مجلس نمبر300
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔
آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں جو تصوف سے متعلق سوالات ہوتے ہیں ان کے جوابات دیئے جاتے ہیں، چونکہ یہ سوالات emails ،messages اور whatsapp کے ذریعے سے بھی آتے ہیں اور جو ساتھی یہاں پر بیٹھے ہوتے ہیں ان کی طرف سے بھی ہوتے ہیں تو باری باری ان سب کے سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں، سب سے پہلے ہم ان email سے شروع کرتے ہیں جو گزشتہ ہفتے کے بعد آئی ہیں۔
سوال نمبر 1:
Asslam o alikum!!! I listen to yesterday's سوال and جواب now. Jazak Allah for telling me my mistakes! I am extremely sorry for the whatsapp message. I make توبہ, I will not think also or say that again In Sha Allah. Please forgive me for all the wrong things I must have written to you until now. I am a bad person, your worst مرید and there is no doubt about it. Now my mother also had said this. I have downloaded the book سلوک النساء. Though I can’t read urdu, I will try In Sha Allah. From the time I became بیعت in 2009, I am doing the مراقبہ you gave of thinking that your heart is calling Allah, and I am listening. Should I continue with it? Please forgive me once again for all the inappropriate things I wrote to you until now! Really feeling so bad about it! Thank you for keeping patience with me. I will not send messages and emails unnecessarily In Sha Allah.
جواب :
اچھے مرید وہ ہوتے ہیں جو اپنی غلطیوں کو جان لیتے ہیں اور شیخ کی سختی کو سختی نہیں سمجھتے بلکہ اس کو اپنے لیے رحمت سمجھتے ہیں، تو یہ بھی ان میں سے ہیں کہ الحمد للہ، اللہ تعالیٰ ان کو اس کا بہترین فائدہ نصیب فرمائے بہرحال مراقبہ کے بارے میں اس نے پوچھا ہے لیکن مراقبہ کی کیفیت نہیں بتائی کہ کیا مراقبہ میں اس کو اللہ، اللہ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر اللہ، اللہ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہو تو پھر مجھے لکھ دیں تو میں جیسے مناسب ہو گا لکھ کے ان شاءاللہ اس طرح بتا دوں گا، لیکن بہرحال جو مراقبہ کا طریقہ ہے چونکہ ابھی تک بہت ساری خواتین غلط طریقے سے کرتی رہی ہیں تو میں بتا دیتا ہوں کہ صحیح طریقہ کیا ہے تو اس سے ان شاء اللہ اگر صحیح نہ ہوا ہو تو اس کے مطابق وہ کر لیں گی۔
ہم جس کو مراقبہ کہتے ہیں وہ کیا چیز ہے؟ یہ اپنے دل سے کہلوانا نہیں ہے کیونکہ یہ تو کوئی نہیں کر سکتا اور اس کے بارے میں لاپرواہ بھی نہیں ہونا کہ نہیں کروا سکتا تو بس آدمی چھوڑ دے یا ویسے ہی بیٹھا رہے۔ اس میں ایسا concept ہے کہ ہر چیز ذکر کرتی ہے لیکن کچھ چیزوں کے ذکر کو ہم سن سکتے ہیں اورکچھ کے ذکر کو نہیں سن سکتے؛ کیونکہ جو sensing points ہیں وہاں اگر ہو رہا ہو تو ہم سن سکیں گے یا اگر کوشش کریں گے تو چونکہ چند پوائنٹس ہیں جسم کے اندر جس پہ انسان سن سکتا ہے اور ان کے اوپرconcentrate کیا جاتا ہے تو دل بھی ان میں سے ایک مقام ہے، اس سے بھی سنا جا سکتا ہے، دل ذکر تو کر رہا ہوتا ہے صرف ہم نے سننا ہوتا ہے۔ تو اس کے لیے پھر یہ طریقہ ہے کہ جیسے بہت سارا شور ہو اور اس میں ایک شخص مجھے آواز دے رہا ہو اور وہ آواز اس شور کے اندر دبی ہوئی ہو یعنی اس کے اندر شامل ہو تو مجھے چونکہ اپنی آواز کے ساتھ دلچسپی ہے جس کا میں منتظر ہوں تو میں پوری توجہ اس آواز پہ لگاؤں گا، باقی شور کی طرف میرا دھیان نہیں ہو گا، وہ شور مجھے تنگ تو کرے گا لیکن شور سننا میری خواہش نہیں ہو گی اس کی طرف میری توجہ نہیں ہو گی۔ تو اسی طریقے سے خیالات وغیرہ جو ہوتے ہیں ان کی طرف توجہ نہیں کرنا بلکہ جو وہ اللہ اللہ ہو رہا ہے دل کی طرف سے، تو پہلے نہیں ہو رہا ہو گا لیکن درمیان میں نہ ہوتے نہ ہوتے نہ ہوتے آخر کار ہونا شروع ہو جائے گا، مطلب محسوس ہونا شروع ہو جائے گا تو جس وقت محسوس ہونا شروع ہو جائے اس کو فوراً pick کر لینا ہے۔ یہ اصل میں ہماری کوشش ہو گی، اس میں ہم نقصان نہ کریں اور مثال کے طور پر جیسے بلی چوہے پہ حملہ کرنا چاہتی ہے تو اس کے سارے senses اس وقت چوہے پر متوجہ ہوتے ہیں اس کی آنکھیں، اس کے بال، اس کا دماغ، ہر چیز، سانس بھی روکی ہوتی ہے تا کہ جیسے ہی اس کو موقع ملے فوراً اس کو جھپٹ لے۔ اسی طریقے سے جو چیز لطائف ہمارے پاس اس قسم کی آ رہی ہوں وہ فوراً ہم لوگ sense کر لیں اور اس کو حاصل کر لیں، تو یہ طریقہ ہے۔ اس طریقے کے مطابق جتنی دیر کے لئے بیٹھنا ہوتا ہے اتنی دیر بیٹھنا چاہیے اور پھر اس کے بعد دوسری طرف جاتے ہیں۔ تو بہرحال یہ ہے کہ اگر یہ نہ ہو رہا ہو تو پھر تو طریقہ یہ ہے لیکن آپ مجھے اپنے مراقبے کے بارے میں بتا دیں کہ کیا ہو رہا ہے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ حضرت شاہ صاحب آپ کا بیان سنا، ان شاء اللہ اس ماہ معمولات پر خاص توجہ رہے گی اور جیسے آپ نے فرمایا کہ لطیفہ سِر میں پانچ کا اضافہ کر لوں تو ان شاء اللہ ایسے ہی کر لیں گے۔
جواب:
ٹھیک ہے ماشاء الله۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم
I hope you are doing good and may اللہ جل شانہ always shower His unending blessings upon you! Here are my monthly معمولات chart of فجر regular, اشراق regular, ظہر regular, عصر regular, مغرب regular, اوابین regular, عشاء regular, تہجد starts from 25th of January 2017, قرآن پاک recitation daily half para or more, استغفار 100 times daily, third کلمہ 100 times daily درود ابراہیمی 10times daily, 70 times درود تنجینا after عشاء prayer, Surah یٰسین Surah فاتحہ and surah شمس in the morning Surah بقرہ last رکوع Surah انعام first 4 ayah, Surah ممتحنہ, Surah ملک, Surah مزمل, and Surah شمس in the evening. صبح شام کی دعائیں درود پاک مراقبه 10 minutes right side, 10 minutes left side, 10 minutes slightly above the chest. حضرت جی desperately in need of your prayers.
جواب:
مجھے آپ اپنے مراقبات کے بارے میں تفصیل بتا دیں وہ کیسے ہو رہے ہیں؟ یعنی آپ کو کیسے محسوس ہو رہا ہے اور کب سے ہیں۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم
With due difference please find attached here with my معمولات paper for January 2017. I have written to inform your good self that I am facing problems while being in مراقبہ state. Sometimes, I fall asleep or while meditating I exceed the time limit of five minutes for each segment at the third stage of مراقبہ. I often feel that region like a dead wall. All these problems arise during this month of January. Please guid!۔
جواب:
ماشاءاللہ معمولات کا chart آپ نے بھیج دیا اور یہ،کہ مراقبہ کی جہاں تک بات ہے، اس میں انسان سو سکتا ہے اس وجہ سے کہ اگر تھکا ہوا ہو یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ یکسوئی کی وجہ سے انسان ڈھیلا پڑ جاتا ہے تو یہ چیزیں ہو سکتی ہیں، لیکن ہم نے ایسا نہیں کرنا اس کے لیے آپ یوں کریں کہ یا تو fresh time میں کر لیا کریں اور پھر بھی مشکل ہو تو تھوڑا سا چائے وغیرہ پی لیا کریں اگر چائے نقصان نہیں کرتی ورنہ پھر مرچ اپنے منہ میں رکھ لیا کریں تا کہ یہ چیز آپ کو جگاتی رہے۔ مطلب یہ کہ مراقبہ جاگنے کی چیز ہے سونے کی چیز نہیں ہے سونا تو اپنے وقت پر ہوتا ہے اور پانچ منٹ سے زیادہ ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، بہت زیادہ نہیں ہونا چاہیے اور جو آپ نے کہاکہ بالکل dead wall آپ محسوس کرتی ہیں تو ٹھیک ہے، جب تک آپ اس کے ساتھ habitual نہیں ہوئیں تو یہ آپ کا end ہے، بہرحال یہ end بڑھ کر آگے پیچھے کھسکتا جائے گا اور آپ کے لیے راستہ کھلتا جائے گا ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم اللہ تبارک و تعالى سے آپ کی خیر و عافیت کے لیے دعا گو ہوں، حضرت جی جنوری کے مہینے کے معمولات کا چارٹ attach ہے، بیوی بچوں کو پاس بلانے کے process کے پیچھے چارٹ روز scan کرنا بھول جاتا تھا، آج mobile سے ہی تصویر بنالی مزید دیر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی کوتا ہی پر معذرت خواہ ہوں، آپ کی دعاؤں کا طالب۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم۔۔ شیخ صاحب میں نے آپ سے اکتوبر میں اصلاح کے لیے رابطہ کیا تھا، آپ نے ذکر کی تلقین کی تھی استغفار 100 دفعہ، درود شریف 100 دفعہ، اور دس منٹ مراقبہ، میں کوشش تو کرتی ہوں لیکن کبھی کبھی ہفتے میں ایک یا دو بار سارے معمولات پورے نہیں کر پاتی۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میرے لیے دل کی حالت نہیں بدل رہی میں نیک انسان نہیں بن پا رہی۔جواب:
مسلسل ایک مسئلہ پیش آ رہا ہے لوگوں کو کہ لوگ جو اختیاری چیز ہوتی ہے اس کو کرتے نہیں ہیں اور غیر اختیاری چیز کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں، یہ بہت مشکل بات ہے اللہ پاک نے جس چیز کا اختیار دیا ہے تو اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اس کام کو کرنا چاہیے پھر دعا کرنی چاہیے، مطلب بندہ اس میں سستی کرے اور پھر اس کے لیے دعا کروائے! سستی اختیاری جو ہے اس کا جواب اختیاری چستی کو سمجھنا چاہیے۔ جیسا میں نے کہا تھا کہ دوائی میں ناغہ کر کے قبل از وقت ڈاکٹر سے شکایت کر لیجئے کہ میں صحت مند نہیں ہو رہی ہوں اس کا جو جواب ہو گا میری طرف سے وہی سمجھ لیجئے، ڈاکٹر سے بھی دعا کی درخواست کریں کہ آپ کو دوائی کھانے کی توفیق ہو یا ویسے ہی ٹھیک ہو جائیں۔ میں نے مہینے کے لیے ذکر دیا تھا آپ کتنے وقت کے بعد رابطہ کر رہی ہیں؟ تو یہ بہت اہم بات ہے کہ جتنا وقت بتایا جاتا ہے رابطہ کرنے کو تو اس میں رابطہ کرنا چاہیے ورنہ ترقی تو رک جائے گی اور معلومات کا پتا نہیں کیا اور کیسے ہو رہے ہیں؟ تو اس وجہ سے آئندہ کے لیے اس غلطی کو نہ کیا کریں۔ سوال نمبر 7:
ایک خاتون اپنے معمولات مجھے بھیجا کرتی ہیں ہفتہ ہفتہ کے، تو اس دفعہ ان کی کافی نمازیں قضا رہی ہیں۔
جواب:
میں نے لکھا کہ میں کیا سن رہا ہوں! مطلب آپ کو reverse gear نہیں لگانا چاہیے جو ترقی ہو چکی ہے اس کو ضائع تو نہیں کرنا چاہیے۔ سوال نمبر 8:
حضرت جی مجھ میں مستقل مزاجی نہ ہونے کی بیماری ہے، ابھی تک اس پر قابو نہیں پا سکا اور ابھی تک تمام معمولات میں بھی بے قاعدگی ہو رہی ہے، آپ سے دعا اور اصلاح کا طالب ہوں۔
جواب:
لکھنا چاہیے آپ سے اصلاح اور دعا کا طالب ہوں۔ آپ سے دعا اور اصلاح کا طالب, یہ ترتیب الٹ ہے یعنی پہلے اصلاح ہے پھر دعا ہے۔ تو مستقل مزاجی نہ ہونا یہ کمزوری ہے لیکن چونکہ اختیاری چیزوں کو اختیاری نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے لہذا اپنی اس غلطی کو درست کریں تو ٹھیک ہو جائے گا اور وہ یہ ہے کہ آپ اس کو اختیاری سمجھ لیں غیر اختیاری نہیں ہے تو اس وجہ سے آپ اختیاری چیزوں میں اختیار استعمال کر لیا کریں اور خوش فہمی میں نہ رہیں، آپ کو بہت جلدی خوش فہمی ہو جاتی ہے جو حقائق ہیں وہ حقائق ہوتے ہیں۔ یہ وقتی طور پر جذبات میں آنے کی وجہ سے انسان بہت اونچی اڑان کرے اس کی بجائے نیچی اڑان بہتر ہے، آدمی اپنے آپ کو بندہ سمجھے اور کمزور سمجھے اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے یہ بہت زبردست بات ہے تو ابھی آپ نئے سرے سے شروع کریں مستقل مزاجی آپ میں نہیں ہے تو جو معمولات ہیں آپ مجھے بتا دیں اگر وہ زیادہ ہیں تو میں کم کر دوں گا، معمولات زیادہ ضروری نہیں ہیں مستقل مزاجی ضروری ہے یعنی دوام ضروری ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "فلاں کی طرح نہ ہو جانا کہ وہ چند رکعت پڑھتا تھا اب نہیں پڑھتا" تو یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ آپ کبھی سیر کبھی پاؤ۔ تو آپ مجھے بتا دیں اگر آپ پاؤ پہ رہنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو پاؤ پہ رکھ دوں گا تو پھر صحیح ہے آپ کی اتنی ہی قسمت ہے لیکن اگر آپ نے ٹھیک نہیں ہونا تو بھی بتا دیں۔
سوال نمبر 1:
حضرت جی میں نے تجوید کی classes start کر دیں الحمد للہ باقی آپ جو guide کریں۔
جواب:
اگر آپ کی چھٹی ہے تو یہ بہت اچھا ہے ان چھٹیوں کو اس میں استعمال کر لیں، اپنی تجوید کو بہتر کرنا ضروری ہے کم از کم نماز کی حد تک۔سوال نمبر 2:
السلام علیکم شیخ صاحب قرآن پاک کس طرح پڑھا جائے کہ اس کی برکات حاصل ہوں؟
جواب:
قرآن پاک کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک تو اس کی تجوید کو درست کریں یعنی جس طریقے سے اللہ پاک نے اس کو اتارا ہے، اسی طریقے سے پڑھنے کی کوشش کریں اس کا ظاہر درست کرنا ہے اس کا باطن درست کرنے کے لیے آپ یہ کریں کہ تصور کریں کہ اللہ پاک کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں اس کی تجلی ہے اور آپ جب قرآن پڑھ رہی ہوں تو آپ ساتھ ساتھ یہ تصور کریں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی تجلی میرے دل کے اوپر وارد ہو رہی ہے، اس کیفیت کے ساتھ آپ قرآن پڑھیں اور اگر آپ کو پتا ہے کہ یہ آیات جنت کی ہیں اور نیک لوگوں کی ہیں تو اس وقت دل میں دعا کریں کہ اللہ ہمیں ان میں سے کر دے اور اگر دوزخیوں کی اور برے لوگوں کی ہیں تو اس پہ یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان میں سے نہ کرے اور اس قسم کی جو آیت شوق و محبت کی ہو تو اس پر شوق و محبت کو دل میں محسوس کرنا چاہیے اور اگر ڈرانے کی ہو تو اس پہ انسان کو ڈر محسوس ہونا چاہیے۔ سوال نمبر 3:
السلام علیکم کل عصر کی نماز کے بعد جب درود شریف پڑھ کے فارغ ہوا، تب سے آپ کے کلام نہ آہ چاہتا ہوں، نہ واہ چاہتا ہوں، آپ کی آواز میں واضح طور پر اپنے اندر سنائی دیتا ہے۔ جواب:
مبارک ہو ماشاء اللہ یہ تو اگر ہماری عادت بن جائے کہ نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں خدا کے لیے میں خدا چاہتا ہوں، تو یہ بڑی بات ہے، اخلاص ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے۔ سوال نمبر 4:
السلام علیکم سال سے اوپر ہو گیا ہے اذکار میں نے چھوڑے ہوئے ہیں، دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہوں جہاں پر چھوڑا تھا وہاں سے شروع کروں یا بالکل شروع سے ابتدا
دوبارہ کروں؟جواب:
آپ نے جو اذکار چھوڑے ہوئے تھے تو کس وجہ سے چھوڑے ہوئے تھے پہلے یہ بتا دیں کیوں کہ دوبارہ اگر آپ کا وہی مسئلہ ہوا تو پھر دوبارہ چھوڑ دیں گے تو خواہ مخواہ میں ایک ایسے صاحب پہ محنت کیوں کی جاۓ جو اپنی محنت کو بار بار ضائع کرتا رہتا ہے تو پہلے آپ مجھے بتا دیں کہ کیا آپ ہماری محنت کو دوبارہ ضائع کریں گے یا نہیں؟ اگر کریں گے تو مجھے ایسی محنت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ پہلے سے مجھے اپنا بتا دیں کہ آپ دوبارہ جو ذکر شروع کرنا چاہتے ہیں تو کس طرح شروع کرنا ہے چند دن کے لیے شروع کرنا چاہتے ہیں یا مستقل شروع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تو آپ نے ابھی چھوڑ دیا آئندہ کے لیے اگر اب مجھے message مل گیا کہ آپ نے دوبارہ چھوڑے ہیں تو پھر میں آپ کو کوئی جواب نہیں دوں گا۔ ہمارے پاس time تھوڑا ہوتا ہے بہت سے اور لوگوں کا کام ہوتا ہے تو یہ کوئی گپ نہیں ہے کہ کبھی آپ کریں اور کبھی نہ کریں تو یا تو اس کو آپ صحیح سمجھیں یا پھر آپ اس کو چھوڑ دیں یا پھر کسی اور کے پاس چلے جائیں۔ یہ message سب کے لیے ہے کہ اپنے معمولات اپنے طور پہ نہ چھوڑا کریں اگر کسی وجہ سے چھوٹ رہے ہیں تو بتا دیں تاکہ اس کے حساب سے اس کی adjustment ہو جائے اور اس طرح کرنا کہ کبھی آپ نے خود شروع کر لیے کبھی خود چھوڑ دیئے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے ڈاکٹر کی دوائی کوئی چھوڑتا ہے تو ڈاکٹر پہ بے اعتمادی ہے۔ اگر مصلح کے اذکار کوئی چھوڑتا ہے تو مصلح پہ بے اعتمادی ہے تو مجھے بتائیں کہ آپ کو بے اعتمادی کا کیا حق ہے؟ آئندہ کے لیے آپ اپنی صورتحال واضح کریں تا کہ آپ کو پھر صحیح جواب دے دیا جائے۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت اقدس کچھ سوالات آپ کی خدمت میں عرض ہیں۔ ایک صاحب نے پوچھا ہے کہ پڑھا سنا ہے کہ شیخ سے بیعت ہونے سے پہلے مناسبت ضروری ہے تو یہ مناسبت کی تعریف اگر آپ صحیح معنی میں فرما دیں تو بہت ہی مہربانی ہو گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ جواب:
مثال کے طور پر اگر آپ ایک پائپ کو اور دوسرے پائپ کو آپس میں ملا دیں اور یہ آپس میں ایک جیسے نہ ہوں تو ایک پائپ سے دوسرے پائپ میں کوئی چیز جائے گی؟ ظاہر ہے اس میں صحیح فِٹ نہیں ہو گا۔
مناسبت کا مطلب یہ ہے کہ جو شیخ کا طریقہ کار ہے اس طریقہ کار میں اور آپ کی ذہنی سوچ میں کوئی عدم موافقت نہ ہو کم از کم آپ کو بار بار اشکال نا ہوتا ہو کہ یہ مجھے کیوں کہا اور وہ مجھے کیوں کہا اس کے بارے میں پہلے سے دیکھنا چاہیے تو اس کا آسان test یہ ہے کہ شیخ، جس کے اندر آٹھ نشانیاں ضروری ہیں جو میں اکثر بتایا کرتا ہوں ان آٹھ نشانیوں کے بعد پھر دیکھیں کہ آیا اس کے ساتھ تعلق رکھنے میں مجھے فائدہ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ اگر کئی لوگوں کے ساتھ رابطہ ہو تو اس میں جس سے سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے تو اس سے سب سے زیادہ مناسبت ہے تو اس کو اس طرح output کی بنیاد پر test کیا جا سکتا ہے۔ باقی جو دوسری چیزیں ہیں اس میں ذرا مشکلات ہیں اس وجہ سے میں نے وہ نہیں بتائیں۔ اس میں یہی بات ہے کہ آپ دیکھیں کہ آپ کو کسی شیخ کے ساتھ جو تعلق ہے سوال و جواب کا یا یہ کہ ذکر فکر کا یا طریقہ کار کا تو آپ کو اس سے فائدہ ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا؟ اگر ہو رہا ہے تو ٹھیک ہے آپ کے ساتھ مناسبت ہے اور سب سے زیادہ مناسبت اس کے ساتھ ہے جس کے ذریعہ سب سے زیادہ فائدہ محسوس ہو رہا ہے۔
سوال نمبر 6:
یہ جو خود پسندی ہے اس کے بارے رہنمائی فرمائیں؟ لیکن اگر انسان اپنی کسی quality یا کسی skill کو جس میں وہ ماہر ہو اس پر نظر کرے اور اپنے دل کے اندر خیال کرے کہ میں اس میں ماہر ہوں تو کیا یہ عجب میں ہو گا؟ ہدایت فرمائیں۔
جواب:
اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیتیں دی ہیں ان صلاحتوں کی پہچان اگر ہو اور صلاحیتوں کا پتا بھی چل جائے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ان کو ان مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے جن مقاصد کے لیے وہ صلاحیتیں دی گئی ہیں، یہ اس کا حقیقی شکر ہے۔ تو عجب اس صورت میں ہوتا ہے جب انسان اپنے آپ کو بہتر سمجھے اور شکر اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے آپ کو تو بہتر نہیں سمجھتا لیکن اللہ جل شانہ کا فضل اس کو سمجھے کہ اللہ جل شانہ کا فضل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرما دیا، اس پر فخر نہ ہو بلکہ شکر ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ) "میں اولادِ آدم کا سردار ہوں لیکن اس پہ فخر نہیں کرتا" آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام دیا تھا اس کا اقرار تو کر لیا لیکن اس پہ فخر نہیں فرمایا، تو یہی طریقہ سنت ہے۔ جو صلاحیت اللہ پاک نے دی ہو اس پہ فخر نہیں، شکر کرنا چاہیے تو اگر شکر اس کے ساتھ ہے تو پھر عجب نہیں ہے، عجب تو انسان کو اپنے کمال پر ہوتا ہے، یہ صلاحیت تو اللہ نے دی ہوتی ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ہم نے تو کمایا نہیں، یہ اللہ پاک نے دیا ہے جب اللہ پاک نے دیا ہے تو وہ کسی کو بھی دے سکتا ہے اور یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہے چونکہ اللہ نے دیا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ جس طرح دے سکتا ہے اس طرح لے بھی سکتا ہے اور جس کے پاس نہیں ہے اس کو دے بھی سکتا ہے۔ اگر ہم لوگ یہ خیال رکھیں کہ جب کبھی ہمیں اس بارے میں خیال ہو تو انسان اس بات سے ڈر جائے کہ عین ممکن ہے کہ اللہ پاک اس کی وجہ سے مجھ سے یہ واپس لے لے تو اس واپس لیے جانے کے تصور سے جو کیفیت بنے گی وہ عجب کی کاٹ ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔
سوال نمبر7:
بہن کا دوسرا سوال خواب کا خدمت اقدس میں۔
جواب:
خواب میں نے سنا ہے، اس کے اندر کچھ تفصیلات بھی درکار ہیں، وہ تفصیلات مجھے لکھ کے بھیج دیں۔ خواب ہمیشہ لکھ کے بھیجنا چاہیے اس کی وجہ یہ ہے کہ بولنے میں کچھ نہ کچھ چیز رہ جاتی ہے اور لکھنے میں انسان کو سوچ کا موقع مل جاتا ہے اور اس کو ٹھیک کر لیا جاتا ہے۔ اور دوسری بات کہ اس خواب میں چونکہ خاص ایک family life کی بات ہے تو یہ عوام کی فائدے کی بات نہیں ہے، لہذا اس کا جواب ان کو ہی مل جائے تو اچھی بات ہے۔ تو یہ خواب مجھے تفصیل کے ساتھ لکھ کے بھیج دیا جائے پھر عین ممکن ہے کہ جس نے دیکھا ہو اس سے میں سوال بھی کر لوں تاکہ اس کے اندر کچھ چیزیں clear ہو جائیں، فی الحال تو اس کا جواب نہیں دیا جا سکتا کیونکہ clear نہیں ہے، آئندہ جب clear ہو جائے گا تو پھر ان شاء اللہ اس کا جواب دیا جائے گا۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ جب قلب کی ترقی یافتہ صورت روح اور عقل کی ترقی یافتہ صورت سِر ہے تو پھر لطیفہ روح اور لطیفہ سِر پر محنت کیوں کرائی جاتی ہے رہنمائی فرمائیں؟
جواب:
اس کا جواب ابھی ان شاء اللہ، الطاف القدس کتاب میں بات ہو رہی ہے، اس میں آ رہا ہے۔ مختصراً عرض کر لوں کہ جو خمسہ لطائف ہیں اور جو ستہ لطائف ہیں ان کے اندر ایک فرق ہے ستہ لطائف سے مراد چھ لطیفے ہیں اور یہ sensing points ہیں۔ قلب بھی ایک sensing point ہے، روح بھی ایک sensing point ہے جسم کے اندر اور سر بھی ایک sensing point ہے، خفی بھی ہے اور اخفیٰ بھی ہے، یہ پانچ sensing points انسان کے سینے میں بطریقہ خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ اور بطریقہ آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ اس میں تین سینے میں ہیں اور دو جو ہیں، ایک ماتھے میں اور ایک تالو میں ہے۔ اور نفس جو ہے وہ اگرچہ sensing point تو ہے لیکن اس کے اوپر ذکر نہیں کرایا جاتا بلکہ اس کے لیے اور انتظام ہے۔ بہرحال جو میں عرض کر رہا ہوں کہ sensing points جو ہیں وہ ذکر کرانے کی جگہیں ہیں اور بعض حضرات کی تحقیق کے مطابق یہ سارے کے سارے قلب میں ہیں، لیکن قلب کی جو depth ہے اس کے different مقامات ہیں جہاں سے اس کا ظہور ہوتا ہے جیسے کوئی pump کے ذریعے پانی پھینکے تو جتنا pressure ہو گا تو اتنا دور پانی جائے گا۔ اگر کم pressure ہو گا تو تھوڑا سا آگے جائے گا پھر تھوڑا زیادہ ہو گا تو اور آگے جائے گا گویا کہ قلب ہی کی ایک حالت ہے جو کہ مختلف لطائف میں اس کا ظہور ہو رہا ہے تو اگر یہ مان لیں تو میرے خیال میں پھر جواب بھی بہت آسان ہو جاتا ہے۔
دوسرا جو لطائف خمسہ ہے یہ اصل میں ہدف ہے یعنی قلب، عقل اور نفس کے اوپر محنت ہے۔ پھر ان محنتوں کا نتیجہ روح اور سر کا ظہور ہے۔ اصل میں یہ اہداف ہیں جیسے عقل لطیفہ ہے تو وہ کدھر ہے؟ مطلب آپ کدھر ذکر کرتے ہیں؟ ظاہر ہے وہ ذکر کی جگہ نہیں ہے یعنی نفس کی ایک ظہور کی جگہ ہے جیسے نفس سبیہ، نفس ادراکہ اور نفس طبعی اس کی مختلف جگہیں ہیں پھر اس پہ محنت ہو رہی ہے تو محنت ہونے کا طریقہ وہی ہے، وہ جو خمسہ لطائف والا ہے۔ جو ستہ لطائف والی محنت ہے اس طریقے سے ہو گی اس طریقے سے جذب حاصل ہو گا، جب جذب حاصل ہو جائے گا تو اس کے بعد ریاضت اور مجاہدات کے ذریعے سے نفس پہ محنت ہو گی تاکہ نفس اور روح جو آپس میں مقام قلب میں جڑے ہوئے ہیں ان کو علیحدہ کیا جائے، جب نفس نیچے آ جائے عبدیت کی جگہ پہ اور روح ملاء اعلیٰ میں پہنچ جائے، یہ اس کا ایک رخ ہے۔
دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم ذکر و فکر کے ذریعے سے جو عقل ہے اس کو ماشاء اللہ اتنا feed کریں کہ وہ خود لطیفہ سر اختیار کر لے مطلب کہ ملاء اعلیٰ پہنچ جائے، یعنی عقل کو جو information اوپر سے مل رہی ہے اس کے ذریعے سے وہ جڑ جائے اور یہ سر بن جائے گا، بہرحال یہ جو اہداف ہیں ان کو حاصل کرنا ہے اس کے پھر نتائج ہیں، جیسے دل والی محنت ہے وہ لطیفہ روح بن جائے گا اور عقل والے جو کام ہیں تو وہ سِر بن جائے گا تو اس میں ناموں کی وجہ سے کچھ اشتباہ ہو رہا ہے لیکن اصل میں یہ اہداف ہیں اور یہ sensing points ہیں۔ اگر پانچوں کے پانچوں آپ دل میں سمجھیں تو پھر تو وہی جذب والی بات اس پہ منطبق ہو جائے گی اور پھر میرے خیال میں کوئی اختلاف نہیں کیوں کہ قرآن و حدیث سے صرف دو معلوم ہیںایک قلب اور دوسرا نفس ہے، مطلب کہ قلب اور نفس کا ہی پتا ہے ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا﴾ (الشمس: 10-9) یہ نفس کے بارے میں ہے اور ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ﴾ (ق:37) یہ قلب کے بارے میں ہے۔ لہذا جو اختلاف ہے وہ صرف طریقہ کار کا اختلاف ہے مختلف سلاسل کے اندر۔ بعض حضرات کے نزدیک جو مختلف لطائف ہیں وہ اصل میں قلب کی مختلف کیفیات ہیں لیکن اختلاف میں جائے بغیر اگر ہم کہہ دیں کہ اگر اس کے اوپر باقاعدہ طریقے سے محنت ہو رہی ہے تو اس کا انکار نہیں کرنا چاہیے اس سے ماشاء اللہ جو فوائد حاصل ہو رہے ہوں وہ ہمیں معلوم ہیں کہ کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں، لیکن اس کا جو ultimate result ہو گا تو وہ یہی ہو گا کہ جذب کی کیفیت حاصل ہو گی تو جذب کی کیفیت حاصل ہونے کے بعد نفس کے اوپر جو محنت ہے سلوک طے کرنے کے لحاظ سے وہ علیحدہ کرنا پڑے گی، اس سے لطیفہ روح بن جائے گا اور جب فکر ذکر کے ساتھ مل جائے گی تو یہ عقل کو سر بنا دے گی تو اس طریقے سے ماشاء اللہ ہم لوگ اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد مراقبات جو ہیں وہ الگ ہیں وہ بھی sensing point کے لحاظ سے ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ کیفیات attached ہیں۔ تو یہ طریقہ کار ہے یہ جذب و سلوک، جس کی تفصیل ہماری کتاب حقیقت جذب و سلوک میں موجود ہے۔
سوال نمبر9:
میرا ذکر complete ہو گیا ہے۔ 200 دفعہ لا الہ الا اللہ، 400 دفعہ الا اللہ، 600 دفعہ اللہ اللہ، 300 دفعہ اللہ، 40 دن ہو گئے اس کے اور دوسرا حضرت جی میں نے دو ایک دن پہلے خواب دیکھا تھا جس میں، میں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہوتا ہے تو میرے ساتھ مجھے یاد نہیں ہوتا دو تین ساتھی ہوتے ہیں ان کو کہتے ہیں کہ دیکھ کے آتے ہیں کہ واقعی میں امام مہدی ہیں ایسا مطلب ہم آپس میں کہتے ہیں پھر ادھر جاتے ہیں تو ایک بڑی سی جگہ ہوتی ہے کافی بڑی، جیسے بہت بڑی مسجد کہہ لیں ادھر ایک دروازہ ہوتا ہے تو دروازے سے جیسے ہی اندر جاتے ہیں تو درباری جو دروازے پر ہوتے ہیں ان کو دیکھ کر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ امام مہدی کے لوگ نہیں ہو سکتے یہ جس نے دعویٰ کیا ہے وہ دجال ہے تو اس پہ میں ان کو کہتا ہوں بھائی یہاں سے جتنا جلدی ہو سکے نکلو تو وہ شخص ہمیں بھانپ جاتا ہے کہ اندر نہیں جا رہے، اندر آتے ہی اب دوبارہ واپس کیوں جا رہے ہیں؟ اس پہ ان کی طرف سے پتا نہیں کچھ ہوتا ہے لیکن ہمارے سر کافی بھاری ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاتھوں سے کوئی control چھین لیتا ہے جیسے force کر رہا ہو کہ ہم اندر جائیں، لیکن میں تو نکل آتا ہوں باقی ساتھی رہ جاتے ہیں وہ اس چیز کے حصار میں آ جاتے ہیں اور ان کے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ اگر ان لوگوں نے اس چیز کی تیاری کی ہوتی تو شاید ان کی بچت ہو جاتی، تو میں نکل جاتا ہوں یہاں سے اور دور کہیں چلا جاتا ہوں کسی علاقہ میں اور ادھر پھر میں دیکھتا ہوں کہ تین چار ساتھی ہیں اور ان میں امام مہدی بھی ہیں تو میں ان کی ضیافت کرتا ہوں، ان کے ساتھ ملتا ہوں اور ان کو اپنا مہمان بناتا ہوں، تو یہ خواب میں نے دیکھا ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ یہ خواب صحیح خواب لگ رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ دجال اور امام مہدی علیہ السلام کا ظہور قریب ہے، اس وجہ سے اس کی تیاری کرنی چاہیے اور تیاری اس کی یہ ہے کہ جو چیزیں دجال کے tools ہیں، ان سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ جو music ہے اور جو اچھے کھانے ہیں یعنی ان چیزوں کا شوق اور عورتیں ہیں اور اس قسم کی جو چیزیں ہیں، جو نفس کی مرغوب چیزیں ہیں وہ دجال کے tools ہیں۔ لہذا اپنے آپ کی ان چیزوں سے حفاظت کرنی ہے اور ان چیزوں میں اپنے آپ کو پھنسانا نہیں ہے، تا کہ جس وقت دجال آئے تو دجال کے پاس یہ چیزیں بہت زیادہ powerful ہوں گی تو روحانیت امام مہدی علیہ السلام کے پاس ہو گی اور دجالیت دجال کے پاس ہو گی۔
پر یہ جو بتایا ہے کہ انہوں نے control ہمارا لے لیا تو control لینے کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کے tools جو دجال کے ہیں وہ مؤثر ہو جاتے ہیں اور وہ کھینچ لیتے ہیں، انسان بے اختیار ہو جاتا ہے حالانکہ بے اختیار نہیں ہوتا لیکن چونکہ انہوں نے practice نہیں کی ہوتی ہے، اپنے آپ کو بچایا نہیں ہوتا تو بہت زیادہ power ہو گی اس کے اندر تو وہ کھینچ لے گا، اس وجہ سے بہت سارے لوگ اس کے شکار ہوں گے۔ تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے آپ کو دجالیت سے بچانے کے لیے ایسی چیزیں جیسے آج کل music اور تصویر۔۔ یہ تو بہت زیادہ چھا گیا ہے تو لوگوں نے بلکہ مولویوں نے بھی اس میں ھامی بھر دی ہے کہ اپنی تصویریں بھی دے رہے ہیں اور music بھی برداشت کر رہے ہیں اور مسجدوں میں بھی وہ music والا mobile اور ان کی جو tones ہیں وہ آ رہی ہیں اور کسی کو پرواہ نہیں تو ساری نشانیاں اسی کی ہیں کہ معاملہ قریب ہے اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرما دے ہمیں ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے یعنی نہ تو musical tones کے mobile رکھنے چاہیں نہ جو تصویریں ہوں ان کے اندر اور نا بہت زیادہ show off کرنا چاہیے، videos میں جو بہت زیادہ انہماک ہے اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے اور اس طریقے سے امید ہے کہ ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ حفاظت فرما دیں گے اور ذکر اذکار اور صحبت صالحین، اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دجال کے شرور سے امان میں رکھے۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت نماز میں وہ جو کیفیت والا سلسلہ ہے أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ﴾ تو جس وقت اس کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں تو اس میں پھر قرآن مجید جو پڑھا جاتا ہے اس کے ترجمے کی طرف دھیان نہیں رہتا جس وقت ترجمے کی طرف غور و فکر کرتا ہوں تو اس میں مختلف قسم کی آیات آتی ہیں،کبھی واقعات آتے ہیں کبھی آیاتِ رحمت ترجمے میں جب غور ہوتا ہے تو اس میں پھر آنکھیں بند کر کے توجہ اس طرف چلی جاتی ہے وہ کیفیت بھی وہی، اللہ رب العزت جیسے دیکھ رہا ہے وہ حضوری نصیب نہیں ہوتی۔ تو ان دونوں میں سے کون سی صورت اختیار کرنا زیادہ بہتر ہےکہ آیا ترجمے کی طرف غور کر کے نماز پڑھی جائے یا پھر اس کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے بس صرف قرآن مجید کے الفاظ کو پڑھا جائے؟ اس میں سے کون سی صورت نماز کے لیے بہتر ہو گی؟
جواب:
احادیث شریفہ میں غور کرنے سے جو پتا چلتا ہے کہ مقصود تو یہی کیفیت احسان ہی ہے نماز کے اندر، کیونکہ نماز کے اندر ہم لوگ قرآن پڑھنے کے لیے اور قرآن سننے کے لیے اور قرآن کے ترجمہ کرنے کے لیے نہیں کھڑے ہوتے بلکہ اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، تو اس میں یہ پتا ہو کہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ کے سامنے میں کھڑا ہوں، یہ کیفیت احسان ہے۔ عالم کے لیے تو یہ مشکل بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس میں عالم کے لیے تو سورۃ فاتحہ بالکل مادری زبان کی طرح ہو سکتی ہے، یعنی اس میں تو ان کو غور کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے تو اس میں کیفیت احسان میرا خیال ہے خود بخود آنی چاہیے، اگر کسی کو حاصل ہو سکتی ہو۔ باقی جو قرآن ہے تو اس میں انسان ترجمہ بعد میں پڑھے نماز کے علاوہ لیکن یہ بات ہے کہ نماز کے اندر کیفیت احسان حاصل کرنے کی کوشش کر لے اور اگر نہ حاصل ہو سکے تو پھر اس کے لیے دوسری صورتیں یہی ہیں کہ جیسے انسان سمجھے کہ میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا ہوں تو خانہ کعبہ کا تصور ذہن میں رکھے اگر نہ ہو سکے تو پھر یہی بات ہے کہ قرآن پاک کچے حافظ کی طرح پڑھے اور ہر ہر رکن کے اوپر علیحدہ اپنی قلبی نیت کر لے کہ میں اب سجدے میں جا رہا ہوں اب میں رکوع میں جا رہا ہوں اس طریقے سے، تاکہ ہمارا نماز کے اندر جو وقت ہے وہ نماز ہی میں لگ جائے اور ادھر ادھر چیزوں میں نہ بہرحال جو چیز اس میں آپ کر سکیں یعنی اوپر سے لے کے تو اگر کر سکیں تو ٹھیک ہے ورنہ پھر دوسری طرح، دوسرے نمبر پہ یا تیسرا نمبر پر جو چیز آپ کر سکیں تو اس پہ آپ اپنے آپ کو تیار رکھیں کیونکہ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کیونکہ تصوف سے کچھ رسوخ رکھتے ہیں کہ جن کا شیخ نہ ہو ابھی، جب تک ان کو شیخ مناسب نہ ملے یا اگر ان کو ملے ہی نہ تو ان کے لیے کیا علوم الدین کی کتاب کا مطالعہ کافی ہے یا ان کے لیے کثرتِ الصلوۃ النبی ﷺ شیخ کا متبادل بن سکتے ہیں، اگر بہت زیادہ تعداد میں کی جائے۔ نبوی توجہات کی وجہ سے اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا یہ قول درست ہے کیونکہ متعدد جگہوں سے سنا ہے رہنمائی فرمائیں؟
جواب:
یہ بعض حضرات نے اس لیے فرمایا کہ جن کو بالکل کسی کے ساتھ بھی مناسبت نہ بنتی ہو تو یہ بامرِ مجبوری بتایا جاتا ہے ورنہ طریقہ تو یہی ہے کہ جیسے میں اکثرعرض کرتا رہتا ہوں کہ قلب اور روح، عقل اور نفس اس کی جو تہذیب ہے یہ بغیر شیخ کے تو ممکن نہیں ہے مطلب ظاہر ہے کہ شیخ کی نگرانی میں یہ کام کیے جا سکتے ہیں۔ نفس کا جو مجاہدہ ہے اور روح و قلب کی جو تہذیب ہے، اسی طرح رویائے صالحہ میں بہت سارے حضرات کے بارے میں ہے کہ آپ ﷺ نے مشائخ کی طرف guide کیا جیسے حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ نے دوسرے حضرات کو مشائخ کی طرف جو زندہ مشائخ ہیں، ان کی طرف guide کیا کیونکہ زندہ مشائخ سے انسان کو تربیت حاصل ہوتی ہے۔ ایک ہوتی ہے برکت وہ تو کسی جگہ سے بھی حاصل ہو سکتی ہے لیکن جو تریبت ہے وہ تو زندہ مشائخ سے حاصل ہو سکتی ہے اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ شیخ کامل کی تلاش کر لے کیونکہ ہمارے جتنے بھی کامیاب حضرات گزرے ہیں انہوں نے شیخ کامل کو تلاش کیا اور شیخ کامل پایا ہے کیوں کہ ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں جو شیخ کامل کے بغیر طریق تک پہنچے ہوں اس میں وہ بہت کم ہیں لیکن جو حضرات شیخ کامل کی تلاش میں گے ہوں تو شیخ کامل مل بھی جاتا ہے اس لیے شیخ کامل کی تلاش کرنی چاہیے۔ باقی جہاں تک درود شریف کی بات ہے سبحان اللہ یہ قرآن پاک کی طرف سے ہے یہ شیخ کامل کے لیے ہم نہیں کر رہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ﴿إِنَّ اللهَ وَ مَلائِکَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَى النَّبِیِّ یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلیما﴾ (احزاب:56) یہ تو کثرت کے ساتھ پڑھنا چاہیے یہ تو محبت کا بھی تقاضا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا بھی تقاضا ہے۔ بہت زیادہ پڑھنا چاہیے شیخ ہو بھی تو پھر بھی پڑھنا چاہیے۔ درود شریف ساکت تو نہیں ہو جائے گا۔ اگر کسی کو شیخ مل گیا تو وہ درود شریف تو ہم لوگ بھی بتاتے ہیں اور بہت کثرت کے ساتھ بتاتے ہیں الحمد للہ درود شریف پڑھتے رہنا چاہیے اور قرآن پاک کی تلاوت بھی کرتے رہنا چاہیے کثرت کے ساتھ، یہ دو بڑے زبردست وظائف ہیں۔ لیکن جیسے بعض لوگ کہتے ہیں قرآن پیر ہے۔ بھائی قرآن کیسے پیر ہے قرآن تو کلام ہے اس کو سمجھانے کے لیے عالم ہونا چاہیے اس پر عمل کرنے کے لیے شیخ ہونا چاہیے آخر رجال اللہ اور جو کتاب اللہ ہے اس کے بارے میں جو تشریح مفتی شفیع صاحب نے کی ہے وہ کس لیے کی ہے؟ وہ اس لیے کی ہےکہ کچھ لوگ رجال اللہ کو لے لیتے ہیں اور کچھ لوگ کتاب اللہ کو لے لیتے ہیں تو نا مکمل رہ جاتے ہیں، رجال اللہ کے ساتھ کتاب اللہ بھی لینا چاہیے، کتاب اللہ کے ساتھ رجال اللہ بھی لینا چاہیے۔ تو اس طریقے سے کامیابی ہو جاتی ہے، تو بہرحال شیخ کامل کی تلاش جاری رکھنی چاہیے ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ مدد فرمائیں گے اور اگر ناکام ہو گئے چونکہ تلاش میں تو آپ رہے تھے تو امید ہے کہ ان شاء اللہ اس کی compensation اللہ تعالیٰ فرما دے گا لیکن اس طریقے سے اپنے آپ کو مایوس کر کے بظاہر تو مجھے لگتا ہے کہ سستی اور کاہلی کی ہی بات ہے، انسان کو وہی طریقہ زیادہ استعمال کرنا چاہیے جو مجرب ہو جو بہت زیادہ استعمال ہوتا ہو جس کو سارے لوگ استعمال کرتے ہوں الحمد للہ مشائخ ہیں بھی اور ان کے پاس جایا بھی جا سکتا ہے تو لہذا جن کے ساتھ مناسبت ہو تو ان کے ساتھ اپنا رابطہ کرنا چاہیے اور علامات شیخ کامل کی وہ معلوم ہونی چاہیے پھر اس کے بعد check کریں کہ کس کے ساتھ مناسبت زیادہ ہے بس فیصلہ کریں، خواہ مخواہ اپنے آپ کو confuse کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم! ہم اپنے دوستوں، رشتے داروں کو کس حد تک دین کی بات بتا سکتے ہیں اور کیا وہ دین کی بات بھی بتا سکتے ہیں جس پر ہم خود عمل نہ کرتے ہوں جب کہ آپ نے فرمایا تھا کہ کوئی مرید کسی کی اصلاح نہ کرے کیا کسی کو کوئی دین کی بات بتانا اصلاح میں آتا ہے اللہ پاک آپ سے راضی ہو آمین۔
جواب:
ماشاء اللہ بڑا اچھا سوال ہے ایک بات تو یاد رکھنی چاہیے کہ اپنے دوستوں، رشتہ داروں کے حوالے سے دیکھیں حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو انسان اپنے لیے پسند کرے وہ دوسرے کے لیے بھی پسند کرے اگر آپ کو یہ فائدہ دے رہا ہے اور آپ کو پتا چل رہا ہے کہ مجھے اس سے فائدہ ہو رہا ہے اور اس سے فائدہ ہوتا ہے تو پھر دیانت داری کا تقاضا ہے کہ اپنے دوستوں، رشتہ داروں کو یہ بتانا چاہیے اور اس بارے میں جس طرح مناسب انداز میں بات کی جا سکتی ہے تو بات کریں اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ مفید ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ کیا وہ دین کی بات بھی بتا سکتے ہیں جس پر اپنا عمل نہ ہو تو دیکھیں میں آپ کو بتاؤں یعنی یہاں پر ﴿لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾ (الصف: 2) ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحبؒ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت اس آیت کا کیا مطلب ہے کیونکہ اگر ہم لوگوں میں وہ چیز نہیں ہے جو ہم بات کر رہے ہوں وہ اس آیت کے خلاف ہو جائے گی تو حضرت نے فرمایا اس میں دعوت کی مخالفت، یعنی دعوت کو منع نہیں کیا گیا بلکہ دعویٰ کو منع کیا گیا ہے کہ اس بات کا دعویٰ نہ کرو جو آپ کو حاصل نہ ہو﴿لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾(الصف:2) یعنی اپنے آپ کو کیوں claim کرتے ہو جو تم حاصل نہیں کرچکے ہو تو وہ تو claim نہیں کرنا چاہیے۔ بہرحال جو بھی آپ ماشاء اللہ یعنی بات کو مفید سمجھتے ہیں اگر نہ بھی آپ کو حاصل ہو پھر بھی کریں اس نیت سے تاکہ مجھے بھی اس پر عمل کی توفیق ہو جائے بلکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے آپ میں جو کمزوری دیکھتا ہوں اس پر وعظ کہہ دیتا ہوں یعنی اپنے آپ کو چاہتا ہوں کہ مجھ میں ہو اور مجھ میں نہ ہو تو میں اس پر وعظ کر لیتا ہوں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسرے کو دعوت دے تو اپنے آپ کو superior نہ سمجھے بلکہ اس چیز کا محتاج سمجھے اور اس محتاج ہونے کے لحاظ سے اس کی دعوت دے تو آپ کسی کو بھی جو دعوت دیں تو اس میں یہ بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ میں اس کا خود محتاج ہوں اور اگر خود آپ کو حاصل نہ ہو تو اس میں خود بخود automatically حاصل ہو گا تو آپ کی جو کیفیت دعائیہ ہو گی اس کے ساتھ ان شاء اللہ اس سے آپ کا کام بھی بن جائے گا۔
سوال نمبر13:
کیا کسی کو کوئی دینی بات بتانا اصلاح میں آتا ہے؟ جواب:
اصل میں ایک ہوتا ہے کسی کو اچھی چیز یا بری چیز کے بارے میں بتانا علمی طور پر، وہ تو علمی اصلاح ہے۔ لیکن وہ جس کو عملی اصلاح کہتے ہیں جس میں انسان کو باقاعدہ ذکر اذکار دیئے جاتے ہیں اور طریقے بتائے جاتے ہیں اس کے سوالوں کے جوابات وغیرہ وہ اصلاح مشائخ کا کام ہے وہ عام انسان نہ کرے بلکہ اس کو مشائخ تک لے جائے باقی یہ کہ اچھی بات بتانا یہ علمی اصلاح میں آتا ہے تو علمی اصلاح میں کوئی حرج نہیں ہے اگر کسی کو آتا ہو تو reference کے ساتھ بتا دے کہ فلاں جگہ لکھا ہوا ہے فلاں نے بتایا ہے تو اس کے لحاظ سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
سوال نمبر14:
حضرت جی آپ کی website پر جو نماز کے اوقات کے calendar ہیں کیا وہ ہر سال چلتے ہیں؟ 2017 میں کیا یہی اوقات ہیں؟ جواب:
جی ہاں اس میں یہ خیال رکھا گیا ہےکہ کتنے عرصے تک اس کے اندر اتنا error آ سکتا ہے، اس میں احتیاط کی ہے وہ اس کے اندر compatible ہے تو ان شاء اللہ آپ اس کو دس پندرہ سال تک reasonably استعمال کر سکتے ہیں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال نمبر15:
ایک خاتون نے کل فون کیا تھا جس وقت ہمارا بیان چل رہا تھا تو اس پر میں نے کہا کہ ابھی ہمارا بیان چل رہا تھا کہ آپ کا فون آیا ہمارا گیارہ سے بارہ بجے تک اتوار کے دن بیان ہوتا ہے بیان کے وقت فون سن نہیں سکتے اور بارہ بجے سے ایک بجے تک فون کا وقت ہے اس کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بارہ بجے اس نے مجھے message کیا کہ کیا میں آپ کو فون کر سکتی ہوں تو ظاہر ہے جب اجازت کی ضرورت نہیں تھی وہاں اجازت مانگی جائے اور جہاں اجازت مانگنی چاہیے تھی یا نہیں کرنا چاہیے تھا وہاں پر کر لیا فون، تو میں نے یہ بتایا کہ عجیب بات یہ ہے کہ جس وقت فون نہیں کرنا تھا اس وقت فون کیا اور جس وقت بغیر اجازت کے فون کیا جا سکتا تھا اس وقت آپ اجازت کے لیے messageکر رہی تھیں ایسا کیوں ہے تو اس نے جواب دیا۔
I am really sorry Sir! I don’t realize I will be very careful. I am having tension in school. In the office a student was deliberately harassing teachers and students. I told him to knock and enter but other teachers didn't tell him. On Friday, he crossed his limits and kept on coming when we three teachers were there. I complained to the head that if no action is taken I will resign. I am sorry Sir! I won’t do it In Sha Allah. I will call in time.
جواب:
الحمد للہ اپنی غلطی کو admit کرنا یہ بڑی اچھی بات ہے اللہ جل شانہ ہم سب کو اس کی برکات عطا فرمائے۔ باقی یہ ہے کہ یہ جو بات آپ نے کی تو آپ واقعی اپنے authorities تک بات پہنچا دیں باقی teachers اس لیے نہیں کہتی ہوں گی کہ وہ پردہ نہیں کرتی ہوں گی اور آپ چونکہ پردہ کرتی ہیں تو آپ کی ضرورت ہے تو آپ ان کو بتائیں چونکہ میں پردہ کرتی ہوں میری ضرورت ہے لہذا knock کر کے کر لیا کریں جن کو اجازت دے دیں آنے کی تو ٹھیک ہے ورنہ جو بھی صورتحال ہو گی اس کے مطابق deal کیا جائے گا کیونکہ باقی خود اپنے طور پہ جو بھی کرنا چاہتا ہے وہ ٹھیک ہے۔
They are responsible for their own actions. لیکن For others, they should think about what is right and what is not.
مطلب ان کو کم از کم یہ خیال کرنا چاہیے کہ دوسرے لوگ کیا سوچتے ہیں۔
ایک بات generally میں عرض کروں جو بھی اس program کو سن رہے ہیں کہ بارہ بجے سے لے کے ایک بجے تک کا time ہے telephone کا تو مطلب اگر اس سے ہماری اصلاحی line کے ساتھ جو بھی بات ہو تو اس کو اسی ٹائم میں کر لیا کریں extra اپنے لیے خصوصیت کا label نہ لگوائیں، خصوصی ہمارے لیے سارے ہیں لیکن ہمارے اور بھی خصوصی کام ہیں جو کرنے ہوتے ہیں تو اس میں ہم busy ہوتے ہیں تو اس میں disturb نہ کیا جائے تو اچھی بات ہے۔ وقت کا خیال رکھا کریں اس میں آپ کا بھی فائدہ ہے اور ہمارا بھی فائدہ ہے یہ انتظام سے جو کام چلتے ہیں تو اسی میں فائدہ ہوتا ہے بدانتظامی سے نقصان ہوتا ہے اس لیے سب سے یہ درخواست کروں گا کہ well in time جو بارہ بجے سے لے کے ایک بجے تک کا time ہے اسی کے دروان ہی telephone کر لیں اور اگر بہت زیادہ بات ہو تو پھر message کر لیا کریں لیکن میسج اس طرح کریں کہ اس میں مجھے bound نہ کریں کہ ابھی میں جواب دوں بس ٹھیک ہے message چھوڑ دیا تو جس وقت میں دیکھوں گا مناسب تو اس وقت میں جواب دے دوں گا عین ممکن ہے میں اگلے ہفتہ تک اس کو رکھوں جیسے یہ سوال جواب کا جو session ہے اسی میں اگر کوئی سوال جواب ہو تو میں اس کو اس کے لیے رکھوں اور پھر وقت پہ میں جواب دوں کیوں کہ اس کے لیے ہم نے خاص time رکھا ہوا ہے۔ تو بہرحال telephone اس وقت کریں جب واقعی telephone کی ضرورت ہو اگر اصلاحی line کی بات ہے تو بارہ بجے سے لے کے ایک بجے تک اس وقت telephone کریں تاکہ باقی اوقات میں حرج نہ ہو اللہ جل شانہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرما دے۔
وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ۔