محتاج ہوں‘‘۔

بہر حال! میں خوشحال خان خٹک کی بات کر رہا تھا، انہوں نے کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا جو قطعۂ وفات لکھا ہے، وہ یہ ہے: ’’با فقر رفت‘‘، اس سے تاریح نکلتی ہے۔ جس کا معنی ہے؛ فقر کے ساتھ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔

متن:

﴿هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌؕ وَّاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ (التغابن: 2) ”وہی ہے جس نے تم کو بنایا، کوئی تم میں سے منکر ہے اور کوئی ایماندار، اور اللّٰہ تعالیٰ جو تم کرتے ہو دیکھتا ہے“۔ ہاں البتہ یہ بات جاننی چاہئے کہ خوارق یعنی خرق عادت کا ظاہر ہونا بِالذات ہدایت کے اسباب میں سے نہیں،

تشریح:

چونکہ جنہوں نے یہ لکھا ہے وہ عالم ہیں اس لئے وہ ساری باتوں کا خیال رکھتے ہیں۔

متن:

خرق عادت کا ظاہر ہونا بِالذات ہدایت کے اسباب میں سے نہیں، اگرچہ استثنائی طور پر اتفاقًا بعض خوش نصیبوں کے لئے موجبِ ہدایت ہو جاتا ہے، بلکہ ان خوارق کا ظہور اتمامِ حجت کی خاطر ہوتا ہے،

تشریح:

یعنی جو لوگ نہیں مانتے یا جو لوگ نہیں سمجھتے یا جو لوگ غافل ہیں، ان کو غفلت سے بیدار کرنے کے لئے یہ چیز سامنے لائی جاتی ہے۔ جیسے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ جب ہندوستان میں تشریف لائے تھے تو نوے لاکھ لوگ ان کے ہاتھ پہ مسلمان ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کچھ ایسی باتیں، کچھ تعلیمات، کچھ حالات ایسے تھے کہ لوگ متاثر ہوتے جاتے تھے، اور حضرت کے ہاتھ پہ مسلمان ہوتے جاتے تھے۔

متن:

کیونکہ یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہدایت وہ نور ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے ازلی خوش نصیب لوگوں کے دلوں پر بارش کی طرح برستا ہے اور ان کو محبوب حقیقی کی محبت میں اُکسا کر آمادہ کرتا ہے۔ رہی یہ بات کہ خرقِ عادت چیز کس طرح صادر ہوتی ہے؟ تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے عالمِ تکوین میں عجیب و غریب تصرفات ودیعت فرمائے ہیں، اور یہ اپنے مقبول بندوں میں سے کسی مقبول بندے کی تصدیق کرانے کے خاطر ہوتے ہیں، اور عالم تکوین میں خرقِ عادت کے ظہور کی طاقت نہاں رکھی ہے اور اس کو ظاہر کرنے کا حکم دیتا ہے، اس میں کوئی شک و شائبہ نہیں کہ عالم تکوین میں تصرف کی طاقت اور قدرت اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے خواص کی وجہ سے ہے، نہ کہ کسی انسان کی قدرت کے آثار کی وجہ سے، اور نہ اِس کی طاقت فرشتے میں ہوتی ہے،

تشریح:

یہ ہمارے ہاں ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس بارے میں ہمارے اکابر یہ مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ در اصل کرامت ولی کا فعل نہیں ہوتا اور معجزہ نبی کا فعل نہیں ہوتا۔ معجزہ بھی اللّٰہ کا فعل ہوتا ہے، کرامت بھی اللّٰہ کا فعل ہوتا ہے۔ البتہ معجزہ نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے اور کرامت ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتی ہے۔ اور معجزہ نبی کی نبوت کی نشانی کے طور پر ظاہر ہوتا ہے اور کرامت ولی کے مقام کو بتانے کے لئے ظاہر ہوتی ہے۔ ورنہ حقیقت میں یہ دونوں اللّٰہ کی قدرت سے ہیں۔ ہمارے گاؤں کے ہمارے ایک دوست تھے، جو بہت ذہین تھے، وہ بیچارے ایسے لوگوں کے نرغے میں آگئے، جو ان چیزوں کو نہیں مانتے تھے۔ کراچی میں میں رہتے تھے۔ بہت پریشان تھے، جب وہ واپس آئے، تو مجھے تو پتا نہیں تھا ان کے ساتھ یہ حادثہ ہو چکا ہے۔ ہم سیر کر رہے تھے، راستہ میں ان کی زبان سے حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں کوئی گستاخانہ فقرہ نکلا۔ میں بہت گھبرا گیا۔ میں نے کہا کہ تم نے یہ کیا کہا؟ اس نے کہا: کیوں، آپ کو تکلیف ہوئی ہے؟ میں نے کہا: مجھے تکلیف نہ ہو، تو کیا خوشی ہوتی؟ اس نے کہا: اگر یہ بات ہے، تو میرے دل میں جو کچھ ہے، اگر وہ ظاہر ہو جائے تو آپ بہت ہی زیادہ پریشان ہو جائیں گے۔ میں نے کہا: یا اللّٰہ خیر! یہ کیا ہو گیا ہے، پتا نہیں، کہاں پہنچ گیا۔ میں جو کچھ کہہ سکتا تھا، کوشش کی کہ اس کو سمجھاؤں، لیکن وہ ذہین آدمی تھے، ہر بات کا توڑ نکال لیتے تھے۔ لہذا بچتے بچاتے اپنے آپ کو بچا گئے اور میری باتوں میں نہیں آئے۔ میں نے سوچا کہ اپنے بزرگوں کے پاس ان کو لے جانا چاہئے، ممکن ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرما دے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ محقق آدمی ہیں؟ کہتے ہیں: ہاں۔ میں نے کہا کہ تحقیق کے لئے تو لوگ بڑے بڑے سفر کرتے ہیں۔ آپ بھی ایک سفر کر سکتے ہیں؟ کہتے ہیں، مثلاً: کدھر؟ میں نے کہا: پشاور۔ کہتے ہیں: ہاں، ہو سکتا ہے، لیکن ایک شرط پر کہ جیسے ہی مغرب کی نماز پڑھ لیں، اس کے بعد فوراً روانہ ہونا ہے۔ اس کے بعد مزید ہم نے نہیں ٹھہرنا۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے، مناسب ہے۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مجلس عصر سے مغرب تک ہوتی تھی۔ اس مجلس میں شرکت کے لئے ہم روانہ ہو گئے۔ میں نے یہ سوچا کہ میں حضرت سے بات کر لوں گا، حضرت ان کو سمجھا دیں گے۔ خدا کی شان، بسیں ہمارے کنٹرول میں تو نہیں تھیں، ہم لیٹ ہو گئے اور جب ہم پہنچے، تو عصر کی نماز ہو چکی تھی اور بات شروع ہو چکی تھی۔ ہم نے نماز تو پڑھ لی، لیکن مجھے یہ موقع نہیں ملا کہ میں حضرت سے ان کے بارے میں کہہ سکوں۔ پھر میں سوچتا رہا کہ اگر حضرت کی بات جلدی پوری ہو گئی، تو میں پھر عرض کر لوں گا۔ لیکن اس دن بات بڑی لمبی ہو گئی اور مغرب کی آذان ہو گئی۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ شاید اس شخص کی قسمت میں یہ نعمت نہیں تھی، موقع نہیں ملا۔ مغرب کی نماز ہو گئی، نماز کے بعد اس نے کہا کہ چلتے ہیں۔ میں نے کہا: جی، بالکل چلتے ہیں۔ کیونکہ وعدہ جو تھا۔ لیکن بڑے بوجھل دل سے میں باہر نکل رہا تھا۔ جیسے ہی میں جوتے پہن رہا تھا، اس نے مجھے کہا کہ آپ نے تو مولانا کی تعریف ہی نہیں کی تھی۔ مولانا تو بہت بڑے آدمی ہیں۔ میں سمجھا کہ شاید یہ مجھے چھیڑ رہا ہے۔ کیونکہ جو شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو کچھ نہ مانتا ہو، وہ ان کو کیا مانتا ہو گا۔ میں نے کہا کہ اس میں گپ شپ کی بات نہیں چلے گی۔ کہتے ہیں کہ میں گپ نہیں لگا رہا، بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں، بہت بڑے بزرگ ہیں۔ میں نے کہا: آپ کو کیسے پتا چلا؟ ہمارے لئے تو معمول کی مجلس تھی۔ آپ کو ان میں کون سی خاص بات نظر آئی کہ آپ نے کہا کہ یہ بڑے بزرگ ہیں۔ کہتے ہیں کہ بتاتا ہوں۔ کہنے لگے کہ جب حضرت نے فلاں بات فرمائی تھی، تو اس پہ مجھے اشکال ہو گیا، حضرت نے اس کا جواب دیا۔ کہا کہ یہ ممکن تھا، ہو سکتا ہے، by chance ایسی بات ہو جاتی ہے۔ لیکن اس جواب پر بھی مجھے اشکال ہو گیا۔ حضرت نے اس کا بھی جواب دے دیا۔ کہتے ہیں کہ یہ مشکل تھا، کیونکہ ان کو کچھ معلوم تو نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت نے جو تیسری بات فرمائی، اس پر بھی مجھے اشکال ہو گیا۔ حضرت نے اس کا بھی جواب دے دیا، تو میں حیران ہو گیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، یہ تو نا ممکن ہے۔ اب میں نے سوچا کہ ما شاء اللّٰہ لوہا گرم ہے، اب چوٹ لگانی چاہئے۔ میں نے کہا: میں تو آپ کو بہت ہوشیار سمجھتا تھا، آپ تو بڑے بودے نکلے۔ کہتے ہیں: کیسے؟ میں نے کہا کہ مجھے یہ بتاؤ کہ کیا تمہیں اس پر ایمان ہے کہ جس کے دماغ میں جو ہے، وہ اللّٰہ کو پتا ہے؟ کہتے ہیں: کیوں نہیں؟ اس پر ہمارا ایمان ہے۔ میں نے کہا: اس پر تمہارا ایمان ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ جس کی زبان پر جو جاری کرنا چاہے، جاری کر سکتا ہے، چاہے اس کی مرضی ہو یا نہ ہو؟ کہتے ہیں: کیوں نہیں، اس پر ہمارا ایمان ہے، اللّٰہ تعالیٰ سب کچھ کر سکتا ہے۔ میں نے کہا: سبحان اللّٰہ! بات تو پھر پوری ہو گئی۔ پھر میں نے کہا: دیکھو! تمہارے دماغ میں ایک بات آ گئی۔ اللّٰہ کو اس کا پتا چل گیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے مولانا صاحب کی زبان پر اس کا جواب جاری کیا۔ کیا یہ مشکل ہے؟ کہتے ہیں: ہاں! ایسا تو ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم اس کو کرامت کہتے ہیں۔ تم سمجھتے ہو کہ کرامت ولی کا فعل ہے، اس لئے پریشان ہو۔ اور ہم کہتے ہیں کہ کرامت ولی کا فعل نہیں ہے، اللّٰہ کا فعل ہے، جو صرف ولی کی زبان پر، ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیں کوئی پریشانی نہیں۔ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ تو سب کچھ کر سکتا ہے۔ معجزہ اور کرامت میں کمیتاً کوئی فرق نہیں ہوتا، صرف اصلاً فرق ہوتا ہے یعنی معجزہ نبی علیہ السلام کا ہوتا ہے اور کرامت ولی کے لئے ہوتی ہے۔ الحمد للہ، اس سے ان کا سارا ذہن صاف ہو گیا، اور ما شاء اللّٰہ جن چیزوں سے وہ انکار کر رہے تھے، ان سب چیزوں کا اقرار کرنے لگے۔ پس یہ چیز اس کے لئے ہدایت کا باعث بن گئی۔ جیسے فرمایا: بعض خوش نصیبوں کے لئے ہدایت کا سامان بن جاتا ہے۔ اسی طرح ان کے لئے یہ ہدایت کا سامان بن گیا۔

متن:

اور ما سویٰ اللّٰہ کی قدرت نص قطعی و قرآنی سے ممنوع ہے: ﴿أَبْصِرْ بِهٖ وَأَسْمِعْؕ…﴾ (الکهف: 26)اللّٰہ تعالیٰ کی ذات عالی کے لئے آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ باتوں کا علم ہے وہ بینا اور شنوا ہے“ ﴿مَا لَكُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّ لَا نَصِيْرٍ﴾ (الشوری: 31) ”انسانوں کے لئے اس کے سوا کوئی مدد گار اور مالک نہیں“ اور ربِ ذو الجلال کسی دوسرے کو حکم میں شریک نہیں بناتا، ﴿تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا﴾ (الفرقان: 1-2) ”بڑی برکت ہے اس کی ذات جس نے اتاری فیصلہ کی کتاب اپنے بندہ پر تاکہ رہے جہان والوں کے لئے ڈرانے والا۔ اسی کی سلطنت آسمان اور زمین میں ہے اور نہیں پکڑا اس نے بیٹا اور نہیں کوئی اس کا ساجھی سلطنت میں۔ اور بنائی ہر چیز اور ٹھیک کیا اُن کو ماپ کر“۔ اور اس طرح قرآن مجید میں بہت سارے احکام ہیں، ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةًؕ وَّ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ أَنْ یَّاْتِيَ بِاٰیَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰهِؕ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ یَّمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ﴾ (الرعد: 38-39) ”اور بھیج چکے ہیں ہم کتنے رسول تجھ سے پہلے اور ہم نے دی تھیں اُن کو جوروئیں (بیویاں) اور اولاد، اور نہیں ہوا کسی رسول سے کہ وہ لائے کوئی نشانی مگر اللّٰہ کے اذن سے۔ ہر ایک وعدہ ہے لکھا ہے، مٹاتا ہے اللّٰہ تعالیٰ جو چاہے اور باقی رکھتا ہے، اور اسی کے پاس ہے اصل کتاب“۔

اس تمام تقریر سے یہ بات معلوم ہوئی کہ خرقِ عادت ہدایت کا سبب نہیں اور نہ یہ بات لازم ہے کہ ولی بغیر کرامت کے نہیں ہوتا اور نہ یہ کہ خرق عادت ولایت کی دلیل ہے، پر اگر کوئی ولی ہونے کے اوصاف نہ رکھتا ہو مگر کچھ نہ کچھ خرق عادت رکھتا ہو تو پھر بھی وہ ولی نہیں، کوئی شخص محض خرق عادت سے ولی نہیں ہوتا۔

تشریح:

اب میں اپنے مطلب کی بات کرتا ہوں۔ یہ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس ضمن میں بات فرمائی تھی کہ کرامت کا اجر ایک دفعہ سبحان اللّٰہ کہنے کے برابر بھی نہیں ہے۔ کیونکہ سبحان اللّٰہ اختیاری فعل ہے اور کرامت غیر اختیاری فعل ہے، اور غیر اختیاری فعل کا کوئی اجر نہیں ہوتا۔ مثلاً سادات گھرانے میں پیدا ہونے کا کوئی اجر نہیں ہے۔ یہ اس سے اختیار سے نہیں ہوا، انسان کو اس کے اخیتاری عمل کا ہی اجر ملتا ہے۔ اور کرامت انسان کا فعل نہیں ہے، اللّٰہ کا فعل ہے۔ انسان کے لئے غیر اختیاری ہے، لہذا اس پر اس کو کوئی اجر نہیں ملتا۔ ہاں اس سے اس کا اکرام ظاہر ہوتا ہے۔ گویا اپنے اعمال کی وجہ سے جس اونچے مقام پہ پہنچا ہے اس اونچے مقام کو اللّٰہ نے ظاہر کر دیا ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے وہ اونچے مقام پہ پہنچ گیا، کرامت کی وجہ سے کوئی اونچے مقام پہ نہیں پہنچتا، بلکہ کرامت اونچے مقام پہ ہونے کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آگے حضرت نے یہ بات فرمائی کہ:

متن:

کوئی شخص محض خرقِ عادت کی وجہ سے ولی نہیں ہوتا، اب میں اپنے مطلب کی بات کرتا ہوں کہ اپنے قطب حقیقی کے علامات اور خرق عادت کا ذکر کر لوں۔

تشریح:

یہ بالکل وہی بات ہے جیسے میں نے آپ سے عرض کیا کہ ہم حضرت کی کرامات کی بات نہیں کرتے۔ چنانچہ اس سے پہلے پوری کتاب گزری ہے جس میں حضرت کی تعلیمات تھیں۔ اب اخیر میں خرقِ عادت کو بیان کیا ہے۔ گویا حضرت نے ان کو اپنی جگہ پر رکھا ہے کہ اصل تعلیمات ہیں۔ لیکن چونکہ خرقِ عادت تھیں تو سہی، ان سے انکار تو نہیں ہے، اس لئے اب ان کو بیان کر رہے ہیں۔

متن:

اور یہ سب کچھ میں سلسلہ وار بیان کروں گا۔ سب سے پہلے صاحب موصوف کی والدہ محترمہ سے روایت ہے کہ حضرت صاحب بچپن اور شیر خوارگی کے زمانے میں اکثر رویا کرتے تھے اور دن رات میں صرف شام کے وقت ماں کی چھاتی سے لگ کر دودھ پیتے، پھر نہ کسی وقت پیا کرتے اور ہر وقت گریہ و نالہ کرتے رہے اور شفیق ماں ان کے مسلسل رونے سے نہایت آزردہ اور غمگین رہا کرتی تھیں،

تشریح:

بعض مادر زاد ولی اللّٰہ ہوتے ہیں، یعنی ان کو اللّٰہ تعالیٰ نے بچپن سے ولایت نصیب کی ہوتی ہے۔ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی ان حضرات میں تھے۔ یہ ان کے بارے میں ان کے بیٹے کہہ رہے ہیں اور وہ عالم ہیں۔ اور یہ جتنی بھی باتیں کی ہیں سب سند کے ساتھ کی ہیں۔ چنانچہ یہاں حضرت فرماتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں وہ بچپن میں والدہ کا دودھ دن کے وقت نہیں پیا کرتے تھے، افطار کے بعد پیا کرتے تھے۔ بس اللّٰہ تعالیٰ قادر ہے کسی سے بھی کروا سکتا ہے۔

متن:

اور ہر وقت گریہ و نالہ کرتے رہے اور شفیق ماں ان کے مسلسل رونے سے نہایت آزردہ اور غمگین رہا کرتی تھیں، اور بہت زیادہ فکرمند رہتیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی جِن یا آسیب کا اثر ہو، جس میں یہ مبتلا ہو کر روتے ہوں۔ حضرت صاحب کے والد محترم شیخ بہادر بابا جو کہ "اَبَک صاحب" کے نام سے مشہور ہیں، نے آپ کی والدہ محترمہ کو فرمایا کہ اے بختی! (حضرت صاحب کی ماجدہ والد کا نام) کوئی ایسی فکر نہ کرو کہ ان پر کسی دیو یا پری کا اثر ہو گا، اس لئے کہ ان کے ساتھ کسی دیو یا پری جن و آسیب کا کوئی کام نہیں اور اُن کی اتنی طاقت نہیں کہ اِن کو کوئی تکلیف پہنچائیں لیکن اس بچے کا ایک خاص مرتبہ ہے جس کا نور اِس کو دکھایا جاتا ہے، لیکن یہ اُس کے ضبط کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس لئے روتا ہے۔

تشریح:

یعنی چونکہ یہ ابھی بچہ ہے اور ضبط کم ہے اس لئے اس کو جو انوارات نظر آتے ہیں ان کی وجہ سے روتا ہے۔

متن:

اور شام کے وقت ہر روز جو یہ دودھ پیا کرتا ہے تو یہ روزہ دار ہوتا ہے اور اسی وقت روزہ افطار کرتا ہے، تسلی رکھو اور فکر نہ کرو۔ اور صاحب موصوف یعنی ایک صاحب نے فرمایا کہ مجھے ایک درجہ حاصل ہے یعنی علم باطن کا اور ان کو دو درجے حاصل ہیں، یعنی علم ظاہر و علم باطن دونوں اس کو حاصل ہوں گے۔ اور آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ اے عزیز بختی! یعنی جو تو نے میری موجودگی میں نہیں دیکھا اُس کے زمانے میں دیکھ پاؤ گی۔ اور یہ بھی ہمارے شیخ المشائخ کے بارے میں فرما چکے کہ یہ بچہ گنے کی طرح میٹھا اور خوش ذائقہ ہو گا اور جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے دیکھنے سے یعنی جو کوئی بھی اُنہیں دیکھتا، دو دو اور تین تین مہینے کھانے کی ضرورت سے بے نیاز ہو جاتا، اسی طرح حضرت شیخ صاحب کے دیکھنے پر اکثر دوست اور محب لوگ آپ کے دیدار کے ذوق کی وجہ سے کھانے کی حاجت نہیں رکھتے تھے۔

تشریح:

حضرت کے ہاں یہ بات بہت زیادہ تھی کہ جو حضرات حضرت کے ہاں آتے تھے، اللّٰہ جل شانہٗ ان کو یہ ذوق عطا فرما دیتے کہ بعض ایسی چیزوں سے ان کا جی بھر جاتا جن کی ممانعت ہوتی۔

متن:

تیسری بات یہ کہ جو کوئی آپ کی مجلس سے چلا جاتا تو اس کو آپ کی مجلس کی یاد ستاتی اور آپ کی مجلس میں آنے کی محبت اُن کے دل پر غلبہ کرتی۔ چوتھی بات یہ کہ حضرت صاحب کے کلام سے اُن کو تازگی اور حلاوت حاصل ہوتی اور بہت لطف اُٹھاتے، حضرت صاحب اکثر حالتوں میں عالمِ استغراق و معرفت میں خاموش رہتے اور کسی قسم کی بات نہ فرماتے۔ کیونکہ مشہور ہے کہ "مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ کَلَّ لِسَانُہٗ" یعنی جس نے اللّٰہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی تو اس کی زبان خاموشی اختیار کرتی ہے، اور یہ خاموشی کی حالت اُن پر اکثر طاری رہتی۔ اور اگر سامعین کی خاطر کچھ کہنا چاہتے تو اپنی خلوت گاہ میں ارشاد فرماتے اور وہ بھی آہستہ، نرم الفاظ، اشارہ و رمز کے انداز میں فرماتے، اونچی آواز سے کبھی بھی بات نہ کرتے۔ اور اگر کبھی گھر میں اہل و عیال کے ساتھ کچھ فرماتے اور ہنستی مذاق کی بات ہوتی تو تبسم فرماتے اور قہقہہ یا بلند آواز سے کبھی ہنسی نہیں کی۔ ایک دن خفتن یعنی عشاء کی نماز کے بعد گھر میں فرمانے لگے کہ اے میرے اہل و عیال! آج مجھے ایک چیز ہاتھ آئی ہے، اگر تم اُس کو لینا چاہو تو وہ میں تمہیں دیتا ہوں اور اگر مجھے دینا چاہو تو میں اُسے قبول کرتا ہوں۔ ہماری والدہ صاحبہ نے فرمایا ہے کہ اگرچہ وہ چیز نہایت اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو، میں اُسے نہیں لینا چاہتی کیونکہ وہ بھی تارک الدنیا تھیں۔ ہم نے عرض کی کہ اُس چیز کے دیکھنے کے بعد ہم جواب دیں گے اور جناب حضرت صاحب بہت خوش و خرم تھے اور مُسکرا رہے تھے۔ ہم خیال کرتے تھے کہ اس سے پہلے ہم نے اُنہیں اتنا خوش اور مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ہم خیال کرتے تھے کہ اس چیز سے نفیس اور عُمدہ چیز کبھی حضرت صاحب کے دربار عالیہ میں نہیں آئی ہو گی، آخر کار گھر سے باہر تشریف لے گئے اور دونوں ہاتھوں میں چڑیا کا گھونسلا اُٹھائے ہوئے تشریف لائے اور مُسکراتے ہوئے فرمایا: "رحم کرنے والوں کے اچھے گھروں میں آئے۔" اس کے بعد اُس کو گھر میں محفوظ کر لیا اور اس فقیر کے صدق نیت سے نہایت خوش تھے۔ اس طرح کا کوئی اور مذاق ہم نے عمر بھر شیخ صاحب کا نہیں دیکھا اور نہ ہمیں یاد ہے۔ اسی سے اپنے تمام اہل و اعیال کو خوش و خرم کر لیا۔

دوسری بات:

ایک دِن حضرت شیخ المشائخ صاحب وضو کر رہے تھے اور حضرت صاحب کے مریدوں میں سے ایک مرید کھڑے تھے، جب حضرت صاحب نے وضو فرما لیا تو اس مرید کو اشارہ کیا کہ اسی لوٹے کے پانی سے جس سے میں نے وضو کیا تم بھی وضو کرو، لیکن مرید ادب و حیا کی وجہ سے لوٹے کی نزدیک نہیں جاتے تھے، آخر خود حضرت صاحب نے بہ نفس نفیس مرید کو پکڑ کر فرمایا کہ یہ پانی میں نے تم کو بخش دیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے وضو کرو۔ مرید روایت کرتا ہے کہ اس حکم کے بعد میں نے لوٹا اٹھایا، جب میرے ہاتھ کو پانی لگا تو میں نے اپنے دِل میں ترقی محسوس کی اور وضو کرنے کے بعد میرے دِل میں اتنی محبت بڑھی کہ ضرورت کی وجہ سے رکوع سے سجدے میں چلا جاتا اور قیام سے رکوع میں چلا جاتا، کیونکہ قیام و رکوع اور سجود کے بغیر نماز مکمل نہ ہو سکتی، ورنہ میری محبت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اپنی تمام عمر صرف قیام اور رکوع یا سجود میں گزاروں۔ اُس دن کے بعد میں کبھی بھی عبادت گزاری میں سُستی کا مرتکب نہ ہوا

تشریح:

ویسے اگر کوئی اس پر اعتراض کرنا چاہے، تو میں عرض کروں گا کہ ایسی باتیں صرف کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی نہیں ہیں، بلکہ آپ ﷺ اور بعض صحابہ کی بھی اس قسم کی باتیں ہیں۔ جیسے کسی کو بخش دیا ہو، جس سے اس کی روحانی ترقی ہو گئی۔ اسی طرح چھاتی پہ ہاتھ مارا، جس سے ساری چیزیں ختم ہو گئیں۔ مگر یہ باتیں کبھی کبھی ہوتی ہیں، ہمیشہ نہیں ہوا کرتیں، لیکن ہو سکتی ہیں۔ اور جب ہوں، تو ان سے پورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ یہ ادب کی بات ہے۔ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ایک مرید تھے، حضرت کی برکت سے ان کو ایک حال نصیب ہو گیا، لیکن وہ اس کو برداشت نہیں کر رہے تھے۔ انہوں نے حضرت سے کہا کہ اس کو واپس لے لیں، میں اس کو برداشت نہیں کر پا رہا۔ حضرت نے اس کو سمجھایا کہ کوئی بات نہیں ہے، سب ٹھیک ہو جائے گا، ابھی اس کا زور ہے، لیکن تھوڑی دیر میں ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن وہ بہت گھبرا گئے تھے۔ انہوں نے بار بار عرض کیا کہ حضرت! اس کو واپس لے لیں، میں برداشت نہیں کر سکتا۔ حضرت نے مجبوراً اس کے جسم پہ ہاتھ پھیرا اور وہ چیز ختم ہو گئی۔ ختم ہونے کے بعد ان کو احساس ہوا کہ یہ تو میں نے غلط کیا، برداشت کر لیتا، تو اچھا تھا۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ حضرت! اب پھر دوبارہ توجہ فرما دیں۔ فرمایا: اب دوبارہ نہیں ہو سکتی، آپ کی قسمت میں نہیں تھی۔ گویا اگر ایک انسان کے اندر کمزوری ہو، تو آئی ہوئی چیز بھی واپس ہو سکتی ہے۔ لہٰذا جب کبھی کسی کی طرف سے اس قسم کی کوئی چیز اللّٰہ تعالیٰ نصیب فرمائیں، تو اس کو انتہائی خوشی کے ساتھ قبول کرنا چاہئے۔ بعض دفعہ کوئی وقت ایسا ہوتا ہے کہ جس میں اللّٰہ تعالیٰ خوش نصیبوں کو بہت کچھ دیتا ہے۔ اولیاء اللّٰہ کے ساتھ تو چونکہ یہ چیزیں ہوا کرتی ہیں، لہٰذا جو لوگ اولیاء اللّٰہ کے ہوں، تو اچانک اگر کبھی کوئی ایسی بات پیش آ جائے کہ جس میں وہ کچھ دینا چاہتے ہوں، تو انتہائی ادب کے ساتھ اس کو قبول کرنا چاہئے۔ ورنہ گیا ہوا وقت واپس نہیں آتا اور انسان افسوس کرتا ہے۔

متن:

اور ایک لمبے اور طویل عرصے تک اسی طرح عبادت کرتا رہا حتیٰ کہ لوگوں میں معزز اور محترم ہوا، اس کے بعد ایک دِن میں اپنے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مجھے آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب تک کوئی خدا کا طالب لوگوں میں دیوانہ نہ ہو جائے خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد اُس مرید کا حال دگرگوں ہوا، بچوں کی طرح لکڑی پر سوار ہوتا تھا اور لوگوں کو اپنا آپ دیوانہ دکھاتا تھا، اور لوگ اس پر ہنسا کرتے تھے اور وہ اسی طرح کرتا رہتا تھا اور اس حال میں اُسے اللّٰہ تعالیٰ کا شوق و محبت بڑھ جاتا، یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ کے محبوبوں کے زمرہ سے ہوا۔

تشریح:

یہ دیوانگی کیا چیز ہے؟ اس بات کو بھی سمجھنا چاہئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيْئَةٍ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5213)

ترجمہ: ’’دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے‘‘۔

اب اگر کوئی شخص اس محبت کا مقابلہ نہ کر سکے، تو دنیا کی محبت میں مبتلا ہو کر دنیا دار بن جائے گا۔ اور اس محبت کا مقابلہ کرنے کے لئے جوابی محبت ہونی چاہئے، جو کہ اللّٰہ کی محبت ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی محبت اگر کم درجہ کی ہو گی، تو چونکہ دنیا کی محبت عاجلہ کی محبت ہے اور عاجلہ کی محبت ہمیشہ غالب ہوتی ہے، لہذا دنیا کی محبت غالب ہو گی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی فرمایا: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ 0 وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ (القیامۃ: 20-21)

ترجمہ: ’’خبر دار (اے کافرو!) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئے ہوئے ہو‘‘۔

لہٰذا عاجلہ اگرچہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں، لیکن ان کی محبت اتنی زیادہ مضبوط ہوتی ہے کہ انسان اس کے لئے بڑی چیز چھوڑ دیتا ہے۔ مثلاً: آج اگر میں اعلان کر دوں کہ جو ایک گھنٹہ میرے بیان میں بیٹھے گا، اس کو ایک ہزار روپیہ ملیں گے، تو یہاں پر آپ کو کوئی جگہ خالی نہیں ملے گی۔ اپنے موبائل سے messaging کر کر کے اپنے رشتہ داروں کو بھی بلا لیں گے، اپنے دوستوں کو بھی بلا لیں گے۔ اور یہ ساری جگہ بھر جائے گی، کوئی جگہ خالی نہیں ہو گی۔ لیکن یہ جو اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول کی باتیں ہیں، ان کے مقابلہ میں ہزار روپے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پھر ایسا کیوں ہے؟ ان کے مقابلہ میں ہزار روپے کی قیمت کچھ بھی نہیں ہے، لیکن اس کے اثر کو دیکھو۔ اور اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول کی بات ہمیشہ کے لئے ہے، لیکن اس سے اعراض کو دیکھو، غفلت کو دیکھو۔ اس سے اللّٰہ کا یہ قانون سمجھ میں آ گیا کہ: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ 0 وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ (القیامۃ: 20-21) یہ جو عام قانون ہے، یہ کسی عام طریقے سے نہیں ٹوٹے گا، اس کے لئے اس درجہ کی محبت چاہئے، جو ساری چیزوں کو بلڈوز کر کے آگے بڑھے اور تو اللّٰہ کا بنا رہے اور دنیا سے اپنے آپ کو بچائے۔ لہٰذا یہ کمزور درجہ کی محبت ہو گی۔ اسی اونچے درجہ کی محبت کو لوگ پاگل پن کہتے ہیں۔ سب سے پہلے اپنے خاندان والے اس پہ پاگل ہونے کا فتویٰ لگاتے ہیں۔ جیسے: حضرت حافظ شیرازی رحمۃ اللّٰہ علیہ بچپن میں بالکل آزاد پھرتے تھے، کبھی جنگل جا رہے ہیں، کبھی کیا، کبھی کیا۔ خواجہ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللّٰہ علیہ کو کشف ہو گیا کہ یہ ایک بہت قیمتی ہیرہ ہے، اس کی تربیت کر لو۔ حضرت ان کے شہر میں چلے گئے، ان کے والد صاحب کے ساتھ ملے، ان کے والد صاحب حضرت کو جانتے تھے، انہوں نے بڑی قدر کی اور بہت زیادہ اکرام کیا۔ حضرت نے کہا: میں آپ کی اولاد سے ملنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے ساری اولاد سامنے کر دی، مگر وہ ان میں نظر نہیں آیا، جس کی تلاش تھی۔ حضرت نے کہا: آپ کا کوئی اور بھی بیٹا ہے؟ کہتے ہیں کہ ایک آوارہ سا ہے، اس کا آپ کیا کریں گے؟ وہ تو کسی کام کا نہیں ہے، کسی جنگل وغیرہ میں ہو گا۔ انہوں نے فرمایا: شرط پوری کرنی چاہئے، آپ ساری اولاد میرے سامنے لے آؤ۔ جب اس کو لائے، تو حضرت نے اس کو پہچان لیا کہ یہ تو وہی ہے۔ اور اس لڑکے نے بھی پہچان لیا۔ اس نے دور سے کہا کہ یا شیخ! آپ سب کے اوپر توجہ کرتے ہیں، تو پتھر سے ہیرے بن جاتے ہیں، میری طرف بھی نظر کر لیں۔ حضرت نے فرمایا: ’’بتو نظر می کردم‘‘۔ تیرے اوپر میں نے نظر کر لی۔ اور اس کے والد صاحب سے کہا کہ یہ لڑکا مجھے دے دو، میں اس کو ساتھ لے جا رہا ہوں۔ یہ دیوانگی ہوتی ہے۔ اب بھی اگر کسی کو یہ سمجھ نہیں آتا، تو آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں پاگل کہیں، اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں ریا کار کہیں۔ یہ جو آپ ﷺ نے فرمایا ہے، آخر کسی وجہ سے فرمایا ہے۔ چنانچہ لوگ اسی طرح سمجھتے ہیں۔ لہٰذا جو لوگ دنیا کی محبت کو چھوڑتے ہیں، ان کو لوگ پاگل کہتے ہیں۔ اور دیوانگی کی بات اسی وجہ سے ہے۔ بلکہ ایک سائنسی قانون بھی ہے کہ کوئی چیز زمین کی کشش سے باہر نہیں نکل سکتی، اگر کوئی نکلنے کی کوشش کرتی ہے، تو واپس اسی کی طرف آتی ہے۔ جیسے: آپ پتھر پھینکیں، تو وہ بہت دور جا کر بھی واپس آ جاتا ہے۔ جہاز بہت اوپر چلا جاتا ہے، لیکن اگر تباہ ہو جائے، تو نیچے ہی آتا ہے۔ لہٰذا اس کی کشش سے کوئی چیز باہر نہیں جا سکتی۔ البتہ ایک طریقے سے جا سکتی ہے کہ اس کی سپیڈ پچیس ہزار میل گھنٹہ ہو جائے، جس کو Critical velocity کہتے ہیں۔ اور اگر Critical velocity سے زیادہ سپیڈ ہے، تو وہ پھر واپس نہیں آئے گی، پھر زمین کی کشش اس کو واپس نہیں لا سکے گی۔ بس وہ ادھر سے نکل گیا۔ جیسے راکٹ کی سپیڈ زمین کی کشش سے زیادہ ہوتی ہے، اسی لئے وہ زمین سے نکل کر چاند پر چلا جاتا ہے۔ چنانچہ جس طرح زمین کی کشش ہے، اسی طرح زمین کی چیزوں کی بھی کشش ہے، اس کشش سے نکلنے کے لئے کتنی محبت چاہئے ہو گی؟ چنانچہ جب یہ محبت اتنی زیادہ ہو گی، تو اس کو لوگ دیوانگی ہی کہیں گے۔ یہی دیوانگی کی بات ہے، جو لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتی۔ حضرت بہلول رحمۃ اللّٰہ علیہ اسی طرح دیوانہ تھے، اسی وجہ سے ان کو کبھی بہلول دانا کہتے ہیں، کبھی بہلول دیوانہ کہتے ہیں۔ لیکن ان کی باتیں بالکل داناؤں کی سی ہیں، مگر ان کی حالت دیوانوں کی سی ہوتی تھی۔ ایک دفعہ راستہ میں بیٹھے ہوئے تھے، اور اس وقت کے بادشاہ ہارون الرشید گزر رہے تھے، آپس میں شناسائی تھی۔ انہوں نے بہلول سے کہا: اے بہلول! آج کل کیا حال ہے تمھارا؟ بہلول نے کہا: اس آدمی کا کیا پوچھنا، جس کی مرضی کے مطابق دنیا میں سارا کچھ ہو رہا ہو۔ ہارون الرشید نے کہا: خدائی کا دعویٰ کب سے کیا ہے؟ بہلول نے کہا: میں نے خدائی کا دعویٰ تو نہیں کیا۔ انہوں نے کہا: یہ جو تم نے بات کی ہے، یہ خدائی کا دعویٰ ہی ہے، سب کچھ تو خدا کی مرضی سے ہوتا ہے۔ بہلول نے کہا: آپ کی بات ٹھیک ہے، لیکن میں نے اپنا سب ارادہ خدا کے ارادہ میں فنا کر دیا ہے، اب جو اللّٰہ کی مرضی، وہ میری مرضی ہے۔ گویا سب کچھ میری مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔ ہارون الرشید خاموش ہو گیا۔ اب یہ دیوانوں والی بات نہیں تھی۔ بلکہ چونکہ وہ تمام چیزوں سے بے نیاز ہو چکے تھے، ان پر ان چیزوں کا اثر نہیں تھا، لہذا ان کی بات بالکل سچی ہوتی تھی۔ اس لئے اللّٰہ والے بڑے دانا ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کی نظر اللّٰہ پر ہوتی ہے اور اللّٰہ کے خزانوں سے لیتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ ہماری عقل دنیا کی خبروں کے مطابق فیصلہ کرتی ہے۔ مثلاً: مجھے سردی لگتی ہے، سردی سے انسان بیمار ہوتا ہے اور گرم کپڑے پہن کر انسان سردی سے بچتا ہے۔ لہذا جب سردی آتی ہے، تو میں گرم کپڑے پہننا شروع کر لیتا ہوں۔ یہ عقل ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ لیکن حضرت فرماتے ہیں کہ جب ذکر اور فکر کے ذریعے سے عقل کو منور کیا جاتا ہے، تو اس کی ترقی ہو جاتی ہے، یہ سِر بن جاتی ہے۔ اور جب یہ سِر بن جائے، تو اس کا تعلق ملاءِ اعلیٰ کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ جب ملاءِ اعلیٰ کے ساتھ اس کا تعلق ہو جاتا ہے، تو اس کو وہاں کی خبریں پہنچتی ہیں اور پھر یہ ان خبروں کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے۔ گویا اس کی عقل دنیا کی عقل کے مطابق بات نہیں کرتی۔ بلکہ اوپر کے level کی بات کرتی ہے، جو وہاں کے مطابق ہوتی ہے، اور وہاں کے حالات سے اثر لے کر بات کرتی ہے۔ چنانچہ اللّٰہ والے ادھر سے بات کرتے ہیں۔ جیسے: حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ مومن کے نورِ فراست سے ڈرو، وہ خدا کے نور سے دیکھتے ہیں۔ اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ ملاءِ اعلیٰ سے ان کو جو روشنی حاصل ہوتی ہے، اس روشنی کے ذریعے سے وہ گفتگو کرتے ہیں۔ آگے حضرت نے فرمایا کہ:

متن:

اپنا آپ دیوانہ دکھاتا تھا، اور لوگ اس پر ہنسا کرتے تھے اور وہ اسی طرح کرتا رہتا تھا اور اس حال میں اُسے اللّٰہ تعالیٰ کا شوق و محبت بڑھ جاتا، یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ کے محبوبوں کے زمرہ سے ہوا۔

اللّٰہ جل شانہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ