اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
گذشتہ ماہ ربیع الاول کا مہینہ تھا، اس ماہ ہمارے مخصوص معمولات چل رہے تھے۔ کئی لوگوں نے اپنے درود شریف کے بارے میں اطلاعات دی ہیں۔ انڈیا سے اطلاع آئی تھی کہ انہوں نے 29 دن روزانہ پانچ ہزار مرتبہ درود شریف پڑھا۔ یہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ مرتبہ بنتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی جگہوں سے اطلاعات آئی ہیں۔ الحمد للہ اس دفعہ 14 کروڑ 35 لاکھ تک کا حساب ہو چکا تھا اور اس کے بعد جو پیغامات آئے وہ اس کے علاوہ ہیں۔ بس اللہ پاک کا فضل ہے، الحمد للہ ساتھیوں نے محنت کی اور اللہ پاک نے توفیق عطا فرمائی۔ اللہ جل شانہ ہمیں اس طرح ہی توفیقات سے نوازتے رہیں۔ آمین
سوال نمبر1:
حضرت جی آپ کا بیان سن رہا تھا جس میں آپ نے فرمایا: ”زیادہ سے زیادہ درود پاک پڑھنا چاہیے بلکہ ہو سکے تو ہر وقت پڑھنا چاہیے“۔ لیکن میں ابھی ابتدائی ذکر پہ ہوں اور آپ کے بتائے ہوئے ذکر کے علاوہ اور کوئی ذکر نہیں کرتا۔ اس سلسلہ میں رہنمائی فرما دیں۔ جزاک اللہ۔
جواب:
دو قسم کے ذکر ہوتے ہیں ایک ہوتا ہے ثوابی ذکر اور ایک ہوتا ہے علاجی ذکر۔ علاجی ذکر متعین ہوتا ہے اور شیخ سے لیا جاتا ہے، کسی اور کے بتانے سے نہیں کیا جاتا اور اتنا ہی کیا جاتا ہے جتنا بتایا جاتا ہے۔ لیکن ثوابی ذکر کا کوئی حساب نہیں ہوتا اس کی صرف ایک ہی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ اس کی وجہ سے کوئی فرض یا واجب نہیں رہنا چاہیے، فرائض و واجبات پورے کرنے کے بعد بے شک سارا وقت ذکر کرتے رہیں کوئی حرج نہیں۔ اپنی اپنی ہمت کی بات ہے جتنا انسان کر سکے، کرے۔ جیسے ہم لوگوں نے درود شریف لاکھوں مرتبہ پڑھ لیا اور اس کے ساتھ اپنا علاجی ذکر بھی کرتے رہے۔
سوال نمبر2:
(سعودی عرب سے ایک صاحب نے میسج بھیجا ہے، لکھتے ہیں) السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کاکا صاحب۔ (یہ مجھے کاکا صاحب کہتے ہیں کیونکہ کاکا خیل ہوں تو کاکا خیل سے کاکا صاحب بنا لیا) مجھ سے مراقبہ میں اکثر ناغہ ہو جاتا ہے باقی معمولات ٹھیک ہیں لیکن مراقبہ میں غفلت ہوتی ہے۔
جواب:
اکثر میں اپنے ساتھیوں کو بتاتا ہوں کہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ شیطان کا سارا زور اصلاحی ذکر چھڑانے پہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصلاحی ذکر انسان کو شیطان کے چنگل سے آزادی دیتا ہے۔ اب چونکہ آپ شیطان کے چنگل سے آزاد ہونا چاہتے ہیں اس لئے وہ آپ کو آپ کے مقصد سے بھٹکاتا ہے تاکہ آپ اس کے چنگل سے آزادی حاصل نہ کر سکیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا دشمن سب سے پہلے آپ کے اسلحہ پہ حملہ کرے گا آپ کی خوراک کی چیزوں پہ حملہ نہیں کرے گا ممکن ہے کسی وقت خوراک کی چیزوں پہ بھی حملہ کر لے لیکن سب سے پہلے آپ کے اسلحہ پر حملہ کرے گا۔ یہ ثوابی ذکر آپ کی خوراک ہے اور علاجی ذکر آپ کا اسلحہ ہے۔ شیطان یہ آپ سے چھیننا چاہتا ہے۔ اکثر مجھے شکایات ملتی ہیں کہ مراقبہ نہیں ہو پا رہا یا اصلاحی ذکر نہیں ہو پا رہا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ شیطان اس میں رکاوٹیں ڈالتا ہے، اس لئے مراقبات اور علاجی اذکار کرنے میں ہمت سے کام لینا ہوتا ہے۔
ایک دفعہ میں ڈاکٹر وجاہت اللہ بنگش صاحب ای این ٹی سپیشلسٹ سے اپنے گلے کا علاج کروا رہا تھا۔ انہوں نے مجھے دوائی دی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ پرہیز بتا دیں کہ کیا پرہیز کروں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ intelligent پرہیز کر لیں، آپ کے خیال میں جس چیز سے آپ کو نقصان ہو سکتا ہے اس سے پرہیز کریں۔ انہوں نے میرے اوپر بات ڈال دی کہ آپ کے خیال میں جس چیز سے آپ کو نقصان ہو گا آپ وہ نہ کھائیں۔ ان کی بات بھی صحیح تھی۔ ہم بچے تو نہیں ہیں کہ ہمیں بتانا پڑے کہ یہ نہ کھاؤ، یہ نہ کھاؤ اور یہ نہ کھاؤ۔ بس جو چیز ہمیں نقصان دے جس چیز سے الرجی ہو اس کو ہم استعمال نہ کریں، یہی پرہیز ہوتا ہے۔
میں عرض کرتا ہوں کہ ماشاء اللہ آپ بڑے ہیں۔ بڑے ہونے کی وجہ سے آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ جو چیز آپ کا اصل اثاثہ ہے، جس پہ آپ کا فیوچر منحصر ہے یعنی اصلاحی ذکر، اس کو آپ بالکل نہ چھوڑیں۔
باقی آپ نے کہا کہ مراقبہ میں غفلت ہوتی ہے۔ یہ مراقبہ ہے ہی دل کی غفلت کا علاج۔ آپ علاج سے پہلے ہی ٹھیک ہونا چاہتے ہیں۔ یہ کون سا طریقہ ہے۔ یہ تو ایسا ہے جیسے کوئی ڈاکٹر کے پاس جا کر کہے کہ جب تک میں ٹھیک نہیں ہو جاؤں گا آپ کی دوائی نہیں کھاؤں گا۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ پہلے آپ علاج کریں گے پھر ٹھیک ہوں گے۔ علاج بھی صبر و استقامت سے کریں گے۔ ٹی بی کا علاج نو مہینے ہوتا ہے کبھی کبھی گیارہ مہینے ہوتا ہے۔ اب کوئی آدمی ڈاکٹر سے ٹی بی کا علاج کروا رہا ہے اور کہتا ہے میں نے سات دن آپ کی دوائی کھائی مگر فائدہ نہیں ہوا تو ڈاکٹر اسے کیا کہے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر مریض سے دوا لینے اور علاج کرنے میں ناغہ ہوتا ہے تو پھر ڈاکٹر ذمہ دار نہیں ہوتا۔ یہ بات ڈاکٹر مریض پہ واضح کر دیتا ہے کہ ایسی صورت میں میں ذمہ دار نہیں ہوں، کیونکہ ناغہ سے رکاوٹ بن جاتی ہے، اور علاج فیل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جس طرح دوا لینا ضروری ہے اسی طرح علاجی ذکر کرنا اور مراقبات کرنا ضروری ہیں۔ یہ بات آپ کو سمجھنا چاہیے۔ اگر آپ کو اپنی اصلاح نہیں چاہیے تو پھر مجھ سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ میں آپ کی منتیں تو نہیں کرسکتا، آپ سے یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ خدا کے لئے اپنے اصلاحی معمولات ضرور کیا کریں ورنہ نقصان ہو جائے گا، اس مقصد کے لئے آپ کے گھٹنے تو نہیں پکڑ سکتا۔ لہٰذا میں نے سمجھا دیا ہے اگر آپ کو اپنی اصلاح چاہیے تو آپ اپنی فکر کریں گے۔ اگر نہیں کریں گے تو اپنا ہی نقصان کریں گے۔
سوال نمبر3:
حضرت جی السلام علیکم۔ شادی پہ میوزک کی نحوست سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ کیا دل سے اس کو برا جان لینا گناہ سے بچا لے گا؟ کل اور آج ایک شادی میں شرکت کرنا ہے۔ شادی ہال میں میوزک بہت اونچی آواز میں لگا ہوتا ہے، اس سے حفاظت کے لئے کیا کروں؟
جواب:
فکر کی بات ہے۔ جس کو فکر ہوتی ہے اس کو فائدہ ہو بھی جاتا ہے۔ اگر آپ ایسی شادیوں میں شرکت سے بچ سکتی ہیں جن میں میوزک وغیرہ ہو تو ان میں نہ جایا کریں۔ اگر بہت مجبوری ہو اور آپ سمجھتی ہوں کہ شرکت نہ کرنے سے بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا تو پھر Ear plug لے لیں۔ جہاز میں سفر کرنے والوں کو Ear plugs دیئے جاتے ہیں تاکہ جب وہ سونا چاہیں تو اپنے کانوں میں ڈال کر سو جائیں۔ کانوں میں ائیر پلگ لگا لینے سے آواز نہیں آتی۔ آپ ایسے موقع پر اپنے ساتھ یہ لے جایا کریں۔ اس کے علاوہ جہاں میوزک وغیرہ لگا ہو وہاں یہ وظیفہ کرتی رہا کریں:
”یَا ھَادِیُ یَا نُورُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم“
ان شاء اللہ العزیز میوزک کے شرور سے حفاظت ہو گی۔ لیکن سب سے پہلی بات وہی ہے جو عرض کردی کہ اولاً اگر ممکن ہو تو ایسی شادیوں میں شرکت ہی نہ کریں، ثانیاً اگر شرکت ناگزیر ہو تو ائیر پلگ ساتھ رکھیں اور ثالثاً اس وظیفہ کا ورد کرتی رہیں۔ پہلی دونوں صورتیں چھوڑ کر صرف وظیفے پہ نہ رہیں۔ آج کل وظیفے بہت آسان ہیں اور پرہیز مشکل ہے حالانکہ پرہیز علاج سے بہتر ہوتا ہے۔ اس لئے زیادہ بہتر تو یہی ہے کہ آپ ایسی شادیوں میں شرکت سے بچیں۔ یہ نہیں کر سکتیں تو پھر Ear plugs اپنے کانوں میں لگا لیں۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ آپ اس کو دعوت کا ذریعہ بھی بنا سکتی ہیں۔
جرمنی میں میرے ساتھ میرے گھر والے پردے میں ہوتے تھے انہوں نے برقعہ اوڑھا ہوتا تھا۔ ایک جرمن خاتون بڑے غصہ سے ان سے پوچھتیں کہ آپ یہ کیا کر رہی ہیں تو یہ جواب میں انہیں اس پر پورا لیکچر دے دیتیں کہ یہ پردہ ہمارے لئے بہت مفید ہے۔ بالخصوص جب مسلمان عورتیں ملتیں تو ان کو بہت اچھی طرح بتا دیتیں۔ اسی طرح آپ کا ایسا کرنا دعوت کا ذریعہ بن جائے گا۔ اگر کسی نے پوچھا کہ یہ کانوں میں کیا لگایا ہوا ہے تو کہیں یہ میں نے اپنے آپ کو آگ سے بچانے کے لئے لگایا ہوا ہے کیونکہ میوزک سننے والے کانوں میں سیسہ انڈیلا جائے گا۔ بہرحال فکر کی بات تو ہے اللہ کرے کہ اس فکر سے کچھ اثر بھی ہو جائے۔ آمین۔
سوال نمبر4:
حضرت السلام علیکم۔ جب بھی کوئی شخص حال پوچھتا ہے تو منہ سے نکلتا ہے الحمد للہ، لیکن الحمد للہ کا استحضار نہیں ہوتا۔ آج صبح سے دل انتہائی بے چین ہے کہ الحمد للہ کیسے ادا کروں کیونکہ حق ادا ہو ہی نہیں سکتا۔ برائے مہربانی الحمد للہ کہنے کی تعظیم بیان فرما دیں۔
جواب:
پہلی بات یہ ہے کہ آپ زبان سے الحمد للہ کہہ رہی ہیں۔ اللہ کا شکر کریں کہ یہ بات آپ کو حاصل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ خود کہہ رہی ہیں کہ میں کیسے اللہ کا شکر ادا کروں اللہ کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ آپ کا یہ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کو اپنی ناشکری کا استحضار ہے اور اپنی ناشکری کا استحضار بھی شکر کے ضمن میں آتا ہے۔ پس اگر آپ اس میں مزید ترقی کرنا چاہتی ہیں تو یہ کریں کہ اگر کوئی آپ کا حال پوچھتا ہے تو یہ نہ بتائیں کہ میں بالکل ٹھیک ہوں، اگر کوئی مسئلہ ہو تو بے شک آپ اس کو بتا دیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ساتھ یہ بتائیں کہ ہم تو اس سے بھی زیادہ کے سزاوار ہیں، یہ مسئلہ، یہ مصیبت تو ہمارے لئے سعادت کا ذریعہ ہے اور گناہوں سے پاک ہونے کا ذریعہ ہے۔ اصل میں تو ہم سزا کے لائق ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے رحم فرمایا کہ ہمیں سزا نہیں بلکہ ایک پریشانی بھیج کر اسے ہمارے لئے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنا دیا ہے، یہ بہت بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عافیت نصیب فرما دے لیکن یہ سچ ہے کہ ہم قابل اسی کے ہیں۔
ایسا کرنے سے ان شاء اللہ شکر کا استحضار ہو جائے گا۔
سوال نمبر5:
حضرت آپ کی کتابِ فرائض یہاں پشاور میں کہاں ملتی ہے اور کتاب کا نام کیا ہے۔
جواب:
ہماری فرائض کی کتاب کا نام ہے ”میراث کا آسان حساب“۔ فی الحال تو مجھے نہیں معلوم کہ پشاور میں ملے گی یا نہیں البتہ ہماری خانقاہ سے مل سکتی تھی لیکن وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔ آپ ہماری ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ پر یہ کتاب پی ڈی ایف کی صورت میں موجود ہے۔
سوال نمبر6:
شاہ صاحب میرے گھر کے لئے دعا کریں۔
جواب:
اللہ پاک آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو جزائے خیر دے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے گھر کو، ہمارے گھر کو اور سب کے گھروں کو عافیت والا گھر بنا دے، اس میں ہمارے لئے سہولتیں اور عافیتیں رکھ دے اور ہمیں آخرت کے گھر کی فکر بھی نصیب فرما دے۔
سوال نمبر7:
حضرت آپ نے جیسے فرمایا تھا: ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 100 مرتبہ، ”اِلَّا اللہ“ 100 مرتبہ، ”اَللہُ اَللہ“ 100 مرتبہ، ”حَقْ“ 50 مرتبہ۔
جواب:
یہ کون سا ذکر ہے؟ یہ میں نے نہیں فرمایا۔ میرے خیال میں شاید آپ نے ٹھیک سے نوٹ نہیں کیا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ ”سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلْٰہِ وَ لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ اَکْبَرُ و لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم“ تیسرا کلمہ 100 دفعہ، درود شریف 100 دفعہ اور استغفار 100 دفعہ، یہ تو عمر بھر کرنا ہے اس کو ہم تسبیحات کہتے ہیں یہ تسبیحات تبلیغی جماعت والے بھی بتاتے ہیں ہم بھی بتاتے ہیں۔ یہ ولایت کی کنجی ہے۔ اس کو آپ باقاعدگی کے ساتھ ساری عمر کریں گے ان شاء اللہ۔ اصلاحی ذکر یہ ہے: ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ 100 مرتبہ، ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“ 100 مرتبہ، ”حَقْ“ 100 مرتبہ اور ”اَللہ“ 100 مرتبہ۔ یہ ایک مہینہ تک روزانہ بلاناغہ کرنا ہے اور ایک مہینے کے بعد مجھ سے رابطہ فرمانا ہے۔
سوال نمبر8:
حضرت آپ کا بتایا ہوا مراقبہ میں نہیں کرتا۔ ٹک کے بیٹھ کے نفس پر زور لگا کے کوئی کام نہیں ہوتا۔
جواب:
میں آپ کے لئے بس دعا ہی کر سکتا ہوں۔ اگر ہمت ہو تو اپنی ہمت استعمال کر لیا کریں۔ اگر آپ بالکل بھی اپنے میں ہمت نہیں پاتے گذشتہ بیماری واپس آ گئی ہے تو اپنے ڈاکٹر کو کنسلٹ کریں۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم حضرت۔ میرے پاس جو آخری دو مریض تھے ان کو بھی یہ کہہ کر منع کر دیا ہے کہ اب کہیں اور سے علاج کروا لیا کریں میں نے یہ کام چھوڑ دیا ہے۔ ان میں سے ایک خاتون ہیں۔ کوئی عیسائی جن نماز میں ان کی گردن دبا کے کمر سے لگا دیتا ہے۔ جب سے ان کو علاج سے منع کیا ہے ان کی تکلیف بڑھ گئی ہے۔ آپ ان کے لئے دعا فرمائیں۔ اللہ ان کے لئے آسانی فرما دے اور اس شریر جن سے جان چھڑوا دے۔ آمین۔
جواب:
دو چیزیں ہیں، ایک دنیاوی اسباب کے لحاظ سے اور ایک اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کے لحاظ سے۔ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کے لحاظ سے دعا ہے۔ میں بھی دعا کرتا ہوں یہ خاتون بھی دعا کریں۔ بالخصوص تہجد کے وقت اٹھ کے دعا کریں۔ اگر نماز نہ پڑھ سکتی ہوں تو نہ پڑھیں لیکن یہ دعا ضرور کریں کہ یا اللہ پاک میرے لئے کوئی سبیل نکال دے اور اس جن سے بچا دے۔ اس کے علاوہ دنیاوی اسباب کے رخ سے یہ کریں کہ اگر آپ کو کسی اور عامل کے بارے میں معلوم ہو تو اس کے بارے میں ان کو بتا دیں تاکہ یہ ان سے علاج کروا لیں۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم حضرت جی۔ وہ کون سے احوال ہیں جو اپنے شیخ کے علاوہ کسی اور کو بتانے سے نقصان ہو سکتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو دوسروں کو بتانے سے انہیں فائدہ ہوتا ہے۔ یہ بات کیسے سمجھ آئے گی کہ کون سی بات کسی کو بتانا مناسب ہے اور کون سی بات بتانا نامناسب ہے۔
جواب:
جو ذکر اذکار آپ اپنے شیخ سے پوچھ کے کر رہی ہیں اگر ان میں کوئی کیفیت آپ کو مل رہی ہے، یا اپنے کچھ معمولات جن کے چھپانے کا حکم ہے جیسے کوئی تہجد کی نماز پڑھتا ہے یا صدقہ دیتا ہے یا اس قسم کے دوسرے اچھے اعمال کرتا ہے جن کے بتانے سے شہرت حاصل ہو سکتی ہے اور انسان کو نقصان ہوسکتا ہے تو مبتدی کے لئے بہتر یہی ہے کہ اس کو چھپا لے۔ اگر منتہی نہ چھپائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ اس کا طریقہ جانتا ہوتا ہے کہ کیا چیز بتانی ہے کیا نہیں بتانی لیکن مبتدی کے لئے چھپانا بہتر ہے۔ اس لئے اپنی طرف سے اس کو چھپانے کی کوشش کرے۔
سوال نمبر11:
حضرت جی زکوٰۃ کے بارے میں پوچھنا تھا کہ زکوٰۃ کس کو دینا بہتر ہے؟ ایک آپشن تو یہ ہے کہ سلسلہ کے ہی ایک مستحق ساتھی ہیں، امیر صاحب کی وساطت سے ان کو دے دی جائے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ مفتی صاحب دامت برکاتہم کے مدرسہ میں دے دی جائے۔ اگر ان سے بھی بہتر کوئی اور مصرف ہو تو بتا دیجئے۔
جواب:
میرے خیال میں اس بارے میں ہم عرض کر چکے ہیں۔ کورس میں زکوٰۃ کے بارے میں تمام چیزیں بتائی گئی ہیں کہ اس کا مستحق کون ہے، زکوۃ کتنی ہوتی ہے اور کیسے دی جاتی ہے۔ اسی کے مطابق عمل کر لیں۔ پھر بھی اگر آپ کو واضح بات سمجھ میں نہ آئے، کوئی خصوصی بات ہو تو وہ اپنے استاذ مفتی صاحب سے فون پر رابطہ کر کے اپنے شوہر کے ذریعے سے پوچھ سکتی ہیں۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ میرا سوال حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے ایک ملفوظ کے بارے میں ہے جو کلید مثنوی میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کی توکل کے بارے میں بیان کی گئی تقسیم سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ جو لوگ توکل کو ترک کرتے ہیں، اس کے دقائق کو نہیں جانتے وہ غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا ہے: ضعیف النفس آدمی کے لئے لازم ہے کہ وہ دنیاوی اسباب کو اختیار کرے اور بھروسہ اللہ پر کرے۔ یہی اس کا توکل ہے۔
سوال یہ ہے کہ قوی النفس اور ضعیف النفس سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا کوئی معیار ہے؟ کیا یہ کوئی فطری چیز ہے کہ کچھ لوگ پیدا ہی ضعیف النفس ہوتے ہیں یا تصوف کے باقی مقامات کی طرح ان میں بھی تربیت کے ساتھ تبدیلی ہوتی ہے۔ اگر حضرت اقدس اس کی وضاحت فرما دیں تو ہم مشکور ہوں گے اور اگر اس کی تفصیل فائدے سے خالی ہے تو پھر ہم آپ کی خاموشی کو کافی سمجھتے ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
جواب:
مجھے ایک واقعہ یاد آیا ہے میرے خیال میں اس واقعہ میں آپ کے سوال کا جواب موجود ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ دس روپے ماہانہ تنخواہ پر پروف ریڈنگ کی ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کو خط بھیجا کہ حضرت میں اس ملازمت کو چھوڑنا چاہتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ نہ چھوڑیں۔ بعد ازاں حضرت کو خود ہی اتنا اطمینان اور یقین ہو گیا کہ انہوں نے ملازمت چھوڑ کے حاجی صاحب کو اطلاع کر دی کہ میں نے ملازمت چھوڑ دی ہے۔ حضرت نے مبارک باد دی، فرمایا: ماشاء اللہ مبارک ہو۔ اس پر لوگوں نے حاجی صاحب سے پوچھا کہ حضرت پہلے آپ نے روکا تھا لیکن جب اس نے خود چھوڑ دیا تو مبارک باد دی، اس میں کیا حکمت ہے؟ فرمایا: اس مسئلہ میں پوچھنا کمزوری اور ضعف تھا لہٰذا ایسے ضعیف آدمی کے لئے روکنا لازم تھا لیکن اب اس کا عمل بتا رہا ہے کہ وہ ضعف ختم ہو گیا ہے اس لئے میں نے اس پر مبارک باد دی ہے۔
اس سے پتا چلا کہ پہلے ضعف تھا بعد میں تربیت سے وہ ضعف ختم ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ یہ چیز (ضعیف النفس ہونا) تربیت سے ٹھیک ہو سکتی ہے۔
معلوم نہیں آپ حضرات یہ بات جانتے ہوں گے یا نہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ مجھے یہ ساری باتیں اب کرنی پڑتی ہیں۔ کیا کروں حالات ایسے آ گئے ہیں کہ مجبوراً مجھے یہ باتیں کرنی پڑتی ہیں کیونکہ ان چیزوں سے لوگ اب نا آشنا ہو چکے ہیں حالانکہ یہ بات ہمارے نصاب تصوف میں داخل ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکتوب نمبر 287 میں بڑی وضاحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی طریقہ سے جذب حاصل کر لے لیکن اس نے ابھی سلوک طے نہ کیا ہو تو اسے سلوک طے کرنا پڑے گا۔ اگر وہ بغیر سلوک طے کئے اسی جذب کسبی پر مطمئن ہو گیا تو یہ آدمی مجذوب متمکن ہے منتہی نہیں ہے۔ یہ نہ خود پہنچا ہے نہ دوسروں کو پہنچا سکتا ہے۔ اسی ضمن میں فرمایا کہ سلوک کے دس مقامات جن میں مقام توبہ ہے، مقام انابت ہے، مقام قناعت ہے، مقام ریاضت ہے، مقام تقویٰ ہے، مقام صبر ہے، مقام زہد ہے، مقام توکل ہے، مقام تسلیم ہے، مقام رضا ہے۔ یہ دس مقامات لازمی طور پر تفصیل کے ساتھ طے کرنے ہیں۔ تفصیل سے مراد یہ ہے کہ ان مقامات میں سے جس مقام میں سالک کی کوئی کمزوری ہے اسے ٹھیک کرنا ہے، جو برائی ہے اسے اچھائی سے تبدیل کرنا ہے۔ مثلاً ایک شخص کے نفس کے اندر مال کی محبت تو نہیں ہے لیکن بڑے ہونے کا تقاضا موجود ہے۔ ایسے شخص کو اگر کوئی مال دے اور یہ شخص کہے کہ مجھے مال کی محبت نہیں ہے میں اس مقام کو حاصل کر چکا ہوں زہد کو حاصل کر چکا ہوں تو ہم اس کی بات کو نہیں مانیں گے کیونکہ ابھی یہ شخص مال کو صرف اس لئے چھوڑ رہا ہے کہ اس کے نفس میں مال کی محبت نہیں ہے، لیکن اس کے نفس میں بڑائی کی چاہت موجود ہے، اگر اس مال سے اسے بڑائی حاصل ہو رہی ہوتی تو یہ نہ چھوڑتا۔ اس کی بات کی سچائی کا پتا اس وقت چلے گا جب یہ بڑا ہونے کا تقاضا بھی چھوڑ دے گا تب معلوم ہوگا کہ اس نے واقعی مقام زہد حاصل کیا یا نہیں حاصل کیا۔
مقامات سلوک تفصیل سے طے کرنے سے مراد یہ ہے کہ ہر مقام کے سارے پہلو cover ہو جائیں۔ مقام توکل میں بھی یہی معاملہ ہے۔ مقام توکل باقاعدہ ایک مقام ہے جس میں سالک کو اپنے اسباب کے مقابلہ میں ان اسباب پر زیادہ بھروسہ کرنا ہوتا ہے جو اللہ کے پاس ہیں۔ میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ سبحان اللہ بڑی اچھی مثال یاد آ گئی۔ شاید آپ نے یہ سوال اخلاص کے ساتھ کیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ مدد فرما رہے ہیں۔
ارواح ثلاثہ میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ شاہ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بھائی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ استاذ نے دیکھا یہ بڑے خوش ہیں اور بڑی بشاشت کے ساتھ سبق پڑھ رہے ہیں۔ استاذ کو بڑی حیرت ہوئی وہ سمجھے شاید گھر سے کوئی خط آیا ہے جس میں کوئی خوشی کی خبر ہو گی اس لئے یہ اتنے خوش ہیں۔ انہوں نے دونوں کو بلا کر پوچھا کیا بات ہے گھر سے کوئی خیر خبر آئی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں ہماری فلاں علاقہ میں کچھ جائیداد تھی خبر آئی ہے کہ وہ حکومت نے ضبط کر لی ہے۔ انہوں نے پوچھا آپ کی جائیداد ضبط کر لی گئی اس میں خوشی کی کیا بات ہے کہ آپ بہت زیادہ خوش نظر آ رہے ہیں۔ شاہ صاحب نے جواب دیا: حضرت پہلے ہماری نظر اس جائیداد پر ہوتی تھی کہ ادھر سے کچھ آئے گا تو ہم کھائیں گے لیکن اب صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہو گا، اس وجہ سے ہم خوش ہیں۔
یہ ہے وہ بات کہ اللہ جل شانہ کے اسباب پر اپنے اسباب کے مقابلہ میں زیادہ یقین ہو۔ دیکھیں ایک تو دینداری ہے اور ایک دنیا داری ہے۔ دینداری یہ ہے کہ آخرت کی چیزوں پہ زیادہ یقین ہو اور اپنی دنیا کی چیزوں کو آخرت کے لئے قربان کیا جا سکے۔ یہ دینداری ہے اب اس دینداری کے اندر اللہ پاک نے جو اسباب رکھے ہیں، آدمی کو ان پر اپنے دنیاوی اسباب سے زیادہ یقین ہو، یہ توکل ہے۔ دنیا کے اسباب کچھ بھی نہیں ہیں۔ میں آپ کو اپنی مثال دے رہا ہوں۔ مثلاً میں یہ چیز پکڑنا چاہتا ہوں، خدا کی قسم اس کا کوئی پتا نہیں کہ میں اس کو پکڑ سکوں گا یا نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے طاقت سلب کر لے تو سب دھرا کا دھرا رہ جائے گا میں کچھ بھی نہیں کر سکوں گا۔ میرے اسباب کی کیا حیثیت ہے میرے اسباب تو بالکل ہوا میں معلق ہیں، اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر ہیں اللہ پاک کی مرضی ہو تو یہ کام کریں گے ورنہ نہیں کریں گے۔ اسی لئے تو ”ان شاء اللہ“ ہے اسی لئے تو ”ماشاء اللہ“ ہے، لیکن لوگ ”ان شاء اللہ، ماشاء اللہ“ کے معنی نہیں جانتے۔ ”ان شاء اللہ“ کس لئے ہے؟ ”ان شاء اللہ“ اس لئے ہے کہ میں تو یہ کام کرنا چاہتا ہوں لیکن اللہ پاک چاہے گا تو ہو گا ورنہ نہیں ہو گا۔ آج کل ”ان شاء اللہ“ کو منافقت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، جس کام کو نہیں کرنا ہوتا اس کے بارے میں ”ان شاء اللہ“ کہہ دیتے ہیں۔ یہ کمزوری کی بات ہے۔ اصل میں ”ان شاء اللہ“ اس لئے تھا کہ انسان اپنے اوپر اتنا بھروسہ نہیں کرتا جتنا اللہ پہ کرتا ہے، انسان کا ارادہ ہوتا ہے کہ میں یہ کروں گا لیکن حتمی طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ میں یہ کر سکوں گا یا نہیں۔ اگر اللہ پاک چاہے گا تو ہو گا ورنہ نہیں ہو گا اس لئے ”ان شاء اللہ“ کہنے کا حکم آیا تاکہ اللہ کی منشا کی طرف اشارہ ہو۔ جیسے قرآن پاک میں آیا ہے:
﴿وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَيْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا اِلَّآ اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ﴾ (الکہف: 23)
ترجمہ: ”اور (اے پیغمبر) کسی بھی کام کے بارے میں کبھی یہ نہ کہو کہ میں یہ کام کل کرلوں گا۔ ہاں (یہ کہو کہ) اللہ چاہے گا تو (کرلوں گا)“۔
لہٰذا مقام توکل کو حاصل کرنا پڑے گا اور اس کے لئے تربیت لازم ہے۔
آج کل لوگوں نے نقشبندی سلسلہ کو ایک گَپ سمجھا ہوا ہے۔ مراقبات کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے جی سارا کچھ ہو گیا۔ بھائی یہ دس مقامات طے کرنے پڑیں گے، اور ان دس مقامات میں مقام توکل بھی ہے۔ دس مقامات تو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھے ہیں، ان کے علاوہ دوسرے کئی بزرگوں نے‘ جن میں حضرت سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں‘ یہ مقامات پچیس تک لکھے ہیں۔ لیکن اگر ان پچیس کو دیکھا جائے تو یہ دس مقامات ان پچیس کا نچوڑ ہیں اگر دس طے کر لے گا تو وہ پچیس انہی میں آ جائیں گے۔ اگر آپ غور سے اِن دس مقامات اور اُن پچیس مقامات کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ ان میں کتنے ایک دوسرے سے متعلق (inter-related) اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے(inter-connected) ہیں۔ بہرحال بات یہ ہے کہ یہ دس مقامات طے کرنے پڑیں گے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔ آمین
سوال نمبر13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت، فقیر ہمایوں حنیف کراچی سے عرض کر رہا ہوں، امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے، طبیعت اچھی ہو گی۔ ایک چھوٹی سی رہنمائی چاہیے تھی۔ کسی ساتھی نے مجھے سوال بھیجا ہے اگر آپ اس کا جواب مرحمت فرما دیں اور اس کے بارے میں وضاحت فرما دیں تو میرے لئے بڑی رہنمائی ہو جائے گی۔ جزاکم اللہ خیراً و احسن الجزا۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت میں امید کرتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل سے خیر خیریت سے ہوں گے۔ میرا نام عبید الرحمٰن ہے اور میرا سوال یہ ہے کہ تصوف کی کتابوں میں ہے کہ جب سالک کو مراقبہ احدیت کروایا جاتا ہے تو اس کی روح سات آسمانوں سے اوپر پچاس ہزار سال کی مسافت پہ واقع مقام مقامِ احدیت و معیت اور مقام اقربیت پہ چلی جاتی ہے۔ جب شیخ سالک کو مراقبہ احدیت کرواتا ہے تو کیا اس کی روح اس مقام تک travel کرتی ہے؟ نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بغیر شیخ کے سالک کی روح پرواز نہیں کر سکتی۔ یہ بات کہاں تک درست ہے۔ جزاکم اللہ خیراً
جواب:
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرما دے (آمین)۔ صحیح بات ہے مجھے رونا آتا ہے کہ ضروری چیزوں کی فکر نہیں ہے اور جو چیزیں ہمارے لئے ضروری نہیں ہیں ان کے بارے میں فکر کی جاتی ہے اور تجسس کیا جاتا ہے۔ تصوف انتہائی آسان چیز ہے لیکن اس کو چیستان بنا دیا گیا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ میں ان باتوں کو مانتا نہیں لیکن میرے نزدیک ان باتوں کا جاننا کسی سالک کے لئے ضروری نہیں ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ تصوف شریعت پر آنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اللہ پاک نے شریعت پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور ہمیں اس کا مکلف بنایا ہے۔ شریعت پر عمل کرنے میں دو چیزیں ہمارے لئے رکاوٹ ڈالتی ہیں نفس اور شیطان۔ اب ہم کیسے نفس اور شیطان کا مقابلہ کریں، اپنے نفس کی تہذیب کیسے کریں، شیطان کی باتوں سے اعراض کیسے کریں، جو کرنے کا حکم ہے اسے کیسے کریں اور جس چیز سے بچنے کا حکم ہے اس سے کیسے بچیں، الغرض مکمل شریعت پر عمل کیسے کریں۔ یہ سب کچھ طریقت کے ذریعے ممکن ہوگا۔ طریقت کا بنیادی مقصد یہی ہے۔ اس کے علاوہ طریقت کا اور کوئی مقصود نہیں ہے۔ طریقت کا مقصود تو یہ تھا کہ شریعت پر عمل کرنے کے لئے ہم اپنے آپ کو تیار کریں۔ پھر اس میں قرب فرائض اور قرب نوافل ہے۔ یہ حدیث شریف سے ثابت ہے۔ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ قرب فرائض کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ نوافل کے ذریعے اس قرب میں ترقی ہوتی ہے۔ نوافل کے ذریعے ترقی کرتے کرتے انسان اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں میں بندے کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، بندے کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، بندہ کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ یہ ہے قرب بالنوافل۔ لیکن یہ تب حاصل ہوتا ہے جب نفس کی طرف سے پیدا ہونے والے موانع کو دور کر دیا جائے۔ نفس کے موانع ختم ہوتے ہیں تو ہمارے اعمال کے اندر جان آتی ہے۔ تصوف کا خلاصہ یہ ہے کہ قلب کی بھی اصلاح ہو جائے، نفس کی بھی اصلاح ہو جائے اور عقل کی بھی اصلاح ہو جائے۔ جب ان تینوں کی اصلاح ہو جاتی ہے تو سیر الی اللہ مکمل ہو جاتا ہے۔ سیر الی اللہ کے مکمل ہونے کے بعد سیر فی اللہ شروع ہوتا ہے۔ سیر فی اللہ سارا کا سارا شریعت پر عمل کا نام ہے۔ اس میں آدمی قرب فرائض اور قرب نوافل کے ذریعے ترقی کرتا ہے۔ اس کی کوئی حد نہیں ہے جتنا اللہ جل شانہ کس کو دے دے تو دے دے۔
میری سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان چیزوں کو نہیں سوچتے تھے کہ روح کہاں پہنچے گی بلکہ صحابہ کرام کا طریقہ یہ تھا کہ وہ شریعت پر عمل کرتے تھے۔ قرب بالفرائض اور قرب بالنوافل کے ذریعے ترقی کرتے تھے۔ ان کے شب و روز اسی کام میں گزرتے تھے۔ ان کے نفس کی اصلاح تو پہلے سے ہو چکی تھی، آپ ﷺ کی برکت سے ان کو سیر الی اللہ پہلے سے حاصل ہو چکا تھا۔ ان کا سارا کام سیر فی اللہ میں ہوتا تھا۔ جب کبھی انہیں کوئی مسئلہ پیش آتا تو وہ اپنا علاج کر لیتے تھے۔ جیسے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک مرتبہ ایسا مسئلہ پیش آیا۔ انہوں نے امیر المومنین کی حیثیت سے چند وفود سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے نفس کے علاج کے لئے کچھ وقت مزدوروں کے ساتھ کام کیا تاکہ اگر نفس میں کوئی بڑائی آ گئی ہو تو اس کا علاج ہو جائے۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے کپڑے پسند آئے تو ان کی آستینیں کاٹ دیں۔ یہ حضرات اپنا علاج فوراً خود ہی کر لیتے تھے تاکہ نفس ان کے اوپر سوار نہ ہو جائے۔ یہی سیر فی اللہ ہے اسی کے ذریعے سے سب نے بڑے سے بڑا مقام حاصل کیا۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ باوجود اس عظمتِ شان کے اپنے بارے میں کیا تصور کرتے تھے؟ وہ اپنے اوپر منافقت کا گمان کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی جانور کو دیکھ کر کہا کرتے کاش میں ان کی طرح ہوتا، دیکھو ان سے کوئی حساب کتاب نہیں لیا جائے گا لیکن میرے ساتھ حساب کتاب ہوگا۔ اپنے لیے وصیت کی کہ مجھے پرانے کپڑوں میں دفن کیا جائے، نیا کپڑا تو زندہ کا حق ہے، اگر اللہ پاک نے مجھے معاف کر دیا میرے گناہوں کو بخش دیا تو میرے لئے جنت سے کفن آ جائے گا، اگر اللہ پاک کی طرف سے معافی نہ ہوئی تو پھر میں اسی حال میں زیادہ بہتر ہوں۔
تو یہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقہ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اِن چیزوں میں غور کرتے تھے، اُن چیزوں میں غور نہیں کرتے تھے جن میں آپ غور کر رہے ہیں۔
میں آپ کو بتاؤں یہ شخص مبتدی ہو گا یا منتہی ہو گا، ان دونوں میں سے کوئی ایک ہوگا۔ اگر مبتدی ہے تو اسے ان چیزوں میں پڑنا نہیں چاہیے اور منتہی کو ان چیزوں کی پروا ہی نہیں ہوتی، اللہ جل شانہ اس کو جو عطا فرما دے وہ اس کے مطابق چلتا ہے لیکن اِن چیزوں کے پیچھے نہیں پڑتا۔ منتہی کو پروا نہیں ہوتی اور مبتدی کو ان چیزوں میں پڑنا نہیں چاہیے۔
اب یہ مراقبہ احدیت منتہی کا مراقبہ ہے یا مبتدی کا مراقبہ ہے؟ یہ مبتدی کا مراقبہ ہے، یہاں سے ابتدا ہوتی ہے۔ لطائف کا دور گزرنے کے بعد مراقبات شروع ہوتے ہیں تو پہلا مراقبہ مراقبۂ احدیت دیا جاتا ہے۔ یہ بھی سمجھتے چلیں کہ مراقبہ احدیت اصل میں ہے کیا! میں اس کے بارے میں آپ کو حضرت خواجہ خان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تشریح کے مطابق بتاتا ہوں۔ وہ فرماتے ہیں کہ مراقبہ احدیت کی نیت یوں کرنی چاہیے:
”فیض مے آید از ذاتے کہ مستجمع جمیع صفات و کمالات است و منزہ ز ہر نقصان و زوال ورود فیض لطیفۂ قلب من است“
ترجمہ: ”میرے لطیفۂ قلب پر اس ذات والا صفات سے فیض آ رہا ہے جو تمام کمالات اور خوبیوں کی جامع ہے اور جملہ عیوب و نقائص سے منزہ و پاک ہے، زبانِ خیال کے ساتھ یہ نیت کر کے فیضانِ الہیٰ کے انتظار میں بیٹھا رہے“۔
اب بتائیں، اس مراقبہ میں یہ بات کہیں ہے کہ میری روح کہاں ہے؟ اس میں تو یہ تصور اور مراقبہ ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے فیض آ رہا ہے۔ کیا اس کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت ہے؟ فیض کسی صورت میں بھی آ سکتا ہے، اللہ تعالیٰ تو ہر چیز پہ قادر ہیں۔ جب آپ نے فیض کی نسبت اللہ پاک کی طرف کر دی کہ اللہ کی طرف سے فیض آ رہا ہے تو اللہ کسی بھی جگہ کسی بھی چیز کے ذریعے کسی کو بھی فیض پہنچا سکتا ہے۔ ہاں! یہ الگ بات ہے کہ اللہ جل شانہ کسی کو مقام عطا فرما دے تو اس کی روح پہ کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ کہیں جا نہ سکے۔ ہمارے رحمان بابا رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے:
چہ پہ یو قدم تر عرشہ پورے رسی
مالیدلے دے رفتار د درویشانو
ترجمہ: وہ ایک قدم میں عرش تک پہنچ سکتے ہیں۔ میں نے درویشوں کی رفتار دیکھی ہے۔
لیکن یہ منتہی کے بارے میں ہے، مبتدی کے بارے میں نہیں، مبتدی کا کام بس اپنے شیخ کی رہنمائی میں دی گئی ہدایات پر عمل کرنا ہوتا ہے۔
میں آپ کو اس بارے میں تفصیل بتا دیتا ہوں۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب انسان مقام قلب میں پہنچ جاتا ہے، تو وہاں نفس اور روح گتھم گتھا ہوتے ہیں نفس روح کو نہیں چھوڑتا اور روح نفس کو نہیں چھوڑتی۔ آپ بتائیں کہ جب روح کو نفس چھوڑتا نہیں ہے تو روح کہاں پہنچے گی وہ تو وہیں رہے گی۔ اب نفس سے روح کو چھڑوائیں گے کیسے؟ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ریاضت اور سلوک طے کرنے سے نفس روح کو چھوڑے گا۔ روح کو نفس سے زبردستی چھڑوانا ہوتا ہے ریاضت اور سلوک کے ذریعے سے۔ اس کے لئے سلوک کے دس مقامات طے کرنے ہوتے ہیں۔ جب یہ دس مقامات طے ہو گئے تو روح نفس سے آزاد ہو گئی، نفس نیچے مقام عبدیت پر آ گیا اور روح اوپر اپنے مقام ملاء اعلیٰ میں پہنچ گئی۔ اس کے بعد ہمارا قلب برزخ بن جاتا ہے، پھر یہ ملاء اعلیٰ سے روح کے ذریعے لیتا ہے اور نفس کے ذریعے آگے لوگوں کو دیتا ہے۔ لیکن یہاں تک پہنچنے کے لئے منتہی ہونا پڑے گا اور منتہی ہونے کے لئے نفس کے سلوک کو طے کرنا پڑے گا۔ پہلے نفس کے سلوک کو طے تو کرو پھر روح کی باتیں کرنا۔
تو مراقبہ احدیت فیض کو حاصل کرنے کا مراقبہ ہے اور یہ جذب کو حاصل کرنے کے لئے ہے۔ ہم نے اس میں تھوڑا سا اور اضافہ کیا ہے تاکہ یہ مسائل پیش نہ آئیں۔ ہماری کتاب ”سلسلہ نقشبندیہ عالیہ کی جدید ترتیب“ میں اس کی تفصیل لکھی ہے۔ یہ بھی مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے ہے۔ ہمارے ہاں اس کی تفصیل یہ ہے: یہ نیت کر کے دل کی طرف متوجہ ہونا کہ دل مورد فیض ہے، اِس پر اُس ذات کی طرف سے فیض آ رہا ہے جو تمام نقائص و زوال سے پاک ہے اور ہر کمال سے متصف ہے۔ اس کو غور سے دیکھیں تو اس کے دو حصے ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی صفات کا استحضار، دوسرا اس کی طرف سے فیض آنے کا استحضار۔ اس مراقبہ میں ان دونوں چیزوں کو قلبی طور پر دہرانا مقصود نہیں ہے جیسے بعض لوگ کرتے ہیں بلکہ ان دونوں کے علم کو حال کے طور پر محسوس کرنا ہے۔ یعنی فیض تو آتا ہی ہے اب اسے محسوس کرنا ہے۔ یہ ساری چیزیں ہو تو پہلے سے رہی ہیں، ہم نے اس مراقبہ میں صرف انہیں محسوس کرنا ہے۔
اس کو ایک مثال سے سمجھیں۔ میں اگر کسی بڑی ہستی کے سامنے بیٹھوں، اس کی بات کی طرف دھیان کروں تو ذہن میں بار بار یہ نہیں دہراؤں گا کہ میں ایک بڑی ہستی کے سامنے بیٹھا ہوں اور اس کی بات سن رہا ہوں بلکہ مجھے اس بات کا احساس و ادراک ہوگا کہ میں ایک بڑی ہستی کے سامنے بیٹھا ہوں۔ میں اس کی بات کی طرف کان لگاؤں گا تاکہ کوئی بات سننے سے رہ نہ جائے۔ بس اسی طرح اس مراقبہ میں کرنا ہے۔ اللہ پاک تمام نقائص و زوال سے پاک ہے اور تمام کمالات سے متصف ہے۔ بس اس کا دھیان دل میں جما کر بیٹھ جاؤں اور اس کی طرف سے فیض کے آنے کو محسوس کروں۔ اس دوران جتنا فیض محسوس ہو وہ ایک نعمت ہے اس پہ شکر کروں اور مزید کے لئے دل کو وا رکھوں کہ جس وقت فیض کا جو بھی قطرہ آئے، مجھ سے غفلت کی وجہ سے ضائع نہ ہو۔ ساتھ ساتھ جس ذکر سے دل کا اجرا کیا ہو وہ چلتا رہے۔ یہ غفلت سے بچنے کے لئے ہے ورنہ اس مراقبہ کا مطلب تو فیض کے آنے کا احساس ہے جب یہ مراقبہ پکا ہو جاتا ہے تو پھر صرف فیض کا دھیان رہتا ہے ذکر محسوس نہیں ہوتا۔ سالک اسم سے مسمی کی جانب ترقی کر لیتا ہے۔ اس مراقبہ کو دل سے شروع کیا جاتا ہے اور باقی لطائف پر بھی باری باری کرایا جاتا ہے۔ مراقبہ تو وہی ہے، صرف مورد فیض بدلتا ہے۔ اس مراقبہ میں اگر مورد فیض اوپر کی جانب کھچاؤ محسوس کرے تو یہ کھچاؤ اس کا نفسیاتی اثر ہے کیونکہ ہم عرش کو اوپر سمجھتے ہیں۔
ہمارے ہاں مراقبہ احدیت کی تفصیل یہی ہے اور حضرت خواجہ خان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بھی اسی طریقہ سے تھا۔ لہٰذا اس میں یہ تصور نہیں کریں گے کہ ہماری روح وہاں پہنچ گئی بلکہ یہ تصور کریں گے کہ فیض اِدھر آ گیا کیونکہ اگر آپ نے روح کے بارے میں یہ سوچنا شروع کر لیا کہ یہ عرش پر پہنچ گئی ہے اور ابھی آپ ہیں بھی مبتدی، پھر تو ہو گیا آپ کا علاج۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب تک انسان اپنے آپ کو کافر فرنگ سے زیادہ برا نہ سمجھے اس وقت تک عارف بن نہیں سکتا۔ اگر آپ سمجھیں گے کہ میں عرش کے اوپر چکر لگا رہا ہوں تو پھر اپنے آپ کو کم تر اور بد تر کیسے سمجھیں گے۔ بھائی اپنے نفس کو پہلے اپنے آپ سے کاٹو۔ جب نفس کو اپنے آپ سے کاٹو گے پھر اس کی طرف دھیان ہی نہیں جائے گا پھر بے شک آپ ادھر پہنچ جائیں تب بھی آپ تھر تھر کانپ رہے ہوں گے۔ سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:
عدل کریں تے تھر تھر کمبن اُچیاں شاناں والے ہو
فضل کریں تے بخشے جاون مے ورگے منہ کالے ہو
حیرانی اس بات پر ہے کہ آخر یہ باتیں سوجھتی کیسے ہیں۔ ہمیں ذرا اپنی حقیقت کی طرف غور کرنا چاہیے۔ یہ وقت جو ہمیں اللہ پاک نے دیا ہے بہت قیمتی ہے، بہت غنیمت ہے۔ اس کو اہم کام سمجھنا چاہیے، ایک ایک لمحہ کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ہمیں ان تصورات میں اپنے اوقات کو ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور اپنی اصلاح کے لئے اپنے نفس پہ قابو پانا چاہیے، اپنے آپ سے نفی کرنی چاہیے۔ ہمیں فنا فی اللہ حاصل کرنا ہے اور یہ تب حاصل ہو گی جب ہم اپنے آپ کو بھول جائیں گے۔ جب تک اپنے آپ کو اللہ کی محبت میں بھول نہیں سکتے اس وقت تک آپ کا نفس آپ کے ساتھ ہے۔ اگر پھر بھی آپ کو یہ سب باتیں سمجھ نہ آئیں تو اس سلسلہ میں ہماری ایک غزل ہے اگر مناسب ہو تو کسی وقت اس کو سن لینا۔ وَ مَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغْ۔
سوال نمبر14:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی نماز کا چلہ شروع کیا تھا، سفر کے دوران ایک جماعت رہ گئی، پھر گھر میں کسی کو ساتھ شامل کر کے باجماعت پڑھ لی اس کے علاوہ ایک مغرب کی نماز کی جماعت بھی رہ گئی۔ سفر کے دوران دیر ہو رہی تھی اس لئے مسجد میں اکیلے ہی پڑھ لی۔ باقی ساری نمازیں الحمد للہ جماعت سے پڑھ رہا ہوں۔ کیا چلہ پھر شروع سے کرنا پڑے گا؟
جواب:
جی ہاں چلہ تو دوبارہ شروع کرنا پڑے گا کیونکہ چلہ کہتے ہی اسی کو ہیں جس میں چالیس دن تک ایک بار بھی ناغہ نہ ہو۔ جب انسان چلہ کرتا ہے تو چلہ میں ان تمام رکاوٹوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور ان کے حساب سے انتظام کیا جاتا ہے۔ اگر کہیں جانا ہو، کوئی کام کرنا ہو تو اس کی ترتیب اس طرح بنائی جاتی ہے کہ با جماعت نماز فوت نہ ہو۔ ان تمام چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے پھر یہ چیزیں ملتی ہیں۔ ابھی یہ با جماعت نماز کا چلہ ہے اس کے بعد آپ کو ان شاء اللہ تکبیر اولیٰ کا چلہ بھی کرنا ہے۔ اپنی جماعت کے چلہ کو دوبارہ شروع کر لیں اور جب پورا ہو جائے تو پھر اطلاع کر دیں۔
(ہدایت)
میں سارے ساتھیوں سے ایک بات عرض کروں گا کہ وہ جب بھی مجھ سے کوئی سوال چیز پوچھا کریں تو اپنا نام ضرور لکھا کریں۔ آج کل یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ میسیجز پہ نام نہیں لکھا ہوتا۔ مجھے ہر شخص کا نمبر معلوم نہیں ہوتا مجھے تو اپنے بیٹوں کے نمبر بھی یاد نہیں ہیں۔ اس وجہ سے میں تو نہیں جانتا کہ یہ کس کا میسج ہے۔ اس لئے اپنا نام بتایا کریں کہ میں فلاں ہوں۔ آپ ﷺ نے ایک دفعہ اس قسم کی بات پر خفگی کا اظہار بھی فرمایا تھا۔ کوئی شخص آیا تو آپ ﷺ نے پوچھا کون؟ انہوں نے کہا: ”میں“ آپ ﷺ نے فرمایا میں، میں کیا ہوتا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ اپنا نام بتاؤ، میں تو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا نام بتاؤ، ابہام سے بچنا چاہیے۔ اس لئے ایک تو اس بات کا اہتمام کریں کہ اپنا نام بتا دیا کریں چاہے آپ ایک دن میں تین بار بھی میسج کریں پھر بھی نام ضرور لکھا کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی ذکر پہلے سے کر رہے ہیں تو اس ذکر کی مکمل تفصیل بتایا کریں یہ ذکر دیا گیا تھا، اتنا وقت ہو گیا، اس دوران میں نے اتنا کیا ہے، اور اب کر رہا ہوں یا نہیں کر رہا، یہ سب تفصیل بتایا کریں۔ اس سے مجھے آپ کے سبق کی تفصیل معلوم ہو جائے گی پھر اس کی روشنی میں آپ کی آئندہ کے لئے رہنمائی کر سکوں گا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ میرا اس سلسلے میں یہ معاملہ ہے کہ اپنی شاعری کا پہلا شعر جو بار بار پڑھا جاتا ہے وہ بھی مجھے بھول چکا ہوتا ہے اسے دیکھنے کے لئے دوبارہ اوپر آتا ہوں اور پھر پڑھتا ہوں۔ اللہ پاک نے مزاج مختلف بنائے ہوتے ہیں۔ اس لئے آپ خیال رکھا کریں اور اس طریقہ کے مطابق میسج کیا کریں۔
سوال نمبر15:
السلام علیکم
I’ll never leave you until I reach اللہ سبحانہ و تعالیٰ. Never even if you scold me, even you think I am maid, I want اللہ سبحانہ و تعالیٰ that’s all. I know I cannot be at any time, I can’t think.
جواب:
ٹھیک ہے، الحمد للہ یہ بہت اچھی فکر ہے اور ہمارا یقین بھی یہی ہونا چاہیے۔ اللہ پاک کو پانے کی دھن ہم پر اتنی سوار ہو کہ ہر وقت اللہ پاک کا دھیان نصیب ہو جائے۔ یہی ہمارا کام ہے اور اسی کے لئے ہماری کوشش ہے۔ اس کے لئے جو جو آپ کو بتایا جائے آپ اس پر عمل کرتی جائیں، ان شاء اللہ العزیز اللہ پاک نصیب فرما دیں گے۔
(اسی خاتون کی دوبارہ ای میل آئی کہ)
What am I supposed to do
Answer:
You are supposed to do what you are asked to do. You have to do it. It means you have to complete سلوک and these are ten points and these ten points of سلوک have to be completed and for that you please be in contact and ان شاء اللہ, اللہ will help you.
سوال نمبر16:
حضرت آپ سے میں نے تصوف اور دین کے علم کے معاملہ میں رہنمائی کی درخواست کی۔ جزاک اللہ، آپ کا جواب ملا۔ میں نے آپ کی رہنمائی کے مطابق زبدۃ التصوف سے آغاز کر لیا ہے۔ دوسری بات یہ کہنا تھی کہ آج ایک غیر متوقع معاملہ ہوا۔ میں کپڑے استری کر رہی تھی اور ذہن میں کچھ اس طرح کی سوچ چل رہی تھی کہ ہم کچھ بھی کریں اصل میں سب کچھ اللہ ہی کرتے ہیں۔ ایک دم میری سوچ رک گئی، دماغ خالی ہو گیا اور دل کا ذکر جاری ہو گیا جو اتنا صاف اور اونچا تھا کہ میری آنکھیں کھلی تھیں لیکن آس پاس کے لوگ بھول گئے تھے اور میری توجہ ذکر میں خلل انداز نہیں ہو رہی تھی۔ کیا یہ نارمل ہے؟ اس بارے میں میرے لئے کیا حکم ہے۔ جب سے آپ نے ایک سوال کے جواب میں مرید کے لئے اپنے شیخ کے فیض و برکت کے حصول پر زور دیا ہے تب سے آپ کا انس دل میں بڑھ گیا ہے یکسوئی مل گئی ہے اور آپ پر اعتماد بڑھ گیا ہے۔ پہلے ایک بے چینی ہوتی تھی کہ اتنے سارے اللہ والوں کا فیض کیسے حاصل کروں گی، حرص بہت تھی مگر سمجھ کچھ نہیں آتا تھا کہ کہاں سے شروع کروں اللہ کے فضل سے آپ کے اس جواب سے ساری الجھن دور ہو گئی۔ حضرت دل پر بہت اشعار وارد ہوئے ہیں کچھ اشعار بھیج رہی ہوں۔
جواب:
اشعار کو تو اشعار کی کیٹیگری میں رکھ لیتے ہیں۔سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ نے چونکہ زبدۃ التصوف کا مطالعہ شروع کر لیا ہے اور اس کے ذریعے سے آپ کو یہ فائدہ ہو گیا۔ آپ اس خیال میں تھیں کہ سب کچھ اللہ ہی کرتے ہیں اور یہ بات بالکل حقیقت ہے۔ سب کچھ اللہ ہی کرتے ہیں، ہم تو صرف ظاہری اسباب ہی استعمال کر سکتے ہیں باقی کام صرف اللہ ہی کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے یہ سوچتے ہوئے اسی وقت آپ کو دکھا دیا کہ میں کیسے کرتا ہوں۔ دل کا ذکر اکثر لوگوں کے لیے چیستان بنا ہوتا ہے کہ کیسے ہو گا وہ اللہ پاک نے آپ کا ایک دم شروع کرا دیا۔ لیکن ضروری نہیں کہ یہ آگے اسی طرح چلتا رہے آپ کو اس کے لئے اپنی ہمت بھی کرنی پڑے گی۔ فی الحال آپ کو جو مل رہا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور یہی چیز آپ کے ذہن میں بیٹھتی جائے کہ سب کچھ اللہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرما دیں۔
سوال نمبر17:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ شیخ صاحب۔ آپ نے فرمایا قرآن پاک کی ہر آیت پہ ایک تجلی ملتی ہے۔ تجلی سے کیا مراد ہے؟ ذرا تفصیل سے سمجھا دیں۔
جواب:
اصل میں قرآن پاک کے ذریعے اللہ جل شانہ کا ایک خاص قرب حاصل ہوتا ہے۔ اس تجلی سے مراد یہی ہے۔ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ قرآن کی ہر ہر آیت کی اپنی اپنی تجلی اور اپنا اپنا اثر ہے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں جیسے ہم لوگ مختلف قسم کے فروٹس کھاتے ہیں ہر فروٹ کے اندر کچھ سپیشل چیزیں ہوتی ہیں کچھ اپنے minerals اور vitamins ہوتے ہیں اس لئے ڈاکٹر لوگ کہتے ہیں بھائی ساری چیزیں کھا لیا کرو تاکہ آپ کے بدن کی ساری ضرورت پوری ہو جائے۔ جو لوگ چند مخصوص کھانے ہی کھاتے ہیں وہ کچھ چیزوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ مختلف سورتیں پڑھتے ہیں اور صرف انہی کو پڑھتے ہیں پورے قرآن پاک کو نہیں پڑھتے، پورا قرآن پاک پڑھنے سے میری مراد یہ ہے کہ جیسے روزانہ تھوڑا تھوڑا کر کے کوئی پڑھتا ہے وہ کسی وقت تو مکمل ہو ہی جاتا ہے۔ جب مکمل ہو جاتا ہے تو اس کو قرآن پاک کی ہر آیت کی تجلی حاصل ہو جاتی ہے لیکن جو صرف چند مخصوص سورتیں پڑھے گا مثلاً سورۃ یٰسین شریف پڑھے گا، سورۃ رحمٰن پڑھے گا، سورۃ واقعہ پڑھے گا اور باقی قرآن نہیں پڑھے گا تو اِن آیات کی تجلیات تو اس کو حاصل ہو رہی ہیں لیکن باقی قرآن پاک کی تجلیات حاصل نہیں ہو رہیں۔ یہ چیز ساری حاصل کرنا چاہیے۔ لہٰذا میں کہتا ہوں کہ قرآن پاک کی ہر آیت کے ساتھ اپنی ایک تجلی ہے اپنا ایک مخصوص اثر ہے اس وجہ سے قرآن پاک کی ساری تلاوت کر لیا کریں۔
سوال نمبر18:
السلام علیکم شیخ صاحب
What is the criteria to identify? Is that ثوابی ذکر or علاجی? Also will I now get ثواب doing علاجی ذکر ?
جواب:
ثوابی ذکر وہ ہوتا ہے جس پہ حدیث شریف میں ثواب بتایا گیا ہے اور علاجی ذکر وہ ہے جو شیخ آپ کو علاج کے لئے دیتے ہیں۔ جو ذکر شیخ آپ کو علاج کے لئے دیتے ہیں وہ باقاعدہ ایک ترتیب سے دیتے ہیں لیکن ثوابی ذکر اس خاص ترتیب سے نہیں ہوتے۔ اللہ پاک نے اس کے جو فضائل رکھے ہیں وہ آپ کو قرآن و حدیث سے معلوم ہو گئے اب آپ اس کو جتنا زیادہ پڑھ سکیں پڑھتے رہیں۔ جیسے کلمہ طیبہ ہے، درود شریف ہے، استغفار ہے اور تیسرا کلمہ ہے۔ یہ سارے ثوابی اذکار ہیں، قرآن پاک کی تلاوت بھی ثوابی ذکر ہے۔
جبکہ شیخ علاج اور اصلاح کے لئے جو اذکار دیتے ہیں وہ علاجی اذکار ہوتے ہیں جیسے ہم نفی اثبات کا ذکر کرتے ہیں، بارہ تسبیح کے اذکار ہیں، نقشبندی سلسلہ کے مراقبات ہیں۔ یہ سب علاجی اذکار ہیں۔ علاجی اذکار شیخ ایک طریقہ سے دیتا ہے ایک پروٹوکول سے دیتا ہے جس میں کمی بیشی بالکل نہیں کرنی ہوتی اسے اسی طرح کرنا ہوتا ہے جس طرح بتایا جاتا ہے۔
ثوابی ذکر کا ثواب قرآن یا حدیث سے معلوم ہوتا ہے یہ اذکار تو اس ثواب کے حصول کے لئے کیے جاتے ہیں جبکہ علاجی ذکر آپ کو اپنے علاج کے لئے کرنا ہوتا ہے۔ جیسے انسان علاج کے لئے دوائی کھاتا ہے تو ساتھ ساتھ غذا بھی چلتی رہتی ہے۔ غذا پہ پابندی نہیں ہوتی ہاں بعض اوقات پرہیز بتایا جاتا ہے کہ یہ چیزیں نہ کھائیں۔ اسی طرح آپ کو بھی جن چیزوں سے نہیں روکا گیا وہ آپ کر لیا کریں اور علاجی ذکر کو بالکل نہ چھوڑیں کیونکہ وہ علاج ہے اور علاج اصلاح کے لئے ضروری ہے۔
سوال نمبر19:
السلام علیکم شاہ صاحب، دل و دماغ اور نفس کی اصلاح کے لئے آپ کی رہنمائی اور دعا کی ضرورت ہے۔ نفس دل اور دماغ کو متاثر کر رہا ہے، اور دل و دماغ نفس کو متاثر کر رہے ہیں۔ کچھ ایسے معمولات ہیں جن پر شدید گناہ کا احساس ہوتا ہے کسی سے بیان بھی نہیں کر سکتی کہ میرے بارے میں کوئی کیا سوچے گا، شاید تعلق رکھنا بھی پسند نہ کرے حالانکہ میری نیت یہ نہیں ہوتی۔ میرے حق میں دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ اطمینان خاطر بخش دے۔ اللہ اپنی رضا اور ہدایت عطا فرمائیں۔ محترم حضرت شاہ صاحب مجھے مزید ذکر دیں اور مجاہدہ بھی بتا دیں۔ عقل کی کمی ہے اور علم بھی نہیں ہے۔ مجھ گناہ گار کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔
جواب:
دل، دماغ اور نفس کی اصلاح، یہی تو شیخ کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن مرید کی بھی ذمہ داری ہے کہ شیخ جو علاج بتا دے، جو ذکر بتا دے وہ اس کو باقاعدگی سے کرے۔ جیسے ڈاکٹر دوائی بتاتا ہے لیکن اس کو کھانا مریض کی ذمہ داری ہوتی ہے ڈاکٹر کی یہ بھی ذمہ داری نہیں کہ اس کو ٹیلی فون کرے کہ آپ اپنی دوائی کھا رہی ہیں یا نہیں کھا رہیں۔ اگر مریض آ کے کہے کہ ڈاکٹر صاحب مجھے معاف کر دیں میں نے آپ کی تجویز کی ہوئی دوائی نہیں کھائی اور ڈاکٹر مریض کو کہہ دے کہ میں نے آپ کو ایک کروڑ مرتبہ معاف کر دیا ہے۔ کیا اس کے معاف کرنے سے مریض کا علاج ہو جائے گا؟ اس کے معاف کرنے سے مریض کا علاج نہیں ہو گا۔ بلکہ علاج تب ہوگا جب مریض دوائی کھائے گا۔ لہٰذا آپ بس اتنا کریں کہ جو علاج آپ کو بتایا جائے اس کو پابندی سے کریں۔ جلد بازی نہ کریں، جلد بازی سے رہی سہی چیز بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ ہمت سے کام لیں جو بتایا جائے وہ کریں اور جس سے روکا جائے اس سے بچیں۔ شیخ کا مقام رہنما کا ہوتا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ وہ آپ کو کندھوں پہ سوار کر کے لے جائے گا بلکہ وہ راستہ بتائے گا، چلنا آپ کو خود ہی ہو گا۔ اس لئے جو بھی آپ کو بتایا جائے اس کے اوپر عمل کریں ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائیں گے۔
سوال نمبر20:
السلام علیکم حضرت۔ کیا مجذوب متمکن واپس اپنے شیخ کی نگرانی میں سلوک طے کر سکتا ہے۔
جواب:
جی کیوں نہیں! بالکل کر سکتا ہے۔ صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ ابھی موقع باقی ہے، موقع اللہ پاک نے ختم نہیں کیا۔ موقع تو موت کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ ابھی موقع ختم نہیں ہوا۔ جو بھی سمجھ جائے کہ میں غلطی پہ ہوں، جسے ادراک ہو جائے وہ اپنے شیخ سے رجوع کر لے۔ مشائخ اس مسئلہ میں بڑے مہربان ہوتے ہیں۔ وہ ایسے نہیں ہوتے کہ اگر آپ نے ایک بار ان کو چھوڑ دیا تو دوبارہ قبول نہیں کریں گے۔ سالک اپنی کیفیت شیخ کو بتا دے وہ ان شاء اللہ آگے چلنے کا طریقہ بتا دے گا۔
سوال نمبر21:
حضرت سوال یہ ہے کہ موبائل پہ قرآن مجید اور دعائیں پڑھنے سے کوئی فرق تو نہیں آتا؟
جواب:
نہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ ادب اس کا بھی اسی طرح کرنا چاہیے جس طرح قرآن مجید پر تلاوت کرتے ہوئے ادب ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ چونکہ یہ اصلی حروف نہیں ہوتے بائنری نمبرز ہوتے ہیں اس لئے ان کا حکم اصلی قرآن جیسا نہیں ہوتا۔ لیکن اب باقاعدہ جامعہ فاروقیہ سے فتویٰ آیا ہے کہ جس وقت اس پہ قرآن کے حروف آ رہے ہوں اس وقت اس کو اصلی قرآن کی طرح سمجھنا چاہیے اور ادب کے ساتھ با وضو ہو کے ٹچ کرنا چاہیے۔ ہاں جب قرآن مجید موبائل پر اوپن نہ ہو تب سامنے وہ حروف نہیں ہوتے، حروف ختم ہو جاتے ہیں اور دوبارہ نمبرز بن جاتے ہیں۔ اس لئے تب موبائل کو جیب میں ڈال سکتے ہیں اور عام موبائل کی طرح ٹریٹ کر سکتے ہیں لیکن جب حروف آ رہے ہوں تب اس کا ادب کرنا چاہیے۔
سوال نمبر22:
حضرت یہ جو مراقبہ میں تصور کرتے ہیں کہ اللہ مجھے دیکھ رہے ہیں اور میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ کیا یہ دل پر توجہ کرکے کہنا چاہیے کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے؟
جواب:
دیکھیں میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔ ادھر کوئی شخص بیٹھا ہوا ہے میں اسے دیکھ نہیں رہا لیکن تصور کر رہا ہوں کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے، میرا خیال ہے کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ کیا اس کا اثر ہو گا یا نہیں ہو گا؟ بالکل ہوگا۔ مراقبہ میں بھی بس اسی طرح تصور کرتے ہیں۔
سوال نمبر23:
مراقبہ میں کوئی نتائج ظاہر نہیں ہو رہے۔
جواب:
مراقبہ کرنے سے انسان آسمان پہ نہیں چڑھتا، بلکہ آہستہ آہستہ اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن ہماری نماز میں اثر نہیں ہے۔ بھائی نماز میں بہت اثر ہے، نماز پڑھ رہے ہو تو ایسے ہو، نماز نہ پڑھتے تو پتا نہیں کیا کرتے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ آپ کی نماز کمزور ہے، اس کو improve کرو۔ اسی طرح مراقبہ کا اثر ضرور ہوتا ہے ہاں بعض رکاوٹوں کی وجہ سے کمزور ہوتا ہے، ان رکاوٹوں پہ کنٹرول کرکے اس کو improve کر لینا چاہیے۔
میں آپ کو ایک عجیب بات بتاتا ہوں۔ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب اور چچا جان (مولانا یحییٰ اور مولانا الیاس صاحب) دونوں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نابینا ہو چکے تھے۔ اِنہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو حضرت دروازہ کے قریب تشریف لائے اور پوچھا کون؟ عرض کی: یحییٰ اور الیاس۔ حضرت نے بھرائی آواز میں فرمایا: یحییٰ اور الیاس! سن لو ذکر چاہے کتنا ہی غفلت کے ساتھ کیا جائے پھر بھی اس کا فائدہ ہوتا ہے۔
اب میں آپ کو اس کی حقیقت بتاتا ہوں۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ ذکر غفلت سے نکالتا ہے۔ ذکر اور غفلت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اگر ذکر ہے تو غفلت نہیں، اگر غفلت ہے تو ذکر نہیں۔ آپ غافل ہیں، اس غفلت سے نکلنا چاہتے ہیں اور غفلت سے نکلنے کا ذریعہ آپ کے پاس ذکر ہے۔ اس وقت ابتدا میں آپ جو ذکر کریں گے وہ اس غفلت کے ساتھ ہی ہو گا جس میں آپ مبتلا ہیں لیکن وہی غفلت والا ذکر آپ کو اس موجودہ غفلت سے نکال کر کم غفلت والی جگہ پہ لے جائے گا، جیسے آپ ایک سیڑھی پہ چڑھتے ہیں، اس کے بعد جب دوسری سیڑھی پہ چڑھتے ہیں تب بھی منزل پہ تو نہیں پہنچے ہوتے لیکن پہلی سیڑھی سے آگے چلے گئے ہوتے ہیں۔ ابھی بھی آپ نیچے ہیں پھر تیسری سیڑھی پہ جاتے ہیں تب بھی نیچے ہوتے ہیں، چوتھی پہ جاتے ہیں تب بھی نیچے ہوتے ہیں لیکن کم سے کم تیسری سے اوپر ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ اوپر جا رہے ہوتے ہیں۔ اسی طریقہ سے ذکر کرتے کرتے وقت کے ساتھ ساتھ غفلت کم ہوتی جاتی ہے حتیٰ کہ جب آپ مکمل ذاکر ہو جاتے ہیں تو غفلت بھی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ اب اگر آپ پہلا قدم نہ اٹھاتے، غفلت والے ذکر کو کچھ نہ سمجھتے ہوئے ذکر شروع ہی نہ کرتے تو اس مقام پہ نہیں پہنچ سکتے تھے۔
دوسری مثال دیتا ہوں۔ آپ نے پیالہ میں پانی بھرنا شروع کیا، پیالہ بھر گیا اور بھر کے چھلک اٹھا۔ سمجھ دار لوگ کہتے ہیں کہ یہ جو پیالہ چھلکا ہے اس سے پانی کے قطرے باہر آئے ہیں، اس میں جتنا حصہ آخری قطرے کا ہے اتنا ہی پہلے قطرے کا ہے۔ اگر وہ پہلا قطرہ نہ ہوتا تو یہ آخری نہ ہوتا۔ اسی طرح آپ کو جو اونچا مقام ذکر کے بعد مل رہا ہے وہ آپ کے اسی پہلے غفلت والے ذکر کی بدولت ہے۔ اگر وہ غفلت والا ذکر نہ ہوتا تو یہ غفلت سے پاک ذکر آپ کو کیسے ملتا۔ اس لئے کہتے ہیں پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ کام کئے جاؤ، کام کئے جاؤ ان شاء اللہ ایک دن نواز دیئے جاؤ گے لیکن اگر تعجیل کر لی کہ مجھے ابھی تک کیوں نہیں ملا، مجھے ابھی تک کیوں نہیں ملا، پھر کرتے رہو، وقت ضائع کر دو گے۔ ہمیں اپنا کام کرتے رہنا چاہیے اور اللہ پاک سے امید رکھنا چاہیے۔ حدیث شریف میں بھی یہ بات ہے کہ تم دین کو نہیں تھکا سکتے، دین تمھیں تھکا دے گا، بس قریب رہو اور خوشخبری حاصل کرو۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو ہمت کرنا چاہیے۔ ہمارے حضرات تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ کوئی ریا والی نماز پڑھ رہا ہے تو اس کو بھی نہ روکو کہ اس کی یہی ریا والی نماز اس کی عادت بن جائے گی اور پھر عادت سے ایک وقت میں عبادت بن جائے گی۔
دیکھو یہ بچے نماز پڑھتے ہیں تو سب کو دکھاتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں۔ اس وقت ان کی نماز پہ اللہ تعالیٰ کو کتنا پیار آتا ہو گا حالانکہ definition کے مطابق تو یہ ساری ریا کاری کر رہے ہوتے ہیں، سب کو دکھا رہے ہوتے ہیں بلکہ انعام بھی مانگتے ہیں۔ تو بچوں کے ساتھ بچوں والا معاملہ کیا جاتا ہے۔ طفلِ طریقت بھی ایسا ہی ہوتا ہے اللہ پاک کو اس کا پتا ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنی کوشش چھوڑنی نہیں چاہیے لیکن اس کی وجہ سے وہ اونچا مقام بھی نہیں مانگنا چاہیے۔ جب اس کا وقت آئے گا تو وہ بھی مل جائے گا۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ مایوس بھی نہ ہو جانا۔ آج کل لوگ دن گننا شروع کر دیتے ہیں، کہ اتنے دن ہو گئے مگر ابھی تک کوئی مقام نہیں ملا۔ جب دن گنو گے تو گنتی سے نکل جاؤ گے۔ سمجھ دار لوگ کہتے ہیں: نیکی کر دریا میں ڈال۔ یعنی نیکی کرو پھر اس کی طرف دیکھو نہیں کہ میں نے نیکی کی۔ جس وقت آپ نے یہ تصور کرلیا کہ میں نے نیکی کی، اسی وقت مسئلہ خراب ہو گیا، اب آپ کے پاس وہ چیز نہ رہی۔ لہٰذا اپنی کوشش میں لگے رہو، تعجیل نہ کرو، مایوس نہ ہو اور اللہ پاک سے امید رکھو، ان شاء اللہ مقصد حاصل ہو جائے گا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن