اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ، جو ہمارے جدِ امجد ہیں، ان کی تعلیمات بیان کی جا رہی ہیں۔ بزرگوں کی تعلیمات میں بڑا فائدہ ہوتا ہے، یہ ان کی زندگی بھر کا نچوڑ ہوتا ہے، اور ہمیں مفت میں وہ ساری چیزیں مل جاتی ہیں، جن کے اوپر انہوں نے بڑی محنتیں کی ہوتی ہیں۔ ناقدری کا دور ہے، ایک تو علم بھی نہیں ہے، کیونکہ علم ہمیں دوسری چیزوں کا زیادہ ہو گیا ہے، جن چیزوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اللّٰہ تعالیٰ کے تعلق کی نسبت سے جو ضروری چیزیں ہیں، جن پہ ہمارے بزرگوں نے زندگیاں لگائی ہیں، جیسے: مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ، مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ، امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ، حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ، کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ، ان سب حضرات نے اس پر بڑی عمریں لگائی ہیں۔ ان کی کتابوں میں وہ چیزیں آ گئیں کہ جن کو اگر انسان جانتا ہو تو اس کا کام بڑا آسان ہو جاتا ہے، منزلِ مقصود بہت قریب آ جاتی ہے۔ ہمارے ہاں الحمد للہ اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہفتہ کے دن مثنوی شریف مولانا روم کا درس ہوتا ہے اور منگل کو کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات کا، بدھ کو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات کا اور جمعرات کو حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کا درس ہوتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو ان بزرگوں کی نسبتیں بھی نصیب فرمائے اور ان کی تعلیمات سے بھی بہرور فرمائے۔ اس میں کچھ اشعار آئے ہیں، پہلے وہ سناؤں گا، اس کے بعد ان کا مفہوم بیان ہو گا۔ اور پھر بات آگے چلے گی، ان شاء اللّٰہ۔
متن:
ابیات
؎ مستان جام عشق کہ لاف از بقا زنند
جان میدہند و خیمہ بہ ملک بقا زنند
ہر ساعتی کہ مستان و شوریدہ گان عشق
لبیک عشق در حرم کبریا زنند
جامے زدست ساقی باقی چو در کشند
جامہ دریدہ نعرۂ قالو بلٰی زنند
کروبیان بہ نالہ درایند نیم شب
چو بے دلان زد رد غمش ربنا زنند
قومے کہ ہر دو کون بہ یک جو نمے خرند
ایشان دم از محبت دنیا کجا زنند
آنہا کہ دل بملک فنا در نمے زیند
میخ عمل بدامن ہمت چرا زنند
وانہا کہ روز خانہ ندارند بر زمین
شبها به نور عشق قدم بر سما زنند
عشاق خستہ خاطر و دل را بہ ہر زمان
از ہر چہ ما سوا است بہ جاروب لا زنند
مردان راہ فقر زمے خانہ الست
جامے چو در کشند دم از مصطفٰے زنند
وانہا کہ سوز عشق ندارند و شوق یار
در روز حشر نعرۂ وا حسرتا زنند
با عاشقان ز ملک سلیمان سخن مگوئی
کیشان نفس ز عالم لا منتھا زنند
لطفی است از محمد و کز نور روئے او
قدوسیان سدره ترا مرحبا زنند
’’عشق کے ساغر کے مست لوگ جو بقا کی لافیں کرتے ہیں اپنی جان دے کر ملک بقاء میں خیمہ لگاتے ہیں عشق کے شوریدہ اور مست واشفتہ حال لوگ ہر لمحہ حرم کبریا میں عشق کی لبیک لبیک کی صدا لگاتے ہیں جب ساقی کے ہاتھ سے شراب کا جام لیتے ہیں تو شدتِ شوق سے کپڑے پھاڑ کر ''قَالُوْا بَلٰی'' کا نعرہ لگاتے ہیں، آدھی رات کو عالم ملکوت کے باسی یعنی فرشتے جب نالہ و فریاد کرتے ہیں اُس کے غم کے بارے بے دلوں کی طرح ''رَبَّنَا'' کی آواز لگاتے ہیں وہ قوم جو دونوں جہانوں کو ایک جو کے مول کے نہیں لیتے اسی وجہ سے یہ دُنیا کی محبت کا دم کبھی نہیں بھرتے، جو لوگ دنیا کی محبت کی طرف توجہ اور میلان نہیں رکھتے تو ہمت کے دامن میں عمل کی کیل کیونکر ٹھونکیں گے وہ لوگ جو دن کو روئے زمین پر کوئی رہنے کا گھر تک بھی نہیں رکھتے رات کو عشق کے نور کی وجہ سے آسمانوں پر قدم رکھتے ہیں، خستہ خاطر اور زخمی دِل والے عاشقوں کے ہر وقت جو کچھ ماسوی اللّٰہ ہے اُن سب کو ''لَا'' کی جھاڑو سے مارتے ہیں فقر کے راستے کے راہرو لوگ جب الست کے مے خانہ سے نوش کرتے ہیں تو مصطفٰے کی محبت کا نعرہ لگاتے ہیں اور جو لوگ کہ نہ تو عشق کا سوز رکھتے ہوں اور نہ محبوب کا شوق تو وہ لوگ حشر کے دن وا حسرتا، اور ''اے کاش'' کے نعرے لگائیں گے عاشق لوگوں کو تو (دُنیائی مال و دولت اور) سلیمان علیہ السلام کی سلطنت کی باتیں نہ کہو کیونکہ یہ لوگ ایک لا متناہی عالم کی باتیں کرتے ہیں، یہ بھی جناب محمد رسول اللّٰہ ﷺ کا لطف ہے کہ آپ کے نور کے فیض سے سدرۃ المنتہیٰ کے فرشتے تجھے مرحبا پکارتے ہیں‘‘۔
حاصل کلام یہ سُکر اور حیرت ان لوگوں میں دیکھا جاتا ہے۔ اور سُکر تین وجہ سے ہوتا ہے۔
تشریح:
میں نے ایک دفعہ عرض کیا تھا کہ تین قسم کے لوگ ہیں۔ پہلی قسم وہ ہے جو دنیا دار ہیں، دنیا کی چیزوں میں مگن ہیں، دنیا ان کا سب کچھ ہے، دنیا سے آگے کا وہ سوچ ہی نہیں سکتے، ایسے لوگوں کو دین داروں کی دین کی باتیں سمجھ نہیں آتیں۔ لوگ ایسے لوگوں کو دین دار، سادے، اللّٰہ لوگ، بھولے کہتے ہیں کہ یہ تو کسی چیز کو نہیں جانتے۔ دین داروں میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ جس طرح دنیا دار دین دار کی بات نہیں سمجھ سکتے، اسی طرح پہلی قسم کے دین دار دوسری قسم کے دین داروں کی بات نہیں سمجھ پاتے۔ اس کو میں نے First category, Second category, Third category کے نام سے بیان کیا تھا۔ جو second category کے دین دار ہیں، وہ جنت کی بات کرتے ہیں، وہ وہاں کے مزوں کی بات کرتے ہیں اور یہ ساری باتیں صحیح ہیں، غلط نہیں ہیں، کیونکہ قرآن میں باقاعدہ اس کی دعوت دی گئی ہے۔ احادیث شریفہ میں اس کی دعوت دی گئی ہے، اس کو مانگنے کا حکم ہے، اس لئے یہ غلط تو نہیں ہے، لیکن جو چیز غلط نہ ہو، ٹھیک ہو، کیا اس سے زیادہ اوپر والا ٹھیک نہیں ہو سکتا؟ کیونکہ کچھ ایسی چیز بھی ہے، جو اس سے بھی زیادہ اونچی ہے۔ کیونکہ اللّٰہ جل شانہ سب کے رب ہیں، اللّٰہ جل شانہ نے جن لوگوں کو پیدا کیا، ان کو کم سے کم والی چیز بھی بتا دی کہ یہ تو آپ سب کریں۔ اور کچھ لوگ خاصُ الخاص ہیں، ان کی بات الگ ہوتی ہے۔ جو لوگ دوسری category کے ہیں یعنی پہلی category کے دین دار ہیں، ان کو تیسری category کی باتیں اس لئے سمجھ نہیں آتیں کہ وہ کہتے ہیں قرآن میں یہ ہے، حدیث میں یہ ہے، اس سے آگے میں کیا کروں؟ اس لئے وہ بات ان کو سمجھ نہیں آتی۔ لیکن وہ اشارہ نہیں جانتے۔ حالانکہ یہ بھی قرآن میں ہی ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ﴾ (البقرۃ: 165)
ترجمہ: ’’اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، وہ اللّہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں‘‘۔
جو شدید Working level کی محبت ہے، اس میں تو سارے دین دار آ گئے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں، جو جنت، مزے، حور و قصور، ان کی range سے باہر نکل چکے ہوتے ہیں، ان کو صرف اللّٰہ چاہئے اور کچھ نہیں چاہئے۔ قرآن میں اس کی بھی نظیر موجود ہے، جیسے صحابہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ﴿یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ﴾ (الکہف: 28) یعنی وہ جنت نہیں مانگتے، صرف اللّٰہ مانگتے ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام جو اللّٰہ مانگتے ہیں، اور وہ لوگ جو شدید محبت کی Upper range میں ہیں، ان کی باتیں عام دین داروں کو سمجھ نہیں آتیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے: تم اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں پاگل کہیں۔ کیوں پاگل کہیں گے؟ کوئی وجہ تو ہو گی۔ تم اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں ریا کار کہیں۔ کیوں ریاکار کہیں گے؟ کوئی وجہ تو ہو گی۔ کوئی نا سمجھی تو ہو گی۔ یہ حضرات اپنے domain میں باتیں کر رہے ہیں، لہذا ان کی باتیں سمجھ نہیں آئیں گی۔ لیکن جن کے اندر جان ہو گی، جو لوگ اس range میں جا سکتے ہیں، ان کو ساری باتیں سمجھ آ جائیں گی۔ میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔ بہت سے اشارے موجود ہیں۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں: ’’مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ دَرَجَۃً رَّفَعَہُ اللّٰہُ دَرَجَۃً‘‘ (مسند احمد، حدیث نمبر: 11723)
ترجمہ: ’’جو بندہ اللّٰہ کے لئے ایک درجہ عاجزی اختیار کرتا ہے، اللّٰہ اس کو ایک درجہ بلندی عطا کر دیتے ہیں‘‘۔
اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ﴾ (البقرۃ: 276)
ترجمہ: ’’اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے‘‘۔
اور حدیث قدسی میں آتا ہے کہ جو میری طرف ایک بالشت آتا ہے، میری رحمت اس کی طرف دو بالشت جاتی ہے، جو میری طرف ایک قدم آتا ہے، میری رحمت اس کی طرف دو قدم جاتی ہے، اور جو میری طرف چل کے آتا ہے، میری رحمت اس کی طرف دوڑ کے جاتی ہے۔ اس سے ایک فارمولے کا پتا چل گیا کہ تم جتنا اللّٰہ کے لئے کرو گے، اللّٰہ تعالیٰ اس سے زیادہ تمہارے لئے کرے گا۔ ﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرۃ: 152) میں بھی یہی بات ہے۔ ﴿وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰـكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ﴾ (البقرۃ: 154) میں بھی یہی بات ہے۔ جس نے زندگی دے دی، قربان کر دی، اللّٰہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا، ایسا زندہ کر دیا کہ اس کو مردہ کہنا بھی نا ممکن ہے۔ کیونکہ دو طرح فرمایا گیا۔ ایک تو یہ فرمایا کہ ان کو مردہ نہ کہو۔ دوسرا فرمایا کہ ان کو مردہ گمان بھی نہ کرو۔ ساری بات ہی ختم ہو گئی۔ پس اس سے فارمولے کا پتا چل گیا کہ جو کوئی اللّٰہ کے لئے کچھ کرتا ہے، اسی فیلڈ میں اللّٰہ تعالیٰ اس کے لئے اس سے زیادہ کرتا ہے۔ تو جو اللّٰہ کے ساتھ محبت کرتے ہیں، اس کا جواب کیا ہو گا؟ اللّٰہ کی محبت ہو گی اور اس سے زیادہ ہو گی۔ تو بتائیے! جن کے ساتھ اللّٰہ محبت کریں، ان کے لئے کیا کمی ہے؟ ان لوگوں کی مثال ایسی ہو گی، جیسے آپ کسی بادشاہ کے مہمان ہو جائیں، بادشاہ جب آپ کے ساتھ باتیں کر رہا ہو اور آپ اس کی چیزوں کو دیکھ رہے ہوں، تو بادشاہ کا کیا تاثر ہو گا؟ کم از کم یہ ہو گا کہ یہ اس کوالٹی کا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ وہی معاملہ ہو گا۔ اور جو ہمہ تن بادشاہ کی طرف متوجہ ہو گا، عین ممکن ہے کہ بادشاہ خود ہی اس کو ساری چیزیں دیکھا دے کہ یہ بھی ہے، یہ بھی ہے، یہ بھی ہے۔ یہی بات یہ حضرات فرما رہے ہیں، جو سمجھ نہیں آتی۔ ان کا منشور بہت آگے ہوتا ہے، ان کا مقصود بہت اونچا ہوتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ساری تعلیمات کا نچوڑ اگر آپ بیان کریں، تو وہ یہی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رکنا نہیں ہے، اپنے مقصود کو کم نہیں کرنا، اللّٰہ کے علاوہ کسی چیز پہ نہیں رکنا۔ سارے مکتوباتِ شریفہ کا نچوڑ یہی ہے۔ حضرت نے باقاعدہ اس کی مثال دی ہے کہ ایک شخص خانہ کعبہ جا رہا ہے، راستے میں اس کو خانہ کعبہ جیسی کوئی عمارت نظر آئی، وہ سمجھا کہ شاید یہ خانہ کعبہ ہے اور ادھر ہی ٹھہر گیا۔ فرمایا یہ تو محروم ہے، دھوکہ کھا گیا۔ دوسرا شخص ہے، جو خانہ کعبہ کی تفصیلات جانتا ہے کہ خانہ کعبہ کیسا ہے، لیکن گیا نہیں ہے۔ یہ پہلے سے اچھا ہے، دھوکہ نہیں کھایا، اگرچہ پہنچا بھی نہیں ہے۔ تیسرا وہ ہے، جو چلا ہے اور ابھی پہنچا نہیں ہے۔ فرمایا: یہ دوسرے سے بھی اچھا ہے، کیونکہ اس نے چلنا تو شروع کیا ہے۔ اور چوتھا وہ ہے، جو پہنچ گیا ہے۔ پس سب سے اونچا وہی ہے۔ لیکن جو پہلا ہے، جو راستے میں رک گیا ہے، وہ سب سے زیادہ محروم ہے۔ اس نے مقصود ہی الگ بنا لیا، وہ مقصود نہیں ہے، جو ہونا چاہئے تھا۔ اور دوسرے شخص کا مقصود اعلیٰ ہے، لیکن محنت نہیں کر رہا، وہ بھی پیچھے رہنے والوں میں ہے۔ تیسرا چلنے والوں میں ہے، لیکن ابھی پہنچا نہیں ہے، ابھی اور محنت کرنی پڑے گی۔ چوتھا پہنچ گیا ہے۔ یہی چوتھی قسم کے لوگ ہیں، جن سے کام لیا جاتا ہے۔ پس پتا چلا کہ رکنا نہیں ہے۔ یہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی پوری زندگی کا نچوڑ ہے۔ حضرت نے مکتوبات میں باقاعدہ مثالیں دے دے کر اس بات کو سمجھایا ہے۔
متن:
’’عشق کے ساغر کے مست لوگ جو بقا کی لافیں کرتے ہیں اپنی جان دے کر ملک بقاء میں خیمہ لگاتے ہیں (یعنی جو اصل جگہ ہے، وہاں پر قائم کر لیتے ہیں) عشق کے شوریدہ اور مست واشفتہ حال لوگ ہر لمحہ حرم کبریا (اللّٰہ جل شانہ کے پاس) میں عشق کی لبیک لبیک کی صدا لگاتے ہیں۔
تشریح:
﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ﴾ (البقرۃ: 165)
ترجمہ: ’’اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں‘‘۔
متن:
جب ساقی کے ہاتھ سے شراب کا جام لیتے ہیں تو شدتِ شوق سے کپڑے پھاڑ کر ''قَالُوْا بَلٰی'' کا نعرہ لگاتے ہیں۔
تشریح:
یہاں پر ساقی سے مراد شیخ ہے۔ وہاں پر جب کوئی ایسی کیفیت حاصل کرتا ہے، تو فوراً اس کو پرانی بات یاد آ جاتی ہے کہ ہم نے کہا تھا: ’’بَلٰی‘‘ یعنی اس کو میثاقِ اول یاد آ جاتا ہے۔
متن:
آدھی رات کو عالم ملکوت کے باسی یعنی فرشتے جب نالہ و فریاد کرتے ہیں اُس کے غم کے بارے بے دلوں کی طرح ''رَبَّنَا'' کی آواز لگاتے ہیں وہ قوم جو دونوں جہانوں کو ایک جو کے مول کے نہیں لیتے۔
تشریح:
یہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ شیخ کو اس وقت کے بادشاہ نے جاگیر بخشنے کا ارادہ کیا اور ان کو خط بھیجا کہ نیمروز کا علاقہ تمہاری جاگیر ہے، تم اپنی خانقاہ کے اخراجات اس سے پورے کرو۔ بادشاہ نے کافی حسنِ ظن کیا اور بڑا اچھا برتاؤ کیا۔ لیکن جیسے میں نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جن کی باتیں سمجھ نہیں آتیں۔ تو اس کے جواب میں جو بات حضرت نے کی، آج کل کے دور میں بھی یہ بات سمجھ نہیں آئے گی۔ حضرت نے بادشاہ کو جو جواب لکھا، وہ فارسی اشعار کی شکل میں ہے:
چوں چتر سنجری رخ بختم سیاہ باد
در دل اگر بود ہوس ملک سنجرم
زانگہ کہ یافتم خبر از ملک نیم شب
من ملک نیمروز بیک جو نمی خرم
ترجمہ: ’’شاہِ سنجر کے سر پر بوقتِ عدالتِ شاہی سیاہ رنگ کی جو چھتری ہوتی ہے، اسی طرح میرا نصیبہ بھی سیاہ ہو جاوے، اگر میرے دل میں ملکِ سنجر کی ہوس موجود ہو۔ جس وقت سے حق تعالیٰ کے کرم نے مجھے آدھی رات کی سلطنت بخشی ہے (یعنی تہجد کی نماز کی لذت سے سر مست و سرشار ہوں، اس لذّتِ قربِ خداوندی کے مقابلے میں) تمہاری نیمروز کی سلطنت کو میں ایک جو کے عوض بھی نہیں خرید سکتا‘‘۔
یعنی جب سے بادشاہوں کے پیدا کرنے والے سے میرا رابطہ ہوا ہے، اس نے مجھے سارے بادشاہوں سے بے نیاز کر دیا۔ اب میں کسی اور بادشاہ کی طرف کیوں دیکھوں؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔ آج کل کے دور میں اگر کسی کو ایسا ہو جائے، اگر وہ بڑا مفتی ہو یا کوئی بڑا قاضی ہی کیوں نہ ہو، وہ کیا کرے گا؟ یہی جواب دے گا کہ کوئی بات نہیں، ہدیہ لینا سنت ہے، اس نے ہدیہ دیا ہے، بغیر اِشرافِ نفس کے مجھے مل رہا ہے۔ جیسے میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ Second category, Third category کو نہیں سمجھ سکتے ہیں، یہ اپنے اپنے domain کی بات ہے۔ ان کو لوگ دیوانہ کہتے ہیں اور وہ اسی پر خوش ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت مولانا جامی نے فرمایا:
اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شد
اوست فرزانہ کہ فرزانہ نہ شد
وہی دیوانہ ہے، جو اللّٰہ کی محبت میں دیوانہ نہیں ہوا۔ وہی جلا ہوا ہے، جو اللّٰہ کی محبت میں نہیں جلا۔ یہ باتیں سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔ لیکن جنہوں نے لکھا ہے، اس نیت سے لکھا ہے اور جو پڑھتے ہیں، وہ اس نیت سے پڑھتے ہیں کہ جن کے خمیر میں اس قسم کی چیز موجود ہے، یہ ان تک پہنچ جائیں گی۔ اور پھر کام لینے والا اللّٰہ ہے۔ آخر جو لوگ ایسے بنے تھے، وہ بھی کسی کے ذریعے سے بنے تھے۔ ان کو بھی یہ باتیں کسی طریقے سے پہنچی تھیں۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو لوگ بڑا خشک مولوی سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ بہت بڑے بزرگ تھے۔ حضرت کے پاس ایک بچہ آتا تھا اور حضرت کی مجلس میں بیٹھتا تھا، (آج کل بھی ایسا ہوتا ہے، ہمارے ساتھ بھی لوگ اس طرح کرتے ہیں) اس کے والد صاحب آئے اور ان سے کہا: حضرت! آپ نے میرے بیٹے کو بگاڑ دیا ہے، حضرت تو پروا نہیں کرتے تھے۔ فرمایا: ہاں، بگاڑ دیا ہے، ہمارے پاس جو بھی آئے گا، ہم بگاڑیں گے۔ آخر ہمیں بھی کسی نے بگاڑا ہے۔ یہ بات تو ہے، لوگ تو اس کو بگڑا ہوا سمجھتے ہیں، لیکن قسمت قسمت کی بات ہوتی ہے۔ حضرت حافظ شیرازی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے والد صاحب ان کو پاگل اور آوارہ سمجھتے تھے، نوجوانی کی عمر میں تھے۔ خواجہ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اشارہ ہو گیا کہ اس نوجوان کو لے لو۔ حضرت تشریف لائے، ان کے متعلق پوچھا، ان کے والد صاحب تک پہنچ گئے۔ والد صاحب ان کو جانتے تھے، بڑی عزت کی، اکرام کے ساتھ بٹھایا۔ پوچھا: آپ کے بچے کتنے ہیں؟ انہوں نے کہا: اتنے ہیں۔ فرمایا: سب کو بلا لو۔ بلایا لیا۔ مگر ان میں وہ نظر نہیں آیا، جو ان کا تھا۔ حضرت نے فرمایا: اس کے علاوہ بھی آپ کا کوئی بیٹا ہے؟ کہا: حضرت! اس کا کیا کریں، وہ تو آوارہ ہے، پتا نہیں، اس وقت کس جنگل میں ہو گا، کس جگہ پہ ہو گا، اس کا کچھ پتا نہیں۔ فرمایا: اس کو ڈھونڈو، میں نے اس کو دیکھنا ہے۔ خواجہ صاحب نے لوگ دوڑا دیئے۔ واقعی کسی جگہ پہ بیٹھے ہوئے تھے، پکڑ کے لے آئے۔ جیسے ہی حضرت کے اوپر نظر پڑی، تو شعر پڑھا، شاعر تو تھے۔ شعر پڑھا کہ اے سب کے اوپر نظرِ کرم کرنے والے! کچھ ہماری طرف بھی نظر کریں۔ حضرت نے فرمایا: بتو نظر می کردم۔ تجھ پر میں نے نظر کر لی۔ اور ان کو اپنے ساتھ لے گئے۔ وہی ان کے لئے ہیرہ تھے۔ اصل میں جوہر شناسی بھی ہوتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک والد اپنے بیٹے کے بارے میں بڑے پریشان تھے کہ لوگ اس کے فن کی قدر نہیں کرتے۔ اس نے بیٹے سے کہا کہ یہ ہیرہ لے جاؤ، اور اس کی قیمت لگواؤ، مگر بیچنا نہیں ہے۔ وہ کسی سبزی والے کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ اچھا یہ پتھر ہے، چلو ایک بوری آلو لے لو۔ اس نے کہا: مجھے صرف یہ کہا گیا ہے کہ اس کی قیمت معلوم کرو، بیچنا نہیں ہے۔ کہا: اچھا ٹھیک ہے۔ وہ کسی اور کے پاس چلا گیا، جو کسی اور چیز کے بارے میں جاننے والا تھا۔ اس نے کہا کہ آپ کو اتنے ہزار روپے دے سکتا ہوں۔ اس نے کہا: مجھے بیچنے کا حکم نہیں ہے۔ پھر وہ خاص نایاب پتھر والوں کے پاس پہنچ گیا۔ انہوں نے خورد بینیں وغیرہ فٹ کیں اور پورے غور سے دیکھا تو انہوں نے پوچھا: کہاں سے لائے ہوں؟ انہوں نے کہا: میرے والد صاحب نے دیا ہے۔ وہ کہنے لگا: لینا تو چاہتا ہوں، لیکن اگر پورے ملک کا سرمایہ بھی جمع کر لوں تو اس کو نہیں خرید سکتا، لہذا میں معذور ہوں۔ جب والد صاحب کے پاس گیا، تو والد صاحب نے اس سے کہا: کیا سمجھے؟ انہوں نے کہا کہ ہر شخص اپنی معرفت کے مطابق اس کی قیمت لگا رہا تھا۔ اسی طرح تمہاری اگر کوئی قدر نہ کرے، تو اس پہ خفا نہ ہو، جس نے قدر نہیں کی، اس نے اپنی معرفت کا بتا دیا کہ وہ اتنا ہے۔ پس جن کو معرفت ہوتی ہے، وہ جان لیتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔
متن:
وہ قوم جو دونوں جہانوں کو ایک جو کے مول کے نہیں لیتے اسی وجہ سے یہ دُنیا کی محبت کا دم کبھی نہیں بھرتے، جو لوگ دنیا کی محبت کی طرف توجہ اور میلان نہیں رکھتے تو ہمت کے دامن میں عمل کی کیل کیونکر ٹھونکیں گے وہ لوگ جو دن کو روئے زمین پر کوئی رہنے کا گھر تک بھی نہیں رکھتے رات کو عشق کے نور کی وجہ سے آسمانوں پر قدم رکھتے ہیں۔
تشریح:
یعنی ان کا معاملہ اللّٰہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور اگر یہ ساری چیزیں میں بتاؤں، پھر بھی لوگوں کو پتا نہیں چلے گا کہ یہ کیسے آسمانوں پہ قدم رکھتے ہیں۔ جب پتا ہی نہیں چلے گا، تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیکن موجود تو ہیں، اللّٰہ والے آج کل بھی ہیں، الحمد للہ۔
متن:
خستہ خاطر اور زخمی دِل والے عاشقوں کے ہر وقت جو کچھ ماسوی اللّٰہ ہے اُن سب کو ''لَا'' کی جھاڑو سے مارتے ہیں (لَا کے جھاڑو سے سب کو ہیچ کر دیتے ہیں، یعنی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔) فقر کے راستے کے راہرو لوگ جب الست کے مے خانہ سے نوش کرتے ہیں تو مصطفٰے کی محبت کا نعرہ لگاتے ہیں اور جو لوگ کہ نہ تو عشق کا سوز رکھتے ہوں اور نہ محبوب کا شوق تو وہ لوگ حشر کے دن وا حسرتا، اور ''اے کاش'' کے نعرے لگائیں گے۔
تشریح:
یعنی جب وہ ان لوگوں کو اونچے مقامات پر دیکھیں گے۔ ایک بہت بڑے بزرگ کو الہام ہوا کہ جنت میں آپ کی جو بیوی ہو گی، وہ فلاں مجنونہ ہو گی۔ اس نے کہا کہ میں ذرا دیکھ لوں کہ وہ کدھر رہتی ہے۔ جب ان کے گھر کے قریب پہنچ گئے، تو اندر سے آواز آئی کہ ملاقات کا وعدہ تو جنت میں ہے، ادھر کیوں آئے ہو؟ کیونکہ ہر چیز کا اپنا اپنا مقام ہوتا ہے۔
متن:
عاشق لوگوں کو تو (دُنیائی مال و دولت اور) سلیمان علیہ السلام کی سلطنت کی باتیں نہ کہو کیونکہ یہ لوگ ایک لا متناہی عالم کی باتیں کرتے ہیں، یہ بھی جناب محمد رسول اللّٰہ ﷺ کا لطف ہے کہ آپ کے نور کے فیض سے سدرۃ المنتہیٰ کے فرشتے تجھے مرحبا پکارتے ہیں‘‘۔
حاصل کلام یہ سُکر اور حیرت ان لوگوں میں دیکھا جاتا ہے۔ اور سُکر تین وجہ سے ہوتا ہے: ایک سکر محبت، دوسرا سُکر مہابت، اور تیسرا سکر حمیت ہوتا ہے، اور اس دوران ان کے منہ سے جو کلمہ بھی نکل پڑے وہ بات شریعت میں قابل قبول نہیں ہوتی۔ اور اس بات سے اُن کو عذاب اور مؤاخذہ بھی نہیں جیسا کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا ہے: "إِنَّ اللّٰہَ لَا یُؤَاخِذُ الْعُشَّاقَ بِمَا یَصْدُرُ مِنْھُمْ" یعنی اگر اللّٰہ تعالیٰ کے عاشقوں سے دوران عشق کچھ (غیر اختیاری) بات صادر ہو جائے تو اللّٰہ تعالیٰ ان کا مؤاخذہ نہیں کرتا۔
تشریح:
یہ شریعت کا قانون بھی ہے کہ جب تک عقل ساتھ نہیں دیتی، اس وقت تک ان سے مواخذہ نہیں ہوتا۔
متن:
اور شیخ المشائخ کا بھی یہی قول ہے کہ "اَلْعُشَّاقُ لَا یُؤَاخَذُوْنَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ" یعنی عاشق لوگ جو کچھ کہتے ہیں یا کرتے ہیں، اُن باتوں پر اُن کا مؤاخذہ نہیں ہوتا۔
تشریح:
لیکن عاشق تو ہو، عاشقوں کی نقل تو نہ کرے۔ عاشقوں کی نقل کرے گا، تو مارا جائے گا۔ کیونکہ جو کلمہ اُن کے لئے معاف ہے، اِس کے لئے معاف نہیں ہو گا۔ کیونکہ یہ عاشق نہیں ہے۔ میں ’’مولانا روم کانفرنس‘‘ میں گیا تھا، وہ لوگ رومی رقص کی ویڈیوز پیش کرنے کے لئے لائے تھے، اللّٰہ کا شکر ہے کہ وہ چلیں ہی نہیں، لہذا اس سے نجات ہو گئی۔ جب آخر میں میری باری آئی، تو میں نے چونکہ پوری کانفرنس کے بارے میں بات کرنی تھی، اس میں میں نے عرض کیا کہ رومی رقص مشہور ہے، در اصل حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کی اس قسم کی جو چیزیں کتابوں میں آئی ہیں، وہ تو ان کا وجد تھا اور وجد غیر اختیاری ہوتا ہے۔ اور رقص غیر اختیاری نہیں ہوتا، یہ باقاعدہ ہوتا ہے۔ اس لئے وجد معاف ہے، تواجد معاف نہیں ہے۔ کیونکہ اس کو کیفیت حاصل نہیں ہے، وہ جھوٹا ہے۔ تواجد نفاق کا شعبہ ہے۔ میں نے کہا: رومی رقص یہ نفاق کا شعبہ ہے۔ الحمد للہ اس سے بڑا فائدہ ہوا۔ وہاں پر تبلیغی جماعت والے حضرات موجود تھے۔ اپنے ماحول کے مطابق سب لوگ اس پر تالیاں بجا رہے تھے۔ میں جب نیچے اتر رہا تھا، تو تبلیغی جماعت کے بڑے میرے پاس آئے، مجھے کہتے ہیں: شاہ صاحب! ہم تالیاں نہیں بجاتے، لیکن آپ کی بات سے ہم بھی وجد میں آ گئے، ہم نے بھی تالیاں بجائیں۔ بہر حال! اگر کوئی اس کو pose کرتا ہے اور اپنے آپ کو دیکھاتا ہے کہ مجھے یہ چیز حاصل ہے اور واقعتاً حاصل نہ ہو، تو یہ ڈرامہ ہے۔ ڈرامہ بھی کس چیز کے ساتھ کیا ہے؟ اتنی پاک چیز کے ساتھ ڈرامہ کیا ہے۔ اس لئے اس کا بہت خطر ناک انجام ہے۔ لہذا جو واقعی اہلِ عشق ہیں، ان کے لئے معاف ہے، لیکن جو اہلِ عشق نہیں ہیں اور عشق والوں کی نقل کرتے ہیں، ان کے لئے معافی نہیں ہے۔
متن:
پس حدیثِ رسول اللّٰہ ﷺ کی رو سے اور ان مشائخ کے قول کے مطابق جو رسول اللّٰہ ﷺ کے تابعین ہوئے ہیں، اِن مست عاشقوں کو اِن کی مستی کی حالت میں کی گئی باتوں پر گرفت نہیں ہوتی اور مستی خواب کی طرح ہے اور خواب پر کوئی گرفت نہیں۔
تشریح:
یہ شریعت کا حکم ہے کہ اگر عقل ساتھ نہ دیتی ہو یا انسان خواب میں ہو یا بالغ نہ ہو، تو ان تینوں موقعوں پہ گرفت نہیں ہے۔
متن:
لیکن اے میرے محبوب! مستی دو وجہ سے ہوتی ہے: ایک یہ کہ بیگانہ ہو اور اس کے لئے راہ بند ہو، پس اس کی مثال خواب جیسی ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ حواس کھلے ہوں اور مستی کی طرح ہو۔ پس اے محبوب! سکرِ محبت ابراہیم علیہ السلام کو تھا، یعنی جس روز آتشِ نمرود گرم اور بھڑکائی گئی تھی اور اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت کا امتحان تھا، ان کو گوپھن (منجنیق) میں پھینکنے کے لئے اُٹھایا اور ابھی گوپھن ہی میں آپ تھے کہ عرش اور تمام آسمانوں کے عالمِ ملکوت میں ایک شور اُٹھا اور عالم انسان خوش ہوا، کیونکہ جس دِن عالم سرائر میں امانت کو برداشت کرنے کے لئے جو آواز بلند کی گئی کہ ﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَأَشْفَقْنَ مِنْھَا…﴾ (الأحزاب: 72) ”ہم نے دکھلائی امانت آسمانوں کو اور زمین کو اور پہاڑوں کو پھر کسی نے قبول نہیں کی کہ اس کو اٹھائیں اور اس سے ڈر گئے اور اٹھا لیا اس کو انسان نے“ یعنی تمام عالم موجودات اللّٰہ تعالیٰ کے بارِ امانت و امتحان کی برداشت کی طاقت سے عاجز تھے لیکن عرش سے لے کر فرش تک تمہاری روح نے جس نے خلعت انسانی زیب تن کی ہوئی تھی، اپنا دستِ فقر آگے بڑھایا اور جو بار امانت تمام موجودات اُس کے اٹھانے سے عاجز تھے اس بار امانت کو اپنے ہاتھ میں لے کر خاموش بیٹھ گیا آج یہ کہاں بھاگ جائے گا؟ اس کو مخاطب کر کے کہا گیا؟ ﴿أَیْنَ الْمَفَرُّ﴾ (القیامۃ: 10) تمہاری فرار کی راہ کہاں ہے؟ ابراہیم علیہ السلام کہاں بھاگ سکتے تھے؟ وہ تو سکرِ محبت میں غرق تھے، یہ حالت دیکھ کر ملائکہ فریاد کرنے لگے اور سب رونے لگے کہ اے پوشیدہ اور عیان باتوں کے جاننے والے! یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اپنے خلیل اور دوست کو ایک ذلیل اور کمینے کے ہاتھوں گرفتار کروایا اور آگ کی بھٹی کو اس کا جائے قرار مقرر کیا، لیکن ظاہری نظر رکھنے والے فرشتے کیا جانتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام مستی کے عالم میں ہیں اور محبت کا نشہ ان کے سر کو کیسے چڑھا ہے اگرچہ ظاہر میں شراب نہیں تھی۔ مصرع
شراب را نہ بینی او را مست
یعنی ’’شراب کو نہیں دیکھتے اور اس کو مست دیکھتے ہو‘‘۔ پس ظاہر بین کیا دیکھتا ہے۔
اچانک قاصدِ رسالت حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اے ہمارے دوستوں کے قاصد! جلدی اُڑ جا اور میرے دوست سے ہوا میں پوچھ، اگر تجھ سے کچھ فریاد کرے تو اس کی حاجت براری کر۔ حکم ملتے ہی چشم زدن میں حضرت جبرئیل علیہ السلام پہنچ گئے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا: "أَلَکَ حَاجَۃٌ؟ قَالَ: أَمَّا إِلَیْکَ فَلَا" (تفسیر القرطبی بتغییر یسیر، رقم الصفحۃ: 400/5، دار الکتب المصریۃ القاہرۃ) کہ اے ابراہیم علیہ السلام کیا تجھے میرے متعلق کوئی حاجت ہے تو انہوں نے ارشاد فرمایا۔ مجھے تیری حاجت؟ مجھے تیری حاجت نہیں۔
اے میرے بھائی! یہاں دیکھنا چاہئے کہ شریعت کہتی ہے کہ چاہئے تو یہ تھا کہ جبرئیل علیہ السلام کو اپنی حاجت بیان کر دیتے،
تشریح:
آج کل ایسے ہوتا، تو علما اس پہ خود کشی کا فتویٰ لگا دیتے۔ کیونکہ بچانے کی جب آفر ہو گئی ہے، تو پھر کیوں انکار کرتے ہو؟ یہ سکر نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ مثلاً: کوئی آپ کو آگ میں ڈال رہا ہو، دوسرا کہتا ہے کہ میں آپ کو نکالتا ہوں۔ اور آپ کہتے ہیں کہ نہیں، مجھے چھوڑو۔ آج کا مولوی تو یہی فتویٰ دے گا کہ ماننا چاہئے۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید کے علم بردار تھے اور انہوں نے استقامت کا milestone بنانا تھا، پتا دینا تھا کہ توحید کس مقام کی چیز ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سے جنت والی بات بھی سمجھ میں آنی چاہئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو جواب دیا، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، ریکارڈ پر موجود ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ جس کے لئے ہو رہا ہے، وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ مجھے تیری حاجت نہیں ہے۔ دوسری بات؛ اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم تھا، اور حکم بھی خواب کے ذریعے سے تھا، براہِ راست جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سے نہیں تھا، کنایہ تھا۔ اور پھر اسماعیل علیہ السلام کو لے کے جا رہے ہیں اور اسماعیل علیہ السلام کو وہ خواب سنا رہے ہیں کہ: ﴿اِنِّیْۤ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ﴾ (الصّٰفّٰت: 102)
ترجمہ: ’’میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں‘‘۔
اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا: ﴿فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰى﴾ (الصّٰفّٰت: 102)
ترجمہ: ’’اب سوچ کر بتاؤ، تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘۔
اسماعیل علیہ السلام ابھی بچے ہیں، لیکن پیغمبر بننے والے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ نے اونچا مقام عطا فرمایا ہے کہ وہ کہتے ہیں: ﴿قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ٘ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (الصّٰفّٰت: 102)
ترجمہ: ’’بیٹے نے کہا: ابا جان! آپ وہی کیجئے، جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘۔
یہ باتیں ہم جیسے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔ یہ ہماری range سے اوپر اوپر کی باتیں ہیں۔ لیکن ہیں تو سہی۔ چنانچہ جنہوں نے عشق کے milestones بنا دیئے، اللّٰہ پاک کے ہاں ان کی یہ قبولیت ہوئی کہ اب ہمیں حکم ہے کہ جو حج پر جائے، ان کی نقل کرے۔ یہی اس کا حج ہے۔ ان کی طرح کچھ کر لے بس۔ جیسے انہوں نے کیا، تم بھی اسی طرح کر لو، تمہارا حج قبول ہو جائے گا۔ یہ کیا چیز ہے؟ یہ عشاق کا مقام ہے۔ جیسے میں کہتا ہوں کہ اشارے ہیں، لیکن لوگ دیکھتے نہیں ہیں، غور نہیں کرتے۔ ہاجرہ بی بی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا شہزادی ہیں، نو مولود بیٹے کے ساتھ ان کو ابراہیم علیہ السلام لے جاتے ہیں اور ایسے لق و دق صحرا کے اندر چھوڑ آتے ہیں کہ جہاں کچھ بھی نہیں ہے، اس وقت تو خانہ کعبہ بھی نہیں تھا، کچھ بھی نہیں تھا۔ کھانے کا تھوڑا سامان توشہ دے کے اور اونٹ پہ سوار ہو کے جانے لگے۔ بات کرنے کا حکم بھی نہیں تھا۔ مگر چونکہ ہاجرہ بی بی کو بات کرنے سے نہیں روکا گیا تھا، انہوں نے پوچھا کہ ہمیں کس کے پاس چھوڑ کے جا رہے ہیں؟ مگر بولنے کا حکم نہیں ہے، کیا کریں۔ ہاجرہ بی بی چونکہ خود ولیہ تھیں، صحابیہ تھیں، انہوں نے کہا کہ کیا اللّٰہ کے حکم سے ہمیں چھوڑ کے جا رہے ہیں؟ کیونکہ پیغمبر تو اللّٰہ کے حکم کے بغیر کچھ کر نہیں سکتے۔ اس وقت حکم ہوا کہ اشارہ سے جواب دو۔ تو ابراہیم علیہ السلام نے اشارہ سے کہا کہ ہاں۔ اس پر ہاجرہ بی بی نے کہا کہ بس پھر ہمیں اور کچھ نہیں چاہئے، اللّٰہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ اس کے بعد پھر جو ہوا، وہ ہم سب لوگوں کو معلوم ہے۔ physical امتحان اپنی جگہ پر، دل کا اطمینان اپنی جگہ پر، لیکن وہ جو بدرجۂ حال دوڑیں لگی تھیں، آپ کی وہ دوڑیں اللّٰہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئیں کہ اس کے بعد جتنے پیغمبر آئے، سب نے دوڑیں لگائیں، سب کو یہی حکم تھا اور آپ ﷺ نے بھی دوڑیں لگائیں۔ ایک صحابیہ کا عمل انبیاء کے لئے ضروری قرار دیا گیا۔ کیا بات ہے یہ! یہ قبولیت ہے۔ عشاق کی قبولیت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ بہر حال! یہاں پر بھی ایسے ہی ہوا کہ فرمایا کہ مجھے کوئی حاجت نہیں۔
متن:
کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ﴿لَا تُلْقُوْا بَأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ…﴾ (البقرۃ: 195) یعنی اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام سکرِ محبت میں تھے اس لئے اُن کا مؤاخذہ نہیں کیا گیا کہ "إِنَّ اللّٰہَ لَا یُؤَاخِذُ الْعُشَّاقَ بِمَا یَصْدُرُ مِنْھُمْ" یعنی اللّٰہ تعالیٰ عاشقوں کی اُن افعال کی وجہ سے جو اُن سے صادر ہو جائیں، گرفت نہیں کرتے۔ اور اس میں ایک دوسرا باریک نکتہ یہ ہے کہ جب موقع ملے خدمت کرنے کے لئے ہاتھ باندھ لو، تاکہ وصلِ محبوب حاصل ہو جائے جس کے چار مرتبے ہیں: اول عالمِ ناسوت، دوم عالمِ ملکوت، سوم عالمِ جبروت اور چہارم عالمِ لاہوت۔ اور ان سب کا ذکر پہلے گزر چکا ہے لیکن تجلی کا ایک دوسرا مقام ہے۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ نے اس کا اچھی طرح ذکر فرمایا ہے کہ سب سے پہلے سالک کا مقام اور اس کی ابتدا کی جگہ عالمِ ناسوت (انسانوں کا عالم) ہے، یعنی جب تک کہ تُو نفس کے ظاہری خرابات اور شراب خانے میں نفس کی سرزنش نہ کرے تو نفسانی خبائث سے گوہر ظاہر نہیں ہوں گے، جب یہ تمام خبائث دیکھو گے تو ہر ایک سے تبرا نہ کر سکو گے یعنی سب کو چھوڑ کر نفس کو نہ بچاؤ گے۔ اور جب تک تم خراباتِ ظاہری پر نفس کو آگاہ نہ کرو گے تب تک نفس کو پہچان نہ پاؤ گے کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ…" ”جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے خدا کو پہچانا“ ایک مشہور اصطلاح ہے۔
تشریح:
اس کو بعض لوگ حدیث کہتے ہیں، لیکن یہ حدیث نہیں ہے۔ اصطلاح ہے، بزرگوں کا قول ہے۔ بہر حال! حضرت فرماتے ہیں کہ نفس کے اندر اللّٰہ نے جو رکھا ہے، رکھا ہے۔ مثلاً: ابراہیم علیہ السلام کے لئے نمرود گویا کہ نفس تھا۔ یہ بطورِ مثال ہے، اصل میں وہ نفس نہیں تھا۔ انہوں نے نمرود کی بات مانی یا اللّٰہ کی بات مانی؟ اللّٰہ کی بات مانی۔ پس وہ ساری چیزیں وجود میں آ گئیں، جو نمرود اور ابراہیم علیہ السلام کے درمیان ہوئی تھیں۔ بعینہ اسی طرح ہر شخص کے پاس اپنا نمرود موجود ہے۔ اس نمرود کے ساتھ رہ کر اللّٰہ کا ہونے کا ثبوت پیش کرنا ہے۔ یہ جو کچھ کہتا ہے، اس کو کچھ نہ کہو۔ یہ تو کہے گا، مگر آپ نے ماننا نہیں ہے۔ شیطان کو بھی قیامت تک مہلت دی گئی ہے، اس کو بھی کچھ نہیں کہہ سکتے، بس اس کی ماننی نہیں ہے۔ اسی طرح ہم نے بھی اپنے نفس کی بات ماننی نہیں ہے۔ ایک بزرگ راستے میں ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے اور مسلسل کہے جا رہے تھے: ’’نہ تو میرا خدا، نہ میں تیرا بندہ، پھر میں تیرا کہا کیوں مانوں؟‘‘۔ اب کوئی ان پہ ٹماٹر پھینک رہا ہے، کوئی ان پہ تھوک رہا ہے، کوئی گالیاں دے رہا ہے۔ اور کہہ رہے ہیں کہ یہ زندیق ہے، کیسی باتیں کرتا ہے۔ مگر وہ اپنی مستی میں کہے جا رہے ہیں۔ ایک اور بزرگ تشریف لائے، انہوں نے جب لوگوں کو دیکھا، تو کھڑے ہو گئے اور وہیں سے آواز لگائی: شاہ صاحب! کن کو کہہ رہے ہو؟ انہوں نے آنکھیں کھول دیں کہ الحمد للہ ایک عقل مند سے ملاقات ہو گئی۔ فرمایا: میں اپنے نفس سے کہہ رہا ہوں۔ اس بزرگ نے فرمایا: بات تو آپ ٹھیک کر رہے ہیں، لیکن جگہ غلط منتخب کی ہے۔ آپ گھر جا کر اپنے نفس کے ساتھ یہ باتیں کریں، یہاں نہیں۔ یہاں لوگوں کو پتا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عقل مند کی بات ماننی چاہئے، اسی میں خیر ہے۔ چادر اپنے کندھے پہ ڈالی اور گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ پس ہمیں اپنے نفس کو یہی کہنا چاہئے کہ ’’نہ تو میرا خدا، نہ میں تیرا بندہ، میں تیری بات کیوں مانوں؟‘‘۔ کیونکہ ایک طرف اللّٰہ کا حکم ہے، دوسری طرف نفس کا تقاضا ہے۔ یہ ایک وقت کی بات نہیں ہے، یہ ہر وقت کا تقاضا ہے۔ قرآن پڑھو گے، تو نفس کہے گا کہ نہیں پڑھو، ذکر کرو گے، تو نفس کہے گا کہ نہ کرو۔ سنت کے مطابق کھانا کھاؤ گے، تو نفس کہے گا کہ نہ کرو۔ کمال کی بات ہے، ایک عجیب مثال سامنے آ گئی ہے۔ مردوں کو حکم ہے کہ اپنا پاجامہ ٹخنوں سے اوپر رکھو اور عورتوں کو حکم ہے کہ ٹخنوں سے نیچے رکھو۔ اب اس کی کیا logic کریں گے کہ عورتیں پاجامے کو اوپر لے جا رہی ہیں اور مرد نیچے لا رہے ہیں۔ یہ گرمی کی وجہ سے ہے؟ سردی کی وجہ سے ہے؟ کپڑے کی وجہ سے ہے؟ کس وجہ سے ہے؟ اگر سردی کی وجہ سے ہے، تو دونوں کو نیچے کرنا چاہئے۔ گرمی کی وجہ سے ہے، تو دونوں کو اوپر کرنا چاہئے۔ کپڑوں کی وجہ سے ہے، تو پھر بھی دونوں کو اوپر کرنا چاہئے۔ مگر یہ الٹ کیوں ہو رہا ہے؟ مسلسل ہمارے ساتھ یہ ہو رہا ہے۔ میں صاف بات کرتا ہوں کہ در اصل نفس ہمیں انسان نہیں رہنے دیتا۔ ہمارے اور جانور کے درمیان صرف شعور اور عقل کا فرق ہے، اس سے زیادہ فرق نہیں ہے جانور اور انسان میں۔ ساری anatomy تقریباً ایک جیسی ہے۔ دماغ کی مقدار کے اندر تھوڑا سا فرق ہے۔ لیکن وہ فرق بھی کسی وجہ سے ہے، کیونکہ انسان کے ذمہ سوچ و فکر کے کچھ ایسے کام لگائے گئے ہیں کہ اس کے لئے زیادہ دماغ چاہئے تھا۔ لیکن باقی anatomy میں ایک جیسے ہیں۔ جانور کا بھی ایک ہی دل ہوتا ہے، جگر بھی ایک ہوتا ہے، اس طرح دوسری چیزیں ہیں۔ نفس کہتا ہے کہ جانور بن جاؤ، جانور جیسے کھانے پینے کی فکر کرتا ہے، تم بھی صرف یہی فکر کرو۔ جانور جیسے سونے کی فکر کرتا ہے، تم بھی یہی کرو۔ جانور جیسے جفتی کرتا ہے، تم بھی یہی کرو۔ اس حد تک آہستہ آہستہ ہم جانور پنے کی طرف بڑھ رہے ہیں، درمیان میں جو فرق تھے، وہ آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اور جانور کے درمیان جو فرق تھا، وہ نفس ختم کر رہا ہے۔ چنانچہ نفس کے تقاضے اور اللّٰہ تعالیٰ کے حکم میں clash ہے اور یہ clash رہے گی۔ البتہ اس clash کو دبایا جا سکتا ہے، دبانے کا حکم ہے، ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس دبانے کا نام تقویٰ ہے۔ جو شخص بھی اپنے نفس کو جتنا دبائے گا، وہ اتنا متقی بنے گا اور جتنا زیادہ تقویٰ ہو گا، اللّٰہ کے اتنا ہی قریب ہو گا۔ مجھے بتائیں کہ تصوف کے راستے کے بغیر نفس کو دبانے کا کون سا طریقہ ہے؟ مجاہدہ کون کراتے ہیں؟ در اصل یہی بنیادی چیز ہے، اللّٰہ پاک کے ہاں اس کی اتنی value تھی کہ اس کے لئے اللّٰہ پاک نے پوری سورت الشمس اتاری اور گیارہ قسمیں کھا کے ایک بات کی ہے کہ: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا 0 وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہو گا، جو اسے (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
ایک عالمِ ناسوت ہے۔ دوسرا عالمِ ملکوت ہے، جس میں نفس نہیں ہوتا۔ اس کے بعد ایک عالمِ جبروت ہے، جو اس سے اگلا stage ہے۔ پھر عالمِ لاہوت ہے، جہاں اللّٰہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
متن:
لیکن تجلی کا ایک دوسرا مقام ہے۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ نے اس کا اچھی طرح ذکر فرمایا ہے کہ سب سے پہلے سالک کا مقام اور اس کی ابتدا کی جگہ عالمِ ناسوت ہے، یعنی جب تک کہ تُو نفس کے ظاہری خرابات اور شراب خانے میں نفس کی سرزنش نہ کرے تو نفسانی خبائث سے گوہر ظاہر نہیں ہوں گے، جب یہ تمام خبائث دیکھو گے تو ہر ایک سے تبرا نہ کر سکو گے یعنی سب کو چھوڑ کر نفس کو نہ بچاؤ گے۔ اور جب تک تم خراباتِ ظاہری پر نفس کو آگاہ نہ کرو گے تب تک نفس کو پہچان نہ پاؤ گے کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ…" ”جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے خدا کو پہچانا“ ایک مشہور اصطلاح ہے۔ بیت
؎ ہر کہ بخرابات نشوی دینت
ز ہر آنکہ خرابات اصول دینت
’’جو بھی خرابات سے اپنے دین کو دھو نہ ڈالے، ہر اس چیز سے جو دین کی بنیادوں کو خراب کر دے‘‘۔
پس جب تم ناسوت کو قطعًا چھوڑو گے تو اس وقت ملکوت کے مقام کو پہنچ جاؤ گے۔
تشریح:
’’لَآ اِلٰہَ‘‘ یہ ناسوتی ذکر ہے۔ ’’اِلَّا اللّٰہُ‘‘ یہ ملکوتی ذکر ہے۔ ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ یہ جبروتی ذکر ہے۔ اور پھر ’’اَللّٰہ‘‘ یہ لا ہوتی ہے۔ یعنی ذکر کے یہ درجہ ہیں۔
متن:
اور یہ مقام تسبیح و تہلیل کا مقام ہے، اور ملائکہ کا مقام ہے جن کے کردار کی توضیح اللّٰہ تعالیٰ نے یوں فرمائی ہے کہ ﴿یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ﴾ (الأنبیاء: 20) ”یہ لوگ رات کو اور دن کو تسبیح کرتے ہیں اور یہ کوئی افترا پردازی نہیں کرتے“ اس کے بعد جب اس مقامِ ملائکہ سے ترقی کرو گے تو عالمِ جبروت کو پہنچ جاؤ گے، اور عالم جبروت انبیاء کا مقام و عالم ہے۔ اور انبیاء کا عالم محبت، عشق، شوق، ذوق، اُنس و نشاط ہے۔ اور جب اس عالمِ انبیاء سے ترقی کرو گے تو عالمِ لاہوت تک رسائی حاصل کرو گے اور یہ مقام حضرتِ رسالت کے ساتھ مخصوص ہے، اور حضرت رسالت کے بعض مخصوص ساتھیوں کے، جو کہ رسالت پناہ ﷺ کے قلب مبارک پر ہیں (ان کے ساتھ مخصوص ہے)۔ الغرض حضرت جبرئیل علیہ السلام عالمِ ملکوت سے تعلق رکھتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام عالمِ جبروت سے اور ملکوتی کا درجہ جبروتی سے ادنیٰ اور کم ہے، اور اعلیٰ کی التجا اسفل کو جائز نہیں، اس لئے ابراہیم علیہ السلام نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو جواب دیا: "أَمَّا إِلَیْکَ فَلَا…." (تفسیر القرطبی، رقم الصفحۃ: 400/5، دار الکتب المصریۃ القاہرۃ) کہ مجھے تم سے کوئی حاجت؟ نہیں کوئی حاجت نہیں۔ پس اے بھائی! مخلوقات تین قسم کی ہیں: ایک ملائکہ، دوم حیوانات، تیسری قسم انسان۔ اور انسان میں فرشتوں کی صفت ہے مگر فرشتوں میں انسان کی صفت نہیں ﴿وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِیْعًا...﴾ (الجاثیہ: 13) ”ہم نے تمہارے لئے آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے مسخر کیا ہے“ اسی طرح زہر آلود گوشت کھانے سے رسول اللّٰہ ﷺ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ کیونکہ رسول اللّٰہ ﷺ کا اندرون محبت کی سیر سے بھر پور تھا۔ اسی طرح ابو طیب حجام رضی اللّٰہ عنہ نے رسول اللّٰہ ﷺ کا خون نوش کر لیا اور تم جانتے ہو کہ خون کا پینا قطعًا حرام ہے۔
تشریح:
یہ حدیث شریف میں موجود ہے کہ آپ ﷺ نے سینگیوں سے جو اپنا خون نکالا تھا، وہ ایک صحابی کو دیا کہ جا کر اسے دبا دو۔ وہ صحابی چلے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد آ گئے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا آپ نے خون دبا دیا؟ صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا: جی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: کیسے دبایا؟ اب وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے، ڈرتے ڈرتے کہا کہ یا رسول اللّٰہ! وہ تو میں پی چکا ہوں۔ سبحان اللّٰہ! سارے مفتیوں کا Main source جہاں سے سارے فتوؤں کی جڑ نکلتی ہے، وہ آپ ﷺ ہیں، آپ ﷺ نے ان کو بشارت عطا فرما دی کہ جس کے جسم میں میرے جسم کا کوئی حصہ چلا گیا، اس پہ جہنم کی آگ حرام ہے۔ پس پتا چلا کہ یہ عشاق کا معاملہ ذرا الگ ہے۔ نظیریں موجود ہیں، لیکن غور کرنے کی بات ہوتی ہے۔ اور یہ چیزیں نظر بھی ان کو آتی ہیں، جن کو ان کی طلب ہوتی ہے۔ اور انہی پہ اللّٰہ تعالیٰ کھولتے ہیں، ورنہ ساری عمر پڑھتے پڑھاتے گزر جاتی ہے، لیکن ان چیزوں کا پتا نہیں ہوتا۔ پھر جب کسی ایسے شخص سے سنتے ہیں، تو آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں کہ یہ کیا ہے اور کیسے کہا ہے۔ ان کو دلیل بھی مل جاتی ہے، سب کچھ مل جاتا ہے۔
متن:
اور اس کے ثبوت میں دلیل قطعی جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کا یہ قول موجود ہے: ﴿إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الخِنْزِیْرِ…﴾ (البقرہ: 173) ”تحقیق تم پر مردار کھانا، خون اور سُور کا گوشت حرام کیا گیا ہے“ لیکن بایں ہمہ ابو طیب حجام رضی اللّٰہ عنہ کا کوئی مؤاخذه نہیں کیا گیا، کیونکہ ان کا اندرون سکرِ محبت سے مملو اور پُر تھا، اور فرمایا گیا ہے کہ "إِنَّ اللّٰہَ لَا یُوَاخِذُ الْعُشَّاقَ بِمَا یَصْدُرُ مِنْھُمْ" یعنی اللّٰہ تعالیٰ عشاق کے افعال و اقوال پر اُن کا مؤاخذہ نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے رسول اللّٰہ ﷺ نے ابو طیب حجام رضی اللّٰہ عنہ کو بشارت سنا دی کہ "حَرَّمَ اللّٰہُ جَسَدَہٗ عَلَی النَّارِ" (نسب المصنف ہذا القصۃ إلی أبی طیب و الصحیح أن شارب دم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان ابن الزبیر رضی اللّٰہ عنہ کما رواہ الدار قطنی فی سننہ بتغيير يسير: رقم الحدیث: 882) یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے جسم کو آگ پر حرام کیا۔
اے محبوب! دوسرا سکر، سکرِ مہابت ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ جناب سید المرسلین ﷺ کی چادر مبارک پکڑ کر سر اور چہرے پر ملتے ہوئے سرور عالم ﷺ کو منع کرتے تھے اور عرض کرتے تھے کہ اے رسول اللّٰہ ﷺ عبد اللّٰہ بن ابی جو کہ منافق تھا، کے جنازے پر تشریف نہ لے جائیں اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں کیونکہ وہ منافقوں میں سے ہے، لیکن رسول اللّٰہ ﷺ نے اس پر کوئی گرفت نہیں کی، حالانکہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے سخت بے ادبی کی تھی (بظاہر)۔
تشریح:
دین آپ ﷺ سے آیا ہے، حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے تو نہیں آیا، لہذا عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ آپ ﷺ سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یہ سکرِ مہابت ہے۔
متن:
کیونکہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کا اندرون سکرِ مہابت سے بھرا ہوا تھا۔ سکر کی تیسری قسم سکر حمیت ہے، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تورات لانے کے لئے قوم سے وعدہ فرمایا تھا اور کوہ طور تشریف لے گئے ﴿وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّأَتْمَمْنٰھٰا بِعَشْرٍ…﴾ (الأعراف: 142) ”ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تیس رات کا وعدہ کیا تھا اور پھر اس کو دس سے پورا کیا“ یہاں لیلۃ (رات) یعنی تیس راتوں کا وعدہ فرمایا تھا اس سے رات اور دن دونوں مراد ہیں لیکن یہاں دن نہ کہا، یہ کیوں نہ کہا؟ اس کا سبب یہ ہے کہ دوست کے ساتھ راز کی بات رات کو اچھی طرح کہی جاتی ہے۔
تشریح:
یہ وہی بات ہے، جیسے میں نے کہا کہ جن کو تلاش ہوتی ہے، ان کو ملتا ہے۔ ورنہ یہ باتیں پڑھتے پڑھاتے کتنے لوگ گزرے ہوں گے۔
متن:
چنانچہ رسول اللّٰہ ﷺ کو بھی نہایت محبت سے خطاب فرمایا گیا کہ ﴿قُمِ اللَّیْلَ…﴾ (المزمل: 2) ”رات کو اٹھیے“۔
؎ تَجِدْنِيْ فِيْ سَوَادِ اللَّیْلِ عَبْدِيْ
قَرِیْبًا مِّنْکَ فَاطْلُبْنِيْ تَجِدْنِيْ
”اے میرے عبد! رات کے اندھیرے میں مجھے اپنے قریب پاؤ گے، میری طلب کرو مجھے ضرور پاؤ گے“۔
اور اے میرے محبوب! تجلیات کا حصول تیری طلب پر موقوف ہے، کیونکہ تمہاری فطرت میں یہ سعادت موجود ہے کیونکہ تُم سب انوار کے مظہر ہو۔ چنانچہ مٹی کی صفت ظلمت تھی مگر انسان ذات و صفات کے نور کا مظہر ہوا کہ ﴿إِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا﴾ (الأحزاب: 72) اس کی صفت بیان کی گئی ہے۔
بیت ؎ از کفِ گل کاں وجود آدمی است
آنچناں خورشید پنھان کے شود
’’انسان کا وجود ایک مٹھی بھر مٹی ہے، اس مٹھی بھر مٹی میں ایسا سورج کیسے چھپا رہ سکتا ہے‘‘۔
ہاں تو اے میرے عزیز! تیس دن کا وعدہ تھا، آپ نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو اپنی قوم میں اپنے نائب اور خلیفہ کی حیثیت سے چھوڑ دیا کہ ﴿هٰرُوْنَ اخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِـعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ (الأعراف: 142) ”اے ہارون! میرا خلیفہ رہ میری قوم میں اور اصلاح کرتے رہنا اور مت چلنا مفسدوں کی راہ“۔ تیس دن کے بعد موسیٰ علیہ السّلام کی قوم نے ہارون علیہ السلام سے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام کو پہاڑ میں بھیڑیے نے مار ڈالا ہے۔ اور ہارون علیہ السلام کو اپنی جماعت سے باہر نکال دیا، اور گاؤ پرستی اختیار کی۔ جب موسیٰ علیہ السلام چالیس دن کے بعد واپس آ کر تورات لائے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی قوم گاؤ پرستی کر رہی ہے، تو اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچنا شروع کر دیا۔ ہارون علیہ السلام نے عاجزی سے کہا کہ ﴿یَا ابْنَ اُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْیَتِيْ وَلَا بِرَاْسِيْ﴾ (طٰہٰ: 94) ”اے میرے ماں جائے بھائی! مجھے سر اور داڑھی سے نہ پکڑو“ پس اے محبوب! ایک پیغمبر مرسل کا یہ فعل ایک دوسرے پیغمبر کے ساتھ کیسا ہے؟ لیکن صرف اسی وجہ سے موسیٰ سے کوئی مؤاخذہ نہیں کیا گیا کہ موسیٰ علیہ السلام کے اندر سکرِ حمیت تھا۔
تشریح:
بلکہ اس کے علاوہ یہ بھی تھا کہ تختیاں بھی پھینک دی تھیں۔ جیسے فرمایا گیا ہے:
﴿وَاَلْقَی الْاَلْوَاحَ﴾ (الاعراف: 150)
ترجمہ: ’’انہوں نے تختیاں پھینک دیں‘‘۔
متن:
"إِنَّ اللّٰہَ لَا یُؤَاخِذُ الْعُشَّاقَ بِمَا یَصْدُرُ مِنْھُمْ" کہ اللّٰہ تعالیٰ عاشقوں کو ان سے صادر ہونے والے افعال پر نہیں پکڑا کرتا۔ پس اے عزیز! شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ علمائے ظاہر جو کہ علم جبروت یعنی علمِ انبیاء علیہم السلام ہیں سے بالکل محروم ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ اِس قسم کا سکر انبیاء کے لئے جائز نہیں، کیونکہ یہ لوگ دعوت دینے کے مکلف ہیں اور وہ دعوت احکام شریعت کے لئے ہے، نہ کہ اس قِسم کی باتوں کے لئے۔ لہٰذا ان چیزوں میں ان کی اقتدا کرنا جائز نہیں۔ پس اے عزیز! علمائے ظاہر جو کہ بحر المعانی سے محروم ہیں، وہ یہ بات بھلا کہاں جانتے ہیں۔ جان لو کہ سکرِ محبت قاطع ہے اور سکرِ مہابت اور سکر محبت مقام اعتراف میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت موسٰی علیہ السلام سے سکر مہابت و حمیت واقع ہوا تو حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے عرض کیا کہ "یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: ﴿اَلْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ﴾ فَقَالَ: یَا عُمَرُ عَفَوْتُ عَنْکَ" ”اے اللّٰہ کے رسول! اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وہ لوگ جو غصے کو پی جاتے ہیں، اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں“ رسول اللّٰہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تم کو معاف کیا“ (لم أجد ہذا الحدیث) اور اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ نے جب ایسا کام حضرت ہارون علیہ السلام سے کیا تو اللّٰہ سے سوال کیا کہ ﴿رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَلِأَخِيْ...﴾ (الأعراف: 151) ”اے میرے رب مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما“ پس اے محبوب! سکرِ حمیت، غفلت اور حیرت کی منزل میں ہے، جیسا کہ شراب کے نشے میں ہوتا ہے۔ شراب کے پینے سے مستی اور نشہ مُراد نہیں بلکہ انہیں پینے والے کا نشاط اور سرور و ذوق مراد ہوتا ہے۔
تشریح:
اللّٰہ کا شکر ہے کہ اس نے ایک علم دماغ میں ڈال دیا ہے۔ نماز کے اندر اگر کسی کو دنیا کاخیال آ جائے، تو اس سے نماز کی value کم ہو جاتی ہے، کیونکہ یہ تاریکی ہے، ظلمت ہے۔ اور اگر اسے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اونچا خیال آ جائے اور اس کی وجہ سے کوئی چیز بھول جائے، جیسے آپ ﷺ کا سہو تھا، کیونکہ آپ ﷺ کا سہو دنیا کے خیال کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ اس سے اوپر کی چیز کی طرف تھا، جس سے آپ ﷺ کو سہو ہو گیا۔ اور یہ تو ایک مقام ہے۔ اسی طرح اگر نفس کی وجہ سے کوئی غصہ ہو جائے، یا کوئی بے ترتیبی ہو جائے، بے اصولی ہو جائے، تو اس پہ پکڑ ہے۔ اور اگر اللّٰہ کے لئے ایسا ہو جائے، تو یہی سکر ہے۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی محبت میں ایسے مست ہو جاتے ہیں کہ وہ احکامات ان کو مستحضر نہیں رہتے اور ساری توجہ اللّٰہ کی طرف ہوتی ہے، لہذا وہ اس چیز کی طرف نہیں سوچ پاتے۔ چونکہ یہ بہت اعلیٰ چیز کے لئے ہوا ہے، لہٰذ اس پر اللّٰہ تعالیٰ دیتے ہیں۔ بہر حال! عشاق کی بات چونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ہوتی ہے، لہذا اس پر اللّٰہ پاک نوازتے ہیں۔ یہ وہ stage ہے، جو Second category کو سمجھ نہیں آ سکتی۔ یہ جو علماء ظاہر کی بات کر رہے ہیں، وہ Second category کی بات کر رہے ہیں، ورنہ حضرات علماء کے مخالف نہیں ہیں۔ ’’إِنَّ الْعُلَمَآءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَآءِ‘‘ (ابوداؤ، حدیث نمبر: 3641)
ترجمہ: ’’بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں‘‘۔
لیکن جو انبیاء کے صرف ظاہر کے وارث ہیں، وہ بھی علماء ہیں، اور جو علماء کے باطن کے بھی وارث ہیں، وہ بھی علماء ہیں۔ مگر کون آگے ہے؟ وہ جو انبیاء کے باطن کے بھی وارث ہیں۔ یعنی انبیاء جیسی خشوع و خضوع والی، اخلاص والی، عاجزی والی نماز۔ روزہ تقویٰ والا۔ ویسے حکماً تو تین چیزوں سے رکنے سے بھی روزہ ہو جاتا ہے۔ تین چیزوں سے ظاہر میں تو روزہ پورا ہو گیا۔ لیکن جو اور چیزیں بھی ساتھ ہیں، وہ تو نہیں رہیں۔ لوگ اس کو بڑا مشکل سمجھتے ہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ آسان ہے، اللّٰہ تعالیٰ کرے کہ سمجھ میں آ جائے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے اس کے قول سے ان شاء اللّٰہ یہ ثابت ہو جائے گا۔ حضرت فرماتے ہیں: تین قسم کے لوگ ہیں۔ پہلے اخیار لوگ ہیں۔ اخیار وہ لوگ ہیں، جو اپنی قوتِ ارادی کے ساتھ خیر کا علم حاصل کر کے اس کو لیتے ہیں اور شر کا علم حاصل کر کے اس سے بچتے ہیں۔ یہ حضرات واقعتاً نوازے جائیں گے، ان شاء اللّٰہ۔ دوسرے حضرات ابرار ہیں، ابرار وہ لوگ ہیں، جو کسی بزرگ سے بیعت کر کے ان کی بات ماننے میں قوتِ ارادی صرف کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بس یہاں کی بات آگے پیچھے نہیں ہو گی، ان کی بات مانوں گا۔ یہ چونکہ شیخ کے حکم پہ چلتے ہیں، لہذا باقی ساری باتیں اس میں آ جائیں گی۔ لیکن ان کو قوتِ ارادی صرف اس میں لگانی ہوتی ہے کہ میں نے اپنے شیخ کی بات ماننی ہے۔ گویا عملی لحاظ سے ایک ہی بات ہو گئی، کیونکہ شیخ بھی شریعت پہ چلاتا ہے، لیکن دو چیزیں extra مل گئیں، جو اس پہلے والے کے پاس نہیں ہیں۔ ایک سلسلہ کی برکت اور دوسرا شیخ کا تجربہ۔ لہٰذا برکت اور تجربہ سے چیز آسان ہو جائے گی۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ لوگ ترقی میں ان سے زیادہ تیز ہیں۔ تیسرے لوگ شطاریہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو شیخ کی محبت میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ یہ لوگ شیخ کی محبت میں شیخ کی پیروی کرتے ہیں اور تلاش میں رہتے ہیں کہ کسی طریقے سے شیخ مجھے کہہ دے، تو میں اس پہ عمل کر لوں۔ فرمایا کہ محبت کی وجہ سے ان کو بہت تیز ترقی ہوتی ہے، کیوں کہ ان کو قوتِ ارادی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگرچہ اپنے شیخ کو follow کرنے میں قوتِ ارادی تو استعمال کرنی چاہئے تھی، لیکن ان کو چونکہ شیخ کے ساتھ محبت ہے، لہذا جن کو محبت ہو گی، ان کو کہنا نہیں پڑے گا۔ وہ خود ہی دوڑ دوڑ کے آئیں گے کہ کسی طریقے سے مجھے کچھ کام بتا دیا جائے تاکہ میں کر لوں۔ اب ان کو ترقی زیادہ ہو گی یا دوسری category کو؟ شیخ والے تو دونوں ہیں، لیکن ایک شیخ والے وہ ہیں، جو شیخ کی محبت رکھتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں، جن کا ویسے ہی سرسری تعلق ہے۔ اور پھر جن کے پاس شیخ ہی نہیں ہے۔ جو تیسری category میں ہیں، حضرت فرماتے ہیں کہ سب سے آسان طریقہ یہ ہے۔ اب جن کو محبت حاصل ہو چکی ہو گی، ان کے لئے دین پر چلنا آسان ہے یا جن کو حاصل نہیں ہو گی، ان کے لئے آسان ہے؟ جس طرح ابتدا میں مجاہدہ مشکل ہوتا ہے، بعد میں آسان ہو جاتا ہے، بلکہ بعد میں ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ جب مجاہدہ کر کر کے انسان آگے بڑھتا ہے، تو اس کو مجاہدہ کی ضرورت مسلسل کم پڑتی جاتی ہے، اور آخر میں ختم ہو جاتی ہے۔ جو چیز اس کے لئے مجاہدہ کی تھی، وہ مجاہدہ کی نہیں رہی۔ اسی طرح محبت ابتدا میں حاصل کرنا مشکل ہے، لیکن جب حاصل ہو جائے، تو پھر اپنے مطلوب کو حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے۔ پس یہ حضرات ہمیں اس طرف لا رہے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کرے کہ ہم سب کو یہ بات سمجھ آ جائے اور اللّٰہ کی محبت سے سب مالا مال ہو جائیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ