سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 302

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

ٖ 20170227 _SJ Majlis_302


اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔


آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں تو پہلے شروع کرتے ہیں email سے اس میں اگر کچھ سوالات آ چکے ہوں تو پھر اس کے بعد whatsapp، پھر عام messages، پھر جو حاضرین نے پوچھا ہو گا اس کے بارے میں ان شاء اللہ بات کی جائے

سوال نمبر 1:

السلام علیکم،

Sir I sometime feel like I am born to serve big purpose so my concern is that should I see that big purpose all is the just a call of my nafs that want to be recognized in famous besides this is it possible to be nothing what is at like to go to that nothingness state

جواب:

انسان ایک بہت بڑے مقصد کے لئے پیدا ہوا ہے اور وہ مقصد یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کو راضی کر لے اس سے بڑا مقصد دنیا میں کوئی نہیں ہے، لہذا ہر وقت اسی فکر میں لگے رہنا چاہیےکہ میں اللہ تعالیٰ کو راضی کروں اور اس کے لئے جو چیزیں بھی ضروری ہیں وہ میں کر لوں۔ دو قسم کی چیزیں ہیں ظاہری اور باطنی، پھر ظاہری اور باطنی دونوں میں دو دو قسم کی چیزیں ہیں، اوامر اور نواہی پس یہ چار ہو گئیں، ان چار چیزوں کے بارے میں انسان کو ہر وقت عملی طور پر فکر ہونی چاہیے کہ میں ان چار چیزوں کو اچھی طرح کر لوں جس طریقے سے کرنے کا حق ہے یہ بہت بڑا مقصد ہے، یعنی ظاہری طور پر جو کرنے کی باتیں ہیں جن کا حکم ہے جیسے عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق ہیں ان کو ہم اچھی طرح کرنے والے بن جائیں۔ اس کے اندر اگر نفس رکاوٹ بنے تو ہم اس کے اوپر پیر رکھ کر اس کام کو کرنے والے بن جائیں اور جو ظاہری طور پر منع کی گئی چیزیں ہیں جس سے روکا گیا ہے جیسے جھوٹ، دھوکہ اور اس قسم کی اور چیزیں ہیں تو ہم اپنے آپ کو ان سے بچائیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی طرف لے جاتی ہیں۔ باطنی طور پر بھی اوامر اور نواہی ہیں جیسے اخلاص و تواضع پیدا کرنا، صبر اور شکر سے کام لینا، عاجزی اختیار کرنی ہے تو یہ ساری چیزیں جو کرنے کی ہیں ان کو کرنا اور جو نہ کرنے کی ہیں ان سے بچنا جیسے حسد سے بچنا، کینہ سے بچنا، ظلم سے بچنا ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو بچانا یہی اصل میں تقویٰ ہے اور تقویٰ اللہ تعالیٰ کی طرف دوستی کو بڑھاتا ہے اللہ پاک فرماتے ہیں (إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ) (الحجرات:13) "بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز و مکرم ہے وہ شخص جو کہ زیادہ متقی ہو" پس ہمیں اس اہم کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا چاہیے باقی جو تشکیل ہے کسی کی اگر خاص کام کے لئے ہو تو وہ ان ہی چاروں میں آ جاتی ہے یعنی جس کو جو کام سونپا جاتا ہے تو اس سے اسی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

جس وقت کوئی شخص کسی سے بیعت کر لیتا ہے تو اس وجہ سےتمام چیزوں کو چھوڑ دیتے ہیں وہ جو کام کرنے کو بتاتے ہیں تو اس کو کرتے ہیں اور جس کام سے روکتے ہیں تو اس سے بچتے ہیں۔ تربیت والا طریقہ شیخ کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور حقیقت تک پہچنے کے لیے جو عوامل ہیں ان کو استعمال کرنا چاہیے تاکہ انسان حقیقت تک پہنچ جائے اور یہ چار کام جو بتا دیئے ہیں ان میں کوشش کرنا یہی اصل میں بہت بڑا مقصد ہے، اس کے لئے ہم پیدا کیے گئے ہیں اللہ پاک نے فرمایا (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ) (الذاريات:56) "نہیں پیدا کیا میں نے کسی جن اور انس کو مگر اپنی عبادت کے لئے" حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہاں پر لِيَعْبُدُونِ اس کی جگہ اَیْ لِیَعْرِفُوْنِ پڑھ لیں یعنی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی معرفت کے لئے پیدا کیا تو ہم کہہ سکتے ہیں ظاہراً عبادت کے لئے باطناً معرفت کے لیے۔ اس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے اور بندگی اصل میں اس کی بنیاد ہے مطلب دونوں چیزوں کی بنیاد بندگی ہے معرفت سے بندگی حاصل ہوتی ہے اور بندگی ہر وقت ضروری ہے۔ تو اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے۔

سوال نمبر 2:

Is it necessary to inform شیخ about the مجاہدہ one may be doing by oneself?

جواب:

Yes of course it is very much necessary to inform شیخ because if someone is doing مجاہدہ without informing شیخ might be it will not be useful for that because there are limitations so شیخ knows these limitations if one performs مجاہدہ by himself so then he will be responsible so if one informs شیخ and if he tells him that you should continue or you should stop so I think that what there should be followed.

سوال نمبر 3:

اپنی "میں" کو مٹانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

یہ فنائیت ہے اور فنائیت نفس کے مجاہدہ کے ساتھ دل ذکر کے ساتھ مانوس ہو جائے اور انسان کی عقل سِر تک پہنچ جائے تو اس کے بعد انسان کے اوپر حقیقت کھل جاتی ہے، انسان اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا یہی فنائیت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے۔



سوال نمبر 4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ، حضرت جی میں نے عمرے کے لئے apply کیا ہے آج سے چاریا پانچ دن پہلے۔ دو مرتبہ visa reject ہو چکا ہے جمعہ والے دن ایک family جا رہی ہے اس کے ساتھ میں adjust ہو رہا ہوں office کے جو supporting doucuments ہوتے ہیں وہ بھی ساتھ لگائے ہیں لیکن پھر بھی rejected ہے، اب کل دوبارہ travel agent submitt کرے گا۔ حضرت دعا کی درخواست ہے کہ اللہ کریم وہاں کی حاضری نصیب فرما دے، آپ کی برکت کے سبب اللہ وہ visa والا process بھی کر دے اور وہاں کی مقبول حاضری بھی عطا کر دے۔

جواب:

یہ جو میسج کرنے والے ہیں الحمد للہ آج رات ان شاء اللہ عمرے کے لئے جا رہے ہیں، اللہ ان کا مقبول عمرہ نصیب فرما دے۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم حضرت جی میں بہت اچھے نمبروں سے final year سے پاس ہو گئی ہوں الحمد اللہ۔بس اللہ پاک آخرت کی بھی کامیابی دیں آمین ثم آمین۔

جواب:

بہت اچھی سوچ ہے ماشاء اللہ، کیونکہ دنیاوی کامیابی کے ساتھ آخرت کی کامیابی یاد آ جائے تو یہ الحمد اللہ سعادت کی بات ہے۔ ایک دفعہ میں america جا رہا تھا میں نے ہرنیا کا operation کروایا تھا، اس میں زیادہ وزن کچھ عرصے کے لیے نہیں اٹھانا چاہیے میں نے صرف اپنے کپڑے اور ضروری کاغذات ساتھ رکھے تھے سب چیزوں کا ڈھائی کلو وزن تھا جس وقت boarding ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا آپ کا سامان کہاں ہے؟ میں نے کہا یہ سامان ہے۔ وہ ہنس پڑے انہوں نے کہا جائیں، تب میرے دل میں آیا کاش آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ایسا ہی معاملہ کر دے کہ بس مسکرا کے کہا جائے "جائیں" تو کتنی اچھی بات ہو گی یعنی ہلکے وزن کے ساتھ انسان رہے تو بہت بڑی بات ہے۔ یہ باسعادت بچی ہے، کیونکہ اس کو یہ خیال آیا اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین و دنیا کی کامیابی عطا فرما دے۔


سوال نمبر 6:

السلام علیکم حضرت جی۔

I am فلاں and this is my chart. Four to seven عبادہ seven to three school, three to four صلوۃ and lunch, four to seven studies, seven to 8:30 Quran and salah 08:30 to 10:30 dinner and family time 10:30 to 02:30 am sleeping hours and 02:30 to 03:30 am Quran translation and school studies between all this few minutes of the day on social media that is facebook and instagram.

جواب:

یہ ایک بچی ہے، ابھی عمر بھی اتنی نہیں ہے اس وجہ سے احتیاط کی ضرورت ہے تو میں نے اس سے کہا ہے کہ 04:00 سے 07:00 تک کا time یہ ذرا زیادہ early ہے تو اس کے لئے یہ ہے کہ صبح صادق کا آخری وقت آج کل تقریباً پانچ بج کر پندرہ سولہ منٹ پر داخل ہو جاتا ہے، تقریباً پونے پانچ بجے اگر اٹھے یا ساڑھے چار بجے تو وضو کر کے تہجد پڑھ لے اور اس کے بعد جب وقت داخل ہو جائے تو فجر پڑھ لے اور اسی وقت سے ہی طلوع آفتاب تک کا وقت ہے اسی میں سارا پورا کر لے تو ان شاء اللہ العزیز کافی ہے معمولات وغیرہ سارے ہو جائیں گے۔ باقی 07:00 سے 03:00 تو سکول ہے اور 03:00 سے 04:00 کے درمیان کھانا بھی کھانا ہوتا ہے نماز بھی پڑھنی ہوتی ہے اور 04:00 کے بعد studies کا وقت ہے، سات سے 08:30 تک نماز اور قرآن پاک کا وقت ہے قرآن پاک تو صبح ہو چکا ہے فی الحال وہ کافی ہے اور 08:30 سے 10:30 یہ dinner اور family time ٹھیک ہے اور 10:30 سے 02:30 بجے یہ sleeping hours ہیں یہ کم ہے لہذا 10:30 سے 04:30 تک یہ sleeping hours کر لیں تا کہ نیند پوری ہو جائے کیونکہ نیند کا پورا کرنا لازمی ہے ایسے حالات میں،کیونکہ آپ کا ابھی growing period ہے۔



سوال نمبر 7:

السلام علیکم حضرت آج کل ساری عبادات جیسے عادتاً ہو رہی ہیں کوشش کے باوجود concentration نہیں ہو رہی، ذہنی انتشار بہت ہے اور عجیب بے تکے خیالات پتا نہیں کہاں سے آ جاتے ہیں کام میں آج کل بھاگ دوڑ بہت ہے جس کی وجہ سے عصر کے بعد ساری توانائیاں جیسے ختم ہو جاتیں ہوں۔

جواب:

عادتاً بھی عبادت ہونا بڑی بات ہے اللہ تعالیٰ قبول کرلیں کیونکہ یہی بنیاد ہے کہ پہلے عادت پھر عبادت ہو گئی، لہذا اس عادت کو قابو رکھنا چاہیے۔ concentration میں بعض دفعہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کو کوئی خیال نہ آئے یہ انسان کے بس میں نہیں ہے اس کی طرف توجہ کریں گے تو بے بس ہو جائیں گے بس جو خیالات خود سے آتے ہوں ان کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے ان کو ignore کرنا چاہیے یہی concentration ہے، اگر آپ اس کو ignore نہیں کرتے تو concentration disturb ہو جائے گی۔ باقی"کام میں بھاگ دوڑ بہت ہے" یہ چیز نماز پر بھی اثر ڈالے گی اس سے مسائل ہوں گے۔ بہرحال اپنی صحت اور معمولات کا خیال رکھیں اور کبھی کبھی خانقاہ بھی آتے رہیں تا کہ تازگی ہوتی رہے۔ انسان کو جو روحانی attachments سے فائدہ ملتا ہے وہ ان چیزوں میں ظاہر ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم حضرت صاحب آپ مجھے وہ تسبیح بتا دیں جو آپ سب کو بتاتے ہیں جس سے دنیا چھوٹ جاتی ہے اور انسان کی اصلاح ہو جاتی ہے۔

جواب:

اس کے لیے میں نے بتایا ہےکہ جو آپ کے معمولات ہیں ان کو باقاعدگی کے ساتھ شروع کر لیں اب تو موقع بھی ہے۔ ویسے بھی ہمارے معمولات اتنے زیادہ نہیں ہوتے تو اس کو اگر آپ مناسب وقت دے دیں تو ان شاء اللہ العزیز معمولات باقاعدگی کے ساتھ ادا ہوتے رہیں گے۔


سوال نمبر 9:

حضرت آپ نے پچھلے جمعہ کے بیان میں فرمایا تھا کہ دل کی اصلاح ذکر کے دوران کیفیت سے ہوتی ہے تو کیا اگر ثواب والے ذکر میں کیفیت حاصل ہو جائے تو اس سے بھی اصلاح ہو گی؟ اور اگر اصلاحی ذکر میں کیفیت حاصل نہ ہو تو اس سے اصلاح نہیں ہو گی؟ اگر اصلاحی ذکر میں کفیت نہ ہونے سے اصلاح نہیں ہوتی تو حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے جو حضرت مولانا یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا تھا کہ ذکر چاہے غفلت سے بھی ہو اس کا بھی فائدہ ہوتا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب:

فائدہ کس کو کہتے ہیں؟ فائدہ اجر کو بھی کہتے ہیں۔ لہذا اگر کوئی اجر والا ذکر کر لے بے شک کتنا ہی بے دھیانی کے ساتھ کر ے چونکہ الفاظ کی بھی value ہے، لہذا اس کا اجر مل جائے گا تو جب اجر مل گیا تو وہ فائدہ ہے۔

دوسری بات یہ کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ انسان پہلے غافل ہے یعنی ذکر نہ کرنے والا غافل ہے، اب جو غفلت سے نکلنا چاہے گا تو کیا کرے گا؟ ذکر پہ آئے گا۔ اب غفلت سے جب ذکر کرے گا تو اس طرح ذکر تو نہیں ہوگا جس طرح کرنا چاہیے کیونکہ غفلت میں ہے فی الحال، لیکن اس کے لئے راستہ یہی ہے۔ جب وہ ذکر کرے گا تو وہ ذکر کرنا غفلت سے نکلنے کا اس کے لئے راستہ بنے گا اس سے اگلی دفعہ جب ذکر کرے گا تو اس سے کم غفلت والا ذکر ہو گا پھر اگلی دفعہ جب کرے گا کم غفلت والا ہو گا اس سے اگلی دفعہ جب کرے گا تو اور کم غفلت والا ہو گا۔ فائدہ ہے یا نہیں؟

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اکثر اس بارے میں ارشاد فرماتے تھے کہ دریا نے کہا کہ آؤ مجھ میں نہا لو صاف ہو جاؤ گے، تو مخاطب نے کہا میں کیسے آ سکتا ہوں؟ میں تو ابھی پاک نہیں ہوں تو دریا نے کہا جب تک میرے اندر آؤ گے نہیں تو پاک کیسے ہو گے؟

بات تو یہی ہے کہ ذکر کو اللہ تعالیٰ نے اجر کا اور اثر کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اجر والے ذکر کا بھی فائدہ ہے اثر والے ذکر کا بھی فائدہ ہے۔ اورکیفیت کی جو بات ہے تو کیفیت کسی بھی چیز میں ہو سکتی ہے۔نماز میں بھی ہو سکتی۔ اب اگر نماز میں کیفیت ہو جائے تو اصلاح ہو گی یا نہیں ہو گی؟ لیکن یوں کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ ہے۔ جیسے مثال کے طور پر آپ اتفاقاً کوئی چیز کھا لیں اور اس سے آپ کو صحت حاصل ہو جائے حالانکہ وہ آپ نے صحت کے لئے نہیں کھائی تھی، آپ نے یوں ہی کھائی تھی لیکن اس میں بیماری کا علاج بھی ہو تو آپ ٹھیک ہو جائیں گے اس کا فائدہ تو ہو گیا۔ لیکن اگر باقاعدہ علاج ہے تو آپ کو doctor کے پاس جانا پڑے گا اور ڈاکٹر جو دوائی دے گا تو دوائی کو کھانا پڑے گا، دوائی کی جو افادیت ہے وہ اپنے طور پر ہے۔لوگ مشائخ کے پاس اس لئے جاتے ہیں تاکہ اپنا علاج کروائیں، وہ جو ذکر بتائے گا اسی مقصد کے لئے ہو گا۔ ویسے آپ قرآن پاک کی تلاوت کر لیں اس میں بھی آپ کو فائدہ ہو گا یہ بالکل غذا کی طرح ہے جیسے غذا سے فائدہ ہوتا ہے اس طرح اس سے بھی فائدہ ہو گا۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں غذائی ذکر اور دوائی ذکر۔ جو غذائی ذکر ہے اس میں غذا کے اثرات ہیں غذا کی کیفیات ہیں روحانی غذا ہے اور جو دوائی ذکر ہے اس میں روحانی دوائی ہے۔ اس کو اگر سمجھیں گے تو سارے جواب سمجھ میں آ جائیں گے ان شاء اللہ۔

اگر کسی کا سوال ہے تو کرے؟ نہیں تو آپ کو کلام سناتا ہوں شاید اس میں آپ کو کچھ تھوڑا سا اندازہ ہو جائے آج ہی ملا ہے۔ ایک صاحب نے پڑھا ہے۔

داستانِ بے بسی

مرا دل عقل سے بیزار نہیں۔

ہاں مگر اس کا تابعدار نہیں۔

نفس کو عقل سے دبا لینا۔

کیسے ہو دل اگر بیدار نہیں۔

ہاں مگر اس کا تابعدار نہیں۔

جذبِ خالص تو ایک نعمت ہے۔

کہ اس کا نفس پہ مدار نہیں۔

ہاں مگر اس کا تابعدار نہیں۔

جان لے گا تو فرقِ عشق و ہوس۔

ہوس تجھ پر اگر سوار نہیں۔

ہوس نفس سے ہے اور عشق دل سے ہے اس میں فرق بہت ہے، لیکن اگر ہوس سوار ہو تو اس وقت نہ دماغ کام کرتا ہے نہ دل کام کرتا ہے، اس وقت انسان اپنے آپ میں نہیں ہوتا وہ تمام چیزوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ہوس کو پورے کرنے لگ جاتا ہے۔ تو ایسی صورت میں جب تک نفس کی اصلاح نہ ہو چکی ہو اس کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ میں غلطی پہ ہوں وہ اس کو صحیح سمجھے گا۔ سب سے پہلے یہی کرنا ہوتا ہے کہ اپنا تزکیہ کر لے اس کے بعد اس کو پتا چلے گا کہ عشق اور ہوس میں کیا فرق ہے؟ پھر وہ صحیح عشق کو حاصل کرے گا اور اس کے راستے پہ چل سکے گا۔

جذبِ خالص خدا کی نعمت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہوتا ہے اس کا نفس پہ اختیار نہیں ہے، ہاں نفس کے ذریعے سے تو نہیں ہوتا دل کے ذریعے سے ہوتا ہے لیکن بعد میں اس کو maintain کرنے کے لئے نفس کا تزکیہ کرنا ہوتا ہے۔ جذب پہلے اسی وجہ سے کرایا جاتا ہے۔

آپ ﷺ کی ایک دعا ہے (یا حَیُّ یا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغیثُ، وَ اَصْلِحْ لی شَأْنی کُلَّهُ و لا تَکِلْنی اِلی نَفْسی طَرْفَةَ عَیْنٍ) یا حَیُّ یا قَیُّومُ اللہ پاک کے دو صفاتی نام ہیں اور اللہ پاک سے دعا کی جاتی ہے آپ ﷺ نے دعا کی کہ یا حَیُّ یا قَیُّومُ تیری رحمت کے طفیل میں تجھ سے مانگتا ہوں (اَصْلِحْ لیِْ شَأْنی کُلَّهُ) میری ہر حالت کو درست کر لے (وٙ لاٙ تَکِلْنی اِلی نَفْسیِْ طَرْفَةَ عَیْنٍ) اور مجھے میرے نفس کے ایک لمحے کے لئے بھی حوالے نہ فرما، کیونکہ ایک لمحے کے لئے بھی کوئی نفس کے حوالے ہو گیا تو سارا کچھ ختم ہو سکتا ہے اس وجہ سے فرمایا کہ اس پر اعتبار نہیں ہے۔

نفس کو قابو مجاہدے سے کر۔

کیونکہ اس پر تو اعتبار نہیں۔

ہاں مگر اس کا تابعدار نہیں۔

دل کو اذکار سے مانوس کر لے۔

لے کے پھرنا دلِ بیمار نہیں۔

"ذکر سے مانوس کرنا بہت سارے لوگ ذکر کرنا چاہتے ہیں لیکن ذکر نہیں کر پاتے ویسے ہی فارغ بیٹھے ہوں گے لیکن ذکر نہیں کر رہے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ذکر سے مانوس نہیں ہیں۔ ہماری خانقاہ میں جو لوگ آتے ہیں تو ہم ان کو گھنٹوں ذکر پہ لگاتے ہیں ان کو بتاتے ہیں کہ بھائی صرف یہ training ہے کہ آپ کے دل میں ذکر ایسا رچ بس جائے کہ جب آپ فارغ ہوں تو آپ خود بخود ذکر کرنا شروع کر دیں۔

ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے کبھی کبھی"الا اللہ"کا نعرہ نکلتا تھا تو ایک عرب بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے پوچھا: ما هذا یا الشیخ یہ کیا چیز ہے؟ تو حضرت نے فرمایا: (لٙيْسٙ فِيْ الْاِخْتِياٙرْ) یہ میرے اختیار میں نہیں ہے پھر حضرت نے ویسے ازراہ تلطف فرمایا جو ذکر نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کو زبردستی ذکر کراتے ہیں۔ یہ تو حضرت نے ویسے فرمایا دیا لیکن یہ کیفیت ملی کیسے تھی؟ اتنا ذکر کیا تھا اتنا ذکر کیا کہ وہ بغیر ذکر کے ٹھہر نہیں سکتے تھے۔ لہذا اگر کبھی ادھر ادھر خیال ہو تو پھر دوبارہ ذکر سے اس طرف رخ کروا دیں ایسے ذریعے سے یعنی اتنا دل کو مانوس کر لو کہ اس کے بغیر رہ ہی نہ سکو، زندگی تو ہے ہی اسی لئے اگر اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما دے تو کتنی بڑی بات ہے۔

ہاں مگر اس کا تابعدار نہیں۔

دل کی اصلاح تو اس کی یاد میں ہے

ورنہ اس پر تو اختیار نہیں

دل کسی کے قابو میں نہیں آتا۔ یہ وجہ غیر اختیاری ہے مطلب انسان اس کو قابو نہیں کر سکتا یہ تو بس ذکر کے ساتھ چونکہ خود مانوس ہے یعنی قدرتی طور پر جو اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ذکر کی طلب رکھی ہوئی ہے، جب آپ ذکر کرنا شروع کریں تو آہستہ آہستہ آپ کے اختیار میں ذکر ہو گا دل ذکر کی طرف کھینچ رہا ہے لہذا یہ آپ کے اختیار میں آ جائے گا پھر آپ کا ذکر دل کے ساتھ ساتھ چلے گا۔ دل کو صحیح راستے پہ لانے کے لئے ذکر شروع کر دو۔

یہ تو الہامِ ربانی ہے شبیر

جان لو یہ فقط اشعار نہیں

ہاں مگر اس کا تابعدار نہیں

مرا دل عقل سے بیزار نہیں

ہاں مگر اس کا تابعدار نہیں

کوئی سوال اس پر ہو تو کر لیں۔ ہمارے ہاں اشعار پہ سر نہیں دھنا جاتا، شعر سے دل اور عقل کو متاثر کرنا مقصود ہوتا ہے اور وہ تب ہی ہوتا ہے جب اس کے اندر جو کچھ ہوتا ہے اس کی طرف دیکھا جائے، آواز تو محض اس کی ایک سواری ہے جس پر انسان اس کو بیٹھاتا ہے اور اپنی منزل تک اس کو پہنچاتا ہے۔ critical organ ایسا ہوتا ہے دوائی کو اس چیز کے اوپر رکھ لیتے ہیں جو اس کا critical organ ہو جیسے thyroid کے لئے Iodine ہے تو دوائی کو Iodine کے اوپر بٹھا دیتے ہیں، اس طرح یہ دل میں بات پہنچانے کے لئے ذکر ہوتا ہے اور اچھی آواز ہوتی ہے لہذا اچھی آواز پہ اس کو بٹھا کر دل میں پہنچانا ہوتا ہے اس کے اصل کو دیکھنا چاہیے۔


"داستان بے بسی"

سمجھ میں آ جائے اے کاش شاعری میری۔

ورنہ ہے سامنے اپنی تو بے بسی میری۔

حضرت میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کشمیر کے تھے اور بڑے شاعر بھی تھے انہوں نے گلہ کیا تھا کہ اہل سخن ختم ہو گئے ہیں۔ یعنی جو اشعار سے اثر لیتے تھے وہ نہیں رہے، بس شوق اور مزے کے لئے سن لیا یا سنا لیا۔ جیسے شعراء مشاعرے میں بیٹھے ہوں گے وہشاعر ہوتے ہیں لیکن وہ بھی کافیہ اور ردیف کے اندر پڑے ہوتے ہیں۔ ایساکلام جس میں کوئی بڑا کنایہ ہو کوئی استعارہ ہو اس پہ واہ واہ کرتے ہیں حالانکہ اس کا کوئی مطلب نہیں ہو گا مثلاً میر تقی میر کا جو شعر ہے۔

جو اس شور سے میر روتا رہے گا۔

تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا۔

اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا کر لیا آپ نے؟ کون سی چیز آپ نے لوگوں کو بتائی؟

سرہانے میر کے آہستہ بولو،

ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے ۔

یہ کیا چیز ہے بھائی؟ لوگ اس پہ بھی واہ واہ کرتے ہیں بھائی ان چیزوں کا کیا فائدہ ہے؟ لیکن اگر اس کو صحیح معنوں میں اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے استعمال کیا جائے تو بہت بڑی بات ہے۔ اس غزل میں موضوع یہی ہے کہ کاش یہ سمجھ میں آ جائے۔

داستان بے بسی

سمجھ میں آ جائے اے کاش شاعری میری

ورنہ ہے سامنے اپنی تو بے بسی میری

کس طرح روح کی آواز میں پہنچا دوں انہیں

جس نے کانوں سے گو غزل تو ہے سنی میری

دل کی آواز دل کے کان ہی سن پاتے ہیں

نہ رکاوٹ بنے کہیں اس میں کمی میری

نفس و شیطاں کہاں ان کو یہ سننے دیں گے

جو نہ چاہے تو سنے بات وہ کیسی میری۔

بس دعا ہے کہ اب شبیرؔ کی مدد ہو خدا۔

گو کامیاب نہ ہو کوشش ہے اک سہی میری۔

سمجھ میں آ جائے اے کاش شاعری میری،

ورنہ ہے سامنے اپنی تو بے بسی میری۔


سوال نمبر 10:

جب تک قلب روح نہیں بن جاتا اُس وقت تک وہ روح کی آواز نہیں سن سکتا؟ تو روح کی آواز دل کو کیسے پہنچائی جائے؟


جواب :

مطلب یہ ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے روح کی آواز، جیسے قرآن پاک میں آیت کریمہ ہے (إِنَّ فِي ذ'لِكَ لَذِكْر'ى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ) (ق:37 ) "بے شک قرآن کے اندر نصیحت ہے ہر اس شخص کے لئے جس کا دل بنا ہو یا وہ کان لگا کر اہتمام کے ساتھ سننے والا ہو" اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی کا اپنا دل بنا ہوا ہے تو وہ خود قرآن سے لے لے گا قرآن سے لیکن اس کا اپنا دل نہیں بنا تو پھر اللہ والوں کے ساتھ جن کے دل بنے ہوں ان کے ساتھ ساتھ رہے یعنی ان سے قرآن کے احکام سنے ان کے قلب کی برکت سے وہ چیز آپ کے قلب میں آ جائے گی۔

یہاں پر اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میں کیسے روح کی آواز پہنچا دوں، میرا دل ہی ایسا بنا دے کہ وہاں تک پہنچ جائے۔ لوگ تو سننے کے لئے تیار نہیں ہیں لیکن کوئی ذریعہ ایسا ہو جائے تاکہ وہاں تک بات پہنچ جائے۔

یہ دنیا جال ہے اس میں بڑا جنجال ہوتا ہے۔

بھلا جنجال میں یوں بھی کوئی خوشحال ہوتا ہے۔

دنیا جنجال ہے۔ بالکل ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ کیونکہ اس میں آپ کو ہر وقت لڑنا پڑ رہا ہے، آپ کے لئے ناں خوشگوار چیزیں ہیں ان کے لئے لڑنا پڑ رہا ہے۔کسی کو اپنی آخرت میں کامیابی مقصود ہی نا ہو ان کے لئے تو دنیا جنت ہے کیونکہ ان کو وہاں کچھ حاصل کرنا نہیںسب کچھ یہاں حاصل کرنا ہے تو اسی میں مست ہیں۔ لیکن کوئی آخرت میں کامیابی چاہتا ہے تو مجھے بتاؤ اس کو دنیا راس آئے گی؟ وہ تو ہر وقت مشکل میں ہے۔

جال اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ یہ لوگوں کو دام میں پھانستی ہے اور انسان کو آخرت سے دور کرتی ہے جو صحیح راستے پہ چلنے والا ہو گا وہ اس میں خوش نہیں ہو گا اس لئے فرمایا (الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ) "دنیا مؤمن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے"۔

جو اس جنجال میں رہ کر وہاں کا سوچ لیتا ہے

تو اس کا موت کی دہلیز پہ استقبال ہوتا ہے

قرآن پاک میں ہے (إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ) (فصلت:30) " تو جو لوگ کہیں گے ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پہ استقامت اختیار کی تو موت کے وقت فرشتے ان کے پاس آئیں گے ان کے لیے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ان کے لیے جنت کی خوشخبری ہے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا"۔


اس کا موت کے دہلیز پہ استقبال ہوتا ہے۔

نہ مستقبل کو پکڑیں ہم نہ ہم ماضی کو صرف روئیں.

حقیقت میں ہمارے ہاتھ تو بس حال ہوتا ہے

کمال کی بات یہ ہے کہ لوگ اسی میں مصروف رہتے ہیں کہ اپنے مستقل کے بارے میں سوچتے ہیں یا ماضی کا رونا روتے ہیں اور جو حال ہاتھ میں ہوتا ہے اس کی قدر نہیں کرتے، حالانکہ حال جو آپ کے ہاتھ میں ہے بس فوراً ماضی بن جائے گا اس سے فائدہ اٹھا لو ورنہ اگر آپ نے فائدہ نہیں اٹھایا تو بس یہ ماضی بن جائے گا پھر آپ کا اس پر رونے کا کیا فائدہ؟ تو جو کچھ آپ کر سکتے ہیں وہ کریں اور جو آپ کے ہاتھ میں نہیں جیسے مستقبل ابھی آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے تو اس کے لئے آپ کیا کر سکتے ہیں جو چیز آپ کے پاس ہے کم از کم وہ ٹھیک کریں آپ کا مستقبل بھی صحیح ہو جائے گا۔

حقیقت میں ہمارے ہاتھ تو بس حال ہوتا ہے

اگر میں قال کو سیکھوں نہ اس میں حال حاصل ہو

تو خالی ہاتھ میرے ہاتھ قیل و قال ہوتا ہے

بس اک وہ دل سلیم اپنا ہمارے کام آئے گا

نہ آئیں کام بیٹے اور نہ وہ جو مال ہوتا ہے

قرآن پاک کی آیت ہے (يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ) (الشعراء:88-89)

عقیدہ گر صحیح ہو اور اعمال ٹھیک ہوں سارے

حاصل احسان سے تب اعمال میں کمال ہوتا ہے

احسان کے حاصل ہونے سے اعمال میں کمال ہوتا ہے جس طرح آپ ﷺ نے فرمایا: (أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ) اس کو کیفیت احسان کہتے ہیںاس سے اعمال کے اندر طاقت آ جاتی ہے۔ اگر آپ نماز اس کیفیت میں پڑھیں گے تو نماز طاقتور ہو جائے گی اور روزہ اس کیفیت سے رکھیں گے تو روزہ طاقتور ہو جائے گا حج اس کیفیت سے کریں گے تو حج طاقتور ہو جائے گا الغرض جس چیز میں آپ کو محسوس ہو کہ جیسے میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں تو وہ عمل بہت زیادہ اچھا بن جائے گا۔

تو اس احسان کے واسطے پکڑنا شیخ ہوتا ہے۔

شبیر جس سے اسی نسبت کا انتقال ہوتا ہے۔

یہ دنیا جال ہے اس میں بڑا جنجال ہوتا ہے۔

بھلا جنجال میں یوں بھی کوئی خوشحال ہوتا ہے۔


وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ۔