دعوات ماثورہ کے بیان میں سماع اور رقص کے ذکر میں

مقالہ 16 ، 18 ، درس 76

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات سے متعلق بہت ہی بابرکت کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے اقتباسات کی تشریح ہو رہی ہے۔ آج کل ہم دعواتِ ماثورہ کے متعلق حضرت کی تحقیقات بیان کر رہے ہیں۔

متن:

سورۂ واقعہ کے منافع اور فضائل:

جو شخص رات کو سورہ واقعہ پڑھے تو اُس فاقہ سے نجات ہو گی۔

سورہ واقعہ پڑھنے کے بعد گیارہ دفعہ یہ دُعا پڑھے: "اَللّٰھُمَّ اکْفِنِيْ بَحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِيْ بفَضْلِکَ عَمَّا سِوَاکَ"۔

تشریح:

یہ قرض سے نجات حاصل کرنے کی مشہور دعا ہے۔ اس کو اگر کوئی پڑھے، تو ان شاء اللہ العزیز فاقہ سے بھی نجات ہو گی، قرض سے بھی نجات ہو گی۔

متن:

درد سر اور کنپٹی کے درد کے دفع کرنے کے لئے یہ دعا پڑھے: "إِلٰھِيْ بِثُبُوْتِ الرُّبُوْبِیَّۃِ وَبِتَعْظِیْمِ الصَّمْدَانِیَّۃِ وَبِسَطْوَۃِ الْإِلٰھِیَّۃِ وَبِقُدْرَۃِ الْجَبَرُوْتِیَّۃِ وَبِقُدْرَۃِ الْوَحْدَانِیَّۃِ وَبِعِزَّۃِ الْفَرْدَانِیَّۃِ أَنْ تَشْفِیَنِيْ عَاجِلًا" یہ عمل مجرب اور صحیح ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام دردوں اور بخاروں کے بارے میں ہدایت فرمائی ہے: "بِسْمِ اللہِ الْکَبِیْرِ نَعُوْذُ بِاللہِ الْعَظِیْمِ مِنْ شَرِّ عِرْقٍ نَّعَّارٍ وَّ مِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ"۔ (سنن الترمذی، أبواب الطب، باب: بلا ترجمۃ، رقم الحدیث: 2075)

اور ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو بخار ہو جائے تو چونکہ بخار آگ کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا ہوتا ہے تو اُس کو پانی سے بجھا دے، بہتی ہوئی نہر میں نہائے۔ اور اُس کی گرمی کو کم کر دے

تشریح:

یہ اس وقت کی بات ہے، جب کوئی Medical researches نہیں ہوئی تھیں۔ اب بھی یہی بات ہے کہ اگر کسی کا 105 سے temperature زیادہ ہو جائے، تو پھر فوراً نہا لیں۔ اگر اس سے نیچے ہو، تو پٹیاں کریں۔ عموماً لوگ کمبل لے لیتے ہیں، حالانکہ کمبل لینے سے بخار بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ آپ نے بخار کو جسم میں روک دیا۔ وہ جو سردی لگتی ہے، وہ اصل سردی نہیں ہوتی۔ ویسے محسوس ہوتی ہے، لیکن سردی نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کا نقصان نہیں ہوتا، جیسے عام سردی کا ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر اس میں نہا لیا جائے، تو بخار کم ہو جائے گا اور پٹیاں لگانے سے فائدہ ہوتا ہے۔

متن:

اور صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے نہا کر یہ کہے کہ "بِسْمِ اللہِ اَللّٰھُمَّ اشْفِ عَبْدَکَ وَصَدِّقْ رَسُوْلَکَ"۔ اور پانی میں تین غوطے لگائے۔ یہ تین دن ایسا کرے۔ اگر تین دن میں اچھا نہ ہوا تو پانچ دن ایسا کرے۔ اگر پانچ نہیں تو سات اور پھر نو دن تک۔ کیونکہ نو دن سے زیادہ سے تک نہیں رہ سکتا۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث غریب ہے۔ (رقم الحدیث: 2075)

تشریح:

اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ Medical researches بعد میں ہوئی ہیں، تو بعض بخار ایسے تھے کہ ان کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ یہ کس وجہ سے ہوتے ہیں، اس لئے وہ بخار ہوتا رہتا تھا۔ جیسے Typhoid type بخار ہے، جس کو بنیادی بخار کہتے تھے۔

متن:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ہم میں سے کسی انسان کو کوئی شکایت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اُس کو دائیں ہاتھ سے مسح کرتے اور فرماتے کہ "اِذْھَبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ لَآ شِفَاءَ إِلَّا شِفَاءُکَ شِفَاءً لَّا یُغَادِرُ سَقَمًا"۔ متفق علیہ (رقم الحدیث: 5743)

اور یہ روایت بھی آپ رضی اللہ عنہا ہی نے نقل کی ہے کہ جب کوئی انسان کسی شکایت میں مبتلا ہو جاتا اگر وہ کوئی زخم وغیرہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی انگلی پر فرماتے۔ "بِسْمِ اللہِ تُرْبَۃُ أَرْضِنَا بِرِیْقَۃِ بَعْضِنَا یُشْفٰی سَقِیْمَنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا" متفق علیہ (رقم الحديث: 5745)

اور حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں تشریف لائے اور کہا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ و سلم) کیا کوئی شکایت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں، تو جبریل علیہ السلام نے کہا: کہہ لیجیئے: "بِسْمِ اللہِ أَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَيْءٍ یُّؤْذِیْکَ"۔ رواہ مسلم (رقم الحديث: 2186)

جب کوئی انسان یہ خوف رکھے کہ اُس کو یا کسی غیر کو قتل کیا جائے گا تو اُس کو چاہئے کہ وہ ایک مینڈھا جو کہ سب اعضا سے صحیح و سالم ہو، جس طرح قربانی کے لئے لیا جاتا ہے، حاصل کرے، پھر اُس کو ایک خالی جگہ میں جہاں اُسے کوئی نہ دیکھ پائے، جلدی سے قبلہ رُخ ہو کر ذبح کر ڈالے اور ذبح کرتے وقت کہے کہ "اَللّٰھُمَّ ھٰذَا لَکَ، اَللّٰھُمَّ إِنَّہُ فِدَائِيْ فَتَقَبَّلْہُ مِنِّيْ"۔ اور اُس کے خون کے لئے ایک گڑھا کھود کر اُس میں وہ خون گاڑ دے کہ کوئی شخص اُس خون پر پاؤں نہ رکھے۔ اور پھر اُس کو ساٹھ ٹکڑے کرے، خود بھی اُس سے کچھ نہ کھائے اور نہ کسی مالدار کو کھلائے۔ بلکہ فقیروں اور مسکینوں میں تقسیم کرے۔ کیونکہ یہ فدیہ ہے، اور اس کو اس کا کھانا مکروہ ہے۔ خدا اُس کو اُس مصیبت سے بچائے گا۔ یہ مجرب اور معمول عمل ہے۔

صلوۃ استخارہ کے حقیقت کے بارے میں:

شیخ ابو موسیٰ محمد بن سُکَّر المدنی جو کہ اصحاب کرام کی اولاد سے تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے سابقہ کتابوں میں دیکھا ہے کہ آئمہ سلف سے روایت ہے کہ جو شخص چاہے کہ استخارہ کرے تو عشاء کی نماز کے بعد اور وتر کی نماز سے پہلے دو رکعت نماز پڑھے۔ سورۂ فاتحہ کے بعد ہر رکعت میں گیارہ مرتبہ پڑھ لے اور اپنے دائیں ہاتھ پر دم کر ڈالے۔ اور معوذتین یعنی سورۂ فلق اور سورہ ناس دس دفعہ پڑھ کر بائیں ہاتھ پر دم کرے۔ اور اپنے کام کی نیت کر کے با وضو سو جائے۔ اگر خواب میں دیکھے کہ کوئی مردہ یا زندہ اس کو کچھ چیز دیتا ہے تو وہ کام کر لے جس کے لئے اس نے استخارہ اور ارادہ کیا ہو۔ اور اگر یہ دیکھے کہ کوئی شخص اُس سے کوئی چیز لیتا ہے تو پھر اُس کو چھوڑ دے۔ اور اگر پہلی رات میں کچھ نہ دیکھے تو دوسری رات یہ عمل کرے۔ اور اگر پھر بھی نہ ہو تو تیسری رات کرے، یہ مجرب عمل ہے۔

جنات کے دفعہ کرنے کے لئے:

اِن آٹھ بادشاہوں کے نام کاغذ پر لے۔ اور آسیب زدہ یا مرگی والے مریض کی گردن میں باندھ لے وہ فورًا اچھا ہو جائے گا۔ "اَللّٰھُمَّ خَلِّصْہُ مِنْ جَمِیْعِ الْجِنِّ وَالشَّیَاطِیْنِ وَالْغَیْلَانِ بِحَقِّ جَانٍّ یَا شَاھِدُ یَا احَقُّ مَیْمُوْنُ عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ أَیُّھَا الرَّکْبُ الْمُسَخَّرُ لِمَا أَحِبُھُمْ کَمَا جَاءَ الجَانِبَ النَّمْلِ سُلَیْمَانُ ابْنُ دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَإِنِّيْ أَعْھَدُ إِلَیْکُمْ بِخَاتَمِ سُلَیْمَانَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَإِنَّکَ مِنَ الدَّسَنِ ھٰذَا الْکِتَابُ مِنَ اللہِ الْعَزِیْزِ الْغَفَّارِ۔

نوع دیگر جنات اور پری اور آسیب وغیرہ کا تعویز:

یہ تعویز لکھ کر آسیب زدہ کی گردن میں باندھا جائے تو فی الفور دفع ہو جائے گا، مجرب ہے۔

تشریح:

الفاظ صرف لکھنے کے لئے ہیں۔ اس لئے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض الفاظ کے معنی نہیں ہوتے۔ تعویذوں میں تو ایسا ہوتا ہے کہ بعض چیزوں کے معنی نہیں ہوتے۔

متن:

ایک دوسری قسم:

اگر کسی وجہ سے بھی ٹھیک نہ ہو تو یہ تعویذ سبز کپڑے میں لپیٹ کر اور اگر سبز نہ ہو تو جیسا بھی ہو، اُس میں لپیٹ کر آسیب زدہ یا مرگی کے مریض کی ناک میں اُس کا دھواں دے دے۔ فورًا مرض دفعہ ہو جائے گا۔ یہ عمل انتہائی مجرب ہے۔ مگر بغیر ضرورت کے اس کا کرنا اچھا نہیں۔ "لَا یَجْمَعُ أَلَاحُ أَرْسَلَ حلو الدوی فَاطِرٌ۔ کُلَّمَا شَادِيْ وَکِیْلًا احلاوہ فَاطْرُفِیْہِ"۔

تشریح:

جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ یہ ساری چیزیں کتابوں میں لکھی ہوتی ہیں۔ لیکن بعض چیزیں کتابوں کی نہیں ہوتیں، باقاعدہ استاد سے سیکھ کر کرنا پڑتی ہیں۔ اگر استاد سے نہ سیکھیں، تو ان میں مسائل ہوتے ہیں۔ جیسے: جنات وغیرہ کی باتیں اسی قسم کی ہوتی ہیں۔ ان میں آگے پیچھے دیکھنا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اس وقت تو کام ہو جائے گا، لیکن بعد میں مسئلہ ہو سکتا ہے۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تعویذ ہمارے پاس تھے، میری والدہ نے خواتین کو دینا شروع کر دیئے، تو ان کو مسئلہ شروع ہو گیا۔ مجھے پتا چلا، تو میں نے ان کو روک دیا۔ میں نے کہا: نہ دیں، یہ آپ کے لئے نہیں ہیں۔ کیونکہ جن کے خلاف آپ منصوبہ بندی کر رہے ہیں، وہ بھی تو آزاد ہیں، آخر! وہ بھی تو کچھ کریں گے۔ لہٰذا اپنی پوری حفاظت کر کے انسان یہ کام کر سکتا ہے، ورنہ اگر حفاظت نہ ہو، تو الٹا لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ جیسے میں نے ایک دفعہ عرض کیا تھا کہ جو حضرات اس چیز کو جانتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عامل بننے کے لئے تو ہزاروں طریقے ہیں، لیکن اس سے واپس ہونے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ پھر عمر بھر کرنا پڑے گا۔ الَّا یہ کہ آپ کسی کے تعلق کی وجہ سے انتہائی درجہ کی حفاظت میں آ جائیں، پھر تو ٹھیک ہے، ورنہ عامل حضرات کہتے ہیں کہ رجعت ہو جاتی ہے۔ رجعت سے مراد یہ ہے کہ آپ کی چونکہ حفاظت نہیں ہوتی، اس لئے مقابلہ میں دوسری چیزیں حاوی ہو جاتی ہیں اور وہ اپنا بدلہ لیتی ہیں۔ یہ میں نے اس لئے بتایا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ آپ اس کتاب کو پڑھ کے یا کہیں سے سن کے یہ کام شروع کر لیں۔

حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پہ اب بھی لاکھوں جنات ہوتے ہیں۔ ان کے پورے خاندان میں یہ چیز موجود ہے، ابھی تک ان کی اولاد میں یہ چلی آ رہی ہے۔ لہٰذا یہ تو لکھ سکتے ہیں، کیونکہ حضرت کا معاملہ speciality تھا۔ ایک دفعہ تبلیغی جماعت کے ساتھی مجھے کہتے ہیں کہ کیا ایسا ہوتا ہے کہ زیارت کاکا صاحب میں ایک مزار ہے، وہاں لوگ جنات لے جاتے ہیں، پھر وہ جنات ادھر ہی رہ جاتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، وہاں تو ہر روز کا یہ معاملہ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ شاید وہ اس کو شرک سمجھتا ہو گا کہ یہ پتا نہیں، کیا چیز ہے۔ میں نے کہا: یہ چیز وہ نہیں ہے، جو تم سمجھے ہو۔ جتنی قسم کے لوگ اور جتنے مذہب انسانوں میں ہیں، وہ سب جنات میں بھی ہیں۔ یعنی مسلمان جنات ہیں، ہندو جنات ہیں، یہودی جنات ہیں، عیسائی جنات ہیں، مشرک جنات ہیں، ملحد جنات ہیں۔ ہر قسم کے جنات ہیں۔ اسی طرح بزرگوں کے ماننے والے جنات بھی ہیں۔ اس لئے جو بزرگوں کے ماننے والے جنات ہیں، تو وہ جن کو مانتے ہیں، ان کی محبت کی وجہ سے وہ ان کے مزار پہ جمع ہو جاتے ہیں۔ جیسے انسان وہاں جاتے ہیں، اسی طرح جنات بھی جا سکتے ہیں۔ جنات پہ پابندی بھی نہیں ہے، تو ان کو کون روکے گا۔ چنانچہ ان کے معتقد جنات وہاں جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر جنات والے یہ کرتے ہیں کہ اپنے جنات کو ساتھ لا کر ان کو اپنے ساتھ بیٹھا لیتے ہیں، جس سے مریض اچھا ہو جاتا ہے۔ باقی ان جنات کے ساتھ وہ کیا کرتے ہوں گے، وہ جانیں اور ان کا کام جانے۔ لیکن بہر حال! مریض سے تو جنات چلے گئے۔ مگر لوگ کہتے ہیں کہ بابا جی نے جنات اتار دیئے۔ حالانکہ بابا جی نے نہیں، بلکہ بابا جی کے ساتھ بیٹھنے والوں نے کیا ہے، کیونکہ وہ تو زندہ ہیں۔ وہ تو یہ کام کر سکتے ہیں اور انہوں نے کر دیا۔ کہنے لگے کہ اس طرح تو پھر ممکن ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ادھر جا سکتا ہوں؟ میں نے کہا: آپ کی مرضی ہے۔ چنانچہ نا سمجھنے کی وجہ سے لوگ خواہ مخواہ ہڑبونگ مچا دیتے ہیں کہ یہ اس طرح ہے۔ حالانکہ یہ بالکل simple بات ہے، یہ کوئی نا ممکن بات نہیں ہے۔ حضرت کی اولاد میں بھی ابھی تک یہ تاثیر ہے، جنات پہ بہت جلدی کنٹرول کر لیتے ہیں، اور جنات ان کو آسانی سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بس تھوڑی سی محنت ان کو چاہئے ہوتی ہے اور جنات ان کے تابع ہو جاتے ہیں، بلکہ دوست ہو جاتے ہیں، یعنی ماننا شروع کر دیتے ہیں۔ کراچی میں خواتین کی جو ہماری خانقاہ ہے، میں وہاں گیا، تو انہوں نے صبح مجھ سے پوچھا کہ کچھ محسوس ہوا؟ میں نے کہا: کیا محسوس ہو رہا تھا؟ کہتے ہیں کہ آپ کو کچھ پتا نہیں چلا؟ میں نے کہا: کیا پتا چلنا تھا؟ ان کو سمجھ آ گئی کہ مجھے واقعی کچھ پتا نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں کچھ ایسی چیزیں ہیں، جو ٹیپ کھول لیتی ہیں، کبھی لائٹ آن کر دیتی ہیں، کبھی آف کر دیتی ہیں، کبھی پنکھا چلا دیتی ہیں، کبھی سایہ سا نظر آتا ہے۔ لوگ تو ان سے بڑے تنگ ہیں۔ میں نے کہا: مجھے تو پتا بھی نہیں چلا کہ کیا ہے۔ وہ خوش ہو گئے کہ اچھا ہوا کہ ان کو کچھ نہیں ہوا۔ میں وہاں پانچ چھ دن رہا۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ وہ بھی حیران، میں بھی حیران، میں ان کے کہنے پہ حیران تھا، وہ خود بخود حیران تھے۔ میں پھر واپس آ گیا۔ وہاں ایک خاتون پہ جنات آیا کرتے تھے۔ جب میں غالباً دوسری دفعہ گیا، تو جنات نے پہلے سے اس کو اطلاع کر دی کہ شاہ صاحب آ رہے ہیں۔ میں جب پہنچا، تو کہتی ہیں کہ میں نے یہاں کہا تھا کہ شاہ صاحب آ رہے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ تمہیں پہلے سے کیسے پتا چلا کہ وہ آ رہے ہیں؟ اس نے کہا: مجھے جنات نے بتا دیا تھا کہ آپ آ رہے ہیں۔ چنانچہ مجھے ان کی زبانی معلوم ہوا کہ وہاں جتنے بھی جنات تھے، وہ سارے بیعت ہو گئے تھے۔ وہاں خواتین بیعت ہو رہی تھیں، تو ان کے ساتھ وہ بھی بیعت ہو گئے۔ حالانکہ مجھے پتا بھی نہیں لگا کہ جنات بیعت ہوئے ہیں۔ میں نے کہا: ما شاء اللہ! آپ ﷺ کی سنت تازہ ہو گئی۔ جیسے سورت الجن کے بارے میں آتا ہے کہ آپ ﷺ کو پتا نہیں تھا کہ جنات ایمان لائے ہیں، وحی کے ذریعے سے پتا چلا کہ جنات آئے تھے اور ایمان بھی لائے تھے۔ اسی طرح مجھے بھی پتا نہیں چلا۔ اور پھر اس مجلس میں دورانِ بیان وہ جنات بھی آئے تھے، جو اس خاتون میں آ رہے تھے، انہوں نے کہا: ہم آٹھ جنات ہیں، ہم بھی بیعت ہونا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے، تم بھی بیعت ہو جاؤ۔ وہ بھی بیعت ہو گئے۔ ان میں محسن بابا ایک صاحب تھے، جن کی عمر بہت زیادہ تھی، وہ بھی بیعت ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ میری عمر چونکہ زیادہ ہے، اس لئے باقی جنات میرا بہت خیال رکھتے ہیں، قدر کرتے ہیں، اگرچہ میں جنات کا سردار نہیں ہوں، لیکن اس علاقہ کا جو سردار ہے، وہ بھی میرا بہت خیال رکھتا ہے۔ تو چونکہ مجھ سے لوگ دم وغیرہ کرنے کی توقع رکھتے ہیں، اس لئے آپ مجھے کسی دم کی اجازت دے دیں۔ میں نے ان کو سورت فاتحہ کی اجازت دے دی کہ یہ دم کر لیا کرو۔ بہر حال! یہ سلسلہ چلتا رہا، اور اب ما شاء اللہ وہاں پر جنات کا پورا ایک نظام چل رہا ہے، لوگ آ رہے ہیں اور بیعت ہو رہے ہیں۔ وجہ صرف یہ تھی کہ جو خاتون وہاں کی انچارج ہے، وہ حلیم گل بابا کی اولاد میں سے ہے۔ سلسلہ ادھر سے شروع ہوا ہے۔ بہر حال! جنات کی دوستی اچھی نہیں ہے، یہ خطر ناک ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ساتھ معاملہ اور ہے۔ ہمارے ساتھ معاملہ دوستی کا نہیں ہے، کیونکہ جو لوگ ان کو قابو بھی کر لیتے ہیں، تب بھی ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کس وقت کیا کر دیں۔ اس لئے ان سے بچ کے ہی رہنا مناسب ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں نیلور میں ملازمت کرتا تھا، وہاں پر کوئی صاحب آئے اور اپنی بچی کے بارے میں کہا کہ اس پہ جن آتا ہے۔ اور وہ جن ہندو ہے اور کہتا ہے کہ میں فلاں جگہ سے آیا ہوں۔ میں کیا کروں؟ چونکہ میں دفتر میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا، تو میں نے اپنی جان چھڑانے کے لئے کہا کہ خانقاہ آ جاؤ۔ وہ خانقاہ آ گیا۔ خیابان میں ہماری خانقاہ تھی۔ وہ اپنی بچی کو بھی ساتھ لے آیا۔ میں نے کہا کہ بچی کو اوپر ہمارے گھر بھیج دو اور خود نیچے آ جاؤ ہمارے ساتھ۔ بچی کو گھر بھیج دیا۔ میری بیٹی نے بتایا کہ وہ بچی بہت با ادب تھی، اس نے میری بیٹی کے ہاتھ چومے اور بہت زیادہ خیال رکھا۔ آج کل تو میں تعویذ وغیرہ کے معاملہ میں بڑی سختی کرتا ہوں، کیونکہ اس چیز کو میں چلانا نہیں چاہتا، ویسے میں جانتا بھی نہیں ہوں۔ اس لئے میں نے ویسے ہی کچھ لکھا اور اس کو دے دیا، اور کہا کہ یہ تعویذ لے لو۔ مجھے پتا تو نہیں تھا کہ اس سے کیا ہو گا۔ بعد میں اس صاحب نے مجھے کہا کہ جب وہ جن آتا ہے، تو میری بیٹی تعویذ کو بار بار دیکھ رہی ہوتی ہے۔ جب کوئی شرارت کرتا ہے، تو وہ کہتی ہے کہ ہم پھر شاہ صاحب کے پاس جاتے ہیں۔ تو جن کہتا ہے کہ نہیں! شاہ صاحب کے پاس نہ جانا، شاہ صاحب کے پاس نہ جانا۔ مجھے ساتھیوں نے کہا کہ آپ تو جنات کا علم جانتے بھی نہیں ہیں، علمیات بھی نہیں جانتے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں آتا۔ یہ پھر کیا ہے؟ یہ وہی حلیمی صاحب کے مزار والا معاملہ ہے۔ میں نے کہا: خدا کے بندو! یہ اس لئے نہیں کر رہے ہیں کہ میں کوئی عامل ہوں، یہ معاملہ عملیات کی وجہ سے نہیں ہو رہا۔ اصل میں یہ ہندو جن ہے، کیونکہ اس نے خود ہی کہا کہ میں ہندو ہوں۔ اور ہندو بہت وہمی ہوتے ہیں اور عقیدہ کے لحاظ سے ان چیزوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ سادات سے بہت ڈرتے ہیں۔ اب بھی ہندوستان میں ہندو سادات کے ساتھ کچھ نہیں کرتے، سادات سے ڈرتے ہیں۔ سادات سے اپنے بچوں کو دم کرواتے ہیں۔ سادات سے ڈرتے ہیں کہ ہمیں کچھ ہو نہ جائے۔ لہٰذا وہ میرے سید ہونے کی وجہ سے خیال رکھ رہا ہے، میرے عامل ہونے کی وجہ سے نہیں۔ میں عامل نہیں ہوں، مجھے کچھ پتا نہیں ہے۔ لیکن اس کو پتا ہے کہ یہ سید ہے، کہیں مجھے کچھ ہو نہ جائے۔ اس لئے وہ ایسے کرتا ہے۔ بہر حال! یہ ساری چیزیں بڑی simple ہوتی ہیں، لیکن لوگ ان کو چیستان بنا لیتے ہیں۔ اب اگر میں ان چیزوں کو چاہتا، تو دو تین باتیں اپنی طرف سے لگا لیتا، لہٰذا اچھی خاصی شہرت تھی۔ عامل کی بڑی ٹور ہوتی ہے۔ لوگ اس کے پاس آتے ہیں اور پتا نہیں، کیا کچھ کرتے ہیں۔ حالانکہ سارا فراڈ ہوتا ہے۔ لیکن میں تو عامل نہیں ہوں۔ چنانچہ لوگ کچھ سچی اور کچھ جھوٹی باتیں ملا لیتے ہیں اور حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اس لئے ان باتوں میں نہیں پڑنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعے سے جو آسان آسان چیزیں ہم تک پہنچائی ہیں، بس وہ بہت اچھی ہیں۔ ان میں کافی ساری چیزیں آ گئی ہیں۔ جیسے سورت فاتحہ ہے، سورت یٰس شریف ہے۔ اس طرح کی اور بہت ساری چیزیں ہیں۔ جیسے ابھی جو دعا گزری ہے۔ لہٰذا اس قسم کی چیزوں پر انسان یقین کے ساتھ عمل کرے، یہ بالکل صحیح ہے۔ اسی طرح معوذتین سورتیں ہیں، عصر کے بعد آپ ﷺ کا انہیں پڑھنے کا معمول تھا۔ لہٰذا ایسے کاموں کو کرنا چاہئے۔ باقی توہم پرستی اور اس قسم کی چیزوں سے بچنا چاہئے۔ عملیات وغیرہ کے کاموں سے بھی اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ اس دلدل کے اندر اگر کوئی پھنس جائے، تو پھر اس سے نکلنا بڑا مشکل ہے۔ لہٰذا ان چیزوں کو نہیں کرنا چاہئے۔ میرا یہ تجربہ ہے کہ اگر میں غلطی سے بھی اس قسم کی کوئی بات کروں، تو کان کھڑے ہو جاتے ہیں، سب سے زیادہ مولویوں کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں: اچھا، مجھے اجازت ہے؟ پتا نہیں، کیوں پیچھے پڑے ہوتے ہیں، عملیات کے بہت زیادہ شوقین ہیں۔ پتا نہیں، ان کے پاس ٹائم زیادہ ہو گا۔ ’’وَاللہُ اَعْلَمُ‘‘۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس طرح کی چیزوں کو کیوں شروع کرتے ہیں۔

متن:

سترھواں مقالہ

سہروردیہ اور قادریہ کے بزرگوں کے ذکر کے بیان میں

تشریح:

سہروردی تو حضرت خود تھے اور قادریہ بزرگوں کے ساتھ رسائی ہو گی۔

متن:

ایک شخص نے سید الکونین ﷺ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ! اسلام کی شریعت اور طریقے کثرت سے ہیں، مجھے ہدایت فرمائیے کہ میں کس چیز کو محکم پکڑ رکھوں؟ ارشاد فرمایا کہ اپنی زبان کو ذکر اللہ سے ترو تازہ رکھو۔ (سنن الترمذي، کتاب الدعوات، باب: ما جاء في فضل الذکر، رقم الحدیث: 3375) رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ ارشاد فرمایا: "دنیا سے جدائی اختیار کرو اور زبان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رکھو"۔ (شرح السنۃ للبغوي، کتاب الدعوات، باب: فضل ذکر اللہ عز و جل و مجالس الذکر، رقم الحدیث: 1245)

اور زبان سے کامل ذکر کرنا جہر کا ذکر ہے کیونکہ خفی ذکر میں عدم یعنی نہ ہونے کا شبہ ہوتا ہے،

تشریح:

بعض دفعہ انسان سمجھتا ہے کہ میرا ذکر ہو رہا ہے، جب کہ نہیں ہو رہا ہوتا۔ نقشبندی سلسلہ کی مشکل چیزوں میں ایک یہی ہے، جو ابھی حضرت نے بتائی ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ذکر نہیں ہو رہا ہوتا اور آپ تھوڑی سی توجہ دیں گے، تو شروع ہو جائے گا، آپ کہیں گے کہ پہلے بھی شروع تھا۔ اب اس کو کون بتائے کہ ایسا نہیں ہے۔ آپ کسی کامل کے سامنے بیٹھے ہوں، وہ آپ کو گھنٹہ دو گھنٹے observe کرے کہ آپ کا ذکر ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا۔ اور وہ بھی آپ کو بتائے بغیر ہو کہ آپ کو اس کا خیال نہ ہو۔ پھر تو آدمی کچھ کہہ سکتا ہے، اس کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس میں اتنی زیادہ sensitivity ہے کہ آپ کا ذکر نہیں چل رہا ہو گا اور جیسے آپ نے توجہ کی کہ چل رہا ہے یا نہیں چل رہا، تو فوراً چل پڑے گا۔ آپ کہیں گے کہ یہ پہلے بھی چل رہا تھا۔ مجھے بھی میرے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات فرمائی تھی۔ چونکہ میری نقشبندی نسبت کا حضرت کو پتا تھا، تو فرمایا: بیٹا! زبان بھی ساتھ شامل رکھو۔ ایک وضو کی جگہ دو وضو ہو جائیں، تو کتنی اچھی بات ہے۔ تو حضرت نے مجھے اس انداز سے فرمایا تھا کہ محسوس بھی نہ ہو۔

متن:

کیونکہ خفی ذکر میں عدم یعنی نہ ہونے کا شبہ ہوتا ہے، اور ذکر جہری اونگھنے والے کو بیدار کر دیتا ہے اور شیطان کو بھگا دیتا ہے۔ شیخ امین الدین گازرونی کے رسالہ میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی سوال کرے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: "خَیْرُ الذِّکْرِ الذِّکْرُ الْخَفِيُّ" (مسند أحمد بمعناہ، مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ، مسند أبی إسحاق سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ، رقم الحدیث: 1477) کہ بہترین ذکر، ذکرِ خفی ہے۔ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ پوشیدہ اور خفی انداز میں ذکر کرنا بہت بہتر ہے اُس ذکر سے جو کہ آشکارا اور جہر سے کیا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ذکر خفی وہ نہیں ہوتا جو کہ ذاکر کی زبان آہستہ سے کہے بلکہ یہ زبان کے ذکر سے الگ ہے، بلکہ دل کے ذکر سے بھی دور ہے اور سیر کے ذکر سے بھی بعید اور جان کے ذکر سے بھی ما وراء ہے، اس ذکر کی ماہیت اور کیفیت عقل اور علم مجاذی سے معلوم نہیں ہوتی۔ (کذا فی فوائد الخزانۃ الجلالیة، ترجمہ علامہ قشیری)

حضرت جبرئیل علیہ السلام جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں شرف حاضری کی سعادت حاصل کر کے کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی اُمت کو بھی وہ چیز مرحمت نہیں فرمائی جو آپ کی اُمت مرحومہ کو عنایت فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے استفسار فرمایا کہ وہ آخر کیا چیز ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اُمت کو فرمایا ہے کہ ﴿فَاذْکُرُوْنِيْ أَذْکُرْکُمْ…﴾ (البقرۃ: 152) ”تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا“۔ شیخ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ "اَلذِّکْرُ مَنْشُوْرُ الْوِلَایَۃِ" ”ذکر ولایت کا منشور ہے“ یعنی جس کو اللہ تعالیٰ نے ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائی وہ صاحبِ ولایت ہو گیا۔ (کذا فی شمائل أتقیاء)

تشریح:

واقعتاً یہ توفیق من جانب اللہ ہی ہے۔ توفیق نہ ہو، تو آدمی نہیں کر سکتا۔ چاہے گا، لیکن نہیں کر سکے گا۔ یہ ایسی عجیب چیز ہے۔

متن:

اب ذکر کرنے کی تاثیر ملاحظہ فرمائیے۔

پہلی تاثیر:

جب ذاکر یعنی ذکر کرنے والا ذکر کرنے کی حقیقت سمجھ پائے تو ذکر کی حالت میں اُس کے دانتوں میں شہد سے زیادہ میٹھی مٹھاس اور حلاوت پیدا ہوتی ہے، چنانچہ اُس مٹھاس کی وجہ سے اُس کے دانت ایک دوسرے کے ساتھ چپک جاتے ہیں، اور بہت مشکل سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ اُس کی خوراک وہی شیرینی اور مٹھاس ہوتی ہے، وہ موت کی حالت محسوس کرتا ہے، خلوت سے دور بھاگتا ہے اور لوگوں کے ساتھ ملنا چاہتا ہے، اس حلاوت کا ذوق دل جانتا ہے نہ کہ جسم، کیونکہ جسم کو اس کا علم نہیں ہوتا۔

دوسری تاثیر:

ذاکر اللہ کے ذکر سے جو کہ دل کا خاصہ ہے، روح کے ذکر تک رسائی حاصل کرتا ہے اور ''هُوْ'' کے مقام تک پہنچتا ہے، اُس کے دل میں ایک ہیبت پڑ جاتی ہے اور وہ اپنی ہستی سے نیست ہو جاتا ہے اور اس حالت کو عالم فنا کہتے ہیں۔ اس حالت میں انسان کی نفسانی یا جسمانی حرکت و سکون کا اختیار نہیں ہوتا، تمام حرکت و سکون ربانی ہو جاتے ہیں اور ربانی اس کا سِر ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایک ایسی حالت پیش آتی ہے کہ اُس کے دل میں سِر پیدا ہو جاتا ہے، اس کو سِرِّ غیب کہتے ہیں، اس مقام پر پہنچ کر اللہ تعالیٰ کی جانب سے خطاب سنتا ہے

تشریح:

یعنی اس کو الہامات ہوتے ہیں۔

متن:

اور اُس سِر کا جواب کہتا ہے۔ اور جس وقت خطاب سن لیتا ہے تو وہ سر ہیبت سے مہر بلب اور خاموش ہو جاتا ہے،

تشریح:

جیسے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس کو معرفت نصیب ہو جائے، تو اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے۔

متن:

پس اُس کے تمام اعضاء و اندام سے ''هُوْ'' کا ذکر ہویدا ہو جاتا ہے۔ إِس مقام پر اگر کوئی "أَنَا الْحَقُّ"، "لَیْسَ فِيْ جَنْبِيْ سِوَی اللہِ وَمَا سِوَی اللہِ" یا "مَا أَعْظَمُ شَأْنِيْ" کہہ ڈالے تو بجا ہے۔ (کذا فی شمائل أتقیاء)

ہر اُس شخص کو جس کو ذکر اللہ اور ذکرِ ''هُوْ'' ہاتھ آ جائے اور یہ اذکار اُس کے دل و جان پر غلبہ پا لیں تو دونوں جہانوں کی عزت اور دولت جاوید اور سعادت دوامی اور اللہ تعالیٰ کی مجالست کا شرف اُس کو نصیب ہو جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "أَنَا جَلِیْسُ مَنْ ذَکَرَنِيْ" (سیر أعلام النبلاء، ابن سمعون، رقم الصفحۃ: 452/12، دار الحدیث، القاہرۃ) یعنی جو میرا ذکر کرتا ہے، میں اُس کا جلیس اور ہمنشین ہوں۔

سہروردی طریقہ کے مرشدوں اور مشائخ کی سند سے "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" کے کلمہ کا ذکر چار ضربوں سے (آج کل کوئی چار ضربوں سے ذکر کوئی نہیں کرتا) اس طریقہ پر ہے: پہلا یہ کہ نماز میں بیٹھنے کی طرح بیٹھ جائے (یعنی التحیات کی شکل میں) اور اپنی دونوں آنکھیں اپنے دونوں گھٹنوں کے اوپر جمائے رکھے اور دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں دونوں گھٹنوں تک پہنچ جائیں، پھر اُن کے منہ بند کر کے اپنا سر دونوں گھٹنوں کے درمیان تک لے جائے، اور وہاں سے "لَا إِلٰہَ" دل سے پوری قوت سے اور انتہائی زور سے ایک لمبے مَدّ (مدِّ دراز) کے ساتھ نکال کر آسمان کی جانب لے جائے یہاں تک کہ "إِلٰہَ" کی ''ھَا'' یہاں ختم ہو جائے، اور اس وقت منہ بھی آسمان کی جانب رکھے۔ اور اُس کے بعد "إِلَّا اللہُ" دائیں طرف سے شَدْ کے ساتھ کھینچتا ہوا لا کر دل پر مارے۔

تشریح:

شدّ کے ساتھ دل پر مارے۔ یہ میں نے شدّ نہیں ماری، کیونکہ میں نہیں مارتا، میں نے stimulate کی ہے۔ کیونکہ میں اس کا تحمل نہیں کر سکوں گا۔ اصل میں مجھے اس سے روکا گیا تھا۔

متن:

یہاں تک کہ "إِلَّا اللہُ" کی ''ھَا'' یہاں پر ختم ہو جائے۔ اور "لَا إِلٰہَ" کہتے وقت دل میں یہ مفہوم لائے کہ کوئی ''إِلٰہ'' جو میرے عقل فہم و اِدراک میں مشکل ہو سکے موجود نہیں۔ اور "إِلَّا اللہُ" کی ضرب کی حالت میں دل میں یہ لائے، مگر بجز اللہ تعالیٰ کے جو کہ معبود برحق ہے،

تشریح:

وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بدلتی جاتی ہیں۔ یہ بہت اچھے دور کی باتیں ہیں، لہٰذا وہ کر سکتے تھے۔ اب ہم نہیں کر سکتے، جیسے میں نہیں کر سکتا۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو کافی آسان کر دیا ہے۔ وہ اتنا زیادہ شد و مد نہیں کرتے تھے۔ ویسے تو اس کو بہت استعمال کرتے تھے، لیکن اتنی شد و مد نہیں کرتے تھے۔ تو وہ ایسے کرتے تھے کہ یہ دل ہے اور ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘ کا ذکر۔ جیسے حضرت نے فرمایا تھا۔ تو دو طریقے ہیں: ایک ہے ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘۔ یہ بھی تھوڑا سا ہلتا ہے، حضرت نے فرمایا: سر ہلانے کی بھی ضرورت نہیں۔ ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘۔ صرف اشارے کے ساتھ کریں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دل کے دونوں طرف ’’لَآ إِلٰہَ‘‘ کہ نہیں ہے۔ جیسے کوئی کہتا ہے: نہیں نہیں۔ ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘۔ یہ آسان طریقے ہیں، ان میں شد و مد نہیں ہے۔

حضرت نے ہمیں یہ طریقہ سکھایا تھا کہ ’’لَآ إِلٰہَ‘‘ کے ساتھ کہو کہ دنیا کی محبت دل سے نکل رہی ہے۔ ’’إِلَّا اللہُ‘‘ کے ساتھ اللہ کی محبت دل میں آ رہی ہے۔ یہی طریقہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، لیکن وہ فرماتے ہیں کہ دنیا کی محبت دل سے نکالے اور ’’إِلَّا اللہُ‘‘ کے ساتھ اللہ کی محبت دل میں آ رہی ہے۔

متن:

چاہئے کہ جیسا کہا گیا ہے، ویسا ہی ذکر کیا جائے۔

اور سلطان ابو سعید مخزومی کا "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ"

اعتداز:

فقیر مترجم کو اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کا کھلے دل سے اعتراف ہے۔ مزید براں کلمہ شریف کے ذکر کا طریقہ علم سے بڑھ کر عمل سے تعلق رکھتا ہے۔ جب تک مرشد اور شیخ اس کے طریقے کی علمی ہدایت نہ فرمائے، صرف باتوں اور لکھنے پڑھنے سے اس کا سمجھنا مشکل بلکہ قریبًا ناممکن ہے۔ اس لئے میرے ترجمے کے اندازِ بیان میں کمی اور کجی کو نظر انداز فرما کر قارئین سے استدعا ہے کہ کسی شیخ کا دامن ہدایت تھام کر طریقۂ ذکر سیکھا جائے۔

کا طریقۂ ذکر یہ ہے: "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" دائیں طرف سے زمین تک اپنا سر لے جائے اور ''ھَا'' کو توڑ کر زمین تک لے آئے اور پھر اوپر لے جا کر ضرب کرے۔ "إِلَّا اللہُ" کو دو دفعہ الف کی طرح سیدھا ہو کر انجام دے دے۔ خواہ یہ ذکر جلی کرے یا خفی، یہ طریقہ ذکر خفی اور جلی دونوں طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔

ایضًا ذکرِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ:

"لَا إِلٰہَ" دل میں کہے اور "إِلَّا اللہُ" دل میں کہہ کر دل پر ضرب کرے، یعنی "لَا إِلٰہَ" کی مد کو کوتاہ اور مختصر سانس اور آہستہ سے چار انگشت کے مقدار سے کہہ کر "إِلَّا اللہُ" کہتے ہوئے زور سے سانس کو اندر بارہ انگشت (اُنگلیوں) کے برابر زور سے لے جائے یہاں تک کہ سانس دل پر ضرب کرے اور دل میں تھوڑی دیر روکے رکھے، اور یہ دل کی روشنی اور عمر زیادہ کرتا ہے اور اس ذکر میں بہت زیادہ اثر ہے، اور یہ طریقہ ذکر ہر حال میں حاصل ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ کلام میں، خواب میں، طعام، قیام، قعود، سجود، رات، دن، خلوت اور جلوت وغیرہ میں یہ ذکر کیا جا سکتا ہے۔ اور اس ذکر میں فتح اور غیبی فتوحات ہوتے ہیں اور جو کچھ ہو سکتا ہے ہو جاتا ہے۔

لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کے کلمہ کا دو حلقی ذکر اس طریقے پر ہوتا ہے:

یعنی "لَا" کا کلمہ مدِ دراز یعنی لمبے طور پر کھینچتے ہوئے ناف سے یا دل سے بلند آواز سے کھینچے اور دائیں ہاتھ کی جانب لے جائے، یعنی حلقہ کی طرح بنائے اور "لَا إِلٰہَ" کے کلمے کو بائیں طرف لے آئے،

تشریح:

یعنی ’’لَا‘‘ کا کلمہ مدِّ دراز کے ساتھ ہے: ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘۔ اس کے بعد ’’إِلَّا اللہُ‘‘ کے کلمے پر بھی وقف کرے۔ جیسے ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘۔ جیسے ہم کرتے ہیں، جو حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ والا دوسرا طریقہ ہے۔ ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘۔ لیکن حضرت ذرا جلدی جلدی کرواتے تھے۔ ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘۔ اس میں مد نہیں ہے۔ دل پر ضرب کی شد تو ہے، لیکن مد نہیں ہے۔

اس سے اگلا مقالہ سماع اور رقص کے ذکر میں ہے۔ اصل میں الفاظ کچھ مشہور ہوتے ہیں اور ان کی حقیقت کچھ اور ہوتی ہے، اس لئے مسئلہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً: سماع کا جو مفہوم بزرگوں کے ہاں ہے، وہ اور ہے۔ اور سماع کا جو مفہوم عوام میں ہے، وہ اور ہے۔ اب لوگ سماع کا لفظ استعمال کر کے حوالہ بزرگوں کا دیتے ہیں کہ وہ بھی سماع سنتے تھے۔ اور کرتے اپنی مرضی ہیں۔ جیسے ہمارے competition کا کورس ہوا تھا، تو میں نے کہا کہ Define your terminology before entering یعنی کمرے میں داخل ہونے سے پہلے اپنی terminology define کر لو کہ میرا کس چیز سے کیا واسطہ ہو گا۔ کیونکہ جو آدمی آپ کو کچھ کہہ رہا ہے، پتا نہیں کہ اس کا اس سے کیا مطلب ہے۔ ہر ایک کا مطلب مختلف ہو سکتا ہے۔ اسی طرح سماع اور رقص کے الفاظ کسی معنیٰ میں عوام میں بھی مشہور ہیں اور بزرگوں میں بھی مشہور ہیں۔ لیکن بزرگوں کے ہاں اس کا کیا مطلب ہے اور عوام کے ہاں کیا مطلب ہے۔ اس بیان میں ان شاء اللہ اس کے بارے میں کچھ پتا چلے گا۔

متن:

رسالہ بوارق میں ذکر کیا گیا ہے کہ سماع کی اقسام ہیں: ایک حاجیوں کا سماع ہے کہ کعبہ شریف اور زمزم شریف کی صفت میں اور لوگوں کے ساتھ شوق میں بیت اللہ مبارک کی جانب ہو، یہ مباح ہے اور اس پر اتفاق ہے، پس جو سماع کعبہ مبارک اور بیت اللہ مبارک کے رب کے بارے میں ہو، اندازہ کرو کہ اُس کا کیا حال ہوگا۔ دوسرا نمازیوں اور مجاہدین کا سماع ہے، جو غزا اور جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں ہو، یہ بھی مباح اور مستحب ہے۔ تیسرا مجرد سماع ہے جو کہ طاعت و عبادت اور معاصی سے احتراز کی خاطر کیا جائے اور تھکاوٹ کو عبادت کی خاطر سے دور کر لے، یہ بھی محمود یعنی قابل تعریف اور مستحب ہے۔ چوتھا سماع طرب انگیز اور خوشی پیدا کرنے والا سماع ہے، جیسا کہ عیدین، شادی اور کسی کے سفر سے آمد یا ولادت وغیرہ پر ہوتا ہے، یہ بھی مباح ہے۔ فوائد الفواد سے نقل کیا گیا ہے کہ کل قیامت کے دن آدمی کو حکم دیا جائے گا کہ دنیا میں سماع کو سن چکے ہو؟ بندہ کہے گا کہ بار الٰہی! ہاں سنا تھا۔ حکم ہوگا کہ تم نے جو بیت اور شعر سن لیا تھا، اُس کو میرے اوصاف پر محمول کیا ہے۔ فرمان ہوگا کہ تیرا وہ خیال کرنا حادث تھا، اور میرے اوصاف قدیم ہیں۔

رسالہ بوارق میں ذکر کیا گیا ہے کہ سماع کی اقسام ہیں: ایک حاجیوں کا سماع ہے کہ کعبہ شریف اور زمزم شریف کی صفت میں اور لوگوں کے ساتھ شوق میں بیت اللہ مبارک کی جانب ہو، یہ مباح ہے اور اس پر اتفاق ہے، پس جو سماع کعبہ مبارک اور بیت اللہ مبارک کے رب کے بارے میں ہو، اندازہ کرو کہ اُس کا کیا حال ہوگا۔ دوسرا نمازیوں اور مجاہدین کا سماع ہے، جو غزا اور جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں ہو، یہ بھی مباح اور مستحب ہے۔ تیسرا مجرد سماع ہے جو کہ طاعت و عبادت اور معاصی سے احتراز کی خاطر کیا جائے اور تھکاوٹ کو عبادت کی خاطر سے دور کر لے، یہ بھی محمود یعنی قابل تعریف اور مستحب ہے۔ چوتھا سماع طرب انگیز اور خوشی پیدا کرنے والا سماع ہے، جیسا کہ عیدین، شادی اور کسی کے سفر سے آمد یا ولادت وغیرہ پر ہوتا ہے، یہ بھی مباح ہے۔ فوائد الفواد سے نقل کیا گیا ہے کہ کل قیامت کے دن آدمی کو حکم دیا جائے گا کہ دنیا میں سماع کو سن چکے ہو؟ بندہ کہے گا کہ بار الٰہی! ہاں سنا تھا۔ حکم ہوگا کہ تم نے جو بیت اور شعر سن لیا تھا، اُس کو میرے اوصاف پر محمول کیا ہے۔ فرمان ہوگا کہ تیرا وہ خیال کرنا حادث تھا، اور میرے اوصاف قدیم ہیں۔

1؎ سماع سرور

حادث کو کس طرح قدیم پر حمل کرنا جائز ہوگا؟ وہ بندہ کہے گا: الٰہی! میں نے محبت کی زیادتی اور غلبہ کی وجہ سے ایسا حمل کیا اور ایسا خیال کر لیا فرمان آئے گا: "جب تم نے میری محبت کی وجہ سے ایسا کر لیا تو میں نے بھی تم پر رحم کیا۔"

تشریح:

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بہت اہم بات لکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کو بہت اجر دے۔ جی چاہتا ہے میں اس کو سونے کے پانی سے لکھ کر خانقاہ میں لٹکا دوں۔ حضرت نے فرمایا کہ جس طرح فقہا میں فقہی گنجائشیں ہیں، اس طرح معرفت کی باتیں بیان کرنے میں بھی گنجائش ہے۔ چنانچہ یہ وہ گنجائش ہے، جو یہاں ہے۔ کیونکہ یہ معرفت ہے۔ جیسے آپ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کوئی بات کہہ رہے ہیں، تو اللہ پاک فرمائے گا کہ میں قدیم ہوں، میرے اوصاف قدیم ہیں اور تو نے جو کہا ہے، وہ حادث ہے۔ حادث کیسے قدیم کو بیان کر سکتا ہے۔ آپ کہیں گے: یا اللہ! میں نے محبت کی وجہ سے اس طرح کیا ہے۔ اللہ پاک کہیں گے کہ ٹھیک ہے، میں نے تجھ پر رحم کیا۔

متن:

(از مترجم) بیت:

؎ فرشتو رحمت حق کو گناہ میرے بتا دینا

مگر یہ بھی بتا دینا یہ باتیں ہیں جوانی کی

نہایہ (ایک کتاب کا نام ہے) میں ہے کہ "اَلتَّغَنِّيْ وَالْغِنَاءُ بِالتَّصْفِیْقِ وَالْبُطُوْرِ وَالْبَرْبَطِ وَمَا یُشْبِہُ ذَالِکَ حَرَامٌ وَّ مَعْصِیَۃٌ" یعنی تالی بجانے، ستار بجانے، سارنگی، رباب اور ڈھول بجانے اور اس طرح کی جو چیزیں اس سے ملتی جلتی ہوں؛ یہ سب حرام اور گناہ کا کام ہے۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول دلیل ہے: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّخِذَهَا هُزُوًاؕ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ﴾ (لقمان: 6)

تشریح:

جب کہ آج کل کا سماع اس چیز سے خالی نہیں ہے، آج کل کے سماع میں یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ حضرت نے یہاں فوائدُ الفواد کا حوالہ دیا ہے۔ یہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ہیں۔ حضرت نے اس میں فرمایا ہے کہ سماع کی چار شرطیں ہیں، ان چار شرطوں کے ساتھ مباح ہے، ورنہ حرام ہے۔ وہ چار شرطیں یہ ہیں: اول: کلام عارفانہ ہو۔ اس پر تو لوگ بھی عمل کر لیتے ہیں، کلام عارفانہ لیتے ہیں، کبھی بابا بلھے شاہ کا لیتے ہیں، کبھی امیر خسرو کا لیتے ہیں، کبھی کسی اور بزرگ کا لیتے ہیں۔ دوم: سنانے والا قوال عارف ہو۔ آج کل عزیز میاں یا نصرت فتح علی خان قوال ہیں، کیا یہ عارفین تھے۔ سوم: سننے والے بھی عارفین ہوں اور ان میں کوئی عورت نہ ہو اور بچہ نہ ہو۔ جیسے فرمایا: کودک نباشد۔ کہ بچہ نہ ہو۔ چہارم: چنگ و رباب درمیان نباشد، یعنی اس میں Musical instruments نہ ہوں۔ تو یہ چار شرطیں کہاں پوری ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مواعظ میں فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پہ گیا، تو وہاں قوال میرے ارد گرد جمع ہو گئے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ قوالی سنیں۔ اب بھی ملتان میں حضرت بابا زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ رکنِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر جائیں، تو قوال ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں کہ قوالی سنیں۔ بلکہ ایک دفعہ میں اندر جا رہا تھا، تو اندر تو میں آنکھیں نیچی کر کے چلا گیا۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ میں آنکھیں نیچی کر کے چلا جاتا ہوں کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ جب میں باہر آیا، تو وہ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نام لے لے کر قوالی کر رہے تھے۔ میں نے کہا: یہ ان کو کیسے پتا ہے، ضرور ان کو کسی نے میرے بارے میں بتایا ہو گا، ورنہ ان کو کیا پتا کہ میں مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق ہوں۔ وہ سلیمانی لقب کے ساتھ فی البدیع قسم کی اشعار پڑھ رہے تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ ان کو کس نے بتایا ہے؟ پتا چلا کہ انہوں نے نعیم رسول صاحب سے پوچھا تھا، انہوں نے بتایا تھا۔ خیر! میں تو آنکھیں نیچی کر کے ڈیٹھ بن کر باہر آ گیا اور بچ گیا۔ ہمارے یوسف کاکا خیل صاحب بھی گئے تھے، ان کے ساتھ بھی ایسا کیا۔ وہ ہوشیار آدمی تھے، انہوں نے کہا: میں قوالی سنتا ہوں، لیکن فارسی میں ہو، میں اردو کی قوالی نہیں سنتا۔ فارسی میں قوالی کہہ سکتے ہو، تو کہو۔ ان کو فارسی کی قوالی نہیں آتی ہو گی، وہ یوں بچ گئے۔ اسی طرح حضرت کے ساتھ بھی کیا، حضرت نے فرمایا: میں آپ کے ساتھ بیٹھ جاتا، لیکن حضرت ناراض ہو جائیں گے۔ کہنے لگے: حضرت کیسے ناراض ہوں گے؟ حضرت تو قوالی سنتے تھے۔ فرمایا: حضرت قوالی سنتے تھے، لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں۔ میں حضرت کی کتاب سے شرائط بیان کرتا ہوں، اگر آپ لوگ ان شرائط پر قوالی کر سکو، تو ٹھیک ہے۔ حضرت نے شرائط بتا دیں۔ اور پوچھا: کیا آپ میں یہ شرطیں ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ فرمایا: پھر میں آپ کی قوالی کیسے سنوں۔ بہر حال! لوگ نام بزرگوں کا لیتے ہیں اور کرتے اپنی مرضی ہیں۔

متن:

احیاء العلوم میں ہے کہ "اَلسَّمَاعُ قَدْ یَکُوْنُ حَرَامًا مَّحْضًا وَّ قَدْ یَکَوْنُ مُسْتَحَبًّا وَّ قَدْ یَکَوْنُ مَکْرُوْھًا" یعنی کبھی تو سرود مطلق حرام ہوتا ہے، کبھی مستحب اور کبھی مکروہ ہوتا ہے۔ "أَمَّا الْحَرَامُ فَھُوَ لِأَکْثَرِ النَّاسِ مِنَ الشَّبَابِ وَمِمَّنْ غَلَبَتْ عَلَیْھِمُ الشَّھْوَۃُ فَلَا یُحَرِّکُ السَّمَاعُ مِنْھُمْ إِلَّا مَا ھُوَ الْغَالِبُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مِّنَ الصِّفَاتِ الْمَذْمُوْمَۃِ وَأَمَّا الْمَکْرُوْہُ فَھُوَ لِمَنْ لَّا یَنْزِلُ عَلٰی صُوْرَۃِ الْمَخْلُوْقِیْنَ وَلٰکِنَّہٗ یَتَّخِذُہٗ عَادَۃً لَّہٗ فِيْ أَکْثَرِ الْأَوْقَاتِ عَلٰی سَبِیْلِ اللَّھْوِ وَأَمَّا الْمُبَاحُ فَھُوَ لِمَنْ لَّا حَظَّ لَہٗ مِنْہُ إِلَّا التَّلَذُّذَ بِالصَّوْتِ وَأَمَّا الْمَنْدُوْبُ فَھُوَ لِمَنْ غَلَبَ عَلَیْہِ حُبُّ اللہِ تَعَالٰی وَلَا یُحَرِّکُ السَّمَاعُ مِنْہُ إِلَّا الصِّفَاتِ الْمَحْمُوْدَۃَ" (إحیاء العلوم، کتاب آداب السماع و الوجد، رقم الصفحۃ: 306/2، دار المعرفۃ، بیروت) ”اور جو حرام ہے، وہ ان لوگوں کے لئے ہے جو اپنی جوانی کے لئے سنتے ہیں، یا ایسے لوگ ہوتے ہیں جن پر شہوت کا غلبہ ہوتا ہے تو سرود اُن کو بری صفات کے لئے اُن کے دل کو حرکت دیتا ہے۔ اور جو مکروہ ہے وہ وہی سرود ہے جو شہوت کی وجہ سے نہیں سنتے مگر اپنی بے ہودہ عادت کی وجہ سے سنا کرتے ہیں۔ اور مباح وہ ہے جس سے وہ مزہ تو نہیں لیتے، مگر صرف سرود کی آواز سے مزہ لیتے ہیں۔ اور مندوب سرود ان کے لئے ہے جن پر اللہ تعالیٰ کے محبت کا غلبہ ہوا ہو، اور سرود اُن میں نیک صفت کے علاوہ کوئی دوسری چیز پیدا نہیں کرتا“۔ "قَالَ الشَّیْخُ أَبُوْ طَالِبٍ الْمَکِّيُّ: سَمِعْتُ الصَّحَابَۃَ عَبْدَ اللہِ بْنَ جَعْفَرَ وَمُعَاوِیَۃَ وَغَیْرَھُمَا: "مَنْ أَنْکَرَ السَّمَاعَ مُجْمَلاً فَقَدْ أَنْکَرَ سَبْعِیْنَ صِدِّیْقًا" ”شیخ ابو طالب مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن جعفر اور معاویہ اور دیگر اصحاب سے سنا ہے کہ جس نے سرود سے انکار کیا تو اُس نے ستر صدیقوں سے انکار کیا“۔

فتاویٰ عالیہ میں اس قول کے جواب میں آیا ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت ایک مجلس میں جمع ہو گئے اور اُن میں سے ایک مولانا روم صاحب کی مثنوی یا شیخ عطار رحمۃ اللہ علیہ کا دیوان پڑھتا ہو اور ان اہل مجلس میں سے کسی کو سرور آیا اور اپنے آپ کو زمین پر مارتا ہے، اور پاؤں زمین پر مار کر لوٹتا پوٹتا ہے تو شریعت میں یہ فعل حرام ہے یا کہ نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حرام نہیں ہے۔

اور اس میں آئمہ کرام کیا کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت صبح کی نماز کے بعد ان کلمات کو زبان سے ادا کرتے ہیں کہ "سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ" اور اس کو ورد یعنی وظیفہ بنا کر بلند آواز سے جہر کے طریقے پر کہتے چلیں تو یہ ورد شرعًا اسی وجہ سے ان پر جائز ہوگا یا کہ نہیں؟ جواب یہ ہے کہ جائز ہوگا۔ کتبہٗ مظفر

اور مسلمانوں کی ایک جماعت جمع ہو کر جہری طریقے پر ذکر کرنے لگے اور بعض لوگوں کی بغیر اختیار اور توقف کے چیخ نکل گئی یا اُن پر وجد طاری ہو گیا اور اُن کے تمام اعضاء مضطرب ہو کر پھڑکنے لگے تو شریعت میں کیا ان کی یہ چیخ اور وجد جو کہ بے اختیار ذکر کرنے کے وقت ان سے صادر ہوا ہے جائز ہے یا کہ نہیں؟ جواب یہ ہے کہ حرام نہیں ہے۔ اس کو علی العمادی اور علی بن محمد المدعو بہ سیف النسفی و احمد بن علم الشاہ البرہانی نے لکھا ہے۔

فائدہ:

شیخ الشیوخ نے فرمایا ہے کہ سماع کے منکرین کی تین حالتیں ہیں: یا تو رسول اللہ ﷺ کی سنت سے جاہل ہیں یا اپنے علم پر غرور کرتے ہوں گے یا افسردہ طبع ہوں گے۔ بعض سماع سننے والے صاحبِ مطرب اور گویئے کی آواز سے لاکھوں رموز جو کہ پوشیدہ اسرار ہوتے ہیں، سمجھ پاتے ہیں۔ اور بعض لوگوں نے جو کہا ہے کہ سماع حرام ہے تو اس حرمت سے مراد عظمت ہے۔ چنانچہ کعبہ کو بیت الحرام کہتے ہیں، جس کا مفہوم ہے حُرمت اور عظمت کا گھر۔ (کذا فی شمائل اتقیاء)

دیگر:

ایک محقق نے فرمایا ہے کہ انسان کے ہر عضو کے لئے سماع سے ایک نصیب اور حظ ہوتا ہے۔ آنکھ اور زبان کا نصیب اور حصہ جوش و خروش ہے، ہاتھ کا نصیب گھڑے، دف وغیرہ کو مارنا اور پاؤں کا نصیب رقص کرنا ہے۔ (کذا فی شمائل اتقیاء)

سید جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ "إِنَّ الْحَبَشَۃَ کَانُوْا یَنْدِفُوْنَ بَیْنَ یَدَيْ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ وَیَتَرَقَّصُوْنَ وَالنَّبِيُّ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ رَجَلٌ صَالِحٌ وَّنَبِيٌّ مُّرْسَلٌ" یعنی حبش لوگوں کی جماعت رسول اللہ ﷺ کے سامنے بازی کرتے تھے، اور کھیلتے اور ناچتے تھے۔ اور حال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرد صالح اور رسول خدا تھے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ "أَنَّہٗ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ لِعَائِشَۃَ رَضِيَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھَا: "أَتُحِبِّیْنَ أَنْ تَنْظُرِيْ إِلَيْهِمْ؟" (السنن الكبرٰى للنسائي، کتاب عشرۃ النساء، باب: إباحۃ الرجل لزوجتہ النظر إلی اللعب، رقم الحدیث: 8902) ”رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فرمایا کہ کیا تم چاہتی ہو کہ حبشیوں کو (کھیلتے ہوئے) دیکھ لو؟“ اور کیمائے سعادت میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھ کی آڑ بنا کر عائشہ رضی اللہ عنہا کو دکھایا۔ اگر کوئی کہہ ڈالے کہ حبشیوں کا یہ رقص نص کے خلاف ہے، فرمایا گیا ہے: ﴿أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (المؤمنون: 115) ”کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے تم کو عبث اور بے فائدہ پیدا کر لیا ہے؟ اور کیا تم ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آؤ گے؟“ تو ہم یہ جواب دیتے ہیں کہ رقص عبث نہیں بلکہ ایک حرکت ہے جو کہ مسرت اور شادی کے وقت مباح ہے، تحریک اور خوشی میں رقص کرنا مباح ہے، پس یہ عبث نہیں۔ اور بعض احادیث جو کہ اس کی ضد میں ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ احادیث ضد نہیں ہیں، بلکہ وہ نسخ ہوئی ہیں۔ اور اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے بعد اصحاب کرام اور اولیائے عظام نے سماع سُن لیا ہے۔ (کذا نقل من شمائل اتقیاء)

غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے رسالے سے نقل ہے کہ "اَلْأَرْوَاحُ کُلُّهَا یَتَرَقَّصْنَ فِيْ قَوَالِبِھَا بَعْدَ قَوْلِہٖ: أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ" یعنی اللہ تعالیٰ نے ارواح سے جب سے یہ پوچھا کہ "أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ" تو تب سے تمام روحیں اپنے اپنے قالبوں میں رقص کرتی ہیں اور ایک حدیث میں یہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے آگے یہ شعر پڑھا گیا۔

؎ قَدْ لَسَعَتْ حَیَّۃُ الْهَوٰی کَبِدِيْ

فَلَا طَبِیْبَ لَهَا وَ لَا رَاقٖ

إِلَّا الْحَبِیْبُ الَّذِيْ شَفَقَتْ بِہٖ قَلْبِيْ

فَعِنْدَہٗ رُقِیَتِيْ وَ تِرْیَاقِيْ

”محبت کے سانپ نے میرے جگر کو ڈس لیا، پس اس کا نہ کوئی طبیب ہے اور نہ افسوں و منتر۔ سوائے اُس شخص کے جس پر میرا دل ریجھ گیا ہے، پس اُس کے پاس میرا دم اور تریاق ہے“۔

تو رسول اللہ ﷺ نے وجد کیا اور اصحاب نے بھی ویسا ہی وجد کیا، یہاں تک کہ آپ کے کندھے مبارک سے چادر گر پڑی، اور اُس چادر کو اصحاب کے حوالے کیا، انہوں نے اُس چادر کو چار سو ٹکڑے کر کے آپس میں بانٹ لیا، اس کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ آپ نے کیا اچھا کام کیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ "لَیْسَ بِکَرِیْمٍ مَّنْ لَّمْ یَتَهَزَّ عِنْدَ سَمَاعِ ذِکْرَ الْحَبِیْبِ" ”اے معاویہ! وہ شخص کریم نہیں جو دوست کا ذکر سننے کے وقت خوش نہ ہو“ اور یہ حدیث صحیحین میں ہے۔ اور یہ وہ وقت تھا جب جبرئیل علیہ السلام تشریف لے آئے اور خوشخبری سنائی کہ اے رسول اللہ ﷺ! آپ کی اُمت کے درویش، اغنیاء اور دولت مندوں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ پس رسول اللہ ﷺ اس بات سے خوش ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو شعر کہے اور یہ شعر کہا گیا جو ذکر ہوا۔ (اتحاف السادۃ المتقین بشرح إحیاء علوم الدین، کتاب آداب السماع و الوجد، الباب الثانی، رقم الصفحۃ: 774/7، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

تشریح:

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عجیب بات کہی ہے۔ حضرت کے مواعظ کیمیا ہیں۔ اگر کوئی باقاعدہ پڑھے، تو حضرت کی عجیب باتیں ملتی ہیں۔ لیکن منتشر ہیں، پتا نہیں، کون سی بات کہاں پر آ رہی ہے۔ یہ بات میں نے خود الحمد للہ حضرت کے مواعظ میں پڑھی ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ چشتی سلسلہ کے بارے میں اور حنفی فقہ کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سنت سے دور ہیں، حالانکہ یہ دونوں اقرب الی السنۃ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی باتیں جو آپ ﷺ سے ثابت ہیں، لیکن ان کی سمجھ کے لئے فہم چاہئے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا فہم تو مشہور تھا کہ انہوں نے کون کون سی بات کہاں کہاں سے نکالی ہے۔ لہٰذا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بعض مخالفین کہتے تھے کہ حضرت نے جو باتیں اپنی فہم سے نکالی ہیں، ہمارا فہم ان تک نہیں پہنچ سکتا، ہم ان کو کیسے مانیں۔ یہ انہوں نے کھل کے کہا ہے کہ اس لئے نہیں مان رہے کہ ہمارا فہم ان تک نہیں پہنچتا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ باتیں موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح ہمارے چشتی حضرات کا معاملہ ہے۔ جیسے یہاں صحیحین کی حدیث مراد لے رہے ہیں۔ اس سے پوری base بن ہی ہے۔ کیونکہ سنت میں اجمال ہوتا ہے، تفصیل نہیں ہوتی، ورنہ آپ کی بہت ساری باتیں رہ جائیں گی۔ تو سنت میں اجمال ہوتا ہے، اس سے پھر فقہا تفصیل نکالتے ہیں۔ در اصل بعض باتیں سدِّ باب کے طور پہ روکی جاتی ہیں، کیونکہ عوام ان کو جانتے نہیں ہیں۔ جیسے: سماع کا معاملہ ہے۔ کیونکہ جو کچھ سماع کے ساتھ ہوا ہے، اگر یہی کچھ رقص کے بارے میں ہو جائے، تو سارے لوگ ناچنے لگیں گے۔ اس لئے یہ باتیں احتیاط کے ساتھ کرنی ہوتی ہیں۔ ورنہ جو اس کے اہل ہیں، وہ کر سکتے ہیں۔ جیسے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کا عمل تھا۔ ان کا مشہور واقعہ ہے کہ ان کا ایک دوست زر کوب تھا، وہ سونے کی پتری بنا رہا تھا۔ سونے کی پتری بناتے ہوئے جو چوٹ لگتی تھی، اس کی آواز سے حضرت کو وجد آ گیا۔ زر کوب جانتا تھا کہ اگر میں نے اس کو روک دیا، تو حضرت کو قبض لاحق ہو جائے گا، اس لئے وہ مسلسل مار رہا تھا، سونے کی بیخ نکل گئی، ختم ہو گیا، لیکن وہ مارتا رہا۔ کیونکہ دوستی تھی۔ بس یہ ان کا حال تھا۔ لیکن اگر کوئی اس کو اپنے طور پر کرے گا، تو وہ غلط ہو گا، کیونکہ اس سے نقصان ہو جائے گا۔

میں نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں پڑھا ہے کہ ایک بہت بڑے عالم تھے، ان کا ایک شاگرد ایک مشہور بزرگ سے بیعت تھا۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ تم کس سے بیعت ہو؟ اس نے کہا: فلاں سے۔ وہ کہنے لگے کہ اچھا، وہ جو رقص کرتے ہیں؟ اس نے جا کے اپنے شیخ سے بات کر دی کہ میرے استاد جی کہتے ہیں کہ وہ جو رقص کرتے ہیں۔ فرمایا: ان کو کہو کہ وہ صرف ناچتے نہیں، بلکہ نچاتے بھی ہیں۔ وہ بھی کوئی سادہ تھا۔ اس نے جا کر استاد کو کہہ دیا کہ میرے شیخ کہتے ہیں کہ صرف ناچتے نہیں، بلکہ نچاتے بھی ہیں۔ یہ سننا تھا کہ استاد نے بھی رقص کرنا شروع کر دیا اور ناچتے ناچتے ان کے پاس گئے اور ان سے بیعت ہو گئے۔ اس لئے میں کہوں گا کہ ان کو احتیاط سے بتانا ہوتا ہے۔ اس لئے چشتی حضرات بڑے صاحبِ ذوق ہوتے ہیں، یہ عوام میں اس طرح نہیں کرتے۔ لیکن جو اہل ہوتے ہیں، ان کو پھر روکتے بھی نہیں ہیں۔ یہ حالت قادریہ کی بھی ہے۔ قادری حضرات بھی کرتے ہیں۔ میرے خیال میں سہروردیوں کے ہاں بھی ہے۔ کیونکہ سہروردی حضرات میں بابا زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ واقعہ میں نے پڑھا ہے کہ حضرت کی خانقاہ میں کوئی خاص سماع کا ماحول تھا۔ حضرت مراقبہ میں تھے، حضرت کو پتا ہی نہیں چلا۔ صبح کسی نے ان سے کہا کہ حضرت! آج دوستوں نے محفلِ سماع قائم کی تھی، تو اس کے بعد میٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لئے انتظام کرنا ہے۔ حضرت نے کہا: اچھا! مجھے تو پتا بھی نہیں چلا۔ گویا اپنے حال میں تھے۔ چنانچہ ہمارے حضرات کے ہاں یہ باتیں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن آج کل کے جو غالی لوگ ہیں، جو دنیا پرست لوگ ہیں، وہ ان روایات کو لے کر اپنے کاموں پہ منطبق کرتے ہیں کہ ہم بھی اسی طرح کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ حضرات جس نیت کے ساتھ کرتے تھے، جس کیفیت کے ساتھ کرتے تھے، جس حالت میں کرتے تھے، نہ وہ حالت اِن کو حاصل ہوتی ہے، نہ ان کی یہ کیفیت ہوتی ہے۔ لہٰذا سراپا گناہ کی محفلیں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ اس لئے اصلاح کا عمل ہر جگہ جاری ہونا چاہئے۔ لہٰذا چشتی حضرات ہیں یا سہروردی حضرات ہیں یا قادری حضرات ہیں، ان کے ہاں اگر یہ چیزیں اس نام سے ہو رہی ہوں اور غلط ہو رہی ہوں، تو ان کی اپنی اصلاح بھی ضروری ہے۔ دوسری طرف نقشبندی حضرات میں جو بعض دفعہ غلو کے نتیجے میں ذکر بالجہر سے انکار اور اس کے خلاف باتیں ہوتی ہیں، ان کی بھی اصلاح ضروری ہے۔ صرف ایک طریقہ کار کو سمجھانا اور بتانا یہ الگ بات ہے، لیکن اس کی مخالفت میں آنا غلط بات ہے۔ مخالفت نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ ہمارے اکابر نے ذکر بالجہر کیا ہے۔ یہاں پنڈی میں ایک مفتی صاحب نے اس پہ کتاب لکھی، جب حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کو پتا چلا، تو فرمایا: ہمارے اکابر نے ذکر بالجہر کیا ہے، ہم اس کو غلط نہیں کہتے۔ حالانکہ وہ اپنے آپ کو مفتی تقی عثمانی صاحب کا مرید بتاتے ہیں، لیکن اس مسئلہ میں بڑے متشدد ہیں۔ یہاں تک تشدد کیا کہ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ حضرت حاجی فاروق سکھروی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمارے گھر تشریف لائے تھے، مجھے تو علم بھی نہیں تھا کہ حضرت اجتماعی ذکر کراتے ہیں۔ ہمارے گھر میں تشریف لائے اور میں نے کسی کو دعوت بھی نہیں دی۔ میں نے سوچا کہ دعوت دوں گا، تو چونکہ جگہ چھوٹی ہے، یہ تنگ ہو جائے گی، اس لئے ممکن نہیں ہو سکے گا۔ کیونکہ ہمارا گھر بہت چھوٹا سا ہے۔ حضرت کے ساتھ بھی چودہ پندرہ حضرات تھے۔ تو باقی کہاں پورے آتے۔ لہٰذا میں نے کسی کو دعوت نہیں دی۔ بس جن کو اللہ تعالیٰ نے پہنچا دیا، وہ پہنچ گئے۔ بہر حال! وہاں تشریف فرما تھے، حضرت نواب قصیر صاحب بھی تھے۔ حضرت نے بیان فرمایا۔ میں نے حضرت کے لئے ایف ایم کا انتظام کیا ہوا تھا کہ خواتین بھی سن لیں۔ ایف ایم کا مائیک میں نے ریکارڈنگ پہ لگا دیا اور اپنا ٹیپ ریکارڈر جس پہ ایف ایم تھا، وہ میں نے گھر والوں کے سامنے رکھ دیا، تاکہ وہ سنیں۔ حضرت نے جو بیان کیا، وہ ہم نے بھی ریکارڈ کر لیا۔ یہ تو سوچا بھی نہیں تھا کہ حضرت اجتماعی ذکر کراتے ہیں۔ اچانک حضرت نے فرمایا: ذکر کراتے ہیں۔ اور پوری بارہ تسبیح کا ذکر کرا دیا۔ خدا کی شان! اس وقت میری بہن کے دل میں یہ بات آ گئی کہ کیوں نہ اس میں کیسٹ ڈال دی جائے کہ ریکارڈ ہو جائے۔ اس لئے اندر ٹیپ ریکارڈر پہ ریکارڈ ہو رہا تھا، اور بہترین ریکارڈ ہوا۔ حالانکہ ایف ایم میں شور ہوتا ہے۔ اتنا بہترین ریکارڈ ہوا کہ ہم سمجھتے ہیں، جیسے کسی سٹوڈیو میں ریکارڈ ہوا ہو۔ یہ بات لوگوں کو بھی پتا چل گئی، کیونکہ وہ ریکارڈنگ ان تک پہنچ گئی تھی۔ لہٰذا انہوں نے اس کے بارے میں کتاب میں لکھا کہ شبیر صاحب نے چونکہ حضرت سے درخواست کی تھی کہ میرے گھر میں آپ ذکر کرائیں، اس لئے انہوں نے ذکر کرایا۔ حالانکہ یہ کہنے والے خود اس مجلس میں موجود نہیں تھے اور جو موجود تھے، ان سے پوچھا بھی نہیں اور اپنی طرف سے کہانی گھڑ لی۔ میری جب ان سے ملاقات ہوئی، تو میں نے ان سے کہا: حضرت! میں تو زندہ ہوں اور آپ کا دوست ہوں، آپ سے اتنا بھی نہیں ہو سکا کہ مجھ سے پوچھ لیتے کہ کیا واقعہ ہوا تھا۔ میرا اتنا حق تو تھا کہ آپ مجھ سے پوچھتے، کیونکہ میرا نام جو استعمال کر رہے ہیں۔ کہنے لگے: نہیں! آپ تو ٹھیک کرتے ہیں۔ میں نے کہا: میں ٹھیک کرتا ہوں یا غلط کرتا ہوں، وہ اور بات ہے۔ آپ نے میرے حوالے سے غلط بات لکھی ہے۔ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ اس کی تردید کرو کہ میں نے غلط لکھا ہے۔ پھر آپ کی دیانت داری صحیح ہو گی۔ اگر آپ تردید نہیں کرتے، تو یہ بد دیانتی ہے۔ کیونکہ مجھے تو پتا بھی نہیں تھا کہ حضرت ذکر کراتے ہیں۔ وہ تو اچانک ہی ہوا۔ غالباً پہلے کسی جگہ انہوں نے اس طرح نہیں کیا تھا۔ اسلام آباد میں بھی کسی جگہ نہیں کیا۔ بس وہ پہلی دفعہ ہی ہمارے ہاں ہوا۔ شاید اس کے بعد بھی نہیں ہوا۔ کیونکہ اس کے بعد حضرت فوت ہو گئے تھے۔ بلکہ حضرت نے مجھے اس کی اجازت بھی دی تھی۔ جب کراچی میں حضرت سے میری ملاقات ہوئی، وہ آخری ملاقات تھی۔ تو حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ شبیر شاہ صاحب! ذکر کراتے رہیں، اس بہانے ہم بھی ذکر کر لیتے ہیں۔ گویا کم از کم ذکر کرانے کی حد تک یہ حضرت کی اجازت تھی۔ لہٰذا میں جب ذکر کراتا ہوں، تو ان کی اجازت کی نیت بھی کر لیتا ہوں، تاکہ ان کو بھی ثواب ملے۔

حضرت مولانا احمد لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کتنے بڑے بزرگ تھے۔ انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ مجھ سے اگر اللہ پاک پوچھے کہ میرے لئے دنیا سے کیا لائے ہو؟ تو میں عرض کروں گا: یا اللہ! میں نے ذکر کی کچھ مجلسیں قائم کی تھیں۔ تو جس کو حضرت اللہ کے سامنے اپنی زندگی کے نچوڑ کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں، اس کو ہم نا جائز کہیں، تو کتنی زیادتی ہے۔ اور حضرت کو بزرگ بھی مانتے ہوں، تو یہ کیسی بات ہے۔ ہاں! سدِّ باب کے طور پہ کہہ دیں کہ اس کی حدود و قیود ہیں۔ وہ تو ہم بھی کہتے ہیں۔ اور یہ بتانا چاہئے کہ اس پر نہیں ہونا چاہئے، اس پر نہیں ہونا چاہئے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ تو مفتیان کرام کا ہی کام ہے کہ لوگوں کو سمجھائیں۔ لیکن اس سلسلے سے انکار ہی کر دینا ٹھیک نہیں ہے۔ اس طرح تو آپ کے اوپر یقین کون کرے گا۔ لوگ کہیں گے کہ آپ تو مخالف ہیں۔ مخالفت میں تو لوگ قیود و حدود بھی نہیں مانیں گے۔ لہٰذا طریقہ کار یہ ہے کہ جو ہمارے بزرگوں نے کہا ہے، اس کو مانتے ہوئے ہم کہیں کہ اس کی حدود و قیود ہیں۔ اور حدود و قیود حضرات نے بنائی ہیں، جیسا کہ خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کی ہیں۔ اور بزرگوں نے بھی بیان کی ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کی ہیں۔ امداد الفتاویٰ میں ساری تفصیل موجود ہے۔ ذکر بالجہر کے بارے میں پوچھا گیا، تو حضرت نے اس کو جائز بتایا ہے۔ اس لئے ساری چیزیں موجود ہیں۔ اب ہم ان مفتیوں کو مانیں یا اس مفتی کو مانیں۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ وہ حضرات کس پائے کے لوگ تھے۔ بلکہ آج کل پاکستان میں مولانا تقی عثمانی صاحب بڑے مفتی ہیں یا یہ بڑے مفتی ہیں؟ مولانا تقی عثمانی صاحب اس کو جائز بتاتے ہیں۔ ’’تصوف کا خلاصہ‘‘ میں مولانا محمود اشرف صاحب کی تقریظ موجود ہے کہ ’’میں نے حضرت کو یہ کتاب اسی وجہ سے دی تھی کہ حضرت اس کو پڑھ لیں، تاکہ کوئی غلط چیز ہو، تو اس کو ابھی سے نکال دیا جائے۔ حضرت کو میں نے ذکر والے حصے کے بارے میں خصوصاً بتایا تھا کہ اس کو ذرا غور سے پڑھ لیں۔ کیونکہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں فرمائیں کہ میں نے پوری طرح پڑھا نہیں تھا۔ لہٰذا انہوں نے پڑھا تھا اور اس حوالے سے انہوں نے مجھے باقاعدہ مشورہ بھی دیا تھا کہ فلاں چیز بھی اس میں شامل کر لیں۔ وہ بھی بتاتا ہوں کہ کیا شامل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ صرف ایک لفظ کا مشورہ دیا تھا، جو میں نے پھر شامل کر لیا‘‘۔ الحمد للہ۔ یہ دیانت داری کا تقاضا ہے۔ کیونکہ ہم نے اللہ کو راضی کرنا ہے، لوگوں کو تو راضی نہیں کرنا۔ یہ سوال اور جواب کی صورت میں ہے۔

سوال:

بعض لوگ ذکر بالجہر کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ تو ہر ایک کی خاموش بات بھی سنتا ہے، تو زور سے ذکر کیوں کیا جاتا ہے؟ (یہ اعتراض عموماً کیا جاتا ہے۔)

جواب:

جب ذکر ثواب کے لئے کیا جائے، تو بے شک خاموشی کے ساتھ کیا جائے کہ آدمی اپنی آواز کو صرف خود سنے، تاکہ دوسرے کسی کے ضروری کام میں حرج نہ ہو، کسی کو تکلیف نہ ہو۔ کیونکہ اس کو ہر وقت کرنا چاہئے۔ اور ہر وقت کسی ایسی جگہ کا ملنا کہ ذکرِ جہری سے لوگوں کے کاموں کا حرج نہ ہو، عملاً بہت مشکل ہے۔ تلاوتِ قرآن بھی اسی کے حکم میں ہے۔ البتہ جو ذکر علاج کے لئے کیا جاتا ہے، اس میں جہر ثواب کے لئے نہیں، بلکہ وساوس کو دفع کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ نیز اچھی آواز متاثر کرتی ہے۔ پس خوش آوازی کے ساتھ ذکر بالجہر دل کو متاثر کرتا ہے۔ اس لئے اس کو اگر ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جائے، تو کوئی حرج نہیں۔

سوال:

کیا اونچی آواز سے ذکر کرنے سے ریا کا اندیشہ نہیں ہوتا؟

جواب:

اس اندیشہ کی کوئی پروا نہیں کرنی چاہئے۔ دل میں ریا کی نیت نہ ہو، یہی کافی ہے۔ باقی ریا کا وسوسہ ریا نہیں ہے۔ یہ جو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ تم اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں ریا کار کہیں۔ اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں مجنون کہیں۔ بعض بزرگوں نے لکھا ہے کہ اس خوف سے کہ لوگ کیا کہیں گے، ذکر سے رک جانا ٹھیک نہیں ہے۔

سوال:

انفرادی طور پر ذکر بالجہر کے لئے تو گنجائش نکل آئی۔ لیکن کیا اجتماعی طور پر بھی ذکر بالجہر کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

جو دلائل انفرادی ذکر بالجہر کے لئے قابلِ سماعت ہیں، وہ اجتماعی کے لئے بھی ہیں۔ آپ ذرا غور فرمائیں! سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی چیز کو اگر دل کی صفائی کا ذریعہ سمجھا جائے، تو چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، نہ صرف جائز بلکہ مفید ہے۔

سوال:

ایک اور مفتی صاحب کا بھی اعتراض تھا، اس کو بھی دور کرنا تھا۔ اعتراض یہ تھا کہ ایسا اجتماعی ذکر کہ لوگ اپنا اپنا ذکر کر رہے ہوں، یہ تو ہمارے اکابر کا طریقہ رہا ہے، لیکن ایسا اجتماعی ذکر جس میں ایک آدمی سب کو ایک آواز میں ذکر کرا رہا ہو، تو اس طرح کا اپنے اکابر میں سے کوئی نظر نہیں آ رہا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کی مثال نماز کی طرح ہو جاتی ہے کہ ایک امام ہو، باقی مقتدی۔ اس لئے یہ دین میں زیادتی ہے۔

جواب:

ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ حضرت مولانا احمد لاہوری رحمۃ اللہ علیہ ہمارے بہت بڑے بزرگ ہیں، ان کے ہاں اجتماعی ذکر بصوتِ واحد ہوتا تھا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء میں حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہی ذکر کراتے تھے۔ یہ صرف ایک ذریعہ ہے، جس کا مقصد دل کو متاثر کرنا ہے، جس میں اجتماعی آواز کے ساتھ ذکر ہوتا تھا، جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ جہاد میں بھی جب ٹریننگ دی جاتی ہے، تو اس میں ایک امیر ہوتا ہے، باقی لوگ اس کے مامور ہوتے ہیں اور وہ سب کو ایک آواز سے سب کچھ کرا رہا ہوتا ہے۔ جس طرح وہ فقط ایک ذریعہ ہے اور غلط نہیں ہے، اسی طرح یہاں بھی ذکر ایک آواز سے کرایا جائے، اس کو مقصد نہ سمجھا جائے اور جو نہ کرے، اس پہ نکیر نہ کی جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

یہاں یہ جو آخری گیارہ حروف ہیں، صرف یہی حضرت نے شامل کئے ہیں، اور ہم نے بھی شامل کر دیئے۔ یہ اتنی سی بات ہے۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ ہم ان کے خلاف بات کر رہے ہیں، تو ہم ان کے خلاف بات نہیں کر رہے، بلکہ جو ہمارے خلاف باتیں کر رہے ہیں، ہم ان کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ یعنی اس بات کے خلاف بات کر رہے ہیں، جو وہ ہمارے خلاف کر رہے ہیں۔ ہم اپنا دفاع کر رہے ہیں، ان کے خلاف بات نہیں کر رہے ہیں۔ نکیر نہیں کر رہے۔ اگر کوئی یہ کام نہیں کرتا ہے، تو ہم کہتے ہیں کہ بالکل ٹھیک کر رہا ہے۔ بلکہ ان کا طریقہ یہی ہے۔ نقشبندی سلسلہ کے حضرات نہیں کرتے، تو ہم ان سے نہیں لڑتے۔ ہم ان کو غلط بھی نہیں کہتے۔ میں خود مراقبات کراتا ہوں، لیکن اس طرح ان مراقبات کا ثبوت حدیث شریف نہیں ہے۔ تو اگر وہ جائز ہے، تو یہ کیوں نا جائز ہے؟ اور اگر وہ نا جائز ہے، تو یہ کیوں جائز ہے؟ کیوں کہ چیز تو ایک ہی ہے۔ وہ بھی ذریعہ ہے اور یہ بھی ذریعہ ہے۔ لہٰذا ذریعہ کے لحاظ سے دونوں ٹھیک ہیں۔ اور اگر ذریعے کو نا جائز کہیں، تو دونوں جگہ غلط ہو گا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کا جواب دیا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ ایک نقشبندی ساتھی نے اپنے چشتی ساتھی سے کہا کہ سنا ہے کہ آپ ذکر بالجہر کرتے ہیں؟ گویا وہ کہنا چاہتے تھے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ جواب میں اس چشتی ساتھی نے کہا کہ سنا ہے کہ آپ ذکرِ خفی کراتے ہیں؟ یعنی جو کچھ ذکرِ خفی میں ہے، وہی کچھ ذکرِ جہری میں ہے۔ حضرت نے ایک لفظ اور بھی شامل کیا ہے، فرمایا کہ جو جہری طور پر ذکر کر رہا ہے، وہ تو سب کو نظر آ رہا ہے کہ کیا کر رہا ہے۔ اور جو خفی طور پر ذکر کر رہا ہے، اگر کسی کو اس کا پتا چل جائے کہ کچھ کر رہا ہے، پتا نہیں کہ کس آسمان پر پھر رہا ہے، عرش پر جا رہا ہے، کہاں پر جا رہا ہے۔ چنانچہ کسی کو غلط نہیں کہنا چاہئے۔ جب سارے ٹھیک ہیں، تو خواہ مخواہ ان پر باتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے اور یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اگر مستند چیز ہو اور ضرورت کی بنیاد پر چلی آ رہا ہو، تو ٹھیک ہے۔ کیونکہ یہ سارے ذرائع ہیں، مقاصد نہیں ہیں۔ مقصد مقصد ہوتا ہے اور ذریعہ ذریعہ ہوتا ہے۔ ذریعے کو مقصد نہ بناؤ اور مقصد کو ذریعہ نہ بناؤ۔ دونوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھو، تو بالکل ٹھیک ہے۔ اللہ جل شانہ غلط قسم کی بحثوں سے اور بزرگوں کی تنقیص سے ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ