اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادہ حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے حضرت کی تعلیمات کا درس جاری ہے۔
متن:
عین القضاۃ ہمدانی قدّس سرہٗ العزیز کے رسالے میں آتا ہے کہ روحیں چار ہیں: ایک ناصیہ، دوسری متحرکہ، تیسری ناطقہ اور چوتھی قدسی ہے۔ ناصیہ انسان ہے اور دیگر تمام حیوانات و نباتات میں خواہ وہ رحمِ مادر میں ہوں یا باہر مشترک ہیں، پرورش اور نشوونما میں یہ روح مخلوق ہے ﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا…﴾ (السجدۃ: 4) ”اس نے آسمانوں اور زمینوں کو بنایا ہے اور جو کچھ اِن کے درمیان ہے“ روحِ متحرکہ انسان اور دیگر حیوانات میں مشترک ہے، نباتات اس میں شامل نہیں، اور اس کو روح حیوانی کہتے ہیں کیونکہ تمام حیوانات کی حرکات اس روح کی وجہ سے ہیں، یہ روح بھی مخلوق ہے اور یہ دونوں روحیں عناصر کی تاثیر سے وجود پذیر ہیں۔ اور روحِ ناطقہ کا تعلق خاص انسان کے ساتھ ہے، یہ حیوانات اور نباتات میں نہیں اور اس کو روح انسانی کہتے ہیں اور یہ عالَمِ امر سے ہے، عناصر کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی۔ ﴿وَقُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) سے یہ ثابت ہے، لیکن روحِ قدسی انبیاء اور خاص اولیاء کرام کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کو سکینہ بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿فَأَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِم...﴾ (الفتح: 18) ”ہم نے ان پر سکینہ نازل کی“ اس پر دلالت کرتا ہے۔ اور اس روح کو منفوخ بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ…﴾ (الحجر: 29) ”اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی“ اس بات پر شاہد ہے۔ اور انبیاء علیہم السلام اور خاص اولیاء کرام کی کرامات اور معجزات درجاتِ فہم معانی باطنہ و مکاشفات خرق عادات احیاء و اموات وغیرہ اسی روح کی تاثیر سے ہوتے ہیں۔ عام لوگوں میں یہ روح نہیں ہوتی اور "اَلرُّوْحُ عَالِمٌ بِمَا کَانَ وَبِمَا یَکُوْنُ" ”یہ روح اُس چیز پر عالم ہوتی ہے کہ جو کچھ ہو گیا ہو یا جو کچھ ہونے والا ہے“ یہ روح قدس کی صفت ہے لیکن یہ امداد الٰہی کا فیض ہے، یعنی اللہ کا نور ہے اور یہ اثرِ ذات کہلاتا ہے اور یہ مذکورہ ارواح کو مدد پہنچاتا ہے۔ انبیاء کرام اور اولیاء اللہ میں خاص الخاص اولیاء جو کہ معانی کے ادراک اور حقائق کی سمجھ اور اشیاء کی معرفت رکھتے ہیں، سب اسی روح قدسی کے طفیل کرتے ہیں۔ "سرُ اللہ" نام کی ایک کتاب میں روح کی معرفت تین قسم پر ہے: عام، خاص اور اخص۔ عام روح کے وجود کی تاثیر کو جانتا ہے، خاص اس کے اثر، خاصیت کو اور حرکات کا شناسا ہوتا ہے، اور اخص یا خاص الخاص روح کی ذات کا مکاشفہ دیکھتا ہے۔ اُس کی تمثیل تا جزو کو دیکھتا ہے اگر کوئی شخص روح کو دیکھے تو وہ اس کا عاشق ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ خدا کی صورت اور حسن کی ترجمان ہے اور اس کی آنکھوں میں وہ نور ہے جس کو زوال نہیں اور اس کے کان میں گوشوارۂ سبوحی ہے اور اُس کے وجود پر الوہیت کا لباس ہے، شاہدِ حق یعنی اللہ تعالیٰ کو دیکھنے والی ہے، جو کچھ کہ عالم الوہیت میں ہے، وہ اس کی روح میں ہویدا ہے۔ اور اس عکس کو ہر کوئی نہیں سمجھتا مگر جس کو اللہ تعالیٰ سمجھانا چاہے وہ سمجھ جاتے ہیں۔ اگر تم چاہتے ہو تو شیخ محمد حسین نے کہا ہے کہ "یُلْقِی الرُّوْحُ جَمَالَہٗ مِنْ أَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ" ”روح اپنا جمال اس کے حکم سے اس کے بندوں پر جس پر چاہے آشکارا کر لیتی ہے“ وہ تم پر اپنی تجلی ظاہر کر دے اور تم کون و مکان سے گذر کر یہاں تک رسائی کرو کہ روح کو دیکھ لو اور عرش پر متمکن ہو جاؤ کہ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ﴾ (طہ: 5) ”رحمٰن عرش پر استوٰی رکھتا ہے“ اور جب عرش سے بھی آگے گذر جاؤ تو اُس کے بعد ارفع اور بلند ترین درجات والے عرش کے مالک کو دیکھو گے، تو اے میرے پیارے! اُس وقت تمہارا دِل روح کے نور میں غوطہ کھائے گا کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) امر ربی سے مُراد نورِ ربی ہے تو اس غوطہ کھانے کے بعد تم ﴿نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ…﴾ (النور: 35) ہو جاؤ گے۔ اور جو کچھ تم کہتے ہو تو ہو سکتا ہے کہ تمہارا دل خود کہے گا، اُس وقت تم دل کے مرید اور خادم ہو جاؤ گے اور تمہارا دل، تمہارا پیر و مرشد ہو جائے گا، یعنی تمہارا دل آمر (حکم دینے والا) اور تم مامور (حکم بجا لانے والے) بن کر دل تمہاری تربیت کرے گا، پس تم جان جاؤ گے کہ دل کو تمہارے ساتھ اندرونی محبت ہے یا کہ ظاہری اور بیرونی محبت اور اللہ تعالیٰ کی اس عالم سے اندرونی محبت ہے یا کہ بیرونی۔ اے میرے محبوب! روح داخل بھی ہے اور خارج بھی، اور وہ بھی داخل ہے اور خارج بھی ہے۔ اور روح نہ داخل ہے نہ خارج نیز وہ بھی نہ عالم میں داخل ہے نہ خارج۔ اور روح نہ قالب کے ساتھ متصل ہے اور نہ منفصل اور اللہ رب العزت بھی متصل بھی نہیں اور منفصل (جدا) بھی نہیں۔ ان شعروں میں فکر کر کے مفہوم معلوم کرو۔
تشریح:
اصل میں یہ حقائق کی دنیا ہے، اور حقائق کی دنیا جتنی جتنی کسی پہ کھلتی ہے، اتنی اتنی چیزیں اس کو سمجھ آتی ہیں، اس سے زیادہ کی بعض میں استعداد نہیں ہوتی، بعض میں ہمت نہیں ہوتی۔ اور جن کے اندر یہ استعداد ہوتی ہے اور ہمت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے اوپر یہ چیزیں کھولتے رہتے ہیں۔ اس کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے جو کلام فرمایا ہے، اگر ہم اس کو دیکھیں تو پریشانی نہیں رہے گی۔ حضرت نے یہ بات بہت تفصیل کے ساتھ بیان فرمائی ہے کہ روح عالمِ حقائق میں سے ہے، اور اس کا علم شریعت کے اوامر میں سے نہیں ہے اور ہم شریعت کے مکلف ہیں کہ شریعت کی چیزیں جاننا سب کے اوپر لازم ہے۔ جس درجہ میں جس کے اوپر لازم ہے، اس درجہ میں اس کے اوپر لازم ہے، یعنی فرضِ عین درجہ کا علم سب کے اوپر لازم ہے۔ اس سے آگے جس کا جتنا منصب ہو یا کام ہو، اس کے حساب سے اس کے اوپر لازم ہوتا جاتا ہے۔ بہر حال! شریعت کا علم سب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، لیکن حقائق کا علم سب کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا۔ ہاں جن کو اللہ جل شانہ اس کام کے اندر لگا دیں، ان کو جاننا پڑتا ہے، ان کے لئے اللہ تعالیٰ راستے بھی کھولتا ہے۔ مثلاً: لطائف کا علم بھی روح کی چیزوں سے تعلق رکھتا ہے اور عالمِ امر میں سے ہے۔ اس لئے مشائخ حضرات، جو اس رخ پہ کام کر رہے ہیں، ان کو ان چیزوں کو جاننا ہوتا ہے، کیونکہ تربیت کے لئے milestones ہیں، یعنی ان کے ذریعے سے انسان کسی کی تربیت کر سکتا ہے اور اس کو معلوم ہو سکتا ہے کہ کوئی کتنا آگے گیا ہے، کوئی کتنا پیچھے گیا ہے، کوئی کہاں پہنچا ہے۔ لہٰذا ان کے لئے یہ علم ضروری ہو جاتا ہے۔ لیکن جو اس شعبے سے تعلق نہیں رکھتے، ان سے پوچھا بھی نہیں جائے گا۔ ہمارے ایک دوست ڈاکٹر سرفراز مرحوم شہید، ان کے پروفیسر انور صاحب بھی حضرت کے مرید تھے، یعنی یہ دونوں پیر بھائی تھے۔ ایک دن پروفیسر انور صاحب نے ڈاکٹر سرفراز کی حضرت سے شکایت کی کہ مولانا صاحب! میں آپ کو اس وقت مبارکباد دوں گا جب اس سرفراز کے ہاتھ سے پہلا مریض مر چکا ہو گا۔ حضرت کو پتا چل گیا کہ یہ کام نہیں کر رہا۔ ڈاکٹر سرفراز کو سامنے بیٹھا کر فرمایا کہ جس طرح ذکر کے لئے بیٹھتے ہو، اسی طرح پڑھنے کے لئے بھی بیٹھا کرو، یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ پس اگر کوئی ڈاکٹر نہیں ہے، تو اس کو ان چیزوں کی ضرورت بھی نہیں ہے، نہ ہی اس سے پوچھا جائے گا، نہ اس کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اگر کوئی ڈاکٹر ہے، تو اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس کے متعلق تمام چیزوں کو جانے۔ کیونکہ لوگوں کے جسموں کے اندر تصرف کرنا اسی وقت جائز ہے کہ جب وہ اس کا علم رکھتا ہو۔ اور اس مسئلہ میں یہاں تک ضروری ہے کہ اگر ایسا آدمی ہے جو علم نہیں رکھتا، بس ویسے ہی اس نے کام شروع کیا ہے، تو اگر وہ صحیح علاج کرے گا تو By chance علاج تو ہو جائے۔ لیکن اگر اس سے غلطی ہو گئی، تو وہ اس کا ذمہ دار ہو گا، اگر اس سے کوئی مر گیا تو اللہ کے نزدیک وہ قاتل قرار دیا جائے گا۔ لیکن اگر ڈاکٹر اپنی پوری کوشش کرے اور اس کے ہاتھ سے کوئی مر گیا تو وہ قاتل نہیں ہو گا۔ کیونکہ موت تو ہر شخص کے لئے مقرر ہے، وہ تو آنی ہے، اگر انسان ڈاکٹروں کی کوشش سے موت سے بچ سکتا تو لوگ مرتے ہیں نا۔ اس لئے اگر کوئی علاج کر رہا ہے تو علاج کے دوران بھی مریض مر سکتا ہے۔ لیکن بہر حال اس کے پاس اس کا علم ہونا چاہئے۔ اسی طریقے سے مشائخ کے پاس ان چیزوں کا علم ہونا چاہئے، کیونکہ وہ ان کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر جو جسم کے اندر تصرف کرتے ہیں، وہ معاملہ اس سے تھوڑا سا کم حیثیت کا ہے۔ مشائخ کا کام تو روح کے اندر تصرف کرنا ہے۔ لہٰذا ہم اس طرح نہیں کر سکتے کہ ان چیزوں کو جانیں نہیں اور اپنی طرف سے اٹکل پچو سے کام کرتے رہیں۔ چنانچہ ان چیزوں کو جاننا ہوتا ہے۔ یہاں پر فرمایا ہے کہ روح چار قسم کی ہے: ایک ناصیہ ہے، دوسری متحرکہ ہے، تیسری ناطقہ ہے اور چوتھی قدسیہ ہے۔ ناصیہ روح تمام حیوانات، انسانوں اور نباتات میں مشترک ہے، یہ روح سب کا حصہ ہے۔ آگے فرمایا کہ پرورش اور نشو و نما میں یہ روح مخلوق ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا ہے، اور یہ عناصر سے بنی ہوئی ہے۔ دوسری جو روحِ متحرکہ ہے، یہ انسانوں اور دیگر حیوانات میں مشترک ہے۔ گویا نباتات اور جمادات علیحدہ ہو گئے۔ اس وجہ سے اس کو روحِ حیوانی بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ انسان حیوانِ ناطق ہے۔ کیونکہ جس طرح جانور زندہ ہے، اس طرح انسان بھی زندہ ہے، جس طرح جانور کھاتا ہے، اس طرح یہ بھی کھاتا ہے، جس طرح جانور سوتا ہے، اس طرح یہ بھی سوتا ہے، جس طرح جانور چلتا ہے، اس طرح یہ بھی چلتا ہے۔ گویا انسان کے جتنے کام جانور کے ساتھ مشترک ہیں، ان میں یہ روح شریک ہے۔ اس کو روحِ متحرکہ کہتے ہیں۔
متن:
کیونکہ تمام حیوانات کی حرکات اس روح کی وجہ سے ہیں، یہ روح بھی مخلوق ہے اور یہ دونوں روحیں عناصر کی تاثیر سے وجود پذیر ہیں۔
تشریح:
یعنی عناصر ان میں کار فرما ہیں۔ روح کی تیسری قسم روحِ ناطقہ کا تعلق خاص انسان کے ساتھ ہے۔ کیونکہ انسان حیوان ناطق ہے لہٰذا روحِ ناطقہ کا انسان کی روح کے ساتھ تعلق ہے۔ اس میں حیوانات، نباتات اور جمادات شامل نہیں ہیں۔ اس لئے اس کو روح انسانی کہتے ہیں، یہ عالم امر سے ہے۔ یعنی یہ عناصر سے نہیں بنی، بلکہ اللہ پاک کے امر سے ہے: ﴿وَقُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) یعنی یہ وہ روح ہے جس کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ یہ تیرے رب کے امر سے ہے۔ اور روح قدسی انبیاء اور خاص اولیاء کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور فرمایا کہ اس کو سکینہ بھی کہتے ہیں: ﴿فَأَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ﴾ (الفتح: 18)
متن:
اور اس روح کو منفوخ بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ…﴾ (الحجر: 29) ”اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی“ اس بات پر شاہد ہے۔ اور انبیاء علیہم السلام اور خاص اولیاء کرام کی کرامات اور معجزات درجاتِ فہم معانی باطنہ و مکاشفات خرق عادات احیاء و اموات وغیرہ اسی روح کی تاثیر سے ہوتے ہیں۔
تشریح:
قرآن پاک میں ہے۔ ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ﴾ (الکہف: 110)
ترجمہ: ’’کہہ دو کہ: میں تو تمہی جیسا ایک انسان ہوں، (البتہ) مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ تم سب کا خدا بس ایک خدا ہے‘‘۔
جس وحی کو کی جائے گی، وہ عام شخص تو نہیں ہو گا۔ ایک وحی جبلتی ہے، وہ عام لوگوں کو بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے قرآن میں ہے کہ شہد کی مکھی کو اللہ نے وحی کی۔ یہ جبلتی وحی ہے، یعنی اس کو جبلتاً القا کیا گیا۔ جو procedure اللہ پاک نے اس کے اندر ڈال دیا، اسی کے مطابق وہ چل رہی ہیں۔ ڈی این اے میں بھی یہی چیز ہوتی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے پوری تفصیل ڈالی ہوئی ہے۔ یہی جبلت ہے۔ اسی طرح cell پورے جسم کا representative ہوتا ہے، اس کے اندر انسان کا سارا نظام موجود ہوتا ہے۔ اور clorone بھی cell سے بنتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ cell پوری باڈی کا representative ہے یعنی ہماری body جو ہے یہ This is integrated form of a cell اور cell اس کم سے کم یونٹ ہے۔ لیکن اگر اس کو بڑا کیا جائے تو اس سے انسان بن جائے گا۔ اور ساری چیزیں اس کے اندر موجود ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جبلتی وحی ڈی این اے ہے۔ اور جانوروں کا بھی ڈی این اے ہوتا ہے لہذا یہ جبلتی وحی جانوروں میں بھی ہوتی ہے اور جانوروں کا بھی یہی سسٹم ہوتا ہے۔ نباتات میں بھی ڈی این اے ہوتا ہے۔ جب درخت کا کونپل نکلتا ہے تو وہ کونپل پورے درخت کا ایک نمائندہ ہوتا ہے، اسی کو بعد میں درخت بننا ہوتا ہے، اور پورے درخت کا نظام یعنی جینیٹک مٹیریل اس کے اندر شامل ہوتا ہے۔ اسی طرح جانور بھی multicelluler ہے، ہر ایک cell کے اندر پورا نظام بنا ہوتا ہے۔ اور انسان بھی اس طرح ہے۔ اس سے نفسِ ناطقہ اور نفسِ کلیہ کی مثال سامنے آ گئی۔ انسان کی body کا پورا سسٹم cell کا نفس کلیہ ہے۔ اسی طرح پوری کائنات اور اس کا پورا سسٹم انسان کے جسم کا نفس کلیہ ہے۔ ما شاء اللہ حضرت کی برکت سے اللہ تعالیٰ چیزیں سامنے لا رہے ہیں۔
متن:
﴿وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ…﴾ (الحجر: 29) ”اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی“ اس بات پر شاہد ہے۔ اور انبیاء علیہم السلام اور خاص اولیاء کرام کی کرامات اور معجزات درجاتِ فہم معانی باطنہ و مکاشفات خرق عادات احیاء و اموات وغیرہ اسی روح کی تاثیر سے ہوتے ہیں۔
تشریح:
اگر ڈی این اے کے ذریعے سے انسان کی تمام کوالٹیز describe ہو سکتی ہیں تو اس روح کے ذریعے سے انبیاء کرام میں یہ ساری چیزیں شامل ہیں یعنی جو جو کام اللہ تعالیٰ ان سے لیں گے، اس حوالے سے ساری چیزیں اس روح قدسی میں ڈال دی ہیں۔
متن:
عام لوگوں میں یہ روح نہیں ہوتی اور "اَلرُّوْحُ عَالِمٌ بِمَا کَانَ وَبِمَا یَکُوْنُ" ”یہ روح اُس چیز پر عالم ہوتی ہے کہ جو کچھ ہو گیا ہو یا جو کچھ ہونے والا ہے“ یہ روح قدس کی صفت ہے (یعنی وہ اپنی ساتھ لے کے آتی ہے۔) لیکن یہ امداد الٰہی کا فیض ہے، یعنی اللہ کا نور ہے اور یہ اثرِ ذات کہلاتا ہے۔
تشریح:
یعنی ذات نہیں ہے، اثرِ ذات ہے۔ جیسے شیون ذات کے ساتھ ملحق ہیں، اس طرح یہ بھی اثرِ ذات ہے۔ یعنی روح نہ تو مخلوقات کے ساتھ شامل ہے اور نہ ان سے جدا ہے۔
متن:
اور یہ مذکورہ ارواح کو مدد پہنچاتا ہے۔ انبیاء کرام اور اولیاء اللہ میں خاص الخاص اولیاء جو کہ معانی کے ادراک اور حقائق کی سمجھ اور اشیاء کی معرفت رکھتے ہیں، سب اسی روح قدسی کے طفیل کرتے ہیں۔ "سرُ اللہ" نام کی ایک کتاب میں روح کی معرفت تین قسم پر ہے: عام، خاص اور اخص۔ عام روح کے وجود کی تاثیر کو جانتا ہے، خاص اس کے اثر، خاصیت کو اور حرکات کا شناسا ہوتا ہے، اور اخص یا خاص الخاص روح کی ذات کا مکاشفہ دیکھتا ہے۔ اُس کی تمثیل تا جزو کو دیکھتا ہے اگر کوئی شخص روح کو دیکھے تو وہ اس کا عاشق ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ خدا کی صورت اور حسن کی ترجمان ہے اور اس کی آنکھوں میں وہ نور ہے جس کو زوال نہیں اور اس کے کان میں گوشوارۂ سبوحی ہے اور اُس کے وجود پر الوہیت کا لباس ہے۔
تشریح:
یعنی اثرِ ذات ظاہر ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں کو جب روح کا مکاشفہ ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ جیسے میں نے خدا کو دیکھ لیا، ان کو یہ غلطی لگ جاتی ہے۔ یعنی تجلیٔ روح کو بعض لوگ تجلیٔ ذات سمجھ لیتے ہیں، کیونکہ روح کو اللہ پاک نے بہت اعلیٰ مراتب دیئے ہیں۔ اس لئے ہمیں تو بہت زیادہ مسئلہ ہو گا۔ جیسے پہلے بھی میں نے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ کے درس میں کہا تھا کہ ہندو کسی بھی تھوڑی سی غیر معمولی چیز کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور ان لوگوں کی عقل اس مسئلے میں کم ہے۔ انہوں نے الوہیت کو بہت پیچھے کر دیا ہے کہ مخلوق اگر کوئی نمایاں صورت ہو اور متحیر کرنے والی کوئی چیز ہو تو وہ اس کو بھی صفتِ الہیٰہ میں شامل کر لیتے ہیں اور اس کو سجدہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو دیکھ کر انسان متحیر رہ جاتا ہے اور اس میں اچھے اچھے بھی ہڑبڑا جاتے ہیں۔ ایک عجیب بات بتاتا ہوں، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں یہ بات چل رہی تھی کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے لئے کھڑے نہ ہوا کرو۔ اس پر کسی نے اشکال کر دیا۔ تو حضرت نے ان سے پوچھا کہ اگر آپ ﷺ اب تشریف لائیں تو تم کیا کرو گے؟ کہتے ہیں کہ حضرت مجھے تو ڈر ہے کہ میں سجدہ نہ کر دوں۔ گویا ایسے وقت میں انسان تحیر میں آ جاتا ہے۔ یہ عبادت کی نظر سے نہیں ہوتا، بلکہ تحیر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جیسے یوسف علیہ السلام جب سامنے آئے تھے تو سب ان کے سامنے سجدہ میں پڑ گئے تھے۔ وہ بھی تحیر کی وجہ سے تھا۔ لہذا انسان کو اپنے تحیر پر بھی کنٹرول ہونا چاہیے۔ اس طرح نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن تحیر کا ہونا عجیب نہیں ہے۔ روح کی بھی یہ صفت ہے کہ اگر یہ ظاہر ہو جائے تو اس پہ بھی انتہا درجے کا تحیر ہو گا۔
متن:
اگر کوئی شخص روح کو دیکھے تو وہ اس کا عاشق ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ خدا کی صورت اور حسن کی ترجمان ہے اور اس کی آنکھوں میں وہ نور ہے جس کو زوال نہیں اور اس کے کان میں گوشوارۂ سبوحی ہے اور اُس کے وجود پر الوہیت کا لباس ہے، شاہدِ حق یعنی اللہ تعالیٰ کو دیکھنے والی ہے، جو کچھ کہ عالم الوہیت میں ہے، وہ اس کی روح میں ہویدا ہے۔ اور اس عکس کو ہر کوئی نہیں سمجھتا مگر جس کو اللہ تعالیٰ سمجھانا چاہے وہ سمجھ جاتے ہیں۔ اگر تم چاہتے ہو تو شیخ محمد حسین نے کہا ہے کہ "یُلْقِی الرُّوْحُ جَمَالَہٗ مِنْ أَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ" ”روح اپنا جمال اس کے حکم سے اس کے بندوں پر جس پر چاہے آشکارا کر لیتی ہے“ وہ تم پر اپنی تجلی ظاہر کر دے اور تم کون و مکان سے گذر کر یہاں تک رسائی کرو کہ روح کو دیکھ لو اور عرش پر متمکن ہو جاؤ کہ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ﴾ (طہ: 5) ”رحمٰن عرش پر استوٰی رکھتا ہے“ اور جب عرش سے بھی آگے گذر جاؤ تو اُس کے بعد ارفع اور بلند ترین درجات والے عرش کے مالک کو دیکھو گے،
تشریح:
یعنی یہاں کی تمام چیزیں مخلوقات ہیں۔ خالق کی تو یہاں بات ہی نہیں ہے۔ ہاں اگر ان تمام چیزوں سے گزر جاؤ گے تو پھر آپ کو اللہ تعالیٰ جو قلبی مشاہدہ کرائے گا وہ اور بات ہو گی۔ صرف قلبی مشاہدہ ہو گا، کیونکہ ان آنکھوں سے انسان نہیں دیکھ سکتا۔
متن:
تو اے میرے پیارے! اُس وقت تمہارا دِل روح کے نور میں غوطہ کھائے گا کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) امر ربی سے مُراد نورِ ربی ہے تو اس غوطہ کھانے کے بعد تم ﴿نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ…﴾ (النور: 35) ہو جاؤ گے۔
تشریح:
دل بڑی عجیب چیز ہے، دل سمندر ہے۔ اگر بنا ہوا دل ہو تو اللہ جل شانہٗ اس پہ بہت ساری چیزیں کھول دیتا ہے۔ نظام شریعت کی سب سے بڑی چیز ہدایت ہے، وہ اللہ تعالیٰ اس پہ کھول دیتا ہے۔ تو یہ شریعت کی ہی بات ہے۔ جیسے ’’اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ‘‘ کہ اپنے دل سے پوچھو۔ یہ اس لئے فرمایا کہ اگر دل حق شناس ہو جائے تو سب سے زبردست فتویٰ اس کا ہوتا ہے، کسی اور مفتی کا نہیں ہو سکتا، کیونکہ کوئی مفتی آپ کے بارے میں اتنا جان ہی نہیں سکتا۔ ایک تو یہ ضروری نہیں کہ مفتی کا علم اس حد تک ہو، علم میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔ اور دوسری طرف فتویٰ سے متعلق جو معلومات ہیں، ضروری نہیں کہ وہ اس کو پوری حاصل ہوں۔ لہٰذا مفتی آپ کو فتویٰ دینے میں دھوکہ کھا سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کا دل بنا ہوا ہے تو وہ دھوکہ نہیں کھائے گا، صحیح فتویٰ دے گا۔ اس وجہ سے فرمایا: ’’اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ‘‘۔ اب یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے دور میں ’’اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ‘‘ کو بیان کیسے کرنا ہے۔ یہ آج کل کے دور کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ آج کل قلب میں اور نفس میں فرق نہیں کیا جاتا۔ لوگوں کا فہم ان چیزوں میں اس حد تک گر گیا ہے اور دنیا کی چیزیں ان پہ اتنی سوار ہو گئی ہیں، نفس کے ان کے اوپر اتنا حاوی ہو گیا ہے اور نفس کی خوارک اتنی زیادہ موجود ہے کہ جس کی وجہ سے دل اپنی حیثیت کھو چکا ہے۔ حالانکہ علامہ اقبال بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ:
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
آخر انہوں نے یہ کسی وجہ سے فرمائی ہے۔ یعنی جب گاڑیوں کا دور آ گیا تو یہاں کی باتیں ہی اور ہو گئیں۔ آپ ذرا غور کریں کہ اگر ہم گاؤں سے شہر کی طرف آ جائیں تو گاؤں کے حالات اب بھی شہر کے مقابلے میں نسبتاً مختلف ہیں، گاؤں میں تھوڑی سی purity ہے، تھوڑی سی انسانیت ہے اور جو چیزیں یہاں پر عنقا ہیں وہ وہاں پر کسی نہ کسی درجہ میں موجود ہیں۔ آپ کسی کے ہاں بے وقت چلے جائیں تو یہ ان پر بوجھ نہیں ہو گا، چاہے ان کے پاس کچھ بھی نہ ہو، لیکن وہ مروت رکھتے ہیں۔ جبکہ شہروں میں یہ معاملہ مفقود تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ مسائل ہیں۔ بہرحال دل دنیاوی چیزوں سے اثر لیتا ہے۔ لہذا ہمارا جو دل ہے، جس کو ہم دل کہتے ہیں اصل وہ دل نہیں ہے، وہ ہمارا نفس ہے۔ ہم کہتے ہیں: ہمارا دل کہتا ہے۔ جب کہ وہ نفس ہوتا ہے۔ جیسے advertisement میں لکھا ہوتا ہے کہ: دل چاہے اور۔ یہ دل نہیں چاہ رہا، نفس چاہ رہا ہے۔ اور یہ جو مشہور ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔ حالانکہ موسیقی نفس کی غذا ہے۔ اس کا روح کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب جب اس حد تک بات آ گئی ہے کہ روح اور نفس کے درمیان فرق نہیں کیا جاتا، قلب اور نفس کے درمیان فرق نہیں کیا جاتا۔ تو ’’اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ‘‘ کو کیسے سمجھیں گے؟ اور یہ کوئی ان ہونی بات نہیں ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں خود ارشاد فرمایا ہے: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)
ترجمہ: ’’یقینا اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے‘‘۔
پس اب جب تک سلیم دل نہیں ہو گا، قرآن ہدایت نہیں دے گا۔ جب قرآن ہدایت نہیں دے گا تو ’’اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ‘‘ کو کون سمجھے گا؟ وہ تو اس کو misuse کرے گا۔ وہ کہے گا دل سے پوچھنے کا حکم ہے، میں نے دل سے پوچھ لیا ہے۔ جب کسی معاملے میں لڑائی ہوتی ہے تو ایک آدمی کا دل کہتا ہے یہ چیز میری ہے، دوسرے آدمی کا دل کہتا ہے یہ چیز میری ہے۔ تو وہ کسی ایک کی ہی ہو گی۔ جب کہ دونوں دعویٰ کر رہے ہیں، اس سے پتا چلا کہ معاملہ کہیں پھنسا ہوا ہے۔ لہٰذا یہ جو فرمایا گیا ہے کہ: ’’اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ‘‘ یہ اصل میں اس قلب کے متعلق کہا گیا ہے جو بنا ہوا ہے۔ اس وقت چونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دل تھا اور مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، لہذا یہ حکم عام تھا۔ لیکن اب حکم عام نہیں ہے، اب حکم خاص ہے۔ حدیث شریف موجود ہے، اس سے مفر نہیں ہے۔ اس پہ عمل بھی ہو سکتا ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہر ایک کے دل پر محنت ہونی چاہیے، دل بن جائے گا تو حدیث شریف تو موجود ہے۔ پھر واقعی اللہ شرح صدر عطا فرماتے ہیں۔ مگر شرحِ صدر کسے کہتے ہیں؟ مشائخ کے ہاں یہ چیز بہت مشہور ہے، جسیے حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ میاں زکریا! کیا آپ کا ہمارے اس کام کے بارے میں شرح صدر ہو گیا؟ مقصد یہ تھا کہ یہ خود اس طرح شامل ہو جائیں جس طرح میں شامل ہوں۔ فرمایا: حضرت! ابھی تک تو نہیں ہوا۔ فرمایا: اچھا کوئی بات نہیں، ان شاء اللہ ہو جائے گا۔ دیکھئے: اتنے محبوب چچا، جن کی ہر بات مانتے ہیں۔ لیکن چونکہ شرح صدر کی بات تھی تو یہ کیا کہ میں اپنے طور پہ تو کر سکتا ہوں، کسی اور کو نہیں کہہ سکتا۔ پس جب دل کا معاملہ الگ ہے تو جب دل کا پوچھا تو صحیح بتانا پڑا کہ ابھی تک شرح صدر نہیں ہوا ۔ بس یہی بنیادی بات ہے۔ مشائخ ایک دوسرے کے شرحِ صدر کا احترام کرتے ہیں، جو صحیح مشائخ ہوتے ہیں وہ اس مسئلہ میں زبردستی نہیں کرتے۔ عین ممکن ہے کہ ایک صاحب کی رائے ایک ہو، دوسرے کی رائے اور ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حالات اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ کسی سے اللہ تعالیٰ نے کیا کام لینا ہوتا ہے، کسی سے کیا کام لینا ہوتا ہے۔ ایک کا شرح صدر ایک طریقے سے کرتے ہیں اور دوسرے کا شرح صدر دوسرے طریقے سے کرتے ہیں۔ میں ایک عجیب بات بتاتا ہوں۔ مکاشفات کتابوں کی بات نہیں ہے۔ میں مکاشفات کی بات اس لئے کرتا ہوں کہ ہم نے یہ چیزیں سنی ہیں۔ مکاشفات میں آپ ﷺ تک جن کی رسائی ہو جاتی ہے، اگر وہ حنفی ہیں تو وہ آپ ﷺ کو حنفیہ کی طرح دیکھتے ہیں۔ اگر وہ شافعی ہے تو شوافع کی طرح دیکھتے ہیں۔ حالانکہ شافعی اور حنفی دونوں کے لئے آپ ﷺ نے بات تو ایک ہی کی ہے۔ آپ ﷺ کہہ سکتے تھے کہ یہ چیز ان کو سمجھ نہیں آئی اور یہ ان کو سمجھ آئی۔ ایسا نہیں کیا۔ کیونکہ آپ ﷺ اس چیز کو برقرار رکھتے ہیں، یہ ایک نظام ہے، اس نظام کو برقرار رکھتے ہیں۔ اس سے پتا چلا کہ شرح صدر بہت اہم چیز ہے۔ اگر واقعی دل بنا ہو تو اللہ جل شانہٗ ہر ایک کے ساتھ اُس طرح کا معاملہ کرتے ہیں جس طرح اس کے لئے مناسب ہو۔ اور یہ بہت اہم بات ہوتی ہے۔ بہرحال ’’اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ‘‘ کا حکم اس وقت ہے جب دل بنا ہوا ہو۔ بہر حال! یہ میں شریعت کی بات کر رہا تھا۔ دوسری تکوینی بات ہے۔ اگر کسی کا دل بن جائے اور اللہ جل شانہٗ اس پر چیزیں منکشف فرمانا چاہیں تو پردے ہٹنے لگتے ہیں، پھر اس کے بعد پتا نہیں کہاں تک پردے ہٹا دیئے جاتے ہیں۔ اور وہ چیزیں جو لوگوں کے لئے بہت دور ہوتی ہیں، وہ اس کے بہت قریب ہوتی ہیں۔
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت شاہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ، جنہوں نے قرآن کا ترجمہ لکھا تھا، سورج کے غروب ہونے کی بات ہوئی تو کسی نے اعتراض کیا کہ یہ وقت سے پہلے روزہ افطار کرتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا: تم مجھے جتنی مرضی اندھیری کوٹھری میں بیٹھا سکتے ہو بٹھا دو اور پھر میں جب کہوں کہ سورج غروب ہو گیا ہے، تو اس وقت تم سورج کو دیکھ لینا۔ چنانچہ جیسے حضرت نے فرمایا کہ سورج غروب ہو گیا ہے۔ باہر لوگوں نے دیکھا کہ سورج غروب ہو گیا ہے۔ اب یہ کیا چیز ہے؟ یہ ان کے لئے منکشف ہو گیا تھا۔ ان کے لئے کوئی مشکل نہیں تھا۔ دل دل کی بات ہوتی ہے۔ چنانچہ جس کو ایک چیز حاصل نہیں ہے وہ اس پر حیرت کا اظہار کر سکتا ہے، اس کو حیرت کے اظہار کا حق ہے۔ لیکن جس کو حاصل ہے، وہ تو اس چیز کا انکار نہیں کرے گا۔ اس سے کوئی پوچھے گا تو وہ صحیح بات بتا سکتا ہے۔ ہاں حکمتاً چھپا لے تو علیحدہ بات ہے۔ لیکن اگر بتانا چاہے تو بتا سکتا ہے۔ لہٰذا دل کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ کیونکہ جس کا دل بنا ہوا ہوتا ہے، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق وہ اس وقت صفتِ روح حاصل کر چکا ہوتا ہے۔ کیونکہ روح کی جو صفات ہیں وہ نفس کی وجہ سے بند ہیں۔ جیسے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مقامِ قلب میں نفس اور روح آپس میں بِھڑے ہوتے ہیں، یعنی نفس نے اس کو پکڑا ہوتا ہے، نفس اس کو جانے نہیں دیتا۔ لہذا اگر کوئی مجاہدہ اور ریاضت کے ذریعے سے ان کو جدا کرے تو روح اپنی جگہ پہنچ جائے گی۔ اور جب روح اپنی جگہ پہنچ گئی تو اس کی قلب کے اوپر خصوصی نظر ہے۔ لہذا جو روح کو پتا، وہ قلب کو پتا ہے۔ جب یہ کیفیت ہو جائے گی تو اس کا تعلق چونکہ ملاء اعلیٰ کے ساتھ ہو گیا لہذا ملاء اعلیٰ میں جو کچھ ہے، وہ روح کو نظر آ رہا ہے، لہذا وہ قلب کو بھی نظر آ رہا ہے۔ چنانچہ جس کی نظر ملاء اعلیٰ پر ہو تو یہ دنیا اس کے لئے کیا ہے؟ ایسی باتیں میں تو نہیں کر سکتا ہوں، لیکن جو بزرگوں نے کی ہیں میں انہیں صرف نقل کر سکتا ہوں۔ شیخ عبد العزیز دباغ رحمۃ اللہ علیہ تقریباً دو اڑھائی سو سال پہلے گزرے ہیں، یعنی متاخرین بزرگوں میں سے ہیں۔ حالانکہ بالکل ان پڑھ تھے۔ کسی نے ان کے ملفوظات جمع کئے ہیں۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ صاحبِ فتح کون ہیں؟ فرمایا: صاحبِ فتح وہ ہیں، جن کے لئے ایک نقطہ میں سارے علوم آ جائیں۔ یعنی وہ ایک نقطہ کو دیکھ رہے ہوں تو وہ سارے علوم کو براہ راست دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لہذا ان کے اوپر یہ باتیں کھلی ہوتی ہیں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بعض حضرات پر ایک وقت آتا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ اتنا نوازتے ہیں کہ ان کے لئے پوری کائنات ایک دستر خوان کی طرح ہو جاتی ہے کہ وہ کسی چیز کو اِدھر سے اٹھا کر اُدھر رکھنا چاہیں، اُدھر سے اٹھا کے اِدھر رکھنا چاہیں، تو وہ کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ اوپر دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ منشاء کیا ہے، وہ منشاءِ الہیٰ سے آگے پیچھے نہیں ہوتے۔ تبھی تو ان کو یہ مقام ملا ہوتا ہے۔ اس لئے حقیقتاً کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، لیکن اس تبدیلی نہ ہونے میں بھی بہت بڑی تبدیلی ہے۔ کیونکہ ان کا جو مقام ہے وہ ان کے لحاظ سے ہے۔ یہاں پر بھی انہی چیزوں کے بارے میں فرمایا کہ:
متن:
شاہدِ حق یعنی اللہ تعالیٰ کو دیکھنے والی ہے، جو کچھ کہ عالم الوہیت میں ہے، وہ اس کی روح میں ہویدا ہے۔ اور اس عکس کو ہر کوئی نہیں سمجھتا مگر جس کو اللہ تعالیٰ سمجھانا چاہے وہ سمجھ جاتے ہیں۔ اگر تم چاہتے ہو تو شیخ محمد حسین نے کہا ہے کہ "یُلْقِی الرُّوْحُ جَمَالَہٗ مِنْ أَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ" ”روح اپنا جمال اس کے حکم سے اس کے بندوں پر جس پر چاہے آشکارا کر لیتی ہے“ وہ تم پر اپنی تجلی ظاہر کر دے اور تم کون و مکان سے گذر کر یہاں تک رسائی کرو کہ روح کو دیکھ لو اور عرش پر متمکن ہو جاؤ کہ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ﴾ (طہ: 5) ”رحمٰن عرش پر استوٰی رکھتا ہے“ اور جب عرش سے بھی آگے گذر جاؤ تو اُس کے بعد ارفع اور بلند ترین درجات والے عرش کے مالک کو دیکھو گے، تو اے میرے پیارے! اُس وقت تمہارا دِل روح کے نور میں غوطہ کھائے گا کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85)
تشریح:
لہذا جو چیز روح کو پتا ہے، وہ دل کو بھی پتا ہے۔
متن:
امر ربی سے مُراد نورِ ربی ہے تو اس غوطہ کھانے کے بعد تم ﴿نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ…﴾ (النور: 35) ہو جاؤ گے۔ اور جو کچھ تم کہتے ہو تو ہو سکتا ہے کہ تمہارا دل خود کہے گا، اُس وقت تم دل کے مرید اور خادم ہو جاؤ گے۔
تشریح:
یعنی پھر دل کے پیچھے جاؤ گے، دل جو کہے وہی کرو گے۔ گویا تمہارے پاس مفتی اعظم بیٹھا ہے، کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہو گی، بس اپنے دل سے پوچھ لو، اور کام کرو۔ ایک دفعہ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے میں نے کوئی بات پوچھ لی۔ حضرت مراقب ہوئے۔ مراقبہ سے سر اٹھایا اور فرمایا: کیا تم اس مقصد کے لئے کرنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا جی۔ فرمایا ٹھیک ہے کر لو۔ اب کیوں مراقب ہوئے تھے؟ حالانکہ بات میری تھی، تو عام حالت میں میری طرف متوجہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن مراقب ہوئے، گویا کسی اور چیز کی طرف متوجہ ہوئے، اور پھر مجھ سے وہی پوچھا جو پوچھنا چاہئے تھا۔ میں نے جواب دیا تو فرمایا دیا کہ ٹھیک ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
آگے دل کا مرید ہو جانا مذکور ہے۔ غالباً کسی غزل میں میں نے اس کے بارے میں ذکر بھی کیا ہے کہ دل ایک دفعہ بن جائے تو پھر اس کی ماننا چاہئے اور پھر اس کے پیچھے پیچھے چلنا چاہئے۔
متن:
اور تمہارا دل، تمہارا پیر و مرشد ہو جائے گا، یعنی تمہارا دل آمر (حکم دینے والا) اور تم مامور (حکم بجا لانے والے) بن کر دل تمہاری تربیت کرے گا، پس تم جان جاؤ گے کہ دل کو تمہارے ساتھ اندرونی محبت ہے۔
تشریح:
در اصل شیخ تمہاری تربیت کرتا ہے اس وقت تک جب تک تمہیں ضرورت ہو یعنی جب تک تمہارا اندر والا رابطہ نہیں ہو چکا ہوتا۔ جس وقت تمہارا اندر کا رابطہ ہو جائے گا تو پھر وہ آپ کو چھوڑ د ے گا۔ بلکہ مجھے میرے شیخ نے ایک دفعہ یہ فرمایا تھا۔ الحمد للہ میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک آئینہ ہے۔ چونکہ حضرت کی طبیعت بڑی جولی تھی، مجھے اشارہ کیا کہ میری طرف دیکھو۔ میں نے دیکھا تو حضرت کے پاس آئینہ تھا، اس آئینہ میں مجھے مدینہ منورہ کا راستہ نظر آیا، اور وہ راستہ میری طرف بڑھ رہا تھا، ایسے ہی جیسے انسان کسی سکرین پہ دیکھتا ہے۔ پھر صورتِ حال بدل جاتی ہے کہ میں ایک کار میں بیٹھا ہوں، بہت تیزی کے ساتھ وہ کار اسی راستہ پہ جا رہی ہے، فل سپیڈ سے گاڑی جا رہی ہے اور مدینہ منورہ کا راستہ ہے۔ پھر میں دیکھتا ہوں کہ کار غائب ہو گئی ہے اور میں پیدل چل رہا ہوں، لیکن سامنے روضۂ اقدس ہے اور میں ادھر پہنچ گیا، اور وہاں سارا نظام موجود ہے۔ میں کسی سے کہتا ہوں کہ لوگ ویسے ہی خانہ کعبہ کو کسی اور جگہ سمجھتے ہیں، خانہ کعبہ تو ادھر ہی ہے، ویسے دور نظر آتا ہے۔ یہ خواب میں نے حضرت کو سنایا۔ چونکہ اس خواب میں دو چیزیں تھیں۔ حضرت نے دونوں کی تعبیر دی۔ پہلی چیز کی تعبیر یہ دی کہ میں آئینہ ہوں۔ اور واقعتاً شیخ آئینہ ہوتا ہے، خواب میں اگر کوئی آئینہ دیکھے تو وہ شیخ ہی ہوتا ہے۔ بہرحال فرمایا کہ میں آئینہ ہوں اور جب تم خود چلنا شروع کر لو گے تو میں درمیان سے نکل جاؤں گا۔ اور آخر میں فرمایا کہ پہنچنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقۂ الہیٰ ہے، دوسرا طریقۂ نبوی ہے۔ دونوں کی منزل ایک ہی ہے۔ تمہارا طریقہ طریقۂ نبوی ہے۔ اس سے پتا چلا کہ یہ واقعی ٹھیک ہے۔ یہاں ’’خود چلنے لگو گے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب تجھے خود معلوم ہو جائے گا اور نظام بن جائے گا تو میں نکل جاؤں گا۔ میں اس کا مطلب یہ سمجھا کہ جیسے عام طور پر نکلنا ہوتا ہے یا جیسے حضرات اجازت دیتے ہیں۔ لیکن اصل مطلب تب پتا چلا کہ جب حضرت دنیا سے پردہ فرما گئے۔
متن:
تمہارا دل آمر (حکم دینے والا) اور تم مامور (حکم بجا لانے والے) بن کر دل تمہاری تربیت کرے گا، پس تم جان جاؤ گے کہ دل کو تمہارے ساتھ اندرونی محبت ہے یا کہ ظاہری اور بیرونی محبت اور اللہ تعالیٰ کی اس عالم سے اندرونی محبت ہے یا کہ بیرونی۔ اے میرے محبوب! روح داخل بھی ہے اور خارج بھی، اور وہ بھی داخل ہے اور خارج بھی ہے۔ اور روح نہ داخل ہے نہ خارج نیز وہ بھی نہ عالم میں داخل ہے نہ خارج۔ اور روح نہ قالب کے ساتھ متصل ہے اور نہ منفصل اور اللہ رب العزت بھی متصل بھی نہیں اور منفصل (جدا) بھی نہیں۔ ان شعروں میں فکر کر کے مفہوم معلوم کرو۔ ابیات؎
حق بہ جان اندر نہان و جان با دل اندر نہان
اے نہان اندر نہان اندر نہاں اندر نہان
ایں جنس رمز عیاں خود با عیاں ست و عیان
اے جہاں اندر جہاں اندر جہاں اندر جہان
’’حق روح کے اندر پوشیدہ ہے اور روح دل کے اندر پوشیدہ ہے اے پوشیدہ کے اندر پوشیدہ اور پوشیدہ کے اندر پوشیدہ اور پوشیدہ کے اندر پوشیدہ، یہ ظاہر و عیاں راز ظاہری طور پر عیاں ہے، اس کے اندر ایک دنیا ہے اور جہاں اندر جہاں اندر جہان اس میں پڑا ہے‘‘۔ بیت
؎ آدمی چیست برزخ جامع
صورت خلق حق درو واقع
آدمی کیا ہے؟ ایک جامع برزخ (اور عالم ہے) یہ مخلوق کی شکل میں ہے اور اس کے اندر ہے۔
”نظم“
اے دریقا جان قدسی کز ہمہ پوشیدہ است
پس کرا دیدہ است روئے او نام کے بشنیدہ است
ہر کہ بیند در زبان دل از حسن او کافر شود
اے دریقا لکن شریعت راوی کو بریده است
کون و کان بر ہم زن و از خود بروں شو تا شوی
کہ ایں جان تو خدا ز دو جہان بگزیدہ است
تو ہنوز دل خود ندیدۂ و جانرا کہ بینی
و جان را ندیده خدا را کہ بینی
’’افسوس کہ قدسی کی روح سب سے پوشیدہ ہے اُس کا چہرہ کس نے دیکھا ہے اور اس کا نام کس نے سُنا ہے؟ کون و کائنات کو ترک کر کے اپنے آپ سے دست بردار ہو جا تاکہ رسائی حاصل کر سکو کیوں کہ تمہاری یہ جان اللہ تعالیٰ نے ہر دو جہان سے منتخب فرمائی ہے تو نے ابھی تک اپنا دل نہیں دیکھا ہے تو روح کو کیا دیکھے گا اور جب روح کو نہیں دیکھا تو خدا کو کہاں کیسے (اور کب) دیکھو گے‘‘۔
ایک تحقیق شدہ قول ہے کہ آدمی کی کھوپڑی میں ایک سوراخ ہوتا ہے جو کہ بہت باریک ہوتا ہے، اُس سوراخ کو ’’یافوخ‘‘ کہتے ہیں، جب عارفوں اور اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کی روح خواہش کرے کہ عروج کریں یعنی عالم بالا کی سیر کریں تو اُس سوراخ جس کو ’’یافوخ‘‘ کہتے ہیں، اس میں ایک براق لایا جاتا ہے اور اُن کی روح کو اس پر سوار کرتے ہیں اور لے جاتے ہیں۔ اے بھائی! روح کے باطن کا نور ایک آئینہ ہوتا ہے غضب اور شہوت اِن دونوں کی آگ اس آئینے کو سیاہ اور دُھندلا کرتی ہے۔ پس روح کے معانی ایک سیر ہے اور اس سیر کی سیر اور راز حق کے ساتھ روح کا اتصال ہوتا ہے، اور یہ روح قدسی ہوتی ہے جو کہ عرش سے بالاتر اور برتر ہوتی ہے۔
اب یہ بات جان لو کہ لوگوں کو روح کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک جماعت روح کو جسم کہتی ہے اور دوسرا گروہ اس کو جوہر کہتا ہے، ایک گروہ عرض اور دوسرا اس کو قدیم اور کچھ لوگ اس کو محدث کہتے ہیں۔ اور ترسائیوں کا قول ہے کہ روح قدیم ہے اور بعض فلسفیوں اور بعض صوفیوں کا بھی یہی قول ہے، اور ان بعض صوفیوں کا قول جو کہ روح کی قدامت پر دلالت کرتا ہے، یہ اشعار ہیں، اگر ان کا مفہوم تم سمجھ جاؤ تو سب کچھ تم پر واضح ہو جائے گا۔
”نظم“
تو گوہر کافی و گوہر نونی
چہ کاف و چہ نونی
کہ از کاف و نون تو افزونی
محیط گنبد دار را توئی مرکز صفا و حضم اسرار را
تو استونی۔ شپہر مطلع انوار و آفتاب جلال
بگرو نقطۂ ذات تو گرد گردانی
ظہور مسہر کمالات سرمدی از تست
از آنکه خازن اسرار را تو مخزونی
وقتی مخزن اسرار را کہ کون و مکان است
نداشت طاقت دیدرآں تو مدفونی
لواء عز محمد کہ برتر از عرش است
عزیز در صف اہل صفا نہ اکنونی
ترجمہ: ’’تو کاف و نون کا جوہر ہے، اور کاف و نون کیا ہیں؟ تو کاف اور نون سے زیادہ اور افزوں ہے (یعنی کُن سے زیادہ یا قبل ہے) اس دورہ کرنے والے محرّک گنبد کے محیط کا تو مرکز ہے تو جلال کا سورج اور مطلع انوار کا آسمان ہے، تمہاری ذات کے نقطہ کے گرد آسمان چکر لگاتا ہے، ابدی کمالات کا ظہور تیری ذات سے ہے کیونکہ اسرار و رموز کے خزانچی کا خزانہ تو ہے، یہ ساری کائنات جو کہ ایک وقت میں طاقت دیدار نہیں رکھتی تِھی اس مخزنِ اسرار کا تو امین و مقام ہے۔ حضرت محمد ﷺ کی عزت کا پرچم جو کہ عرش بریں سے بالا و برتر ہے تو اب سے اہل صفا کی صف میں عزیز نہیں (بلکہ قدیم سے ہے)
عرش کے نیچے یہ ساری کائنات ہے، مگر جو روح عرش سے بالا و برتر ہے وہ روح قدسی ہے‘‘۔ اور کاف و نون سے مراد "کُنْ فَیَکُوْنُ" ہے، یعنی روح کاف و نون کے تحت نہیں، لیکن شیخ جنید رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت اچھی تشریح کی ہے کہ "اَلرُّوْحُ شَيْءٌ اسْتَاثَرَہُ اللہُ تَعَالٰی بِعِلْمِہٖ وَلَمْ یَطَّلِعْ عَلَیْہِ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِہٖ وَلَا تَجُوْزُ الْعِبَارَۃُ بِأَکْثَرِ مِنْ مَوْجُوْدٍ بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی: ﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) ”روح ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے اپنے لیے خاص کیا ہے اور اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی اُس کے بارے میں مطلع نہیں فرمایا اور اس کی وجود کو عبارت میں ظاہر نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحِ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) پس صحیح ترین مذہب یہی ہے جو کہ شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے اور فقہاء اور ائمہ کرام کا یہی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں اطلاع دی کہ ﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ...﴾ (الإسراء: 85) اور اسی وقت اِس کی قدامت کی نفی فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) ”فرما دیجیے کہ روح امر ربی سے ہے“ اور امر ربی مخلوق اور حادث کے لیے آتا ہے، پس جو کچھ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہم اُسی کا اقرار کرتے ہیں اور اُس کی کیفیت سے سروکار نہیں رکھتے، کہ کیا ہے؟ اور کہاں و کیسی ہے؟ کیونکہ روح کے صانع اور بنانے والے نے ہمیں اُس کی موجودگی کی خبر تو دے دی مگر اس کی کیفیت اور ماہیت کی اطلاع نہیں دی۔ یہاں تک کہ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں سے ایک مخلوق کو پیدا فرمایا ہے جو کہ روح ہے مگر اس کی کیفیت کی کسی کو اطلاع نہیں دی کہ کیا ہے اور کہاں ہے؟ یہاں تک کہ مخلوق اُس کی ماہیت جاننے سے عاجز ہوئی، اور یہ اس لیے کہ یہ لوگ سمجھ جائیں کہ جب بنی بنائی ہوئی چیز کو اُس کے تعارف و تعریف کے بغیر (جو کہ خالق نے نہیں کی ہے) نہیں جان سکتے تو اس کے بنانے والے خالق و صانع کو اس کی تعریف کے بغیر کیسے جان سکیں گے؟
تشریح:
حضرت نے یہاں روح کے بارے میں بات فرمائی ہے۔ روح کو مکمل طور پر جاننا ممکن نہیں ہے۔ مگر جیسے ہم بجلی کو نہیں دیکھتے، لیکن بجلی کے اثر کو ہم دیکھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ بجلی آ گئی ہے۔ اسی طرح روح کے اثرات سے لوگ جتنے حالات کا اندازہ کر سکتے ہیں، اتنا کر لیتے ہیں۔ عام لوگوں کے لحاظ سے وہ کافی زیادہ معلومات ہوتی ہیں، لیکن اصل معلومات کے مقابلہ میں یہ بہت تھوڑی ہوتی ہیں۔ کیونکہ اس کا پورا ادراک نہیں ہو سکتا۔ مثلاً: جسم کے اوپر جتنی ریسرچ ہو چکی ہے، لہٰذا اس کے بارے میں جتنی details دی جا سکتی ہیں، روح کے بارے میں اتنی نہیں دی جا سکتیں۔ روح تو دور کی بات ہے، ایک چیز جو جسم کے متعلق ہے، لیکن اس کے ساتھ روح کا بھی کچھ حصہ شامل ہے، وہ بھی ڈاکٹروں کی پہنچ سے باہر ہے۔ جیسے Pathology کے بارے میں ڈاکٹروں کو بھی پورا نہیں پتا۔ گویا جتنا جسم کے بارے میں ہم جانتے ہیں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اتنا روح کے بارے میں جان لیں۔ لیکن روح کے احوال و آثار کو دیکھنے سے جتنا فہم حاصل ہوتا ہے، جو ہماری تربیت کے اندر استعمال ہوتا ہے، اتنا علم اگر کسی کو حاصل ہو جائے، تو وہ مفید علم ہے۔ حضرت شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا ہے، وہ بات بھی صحیح ہے، کیونکہ اس کو بہت تھوڑا نہیں کہہ سکتے۔ لیکن شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں جو لکھا ہے، اس کو بھی ہم غلط نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ انہوں نے جو بیان کیا ہے، وہ لطائف کے علم کے بارے میں مفید ہے۔ بالخصوص جو حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ در اصل یہ چیز آئی ہی بعد میں ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے ہی باب میں ببانگِ دہل یہ بات کی ہے کہ اللہ پاک نے متاخرین کے لئے یہ علم رکھا ہوا تھا، کیونکہ ان کو ضرورت تھی۔ پس جتنی ان کو ضرورت تھی، اتنا کھول دیا۔ لہٰذا اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن روح کے اندر ہم زیادہ بات اس لئے نہیں کر سکتے کہ اس کے بارے میں جتنی بھی معلومات ہیں، وہ ساری indirect ہیں، direct کوئی نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی انکار کرے، تو ہمیں اس کے ساتھ الجھنا نہیں چاہئے، کیونکہ یہ علم ہر ایک کے لئے ضروری نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی اس کو لینا چاہے اور اس کو حاصل کرنا چاہے، اور جتنا موجود ہے، اس کو حاصل کر لے، تو اس کو فائدہ ہو گا۔ لہٰذا اس مسئلہ میں ہمارا مسلک بھی یہی ہے کہ ہم کسی کو ترغیب نہیں دیتے کہ اس کو سیکھو، لیکن جو سیکھنا چاہے، اس کو منع نہیں کرتے۔ ابتدا ہی سے یہ بات ہم نے عرض کی تھی کہ خود بخود یہ چھانٹی ہوتی جائے گی، جو ساتھ نہیں چل سکے گا، وہ پیچھے ہو جائے گا، اس کو ہم کچھ نہیں کہیں گے۔ کیونکہ یہ علم سب کے لئے ضروری نہیں ہے، لہذا جو پیچھے ہونا چاہے، وہ پیچھے ہو جائے۔ لیکن جن لوگوں کو فائدہ ہو گا، وہ تو ساتھ ساتھ ہوں گے۔ جن لوگوں کے لئے ہے، وہ تو حاصل کر سکتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ بہت اجر عطا فرمائے۔ انہوں نے اس چیز کو بیان کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ پاک نے اس علم کے لئے چونکہ مختص کر دیا تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں ان کے ساتھ خصوصی معاملہ فرمایا تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی ساری باتوں کو ’’نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِکَ‘‘ اگر آپ جھوٹ میں ڈال دیں، تو یہ بہت بڑی جسارت ہے۔ لیکن حضرت نے فرمایا ہے کہ میں نے آپ ﷺ سے سنا ہے۔ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت کا باقاعدہ رابطہ تھا۔ اور علوم کا سرچشمہ آپ ﷺ ہیں۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں۔ چنانچہ آپ ﷺ کے ساتھ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا مکاشفہ کے ذریعے سے رابطہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان پہ یہ چیزیں کھولی ہیں۔ میں آپ کو دیکھا سکتا ہوں، حضرت نے فرمایا ہے کہ میں نے برزخِ اعظم سے یہ بات معلوم کر لی۔ برزخِ اعظم آپ ﷺ ہیں۔ چونکہ حضرت کے بقول یہ علم متاخرین کے لئے رکھا گیا تھا۔ کیونکہ پہلے والوں میں نفس کی اصلاح کی جتنی استعداد تھی، ان کی وہ اصلاح ہو چکی تھی، لہذا جب ان کے نفس کی اصلاح ہو جاتی تھی، تو یہ باقی چیزیں اس کے ساتھ ہو جاتی تھیں، ان پہ جذب طاری ہو جاتا۔ مطلب مل جاتا تھا، تو ان کے لئے وہ بات کافی تھی۔ حضرت نے خود فرمایا ہے کہ متقدمین کا جوارح کا لطیفہ زیادہ روشن تھا۔ لیکن بعد میں ضرورت پڑ گئی، کیونکہ complications ہو گئیں، مسائل بن گئے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے کچھ وسائل چاہئے تھے۔ وہ وسائل اللہ پاک نے دے دیئے۔ تو جن پر اللہ پاک نے کھولنا چاہا، ان پر کھول دیئے۔ چنانچہ اگر یہ چیزیں نہ ہوتیں تو انسان تو گیا۔ کیونکہ علماء، صوفیاء اور ہر قسم کے لوگوں میں فتنے اس حد تک گھس گئے تھے کہ ان کی جڑوں کو کاٹنے کے لئے اللہ پاک نے کچھ خصوصی علوم ان کو عطا فرما دیئے، جو حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ میں موجود ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کام لیا اور تمام چیزوں کو دور کر دیا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ