اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات پر مشتمل کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ جو حضرت کے صاحبزادہ حلیم گل بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ نے لکھی ہے، اس سے تعلیم جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے جہاں چُھوڑا تھا، وہاں سے آگے بڑھتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا:
متن:
پس صحیح ترین مذہب یہی ہے جو کہ شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بیان فرمایا ہے اور فقہاء اور ائمہ کرام کا یہی عقیدہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں اطلاع دی کہ ﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ...﴾ (الإسراء: 85) اور اسی وقت اِس کی قدامت کی نفی فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) ”فرما دیجیے کہ روح امر ربی سے ہے“ اور امر ربی مخلوق اور حادث کے لئے آتا ہے، پس جو کچھ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہم اُسی کا اقرار کرتے ہیں اور اُس کی کیفیت سے سروکار نہیں رکھتے، کہ کیا ہے؟ اور کہاں و کیسی ہے؟ کیونکہ روح کے صانع اور بنانے والے نے ہمیں اُس کی موجودگی کی خبر تو دے دی مگر اس کی کیفیت اور ماہیت کی اطلاع نہیں دی۔ یہاں تک کہ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں سے ایک مخلوق کو پیدا فرمایا ہے جو کہ روح ہے مگر اس کی کیفیت کی کسی کو اطلاع نہیں دی کہ کیا ہے اور کہاں ہے؟ یہاں تک کہ مخلوق اُس کی ماہیت جاننے سے عاجز ہوئی، اور یہ اس لئے کہ یہ لوگ سمجھ جائیں کہ جب بنی بنائی ہوئی چیز کو اُس کے تعارف و تعریف کے بغیر (جو کہ خالق نے نہیں کی ہے) نہیں جان سکتے تو اس کے بنانے والے خالق و صانع کو اس کی تعریف کے بغیر کیسے جان سکیں گے؟ اور مولانا روم صاحب اور دیگر بزرگان بھی یہی اور ایسا ہی فرماتے ہیں۔ اور جو لوگ روح کے قدیم ہونے اور اس کی قدامت کے قائل ہیں، یہ دلیل لاتے ہیں کہ روح اللّٰہ تعالیٰ کے امر سے ہے اور اللّٰہ کا امر اللّٰہ کا کلام ہی ہے اور اللّٰہ کا کلام غیر مخلوق ہے، لیکن یہ دلیل غلط ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) ”کہہ دیجیے کہ روح اللّٰہ تعالیٰ کے امر سے ہے“ اور اگر روح خود امر ہوتی ہے تو اللّٰہ تعالیٰ فرماتا جو کہ نہیں فرمایا کہ "قُلِ الرُّوْحُ أَمْرُ رَبِّيْ" (الإسراء: 85)۔ اس سے روح کا وجود تو ثابت ہو گیا لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا کہ روح رب کے امر سے ہے لیکن امر نہیں ہے۔ اِن کی اس دلیل سے تو پھر یہ ثابت ہوتا ہے کہ روح مخلوق نہیں، کیونکہ یہ امر سے ہے تو پھر تمام کائنات ہی امر سے ہے جو کہ امر تکوین ہے۔ چنانچہ "کُنْ فَیَکُوْنُ" سے فراز عرش سے لے کر تحت الثری تک اور ازل سے ابد تک تمام اشیاء محدثات یعنی مخلوق و حادث ہیں اور "کُنْ فَیَکُوْنُ" کی وجہ سے تمام بنی ہوئی اشیاء حادث ہیں اور قدیم ہرگز نہیں۔ پس یہ بات محال اور ناممکن ہے کہ روح جو کہ امر ربی سے ہے قدیم ہو سکے۔ اور اس بحث کی تفصیل شیخ شرف منیری کے رسالے میں بہت تفصیل سے تھی جو کہ مختصر بیان کی گئی۔
انسانیت کی حقیقت میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہے کہ انسان کا لفظ کیوں اور کیسے پڑ گیا اور اس کا جاننا سب پر فرض ہے کہ جب خود سے جاہل ہوتا ہے تو بغیر خود کے بارے میں جانے دوسری چیزوں سے زیادہ جاہل ہو گا۔ اور پہلے نفس کی معرفت کا ذکر کیا گیا، یہاں انسان کا لفظ زیر بحث آیا ہے۔ پس بعض لوگ کہتے ہیں کہ انسان روح کے علاوہ کچھ نہیں اور یہ غلط ہے، کیونکہ روح صورت کے قالب میں ہے اور بغیر قالب کے اس کو انسان نہیں کہتے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ انسان کا لفظ روح و قالب کے مجموعہ پر منطبق ہے جیسا کہ کسی گھوڑے میں دو رنگ جمع ہو جاتے ہیں ایک کالا رنگ اور دوسرا سفید رنگ تو اس گھوڑے کو ابلق یعنی چتکبرا کہتے ہیں۔ اور صوفیوں کی ایک جماعت یہ خیال کرتی ہے کہ انسان آکل و شارب یعنی کھانے والا اور پینے والا نہیں اور تغیّر و تبدل کا موقع مقام بھی نہیں رکھتا کہ یہ بات اللّٰہ تعالیٰ کا ایک راز ہے اور یہ جسد اور جسم اس کا ایک طلسم ہے۔ اور ایک گروہ کہتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے سب عناصر اور جو کچھ کہ اس میں ہے میں مرکب فرمایا ہے اور اس کو قرآن مجید میں انسان کہا ہے پس اللّٰہ تعالیٰ کے قول کے مطابق جو کہ "أَصْدَقُ الْقَائِلِیْنَ" ”سب سے زیادہ سچا ہے“ ہم کو اعتقاد رکھنا چاہئے۔ پس مختصرًا یہ بات جان لیجیے کہ ایک کامل انسان کی ترکیب تین معنوں میں ہوتی ہے: ایک روح، دوسرا نفس اور تیسرا جسم؛ اور لوگ کل عالم کا ایک نمونہ ہیں اور عالم دونوں جہانوں کو کہتے ہیں اور وہ دونوں جہاں انسان کے اندر ہیں۔ یہ جہان پانی، مٹی، ہوا اور آگ (عناصر اربعہ) سے ترکیب ہوئے ہیں، اور وہ بلغم، خون، صفراء اور سوداء (اخلاط اربعہ) سے۔ اور اس جہان کی نشانی جنت دوزخ اور عرصات ہیں۔ پس روح لطافت کی جگہ اور مقام پر جنت میں اور نفس وحشت اور آفت کی وجہ سے دوزخ اور جسم عرصات کے مقام پر ہوتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ مؤمن کی روح اُس کو جنت کی جانب بلاتی ہے اور نفس اس کو دوزخ کی طرف بلاتا ہے اور جسم عرصات کی طرف کہ دنیا میں اس کا نمونہ ظاہر ہوتا ہے۔ بعض طالبان صادق نے نفس کو خنزیر کی شکل میں دیکھا ہے اور بعض نے لومڑی کے بچے کی شکل میں۔ بعض نے پیلے رنگ والے کتے کی شکل میں اور بعض نے چوہے کی صورت میں دیکھا ہے۔ پس نفس کو پہچاننا چاہئے اور ریاضت اور محنت سے اس کی پہچان ہو سکتی ہے لیکن ریاضت سے اس کی اصلی ماہیت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ اور جب اس کی پوری شناخت ہو جائے یعنی نفس کو اچھی طرح سے پہچانا جائے تو طالبوں کا تابعدار اور پابند ہو جاتا ہے۔ چنانچہ کہا گیا ہے کہ ﴿اَلنَّفْسُ کَلْبٌ وَّإِمْسَاکُ الْکَلْبِ بَعْدَ الرِّیَاضَۃِ مُبَاحٌ﴾ یعنی نفس ایک کتا ہے اور ریاضت کے بعد کتے کو پالنا مباح ہے۔ یعنی جب نفس تابع ہو جائے تو اس کا پالنا مباح ہے، مگر اس کی تادیب مشکل ہے اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و عنایت اور پیر مشفق کی تربیت کے بغیر یہ ہاتھ نہیں آتا۔
تشریح:
حضرت نے روح کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جنید رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ چونکہ اللّٰہ پاک نے اس کی تفصیل نہیں بتائی، لہذا ہمیں بھی اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہئے۔ اور ساتھ ہی اس کی قدامت کی نفی بھی فرمائی کہ یہ قدیم نہیں، حادث ہے۔ یعنی اللّٰہ پاک نے اس کو پیدا فرمایا ہے۔ تو جس چیز کو اللّٰہ تعالیٰ پیدا فرمائے، جیسے کائنات کو پیدا فرمایا ہے، تو کائنات حادث ہے، اسی طرح روح کو بھی پیدا فرمایا ہے، تو یہ بھی حادث ہے، قدیم نہیں ہے۔ پس ہمیں بھی اس کا اقرار کرنا چاہئے اور اس کی کیفیت کے بارے میں ہم کھوج نہیں لگاتے کہ وہ کیا ہے اور کیسی ہے۔ کیونکہ روح کے صانع اور بنانے والے نے ہمیں اس کی موجودگی کی خبر تو دی ہے، مگر اس کی کیفیت اور ماہیت کی اطلاع نہیں دی۔ یہاں تک بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں سے ایک مخلوق کو پیدا فرمایا ہے، جو کہ روح ہے، مگر اس کی کیفیت کی کسی کو اطلاع نہیں دی کہ کیا ہے اور کہاں ہے، یہاں تک کہ مخلوق اس کی ماہیت جاننے سے عاجز ہو گئی۔ حضرت نے فرمایا کہ اس میں سمجھنے کا علمی نکتہ یہ ہے کہ جب روح، جو کہ ہمارے اندر ہے، اس کو ہم نہیں جان سکتے، چونکہ اس کے بارے میں بتایا نہیں گیا، تو پھر خالق کہ جس کے ہم پیدا کئے ہوئے ہیں، ان کے بارے میں کیسے جان سکتے ہیں؟ یہ انہوں نے اس سے تشریحی نکتہ نکالا ہے۔ چونکہ اس قسم کے مسائل اور حقائق میں محققین کا اختلاف ہو سکتا ہے، جس طرح فقہاء کا اختلاف ہے، یا بعض دفعہ حدیث شریف کے تعین میں محدثین کا اختلاف ہو جاتا ہے۔ یہ اختلاف علمی طور پر ہوتا ہے اور کشفی طور پر بھی اختلاف ہوتا ہے۔ لہذا ہم اختلاف میں تو نہیں پڑیں گے، کیونکہ ہر طرف ہمارے مشائخ اور ہمارے اکابر ہیں۔ البتہ ہم ان سب حضرات کی تحقیق کو بغیر کسی تبصرہ کے سامنے لا سکتے ہیں۔ مثلاً: ایک شیخ جنید رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحقیق ہے، جو حضرت نے بیان فرمائی ہے۔ دوسری حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے تحقیق فرمائی ہے۔ ان کے پاس جو دلیل ہے، وہ بڑی زبردست ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ: ﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) کے بعد والا جو حصہ ہے: ﴿وَمَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ (الإسراء: 85) کہ تمہیں اس کا بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے، فرمایا کہ عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس بارے میں جو فرمایا ہے، اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ در اصل روح کے متعلق پوچھنے والوں کو یہ کہا گیا کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ کیونکہ پوچھنے والے یہودی تھے، تو یہودیوں کو کہا گیا کہ تمہیں اس کا تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ لہذا اس سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ جو اللّٰہ والے ہیں، مومنین ہیں، ان کے اوپر یہ چیز منکشف ہو سکتی ہے۔ حضرت نے اس بارے میں یہ تحقیق بیان فرمائی اور پھر ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ﴾ (الإسراء: 85) سے حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے یہ نکتہ نکالا کہ چونکہ یہاں فرمایا کہ روح میرے رب کے امر سے ہے، تو جو رب کا امر نہیں مانے گا، اس پہ یہ بات کیسے کھلے گی۔ یہ چیز اسی پہ کھلے گی، جو رب کے امر کو مانتا ہو۔ چونکہ حضرت نے اس کی بڑی تفصیلات بیان فرمائیں ہیں۔ ان تفصیلات کے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ لطائف روح سے تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ یہ روحانی چیزیں ہیں، جسم سے متعلق نہیں ہیں، اس لئے لطائف کی تحقیق روح کی تحقیق کے ساتھ منسلک ہے۔ اگر روح کی تحقیق نہ کی جا سکے، تو لطائف کی تحقیق بھی نہیں ہو سکتی۔ اور لطائف ابوابِ تربیت میں سے ہیں، یعنی تربیت کا ذریعہ ہیں۔ چنانچہ اگر لطائف کی تحقیق نہیں ہو گی، تو ابوابِ تربیت کی تحقیق بھی نہیں ہو گی، اس لئے کافی مشکل بن جائے گی۔ اسی لئے حضرت اس کے قائل ہیں کہ روح کے بارے میں کشفی توجیہات ہو سکتی ہیں۔ چونکہ اس کے متعلق شریعت میں کچھ نہیں بتایا گیا، لہٰذا روح کے بارے میں جاننے کی شریعت میں ضرورت نہیں تھی۔ اور شریعت چند اعمال اور چند عقائد کا نام ہے۔ چنانچہ جو عقائد نصوص سے ثابت ہیں، وہی عقائد رکھنے ہیں، اسی طرح نصوص سے جو اعمال ثابت ہیں، وہ اعمال کرنے ہیں۔ ان اعمال کو صحیح طریقے سے کرنے کے لئے طریقت ہے، تاکہ ہمارے نفس کی اصلاح ہو جائے اور ہم صحیح کام کر سکیں۔ اور اس کے بعد جو حقائق کھلتے ہیں، یہ طریقت کا ایک output بھی ہے اور ایک ضرورت بھی ہے۔ output اس لحاظ سے ہے کہ طریقت کے بعد حقیقت کھلتی ہے کہ جب انسان کا نفس مہذب ہو جاتا ہے اور قلب روح بن جاتا ہے، عقل سِر بن جاتی ہے، تو ملاءِ اعلیٰ سے ان کے اوپر انکشافات ہونے لگتے ہیں۔ لہذا حقیقت کا کھلنا طریقت کا output ہے۔ لیکن طریقت کی ضرورت بھی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ یہاں بڑی عجیب بحث فرماتے ہیں۔ حضرت نے اس میں ارشاد فرمایا ہے کہ متقدمین حضرات لطیفۂ جوارح بیدار کرتے تھے۔ لطیفۂ جوارح ہمارے جوارح (اعضاءِ جسمانی) سے بنا ہوا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اس وقت جوارح کے لطائف فنا ہوتے تھے اور ظاہر اور باطن کے درمیان فرق نہیں ہوتا تھا۔ ان کا مزاج یہ تھا کہ اگر کوئی مخالفت کرتا، تو کھل کے مخالفت کرتا تھا، موافقت کرتا تھا تو موافقت کر رہا تھا۔ لہذا جوارح ان پہ نافذ ہو جاتے تھے۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام اور تابعین نے لطیفۂ جوارح سے کام لیا، چونکہ ان کے ظاہر اور باطن میں فرق نہیں تھا۔ اس لئے جب ان کا ظاہر درست ہوتا تو باطن بھی درست ہو جاتا۔ لہذا ان کو ضرورت پیش نہیں آئی، بعد میں اس کی ضرورت پیش آئی۔ کیونکہ اب وہ معاملہ نہیں ہے۔ کیونکہ اگر کسی کا ظاہر درست ہو بھی جائے، لیکن اس کا باطن درست نہ ہو تو وہ نفاق میں چلا جاتا ہے۔ اسی لئے حضرت نے فرمایا کہ اب چونکہ اس کی ضرورت ہے، لہذا اس کے جاننے کی بھی ضرورت ہو گی۔ پس متاخرین کو جو لطائف کا علم ملا ہے، یہ اللّٰہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، کیونکہ اس کے ذریعے ہمیں اللّٰہ تعالیٰ نے تربیت کے راستے دے دیئے۔ شیخ جنید رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی متقدمین میں سے ہیں، اور ان کو اس وقت ضرورت نہیں تھی، لیکن متاخرین حضرات، جیسے: حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ، شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ، سید احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ، انہوں نے اس پر بڑا کام کیا ہے۔ گویا یہ ضرورت کی بنیاد پر ہوا ہے۔ اور ان حضرات نے روح کی کشفی توجیہات کی ہیں۔ جیسے لطائف بذاتِ خود کشفی ہیں، کیونکہ کسی کتاب میں یہ نہیں ہے کہ فلاں لطیفہ فلاں جگہ ہے اور فلاں لطیفہ فلاں جگہ ہے۔ یہ کشفی چیزیں ہیں۔ اس طرح ان کی روحانی توجیہات بھی کشفی ہیں۔ لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہئے۔ جیسے سائنس دان حضرات ہیں، ان کے بعض علوم direct ہوتے ہیں، بعض indirect ہوتے ہیں۔ indirect علوم کا آپس میں وہ analysis کرتے ہیں، اس analysis سے پھر وہ صحیح اور غلط معلوم کرتے ہیں۔ جیسے: سولر سسٹم کا کوئی وزن نہیں کر سکتا ہے کہ سورج کا کتنا وزن ہے، زمین کا کتنا وزن ہے، مریخ کا کتنا وزن ہے، مشتری کا کتنا وزن ہے۔ لیکن ان کے وزن ہو چکے ہیں، ان کا volume بھی معلوم ہے، ان کا وزن بھی معلوم ہے۔ ان کی gravity بھی معلوم ہے۔ اور یہ ساری چیزیں indirect معلوم ہوئی ہیں۔ وہاں کوئی جا نہیں سکتا، سورج کے پاس کوئی جا نہیں سکتا۔ لیکن یہ ساری چیزیں معلوم ہیں اور ان کی اتنی تفصیلات معلوم ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ یہ کیسے ہوئی ہیں۔ یہ سب Indirect knowledge ہے۔ لیکن یہ Indirect knowledge اس حد تک accurate ہے کہ سولر سسٹم کے جو آخری planets ہیں، وہ سب calculation کے ساتھ discover ہوئے ہیں۔ ان کو calculate کیا کہ چونکہ سولر سسٹم balance نہیں ہے، اس لئے ضرور کوئی planet اس کو balance کرنے کے لئے ہو گا، یہ پورا نظام نہیں ہے، اس کے اندر کچھ اور بھی ہے، لہذا وہ دریافت ہو جاتا۔ حتیٰ کہ آخری سیارہ پلوٹو جو دریافت ہوا تھا، اس میں بڑی عجیب بات ہوئی کہ ایک صاحب نے باقاعدہ mathematically calculation کی اور اس نے جگہ بھی بتا دی کہ فلاں coastlation کے اندر دیکھو، وہاں اتنی magnitude کا ایک سیارہ نظر آئے گا۔ جب دور بین کو اس طرف کیا گیا، تو واقعی پلوٹو مل گیا۔ وہ دیکھنے میں اتنا باریک تھا کہ جو مشین ستارے گننے کے لئے بنائی گئی تھی، وہ نہ ہوتی، تو دریافت ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ اللّٰہ اپنی قدرتوں کو ظاہر کرتے ہیں اور اس کے لئے کافروں کو بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ دیکھئے! اس سولر سسٹم کا balance اور Out of balance ہونا اور تمام چیزیں indirect ہیں۔ پس اگر ہم یہ چیزیں indirect کر سکتے ہیں، تو اسی طرح ہمیں اپنے لطائف جو کشفی طور پر معلوم ہیں، ان کے analysis سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس کے اثرات کیا کیا ہوں گے اور کس طریقے سے ہوں گے۔ اور وہ ساری چیزیں ٹھیک آتی ہیں۔ چنانچہ جس طرح سائنس Indirect knowledge اختیار کرتا ہے اور وہ observation اور experiments سے ہوتا ہے، اسی طرح یہاں کشف اور معرفت کے ذریعے سے تمام کام ہوتے ہیں۔ اور اس کے باقاعدہ analysis بھی ہیں۔ تو حضرت نے یہ جو ترتیب بیان فرمائی ہے، اس میں انہوں نے جن بزرگوں کے نام لئے ہیں، ان کی تحقیقات یہی ہیں۔ شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بعد ہیں۔ یعنی حلیم گل بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ کی عمر کے لحاظ سے دیکھیں، تو یہ مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حضرت شاہ ولی اللّٰہ کے تقریباً درمیان میں ہیں۔ گویا حضرت مجدد صاحب کے آخری دور میں ہیں اور شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ سے پہلے ہیں، اس لئے شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحقیقات تو کم از کم ان تک نہیں پہنچی تھیں۔ شاید مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحقیقات ان تک پہنچی ہوں گی۔ لیکن حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحقیقات ان تک نہیں پہنچیں، لہذا اس وقت ان حضرات کے پاس جو Available knowledge تھا، اس کے لحاظ سے یہ باتیں بالکل صحیح ہیں۔ اور ویسے بھی یہ ہمارے اکابر ہیں، انہوں نے جو تحقیق کی ہے، چونکہ وہ کشفی ہے، اس لئے ہم اس کو نہ غلط کہہ سکتے ہیں اور نہ یہ جرأت ہے۔ البتہ دوسرے حضرات نے جو کہا ہے، اس کو بھی ہم بیان کر سکتے ہیں۔
متن:
مولانا روم صاحب اور دیگر بزرگان بھی یہی اور ایسا ہی فرماتے ہیں۔ اور جو لوگ روح کے قدیم ہونے اور اس کی قدامت کے قائل ہیں، یہ دلیل لاتے ہیں کہ روح اللّٰہ تعالیٰ کے امر سے ہے اور اللّٰہ کا امر اللّٰہ کا کلام ہی ہے اور اللّٰہ کا کلام غیر مخلوق ہے، لیکن یہ دلیل غلط ہے۔
تشریح:
یہ واقعتاً غلط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہے اللّٰہ پاک کا کلام، جیسے قرآن ہے، یہ مخلوق نہیں ہے، وہ اللّٰہ کا کلامِ ذاتی ہے۔ لیکن یہاں یہ نہیں فرمایا کہ میرا امر ہے۔ بلکہ فرمایا کہ میرے امر سے ہے: ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ﴾ (الإسراء: 85) یعنی میرے امر کے ذریعے سے وجود میں آئی ہے۔ جیسے: بعض لوگ غلط طور پر کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اللّٰہ کے نور سے پیدا ہوئے ہیں اور اللّٰہ کا نور تو ذاتی ہے۔ بلکہ اللّٰہ پاک کی طرف نور کی تشبیہ نہیں کی جا سکتی، کیونکہ نور تو مخلوق ہے۔ بلکہ اگر کسی کو کشف میں یا تصور میں نور نظر آیا اور وہ اس کو اللّٰہ سمجھے، تو اس کو نفی کرنی پڑے گی کہ یہ اللّٰہ نہیں ہے۔ لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ کی طرف نور کی نسبت نہیں کی جا سکتی۔ ﴿اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ (النور: 35) اس آیت کا علماءِ کرام نے جو مفہوم بتایا ہے، وہ یہ ہے کہ اللّٰہ جل شانہ نے اس کائنات کو منور کیا ہے، یعنی کائنات کو منور کرنے کا جو نظام ہے، اس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالٰی نظر آ گئے، ورنہ تو چھپے ہوتے۔ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں فرمایا: ﴿لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌ﴾ (الشوریٰ: 11)
ترجمہ: ’’کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے‘‘۔
لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ کے لئے کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔ ان لوگوں نے اس سے یہ نظریہ نکالا ہے کہ اللّٰہ پاک نے آپ ﷺ کو اپنے نور سے پیدا کیا، تو چونکہ اس میں اللّٰہ پاک کی طرف اضافت ہے، اس لئے اللّٰہ پاک کے نور کو ساتھ شامل کیا کہ جیسے اللّٰہ کا نور ہے، اسی طرح آپ ﷺ بھی ہیں۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ ہاں یہ بات ہے کہ اللّٰہ پاک نے خاص طور پر آپ ﷺ کے لئے جو نور پیدا فرمایا، اس سے مخلوق کو پیدا فرمایا ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے آپ ﷺ کے نور کو بنایا گیا ہے، پھر اس سے باقی تمام کائنات کو پیدا کیا گیا۔ جیسے حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا کلام ہے:
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقشِ روئے محمد بنایا گیا
پھر اسی نقش سے مانگ کر روشنی بزمِ کون و مکاں کو سجایا گیا
بہر حال! ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ﴾ (الإسراء: 85) سے مراد یہ ہے کہ جو اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا، اس کے ذریعے سے روح وجود میں آئی۔ مگر اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ کیونکہ ان تفصیلات کی شریعت میں ضرورت نہیں تھی۔ اور شریعت عام ہے، حقائق عام نہیں ہیں۔ جو حقائق کو نہیں جانتا، وہ مسلمان ہو سکتا ہے، اور جو شریعت کو نہیں مانتا، وہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔ لیکن جو شریعت کو مانتا ہے، اس پہ عمل کرتا ہے، لیکن اس کو حقائق کا پتا نہیں ہے، تو وہ مسلمان ہے، کیونکہ حقائق ہر ایک کے لئے نہیں ہیں۔ اول تو ہر ایک کی ضرورت نہیں اور ہر ایک کو مل بھی نہیں سکتے۔ جو چیز خاص ہو، اس کو عام پر نہیں لگایا جا سکتا۔ خاص چیز خاص کے لئے ہوتی ہے، اس لئے حقائق خاص لوگوں کے لئے ہیں۔ اور شریعت عام لوگوں کے لئے ہے۔ چونکہ حقائق عوام کے لئے نہیں ہیں، لہٰذا اللّٰہ جل شانہ نے اس کا مطالبہ بھی نہیں رکھا اور اس کے لئے تفصیلات کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اور جو خواص ہیں، ان کو اللّٰہ تعالیٰ نے دوسرے ذرائع دیئے ہیں، وہ اپنے ذرائع سے ان کو لے لیتے ہیں۔ جیسے میں نے تفصیل بتائی ہے کہ خواص نے کشفی ذرائع سے ان تک رسائی کی ہے۔ آگے فرمایا کہ: کیونکہ یہ امر سے ہے، تو پھر تمام کائنات ہی امر سے ہے جو کہ امرِ تکوین ہے) کیونکہ ’’کُنْ فَیَکُوْنُ‘‘ فرمایا ہے۔ تو اگر امرِ ربی ہونے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مخلوق نہیں ہے، تو پھر تو یہ کائنات بھی امر سے ہے، لہذا یہ بھی مخلوق نہیں ہے۔ حالانکہ سب اس کو حادث کہتے ہیں۔ لہذا یہ بھی حادث ہے۔ آگے فرمایا کہ:
متن:
"کُنْ فَیَکُوْنُ" کی وجہ سے تمام بنی ہوئی اشیاء حادث ہیں اور قدیم ہرگز نہیں۔ پس یہ بات محال اور ناممکن ہے کہ روح جو کہ امر ربی سے ہے قدیم ہو سکے۔ اور اس بحث کی تفصیل شیخ شرف منیری کے رسالے میں بہت تفصیل سے تھی جو کہ مختصر بیان کی گئی۔
انسانیت کی حقیقت میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہے کہ انسان کا لفظ کیوں اور کیسے پڑ گیا اور اس کا جاننا سب پر فرض ہے کہ جب خود سے جاہل ہوتا ہے تو بغیر خود کے بارے میں جانے دوسری چیزوں سے زیادہ جاہل ہو گا۔ اور پہلے نفس کی معرفت کا ذکر کیا گیا، یہاں انسان کا لفظ زیر بحث آیا ہے۔ پس بعض لوگ کہتے ہیں کہ انسان روح کے علاوہ کچھ نہیں
تشریح:
مثلاً: جلال صاحب میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، میں کہتا ہوں کہ یہ جلال ہے۔ تو کیا میں نے ان کے جسم کی طرف اشارہ کیا ہے؟ جسم کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ان میں روح نہ ہو، تو یہ جلال نہیں ہوں گے۔ جو کپڑے آپ نے اتار دیئے، وہ تو آپ پہ نہیں ہیں۔ اسی طرح جسم بھی روح کا ایک لباس ہے۔ اس لئے بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ:
متن:
انسان روح کے علاوہ کچھ نہیں اور یہ غلط ہے، کیونکہ روح صورت کے قالب میں ہے اور بغیر قالب کے اس کو انسان نہیں کہتے۔
تشریح:
ساتھ قالب ضروری ہے، کیونکہ روح تو پہلے سے موجود تھی، لیکن اس کا تعارف نہیں تھا، اور جب قالب وجود میں آ گیا، تو روح کا تعارف بھی ہو گیا۔
متن:
اور بعض کہتے ہیں کہ انسان کا لفظ روح و قالب کے مجموعہ پر منطبق ہے جیسا کہ کسی گھوڑے میں دو رنگ جمع ہو جاتے ہیں ایک کالا رنگ اور دوسرا سفید رنگ تو اس گھوڑے کو ابلق یعنی چتکبرا کہتے ہیں۔ اور صوفیوں کی ایک جماعت یہ خیال کرتی ہے کہ انسان آکل و شارب یعنی کھانے والا اور پینے والا نہیں اور تغیّر و تبدل کا موقع مقام بھی نہیں رکھتا کہ یہ بات اللّٰہ تعالیٰ کا ایک راز ہے اور یہ جسد اور جسم اس کا ایک طلسم ہے۔ اور ایک گروہ کہتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے سب عناصر اور جو کچھ کہ اس میں ہے میں مرکب فرمایا ہے اور اس کو قرآن مجید میں انسان کہا ہے پس اللّٰہ تعالیٰ کے قول کے مطابق جو کہ "أَصْدَقُ الْقَائِلِیْنَ" ”سب سے زیادہ سچا ہے“ ہم کو اعتقاد رکھنا چاہئے۔ پس مختصرًا یہ بات جان لیجیے کہ ایک کامل انسان کی ترکیب تین معنوں میں ہوتی ہے: ایک روح، دوسرا نفس اور تیسرا جسم۔
تشریح:
یہ بھی صحیح ہے۔ لیکن اس کی مزید تفصیل شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت نے جو بنیادی لطائفِ ثلاثہ کا ذکر کیا ہے، ان سے انسان بنتا ہے۔ یعنی قلب، عقل اور نفس۔ انہوں نے بظاہر تفصیل اس طرح کی ہے کہ روحِ انسانی کے تین اجزاء ہیں، اور روحِ حیوانی اور روحِ نباتی کے دو اجزاء بتائے ہیں۔ روحِ نباتی میں ایک نفسِ نباتی ہے اور دوسرا بدنِ ہوائی ہے اور روحِ حیوانی میں بدنِ ہوائی اور نفسِ حیوانی ہے۔ اور انسان میں بدنِ ہوائی، نفسِ ناطقہ اور روحِ ملکوت ہے۔ روحِ ملکوت کی موجودگی ہی انسان کو اشرفُ المخلوقات بناتی ہے۔ کیونکہ انسان اس کے ذریعے سے مکلف ہوا۔ اور پھر اگر وہ چاہے، تو اسی کے ذریعے سے تجلیِٔ اعظم کے ساتھ اس کا رابطہ ہو سکتا ہے۔ بہرحال! اس کے تین اجزاء ہیں: ایک بدنِ ہوائی، نفسِ ناطقہ اور روحِ ملکوت۔ یہاں پر حضرت نے فرمایا کہ روح ہے، نفس ہے اور جسم ہے۔ چونکہ روح اور نفس مل کر قالب بن گیا، لہذا روح اور نفس دو چیزیں ہو گئیں۔ اور نفس میں بدنِ ہوائی اور نفسِ ناطقہ دونوں شامل ہیں اور یہ دونوں قالب سے مل کر پھر انسان بن گیا۔ چنانچہ اس طریقے سے ان میں تطبیق ہو سکتی ہے اور یہ دونوں باتیں ایک ہو سکتی ہیں۔ لیکن وہاں تشریح زیادہ کی گئی ہے۔ البتہ یہ تشریح ملتی ہے۔
متن:
اور لوگ کل عالم کا ایک نمونہ ہیں۔
تشریح:
کیوں عالم میں بھی نفسِ کلیہ ہوتا ہے، کیونکہ نفسِ کلیہ بالکل انسان کے قریب ترین ہے۔
متن:
اور عالم دونوں جہانوں کو کہتے ہیں اور وہ دونوں جہاں انسان کے اندر ہیں۔ (آگے حضرت نے تمثیلی انداز میں فرمایا کہ) یہ جہان پانی، مٹی، ہوا اور آگ (عناصر اربعہ) سے ترکیب ہوئے ہیں، اور وہ بلغم، خون، صفراء اور سوداء (اخلاط اربعہ) سے۔ اور اس جہان کی نشانی جنت دوزخ اور عرصات ہیں۔ پس روح لطافت کی جگہ اور مقام پر جنت میں اور نفس وحشت اور آفت کی وجہ سے دوزخ اور جسم عرصات کے مقام پر ہوتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ مؤمن کی روح اُس کو جنت کی جانب بلاتی ہے اور نفس اس کو دوزخ کی طرف بلاتا ہے۔
تشریح:
اس کی تشریح ہم کچھ یوں کر سکتے ہیں کہ نفس کے اندر ثقل ہے، اور روح کے اندر علوِّ شان ہے۔ لیکن یہی نفس اگر روح کو اپنے ساتھ باندھ لے، جیسے پنجابی کا محاورہ ہے کہ: ’’نہ کھیڈنا، نہ کھڈن دینا‘‘۔ تو روح آگے نہیں جا سکتی۔ ان میں کشتی ہوتی رہے گی۔ لہٰذا اس کے لئے پھر کچھ کرنا پڑتا ہے، یعنی ریاضت اور مجاہدہ کے ذریعے سے نفس کو مجبور کر کے اس سے روح کو چھڑایا جائے۔ جب روح نفس سے چھوٹ جائے گی، تو نفس ثقل کی وجہ سے خود ہی نیچے ہو جائے گا، اور روح علوِّ شان کی وجہ سے خود ہی اوپر جائے گی۔ پس جب روح آزاد ہو جائے گی، تو وہ اپنے مقام پر یعنی ملاءِ اعلیٰ کے پاس جائے گی۔ جب یہ ملاءِ اعلیٰ کے پاس جائے گی، تو پھر وہ دوزخ کی طرف نہیں بلائے گی، بلکہ جنت کی طرف بلائے گی۔ اور نفس میں چونکہ ثقل ہے، لہذا وہ نیچے کی طرف لاتا ہے، اور اگر وہ عبدیت کے مقام پہ چلا جائے، تو نفسِ مطمئنہ بن جائے گا۔ لیکن اگر عبدیت کے مقام پہ نہیں ہے، تو نفسِ امارہ ہے۔ اور نفسِ امارہ کے بارے میں قرآن پاک میں آتا ہے کہ یہ برائی کی طرف مائل کرنے والا ہے۔ برائی دوزخ کی طرف لے جائے گی۔ گویا کہ نفس By virtue of its nature دوزخ کی طرف جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ تمہاری مثال ایسی ہے، جیسے پتنگے آگ کے اوپر گرے پڑتے ہیں اور میں پکڑ پکڑ کر تمہیں واپس بلاتا ہوں۔ بالکل اسی طرح ہمارے نفس کے اعمال ہمیں دوزخ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں اس کو مجبور کر کے جنت کی طرف رخ کرنا ہو گا۔ چنانچہ نفس بذاتِ خود برائی کی طرف لے جاتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن پاک میں بھی اس کے بارے میں فرمایا: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا 0 وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہو گا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
یعنی جس نے نفس کو ویسے ہی چھوڑ دیا، وہ نا کام ہو گیا۔ ویسے چھوڑنے سے مراد یہ ہے کہ اسے فطرت پہ رہنے دیا۔ گویا اس کی فطرت یہی ہوئی کہ اس کو ویسے چھوڑنے سے تباہی و بربادی مقدر ہے۔ پس اس کی فطرت یہی ہے کہ یہ دوزخ کی طرف جائے گا۔ ہاں! اس کو مجبور کر کے آپ جنت میں جا سکتے ہیں۔ اور مجبوری تو ریاضت و مجاہدہ ہی ہے۔ کیونکہ نفس کی مخالفت کرنی ہوتی ہے، اور نفس کی مخالفت مجاہدہ ہے۔ ہاں! یہ الگ بات ہے کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اللّٰہ پاک نے نفس کے اندر یہ خاصیت بھی رکھی ہے کہ جتنی اس کی مخالفت کرتے جائیں، اس کا زور ٹوٹتا جائے گا۔ لہذا آپ جو روزانہ پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں، تو اس کا زور ٹوٹے گا۔ پھر آپ بارہ مہینے میں ایک مہینہ جو روزے رکھتے ہیں، یہ بھی نفس کی مخالفت ہے۔ اس سے بھی زور ٹوٹے گا۔ پھر آپ سال کے اندر ایک بار گلے پہ چھری رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں، اگرچہ یہ نہیں چاہتا، لیکن آپ نے زکوٰۃ دینی ہے، تو یقیناً اس کا زور ٹوٹے گا۔ اور پھر آپ عمر بھر میں ایک دفعہ اس کو حج پہ لے جاتے ہیں اور حج میں ساری باتیں نفس کی طبیعت کے خلاف ہیں، ظاہر ہے کہ اس سے بھی نفس کا زور ٹوٹے گا۔ شریعت نے نفس کے زور کو توڑنے کا پورا انتظام کیا ہوا ہے، لیکن چونکہ شریعت پر لوگ پورا عمل نہیں کر پاتے، لہذا اس کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوتے، جو ہونے چاہئیں۔ اگر ہم شریعت پر پورا عمل کر لیں، تو کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پس اسی کے لئے طریقت ہے، تاکہ شریعت پر پورا پورا عمل ہو جائے۔ جہاں جہاں رکاوٹ ہے، اس رکاوٹ کو دور کیا جائے۔ مثلاً: نفس کا زور توڑنے کا حکم ہے، لیکن وہ مزاحمت بھی تو کرے گا۔ جیسے اگر آپ جنات کو قابو کرنا چاہیں، تو وہ کیا فارغ بیٹھے ہیں؟ آخر وہ بھی کچھ کریں گے۔ جو لوگ کسی عامل کی نگرانی کے بغیر سورۂ مزمل کی تلاوت کرتے ہیں، وہ بھی تو جنات کو پکڑنے کے لئے ان کے ساتھ کچھ کرتے ہیں۔ کیونکہ آپ ایک آزاد مخلوق کو قید کرتے ہیں، تو وہ پھڑ پھڑائے گا تو سہی، مقابلہ تو کرے گا، اگر اس کا داؤ لگ گیا، تو آپ کو چھوڑے گا نہیں۔ اسی طرح نفس بھی پورا ایک جن ہے۔ اس کو جب آپ شریعت پر عمل کے ذریعے سے قابو کریں گے، تو یہ آپ کو شریعت پر عمل کرنے کے لئے نہیں چھوڑے گا۔ اور اگر آپ نے اس سے شریعت پر صحیح معنوں میں عمل کروا لیا، تو اس کا زور ٹوٹ جائے گا۔ لیکن یہ آپ کو پورے طور پہ عمل کرنے ہی نہیں دے گا، درمیان میں کچھ نہ کچھ اپنا حصہ ڈالے گا۔ آپ کا حج خراب کرے گا، آپ کی نماز کو خراب کرے گا، آپ کے روزے کو خراب کرے گا۔ ہر جگہ پر یہ اپنا ہاتھ ڈالے گا، تاکہ صحیح طریقے سے یہ اعمال نہ ہو سکیں۔ نتیجتاً آپ کو نفس کی اصلاح کے لئے کچھ علیحدہ انتظام کرنا پڑتا ہے، جس کو تزکیۂ نفس کہتے ہیں۔ اور تزکیۂ نفس کے لئے آپ کو شیخ کی نگرانی میں سارا کچھ کرنا پڑتا ہے، ورنہ آپ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ بہر حال! جیسے میں نے عرض کیا کہ نفس کا ایک نظام ہے اور نفس دوزخ کی طرف بلاتا ہے اور روح جنت کی طرف بلاتی ہے۔
متن:
بعض طالبان صادق نے نفس کو خنزیر کی شکل میں دیکھا ہے۔
تشریح:
در اصل یہ کشفی باتیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس میں مختلف قسم کی خرابیاں ہوتی ہیں، بعض پہ حبِ مال زیادہ غالب ہوتی ہے، بعض پہ حبِ جاہ زیادہ غالب ہوتی ہے، بعض پہ حبِ باہ زیادہ غالب ہوتی ہے۔ جس پہ حبِ جاہ غالب ہوتی ہے، وہ اپنی جاہ کے لئے مال کو بھی ضائع کرنے کے لئے تیار ہے۔ جیسے: جو لوگ نمود و نمائش کے لئے شادی بیاہ وغیرہ میں جو بے جا مال اڑاتے ہیں، وہ اسی لئے کرتے ہیں تاکہ ان کی جاہ بڑھ جائے، لوگ ان کی تعریف کریں، لہذا جاہ کے لئے مال بھی اڑاتے ہیں اور اپنی لذتوں کو بھی قربان کرتے ہیں، اس کے لئے مشقتیں کرتے ہیں۔ یہ جو لوگ الیکشن لڑتے ہیں، کتنی مشقتیں کرتے ہیں، اپنی لذتوں کو بھی قربان کرتے ہیں، کیونکہ ان کو جاہ چاہئے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کو مال چاہئے، وہ اپنی جاہ کو بھی اس کے لئے قربان کرتے ہیں۔ جیسے: یہ جو ڈوم وغیرہ ہوتے ہیں، ان کی کیا جاہ ہوتی ہے؟ انہوں نے بس پیسہ کمانا ہوتا ہے، جس کے لئے وہ سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ باہ یعنی لذتوں کو بھی قربان کر لیتے ہیں۔ جیسے کہتے ہیں: چمڑی جائے، پر دمڑی نہ جائے۔ یعنی بعض لوگ پیسے نہیں لگاتے۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو لذتوں کے لئے مال بھی قربان کر لیتے ہیں۔ مثلاً: ایک برگر کے لئے چالیس کلو میٹر گاڑی دوڑاتے ہیں کہ وہاں کے برگر بڑے اچھے ہوتے ہیں۔ کہیں کڑاہی کے لئے جا رہے ہوتے ہیں اور بعض لوگ کسی اور کام کے لئے جا رہے ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا یحییٰ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کراچی میں مولانا عبد اللّٰہ کاکاخیل صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ناشتہ کی دعوت کی تھی۔ کراچی بہت بڑا شہر ہے، ان کو 30، 35 کلو میٹر دور لے گئے اور وہاں پر ان کو نہاری کھلائی۔ جب ناشتہ کر لیا، تو انہوں نے پوچھا کہ حضرت! کیسا پایا؟ فرمایا: نہاری تو اچھی تھی، لیکن اس کے لئے اتنا شدّ رِحال جائز نہیں تھا۔ یعنی اس کے لئے اتنا زیادہ سفر مناسب نہیں تھا۔ بہر حال! اس قسم کی چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ پس نفس کو جو چیزیں مرغوب ہیں، ان کا اثر نفس پر ہوتا ہے۔ مثلاً: جس پر باہ غالب ہے، وہ خنزیر کی طرح ہو گا۔ جس پہ حبِ مال کا غلبہ ہو گا، وہ چوہے کی طرح ہو گا۔ جس پہ جاہ غالب ہو گی، وہ درندوں کی طرح ہو گا۔ گویا یہ اس کی مثالی صورت ہے۔ جس میں جس جانور کی صفت زیادہ ہو گی، وہ مثالی طور پہ وہی نظر آئے گا۔ کہتے ہیں کہ ایک بزرگ راستہ میں بیٹھے تھے اور پریشان تھے۔ کسی نے کہا: آپ کیوں پریشان ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میری پگڑی پہنو۔ جب انہوں نے اپنی پگڑی پہنائی تو وہ خود بھی پریشان ہو گئے اور پگڑی واپس کر دی۔ پوچھا: کیا ہوا؟ کہتے ہیں: دور دور تک کوئی انسان نظر نہیں آیا، چوہے تھے یا گدھے تھے یا خنزیر تھے یا کوئی اور جانور تھے، پورے بازار میں سارے جانور ہی نظر آ رہے تھے۔ اس میں بھی یہی بات تھی کہ لوگوں میں جانوروں والی صفات ہیں۔ کیونکہ انسان روحِ ملکوت کی وجہ سے اشرفُ المخلوقات ہوا ہے۔ پس اگر وہ روحِ ملکوت کی طرز پہ نہیں رہا، اس کا اثر نہیں لیا، تو وہ حیوانی نفس کا کردار کر رہا ہے، لہٰذا وہ جانور ہی بن جائے گا۔ انہی لوگوں کے لئے فرمایا: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ 0 ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ﴾ (التین: 4-5)
ترجمہ: ’’ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔ پھر ہم اسے پستی والوں میں سب سے زیادہ نچلی حالت میں کردیتے ہیں‘‘۔
لہٰذا ان کا مقام اس سے بھی نیچے ہو گا۔
متن:
ریاضت اور محنت سے اس کی پہچان ہو سکتی ہے لیکن ریاضت سے اس کی اصلی ماہیت تبدیل نہیں ہو سکتی۔
تشریح:
یہ بڑی زبردست بات ہے۔ یعنی ریاضت سے اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ جبلت تبدیل نہیں ہوتی۔ اصل میں انسان کی کچھ چیزیں اختیاری ہیں، کچھ مجبوری ہیں۔ انسان مجبور بھی ہے، مختار بھی ہے۔ لہذا کچھ چیزیں اس کی مجبوری ہیں۔ مثلاً: ایک شخص بیمار پیدا کیا گیا ہے، تو وہ اس کی مجبوری ہے۔ لیکن اس بیماری میں جو کر سکتا ہے، اتنا ہی اس سے مطالبہ ہے۔ بعض کو اونچے خاندان میں پیدا کیا جاتا ہے، یہ بھی اس کی مرضی سے نہیں ہوا۔ اور کسی کو نیچے خاندان میں پیدا کیا گیا ہوتا ہے۔ البتہ اس وقت وہ کیا کر سکتا ہے، وہی اس سے مطالبہ ہو گا، اس میں زیادتی نہیں ہو گی: ﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرہ: 286)
ترجمہ: ’’اللّٰہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا‘‘۔
بہر حال! جبلت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جبلت مجبوری ہے۔ حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب کسی کو عبودیتِ دائمی نصیب ہو جائے، تو اس کی مثال تخم کی طرح ہے۔ اس تخم کو آپ جس قسم کی زمین میں ڈالیں گے، زمین سے مراد یہ ہے کہ اس کو کس چیز کے ساتھ مناسبت ہے، یعنی اس کی کون سی چیز زیادہ مضبوط ہے، جیسے کسی کا دل زیادہ مضبوط ہوتا ہے، کسی کی عقل زیادہ مضبوط ہوتی ہے، کسی کے نفس کی صفائی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ تینوں مختلف چیزیں ہیں۔ چنانچہ جس کی جو صفت غالب ہو گی، تو عبودیتِ دائمی کا تخم اس کے اندر پڑے گا تو اس سے وہی چیز باہر آئے گی، جو اس زمین میں ہو سکتی ہے۔ لہذا حضرت نے فرمایا کہ جن کے دل مضبوط ہوتے ہیں، ان میں صدیقین پیدا ہو سکتے ہیں۔ اور جن کا نفس زیادہ پاک ہو چکا ہو گا، ان میں زہاد پیدا ہوں گے۔ اور جن کی عقل زیادہ مضبوط ہوتی ہے، ان میں علماءِ راسخین پیدا ہوں گے۔ گویا اللّٰہ جل شانہ نے یوں لوگوں کو مختلف تو بنا دیا ہے، پس جب آپ ان میں عبودیتِ دائمی کی حقیقت کا تخم ڈالیں گے، تو اس سے جو چیز بنے گی، وہ مختلف بنے گی۔ چنانچہ اللّٰہ پاک نے جس کو جس جبلت پر پیدا کیا ہے، اس جبلت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، ہاں اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً: میرے نفس کے اندر غیر محرم کی طرف دیکھنے کا ہیجان ہے، اس پر مجھے اللّٰہ نہیں پکڑتا، لیکن اس پر میں نے عمل کر لیا، تو وہ فجور بن جائے گا۔ اور اگر عمل نہیں کیا، تو تقویٰ بن جائے گا۔ گویا میرے لئے دونوں طرف راستے کھولے ہوئے ہیں۔ یہ کرو گے، تو یہ ہے اور یہ کرو گے، تو یہ ہے۔ انسان دونوں صورتوں کو اختیار کر سکتا ہے۔ جب اللّٰہ پاک نے دونوں راستے دیکھا دیئے ہیں، بتا بھی دیئے ہیں، تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ میں نہیں کر سکتا تھا۔ اگر کوئی یہ کہے گا، تو اللّٰہ پاک کسی اور کو سامنے کر دے گا کہ دیکھو! یہ بھی تو تھا، یہ کیسے کر گیا؟ تو بھی کر سکتا تھا۔ مثلاً: بہت غریب لوگوں میں بھی اولیاء اللّٰہ ہوتے ہیں، بہت مال دار لوگوں میں بھی اولیاء اللّٰہ ہوتے ہیں۔ بہت قوی لوگوں میں بھی اولیاء اللّٰہ ہوتے ہیں، بعض کمزور لوگوں میں بھی اولیاء اللّٰہ ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح شیطان بھی ہر قسم کے ہوتے ہیں، غریب لوگوں میں بھی ہوتے ہیں، مال دار لوگوں میں بھی ہوتے ہیں۔ بہت قوی لوگوں میں بھی ہوتے ہیں، بہت کمزور لوگوں میں بھی ہوتے ہیں۔ ہر جگہ پر آپ کو مل جائیں گے۔ بعض دفعہ ایک آدمی ہل بھی نہیں سکتا ہو گا، لیکن وہ بھی اللّٰہ کی جتنی نافرمانی کر سکتا ہے، کرتا ہے۔ مثلاً: آنکھوں سے غیر محرموں کو دیکھ سکتا ہے، تو دیکھتا ہے۔ اندھا ہے، تو سوچ سکتا ہے۔ اور دوسرا آدمی بالکل ٹھیک ہٹا کٹا ہے اور سب غلطیاں کر سکتا ہے، لیکن بچتا ہے۔ اس سے پتا چلا کہ ہماری مجبوری ایک قسم کا پیپر ہے، examination ہے، اس میں ہمیں پیپر دیا گیا، ان حالات کا پیپر دے دیا گیا، اس جبلت کے ساتھ ہمارا امتحان ہو رہا ہے کہ جبلت کے ساتھ ہم کیسے اپنے اختیار کو استعمال کر کے اللّٰہ کے دوست بن سکتے ہیں۔
متن:
اور جب اس کی پوری شناخت ہو جائے یعنی نفس کو اچھی طرح سے پہچانا جائے تو طالبوں کا تابعدار اور پابند ہو جاتا ہے۔ چنانچہ کہا گیا ہے کہ ﴿اَلنَّفْسُ کَلْبٌ وَّ إِمْسَاکُ الْکَلْبِ بَعْدَ الرِّیَاضَۃِ مُبَاحٌ﴾ یعنی نفس ایک کتا ہے۔
تشریح:
پھر جب یہ کتا ریاضت کی وجہ سے اور ٹریننگ کی وجہ سے تابع دار بن جائے، تو اس کا شکار مباح ہے۔ پھر وہ ٹھیک کام کرے گا، وہ نفسِ مطمئنہ ہو جائے گا۔
بارھواں باب
حضرت شیخ صاحب کے جنون عشق کے بارے میں
حضرت شیخ المشائخ و شیخنا قدّس سرہٗ اپنے عشق میں دیوانے تھے اور عاشقانہ جنون رکھتے تھا اور عشقِ حق کی دیوانگی کے رمز بعض مریدوں کو دکھا چکے تھے اور وہ لوگ دیوانہ وار رہتے تھے۔ ایک مُرید کو کہا کہ جب تک تم مخلوق کے سامنے دیوانے نہ ہو جاؤ حق کی قربت حاصل نہیں کر سکتے۔
تشریح:
اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شد
اوست فرزانہ کہ فرزانہ نہ شد
یعنی لوگوں کے سامنے دیوانہ بننا نہیں ہوتا، بلکہ لوگوں کے سامنے آپ بس وہ کریں، جس کا آپ کو حکم ہے، تو لوگ آپ کو دیوانہ سمجھیں گے۔ کیونکہ لوگ دوسری طرف ہیں۔ نفس کے مارے ہوئے لوگوں کے سامنے روح کی باتیں کرو گے، تو کیا دیوانہ نہیں ہو گے؟ آخر آپ ﷺ نے جو فرمایا تھا کہ اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں مجنون کہیں۔ تو کیا ذکر کوئی غلط چیز ہے؟ ذکر غلط نہیں ہے۔ لیکن آج بھی اگر کوئی تھوڑا سا ذکر کرنا شروع کر لے، تو لوگ کہتے ییں کہ پاگل ہو گیا۔ بھائی پاگل نہیں ہے۔ صرف وقتی طور پر وہ اس طرح ہے، ان شاء اللّٰہ اللّٰہ پاک جب اس کو balanced کیفیت عطا فرما دے گا تو ساری چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی۔ حضرت مولانا حامد میاں صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ جو حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے خلیفہ تھے، ان کو کچھ بائیس سال کی عمر میں خلافت ملی تھی، نوجوان تھے، ان دنوں یہ بالکل مدہوش رہتے تھے۔ ان کے والد محمد میاں صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بڑی فکر ہو گئی۔ وہ بھی حضرت کے مرید تھے۔ انہوں نے حضرت سے درخواست کی میرے بیٹے کا کچھ کریں، پتا نہیں کہ پاگل ہو گیا ہے یا کیا ہے، کسی کام کا نہیں رہا۔ فرمایا: یہ نہ کہو، اس وقت آپ کا اس پہ جو خرچ ہے، یہ بہترین انفاق فی سبیل اللّٰہ ہے۔ حافظ شیرازی رحمۃ اللّٰہ علیہ خواجہ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مرید تھے، حضرت نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت صاحبِ توجہ بزرگ تھے، ان کو الہام ہوا کہ جاؤ، اس سوختہ دل کی تربیت کریں۔ جیسے مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں شمس تبریز رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ ہوا تھا۔ حضرت تشریف لے آئے، ان کے والد صاحب سے ملے، ان کے والد صاحب بہت مشہور تھے اور کافی نام تھا ان کا اور خواجہ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بڑے معتقد تھے۔ خواجہ صاحب ان کے گھر گئے، تو ان کی تو عیش ہو گئی، بہت خوش ہو گئے۔ حضرت نے ان سے پوچھا کہ تمہارے بچے کون سے ہیں، ان سے ملاؤ۔ سب بچے ان سے ملوا دیئے۔ خواجہ صاحب ان سب کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو ان میں نہیں ہے، جو میرا ہے۔ پھر کہا: یہ بتاؤ کہ آپ کا ان کے علاوہ کوئی اور بھی بیٹا ہے؟ انہوں نے کہا: اس کا کیا کریں گے، ایک آوارہ سا ہے، چھوڑیں اس کو، پتا نہیں، اس وقت جنگل میں ہو گا یا پتا نہیں کہ کدھر ہو گا۔ بس چھوڑیں اس کو، وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ خواجہ صاحب نے کہا: ملوا تو دو۔ تو ان کو بلا لیا۔ اس نے جیسے ہی حضرت کو دیکھا تو شعر پڑھا کہ اے پتھر کو ہیرے بنانے والے، کچھ ہماری طرف بھی نظر فرمائیں۔ حضرت نے ان کی طرف اشارہ فرمایا کہ میں نے آپ کے اوپر نظر کر لی ہے۔ اور اپنے ساتھ لے گئے اور کہا: بس یہی مجھے چاہئے تھا۔ اور پھر حافظ شیرازی بن گئے۔ بہر حال! بعض لوگوں کے اندر یہ کڑھن ہوتی ہے، لیکن جاننے والے ہی جانتے ہیں، ہر ایک نہیں جانتا۔ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے مرید سے فرمایا:
متن:
جب تک تم مخلوق کے سامنے دیوانے نہ ہو جاؤ حق کی قربت حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ عشق کے درد سے آشفتہ حال ہو کر ننگ و ناموس کو چھوڑ چکے تھے، (ان کو کوئی پروا نہیں تھی) عشق کس کو کہتے ہیں؟ عشق کا مفہوم اور معنیٰ یہ ہے کہ معارفِ الٰہی موج پر آ جائیں اور عقل بالکل چلی جائے۔ شیخ محمد حسین نے یہ اشعار عالم دیوانگی میں کہے ہیں۔ غزل:
؎ نیست چیزے بستر از دیوانگی
بگسلا صد لشکر از دیوانگی
اے بسا کافر شدہ از عقل خود
ہیچ دیدی کافر دیوانگی
داہ چہ محروم انداز عرفان او
عالمان ظاہر از دیوانگی
من برائے نازنین باطن ز سر
بر کشادم صد در از دیوانگی
چونکہ شد مجنون و عاشق اے دلم
زور بستان ساغر از دیوانگی
’’دیوانگی سے بہتر کوئی چیز نہیں، سو لشکر بھی دیوانگی سے پسپا کئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اپنی عقل و خرد کی افزونی کی وجہ سے کافر ہو گئے کیا تم نے کسی کو دیوانگی کی وجہ سے بھی کافر ہوتے دیکھا ہے۔ اس کی معرفت اور دولتِ عرفان سے علمائے ظاہر اس وجہ سے محروم ہیں کہ وہ دیوانگی سے خالی ہیں، میں نے اپنے باطن کے نازنین کے لئے دیوانگی سے سو دروازے کھول کر رکھ دیئے،
تشریح:
﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ﴾ (البقرہ: 165) کی کیا تشریح ہو گی؟ ’’حُبًّا لِّلّٰهِ‘‘ کا معنی ہے؛ اللّٰہ کی محبت۔ لیکن ’’اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ‘‘ کا معنیٰ ہے؛ شدید محبت۔ اور شدید محبت ہی دیوانگی ہے۔ اگر آپ صحابہ کرام کی زندگی دیکھیں، تو کیا صحابہ کرام آپ کو آج کل کے دور کے لحاظ سے دیوانوں کی طرح نظر نہیں آتے؟ کہتے ہیں کہ اگر اس دور میں کوئی صحابی واپس آ جائے، تو سارے لوگ نعوذ باللّٰہ من ذلک ان کو دیوانہ کہیں۔ کیونکہ ان میں کوئی اور بات تھی ہی نہیں، بس ہر وقت آخرت کی بات ہوتی تھی۔ اور آج کل تو بہت جلدی فتویٰ لگانے والے لوگ موجود ہیں۔ اور جو آخرت کی اتنی بات کرتا ہے، وہ دیوانہ نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی مرضی کے چند راستوں کو ہی پہچانا ہے، جن کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ دیتا ہے۔ باقی راستے ہمیں معلوم ہی نہیں ہیں۔ اپنے محبوبوں کے لئے اللّٰہ کے اتنے دروازے ہیں کہ آدمی سوچ نہیں سکتا۔ یہی چیز چونکہ انسان کو معلوم نہیں ہوتی، اس لئے وہ ان لوگوں کو دیوانہ کہتا ہے۔ چونکہ ان کو جتنا معلوم ہے، وہ اس میں fit نہیں ہو رہا، مثلاً: پوسٹ ایک دروازہ ہے، کاروبار ایک دروازہ ہے، سیاست ایک دروازہ ہے۔ ملازمت اور اس طرح کی دیگر چیزیں، یہ سارے ہمارے لئے معروف دروازے ہیں۔ ان کے علاوہ خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللّٰہ علیہ کے لئے کون سا دروازہ کھلا؟ یہ معلوم نہیں ہے۔ یہ تو تب پتا چلتا ہے، جب کھل جاتا ہے۔ چنانچہ خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس جو مجذوب آئے تھے، حضرت سے فرمایا کہ تمہارے پاس کھانے کو کیا ہے؟ پرانی ہڈیاں ہانڈی کے اوپر رکھی تھیں اور پانی میں ابل رہی تھیں۔ انہوں نے کہا: یہ ہے۔ کہا: اچھا یہ ہے، چلو، مجھے دے دو۔ انہوں نے کہا: اس کو کیا کرو گے؟ اس میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: بس مجھے دے دو۔ جب رکابی میں ڈالنا چاہا، تو انہوں نے کہا: نہیں، مجھے ایسے ہی دے دو۔ کیونکہ مجذوب تھے اور مجذوب مجذوب ہوتا ہے، اللّٰہ کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ انہوں نے اسی سے گرم ہی پی لیا اور جو باقی بچ گیا، وہ دیوار پہ دے مارا اور کہا کہ آج سے میں نے تیرے فقر کی ہانڈی توڑ دی۔ در اصل مجذوب Guided missile کی طرح ہوتے ہیں، ان کا خود اپنا کچھ نہیں ہوتا۔ جس چیز کے لئے بھیجے گئے تھے، بس انہوں نے وہ کر دیا۔ اس کے بعد حضرت کا یہ حال تھا کہ شاہوں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ اس کے بعد پھر فتوحات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ چنانچہ ایسا ہوتا ہے۔
حضرت مولانا حسین مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک دفعہ تشریف فرما تھے، ایک ہندو بنیا آتا ہے، اس کو کسی نے پٹی پڑھائی تھی کہ یہ سارے کنگلے ہیں، اگر تو نے ان سے پیسے نہ مانگے، تو تیرا سارا کاروبار غرق ہو جائے گا، ان سے پیسے وصول کر لو۔ وہ آیا، سب بیٹھے ہوئے ہیں، حضرت بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس نے سب کے سامنے کہا: حضرت جی! مجھے پیسے دے دو، ورنہ سودا بند کر لیں گے۔ حضرت نے فرمایا: اچھا، کل آ جانا۔ بنیا چلا گیا۔ خزانچی آیا، حضرت کے سامنے رجسٹر رکھا اور کہا: حضرت آپ نے کیسے ان کو کہا کہ کل آ جانا۔ ہمارے پاس خزانے میں دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ فرمایا: چلو، تم اپنا کام کرو۔ اس کو چُپ کرا دیا۔ اگلے دن پھر لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، حضرت بھی بیٹھے ہوئے ہیں، اس بنیے کے آنے سے کچھ دیر پہلے، ایک صاحب آئے اور کہا: حضرت! مدرسہ میں کچھ پیسے دینا چاہتا ہوں۔ فرمایا: اچھا دے دیں۔ تو وہ جو پیسے لائے تھے، وہ سارے حضرت کے سامنے رکھ دیئے اور چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد بنیا آ گیا۔ بنیے کو کہا: بتاؤ، پیسے کتنے بنتے ہیں؟ اس نے بتا دیئے۔ فرمایا: یہ پیسے ان میں سے لے لو۔ تو وہ اتنے ہی پیسے تھے، جو اس کے دینے تھے۔ جب بنیا چلا گیا، تو لوگوں نے حضرت سے کہا: یہ کیا بات ہے؟ آپ کو کیسے پتا تھا کہ کوئی آئے گا اور اتنے ہی پیسے دے گا۔ کیسے وہ اتنے ہی پیسے لایا؟ فرمایا: الحمد للہ جب سے میں بالغ ہوا ہوں، میں نے اللّٰہ تعالیٰ کو ناراض نہیں کیا۔ مجھے یقین تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ ایک بنیے کے سامنے مجھے رسوا نہیں کرے گا۔ جیسے حدیث شریف ہے: ’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدیْ بِیْ‘‘۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 6970)
ترجمہ: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے‘‘۔
چنانچہ یہ بھی دروازہ ہے، اس دروازہ کو اللّٰہ تعالیٰ کھولتے ہیں۔ اور جن کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کھول دیں، ان کو پھر اللّٰہ تعالیٰ دیتے ہیں۔
متن:
حاصل کلام یہ کہ "اَلْجُنُوْنُ نُوْرٌ مِّنْ نُّوْرِ الْعِشْقِ وَالْعِشْقُ نُوْرٌ مِّنْ جَوْھَرِ الْعَقْلِ وَالْعَقْلُ نُوْرٌ مِّنْ جَوْھَرِ السَّمٰوٰتِ وَالسَّمَاوَاتُ نُوْرٌ مِّنْ جَوْھَرِ الْکُرْسِيِّ وَالْکُرْسِيُّ نُوْرٌ مِّنْ جَوْھَرِ الْقَلْبِ وَالْقَلْبُ نُوْرٌ مِّنْ جَوْھَرِ الرُّوْحِ وَالرُّوْحُ نُوْرٌ مِّنْ جَوْھَرِ سِرِّ الصَّمَدِ جَلَّتْ قُدْرَتُہٗ وَالسِّرُّ نُوْرٌ مِّنْ نُّوْرِ مُحَمَّدٍ وَّ نُوْرُ مُحَمَّدٍ مِّنْ ذَاتِ اللّٰہِ تَعَالٰی کَمَا قَالَ النَّبِیُّ ﷺ حَاکِیًا مِّنَ اللّٰہِ تَعَالٰی: "اَلْإِنْسَانُ سِرِّيْ وَتِبْیَانِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”جنون عشق کا نور ہے اور عشق جوہرِ عقل کا نور ہے، اور عقل جوہرِ سماوات کا نور ہے اور سماوات جوہرِ کرسی کا اور کرسی جوہرِ قلب کا اور قلب جوہرِ روح کا، اور روح اللّٰہ تعالیٰ کے جوہرِ سر کا، اور سِر نور محمدی کا نور ہے اور نور محمدی اللّٰہ تعالیٰ کی ذات سے ہے، جیسا کہ رسول اللّٰہ علیہ الصلوۃ و السلام اللّٰہ تعالیٰ سے حکایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان میرا سِرّ اور تبیان ہے“۔
محمد حسین صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے قطب عالم رحمۃ اللّٰہ علیہ سے پوچھا کہ "مَا الْإِنْسَانُ؟" ”انسان کیا ہے؟“ تو انہوں نے جواب دیا کہ انسان نور ہے۔ جیسا کہ حضرت علی کرم اللّٰہ وجہٗ نے فرمایا ہے کہ "سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ أَنَّہٗ قَالَ: اَلْإِنْسَانُ نُوْرٌ فَھُوَ ذَاتُ الْبَشَرِ فَذَاتُہٗ نُوْرٌ مِّنْ ذَاتِيْ وَنُوْرِيْ مِنْ ذَاتِ اللّٰہِ تَعَالٰی" (لم أعثر علی ہذا الحدیث) یعنی میں نے رسول اللّٰہ ﷺ سے سُنا کہ آپ نے فرمایا کہ انسان نور ہے، وہ بشر کی ذات ہے تو اس کا نور میری ذات سے ہے اور میرا نور اللّٰہ تعالیٰ کی ذات سے ہے۔ پس اے میرے عزیز! جنون ایک نور ہے کہ اسی نور سے اللّٰہ تعالیٰ کی ذات کا وصال حاصل ہوتا ہے۔ بیت ؎
گفت گر دیوانۂ لائق ایں خانۂ
رفتم و دیوانہ شدم لائق ایں خانہ شدم
’’میرے محبوب نے کہا کہ اگر تم صاحب جنون اور دیوانہ ہو تو اس گھر کے لائق ہو یہ سُن کر میں دیوانہ ہوا اور اس کے گھر کے قابل ہوا‘‘۔
؎ خرد کی گُھتیاں سلجھا چکا میں
الٰہی اب مجھے صَاحب جنون کر
اور محمد حسین کا قول ہے کہ جب تک تم لوگوں کے نزدیک دیوانے نہ ہو جاؤ گے تو اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک تم صاحب خرد نہیں ہو سکتے، اور جب صاحب جنون بن جاؤ گے تو نور بن جاؤ گے۔ "اَلْمُؤْمِنُ نُوْرٌ وَّ الْجُنُوْنُ نُوْرٌ" کہ مؤمن نور ہے اور جنون نور ہے۔ نور کی خلعت نور کو پہنائی۔ اور یہ عجیب بات ملاحظہ کرو کہ عشق کی شراب سے کبھی تم ہوشیار ہو گے اور کبھی مست ہو گے۔ اور اے میرے عزیز! اللّٰہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کے ان تمام انوار مذکورہ کو مجمل طور پر بیان فرمایا ہے کہ ﴿اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ...﴾ (النور: 35) یعنی اللّٰہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ تو جب اللّٰہ کا اسم اور ذات محمدی ﷺ تمام موجودات کا مصدر اور منبع ہے، اور نور کنایہ ہے اس حدیث کے متعلق کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِيْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 403/1، دار الفکر بیروت) یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرا نور تخلیق فرمایا "خَلَقَ اللّٰہُ" کا معنیٰ یعنی "أَظْھَرَ اللّٰہُ نُوْرَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَبَارِكْ وَسَلِّم وَھُوَ مَظْھَرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا مِنَ الْعَرْشِ إِلَی الثَّریٰ" ﴿کَمِشْکوٰۃِ فِیْھَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحٌ فِيْ زُجَاجَۃٍ الزُّجَاجَۃُ کَأَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرْبِیَّۃٍ یَّکَادُ زَیْتُھَا…﴾ (النور: 35) یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کے نور کو ظاہر فرمایا جو کہ آسمانوں اور زمینوں کا اور جو کچھ اِن کے درمیان میں عرش سے لے کر تحت الثری تک ہے، اس کا مظہر ہے۔ پھر قرآن کریم کی آیت جس کا ترجمہ ذیل میں ہے: ”اللّٰہ تعالےٰ روشنی ہے آسمانوں اور زمین کی، مثال اس کی روشنی کی جیسے ایک طاق، اُس میں ہو ایک چراغ، وہ چراغ دھرا ہو ایک شیشہ میں، وہ شیشہ ہے ایک تارا چمکتا ہوا، تیل جلتا ہے اُس میں ایک برکت کے درخت کا، وہ زیتون ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف، قریب ہے اُس کا تیل کہ روشن ہو جائے“۔
اے محبوب! اس جملے کو اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت رسالت پناہ ﷺ کے وجود مبارک کی صفت کے بارے میں ان نشانیوں سے بیان فرمایا ہے۔ علمائے ظاہر نے اس آیت سے کیا مفہوم لیا ہے وہ علم الٰہی سے محروم ہیں، وہ اس کا مفہوم نہیں سمجھ پاتے۔ مگر اولیاء اللّٰہ جانتے ہیں کیونکہ وہ مقام قرب کے شاہین ہوتے ہیں۔ بیت؎
آں دم کہ از صفات خودی چوں شدی فنا
گردی جو آفتاب ز انوار کبریا
’’جس وقت کہ تو خودی کی صفات کو ترک کر کے فنا ہو جائے تو کبریائی انوار سے سورج کی طرح منور ہو جاؤ گے‘‘۔
ایک دفعہ ایک شیخ دریا چمکنی سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھ قند اور شکر کا ایک کوزہ بھی لے آئے اور خدمت میں پیش کیا۔ حضرت صاحب نے حکم ارشاد فرمایا کہ آئندہ کے لئے یہ نہ لانا۔ اللّٰہ تعالیٰ کے عاشقوں کا اس خاشاک سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
یہ کافی لمبا مضمون ہے اور ٹائم تھوڑا ہے، اس لئے اس کو اگلے درس پہ رکھ لیتے ہیں۔ اللّٰہ جل شانہ ہم سب کو نور مبارک سے مستفید فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ