اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم حضرت جی میری چھوٹی دیورانی مجھ سے بات کرنا چھوڑ دیتی ہے، میں بات کروں تب بھی وہ مجھ سے بات نہیں کرتی۔ اور رمضان میں میں نے خود معافی مانگی تو ایک ہفتہ تک ٹھیک رہی، اس کے بعد پھر سے اس نے بات کرنا چھوڑ دی، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا بیٹا جب میرے کمرے میں آتا ہے تو ساری چیزیں ادھر ادھر پھینک دیتا ہے، اس لئے میں اسے کمرے میں آنے سے روک دیتی ہوں۔ میں اب اسی طرح پوری زندگی نہیں گزرانا چاہتی۔ حضرت جی مجھے اس کا حل بتائیں۔
جواب:
اس کا بہت آسان حل ہے، در اصل شریعت میں ہر ایک چیز کا الگ الگ حکم موجود ہے۔ جو آپ کا حق ہے وہ آپ سے کوئی زبردستی نہیں لے سکتا۔ اگر آپ اپنا وہ حق نہیں دینا چاہتیں تو اس پہ اگر کوئی آپ سے ناراض ہوتا ہے تو اس کی ناراضگی شرعاً جائز نہیں ہے، لہذا آپ اس کی پروا نہ کریں۔ کیونکہ ان کا بیٹا اگر واقعتًا آپ کی چیزوں کو ادھر ادھر کر دیتا ہے اور جو صورتحال آپ نے بتائی اگر وہ سچ ہے تو آپ اس کو روکنے کی مجاز ہیں جس کا طر یقہ یہ ہے کہ آپ اس کے بڑوں کو کہہ دیں۔ اگر اس کے بڑے اس کو کنٹرول نہیں کرتے تو پھر آپ اس کو روک سکتی ہیں اور اس کو روکنے پر اگر کوئی آپ سے ناراض ہوتا ہے تو اس کی ناراضگی کی پروا نہ کریں اور اگر اس بنیاد پر وہ آپ سے بات کرنا چھوڑ دیں تو آپ اپنی طرف سے بات کرنا نہ چھوڑیں۔ وہ آپ سے بات کرتی ہیں یا نہیں کرتیں یہ ان کا عمل ہے جس کی وہ خود ذمہ دار ہیں، اس کا گناہ انہی کے ذمے ہے۔ اللہ جل شانہ ان کو بھی ہدایت دے۔
ایک صاحب نے مجھے ویڈیو بھیجی ہے جس میں کچھ ایسی چیزوں کے بارے میں اس نے بتایا ہے جن کا تعلق فتویٰ کے ساتھ ہے۔ نہ تو میں مفتی ہوں، نہ میں نے مفتی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی میں فتویٰ کے مسائل پر بحث کرتا ہوں۔ یہ بات میں نے بہت پہلے سے بتائی ہوئی ہے کہ سوال و جواب کا ہمارا یہ سیشن ہے صرف اور صرف تصوف سے متعلق سوالوں کے جوابات کے لئے ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ مفسر بھی تھے، محدث بھی تھے، مفتی بھی تھے اور صوفی بھی تھے، ان تمام صفات کے حامل ہوتے ہوئے حضرت نے فرمایا تھا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں جو تصوف کا کام کرتا ہوں بس مجھے یہی کرنے دیا جائے، اس کے علاوہ مجھ سے کوئی اور خدمت نہ لی جائے کیونکہ اس شعبے میں کام کرنے والے لوگ بہت تھوڑے ہیں، جبکہ باقی کام کرنے والے موجود ہیں۔ جب حضرت نے یہ بات فرمائی ہے تو ہم کس منہ سے دوسرے کاموں میں اپنے آپ کو مشغول کریں، ہماری تو یہ حیثیت ہی نہیں ہے اور نہ ہم فتویٰ دے سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر میں اس کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں کہہ دوں تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی، اس لئے پھر بھی آپ کو کسی مفتی صاحب سے فتویٰ لینے کی ضرورت ہوگی۔ اس صورتحال میں ایسے کسی کام میں اپنا ذہن کیوں لڑاؤں جو میرا ہے نہیں اور جس میں میری بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ لہذا ایسی چیزوں کے بارے میں مجھے معاف کر دیا جائے تو اچھی بات ہے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم! حضرت کیا مسجد نبوی ﷺ کے کسی بھی کونے سے حضور ﷺ سے مخاطب ہو سکتے ہیں جیسا کہ قدمین شریفین سے اور مواجہ شریف سے؟
یہ سوال کسی نے پہلے بھی کیا تھا اور میں نے اس کا جواب بھی دے دیا تھا لیکن لوگوں کے فائدے کے لئے میں پھر عرض کر دیتا ہوں۔
جواب:
جی بالکل۔ کیونکہ آپ ﷺ کی حدیث شریف ہے کہ جو لوگ دور سے مجھے سلام بھیجتے ہیں یا درود پڑھتے ہیں وہ مجھے پہنچا دیا جاتا ہے اور جو میری قبر کے پاس کھڑے ہو کر مجھ پر درود و سلام پڑھتے ہیں تو اسے میں خود سنتا ہوں اور اس کا جواب دیتا ہوں۔ چونکہ ’’عند قبری‘‘ کی تشریح میں علماء کرام نے فرمایا ہے کہ اس میں پوری مسجد نبوی شامل ہے۔ لہذا مسجد نبوی کے کسی بھی کونے سے، کسی بھی جگہ سے اگر کوئی سلام پڑھتا ہے تو اسے آپ ﷺ خود سنتے ہیں۔ لہذا کہیں سے بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ خواتین چونکہ حرم میں دور سے سلام پڑھتی ہیں، تو راولپنڈی کی ایک خاتون تھی جسے پریشانی ہوئی کہ میں اتنی دور سے آئی ہوں اور مجھے موقع نہیں مل رہا، تو اس نے مجھے کال کی اور بتایا کہ مجھے اونگھ آئی اور اس اونگھ میں آپ ﷺ کی زیارت ہوئی، آپ ﷺ نے فرمایا: تم یہیں سے پڑھو، میں یہاں سے بھی سنتا ہوں۔ تو چونکہ اس حوالے سے حدیث شریف موجود ہے لہذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم! حضرت جی مجھے زندگی میں بہت مشکلات ہیں، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہی کہ کیا کروں۔ برائے مہربانی مجھے کوئی مشورہ دیں، میں نوکری نہیں کرنا چاہتی مگر نوکری کرنا میری ضرورت ہے۔ آج کل ہر سکول و کالج میں چاہے خواتین کے ہوں ان میں مرد ضرور ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ نوکری نہ کروں اور خانقاہ کے لئے کام کروں، چونکہ ہمارا لیپ ٹاپ ایک ہے جس پہ بھائی کام کرتا ہے، اتفاق سے میں صبح کے وقت کام کرنا چاہتی ہوں، اس وقت بھائی بھی استعمال کرتا ہے، کافی دفعہ اس پر دونوں میں جھگڑا بھی ہوا، میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ اپنے لئے علیحدہ لیپ ٹاپ خریدوں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں نے ایک سکول جوائین کیا ہے مگر وہاں بھی پردے کا مسئلہ ہے، پرنسپل اور دیگر عملہ تو خواتین پر مشتمل ہے، مگر درجہ چہارم کے لوگ کسی بھی وقت کلاس میں کسی کام کے لئے آ جاتے ہیں، مجھے یہاں بھی پردے کی مشکل ہوتی ہے۔ اب میں چاہتی ہوں کہ میں گھر میں بیٹھ کر تفسیر عثمانی کی ٹائپنگ کروں۔ حضرت مجھے بتائیں میں کیا کروں، کیا سکول چھوڑ دوں؟
جواب:
یہ بات بالکل معقول ہے، اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی پرنسپل کو درخواست دیں کہ چونکہ یہ بچیوں کا مدرسہ ہے اور اس میں سارا عملہ خواتین پر مشتمل ہے، صرف درجہ چہارم کے ملازمین مرد ہیں، تو ان کو ہدایات دی جائیں کہ وہ بغیر بتائے نہ آیا کریں۔ اگر اس صورت میں کامیابی نہ ہو اور وہ اس پر عمل نہیں کرتے تو پھر اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ برقعے میں بیٹھ کر کام کر لیا کریں اس سے تو آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ان دونوں میں سے ایک کام تو ہو سکتا ہے ان شاء اللہ العزیز۔ آپ کوشش کریں تو یہ مسئلہ بہت آسانی سے حل ہو سکتا ہے۔
سوال نمبر 4:
ایک خاتون کہتی ہیں کہ میں آپ سے فون پر بات کرنا چاہتی ہوں، کس وقت کروں؟
جواب:
ہمارے ہاں اوقات مقرر ہیں۔ دن 12 بجے سے لے کر 1 بجے تک، سوائے جمعہ کے باقی دنوں میں یہی اوقات ہیں، ان اوقات میں سے کسی بھی وقت آپ بات کر سکتی ہیں۔
سوال نمبر 5:
شانگلہ سے ایک صاحب کہہ رہے ہیں کہ گروپ میں شامل کر لیں تاکہ میں آپ کے بیان سن سکوں۔
جواب:
آپ کی بات گروپ ایڈمنسٹریٹر تک پہنچا دی جائے گی ان شاء اللہ۔ وہ اس پر عمل در آمد کر لیں گے۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم
I wanted to ask a question about the role of multiple marriages within صوفی context and someone recommended to me work by مولانا تھانوی from his اصلاحی کتب and I think it’s something کتب قلوب المنیبہ and something about حضرت saying in this time that one has to be very careful. In other words, he talks about the عارف and he says that
ان کا یہ کہنا ہے کہ جو عارف ہے ان کے ہاں تعدد ازواج کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ عارف جماع کے لحظہ میں صفتِ جمال کا مشاہدہ کرتا ہے، اس لئے بعض عارفین کے لئے تعدد ازواج ضروری تھا کیونکہ یہ بھی عبادت کا ایک ذریعہ تھا۔ اس میں آپ کچھ نصحیت فرما دیں کہ آج کے زمانے کے مطابق سالکین کے لئے کیا بہتر ہے؟
جواب:
یہ بے موقع سوال ہے کیونکہ یہ سالکین یعنی مبتدی یا متوسط لوگوں کے لئے کہا گیا ہے، سالکین کو تو اس کی اجازت نہیں ہے، وہ اس مرتبے کے لوگ نہیں ہے لہذا ان کے لئے یہ سوال بے موقع ہے۔ جب کہ عارفین کو سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود ہی عارف ہوتے ہیں۔ بہر صورت اس سوال کی ضرورت نہیں تھی۔
میں بارہا ڈاکٹر صاحب سے کہہ چکا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب مہربانی کر کے اپنی اصلاح پہ توجہ دیں ان علمی موضوعات کو نہ چھیڑا کریں، کیا فائدہ ہے آپ کو؟ کیا آپ تصوف میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں؟ تصوف میں پی ایچ ڈی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، آپ صوفی بنیں اور عملی سالک بنیں تاکہ آپ کو فائدہ ہو۔ آخرت میں آپ سے تصوف میں پی ایچ ڈی نہیں مانگی جائے گی۔ لہذا آپ تصوف کے ان موضوعات کو نہ چھیڑا کریں جن کا آپ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کا عملاً آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جیسے میں نے ابھی عرض کیا کہ اس سوال کی سالکین کو ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ عارف نہیں ہیں۔ اور سالکین کو جس کی ضرورت ہے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے وہ بتا دیا ہے۔ حضرت سے کسی نے کہا کہ آپ نے دوسری شادی کر کے تعددِ ازواج کا دروازہ کھول دیا۔ حضرت نے فرمایا میں نے دروازہ بند کیا ہے، کیونکہ لوگ جب دیکھیں گے کہ اتنا زیادہ عدل کرنا پڑتا ہے تو خود ہی ڈر کر اس سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ کیونکہ قرآن پاک میں اس کے متعلق حکم موجود ہے، کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم چار تک شادیاں کر سکتے ہو، لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ عدل کرو اور اگر عدل نہیں کر سکتے تو پھر ایک بہتر ہے۔ کم از کم عام لوگ تو آج کل کے دور میں عدل نہیں کر سکتے، ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ جنہوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کی ہیں وہ عدل نہیں کر سکے بلکہ ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ ایک پر ہی اکتفاء کریں۔ بہرحال آج کل کے دور میں چونکہ عدل مشکل ہے لہذا ایک پر اکتفاء کرنا ضروری ہے۔ لیکن قرآن پاک میں ایک سے زیادہ شادیوں کا حکم اس لئے آیا ہے کہ اس کی ضرورت ہے، کیوں کہ عورتوں کی تعداد اکثر مردوں کی تعداد سے زیادہ ہوتی ہے اور بیوائیں بھی ہوتی ہیں تو اگر کوئی ازراہِ ترحّم ان کے ساتھ مہربانی کر کے ان کو اپنے عقد میں لے لے اور ان کے ساتھ عدل کرے تو شریعت میں گنجائش ہے، فرض قرار نہیں دیا گیا کہ خواہ مخواہ آپ کریں، بلکہ اس کے لئے شرط رکھی گئی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عارفین کے مقامات بہت اونچے ہیں ان کو خود ان چیزوں کا پتا ہوتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ لہذا اس کے لئے آپ کو پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور آئندہ کے لئے بھی آپ کو میری نصیحت ہے کہ آپ صرف اپنی اصلاح پہ توجہ دیں، تصوف کے علمی موضوعات کو نہ چھیڑا کریں، یہ فضول عمل ہے، اس سے آپ کو راستے سے ہٹانے کے لئے شیطان کو موقع ملے گا۔ لہذا آپ صرف عملی چیزوں کو لیں اور عملی چیزیں تب ہو سکتی ہیں جب اس راستے پہ چلنا شروع کر لیں گے یعنی جن کے ساتھ آپ کو مناسبت ہو ان سے بیعت ہو کر کام شروع کریں، پھر جب آپ اپنے شیخ سے پوچھیں گے تو وہ عملی چیز ہوگی، جو مشکل آپ کو پیش آئے گی اس کا آپ پوچھ لیا کریں جس کا آپ کو جواب ملے گا ان شاء اللہ۔ اس طرح عملی زندگی میں آئیں گے تو آپ کو فائدہ ہو گا۔
اس وقت آپ کے سارے سوالات علمی ہیں اور علمی سوالات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہمارے حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جب میری دو کتابیں دیکھیں، ایک ’’تصوف کا خلاصہ‘‘ اور دوسری ’’زبدۃ التصوف‘‘ تو اس پر بہت زیادہ خوش ہوئے، اور الحمد اللہ بڑی مبارک باد دی۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت اصل کتاب تو ’’فہم التصوف‘‘ ہے جو ابھی تک چھپی نہیں ہے، اسی سے یہ دونوں کتابیں نکلی ہیں۔ فرمایا کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس جو اصل چیز ہے وہ اس سے ثابت ہو رہی ہے، وہ سامنے آ رہی ہے، باقی تصوف عملی چیز ہے وہ علمی چیز نہیں ہے۔ لہذا حضرت نے واضح طور پر فرمایا کہ تصوف عملی چیز ہے علمی چیز نہیں ہے۔
علمی باتیں تو اس آدمی کے لئے ضروری ہیں جس کو کوئی الجھاؤ ہو، لہذا ایسا آدمی اپنا ذہنی الجھاؤ دور کرنے کے لئے پوچھ سکتا ہے۔ چنانچہ اگر آپ کو ابھی تک کوئی الجھاؤ ہے تو وہ ایک علیحدہ بات ہے، لیکن باقی لوگوں کو تو الجھاؤ میں نہ ڈالیں۔ لہذا اگر آپ کو الجھاؤ ہے تو آپ صرف اس کے لئے چیزیں دیکھ سکتے ہیں، لیکن اس حوالے سے بھی میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو کوئی الجھاؤ نہیں ہے۔ کیونکہ تصوف کو آپ صحیح سمجھتے ہیں اور تصوف ایک عملی چیز ہے اور عملی چیز کو عملی طور پر لینا چاہیے اس کو علمی چیز نہیں بنانا چاہیے۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم سید صاحب
I pray you are well. My husband told me that you said I should read three times “آیت الکرسی” at the start and end and in middle recite سورۃ فلق، اخلاص and سورۃ الناس, after فجر and مغرب صلوۃ and درود with مراقبہ of روضہ مبارک daily. I have been doing that الحمد للہ. just have a few questions if you could answer whenever convenient.
No.1:
I heard that a ذکر makes a person have complete سکون. How is it possible while we have depression and anxiety when a person engages in ذکر? Is it true that a person who has strong یقین can’t have anxiety and depression? Is it possible to treat these with ذکر or a medical treatment is necessary? Is there any guidance in دین according to this? In my case, would you recommend starting medication or should I simply carry on with معمولات?
جواب:
چونکہ یہ ایک عملی سوال ہے لہذا اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ گھبراہٹ اور ذہنی دباؤ نفسیاتی بیماریاں ہیں اور نفسیاتی بیماریوں کی دو ranges ہوتی ہیں ایک Psychiatric range ہوتی ہے اور ایک Psychological range ہوتی ہے۔ Psychiatric range کے اندر علاج ضروری ہے۔ کیونکہ ایسا آدمی اس حالت میں پہنچ چکا ہوتا ہے کہ اس کو نصیحت یا راہنمائی فائدہ اس وقت تک نہیں دے سکتے جب تک کہ اس کے ہارمونز کی خرابی کو ختم نہ کیا جائے، جس کے لئے علاج و معالجے کی ضرورت ہوتی ہے اور جب وہ علاج مؤثر ہو جائے اور وہ Psychological range میں آ جائے تو پھر اس کا علاج دونوں طریقوں سے ممکن ہے۔ لہذا اگر اس کو راہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ ڈاکٹر بھی کر سکتا ہے اور صوفی بھی کر سکتا ہے لہذا کسی بھی صورت کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ آج کل کے دور میں میرے خیال میں کسی ایسے صوفی سے راہنمائی لینا زیادہ بہتر ہے جو ان چیزوں کو جانتا ہو۔ کیونکہ ہمارا تجربہ ہے کہ چونکہ آج کل کے ماہرینِ نفسیات نے مغرب کی کتابیں پڑھی ہوتی ہیں اور وہ انہی طریقوں کو استعمال کرتے ہیں جو انہوں نے کتابوں میں پڑھے ہوتے ہیں مثلاً ٹی وی دیکھنے اور میوزک سننے کا کہتے ہیں، اور بعض دفعہ بڑے غلط طریقے بھی بتا دیتے ہیں جو شریعت میں جائز نہیں ہوتے۔ کیونکہ راہنمائی اگر جائز طریقے سے ہو سکتی ہے تو ناجائز کی طرف کیوں جایا جائے۔ لہذا جب ایسا آدمی اس حالت میں آ جائے تو صوفیاء کے ہاں ذکر والا طریقہ زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جو انسان ذکر کرتا ہے اور ذکر کے معنی کو جانتا ہے اور صحیح انداز سے ذکر کر سکتا ہے تو اس کے اثرات بہت اچھے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد: 28)
ترجمہ: ’’یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔
لہذا یہ تو ذکر کی خاصیت ہے کہ اس سے سکون حاصل ہو جاتا ہے۔ اور اس کے لئے کوئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اگر یہ طریقہ کار آمد نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ Psychological range میں نہیں ہے۔ کوئی نیوران کا مسئلہ ہے، پھر اس کو کچھ دوا کی ضرورت ہو گی۔ لہذا ان دونوں چیزوں کو جمع کرنا پڑے گا۔ یعنی پہلے اس کو کچھ دوا کی ضرورت ہو گی اور پھر جب وہ راہنمائی قبول کرنے حالت میں آ جائے گا تو پھر ذکر کے ذریعے اس کا علاج کیا جائے گا۔
خدا نخوستہ اگر کوئی Psychiatric range میں ہو اور اس کو Psychological range میں سمجھ کر علاج کیا جائے تو بعض دفعہ یہ چیزیں اس کے اوپر بوجھ بن سکتی ہیں کیونکہ یہ ایک اضافی کام ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ مزید خراب ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کو Psychiatric range میں سمجھتے ہوئے پہلے اس کا علاج کرنا ضروری ہوتا ہے پھر جب وہ مشورے اور راہنمائی کی رینج میں آ جائے اور ڈاکٹر کہہ دے کہ اب یہ اس حالت میں آ گیا ہے تو پھر کسی ڈاکٹر سے راہنمائی لینے کی بجائے صوفیاء کے پاس جائے، الحمد اللہ ہم نے یہاں تجربہ کیا اور یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ہے۔ جن حضرات کو اس قسم کے مسائل ہوتے ہیں اور وہ Psychiatric range میں ہوتے ہیں تو ان کو ہم ماہرِ نفسیات کے پاس بھیجتے ہیں، وہ ان کا اس وقت تک علاج کرتے ہیں جہاں سے Psychological range شروع ہو جاتی ہے، اس کے بعد پھر ہماری ہدایات پر عمل کرنے سے ان کو الحمد للہ بڑا فائدہ ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ چیز نیت کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ (بخاری شریف، رقم الحدیث: 1)
ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔
چونکہ ذکر کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے لہذا اگر انسان ذکر اللہ پاک کا حق سمجھ کر کرے تو اس کا فوراً اثر شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ذکر کو محض دنیاوی فائدے کے لئے استعمال کر رہا ہے تو پھر اس کا اثر بہت کم ہو جاتا ہے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ ان دونوں چیزوں کو جمع کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اگر ایک آدمی بیمار ہے تو وہ بیماری کے لئے ہی ذکر کرے گا لہذا اس ذکر کا وہ اثر نہیں ہوگا جو ایک عام آدمی کے لئے ہوتا ہے۔ ہمارے پاس بہت سارے لوگ آتے ہیں جو الحمد للہ یہاں خانقاہ کے اندر داخل ہوتے ہی ٹھیک ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ ہماری اپنی طرف سے کہی ہوئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں کے اپنے تجربات ہیں جو وہ خود بتاتے ہیں کہ وہ خانقاہ کے اندر داخل ہوتے ہی ٹھیک ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ چونکہ پشاور یونیورسٹی میں عریبک ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین تھے لہٰذا پڑھے لکھے لوگوں کے ماحول میں رہتے تھے تو جو پروفیسر حضرات ذہنی تناؤ اور دباؤ کا شکار ہو جاتے تھے یا کوئی طالب علم بیچارہ پریشان ہو جاتا تھا تو لوگ ان کو مشورہ دیتے تھے کہ جا کر مولانا صاحب کی مجلس میں تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ جائیں، تو وہ آ کر بیٹھ جاتے اور ما شاء اللہ ٹھیک ہو کر واپس جاتے تھے۔ اس سے بھی ہماری بات کی تائید ہوتی ہے۔
ایک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر صاحب ایک دن میرے پاس آئے اور آتے ہی کہا کہ شاہ صاحب! کیا میں رو سکتا ہوں؟ میں نے کہا کہ رونا آپ کا حق ہے، میں اس کو چھین نہیں سکتا، بالکل آپ رو سکتے ہیں۔ تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ پھر انہوں نے اپنے گھر اور دفتر کے مسائل بتائے جو واقعی بہت زیادہ تھے، اور اپنی ساری صورتحال مجھے بتائی کہ فلاں فلاں مسائل ہیں۔ میں نے ان کو کہا کہ ڈاکٹر صاحب! آپ خود چونکہ اس شعبے سے وابستہ ہیں، آپ صرف اتنا کر لیں کہ ایک کاغذ اور قلم لے لیں اور آپ کی زندگی میں جتنی مثبت باتیں ہیں وہ لکھیں۔ کیونکہ ابھی تک آپ نے مجھے صرف اپنی منفی باتیں بتائیں۔ لہذا جو آپ کی مثبت باتیں ہیں جو آپ کی خواہش کے عین مطابق ہیں وہ بھی ذرا لکھ دیں۔ وہ مجھ سے بحث کرنے لگے اور وہ بحث کافی دیر تک چلتی رہی، آخر میں جب جانے لگے تو کہتے ہیں: شاہ صاحب! بات تو آپ کی سمجھ میں نہیں آئی، لیکن یہاں مجھے سکون ملا ہے، کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں کبھی کبھی ویسے ہی آ جایا کروں؟ میں نے کہا: آ جایا کریں کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ اس کے بعد جب بھی وہ آتے تو میں ان کو اپنے ساتھ سیر کے لئے لے جاتا، تقریباً مہینے میں ایک دفعہ آیا کرتے تھے۔ چھے مہینے کے بعد مجھے کہنے لگے کہ شاہ صاحب! میں آج آپ کی بات سمجھ گیا ہوں۔ میں نے کہا ان شاء اللہ اب آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ پھر انہوں نے مجھے اگلے مہینے یہ خوشخبری سنائی کہ میں اسّی فیصد ٹھیک ہو گیا ہوں۔ اب صرف Mood stabilizer پر ہوں۔ میں نے کہا: مبارک ہو بڑی اچھی بات ہے۔ پھر الحمد للہ انہوں نے میرے ساتھ کافی عرصہ تک تعلق رکھا۔ بلکہ یہاں تک کہا کہ آپ ہمارے میڈیکل کالج آ کر اس موضوع پر لیکچر دیں، یہ لوگ بہت زیادہ خوش ہوں گے۔ میں نے کہا: میں بالکل لیکچر نہیں دوں گا۔ کہتے ہیں کیوں؟ میں نے کہا اس لئے کہ آپ تو مریض تھے، آپ کو ضرورت تھی اس لیے آپ کو قدر تھی، مگر طلباء کو ضرورت نہیں ہے، وہ کہیں گے آپ انجینئر ہیں ڈاکٹر نہیں ہیں، ہم آپ کی بات کیوں سنیں؟ تو میری بات کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ تو میں اپنی بات کو خواہ مخواہ کو کیوں بے وقعت کروں، لہذا میں ان کو لیکچر نہیں دوں گا، البتہ میں آپ کو سمجھا سکتا ہوں پھر آپ ان کو لیکچر دے دینا۔ یہ آپ کی بات سن لیں گے۔
بہرحال آپ پریشان نہ ہوں اگر آپ کو اس طرح کا کوئی مسئلہ ہے تو اس کا حل موجود ہے، چنانچہ اگر آپ کا مسئلہ Psychiatric range میں ہے تو پہلے آپ ماہر نفسیات سے مشورہ کر لیں اور اس مسئلے کا علاج کرائیں، پھر جب Psychological range میں آ جائیں تو پھر جو بھی مناسب ہو گا ان شاء اللہ آپ کو بتا دیا جائے گا۔
سوال نمبر 8:
She asked if she also has سحر or جن as all of the family in Pakistan are saying it must be جن or کالا جادو? Although I checked her and there was no سحر اور جن issue. I advised her not to waste her money on عامل.
جواب:
یہ بہت اہم بات ہمارے ساتھی نے بتائی ہے، اللہ ان کو اجر دے۔ واقعی لوگ بہت سارا وقت ضائع کر لیتے ہیں جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آج کل دیانتداری کم ہے۔ مسائل تین قسم کے ہوتے ہیں: جنات، سحر اور بیماری۔ چونکہ لوگوں میں دیانتداری نہیں ہے۔ اس لئے جب انسان کسی عامل کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کو سحر اور جنات کے اثرات بتاتا ہے چاہے اس کو بیماری ہی کیوں نہ ہو۔ اور اگر انسان ڈاکٹر کے پاس جائے تو چاہے اس کو سحر اور جنات کا مسئلہ ہی کیوں نہ ہو ڈاکٹر اسے بیماری ہی بتاتا ہے، اب ایسی صورت حال میں کیا کیا جائے۔ کسی طرف بھی دیانتداری نہیں ہے، ایسے ڈاکٹر بھی موجود ہیں جن کو ٹیسٹ کروانے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن وہ صرف اپنے پیسے بنانے کے لئے مریض سے ٹیسٹ کروا لیتے ہیں۔ صورتحال یہاں تک خراب ہے کہ بہت دفعہ سیزرین آپریشن کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے باوجود ڈاکٹرز سیزرین کروا دیتے ہیں۔ اسی طرح بلا ضرورت ایکسرے لینا تو بہت عام ہے۔ اس قسم کے بد دیانت ماحول میں تو وقت ہی ضائع ہوتا ہے۔ لہذا اگر آپ کو ایک دیندار صاحب نے یہ رائے دی ہے تو میرا خیال ہے یہ آپ کے لئے نعمت ہے اور اس پر اپنا وقت ضائع نہ کریں، پہلے آپ ماہر نفسیات سے مشورہ لیں، اگر آپ کا مسئلہ Psychiatric range میں ہے تو پہلے اس کا علاج کروا لیجئے گا بعد میں جب آپ Psychological range میں آ جائیں تو اس کے لئے الحمد للہ بہت سے طریقے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
سوال نمبر 9:
میں 33 آیات منزل بھی روزانہ پڑھتا ہوں اور فرض کے بعد آیت الکرسی پڑھتا تھا آنکھوں پر اثر ہونا شروع ہوا تو چھوڑ دیا، اب آپ سے اجازت لے کر پڑھوں گا۔ 06 تاریخ کو سفر میں تھا تو اشراق قضا ہوئی۔ 20 تاریخ کو سفر میں تھا تو صرف تہجد قضاء ہوئی۔ صلوۃ التسبیح اس ماہ پڑھی ہے اور 9 محرم کا روزہ رکھا ہے۔
جواب:
اللہ جل شانہ مزید توفیقات سے نوازے۔
آیت الکرسی اگر آپ کو زبانی یاد ہے تو پھر آنکھوں پر کیسے اثر ہوا؟ اور اگر زبانی یاد نہیں ہے تو علیحدہ بات ہے۔
سوال نمبر 10:
صبح فجر کے بعد ظہر تک کلمہ طیبہ اور ظہر سے مغرب تک درود شریف، مغرب سے عشاء تک استغفار، اس ماہ کی 16 تاریخ کو صلوٰۃ التسبیح پڑھی اور صبح فجر سے مغرب تک درود، عشاء کے بعد استغفار اور فرض کے بعد آیت الکرسی پڑھتا ہوں۔ ’’بِسْمِ اللهِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِهٖ شَیْءٌ فِیْ الْأَرْضِ وَ لَا فِیْ السَّمَآءِ وَهُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ‘‘ صبح شام تین تین مرتبہ اور تقریباً نو سال سے سورۂ انعام کی پہلی تین آیتیں اور فجر کے بعد ’’اَللّٰہُمَّ أَنْتَ رَبِّیْ لَآ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَ أَنَا عَبْدُکَ وَ أَنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَ وَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوْءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَ أَبُوْءُ لَکَ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَإِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ‘‘ بھی تقریباً 1995 سے فجر اور مغرب کے بعد پڑھتا آ رہا ہوں۔ 7 مرتبہ صبح اور 3 مرتبہ شام کو سورۂ توبہ کی آیت: ﴿حَسْبِیَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ﴾ بھی پڑھتا ہوں، اور سورۃ الحشر کا آخری رکوع بھی صبح شام پڑھتا ہوں۔ اور ’’رَضِیْتُ بِاللہِ رَبًّا وَّ بِالْاِسْلَاْمِ دِیْنًا وَّ بِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا‘‘ بھی پڑھتا ہوں۔
جواب:
ذرا یہ بتا دیجیے کہ آپ نے یہ وظائف از خود شروع کئے ہیں یا کسی سے لئے ہیں۔ اگر کسی سے لئے ہیں تو کس سے لئے ہیں؟ یہ پتا چلنے کے بعد فیصلہ ہو گا ان شاء اللہ۔ کیونکہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ بلا وجہ مجموعۃ الوظائف نہیں بننا چاہیے۔ یعنی با مقصد طریقے سے کام ہونا چاہیے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے:
’’إِنَّ الدِّيْنَ يُسْرٌ وَ لَنْ يُّشَادَّ الدِّيْنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهٗ فَسَدِّدُوْا وَ قَارِبُوْا وَ أَبْشِرُوْا‘‘۔ (بخاری، حدیث نمبر: 39)
ترجمہ: ’’جو شخص دین میں سختی کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا اس لئے میانہ روی اختیار کرو اور (اعتدال کے ساتھ) قریب رہو اور خوش ہو جاؤ‘‘۔
واقعی بعض لوگ مجموعۃ الوظائف بن جاتے ہیں۔ ہماری ایک کزن نے مختلف لوگوں سے بہت سے وظیفے لئے ہوئے تھے، ایک بار کہنے لگی مجھے وظیفہ دیں۔ مجھے اس کا پتا تھا کہ اس نے بہت سارے وظیفے لئے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں نہیں دیتا۔ اس نے کہا کہ آپ سب کو دیتے ہیں، مجھے نہیں دیتے۔ میں نے کہا میری مرضی جس کو دوں جس کو نہ دوں، کوئی زبردستی تھوڑی ہے۔ جب اس نے زیادہ اصرار کیا تو میں نے کہا کہ اس شرط پر میں آپ کو وظیفہ دیتا ہوں کہ باقی سارے وظیفے چھوڑنے پڑیں گے۔ کہتی ہے یہ تو نہیں ہو سکتا۔ میں نے کہا پھر میں وظیفہ نہیں دیتا۔
ایک دن رشتہ دار خواتین بیعت ہو رہی تھیں تو ان میں وہ بھی بیعت ہو گئی، پردے کی وجہ سے میں نہیں دیکھ سکتا تھا کہ کون کون سی خواتین بیعت ہو رہی ہیں۔ پھر اس نے پیغام بھجوایا کہ اب تو میں بیعت ہو گئی ہوں اب تو آپ وظیفہ دیں گے۔ میں نے کہا اب آپ بیعت ہو گئی ہیں اس لئے اب تو آپ کو ہماری بات ماننی پڑے گی۔ چنانچہ اس نے مجھے لکھ کے ساری چیزیں بھیج دیں، تو میں نے ان تمام وظائف کی ترتیب بنا دی اور ایک فارمولہ بنا دیا۔ پھر وہ عمر بھر اس پر عمل کرتی رہی۔ اور الحمد للہ ان کو بڑی اچھی موت نصیب ہوئی۔ مقصد یہ ہے کہ بعض لوگ از خود ہی مجموعۃ الوظائف بن جاتے ہیں۔ کسی کتاب میں کوئی وظیفہ پڑھ لیا یا کسی نے بتا دیا تو بس اسے شروع کر دیتے ہیں۔
اصولی بات یہ ہے کہ ہر شخص کے لئے ہر چیز علاج نہیں ہوتی۔ اسی طرح بعض لوگوں کے لئے بعض چیزیں علاج نہیں ہوتیں۔ جیسے ایک صاحب بیرونِ ملک جا رہے تھے تو حضرت سے پوچھا کہ کیا میں اللہ اللہ کر لیا کروں؟ حضرت نے فرمایا کر لیا کرو۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ ابھی باہر نکلے ہی تھے کہ حضرت نے فرمایا اس کو واپس بلاؤ۔ وہ واپس آئے تو حضرت نے کہا کہ درود شریف پڑھ لیا کرو۔ جب وہ چلے گئے تو حضرت نے فرمایا کہ بعض لوگ اللہ اللہ کرنے سے دیوانے بھی ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں برداشت نہیں ہوتی۔ مجھ پر بھی حضرت نے ذکر کافی حد تک بند کر دیا تھا، صرف 3 تسبیحات دی تھیں اس سے زیادہ نہیں بڑھنے دیتے تھے۔ پھر آخر میں چار تسبیحات ہو گئی تھیں۔ در اصل ان حضرات کو تجربہ ہوتا ہے کہ کس کو کتنا ذکر دے سکتے ہیں اور کتنا نہیں دے سکتے۔ میں حضرت کا بڑا مشکور ہوں کہ حضرت نے سمجھ لیا اور کنڑول کر لیا ورنہ اندیشہ تھا کہ میں مجذوب بن جاتا۔ لہذا اصول یہی ہے کہ کبھی بھی اپنے خود تشخیصی طریقے سے دوائی نہیں استعمال کرنی چاہیے۔ ہمارے ہاں ایک ڈاکٹر صاحب ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ جب میں بیمار ہو گیا اور اپنی دوائی سے ٹھیک نہیں ہوا تو میں نے اپنے دوست ڈاکٹر سے کہا کہ اب میں آپ سے علاج کرواتا ہوں، اگر آپ پانی بھی روکتے ہیں تو میں وہ بھی نہیں پیوں گا۔ کہتے ہیں پھر میں ٹھیک ہو گیا۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ علاج میں پہلا کام یہ ہے کہ اپنا علاج خود نہ کریں۔ اس لئے کہ اگر کوئی خود ڈاکٹر ہے تو چونکہ وہ بہت ساری چیزوں کے مضر اثرات کو جانتا ہے لہذا وہ ان مضر اثرات کے معلوم ہونے کی وجہ سے ڈرے گا اور ممکن ہے کہ جس چیز کی ضرورت ہو وہ نہ استعمال کرے اور جس کی ضرورت نہ ہو وہ استعمال کر لے لہذا توازن نہیں رہے گا۔ اس لئے خود سے اپنے طور پہ اپنا علاج نہیں کرنا چاہیے ورنہ مسائل ہو سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ مسائل ہوں لیکن امکان ضرور ہے۔ جیسے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں کام کیا ہمیں تو کچھ نہیں ہوا۔ اول تو یہ یقینی نہیں کہ اگر اب تک کچھ نہیں ہوا تو اس کے بعد بھی کچھ نہیں ہو گا۔ غلط کام غلط ہوتا ہی ہے ضروری نہیں کہ اس کا نتیجہ فوراً ظاہر ہو۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں: پتھر ہر وقت نہیں گرتا کوئی خاص وقت ہوتا ہے جس میں گر جاتا ہے۔
ہدایت:
ما شاء اللہ! بہت سارے لوگ معمولات کے چارٹ بھیج رہے ہیں جنہیں دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک عملی چیز ہے اور اس کے بہت فوائد ہیں۔
سوال نمبر 11:
I have communicated your message to my mother, not about myself, حضرت I feel lost. I just read my initial means to you and that made me cry. You want me not to hesitate to tell you, as you “you are just like my daughter”. حضرت I want to tell you something. I am frightened of talking to you and I feel worse when I feel that. I think a lot and feel confused a lot. I feel fear talking to you. I do not hope high but I have this thing in mind that maybe I bother you by asking questions but I'm not asking that. I am still confused, you don't often reply but I heard that how it is so? I believe that the questions are answered. I feel stuck because on the تزکیہ website the method of ذکر and مراقبہ is given. I don’t know whether that applies to me or not. Should I do the نفل عمل, as well or not? You told me to recite
100 times 3rd کلمہ
100 times درود,
100 times استغفار,
and 10 minutes مراقبہ.
I am doing that punctually. Today I opened that website and realized that I was doing the مراقبہ not properly. I was concentrating on place of اخفیٰ, misunderstood it for قلب. What does it imply? حضرت the more I want to be near اللہ the more I am becoming alone. At home I am fine but in university I isolate myself without knowing. It hurts to be alone. I want to spend time with my classmates, but اللہ just does not let it happen. My prayer timings may have it not going on with my university timings not to hang out with boys or any other task that. I decide to be more social but I end up am alone. Now when I am telling you I feel better, otherwise I feel there was something going wrong with me. How do you see it? حضرت I had few dreams, but I didn’t tell you. I quite often remember that and I am narrating it now. I had in dream that there was gray snake with two heads that fallen upon us at home when it was entering to the main door. I gathered the courage and closed the door while reciting fourth کلمہ. In dream, I told my sister that I got rid of that snake. She said, yes I know that you would have recited forth کلمہ. A few days later, I saw a huge yellow snake trying to enter through the door to our house. I very easily cut the head and got rid of it, and I was not even afraid but I knew that I did something big. After the death of my father I saw I am saying that I was about to die for I saw حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ. Than my life was threatented. حضرت can you please suggest me books about how to become a better Muslim woman? I heard a lot that we should follow the life model of great Muslim women but I don’t know for what exactly that great women do to achieve that greatness? Will you please suggest some books and resources? حضرت I bought some books from خانقاہ recently to understand the actual concepts about تصوف and سلوک etc. حضرت, can you please suggest some books بیانات or resources about how to deal with human in Islamic way? Perhaps I mean to say something is about حسن اخلاق. How to do we learn حسن اخلاق?
حضرت، I am a psychologist. I have learned few things about humans but I believe that all the knowledge in words is in parts. it's only اسلام that shows you the whole picture. Please guide me. Please forgive me if it bothers you, or ever bothered you by any means.
جواب:
سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ یہ آپ کو غلط فہمی تھی جس کی وجہ سے آپ مجھ سے بات کرتے ہوئے ڈرتی تھیں، کیونکہ جب آپ نے اصلاحی تعلق قائم کر لیا تو اصلاحی تعلق کے لئے اطلاع ضروری ہوتی ہے۔ پہلے اطلاع ہوتی ہے پھر اتباع ہوتی ہے۔ کیونکہ اطلاع سے شیخ کو پتا چلتا ہے کہ آپ کے مسائل کیا ہیں۔ اور پھر جو کچھ آپ کو بتایا جائے اتباع میں آپ کو اسی طرح کرنا ہوتا ہے۔ اور تیسری چیز یہ سمجھنا ہے کہ میرا شیخ میرے لئے اس مقصد میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ مفید ہے۔ اور پھر ایک ہی شیخ پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے بار بار شیخ تبدیل نہیں کیا جاتا۔ ان چار باتوں کو ایک بزرگ نے شعر میں بیان کیا ہے ؎
چار حق مرشد کے ہیں رکھ ان کو یاد
اطلاع و اتباع و اعتقاد و انقیاد
لہذا آپ کو اس میں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے اپنی بات بہت اچھے طریقے سے پیش کی ہے، آئندہ بھی اسی طرح پیش کیا کریں۔ مسلسل رابطہ رکھنے سے آپ کو اتنا لمبا مضمون نہیں لکھنا پڑے گا کیونکہ جب آپ بار بار وقت پہ پوچھا کریں گی تو اتنا لمبا مضمون نہیں بنے گا۔ لمبے مضمون سے مسائل ہوتے ہیں، کیونکہ ایک ہی نشست میں ساری چیزیں پوچھنا مناسب نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہمارے بزرگوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے ان تمام عیوب کو ایک کاغذ لکھ لیتے ہیں جو ان کو نظر آتے ہیں اور پھر ان کو اپنے شیخ کے پاس بھیج دیتے ہیں، پھر شیخ کا کام ہوتا ہے کہ وہ ایک ایک عیب کو لے اور اس کا علاج بتائے۔ جب ایک عیب ٹھیک ہو جائے تو پھر دوسرے کو لے۔ اسی کو سلوک طے کرنا کہتے ہیں اور یہ بنیادی بات ہے۔ جہاں تک آپ نے کتابوں کی بات کی ہے تو کتابیں تو بہت ساری ہیں لیکن آپ کو سب سے زیادہ فائدہ شیخ کی کتابوں سے ہی پہنچے گا، کیونکہ سب سے پہلے آپ نے شیخ کو سمجھنا ہے جب آپ شیخ کو سمجھ لیں گی تو پھر آپ ان کی بات کو بھی سمجھ لیں گی، اس کے بعد آپ کو ان کی باتوں سے صحیح راہنمائی بھی ملے گی۔ لہذا پہلے شیخ کی کتابیں پڑھنی چاہئیں۔ یہی سب سے بہتر طریقہ ہوتا ہے، ادھر ادھر کی کتابیں بے شک کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں لیکن وہ آپ کے ساتھ براہ راست متعلق نہیں ہیں لہذا ان سے آپ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اس لئے پہلے آپ ’’تصوف کا خلاصہ‘‘ اور ’’زبدۃ التصوف‘‘ پڑھ لیجئے گا۔ اور تصوف کے بنیادی مفاہیم کو سمجھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ پر ’’فہم التصوف‘‘ کتاب بھی موجود ہے، وہ بھی آپ پڑھ سکتی ہیں۔ ایک کتاب ’’مکائد الشیطان‘‘ موجود ہے، اس کو بھی آپ پڑھ سکتی ہیں۔ اسی طرح ہماری ویب سائٹ کے اوپر خواتین کے لئے ہمارے جو بیانات ہیں وہ بھی آپ کے لئے خصوصی طور پر اہم ہیں۔ لہذا خواتین کو کئے گئے بیانات آپ باری باری سن لیجئے گا، ہفتہ میں کم از کم ایک بیان سن لیا کریں۔ اس سے ان شاء اللہ اس کے بنیادی مفاہیم آپ کے لئے واضح ہو جائیں گے تو پھر آپ کے لئے بات سمجھنا بہت آسان ہو جائے گا۔ آپ چونکہ ماہرِ نفسیات ہیں لہذا بہت ساری باتیں زیادہ آسانی کے ساتھ آپ کی سمجھ میں آئیں گی کیونکہ تصوف کے اندر معالج اور مریض والا تعلق زیادہ نمایاں ہے بمقابلہ استاد و شاگرد کے۔ استاد و شاگرد والا طریقہ کسی کسی کے لئے مفید ہوتا ہے لیکن معالج اور مریض والا طریقہ ہر ایک کے لئے مفید ہوتا ہے۔ اور psychiatry میں بھی مریض اور ڈاکٹر میں تعلق اور رابطہ ہی کار آمد اور مفید طریقہ ہوتا ہے۔ اس طرح عمل کرنے میں ان شاء اللہ العزیز آپ بہت ساری چیزیں آسانی کے ساتھ سمجھ لیں گی۔ آئندہ کے لئے آپ ایک کام یہ کر لیں کہ جو وظائف آپ کو بتائے گئے ہیں وہ باقاعدگی کے ساتھ کیا کریں۔ اپنے معمولات کے چارٹ میں بھی آپ نے بہت ساری چیزیں کے متعلق پوچھا ہے کہ میں کیا کیا کروں۔ اس میں آپ ذرا اس میں نظر دوڑایئے کہ کون کون سے کام آپ فوری طور پہ عمل میں لا سکتی ہیں، پہلے ان کے متعلق پوچھ لیجئے گا جب ان کے بارے میں فیصلہ ہو جائے تو پھر اگلی بار دوسرے کسی عمل کے متعلق پوچھ سکتی ہیں۔ لیکن ایک بات کا خیال رکھنا ہے کہ فرائض میں اختیار نہیں ہے جیسے فرض نمازیں ہر حال میں پڑھنی ہیں انہیں چھوڑنے کا ہمیں اختیار نہیں ہے۔ لیکن نوافل کے اندر آپ کو اختیار ہے کہ پہلے کون سا اختیار کریں اور بعد میں کون سا۔ اسی طرح کتنی مقدار میں کریں اور کتنی مقدار میں نہ کریں۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ آپ شیخ کے ساتھ مشاورت میں رہیں، جس میں آپ پہلے تجویز بھیج سکتی ہیں اور پوچھ سکتی ہیں کہ فلاں عمل اگر شروع کرنا چاہوں تو آپ کا کیا حکم ہے؟ ان شاء اللہ اس طرح آسانی کے ساتھ آپ کا کام چل پڑے گا۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ محترم حضرت جی!
I have a question regarding women’s بیعت with the شیخ. I previously did بیعت with another شیخ. I recently due to many reasons I got confused about it. I want to ask only one main question here. My question is if a woman feels the need for تزکیہ تصوف for which she wants to do بیعت with the شیخ but her husband has a view that woman should not do بیعت with the شیخ without the permission of her husband because اصلاحی تعلق involves رابطہ with شیخ who is a non محرم and her husband is not comfortable with this رابطہ, should the wife than let go her of the need for تزکیہ through بیعت or simply look for other needs of اسلام?
If the husband doesn’t allow her to doبیعت would entering into بیعت would come under disobedience of the husband? I would be very grateful for your guidance. جزاک اللہ و السلام مع الاکرام
جواب:
آج کل کے دور میں جو خواتین اصلاحی تعلق کی طالب ہیں ان کی بڑی قدر کرنی چاہیے بالخصوص شوہر کو، کیونکہ اگر شیخ صحیح ہو تو اس خاتون کی جو تربیت ہو گی اس کا زیادہ تر فائدہ شوہر اور بچوں کو ملے گا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ شیخ سے رابطہ کم از کم شوہر کے لئے شفاف ہونا چاہیے، یعنی اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ کیا سوال کیا گیا ہے اور اس کا کیا جواب دیا گیا ہے تاکہ شوہر کو شک نہ ہو۔ کیونکہ یہ شریعت کا مطالبہ ہے، اس میں اگر شوہر اپنے نفس کی وجہ سے رکاوٹ ڈالے گا باوجود اس کے کہ شیخ صحیح ہو اور رابطہ بھی شفاف ہو تو پھر بھی بہرحال شوہر کی بات ہی مانی جائے گی۔ لیکن اس رکاوٹ ڈالنے کا جو نقصان ہو گا اس کا ذمہ دار بھی وہی ہو گا۔ کیونکہ جب اس نے روکا ہے تو نقصان کا ذمہ دار بھی وہی ہے۔ آخر جب وہ بیمار ہو جاتی ہے تو کیا یہی شوہر اس کو نا محرم ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جاتا؟ اور اگر رکاوٹ ڈالنے والا شوہر پردے کا پابند ھی نہ ہو، عام طور پر کوئی خیال نہ کرتا ہو، دکان پر جانے سے بھی منع نہ کرتا ہو، صرف شیخ سے رابطہ رکھنے میں رکاوٹ ڈالتا ہے تو پھر بات واضح ہے کہ وہ صرف اس نظام کا مخالف ہے۔
البتہ ہمارے بزرگوں کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ شیخ سے بھی ایسا پردہ ہونا چاہیے جیسے کسی بھی غیر محرم سے ضروری ہے، اور بات چیت کی بھی بس اتنی ہی گنجائش ہے جتنی استاد اور ڈاکٹر سے بات کرنے کی ہے۔ و اللہ اعلم بالصواب۔ دعاؤں میں یاد رکھیں۔
اصل میں یہ ایک شیطانی دھوکہ ہے کہ انسان باقی چیزوں میں بڑا مطمئن ہوتا ہے مگر شیخ سے رابطے کے حوالے سے بہت سخت ہو جاتا ہے۔ یہ عجیب صورتحال ہے۔ کیونکہ شیخ اگر صحیح ہے تو وہ متقی ہوگا، تو جو متقی اور پردہ کرنے والا ہے اس سے آپ منع کرتے ہیں اور جو متقی نہیں ہے پردہ نہیں کرتا وہاں آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ مثلاً لوگ اپنے گھر والوں کو ڈاکٹرز کے پاس لے جاتے ہیں اور اکثر ڈاکٹر غیر متقی ہوتے ہیں لیکن وہاں وہ اجازت دے دیتے ہیں، یہ عجیب سوچ ہے۔
بہر حال میں نے اصولی جواب دیا ہے کہ شوہر کی بات ہی مانی جائے گی لیکن اگر اس سے کچھ نقصان ہوتا ہے تو عند اللہ جواب دہ بھی وہی ہو گا۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کی جلد اول سے کچھ ملفوظات پیشِ خدمت ہیں، ان کی تشریح فرما دیں۔
ایک اصطلاح ہے کہ عالم دو ہیں عالمِ امر یعنی مجردات اور عالمِ خلق یعنی مادیات۔ اس اصطلاح کی بنا پر جاہل صوفیاء نے ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ﴾ (الإسراء: 85) کی یہ تفسیر کر لی کہ روح عالمِ امر سے ہے یعنی مجرّد ہے، لہذا اس کا تجرّد قرآن سے ثابت ہے۔ مگر یہ استدلال محض لغو ہے کیونکہ اصطلاح خود مقرر کی اور پھر قرآن کو اس کا تابع بنایا، ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ﴾ سے مقصود صرف یہ ہے کہ تم روح کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے، بس اتنا سمجھ لو کہ روح اللہ تعالیٰ کے امر سے پیدا ہوئی، بس اس سے آگے کسی تفسیر کا دعویٰ محض من گھڑت ہے۔ افعال اکثر روح کی طرف سے ہوتے ہیں اور انفعالات نفس کی طرف سے۔ اس طریق میں افعال مقصود ہوتے ہیں انفعالات نہیں۔
آج کل لوگ وظائف کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اصل چیز یعنی دعا کو اختیار نہیں کرتے۔ وظائف کے پڑھنے سے قلب میں ایک دعویٰ کی شان پیدا ہوتی ہے کہ ہم ایک تدبیر کر رہے ہیں بس ثمرہ ہمارے قابو میں ہو۔ اور دعا سے شانِ عبدیت کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہیں وہ چاہیں گے تو دیں گے۔ تو بس دعا بڑی چیز ہے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ دعا میں کسی خاص دعا کا تعین نہ کریں اس سے خشوع جاتا رہتا ہے۔
جواب:
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس پہ بڑی تفصیل سے کلام کیا ہے۔ حضرت نے روح کی تین قسمیں بتائی ہیں اور پھر روح کا کچھ حصہ عالمِ امر سے تعلق رکھتا ہے اور کچھ عالمِ خلق سے تعلق رکھتا ہے اور اس میں بڑی تفصیلات ہیں۔ وہ تفصیلات تو اس تھوڑے وقت میں نہیں بیان کر سکتا۔ اس کے لئے آپ اس باب کو ذرا پورا پڑھ لیں۔ اس میں حضرت نے روح کے جو اجزاء بتائے ہیں ان میں کچھ یہاں سے تعلق رکھتے ہیں اور کچھ وہاں سے تعلق رکھتی ہیں۔ لہذا حضرت نے اس کا بھی جواب دیا ہے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ﴾ (الإسراء: 85) کی روشنی میں جو حضرات فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کو روح کے متعلق زیادہ علم نہیں دیا گیا، در اصل یہ یہودیوں کو جواب دیا گیا تھا کیونکہ یہودی علماء نے پوچھا تھا تو اس کے جواب میں یہ فرمایا گیا تھا۔ لہذا اس میں کوئی تعارض نہیں ہے بلکہ اس میں تقسیم ہے، کیونکہ روح کا تعلق اِدھر بھی ہے اور اُدھر بھی ہے، لہذا کسی نے یہاں والا حصہ مراد لے لیا اور کسی نے وہاں والا حصہ مراد لے لیا۔ لیکن شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بڑی مفصل تشریح کی ہے۔ لہذا اس کے ہوتے ہوئے ہم زیادہ باتوں میں نہیں جاتے۔
یہ جو حضرت نے فرمایا کہ افعال اکثر روح کی طرف سے ہوتے ہیں اور انفعالات نفس کی طرف سے۔ یہ حضرت نے بہت اچھا نکتہ بیان فرمایا ہے۔ انفعال کا معنیٰ ہے اثر لینا۔ مثلاً روح جو عمل کرتی ہے انسان کا وہ عمل محفوظ ہو جاتا ہے۔ جب کہ انفعالیت پہلے سے موجود ہوتی ہے وہ انسان کا عمل نہیں ہوتا۔ جیسے خواتین میں چونکہ انفعالیت زیادہ ہوتی ہے تو وہ جو زیادہ اثر لیتی ہیں اس کا ان کو فائدہ نہیں ملتا۔ کیونکہ انفعالیت کو کنڑول بھی کرنا پڑتا ہے اس لئے کہ اگر زیادہ اثر لے لیا تو وہ غلط چیزوں کی طرف بھی جا سکتی ہے، لہذا اس میں توازن رکھنا ہوتا ہے کہ جو غلط چیزوں کی طرف جائے اسے روک دیا جائے اور جو اچھی چیزوں کی طرف جائے اسے جانے دیا جائے۔ چنانچہ انفعالیت نفس کی طرف ہے، جب کہ افعال کا تعلق روح کے ساتھ ہے۔ کیونکہ انسان کے روحانی مقام کے مطابق ہی اس سے اعمال صادر ہوتے ہیں۔ اور نفس پر قابو پانا روح کا کام ہے۔
آگے حضرت نے بہت زبردست بات بیان فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ حضرت کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ حضرت نے فرمایا کہ آج کل لوگ وظائف کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اصل چیز یعنی دعا کو اختیار نہیں کرتے، وظائف کے پڑھنے سے قلب میں ایک دعویٰ کی شان پیدا ہوتی ہے کہ ہم ایک تدبیر کر رہے ہیں بس ثمر ہمارے قابو میں ہو اور دعا سے شانِ عبدیت کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہیں وہ چاہیں گے تو دیں گے۔ تو بس دعا بڑی چیز ہے۔
میں بھی اکثر اسی لئے کہا کرتا ہوں کہ تہجد کے بعد آپ اللہ تعالیٰ سے مانگا کریں۔کیونکہ دعا میں یہ چیزیں موجود ہیں۔ ہم جو کچھ مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ان سارے کاموں کو کر سکتے ہیں۔ وظیفے میں یہ ہوتا ہے کہ اس میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ شاید میں نے یہ وظیفہ کر لیا تو نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ اللہ پاک ضرور میرا کام کرے گا۔ لہذا اس میں مجبوری والا پہلو آ جاتا ہے۔ جب کہ وظیفہ کرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ ہی کو اختیار ہے کرے یا نہ کرے۔ لیکن دعا میں مانگی گئی چیز اگر نہ بھی ملے تو بھی دعا ضائع نہیں جاتی کیونکہ دعا کی قبولیت کی کئی صورتیں ہیں، کبھی اللہ پاک آخرت میں اجر دے دیتے ہیں، کبھی دنیا میں آپ کی مانگی گئی چیز دے دیتے ہیں اور کبھی کوئی مصیبت ٹال دیتے ہیں۔ اس لئے دعا میں آپ کے ایمان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ جب کہ وظیفے میں اگر کام نہیں ہوتا تو پھر مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔ اول تو اس میں انسان کا یقین ہی غلط ہوتا ہے کہ وظیفے میں اللہ تعالیٰ گویا مجبور ہو جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وظیفے کے بعد اگر آپ کا کام نہ ہو تو پورے نظام کے اوپر بے یقینی ہو جاتی ہے اور یہ بھی غلط چیز ہے۔ لہذا وظائف کے پیچھے پڑنے کے بارے میں ہمارا تجربہ یہی ہے کہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم وظائف دیتے ہی نہیں، زیادہ تر ہم دعا کا بتاتے ہیں، دعا کرتے بھی ہیں اور دعا کرنے کا بتاتے بھی ہیں۔ یہ تو حضرت نے گویا ہمارے دل کی بات فرمائی ہے۔
فقہاء نے لکھا ہے کہ دعا میں کسی خاص دعا کا تعین نہ کریں اس سے خشوع جاتا رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دعا میں آپ اللہ جل شانہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو آپ کے سارے حالات کا علم ہے۔ اصل میں تو یہ مقصود ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی پیش کریں۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار تھے اور فریاد کر رہے تھے تو کسی نے کہا کہ حضرت آپ بھی بے صبری کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: کیا میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پہلوان بن جاؤں؟
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ