اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے جدِ امجد کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات پر مبنی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے تعلیم جاری ہے۔ حضرت فرماتے ہیں:
متن:
’’جو کوئی آج روز روشن اُس محبوب کا چہرہ نہ دیکھے تو وہ راستے پر چلنے والا بچہ ہے جو اس انتظار میں ہے کہ کل (قیامت میں) ملاقات ہو گی‘‘۔
دوسرا ساقی بے واسطہ کہ ﴿وَسَقَاھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا﴾ (الدہر: 21) ”اور اُن کا رب اُن کو پاک شراب پلائے گا“۔ اے عزیز! شراب محبت کو کہتے ہیں اور طہور سے مراد پاک اور بے غل و غش محبت ہے کہ اس میں کچھ مقصود نہ ہو، یعنی غیر کی محبت سے پاک ہو اور اخلاق ذمیمہ سے پاک کرنے والی ہو۔ اور واصلین کے نزدیک اخلاق ذمیمہ یہ ہوتے ہیں: یعنی کرامت، زہد، علم، وقار، حلم، عبادت، سعادت، مرتبہ، شیخی، دیانت، مقامِ کشف و کرامت، مقتدائی اور پیشوائی کی ہوس اور حرص مدرسی یعنی تدریس کرنے کا عشق، مفسر اور مصنف بننے کا شوق۔ اور اے میرے عزیز! دوسری بات یہ ہے کہ جو درجات ہم اُن کو ضروری سمجھتے ہیں، وہ سب غلطی ہیں بلکہ شیخ محمد حسین کے نزدیک بچگانہ و طفلانہ کام ہیں۔ اور شیخ محمد حسین کہتے ہیں کہ ہم سب نے ان کو اخلاقِ ذمیمہ دیکھا ہے۔ جب یہ مذکورہ عمل حور و قصور کے لئے ہو تو یہ طفلانہ و تاجرانہ ہے اور جب پاک ہو تو بغیر کسی واسطے کے ساقی سے شراب حاصل کرو گے۔ کیسی نافع اور مفید بات ہے۔
(بیت)
؎ معاذ اللّٰہ کزیں پس بہر ہر اغیار بنشینم
مرا چوں گل بدست آید چرا با خار بنشینم
چہ باشد بہ ازیں نعمت کہ من در خواب مے جستم
دمے در صحبت یارے کہ بے اغیار بنشینم
’’خدا کی پناہ! اس کے بعد میں اغیار کے پاس کبھی بھی نہیں بیٹھوں گا، جب مجھے پھول حاصل ہو تو کانٹوں کے پاس کیوں بیٹھوں، جس کو میں خواب میں تلاش کرتا تھا تو اس سے بڑھ کر میری خوش نصیبی کیا ہو گی کہ میں تھوڑی دیر کے لئے اپنے محبوب کے ساتھ ایسے وقت بیٹھوں کہ کوئی غیر نہ ہو‘‘۔
پس اے عزیز! یہ تین مشروب جو میں نے ابھی بیان کئے یہ ابرار، مقربین اور عاشقوں کے ہیں، لیکن واصلین ان ہر سہ مشروبوں سے محروم ہیں اور اپنا منہ ان ہر سہ مشاربِ مذکورہ سے آلودہ نہیں کرتے کیونکہ "حَسَنَاتُ الْعَاشِقِیْنَ سَیِّئَاتُ الْوَاصِلِیْنَ" ”عاشقوں کی نیکیاں واصلین کے لئے برائیاں ہوتی ہیں“ یعنی اے عزیز! جب ساقی خود بہ نفس نفیس پیالے بھر بھر کر واصلین کے لبوں میں ٹپکائے تو واصلین ہونٹ بند کریں اور قسمیں اٹھا کر کہیں کہ ہمارے لئے کافی ہے شرابًا طہورًا کیا چیز ہے۔ اس شعر میں اس مطلب کو واضح کیا گیا ہے۔
(بیت)
؎ قدح چون دور من آید بہ ہوشیاران مجلس دہ
مرا بگذار تا حیران بمانم چشم در ساقی
’’جب محفل میں شراب کا پیالہ مجھ تک پہنچ جائے تو اُسے میری بجائے مجلس میں جو اہل ہوش بیٹھے ہوں اُن کو دے دیجئے اور مجھے چھوڑئیے کہ میں سراپا تحسیر میں ڈوب کر ساقی پر نظر جمائے رہوں‘‘۔
اپنے ساقی کو دیکھنے کا یہ حسین لمحہ میں شراب پینے کی شغل میں ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ "شَرَابُ الْوِصَالِ لِلْوَاصِلِیْنَ وَالْمُوَاصِلِ یُوَاصِلُ سُرُوْرَ الْأَبَدِ" یعنی وصال کی شراب مواصل اور واصلین کے لئے ایک ابدی سرور ہے۔ یہی وہ شرابِ وصال ہے جو کہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات عالی کی وصولی ہے اور جس کا ذکر "دَقَائِقُ الْمَعَانِيْ" (ایک کتاب کا نام ہے) میں ہے۔ پس اے میرے عزیز! جس مقام کا وعدہ ہوا ہے وہی مقامِ محمود ہی مقام ہے اور رسول اللّٰہ ﷺ کا مقام عالی یہی مقام اور شرابِ وصال ہے جو کہ شیخ محمد حسین کہہ گئے ہیں۔ "اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا بِہٖ بَرَکَۃَ النَّبِیِّ ﷺ" ”اے ہمارے رب! ہم کو رسول اللّٰہ ﷺ کی برکت عطا فرما“آمین آمین۔
اے میرے محبوب! اِس حدیث مبارک کے بارے میں کہ "إِنَّ فِيْ الْجَنَّۃِ سُوْقًا یُّبَاعُ فِیْہِ الصُّوَرُ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی جنت میں ایک بازار ہے جس میں صورتوں کی خرید ہوتی ہے۔ شیخ محمد حسین نے کہا ہے اور بہت اچھی طرح وضاحت فرمائی ہے کہ کسی دوسرے نے ایسی وضاحت نہیں کی۔ اے محبوب! اللّٰہ تعالیٰ کی شراب وصال میں اُس جہان کے دنوں کے حساب سے جس کا ایک دن ﴿إِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَأَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ﴾ (الحج: 47) یعنی وہ دن تمہارے رب کے نزدیک تمہارے عدد شماری کے حساب سے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ عاشق ستر ہزار سال تک ہوں گے پھر اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے فرمان صادر ہو جائے گا کہ اے بادل! آسمانِ حقیقت کے نور پر چھا جا اور قادر لا یزال کے رُخِ زیبا کے لئے ایک حجاب بن جا۔ اس وقت بے تاب عاشقوں کو اللّٰہ کی جناب سے خطاب ہوگا کہ اے میرے محبوبو! میرے بازار کی جانب چلے چلو کہ "إِنَّ فِي الْجَنَّۃِ سُوْقًا یُّبَاعُ فِیْہِ الصُّوَرُ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”جنت میں ایک بازار ہے جہاں صورتیں فروخت کی جاتی ہیں“۔ وہ حجاب عاشقوں کے لئے ہو گا، لیکن ایک دن اللّٰہ لا یزال کا بازار عاشقوں کے لئے ہوگا۔ "لِأَھْلِ الْعِشْقِ حِجَابٌ یَّوْمَ الْأَحَدِ" یعنی عاشقوں کے لئے اتوار کے دن حجاب ہو گا۔ اور باقی چھ دِن شرابِ جمال کی رؤیت و دیدار میں ہوں گے اور رب ذو الجلال کی تمنائے وصال میں رہیں گے۔ اور اس سے عاشق لوگ محروم نہ ہوں گے لیکن عوام کے لئے حجاب حور و قصور اور جنت کی نعمتوں کی شکل میں ہوگا، یعنی یہ نعمتیں حجاب بن جائیں گی۔ لیکن اے میرے عزیز! اور پیارے یہ بازار خراباتِ حقیقت ہوگا، یعنی جس چیز کا نقش کلیات میں نہ ہوگا وہ جزئیات میں ظاہر ہوگی۔ (بیت)
؎ خرابات است بیرون از دو عالم
دو عالم در بر آں ہم خراب است
’’ان دونوں جہانوں سے باہر اور ماوراء خرابات ہے کہ اس کے سامنے یہ دونوں جہان نا چیز ہیں‘‘۔
؎ ببین کز بوئی دوری خرابات
فلک را روز و شب چندیں شراب است
’’یہ بات ملاحظہ کیجیئے کہ خرابات کی دور کی بو سے بھی آسمان کے لئے دن رات اس قدر شراب ہے‘‘۔ (اور اس خرابات حقیقت میں صورت پرستی کے سوا اور کوئی چیز نہ ہو گی)
اے پیارے! شیخ محمد حسین فرماتے ہیں کہ جب قلم یہاں صورت پرستی کے (لفظ کو) پہنچ گیا تو مجھ پر دیوانگی ظاہر ہوئی، اور اسی وقت میرے جدِ بزرگوار کی شریعت حقہٗ نے میرا منہ بند کیا کہ اے دیوانے! اپنے جد بزرگ کی شریعت کی زنجیر کو نہ توڑ، اسی بنا پر میں نے یہ بات چھپائی تاکہ نامحرم لوگ اس سے آگاہ نہ ہو جائیں۔ میں نے صرف یہی صورت پرستی کی خرابات کو لکھا، یہ کوشش سے معلوم ہو جاتا ہے کہ پھر اس کے بعد یہ صورت پرستی تم عین الیقین سے مشاہدہ کرو گے اور اس کے بعد حق الیقین تک رسائی حاصل کرو گے۔ شیخ محمد حسین کے اس قول سے بجلی کی جو بات سنی گئی، کوئی دیوانہ بھی اس سے آگاہ نہیں اور کوئی سر تراشیدہ قلم بھی اس کی اطلاع نہ پا سکا، یعنی یہ بات کسی قلم نے نہیں لکھی اور حضور رسالت مآب ﷺ کی اس حدیث شریف کہ "إِنَّ فِي الْجَنَّۃِ سُوْقًا یُّبَاعُ فِیْھَا الصُّوَرُ" (لم أجد ہذا الحدیث) کے الفاظ پر قناعت کر کے لطف حاصل کرتے ہیں، اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں۔ (بیت)
؎ گر نہاں گردند مردان پیش ازاں اسرارہا
ایں کہ آوردم نشانی از ورائے کفر و دین
خالق بے چون برائے طالبان اندر صور
مے نماید خویشتن را درمیان آب و طین
’’میں نے کفر و دین کے دور کے جو نشانات بیان کئے، اگر لوگ اِس کے اِن اسرار و رموز سے بے خبر ہیں تو خالق کائنات اپنے طالبوں کے لئے صورتوں کی شکل میں اپنے آپ کو مٹی اور پانی کی شکل میں نمودار کرتا ہے‘‘۔
اے محبوب! یہ مٹی اُس وسیع زمین (ارض واسعہ) کی مٹی ہے اور یہ پانی بحر مسجور کا پانی ہے ﴿وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ﴾ (الطور: 6) پس اے محبوب! اس مٹی اور پانی سے بقاء، جمال کی بقاءِ ظاہر اور نمودار ہوتی ہے اور صورتوں میں لاکھوں نقش بنتے ہیں۔ بیت
؎ پر توی از عکس رؤیت گر فتد بر روئے خاک
گردند از ہر ذرۂ صد ہزاران آفتاب
’’اگر آپ کے رُخ زیبا کے عکس کی جھلک بھی زمین پر پڑ جائے تو زمین کے ہر ذرے سے لاکھوں سورج بن جائیں گے‘‘۔
اور ان صورتوں کے خریدار اس بازار میں یعنی خراباتِ حقیقت میں عاشق ہوں گے اور ابد الآباد تک عاشقوں کی تسلی اِس صورت پرستی میں ہو گی، اگر اس سوال کے اسرار پوچھو گے تو میں اس کا کیا جواب دوں کہ خاموشی کچھ کہنے سے بہتر ہے۔
تشریح:
اصل میں ہم لوگوں کا حوصلہ بہت کم ہے، اس لئے یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ جیسے حضرت نے لوگوں کے تین درجے بتائے ہیں: ابرار، مقربین اور عشاق۔ اس کے بعد واصلین ہیں۔ یہ مرتبے بھی لوگوں کی سمجھ کے مطابق ہیں کہ جس کی جتنی سمجھ ہے، وہ اتنا لے لے اور محروم نہ رہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اللّٰہ تعالیٰ اجر دے کہ انہوں نے بہت کرم فرمایا کہ اس انداز میں بیان فرما دیا۔
حضرت رحمہ اللّٰہ علی کے نزدیک اخیار وہ حضرات ہیں، جو دین کا علم حاصل کر کے اس پہ قوتِ ارادی سے عمل کرتے ہیں، یعنی جن چیزوں کا امر ہے، ان پر عمل کرتے ہیں اور جن چیزوں سے ممانعت ہے، قوتِ ارادی سے ان سے رکتے ہیں۔ مثلاً: نماز پڑھتے ہیں، چوری نہیں کرتے، زکوٰۃ دیتے ہیں، سود نہیں لیتے۔
اس کے بعد ابرار ہیں۔ ابرار وہ لوگ ہیں، جنہوں نے کسی شیخ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اپنے آپ کو اس کے حوالہ کر دیا۔ شیخ جو کہتا ہے، اس پر عمل کرتے ہیں۔ یقیناً اگر شیخ صحیح ہے، تو شریعت پر ہی عمل کروائے گا، لیکن اس میں اس کو دو باتیں خود بخود حاصل ہو جائیں گی۔ ایک شیخ کے سلسلہ کی برکت اور دوسرا شیخ کا تجربہ۔ تجربے سے وہ انسان کے کام کو آسان کر دیتے ہیں۔ مثلاً: plumbing ہے، میں دیکھتا ہوں کہ علم تو میرے پاس بھی ہے، میں کر سکتا ہوں، لیکن اگر تجربہ نہ ہو، تو نہیں کر سکتا، اور جس کو تجربہ ہو، وہ کر لیتا ہے۔ اسی طرح بجلی کا کام ہے۔ اسی طرح دوسرے کام ہیں، سب تجربے سے ہوتے ہیں۔ ان کاموں کا علم تقریباً اکثر کو ہوتا ہے، اتنے مشکل نہیں ہوتے۔ لیکن تجربہ انسان کو کار آمد کر بنا دیتا ہے۔ اسی طرح شیخ کے تجربہ سے کام آسان ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جب اسے یہ دو چیزیں مل جاتی ہیں، تو وہ اپنی قوتِ ارادی کو صرف شیخ کی بات ماننے میں استعمال کرتے ہیں، گویا ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ میں نے شیخ کی بات ماننی ہے، میں نے کچھ اور نہیں کرنا۔ اور شیخ اس سے جو کچھ کراتا ہے، کرتا جاتا ہے۔ اس کو چونکہ دو نعمتیں حاصل ہو جاتی ہیں، شیخ کی برکت اور شیخ کا تجربہ۔ جس کی وجہ سے جلدی جلدی ترقی کرتا ہے اور وہ کام جو اخیار بڑی مشکل سے کرتے ہیں، یہ بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں۔
حضرت کے نزدیک تیسری قسم شطاریہ ہیں۔ شطاریہ وہ لوگ ہیں، جن کو اپنے شیخ کے ساتھ محبت ہو جاتی ہے۔ لہٰذا قوتِ ارادی کا مسئلہ ہی ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ قوتِ ارادی تو تب استعمال کرنی ہوتی ہے، جب یہ اڑی کرے گا اور یہ اس کو زبردستی کرائے گا۔ اب چونکہ اس کو اپنے شیخ کے ساتھ عشق ہے، لہذا وہ تو خود چاہتا ہے کہ مجھے کچھ کرنے کو بتائے۔ چنانچہ اس کے لئے تو قوتِ ارادی والی بات ہی ختم ہو گئی۔ اس کو دین بہت ہی آسانی سے مل جاتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ پہلے لوگ بھی صحیح ہیں، دوسرے لوگ ان سے زیادہ بہتر ہیں، زیادہ تیزی کے ساتھ دین پر چلیں گے۔ اور تیسری قسم کے لوگوں کے بارے میں ابھی بات ہوئی۔
اب میں اگر کہوں کہ ابرار وہ لوگ ہیں، جنہوں نے شیخ سے لے لیا۔ گویا حضرت نے یہاں اخیار کو بیان نہیں کیا، بلکہ ابرار سے شروع کیا۔ ابرار وہ لوگ ہیں، جو شیخ کی نگرانی میں کام کرتے ہیں، یعنی ان کی قوتِ ارادی شیخ کی اتباع میں استعمال ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد مقربین ہیں، تو جو وہاں شطاریہ ہیں، وہ یہاں مقربین ہیں۔ اس کے بعد جب فنا فی الشیخ کے بعد فنا فی الرسول اور پھر اس کے بعد فنا فی اللّٰہ کے مقام پہ آ جاتے ہیں، تو یہ عشاق کے مرتبے میں آ جاتے ہیں۔ پھر ان میں سے جن حضرات کو اللّٰہ تعالیٰ اگلے مرتبے میں ترقی دے، تو وہ واصلین کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ یہاں سے حضرت کی باتیں ان کے ساتھ مل جاتی ہیں۔ آگے حضرت فرماتے ہیں کہ:
متن:
’’جو کوئی آج روز روشن اُس محبوب کا چہرہ نہ دیکھے تو وہ راستے پر چلنے والا بچہ ہے جو اس انتظار میں ہے کہ کل (قیامت میں) ملاقات ہو گی‘‘۔
تشریح:
یہاں پر ان سر کی آنکھوں سے تو ملاقات نا ممکن ہے۔ لیکن جب دل چلنا شروع ہو جاتا ہے، تو دوسری حِسّیں دب جاتی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ جب روح ملاءِ اعلیٰ سے لینے لگتی ہے اور پھر جب دل کو دینے لگتی ہے، تو وہی روح دیدار کے لئے سمع و بصر (یعنی کان اور آنکھیں) بن جاتی ہے، جس کے ذریعے سے انسان وہ دیکھتا ہے، جو دوسرے لوگ نہیں دیکھ سکتے۔ ملاءِ اعلیٰ ایسی جگہ ہے، جہاں پر ارواح بھی ہیں، جہاں پر فرشتے بھی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو اس زندگی کو مکمل کر چکے ہیں۔ اور فرشتے تو خیر فرشتے ہوتے ہیں۔ اور جن کا ملاءِ اعلیٰ کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے، تو وہاں یہاں کی زندگی والا معاملہ نہیں ہو گا، بلکہ کچھ آگے کی بات ہو گی۔ حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحقیق کے مطابق پھر وہاں دو قسم کے لوگ ہیں۔ کچھ حضرات تجلیِٔ اعظم کی طرف منجذب ہوں گے اور کچھ ملاءِ اعلیٰ کے ساتھ ہوں گے۔ ملاءِ اعلیٰ کے بارے میں حضرت نے فرمایا کہ یہ پیچھے رہنے والوں میں ہیں۔ تو آگے رہنے والوں میں کون ہیں؟ وہ تجلیِٔ اعظم والے ہیں۔ گویا جو حضرات ملاءِ اعلیٰ تک پہنچ گئے، وہ پیچھے رہنے والے ہیں۔ اور جو آگے تجلیِٔ اعظم کی طرف منجذب ہو گئے، ان کا مقام الگ ہے۔ حضرت نے یہ فرمایا کہ: ’’جو کوئی آج روزِ روشن اُس محبوب کا چہرہ نہ دیکھے‘‘۔ تو ملاءِ اعلیٰ والا سمع و بصر، جو یہاں کا نہیں ہے، وہاں کا ہے، ان کا یہ حال ہے، تو جو تجلیِٔ اعظم میں منجذب ہوں گے، ان کا کیا ہو گا!
متن:
جو اس انتظار میں ہے کہ کل (قیامت میں) ملاقات ہو گی‘‘
دوسرا ساقی بے واسطہ کہ ﴿وَسَقَاھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا﴾ (الدہر: 21) ”اور اُن کا رب اُن کو پاک شراب پلائے گا“۔
تشریح:
خدا کی قسم! یہ عجیب باتیں ہیں، انسان سوچ نہیں سکتا۔ یہ ان حضرات کا حوصلہ ہے۔ فرمایا:
متن:
اے عزیز! شراب محبت کو کہتے ہیں اور طہور سے مراد پاک اور بے غل و غش محبت ہے۔
تشریح:
یعنی اس کے اندر ناپاکی نہیں ہے۔ اس مقام کی ناپاکی کیا ہے؟ وہ دنیا کے ساتھ ملوث ہونا ہے۔ ہر مقام کی اپنے لحاظ سے ناپاکی ہوتی ہے۔ مثلاً: نجاستِ حکمیہ اور نجاستِ اصلیہ میں فرق ہے۔ کافر نجاستِ اصلیہ جانتے ہیں، نجاستِ حکمیہ نہیں جانتے۔ ایمان ان دونوں نجاستوں کو علیحدہ کر لیتا ہے۔ پھر ایمان سے آگے جب عشق کی بات آ جاتی ہے، تو وہ معاملہ الگ ہو جاتا ہے۔ اور وہاں نجاست کی تعریف الگ ہو جائے گی۔ وہاں نجاستِ حکمیہ کی تعریف بھی پیچھے رہ جائے گی۔ وہاں نجاست کی تعریف کیا ہے؟ اس کے متعلق حضرت فرماتے ہیں کہ:
متن:
اس میں کچھ مقصود نہ ہو، یعنی غیر کی محبت سے پاک ہو اور اخلاق ذمیمہ سے پاک کرنے والی ہو۔ اور واصلین کے نزدیک (یہ واصلین کی بات کر رہے ہیں، جو آخری درجہ ہے، ان سے پہلے درجے والوں کی بات نہیں ہے۔ گویا ابرار، مقربین اور عشاق تک معاملہ ذرا الگ ہے۔) اخلاق ذمیمہ یہ ہوتے ہیں: کرامت، زہد، علم، وقار، حلم، عبادت، سعادت، مرتبہ، شیخی، دیانت، مقامِ کشف و کرامت، مقتدائی اور پیشوائی (ان سب) کی ہوس اور حرص مدرسی یعنی تدریس کرنے کا عشق، مفسر اور مصنف بننے کا شوق۔
تشریح:
یہ ان کے لئے اخلاقِ ذمیمہ ہیں۔ اللّٰہ جل شانہٗ ہم سے پاک دل چاہتے ہیں، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ پاک ہیں۔ پس ان تمام چیزوں سے دل کو پاک کرنا پڑے گا، صرف اللّٰہ ہی چاہئے۔ بے شک یہ چیزیں ذریعہ بن جائیں، ذریعہ بننے میں مسئلہ نہیں ہے۔ جیسے ہم سیڑھیوں پہ پیر رکھتے ہیں، سیڑھیوں پہ سر نہیں رکھتے۔ لہٰذا سیڑھی ذریعہ ہے، مقصود نہیں ہے۔ مقصود صرف اللّٰہ ہے۔ یہ بہت باریک باتیں ہیں، بظاہر الفاظ بڑے ہی عجیب نظر آتے ہیں کہ یہ کیا فرما رہے ہیں! کیونکہ مقصود اور ذریعہ میں فرق ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے یہ چیزیں بہت بیان فرمائی ہیں کہ یہ چیزیں مقصود نہیں ہیں: ’’لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللّٰہ‘‘۔ جب صرف اللّٰہ مقصود ہے، تو یہ ساری چیزیں گئیں۔ لیکن میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ ضروری نہیں ہیں۔ ضروری ہیں، لیکن مقصود نہیں ہیں۔ بعض چیزیں ضروری ہوا کرتی ہیں، لیکن مقصود نہیں ہوتیں۔ ایک شخص زندہ رہنے کے لئے کھاتا ہے، اس کے لئے یہ ضروری ہے۔ لیکن کیا وہ اس کا مقصود ہے؟ مقصود نہیں ہے۔ اس کا مقصود یہ ہے کہ زندگی کے مقصد کو پورا کر سکے۔ یہ وہ نکتہ ہے کہ جب تک دل اس قابل نہیں بنتا، یہ سمجھ میں بھی نہیں آتا۔ باقی سنت اور نوافل پر عمل کرنا تو بڑی بات ہے، سمجھ میں بھی نہیں آتا۔ کیونکہ اسی پہ بڑی بڑی debate ہوتی ہیں، ان کے بڑے بڑے فضائل آپ کو بتائے جائیں گے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جو عالم ہوتا ہے، وہ علم کے فضائل جانتا ہے۔ جو شیخ ہوتا ہے، وہ شیخ کے فضائل جانتا ہے۔ جو مجاہد ہوتا ہے، وہ جہاد کے فضائل جانتا ہے۔ اور وہ فضائل اس معنے میں جانتے ہیں کہ باقی لوگوں کو کچھ نہیں سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک وہی مقصود ہے۔ جن کے نزدیک یہ مقصود نہیں ہو گا، ان کی نظر ضرور اوپر ہو گی۔ ذریعے کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک آدمی اس طرف سے سیڑھیوں سے چڑھ رہا ہے۔ دوسرا دوسری طرف سے سیڑھیوں سے چڑھ رہا ہے، تیسرا اُس طرف سیڑھیوں سے چڑھ رہا ہے۔ اگر یہ سیڑھیوں پہ چڑھنا ان کا مقصود ہو گیا، تو وہ باقیوں کو غلط کہیں گے۔ لیکن اگر مقصود کی بجائے ذریعہ جانے گا، تو وہ ادھر سے چڑھ رہا ہے، دوسرا دوسری طرف سے چڑھ رہا ہے، تو کیا فرق پڑتا ہے؟ بس یہی بنیادی چیز ہے۔
جو لوگ غرہ کرتے ہیں، وہ اسی لئے کرتے ہیں کہ وہ اس مقام کے حاصل کرنے کو مقصود مانتے ہیں۔ کرامت کو مقصود مانتے ہیں، اچھے اچھے خوابوں کو مقصود مانتے ہیں، زہد کے لباس کو مقصود مانتے ہیں۔ جن کے دل بالکل تمام چیزوں سے صاف ہو جائیں اور ان میں اندر صرف اللّٰہ ہی رہ جائے، تو ان کا معاملہ الگ ہوتا ہے، وہ تکلف میں نہیں رہتے۔ کیونکہ ان کے لئے ساری چیزیں ذرائع ہیں، مقصود نہیں ہیں۔ اور ذرائع مختلف ہو سکتے ہیں۔ ایک شخص حدیث کو محبت کے ساتھ بیان کر رہا ہے، اس میں اللّٰہ کے ہاں بڑا مرتبہ حاصل کرتا ہے، اللّٰہ کو راضی کر لیتا ہے۔ دوسرا شخص اللّٰہ کے لئے مردانہ وار لڑ رہا ہے، اس کے ذریعے سے اللّٰہ تک پہنچ جاتا ہے۔ تیسرا آدمی ذکر و فکر میں لگا ہوا ہے، گم ہے، وہ اس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔ گویا اللّٰہ تعالیٰ نے جتنے لوگ پیدا کئے، اتنے راستے ہیں۔ چنانچہ اگر یہ تینوں چیزیں مقصود نہ ہوں، تو اس کے لئے یہ ساری چیزیں ذریعہ کے لحاظ سے برابر ہوں گی۔ وہ اپنے اس عمل پر فخر نہیں کرے گا، بلکہ عین ممکن ہے کہ اس کو اپنے کام میں کیڑے نظر آئیں کہ میں تو اس کو صحیح نہیں کر رہا۔ اور دوسرے آدمی کے عمل میں کمال نظر آئے کہ دیکھو اس کے لئے یہ ذریعہ ہے، ممکن ہے کہ وہ اس میں اخلاص کے ساتھ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہو، لہذا وہ دوسرے کو بڑا سمجھے گا، اس کو اچھا سمجھے گا۔ اپنے راستے کو چھوڑے گا نہیں اور دوسروں کو کم خیال نہیں کرے گا۔ یہ بنیاد ہو گی۔ واصلین کو اللّٰہ تعالیٰ یہ نعمت عطا فرما دیتے ہیں۔ وہ ان بکھیڑوں میں نہیں پڑتے۔ ان بکھیڑوں سے بچنا بڑا مشکل ہے۔ بہر حال! واصلین کا مقام تو یہی ہے۔ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ، حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ایک مجازِ صحبت تھے، حلیمی صاحب کی تربیت انہوں نے کی تھی۔ مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مجازِ بیعت تھے، حلیمی صاحب نے مجھے یہ بات سنائی تھی کہ مولانا عبدالکریم صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ہمیں یہ واقعہ بتایا کہ حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ ساری دوپہر حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو پنکھا جھلتے تھے۔ ان دنوں یہ پنکھے نہیں ہوتے تھے، بوریے کا پنکھا ہوتا تھا۔ یہ بوریوں کا پنکھا میں نے بھی دیکھا ہے، ان دنوں پنکھے اتنے عام نہیں تھے، ہمارا بچپن تھا، یہ پنکھے تو بعد میں آئے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے گھر میں صرف ایک Pedistal fan ہوتا تھا، ہمارے صحن میں تقریباً سات آٹھ چارپائیاں ہوتی تھیں، ان سب کے لئے ایک پنکھا تھا، جو سرہانے لگا ہوتا تھا۔ اب تو کمروں میں بھی Ceiling fans ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت یہ چیزیں نہیں تھیں۔ بوریوں کا پنکھا میں نے دیکھا ہے، گاؤں وغیرہ میں ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ رسی ہوتی تھی، اس کو کھینچتے تھے، پھر چھوڑ دیتے۔ بہر حال! کہتے ہیں کہ پوری دوپہر حضرت مولانا فقیر محمد صاحب حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے لئے پنکھا جھلتے تھے اور ہم سب حذف اخیر میں آ جاتے اور جب حضرت کے جاگنے کا وقت ہوتا، تو ان سے پنکھا لے لیتے۔ کہتے ہیں کہ وہ آرام سے چھوڑ دیتے، وہ اس پہ اعتراض نہیں کرتے تھے کہ ابھی جب ان کے جاگنے کا وقت آیا، تو مجھ سے لے لیا۔ کہتے ہیں کہ جب وقت آیا، تو ان کو مجازِ بیعت بنا لیا اور مجھے مجازِ صحبت بنا لیا۔ در اصل اللّٰہ پاک تو دیکھ رہے ہیں، وہ اصل چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے دل میں کیا ہے، وہ تو اللّٰہ تعالیٰ ہی دیکھ رہے ہیں۔ یہ چیز میں دیکھتا ہوں، یہ میں ابھی بھی observe کرتا ہوں، یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ جو لوگ شیخ کی نظروں میں اس طریقے سے آگے ہونا چاہتے ہیں، جیسے میں نے یہ واقعہ سنایا ہے، تو وہ شیخ کو سب کچھ سمجھتے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ کی طرف نہیں دیکھ رہے۔ یعنی اتنی موٹی بات جو ہر مسلمان کو سمجھ آنی چاہئے، وہ اتنی زیادہ تربیت ہونے کے باوجود بھی بہت سے لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتی۔ اس سے پتا چلا کہ کچھ مسائل ہیں۔ لہٰذا اس چیز کو دھونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہی چکر چلتے رہے ہیں، یہ چیزیں صورت بدلتی رہتی ہیں، لیکن یہ چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ اور جب معاملہ اللّٰہ کے ساتھ خالص ہو جائے، تو معاملہ اور ہوتا ہے، پھر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ میں شیخ کی نظروں میں کیسا ہوں۔ کہتے ہیں کہ اس کی محبت بھی تبھی شیخ کے ساتھ صحیح ہوتی ہے کہ جب وہ اس معاملہ سے گزر جائے۔ کیونکہ شیخ کے ساتھ بھی اس کو محبت اللّٰہ کے لئے ہونی چاہئے۔ اگر اس کی نظروں سے اللّٰہ ہٹ جائے، تو شیخ کے ساتھ بھی محبت دوسری چیزوں کے لئے ہو گی، جن کے بارے میں حضرت نے فرمایا کہ یہ اخلاقِ ذمیمہ ہیں۔ یہ بذاتِ خود اخلاقِ ذمیمہ نہیں ہیں، بلکہ اس معنیٰ میں ہیں کہ جو بھی چیز آپ کو اللّٰہ سے روکے اور اللّٰہ اور آپ کے درمیان حائل ہو جائے، وہ اخلاقِ ذمیمہ ہے۔ یہی چیز ہے، جو حضرت نے بتائی ہے۔ اب اگر کوئی ویسے ہی پڑھ کر اس سے گزر جائے، تو کہے گا کہ یہ حضرت نے کیا فرمایا ہے؟ یہ تو سارے بڑے اونچے اونچے مقامات ہیں، ان سب کو اخلاقِ ذمیمہ کہہ دیا۔ حالانکہ یہ مطلب نہیں ہے۔ جیسے میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ ذرائع کے طور پہ تو ان کو آپ کریں گے، لیکن وہ جو دل کا معاملہ ہے، اس کو صحیح کرنا ہے۔ یہ میں نے شیخ کی بات بتائی ہے، جو طریقت میں اصل ہے اور اصل ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ بھی آپ کی محبت کامل اس وقت تک نہیں ہو سکتی، جب تک آپ ان دوسری چیزوں کو نہ نکالیں۔ جب آپ کی محبت اللّٰہ کے لئے ہو جائے گی، تو آپ یہ نہیں سوچیں گے کہ میں غلط طریقوں سے شیخ کی نظروں میں آ جاؤں اور ان کی نظروں میں اچھا بن جاؤں۔ مثلاً: آپ نے کوئی غلطی کی، شیخ نے آپ سے پوچھا، مگر آپ نے صحیح بات نہیں بتائی، اصل بات چھپائی، تو یہ اللّٰہ کے لئے شیخ کے پاس نہیں آیا۔ یہ کسی اور چیز کے لئے آیا ہے۔ کیونکہ اگر اللّٰہ کے لئے آتا، تو اللّٰہ تو دیکھ رہا ہے، اللّٰہ تو آپ کے دلوں کے حال کو جانتا ہے۔ چنانچہ جو اصل ہے، جس کے لئے سب کچھ ہے، اس کو آپ نے ناراض کیا، تو شیخ کو راضی کر کے کیا کرو گے؟ جس کے لئے آپ شیخ کے پاس آئے ہیں، اس کو تو ساری چیزوں کا پتا ہے، اس کو آپ کے سارے احوال کا پتا ہے۔ شیخ انسان ہونے کی وجہ سے نہیں جانتا ہو گا، کیونکہ انسان انسان ہے اور ایسے لوگوں کو حسنِ ظن بھی ہوتا ہے، لہٰذا وہ حسنِ ظن کی وجہ سے کچھ نہیں کہے گا۔ کیونکہ یہ اچھا گمان کرتے ہیں۔ اگر آپ کو شیخ نے کچھ نہیں کہا، آپ شیخ کی نظروں میں اچھے ہو گئے، لیکن اللّٰہ کی نظروں میں گر گئے ہیں، تو پھر یہ ہوتا ہے کہ اللّٰہ پاک کا ایک غیبی نظام ہے، جو operate ہو جاتا ہے، شیخ کے سامنے آپ کے سارے نمبر بن چکے ہوں گے، لیکن کوئی ایسا کام آپ سے ہو جائے گا کہ سارے نمبر گر جائیں گے۔ کیوں کہ اللّٰہ جل شانہٗ کو پتا ہے کہ آپ کدھر ہیں۔ چنانچہ جہاں پر آپ ہوں گے، اسی کے مطابق آپ کو adjust کر لیں گے، وہیں پر آپ کو لے آئیں گے۔ اللّٰہ پاک کے ہاں بے انصافی نہیں ہے۔ آپ کے اوپر زیادتی نہیں ہو گی، بلکہ جتنا آپ نے کیا ہو گا، اسی کے حساب سے adjust کر لے گا۔ مثلاً: آپ شیخ کی نظروں میں بہت چڑھ گئے، لیکن حقیقت میں ادھر ہی ہیں۔ شیخ انسان ہونے کی وجہ سے آپ کو اُدھر سمجھ رہا ہو گا۔ لیکن جیسے ہی اللّٰہ پاک ظاہر فرمانا چاہیں گے، تو آپ سے کوئی ایسا واقعہ ہو جائے گا کہ فوراً شیخ کی نظروں میں وہیں پر آ جاؤ گے، جہاں پر حقیقت میں آپ تھے۔ اور یہ اللّٰہ کا کام ہے، اللّٰہ کے لئے بہت آسان ہے۔ جیسے: مولانا عبدالکریم صاحب نے دیانت داری کے ساتھ اپنا واقعہ بتایا۔ لہٰذا یہ چیز ذہن میں رہنی چاہئے۔ شیخ کے ساتھ تعلق اللّٰہ کے لئے ہے، شیخ کے ساتھ تعلق شیخ کے لئے نہیں ہے۔ اگر شیخ کے ساتھ تعلق شیخ کے لئے ہے، تو شرکِ خفی میں چلے جاؤ گے۔ اس چیز کو جب تک آپ نہیں سمجھو گے، اس وقت تک مسائل کا شکار رہو گے۔ یہ بہت اہم بات ہے، جو آج حضرت کی برکت سے اللّٰہ تعالیٰ نے واضح کرا دی۔ ویسے تو الحمد للہ میرا ذوق پہلے سے ایسے ہی تھا، ذوق ذوق ہوتا ہے، اور ذوق کے لئے کچھ اور چیزیں ہوتی ہیں، لیکن بہر حال! حضرت کی برکت سے یہ چیز بہت واضح ہو گئی کہ ان تمام چیزوں کا شوق اگر اللّٰہ کے لئے نہیں ہے، بلکہ مستقل بالذات ہے، تو یہ اخلاقِ ذمیمہ میں سے ہے۔ اگر مستقل بالذات نہیں ہے، بلکہ اللّٰہ کے لئے ہے تو پھر وہ اخلاقِ ذمیمہ میں سے نہیں ہے، بلکہ راستہ ہے، milestones ہیں۔
متن:
اور اے میرے عزیز! دوسری بات یہ ہے کہ جو درجات ہم اُن کو ضروری سمجھتے ہیں، وہ سب غلطی ہیں۔
تشریح:
؎ نہ ہوں منزلوں کی تلاش میں نہ ہی درجوں کی ہے طلب مجھے۔
متن:
بلکہ شیخ محمد حسین کے نزدیک بچگانہ و طفلانہ کام ہیں۔
تشریح:
یہاں میں ایک بات عرض کروں گا۔ اللّٰہ تعالیٰ مجھ سے صحیح بول کہلوائے، یہ نازک بات ہے۔ وہ یہ ہے کہ نقشبندی سلسلہ میں اس چیز پر کافی زور پایا جاتا ہے اور حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مجددی سلسلہ میں اس پر بے انتہا زور ہے۔ مراقبات بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ لیکن اگر ساتھ ساتھ نفس کا علاج نہ ہو، تو یہی چیزیں حجابات بن جاتی ہیں۔ باقی سلاسل نسبتاً اس سے محفوظ ہیں، کیوں کہ وہاں اس انداز میں ان کو نہیں چلایا جاتا، ان کو پہلے ہی مجاہدہ کرایا جاتا ہے۔ مجاہدہ مٹنے میں ہوتا ہے۔ لہٰذا مٹنے میں تو یہ چیزیں ساتھ نہیں آئیں گی۔ آخر شیخ ابو سعید رحمۃ اللّٰہ علیہ سے مجاہدہ کس لئے کروایا تھا؟ صاحبزادگی کو مٹانے کے لئے کروایا تھا کہ صاحبزادگی ان کے گلے میں اٹکی ہوئی ہے۔ ہمارے جدِ امجد حضرت احمد آتا رحمۃ اللّٰہ علیہ کے لئے بھی یہی چیزیں رکاوٹ بنی تھیں۔ پھر اللّٰہ پاک نے یوں مٹوایا کہ جب انہوں نے اپنے آپ کو مٹایا، تو پھر ہی بات بنی۔ باقی سلاسل میں مٹنا ابتدا میں ہے اور نقشبندی سلسلہ میں انتہا میں ہے۔ اور یہ جو انتہا میں مٹنا ہے، اگر اس سے پہلے پہلے ایک انسان skip ہو جائے، تو چونکہ وہ مٹنا نصیب نہیں ہوتا، لہٰذا یہ حجابات بن جاتے ہیں۔ اسی لئے حضرت نے مکتوب نمبر 287 لکھا ہے، تاکہ انسان رکے نہیں۔ اور یہی چیزیں حجابات بتائی ہیں۔ جیسے حضرت مثال دی تھی کہ خانہ کعبہ کی طرح کسی عمارت کو دیکھے اور اسی کو خانہ کعبہ سمجھے۔ حضرت نے علمی طور پر اس پر اتنا زور اسی لئے دیا ہے، کیونکہ اس میں خطرہ تھا۔ لہٰذا حضرت نے اس پر بے انتہا زور دیا ہے۔ باقی سلاسل نے اتنا زور نہیں دیا۔ کیونکہ ان کا procedure ایسا ہے کہ وہ نسبتاً اس سے محفوظ ہیں۔ وہاں اور مسائل ہیں۔ چنانچہ چشتیہ سلسلہ میں، قادریہ سلسلہ میں، سہروردی سلسلہ میں، کبروی سلسلہ میں مسئلہ یہ ہے کہ وہ ذرائع میں گڑبڑ کر دیتے ہیں، مقصود ہی ٹھیک نہیں ہوتا۔ ابتدا سے قوالیاں، سماع اور اس قسم کی چیزیں درمیان میں کر لیتے ہیں، ان کا تو بنیادی طور پر نظریہ ہی غلط ہے۔ لیکن جو شیخ ابو سعید رحمۃ اللّٰہ علیہ کی طرح صحیح نظریہ سے آئے گا، اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اس کے لئے کوئی حجاب نہیں ہے، وہ تو مٹنے کے لئے آیا، بس مٹ جائے گا اور اس کا کام ہو جائے گا۔ چونکہ وہاں یہ چیز نہیں ہے، اس لئے یہ مسئلہ ادھر نہیں ہے۔ نقشبندی سلسلہ میں چونکہ مجبوراً یہ پہلے کروایا گیا ہے، لہٰذا اس پہ اچھا خاصا چیک ہونا چاہئے کہ ایسا نہ ہو۔ اب آج کل کے دور میں چیک تقریباً تقریباً اٹھتا ہوا محسوس ہو رہا ہے، اس لئے اس پہ کافی زور سے بات کرنی پڑ رہی ہے۔ گویا حضرت کی منشاء کے مطابق ہے، تاکہ یہ چیزیں وہاں نہ ہوں۔ ورنہ یہ چیزیں حجابات بن جاتی ہیں۔ جیسے میں نے آپ سے عرض کیا کہ شیخ سے بڑا کوئی ذریعہ نہیں ہے، لیکن اگر آپ نے شیخ کے ساتھ محبت شیخ کے لئے کی، تو کیا کام بن جائے گا؟ حتیٰ کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو آپ ﷺ کے ساتھ محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ اللّٰہ تک نہ پہنچیں، تو وہ آپ ﷺ کے عاشق ہی نہیں ہیں، وہ اپنی ذات کے عاشق ہیں۔ لہٰذا حضرت تو ایک step آگے کی بات کرتے ہیں کہ وہاں پر بھی انسان پھنس سکتا ہے۔ آج کل عید میلاد النبی کے موقع پر جو صورتِ حال ہوتی ہے، اس میں کہیں ان کے ذہن میں بھی آتا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم جس کا نام لے رہے ہیں، ان کے طریقے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ جن چیزوں سے انہوں نے روکا ہے، انہی کو بنیاد بناتے ہیں اور پھر ان کی محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ بتائیے! کیا چیز رہ گئی۔ اور جو ان کو بتانے والے ہیں، ان کو وہ اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہدایت کیسے ملے گی؟ حضرت نے تو یہ فرمایا ہے کہ جو حضور ﷺ کے ساتھ محبت کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اگر وہ وہیں پھنس جائیں اور اللّٰہ تک نہ پہنچیں تو اس میں للّٰہیت نہیں ہے۔ گویا اگر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ ٹھیک نہیں ہے، تو ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کو درست کرنا پڑتا ہے۔ بتائیے! اصلاحی لائن کے اوپر سے لے کر ابھی تک ہمارے جو مشائخ ذکر کراتے ہیں، کبھی انہوں نے ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کا ذکر کرایا ہے؟ صرف ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ کا ذکر کراتے ہیں، کیونکہ یہ بنیاد ہے۔ اگر آپ کا ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ درست نہیں، تو ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ درست نہیں ہو سکتا۔ آپ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ ٹھیک کر لیں، تو ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ خود بخود درست ہو جائے گا۔ پھر آپ جس نیت سے ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کے طریق پر چلیں گے، وہ بالکل pure راستہ ہو گا۔ راستہ بالکل سیدھا ہے، راستہ میں کوئی کمزوری نہیں ہے۔ ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کا راستہ تو ہے ہی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا۔ بس آپ کی نیت درست ہونی چاہئے۔ جب نیت درست ہو گی، تو سبحان اللّٰہ راستہ تو بالکل سیدھا ہے۔ اس میں تو مسئلہ ہی نہیں ہے۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک شعر میں اس کے بارے میں ارشاد فرمایا:
لنگ خود تجھ میں ہے، ورنہ راستہ ہموار ہے
تو ہی ہمت ہار ہے، تو ہی ہمت ہار ہے
یعنی بنیادی مسئلہ تجھ میں ہے، آپ ﷺ کا طریقہ تو بالکل واضح ہے۔ چنانچہ ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کا نام لیتے ہیں، مگر ان کا ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ صحیح نہیں ہوا۔ ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کے نام پر کیا کرتے ہیں۔ ہر ہر وہ کام کرتے ہیں، جو حضور ﷺ کے طریقے کے خلاف ہے، اور ان کی محبت کا دعویٰ بھی پھر ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ حضور ﷺ کی محبت کا دعوے دار سمجھتے ہیں۔ اور جو حضور ﷺ کے ساتھ اصلی محبت کر رہے ہیں، ان کو گستاخ سمجھتے ہیں۔ کمال ہے! یہی وہ بنیادی بات ہے، جو لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔
متن:
جو درجات ہم اُن کو ضروری سمجھتے ہیں، وہ سب غلطی ہیں بلکہ شیخ محمد حسین کے نزدیک بچگانہ و طفلانہ کام ہیں۔ اور شیخ محمد حسین کہتے ہیں کہ ہم سب نے ان کو اخلاقِ ذمیمہ دیکھا ہے۔ جب یہ مذکورہ عمل حور و قصور کے لئے ہو تو یہ طفلانہ و تاجرانہ ہے۔
تشریح:
طفلانہ اس لئے ہے کہ بچہ بہت آسانی کے ساتھ ٹافی لے کر موتی دے دیتا ہے۔ ذرا تھوڑا سا غور کریں، میں اکثر ایک بات عرض کرتا رہتا ہوں، مثلاً: جنت میں پہنچ گئے، اللّٰہ تعالیٰ سب کو پہنچا دے۔ جنت کے مزوں میں مست ہو گئے، اللّٰہ تعالیٰ خود پوچھتا ہے کہ اور چاہئے؟ علماء سے پوچھتے ہیں کہ اور کیا مانگیں؟ علماء کہیں گے کہ ابھی اللّٰہ کا دیدار نہیں ہوا۔ سب کہیں گے: یا اللّٰہ! دیدار نہیں ہوا، دیدار کرا دیں۔ اللّٰہ پاک دیدار کرا دے گا، اور ساری چیزیں اس کے مطابق ہو جائیں گی۔ تفصیلات احادیث شریفہ میں موجود ہیں۔ اور جب دیدار شروع ہو جائے گا، تو بالکل ٹائم کا تو پتا ہی نہیں چلے گا۔ اب وہ کہیں گے کہ اس نعمت کے مقابلہ میں پہلے بھی ہمیں کچھ نعمتیں ملی تھیں؟ حالانکہ پہلے بھی نعمتوں میں اتنے گم ہوں گے کہ دیدار کا پتا ہی نہیں چلے گا، اور جب دیدار ہو گا، تو کہیں گے کہ اس نعمت کے مقابلے میں ہمیں پہلے کون سی نعمتیں ملی تھیں۔ جو دل کی آنکھوں سے اس آخری stage کو یہاں دیکھ لے، بتاؤ! وہ کیسے لوگ ہوں گے؟ یہاں حضرت کی پہلی statement یاد رکھو کہ: ’’جو کوئی آج روزِ روشن اُس محبوب کا چہرہ نہ دیکھے، وہ راستہ پہ چلنے والا بچہ ہے‘‘۔ لیکن جو وہاں Final stage ہے کہ دیدار ہونے کے بعد جنتیوں کو پتا چلے گا۔ تو جن کو پہلے یہاں دنیا میں ہی پتا چلا ہے، آخر ان کو بھی تو دل کی آنکھوں سے کچھ نظر آ گیا ہے۔ کیونکہ ان کو بھی نظر آنے سے ہی پتا چلا ہو گا۔ لہٰذا وہ بات جو جنتی اس stage پر کریں گے، وہ لوگ یہاں کر رہے ہیں۔ اس لئے ان کی بات ماننی چاہئے۔
متن:
جب یہ مذکورہ عمل حور و قصور کے لئے ہو تو یہ طفلانہ و تاجرانہ ہے اور جب پاک ہو تو بغیر کسی واسطے کے ساقی سے شراب حاصل کرو گے۔
تشریح:
یعنی جب وہ ان چیزوں سے ہو گا اور جب اس نے واسطے ختم کر دیئے، تو ادھر سے بھی واسطے ختم ہو جائیں گے۔ کیونکہ اللّٰہ پاک کا معاملہ ایسا ہی ہے کہ یہاں جتنا کوئی کرتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ اس سے زیادہ اس کو دیتا ہے۔ تو آپ نے جب واسطے چھوڑ دیئے اور اصل مقصود کی طرف آپ کی نظر چلی گئی، تو اللّٰہ جل شانہ بھی آپ کو بغیر واسطہ کے دیں گے۔
متن:
کیسی نافع اور مفید بات ہے۔
(بیت)
؎ معاذ اللّٰہ کزیں پس بہر ہر اغیار بنشینم
مرا چوں گل بدست آید چرا با خار بنشینم
چہ باشد بہ ازیں نعمت کہ من در خواب مے جستم
دمے در صحبت یارے کہ بے اغیار بنشینم
تشریح:
یعنی بغیر اغیار کے اس کے ساتھ بیٹھتا ہوں۔ اغیار سے مراد یہ ہے کہ اور کوئی مقصود ہی نہیں ہے۔
متن:
’’خدا کی پناہ! اس کے بعد میں اغیار کے پاس کبھی بھی نہیں بیٹھوں گا، جب مجھے پھول حاصل ہو تو کانٹوں کے پاس کیوں بیٹھوں، جس کو میں خواب میں تلاش کرتا تھا تو اس سے بڑھ کر میری خوش نصیبی کیا ہو گی کہ میں تھوڑی دیر کے لئے اپنے محبوب کے ساتھ ایسے وقت بیٹھوں کہ کوئی غیر نہ ہو‘‘۔
پس اے عزیز! یہ تین مشروب جو میں نے ابھی بیان کئے یہ ابرار، مقربین اور عاشقوں کے ہیں، لیکن واصلین ان ہر سہ مشروبوں سے محروم ہیں (واصلین کے لئے یہ بھی حجابات ہیں) اور اپنا منہ ان ہر سہ مشاربِ مذکورہ سے آلودہ نہیں کرتے کیونکہ "حَسَنَاتُ الْعَاشِقِیْنَ سَیِّئَاتُ الْوَاصِلِیْنَ" ”عاشقوں کی نیکیاں واصلین کے لئے برائیاں ہوتی ہیں“ (یعنی معاملہ ایک step اور اوپر چلا گیا) یعنی اے عزیز! جب ساقی خود بہ نفس نفیس پیالے بھر بھر کر واصلین کے لبوں میں ٹپکائے تو واصلین ہونٹ بند کریں اور قسمیں اٹھا کر کہیں کہ ہمارے لئے کافی ہے شرابًا طہورًا کیا چیز ہے۔ اس شعر میں اس مطلب کو واضح کیا گیا ہے۔
(بیت)
؎ قدح چون دور من آید بہ ہوشیاران مجلس دہ
مرا بگذار تا حیران بمانم چشم در ساقی
’’جب محفل میں شراب کا پیالہ مجھ تک پہنچ جائے تو اُسے میری بجائے مجلس میں جو اہل ہوش بیٹھے ہوں اُن کو دے دیجئے (یہ کیسی تنزیہ ہے) اور مجھے چھوڑئیے کہ میں سراپا تحسیر میں ڈوب کر ساقی پر نظر جمائے رہوں‘‘۔
اپنے ساقی کو دیکھنے کا یہ حسین لمحہ میں شراب پینے کی شغل میں ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ "شَرَابُ الْوِصَالِ لِلْوَاصِلِیْنَ وَالْمُوَاصِلِ یُوَاصِلُ سُرُوْرَ الْأَبَدِ" یعنی وصال کی شراب مواصل اور واصلین کے لئے ایک ابدی سرور ہے۔ یہی وہ شرابِ وصال ہے جو کہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات عالی کی وصولی ہے اور جس کا ذکر "دَقَائِقُ الْمَعَانِيْ" (ایک کتاب کا نام ہے) میں ہے۔ پس اے میرے عزیز! جس مقام کا وعدہ ہوا ہے وہی مقامِ محمود ہی مقام ہے اور رسول اللّٰہ ﷺ کا مقام عالی یہی مقام اور شرابِ وصال ہے جو کہ شیخ محمد حسین کہہ گئے ہیں۔ "اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا بِہٖ بَرَکَۃَ النَّبِیِّ ﷺ" ”اے ہمارے رب! ہم کو رسول اللّٰہ ﷺ کی برکت عطا فرما“آمین آمین۔
اے میرے محبوب! اِس حدیث مبارک کے بارے میں کہ "إِنَّ فِيْ الْجَنَّۃِ سُوْقًا یُّبَاعُ فِیْہِ الصُّوَرُ" (لم أجد ہذا الحدیث)
یہ لمبا topic ہے، لہٰذا اس کو بعد میں کر لیں گے۔ ان شاء اللّٰہ العزیز۔
نہ ہوں منزلوں کی تلاش میں
نہ ہوں منزلوں کی تلاش میں، نہ ہی درجوں کی ہے طلب مجھے
بس یہی تو دل کی ہے آرزو کہ اب ا پنا بنا ہی لے رب مجھے
یہ دیوانگی ہی کی تو بات ہے کہ حجاب اب نہ ہو درمیاں
مرا مانگنا اس کا عجیب تر مگر کیا ہوا ہے یہ اب مجھے
میری خلوت و جلوت بھی اس کی ہو، مرا دل و دماغ بھی اس کا ہو
میں دیوانہ ہوں ہاں دیوانہ ہوں، کہیں یہ کہیں لوگ سب مجھے
جو سبب ہے اس کا ہے حکم ہاں میں کروں گا پورا، ضروری ہے
میرے دل کی نگاہ سے وہ دور ہو، کبھی کھینچے یوں نہ سبب مجھے
نہ ہو لمحہ بھر کی بھی غفلت اب مجھے کیا پتہ کہ ہو جائے کیا
کہیں بے خبر رہوں میں یوں اور کرم سے دیکھے وہ کب مجھے
مرے سجدے عبادتیں اس کا حق، مرا حق تو اس پہ کوئی نہیں
یہ کرم ہے اس کا کرے قبول، سنو خود سے کھینچے وہ جب مجھے
مجھ پہ فضل رب کا ہے اے شبیر! مجھے اہلِ حق سے ملا دیا
اب خدا کے کرم سے نصیب ہو، انہی اہلِ حق کا ادب مجھے
یہ اللّٰہ جل شانہٗ کا احسان ہے۔ اور میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ میری شاعری میری نہیں ہے۔ کیونکہ جب یہ ’’پیغامِ محبت‘‘ لکھی گئی ہے، اس وقت یہ کتابیں ہم نے نہیں پڑھی تھیں۔ لیکن الحمد للہ آج کے مضمون سے پتا چل رہا ہے کہ جیسے اس کتاب کو پڑھ کے یہ چیز لکھی گئی ہو۔ پہلے شعر میں ہے:
نہ ہوں منزلوں کی تلاش میں، نہ درجوں کی طلب مجھے
یہ بالکل ان منزلوں اور مقامات کی حرص سے بچنے کی بات کی گئی ہے۔ اصل مقصود یہ نہیں ہے۔ اپنے آپ کو دیوانہ کہنا در اصل تمام چیزوں سے دست برداری ہے۔ کیونکہ جو کسی محبت میں دیوانہ ہو، وہ باقی تمام چیزوں سے دست بردار ہوتا ہے، اس کو باقی چیزیں نظر نہیں آتیں۔ ابھی مجھے یہ حدیث شریف یاد آئی، جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اتنا کثرت سے ذکر کرو کہ لوگ تمہیں مجنون کہیں۔ ابھی تک ہم نے اس کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے، وہ ایک رخ تھا۔ آج اللّٰہ کے فضل و کرم سے اس کا دوسرا رخ یعنی اس کا باطن بھی سمجھ میں آ گیا۔ اس کا باطن یہ ہے کہ ذکر کے ذریعے سے اللّٰہ کی طرف اتنی توجہ کرو کہ تمام باقی چیزوں سے آپ کی نظر ہٹ جائے۔ لوگ تمہیں کیا مجنون کہیں، تم خود مجنون بن جاؤ۔ یعنی ان چیزوں سے دست برداری کر لو، پھر بے شک لوگ بھی تمھیں کہہ دیں۔ کیونکہ ہو گے، تو تم مجنون ہی۔ کیونکہ باقی چیزوں سے دست بردار ہو چکے ہو۔ گویا کہ اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر حقیقی معنوں میں اتنا زیادہ کرو کہ اللّٰہ ہی مقصود بن جائے۔ پھر باقی چیزوں کی طرف آپ کی نگاہ نہیں جائے گی۔ جب باقی چیزوں کی طرف نگاہ نہیں جائے گی، تو یہی دیوانگی ہے۔ لہٰذا یہ جو فرمایا کہ لوگ تمہیں مجنون کہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے تم مجنون بن جاؤ۔ اور اگلے شعر میں یہ کہا گیا ہے کہ ذرائع مقصود نہیں ہیں، مقصود کو ذہن میں رکھو۔ اگلے شعر میں فرمایا کہ اپنے اعمال کو سامنے نہ رکھو کہ میں نے سجدے کئے، میں نے عبادت کی، میں نے حج کیا۔ ان چیزوں پہ نظر نہ رکھو۔ یہ تو اللّٰہ کا حق ہے، ہمارا اس پر کوئی حق نہیں ہے۔ بس اتنا قبول کر لے کہ مجھے اپنا بنا لے۔ آخری شعر میں یہ کہا گیا ہے کہ مجھ پہ اللّٰہ کا فضل ہوا ہے کہ مجھے اہلِ حق کے ساتھ ملا دیا ہے۔ گویا کہ اہلِ حق کے ساتھ ملنا پہلے نہیں کہا، بلکہ اللّٰہ کا فضل ہونا پہلے کہا ہے۔ لہٰذا پہلے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ ہے اور پھر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ کے اوپر عمل کرنے کے لئے ذریعہ ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ ہے۔ محمد ﷺ جو اہلِ حق کے سردار ہیں، سب سے پہلے ادب ان کا ہے، پھر درجہ بدرجہ سب کا ہے۔ کیونکہ ذرائع کا ادب بھی اللّٰہ تعالیٰ سیکھاتا ہے۔ یعنی جس ذریعہ سے کوئی چیز اللّٰہ تمہیں دے رہے ہیں، اللّٰہ اس کا ادب بھی سیکھاتا ہے۔ لہٰذا اہلِ حق کا ادب عین منشاءِ الہی ہے، لیکن مقصوداً نہیں ہے، بلکہ اللّٰہ جل شانہٗ کی منشاء کے تابع ہو کر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کرنا تو سارا کچھ وہی ہے، لیکن دل کا کعبہ بالکل سیدھا رکھنا ہے۔ اس میں ذرہ بھر بھی آگے پیچھے نہیں ہلنا۔ یہی بنیاد ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ