خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدْ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔ تو ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی سوال آئے اس کا جواب دیا جائے، ہاں اگر کسی کا پرسنل مسئلہ ہو تو پھر ان کو اسی طریقے سے جواب دیتے ہیں جس طریقے سے سوال آیا ہوتا ہے لیکن اگر کسی کے جواب میں اور لوگوں کا بھی فائدہ ہو اور ان کی زیادہ پرسنل بات نہ ہو تو پھر ہم بغیر نام کے ان کے سوال کا جواب دے دیتے ہیں۔
سوال نمبر 01:
ایک خاتون نے بہت سارے خواب مجھے بھیج دیئے تو چونکہ یہ ہمارے سلسلے کا ایک طریقہ ہے اس وجہ سے اس میں دوسروں کا فائدہ ہے۔ تو میں نے اس کا جو جواب دیا تھا، وہ میں یہاں سنا دیتا ہوں۔
جواب:
بیٹی! مجھے نہیں معلوم کہ آپ کون ہیں، خوابوں کی تعبیر دو آدمیوں کا کشف ہوتا ہے ایک دیکھنے والے کا اور ایک تعبیر دینے والے کا۔ خواب اشارے میں خبر ہوتا ہے جس کی تکمیل یا تو تعبیر دینے والے کے کشف سے ہوتی ہے یا جنہوں نے دیکھا ہوتا ہے ان کے بارے میں معلومات سے ہوتی ہے۔ آپ کو چونکہ جانتا نہیں ہوں اور کشف مجھے ہوتا نہیں تو بات مشکل ہے، البتہ بزرگوں سے سنا ہے کہ اگر کوئی صحیح شیخ سے بیعت ہو تو اس کے شیخ کو مرید کے بارے میں ضروری کشف ہو جاتا ہے۔ اس لئے جو مجھ سے بیعت ہیں ان کے بارے میں تو میں امید رکھتا ہوں کہ ان کی خدمت کرسکوں لیکن باقیوں کے بارے میں تو اندازہ ہی ہو گا۔ آپ کے پہلے خواب کے بارے میں بس میرا اندازہ یہی ہے کہ چونکہ اس نے سلام کا جواب نہیں دیا لہذا ممکن ہے وہ آپ کے لئے سلامتی نہ ہو۔ باقی معاف کیجئے خوابوں کے لئے اتنے زیادہ اندازے آپ کے لئے بہتر نہیں ہیں۔ واللہ اعلم۔
چونکہ وہ مجھ سے بیعت نہیں تھی تو اس وجہ سے میں زیادہ risk نہیں لے سکتا تھا کہ میں اس کے خوابوں کی تعبیر بتاؤں۔
سوال نمبر 02:
السلام علیکم! حضرت جی! آپ کے بیان میں نقشبندی ذکر کا جو طریقہ کار آپ نے بیان فرمایا ہے میرے جیسے کم عقل دیکھ کر کریں یا سمجھیں تو جلدی فائدہ ہو سکے گا؟ حضرت جی! آپ سے ذکر تو لیا ہے لیکن ذکر کا طریقہ نہیں سیکھا۔ حضرت جی! معذرت کے ساتھ، کیا ایسا ممکن ہے کہ اگر کوئی بھائی آپ سے سیکھ کر مجھے ویڈیو کے ذریعے سمجھا سکے؟ کیونکہ اگر میں دیکھ کر سمجھوں گا تو آسانی ہو گی۔ حضرت جی راہنمائی فرمائیں۔ دعاؤں کی درخواست۔
جواب:
اس پر مجھے بڑی حیرت ہے کہ نقشبندی ذکر سیکھنا چاہتا ہے اور وہ بھی ویڈیو کے ذریعے سے، کیونکہ نقشبندی ذکر کی تو تمام چیزیں خفی ہوتی ہیں تو آپ ویڈیو سے کیا دیکھیں گے! وہ تو ہوتی ہی خفی ہیں البتہ یہ طریقہ ہے کہ میں ٹیلی فون پر بھی سمجھا سکتا ہوں اور اس کے کچھ points ہیں۔ ان points کے اوپر ذکر سوچنا ہوتا ہے، کرنا نہیں ہوتا یعنی یہ سوچنا ہوتا ہے کہ وہاں ذکر ہو رہا ہے اور میں اس کے سننے کی کوشش کر رہا ہوں، یہ آپ کو ٹیلی فون پر بھی بتایا جا سکتا ہے، یہ کوئی ایسی بات تو نہیں ہے۔ ویڈیو کے ذریعے سے چشتی ذکر تو شاید ہو جائے کیونکہ وہ ظاہر ہوتا ہے اور نقشبندی ذکر تو اندر ہی اندر ہوتا ہے، طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی جدید ترتیب شاید نیٹ پر مل جائے، بہر حال نیٹ پر ذکر کرنے کے طریقے میں وہ points دیئے ہوئے ہیں یعنی ذکر کرنے کی جو جگہیں ہیں اور جو لطائف کی جگہیں ہیں مثلاً: دل ہے، روح ہے، سِر ہے، خفی ہے اور اخفیٰ ہے وہ دیئے ہوئے ہیں لہذا آپ کو جو بتایا گیا ہے اور جس لطیفے پر بتایا گیا ہے، اس لطیفے پر آپ سوچیں گے کہ جیسے ہر جگہ ذکر ہو رہا ہے ادھر بھی ذکر ہو رہا ہے اور میں اس ذکر کو سننے کی کوشش کر رہا ہوں جب تک آپ کو سنائی نہیں دیتا آپ کوشش جاری رکھیں اور جب سننے لگیں تو ان شاء اللہ العزیز improve ہوتا جائے گا۔ بس یہی طریقہ کار ہے اس میں اور کچھ نہیں ہے۔
سوال نمبر 03:
السلام علیکم! شاہ صاحب میں احمد بات کر رہا ہوں care of علی جو لاہور میں میزان بینک میں ہوتا ہے اور انھوں نے مجھے آپ کا نمبر دیا تھا۔ تو بس آپ سے بات چیت کرنا چاہ رہا تھا کہ میں حالات سے پریشان تھا کیونکہ میں ملائیشیا سے واپس آیا ہوں تقریباً نو سال میں نے پردیس کاٹا ہے اور اب میں واپس آیا ہوں۔ تو کچھ یہاں کے معاملات اور ذریعہ معاش سے پریشان تھا تو انھوں نے کہا کوئی بات نہیں پریشان نہ ہوں، آپ حضرت سے بات کریں۔ تو آپ میری کوئی راہنمائی فرمائیں۔ ویسے تو میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ میں نماز کو قائم رکھوں اور اس کے علاوہ بھی کافی ساری چیزیں ہیں جن میں میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ کرتا رہوں اور زندگی میں حرام سے بچنے کی پوری کوشش کرتا ہوں، جھوٹ نہیں بولتا، الغرض وہ تمام چیزیں جو اللہ کو ناراض کرنے کے لئے ہیں پوری کوشش کرتا ہوں کہ میں ان سے بچوں۔ ایسے لوگوں کو اس وقت کوئی پسند نہیں کرتا، کسی set up میں setting نہیں ہو پا رہی، بہرحال اللہ سے نا امید نہیں ہوں، پر امید ہوں اور بس ذہن پریشان ہوتا تھا اس لئے انھوں نے کہا کہ آپ حضرت سے بات کریں وہ آپ کو تھوڑا guide کر دیں گے۔ بس اسی لئے میں نے آپ کو call کی تھی۔ پھر میں اس کا آگے مزید باتیں بتاؤں گا جب آپ reply کر دیں گے۔ السلام علیکم۔
جواب:
الحمد للہ چونکہ ہم سب انسان ہیں اور انسان حالات سے متاثر ہوتا ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے لیکن انسان کے اندر جو روحانیت ہوتی ہے وہ اس کو stable رکھتی ہے، انسان کے اندر نفس بھی ہے نفس کی خواہشات بھی ہوتی ہیں اور انسان کے اندر روحانیت بھی ہوتی ہے جو اس کو کنٹرول کرتی ہے اور اگر نفس کی تربیت ہو چکی ہو تو نفس باغی نہیں ہوتا، وہ شریعت کے مطابق عمل کرتا ہے، اگر ایسا نہ ہو تو اس کی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس تربیت کے لئے خاص جگہیں ہوتی ہیں: جیسے علم سیکھنے کے لئے مدرسہ ہوتا ہے، عبادت کے لئے مسجد ہوتی ہے، اس طرح تربیت کے لئے خانقاہیں ہوتی ہیں تو جب انسان کی تریبت ہو جاتی ہے تو تینوں چیزیں: انسان کی عقل، انسان کا دل اور انسان کا نفس balanced position پر آجاتے ہیں، balanced position سے مراد یہ ہے ضروریات کا تو شریعت نے بھی خیال رکھا ہے لہذا اس میں تو مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن جو اس کی خواہشات ہوتی ہیں، ان کو وہ limit کر لیتا ہے، تو وہ نفسِ مطمئنۃ بن جاتا ہے۔ لہذا وہ اللہ تعالیٰ کے نظام کے ساتھ ایسے چلتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ چلانا چاہتے ہیں، اسی کو نفس مطمئنۃ کہتے ہیں اور جو دل ہے، اس میں دنیا کی محبت ہوتی ہے، جب دل کی اصلاح ہو جاتی ہے تو وہ قلب سلیم بن جاتا ہے اور دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور اللہ کی محبت آجاتی ہے، پھر اس کے بعد اس کا ہر دنیاوی کام بھی اللہ کے لئے ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں جو دنیا کی محبت کی وجہ سے خرابیاں ہوتی ہیں وہ دور ہو جاتی ہیں اور اس کی عقل، عقلِ فہیم کہلاتی ہے۔ یعنی وہ سمجھدار عقل ہوتی ہے، انسان شریعت کے مطابق چلتا ہے، اس کو پتہ ہوتا ہے کہ میری کامیابی تو شریعت پے چلنے میں ہے، لہذا جیسے ایک ڈاکو ڈاکے کے لئے عقل استعمال کرتا ہے اور چور چوری کے لئے عقل استعمال کرتا ہے، کرپشن والا کرپشن کے لئے عقل استعمال کرتا ہے، اسی طرح جو لوگ حق کام کرنے کے لئے عقل استعمال کرتے ہیں، ان کی آخرت میں کامیابی کی راه ہموار ہوتی جاتی ہیں، لہٰذا ایسے لوگ عقل استعمال کر لیتے ہیں اور شیطان سے بچنے کے لئے جو طریقے ہوتے ہیں ان میں عقل کو استعمال کر لیتے ہیں تو عقل، عقلِ فہیم ہو جاتی ہے۔ تو ہماری خانقاہ اصل میں بنی اسی مقصد کے لئے ہے، باقی جو دوسری چیزیں ہیں وہ اس کے side effects ہیں تو side effects تو ہوتے ہیں۔ میں آپ کو ایک معمولی چیز بتا دوں۔ ایک انجینئر میرے پاس آئے ہیں جو بیچارے بہت پریشان تھے اور وہ بڑے reputed ادارے کے نگران تھے لیکن ان کے سارے کام پھنسے ہوئے تھے تو وہ میرے پاس آئے تو مجھے کہا شاہ صاحب! میرے سارے کام رک گئے ہیں اور مسائل ہیں، میں نے ان کو کہا کہ credit card سے اپنے آپ کو بچاؤ، اس نے کہا ہمارے سارے کام credit card سے ہوتے ہیں تو میں کیسے credit card سے بچ سکتا ہوں۔ میں نے کہا یہ تو میں نہیں کہوں گا کہ کیسے، کیونکہ آپ نے اپنی عقل اس کے لئے لڑانی ہے کہ کیسے آپ نے بچنا ہے، یہ آپ کا کام ہے، میرا کام نہیں ہے لیکن اگر آپ نے اپنے حالات ٹھیک کرنے ہیں تو پھر اپنے آپ کو credit card سے بچاؤ۔ تو اللہ کا شکر ہے ان کو بات سمجھ میں آگئی تو وہ تقریباً دو تین مہینے بعد آئے اور پھر مجھے کہا کہ بس بہت مشکل ہوا ہے لیکن بہرحال credit card سے اللہ تعالیٰ نے مجھے بچایا۔ میں اب credit card استعمال نہیں کرتا۔ تو میں نے کہا کہ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائیں گے اور پھر اللہ کا شکر ہے کہ مہینے سے بھی کم وقت میں آئے اور مجھے کہتے ہیں کہ میرے سارے cheques release ہو گئے ہیں، سارے قرض اتر گئے ہیں اور ماشاء اللہ حج کے لئے اپلائی کیا اور حج پر بھی چلے گئے۔ اور پھر اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میں آپ کی خانقاہ اپنی نگرانی میں خود بناؤں گا، چونکہ architect تھے تو ماشاء اللہ انہوں نے اس کی نگرانی کی اور بہت بہتر طریقے سے اس کو بنوایا۔ تو اللہ پاک نے اس طرح ہماری خانقاہ کو بنوا دیا اور ان کے کام نکلوا دیئے۔ تو یہ امور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ ہمارے تو اصلاح والے کام ہیں، اس میں اگر آپ شمولیت کرنا چاہتے ہیں تو سر آنکھوں پر، کوئی وقت نکال کر آپ خانقاہ تشریف لائیے، جو خدمت ہم سے ہو سکے گی وہ ہو گی۔ باقی وظیفے بتانا اور اس قسم کی چیزوں کا ہمارے ہاں نظام نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں اللہ کے ساتھ مل جاؤ تو آپ کے سارے کام درست ہو سکتے ہیں اور اپنا یقین آخرت پر مضبوط رکھو اور اللہ جل شانہ کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے میں کامیابی سمجھو تو اللہ تعالیٰ آپ کے لئے راستے کھول دیں گے ﴿وَمَنْ يَّتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا﴾ (الطلاق: 3) میں اپنی طرف سے نہیں کہتا ہوں قرآن پاک کہتا ہے کہ جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے اللہ پاک اس کے لئے راستے بنا دیتے ہیں تو اس بنیاد پر ہم آپ کی خدمت کر سکیں گے باقی جیسے عموماً خانقاہوں میں آج کل جس قسم کے لوگ جن مقاصد کے لئے جاتے ہیں وہ ہمارے ہاں نہیں ہے۔ یہ تعویذوں کے سلسلے میں یا دوسرے جو اس قسم کے وظائف دیئے جاتے ہیں، ہمارے ہاں یہ چیزیں نہیں ہیں، یہ نہیں کہ ہو نہیں سکتیں، یہ سلسلہ جائز بھی ہے، ناجائز بھی نہیں ہے لیکن ہم نے اپنی خانقاہ کو اس لئے اس سے پاک و صاف رکھا ہے تاکہ ہم اصل کام کے لئے اپنا وقت نکال سکیں اور اگر ہم نے ان کاموں کے لئے راستہ دے دیا تو پھر جتنے لوگ ہمارے ساتھ اصل کام کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں ان کو جگہ نہیں ملے گی سارے دم کروانے کے لئے، تعویذ لینے کے لئے اور اس قسم کے کام کے لئے آئے ہوئے ہوں گے، تو نہ ہمیں فرصت ہو گی اور نہ اصل خدمت کر سکیں گے۔ لہذا کوئی نہ کوئی خانقاہ تو ایسی ہونی چاہیے جہاں پر اصل کام ہو رہا ہو، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے لئے قبول فرمائے اور توفیق عطا فرمائے اور آپ کے تمام مسائل کو بھی حل فرمائے۔
سوال نمبر 04:
ایک خاتون نےکہا ہے کہ جب میں مراقبہ کرتی تھی تو بہت کوشش کرتی تھی کہ خیالات نہ آئیں لیکن خیالات کو دور کرنے کے لئے دل میں اللہ اللہ کہتی پھر آپ کی site پر سوال کیا کہ مراقبہ کے وقت دھیان کس طرح قائم کیا جائے۔ لیکن نیٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے جواب نہ دیکھ سکی۔
جواب:
مراقبہ جب کیا جاتا ہے تو اس میں یہ سوچا جاتا ہے کہ چونکہ ہر چیز ذکر کرتی ہے تو دل بھی ایک چیز ہے وہ بھی ذکر کرتا ہے البتہ یہ بات ہے کہ جیسے باقی چیزوں کا ذکر مجھے سنائی نہیں دیتا تو اس طرح دل کا ذکر بھی سنائی نہیں دے رہا لیکن میں اگر اپنی اصلاح کی نیت سے دل کے اوپر focus کر لوں اور اگر میں تصور کر لوں کہ میرا دل جو ذکر کر رہا ہے وہ میں سن رہا ہوں تو اللہ جل شانہ سے امید ہے کہ وہ مجھے سنوا دے گا کیونکہ اللہ پاک فرماتے ہیں: "أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي" (البخاری، حدیث نمبر: 7405) میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ مجھے وہ سنوا دے گا تو جیسے ہی میں اس آواز کو سننا شروع کر لوں تو میں غفلت میں نہ رہوں، اسی وقت اس کو pick کر لوں اور پھر اس کے ساتھ رہوں تو وہ بہتر ہوتا جائے گا اور پھر باقی چیزوں پر بھی ایسا ہو گا، تو اس سے سلسلہ شروع ہو گا، اس میں آپ نے دل سے ذکر کروانا نہیں ہے دل کا ذکر سننا ہے، صرف سننے پر focus کرنا ہے، کروانے پر نہیں۔ اور جو لوگ ذکر کرواتے ہیں وہ بے چارے تھک بھی جاتے ہیں اور کام بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا آپ نے صرف سننا ہے، ان شاء اللہ العزیز آپ کو بھی سنائی دے گا اور جو خیالات آتے ہیں ان کی پرواہ نہ کریں۔ جب آپ روڈ پر جاتی ہیں اور بہت سارا رش ہوتا ہے تو آپ رش کے بارے میں کیا کہتی ہیں کہ جب تک رش ختم نہیں ہو گا اس وقت تک میں چلوں گی نہیں۔ کیا آپ ایسا کرتی ہیں؟ اس وقت آپ کہتی ہیں ٹھیک ہے میں اپنے راستے پر چلتی ہوں، شور بھی ہوتا ہے، رش بھی ہوتا ہے سارا کچھ ہوتا ہے، اپنے آپ کو بچتے بچاتے آپ نکل جاتی ہیں، بس اس طریقے سے اس میں بھی خیالات کی پرواہ نہ کریں، اپنے مراقبہ کی طرف دھیان کریں۔
سوال نمبر 05:
حضرت جی! کل میری عشاء کی نماز قضا ہو گئی۔ مجھ سے نماز قضا ہونے کی سوائے سستی کے اور کوئی reason نہیں ہے، حضرت جی! فرض نماز کے چھوٹ جانے میں ابھی بھی میری توبہ سچی نہیں ہے۔
I am still disobeying Allahمیں کیا کروں؟
جواب:
دیکھیں۔ ایک اصول اچھی طرح یاد رکھیں، ایک اختیاری چیز جس میں اختیار چلتا ہے اس میں کوتاہی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ چنانچہ عشاء کی نماز فرض ہے، آپ سب کو پتہ ہے مجھے بھی پتہ ہے اور فرض نماز پڑھنے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار دیا ہوا ہے، لہٰذا آپ اپنا اختیار استعمال کریں، حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں: سستی کا علاج چستی ہے۔ لہذا آپ اس میں سستی نہ کریں جیسے آپ کھانے کے بارے میں جو جسمانی رزق ہے، اس میں سستی نہیں کرتیں اس طرح روحانی رزق میں بھی سستی نہ کریں۔ وہ آپ کے جسم کا تقاضا ہے، یہ آپ کے روح کا تقاضا ہے لہذا اس میں آپ سستی نہ کریں اور اگر سستی ہو جائے تو پھر جرمانہ ادا کریں اور اس کا جرمانہ یہ ہے کہ تین دن کے روزے رکھیں تو ان شاء اللہ العزیز اس سے نفس کو تھوڑی حیاء آ جائے گی، اور کچھ سمجھ دار ہو جائے گا۔ لہذا جب بھی نماز قضا ہو جائے تو تین دن کے روزے رکھیں اور اس کو اتنا پکا کر لیں کہ نفس سمجھ جائے کہ اس سے چھوٹ نہیں سکتا ان شاء اللہ پھر نہیں کرے گا۔
سوال نمبر 06:
السلام علیکم! حضرت شاہ صاحب آپ کی برکت سے الحمد للہ آج حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر اسی کمرے میں، میں نے اپنے معمول کا ذکر کیا اور اس کے بعد الحمد للہ ایئر پورٹ پر ایک امریکہ میں رہنے والے پاکستانی سے ملاقات ہو گئی تھی تو وہ بھی ساتھ آگئے تو ماشاء اللہ ان چاروں سلاسل کی جو چار تسبیحات ہیں ان چاروں کا ذکر بھی ہم نے اسی کمرے میں اجتماعی طور پر کیا، آپ دعا فرمائیے گا کہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور یہ جو آپ کے سلسلے کا ذکر وہاں پر ہوا ہے اس کو اللہ تعالیٰ وہاں جاری و ساری فرما دے۔ اور ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور سلسلہ کے طفیل سے ہمیں اپنی محبت نصیب فرما دے آمین۔
جواب:
جزاک اللہ عثمان صاحب اللہ نے آپ کو توفیق دی، حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ عیہ کے مزار پر آپ نے ہماری نمائندگی کی اور وہاں پر وہ غزل بھی پڑھی۔ الحمد للہ ساتھیوں کو بھی فائدہ ہوا اور اس طرح آپ نے ماشاء اللہ وہاں پر ذکر بھی کیا تو الحمد للہ ہمارے لئے بھی خوش نصیبی ہے کہ ہمارے سلسلے کا ذکر وہاں پر ہو گیا اور اللہ جل شانہ کرے کہ آپ کا وہ ذکر قبول ہو جائے اور اس کو پورے سلسلے کے لئے مفید بنا دے اور جو یہاں پر حضرت کے فیوض و برکات سے مثنوی شریف کا درس ہوتا ہے اس میں اللہ پاک قبولیت کے ساتھ ہمیں زیادہ سے زیادہ توفیق فرمائے۔
سوال نمبر07:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت شاہ صاحب مجاہدے کے حوالے سے اطلاع کرنی ہے کہ آج ایک ماہ پورا ہو چکا ہے مجھے آگے کے لئے ارشاد فرمائیں۔
جواب:
چونکہ اس مجاہدے میں کچھ کمزوری رہ چکی ہے لہذا یہ مجاہدہ ایک مہینہ اور کر لیں۔
سوال نمبر08:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! عرض ہے کہ ایک بات پریشان کر رہی ہے کہ میں جن لوگوں سے محبت کرتا ہوں تو ان سے بہت پیار سے بات کرتا ہوں لیکن جب وہ ایک کام کہتے ہیں تو نہیں کرتا جس سے وہ hurt ہو جاتے ہیں اور ان کو hurt دیکھ کر میں بھی پریشان ہو جاتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں مگر شاہ جی! کیا یہ منافقت کی نشانی ہے؟ اس کا علاج کیا ہو گا۔
جواب:
بہرحال مجھے تفصیل کا تو پتہ نہیں آپ کن لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں، لیکن ہر شخص کی پوری بات ماننی بھی نہیں ہوتی کیونکہ اس میں جائز نا جائز کو دیکھنا ہوتا ہے "لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الخَالِقِ" (المصنف لابن ابی شیبہ، 34406) اللہ پاک کی مخلوق کی ایسی طاعت جس میں خالق کی نا فرمانی ہو جائز نہیں ہے تو اس وجہ سے آپ اس کو دیکھیں، اگر وہ نا جائز ہے تو کرنا ہی نہیں ہے اگر وہ جائز ہے تو اتنا کریں جتنا کہ آپ کے اختیار میں ہے۔ اگر آپ کے اختیار میں نہیں آپ کر نہ سکو تو ﴿لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286) بہرحال اس میں میں تفصیل سن کر ہی کچھ کہہ سکتا ہوں۔
سوال نمبر09:
ہم نے دیکھا ہے کہ نفس کے اندر بری خواہشات ہوتی ہیں، فجور ہوتے ہیں اور ان کی جتنی جتنی مخالفت کرتے جائیں گے اتنا اتنا ہمارا جو تقویٰ ہے وہ بڑھتا چلا جائے گا اور دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نفس کو ہم جتنا جتنا دباتے جائیں گے تو اتنا اتنا یہ مانتا چلا جائے گا اور ایک دن آئے گا کہ ہر چیز میں شریعت کے تابع ہو جائے گا، نفس مطمئنۃ ہو جائے گا۔ تو اگر اب ان دونوں باتوں کو جمع کر لیں تو نفس کی مخالفت سے تقویٰ بڑھتا ہے اور ایک دن اس کی مخالفت ختم ہو جاتی ہے تو جب اس کی مخالفت ختم ہو جائے گی تو اس کے بعد تقویٰ میں مزید ترقی کیسے ہو گی؟
جواب:
ماشاءاللہ بڑا اچھا سوال ہے، technical سوال ہے، سوال یہ ہے کہ نفس کی مخالفت تقویٰ ہے اور تقویٰ کا حصول اسی طریقے سے ہوتا ہے اور نفس کی جو مخالفت کی جاتی ہے تو اس میں خرابی کی طلب کم ہوتی جاتی ہے، ماننے کا جذبہ زیادہ پیدا ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں جتنا جتنا ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ سدھرتا جاتا ہے اور نفس مطمئنۃ کے قریب ہوتا جاتا ہے تو ایک دن یہ نفس مطمئنۃ ہو گا اور شریعت پر عمل کرے گا تو اس وقت پھر تقویٰ کیسے ہو گا؟ تو دیکھو! جیسے کہ بری چیز سے بچنا تقویٰ ہے تو اچھی چیز کا ماننا تقویٰ ہے اور اس وقت اور چیزیں اگر بتائے گا تو وہی ماننا تقویٰ ہو گا حتیٰ کہ شیطان کی بری بات کو بھی نہیں ماننا اور اچھی بات کو ماننا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ ان سے شیطان نے تہجد قضا کروائی تو بہت روئے، اگلے دن کسی نے تہجد کے وقت ان کو اٹھایا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم کون ہو، کہا: تجھے کیا، بس اٹھو نماز پڑھو، کہا: نہیں، میں چھوڑوں گا نہیں جب تک تو بتائے گا نہیں، تو پھر اس نے کہا کہ میں شیطان ہوں، انہوں نے کہا کہ تو نے کب سے یہ کام شروع کیا ہے کہ لوگوں کو نماز کے لئے اٹھا رہے ہو، اس نے کہا کہ کل جو تو تہجد قضا ہونے پر رویا تھا اس سے آپ کو بہت زیادہ اجر مل گیا تو میں کہتا ہوں کہ چلو تجھے تہجد کا اجر مل جائے وہ اجر نہ ملے اس وجہ سے میں نے آپ کو اٹھایا۔ تو اب دیکھو! امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کیا کہ چونکہ شیطان نے کہا تو نماز نہیں پڑھنی۔ بس انھوں نے نماز پڑھ لی۔ لہذا اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے میں ہی تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ماننا ہے اور جس وقت نفس کی مخالفت کرتے ہیں، اور اس کو بھی آپ نہیں مانتے تو منفی کو منفی سے ضرب دو تو plus بنتا ہے تو وہ بھی تقویٰ ہے اور plus کو plus سے ضرب دو تو وہ بھی تقویٰ ہے اور منفی کو مثبت سے ضرب دو تو منفی ہوتا ہے تو مطلب یہ ہے کہ اگر آپ بری بات کو مانتے ہیں تو وہ جرم ہے اور اگر اچھی بات کو نہیں مانتے تو وہ بھی جرم ہے۔ میرے خیال میں یہ مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ بات تو یہی ہے کہ بری بات کو نہ ماننا تقویٰ ہے اور اچھی کو ماننا بھی تقویٰ ہے لہذا پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال نمبر 10:
بزرگوں کے مزارات پر جانا اس مقصد کے لئے کہ فیض حاصل ہو، کیا یہ جائز ہے یا نا جائز ہے؟
جواب:
جائز نا جائز کی بات تو ایک طرف اصل میں بات یہ ہے کہ آیا فائدہ حاصل ہو گا کہ نہیں ہو گا، یہ دوسری بات ہے۔ لہٰذا صاحب نسبت کے لئے فائدہ ہے جو صاحب نسبت نہیں ہیں ان کو وہ چیز حاصل نہیں ہو گی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی کے پاس receiver ہی نہ ہو تو بے شک دوسرا آدمی کتنا ہی تیز بولے تو وہ نہیں سنے گا، اسی طریقے سے جو صاحب نسبت ہیں، catch کرنے کا نظام ان کے پاس ہوتا ہے لہذا جو صاحب نسبت ہوتے ہیں ان کو بزرگوں کا فیض مل جاتا ہے لیکن جو صاحب نسبت نہیں ہوتے تو ان کو وہ چیز نہیں مل سکتی لہذا پھر ان کے لئے یہی بات ہے کہ شریعت پر عمل کرتے ہوئے وہاں فاتحہ پڑھ لیں، ان کے لئے دعا کر لیں۔ اور اپنے لئے بھی دعا کر لے اور وہ تو عمل ہے اور وہ دعا تو ان کو مل ہی جائے گی۔ دعا تو اللہ تعالیٰ سے حاصل کرنی ہے وہ تو کر ہی لے گا۔
ایک دفعہ حضرت شاہ رفیع الدین صاحبؒ جو بہت بڑے بزرگ تھے، حضرت تھانویؒ ان کے ساتھ جا رہے تھے تو دو طالب علم بھی ساتھ تھے تو شاہ رفیع الدین صاحبؒ بڑے صاحب کشف تھے تو قبر پہ مراقب ہوئے، کسی بزرگ کی قبر تھی تو طالب علم بھی مراقب ہو گئے تو حضرت نے ان کو دو ماریں اور فرمایا جو آگے کی آنکھیں تھیں وہ تو تمھاری بند ہیں تو یہ والی آنکھیں کیوں بند کر دیں یعنی خواہ مخواہ اپنے آپ کو بزرگ بناتے ہو، چونکہ شاہ رفیع الدین صاحبؒ اللہ والے تھے ان کی دل کی آنکھیں کھلی تھیں لہذا انہوں نے تو مراقبہ کیا اور ان کو فائدہ بھی ہو رہا تھا۔ باقی لوگوں کے لئے تو قبر پہ حاضر ہونے کا جو مسنون طریقہ ہے بس اس طریقے پر عمل کر لیں، یہی ان کے لئے کافی ہے۔
سوال نمبر 11:
حضرت! یہ کلام اللہ پاک کی صفت ہے تو قرآن پاک بھی اللہ پاک کی صفت ہے تو وہ صفت الفاظ ہیں یا مصحف ہے یا جو حفاظ کے دل میں ہے وہ صفت ہے یا جو لوح محفوظ میں موجود ہے، وہ صفت ہے؟
جواب:
اصل میں اللہ جل شانہ کی صفات کو کما حقہ جاننا یہ تو ممکن نہیں ہے کیونکہ اللہ جل شانہ کی ذات بھی وراء الورا ہے۔ اللہ پاک کی جو شان ہے وہ بھی وراء الورا ہے، لہذا اس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ جیسے اللہ پاک کا کلام ہے ہم اس کو اسی طرح مانتے ہیں۔ یہ بات میں اس لئے کہتا ہوں کہ لوگ اس قسم کے نکتے نکالتے ہیں اور بے ادبی کر لیتے ہیں مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ کلام تو لوح محفوظ میں ہے وہ کلام ہے یہ مصحف کلام نہیں ہے تو مجھے بتاؤ ایک بٹن ہوتا ہے، اس کا سسٹم کے ساتھ کنکشن ہوتا ہے یا نہیں؟ اسی طریقے سے جیسے یہاں دل ہے اور عرش سے اوپر اس کی اصل ہے تو وہاں کی چیز ہمیں مل سکتی ہے، اگر ہم ادب کر لیں اور اس کے حصول کا جو طریقہ ہے وہ اختیار کر لیں، جیسے مشائخ کرتے ہیں تو فائدہ ہو جاتا ہے تو اس طریقے سے اس کلام کا ہم ادب کریں گے، تو اس کلام کے ساتھ ہم connect ہو جائیں گے، جو لوح محفوظ میں ہے۔ لہذا یہ ہمارے پاس اس کا اظہار ہے، اور یہ اس کا نمونہ ہے تو اس نمونے کی قدر کرو گے تو اصل تک پہنچ جاؤ گے جیسے عرش کے اوپر لطائف کی اصل ہے لیکن آپ کا دل آپ کے پاس ہے تو آپ نے تو دل پر محنت کرنی ہے اس اصل تک تو رسائی نہیں ہے جب آپ دل پر محنت کریں گے تو ان کے ساتھ connect ہو جائیں گے تو آگے کی چیزیں بھی مل جائیں گی تو اسی طریقے سے آپ یہاں جو قرآن پاک ہے اس کا آپ ادب کریں تو آپ کو اصل برکات بھی حاصل ہونگی۔ اس کی میں آپ کو دلیل بتاتا ہوں، صحابی کا عمل ہے، میں نے کوئی اپنی طرف سے بات نہیں کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ چھوٹے چھوٹے حروف والے قرآن کو دیکھ کر پڑھ رہا ہے تو حضرت نے ان کو نصیحت فرمائی کہ بڑے بڑے حروف والا قرآن پڑھا کرو کیونکہ اس سے قرآن کی عظمت آپ کے دل میں ہو گی اور آپ بے ادبی نہیں کریں گے چھوٹے حروف ہونے کی وجہ سے آپ کے دل میں اس کی عظمت نہیں آئے گی۔ اس سے پتہ چل گیا کہ اس کی عظمت کا احساس ہونا چاہیے، یہ تو صحابی کا عمل ہے اور صحابی کا عمل ہمارے لئے حجت ہے تو اب جو اس کو زمین پر رکھیں گے اور اس کا ادب نہیں کریں گے تو تقویٰ ان کے دل میں نہیں ہو گا۔ اور یہ شعائر اللہ میں سے ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَمَن يُعَظِّمْ شَعَٰٓئِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ﴾ (الحج: 32) اس وجہ سے میں نے تھوڑی سی تفصیل کی کہ لوگ ایسے مسئلہ نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اصل کلام لوح محفوظ میں ہے لہذا اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ تو کہا جاتا ہے کہ بھائی! ٹھیک ہے۔ دل تو آپ کے جسم میں ہے لیکن اس کا کنکشن ادھر ہے اگر آپ اس کا خیال نہیں رکھیں گے تو ادھر تک آپ کی رسائی نہیں ہو گی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں نے آپ کو صحابی کے عمل کی مثال دی ہے تو میرےخیال میں بات کافی ہے۔ اسی کے اندر تفریط میں مبتلا ہو کر معتزلہ گمراہ ہوئے اور یہ لوگ حق سے کافی دور چلے گئے تھے اور فتنہ خلقِ قرآن وجود میں آیا، جو بڑا مشہور ہے، جس میں عباسی خلفاء کی چار پشتیں مبتلا ہو گئی تھیں۔ مامون الرشید اور اس کے بعد پھر خلیفہ واثق باللہ کے دور میں یہ فتنہ ختم ہوا۔ لوگ کہتے ہیں قرآن مخلوق ہے جب کہ ہم کہتے ہیں کلام اللہ پاک کی صفت ہے، اللہ پاک کی صفت تو مخلوق نہیں ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ظاہر ہے پتہ چل گیا ہوتا پھر ان کی بات صحیح ہوتی۔ تو امام حنبلؒ نے اس کے خلاف بند باندھا اور پھر ان کو بہت کوڑے لگائے گئے اور بہت تکلیف دی گئی لیکن الحمد لِلہ وہ ٹس سے مَس نہیں ہوئے اور پھر اللہ پاک نے آخر میں ان کی بات کو صحیح ثابت فرمایا۔
سوال نمبر12:
حضرت جی! مراقبے میں صرف یہ تصور کرنا ہے کہ اللہ پاک پیار سے دیکھ رہا ہے یا دل سے ذکر کرنا ہے؟
جواب:
مجھے حضرت مولانا اشرف صاحبؒ کی بات یاد آ گئی وہ کسی کو ذکر سکھا رہے تھے تو یہی بات ان کو سمجھا رہے تھے کہ مجھے بتاؤ کہ تم اس وقت کہاں ہو، اس نے کہا پشاور میں، انھوں نے کہا: پاکستان میں بھی ہو؟ اس نے کہا ہاں، پاکستان میں بھی ہوں۔ اس وقت تم انسان بھی ہو؟ تو اس نے کہا جی بالکل انسان بھی ہوں، اچھا اس وقت باہر موسم کیسا ہے کہتا ہے ایسا ہے، کہتے ہیں کہ یہ ساری باتیں ایک ہی وقت میں جانتے ہو؟ کہا ہاں، فرمایا: پھر اس طرح کرو کہ یہ تصور کرو کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے اور ساتھ یہ بھی تصور کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔
سوال نمبر 13:
تفصیل یہ ہے کہ میری فیملی نے مجھے ٹوپی پہننے شلوار قمیض پہننے ذکر کرنے پر ذہنی ٹارچر کا شکار بنا دیا اور پاگل کہتے ہیں اور ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لئے کہتے ہیں۔ الحمد للہ میں ان کی بات نہیں مانتا لیکن دل کو تکلیف ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے دنیاوی کاموں میں اطاعت کرنے کو دل نہیں چاہتا لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ میری طبعیت خدمت سے بھاگتی ہے چاہیے کسی کی بھی ہو۔ راہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
بھائی جتنی بات آپ کی صحیح ہے اس کو تو ہم صحیح کہتے ہیں، اور جتنی بات غلط ہے اس کو ہم غلط کہیں گے کیونکہ ہمارا تو کسی کے ساتھ ذاتی معاملہ نہیں ہے، ہم تو اللہ کے لئے بات کریں گے تو آپ کی پہلی بات صحیح ہے کہ آپ کے شلوار قمیض پہننے پر، ذکر کرنے پر جو لوگ آپ کو torture کر رہے ہیں تو آپ کو ثواب ملے گا اور ان کو نقصان کا اندیشہ ہے اللہ تعالیٰ ان کے شر سے بچائے، اور انکو اپنے نفس کے شر سے بچائے اور دوسری بات یہ کہ آپ کے دل کو جو تکلیف ہوتی ہے تو آپ نے دنیاوی کاموں میں ان کی اطاعت نہیں کی۔ چونکہ وہ آپ کے والدین ہیں، والدین کی بات تو ماننی چاہیے، چاہے وہ کافر کیوں نہ ہوں، دنیاوی کاموں میں ان کی جائز بات ماننی ہے، لہٰذا آپ کے دل کو تکلیف ہونے کی وجہ سے آپ ان کو چھوڑیں گے تو آپ کو نقصان ہو گا ان کی نا جائز بات نہیں ماننی ہے اور ان کی نا جائز باتوں کی وجہ سے ان کی جائز باتوں سے انکار نہیں کرنا۔ یہ دونوں باتیں اپنی جگہ پر ضروری ہیں لہٰذا آپ کی پہلی بات صحیح ہے، دوسری بات آپ کی صحیح نہیں ہے۔ خدمت سے طبعیت بھاگتی ہے، تو ٹھیک ہے بہت سارے لوگوں کی خدمت سے طبیعت بھاگتی ہے یہ تو کوئی ایسی بات نہیں ہے تکلیف سے تو نفس بھاگتا ہے تو آپ اپنے نفس کو منوا لیں اور جو ان کا جائز حق ہے ان کو دیں اور نا جائز بات نہ مانیں۔
سوال نمبر14:
حضرت جی! "سُبحَانَ اللہِ وَ بِحَمدِہٖ، سُبحَانَ اللہِ العَظِیم" یہ ذکر بھی کبھی کبھار کر سکتے ہیں؟
جواب:
یہ تو اصل میں مسنون اذکار ہیں، ان کی اجازت آپ ﷺ کی طرف سے ہے، لہذا اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ لیکن میں صرف آپ کو ایک بات سناتا ہوں حدیث شریف ہے آپ ﷺ نے فرمایا: دین کو تم نہیں تھکا سکتے دین تمھیں تھکا دے گا تو بس قریب رہو، خوش خبری حاصل کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فضائل تو بے شمار ہیں اور ہر چیز کے فضائل ہیں تو ایک وقت میں سارے کام تو آپ کر نہیں سکتے۔ لہٰذا جو میں نے آپ کو دیا ہے یہ گلدستہ ہے، تو بس گلدستہ گلدستہ ہی ہے باقی چیزوں کو ہم غلط نہیں کہتے، وہ بھی بہت اونچی ہیں لیکن ظاہر ہے آپ کے لئے بہتریں چیزیں سیلکٹ کی گئی ہیں۔ دیکھو! ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ‘‘، اَفْضَلُ الذِکْر ہے، ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ اور درود شریف کا آپ ﷺ نے خود خصوصی شان سے حکم فرمایا اور استغفار ہماری ضرورت ہے، اس کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہے۔ آپ ﷺ کے پاس ایک صحابی آئے تھے اور آپ ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں بس زیادہ باتیں میں عمل میں نہیں لا سکتا، آپ ﷺ مجھے وہ باتیں بتائیں جو مختصر ہوں، تو آپ نے چند باتیں بتائیں تھیں۔ اس صحابی نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ میں اس سے نہ کم کروں گا نہ زیادہ کروں گا۔ پھر آپ ﷺ نے اس کے جانے کے بعد فرمایا کہ اگر یہ اپنی بات کو پورا کرنے میں کامیاب رہا تو یہ جنتی ہے۔ کیا خیال ہے جتنی چیزیں ان کو بتائی گئی تھیں اس کے علاوہ بھی چیزیں تھیں ناں، لیکن اس کی کامیابی اس میں ہی تھی۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ