سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 342

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم حضرت جی۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ میری جانب سے ایک غلط میسیج گروپ میں غیر دانستہ طور پر ارسال ہوا جس پر میں معافی چاہتا ہوں، توبہ کرتا ہوں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ ایسی غلطی آئندہ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ ہم پر سلامت رکھے (آمین)۔ طالبِ دعا ہوں۔

جواب:

آپ کو توبہ کی مبارک ہو۔ اللہ جل شانہ آپ کو واقعی اس توبہ پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مجھے خود بڑی حیرت ہوئی تھی کہ گروپ میں کس قسم کے میسیج آئے کیونکہ اس طرح کے میسج کم از کم سنجیدہ حلقوں میں نہیں ہونے چاہئیں، لیکن چونکہ آج کل سوشل میڈیا نے لوگوں کو بڑا بے باک کر دیا ہے اس وجہ سے اس قسم کی چیزیں آ جاتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ کو اس کا احساس ہو گیا۔ اللہ جل شانہ آئندہ کے لئے آپ کو اور ہم سب کو ایسی چیزوں سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم۔ جی کل میں نے صحیح میسیج نہیں کیا تھا اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ معمولات کے چارٹ میں سورۂ ملک ہے جبکہ سنت میں سورۂ الم سجدہ، مسبحات کی سورتیں یعنی جو  سَبَّحَ اور یُسَبِّحُ سے شروع ہوتی ہیں جیسے سورۂ تغابن، سورۂ جمعہ، سورۂ صف، سورۂ حشر، سورۂ حدید، سورۂ اعلیٰ۔ میری بہن یہ پڑھتی ہے، جب کہ امی نہیں پڑھ سکتی، باجی نے بتایا کہ آپ شاہ صاحب سے پوچھ لیں اور پھر پڑھ لیں۔

جواب:

اصل میں زیادہ پڑھنا مقصود نہیں ہے، اس میں باقاعدگی چاہئے ہوتی ہے اور انسان کے پاس بعض دفعہ اتنا وقت نہیں ہوتا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ دین کو تم نہیں تھکا سکتے دین تمہیں تھکا دے گا، بس قریب رہو اور خوشخبری حاصل کر لو۔ یعنی نفلی اعمال اتنے ہونے چاہئیں جتنے انسان کر سکتا ہے بالخصوص مستقل طور پہ کرنی کی استطاعت رکھتا ہو۔ ورنہ پھر بعد میں بڑے مسائل ہو جاتے ہیں کیونکہ بعض دفعہ نوافل کی وجہ سے بعض فرائض پر اثر پڑنا شروع ہو جاتا ہے، اس وجہ سے ہم اتنا بتاتے ہیں جتنا لوگ کر سکیں۔ ہمارے معمولات کے چارٹ میں جو چیزیں لکھی ہیں آپ فی الحال ان پر اکتفا کر لیں البتہ اگر آپ چاہتی ہیں تو سورۂ الم سجدہ، سورۂ واقعہ اور سورۂ ملک، یہ تینوں سورتیں آپ شام کو پڑھ لیا کریں اور سورۂ یٰس شریف صبح کو پڑھ لیا کریں۔ میرے خیال میں آپ لوگوں کے آج کل کے حالات کے لحاظ سے اتنا کافی ہے اور باقی جو معمولات ہمارے چارٹ میں دیئے ہوئے ہیں اس کے مطابق کام کر لیا کریں تاکہ اس پر استقامت کے ساتھ آپ عمل کر سکیں۔ 

سوال نمبر 3:

السلام علیکم! مندرجہ ذیل ذکر کے تیس دن پورے ہو چکے ہیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’اِلَّا اللہُ‘‘ 400 مرتبہ، ’’اللہُ اللہُ‘‘ 400 مرتبہ، اور ’’اللہُ‘‘ 100 مرتبہ۔ مراقبہ پندرہ منٹ ہے۔

جواب:

اب آپ یوں کر لیں کہ 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 400 مرتبہ ’’اِلَّا اللہُ‘‘، 600 مرتبہ ’’اَللہُ اَللہُ‘‘، اور 100 مرتبہ ’’اَللہُ‘‘ اور مراقبہ فی الحال پندرہ منٹ ہی رکھیں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم حضرت روزانہ کے معمولات میں جو سو مرتبہ درود شریف پڑھنا ہوتا ہے تو اس میں کون سا درود شریف پڑھا جائے، جو آسان بھی ہو اور افضل بھی۔

جواب:

آسان بھی بتا سکتا ہوں اور افضل بھی بتا سکتا ہوں، لیکن یہ دونوں ایک ہی چیز میں جمع ہو جائیں یہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ افضل ترین درود شریف تو نماز والا ہے یعنی درود ابراہیمی، یہ ہم ہر نماز کے بعد تین دفعہ پڑھنے کو بتاتے ہیں۔ البتہ ہم اتنی کوشش کرتے ہیں کہ جو بھی درود پڑھا جائے چاہے وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو لیکن ہو وہ مستند یعنی آپ ﷺ سے ثابت ہو۔ درود و سلام کا جو مقبول وظیفہ ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لکھا ہے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب فضائل درود شریف میں شامل فرمایا ہے وہ مقبول وظیفہ کے نام سے علیحدہ بھی چھپا ہوا ہے، اس میں پچیسواں اور آخری درود پاک ’’وَ صَلَّ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ‘‘ ہے جو مختصر بھی ہے، آسان بھی ہے اور مستند بھی ہے، صحیح حدیث شریف سے ثابت ہے۔ لہذا اس کو پڑھ لیا کریں، ان شاء اللہ العزیز آسانی ہو جائے گی اور عمل بھی ان شاء اللہ آسانی سے ہو گا۔ 

سوال نمبر 5:

السلام علیکم! حضرت الحمد اللہ 

I have completed the انفاس عیسیٰ yesterday.

دعاؤں کی درخواست ہے اور مزید آگے پڑھنے کے لئے کوئی اور تجویز فرمائیں. جزاک اللہ۔ 

جواب:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت النبی جو چھ جلدوں میں ہے، اس کو شروع فرما لیں۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم! حضرت چالیس دن والا وظیفہ پورا ہو گیا ہے۔ 300 مرتبہ تیسرے کلمہ کا پہلا جزو اور 200 مرتبہ کلمہ کا آخری جزو۔

جواب:

اس کے ساتھ آپ نے نماز کے بعد کا ذکر نہیں بتایا جیسے تسبیحات فاطمی، 33 دفعہ سبحان اللہ، 33 دفعہ الحمد اللہ، 34 دفعہ اللہ اکبر، تین دفعہ کلمہ طیبہ، 3 دفعہ درود ابراہیمی، 3 دفعہ استغفار اور ایک مرتبہ آیت الکرسی، اس کو عمر بھر کرنا ہے۔ اس کو  اگر شروع نہیں کیا تو شروع فرما لیں اور اب اس جگہ دس منٹ کے لئے آنکھیں بند، زبان بند، قبلہ رخ بیٹھی ہوں گی اور یہ تصور کر رہی ہوں گی کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔

مگر آپ نے اپنا نام نہیں لکھا اس لئے مجھے معلوم نہیں کہ آپ مرد ہیں یا عورت ہیں؟ اگر یہ عورت ہو تو اس کے لئے یہی وظائف ہیں۔ اور اگر مرد ہو تو پھر دوسرا وظیفہ ہے۔ لہذا مجھے اپنے بارے میں بتا دیں۔

سوال نمبر 7:

حضرت جی کیا خواتین کو یہ دعا پڑھنی چاہئے؟ اس دعا میں ’’اَمَامَہٗ‘‘ کے لفظ میں کیا نیت کی جائے یا میں صرف پہلے والا حصہ ہی پڑھ لیا کروں؟ مجھے لگتا ہے کہ اس کی وجہ سے میں اپنے میاں کے بارے میں بھی سخت ہو جاتی ہوں. حالانکہ واقعی میں تو اپنے میاں سے میری لڑائی نہیں ہے۔

جواب:

اصل میں اگر خواتین خواتین کے لئے نیک کام کا ذریعہ بن جائیں تو اس میں اس کی نیت کی جا سکتی ہے۔ البتہ امام اس معنی میں نہیں ہو گا جس معنی میں امام مرد ہوتے ہیں۔ تو اس نیت سے آپ پڑھ سکتی ہیں کہ خواتین کو آپ سے فائدہ ہو اور باقی لوگوں کو آپ سے فائدہ ہو۔ سب سے پہلے تو اپنی نیت کیا کریں پھر اس کے بعد باقیوں کی۔ اللہ جل شانہ  ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ 

سوال نمبر 8:

السلام علیکم! سر آپ بتا سکتے ہیں کہ اللہ کیسے ملتا ہے، اس کو پانے کے لئے کیا کیا کرنا چاہئے؟ (حضرت: میں نے پوچھا کہ کیا آپ میرے بیانات سنتے ہیں؟ انھوں نے کہا نہیں سر! میں نے اپنے بھائی سے آپ کا نمبر لیا ہے۔ لیکن ان شاء اللہ اب ضرور سنوں گی۔)

جواب:

چونکہ یہ بہت اچھا سوال تھا اس لئے میں نے اس کا جواب رحمانیہ مسجد میں اپنی مجلس میں دے دیا تھا۔ اور چونکہ وہ ریکارڈ ہو چکا تھا تو اس لئے ہم نے ان کو بھی ارسال کر دیا اور پیام سحر میں بھی اس کو شامل کر لیا۔ میرا خیال ہے کہ جو حضرات اب سن رہے ہیں ان کو بھی میں سنا دیتا ہوں:

السلام علیکم سر آپ بتا سکتے ہیں کہ اللہ کیسے ملتا ہے اس کو پانے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟

سادہ سا سوال ہے، لیکن ما شاء اللہ بہت اچھا سوال ہے اور یہ سوال ہم سب کے دلوں میں ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اللہ جل شانہ کی ذات وراء الوراء ہے اس کو نہ کوئی دیکھ سکتا ہے، نہ اس طرح پا سکتا ہے جس طرح ہم دنیا کی کسی چیز کو پاتے ہیں، اللہ کو پانے کا مطلب یہی ہے کہ ہم وہ کر لیں جو اللہ چاہتے ہیں اور ہم اللہ پاک کے ان بندوں میں سے ہو جائیں جن کو وہ اپنا بندہ کہتا ہے۔ جس طرح سے شیطان نے کہا تھا کہ میں دائیں سے آؤں گا، بائیں سے آؤں گا، آگے سے آؤں گا، پیچھے سے آؤں گا اور ان کو تجھ تک نہیں پہنچنے دوں گا اور تو ان سے بہت کم کو شکر گزار پائے گا مگر وہ جو تیرے مخلص اور چنے ہوئے لوگ ہیں۔ اللہ پاک نے اس کے جواب میں فرمایا، جیسا کہ قرآن پاک میں بھی ہے: جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکتا۔ لہذا وہ لوگ جن کو اللہ پاک نے اپنا کہا یہ اصل میں اللہ پاک کو پا چکے ہیں۔ رہا یہ سوال کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ سوال تو ہر مسلمان کے دل میں ہونا چاہئے اور جو اللہ والے ہوتے ہیں ان کا تو بنیادی کام ہی یہی ہوتا ہے۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے خواب میں اللہ پاک کا دیدار کیا تو اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ یا اللہ! تجھ تک پہنچنے کا آسان ترین راستہ کیا ہے؟ اللہ پاک نے فرمایا ’’دَعْ نَفْسَکَ وَ تَعَالْ‘‘ ’’اپنے نفس کو چھوڑ دو اور میرے پاس آ جاؤ۔‘‘ گویا ہمارا نفس ہمارے اور اللہ کے درمیان حجاب ہے جب تک یہ نفس فعّال ہے اس وقت تک ہم اس سے آگے نہیں جا سکتے، یوں کہہ سکتے ہیں کہ دیکھنا تو بڑی بات ہے اس طرف عملی طور پر سوچ بھی نہیں جائے گی، باتیں تو ہوں گی لیکن عملی طور پر سوچ نہیں جائے گی۔ اس لئے سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے نفس کے حجاب کو توڑیں۔ یہ کام بہت آسان ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ دو قسم کے تقرّب ہیں، ایک تقرب بالفرائض ہے اور دوسرا تقرب بالنوافل ہے۔ تقرب بالفرائض یہ ہے کہ جو فرائض اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں چاہے وہ عبادات میں ہیں، چاہے وہ معمولات میں ہیں، چاہے وہ معاشرت میں ہیں، چاہئے وہ اخلاق میں ہیں، ان تمام فرائض کے ذریعے سے اللہ پاک کا قرب حاصل کرنا تقرب بالفرائض ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اصل اور بنیاد یہی ہے۔ اس وجہ سے جو تقرب بالفرائض اختیار نہ کرے اور تقرب بالنوافل کی طرف جائے گا تو یہ بے وقوف ہے۔ کیونکہ کوئی بھی بنیاد کے بغیر اپنے مکان کو نہیں بناتا، سب سے پہلے بنیاد ہوتی ہے پھر اس کے بعد ڈھانچہ ہوتا ہے۔ اور تقرب بالنوافل کے بارے میں فرمایا کہ میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے آگے بڑھتا ہے، یعنی فرائض کو پورا کرنے کے بعد نوافل کے ذریعے سے ترقی کرتا ہے، اتنا ترقی کرتا ہے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ پاک نے بندوں کو قرض دینا اپنے آپ کو قرض دینا بتایا ہے۔ اسی طریقے سے جو بندہ اللہ کا ہو جاتا ہے تو اللہ اس کا ہو جاتا ہے: ’’مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ‘‘ لہذا ہم لوگوں کو اللہ کو پانے کے لئے تقرب بالفرائض اور تقرب بالنوافل کا طریقہ ڈھونڈنا ہو گا۔ لیکن مسئلہ صرف یہ ہے کہ یہ چیزیں اس وقت تک ہم نہیں کر سکتے جب تک ہمارا نفس فعال ہے اور جب تک ہمارے نفس کی مخالفت موجود ہے۔ وہ مختلف حیلوں، بہانوں سے ہمیں ان چیزوں سے کاٹتا جائے گا۔ لہذا ہمیں اپنے نفس کا کچھ انتظام کرنا پڑے گا۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اپنے نفس کے جال سے نکلنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ تک پہنچے کے لئے جو کام کرنے پڑتے ہیں اور جو ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں ان کو سیر الی اللہ کہتے ہیں۔ یہ مشائخ کے ہاں ایک اصطلاح ہے اور مشائخ کے ہاں جو لوگ جاتے ہیں وہ ان کو ایسے اعمال بتاتے ہیں اور ایسے طریقے بتاتے ہیں جن کے ذریعے سے ان کے نفس کے جال ٹوٹتے ہیں وہ چاہے ذکر کے ذریعے سے ہوں تاکہ دل بیدار ہو جائے اور وہ نفس کے خلاف کام کرنے کے لئے تیار ہو جائیں، جیسے ذکر ہے، مراقبہ ہے، ان کو فاعلات کہتے ہیں۔ یا پھر نفس کے جال کو توڑنے کے لئے نفس کی مخالفت کی جاتی ہے جس کو مجاہدات کہتے ہیں۔ مجاہدات اور فاعلات نفس کے جال سے نکلنے کے لئے ذرائع ہیں تاکہ اللہ کو پائیں۔ تو اس کے لئے جو کچھ کرنا پڑتا ہے اسے سیر الی اللہ کہتے ہیں۔ یہ بظاہر بہت مشکل لگتا ہے لیکن عملاً یہ آسان ہے بشرطیکہ اگر کوئی ان طریقوں پہ چلے جن پر چلنے کا کہا جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ طریقہ نہ اتنا آسان ہے کہ جیسے انسان کھانا کھا رہا ہو اور نہ اتنا مشکل ہے کہ انسان اس کو کر نہ سکے۔ لہذا ان کے درمیان درمیان میں جو چیزیں ہیں وہ کرنی پڑتی ہیں اور مشائخ کے تجربے اور مشائخ کے سلسلوں کی قبولیت کی وجہ سے یہ طریقہ اللہ پاک آسان کر دیتے ہیں اور یہ کام ممکن ہو جاتا ہے۔ تو جس وقت سیر الی اللہ مکمل ہو جائے اس کے بعد پھر یہی چیزیں رہ جاتی ہیں یعنی تقرب بالفرائض اور تقرب بالنوافل۔ بس انہی کے ذریعے سے انسان آگے بڑھتا رہتا ہے، پھر کچھ اور نہیں کرنا پڑتا۔ اسی سٹیج تک آنے کے لئے سارا کچھ ہے۔ لہذا سیر الی اللہ وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے سے انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اپنے نفس کے جال کو توڑنے کے لئے، اپنے دل کو سنوارنے کے لئے اور اپنی عقل کو سمجھانے کے لئے۔ ان تینوں کاموں کے لئے جو ذرائع، فاعلات اور مجاہدات ہیں وہ کرنے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جب سیر الی اللہ مکمل ہو جائے تو پھر تقرب بالفرائض اور تقرب بالنوافل کے ذریعے سے قرب حاصل ہوتا رہتا ہے، ہوتا رہتا ہے، ہوتا رہتا ہے، اتنا ہو جاتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں بتایا گیا ہے۔ اس کو سیر فی اللہ کہتے ہیں اور پھر یہ ہر ایک کا اپنا نصیب ہے کہ جتنا اللہ تعالیٰ کسی کو نصیب فرما دے۔ اللہ جل شانہ ہمیں بھی نصیب فرما دے۔ آمین۔

سوال نمبر 9:

حضرت! اس دفعہ مثنوی شریف کے درس میں سنا کہ جب سیر الی اللہ مکمل ہو جائے اور سیر فی اللہ شروع ہو جائے تو پھر کچھ اضافی مجاہدات اور ذکر کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس یہی شرعی اعمال ہوتے ہیں جو ترقی کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ پہلے کسی بیان میں یہ بھی سنا کہ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ صلحاء کی جماعت کے ساتھ تبلیغ میں جاتے تھے تو اس کے بعد دل سے برا اثر ختم کرنے کے لئے خانقاہ یا مسجد میں اعتکاف کے لئے جایا کرتے تھے۔ کسی بیان میں یہ بھی سنا کہ شاید مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ شیوخ کو چاہئے کہ وہ اپنے معمولات کی پابندی کریں ورنہ وہ آہستہ آہستہ عام لوگ کی طرح ہو جائیں گے۔

جواب:

میں اس کو دوسرے رنگ میں بتا دیتا ہوں تاکہ بات سمجھ میں آ جائے۔ اصل میں کسی بھی چیز کو بتانے کے لئے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہی ہے جو ابھی میں نے اوپر والے سوال کے جواب میں بتایا ہے کہ سیر الی اللہ وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے سے انسان اپنے نفس کے جال سے نکلتا ہے، اپنے دل کے گند کو دھو لیتا ہے، اپنی عقل کی نا سمجھی کو دور کرتا ہے، اس کے بعد جب یہ چیزیں ٹھیک ہو جائیں تو گویا انسان اب ان چیزوں سے بچ گیا، لیکن اعمال تو کرنے ہیں، اعمال ہی کے لئے تو ہم آئے ہیں۔ چنانچہ اعمال میں رکاوٹیں تو ختم ہو گئیں لیکن اعمال تو کرنے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ نفس مطمئنہ حاصل ہو بھی جائے تو چار عناصر کی جو طبعیتیں انسان کے اندر ہیں یعنی، ناری، تابی، خاکی اور ہوائی، ان کی مزاحمت کو کنٹرول کرنے کے لئے کام کرنا پڑتا ہے، یہی کام حقیقی مجاہدہ ہوتا ہے۔ لیکن حقیقی مجاہدہ ہمیشہ کے لئے ہوتا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے میں کسی جگہ جانا چاہتا ہوں اور کوئی میرے ہاتھ پاؤں پکڑ لے اور مجھے جانے نہ دے، اب میں اس سے اگر زور زبردستی کر کے، جھٹکا دے کر اپنے آپ کو چھڑا بھی لوں تو پیروں سے چلنا تو پڑے گا، اگر درمیان میں چڑھائی آئی تو چڑھائی تو چڑھنی پڑے گی۔ اگر جہاز میں بھی جانا ہو تو جہاز میں سیڑھیوں پہ تو چڑھنا پڑے گا۔ بہر حال یہ کام تو کرنا پڑے گا اس سے تو آپ نہیں چھٹکارا پا سکتے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اصل میں ہم لوگ صحابہ کی زندگی میں آ جاتے ہیں جیسے صحابہ کرام کو کام کرنا ہوتا تھا، ان کی سیر الی اللہ تو مکمل تھی کیونکہ سب منتھی تھے، لہذا وہ سیر فی اللہ میں ہی جا رہے تھے۔ تو جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے پہنے اور محسوس کیا کہ اس سے دل پہ اثر ہو رہا ہے تو ان کو فوراً اتار دیا۔ کیوں اتارے؟ صحابی تھے، منتھی تھے، وہ سیر الی اللہ تو نہیں ہے، سیر فی اللہ ہی ہے کیونکہ صحابی کے لئے تو سیر فی اللہ ہوتا ہے۔ لیکن انھوں نے اس چیز کے منفی اثر کو دور کرنے کے لئے فوراً اس لباس کو اتار دیا۔ اس طرح مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ بھی کرتے تھے، مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے: میں صلحاء کی جماعت کے ساتھ جاتا ہوں کیونکہ دوسرے لوگوں کا منفی اثر ہوتا ہے، پھر بھی اگر کچھ اثر میرے اوپر ہو جائے تو میں اس کو دور کرنے کے لئے یا حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں جاتا ہوں یا حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں جاتا ہوں یا پھر مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔ تو یہ بات بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات کی طرح تھی۔

تیسری بات جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی ہے، اس سے مراد وہی اوراد ہیں جیسے قرآن کی تلاوت ہے، حسب حال ہے جس کے ذریعے سے انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ بہت اچھا مکان سجا کے بنا لیں، لیکن روزانہ کی بنیاد پر اس کی جو صفائی ضروری ہے وہ نہ کریں تو ایک مہینے کے بعد وہ بہت آلودہ ہو جائے گا، آخر اس کو دور کرنا تو پڑے گا۔ یعنی ایک یہ کہ مکان کے اندر گڑ بڑ ہو تو آپ اس کو دور کریں گے تو وہ maintenance ہو گی۔ لیکن اگر مکان بالکل ٹھیک ہے لیکن کچھ Environmental conditions کے اثرات ہیں تو ان کو دور کرنے کے لئے جو مسلسل محنت کرنی پڑتی ہے وہ تو چلتی رہے گی۔ اسی طرح سیر فی اللہ میں یہ چیزیں تو ہوتی ہیں، لیکن سیر الی اللہ والے جو علاجی اذکار ہیں اور علاجی مجاہدات ہیں ان کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ سیر فی اللہ والے حضرات صرف ایک نیچرل مذببی زندگی گزارتے ہیں، کیونکہ ان پر منفی چیزیں نہیں ہوتیں ہاں البتہ مزاجوں کے لحاظ سے جو Environmental conditions ہوتی ہیں ان کو دور کرنے کے لئے ہی حضرت نے فرمایا کہ مشائخ بھی اپنے اوراد اور معمولات کو باقاعدگی کے ساتھ کریں ورنہ وہ بھی کورے کے کورے رہ جائیں گے یعنی  وقتاً فوقتاً اثرات پڑتے رہیں گے، لہذا آپ نے جو مجاہدہ کیا ہے اور جو تمام محنتیں کی ہیں وہ ساری کی ساری اکارت جا سکتی ہیں، پھر دوبارہ آپ کہیں اس صورتحال میں نہ چلے جائیں۔ بہرحال سیر الی اللہ جب مکمل ہو جائے تو پھر ان چیزوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ لیکن دوسری چیزیں باقی رہتی ہیں جیسے حقیقی مجاہدات بھی ہوتے ہیں اور حقیقی فاعلات بھی ہوتے ہیں۔ جیسے نماز کے بارے میں آتا ہے: ﴿ِاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾ (العنکبوت: 45)

ترجمہ: بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔‘‘

چنانچہ نماز کے اندر یہ خاصیت ہے کہ یہ آپ پڑھتے رہیں گے تو آپ کو اس کا فائدہ ملتا رہے گا۔ اسی طرح نوافل کے اپنے فوائد ہیں وہ پڑھتے رہیں گے تو آپ کو ان کے فائدے حاصل ہوتے رہیں گے اور آپ نہیں کریں گے تو فائدے حاصل نہیں ہوں گے اور اس کے ساتھ جو مسائل  ہیں وہ تو آتے رہیں گے۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم حضرت!

I am referring to my last email. I need your guidance. I want to understand تصوف and دین in depth. There are a lot of resources فرض عین کورس, your previous and daily بیانات and your books and others you might suggest. If you found it appropriate please guide me on what I should study and where I should start from? Please remember me in your prayers.

جواب:

الحمد للہ! ما شاء اللہ اچھا جذبہ ہے. میں یہ مشوورہ دوں گا کہ  جو کتابیں ہماری ہیں وہ پڑھیں، کیونکہ شیخ کی کتابوں سے سب سے زیادہ نفع ہوتا ہے، یہ بات تو طے ہے۔ بے شک دوسرا کتنا ہی بڑا بزرگ کیوں نہ ہو، لیکن شیخ کی باتوں سے فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایک مجلس میں حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اکٹھے ہو جائیں تو ہم حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایک نظر بھی نہیں دیکھیں گے بلکہ اپنے شیخ حاجی صاحب کی طرف ہی دیکھیں گے۔ ہاں! حاجی صاحب بے شک حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف دیکھیں کہ وہ ان کے شیخ ہیں، لیکن ہم تو صرف حاجی صاحب کی طرف دیکھیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا تو ذریعہ وہی ہیں، ہمارا دروازہ تو وہی ہیں۔ اس وجہ سے اپنے شیخ کی کتابوں سے بہت فائدہ ہوتا ہے اور ان کے بیانات سے بہت فائدہ ہوتا ہے، ان کے ساتھ رابطہ سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ اس لئے آپ سب سے پہلے یوں کریں کہ جو کتابیں ہماری ہیں تصوف کی بارے میں جیسے ’’تصوف کا خلاصہ‘‘ ہے، ’’زبدۃ التصوف‘‘ ہے، ’’سلوک النساء‘‘ ہے، ’’نقشبندیہ عالیہ جدید ترتیب‘‘ ہے اور ’’مکائد الشیطان‘‘ ہے وغیرہ ذلک۔ یہ ہماری کتابیں ہماری ویب سائٹ پر بھی دیکھی جا سکتی ہیں اس سے پتا چل جائے گا کہ کون کون سی ہماری کتابیں تصوف کے ذیل میں موجود ہیں، ان کو پڑھنا شروع فرما لیں۔ یہ سب سے پہلے جاننا بہتر ہے۔ اس کے بعد بیانات کی ایک سیریز شروع کر لیں، کم از کم روزانہ ایک بیان سن لیا کریں، اور بہتر یہ ہے کہ جو بیانات خواتین کے لئے ہوئے ہیں ان سے شروع کر لیں کیونکہ خواتین کی مناسبت کے لحاظ سے بیانات ہوئے ہیں۔ لہٰذا آپ کو اس سے زیادہ فائدہ ہو گا۔ اور ساتھ ساتھ اگر ہو سکے تو جو جمعہ کے بیانات ہیں، ہفتہ میں ایک جمعہ کا بیان بھی سن لیا کریں کیونکہ جمعہ کے بیان میں جنرل باتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ کام آپ شروع کر لیں، میرے خیال میں کام تو شروع ہو جائے گا پھر اس کے بعد اپنی کیفیت بتاتی جائیں، ان شاء اللہ میں میسیج کرتا جاؤں گا، چیزیں تو بہت کچھ کرنے کو ہیں، اپنا رابطہ ضرور رکھیں اور جو معمولات آپ کو بتائے جائیں ان کو پابندی کے ساتھ کر لیں، ان شاء اللہ راستہ کھلے گا۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم! حضرت میرے اندر خرابیاں تو بہت زیادہ ہیں لیکن کچھ لکھ رہا ہوں ان کی اصلاح سے شروعات ہو سکتی ہے۔ آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے. ایک میرے اندر استقامت کی کمی ہے جیسے ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا ہے، لیکن کبھی کبھی جب گھر جاتا ہوں تو پھر دیکھ لیتا ہوں. تواضع بہت ہے کوئی پاس بیٹھے تو بہت ضروری کاموں کو بھی چھوڑ دیتا ہوں پھر چاہے وہ کام کرنے پر ساری رات جاگنا پڑے، اس طرح سے نیند کی جسمانی ضرورت بھی پوری نہیں ہوتی۔ گھر جا کر جماعت کی نماز بہت کم پڑھتا ہوں، صبح جس طرح آفس جاتا ہوں پھر تو وقت کی کمی ہوتی ہے، لیکن چھٹی والے دن بھی ساری نمازیں گھر پڑھتا ہوں۔ ماحول کا اثر بہت جلد ہوتا ہے۔ پلاننگ نہیں کر پاتا اور بہت ضروری کام بھی رہ جاتے ہیں یا کرنے میں بہت دیر ہو جاتی ہے۔ چھٹی والے دن بھی انتہائی ضرورت کے علاوہ نہیں باہر نکلتا۔ لہجے میں سختی ہے۔ مذاق بھی سخت لہجے میں کر لیتا ہوں کبھی کبھی کوئی میرے مذاق کو نہیں سمجھتا۔ کاہلی اور سستی ہے۔ جہاں دیکھتا ہوں کہ کوئی دین کی بات اپنے نفس کی وجہ سے دوسرے مطلب میں پیش کر رہے ہیں تو میں خود آپ کو روک نہیں پاتا اور بحث مباحثے تک بات چلی جاتی ہے بد نظری کبھی کبھی ہو جاتی ہے۔ جزاک اللہ۔

جواب:

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا اس مسئلہ میں طریقہ یہ تھا کہ وہ لوگوں سے لسٹ مانگ لیتے تھے لیکن کسی ایک چیز کے بارے میں فرماتے تھے کہ اس میں پکی بات کر لو اس کے بعد باقی باتیں ہوں گی، کیونکہ سب کو یک دم عمل کرنے کی کوشش میں کوئی چیز پھر نہیں ہو پاتی۔

لہذا اس مسئلے میں جتنی بھی باتیں آپ نے کی ہیں وہ اگرچہ ساری قابل غور ہیں لیکن اس وقت آپ با جماعت نماز کی پابندی کیجئے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ جماعت کی نماز کا چلہ شروع کر لیں کہ ایک چلہ آپ کا جماعت کی نماز کا ایسا ہو کہ اس چِلّے میں اگر آپ گھر بھی چلیں جائیں تو گھر میں بھی آپ کی جماعت نہ رہے۔ یاد رہے کہ یہ تکبیر اولیٰ کا چلہ نہیں ہے یہ جماعت کا چلہ ہے۔ دو قسم کے چلے ہیں ایک چلہ جماعت کا ہوتا ہے اور ایک تکبیر اولیٰ کا ہوتا ہے۔ تکبیر اولیٰ والا آپ کو بعد میں دیتے ہیں۔ جیسے ایک دفعہ کسی کو سیلکٹ کیا جا رہا تھا اور کوئی جبری بھرتی ہو رہی تھی، اس سے پوچھا گیا کہ میرے سامنے جو چارٹ ہے اس میں آپ کو کیا نظر آ رہا ہے؟ اس نے کہا کون سا چارٹ؟ اس نے کہا وہ سامنے دیوار پر۔ کہتا ہے کو ن سی دیوار؟ تو جس کو دیوار ہی نظر نہیں آ رہی، اس کو چارٹ کیسے نظر آئے گا۔ لہذا پہلے تو آپ با جماعت نماز شروع کر لیں پھر اس کے بعد تکبیر اولیٰ بھی آئے گی ان شاء اللہ۔ جب با جماعت نماز کا چلہ پوار ہو جائے تو پھر مجھے بتا دیں۔ پھر میں اگلی چیزیں آپ کو بتا دوں گا۔ اس دوران اگر آپ ان چیزوں پر نظر دوڑائیں اور ان میں سے جو آسانی کے ساتھ دور کر سکتے ہیں ان کو دور کر لیں، لیکن پہلے زور اس پر دیں۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم حضرت صاحب

With all due respect my son has a question that we believe خانہ کعبہ is among the living beings then why we make pictures and models of کعبہ when such is prohibited in Islam for living beings.

جواب:

شریعت میں ہر چیز کے بارے میں بتایا گیا ہے، اگر جان دار بھی ہو تو اس میں ذرا تفصیل ہے۔ در اصل فقہ کا حکم بھی دیکھنا چاہئے کہ کس چیز کے متعلق کیا حکم ہے۔ چنانچہ عورت کا تو سارا جسم ستر ہے لہذا اس کی تصویر تو کسی صورت میں نہ بنائیں۔ اور مرد کی تصویر کے متعلق یہ حکم ہے کہ اگر آپ اس کی آنکھیں، ناک اور چہرے کے دیگر اعضاء مٹا دیں جس سے صرف گول سا چہرہ نظر آئے تو پھر جائز ہے اس سے آپ کو گناہ نہیں ہو گا۔ جیسے ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں ایک پرندہ (شاید کبوتر) کی تصویر لگی ہوئی تھی اور اس کے سر کے اوپر ٹیپ لگی ہوئی تھی گویا کہ حضرت نے سب کو سمجھا دیا کہ اس طرح اگر اس کے اوپر ٹیپ لگا دی جائے تو پھر وہ جائز ہو گی۔ لہذا جو جان دار کی تصاویر ہیں ان کے سر پر آپ ٹیپ لگا دیں یا آنکھیں، ناک وغیرہ کا نقشہ مٹا دیں تو پھر جائز ہو گی۔ اسی طرح خانہ کعبہ کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ پورے کا پورا جائز ہے اگرچہ Living being ہو۔ باقی یہ سوال کہ ایسا کیوں ہے؟ تو یہ تو سوال اس بارے میں بھی ہو گا کہ عورت کا پورا جسم ستر کیوں ہے اور مرد کا صرف چہرہ ستر کیوں ہے؟ کیا یہ سوال کوئی کر سکتا ہے؟ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ مغرب کی تین رکعتیں ہیں اور باقی نمازوں کی جفت ہیں، کیا وجہ ہے؟ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ آپ کی ناک پیچھے کو نہیں لگی آگے کو لگی ہے، ایسا کیوں ہے؟ اس نے کہا بس اللہ پاک نے ایسا ہی بنایا ہے۔ فرمایا: بس اللہ پاک نے ایسا فرمایا ہے۔ لہذا بس جو بھی حکم ہو اسے حکم ماننا چاہئے۔ 

سوال نمبر 13:

السلام علیکم حضرت جی الحمد للہ آپ کی دعاؤں سے درود شریف کا ٹارگٹ پورا ہو گیا ہے، اس کی اطلاع بھی کر دی ہے۔ آپ نے فرمایا تھا فکر کرنے سے عمل کی توفیق ہو جائے گی۔ لیکن ابھی بھی لگتا ہے کہ مزید فکر کرنی چاہئے تھی۔ پتا نہیں دل میں اتنی خوشی کیوں نہیں ہوتی۔ ساری فکر ہوتی تو اور بھی زیادہ پڑھ پاتی۔ لیکن یہ فکر تو ہو رہی ہے کہ زیادہ بولنا، فضول باتیں کرنا بھی اس کی وجہ ہے، اس لئے دھیان بار بار ہٹ جاتا ہے۔

جواب: 

در اصل ایک ہوتی ہے فکر اور ایک ہوتی ہے فکر کی فکر۔ میں نے ’’فکر آگہی‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا پشتو زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے جس کا نام ہے ’’دا فکر فکر‘‘ یعنی فکر کی فکر۔ لہذا فکر کی فکر کرنی چاہئے۔ آپ نے فکر کی فکر شروع کی ہے اس پر مبارک ہو یہ اچھی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس فکر کو مزید بڑھائے اور اس میں آپ کو کامیاب کر دے۔ 

سوال نمبر 14:

السلام علیکم! حضرت جی جب میں سو کے اٹھی تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میرا دل اللہ اللہ کر رہا تھا۔ ایسے حالات کبھی کبھار ہوتے ہیں۔ حضرت جی میں نے دو لاکھ ستر ہزار مرتبہ درود شریف پڑھا ہے۔ دعا کریں کہ اللہ قبول فرمائیں۔ اور میرے شوہر کو اچھی جاب مل جائے وہ بہت پریشان ہیں وہ کویت گئے ہیں۔ اور اللہ پاک میرے لئے روحانیت کی منزلیں آسان فرما دے۔ میرے شوہر اور میرے بچے دین کے رستے پر چل پڑیں اور نفس اور شیطان سے ہم سب کی نجات ہو جائے۔ (آمین ثم آمین۔) حضرت جی یہاں سیالکوٹ میں آپ کی مغرب سے پہلے جو دعا ہونی ہے وہ کب کس وقت ہو گی؟ کیونکہ یہاں تو مغرب ہونے لگی ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ۔ مبارک ہو۔ اللہ جل شانہ اس کو اور زیادہ بہتر فرمائے۔

درود شریف تو قبول ہی ہوتا ہے۔ اس کی مبارک ہو اللہ تعالیٰ اور توفیق عطا فرمائے۔ درود پاک نا منظور ہونے والی چیز نہیں ہے۔ جیسے اگر آپ کسی کو کہیں کہ آپ اپنے بیٹے کو پیار کر لیں تو یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو نا منظور ہو۔ اس طرح آپ ﷺ اللہ پاک کے محبوب ہیں اللہ پاک ویسے بھی آپ ﷺ کو دے رہے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (الأحزاب: 56)

ترجمہ: ’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘

لہذا ہمارا درود پاک تو قبول ہی قبول ہو گا ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ اس کو ہدیہ بنا کر آپ ﷺ تک پہنچا دے۔

اللہ تعالیٰ آپ کے شوہر کو اچھی جاب دے دیں۔ اور حلال روزی کے بہتر حالات نصیب فرما دیں۔

باقی آپ نے دعا کے وقت کے بارے میں جو پوچھا ہے تو اس بارے میں اب میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس وقت یہ میسیج شاید میں پڑھ نہیں سکا، کیونکہ ہم دعا میں مشغول تھے یا اس کی تیاری میں مشغول تھے۔ بہرحال کل بھی دعا ہو گی ان شاء اللہ اس میں آپ شامل ہو سکتی ہیں۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم! حضرت جی میرے ساتھ ایک عجیب مسئلہ ہے۔ کچھ دن تہجد پڑھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ آج نیند پوری کر لوں چھوڑ دیتا ہوں۔ پھر دو دن چھوٹ جاتی ہے، پھر کچھ دن پڑھتا ہوں پھر یہی کیفیت ہو جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ باقاعدگی سے نہیں پڑھتا۔ باقی معمولات الحمد للہ جاری ہیں۔

جواب:

آپ اپنی نیند کو پورا کرنے کا کوئی ایسا نظام بنا لیں کہ اس کو باقی وقت میں پورا کر لیں، کیونکہ آج کل تو راتیں ما شاء اللہ کافی لمبی ہیں تو اگر آپ جلدی سو جایا کریں تو آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ میرے خیال میں زیادہ مسئلہ آپ کو جلدی نہ سونے کی وجہ سے ہو رہا ہے، اس لئے جلدی سو جایا کریں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اگر 14 گھنٹے کو نیند سمجھا ہے تو 14 گھنٹے تو نیند نہیں ہے، میرے خیال میں ایک نارمل آدمی کے لئے سات گھنٹے کی نیند کافی ہوتی ہے۔ مثلاً نماز آج کل سات بجے ہے تو آپ اگر عشاء کے بعد بھی کھانا کھائیں تو نو بجے سو سکتے ہیں، چنانچہ اگر آپ نو بجے سو جائیں اور چار بجے بھی آپ اٹھیں تو سبحان اللہ آپ کی نیند سات گھنٹے میں پوری ہو جاتی ہے۔ کیونکہ آج کل تقریباً 05:35، 05:40 کے لگ بھگ وقت ختم ہوتا ہے۔ تو یہ بہت ٹائم ہوتا ہے۔ لہذا ہمت کریں۔ اللہ جل شانہ توفیق عطا فرما دیں۔ 

سوال نمبر 16:

السلام علیکم! حضرت کیا تصوف کے ساتھ معاشرت جڑی ہوئی ہے اور ہم اپنی معاشرت کو بہتر کرنے کے لئے اور سیکھنے کے لئے کیا کریں۔

جواب:

دیکھیں! تین چیزیں ہیں عقل، قلب اور نفس۔ ان تین چیزوں کو ٹھیک کرنے کے لئے جو ذرائع ہیں ان کو ہم تصوف میں استعمال کرتے ہیں، تو اگر آپ کی عقل ٹھیک ہو جائے تو کیا آپ کی معاشرت خراب ہو سکتی ہے؟ مثلاً شادی کرنے ایک طریقہ حضور ﷺ کی سنت کا ہے اور ایک ہمارا رواجی طریقہ ہے اور اس رواجی طریقے میں ہم لوگ خرچ بھی زیادہ کرتے ہیں، گناہ بھی اٹھاتے ہیں۔ تو کیا یہ عقل ہے؟ تو اگر آپ کی عقل ٹھکانے آ گئی ہو تو آپ کیوں شادی غلط طریقے سے کریں گے بلکہ آپ اسے صحیح طریقے سے کریں گے، کیونکہ اس میں فائدہ بھی ہے اور ثواب بھی۔ ہم خرما و ہم ثواب۔ آپ کو یہ دونوں چیزیں ہی مل رہی ہیں۔ تو تین چیزوں پر محنت کرنے سے انسان کی جب عقل ٹھکانے آتی ہے تو اس سے اخلاق بھی ٹھیک ہوتے ہیں، اس میں معاملات بھی ٹھیک ہوتے ہیں اور اس میں معاشرت بھی ٹھیک ہوتی ہے۔ لیکن اگر درمیان میں کچھ گڑ بڑ ہے تو وہاں مسئلہ ہو گا۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ