اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کے بارے میں بات ہوتی ہے اور حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سے آج سولہواں مقالہ پیش کیا جا رہا ہے، اس کا ایک حصہ ’’دعواتِ ماثوره کے بیان میں‘‘ بیان ہو رہا ہے۔ چونکہ ہم پہلے اس میں سے کچھ حصہ بیان کر چکے ہیں، اس لئے اب وہاں سے شروع کرتے ہیں، جہاں ختم ہوا تھا۔
متن:
اور ابو سلیمان الدارمی نے کہا ہے کہ جب تم میں سے کوئی حاجت اللہ تعالیٰ سے پورا کرنے کے لئے سوال کرنا چاہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کثرت سے درود پڑھے اور پھر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت کی دعا کرے اور پھر کثرت سے درود کہے۔ اللہ تعالیٰ درود کو قبول کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بہت کریم ہے۔ ان درودوں کے درمیان میں کی ہوئی دُعا بھی قبول فرمائے گا۔
تشریح:
ہم بھی اس پر عمل کر لیتے ہیں۔ درود شریف پڑھ لیں: ’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّبِارِکْ وَسَلِّمْ‘‘۔ اے اللہ! تو ہم سے راضی ہو جا۔ دونوں جہاں میں کامیابیاں، عافیتیں، نعمتیں نصیب فرما۔ اپنی رضائے تام نصیب فرما۔ ’’وَصَلَّی اللہُ عَلٰی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ‘‘۔ کہتے ہیں کہ جب کوئی فضیلت انسان سن کر فوراً عمل کر لے، تو اسے اس عمل کا نور نصیب ہو جاتا ہے۔
متن:
"اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ کُلَّمَا ذَکَرَہُ الذَّاکِرُوْنَ اَللّٰھُمّ صَلِّ عَلَیْہِ کُلَّمَا غَفَلَ عَنْ ذِکْرِہِ الْغَافِلُوْنَ وَسَلِّمْ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا بِحَقِّہٖ عِنْدَکَ ادْفَعْ عَنِ الْخَلْقِ مَا نَزَلَ بِہِمْ وَلَا تُسَلِّطْ عَلَیْھِمْ مَّنْ لَّا یَرْحَمُھُمْ فَقَدْ حَلَّ بِہِمْ مَا لَا یَرْفَعُہٗ غَیْرُکَ وَلَا یَدْفَعُہٗ سِوَاکَ اَللّٰھُمَّ فَرِّجْ عَلَیْنَا یَا کَرِیْمُ یَا أَرْحَمَ الرَّحِمِیْنَ"۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ ہر دُعا اُس وقت تک پسِ پردہ رہتی ہے جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود نہ کہا جائے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہر دُعا آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتی ہے اُس وقت تک کہ جس وقت تک رسول اکرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود نہ بھیجا جائے۔ (مشکاة المصابیح، باب الصلاة علی النبي صلی الله علیه وسلم، الفصل الثالث، رقم الحدیث: 938)
ایک شخص کی خواہش تھی کہ اس کو عزت اور مال و دولت حاصل ہو، وہ سید السادات کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ عبارت لکھ کر اُسے دی گئی: "اَللّھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ بِأَنَّکَ أَنْتَ اللہُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌ أَنْ تُعَزِّرَنِيْ وَتَقْضِيَ حَاجَتِيِ وَتَصْلِحَ شَأْنِيْ کُلَّہٗ وَتُغْنِيَنِيْ وَتَکْفِيَنِيْ مُھِمِّيْ" اور اگر سفر پر جانا چاہے تو اس دعا کا اضافہ کرے: "وَتُرْجِعَنِيْ مِنْ سَفَرِيْ إِلٰی وَطَنِيْ سَالِمًا وَّ غَانِمًا وَّصَلَّى اللہُ تَعَالیٰ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہٖ وَأَصْحَابِہٖ أَجْمَعِیْنَ"
دعا جو کہ اسمائے اعظم اور اعلی پر مشتمل ہے۔ از تالیف سید السادات منبع العلم و العبادات نفع اللہ المسلمین بطول بقائہٖ:
"اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکَ وَسَلِّمْ وَعَلٰی جَمِیْعِ الْأَنْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ أَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ بِأَنَّکَ أَنْتَ اللہُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌ یَّا ھُوَ یَا مَنْ ھُوَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ اَللّٰھُمَّ أَسْئَلُکَ بِأَنَّ لَکَ الْحَمْدُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ اَللّٰھُمَّ إِنِّيّْ أَتَوَسَّلُ بِاسْمِکَ الْعَظِیْمِ الَّذِيْ فِيْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ: ﴿وَإِلٰھُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَّا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ﴾ إِلٰہِيْ أَطْلُبُ بِاسْمِکَ الَّذِيْ فِيْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ: ﴿الٓمٓ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ﴾ یَا ھُوَ یَا مَنْ لَّا ھُوَ إِلَّا ھُوَ یَا مَنْ ھُوَ إِلَّا ھُوَ یَا مَنْ ھُوَ وَبِہٖ کُلِّہٖ یَا اَللہُ یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ یَا الۤمۤ یَا الۤمۤصۤ یَا الۤمۤر یا الۤر یَا کھٰیٰعص یَا طٰہٰ یَا طۤسۤمۤ یَا طٰسۤ یَا یٰسٓ یَا صۤ یَا حٰمۤ یَا حٰمۤعۤسۤقۤ یَا قۤ بِأَنَّ اللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ اَللہُ اَللہُ اَللہُ الّذِيْ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ یَا وَدُوْدُ یَا ذَا الْعَرْشِ الْمَجِیْدِ یَا مُبْدِئُ یَا مُعِیْدُ یَا فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ أَسْئَلُکَ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِيْ مَلَأَ أَرْکَانَ عَرْشِکَ وَأَسْئَلُکَ بِقُدْرَتِکَ الَّتِيْ قَدَّرْتَ بِھَا عَلٰی جَمِیْعِ خَلْقِکَ وَبِرَحْمَتِکَ إِلٰہِيْ وَسِعْتَ عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ یَا لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ یَا مُغِیْثُ أَغِثْنِيْ یَا مُغِیْثُ أَغِثْنِيْ وَأَسْئَلُکَ بِدُعَاءِ ذَي النُّوْنِ لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظَّلِمِیْنَ أَنْ تَکْفِيَنِيْ مُھِمِّيْ وَتَقْضِيَ حَاجَتِيْ فِيْ دِیْنِيْ وَدُنْیَايَ وَاٰخِرَتِيْ وَصَلَّى اللہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ وَأَصْحَابِہٖ وَعِزَّتِہٖ وَعَلٰی جَمِیْعِ الْأَنْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ"
جو حاجت بھی ہو وہ روا ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
بعض مشائخ سے فراخی رزق و معیشت کے بارے میں روایت ہے کہ سونے چاندی یا ریشم سے، اور اگر یہ نہ ہو تو زرد کاغذ پر لکھ لے اور اس کو بٹوے یا سامان میں رکھے، ایک ہفتہ نہیں گزرے گا کہ برکت ہوگی جو کہ نہایت محبوب ہے۔ "یَا اَللہُ الرَّقِیْبُ الرَّؤُوْفُ الرَّحِیْمُ الْحَافِظُ الْعَلِیْمُ یَا اَللہُ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ یَا اَللہُ الْقَائِمُ عَلٰی کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ یَا مُسَبِّبَ الْأَسْبَابِ یَا مُفَتِّحَ الْأَبْوَابِ افْتَحْ عَلَيَّ وَعَلٰی صَاحِبِ کِتَابِيْ ھٰذَا فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ أَبْوَابَ فَضْلِکَ وَأَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَأَبْوَابَ رِزْقِکَ وَأَبْوَابَ کَرَامَتِکَ وَأَبْوَابَ نِعْمَتِکَ وَأَبْوَابَ عَطِیَّتِکَ وَأَبْوَابَ بَرْکَتِکَ وَأَبْوَابَ مَرْضَاتِکَ وَأَبْوَابَ الْعِنَایَۃِ وَأَبْوَابَ الْقَنَاعَۃِ وَأَبْوَابَ الْحَسَنَۃِ اللّٰھُمَّ إِنَّکَ قَدْ تَکَفَّلْتَ بِرِزْقِ کُلِّ دَابَّۃٍ أَنْتَ اٰخِذٌ بِنَاصِیَتِھَا وَیَا خَیْرَ مَنْ سُئِلَ وَیَا أَفْضَلَ مَنْ أَعْطٰی وَیَا خَیْرَ مَنْ دُعِيَ اللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ لِنَفْسِيْ وَلِجَمِیْعِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلِصَاحِبِ کِتَابِيْ ھٰذَا فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ مِّنْ فَضْلِکَ الْوَاسِعِ رِزْقًا وَّاسِعًا حَلَالًا طَیِّبًا مُّبِارِکًا ھَنِیْئًا مَّرِیْئًا بِلَا کَدٍّ وَّلَا مَنِّ أَحَدٍ مِّنْ خَلْقِکَ فَإِنَّکَ قُلْتَ وَاسْئَلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہٖ فَمِنْ فَضْلِکَ رَجَاءً مِّنْ عَطَیَّتِکَ أَرْجُوْا یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا عَلِيُّ یَا عَظِیْمُ یَا کَرِیْمُ یَا حَنَّانُ یَا مَنَّانُ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ یَا خَیْرَ الرَّازِقِیْنَ وَیَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ" برکت کے لئے کیسہ، بٹوہ یا تھیلے میں رکھے۔ واللہ اعلم۔
اگر کوئی بادشاہ حاکم یا ظالم سے ڈرے تو کہے: "اَللہُ أَکْبَرُ اَللہُ أَکْبَرُ أَعَزُّ مِنْ خَلْقِہٖ جَمِیْعًا اَللہُ أَعَزُّ مِمَّا أَخَافُ وَأَحْذَرُ وَأَعُوْذُ بِاللہِ الَّذِيْ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ مُمْسِکُ السَّمَاءِ أَنْ تَقَعَ عَلَی الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِہٖ مِنْ شَرِّ عَبْدِکَ فُلَانٍ وَّجُنُوْدِہٖ وَأَتْبَاعِہٖ وَأَشْیَاعِہٖ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ اَللّٰھُمَّ کُنْ لِّيْ جَارًا مِّنْ شَرِّھِمْ جَلَّ ثَنَاءُکَ وَعَزَّ جَارُکَ وَلَآ إِلٰہَ غَیْرُکَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَعُوْذُ بِکَ أَنْ یَّفْرُطَ عَلَیْنَا أَحَدٌ مِّنْھُمْ أَوْ أَنْ یَّطْغٰی اَللّٰھُمَّ إِلٰہَ جِبْرَائِیْلَ وَمِیْکَائِیْلَ وَإِسْرَافِیْلَ وَإِلٰہَ إِبْرَاھِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحٰقَ عَافِنِيْ وَلَا تُسَلِّطْ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ عَلَيَّ بِشَيْءٍ لَّا طَاقَۃَ لِيْ بِہٖ رَضِیْتُ بِاللہِ رَبًّا وَّبِالْإِسْلَامِ دِیْنًا وَّ بِمُحَمَّدٍ نَّبِیًّا وَّبِالْقُرْاٰنِ حَکَمًا وَّإِمَامًا"۔
اور اگر جنات یا شیطان سے ڈرے یا کسی دوسری چیز سے خوف کھائے تو کہے کہ "أَعُوْذُ بِوَجْہِ اللہِ الْکَرِیْمِ وَبِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ لَا یُجَاوِزُھُنَّ بِرٌّ وَّلَا فَاجِرٌ مِّنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ وَمِنْ شَرِّ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمِنْ شَرِّ مَا یَعْرُجُ فِیْھَا وَمِنْ شَرِّ مَا ذَرَأَ فِي الْأَرْضِ وَمِنْ شَرِّ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ طَارِقٍ إِلَّا طَارِقٌ یَّطْرُقُ بِخَیْرٍ یَّا رَحْمٰنُ"۔
اور اگر کوئی مصیبت پیش آئے یا مشکل آن پڑے تو کہے: "حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ عَلَی اللہِ تَوَکَّلْنَا"۔ جس نے استغفار پڑھنا اپنے آپ پر لازم کیا تو اللہ تعالیٰ اُس کو ہر مصیبت اور تنگی سے نکال لائے گا اور ہر مشکل حل ہوگی۔
تشریح:
یہاں بہت ساری چیزیں بتائی جا رہی ہیں، یہ سب تجرباتی ہیں اور برکات کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں، جو قرآن پاک سے براہِ راست ثابت ہیں۔ لہٰذا ان کا مقام تو سب سے اونچا ہے۔ مثلاً: استغفار کے متعلق آیا کہ جو اپنے اوپر استغفار کو لازم کر لے، اس کی ساری مشکلات حل ہو جائیں گی۔ قرآن میں ہے: ﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا وَّیُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًا﴾ (نوح: 10-13)
ترجمہ: ’’چنانچہ میں نے کہا کہ: اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، یقین جانو کہ وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔ اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا، اور تمہارے لئے باغات پیدا کرے گا، اور تمہاری خاطر نہریں مہیا کردے گا۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی عظمت سے بالکل نہیں ڈرتے؟‘‘۔
ساری چیزیں اس میں آ گئیں۔ اگر کوئی استغفار قلبی کیفیت کے ساتھ پڑھے، تو اس کے یہ فائدے ہیں۔ کیونکہ ایک ہے صرف زبان ہلانا۔ صرف زبان ہلانا تو مفید نہیں ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسے ہے، جیسے نماز کے بارے میں قرآن کی نص ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِؕ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾ (العنکبوت: 45)
ترجمہ: ’’بیشک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے‘‘۔
نماز کی یہ فضیلت قرآن سے ثابت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ لیکن ہم جس بے اعتنائی سے اور جس طریقہ سے نماز پڑھتے ہیں، اس میں سے اثر نکل جاتا ہے، وہ اثر اس میں نہیں ہوتا۔ اگرچہ نماز میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن جو ہماری نماز ہے، اس میں اثر نہیں ہے۔ چنانچہ یہ دعائیں بہت قوی ہیں اور بہت اچھی دعائیں ہیں، ان میں سب کچھ ہے، لیکن ان کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہے؟ آیا ان کو قلبی طور پر پڑھتے ہیں یا محض رسمی الفاظ کے طور پر پڑھتے ہیں؟ لوگوں نے صرف رسمی الفاظ کے طور پر پڑھنا شروع کیا ہے، اس لئے مسئلہ ہوتا ہے۔ ایک دفعہ کوئی بزرگ جا رہے تھے، راستہ میں کچھ طالب علم بیٹھے خشک روٹی پانی کے ساتھ کھا رہے تھے۔ ان بیچاروں کے پاس اور کچھ نہیں تھا، کوئی فتوحات نہیں تھیں۔ اس بزرگ نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ حضرت! کچھ ہے نہیں، تو کیا کریں؟ یہ روٹی بھی مل جائے، تو بڑی بات ہے۔ وہ بزرگ بھی بیٹھ گئے اور پڑھا: ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ اور پانی کا جو گھڑا پڑا تھا، اس پر دم کر دیا، وہ سارا شہد بن گیا۔ انہوں نے کہا: یہ ایک ہفتہ کے لئے آپ کے لئے کافی ہے، اس کے ساتھ روٹی کھاؤ۔ اگلے ہفتے جب سفر سے آؤں گا، تو ان شاء اللہ پھر آپ کے لئے دم کر دوں گا۔ یہ کہہ کر چلے گئے۔ طالب علم ذرا اپنے مزاج کے ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ کون سا مشکل کام ہے۔ ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ تو سب کو آتی ہے۔ لہٰذا انہوں نے ایک دو دن میں سارا شہد چاٹ لیا۔ گھڑا رکھ دیا، اور ایک نے پڑھا: ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ اور گھڑے پر دم کر دیا۔ مگر گھڑے میں پانی کا پانی ہے۔ پھر دوسرا آتا ہے: ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ پڑھتا ہے اور دم کرتا ہے۔ مگر گھڑے میں پانی کا پانی ہے۔ سب نے دم کر دیا، استادوں نے بھی دم کر لیا، مگر پانی کا پانی پڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا: کمال ہے! یہ تو ہمارے سامنے کا واقعہ ہے، دم کیا اور شہد بن گیا۔ مگر اب نہیں ہوا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ پھر پانی اور روٹی کا سلسلہ چلتا رہا۔ اب اگلی دفعہ جب وہ بزرگ تشریف لائے، تو دیکھا کہ پھر پانی روٹی ہے۔ انہوں نے کہا: میں نے دم تو کر دیا تھا۔ انہوں نے سب واقعہ بتایا کہ اس طرح ہوا۔ انہوں نے کہا: بیٹو! ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ تو وہی ہے۔ منہ دوسرا ہے۔ بس یہی بات ہے کہ منہ بنانا پڑتا ہے۔ اور منہ کو بنانے کے لئے اولاً یہ کام ہے کہ جو پڑھیں، دل سے پڑھیں۔ واقعتاً اگر آپ کی توبہ کی نیت ہے، تو یہ بہت عمدہ نیت ہے۔ آپ کی اس نیت کے اندر جتنا اخلاص ہو گا اور آپ کی تمنا ہو گی کہ اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف کر دے اور اپنے گناہ آپ کے استحضار میں ہوں گے، تو وہ استغفار کامل ہو گا، اس کی وجہ سے بہت ساری چیزیں آپ کے اوپر اللہ تعالیٰ کھولیں گے، نعمتیں آپ کی طرف آئیں گی۔ سارا کچھ آپ کے پاس ہو گا۔ لیکن ہم سارے کام رواجی طور پہ کر رہے ہیں۔ اگر رواجی کے بجائے اصلی طور پہ کرنے لگیں، تو یہ ساری چیزیں موجود ہیں۔ یہ جو اسمِ اعظم کی بات کی ہے: ’’أَنَّہٗ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ‘‘ یہ بالکل ظاہر ہے۔ لیکن کوئی اس کو catch کر سکے، تو پھر ہی ہے۔ دو چیزیں چاہئیں: ایک کلام اور دوسرا صاحبِ کلام۔ جو کلام پڑھنے والا ہے، وہ کون ہے، اللہ کے ساتھ اس کا کس طرح کا تعلق ہے۔ یہ حضرات اللہ تعالیٰ کے سامنے بہت آہ و زاری کر کے اور اپنے نفسوں کو مٹا مٹا کے مانگتے تھے، اسی لئے اللہ پاک نے ان کو نواز دیا۔ لہٰذا اس کے لئے کچھ جذبہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جیسے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید کہیں جا رہے تھے، کاکا صاحب چاہتے تھے کہ نہ جائیں۔ بس کوئی حکمت ہو گی۔ ان صاحب نے کہا کہ ہمارے سارے لوگوں کا کھانا پینا پورا نہیں ہوتا، اس کے لئے کچھ کمانا پڑے گا، اس کے لئے جا رہا ہوں۔ حضرت نے ان کو بادی درد کا اِذن دے دیا اور فرمایا: اس کے ساتھ اپنا کام چلا لیا کرو۔ چنانچہ پھر وہ نہیں گئے۔ کیونکہ دم وغیرہ پر پیسے لینا جائز ہے، کوئی نا جائز تو نہیں ہے۔ ما شاء اللہ ان کی بڑی شہرت ہو گئی، لوگ آتے تھے اور ان سے دم کرواتے تھے اور ان کا سارا کام ہوتا رہا۔ لیکن اس کے لئے پہلے اتنا انجذاب تو پیدا کرو کہ جس سے اہلُ اللہ کی نظر آپ کے اوپر پڑ جائے۔ اگر ان کی نظر پڑ جائے، تو آپ کے لئے کام بن جائے گا، کوئی راستہ بن جائے گا۔ میں جب یہ دعائیں پڑھ رہا تھا، تو یہی بات سمجھ میں آ رہی تھی کہ ان کے ساتھ یہ باتیں ضرور بتانی چاہیں کہ یہ محض الفاظ نہیں ہیں، بلکہ الفاظ کے ساتھ کیفیات بھی ہیں۔ ان کیفیات میں ڈوبی ہوئی ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ اور ’’لَآ إِلٰہِ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلِ اللہِ‘‘ کا مرتبہ کچھ اور ہوتا ہے۔ درود شریف کا مرتبہ کچھ اور ہوتا ہے۔ استغفار کا مرتبہ کچھ اور ہوتا ہے۔ اور ویسے اپنے طور پر کوئی پڑھنا چاہے، تو ٹھیک ہے پڑھتا رہے، پڑھنا منع نہیں ہے، لیکن گلہ بھی نہ کرے۔
متن:
جس نے استغفار پڑھنا اپنے آپ پر لازم کیا تو اللہ تعالیٰ اُس کو ہر مصیبت اور تنگی سے نکال لائے گا اور ہر مشکل حل ہوگی اور جس جگہ سے اُس گمان تک نہ ہو، وہاں سے اُسے رزق نصیب ہو گا۔ اور جو "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ…" پڑھے تو یہ ننانوے امراض کی دوا ہے اور مشکلات کو آسان بنائے گا۔
تشریح:
حدیث شریف میں ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔
متن:
اور جس پر کوئی غم تکلیف یا مشکل کام پیش آئے تو یہ کہے: "لَآإِلٰہَ إِلَّا اللہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ لَآ إِلٰہِ إِلَّا اللہُ الْحَلِیْمُ الْعَظِیْمُ
"لَآإِلٰہَ إِلَّا اللہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ لَآ إِلٰہِ إِلَّا اللہُ الْحَلِیْمُ الْعَظِیْمُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ" پھر اس کے بعد یہ کہے: "لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ الْحَکِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ عِبَادِکَ" (صَحِیْحُ السَّنَدِ لِابْنِ عَاصِمٍ فِی کِتَابِ الدُّعَاءِ) دوسری یہ بھی حل مشکلات کے لئے پڑھا کرے: "حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ۔ وَحَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ اَللہُ رَبِّيْ لَآ اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا"۔ تین بار کہے: "تَوَکَّلْتُ عَلَی الحَيِّ الَّذِيْ لَا یَمُوْتُ وَالْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِي الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا"۔
دیگر:
"اَللّٰھُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْا فَلَا تَکَلْنِيْ إِلیٰ نَفْسِيْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّ أَصْلِحْ لِيْ شَأْنِيْ کُلَّہٗ"۔
دیگر:
"لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ"، یہ سجدہ میں بار بار پڑھے۔ "لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ لَمْ یَدْعُ بِھَا رَجُلٌ مُّسْلِمٌ فِيْ شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللہُ لَہٗ"۔
جس بندے کو غم و حزن گھیر رکھے تو وہ یہ دعا وظیفہ کرے اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے گا: "اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ عَبْدُکَ وَابْنُ أَمَّتِکَ نَاصِیَتِيْ بِیَدِکَ مَاضٍ فِيْ حُکْمِکَ عَدْلٌ فِيْ قَضَاءِکَ أَسْئَلُکَ بِکُلِّ إِسْمٍ لَّکَ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ وَأَنْزَلْتَہٗ فِيْ کِتَابِکَ أَوْ عَلَّمْتَہٗ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ أَوِ اسْتَاْثَرْتَ بِہٖ فِيْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ الْعَظِیْمَ رَبِیْعَ قَلْبِيْ وَنُوْرَ بَصَرِيْ وَجَلَاءَ حُزْنِيْ وَذَھَابَ ھَمِّيْ" اور اللہ تعالیٰ اُس کی مصیبت دور کرے گا۔ اور غم کی بجائے خوشی دے گا۔
اور اگر اس پر مصیبت پڑ جائے تو کہا کرے، بلکہ یہ وظیفہ پڑھا کرے: "إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اَللّٰھُمَّ عِنْدَکَ أَحْتَسِبُ مُصِیْبَتِيْ فَأَجِرْنِيْ فِیْھَا وَأَبْدِلْنِيْ مِنْھَا خَیْرًا، إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اَللّٰھُمَّ أَجِرْنِيْ فِيْ مُصِیْبَتِيْ وَاخْلُفْ لِيْ خَیْرًا مِّنْھَا"۔ اور اگر کوئی کام مشکل پڑ جائے تو یہ کہے: "اَللّٰھُمَّ اسْھَلْ مَا جَعَلْتَہٗ سَھْلًا وَأَنْتَ تَجْعَلُ الْحُزْنَ سَھْلًا إِذَا شِئْتَ"۔
اور جس کسی کو کوئی حاجت پیش آئے خواہ وہ اللہ تعالیٰ سے حاجت ہو یا کسی انسان سے تو اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعت نماز پڑھے اور پھر اللہ تعالیٰ کی ثنا و حمد کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجے اور پھر یہ پڑھے: "لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ أَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْعِصْمَۃَ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ لَا تَدَعْ لِيْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَہٗ وَلَا ھَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَہٗ وَلَا حَاجَۃً ھِيَ لَکَ إِلَّا قَضَیْتَھَا یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ"۔
اور جس کسی کو کوئی ضرورت ہو تو اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت پڑھ کر یہ کہے: "اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَّبِيِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ إِنِّيْ أَتَوَجَّہُ بِکَ إِلٰی رَبِّيْ فِيْ حَاجَتِيْ ھٰذِہٖ لِتَقْضِيَ لِيْ اَللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ"۔
اور جس پر کوئی امر غالب آ جائے تو وہ کہے: "حَسْبِيَ اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ"
آداب الدعا:
دعا کے ارکان، شرائط اور مامورات و منھیات ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ کھانے میں حرام نہ کھائے۔ اسی طرح پینے اور لباس میں بھی حرام سے بچا رہے، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ اخلاص سے پیش آئے، جسم و لباس وغیرہ کو پاک و صاف رکھے۔ قبلہ کی طرح رخ کرے، نماز پڑھا کرے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا کرے اور پیغمبر پر درود پڑھے، اور ہاتھوں کو کھول کر اوپر کندھوں کے محاذ تک اُٹھانا اور اُن کو کھلے رکھنا، عاجزی کرنا اور عاجزی سے بیٹھنا، آسمان کی جانب نظر اُٹھا کر نہ دیکھنا، یعنی جب نماز میں دعا کرے۔ اللہ تعالیٰ سے اُس کے اسماء حُسنیٰ سے سوال کرنا اور اُس کی اعلٰی صفتوں کے ساتھ۔ دعا کرتے وقت سجع اور تکلف نہ کرے اور نہ نغمہ سرائی کے ساتھ۔
تشریح:
نغمہ سرائی کے ساتھ دعا کرنا، آج کل یہ بہت بڑا فتنہ ہے۔ آدمی حیران ہوتا ہے کہ کس سے مانگ رہا ہے۔ ﴿اَللّٰھُمَّ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً﴾ اس کو لوگ طرز لگا کر پڑھتے ہیں، میں نے صحیح طور پہ مانگنے والے بہت کم لوگ دیکھے ہیں۔ مانگنے کا انداز وہ ہونا چاہئے، جیسے ایک عام بھکاری کسی سے بھیک مانگ رہا ہوتا ہے۔ یہ دعا کا طریقہ ہے۔ بھکاری اپنی شکل بھی بنا لیتا ہے، تمام چیزیں کر لیتا ہے۔ وہ جتنی عاجزی لا سکتا ہے، لاتا ہے۔ چاہے وہ واقعی اس کا عجز ہو یا اس نے بناوٹی بنا رکھا ہو، لیکن بہر حال! کرتا تو ہے۔ کبھی بھی کسی بھکاری نے اس طرح کیا ہے کہ راستے میں بیٹھا ہو اور طرز لگا کر کہہ رہا ہو کہ مجھے دو روپے دے دو، مجھے دو روپے دے دو۔ اگر کوئی اس طرح کرے گا، تو اس کو کوئی نہیں دے گا۔ یہ دعا کے ساتھ مذاق ہے۔ اور ہاتھوں کو جس طرح اٹھاتے ہیں، ادھر ادھر دیکھتے ہیں اور ہاتھوں کو آپس میں مروڑ رہے ہوتے ہیں۔ یہ دعا نہیں ہے، الفاظ چاہے کتنے اونچے آپ استعمال کر لیں۔ کیونکہ الفاظ میں جان آئے گی آپ کی توجہ اور اخلاص کے ذریعے سے۔ جتنی آپ کی توجہ الی اللہ ہو گی، اتنی ہی الفاظ میں جان آئے گی۔ ورنہ الفاظ ہی الفاظ رہیں گے۔
متن:
دعا کے ارکان، شرائط اور مامورات و منھیات ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ کھانے میں حرام نہ کھائے۔ اسی طرح پینے اور لباس میں بھی حرام سے بچا رہے، اللہ اور سے پیش آئے، جسم و لباس وغیرہ کو پاک و صاف رکھے۔ قبلہ کی طرح رخ کرے، نماز پڑھا کرے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا کرے اور پیغمبر پر درود پڑھے، اور ہاتھوں کو کھول کر اوپر کندھوں کے محاذ تک اُٹھانا اور اُن کو کھلے رکھنا، عاجزی کرنا اور عاجزی سے بیٹھنا، آسمان کی جانب نظر اُٹھا کر نہ دیکھنا، یعنی جب نماز میں دعا کرے۔ اللہ تعالیٰ سے اُس کے اسماء حُسنیٰ سے سوال کرنا اور اُس کی اعلٰی صفتوں کے ساتھ۔ دعا کرتے وقت سجع اور تکلف نہ کرے اور نہ نغمہ سرائی کے ساتھ۔ انبیا اور اولیا کا وسیلہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لئے بنائے اور آواز کو پست رکھے، گناہوں کا اعتراف کرے اور صحیح ماثور دعائیں جو کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہوں پڑھا کرے کیونکہ ان میں غیر اللہ سے حاجت روائی کی طلب نہیں۔ اور جامع دعائیں مانگی جائیں، ابتدا اپنے آپ سے کرے والدین اور مسلمان بھائیوں کے لئے دعا کرے اور یہ کہ اپنے آپ کو دعاؤں میں مخصوص نہ کرے اگر وہ امام ہو۔ پورے یقین، رغبت اور اعتماد سے دعا مانگے۔ دل کی گہرائیوں سے نہایت اجتہاد کے ساتھ کہ دل و دماغ حاضر ہوں اور اپنی دعا پر یقین و امید رکھے۔ دعا کا بار بار تکرار کرے، کم از کم تین مرتبہ پڑھے۔ عاجزی اور الحاح سے دعا مانگے، کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دُعا نہ کرے، اور نہ کسی ایسی بات کی دعا کرے جس سے فارغ ہوا ہو۔ محال و نا ممکن العمل باتوں کی دعا نہ کرے
تشریح:
یعنی جن چیزوں کو اسباب کے درجے میں محال سمجھا جائے، ان کی دعا نہ کرے، یہ بے ادبی ہے۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔
متن:
اور نہ وہ دُعائیں جن سے منع کیا گیا ہو۔ نہ دعا کرنے میں جھگڑا کرے اور نہ سب چیزوں کے لئے دعا کرے۔ دعا کرنے والا اور سننے والا آمین کہے اور دعا سے فارغ ہونے کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیر لے۔ حاجت براری میں عجلت نہ کرے اور نہ یہ شکوہ کر کے کہے کہ میں نے بہت دعائیں کیں مگر وہ قبول نہ ہوئیں۔
اجابت دعا کے اوقات:
یعنی وہ اوقات جن میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ ایک لیلۃ القدر، عرفہ کے دن، رمضان کا مہینہ، جمعہ کی رات اور جمعہ کا دن، آدھی رات، رات کا دوسرا اور تیسرا حصّہ، پہلا اور آخری حصہ، یا آدھی رات، صُبح کا وقت اور جمعہ کا وقت۔ ان اوقات میں قبولیت اور اجابت کی زیادہ اُمید کی جا سکتی ہے، وہ وقت جب امام خطبہ کے لئے بیٹھ جائے، جس وقت تک نماز ختم ہو جائے، نماز کی ابتداء سے سلام تک، اور دُعا کرنے والا کھڑا ہو کر درود شریف پڑھتا رہے۔ اور کہتے ہیں کہ عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک، اور کہتے ہیں کہ جمعہ کی آخری ساعتوں میں، اور کہتے ہیں فجر کی نماز کی بعد سورج نکلنے تک، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ سورج طلوع ہونے کے بعد تک۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سورج کے میلان ہونے کے وقت اور اشارہ کیا ایک گز کی طرف۔ اور اجابت کا وقت یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمعہ کی نماز میں امام فاتحہ پڑھے تو جمعے کی طور پر آمین کہی جائے تو اس وقت تک ساعت اجابت ہوتی ہے۔ یہ اُن احادیث کی رو سے ہیں جن کی صحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہو گئی ہے اور جن کو میں نے دوسری جگہ جمع کیا ہے۔
اجابت اور قبولیت کے حالات:
نماز کے لئے بلاوے (اذان) کے وقت، اذان اور اقامت کے درمیانی وقفے میں، تکلیف اور سختی کے وقت اور میدان جہاد میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں صف بندی کے وقت، اور عین لڑائی کے وقت رو برو جنگ کے وقت، اور فرض نمازوں کے بعد، اور سجدے کی حالت میں اور تلاوت قرآن کے بعد خصوصًا ختم القرآن کے بعد، زمزم شریف کے پانی پینے کے وقت، مردے کے سامنے حاضری کے وقت، مرغ کی اذان کے وقت، مسلمانوں کے اجتماع کے وقت، ذکر کی مجلس کے وقت اور امام کے ﴿وَلَا الضَّالِّیْنَ﴾ کہنے کے بعد، اور مردے کی آنکھیں بند ہونے اور دفن کرنے کے وقت اور نماز کی اقامت کے وقت، بارش کی آمد کے وقت۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اپنی کتاب ''الاُم'' میں بیان فرمایا ہے۔ اور اُس کو مُرسلًا روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ میں نے اس کو بہت لوگوں سے سُن کر یاد کیا ہے۔ اور جس وقت خانہ کعبہ کو پہلی بار دیکھا جائے، اور سورۂ انعام میں جلالتین کے درمیان، یہ ہم نے بہت سے لوگوں سے یاد کیا ہے اور تجربہ شدہ ہے اور حافظ عبد الرزاق الاسعی نے اپنی تفسیر میں شیخ عماد القدسی سے نقل کیا ہے۔
وہ مقامات جہاں قبولیت دعا ہوتی ہے:
حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکتوب میں جو کہ اہل مکہ کو بھیجا گیا تھا، فرمایا کہ ان پندرہ مقامات میں دعا قبول ہوتی ہے: (1) طواف میں، (2) ملتزم میں، (3) میزاب رحمت کے نیچے، (4) بیت کے اندر، (5) زمزم شریف کے پاس، (6) صفا پر، (7) مروہ پر، (8) سعی میں، (9) مقام ابراہیم کے پیچھے، (10) عرفات میں، (11) مزدلفہ میں، (12) منیٰ، (13-14-15) تینوں جمروں کے پاس۔ ملتزم کے بارے میں مسلسل احادیث وارد ہوئی ہیں۔
وہ اشخاص جن کی دعا قبول ہوتی ہیں:
جو شخص خطرے میں ہو، مظلوم کی دُعا قبول ہوتی ہے اگرچہ فاجر ہو یا کافر ہو۔ والد کی دعا، امام عادل کی دعا، صالح آدمی کی اور نیک والد کی دعا اپنے بیٹے کے لئے، روزہ دار کی دعا جب وہ افطار کرنے لگے، ایک مسلمان کی دعا جو ظلم اور قطع رحمی کے لئے نہ ہو اور جو یہ نہ کہا کرے کہ میں نے دُعا کی مگر قبول نہ ہوئی۔ دن رات میں ہر بندے کی ایک دعا قبول ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا وہ اسم جس کو کہہ کر اگر دعا مانگی جائے تو دعا قبول ہوتی ہے اور جب کوئی سوال اللہ تعالیٰ سے کیا جاتا ہے تو وہ اُس کو عطا کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے: "لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَّ الظّٰلِمِیْنَ"۔ اور اللہ تعالیٰ کا وہ نام جس کے ذریعے اگر سوال کیا جائے تو عطا کیا جاتا ہے اور اگر دعا کی جائے تو قبول کی جاتی ہے یہ ہے: "اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ بِأَنَّکَ أَنْتَ اللہُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌ اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ بِأَنَّکَ أَنْتَ اللہُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌ"۔ اور اللہ تعالیٰ کا وہ مقدس نام جس کے ذریعے دعا کی جائے تو قبول کی جاتی ہے اور جب سوال کیا جائے تو عنایت کی جاتی ہے: "اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ بِأَنَّ لَکَ الْحَمْدُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَکَ لَآ شَرِیْکَ لَکَ، الْحَنَّانُ الْمَنَّانُ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ"۔ اور اسم اعظم قرآن کی تین سورتوں میں ہے، سورۂ بقرۃ، آل عمران اور سورہ طٰہٰ۔ حضرت قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ میرے نزدیک اسم اعظم "أَنَّہٗ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ" یعنی دو حدیثوں میں جمع ہوا ہے۔ اور علامہ واحدی کی کتاب الدعا میں عبد الاعلیٰ سے بھی یہ روایت ہے۔ اور یہ قاسم، عبد الرحمٰن کے بیٹے اور تابعی ہیں۔ یہ حضرت ابو اُمامہ کے صاحب ہیں اور صدوق یعنی راست گو ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو سُنا جو کہہ رہا تھا: "یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہاری دعا قبول ہو گئی۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصين، رقم الصفحۃ: 60، دار القلم بیروت)
اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو اُن لوگوں پر موکل ہیں جو کہتے ہیں کہ "یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ"، جو شخص یہ تین دفعہ پڑھ لے تو فرشتہ اُس کو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری طرف متوجہ ہو گیا۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصين، رقم الصفحۃ: 79، دار القلم بیروت)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کے پاس سے گزر فرمایا، وہ کہہ رہا تھا: "یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس کو ارشاد فرمایا کہ سوال کرو اللہ تعالیٰ تمہاری جانب دیکھتا ہے اور متوجہ ہے۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصین بتغییر یسیر، رقم الصفحۃ: 79، دار القلم بیروت)
جو شخص اللہ تعالیٰ سے تین دفعہ جنت طلب کرے تو دوزخ پکار اٹھتی ہے کہ اے اللہ تعالیٰ! اس کو دوزخ سے بچائے رکھ۔ جو شخص یہ پانچ کلمے کہہ کر دُعا کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کو ضرور وہ عطا فرماتا ہے جس کا کہ وہ سوال کرتا ہے۔ "لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَآ شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ قَدِیْرٌ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ لَآ حَوْلَ وَلَآ قَوَّۃَ إِلَّا بِاللہِ" (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصين، رقم الصفحۃ: 78، دار القلم بیروت)
حضرت عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اپنی اہلیہ کے پاس ہم بستری کرنے کے لئے آنے کا ارادہ کرے تو یہ کہے: "بِسْمِ اللہِ اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا" تو اس کے نتیجے میں جو اولاد ہو جائے تو اُس کو شیطان کبھی ضرر نہیں پہنچائے۔ گا۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصين، رقم الصفحۃ: 261، دار القلم بیروت)
خولۃ بنت حکیم رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سُنا ہے کہ کسی شخص نے آپ سے عرض کی کہ یا رسول اللہ! مجھے بچھو نے کاٹا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم یہ کہتے کہ "أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ" تو تم کو کچھ ضرر اور تکلیف نہ پہنچاتا۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصین، رقم الصفحۃ: 96، دار القلم بیروت)
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہلال یعنی نیا چاند دیکھتے تھے تو فرماتے: "اَللّٰھُمَّ أَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْیُمْنِ وَالْإِیْمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالسَّلَامَۃِ وَرَبِّيْ وَرَبُّکَ اللہُ" (سنن الترمذي، ابواب الدعوات، باب: ما یقول عند رؤیۃ الھلال، رقم الحديث: 3451)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس پر مصائب زیادہ ہو جائیں تو یہ کہے کہ "اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ وَفِيْ قَبْضَتِکَ نَاصِیَتِيْ بِیَدِکَ مَاضٍ فِيْ حُکْمِکَ عَدْلٌ فِيْ قَضَاءِکَ أَسْئَلُکَ بِکُلِّ إِسْمٍ ھُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہٖ فِيْ مَکْنُوْنِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْاٰنَ رَبِیْعَ قَلْبِيْ وَجِلَاءَ ھَمِّيْ وَغَمِّيْ"۔ اور جب بندہ اس کو صرف کہہ ڈالے تو اللہ تعالیٰ اُس کا غم دور کرے گا اور اُس کو خوشی میں تبدیل کرے گا۔ اس کو رزین نے روایت کیا ہے۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصین، رقم الصفحۃ: 87، دار القلم بیروت)
قتادہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہلال کو دیکھتے تھے تو فرماتے تھے: "ھِلَالُ خَیْرٍ وَّ رُشْدٍ ھِلَالُ خَیْرٍ وَّ رُشْدٍ ھِلَالُ خَیْرٍ وَّ رُشْدٍ اٰمَنْتُ بِالَّذِيْ خَلَقَکَ"۔ یہ تین بار پڑھتے پھر فرماتے کہ "اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ ذَھَبَ بِشَہْرِ کَذَا" یعنی حمد ہے اُس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لئے جس نے یہ مہینہ (نام لیتے) خیر سے گزارا اور یہ مہینہ (نام لیتے) لے آیا۔ اس کو أبو داوٗد نے روایت کیا۔ (رقم الحدیث: 5092)
حضرت انس رضی اللہ عنہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ آپ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے: "اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ" متفق علیہ (رقم الحديث: 6389)
ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم طعام تناول فرمانے سے فارغ ہو جاتے تو فرماتے: "اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلْنَا مُسْلِمِیْنَ" رواہ الترمذي و أبو داوٗد و ابن ماجہ (رقم الحديث: 3457)
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "أَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ بِمَنْزِلَةِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ" یعنی کھانا کھا کر شکر کرنے والا صبر کرنے والے روزہ دار کی مانند ہے۔ اس حدیث کو ترمذی ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ (رقم الحدیث: 2486)
حضرت ابی ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے, کہ جب رسول اللہ کھانا تناول فرماتے تھے یا کوئی مشروب نوش فرماتے تھے تو فرماتے: "اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ أَطْعَمَ وَسَقٰی وَسَوَّغَهٗ وَجَعَلَ لَہٗ مَخْرَجًا"۔ رواہ أبو داوٗد
حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے تورات شریف میں پڑھا تھا کہ طعام میں برکت جب ہوتی ہے کہ اُس کے بعد وضو کیا جائے۔ میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ذکر کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: "بَرَکَۃُ الطَّعَامِ اَلْوُضُوْءُ قَبْلَہٗ وَالْوُضُوْءُ بَعْدَہٗ" کہ طعام کی برکت اس میں ہے کہ اس سے قبل بھی وضو کیا جائے اور بعد میں بھی کیا جائے۔ رواہ الترمذی (رقم الحديث: 1846)
حضرت نبیشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے کسی برتن میں کھانا کھایا تو چاہیے کہ اس کو صاف کرے۔ وہ برتن اس کی مغفرت کے لئے دعا طلب کرتا ہے۔ اس کو ترمذی، احمد، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ (رقم الحدیث: 1804)
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے ایسی حالت میں رات گزاری کہ اس کا ہاتھ گندہ ہو اور اُس کو نہ دھوئے، اور پھر اُس کو کچھ ہو جائے تو وہ صرف اپنے آپ کو ملامت کرے۔ ترمذی و احمد و ابن ماجہ اور أبو داوٗد نے روایت کیا ہے۔ (رقم الحدیث: 1859)
تشریح:
اللہ جل شانہ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے بزرگوں کے یہ تجربات بہت قیمتی ہیں، لیکن ان کی روح کو جاننا چاہئے، صرف باتوں کو نہیں۔ اگر کوئی صرف باتیں کرتا ہے، تو باتیں ہی ملیں گی۔ لیکن اگر کوئی روح لے گا، تو ان کی روح مل جائے گی۔ اور ان کی روح یہ ہے کہ ایک تو حلال اور حرام کا خیال رکھے۔ پاکی اور نا پاکی کا خیال رکھے۔ نماز کو صحیح طریقے سے پڑھے۔ اوقاتِ دعا کو پہچان لے، مقاماتِ دعا کو بھی پہچان لے اور آدابِ دعا کو بھی پہچان لے۔ اس طریقے سے جو دعائیں کی جائیں گی، چاہے وہ کتنی سادہ دعائیں کیوں نہ ہوں، کام ہو جائے گا۔ مثلاً: ابھی ہم نے سنا کہ آپ ﷺ کثرت سے یہ دعا فرماتے تھے: ’’اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِي الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ (بخاری شریف، رقم الحديث: 6389) یہ کتنی آسان دعا ہے، ہر ایک کو یاد ہے۔ درود شریف بھی ہر ایک کو یاد ہے۔ ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّآ أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ بھی ہر ایک کو یاد ہے۔ اور اس طرح مستند روایتیں بہت ہیں، جو اکثر لوگوں کو یاد ہوتی ہیں۔ مگر اکثر لوگ غریب روایتوں کے پیچھے جاتے ہیں، جو کسی اور نے روایت نہ کی ہوں۔ یہ الٹی منطق ہے۔ کیونکہ غریب روایتیں اتنی معتبر نہیں ہوتیں۔ اور جو روایات مستند ہیں، سندِ صحیح کے ساتھ مروی ہوتی ہیں، وہ معتبر ہوتی ہیں۔ اس لئے انسان کو اپنا ذوق اعلیٰ بنانا چاہئے۔ ان چیزوں کو لے جو سنداً صحیح طور پہ ثابت ہوں۔ دوسرا یہ کہ اس کے ساتھ آدابِ دعا کو ملائیں۔ تیسرا یہ ہے کہ دعا میں عجز و عاجزی اور اخلاص کو پیدا کیا جائے۔ اللہ جل شانہ تو دینا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے، اللہ اس کو کیا کرے گا۔ اس کی خدائی میں کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن اللہ پاک چاہتے ہیں کہ لوگ کسی بہانے اور کسی طریقے سے بھی اس کے قریب آ جائیں۔
ایک بات میں صاف طور پہ عرض کرتا ہوں، اکثر مجھ سے لوگ ناراض بھی ہو جاتے ہیں، لیکن کیا کریں کہ طبیعت ہی ایسی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تو چاہتے ہیں کہ اس کے ذریعے سے میں تمہیں دوں بھی، قبول بھی کروں اور قریب بھی کروں۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ ہم جو چاہتے ہیں، وہ ہمیں دے دو، چاہے قریب کرو یا نہ کرو، قبول کرو یا نہ کرو۔ یہ theory نہیں ہے، یہ میں practical بات بتا رہا ہوں۔ یعنی ان چیزوں کی اصل روح سے استغنا ہے۔ اللہ جلَّ شانہ تو بہت عظیم ہیں، بہت کریم ہیں اور بہت زیادہ ہر چیز کو جانتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کسی بزرگ کے ساتھ یہ معاملہ رکھیں کہ آپ اپنی دنیا کی چیزیں طلب کرنے کے لئے ان کے پاس جائیں اور ان کے اوپر یہ بات کھل جائے، تو آپ کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہو گا؟ اور دوسرے وہ لوگ جو صرف اللہ کے لئے جا رہے ہیں اور صحیح مقصد کے لئے جائیں، تو ان کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہو گا؟ حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ (اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے) انتہائی مستغنی مزاج بزرگوں میں سے تھے۔ فقر ان پہ غالب تھا، بہت روتے تھے، اکثر ان پہ گریہ طاری ہوتا تھا اور بہت نرم مزاج کے تھے۔ لیکن ایک دفعہ کچھ لوگ ملنے کے لئے آئے، تو حضرت کا وہ عام ملنے کا وقت نہیں تھا۔ کیونکہ بعض لوگوں کے بعض اوقات آرام کے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات دوسرے کاموں کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔ اسی طرح بزرگوں کے مختلف اوقات ہوتے ہیں، آخر وہ بھی انسان ہوتے ہیں۔ لوگ اپنی ترتیب کو دیکھ کر آتے ہیں کہ میری ترتیب کیا ہے، مجھے کس چیز میں فائدہ ہے۔ وہ بزرگوں کی ترتیب کو نہیں دیکھتے۔ اسی طرح وہ اپنی ترتیب پہ آ گئے۔ حضرت کو اطلاع ہو گئی۔ حضرت نے فرمایا: ان شاء اللہ آتا ہوں۔ اب ان کو یہ ماننا چاہئے تھا۔ حضرت تیاری کر رہے ہوں گے۔ ممکن ہے کہ وضو کر رہے ہوں۔ یا کوئی اور کام بھی ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ نیند سے جاگے ہوں۔ ’’وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابْ‘‘۔ بہر حال! حضرت کو دیر ہو گئی، ان لوگوں نے پھر پیغام بھجوایا کہ حضرت! ہمیں ذرا جلدی ہے، اگر جلدی تشریف لائیں، تو بڑی مہربانی ہو گی۔ حضرت کو جلال آ گیا، فرمایا: کونسا دین کے کام کے لئے آئے ہیں کہ کہتے ہیں کہ جلدی آؤ۔ دنیا کے لئے آئے ہیں، کیوں جلدی آؤں؟ اس سے اصل بات سامنے آ گئی کہ جو اللہ کے لئے جاتا ہے، تو جیسے حکیم باچا صاحب رحمۃ اللہ علیہ گئے تھے، ہمارے سامنے کی بات ہے۔ حضرت نے بڑا اکرام فرمایا، کیونکہ بڑے عالم تھے اور ان کی طبیعت میں بڑی عاجزی تھی۔ ان کو اسی وقت اجازت بھی دے دی۔ چونکہ وہ بنے ہوئے تھے، کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس کے مقابلہ میں بڑے بڑے لوگ مختلف طریقوں سے چیزیں بھی لاتے تھے، جیسے لوگ کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بزرگوں کو خرید لیں گے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بزرگوں کو نہیں خرید سکتا۔ وہاں دل کی بات چلتی ہے۔ یہ دنیا کی چیزوں سے مستغنی ہو چکے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کی اولاد لیتی ہو۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر کسی کی اولاد کی تربیت ہو چکی ہو۔ اسی طرح گھر والوں کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ لیکن ان بزرگوں کا دل تو صاف ہوتا ہے، وہ تو ان چیزوں کی طرف نہیں دیکھتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید باقی لوگوں کی طرح ہم ان کو بھی ورغلا دیں گے اور مختلف چیزیں لائیں گے، حلال حرام کی بھی تمیز نہیں ہو گی کہ ان کے پاس میں کون سی چیز لاؤں اور کون سی نہ لاؤں۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کسی سے حرام چیز نہیں لیتے تھے، مشتبہ چیز بھی نہیں لیتے تھے۔ بالکل حلال لیتے تھے۔ مولانا امین صفدر صاحب اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے یہ واقعہ خود سنایا تھا، درمیان میں کوئی اور واسطہ نہیں ہے۔ پہلے حضرت اہلِ حدیث طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں کوئی شخص آیا، اس نے کہا: میرے پاس کچھ مشتبہ مال ہے، اس کا کیا کروں؟ میرے ایک ساتھی کہنے لگے: میرے پاس لے آؤ، میرے پاس اس کی ایک مد ہے۔ میں نے سوچا: پتا نہیں، اس کے پاس مشتبہ مال کی مد کہاں سے آ گئی۔ میں نے اس سے کہا: کیا کرو گے؟ کہتے ہیں کہ ابھی بتاؤں گا۔ وہ پیسے ان سے لے لئے۔ کہنے لگا: سنا ہے کہ حضرت مولانا احمد علی لاہوری مشتبہ مال نہیں لیتے۔ آج ہم نے ان کا امتحان کرنا ہے۔ ان پیسوں سے ہم نے روٹیاں خریدنی ہیں اور ان کو نشان لگانا ہے۔ اور کچھ صحیح پیسوں سے روٹیاں لینی ہیں اور ان کو بھی ہم نے اپنے ذہن میں رکھنا ہے۔ پھر دیکھتے ہیں کہ حضرت کیا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم اوکاڑہ سے لاہور گئے، حضرت کے پاس پہنچ گئے۔ حضرت کے سامنے ہم نے روٹیاں پیش کیں۔ حضرت نے ہمارے سامنے ہی مشتبہ روٹیاں اٹھا کر علیحدہ کر دیں۔ صحیح روٹیاں لے لیں اور مشتبہ واپس دے دیں۔ بس اسی سے clear ہو گیا کہ واقعتاً ایسے ہی ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم نے پھر بیعت کرنے کا ارادہ کر لیا۔ ہم نے کہا کہ حضرت! ہم آپ سے بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ امتحان تو ہو گیا تھا۔ حضرت نے فرمایا: بھائی! تم بیعت کرنے کے لئے تو نہیں آئے ہو، تم تو امتحان کرنے کے لئے آئے تھے۔ امتحان ہو گیا، جاؤ اور اپنا کام کرو، میں بیعت نہیں کرتا۔ کہتے ہیں کہ ایک ساتھی کہنے لگا کہ کمال ہے، جب ہم نے سب کچھ چھوڑ دیا ہے اور بیعت کرنا چاہتے ہیں، تو پھر کیوں بیعت نہیں کرتے۔ ٹھیک ہے کہ پہلے ہماری غلطی تھی، لیکن اب تو ہم نے ارادہ کر لیا، تو اب کیوں بیعت نہیں کرتے۔ اہلِ حدیث ویسے بھی گستاخ ہوتے ہیں، لیکن وہ کوئی زیادہ گستاخ ہو گا۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: شور مت کرو، بزرگوں کے بارے میں بد گمانی نہ کرو، کوئی حکمت ہو گی، چھوڑو، واپس چلتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ تو واپس چلے گئے، لیکن میں جس وقت اوکاڑہ آیا اور گھر میں داخل ہوا، تو ادھر سے پھر دوبارہ نکلا۔ پھر باقاعدہ بیعت کے لئے لاہور چلا گیا۔ حضرت کے پاس حاضر ہو کے عرض کیا کہ حضرت! اب تو میں امتحان کے لئے نہیں آیا۔ فرمایا: ہاں! بالکل ٹھیک ہے، اب میں بیعت کرتا ہوں۔ چنانچہ حضرت نے بیعت فرما لیا۔ پھر فرمایا کہ آپ کی جیب میں اتنے پیسے ہیں، ان سے احیاءُ العلوم کتاب آ جاتی ہے، بازار جاؤ اور احیاءُ العلوم لے لو۔ ان شاء اللہ میں آپ کو گھر جانے کا کرایہ دے دوں گا۔ کہتے ہیں کہ میں بازار چلا گیا اور احیاءُ العلوم خرید لی۔ اس کی کئی جلدیں تھیں۔ حضرت نے پہلی دو جلدیں تو ہٹا دیں، فرمایا: یہ تو فقہ شافعی پر ہیں، یہ ہمارے کام کی نہیں ہیں۔ باقی جلدیں بالکل شیخ کے قائم مقام ہیں۔ آپ نے ان کو پڑھنا ہے اور اس پر عمل کرنا ہے۔ میں نے اس پر عمل کیا۔ اس کے بعد پھر الحمد للہ میرا حضرت کے ہاں آنا جانا ہوا۔ چنانچہ جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت سے کام لیا ہے، وہ آپ سب کو پتا ہے کہ حضرت اوکاڑوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کون تھے اور اللہ نے ان سے کتنا کام لیا۔ پس بزرگوں کی نظر ان پہ پڑ گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے ان سے بہت کام لیا۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ بزرگوں کی نظریں بھی ایسے لوگوں کو تلاش کرتی ہیں کہ واقعی کوئی اللہ کا طالب آئے اور ان کا حصہ ہم ان کو دے دیں۔
کہتے ہیں کہ کوئی بزرگ کہیں گئے، تو بہت لوگ ان کا استقبال کرنے کو آ گئے۔ ان کا کوئی جاننے والا بھی آ گیا۔ اس نے کہا: آج تو آپ کا بڑا استقبال ہوا۔ فرمایا: اللہ کے لئے صرف ایک آیا تھا، باقی سارے اپنی غرضوں کے لئے آئے تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ اصل حقیقت کھول دیتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ لوگوں پہ کھول سکتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ پہ خود ساری باتیں کھلی ہوئی ہیں، وہاں تو درمیان میں کوئی حجاب کی بات ہے ہی نہیں۔ اس لئے ہم اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دے نہیں سکتے۔ لہٰذا اللہ جلَّ شانہ کے ساتھ اپنا معاملہ خالص رکھیں، لوجہِ اللہ سارے کام کریں۔ جیسے صحابہ کرام کی صفت تھی: ﴿یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗؕ﴾ (الانعام: 52)
ترجمہ: ’’اپنے پروردگار کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے پکارتے رہتے ہیں‘‘۔
لہٰذا جو لوگ اس کیفیت کو حاصل کر لیں، ان کی سادہ باتیں بھی دعائیں بن جاتی ہیں۔ وہ کسی کو کہہ دیں کہ اللہ تیرا بھلا کرے، اللہ تیرے ساتھ خیر کا معاملہ کرے۔ بس اسی میں کام ہو جاتا ہے۔ یہ بھی تو دعا ہے۔ ایک دفعہ میں نے سوچا کہ جب کوئی بچہ گرتا ہے، تو بوڑھیاں کہتی ہیں: ’’بِْسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘۔ حالانکہ بسم اللہ تو کسی کام کو شروع کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ آخر یہ کیوں کہتی ہیں؟ یہ تو عجیب بات ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ میں مسنون دعائیں پڑھ رہا تھا، تو ان میں تھا کہ حادثہ کے وقت کی دعا: ’’بِْسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘۔ گویا یہ چیز بزرگوں سے چلی آ رہی تھی اور اس پر عمل تھا۔ لہٰذا بعض دفعہ ایسی چیزیں لوگوں کے عمل میں ہوتی ہیں۔ ان چیزوں کو ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن یہ بات لازم ہے کہ ہمیں اگر بزرگوں سے بھی کچھ حاصل کرنا ہے، تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ خالص لوجہِ اللہ سب کچھ ہو۔ اپنی طلب کے اندر جتنا خلوص اور طلب لائیں گے، اتنا ہی کام ہوتا جائے گا۔ بلکہ پھر بزرگوں کی تشکیل ہو جاتی ہے کہ ان کی خدمت کرو۔ جیسے سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ چونکہ مخلص تھے اور طلب تھی، تو ایک کام ان سے ہو گیا کہ جنگل میں ایک ویران مسجد تھی، اس کو صاف کیا، جھاڑو دیا، اس میں اذان دی، اور جو لوگ وہاں آئے، ان کو نماز پڑھائی اور چلے گئے۔ جب چلے گئے، تو باقی ہر جگہ پر ان کی نظر کام کر رہی ہے، لیکن کتاب کے حروف نظر نہیں آتے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ہر چیز نظر آتی ہے، مگر کتاب کے حروف نظر نہیں آتے۔ کتاب بالکل سادہ نظر آتی ہے، اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے پاس لے جایا گیا۔ یہ حضرت کے مرید تھے۔ حضرت نے باریک جالیاں منگوائیں اور ان سے کہا کہ ان کی تاریں گنیں۔ تاریں گن کے بتائیں، تو بالکل صحیح بتائیں۔ جب حضرت نے تجربہ کر لیا، تو فرمایا کہ اللہ پاک آپ سے کچھ اور لوگوں کا کام لینا چاہتے ہیں، تم پڑھنا چھوڑ دو۔ پڑھائی چھڑوا دی۔ اب اگر کوئی پیر ایسے کرے، تو لوگ پتا نہیں کہ کیا کہیں۔ چونکہ نوجوان تھے اور اخلاص بھی تھا۔ ایک شادی کے موقع پر کسی سے خیمہ نہیں تنا جا رہا تھا، لوگوں نے جتنی بھی کوششیں کیں، مگر کامیابی نہیں ہوئیں۔ انہوں نے رسی پکڑی اور ایک درخت پہ چڑھ کر ایک جھٹکا دیا، تو پورا خیمہ تن گیا، اور اس کو باندھ دیا۔ یہ کام حضرت شاہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھ لیا۔ انہوں نے شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ سے ان کو مانگ لیا کہ یہ لڑکا مجھے دے دو۔ انہوں نے کہا: لے لو۔ انہوں نے اپنے ساتھ ان کو اعتکاف میں بٹھایا۔ حضرت معتکف تھے، حضرت نے مسجد میں چالیس سال اعتکاف کیا ہے۔ اس حالت میں قرآن پاک کا ترجمہ لکھا ہے۔ بہر حال! چھ مہینے ان کو اپنے ساتھ اعتکاف بٹھا لیا۔ اس وقت حضرت جو ذکر دیتے تھے اور جو معمولات دیتے تھے، انہیں وہ اتنے جذب کے ساتھ کرتے تھے کہ بارش ہو رہی ہوتی تھی، آندھی چل رہی ہوتی تھی، مگر وہ جس جگہ پہ بیٹھے ہوتے تھے، وہاں سے نہیں ہلتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت ثابت قدمی عطا فرمائی تھی۔ چھ مہینے کے بعد شاہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ نے شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ آپ اس کو پرکھ لیں، دیکھ لیں، جانچ لیں کہ کیسا ہے۔ انہوں نے فرمایا: حضرت! جب آپ نے کہہ دیا، تو کافی ہے، آپ ان کو اجازت دے دیں۔ فرمایا: پہلی اجازت تو آپ دیں گے، اس سے سلسلہ تو آپ کا چلے گا۔ تو شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت دے دی۔ یہ وہ صاحب ہیں کہ پڑھے ہوئے نہیں تھے، لیکن مجدد ہیں۔ کمال ہے۔ اور جب حج کے لئے گئے، تو وہاں دو مصلوں یعنی دو مسلکوں کے امام تو مرید ہو گئے اور دو مصلے والے باقاعدہ معتقد ہو گئے اور حضرت کی خدمت میں آیا کرتے تھے۔ حالانکہ ان پڑھ تھے۔ بس اللہ پاک نے نواز دیا۔ حضرت کے اتنے خلفاء ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ شاہ عبد الرحیم ولایتی رحمۃ اللہ علیہ جو ہمارے سلسلے کے بزرگ ہیں، سفر میں ان کے ساتھ ملاقات ہو گئی۔ شاہ عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ کی چشتی نسبت تھی اور ان کی نقشبندی نسبت تھی۔ دونوں ایک ایسے کمرے میں داخل ہو گئے، جس کے دو دروازے تھے۔ دروازے کے کواڑ بند کر دیئے۔ پتا نہیں کہ اندر کیا ہوا، ’’وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابْ‘‘۔ جب دروازے کھلے، تو ایک دروازے سے سید صاحب نکل رہے تھے اور دوسرے دروازے سے شاہ عبد الرحیم ولایتی رحمۃ اللہ علیہ نکل رہے تھے۔ سید صاحب روتے ہوئے نکل رہے تھے، جب کہ حضرت شاہ عبد الرحیم ولایتی رحمۃ اللہ علیہ ہنستے ہوئے نکلے۔ ایک دوسرے پہ نسبت طاری ہو گئی۔ گویا سید رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت ہنسنے والی تھی اور شاہ عبد الرحیم ولایتی رحمۃ اللہ علیہ کی رونے والی تھی۔ تو دونوں نے ایک دوسرے کا اثر لیا۔ پھر جب دوبارہ اسی طرح اجتماع ہوا اور پھر نکلے، تو دونوں کی یہی کیفیت تھی۔ پھر جب تیسری بار نکلے، تو سید صاحب normal تھے، کچھ بھی نہیں تھا اور شاہ عبدالرحیم ولایتی رحمۃ اللہ علیہ ہنس رہے تھے۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے سید صاحب سے بیعت کر لی۔ چونکہ سید صاحب ردِّ بدعات اور ردِّ شرک میں بہت سخت تھے، ان پہ یہ چیز بہت حاوی تھی۔ چونکہ گدیوں پر تو ہر قسم کی چیز آ جاتی ہے۔ تو شاہ عبد الرحیم ولایتی رحمۃ اللہ علیہ جن شیخ کے خلیفہ تھے، ان کے صاحبزادگان ان کے خلاف ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ حاجی نہیں، پاجی ہے۔ چنانچہ لوگ ان سے چلے گئے اور بہت تھوڑے لوگ رہ گئے۔ جو تھوڑے لوگ رہ گئے، ان کو کہا کہ تم بھی چلے جاؤ، تم کیوں رہ گئے ہو؟ انہوں نے کہا: حضرت! آپ کا شیخ بھی آ کر کہہ دے، پھر بھی ہم نہیں جائیں گے۔ آپ کے شیخ کا شیخ بھی آ جائے، پھر بھی ہم نہیں جائیں گے۔ ان کا شیخ بھی آ جائے، پھر بھی نہیں جائیں گے۔ حضرت سمجھ گئے کہ یہ واقعتاً ہمارے مطلب کے ہیں۔ ان کو پھر اپنے ساتھ رکھا، پھر وہ حضرت کے ساتھ ہو گئے۔ لوگوں نے پوچھا کہ حضرت! سید صاحب سے بیعت ہو کر آپ کو کیا ملا؟ آپ خود بھی صاحبِ نسبت تھے۔ فرمایا: سید صاحب سے میں نے نماز سیکھی ہے۔ حالانکہ نماز تو سب لوگ پڑھتے ہیں۔ لیکن کیسے پڑھتے ہیں؟ ہر ایک کا اپنا اپنا حساب ہے۔ اللہ ہمیں بھی صحیح نماز عطا فرمائے۔ بہر حال! ایک بات جو ان تمام چیزوں کا حاصل ہے، وہ یہ ہے کہ ہر چیز کے اندر نور ہے، جو اللہ کی طرف سے آیا ہے، جو نبی ﷺ کی طرف سے آیا ہے۔ اس نور کو حاصل کرنے کے لئے دل میں نور پیدا کرو۔ پس دل کے نور کو پیدا کر لو۔ جیسے قرآن کے اندر نور ہے: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَهُوَ شَہِیْدٌ﴾ (ق: 37)
ترجمہ: ’’یقینا اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے‘‘۔
دل میں نور ہو گا، تو قرآن کی ہدایت اس میں آئے گی۔ لہٰذا ہم اپنے آپ پر محنت کریں، یہ محنت بہت ضروری ہے۔ تین چیزیں تبدیل کرنی ہیں: قلب، نفس اور عقل۔ جب یہ تبدیل ہو جائیں گی، تو پھر ان شاء اللہ ایک magnet بن جاؤ گے، ہر چیز کو catch کرو گے، ہر خیر کو catch کرو گے، چاہے کوئی بزرگ امریکہ میں ہو، آپ کو اس کا فیض پہنچ سکتا ہے۔ اگر آپ نے اپنے آپ کو magnet بنا لیا، تو چاہے کوئی ماسکو میں ہو، چاہے سعودی عرب میں ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ کو فیض مل جائے گا۔ چاہے وہ فوت شدہ ہی کیوں نہ ہو، اس کا فیض مل جائے گا۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو بنا لو۔ پھر دیکھو کہ فیوض و برکات کیسے آتے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ آپ کو پتا بھی نہیں ہو گا اور کوئی بزرگ آپ کی طرف متوجہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی تشکیل ہوئی ہو گی۔ جیسے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو نہیں پتا تھا اور شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ ان کے پیچھے آ گئے۔ لہٰذا اگر انسان میں طلب پیدا ہو جائے اور اللہ کے ساتھ ایسا تعلق ہو جائے، تو پھر ان شاء اللہ ان سب چیزوں کے اندر بڑی تاثیرات ہیں۔ ورنہ ہمیں ملتا رہے گا اور ضائع ہوتا رہے گا۔ کہتے ہیں کہ روضۂ اقدس اور خانہ کعبہ پہ حاضری کے وقت ہر مومن کو ملتا ہے، کوئی بھی خالی ہاتھ نہیں جاتا، چاہے کوئی کتنا ہی گناہ گار سے گناہ گار کیوں نہیں ہے، ہر مومن کو دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا ظرف کتنا ہے؟ وہ اس پہ depend کرتا ہے۔ کتنا لیتا ہے اور کتنا ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ ہر ایک کا اپنا ظرف ہے۔ کوئی وہاں سے اپنے کمرے تک بھی نہیں پہنچا سکتا، ادھر ہی ضائع کر دے گا۔ کوئی حج کے اختتام تک رکھ لے گا، پھر ضائع کر دے گا۔ کوئی ایئر پورٹ تک لے آئے گا۔ کوئی اپنے شہر کے ایئر پورٹ تک لے آئے گا۔ کوئی گھر تک لے آئے گا۔ گویا جس کا جتنا ظرف ہے، اس کے حساب سے اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم اپنے آپ پر محنت کر لیں، ان تین چیزوں پہ محنت کریں، قلب، نفس اور عقل پر محنت ضرورت ہے۔ جب ان پر محنت ہو جائے، تو پھر ظرف بن جائے گا۔ کیونکہ ان تینوں نے اپنے اپنے کام کرنے ہیں۔ عقل کے ساتھ سمجھ کا تعلق ہے، دل کے ساتھ محبت کا تعلق ہے اور نفس کے ساتھ محنت اور مشقت کا تعلق ہے۔ جب یہ تینوں چیزیں ٹھیک ہو جائیں، سمجھ بھی ٹھیک ہو جائے، مشقت بھی صحیح چیز کے لئے ہو جائے اور دل کی محبت بھی صحیح چیز کے لئے ہو جائے، تو بس ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ معاملہ بن گیا۔ پھر ہر چیز کا نور آپ کو ملے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرما دے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ