حضرت شیخ صاحب کے جنون عشق کے بارے میں

باب 12 ، درس 41

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر مبنی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے تعلیم ہو رہی ہے۔ ایک شعر پہ ہم رک گئے تھے:

متن:

؎ مئے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو

اک گونہ بے خودی مجھے دِن رات چاہئے غالبؔ

تشریح:

یہ اصل میں شراب اور سکر کے بارے میں بات چل رہی تھی۔

متن:

اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ نے جب ایسا کام حضرت ہارون علیہ السلام سے کیا تو اللہ سے سوال کیا کہ ﴿رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَلِأَخِيْ...﴾ (الأعراف: 151) ”اے میرے رب مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما“ پس اے محبوب! سکرِ حمیت، غفلت اور حیرت کی منزل میں ہے، جیسا کہ شراب کے نشے میں ہوتا ہے۔ شراب کے پینے سے مستی اور نشہ مُراد نہیں بلکہ انہیں پینے والے کا نشاط اور سرور و ذوق مراد ہوتا ہے۔

لیکن انبیاء علیہم السلام کو متواتر اور مسلسل طور پر واردات حاصل ہوتی ہیں، اور وہ مستی اور نشہ سے مدہوش ہونے سے معصوم ہیں کہ وہ بے خبر ہو جائیں، لیکن ذوق و انس و نشاط وغیرہ بے خبری کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی فضل و کرم ہے۔ پس اے عزیز! اولیاء کرام کا سکر بھی اس طریق سے ہے۔ اولیاء مقامِ اقتدا و امامت میں ہوتے ہیں، پس شرابِ محبت کا سکر انبیاء کے واسطے بھی نشاط و ذوق کے لئے جائز ہے، اگر یہ سکر اولیاء میں واقع ہو جائے تو اس کا انکار نہیں کرنا چاہئے "اَلصُّحْوُ و اَلسُّکْرُ صِفَتَانِ لِلْعَبْدِ مَا دَامَ الْعَبْدُ مَحْجُوْبًا عَنْ رَّبِّہٖ حَتّٰی تَفْنٰی أَوْصَافُہٗ" یعنی صحو اور سکر بندہ کی دو صفتیں ہیں جو اُس وقت تک ہوتی ہیں، جب تک بندہ اپنے رب سے حجاب میں ہو، یہاں تک کہ اس کی تمام صفات فنا ہو جائیں۔ لیکن اے عزیز! شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تک شیخ دونوں صفتوں میں سے خارج نہیں ہوتا، ہمارے زمرے میں نہیں آ سکتا کیونکہ سکر عبادت کے غلبہ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ارباب معانی کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ غلبۂ محبت ہے طاور صحو حصولِ مُراد ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت کے غلبہ کو سکر کہتے ہیں اور حصول مراد کو صحو کہتے ہیں، لیکن شیخ محمد حسین کے نزدیک دونوں حالتیں حجاب کی ہیں، سکر نفی ہے غیر محبوب سے محبوبوں کے غلبے کی اور صحو عبارت ہے مُرادیں حاصل ہونے سے۔ گویا سب محبوب ہیں، لیکن ایک سودا ہے اور وہ دونوں سے باہر ہے۔ اور شیخ محمد حسین نے سب اس رباعی میں فرمایا جس سے ان کا خیال آشکارا ہوتا ہے۔ رُباعی

؎ از نفی و از اثبات بیروں صحرائے ہست

کہ ایں طائفہ را دراں میاں سودائی ہست

عاشقی چوں بداں جا رسد محو شود

نے نفی نہ اثبات نہ او را جائے ہست

’’نفی اور اثبات سے ماوراء ایک صحرا و بیابان ہے کہ اس گروہ (عشاق) کو اس صحرا میں سودا ہے جب عاشق اس مقام کو پہنچ جاتا ہے تو نہ نفی و اثبات کا اور نہ اس کا کوئی مقام ہوتا ہے‘‘۔

اگر ارباب معانی اور مفہوم شناس لوگ آج زندہ ہوتے تو ان کلمات کے مفہوم کو سمجھ جاتے۔ بیت

؎ اے دریغا ہیچ کس را نیست تاب

دیدہ ہا کور و جہاں پر آفتاب

’’افسوس کہ کسی شخص میں تاب و توان نہیں، دنیا سورج کی روشنی سے بھرپور ہے اور آنکھیں اندھی اور نابینا ہیں‘‘۔ (مثنوی)

؎ من ز خم خانہ خورده ام جامے

نہ زمن اسمِ ماند ونے نامے

مست گشتم زاو و جام شکست

تا نگیرد دگر کسم جامے

عاشق و عشق گشت خود معشوق

خاص بیند چنیں نہ ہر عامے

چشم معنیٰ کشادہ شد بہ یقین

جان و جاناں دلبر و دل و دین

’’میں نے شراب خانے سے شراب کا ایک جام پی لیا، اب نہ میرا نام رہ گیا اور نہ نشان، میں اُس سے مست ہو گیا اور وہ جام ٹوٹ گیا، تاکہ یہ جام کوئی دوسرا شخص اُٹھا نہ لے، عاشق اور عشق خود ہی معشوق ہو گئے، یہ خاص بات ہر عام آدمی نہیں دیکھتا، یقینی طور پر معنیٰ کی آنکھیں کھل گئیں۔ جان جانان دلبر اور دل و دین سب نمودار ہوئے‘‘۔

اے عزیز! عشق کے تین حروف ہیں: عین، شین اور قاف۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم کو قیامت کے دِن تین گروہوں میں تقسیم فرمایا ہے: جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: ﴿فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖۚ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌۚ وَّ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِإِذْنِ اللهِؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُؕ(فاطر: 32)

”پس کوئی برائی کرتا ہے اپنی جان پر، اور کوئی ہے اُن میں بیچ کی چال پر، اور کوئی اُن میں آگے بڑھ گیا ہے لے کر خوبیاں اللہ کے حکم سے، یہی ہے بڑی بزرگی“۔ پس اے محبوب! پہلے گروہ والے اپنے نفس پر ظالم ہیں، ان کے باب میں عشق کا حرف ”عین“ دلالت کرتا ہے یعنی اِن کی نجات اللہ تعالیٰ کی عنایت و احسان پر ہے۔ اور گروہ ثانی مقتصد یعنی میانہ رو اور اعتدال پسند لوگوں کا ہے، اِن کے بارے میں لفظ عشق کا لفظ ”شین“ دلالت کرتا ہے جو کہ رسول اللہ ﷺ کی شفاعت پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم صادر ہو جائے گا کہ اے میرے حبیب! میانہ رو اور اعتدال پسند لوگوں کی شفاعت فرمائیں۔ اور تیسری جماعت نیکی اور عبادت میں آگے بڑھنے والوں اور جہدِ بلیغ کرنے والوں کی ہے، اِن کے بارے میں لفظ عشق کا لفظ "ق" دلالت کرتا ہے جو قربِ خداوندی کا مفہوم ادا کرتا ہے کہ ﴿فِيْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ﴾ (القمر: 55) ”بیٹھے سچی بیٹھک میں نزدیک بادشاہ کے جس کا سب پر قبضہ ہے“۔ اِس آیت شریف میں چند اشکالات ہیں اور اُن میں سے ایک یہ ہے کہ جس جگہ قرآن مجید میں ظالموں کا ذکر ہے، اُس سے مراد جھوٹے لوگ ہیں۔ لیکن شیخ محمد حسین صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مستند حدیث پائی ہے کہ "قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ: "اَلسَّابِقُ وَالْمُقْتَصِدُ یَدْخُلَانِ الْجَنَّۃَ وَالظَّالِمُ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا ثُمَّ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ" (الجامع الصغیر للسیوطی، رقم الحدیث: 7074) ”رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سابق اور مقتصد جنت میں داخل ہوں گے اور ظالم کے ساتھ آسان اور سہل طریقے سے حساب کیا جائے گا پھر اس کے بعد جنت میں داخل ہو جائے گا“۔

لیکن شیخ صاحب مذکور کو اس حدیث میں اشکال واقع ہوا تھا اور اس کی صحت میں شک تھا پھر 908ء میں 27 رمضان المبارک کی رات کو رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا اور یہ حدیث آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کی اور خاموش ہوئے۔ حضرت رسالت مآب ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کہ "یَا وَلَدِيْ ھٰذَا الْحَدِیْثُ مِنْ شَأْنِيْ" ”اے میرے بچے! یہ حدیث میری ہی ہے“۔ پس اے عزیز! حضرت قتادہ کو اس بات میں تاخیر کرنی چاہئے تھی جیسا کہ عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ہے: "اَلظَّالِمُ ھُوَ الْکَافِرُ مِنْ کُفْرَانِ النِّعْمَۃِ لَا مِنْ الْکُفْرِ الَّذِيْ ھُوَ ضِدُّ الْإِیْمَانِ وَالْمُقْتَصِدُ الْمُرَائِيْ لَا الَّذِيْ یُنَافِقُ فِي الدِّیْنِ وَالسَّابِقُ ھُوَ الْعَابِدُ" (لم أعثر علی ہذا القول) یعنی ظالم وہ ہے جو کہ کفرانِ نعمت کرتا ہے نہ کہ وہ کفر جو ایمان کی ضد ہے، اور مقتصد وہ ہے جو کہ دکھاوا کرتا ہے نہ کہ وہ جو کہ دین میں نفاق کرتا ہے، اور سابق سے مراد عابد ہے۔ پس ان سب باتوں کا مرام و مقصود عشق بازی کرنا ہے اور عشق بازی کیا چیز ہے؟ ”ایک جاننا ایک کہنا“۔

تشریح:

سکر اور صحو؛ یہ دو لفظ ہیں۔ سکر سے مراد ہے بھول جانا، جیسے نشہ میں انسان اپنے آپ کو بھول جاتا ہے، ساری چیزوں کو بھول جاتا ہے۔ انسان اس وقت ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ چیزوں اور ان کی صفات کا ادراک ختم ہو جاتا ہے۔ اگر یہ سکر شراب کے نشہ سے ہو، تو وہ معاف نہیں ہے، کیونکہ اس نے ایک ایسی چیز سے غفلت حاصل کی جو کہ جائز نہیں تھی، لہذا وہ اس کا جواب دہ ہو گا، اس کے ساتھ حساب کیا جائے گا۔ لیکن ایک شخص وہ ہے، جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں مست ہو کر سب چیزیں بھول جاتا ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت ناجائز نہیں ہے، بلکہ مومن کا خاصہ ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ (البقرۃ: 165)

ترجمہ: ’’اور جو لوگ ایمان لاچکے ہیں، وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں‘‘۔

پس جو شخص اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرتا ہے، تو بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک مقدار ہوتی ہے یعنی جتنا انسان برداشت کر سکتا ہے، اتنی محبت ہوتی ہے اور تدریج کے ساتھ ہوتی ہے۔ کیونکہ تدریج کے ذریعے سے انسان بہت کچھ برداشت کر لیتا ہے، آہستہ آہستہ اس میں برداشت کرنے کی قوت بڑھتی جاتی ہے۔ لیکن اگر تدریج نہ ہو بلکہ اچانک ہو تو وہ برداشت نہیں کر سکے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بہت زیادہ ہو، جو اس کی برداشت کے مطابق ہی نہ ہو، تو پھر بھی وہ برداشت نہیں کر سکے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ وارد اتنا زیادہ نہیں ہے، لیکن جس پہ وارد ہے، وہ صحت کے لحاظ سے اور ذہن کے لحاظ سے کمزور ہے۔ لہٰذ اس کو تھوڑے میں بھی وہ کیفیت ہو سکتی ہے، جو کہ قوی لوگوں کو زیادہ میں بھی نہیں ہو گی۔ جیسے کہتے ہیں کہ تنکا چُلّو بھر پانی میں بھی بہہ جاتا ہے، اور ہاتھی آبشار میں بہہ جاتا ہے۔ بہے تو دونوں، ہاتھی بھی بہہ گیا، تنکا بھی بہہ گیا، لیکن دونوں برابر نہیں ہیں، وارد کا فرق ہے۔ ہاتھی کے اوپر وارد بہت زیادہ ہے اور تنکے کے اوپر کم ہے۔ لیکن تنکا کمزوری کی وجہ سے بہہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا: ﴿لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ (الحشر: 21)

ترجمہ: ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا، تو تم اسے دیکھتے کہ وہ اللہ کے رعب سے جھکا جا رہا ہے، اور پھٹا پڑتا ہے‘‘۔

یعنی اگر یہ قرآن پہاڑ پہ نازل ہوتا، تو پہاڑ بھی اس قرآن کے نزول کو برداشت نہ کر سکتے اور ریزہ ریزہ ہو جاتے۔ لیکن آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اتنی قوتِ قلبی عطا فرمائی تھی کہ اس کو برداشت کر لیا۔ اس کی دوسری مثال آپ یوں دے سکتے ہیں کہ اگر کسی کی eyesight کمزور ہے، تو سورج کی جو روشنی بالکل صبح کے طلوع کے وقت مکروہ وقت میں ہوتی ہے، اس تھوڑی روشنی سے بھی اس کی آنکھیں چندھیا جائیں گی اور وہ سورج کو نہیں دیکھ سکے گا۔ اور جس کی eyesight ٹھیک ہو، 6 بائی 6 ہو، اگرچہ سورج کی روشنی تیز ہو رہی ہو گی، لیکن یہ زیادہ دیر تک اس کو دیکھ سکے گا۔ چنانچہ اگر کوئی مشاہدہ کر رہا ہو تو مکروہ وقت کی مقدار مختلف ہو سکتی ہے، کمزور نظر والے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے ہو گا، ممکن ہے کہ وہ سات آٹھ منٹ کے بعد سورج کو نہ دیکھ سکے۔ اور جو 6 بائی 6 نظر والا ہو گا، وہ اس کو زیادہ دیر تک دیکھ سکے گا، بارہ منٹ تک پہنچ جائے گا۔ چنانچہ وارد اگر ایک جیسا ہو، لیکن جن پہ وارد ہو رہا ہے، ان میں فرق ہو تو بھی مسئلہ ہو سکتا ہے، پھر بھی مشکل ہو سکتی ہے۔ اگر ایک شخص نے ایک ایسا پُل عبور کرنا ہے جس پر پانی ہے، تو عین ممکن ہے کہ وہ اس کے ساتھ بہہ جائے۔ اور عین ممکن ہے کہ وہ کنٹرول کر لے اور باہر نکل جائے۔ اسی طرح سے وحدت الوجود کی کیفیت اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ہوتی ہے اور جب تک انسان کی یہ کیفیت نہیں آتی، اس وقت تک فنائے نفس حاصل نہیں ہو پاتی۔ یعنی انسان اپنے نفس کی آلائشوں سے دور نہیں ہو سکتا۔ اور عاجلہ اس کو اپنی طرف کھینچ رہی ہو گی اور تسلیم جو اسلام کا خاصہ ہے، وہ مکمل حاصل نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ اسلام تو واضح ہے، اسلام تو ایک ہے۔ لیکن ہمارے نفس کی حالت ہر ایک کی مختلف ہے۔ اس لئے انسان نفس کی خواہشات سے جتنا زیادہ متاثر ہو گا، اتنا ہی اسلام پر عمل کرنے میں مشکل آتی جائے گی۔ لہذا اس چیز سے بچنے کے لئے، اس کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ یعنی جب آپ اس کیفیت کو حاصل کر لیں، تو اس کو برداشت کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور پھر اس سے نکل آئیں گے۔ یعنی شروع میں آپ کی برداشت میں نہیں ہو گا، لہذا سارے خواص مختلف ہو جائیں گے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آپ کوئی بڑی طاقتور قسم کی tonic پی لیں، تو عین ممکن ہے کہ اس وقت آپ stable نہ رہیں، لیکن ڈاکٹر کو پتا ہو گا کہ یہ تھوڑی دیر بعد ٹھیک ہو جائے گا۔ جیسے جو لوگ کشتے کھاتے تھے، ان کے ساتھ اسی طرح ہوتا تھا۔

حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید تھے، حضرت نے ان پہ توجہ کی، تو ان کی حالت غیر ہونے لگی اور وہ برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔ حضرت کو کہنے لگے کہ حضرت! واپس لے لیں، میں برداشت نہیں کر سکتا۔ حضرت جانتے تھے کہ تھوڑی دیر میں برداشت کر لے گا، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں برداشت آ جائے گی۔ حضرت نے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں، ٹھیک ہو جائے گا۔ ان سے پھر رہا نہیں گیا۔ انہوں نے کہا: حضرت! میں اس کو برداشت نہیں کر سکوں گا۔ حضرت ما شاء اللہ چشمِ بینا رکھتے تھے، فرمایا: برداشت ہو جائے گا، آپ صبر کریں۔ پھر جب اس نے کہا کہ حضرت! مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔ فرمایا: اچھا، آ جاؤ۔ حضرت نے ان کے جسم پہ ہاتھ پھیرا، وہ ساری کیفیت سلب ہو گئی اور وہ پہلے جیسا ہو گیا۔ کچھ دنوں کے بعد انہیں احساس ہو گیا کہ میں نے فضول حرکت کی، جب حضرت تسلی دے رہے تھے، تو میں برداشت کر لیتا۔ پھر آیا اور کہا کہ حضرت! مجھ سے غلطی ہو گئی، پھر توجہ فرما دیں۔ فرمایا۔ نہیں۔ ہر وقت نہیں ہوتا۔ بس وہ محروم ہو گیا۔ بہر حال! وقتی طور پر بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے، اس وقت اس کو تسلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی تسلی دینے والا ہو، تو وہ اس کو برداشت کر لے گا اور اس چیز سے باہر نکل آئے گا۔ وہ جو باہر نکل آتا ہے، یہی صحو ہے۔ یعنی جس وقت اس کیفیت کے اندر ہے، یہ سکر ہے، اگر سکر کی حالت میں اس کی زبان سے کچھ ایسی ویسی باتیں نکلی تھیں، جو عام حالت میں نہیں کی جا سکتیں، تو وہ معاف ہیں، کیونکہ وہ کسی ناجائز وجہ سے نہیں ہوا۔ کیونکہ اس کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ ﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرۃ: 286)

ترجمہ: ’’اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا‘‘۔

چونکہ اس وقت وہ کنڑول نہیں کر سکتا، لہذا وہ معاف ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے غالباً ماموں تھے، ان پہ جذب رہتا تھا۔ ایک اور مجذوب تھے، وہ بھی حضرت کے رشتہ دار تھے، چونکہ حضرت کا ننہال سادات گھرانے سے تھا، تو ان کی والدہ نے یا نانی نے ان سے درخواست کی کہ حضرت! یہ بالکل کمانے کے قابل نہیں رہے، ان کے ساتھ کچھ کریں، تاکہ کم از کم کام تو کر سکیں۔ جب وہ دوسرے مجذوب آئے، تو ان کو حضرت نے کہا کہ مجھے دیکھو۔ جیسے انہوں نے دیکھا، تو حضرت نے وہ کیفیت سلب کر لی۔ جب کیفیت سلب کر لی، تو وہ چونکہ اسی میں مست تھے، اس لئے اس کو برداشت نہیں کر سکے اور چلانے لگے: ڈاکو ہے، ڈاکو ہے، ڈاکو ہے۔ یعنی میرے ساتھ ظلم کیا ہے۔ بہت چیخے، لیکن حضرت تو کام کر کے چلے گئے۔ پھر جب افاقہ ہو گیا، تو اپنا کام کاج کرتے رہے۔ جب ان کی موت کا وقت آیا، تو اچانک کہیں سے سامنے آ گئے۔ حضرت نے ان سے کہا: مجھے دیکھو۔ جیسے دیکھا، تو جو کیفیت اس وقت سلب کی تھی، وہ ساری واپس کر دی۔ جیسے ہی واپس کی، تو وہ کہنے لگے: ما شاء اللہ! میرے پاس اس وقت دو شانیں ہیں۔ جب یہ کہا، تو حضرت نے فرمایا: خاموش۔ پھر وہ چلے گئے۔ بہر حال! یہ کیفیات ہیں اور کیفیات میں اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ بہر حال! میں عرض کر رہا تھا کہ سکر واردات سے انسان کی معذوری ہے۔ لہذا اگر انسان کی برداشت زیادہ ہو، تو وہ بڑے وارد کو بھی برداشت کر لے گا اور اگر برداشت کم ہو، تو وہ تھوڑے وارد کو بھی برداشت نہیں کر سکے گا۔

متن:

لیکن انبیاء علیہم السلام کو متواتر اور مسلسل طور پر واردات حاصل ہوتی ہیں، اور وہ مستی اور نشہ سے مدہوش ہونے سے معصوم ہیں۔

تشریح:

ان کی طاقت بہت زیادہ ہے۔ وارد ان کو مدہوش نہیں کر سکتے۔ ہاں! ممکن ہے کہ کسی وقت مدہوشی جیسی حالت ہو جائے۔ لیکن اس وقت وہ مکمل مدہوش نہیں ہوتے، شریعت کی پابندی پوری چل رہی ہوتی ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ جیسے جاگتے ہوئے انسان کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں، کبھی جوش میں ہوتا ہے، کبھی ہوش میں ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی وہ کام رہتے ہیں۔ جیسے: جنگِ بدر کے موقع پر آپ ﷺ کی جو حالت ہوئی تھی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: یا اللہ! یہ اس وقت تھوڑے سے لوگ ہیں، اگر یہ چلے گئے، تو تیرا نام لینے والا کوئی نہیں ہو گا۔ بس یہ ایک حالت تھی، ورنہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تو لا متناہی ہے۔ آپ ﷺ اتنے والہانہ انداز میں دعا کر رہے تھے کہ آپ کی چادر بار بار نیچے گرتی تھی، بار بار حضرت ابوبکر صدیق چادر اٹھا کے آپ ﷺ کے کندھوں پہ ڈالتے اور ساتھ کہتے: یا رسول اللہ! آپ کے ساتھ تو اللہ نے وعدہ کیا ہے۔ چنانچہ کبھی کبھی اس قسم کی حالت ہو سکتی ہے۔ جیسے: موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ کہ اپنے بھائی کی داڑھی پکڑ لی۔ وہ بھی ایک وقتی حالت تھی۔ لیکن چونکہ نبی تھے، تو فوراً کہا: ﴿رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَلِأَخِيْ﴾ (الأعراف: 151)

ترجمہ: ’’میری اور میرے بھائی کی مغفرت فرمادے‘‘۔

چونکہ نبیوں کی طاقت زیادہ ہوتی ہے، اس لئے ان کو واردات اس حد تک مدہوش نہیں کرتے کہ ان کے کام میں خلل ہو جائے۔ چونکہ انبیاء کرام کی حفاظت ہوتی ہے، اس لئے ایسا حال اگر آ بھی جائے، تو اس کے مطابق جو کام کرنا ہوتا ہے، وہ کرتے رہتے ہیں۔ جیسے: آپ ﷺ پہ جادو کیا گیا تھا، تو بشر ہونے کے لحاظ سے جادو نافذ ہو گیا تھا، لیکن نبی ہونے کے لحاظ سے نبوت کی شان میں کوئی فرق نہیں آیا، نبوت کے کاموں میں خلل نہیں ہوتا تھا۔ بشری حالات میں فرق پڑتا تھا۔ کیونکہ نبی کی دو حیثیتیں ہوتی ہیں: ایک ان کی نبوت ہے، دوسری بشریت ہے۔ بشری چیزوں میں فرق پڑ جاتا ہے، جیسے آپ ﷺ یہ محسوس کرتے کہ جیسے میں نے کوئی کام کیا ہے، جب کہ کیا نہ ہوتا۔ کچھ اس طرح کے حالات آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ چنانچہ تقاضوں پہ جادو نے اثر کیا، مگر نبوت کی چیزوں پر اثر نہیں کر سکا۔ یہ بھی منقول ہے کہ آپ ﷺ جب دنیا سے تشریف لے جا رہے تھے، تو فرمایا کہ جو زہر دیا گیا تھا، اس سے میری رگیں کٹ رہی ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے شہادت پائی ہے۔ کیونکہ وہ زہر جو اس وقت تک محفوظ تھا، اس وقت active ہو گیا۔ بہر حال! اللہ تعالیٰ انبیاءِ کرام کو اس قسم کی طاقت دیتے ہیں، جس سے وہ واردات اور بہت ساری چیزوں کو برداشت کر سکتے ہیں، جو عام لوگ برداشت نہیں کر سکتے۔

متن:

پس اے عزیز! اولیاء کرام کا سکر بھی اس طریق سے ہے۔ اولیاء مقامِ اقتدا و امامت میں ہوتے ہیں۔

تشریح:

جن کو اللہ جل شانہ مقامِ اقتدا نصیب فرما دے، ان کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے دوسرے لوگ ان واردات سے جتنے متاثر ہوتے ہیں، وہ حضرات اتنے متاثر نہیں ہوتے، وہ اس میں بھی اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ ان کی کسی گفت سے باقی لوگ لوٹ پوٹ ہو جائیں اور ان کو اس حالت میں بھی اتنا ٹھہراؤ ہو کہ استقامت سے نہ نکلیں۔ تو یہ مقامِ اقتدا میں ہوتا ہے۔

متن:

پس شرابِ محبت کا سکر انبیاء کے واسطے بھی نشاط و ذوق کے لئے جائز ہے،

تشریح:

آپ ﷺ کے بھی نشاط و ذوق کے واقعات ہیں اور باقی انبیاءِ کرام کے بھی ہیں۔

متن:

اگر یہ سکر اولیاء میں واقع ہو جائے تو اس کا انکار نہیں کرنا چاہئے "اَلصُّحْوُ و اَلسُّکْرُ صِفَتَانِ لِلْعَبْدِ مَا دَامَ الْعَبْدُ مَحْجُوْبًا عَنْ رَّبِّہٖ حَتّٰی تَفْنٰی أَوْصَافُہٗ" یعنی صحو اور سکر بندہ کی دو صفتیں ہیں جو اُس وقت تک ہوتی ہیں، جب تک بندہ اپنے رب سے حجاب میں ہو، یہاں تک کہ اس کی تمام صفات فنا ہو جائیں۔

تشریح:

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پہ کافی کلام کیا ہے کہ تجلیِٔ ذاتی میں سکر واقع نہیں ہوتا۔ اور فرمایا کہ آپ ﷺ کی تجلی ذاتی ہے اور باقی انبیاء کی صفاتی ہے۔ پھر حضرت نے بڑی تفصیل کے ساتھ فرمایا ہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ غیرِ انبیاء بھی انبیاء سے افضل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ محمدی مشرب کے اولیاء انبیاء تو نہیں ہوتے، لیکن ان کی بھی تجلی ذاتی ہوتی ہے۔ فرمایا کہ مثلاً: ایک شخص پردہ کے بالکل قریب ہے اور دوسرے شخص میں پردہ نہیں ہے، لیکن وہ دور ہے۔ زیادہ قرب قریب والے کو حاصل ہے، چاہے وہ پردے کے ساتھ ہے۔ اور فرمایا کہ آپ ﷺ اور جو لوگ آپ ﷺ کے مشرب پہ ہیں، ان کا طریقہ مختلف ہے۔ اور جو حضرات صفات کے ذریعے سے ہیں اور دوسرے انبیاءِ کرام کے قدموں پر ہیں، ان کا معاملہ مختلف ہے۔ حقیقتِ جذب و سلوک میں حضرت نے یہ بات بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائی ہے۔ یہاں پر بھی حضرت نے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ:

متن:

"اَلصُّحْوُ و اَلسُّکْرُ صِفَتَانِ (صحو اور سکر دو صفتیں ہیں) لِلْعَبْدِ مَا دَامَ الْعَبْدُ مَحْجُوْبًا عَنْ رَّبِّہٖ حَتّٰی تَفْنٰی أَوْصَافُہٗ" یعنی صحو اور سکر بندہ کی دو صفتیں ہیں جو اُس وقت تک ہوتی ہیں، جب تک بندہ اپنے رب سے حجاب میں ہو، یہاں تک کہ اس کی تمام صفات فنا ہو جائیں۔ لیکن اے عزیز! شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تک شیخ دونوں صفتوں میں سے خارج نہیں ہوتا، ہمارے زمرے میں نہیں آ سکتا کیونکہ سکر عبادت کے غلبہ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ارباب معانی کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ غلبۂ محبت ہے۔ اے عزیز جب تک شیخ دونوں صفتوں میں سے خارج نہیں ہوتا، ہمارے زمرے میں نہیں آ سکتا کیونکہ سکر عبادت کے غلبہ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ارباب معانی کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ غلبۂ محبت ہے اور صحو حصولِ مُراد ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت کے غلبہ کو سکر کہتے ہیں اور حصول مراد کو صحو کہتے ہیں، لیکن شیخ محمد حسین کے نزدیک دونوں حالتیں حجاب کی ہیں، سکر نفی ہے غیر محبوب سے محبوبوں کے غلبے کی اور صحو عبارت ہے مُرادیں حاصل ہونے سے۔ گویا سب محبوب ہیں، لیکن ایک سودا ہے اور وہ دونوں سے باہر ہے۔ اور شیخ محمد حسین نے سب اس رباعی میں فرمایا جس سے ان کا خیال آشکارا ہوتا ہے۔ رُباعی

؎ از نفی و از اثبات بیروں صحرائے ہست

کہ ایں طائفہ را دراں میاں سودائی ہست

عاشقی چوں بداں جا رسد محو شود

نے نفی نہ اثبات نہ او را جائے ہست

’’نفی اور اثبات سے ماوراء ایک صحرا و بیابان ہے کہ اس گروہ (عشاق) کو اس صحرا میں سودا ہے جب عاشق اس مقام کو پہنچ جاتا ہے تو نہ نفی و اثبات کا اور نہ اس کا کوئی مقام ہوتا ہے‘‘۔

اگر ارباب معانی اور مفہوم شناس لوگ آج زندہ ہوتے تو ان کلمات کے مفہوم کو سمجھ جاتے۔

تشریح:

ایک لفظ ہے، جو اس وقت قلب پہ وارد ہوا ہے: لا مکان۔ لا مکان کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کوئی تعین نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نفی اور اثبات بھی راستہ میں حائل ہو سکتے ہیں، جب انسان مکمل تفویض یعنی تفویضِ محض حاصل کر لے۔ جیسے: حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اکثر پڑھا کرتے تھے:

یا بم اورا یا نیابم، جستجوئے می کنم

حاصل آید یا نیاید، آرزوئے می کنم

ترجمہ:

وہ ملے یا نہ ملے، اس کے ملنے کی جستجو کرتا رہوں گا

اسے پاؤں یا نہ پاؤں، اسے پانے کی آرزو برابر کرتا رہوں گا۔

در اصل یہ ساری چیزیں آپس میں جڑی ہوتی ہیں۔ جب انسان تفویض میں یہ سوچے کہ تفویض سے مجھے یہ فائدہ ہو گا، میرا فلاں مقصد حل ہو جائے گا، تو وہ تفویض نہیں ہوئی۔ کیونکہ وہی چیز اس کا مقصود بن گئی۔ اس سے نکلنا مشکل کام ہے، آسان کام نہیں ہے۔ یہاں یہی مراد ہے کہ انسان اپنی رائے چھوڑ دے۔ یہ سوچے کہ محبوب کی جو مرضی ہو گی، وہی ٹھیک ہے۔ حضرت یہ سب Third category کی باتیں کر رہے ہیں۔ اور یہ میں نے پہلے صاف طور پر عرض کیا ہے کہ Second category کو Third category کی باتیں سمجھ نہیں آتیں۔ جیسے کہ First category کو Second category کی باتیں سمجھ نہیں آتیں۔ جیسے فرمایا ہے: ﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ (البقرۃ: 276)

ترجمہ: ’’اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے‘‘۔

یہ بالکل پکی بات ہے، کیونکہ قرآن کی آیت ہے۔ لیکن جو مسلمان سود خور ہیں، ان کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ جو بینک میں پیسے fix کر لیتے ہیں، کیا ان کو کوئی سمجھا سکتا ہے؟ حالانکہ وہ زبان سے مانتا بھی ہے کہ یہ حق ہے، لیکن اتنا نہیں مانتا کہ اس کو ماننے کا فیصلہ کر سکے۔ اس کو یقین کے درجہ میں نہیں مانتا کہ وہ اس کو اپنے اوپر نافذ بھی کر لے۔ اور جو First category ہے یعنی دنیا دار طبقہ، وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکتا۔ اور جو اس بات کو سمجھتے ہوں اور وہ اپنی دنیا کی تمام چیزوں کی پروا چھوڑ دیں اور آخرت کی تیاری کر لیں اور اسی کے بارے میں سب باتیں کریں، تو ان کو First category کے لوگ پاگل سمجھتے ہیں۔ بعینہ یہی بات ہے کہ Second category والے Third category والوں کو ایسا کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان کی باتیں نہیں سمجھتے، وہ دلائل کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں جنت کی بات ہے، حدیث شریف میں جنت مانگی گئی ہے۔ وہ یہ بات نہیں جانتے کہ قرآن اور حدیث Minimum level کے لوگوں کے لئے اترا ہے کہ سب اس پہ عمل کر سکیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمت کے ذریعے سے ہے۔ لیکن جو مقامات ہیں، جیسے قربِ فرائض ہے، قربِ فرائض متعین ہے، اور زیادہ قرب اسی میں رکھا گیا ہے۔ لیکن تقابل قربِ نوافل میں ہے، قربِ فرائض میں تو سب برابر ہو سکتے ہیں، اس میں تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر سب لوگ فرائض پورے کر لیں، تو ان میں کوئی بھی بڑا نہیں ہو گا۔ کیونکہ جو فرائض پورے نہیں کر رہا، وہ منفی میں جا رہا ہے۔ لیکن جو پورا کر رہے ہیں، وہ سب برابر ہیں۔ لیکن تفاصل نوافل میں ہے۔ لہذا جو اس چیز کو پورا کر کے اس فیض میں آتے ہیں، اللہ پاک ان کے لئے فرماتے ہیں کہ میں ان کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتے ہیں۔ میں ان کا پاؤں بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتے ہیں۔ یہ نوافل کے قرب کے لئے فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ جو minimum ہے، وہ سب کے لئے ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ما شاء اللہ ایک بڑا علم نصیب فرمایا ہے کہ کیا نوافل صرف نماز میں ہیں؟ نہیں! بہت ساری چیزوں میں نوافل ہیں، معاملات میں ہیں، معاشرت میں ہیں، اخلاق میں ہیں، معرفت میں ہیں، یعنی وہ درجہ جو آپ کے اوپر لازم نہیں ہے، لیکن آپ کے لئے اس کی طرف راستہ موجود ہے، آپ اس کو حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ Third category میں آتا ہے۔ یہ لوازمات میں نہیں ہے۔ اس لئے اگر پوری عمر کوئی کہتا ہے: ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ الْجَنَّۃَ‘‘ تو اس کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ کہنا بالکل ٹھیک ہے، اگر اس کی اور چیزیں مخالف نہ ہوئیں، تو وہ ان شاء اللہ جنت جائے گا۔ لیکن جو اللہ سے جنت مانگتا ہے، اس کو جنت ملے گی، اور جو اللہ سے اللہ مانگتا ہے، اس کو کیا ملے گا؟ میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ جو Third category ہے، اس وقت ان کے مقام کا پتا چلے گا کہ جب سارے جنتیوں سے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ کچھ اور مانگتے ہو؟ ان کو تو سب کچھ ملا ہو گا۔ وہ کہیں گے کہ یا اللہ! سب کچھ آپ نے دے دیا ہے، اب ہم اور کیا مانگیں؟ پھر وہ اپنے علماء سے پوچھیں گے، اس وقت علماء کی قدر آئے گی۔ پوچھیں گے کہ اب کیا مانگیں؟ علماء کہیں گے کہ ابھی دیدارِ الہی نہیں ہوا، اس کے بارے میں بات کریں۔ جب کہیں گے، تو بس انتظام ہو جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے مانگو، اس لئے وہ دینا تو چاہتا ہے۔ دیدارِ الہی کا نظام شروع ہو جائے گا، جب دیدار کا نظام شروع ہو جائے گا، اس وقت اللہ تعالٰی ٹائم کی significance ختم کر دیں گے۔ وقت کا پتا ہی نہیں چلے گا کہ کتنا وقت گزر گیا۔ تب وہ کہیں گے کہ اس وقت تک ہمیں اور ملا ہی کیا تھا، اس کے مقابلہ میں تو کچھ نہیں تھا۔ پس ان کو جنت میں اس کا ادراک ہو گیا۔ لیکن جو Third category کے لوگ ہیں، ان کو یہ ادراک دنیا میں ہی ہوا ہے۔ اس سے آپ ان کے مقام کا اندازہ کر لیں۔ انہوں نے جنت سے اپنے دل کو ہٹا دیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو گئے، لہذا ان کی تو بات ہی الگ ہے۔ لیکن یہ معاملہ سمجھ میں نہیں آتا، سمجھانا کافی مشکل ہوتا ہے کہ کیسے ہوتا ہے، Third category کیسے ہو گی۔ جیسے: صدر الدین مرغشی رحمۃ اللہ علیہ کا جو واقعہ ہے، آپ اندازہ کریں کہ اگر ہم نے یہ چیز نہ پڑھی ہوتی، تو ہم کیسے صدر الدین مرغشی رحمۃ اللہ علیہ کے اس واقعہ کو مانتے، جس میں ہے کہ موت کے وقت حضرت کے سامنے جنت سجا کے پیش کی گئی۔ حضرت نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا: یا اللہ! اگر میں نے زندگی اس کے لئے گزاری ہے، تو میں نے اپنی زندگی ضائع کر دی۔ اس وقت جنت کو ہٹا دیا گیا اور ان پر اللہ نے اپنی محبت کی تجلی خاص فرما دی، جس سے وہ دنیا چھوڑ گئے۔ جانا تو تھا ہی، اسی میں لے گئے۔ چنانچہ Third category والوں کی باتیں سمجھ نہیں آتیں۔ یہاں شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے نفی اثبات سے نکلنے کا فرمایا ہے، حالانکہ نفی ساری چیزوں کی بنیاد ہے۔ لہذا اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی رائے فنا کر دو، فیصلہ ہی نہ کرو، فیصلہ وہی کرے گا، اور اپنی ساری چیزوں کو بھول جاؤ۔ کہو کہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں، جو کیا ہے، وہ اس کا فضل ہے۔ یہ وہی بات ہے جیسے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر میرے اتنے منہ ہو جائیں، جتنی زبانیں ہیں اور ہر منہ کے اندر ستر زبانیں ہوں اور میں ان پر اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا رہوں، اللہ کا شکر کرتا رہوں، تو اس کا شکر کیسے ادا کروں گا کہ اللہ نے اتنی زبانیں دی ہیں۔ یہاں پر انسان بالکل بے بس ہو جاتا ہے۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ ہم ان واقعات کو underestimate کرتے ہیں، یعنی یہ ہمیں مثبت معلوم نہیں ہوتے، ان پہ ہمیں اشکالات ہوتے ہیں، لیکن دوسری طرف دیکھیں کہ کیا یہ حق نہیں کہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں؟ کیا یہ حق نہیں ہے کہ صحبتِ صالحین تک اللہ ہمیں لے جاتا ہے۔ کیا یہ حق نہیں ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں ہدایت کے نظام کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ تو میں اس پر کیوں نہیں سوچتا کہ اس میں میری اپنے پہ نظر کیسے گئی، عجب کیسے ہوا؟ عجب ہوتا ہی اس وقت ہے، جب انسان اس چیز کو بھول جائے۔ اپنی نماز سامنے ہے، اللہ کا فضل سامنے نہیں ہے۔ اپنا روزہ سامنے ہے، اللہ کا فضل سامنے نہیں ہے۔ اپنی خیر خیرات سامنے ہے، اللہ کا فضل سامنے نہیں ہے۔ یہی محجوب ہے اور محجوب کیا ہوتا ہے۔ یہاں یہی فرمایا ہے۔ اور جو اس سے نکل جائے، اس کی پھر اپنے عمل پہ نظر نہیں ہو گی۔ کرے گا اتنا کہ ہر وقت اس میں لگا ہو گا۔ لیکن سمجھے گا کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ ہم لوگ تکلفات میں پڑے ہیں۔ مثلاً: ہمارا کوئی مہمان آ جائے، اس کے لئے ہم سارے وہ تکلفات کریں، جتنا ہمارا بس ہے۔ اور پھر تکلفاً ہم کہتے ہیں کہ ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ تاکہ وہ مہمان کہہ دے کہ آپ نے بہت زیادہ کیا ہے۔ ان کے منہ سے کہلوانا چاہتے ہیں۔ یہ تکلف اللہ کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ انسان کے ساتھ تو کر لو گے، کیونکہ انسان علیم بذات الصدور نہیں ہے، اللہ تعالیٰ علیم بذات الصدور ہے۔ لہٰذا یہ جو ہم لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ نہیں کیا اور اندر بھرا ہوا ہے کہ میں نے یہ کیا، میں نے یہ کیا، میں نے یہ کیا۔ یہ معاملہ گڑبڑ ہے۔ یہ اخلاص نہیں ہے۔ یہ جو چیز حضرت فرما رہے ہیں، یہ کیسے حاصل ہو گی؟ یہ اس کیفیت سے حاصل ہوتی ہے، جو حضرت نے فرمائی ہے، جو کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ لیکن چلو! میں ساری باتیں واپس لیتا ہوں، آپ اس اخلاص کو، عدمِ عجب کو کسی اور طرح حاصل کر کے دکھاؤ۔ کوئی اور راستہ ہے آپ کے پاس؟ کیونکہ موانع یہی ہیں۔ مثلاً: اپنے نفس کی چاہتیں ہیں، اپنے نفس کی خواہشیں ہیں، اپنے دل کی خواہشیں ہیں۔ یہی فنائے نفس اور فنائے روح والی بات ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان ساری چیزیں سے کیسے نکلو گے؟ کوئی اور راستہ ہے؟ راستہ تو یہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ معمول نہیں ہے، اسی لئے سمجھ نہیں آتا۔ ورنہ بات تو یہی ہے، اس میں کوئی اور بات نہیں ہے۔

پھر آگے حضرت نے تمثیل بیان فرمائی ہے، تمثیلات بہت ہوتی ہیں۔ ما شاء اللہ قرآن میں بھی تمثیلات ہیں۔ جیسے قرآن کریم میں ہے:

﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ؕ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا ٘ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ۛۖۚ وَمَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ۛ۫ۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ﴾ (الفتح: 29)

ترجمہ: ’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحم دل ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں، (غرض) اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔ یہ ہیں ان کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں۔ اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہو گئی، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہو گئی کہ کاشتکار اس سے خوش ہوتے ہیں۔ تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کر لیا ہے۔‘‘

حضرت نے یہ تمثیل بتائی ہے کہ اللہ جل شانہ نے قران میں فرمایا: ﴿فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖۚ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌۚ وَّمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِإِذْنِ اللهِؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُ (فاطر: 32)

ترجمہ: ’’پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں، جو اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں، اور انہی میں سے کچھ ایسے ہیں، جو درمیانے درجے کے ہیں، اور کچھ وہ ہیں، جو اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں بڑھے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ (اللہ کا) بہت بڑا فضل ہے‘‘۔

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی جہاں فاسق کی قسمیں بتائی ہیں، اس میں اس آیت کو لائے ہیں۔ حضرت نے اپنے رنگ میں بتائی ہے اور اِنہوں نے ذرا اپنے رنگ میں بتائی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں، کچھ لوگ بیچ کے راستے پہ چلتے ہیں اور کچھ آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں۔ یہی بہت بڑا فضل ہے۔

متن:

اے محبوب! پہلے گروہ والے اپنے نفس پر ظالم ہیں، ان کے باب میں عشق کا حرف ”عین“ (عشق کے تین حروف ہیں، پہلا حرف عین ان کے لئے ہے) یعنی اِن کی نجات اللہ تعالیٰ کی عنایت و احسان پر ہے۔ اور گروہ ثانی مقتصد یعنی میانہ رو اور اعتدال پسند لوگوں کا ہے، اِن کے بارے میں لفظ عشق کا لفظ ”شین“ دلالت کرتا ہے جو کہ رسول اللہ ﷺ کی شفاعت پر دلالت کرتا ہے۔

تشریح:

صحیح بات ہے کہ آپ ﷺ کی محبت اپنی جگہ بہت ہے، آپ ﷺ کی شفقت اپنی جگہ بہت ہے، اور ہمارا سر آپ ﷺ کے احسانات کے سامنے بالکل ہی نہیں اٹھ سکتا۔ لیکن ایک روایت ہے، وہ روایت اس وقت سامنے آ رہی ہے کہ اللہ پاک آپ ﷺ سے فرمائیں گے کہ امتیوں کو جہنم سے نکال لو۔ اس وقت آپ ﷺ اپنے امتیوں کو اپنے امتی ہونے کی نشانیوں کے ذریعے سے ڈھونڈیں گے۔ ظاہر ہے کہ آپ ﷺ جیسے شفیق، آپ ﷺ جیسے شفیع نبی اس طرح ڈھونڈیں گے کہ کوئی نہ رہ جائے، اچھی طرح ڈھونڈیں گے اور ان کی شفاعت کریں گے، ان کو اللہ پاک نکال دیں گے۔ پھر اللہ تعالی آپ ﷺ سے پوچھیں گے کہ کوئی اور تو نہیں ہے؟ آپ ﷺ کو کوئی نظر نہیں آئے گا، اس پر اللہ پاک ان لوگوں سے لپ بھریں گے جن کو آپ ﷺ بھی detect نہیں کر سکے ہوں گے کہ یہ بھی مومن ہیں۔ کیونکہ ان کا ایمان اتنا خفیف ہو گا کہ وہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی کو پتا نہیں چلے گا، آپ ﷺ کو بھی ان کا پتا نہیں چلے گا۔ اس وقت جو لپ میں آ گیا، تو آ گیا۔ ان کو جہنم سے نکال دیں گے۔ یہی حضرت نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ اِن کی نجات اللہ تعالیٰ کی عنایت و احسان پر ہے۔ کیونکہ یہ آپ ﷺ کی شفاعت میں بھی نہیں آئے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری شفاعت کبائر کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے ہے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بات ارشاد فرمائی ہے، حضرت بھی عارفین میں سے ہیں۔ فرمایا: ہم لوگ فتوے لگاتے ہیں کہ یہ کافر ہے، یہ فلاں ہے، یہ فلاں ہے۔ انتظامی طور پر ہم نے حکم لگانا ہوتا ہے، لیکن وہاں ایسے ایسے لوگوں کی بخشش ہوں گی جن کو ہم صاف کافر سمجھتے تھے۔ کس طریقے سے ان کا ایمان اللہ پاک کو قبول ہو گا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک کے حالات اپنے اپنے ہیں، جن حالات کی وجہ سے ہم اس صورتِ حال کے شکار ہو گئے۔ مثلاً: کوئی Russia کے اندر پیدا ہوا اور اس کو کچھ بھی پتا نہیں ہے۔ لیکن اس کا رخ ایک ہی طرف ہے کہ وہ اللہ کو ماننے والا ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ریکارڈ ہو چکا ہو گا۔ لہٰذا اس کو بھی نکال لیں گے۔ یہ جو حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ایسے ایسے لوگوں کی بھی مغفرتیں ہو رہی ہوں گے، جن کو ہم صاف کافر سمجھتے ہوں گے۔ اللہ معاف فرمائے۔ بعض لوگ اتنے متشدد ہوتے ہیں کہ مسلمانوں پہ بھی کفر کے فتوے لگاتے ہیں، ان کو مسلمان بھی کافر نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو کافروں میں بھی مسلمان نظر آئیں گے۔ یعنی عام لوگوں کے ہاں کافر ہوں گے، لیکن اللہ تعالیٰ کی نظر میں مسلمان ہوں گے۔ بے شک بہت کمزور مسلمان ہوں گے، لیکن ہوں گے اللہ کی نظر میں، اللہ ان کو نکال لے گا۔ اس سے اللہ کی رحمت اور عنایت کا تھوڑا سا اندازہ کر لیں۔ مگر انسان بہت جلدی بھول جاتا ہے، یہ بھول جانا بھی ایک المیہ ہے۔ انسان کو جو سسٹم نظر آ رہا ہے (شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے سسٹم کی بات کی ہے) اس سسٹم میں انسان گم ہو جاتا ہے۔ مثلاً: کسی کو شیخ نظر آ رہا ہے، تو آپ ﷺ کا تصور غائب ہو گیا۔ آپ ﷺ نظر آ رہے ہیں، تو اللہ کا تصور غائب ہو گیا۔ یہ بھی ایک قسم کے حجابات ہیں۔ عارفین وہی ہیں، جو سیدھا اللہ تک پہنچ جائیں۔ ان کو ہر ہر چیز میں اللہ نظر آتا ہے، آپ ﷺ کی شفقت میں بھی اللہ نظر آتے ہیں، شیخ کی محبت میں بھی اللہ نظر آ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ معاملہ الگ ہوتا ہے۔ اس کا مقصد آپ ﷺ سے یا شیخ سے کاٹنا نہیں ہے، بلکہ آپ ﷺ بھی اللہ سے ملانے کے لئے تشریف لائے ہیں اور شیخ بھی اللہ سے ملانے کے لئے ہوتا ہے۔ پس پیغمبر ﷺ کی محبت میں ان کا اور شیخ کا اصل مقصد نہ بھول جانا۔ کیونکہ یہ دونوں ہدایت کے ذریعے ہیں اور ان کا اصل مقصد اللہ سے ملانا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ان کے ذریعے سے ہو۔ لہٰذا یہ انتہائی balance راستہ ہے کہ آپ ﷺ کے ذریعے سے اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور شیخ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ہوں۔ اور جو بھی آپ کے ساتھ احسان کرے، اس میں آپ کو اللہ نظر آئے۔ یعنی آپ کی ممنونیت اپنی جگہ پر ہو، کیونکہ: ﴿هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ (الرحمٰن: 60)

ترجمہ: ’’اچھائی کا بدلہ اچھائی کے سوا اور کیا ہے؟‘‘۔

لہٰذا اگر آپ کے ساتھ کسی نے نیکی کی، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہیں ہو، آپ اس کے ممنون ہیں، اس کی ممنونیت سے انکار نہیں ہے۔ اس ممنونیت کے اندر اللہ کو بھول جانا غلط ہے۔ کیونکہ در حقیقت کافر سے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو دلوایا ہے، کسی مسلمان سے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو دلوایا ہے، پیغمبر سے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو دلوایا ہے، شیخ سے بھی اللہ نے آپ کو دلوایا ہے، عالم سے بھی اللہ نے آپ کو دلوایا ہے، والدین سے بھی اللہ نے آپ کو دلوایا ہے۔ اسی طرح جتنے بھی واسطے ہیں، جتنے بھی محبوبیت کے circles ہیں، ان سب کے اندر سب سے بڑا سرکل اللہ کی محبت ہے۔ اس لئے فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ (البقرۃ: 165)

ترجمہ: ’’اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں‘‘۔

الحمد للہ یہ بھی بہت بڑا علم اللہ تعالیٰ نے نصیب فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت سب سے بڑا سرکل ہے، اس کے اندر یہ سارے circles سما جاتے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں: ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ (البقرۃ: 165) تو یہ ان تمام محبتوں کی نفی نہیں ہے۔ بلکہ ان محبتوں کے ادراک کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جو اصل محبت ہے، اس کا ادراک یقینی ہو اور سب سے زیادہ ہو۔ جب آپ حضور ﷺ سے بھی اللہ پاک کا دیا ہوا لے لیں، شیخ سے بھی لے لیں، دنیا سے بھی لے لیں، کافر سے بھی لے لیں، تو یہ اشد محبت ہو گی۔ یہی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی محبت ہو کہ ہر واسطہ سے، ہر راستہ سے، ہر شجر حجر سے آپ کو اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہو اور آپ کی نظر اللہ پاک پہ جائے۔ بہر حال! یہ حضرات اس قسم کی باتیں کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ باتیں کہاں سمجھ میں آئیں گی۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کی برکت سے یہ علوم عطا فرما دیئے، آخر پہلے کیوں نہیں آئے؟ باتیں تو ہم بہت عرصہ سے کر رہے ہیں، لیکن یہ پہلے نہیں آئے۔ یہ ان کی قبولیت کی علامت ہے۔ ان حضرات کی قبولیت ایسی ہے کہ اس کے لئے اللہ جل شانہ ایسے علوم بھیج دیتے ہیں۔ آگے فرمایا:

متن:

اور تیسری جماعت نیکی اور عبادت میں آگے بڑھنے والوں اور جہدِ بلیغ کرنے والوں کی ہے، اِن کے بارے میں لفظ عشق کا لفظ "ق" دلالت کرتا ہے جو قربِ خداوندی کا مفہوم ادا کرتا ہے کہ ﴿فِيْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ﴾ (القمر: 55)

اِس آیت شریف میں چند اشکالات ہیں اور اُن میں سے ایک یہ ہے کہ جس جگہ قرآن مجید میں ظالموں کا ذکر ہے، اُس سے مراد جھوٹے لوگ ہیں۔ لیکن شیخ محمد حسین صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مستند حدیث پائی ہے کہ "قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ: "اَلسَّابِقُ وَالْمُقْتَصِدُ یَدْخُلَانِ الْجَنَّۃَ وَالظَّالِمُ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا ثُمَّ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ" (الجامع الصغیر للسیوطی، رقم الحدیث: 7074)

تشریح:

یہ فاسق کے بارے میں ہے، کافر کے بارے میں نہیں ہے۔ جیسے مزدلفہ شریف جو دعا قبول ہوئی تھی۔

متن:

”رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سابق اور مقتصد جنت میں داخل ہوں گے اور ظالم کے ساتھ آسان اور سہل طریقے سے حساب کیا جائے گا پھر اس کے بعد جنت میں داخل ہو جائے گا“۔

لیکن شیخ صاحب مذکور کو اس حدیث میں اشکال واقع ہوا تھا اور اس کی صحت میں شک تھا پھر 908ء میں 27 رمضان المبارک کی رات کو رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا اور یہ حدیث آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کی اور خاموش ہوئے۔

تشریح:

یعنی بے ادبی کے ڈر سے خاموش ہو گئے کہ بس میں نے پیش کر لی اور اس کے بعد کچھ نہیں کہا۔ ایسے لوگوں کو طریقہ آتا ہے، خواب میں بھی ادب ملحوظ ہے۔

متن:

حضرت رسالت مآب ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کہ "یَا وَلَدِيْ ھٰذَا الْحَدِیْثُ مِنْ شَأْنِيْ" ”اے میرے بچے! یہ حدیث میری ہی ہے“۔ پس اے عزیز! حضرت قتادہ کو اس بات میں تاخیر کرنی چاہئے تھی جیسا کہ عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ہے: "اَلظَّالِمُ ھُوَ الْکَافِرُ مِنْ کُفْرَانِ النِّعْمَۃِ لَا مِنْ الْکُفْرِ الَّذِيْ ھُوَ ضِدُّ الْإِیْمَانِ وَالْمُقْتَصِدُ الْمُرَائِيْ لَا الَّذِيْ یُنَافِقُ فِي الدِّیْنِ وَالسَّابِقُ ھُوَ الْعَابِدُ" (لم أعثر علی ہذا القول) یعنی ظالم وہ ہے جو کہ کفرانِ نعمت کرتا ہے نہ کہ وہ کفر جو ایمان کی ضد ہے۔

تشریح:

سبحان اللہ! حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا خوب بات کی۔ اللہ پاک ہمیں معاف کرے۔ غیر مقلدوں کے گروہ کے شر سے اللہ بچائے۔ یہ بعض دفعہ ظاہر پہ فیصلہ کرتے ہوئے بالکل ہی فارم سے نکل جاتے ہیں، کراس کر لیتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے احناف کے نزدیک کبائر کا مرتکب کافر نہیں ہے۔ اور جو احادیثِ شریفہ وہ حضرات سامنے لاتے ہیں، جیسے: ’’منْ تَرَکَ اَلصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ کَفَرَ‘‘۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 27364)

ترجمہ: ’’جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی، وہ کافر ہو گیا‘‘۔

حدیث تو بالکل واضح ہے، اس کا direct ترجمہ کریں گے، تو یہی ہو گا کہ اس نے کفر کیا، لیکن کفر کا ایک لغوی معنیٰ ہے اور ایک اس کا شرعی معنیٰ ہے۔ لغوی معنیٰ انکار کرنا ہے۔ اور یاد رکھو! قانون یہ ہے کہ شک کا فائدہ ملزم کو جاتا ہے۔ یہاں پر دو معنے ہوئے، ان میں سے وہ معنیٰ اس پہ لاگو کریں گے، جس میں اس کو فائدہ ہو۔ کیونکہ کسی پر بے جا کفر کا فتویٰ لگانے میں خطرہ ہے کہ کفر خود میرے اوپر ہی واپس نہ لوٹے۔ اس کا لغوی معنی انکار کرنا ہے، لیکن اس سے مراد انکارِ اعتقادی نہیں ہے، انکارِ عملی ہے۔ اور انکار عملی ہو سکتا ہے، کیونکہ انسان کے ساتھ نفس ہے۔ نفس کی وجہ سے یہ چیزیں ہو سکتی ہیں کہ اعتقاداً مانے گا، لیکن عملاً اس پہ عمل نہیں کرے گا۔ جیسے پہلے میں نے قرآن پاک کی یہ آیت پڑھی تھی: ﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ (البقرۃ: 276)

تو جو مسلمان سود خور مسلمان ہو، آخر وہ اس کی وجہ سے کافر تو نہیں ہو جاتا۔ لیکن بہر حال! انکار تو کر ہی رہا ہے اور عملی انکار کر رہا ہے یعنی عمل نہیں کر رہا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی یہی فرمایا ہے:

’’اَلظَّالِمُ ھُوَ الْکَافِرُ مِنْ کُفْرَانِ النِّعْمَۃِ لَا مِنْ الْکُفْرِ الَّذِيْ ھُوَ ضِدُّ الْإِیْمَانِ وَالْمُقْتَصِدُ الْمُرَائِيْ لَا الَّذِيْ یُنَافِقُ فِي الدِّیْنِ وَالسَّابِقُ ھُوَ الْعَابِدُ‘‘ (لم أعثر علی ہذا القول) یعنی ظالم وہ ہے جو کہ کفرانِ نعمت کرتا ہے نہ کہ وہ کفر جو ایمان کی ضد ہے، اور مقتصد وہ ہے جو کہ دکھاوا کرتا ہے نہ کہ وہ جو کہ دین میں نفاق کرتا ہے، اور سابق سے مراد عابد ہے۔ پس ان سب باتوں کا مرام و مقصود عشق بازی کرنا ہے اور عشق بازی کیا چیز ہے؟ ”ایک جاننا ایک کہنا“۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ