اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر مشتمل کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے تعلیم ہوتی ہے۔ آج بھی تعلیم ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے چار مشارب یعنی ابرار، مقرّبین، عشّاق اور واصلین کے بارے میں بات ہوئی تھی۔ ابرار کے بارے میں بہت واضح طور پر موجود ہے: ﴿اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ 0 وَاِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ﴾ (الانفطار: 13-14)
ترجمہ: ’’یقین رکھو کہ نیک لوگ یقینا بڑی نعمتوں میں ہوں گے۔ اور بدکار لوگ ضرور دوزخ میں ہوں گے‘‘۔
گویا مسلمانوں کا سلسلہ ابرار سے شروع ہوتا ہے۔ اور مقربین کے بارے میں قرآن مجید میں ہے: ﴿وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ 0 اُولٰٓىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ﴾ (الواقعہ: 10-11)
ترجمہ: ’’اور جو سبقت لے جانے والے ہیں، وہ تو ہیں ہی سبقت لے جانے والے۔ وہی ہیں، جو اللہ کے خاص مقرب بندے ہیں‘‘۔
عشاق کے متعلق قرآن میں ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ﴾ (البقرۃ: 165)
ترجمہ: ’’اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں‘‘۔
اور واصلین وہ ہیں، جو اللہ جل شانہ کی محبت میں خود کو فنا کر کے اللہ کے ساتھ وصل پا چکے ہیں۔ چونکہ ان کے مقامات کو تو دیکھایا گیا ہے، جیسے قرآن پاک میں ہے۔ البتہ ہم لوگ ان مقامات کو حاصل کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ الگ بات ہے۔ اس کے بارے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق بھی میں بیان کر چکا ہوں کہ کچھ لوگ ایسے ہیں، جو علمِ نافع حاصل کرتے ہیں اور پھر اس علمِ نافع پر اپنی قوتِ ارادی سے عمل کرتے ہیں۔ چونکہ ایسے حضرات اپنی قوتِ ارادی کے بل بوتے پہ چلتے ہیں۔ یہ مشکلات میں تو پڑتے ہیں، لہذا عمر بھر ایک قسم کی کشا کشی کا سوال رہتا ہے۔ لیکن بہر حال واصل یہ بھی ہو سکتے ہیں، اگرچہ تھوڑی تعداد میں ہوں۔ اس کے بعد ابرار کا مقام ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ ان لوگوں کا مقام ہے کہ جو لوگ کسی اللہ والے کا دامن پکڑ لیتے ہیں اور ان کی رہنمائی میں چلتے ہیں۔ کسی کا ہاتھ پکڑنے کی وجہ سے ان کو دو سہولتیں یا دو فائدے فوری طور پر حاصل ہو جاتے ہیں۔ ایک تو جس اللہ والے کا ہاتھ پکڑا ہوتا ہے، اس کا تجربہ ان کو مل جاتا ہے، یعنی وہ اپنے تجربہ کی روشنی میں ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ دوسرا وہ جس سلسلہ میں ہوتا ہے، اس سلسلے کی برکت بھی اس کو مل جاتی ہے، لہذا ان دو اضافی فائدوں کی وجہ سے ان کی رفتار اخیار سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس وجہ سے یہ زیادہ تعداد میں واصل ہوتے ہیں اور جلدی واصل ہوتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں تیسرا طبقہ عشاق کا ہے۔ عشاق چونکہ اپنے شیخ پہ عاشق ہوتے ہیں، کیونکہ شیخ دروازہ اور ذریعہ ہے۔ عجیب و غریب مثالوں سے لوگ ایسی چیزوں کو واضح کرتے ہیں۔ جیسے محبت کے حوالے سے لیلیٰ اور مجنوں کا قصہ مشہور ہے۔ مجنوں سگِ لیلیٰ کو بھی چومتا تھا۔ بہر حال! شیخ چونکہ اللہ جل شانہ کے وصال کا ذریعہ ہوتا ہے، لہٰذا یہ لوگ شیخ میں فنا ہو جاتے ہیں، اپنا سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ نتیجتاً ان کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ انہیں قوتِ ارادی کے استعمال کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پہلے والے Full time قوتِ ارادی استعمال کرتے ہیں۔ دوسرا طبقہ قوتِ ارادی اتنی استعمال کرتے ہیں، جتنی کہ شیخ کی اتباع کے لئے ضروری ہے۔ باقی کام تو ادھر سے ہو جاتا ہے۔ اور اس تیسرے طبقے کو قوتِ ارادی کی فکر ہی نہیں ہوتی، کیونکہ یہ عشاق ہوتے ہیں اور عشاق تو موقع ڈھونڈتے ہیں کہ کسی طریقے سے شیخ مجھے کہے اور میں عمل کروں۔ لہٰذا ان کی رفتار زیادہ ہوتی ہے، اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی سے مالا مال ہو جاتے ہیں۔ اس لئے یہ بہت جلدی واصل ہو جاتے ہیں۔ ان میں بڑے بڑے اولیاء اللہ کے نام آتے ہیں، جو اس طریق سے واصل ہوئے ہیں۔ گویا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اخیار وہ لوگ ہیں، جن کی کسی کے ساتھ مناسبت نہیں ہوتی اور وہ خود ہی سب کچھ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مشکل میں تو ہوتے ہیں، لیکن بہر حال اپنی ہمت سے اگر آگے جانا چاہیں، تو جا سکتے ہیں، راستہ بند نہیں ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں، جو شیخ کا اتباع کرتے ہیں، اس میں قوتِ ارادی استعمال کرتے ہیں اور شیخ کی مانتے مانتے پہنچ جاتے ہیں، اپنی منزل پہ واصلین ہو جاتے ہیں۔ تیسرے لوگ جو شیخ میں فنا ہوتے ہیں، لہذا اس کی وجہ سے پھر فنا فی الرسول ہو جاتے ہیں اور پھر فنا فی اللہ ہو جاتے ہیں اور ان کا معاملہ آسان ہوتا ہے۔ یہ کتاب میں نے اس لئے منگوائی کہ اس میں حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار ہیں۔ حضرت سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے عالم تھے، کوئی معمولی عالم نہیں تھے، صحیح معنوں میں علامہ تھے۔ ان دنوں علامہ کا لقب اتنا آسان نہیں ہوتا تھا، آج کل تو بے شمار علامے ہیں، لیکن اس وقت واقعی علامہ علامہ ہوتا تھا، جیسے علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ۔ ان کے بارے میں سب سے بڑی گواہی ان کے شیخ کی تھی کہ جب ان سے نصیحت کی درخواست کی، تو حضرت نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا اور فرمایا: اتنے بڑے علامہ کو میں کیسے نصیحت کروں۔ ہاں! وہ نصیحت جو میں اپنے آپ کو کرتا ہوں، وہ کسی اور کو بھی کر سکتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ ہم یہاں مٹنے کے لئے آئے ہیں، اپنے آپ کو جتنا مٹا سکتے ہیں، مٹائیں۔ اس سے حضرت پر حال طاری ہو گیا اور رونا شروع کر دیا، گریہ طاری ہو گیا، راستہ بھر روتے رہے۔ بعد میں ما شاء اللہ حضرت کے مرید ہو گئے اور پھر بعد میں خلیفہ ہو گئے۔ مرید ہونے کے بعد ایسے فنا فی الشیخ ہو گئے کہ ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ فنا فی الشیخ کیسے ہوتا ہے۔ سب کچھ تبدیل ہو گیا، شیخ کے رنگ میں رنگ گئے۔ یہ بہت بڑے علامہ تھے، لیکن کیسے فنا ہو گئے۔ یہ پوری کتاب اس کا ثبوت ہے۔ لیکن میں آپ کو صرف ایک کلام سنانا چاہتا ہوں، کیونکہ وقت نہیں ہے۔ اور یہ میں نے آپ کے سامنے randomly کھولا ہے، میں نے اس میں ڈھونڈا نہیں ہے۔
اے میسح درد دل چارہ گرہ آزار دل
پا رہا ہے تیرے درماں سے شفا بیمارِ دل
تشریح:
یہ اپنے شیخ کو کہہ رہے ہیں۔
دور باش افکارِ باطل، دور باش اغیارِ دل
سج رہا ہے شاہِ خوباں کے لئے دربارِ دل
اور ہی مٹ جائے گی تاریکئ افکارِ دل
خانہ دل میں جو پھیلیں گے کبھی انوارِ دل
تیرے ایک چھنٹے سے ابر بہاری ان دنوں
سبز ہے شاداب ہے سیراب ہے گلزارِ دل
دور ہوتی جا رہی ہے ہر کھٹک جو دل میں تھی
تیرے سوزن سے نکلتے جا رہے ہیں خارِ دل
تشریح:
یعنی وسوسے، اشکالات اور یہ تمام چیزیں دور ہو رہی ہیں۔
عشق کا رہبر دلیلِ راہ جس دن سے بنا
بن رہا ہے آپ ہی انکارِ دل اقرارِ دل
ہوش ہے گرمی و مستی وفور شوق ہے
شکر ہے رونق پہ ہے امروز کاروبارِ دل
جمع وہ سامان ہو، جس کی خریداری بھی ہو
سوچ کر اے دل! لگانا چاہئے بازارِ دل
المدد توفیق ضبط و المدد تابِ سکوت
تشریح:
یہ اپنے شیخ کے بارے میں کہہ رہے کہ وہاں تاب، سکوت اور ضبط کی بڑی value تھی۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ اس کی شکایت کرتے ہیں کہ جو چیز وہاں مطلوب ہے، وہی چیز میرے پاس نہیں ہے۔ حضرت سید صاحب بھی اپنے بارے میں کہتے ہیں:
لب پہ لے آئے نہ جوشِ دل کہیں اسرارِ دل
تشریح:
یعنی کہیں میرا دل میرا ارادہ افشاں نہ کر دے۔
عقل بھی عاشق بھی ہے پھر ہم پایہ عرشِ بریں
جلوہ فرما مسندِ دل پر اگر ہو یارِ دل
سامنے ہے منزلِ مقصود اے رہوار دل
اور بھی اب تیز ہونی چاہئے رفتارِ دل
خانۂ دل میں نہ جب تک کم ہو گھر کا شور و غل
گوشِ دل سے سن سکے کیونکر کوئی گفتارِ دل
فخر تو اس رشتۂ تسبیح پر فرما نہ شیخ
دل کے رگ رگ سے تو پہلے کھینچ لے زنارِ دل
تشریح:
یعنی ہمارے دل کے اندر جو بت پڑے ہوئے ہیں، ان کو دور کرنا چاہئے، پھر تسبیح کام دے گی۔
کلام
کیا بھری تاثیر محمد تیری آواز ہے
جو تیری محمد میں بیٹھا ہو سراپا ساز ہے
باغ میں صحرا نظر آتا ہے اور صحرا میں باغ
اے میرے جوش جنوں کا اور ہی انداز ہے
پاؤں تو حدِ ادب سے عشق میں باہر نہ رکھ
وہ ہما کو محبوب سراپا ناز ہے
نام ان کا ہر نفس کے لب پہ یوں آیا کیا
تن سے جیسے روحِ بسمل مائلِ پرواز ہے
دیکھئے، ملتی ہے کب دولت سکونِ عشق کی
ہائے جوش تو ہنگامۂ آغاز ہے
گاہ دیکھا تھا میرے چشم تصور نے تمہیں
اب وہی تصویر میرے ہمدم ساز ہے
جو نہیں معلوم ہے، اس کو کوئی جانے گا کیا
جب کہ جو معلوم ہے، وہ بھی سراسر راز ہے
بہر حال! یہ تو ان حضرات کی محبت تھی۔ میں اس سے صرف یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ شیخ کی محبت بہت بڑا رفیقِ سفر ہے۔ اور ان سب حضرات نے اس کے بارے میں گفتگو فرمائی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ان سب حضرات نے یہ بات کی ہے۔ آخر کوئی بات تو ہے۔ تو میں عرض کر رہا تھا کہ چار طریقے حضرت نے بتائے تھے اور تین طریقے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بتائے ہیں، لیکن چوتھا واصلین کا طریقہ ان میں خود بخود آ جاتا ہے۔ لہذا یہ باتیں ایک ہو جاتی ہیں۔
متن:
(بیت)
؎ قدح چون دور من آید بہ ہوشیاران مجلس دہ
مرا بگذار تا حیران بمانم چشم در ساقی
’’جب محفل میں شراب کا پیالہ مجھ تک پہنچ جائے تو اُسے میری بجائے مجلس میں جو اہل ہوش بیٹھے ہوں اُن کو دے دیجئے اور مجھے چھوڑئیے کہ میں سراپا تحسیر میں ڈوب کر ساقی پر نظر جمائے رہوں‘‘۔
اپنے ساقی کو دیکھنے کا یہ حسین لمحہ میں شراب پینے کی شغل میں ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ "شَرَابُ الْوِصَالِ لِلْوَاصِلِیْنَ وَالْمُوَاصِلِ یُوَاصِلُ سُرُوْرَ الْأَبَدِ" یعنی وصال کی شراب مواصل اور واصلین کے لئے ایک ابدی سرور ہے۔ یہی وہ شرابِ وصال ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عالی کی وصولی ہے اور جس کا ذکر "دَقَائِقُ الْمَعَانِيْ" (ایک کتاب کا نام ہے) میں ہے۔ پس اے میرے عزیز! جس مقام کا وعدہ ہوا ہے وہی مقامِ محمود ہی مقام ہے اور رسول اللہ ﷺ کا مقام عالی یہی مقام اور شرابِ وصال ہے جو کہ شیخ محمد حسین کہہ گئے ہیں۔ "اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا بِہٖ بَرَکَۃَ النَّبِیِّ ﷺ" ”اے ہمارے رب! ہم کو رسول اللہ ﷺ کی برکت عطا فرما“آمین آمین۔
اے میرے محبوب! اِس حدیث مبارک کے بارے میں کہ "إِنَّ فِيْ الْجَنَّۃِ سُوْقًا یُّبَاعُ فِیْہِ الصُّوَرُ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی جنت میں ایک بازار ہے جس میں صورتوں کی خرید ہوتی ہے۔ شیخ محمد حسین نے کہا ہے اور بہت اچھی طرح وضاحت فرمائی ہے کہ کسی دوسرے نے ایسی وضاحت نہیں کی۔ اے محبوب! اللہ تعالیٰ کی شراب وصال میں اُس جہان کے دنوں کے حساب سے جس کا ایک دن ﴿إِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَأَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ﴾ (الحج: 47) یعنی وہ دن تمہارے رب کے نزدیک تمہارے عدد شماری کے حساب سے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ عاشق ستر ہزار سال تک ہوں گے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے فرمان صادر ہو جائے گا کہ اے بادل! آسمانِ حقیقت کے نور پر چھا جا اور قادر لا یزال کے رُخِ زیبا کے لئے ایک حجاب بن جا۔ اس وقت بے تاب عاشقوں کو اللہ کی جناب سے خطاب ہو گا کہ اے میرے محبوبو! میرے بازار کی جانب چلے چلو کہ "إِنَّ فِي الْجَنَّۃِ سُوْقًا یُّبَاعُ فِیْہِ الصُّوَرُ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”جنت میں ایک بازار ہے جہاں صورتیں فروخت کی جاتی ہیں“۔ وہ حجاب عاشقوں کے لئے ہو گا، لیکن ایک دن اللہ لا یزال کا بازار عاشقوں کے لئے ہو گا۔ "لِأَھْلِ الْعِشْقِ حِجَابٌ یَّوْمَ الْأَحَدِ" یعنی عاشقوں کے لئے اتوار کے دن حجاب ہو گا۔ اور باقی چھ دِن شرابِ جمال کی رؤیت و دیدار میں ہوں گے اور رب ذو الجلال کی تمنائے وصال میں رہیں گے۔ اور اس سے عاشق لوگ محروم نہ ہوں گے لیکن عوام کے لئے حجاب حور و قصور اور جنت کی نعمتوں کی شکل میں ہو گا، یعنی یہ نعمتیں حجاب بن جائیں گی۔
تشریح:
یہ حوصلے کی باتیں ہیں۔ واصلین کی بات ہی الگ ہے۔ فرمایا کہ عوام کے لئے جنت کی نعمتیں حجاب بن جائیں گی۔ واقعتاً حجاب ہیں۔ باقاعدہ روایت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت میں لوگوں کو اتنی نعمتیں دیں گے کہ ان کو کسی چیز کا پتا ہی نہیں چل رہا ہو گا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ کیا کوئی اور چیز مانگتے ہو، جو پہلے نہ دی گئی ہو؟ وہ حیران ہو جائیں گے کہ یا اللہ! سب کچھ مل رہا ہے۔ کون سی چیز ہے، جو اب تک نہیں ملی؟ ہم کیا کہیں۔ پھر علماء سے پوچھیں گے کہ کوئی ایسی چیز ہے، جو ہم نے نہ مانگی ہو؟ علماء ان کو بتائیں گے کہ ابھی تک دیدارِ الہی نہیں ہوا ہے۔ گویا وہ نعمتیں حجاب تھیں، اس وقت تک یاد ہی نہیں آیا۔ پھر سب اللہ تعالیٰ سے اس کا دیدار مانگیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ دیدار کروائیں گے۔ ہمارے سلسلے کے ایک ساتھی تھے، جو فوت ہو گئے ہیں۔ بعد میں کسی کو خواب میں ان کی زیارت ہو گئی۔ پوچھا: آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ کہتے ہیں کہ مجھے مسجدِ نبوی لے گئے، مسجدِ نبوی میں مجھے فرمایا گیا کہ اب تم جنت میں جاؤ۔ جنت کی پوری سیر کرائی گئی، اور پھر کہا گیا کہ اب تم یہیں رہو۔ میں نے کہا: نہیں، میں جنت میں نہیں، مسجدِ نبوی میں رہنا چاہتا ہوں۔ یہ وہی بات ہے، جو ہم شاعری میں سنتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے۔ یہ آج کل کے دور کی بات بتا رہا ہوں، یہ ہمارے ساتھی تھے۔ واقعی یہ مقامات ایسے ہیں کہ ان سے کمتر لوگ ان کو نہیں سمجھ سکتے۔ جو دنیا دار ہیں، وہ دین داروں کی بات نہیں سمجھ سکتے۔ ان کو پتا ہی نہیں چلتا کہ دین دار اس طرح کیوں سوچتے ہیں۔ اور جو عام دین دار ہیں، ان کا اپنا انداز ہے۔ لیکن جو عشاق ہیں، ان کو عام لوگ نہیں سمجھ سکتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اور واصلین کے بارے میں عشاق نہیں جانتے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ گویا یہ حجاب در حجاب ہیں۔
متن:
لیکن اے میرے عزیز! اور پیارے یہ بازار خراباتِ حقیقت ہو گا، یعنی جس چیز کا نقش کلیات میں نہ ہو گا وہ جزئیات میں ظاہر ہو گی۔ (بیت)
؎ خرابات است بیرون از دو عالم
دو عالم در بر آں ہم خراب است
’’ان دونوں جہانوں سے باہر اور ماوراء خرابات ہے کہ اس کے سامنے یہ دونوں جہان نا چیز ہیں‘‘۔
؎ ببین کز بوئی دوری خرابات
فلک را روز و شب چندیں شراب است
’’یہ بات ملاحظہ کیجیئے کہ خرابات کی دور کی بو سے بھی آسمان کے لئے دن رات اس قدر شراب ہے‘‘۔ (اور اس خرابات حقیقت میں صورت پرستی کے سوا اور کوئی چیز نہ ہو گی)
اے پیارے! شیخ محمد حسین فرماتے ہیں کہ جب قلم یہاں صورت پرستی کے (لفظ کو) پہنچ گیا تو مجھ پر دیوانگی ظاہر ہوئی، اور اسی وقت میرے جدِ بزرگوار کی شریعت حقہٗ نے میرا منہ بند کیا کہ اے دیوانے! اپنے جد بزرگ کی شریعت کی زنجیر کو نہ توڑ، اسی بنا پر میں نے یہ بات چھپائی تاکہ نامحرم لوگ اس سے آگاہ نہ ہو جائیں۔ میں نے صرف یہی صورت پرستی کی خرابات کو لکھا، یہ کوشش سے معلوم ہو جاتا ہے کہ پھر اس کے بعد یہ صورت پرستی تم عین الیقین سے مشاہدہ کرو گے اور اس کے بعد حق الیقین تک رسائی حاصل کرو گے۔ شیخ محمد حسین کے اس قول سے بجلی کی جو بات سنی گئی، کوئی دیوانہ بھی اس سے آگاہ نہیں اور کوئی سر تراشیدہ قلم بھی اس کی اطلاع نہ پا سکا، یعنی یہ بات کسی قلم نے نہیں لکھی اور حضور رسالت مآب ﷺ کی اس حدیث شریف کہ "إِنَّ فِي الْجَنَّۃِ سُوْقًا یُّبَاعُ فِیْھَا الصُّوَرُ" (لم أجد ہذا الحدیث) کے الفاظ پر قناعت کر کے لطف حاصل کرتے ہیں، اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں۔ (بیت)
تشریح:
بعض احادیثِ شریفہ بالکل واضح ہیں، کیونکہ وہ عوام و خواص سب کے لئے ہوتی ہیں۔ اور بعض صرف خواص کے لئے ہوتی ہیں۔ جو بعض صرف خواص کے لئے ہوتی ہیں، ان کو صرف خواص ہی سمجھ سکتے ہیں۔ بعض ایسی احادیث ہیں، جن کے بارے میں صحابہ کرام نے بہت احتیاط کی اور صرف خواص تک پہنچائیں اور کسی کو نہیں پہنچائیں۔ ان میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشہور روایت ہے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ یہ تو وہ احادیث ہیں، جو میں نے آپ کو بتا دی ہیں، ان کے علاوہ اور بھی ہیں، اگر وہ میں ظاہر کر دوں، تو تم میرا سر اتار دو گے۔ چونکہ ایسے لوگوں کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آتیں، لہٰذا یہ برداشت نہیں کر سکتے۔ چنانچہ ہر ایک اپنے اپنے ظرف کے مطابق لیتا ہے۔ جو حقیقت کو جانتے ہیں، وہ اس کو حقیقی معنوں میں لے لیتے ہیں اور جو حقیقت کو نہیں جانتے، وہ الفاظ تک ہی پہنچ پاتے ہیں۔ یہاں اس سے یہی مراد ہے کہ وہ الفاظ سے لطف اٹھاتے ہیں۔
متن:
؎ گر نہاں گردند مردان پیش ازاں اسرارہا
ایں کہ آوردم نشانی از ورائے کفر و دین
خالق بے چون برائے طالبان اندر صور
مے نماید خویشتن را درمیان آب و طین
’’میں نے کفر و دین کے دور کے جو نشانات بیان کئے، اگر لوگ اِس کے اِن اسرار و رموز سے بے خبر ہیں تو خالق کائنات اپنے طالبوں کے لئے صورتوں کی شکل میں اپنے آپ کو مٹی اور پانی کی شکل میں نمودار کرتا ہے‘‘۔
اے محبوب! یہ مٹی اُس وسیع زمین (ارض واسعہ) کی مٹی ہے اور یہ پانی بحر مسجور کا پانی ہے ﴿وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ﴾ (الطور: 6) پس اے محبوب! اس مٹی اور پانی سے بقاء، جمال کی بقاءِ ظاہر اور نمودار ہوتی ہے اور صورتوں میں لاکھوں نقش بنتے ہیں۔ بیت
؎ پر توی از عکس رؤیت گر فتد بر روئے خاک
گردند از ہر ذرۂ صد ہزاران آفتاب
’’اگر آپ کے رُخ زیبا کے عکس کی جھلک بھی زمین پر پڑ جائے تو زمین کے ہر ذرے سے لاکھوں سورج بن جائیں گے‘‘۔
اور ان صورتوں کے خریدار اس بازار میں یعنی خراباتِ حقیقت میں عاشق ہوں گے اور ابد الآباد تک عاشقوں کی تسلی اِس صورت پرستی میں ہو گی، اگر اس سوال کے اسرار پوچھو گے تو میں اس کا کیا جواب دوں کہ خاموشی کچھ کہنے سے بہتر ہے۔
تشریح:
چنانچہ جو انہوں نے کیا ہے، ہم بھی وہی کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کے علاوہ کیا کیا جا سکتا ہے؟
چودھواں باب
زمانۂ طفولیت سے لے کر عمر کے آخری حصے اور وفات کے بعد بھی حضرت صاحب کی عادات و کرامات وغیرہ کے بیان میں اور آپ کے متفرق اعمال اور وفات
نوٹ: قبل ازیں کہ شیخ عبد الحلیم کا یہ عاجز مؤلف نواسۂ شیخ المشائخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات اور فرق عادات وغیرہ شروع کرے، ولایت کے بارے میں تمہید کے طور پر چند ضروری باتیں لکھنا چاہتا ہوں کہ جس سے ناظرین کی رہنمائی ہو اور کرامت و سحر اور طلسم کے درمیان فرق ظاہر ہو جائے۔
یہ بات پوشیدہ نہ رہے کہ ولایت کے تین شعبے ہیں: پہلا شعبہ سچے کام اور معاملے مثلًا الہام، غیبی تعلیم و تفہیم اور حکمت وغیرہ، ان کو معاملاتِ صادقہ کہتے ہیں۔ دوم مقاماتِ کاملہ مثلًا محبت، خشیت، توکل و رضا، تسلیم، صبر و استقامت، زہد و قناعت اور تفرید و تجرید یعنی تنہائی۔ تیسرا شعبہ اعلیٰ اخلاق مثلًا عالی ہمتی، انتہائی شفقت، حلم و حیا، محبت و وفا، صدق و صفا، سخاوت، شجاعت اور ہمیشہ بندگی کرنا اور اللہ کے آگے ہر وقت سرافگندہ رہنا، ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبودیت کا زندہ نمونہ رہنا اور الوہیت کے دعوؤں کی نشانیوں تک سے اجتناب کرنا اور مٹی کی طرح خاموش، نہ کہ آگ کی طرح جوش اور خروش رکھنے والا۔ اور یہ کہ تجرید، تفرید اور تنہائی پسند ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے نفرت نہ کرے، اور حق داروں کے حقوق ضائع نہ کرے،
تشریح:
یہ حضرت نے بہت بڑی بات فرمائی ہے۔ یعنی اولیاء اللہ کی صفات بیان فرما رہے ہیں کہ کچھ سچے کام ہیں، کچھ مقاماتِ کاملہ ہیں، اس کے بعد بندگی کے نمونے ہیں اور پھر اپنے آپ کو مٹانا ہے اور دعووں سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ تجرید و تفرید یعنی تنہائی پسندی تو مطلوب ہے، لیکن تنہائی پسندی میں حقوق کو ضائع نہ کرنا؛ یہ بھی ضروری ہے۔ پہلے یہ سمجھ لیں کہ تجرید و تفرید کیا ہوتا ہے۔ مثلاً: میں لاہور جانا چاہتا ہوں، لاہور میں میرا ایک دوست ہے، کسی محلہ میں اس کا گھر ہے، میں اس تک جانا چاہتا ہوں۔ یہاں سے میرا رخ لاہور کی طرف ہو گا۔ مگر لاہور کی طرف تو بہت سے لوگ جا رہے ہیں، میں بھی ان میں ہوں گا۔ لاہور کی طرف میں رواں دواں ہوں گا۔ وہاں تک میرے ساتھ کافی لوگ ہوں گے، جو لاہور جا رہے ہوں گے۔ لاہور میں پہنچ کر میں کسی علاقہ میں جاؤں گا۔ جو روڈ اس علاقہ کی طرف جاتا ہو گا، میں اس روڈ پہ چلا جاؤں گا۔ باقی لوگ اپنے اپنے مقام کی طرف مڑ جائیں گے۔ یہ تجرید و تفرید کا ایک step ہو گیا۔ پھر میں اس روڈ سے اس علاقہ میں جاؤں گا، تو وہاں کوئی اور چھوٹا روڈ ہو گا یا سٹریٹ ہو گی، اس کی طرف میں مڑ جاؤں گا۔ یہ مزید تجرید و تفرید ہو گئی۔ پھر جب وہاں جاؤں گا، تو اس کی گلی میں جاؤں گا، اس گلی میں جا کے میں اس کے گھر کی طرف جاؤں گا، پھر اس کے گھر کے اندر جو اس کا کمرہ ہے، اس طرف جاؤں گا۔ تو یہ مسلسل conversation ہو رہی ہے اور میں اپنی destination کی طرف جا رہا ہوں۔ اسی طرح اللہ والوں کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہوتا ہے، لہٰذا اس میں تو خلوت چاہتے ہیں، لیکن اللہ پاک نے جو حقوق ذمہ لگائے ہیں، ان کے لئے جلوت ہوتی ہے۔ مثلاً: والدین کے حقوق ہیں، بچوں کے حقوق ہیں، پڑوسی کے حقوق ہیں، اور لوگوں کے حقوق ہیں۔ ان حقوق کے لئے ان کو جلوت میں جانا پڑتا ہے۔ پس خلوت میں جلوت کی باتوں کو نہ بھولیں، یعنی جو حقوق ذمہ ہیں، ان کو پورا کریں۔ اور جلوت میں خلوت کو نہ بھولیں، یعنی جب باہر آ جائیں، تو باہر اگرچہ باہر کی طرف متوجہ تو ہوں، لیکن ساتھ ہی جس کے لئے متوجہ ہوں، وہ بھی یاد ہو۔ اس بارے میں میں یہ عرض کروں گا کہ انسان تجرید و تفرید میں جتنا کامل ہو گا اور مجموعی طور پر بھی کامل ہو گا، کیونکہ ایک ہوتا ہے تجرید و تفرید میں کامل ہونا اور ایک ہے ہر اعتبار سے کامل ہونا۔ یہ دو الگ باتیں ہیں۔ کیونکہ تجرید و تفرید میں کامل ہونا ایک خاص حصے میں کامل ہونا ہے۔ اور ایک مجموعی طور پہ کامل ہونا ہے کہ اس کی تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ پہ درست ہوں۔ لہٰذا وہی شخص حقوق صحیح ادا کر سکتا ہے۔ اور جو لوگ مسلسل جلوت میں ہیں، وہ حقوق پورے نہیں کر سکتے۔ آپ کہیں گے کہ کیسے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین کا جو حق انسان اپنے والدین کے طور پر ادا کر رہا ہے، وہ اور ہے۔ اور جو اللہ کے لئے والدین کا حق ادا کر رہا ہے، وہ اور ہے۔ بیوی کا حق اس کی محبت میں ادا کرنا اور ہے اور اللہ کے لئے بیوی کا حق ادا کرنا اور ہے۔ بچوں کا اپنے طور پہ حق ادا کرنا اور ہے، لیکن اللہ کے لئے بچوں کا حق ادا کرنا اور ہے۔ کیونکہ جب وہ بحیثیت ایک عام انسان والد کا حق ادا کرتا ہے، تو عام انسان کے اپنے جذبات ہوتے ہیں، ان جذبات کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ اپنے والد صاحب کی کسی بات سے اختلاف ہو جائے، اس سے تنگ ہو جائے، پریشان ہو جائے اور التفات کرنا چھوڑ دے۔ لیکن جب وہ للّٰہیت کے جذبہ سے سرشار ہو کر والد کی خدمت کرے گا، تو پھر تنگی کے حالت میں بھی نہیں چھوڑے گا اور کہے گا کہ ابھی تو وقت ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ مجھ سے اس پر راضی ہو رہے ہیں۔ یہ باتیں ذرا پیچیدہ ہوتی جا رہی ہیں، لیکن میں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ والد کی طرف متوجہ ہو گا اللہ کے لئے، اور اللہ کی طرف متوجہ ہو گا اللہ کے لئے، یعنی یہ دونوں چیزیں ہوں گی۔ جتنی جتنی اس کی للّٰہیت بڑھے گی، اتنی ہی اس کی کمال توجہ والد کی طرف بھی بڑھے گی۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ جتنا اس کا عروج ہے، اتنا اس کا نزول ہے۔ عروج اس کی للّٰہیت ہے اور نزول مخلوق کے ساتھ جمع ہونا ہے، مخلوق کے ساتھ کام کرنا ہے، ان کے ساتھ ملنا ہے۔ یہی سب سے بڑی بات ہے۔ آپ ﷺ کا مقامِ بشریت، جو حقیقتِ محمدی کے لحاظ سے بیان فرمایا گیا ہے، اصل میں اس میں یہی نکتہ ہے کہ جب آپ ﷺ دنیا میں تشریف لائے تھے، بلکہ عالمِ امر میں حقیقتِ احمدی تھے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں اس وقت بھی نبی تھا، جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ گویا آپﷺ عالمِ امر میں موجود تھے۔ اس وقت صفاتِ ملکی یعنی روحانیت ہی تھی، جب اس دنیا میں تشریف لائے، تو بشریت بھی ساتھ ہو گئی۔ لیکن ملکیت بھی جدا نہیں ہوئی، وہ بھی ساتھ ہے۔ لہٰذا ملکیت خلوت جلوت ہر حالت میں اللہ کے ساتھ کامل تعلق کی وجہ سے ہے اور بشریت مخلوق کی طرف توجہ اور ان کے حالات سے آگاہی کی وجہ سے ہے۔ آپ ﷺ جو بے حد خشوع کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، یہ ملکیت ہے، لیکن بچوں کی آواز سننے سے نماز کو مختصر کر دیتے تھے۔ کیا آج کل کوئی امام کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اپنی نماز مختصر کرتا ہے؟ مثلاً: امام ایئر کنڈیشن میں کھڑا ہے یا پنکھے کے نیچے کھڑا ہے یا سایے میں کھڑا ہے، اور باہر مقتدی دھوپ میں تپ رہے ہیں، اور یہ بہت لمبی قرات شروع کر چکا ہے، اس کو کبھی یاد ہوتا ہے کہ پیچھے کیا ہو رہا ہے؟ اور تو چھوڑیں، بارش ہو رہی ہو پھر بھی اماموں کو پتا نہیں چلتا کہ وہ اپنی نماز مختصر کریں۔ کیونکہ وہ چیز حاصل نہیں ہے، جو آپ ﷺ کو حاصل تھی۔ یہ سنتیں ہیں، سنتوں کو پورا کرنا چاہئے۔ لہٰذا اللہ کے لئے مخلوق کا اتنا خیال رکھنا، یہ بہت بڑی بات ہے۔ آپ ﷺ کو جو بشریت کی خلعت عطا ہوئی تھی۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ﴾ (الکہف: 110) یہ اصل میں اس لئے تھی کہ بشر کی تمام کمزوریوں کا احساس ہو، بشر کی تمام مجبوریوں کا احساس ہو۔ اور جب احساس ہو، تو پھر اس کے مطابق عمل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سنت سب سے آسان طریقہ ہے، کیونکہ سنت میں بشریت کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے، کسی اور چیز میں اتنا خیال نہیں رکھا گیا۔ اگر کوئی سنت پہ چلتا ہے، تو وہ سب سے آسان زندگی گزارے گا۔ کیونکہ آپ ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ جب دو یا تین برابر راستوں کا چانس ہوتا، تو سب سے آسان راستہ اختیار فرماتے، کمزوروں کا خیال رکھتے، معذوروں کا خیال رکھتے، ہر چیز میں ان کا خیال تھا، یہاں تک کہ آپ ﷺ جب ہاتھ ملاتے، تو کبھی اپنا ہاتھ پیچھے نہیں کیا، دوسرے نے چھوڑا، تو چھوڑ دیا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ آج کوئی کر کے دیکھائے۔ یہ بشریت کا پہلو تھا۔ اور حقیقتِ محمدی یہی ہے کہ بشریت کی خلعت کے ساتھ ملکیت ہر وقت موجود ہو، یعنی آپ ﷺ کا مخلوق کی طرف دیکھنا خالق سے منہ موڑنا نہیں تھا۔ یہاں بھی حضرت نے یہی بات فرمائی ہے کہ اپنی خلوت کی وجہ سے اور اپنی تفرید و تجرید کی وجہ سے لوگوں کے حقوق ضائع نہ ہونے پائیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ عظیم درجات نصیب فرمائے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں لوگوں کو یہ کر کے دیکھایا کہ کیسے لوگوں کے حقوق ادا کئے جاتے ہیں۔ حضرت نے دو شادیاں کیں اور ایسا انصاف کر کے دیکھایا کہ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ کیسے کیا تھا۔ کوئی حضرت کے لئے خربوزہ لایا، تو حضرت نے فرمایا: آپ کو پتا ہے ناں کہ میرے دو گھر ہیں، یہ میں کس کو دوں گا؟ انہوں نے کہا: میں دوسرا لے آتا ہوں۔ فرمایا: اگر وہ پھیکا ہو اور یہ میٹھا ہو، تو پھر کیا کرو گے؟ بالاٰخر اس کو آدھا آدھا کر کے تول لیا اور ایک ایک کو دے دیا اور دوسرا دوسری کو دے دیا۔ ایک دفعہ ایک عورت حضرت تھانوی کی مریدنی سے کہہ رہی ہے کہ تمہارا کیسا پیر ہے، جو اپنے ساتھ اپنے جوڑوں کو لے جاتے ہیں، میرے پیر نے اتنے سال سے اپنے بیویوں کا منہ تک نہیں دیکھا۔ ان کے خیال میں یہ بزرگی تھی۔ حالانکہ آپ ﷺ سفر میں اپنے ساتھ ازواجِ مطہرات کو لے جاتے تھے، باقاعدہ قرعہ ڈالتے تھے۔ گویا جو سنت پہ چلتا ہے، وہ راستہ لوگوں کو پھیکا نظر آتا ہے۔ تو یہ بشریت کا پہلو ہے۔ حالانکہ عبدیت بشریت میں ہے۔ جب انسان بشر ہو گا، تو عبدیت کی طرف جائے گا۔
بہر حال! عروج کے بعد نزول ہوتا ہے، تو وہ نزول کامل تب ہوتا ہے، جب عروج کامل ہوتا ہے۔ پس جتنا کسی کا عروج میں مقام زیادہ ہوتا ہے، اتنا زیادہ وہ نزول میں آ جاتا ہے۔ آگے حضرت نے فرمایا کہ:
متن:
اور ناسمجھ مستوں کی مانند توکّل کے راستے پر نہ چلے، اور ادب کے طریقہ کو جس کا مطلب اسباب تلاش کرنا ہے بالکل ترک نہ کرے۔
تشریح:
پھر دوبارہ عبدیت کی بات آ گئی۔ جو لوگ اسباب کو تلاش کرتے ہیں، ان کو بھی لوگ متوکل نہیں سمجھتے۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ توکل تو بچہ بھی کر سکتا ہے کہ جیب میں کچھ نہ ہو اور کہتا ہو کہ اللہ کرے گا۔ فرمایا: توکل تو یہ ہے کہ بینک بھرے ہوں اور پھر کہے کہ اللہ کرے گا۔ یعنی اگر کسی کے پاس کچھ ہے ہی نہیں، تو وہ تو یہی کہے گا، وہ اور کیا کہے گا، وہ تو اس کے علاوہ کچھ کہہ ہی نہیں سکتا۔ لیکن اگر بینک بھرے ہوئے ہوں اور پھر یہ کہے، تو یہ توکل ہو گا۔ کیونکہ لوگوں کا بھروسہ پیسے پر ہوتا ہے۔ آپ یقین کیجئے، میں صاف بتاتا ہوں، یہ میں مبالغہ نہیں کرتا۔ لڑائیوں میں کیا ہوتا ہے۔ ہمارے کے پی کے میں لڑائیاں بہت ہوتی ہیں، دشمنیاں ہوتی ہیں، تو جو ذرا پاور فل اور مال دار پارٹی ہوتی ہے، وہ اپنی دولت کے بل بوتے پہ صلح نہیں کرتے، کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنے پیسے ہیں، ہم پیسے لگا سکتے ہیں، پولیس کو دے سکتے ہیں، فلاں کو دے سکتے ہیں، یہ کر سکتے ہیں، وہ کر سکتے ہیں، جج کو خرید سکتے ہیں۔ وہ نہیں صلح کرتے۔ ان کو اپنے پیسے پہ اتنا ناز ہوتا ہے۔ بلکہ بعض لوگ تو دیکھا بھی دیتے ہیں۔ یہ کیا چیز ہے؟ یہ اسباب پر بھروسہ کرنا ہے۔ چنانچہ اصل یہ ہے کہ اسباب پر بھروسہ نہ ہو، لیکن اسباب سے فرار بھی نہ ہو۔ اسباب سے فرار اس لئے نہ ہو کہ اللہ نے جو راستہ بنایا ہے، تم کون ہو اس کو تبدیل کرنے والے؟ تمہارے بس میں یہ نہیں ہے کہ تم اس راستہ کو تبدیل کرو، جو اللہ نے بنایا ہے۔ مثلاً: اللہ پاک نے اولاد کے لئے شادی کا راستہ بنایا ہے، انسان کوئی اور راستہ ڈھونڈ سکتا ہے؟ اسی طرح جو راستہ اللہ نے بنایا ہے، اس کو change نہیں کرنا۔ چنانچہ حضرت نے اسباب کے بارے میں یہی فرمایا ہے۔
متن:
مناجات اور دُعائیں ذوق و شوق سے کرتا رہے اور ہمہ وقت اسراف سے دامن بچائے رکھے اور شجاعت کے وقت جوش اور غصہ سے بچا رہے۔
تشریح:
گویا ہر جگہ پر balance ہے۔ کیونکہ ایک یہ ہے کہ کسی کو جوش ہی نہ ہو۔ دوسرا یہ ہے کہ جوش کنٹرول میں نہ ہو۔ یہ دونوں حالتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ جوش کے وقت جوش چاہئے، لیکن کنٹرول کے وقت کنٹرول چاہئے۔ جیسے ایک یہ ہے کہ انجن کے اندر طاقت ہی نہ رہے، تو انجن کھڑا رہے گا۔ اور ایک یہ ہے کہ طاقت تو پوری ہو، لیکن کنٹرول بھی فل ہو۔ یہی صحیح ہے۔
متن:
حاصل کلام یہ کہ اس کے اقوال و افعال اِس کی مرضی اور طبیعت کے موافق نہ ہوں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور عبادت و اِطاعت میں کوشاں رہے،
تشریح:
یہ بہت بڑی چیز ہے، اللہ کرے کہ ہمیں نصیب ہو جائے۔ اپنی جبلت سے کوئی کام نہ کرنا، اپنی طبیعت سے کوئی کام نہ کرنا، بلکہ اللہ کی رضا کے لئے کرنا، اس میں اللہ کی رضا کی نیت کرنا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں ذکر سے فائدہ نہیں ہوتا۔ فرمایا: ذکر سے فائدہ اس وقت نہیں ہوتا، جب اس میں صحیح نیت نہ ہو۔ اور ذکر میں اللہ کی محبت کی نیت ہونی چاہئے کہ اللہ کی محبت کے لئے کر رہا ہوں۔ لہٰذا اگر انسان عمل تو اچھا کرے، لیکن اس میں نیت نہ ہو، تو وہ جبلت کے لئے ہو گیا۔ کیونکہ اگر ایک آدمی سخی ہے، تو وہ سخاوت تو کرے گا۔ لیکن یہ دیکھنا ہے کہ کیا اس کی سخاوت اللہ کے لئے ہے یا اپنی طبیعت کے لئے ہے۔ فائدہ تبھی ہے، جب اپنی طبیعت کے لئے نہ ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ جب اللہ کے لئے ہوتی ہے، تو ایک بخیل آدمی بھی سخی بن جاتا ہے۔ اگرچہ طبیعت میں بخل ہوتا ہے، لیکن جب خرچ کا وقت آئے گا، تو اپنے آپ کو مجبور کر کے سخاوت کرے گا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ ورنہ جب طبیعت چاہے گی، تو کرے گا اور اگر طبیعت نہیں چاہے گی، تو نہیں کرے گا۔
متن:
مثلًا اگر کسی کو کوئی چیز بخشتا ہو تو محض اپنی سخاوت کے تقاضے کے مطابق نہ دیا کرے بلکہ یہ دیکھے کہ اس سے مولیٰ راضی ہو گا، تو اللہ کی رضا طلبی کرتے ہوئے وہ کام انجام دے ورنہ اس سے دامن بچائے۔ اور اسی طرح ہر کام کو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کرتے ہوئے انجام دے۔ ایسے حضرات گناہ سے محفوظ رہتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے اقوال، افعال، عبادات، معاملات، مقامات، اخلاق اور احوال؛ نفس و شیطان کی مداخلت اور خطا و سہو و نسیان سے محفوظ رکھتا ہے اور محافظ فرشتے اِن پر مقرر فرماتا ہے تاکہ بشری اور فطری تقاضوں (یعنی نفسانی کمزوریاں) کی گرد و غبار ان کے دامن کو آلودہ اور داغدار نہ کرے، اور نفس بہیمی اپنی من مانی کارروائی نہ کر سکے۔ اگر کبھی کبھار کوئی ایسا کام اِن سے صادر ہو جائے جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے مطابق نہ ہو تو اسی وقت حافظ حقیقی اِن کو خبردار کرتا ہے اور حفاظت غیبی اُن کو کھینچ کر "طَوْعًا وَّ کَرْھًا" ”خواہی نہ خواہی“ سیدھی راہ پر لے آتا ہے۔
تشریح:
جس کا کسی کام میں ارادہ بُرا ہو جائے گا اور وہ کام کھٹائی میں پڑ جائے تو وہ اس پر بہت خوش ہو گا کہ اللہ تعالیٰ مجھے برائی کی طرف نہیں جانے دے رہا ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہش کے مطابق کوئی بُرا ارادہ کر لیتے ہیں اور ٹک سے کوئی چیز ہو جاتی ہے کہ وہ نہیں کر پاتے۔ حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک طالبِ علم ان کا خادم تھا، طالب علوں میں ہر قسم کے طالب علم ہوتے ہیں۔ وہ طالبِ علم حضرت کا مرید بھی تھا۔ اس کا کسی لڑکی کے ساتھ تعلق ہو گیا، اس کے ساتھ ملنے کا وقت طے ہو گیا۔ حضرت کے پیر دبا رہا تھا کہ حضرت جلدی سو جائیں، تو میں اپنے کام پہ چلا جاؤں۔ جب حضرت سو گئے، تو وہ چلا گیا۔ جو جگہ مقرر تھی، جب وہاں پہنچا، تو اچانک بادل آ گئے اور گرج چمک ہو گئی، اتنی روشی ہو گئی کہ دونوں نے اپنی اپنی راہ لی۔ لڑکی اپنے گھر کی طرف چلی گئی اور یہ اپنی جگہ چلا گیا۔ جب یہ اپنے جگہ پہ پہنچا، تو حضرت چارپائی پہ اس طرح بیٹھے ہوئے تھے کہ جیسے مراقب ہوں۔ جب یہ پہنچا، تو حضرت نے اس کو دیکھا اور پھر سو گئے۔ یہ حضرات ایسے شفیق بزرگ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ مقام دیا تھا۔ کیونکہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ نے بنایا تھا، لہٰذا یہ کام اصل میں تو اللہ تعالیٰ نے کیا تھا۔ بہر حال! اللہ تعالیٰ نے اس کو بچایا۔
متن:
اور ان میں سے بعض کی نگاہ تو کیمیا کی طرح اثر کرتی ہے، آنِ واحد میں شقی اور بد بخت کو سعید اور خوش نصیب بناتی ہے، اور ان کی خرقِ عادت بات کے بارے میں یہ لکھ دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کرام یا اپنے اولیاء کی تصدیق کی خاطر ان سے ایسی بات ظاہر کرتا ہے کہ ان کا کرنا عوام کے لئے ناممکن ہوتا ہے۔ اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ بعض کام جب متعلقہ ہاتھ آئے تو وہ سر انجام پاتے ہیں مثلًا قتل اسلحہ سے یعنی اسباب سے قتل کا عمل ہو سکتا ہے، اگر بغیر اسلحے کے قتل ہو تو خرق عادت ہے۔ اور جس جگہ کی ریل نہیں چلا کرتی اور اشیاء کی نقل و حمل کے دوسرے ذرائع موجود نہ ہوں اور وہاں کوئی موسمی میوہ موجود نظر آئے تو یہ خرق عادت ہے۔
تشریح:
جیسے مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوا تھا، حالانکہ زکریا علیہ السلام نبی تھے، انہوں نے جب دیکھا کہ ان کے پاس بے موسم کے میوے ہیں، تو پوچھا کہ یہ کہاں سے آئے؟ انہوں نے کہا: اللہ پاک کی طرف سے۔ یہ اعتبار والی بات ہے کہ ان کا فوراً ذہن انتقال کر گیا کہ یہاں اگر بے موسم کے میوے آ سکتے ہیں، تو میرے پاس بھی تو بے موسم کا میوہ آ سکتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ سے اپنی اولاد مانگی۔ اب اولاد کا میوے کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے، مگر یہ نبی کا کام تھا۔ اللہ تعالیٰ سے اولاد مانگی اور اللہ پاک کی طرف سے منظوری ہو گئی۔ اپنے حجرے میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت آگئی کہ تیرے لئے لڑکا ہے۔ اس وقت یہ ہوش میں آ گئے، مانگتے وقت عروج میں تھے۔ بے موسم میوہ سمجھ کر مانگا، لیکن جب بشارت آ گئی، تو ہوش میں آ گئے۔ اور اسباب کے رخ سے کہا کہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ فرشتے کی طرف سے فرمایا گیا کہ اللہ ایسے ہی کرتا ہے۔ پھر کہا کہ میرے لئے نشانی کیا ہے؟ اللہ پاک نے نشانی بتلائی۔ گویا خرقِ عادت کو دیکھ کر خرقِ عادت کی طرف ذہن چلا گیا۔ چنانچہ جب انسان اللہ تعالیٰ سے مانگے، تو اس میں عادت کو نہ دیکھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ عادت کا پابند نہیں ہے۔ اللہ پاک سے وہ مانگو، جو اللہ کر سکتا ہے اور جب مل جائے، تو جو بھی مل جائے، اس پر صبر کرو، کہو کہ قدرت ہے اور حکمت ہے۔ پس جو فیصلہ ہو جائے، حکمت سمجھ کے قبول کرو۔ اور جب مانگو، تو اللہ کی قدرت کے مطابق مانگو، اپنی سمجھ کے مطابق نہ مانگو۔
ہم نے غالباً ایف ایس سی کا امتحان دیا تھا، ڈاکٹر فدا صاحب کے ساتھ ملاقات ہو گئی، غالباً چند دن کے بعد رزلٹ نکلنے والا تھا۔ وہ کہتے ہیں: ابھی دعا کرو، ابھی رزلٹ change ہو سکتا ہے، دعا جاری رکھو۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ایک ہوتا ہے؛ تقدیر پر یقین رکھنے والا، ایک ہوتا ہے؛ تدبیر پر یقین رکھنے والا۔ جو تدبیر پر یقین رکھنے والا ہوتا ہے، وہ موٹی موٹی تدبیریں کرتا ہے، چھوٹی نہیں کرتا، کیونکہ اس کا خیال ہوتا ہے کہ چھوٹی تدبیر سے کیا ہوتا ہے۔ مثلاً: میری سفارش وزیرِ اعظم کرتا ہے اور ایک دوسرے آدمی کی سفارش ایس ایچ او کرتا ہے، تو وہ کہے گا کہ یار یہ تو نہیں ہو سکتا۔ لیکن جو تقدیر کو ماننے والا ہوتا ہے، وہ چھوٹی تدبیر بھی نہیں چھوڑتا، کیونکہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ کرنے والا اللہ ہے، میں نے تو صرف حیلہ کرنا ہے۔ چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسی کے ذریعے سے لکھا ہو، تو اسی چھوٹی سی تدبیر سے اس کا کام ہو جائے گا۔ لہٰذا وہ چھوٹی تدبیر بھی نہیں چھوڑتا۔
متن:
یہ خرق عادت کرامت کی قسم سے ہے یا کہ سحر و جادو کے بل بوتے سے، کس طرح کی جائے گی اس بارے میں قرآنی آیات نازل ہیں: ﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ لَھُمُ الْبُشْرٰی فِي الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِي الْآخِرَۃِ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ ذَالِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ (یونس: 62) ”یاد رکھو! جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں نہ ڈر ہے اُن کے لئے اور نہ غمگین ہوں گے، جو لوگ ایمان لائے اور ڈرتے رہے، اُن کے لئے خوشخبری ہے دنیا کی زندگانی میں اور آخرت میں، بدلتی نہیں اللہ تعالیٰ کی باتیں یہی بڑی کامیابی ہے“۔
ولایت کے لئے دو باتیں ضروری ہیں: ایک اللہ تعالیٰ پر (جیسا کہ کتب عقائد میں تفصیل ہے) اور دیگر ضروری باتوں پر ایمان لانا ہے۔ دوسری چیز تقویٰ ہے۔
تشریح:
یعنی ولایت کے لئے دو باتیں لازم ہیں۔ ایک تو اللہ پر ایمان لانا۔ اور باقی تمام ضروریاتِ دین پر بھی ایمان لانا۔ یعنی ایمان بالجز کافی نہیں ہوتا، بلکہ سب چیزوں پر ایمان لانا ہوتا ہے۔ پس اگر کوئی ایک چیز بھی رہ جائے، تو ایمان ختم ہو جاتا ہے۔
متن:
اب تقویٰ کا جاننا ضروری ہے، صوفیائے کرام نے تقویٰ کے مختلف معنیٰ فرمائے ہیں مگر اس کے اصل معانی وہی ہیں جو قرآن مجید میں ذکر ہوئے ہیں اور وہ اس طرح ہیں کہ ﴿لَیْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓىٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَالْیَتٰمٰى وَالْمَسٰكِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِۙ وَالسَّآىٕلِیْنَ وَفِي الرِّقَابِۚ وَأَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عٰهَدُوْاۚ وَالصّٰبِرِیْنَ فِي الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 177)
تشریح:
’’صَدَقُوْا‘‘ کا مطلب ہے؛ انہوں نے مان لیا، تصدیق کر لی اور اس کو سمجھ لیا۔ اور ’’اَلْمُتَّقُوْنَ‘‘ کا مطلب ہے؛ اس پر عمل بھی کر لیا اور اس کے مطابق وہ چیز حاصل بھی کر لی۔
متن:
”صرف یہ نیکی نہیں ہے کہ تم اپنے رُخ مشرق یا مغرب کی طرف پھیر دو، نیکی یہ ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ، روز آخرت، فرشتوں، کتابوں اور انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان لائے اور اپنی محبت سے اپنا مال رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں اور مکاتب غلاموں کو دیا کرے اور نماز قائم کر کے زکوٰۃ ادا کر دیا کریں اور جب وعدہ کریں تو اس کو پورا کریں اور سختی اور تکلیف کے وقت صبر کریں یہ ہی وہ صادق اور سچے لوگ ہیں اور یہ ہی وہ لوگ ہیں جو متقی اور خدا سے ڈرنے والے لوگ ہیں“۔ اگر کسی میں یہ اوصاف موجود ہوں اور اس سے خرقِ عادت یعنی خلاف معمول بات صادر ہو جائے تو اگر وہ پیغمبر ہو تو اس کے خلاف عادت کام کو معجزہ اور اگر ولی ہو تو کرامت کہتے ہیں، اور اگر ایسا نہیں تو پھر سحر اور جادو ہے۔
تشریح:
پیغمبروں کے معجزات کو ان کے جھٹلانے والوں نے سحر اور جادو کہا۔ جاہل عوام سحر اور جادو کو کرامت سمجھتے ہیں۔ استدراج کو بھی کرامت سمجھتے ہیں۔ اور کفار اور مشرکین، جنہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا، انہوں نے ان کے معجزوں کو بھی جادو سمجھ لیا۔ یہ دونوں غلط باتیں ہیں۔ اپنی اپنی جگہ کی بات ہے۔ جو خلافِ شریعت چل رہا ہے، اس کے کسی عمل کو کرامت نہ سمجھو۔ اور شریعت پر چلنے میں سب سے پہلے عقیدہ ہے۔ اگر کسی کا عقیدہ درست نہیں، تو اعمال بے شک آسمانوں پہ پہنچ جائیں، ان کا تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ بری امام میں ایک پیر صاحب ہیں، پتا نہیں کہ اب زندہ ہیں یا نہیں۔ بہت پرانا واقعہ ہے۔ ہمیں ایک دوست نے بتایا کہ بڑے بڑے لوگ ان کے پاس آتے، جن میں ایکٹر وغیرہ اور ان جیسے دوسرے لوگ بھی ہوتے۔ بڑا جم گھٹا لگا ہوتا تھا۔ یہ لوگ بڑے بڑے افسروں پہ ڈوریں ڈالتے ہیں، اپنے کام نکالنے کے لئے ان کو ذریعہ بناتے ہیں۔ میرے اس دوست کے ایک بھائی آئل اینڈ گیس محکمے میں بہت بڑے افسر تھے اور آئل اینڈ گیس محکمے میں سفارشیں بڑی چلتی ہے۔ کہتے ہیں کہ صبح سویرے وہ پیر صاحب ہمارے گھر آئے اور بیل بجائی۔ میرے بھائی جب باہر نکلے، تو ان کے پاس ایک گلاس تھا اور گلاس کے اوپر بڑا خوب صورت رومال ہے۔ پیر صاحب میرے بھائی سے کہتے ہیں کہ یہ آپ نے میرا دل رکھنے کے لئے پینا ہے، اس کا انکار نہیں کرنا، یہ میں آپ کے لئے خصوصی طور پہ لایا ہوں۔ کہتے ہیں: جب اس نے رومال ہٹایا، تو whisky تھی، جو پیر صاحب لائے تھے۔ اب یہ اس پیر کی غلطی تو ہے ہی، لیکن عوام کی بھی غلطی ہے کہ عوام ایسے پیروں کے پیچھے چلتے ہیں۔ تبھی تو وہ بے باک ہیں اور پروا نہیں کرتے۔ اگر عوام ایسے پیروں کے پیچھے نہ چلیں، تو کسی کو یہ جرات نہیں ہو سکتی تھی۔ اگر خود غلط بھی ہوتے، تو کم از کم چھپاتے تو سہی۔ جو اس طرح علی الاعلان کرتا ہے گویا وہ سمجھتا ہے کہ یہ سارے الو ہیں، ان کو کچھ پتا نہیں ہے، ان کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہتے ہو، کرو۔ اور کرتے بھی ہیں۔ لوگوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کرتے۔ لوگ پھر بھی ان کو بزرگ سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کیا کہا جائے۔
بہر حال! حضرت نے اولیاء اللہ کی نشانیاں بتائی ہیں۔ اگر یہ نشانیاں کسی میں ہوں، تو ہم مان لیں گے۔ ایک اللہ کا معاف کرنا ہے، وہ اور بات ہے۔ وہ تو ایک کافر کو توبہ نصیب کر کے فوراً معاف کر دے۔ اللہ پاک کی قدرت کے سامنے کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ اور ایک ہوتی ہے ولایتِ خاصہ۔ ولایتِ خاصہ میں ولایتِ خاصہ کی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ قرآن کریم میں دو جگہ ولایت کا بڑی وضاحت کے ساتھ ذکر ہے: ﴿اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓـٴُـھُمُ الطَّاغُوْتُۙ یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ﴾ (البقرہ: 257)
ترجمہ: ’’اللہ ایمان والوں کا رکھوالا ہے، وہ انہیں اندھیریوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، ان کے رکھوالے وہ شیطان ہیں، جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیریوں میں لے جاتے ہیں، وہ سب آگ کے باسی ہیں، وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے‘‘۔
یہاں ’’اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ میں کوئی شرط نہیں ہے۔ لہٰذا سارے مسلمان اس حیثیت سے اللّٰہ کے دوست ہیں کہ وہ ایمان والے ہیں۔ کسی وقت تو جہنم سے نکل کر جنت میں چلے جائیں گے۔ یہ ولایتِ عامہ ہے۔ دوسری ولایتِ خاصہ ہے۔ ولایتِ خاصہ میں یہی چیز ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ 0 الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَ﴾ (یونس: 62-63)
ترجمہ: ’’یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں، ان کو نہ کوئی خوف ہو گا، نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو ایمان لائے اور تقوی اختیار کیے رہے‘‘۔
اس میں ایمان کے ساتھ تقویٰ کی شرط ہے۔ اور پھر کون کتنا بڑا ولی ہے؟ اس کے لئے بھی فرمایا: ﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ﴾ (الحجرات: 13)
ترجمہ: ’’در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو‘‘۔
چنانچہ جس کا جتنا تقویٰ ہو گا، وہ اتنا زیادہ اللہ کے قریب ہے، اتنا اللہ کے ہاں مکرم ہے۔ پس جب ہم ولایتِ خاصہ کی بات کریں گے، تو اس میں ان نشانیوں کو ڈھونڈیں گے۔ اور اگر ولایتِ عامہ کی بات کریں گے، جیسے بعض لوگ کہتے ہیں: اے اللہ کے ولی! فلاں کام کر دو۔ تو ان کو بھی ہم نہیں روکیں گے۔ کیونکہ ’’اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ (البقرہ: 257) کے ضمن میں وہ بھی اللہ کے ولی ہیں۔
متن:
﴿هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُؕ تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِیْمٍۙ یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَ﴾ (الشعراء: 221-223) ”کیا ہم تجھے خبر دے کر آگاہ کریں کہ شیطان کن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں، ہر جھوٹے گناہ گار پر نازل ہوتے ہیں، سنی ہوئی باتیں اُن کے گوش گزار کرتے ہیں اور اکثر وہ جھوٹے ہوتے ہیں“۔
تشریح:
یعنی فساق و فجار کے اوپر شیاطین نازل ہوتے ہیں، ان کے دلوں میں باتیں ڈالتے ہیں، ان میں سے کچھ صحیح باتیں ہوتی ہیں، کچھ جھوٹی ہوتی ہیں، اور اکثر جھوٹی ہوتی ہیں۔
متن:
اس کی تفسیر کی ضرورت نہیں، اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ اکثر جادوگر، کاہن اور نجومی ایک بات معلوم کر کے اس میں جھوٹ ملا کر دروغ بیانی سے کام لیتے ہیں چنانچہ علمِ سیمیا وغیرہ اور جاہل اور بے علم اس کو خرقِ عادت بلکہ کرامت تصور کرتے ہیں، یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اب بھی موجود ہے اور آئندہ بھی ہو گا اور اس وقت تک ہو گا جب تک قیامت قائم نہ ہو جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفر، اسلام، ظلمت و نور، حق و باطل؛ سب کو ساتھ ساتھ پیدا کیا، ﴿هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌؕ وَّ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ (التغابن: 2) ”وہی ہے جس نے تم کو بنایا، کوئی تم میں سے منکر ہے اور کوئی ایماندار، اور اللہ تعالیٰ جو تم کرتے ہو دیکھتا ہے“۔ ہاں البتہ یہ بات جاننی چاہئے کہ خوارق یعنی خرق عادت کا ظاہر ہونا بِالذات ہدایت کے اسباب میں سے نہیں، اگرچہ استثنائی طور پر اتفاقًا بعض خوش نصیبوں کے لئے موجبِ ہدایت ہو جاتا ہے، بلکہ ان خوارق کا ظہور اتمامِ حجت کی خاطر ہوتا ہے، کیونکہ یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہدایت وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ازلی خوش نصیب لوگوں کے دلوں پر بارش کی طرح برستا ہے اور ان کو محبوب حقیقی کی محبت میں اُکسا کر آمادہ کرتا ہے۔ رہی یہ بات کہ خرقِ عادت چیز کس طرح صادر ہوتی ہے؟ تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے عالمِ تکوین میں عجیب و غریب تصرفات ودیعت فرمائے ہیں، اور یہ اپنے مقبول بندوں میں سے کسی مقبول بندے کی تصدیق کرانے کے خاطر ہوتے ہیں، اور عالم تکوین میں خرقِ عادت کے ظہور کی طاقت نہاں رکھی ہے اور اس کو ظاہر کرنے کا حکم دیتا ہے، اس میں کوئی شک و شائبہ نہیں کہ عالم تکوین میں تصرف کی طاقت اور قدرت اللہ تعالیٰ کی قدرت کے خواص کی وجہ سے ہے، نہ کہ کسی انسان کی قدرت کے آثار کی وجہ سے، اور نہ اِس کی طاقت فرشتے میں ہوتی ہے، اور ما سویٰ اللہ کی قدرت نص قطعی و قرآنی سے ممنوع ہے: ﴿أَبْصِرْ بِهٖ وَأَسْمِعْؕ…﴾ (الکهف: 26) ”اللہ تعالیٰ کی ذات عالی کے لئے آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ باتوں کا علم ہے وہ بینا اور شنوا ہے“ ﴿مَا لَكُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّ لَا نَصِيْرٍ﴾ (الشوری: 31) ”انسانوں کے لئے اس کے سوا کوئی مدد گار اور مالک نہیں“ اور ربِ ذو الجلال کسی دوسرے کو حکم میں شریک نہیں بناتا، ﴿تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا﴾ (الفرقان: 1-2)
یہ لمبی بحث ہے اور وقت کم ہے۔ لہٰذا اس کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ اس پہ بات کریں گے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ