ہمت اور صاحب ہمت لوگوں اور ہوائے نفس کو ترک کرنے کے بیان میں

مقالہ 14 ، درس 71

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃُ اللہ علیہ کے صاحبزادہ مولانا عبد الحلیم صاحب المعروف حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت کے بارے میں جو کتاب لکھی ہے، یعنی ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘، اس سے تعلیم ہوتی ہے۔

متن:

چودھواں مقالہ

ہمت اور صاحب ہمت لوگوں اور ہوائے نفس کو ترک کرنے کے بیان میں

یہ بات جان لے کہ کم ہمت مرید کسی جگہ نہیں پہنچتا، جس مرید کی ہمت کا گھوڑا جنت سے آگے نہ جائے وہ مرید اس میدان کے شایانِ شان اور لائق نہیں۔ عارف لوگ کہتے ہیں ہر چیز اپنے حسبِ دل خواہ اور مرضی کے مطابق چاہنا مردوں کا کام نہیں بلکہ یہ عورتوں کا کام ہے۔ امام شبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ اُس شخص کے لئے ہماری مجلس میں آنا اور بیٹھنا حرام ہے جس کی ہمت اور خواہشات دونوں جہانوں سے بالاتر نہ ہوں۔

؎ عدل آں بود اے پسر کہ خود را

از حد حدوث برتر آری

وانگه کہ چوں حضرت او

در مقصد صدق اندر آئی

’’عدل و انصاف کی بات یہ ہے کہ اس عالَمِ حادث کے حدود سے باہر نکل جاؤ، اور اس وقت کہ جب اس کی جناب میں (یعنی اس کے بعد عالم حدوث کے حدود سے نکل جانے کے بعد تم اس قابل ہو جاؤ گے، کہ) مقصد صدق میں آ سکو‘‘۔

ہر ایک آدمی کی قیمت اس کی ہمت کے تحت ہے، ہر کوئی بس وہی ہے جتنی اُس کی ہمت ہے، ہر شخص کی قیمت اُس کی ہمت ہے۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ ہر کوئی آج اپنی قیمت اور مول کو نہیں پہچانتا۔ پس جس کسی کی ہمت وہ ہو "مَا یُدْخِلُ" ”جو وہ داخل کرے“ پس اُس کی قیمت وہ ہو گی جو کہ "مَا یُخْرِجُ" ”وہ خارج کرتا ہے“ پس جس کسی کی ہمت ہو کہ وہ پیٹ میں لے آئے، تو وہ اُس کی قیمت وہی ہوگی "مَا یَخْرُجُ" ”جو نکل آئے“۔ اور وہ میں اور تم ہیں یہی چیز۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہماری قیمت وہ ہو جائے؟ اے بھائی! اگر کل میں اور تم برابر سرابر ہوں اور ہمارے ساتھ صلح ہو جائے "لَا عَلَیْنَا وَ لَا لَنَا" ”نہ کچھ ہم پر ہو اور نہ ہمارا کچھ ہو“ تو ہم میدان میں فاتح اور کامیاب ہوں گے۔

نفس کی خواہشات کو ترک کرنے کے بیان میں:

یہ بات جان لو کہ ہوا (خواہش) سے مراد نفس کے اوصاف، واصلین کا حجاب، مریدوں کی جائے وقعت اور طالبین کا اِعراض (منہ موڑنے، نہ ماننے) کا مقام ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ اصل تو وہ ہے اور ان کو اُس کے خلاف حکم دیا گیا ہے، اور اس کے کرنے ارتکاب کرنے سے منع کیا گیا ہے کہ "مَنْ رَّکِبَھَا هَلَکَ وَ مَنْ خَالَفَھَا مَلَکَ" ”جس نے ہوائے نفس کی تابعداری کی تو وہ ہلاک ہوا اور جس نے اس کی مخالفت کی وہ اپنی مراد اور منزل مقصود کو پہنچ گیا“ مثنوی

؎ سر ز ہوا تافتن از سروری است

ترک ہوا قوت پیغمبری ست

توسن طبع تو چو راست شود

سکۂ اخلاص بنامت شود

’’ہوائے نفس سے منہ موڑنا سرداری کا کام ہے، اور ترک ہوا کرنا پیغمبری قوت کا کام ہے، اگر طبیعت اور خواہشات کا گھوڑا (تمہارا متبع ہو کر) قابو میں آ جائے، تو تمہارے اخلاص کا سکہ جاری ہو جائے گا‘‘۔

ہوا دو قسم کی ہوتی ہے: ایک ہوا (خواہش) لذت اور شہوت کی ہوا ہوتی ہے اور دوسری جاہ، ریاست اور حکومت کی، جس کسی کو لذت اور شہوت کی ہوا ہو وہ خرابات میں پڑا رہے گا اور لوگ اُس کے شر اور فتنوں سے امن میں ہوں گے۔ اور جس کو جاہ و ریاست کی ہوا و خواہش ہو تو وہ صومعوں اور خانقاہوں میں ہوں گے، اور لوگوں کے لئے فتنہ ہوں گے، خود بھی گم کردہ راہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی بد راہ کرتے رہیں گے۔ پس جس شخص کو ہوا کی رضا جوئی مطلوب ہو، اور اُس کی متابعت کرنا چاہتا ہو، تو وہ حق سے دور ہو گا، اگرچہ آسمان پر کیوں نہ ہو۔ مثنوی

؎ چوں ترا صد بت بود در زیر دلق

چوں نمائی خویشتن صوفی بد خلق

’’جب تمہاری خرقہ و قبا کے نیچے سو بُت پوشیدہ ہوں، تو تم لوگوں کو اپنے آپ کو کس طرح صوفی دکھاو گے‘‘۔

اور جو لوگ ہوا و خواہش سے دور ہوں اور اس سے پہلو تہی کرتے رہیں، تو وہ حق کے نزدیک ہوں گے۔ خواجہ ابراہیم خواص نے کہا ہے کہ میں نے سنا تھا کہ روم کے ملک میں ایک راہب اپنی رہبانیت کے امور میں ستر سال عمر بسر کر چکا تھا، میں نے کہا کہ عجیب بات ہے، رہبانیت کے لئے عمر تو ستر سال نہیں صرف چالیس سال ہے، وہ کس وجہ سے اتنی دیر تک رہ سکا ہے؟ میں نے اُس کے دیکھنے کا ارادہ کیا، جب میں وہاں پہنچ گیا تو اُس نے کھڑکی کھول کر مجھے کہا کہ اے ابراہیم! مجھے معلوم ہے کہ تو کس کام کے لئے یہاں آیا ہے، میں یہاں رہبانیت کرنے نہیں بیٹھا ہوں، بلکہ میرے ساتھ ایک کتا ہے جو کہ خواہشات میں مبتلا اور مست ہے۔ میں نے اس کو قید کیا ہے اور اُس کی نگہبانی اور چوکیداری کی خاطر بیٹھا ہوں تاکہ لوگوں کو اُس سے ضرر اور نقصان نہ پہنچے، ورنہ میں وہ نہیں جو کچھ مجھے تُو سمجھتا ہے۔ بیت

کافر است ایں نفس بے فرماں چنیں

کشتن او کے بود آسان چنیں

’’یہ نا فرمان نفس بڑا سخت کافر ہے، اس کا مارنا اتنا آسان کام نہیں‘‘۔

جب میں نے اُس کی یہ بات سُن لی تو میں نے کہا کہ اے میرے خدا! تو قادر ہے کہ عین گمراہی کی حالت میں بندے کو سیدھا راستہ دکھائے اور اُسے اتنی عزت و کرامت عطا فرمائے۔ اُس نے مجھے کہا کہ اے ابراہیم! تو کب تک لوگوں کو تلاش کرتا رہے گا؟ جا… اور خود اپنے آپ کی تلاش میں نکل جا، جب اپنے آپ کو پہچان جائے تو خود اپنے آپ کی نگہابی کر کیونکہ یہ ہر دن تین سو ساٹھ قسم کی الوہیت کا لباس پہن کر انسان کو گمراہی اور ضلالت میں دھکیل دیتا ہے ﴿أَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰھَہٗ ھَوَاہٗ…﴾ (الجاثیۃ: 23) ”تم دیکھتے ہو جس نے اپنی ہوا اور خواہشات کو اپنا خدا بنا چھوڑا ہے؟“ یہ اس ملنے کا اسرار ہے، اور عزیزوں کا دل اس سلسلہ میں خون ہو کر رہ گیا ہے۔ بیت

؎ صد ہزاراں دل بمرد از غم ہمے

ایں سگ کافر نمے مرد ہمے

’’اس غم میں ہزاروں دل (تڑپ تڑپ کر) مر گئے، مگر یہ کافر کتا (نفس) نہیں مر پاتا‘‘۔

حاصل کلام یہ کہ ہَوا اور خواہشات کا ترک کرنا انسان کو امیر کرتا ہے اور خواہش و ہوا کی تابعداری کرنا انسان کو قیدی اور اسیر کراتا ہے۔ چنانچہ حضرت زلیخا نے خواہش کی پیروی کی تو امیر تھیں، اسیر ہو گئیں اور حضرت یوسف علیہ السلام نے ہوا کو ترک کیا تو اسیر تھے، امیر ہو گئے۔ بیت

؎ ہر کہ ایں سگ را بہ مردی کرد بند

در دو عالم شیر آرد در کمند

’’جس نے جوانمردی دکھا کر اِس کُتے کو بند کر دیا، اُس نے دونوں جہانوں میں شیر کو کمند میں قید کر دیا‘‘۔

خواجہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ "مَا الْوُصُوْلُ؟" قَالَ: "تَرْکُ ارْتِکَابِ الْہَوٰی" ”وصول (واصل ہونا) کیا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ خواہشات نفسانی کو بالکل ترک کر دینا“۔ جو کوئی چاہتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کا وصال حاصل کرے تو اُس کو کہہ دیجیے کہ اپنی خواہشات نفسانی کی مخالفت کر، کیونکہ ہوائے نفس کے ترک کرنے سے بڑی عبادت اور کوئی نہیں، کیونکہ پہاڑ کو ناحق سے کھودنا ہوائے نفسانی کی مخالفت کرنے سے بہت آسان اور سہل ہے۔ خواجہ ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا، جو ہوا میں اُڑتا تھا، میں نے اُس سے کہا کہ یہ درجہ کس وجہ سے پا لیا؟ تو اُس نے جواب دیا کہ میں نے ہوا پر قدم رکھا تو ہوا میں اُڑنے لگا، یعنی خواہشات نفسانی کو قدموں کے نیچے رکھ کر اُس کو پامال کر دیا اور ترکِ ہوا کی وجہ سے ہوا میں اُڑنے کی اہلیت حاصل ہوئی۔ خواجہ محمد بن بلخی سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے تعجب ہے کہ لوگ ہوا کو ترک کیوں نہیں کرتے، تاکہ وہ یعنی محبوب اُن کے پاس جائے اور اُن سے مل جائے اور اُس کا دیدار حاصل ہو۔ "دَعْ نَفْسَکَ وَ تَعَالْ" ”اپنے نفس کو چھوڑ دے اور میرے پاس آ جا“۔

اب یہ بات جان لیجیے کہ شیطان کو انسان کے دل اور باطن میں تب تک داخل ہونے کی مجال نہیں جب تک کہ اُس میں گناہ اور شہوت کی خواہش پیدا نہ ہو جائے، جب خواہش پیدا ہو جائے تو شیطان اُس خواہش کو ہاتھ میں لے کر اُس کو خوبصورت بنا لیتا ہے اور اُس کے دل پر اُس کو آراستہ و پیراستہ کر کے اُس کی جلوہ آرائی کرتا ہے، اور اس مفہوم کو وسواس کہتے ہیں۔ پس ابتدا وسواس سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے قول کا بھی یہی مفہوم ہے کہ شیطان کو فرمایا جس وقت شیطان نے یہ بڑی ہانکی کہ میں سب انسانوں کو راستہ سے بھٹکا دوں گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ﴿إِنَّ عِبَادِيْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ...﴾ (الإسراء: 65) کہ تمہیں میرے بندوں پر کوئی غلبہ نہیں، پس شیطان کا غلبہ خواہشات کے بندے اور غلام پر ہوتا ہے، خدا کے بندے پر نہیں، یہ معنیٰ بالکل درست ہے۔ بیت

گر تو حق را بندۂ بت گر مباش

ور تو مرد ایں رہ آزر مباش

’’اگر تو حق کا بندہ ہے، تو بت ساز نہ ہو، اور اگر تو راستے کا آدمی ہے تو آزر نہ بن‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ مشائخ کرام رحمھم اللہ علیہم میں سے کسی سے پوچھا گیا کہ اسلام کیا ہے؟ "فَقَالَ: ذَبْحُ النَّفْسِ بِسَیْفِ الْمُخَالَفَۃِ" کہ مخالفت کی تلوار سے نفس کو ذبح کرنا ہے۔ خواجہ ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ "مِفْتَاحُ الْعِبَادَۃِ التَّفَکُّرُ وَ عَلَامَۃُ الْإِصَابَۃِ مُخَالَفَۃُ النَّفْسِ وَ الْھَوٰی" ”عبادت کی کلید تفکر ہے اور رسائی کی علامت نفس اور ہوا کی مخالفت کرنا ہے“۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ "مُخَالَفَۃُ النَّفْسِ رَاْسُ الْعِبَادَۃِ" کہ نفس کی مخالفت کرنا عبادتوں کا سر ہے۔ خواجہ جُنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: "أَسَاسُ الْکُفْرِ قِیَامُکَ عَلٰی مُرَادِ نَفْسِکَ" ”کفر کی بنیاد تمہارا نفس پر قائم رہنا ہے“۔ پس چاہئے کہ مرید اور طالب دن رات اپنا یہ عمل مقرر کرے کہ ہوا کی خواہشات جو حواس میں پیدا ہوتی ہیں، اپنے آپ سے قطع کرے اور اللہ تعالیٰ سے تضرع اور عجز و نیاز سے درخواست کرے، تاکہ اللہ تعالیٰ اُس کی فریاد سُنے، اور سوز دل سے عجز و زاری کرتا رہے، کہ اے خدا مجھے متابعت نفس سے بچائے رکھ اور نہایت بے چارگی اور عاجزی سے کہے۔ مثنوی

؎ بندہ را زیں بحر نا معلوم بدار

تو بر افگندی مرا ہم تو بدار

نفس من بگرفت سر تا بائے من

گر نگیری دست من اے وائے من

گم شدم در بحر حیرت ناگہان

زیں ہمہ سر گشتگی یا زم رہان

پردہ بر گیر آخر و جانم مسوز

بیش اندر پردہ پنہانم سوز

یا ازیں آلودگی پاکم بکن

یا بہ در خونم کش و خاکم بکن

رہبرم شو زانکہ گمراہ آمدم

دولتم وہ زانکہ بیگاہ آمدم

’’اس بندہ کو اس بحر نا پیدا کنار سے محفوظ رکھ، تو نے ہی مجھے اس میں ڈال رکھا ہے تو ہی میری حفاظت کر، میرے نفس نے سر سے لے کر پاؤں تک میرے سارے جسم پر قبضہ کیا، اگر تم میری دست گیری نہ کرو گے تو میری حالت پر افسوس ہے۔ میں حیرت کے سمندر میں گم ہو گیا ہوں۔ اس سراسمیگی اور پریشانی کی حالت سے مجھے نجات دے، مجھ سے یہ ظلمت کا پردہ اُٹھا، اور میری روح کو نہ جلا۔ (اور اس سے) آگے (یعنی مزید) مجھے پردے کے اندر پوشیدہ طور پر نہ جلا، یا تو اس آلودگی سے مجھے صاف و پاک کر اور یا میرا خون گرا کر مجھے مٹی کر، چونکہ میں گمراہ اور گم کردہ راہ ہو گیا ہوں، اس لئے تم میرا رہبر بن جا، اور مجھ پر اپنی عنایت فرما، کیونکہ میں محتاج ہوں‘‘۔

خواجہ علی مروزی سے نقل کیا گیا ہے، کہ سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ میں ایک قیمتی موتی تھا، اُس نے وہ موتی وزیر کو دے کر کہا کہ اس کو توڑ ڈال۔ وزیر نے کہا کہ اس کی قیمت بادشاہی خزانے جتنی ہے، اس کو کیوں توڑا جائے؟ سلطان نے وہ موتی ایاز کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ اس کو توڑ ڈال۔ اُس نے پتھر کے نیچے رکھ کر اس کو فورًا توڑ ڈالا۔ سلطان نے ایاز سے پوچھا کہ اس کو کیوں توڑ ڈالا؟ ایاز نے کہا: میں نے برا کیا، اور اچھا کیا۔ سلطان محمود نے وزیر کی جانب مڑ کر کہا کہ ادب کو ایاز سے سیکھو، کہ نہ حکم ماننے میں کوتاہی کی، اور نہ جواب دینے میں کوئی اعتراض کیا۔ اس کا اسرار یہ ہے کہ بیت:

؎ عذر بہ آنرا کہ خطائے رسید

کاں دم ازاں توبہ بہ جائے رسید

’’اُن کے لئے معذرت کرنی چاہئے، جن سے کوئی خطا ہو جائے، کیونکہ اُس توبہ اور معذرت سے وہ اپنے مقام تک پہنچ جاتا ہے‘‘۔

ایک دوسرے بیان میں کہا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود لعین کے درمیان جو معاملہ گزر چکا ہے جو اکثر لوگوں کو معلوم ہے۔ وہ اصل میں کیا ہے؟ "لِیَعْلَمُوْا أَنَّ کُلَّ مَنْ أَحَبَّہٗ لَا یَضُرُّہٗ شَيْءٌ فِي الدَّارَیْنِ وَ لِیَعْلَمُوْا أَنَّ أَھْلَ الْمَعْرِفَۃِ فِي النَّارِ أَطْیَبُ عَیْشًا وَّ أَحْسَنُ حَالًا وَّ أَشَدُّ سُرُوْرًا مَّعَ اللہِ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فِي الْجَنَّۃِ" کہ یہ بات جان لیں کہ جو کوئی اس کے ساتھ محبت کرے، اُس کو دونوں جہانوں میں کوئی چیز ضرر اور تکلیف نہیں پہنچا سکتی۔ اور نیز یہ بھی جان لے کہ اہل معرفت آگ کے درمیان بھی اپنے اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہایت عیش، خوشحالی اور مسرت و سرور میں ہوا کرتے ہیں اور اہل جنت سے بڑھ کر خوش و خرم اور مسرور و خوشحال ہوتے ہیں“۔ بایزید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اگر کل جنت میں وہ بے کیف مشاہدہ منع کیا جائے تو جنت والے بھی ایسی ہی فریاد اور چیخ و پکار کریں گے جیسا کہ اہل دوزخ کرتے ہیں۔

یہ بات جاننی چاہئے کہ منصور حلاج تحقیق کے صحرا کے شیر اور تصدیق کے میدان کے ایک بہادر سپوت تھے۔ اُن کو حلاج (دھنیا، روئی دھونکنے والا) اس لئے کہتے ہیں کہ ایک دن پنبے کے ایک انبار کی جانب اُنگلی سے اِشارہ کیا، اُسی وقت روئی اور پنبہ اور دانہ (بنولہ) جدا جدا ہو گئے۔ شبلی نے کہا کہ میں اور منصور حلاج ایک تھے، مجھے دیوانہ کہا گیا، تو میں چھوٹ گیا اور اُن کو عقل و خرد و دانش نے مار دیا۔ ایک دفعہ جنید رحمۃ اللہ علیہ نے اُن سے کہا کہ قریب ہے کہ تم قلعہ کی چوب (تختۂ دار) کو سُرخ اور خون آلود کرو گے۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ جس دن میں تختہ دار کو خون آلود کروں تم تصوف کا لباس نہیں پہنو گے۔ کہتے ہیں کہ جس دن آئمہ کرام نے منصور حلاج کے قتل کا فتویٰ دیا، جنید رحمۃ اللہ علیہ تصوف کے لباس میں تھے، مدرسے چلے گئے، وہاں جبہ و دستار در بر کر کے فتوی پر دستخط کر دیئے۔ ایک دفعہ اُن سے پوچھا گیا کہ صبر کیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ صبر یہ ہے کہ کسی کے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں اور اُس کو سولی پر چڑھائیں، اور وہ خاطر جمع رکھے اور یہ واقعہ خود اُن کو پیش آیا۔ وہ اپنے حلقہ میں سب سے جداگانہ کام کرتے رہتے تھے، چنانچہ ایک دفعہ ابراہیم خواص سے پوچھا گیا کہ تو کیا کرتا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ توکل کی راہ پیمائی کرتا ہوں۔ تو اُن کو کہا کہ تم ہمیشہ پیٹ کی عمارت کی تعمیر کرتے ہو۔ کہتے ہیں کہ جب ان کا یہ واقعہ واقع ہونے کا وقت قریب ہوا تو ایک دن شبلی کو کہا کہ میری جانب خیال اور توجہ کیا کرو، کیونکہ مجھے ایک بہت بڑا واقعہ پیش آنے والا ہے۔ جس دن حسین منصور کو قید کر دیا گیا تو اُن کو پہلی رات جیل خانے سے بلایا گیا تو وہ موجود نہ تھے، دوسری رات بُلا چھوڑا مگر نہ تو اُن کو موجود پایا اور نہ اہل زندان کو، تیسری رات جب اُن کو طلب کیا تو جیل خانے والوں اور اُن کو موجود پایا۔ لوگوں نے اُن کو کہا کہ یہ کیا معاملہ تھا؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ پہلی رات میں دوست کے پاس گیا تھا، اسی وجہ سے مجھے تم نے نہیں دیکھا، دوسری رات دوست یہاں تھا، اس وجہ سے قیدیوں کو نہ دیکھا، آج رات میں یہاں ہوں، جو کچھ شریعت کا حکم ہے کر ڈالو۔

کہتے ہیں کہ اُس قید خانے میں تین سو قیدی تھے اُن سے انہوں نے کہا کہ میں نے تم کو آزاد کر دیا، چلے جاؤ۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم کر سکتے ہو تو اپنے آپ کو قید سے آزاد کیوں نہیں کرتے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ میں خدا کی قید میں ہوں اور شریعت کا لحاظ رکھتا ہوں۔ پس اُنہوں نے دیوار کی جانب اشارہ کر دیا، دیوار میں ایک شگاف پڑ گیا، تمام قیدی باہر چلے گئے۔ صُبح ان سے پوچھا گیا کہ تمام قیدی کیا ہوئے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ سب کو میں نے آزاد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ تم خود کیوں نہیں گئے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر عتاب ہے اس لئے میں ٹھہر گیا ہوں اور اس لئے میں نہ چل پڑا تاکہ اس کو سرانجام دوں۔ یہ بات خلیفہ تک پہنچائی گئی، خلیفہ نے حکم دیا کہ ایک بڑا فتنہ پیدا ہو جائے گا، ان کا کام جلدی سے ختم کرو۔ اُن کو جیل خانے سے باہر نکالا گیا اور تین سو ضربیں لکڑی سے لگائی گئیں تاکہ "أَنَا الحَقُّ" کہنے سے باز آئیں۔ جب چوب مارتے تھے تو ہر ضرب سے صاف آواز نکل آتی تھی: "یَا ابْنَ مَنْصُوْرٍ! أَنَا الْحَقُّ" شیخ عبد الجلیل سفار فرماتے ہیں کہ میں اُس چوب مارنے والے شخص پر حیران ہوں اور تعجب کرتا ہوں کہ وہ شخص امر شریعت بجا لانے میں کتنی طاقت کا مالک تھا، کہ اس قسم کی آواز وہ چوب مارنے کے وقت صاف طور پر سنتا تھا، اور وہ اس کے باوجود چوب مارتا تھا۔

جس دن اُن کو قتل کرنے والے تھے، ایک درویش نے اُن سے پوچھا کہ عشق کیا ہے؟ اُس کو جواب دیا کہ عشق کے اسرار تجھے آج کل اور پرسوں نظر آئیں گے۔ اُس دن اُن کو قتل کیا گیا، دوسرے دن جلا ڈالا گیا اور تیسرے دن ان کی راکھ ہوا میں اُڑا دی گئی۔ جس وقت اُنہیں سولی کے قریب لے جایا گیا، تو اُنہوں نے دار کے تختے کو بوسہ دیا اور کہا کہ جوان مردوں کے لئے یہ مقام معراج ہے۔ جب اُن کے ہاتھ کاٹے گئے تو کہا باندھے ہوئے آدمی کے ہاتھ کاٹنا آسان کام ہے لیکن میں مرد اُس کو مانتا ہوں جو اُس ہاتھ کو قطع کر لے جو عرش کے بلندیوں سے ٹوپی اُٹھا لائے۔ پھر جب اُن کے پاؤں کاٹ ڈالے گئے تو تبسم کر کے فرمایا کہ اس پاؤں کا کاٹنا آسان ہے، میرے وہ پاؤں ہیں جن سے میں دونوں جہانوں کا سفر کرتا ہوں۔ پھر خون آلود بازووں کو چہرے پر ملتے تھے۔ لوگوں نے پوچھا یہ کیا کرتے ہو؟ تو اُنہوں نے کہا کہ وضو بناتا ہوں کیونکہ "لِأَنَّ فِي الْعِشْقِ رَکْعَتَیْنِ لَا یَصِحُّ وَضُوْءُھُمَا إِلَّا بِدَمِ صَاحِبِہٖ" ”عشق کی دو رکعت نماز ہے جن کا وضو بغیر ان کے ادا کرنے والے کے خون سے نہیں ہو سکتا“۔

کہتے ہیں کہ ان کے تمام اعضاء کاٹے گئے تھے، اُن کی گردن اور پشت دار کے اوپر رہ گئے تھے۔ اُس پشت اور گردن سے "أَنَا الْحَقُّ" کی آواز آ رہی تھی، خلیفہ نے فرمایا کہ اس شخص نے موت کے بعد اپنی زندگی سے زیادہ فتنہ کھڑا کیا۔ دوسرے دن اُن کے تمام اعضاء کو اکھٹا کر کے اُن کو جلا ڈالا گیا۔ اُس جلی ہوئی راکھ میں سے "أَنَا الْحَقُّ" کی آواز نکل رہی تھی۔ تیسرے دن اس راکھ کو پانی میں بہا دیا گیا، پانی کے اوپر سے اس راکھ میں سے بھی "أَنَا الْحَقُّ" کی آواز سنائی دیتی تھی۔ قطعہ:

؎ نخشبی مرد پاک مردے دان

کہ بر موئے خود ثنا گوید

خاک او را گر بآب دہند

بر سر آب مرحبا گوید

’’اے نخشبی! اُس شخص کو پاک مرد تصور کرو جو اپنے ہر بال سے ثنا کہے، اگر اُس کی مٹی کو پانی میں ڈال دیا جائے تو پانی کے اوپر مرحبا کہتا رہے گا‘‘۔

تشریح:

یہ حضرت کا چودھواں مقالہ ہے، جس میں حضرت نے ہمت، صاحبِ ہمت اور ان لوگوں کا بیان فرمایا ہے، جو نفس کی خواہشات کو نہیں مانتے ہیں۔ ہمت کیا چیز ہے؟ ہمت اسے کہتے ہیں کہ مثلاً جب کوئی کام کرنا ہو اور نفس سستی کرے یعنی اس کام کے لئے تیار نہ ہو، اس وقت انسان کے اندر روحانی طور پر اتنی قوت ہو کہ نفس کے اوپر قابو پائے اور وہ کام کر ڈالے۔ یہ ہمت کہلاتی ہے۔ ہمت کے بغیر انسان کام نہیں کر سکتا۔ بعض دفعہ انسان کے اندر ہمت ہوتی ہے، صلاحیت ہوتی ہے، لیکن وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچانتا نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ کام نہیں کرتا۔ مشائخ کے اندر یہ صفت ہوتی ہے کہ ہمت والے لوگوں کو ان کی ہمت دکھا دیتے ہیں اور پھر ان سے کام لیتے ہیں۔ گویا ہمت موجود تو ہوتی ہے، تبھی تو اس سے کام لیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کے اوپر حاکم ہو، ان کا محکوم نہ بنے۔ پھر خواہشات دو قسم کی ہیں: ایک خواہش اس دنیا کی چیزوں کی ہے، یہ بھی انسان کے آگے ایک رکاوٹ ہے۔ دوسری وہ خواہشات ہیں، جو اگلے جہان کی ہیں، وہ بھی رکاوٹ ہیں، لیکن وہ اگلے مقام کے لئے رکاوٹ ہیں۔ میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ دنیا دار دین دار کی بات کو نہیں سمجھتا، کیونکہ دنیا دار دنیا کو آگے رکھتا ہے، اس لئے اس کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ کوئی دنیا کو پیچھے کیسے رکھ سکتا ہے، آپ لاکھ سمجھا دیں، اس کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ پھر دین دار میں دو قسم کے لوگ ہیں: ایک وہ جو جنت کے لئے کام کر رہے ہیں اور ایک وہ جو خدا کے لئے کام کر رہے ہیں۔ جو جنت کے لئے کام کر رہے ہیں، ان کو ان کی بات سمجھ نہیں آ سکتی، جو خدا کے لئے کام کر رہے ہیں، جیسے دنیا دار کو دین دار کی بات سمجھ نہیں آ سکتی۔ جیسے میں نے ایک دفعہ عرض کیا تھا کہ جنتیوں کو بھی اخیر میں جس چیز کی معرفت حاصل ہو گی، وہ یہ ہو گی کہ جب اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا، تو ان کو یہ احساس ہو گا کہ ابھی تک تو ہم نے کچھ دیکھا ہی نہیں تھا۔ حالانکہ جنت کی نعمتیں ان کے سامنے اللہ جل شانہ نے بکھیر دی ہوں گی، مسلسل ان کو نعمتیں دے رہے ہوں گے، چنانچہ وہ سمجھتے ہوں گے کہ ہمیں بہت کچھ دے دیا گیا ہے۔ لیکن جب ان کو دیدار نصیب ہو جائے گا، تو وہ کہیں گے کہ پہلے کچھ بھی نہیں ملا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو ان کو پہلے ملا تھا، وہ اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں تھا۔ لیکن ان کی ہمت اس وقت ایسی تھی کہ وہ آگے کا نہیں سوچ رہے تھے۔ یہ جو جنتیوں کو اخیر میں معرفت حاصل ہو گی، تو جن کو یہ معرفت دنیا میں حاصل ہو جائے، آپ ان کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں۔ دوسروں کو یہ بات کیسے سمجھ میں آئے گی، جو جنتیوں کو اتنے عرصہ کے بعد سمجھ میں آئی۔ ایسے لوگوں کو دنیا میں ان کے مقام کا کیا پتا ہو گا اور یہ معرفت ان کو کیسے حاصل ہو گی۔ یہی بات ہے، جو میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ ہر شخص کی اپنی اپنی ہمت ہے۔ فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ او ست۔ یعنی ہر شخص کی فکر اتنی ہوتی ہے، جتنی اس کی ہمت ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کا شعر ہے:

کہا منصور نے خدا ہوں میں

ڈارون بولا بوزنہ ہوں میں

سن کے کہنے لگے میرے اک دوست

فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ او ست

یعنی ایک شخص اپنے آپ کو فنا کر کے کہتا ہے: ’’اَنَا الْحَقُّ‘‘۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہی نہیں ہے، صرف اللہ کو دیکھتا ہے، تو اپنے آپ میں بھی اللہ کو دیکھتا ہے، اس لئے اس کی زبان سے جو نعرہ بلند ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو فنا کر کے نکلا ہے، وہ اپنے آپ کو باقی رکھ کر نہیں نکلا۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ فرعون نے اللہ پاک کو ’’نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِکَ‘‘ غائب پا کر کہا کہ میں خدا ہوں۔ اور منصور نے اپنے آپ کو غائب پا کر کہا کہ میں خدا ہوں۔ وہ اپنے آپ کو خدا نہیں کہہ رہے تھے، ان کو خدا کے علاوہ کوئی نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ گویا وہ اس وقت وحدتُ الوجود کی حالت میں تھے اور جذب اور سکر میں تھے، لہٰذا ان کی اس بات پہ شرعاً گرفت نہیں تھی۔ لیکن دوسرے لوگوں کو بچانے کے لئے ان کو سولی پہ چڑھا دیا گیا تھا، تاکہ دوسرے لوگ شریعت کی نا فرمانی نہ کرنے لگیں۔ کیونکہ وجد میں انسان معذور ہوتا ہے، لیکن تواجد میں معذور نہیں ہوتا۔ لہٰذا اگر کوئی ان کی نقل کرتا ہے، تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ تو معذور تھے۔

اور یہی حال سرمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تھا، اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے بارے میں حکم دیا کہ ان کو مار دو۔ ان کے وزیرِ اعظم نے کہا کہ حضرت! یہ اتنی سزا کا مستحق نہیں ہے۔ فرمایا: خفتہ بہ۔ یعنی سویا ہوا بہتر ہے، اس کو سولی پہ چڑھا۔ مقصد یہ تھا کہ دوسرے لوگ چونکہ اس مقام پہ نہیں ہیں، جس مقام پر یہ ہیں، وہ خود تو معذور ہیں، لیکن دوسرے لوگ تو معذور نہیں ہوں گے اور وہ ان کی نقل کر کے تباہ ہو جائیں گے۔ بہر حال! ہر شخص کا اپنا اپنا مقام ہے۔ آگے فرمایا کہ:

متن:

جس مرید کی ہمت کا گھوڑا جنت سے آگے نہ جائے وہ مرید اس میدان کے شایانِ شان اور لائق نہیں۔

تشریح:

یعنی اس کی ہمت کا گھوڑا جنت کو بھی اپنا مقصود نہ سمجھے، پھر وہ اس میدان کا ہے۔ ہماری کمزوریاں بہت زیادہ ہیں، اللہ معاف فرمائے۔ جنت تو بہت دور کی بات ہے، یہاں تو پوسٹ یا کچھ پیسے یا کچھ title یا کچھ تعریف یا کچھ دنیاوی شوکت، یہ پاؤں کی بیڑیاں ہیں۔ اس دنیا کی چیز کو انسان قربان نہیں کر سکتا۔ لیکن بہر حال! target موجود ہے اور جانا اس طرف ہے۔ جو جہاں تک پہنچا، وہ ہر ایک کی اپنی اپنی قسمت ہے۔

متن:

عارف لوگ کہتے ہیں ہر چیز اپنے حسبِ دل خواہ اور مرضی کے مطابق چاہنا مردوں کا کام نہیں۔

تشریح:

یہ مردوں کا کام اس لئے نہیں ہے کہ مردوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ مقابلہ کر سکتے ہیں، مقابلہ کرنے والے مرد ہوتے ہیں، عورتوں پر تو ہاتھ اٹھانا منع ہے، وہ تو نہیں مقابلہ کر سکتیں۔ عورتیں جذبات میں بہت جلدی بہہ جاتی ہیں، ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات ہوتی ہیں، جن کے لئے وہ بہت بڑے بڑے فیصلے کر لیتی ہیں۔ ان کی سوچ اتنی لمبی نہیں ہوتی۔ ان میں اعلیٰ ہمتی نہیں پائی جاتی۔ اس لئے فرمایا کہ مرضی کے مطابق ساری چیزوں کو چاہنا، یہ عورتوں کا کام ہے۔ جو صحیح معنوں میں مرد ہوتا ہے، وہ اپنی خواہشات کا حاکم ہوتا ہے۔ جب کہ عورت اپنی خواہشات کی محکوم ہوتی ہے، خواہشات اس پر حکومت کرتی ہیں۔

متن:

امام شبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ اُس شخص کے لئے ہماری مجلس میں آنا اور بیٹھنا حرام ہے جس کی ہمت اور خواہشات دونوں جہانوں سے بالاتر نہ ہوں۔

تشریح:

اس کا ایک آسان نظارہ میں بتاتا ہوں، جو سمجھ میں آ سکتا ہے، اللہ ہمیں سمجھائے۔ حضرت احمد جام رحمۃ اللہ علیہ چشتیہ سلسلہ کے ایک بزرگ گزرے ہیں۔ یہ وہ شاعر ہیں، جن کے شعر سن سن کے حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ فوت ہوئے ہیں۔ حضرت نے فرمایا:

احمد تو عاشقے بمشیخت ترا چہ کار

دیوانہ باش، سلسلہ شد شد نشد نشد

احمد! تُو ایک عاشق ہے، مشیخت (پیر بننے) سے تیرا کیا کام؟ بس دیوانہ بن، (تیرا پیری مریدی کا کوئی) سلسلہ ہوا، تو ہوا، نہ ہوا، تو نہ ہوا۔ یعنی تو سلسلہ چلانے کے لئے آیا ہے، یا اللہ کا بننے کے لئے آیا ہے! حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد حضرت یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ حضرت! کیا تسخیر کا عمل ہو سکتا ہے؟ حضرت نے فرمایا: میں جانتا بھی ہوں اور تجھے سکھا بھی سکتا ہوں۔ لیکن مجھے صرف اتنا بتا دے کہ تو خدا بننے کے لئے آیا ہے یا بندہ بننے کے لئے آیا ہے؟ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے اس سے نفرت ہو گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشہور ارشاد مبارک ہے کہ ماؤوں نے جن کو آزاد جنا ہے، تم کون ہوتے ہو ان کو غلام بنانے والے۔ چنانچہ جنات کو قابو کرنا یا انسانوں کو قابو کرنا یا ان کے اوپر حکومت کرنا، یہ ایک فضول خواہش ہے۔ اس خواہش میں بعض لوگوں کی عمریں گزر جاتی ہیں اور اسی میں ختم ہو جاتے ہیں۔ کیا ضرورت ہے اس کی؟ کیا یہ آزاد اچھے نہیں ہیں؟ بہر حال! انسان کے اندر جو سرداری کی خواہش ہوتی ہے کہ میں سب سے بڑا سردار بن جاؤں اور میرے حکم سے سارا کچھ چلتا رہے وغیرہ، یہ خواہشات بہت خطر ناک ہیں۔ اگر انسان کی یہ خواہشات ختم ہو جائیں اور وہ کسی پہ حکومت کرنا نہ چاہے اور کسی خواہشِ نفس کی طرف مائل نہ ہو، بلکہ نفس کے اوپر حکومت کرے کہ نفس کو کچھ نہ کرنے دے، تو یہ بات غلط نہیں ہے۔

متن:

عدل آں بود اے پسر کہ خود را

از حد حدوث برتر آری

وانگه کہ چوں حضرت او

در مقصد صدق اندر آئی

’’عدل و انصاف کی بات یہ ہے کہ اس عالَمِ حادث کے حدود سے باہر نکل جاؤ،

تشریح:

سب سے پہلے اپنے آپ سے باہر نکلنا ہے، پھر اپنے مکان سے باہر نکلنا ہے۔ جو اپنے آپ سے باہر نہیں نکل سکتا، وہ مکان سے باہر نہیں نکل سکتا۔ پہلا stage یہی ہے۔ اپنے آپ سے باہر نکلنا، یہ نفس کی غلامی سے باہر نکلنا ہے۔ اور کون و مکان سے باہر نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی خواہش سے باہر نکلنا۔ یعنی جو کچھ ہے، اس کو اللہ کا رہنے دو، کیونکہ یہ اللہ کا ہے، کسی دوسرے کی حکومت میں مداخلت کیوں کر رہے ہو۔ ہمارا نفس بھی اللہ کا بندہ ہے، لہٰذا اس کو بھی وہی کرنا چاہئے، جو اللہ چاہتا ہے۔ چنانچہ نفس جو بغاوت کرتا ہے، اس بغاوت کو دبا کے اس پر حکومت کرو اور اس کو اللہ پاک کا بناؤ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو چیزیں جہاں ہیں، ان کو اپنی جگہ پہ رہنے دو، ان کا امیر بننے کی کوشش نہ کرو، بلکہ اللہ کا بندہ بننے کی کوشش کرو۔

متن:

اور اس وقت کہ جب اس کی جناب میں (یعنی اس کے بعد عالم حدوث کے حدود سے نکل جانے کے بعد تم اس قابل ہو جاؤ گے، کہ) مقصد صدق میں آ سکو‘‘۔

تشریح:

صدق ایک بہت بڑی صفت ہے، جو تزکیہ کے بعد حاصل ہو سکتی ہے۔ اور اَخلاقِ حمیدہ میں اس کا بہت اونچا مقام ہے۔ مختصراً اگر اس کے بارے میں کچھ کہا جا سکتا ہے، تو یہ ہے کہ جب انسان کا اندر اور باہر درست ہو جائے، تو اسے صدق کہتے ہیں۔ یعنی اس کا ظاہر ظاہرِ شریعت کے مطابق ہو جائے اور اس کا باطن باطنِ شریعت کے مطابق ہو جائے، تو یہ صدق ہے۔ اگر اندر کچھ اور ہے اور باہر کچھ اور ہے، تو یہ صدق نہیں ہے، یہ کھوٹ ہے۔ جیسے کہا گیا ہے:

صوفی نشود صافی تا در نکشد جامے

بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے

صوفی اس وقت تک کامل اور صافی نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ عشق کا جام نہ پئے۔ کیونکہ اس کے بغیر خام سے پختہ بننے میں بڑا لمبا سفر ہے۔ خامی ناپختگی کو کہتے ہیں۔ ناپختگی یہی چیز ہے کہ انسان صحیح، واضح اور مضبوط بنیادوں پہ کھڑا نہ ہو۔ اور صحیح اور واضح بنیاد اللہ جل شانہ کی بندگی ہے۔ یہ عروۃُ الوثقیٰ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی بندگی مضبوط کڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا کڑا جس نے پکڑ لیا، وہی establish ہے اور مضبوط ہے۔ اور جو نفس کے اوپر کھڑا ہے، تو نفس کو تو ہوا کہا گیا ہے اور ہوا کی تو کوئی بنیاد نہیں ہے، لہٰذا اس کے اوپر کھڑا ہو کر آدمی establish نہیں ہو سکتا۔ بہر حال! یہاں صدق کے مقصد میں آنے کی جو بات کی گئی ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ انسان اندر باہر صحیح ہو جائے اور اپنے آپ کو حق پر establish کر لے۔

متن:

ہر ایک آدمی کی قیمت اس کی ہمت کے تحت ہے،

تشریح:

یعنی اس کی قیمت اسی بنیاد پر لگے گی کہ اس کی ہمت کتنی ہے۔ جس کی ہمت اس دنیا کو چھوڑنے کی ہے، اس کی قیمت وہ ہے اور جس کی ہمت اُس جہاں کو بھی چھوڑنے کی ہے، اس کی قیمت وہ ہے۔ گویا ہر شخص کی اپنی اپنی قیمت ہے، جو جتنا اللہ کی رضا کے لئے اپنے نفس کی خواہشات چھوڑ سکتا ہے، اس کی قیمت اتنی ہے۔ ایک عرب مسلمان ہونے کے لئے آ رہا تھا، بڑے معزز عربوں میں سے تھا، راستے میں اس کا کوئی دوست نما دشمن مل گیا۔ اس نے پوچھا کہ کدھر جا رہے ہو؟ اس نے کہا: میں آپ ﷺ سے ملنے کے لئے جا رہا ہوں اور ایمان لانا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا: تم ایمان لانا چاہتے ہو؟ ایمان لانا کوئی اتنی آسان بات ہے؟ اس میں تو آپ کو نمازیں پڑھنی پڑیں گی۔ اس نے کہا کہ پڑھ لوں گا۔ پھر کہا کہ آپ کو روزے رکھنے پڑیں گے۔ کہا: اچھا، رکھ لوں گا، وہ کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ پھر کہا کہ اس میں آپ کو فلاں، فلاں بھی کرنا پڑے گا۔ اس نے کہا کہ وہ بھی کر لوں گا۔ گویا وہ سارے کام کرنے کے لئے تیار تھا۔ اخیر میں اس نے کہا کہ شراب بھی چھوڑنی پڑے گی۔ اس نے کہا کہ اس کی ابھی کچھ نہ کچھ طلب موجود ہے۔ سوچا کہ میں اس دفعہ واپس ہو جاتا ہوں، اگلے سال آ کر مسلمان ہو جاؤں گا۔ لیکن اسی سال مسلمان ہوئے بغیر فوت ہو گیا۔ اب یہ کس چیز نے مارا؟ نفس کی خواہش نے مارا، نفس کی خواہش نے تباہ کر دیا۔ یہ واقعہ تو ریکارڈ ہو گیا، تاہم بہت ساری چیزیں ایسی بھی موجود ہیں، جو ریکارڈ نہیں ہیں۔ یہ جو چیزیں ریکارڈڈ ہیں، یہ ہمیں معلوم ہیں، نظر بھی آتی ہیں کہ کتنے لوگ اپنے نفس کی کس خواہش کی وجہ سے کس وقت پیچھے رہ جاتے ہیں اور وہ خواہشات ان کے لئے رکاوٹ بن جاتی ہیں۔

متن:

ہر شخص کی قیمت اُس کی ہمت ہے۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ ہر کوئی آج اپنی قیمت اور مول کو نہیں پہچانتا۔ پس جس کسی کی ہمت وہ ہو "مَا یُدْخِلُ" ”جو وہ داخل کرے“ پس اُس کی قیمت وہ ہو گی جو کہ "مَا یُخْرِجُ" ”وہ خارج کرتا ہے“

تشریح:

یعنی جو اعمال اس سے خارج ہوتے ہیں، وہ اس کی قیمت بنیں گے۔

متن:

پس جس کسی کی ہمت ہو کہ وہ پیٹ میں لے آئے، تو وہ اُس کی قیمت وہی ہوگی "مَا یَخْرُجُ" ”جو نکل آئے“۔ اور وہ میں اور تم ہیں یہی چیز۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہماری قیمت وہ ہو جائے؟ اے بھائی! اگر کل میں اور تم برابر سرابر ہوں اور ہمارے ساتھ صلح ہو جائے "لَا عَلَیْنَا وَ لَا لَنَا" ”نہ کچھ ہم پر ہو اور نہ ہمارا کچھ ہو“ تو ہم میدان میں فاتح اور کامیاب ہوں گے۔

تشریح:

یعنی اگر ہماری ہمت اتنی ہو کہ کم از کم برابر سرابر والا معاملہ ہو جائے، تو بھی بڑی بات ہے۔ ورنہ ہم خسارے میں ہی رہیں گے۔

متن:

نفس کی خواہشات کو ترک کرنے کے بیان میں:

یہ بات جان لو کہ ہوا (خواہش) سے مراد نفس کے اوصاف، واصلین کا حجاب، مریدوں کی جائے وقعت اور طالبین کا اِعراض (منہ موڑنے، نہ ماننے) کا مقام ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ اصل تو وہ ہے اور ان کو اُس کے خلاف حکم دیا گیا ہے، اور اس کے کرنے ارتکاب کرنے سے منع کیا گیا ہے کہ "مَنْ رَّکِبَھَا هَلَکَ وَ مَنْ خَالَفَھَا مَلَکَ" ”جس نے ہوائے نفس کی تابعداری کی تو وہ ہلاک ہوا اور جس نے اس کی مخالفت کی وہ اپنی مراد اور منزل مقصود کو پہنچ گیا“

تشریح:

یعنی انسان کے ساتھ نفس لگا ہوا ہے اور نفس کے اندر خواہشات کو رکھا گیا ہے۔ ﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا﴾ (الشمس: 8)

ترجمہ: ’’پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی، جو اس کے لئے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیزگاری کی ہے‘‘۔

چنانچہ ہر قدم پر اس کی خواہش ہے، پھر دو باتوں میں سے ایک بات ہے کہ نفس کی بات مانی جا رہی ہے یا نہیں مانی جا رہی۔ اگر نفس کی بات مانی جاتی ہے، تو فجور واقع ہو رہا ہے اور اگر نفس کی بات نہیں مانی جا رہی، تو تقویٰ حاصل ہو رہا ہے۔ گویا یہ مقابلہ ہر وقت چل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان نفس سے مغلوب ہوتا ہے، تو کوئی نہ کوئی کام اس سے سرزد ہو جاتا ہے۔ اور جب نفس پہ غالب آتا ہے، تو کوئی نہ کوئی خیر اس سے صادر ہو جاتی ہے۔ جیسے انسان ہیلی کاپٹر میں اڑ رہا ہو، تو اپنی جگہ پر برقرار رہنے کے لئے بھی اس کو پَر چلانے ہوتے ہیں، یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ rest کر لے، rest کرے گا، تو گرے گا۔ اسی طرح انسان ہر وقت کشمکش میں ہے: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ كَبَدٍ﴾ (البلد: 4)

ترجمہ: ’’ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے‘‘۔

یہ مشقت ہر وقت اس کو کرنی پڑ رہی ہے۔ جیسے پانچ وقت نماز فرض ہے، انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ آج میں نے نماز پڑھ لی ہے، تو میں فارغ ہو گیا، بس میں نے کام کر لیا، اس کے بعد مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ابھی نماز سے فارغ ہوئے ہیں، تو اگلی بھی پڑھنی پڑے گی۔ حالات مشکل بھی آ سکتے ہیں، ان میں بھی پڑھنی پڑے گی۔ بہر حال! جو بھی صورت ہے، پڑھنی تو ہے۔ آپ یہ نہیں کر سکتے کہ میں تھکا ہوا ہوں، تو نہ پڑھوں۔ جس نے نماز کو دوسرے درجہ کا مان لیا یعنی کسی اور چیز کو آگے کر لیا، تو وہ اتنا پیچھے ہو گیا، اس کا نقصان ہو گیا۔ مثلاً: ایک آدمی جاب کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ اگر میں صبح سویرے نماز پڑھوں، تو میں جاب نہیں کر سکوں گا۔ تو اس نے جاب کو priority دی اور نماز کو چھوڑ دیا۔ بس وہ مارا گیا۔ یہی ہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہے کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اللہ کے حکم کو پورا کرنا، یہ بنیادی بات ہے۔ ہاں! اللہ جل شانہ کا یہ فیصلہ نہیں ہے کہ تم مشکل حالت میں کرو یا کم مشکل حالت میں کرو، یہ سب برابر ہے۔ نہیں! برابر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ایسا ترازو ہے، جو سب کے بارے میں جانتا ہے کہ کس نے کتنی مشقت سے وہ کام کیا ہے، لہٰذا اسی حساب سے اجر ملے گا۔ جس کو زیادہ مشکل میں ڈالا گیا، اس کو زیادہ اجر ملتا ہے، در اصل اس کو اللہ تعالیٰ اجر زیادہ دینا چاہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کو نقصان ہو رہا ہے، بلکہ اس کو فائدہ ہو رہا ہے۔ لہٰذا اگر انسان پہلے سے یہ طے کر لے کہ میں نے ہر حال میں اللہ کا حکم پورا کرنا ہے، چاہے میں مر بھی جاؤں، تو پھر اللہ کی مدد آتی ہے اور پھر جو چیز بہت مشکل ہو، اس کو اللہ تعالیٰ آسان بنا دیتا ہے۔ اور آسانی دو طرح کی ہوتی ہے: ایک آسانی وہ ہوتی ہے، جو دوسروں کو بھی آسانی نظر آتی ہے کہ اس کے ساتھ آسانی ہے۔ دوسری آسانی وہ ہے، جو عارفین کے لئے ہوتی ہے، جو بڑے لوگوں کے لئے ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ ان کو مشقت میں دیکھتے ہیں کہ یہ تو بہت تکلیف میں ہیں، جب کہ ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو بڑی مشقت میں ہیں، کیونکہ لوگ ان کو اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ وہ خود اس کو عشق کی نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ عشق کی نظریں بالکل اور ہیں، وہ عام نظروں کی طرح نہیں ہیں۔ چنانچہ یہ بنیادی بات ہے کہ انسان جو عمل کر رہا ہے، وہ کس جذبہ سے کر رہا ہے۔ اندر جو جذبہ ہے، وہ ہر ایک کا ایک جیسا نہیں ہوتا۔ لہٰذا جس کا وہ جذبہ نہیں ہوتا، وہ اس کو بڑی مشکل میں پاتا ہے کہ یہ تو بہت مشکل میں ہے۔ لیکن اس کے لئے وہ مشکل نہیں ہوتا، وہ اس کو آسان سمجھ رہا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ تو قسمیں بھی کھا لیتا ہے۔ اور لوگ بڑے حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسے کر رہا ہے۔ بہر حال! آسانی دو قسم کی ہے: ایک یہ ہے کہ آپ کسی کے لئے چیز کو آسان ہوتا دیکھ لیں، تو وہ آپ کو آسان نظر آتی ہے اور اُس کو بھی آسان نظر آتی ہے۔ دوسری صورت میں اس کے لئے آسان ہوتی ہے، مگر آپ کو آسان نظر نہیں آتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی دونوں قسم کی مددیں ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کے لئے ایسا آسان کر دے کہ دوسرے لوگوں کو بھی آسان نظر آ جائے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کے لئے ایسا آسان کر دے کہ آپ کو آسان نظر آئے، مگر دوسروں کو آسان نظر نہ آئے۔ چنانچہ ابن منصور کی یہی حالت تھی۔ کیونکہ باقی لوگوں کے لئے آسان نہیں تھا، لیکن ان کے لئے وہ آسان تھا۔ کیونکہ وہ ہر چیز کو عشق کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ اور عشق unlimited کے ساتھ ہے، لہذا وہ انہوں نے عشق کے عالم میں کہا تھا۔ لہٰذا ان کے لئے وہ آسان تھا، لیکن باقی لوگوں کے لئے وہ بہت مشکل تھا۔

متن:

"مَنْ رَّکِبَھَا هَلَکَ وَ مَنْ خَالَفَھَا مَلَکَ" ”جس نے ہوائے نفس کی تابعداری کی تو وہ ہلاک ہوا اور جس نے اس کی مخالفت کی وہ اپنی مراد اور منزل مقصود کو پہنچ گیا“ مثنوی

؎ سر ز ہوا تافتن از سروری است

ترک ہوا قوت پیغمبری ست

توسن طبع تو چو راست شود

سکۂ اخلاص بنامت شود

’’ہوائے نفس سے منہ موڑنا سرداری کا کام ہے، اور ترک ہوا کرنا پیغمبری قوت کا کام ہے،

تشریح:

یعنی جو اپنے نفس کا مالک ہو گیا، جو اپنے نفس کا سردار ہو گیا، تو یہ اصل میں سرداری کا کام ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ خواہشات سے منہ موڑنا، یہ پیغمبروں کا کام ہے۔ اور پیغمبروں کے پیچھے چلنا تو ضروری ہے۔ جیسے آپ ﷺ اتنی نماز پڑھتے تھے کہ پاؤں میں ورم آ جاتا تھا۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک دفعہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں شکر گزار بندہ کیوں نہ بنوں۔ چنانچہ ہر ایک کی اپنی اپنی کیفیت ہے۔ ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم تب کریں گے، جب ڈنڈا سر پر ہو گا، گویا ہم ڈنڈے کے مسلمان ہیں، لہٰذا ہمیں وہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کسی کو پہلے سے بشارت دے دی گئی ہو اور وہ پھر بھی عمل کرتا ہو۔ لیکن آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ پھر میں شکر گزار بندہ کیوں نہ بنوں۔

متن:

اگر طبیعت اور خواہشات کا گھوڑا (تمہارا متبع ہو کر) قابو میں آ جائے، تو تمہارے اخلاص کا سکہ جاری ہو جائے گا‘‘۔

تشریح:

یعنی جب تم طبیعت اور خواہشات پر حکمران ہو جاؤ گے، تو تمہیں اخلاص حاصل ہو جائے گا۔ کیونکہ پھر تم محتاج نہیں ہو گے۔ اور اخلاص تب ملتا ہے، جب انسان کسی چیز کا محتاج نہ ہو۔ جو آدمی محتاج ہے، وہ کیا اخلاص کرے گا۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ عرب حضرات کو میں نے دیکھا ہے، مختلف موقعوں پہ observe کیا ہے، یہ بات ابھی کی ہے، recently ایک صاحب جو 35، 40 سال سعودی عرب میں گزار کے آئے ہیں، وہ صبح کے وقت ہمارے ساتھ سیر پہ گئے تھے، تو وہ ایسی باتیں کرتے تھے، باتیں چلتی رہیں، وہ اپنے تجربات بتا رہے تھے، میں نے ان کو کہا کہ عربوں کی یہ عادت ہے کہ آپ ان کی جیب پہ نظر نہ ڈالیں، تو وہ آپ کے بہت جلدی دوست بن جائیں گے۔ اور جب آپ کی نظر ان کی جیب پر ہو گی، تو پھر تمہیں وہ مسکین سمجھیں گے۔ اور وہ پاکستانیوں کو مسکین کہتے ہیں۔ بہر حال! محتاجی والا معاملہ ان کے ساتھ نہ کرو۔ میں نے انہیں کہا کہ چونکہ تم نے ان کی جیب پہ نظر ڈالی کہ تم ان کے محتاج ہو، اس لئے تم مسکین تو ہو گئے۔ چنانچہ آپ ان کی جیب پہ نظر نہ ڈالیں، بس ایک مسلمان سمجھیں، برابر کا آدمی سمجھیں، ان کے ساتھ اسی طرح بات چیت کریں، جس طرح ایک برابر کے آدمی کا معاملہ ہوتا ہے، تو ٹھیک ہے۔ میں جرمنی میں عربوں کے ساتھ رہتا تھا۔ ہمارے گھر والے اس بات کے گواہ ہیں کہ ابو شعیب تیونس کے ایک ساتھی تھے، ان کے ساتھ ٹیلی فون پر ایک بار کسی علمی مسئلہ پہ گفتگو ہوئی، تو ان کو میں نے خوب سنا دیں۔ اتنی سنائیں کہ میرے گھر والوں نے مجھے کہا کہ خدا کے لئے کسی کو تو اپنا دوست رکھو، ہر ایک کے ساتھ تم یہی کرتے ہو، مسئلہ کیا ہے۔ میں نے کہا: جس کے لئے میں کر رہا ہوں، وہ دیکھ رہا ہے۔ چند دن کی بات تھی، رات کے گیارہ بجے چوتھی منزل پر knocking ہوتی ہے، حالانکہ چوتھی منزل پر جانے کے لئے 72 سیڑھیاں ہیں۔ جب کہ وہاں knocking نہیں ہوتی، وہاں تو نیچے intercom سے ان کو permission دیتے ہیں، پھر وہ اوپر آتے ہیں۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ اندر کیسے آیا۔ چونکہ اوپر صرف اپارٹمنٹ والے ہی آتے ہیں۔ تو میں سمجھا کہ اپارٹمنٹ والے ہیں۔ جب دروازہ کھولا، تو ابو شعیب اور اس کی بیوی اور بہت سارا سامان بھی تھا، اس میں فریج بھی ہے، oven بھی ہے، پردے بھی ہیں اور بھی کافی سارا سامان تھا۔ میں حیران ہو گیا۔ میں نے کہا: یہ کیا کر رہے ہو؟ کہتے ہیں: ہمارا ایک ساتھی اپنے ملک چلا گیا ہے اور ہمارا طریقہ یہ ہے کہ جو ساتھی چلے جاتے ہیں، ان کا سامان ہم کسی اور مسلمان ساتھی کو دے دیتے ہیں۔ تاکہ وہ اپنے گھر میں استعمال کر سکے۔ چونکہ میں نیا نیا گیا تھا، اس لئے کہا کہ یہ سامان میں آپ کے پاس لایا ہوں۔ میں نے کہا: وہ تو آپ نے اچھا کیا، لیکن کم از کم یہ تو کر سکتے تھے کہ مجھے کہتے، تو میں سامان نیچے سے اوپر لانے میں آپ کی مدد کرتا۔ اتنا وزنی سامان آپ دونوں نے 72 سیڑھیوں پہ کیسے چڑھایا، یہ آپ نے زیادتی کی ہے، پہلے آپ نے کیوں نہیں بتایا؟ انہوں نے کہا کہ بس ہمارا دل چاہتا تھا کہ ہم آپ کو دے دیں اور ہم خود آئیں۔ لیکن بیٹھے بھی نہیں اور چلے گئے۔ میں نے گھر والوں سے کہا کہ یہ صاحب بہت خوش ہیں کہ میں نے ٹیلی فون پر ان سے ایسی باتیں کیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی شان دکھاتے ہیں۔

دوسرے ایک صاحب جو شام کے تھے، یوسف ان کا نام تھا۔ ان کے ساتھ کسی بات پہ میری بحث ہو گئی، میں نے ان کو گریبان سے پکڑ لیا، حالانکہ وہ مجھ سے زیادہ طاقتور تھے۔ کیونکہ شامی لوگوں کی اچھی خاصی باڈی ہوتی ہے۔ خیر! لوگوں نے بچ بچاؤ کرا دیا، ان کو ایک طرف کر دیا، مجھے دوسری طرف کر دیا۔ بعد میں جب ہمارے گھر والے آ رہے تھے، تو یوسف کو پتا چل گیا، وہ کہنے لگا: شیخ! گاڑی میں لے جاؤں گا۔ میں نے کہا: میرا انتظام ہو چکا ہے۔ کیونکہ اور ساتھی تھے، ان کے ساتھ بات ہو چکی تھی۔ وہ کہنے لگا: نہیں! میں آپ سے معذرت کرتا ہوں، فیملی کو receive کرنے میں آپ کے ساتھ جاؤں گا۔ پھر اس نے معذرت کر لی اور میرے ساتھ چلا گیا۔ اس سے پتا چلا کہ جب تم کسی دنیاوی مقصد کے لئے کسی کے محتاج نہیں بنوں گے، اپنی بات کو آزاد اللہ کے لئے آزاد رکھو گے، تو اللہ تعالیٰ تمہیں واقعی آزاد کر دے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی مدد آئے گی کہ اس کو آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہی وہ گُر ہے، جس سے آپ کئی گُر کھول سکتے ہیں۔ لیکن یہ تب ہو گا، جب یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ اللہ کے علاوہ کسی کا محتاج نہیں بننا، کسی سے اپنی دنیاوی اغراض کی طمع نہ رکھنا۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ اگر خوش رہنا چاہتے ہو، تو کسی سے طمع نہ رکھو، اور فرمایا: مجھ سے بھی توقع نہ رکھو۔ طمع سب سے بڑی غلامی ہے۔ چنانچہ جو اپنے نفس کی خواہشات کا حاکم بن گیا، اس کو کسی کی پروا کیوں ہو گی، وہ کیوں لوگوں سے ڈرے گا، وہ کیوں لوگوں کے بارے میں سوچے گا کہ فلاں ناراض ہو جائے گا، فلاں ناراض ہو جائے گا۔ صرف ایک بات کا خیال رکھے کہ مجھ سے اللہ ناراض نہ ہو جائے۔ گویا لوگوں کے حقوق کا بھی جو خیال رکھے گا، تو وہ بھی اللہ کے لئے رکھے گا۔ والد کی بات اس لئے مانے گا کہ اللہ ناراض نہ ہو جائے۔ بیوی کا اس لئے خیال رکھے گا کہ اللہ ناراض نہ ہو جائے۔ بچوں کا اس لئے خیال رکھے گا کہ اللہ ناراض نہ ہو جائے۔ پڑوسی کا اس لئے خیال رکھے گا کہ اللہ ناراض نہ ہو جائے۔ دوست کا اس لئے خیال رکھے گا کہ اللہ ناراض نہ ہو جائے۔ حتیٰ کہ دشمن کے حقوق بھی پورے کرے گا کہ کہیں اللہ ناراض نہ ہو جائے۔ وہ صرف ایک ہی چیز کو خیال میں رکھے گا کہ اللہ ناراض نہ ہو جائے۔ چنانچہ ایسی صورت میں وہ محتاج نہیں ہو گا۔ چاہے بظاہر آپ اس کو محتاج دیکھیں، کیونکہ وہ اپنا خیال رکھے گا، بلکہ بہت سارے لوگ اس کو دبائیں گے بھی اور وہ دب بھی جائے گا، لیکن اللہ کے لئے دبے گا، اپنے نفس کے لئے نہیں دبے گا۔ کیونکہ اس کو پتا ہو گا کہ اس وقت اس شخص کے ساتھ میرا جو معاملہ ہو رہا ہے، وہ اصل میں اللہ کے ساتھ ہے کہ میں اس کے لئے اس کا فلاں حق ادا کر رہا ہوں۔ مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس شخص کے لئے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں، جو لڑائی، جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لئے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے، اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لئے جو خوش خلق ہو“۔ یعنی جو کچھ بھی کرنا ہے، معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔ جب انسان اللہ کے لئے ایک کام کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ تو ریکارڈ کر رہا ہے، ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ جیسے حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے آپ کو ایک سید پہلوان کے سامنے گرا دیا۔ ان کو پتا تھا کہ یہ مجھ سے طاقتور نہیں ہے، لیکن ان کو پتا تھا کہ یہ سید ہے، لہٰذا میں اس کے سامنے گر جاؤں، یہ اچھا ہے بمقابلہ اس کے کہ میں اس کو گرا دوں۔ چنانچہ انہوں نے یہ سوچ کر اس کا خیال کیا۔ لہٰذا یہ معاملہ ان کا اللہ کے ساتھ ہوا۔ پھر اللہ نے یہ کیا کہ آپ ﷺ کی خواب میں زیارت ہوئی اور فرمایا: جنید! تو نے میری اولاد کا خیال رکھا، میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آج سے تیرا نام اولیاء کی فہرست میں لکھ دیا ہے۔ کتنی بڑی چیز مل گئی۔ اس پہلوانی سے ان کو کتنا ملتا، کوئی محدود چیز ہی ملتی۔ لیکن ان کو ایسی پہلوانی مل گئی کہ اپنے نفس کو بچھاڑا اور اللہ جل شانہ نے ان کو اولیاء اللہ کی فہرست میں لکھ دیا۔ پس ہمیں اپنے نفس پر حاکم ہونا چاہئے۔

متن:

ہوا دو قسم کی ہوتی ہے:

تشریح:

ہوا سے مراد خواہشِ نفس ہے۔ ایک ہوا لذت اور شہوت سے متعلق ہوتی ہے، جس سے انسان کو مزہ آتا ہے، جیسے: کھانوں کا مزہ ہے، آنکھوں کا مزہ ہے، ناک کا مزہ ہے، کانوں کا مزہ ہے، زبان کا مزہ ہے، ہاتھ، پاؤں اور جسم کے مختلف اعضاء کے اپنے اپنے مزے ہیں۔ اگر میں مزے کے لئے کر رہا ہوں، تو یہ ایک خواہش کو پورا کر رہا ہوں اور اس کے جو نقصانات ہیں، وہ میں لے رہا ہوں۔ اور دوسری چیز جاہ ہے۔ یعنی ایک جاہ ہے اور ایک باہ ہے۔ باہ تو لذات اور شہوات کو کہتے ہیں۔ اور جاہ حکومت کو اور بڑا بننے کو، یعنی نمایاں ہونے کو کہتے ہیں۔ جیسے: ابو جہل کو جب مارا جا رہا تھا، تو وہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہتا ہے کہ تم کتنے خوش ہو گے کہ ایک سردار کے سینہ پہ بیٹھے ہو۔ اور پھر کہا کہ یہ تلوار اس قابل نہیں ہے کہ میرے سر کو کاٹ سکے، لو یہ میری تلوار ہے، اس سے میرا سر کاٹو۔ اور پھر کہا کہ میرا سر جڑ سے کاٹ دینا، تاکہ جب سروں میں پڑا ہو، تو سردار کا سر نظر آئے۔ گویا اس حد تک جاہ پرست تھا کہ عین موت کے وقت میں بھی وہ چیز اس سے نہیں جا رہی تھی۔ آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ وہ اس امت کا فرعون بن گیا۔ آخر وہ ایسے ہی تو نہیں فرمایا تھا۔ فرعون تو آخری وقت میں ایمان لانے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن یہ ظالم آخر وقت میں بھی سرنڈر نہیں کر رہا تھا، تو یہ بہت بڑا ظالم تھا۔

متن:

دوسری جاہ، ریاست اور حکومت کی، جس کسی کو لذت اور شہوت کی ہوا ہو وہ خرابات میں پڑا رہے گا اور لوگ اُس کے شر اور فتنوں سے امن میں ہوں گے۔

تشریح:

یعنی وہ اپنی چیزوں میں ہی لگا رہے گا، کسی اور کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ لیکن جو بڑا بننے کی خواہش رکھتا ہے، جو دوسرے لوگوں پہ حکومت کرنا چاہتا ہے، تو یہ مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے۔ یہ دینی جگہوں پہ بھی ہو سکتا ہے، دنیاوی جگہوں پہ بھی ہو سکتا ہے۔ دنیاوی جگہوں پہ چوہدری بنے گا، خان بنے گا، وڈیرا بنے گا، بلوچستان میں ہو گا، تو سردار بنے گا، یوں ہر کوئی اپنی اپنی جگہ پہ بڑا بننا چاہے گا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خلیفہ بننا چاہے، یہ بھی تو دنیا کی سرداری ہے۔ خلافت کا شوق ہے یا مسجد کا کوئی خطیب بننا چاہتا ہے، بڑا خطیب بننا چاہتا ہے، اس کے لئے سازشیں کر رہا ہے، یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں چاہے دینی رنگ میں ہوں یا دنیاوی رنگ میں ہوں، بہت خطر ناک چیزیں ہیں۔ کیونکہ اللہ کو پتا ہوتا ہے کہ یہ کس لئے کر رہا ہے۔ ایک دفعہ ہمارے قاری نورُ اللہ صاحب دامت برکاتھم کسی جگہ پہ بطور قاری deputed تھے، وہاں پہ ایک اور مولوی صاحب تھے، جو اس مسجد کے خطیب تھے۔ وہ خطیب صاحب بڑی سازشیں کرتے تھے کہ یہ یہاں سے چلا جائے۔ قاری صاحب تک بھی باتیں پہنچتی تھیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ اب یہ چاہے کچھ بھی کر لے، آسمان پہ بھی چڑھ جائے، لیکن اس نے اپنا منہ کالا کر لیا ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے دین کے کام میں دنیا کو مقصد بنا لیا۔ اس نے ثابت کر دیا کہ میں دنیا دار ہوں۔ میں دین دار نہیں ہوں۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عجیب بات فرمائی ہے، فرمایا کہ دین داروں کے اندر جو دنیا دار ہوتے ہیں، وہ زیادہ سخت دنیا دار ہوتے ہیں۔ کیونکہ جو دنیا دار دنیا دار ہوتے ہیں، وہ دنیا داروں کے مقابلہ میں ہوتے ہیں، کسی دنیا دار کو مار گرائیں گے، کسی دنیا دار کو نقصان پہنچائیں گے، کسی دنیا دار کی غیبت کریں گے، کسی دنیا دار کی مخالفت کریں گے۔ بس وہ یہی کریں گے۔ لیکن جو دین دار دنیا دار ہو گا، وہ دین داروں کی مخالفت کرے گا، ممکن ہے کہ اس کے مقابلہ میں اخلاص والے لوگ ہوں، اولیاء اللہ ہوں، بڑے بڑے اچھے لوگ ہوں۔ اس لئے یہ زیادہ خطر ناک معاملہ ہے۔ یہاں بھی حضرت نے یہی بات فرمائی ہے۔

متن:

اور لوگوں کے لئے فتنہ ہوں گے، خود بھی گم کردہ راہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی بد راہ کرتے رہیں گے۔ پس جس شخص کو ہوا کی رضا جوئی مطلوب ہو، اور اُس کی متابعت کرنا چاہتا ہو، تو وہ حق سے دور ہو گا، اگرچہ آسمان پر کیوں نہ ہو۔ مثنوی

؎ چوں ترا صد بت بود در زیر دلق

چوں نمائی خویشتن صوفی بد خلق

’’جب تمہاری خرقہ و قبا کے نیچے سو بُت پوشیدہ ہوں، تو تم لوگوں کو اپنے آپ کو کس طرح صوفی دکھاو گے‘‘۔

اور جو لوگ ہوا و خواہش سے دور ہوں اور اس سے پہلو تہی کرتے رہیں، تو وہ حق کے نزدیک ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ